آیت:
تفسیر سورۂ ممتحنہ
تفسیر سورۂ ممتحنہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 9 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (1) إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (2) لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (3) قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (5) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (6) عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (7) لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (9)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست، تم پیغام بھیجتے ہو ان کی طرف دوستی کا حالانکہ انھوں نے کفر کیا ہے ساتھ اس چیز کے جو آیا ہے تمھارے پاس حق، وہ نکالتے ہیں رسول کو اور خود تمھیں بھی اس لیے کہ تم ایمان لاتے ہو اللہ ( یعنی ) اپنے رب پر (نہ دوست بناؤ) اگر ہو تم نکلتے جہاد کے لیے میرے راستے میں اور تلاش کرنے کے لیے میری رضامندی تم پوشیدہ پیغام بھیجتے ہو ان کی طرف دوستی کا؟ اور میں خوب جانتا ہوں اس چیز کو جو تم چھپاتے ہو اور اس چیز کو جو تم ظاہر کرتے ہو، اور جو کوئی کرے یہ کام تم میں سے تو یقیناً وہ گمراہ ہو گیا سیدھی راہ سے(1) اگر وہ پائیں تم کو تو ہو جائیں وہ واسطے تمھارے دشمن، اور دراز کریں تمھاری طرف اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں ساتھ برائی کے، اور وہ پسند کریں کاش کہ تم بھی کفر کرو(2) ہرگز نہیں نفع دیں گے تمھیں تمھارے رشتے ناتے اور نہ تمھاری اولاد دن قیامت کے وہ فیصلہ کرےگا تمھارے درمیان (اس میں) اور اللہ، ساتھ اس کےجو تم عمل کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے(3) تحقیق ہے تمھارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کےساتھ تھے، جب انھوں نے کہا تھا اپنی قوم سے، بلاشبہ ہم بری ہیں تم سے اور ان سے جن کی تم عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے، کفر کیا ہم نے ساتھ تمھارے اور ظاہر ہو گئی ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان عداوت اور بغض ہمیشہ کے لیے یہاں تک کہ ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اکیلے کے ،مگر کہنا ابراہیم کا اپنے باپ سے کہ ضرور مغفرت طلب کروں گا میں تیرے لیے اور نہیں اختیار رکھتا میں تیرے لیے اللہ سے کسی چیز کا بھی، اے ہمارے رب!تجھی پر توکل کیا ہم نے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہم نے اور تیری ہی طرف (ہمارا) لوٹنا ہے(4) اے ہمارے رب! نہ بنا تو ہمیں فتنہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا اور بخش دے ہمیں اے ہمارے رب! بلاشبہ تو ہی ہے بڑا زبردست، خوب حکمت والا(5) البتہ تحقیق ہے تمھارے لیے ان میں نمونہ بہترین اس شخص کے لیے جو ہو امید رکھتا اللہ (سے ملاقات) کی اور یوم آخرت کی اور جو کوئی رو گردانی کرے تو بلاشبہ اللہ ہی ہے بے پروا قابل تعریف(6) امید ہے کہ اللہ، یہ کہ (پیدا) کر دے وہ درمیان تمھارے اور درمیان ان لوگوں کے کہ عداوت رکھتے ہو تم ان سے، دوستی اور اللہ خوب قدرت والا ہے اور اللہ غفور رحیم ہے(7) نہیں روکتا تمھیں اللہ ان لوگوں سے جو نہیں لڑے تم سے دین کی بابت اور نہیں نکالا انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے ،اس بات سے کہ تم حسن سلوک کرو ان سے اور انصاف کرو تم ان کے حق میں بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو(8)یقیناً روکتا ہے تمھیں اللہ ان لوگوں سے جو لڑے تم سے دین کی بابت، اور انھوں نے نکالا تمھیں تمھارے گھروں سے اور انھوں نے مدد کی تمھارے نکالنے میں، اس بات سے کہ تم دوستی کرو ان سے، اور جو کوئی دوستی کرے ان سے تو وہی لوگ ظالم ہیں(9)
بہت سے مفسرینs نے ذکر کیا ہے کہ ان آیات کریمہ کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہt کا قصہ ہے، جب رسول اللہe نے غزوۂ فتحِ مکہ کیا تو حاطب بن ابی بلتعہt نے مکہ کے مشرکین کو خط لکھا اور انھیں رسول اللہe کی روانگی کی اطلاع دے دی۔ یہ اطلاع شک اور نفاق کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مشرکین پر ایک احسان كرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے سے روانہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ٔاکرمe کو تمام معاملے سے آگاہ کر دیا۔ رسول اللہe نے اس عورت کے مکہ پہنچنے سے پہلے پہلے اس کی طرف آدمیوں کو بھیجا اور اس سے وہ خط برآمد کرالیا۔ آپ نے حاطبt پر عتاب فرمایا، حاطبt نے ایسا عذر پیش کیا جسے نبی ٔکریم e نے قبول فرما لیا۔ان آیات کریمہ میں کفار ومشرکین وغیرہ سے موالات اور مودت رکھنے کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ موالات و مودت ایمان اور ملت ابراہیمu کے منافی اور عقل کے خلاف ہے جو ایسے دشمن سے پوری طرح سے بچنے کو واجب قرار دیتی ہے جو اپنی دشمنی میں جہد و کوشش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا اور اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
#
{1} فقال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}؛ أي: اعملوا بمقتضى إيمانكم من ولايةِ مَنْ قام بالإيمان ومعاداة من عاداه؛ فإنَّه عدوٌّ لله وعدوٌّ للمؤمنين، فـ {لا تتَّخذوا عدوِّي وعدوَّكم أولياءَ تُلْقون إليهم بالمودَّة}؛ أي: تسارعون في مودَّتهم والسعي في أسبابها؛ فإنَّ المودَّة إذا حصلت؛ تبعتْها النصرةُ والموالاةُ، فخرج العبد من الإيمان، وصار من جملة أهل الكفران [وانفصل عن أهل الإيمان]. وهذا المتَّخذُ للكافر وليًّا عادمُ المروءة أيضاً؛ فإنَّه كيف يوالي أعدى أعدائه، الذي لا يريد له إلاَّ الشرَّ، ويخالف ربَّه ووليَّه الذي يريد به الخير، ويأمره به ويحثُّه عليه. ومما يدعو المؤمن أيضاً إلى معاداة الكفار أنَّهم قد كفروا بما جاء المؤمنين من الحقِّ، ولا أعظم من هذه المخالفة والمشاقَّة؛ فإنَّهم قد كفروا بأصل دينكم، وزعموا أنَّكم ضلاَّلٌ على غير هدىً، والحالُ أنَّهم كفروا بالحقِّ الذي لا شكَّ فيه ولا مريةَ، ومن ردَّ الحقَّ؛ فمحالٌ أن يوجد له دليلٌ أو حجَّةٌ تدلُّ على صحة قوله. بل مجرَّد العلم بالحقِّ يدلُّ على بطلان قول من ردَّه وفساده. ومن عداوتهم البليغة أنَّهم {يُخْرِجون الرسولَ وإيَّاكم}: أيُّها المؤمنون من دياركم ويشرِّدونكم من أوطانكم ولا ذنبَ لكم في ذلك عندهم إلاَّ أنكم تؤمنون {بالله ربِّكم}: الذي يتعيَّن على الخلق كلِّهم القيام بعبوديَّته؛ لأنَّه ربَّاهم، وأنعم عليهم بالنِّعم الظاهرة والباطنة [وهو اللَّه تعالى]، فلمَّا أعرضوا عن هذا الأمر الذي هو أوجبُ الواجبات وقمتُم به؛ عادَوْكم وأخرجوكم من أجله من دياركم، فأيُّ دين وأيُّ مروءة وعقل يبقى مع العبد إذا والى الكفار الذين هذا وصفُهم في كلِّ زمانٍ أو مكان، ولا يمنعهم منه إلاَّ خوفٌ أو مانعٌ قويٌّ. {إن كنتُم خرجتُم جهاداً في سبيلي وابتغاء مرضاتي}؛ أي: إن كان خروجُكم مقصودُكم به الجهادُ في سبيل الله لإعلاء كلمة الله وابتغاء رضاه؛ فاعملوا بمقتضى هذا من موالاة أولياء الله ومعاداة أعدائهِ؛ فإنَّ هذا من أعظم الجهاد في سبيله، ومن أعظم ما يتقرَّب به المتقرِّبون إلى الله ويبتغون به رضاه. {تُسِرُّون إليهم بالمودَّةِ وأنا أعلمُ بما أخفيتُم وما أعلنتُم}؛ أي: كيف تسرُّون المودَّة للكافرين وتخفونها مع علمكم أنَّ الله عالمٌ بما تخفون وما تعلنون؛ فهو وإن خفي على المؤمنين؛ فلا يخفى على الله تعالى، وسيجازي العباد بما يعلمه منهم من الخير والشرِّ. {ومن يَفْعَلْه منكم}؛ أي: موالاة الكافرين بعدما حذَّركم الله منها، {فقد ضلَّ سواءَ السبيل}: لأنَّه سلك مسلكاً مخالفاً للشرع وللعقل والمروءة الإنسانيَّة.
[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اے ایمان والو!‘‘ یعنی اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ جو ایمان لائے اس کے ساتھ موالات و مودت رکھو، جو ایمان کے ساتھ عداوت رکھے، تم اس کے ساتھ عداوت رکھو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن اور اہل ایمان کا دشمن ہے، لہٰذا ﴿ لَا تَتَّؔخِذُوْا عَدُوِّیْ ﴾ نہ بناؤ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن کو ﴿وَعَدُوَّؔكُمْ اَوْلِیَآءَؔ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ ’’اور اپنے دشمنوں کو دوست۔ تم انھیں دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔‘‘ یعنی تم ان کی محبت و مودت اور اس کے اسباب کے حصول کی کوشش میں جلدی مچاتے ہو۔ جب مودت حاصل ہو جاتی ہے تو نصرت و موالات اس کے پیچھے آتی ہیں۔ تب بندہ ایمان کے دائرے سے نکل کر اہل کفر ان کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔کافر کو دوست بنانے والا یہ شخص مروت سے بھی محروم ہے، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے کیوں کر موالات رکھتا ہے جو اس کے بارے میں صرف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی کیوں کر مخالفت کرتا ہے جو اس کے بارے میں صرف بھلائی چاہتا ہے، اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے؟ مومن کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی طرف یہ چیز بھی دعوت دیتی ہے کہ انھوں نے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا جو مومنوں کے پاس آیا تھا۔ اس مخالفت اور دشمنی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں، انھوں نے تمھارے اصل دین کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ تم گمراہ ہو، ہدایت پر نہیں ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ انھوں نے حق کا انکار کیا جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور جو کوئی حق کو ٹھکراتا ہے تو یہ امر محال ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت پائی جائے جو اس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہو بلکہ حق کا مجرد علم ہی اس شخص کے قول کے بطلان اور فساد پر دلالت کرتا ہے جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ یہ ان کی انتہا کو پہنچتی ہوئی عداوت ہے کہ ﴿ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ﴾ اے مومنو! وہ رسول کو اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالتے ہیں اور تمھیں جلا وطن کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس بارے میں تمھارا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ ﴿ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ﴾ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو جس کی عبودیت کو قائم کرنا تمام مخلوق پر فرض ہے کیونکہ اسی نے ان کی پرورش کی اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا ۔جب انھوں نے اس کام سے منہ موڑ لیا جو سب سے بڑا فرض تھا اور تم نے اس کو قائم کیا تو وہ تمھارے ساتھ دشمنی پر اتر آئے اور اس بنا پر انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے نکال دیا۔تب کون سا دین، کون سی مروت اور کون سی عقل بندے کے پاس باقی رہ جاتی ہے، اگر پھر بھی وہ کفار کے ساتھ موالات رکھے، جن کا ہر زمان و مکان میں یہی وصف ہے، ان کو خوف یا کسی طاقتور مانع کے سوا کسی چیز نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَؔ مَرْضَاتِیْ﴾ یعنی اگر تمھارا گھروں سے نکلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کی رضا کی طلب کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہے، تو اس کے تقاضے کے مطابق اولیاء اللہ سے موالات اور اس کے دشمنوں سے عداوت رکھو، یہ اس کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور سب سے بڑا وسیلہ ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اس کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ﴿ تُ٘سِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ١ۖ ۗ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَمَاۤ اَعْلَنْتُمْ﴾ یعنی تم کفار کے ساتھ مودت کو کیسے چھپاتے ہو حالانکہ تمھیں علم ہے کہ تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، تمھارا کفار کے ساتھ مودت و موالات رکھنا، اگرچہ اہل ایمان پر چھپا ہوا ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے، وہ عنقریب اپنے بندوں کو ان کے بارے میں اپنے علم کے مطابق نیکی اور بدی کی جزا و سزا دے گا۔ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ﴾ اور جو کوئی کفار سے موالات رکھے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس سے منع کیا ہے۔﴿ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ ’’تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘ کیونکہ وہ ایسے راستے پر چل پڑا جو شریعت، عقل اور مروت انسانی کے خلاف ہے۔
#
{2} ثم بيَّن تعالى شدَّة عداوتهم تهييجاً للمؤمنين على عداوتهم: {إن يَثْقَفوكم}؛ أي: يجدوكم وتسنح لهم الفرصة في أذاكم، {يكونوا لكم أعداءً}: ظاهرين، {ويَبْسُطوا إليكم أيدِيَهم}: بالقتل والضَّرب ونحو ذلك، {وألسنَتَهم بالسوءِ}؛ أي: بالقول الذي يسوء من شَتْمٍ وغيره، {وودُّوا لو تكفُرون}: فإنَّ هذا غاية ما يريدون منكم.
[2] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو کفار کی عداوت پر برانگیختہ کرنے کے لیے کفار کی شدت عداوت کا ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنْ یَّثْ٘قَفُوْؔكُمْ﴾ یعنی اگر وہ تمھیں پائیں اور تمھیں اذیت پہنچانے کا ان کو موقع ملے ﴿ یَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءًؔ ﴾ تو تمھارے کھلے دشمن ہو جائیں گے ﴿ وَّیَبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ﴾ اور قتل اور ضرب لگانے وغیرہ کے لیے تمھاری طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔ ﴿ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْٓءِ﴾ اور ایسی بات کہیں گے جو تکلیف دہ ہو گی، یعنی گالی وغیرہ۔ ﴿ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْ٘فُرُوْنَ﴾ اور وہ خواہش کریں گے کہ کاش تم کفر کرتے۔‘‘ اور یہی وہ غرض و غایت ہے جو وہ تم سے چاہتے ہیں۔
#
{3} فإن احتجَجْتُم وقلتُم: نوالي الكفار لأجل القرابة والأموال؛ فلن تغنيَ عنكم أَموالُكم ولا أولادُكم من الله شيئاً {والله بما تعملون بصيرٌ} فلذلك حذَّركم من موالاة الكافرين الذين تضرُّكم موالاتهم.
[3] اگر تم یہ دلیل دیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم قرابت داری اور اموال کی خاطر کفار سے موالات رکھتے ہیں تو ﴿ لَ٘نْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُؔكُمْ﴾ اللہ کے مقابلے میں تمھارے رشتے ناتے اور تمھاری اولاد کچھ کام نہیں آئے گی۔ ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمھیں کفار کی موالات سے بچنے کے لیے کہا ہے جن کی موالات تمھیں نقصان دے گی۔
#
{4} {قد} كان {لكم}: يا معشر المؤمنينَ، {أسوةٌ حسنةٌ}؛ أي: قدوةٌ صالحةٌ وائتمامٌ ينفعكم {في إبراهيم والذين معه}: من المؤمنين؛ لأنَّكم قد أمرتم أن تتَّبعوا ملَّة إبراهيم حنيفاً، {إذْ قالوا لقومهم إنا بُرءَاءُ منكم وممَّا تعبُدون من دونِ اللهِ}؛ أي: إذ تبرأ إبراهيم عليه السلام ومَنْ معه من المؤمنين من قومهم المشركين وممَّا يعبُدون من دون الله، ثم صرَّحوا بعداوتهم غاية التصريح، فقالوا: {كَفَرْنا بكم وبدا}؛ أي: ظهر وبان {بينَنا وبينَكم العداوةُ والبغضاءُ}؛ أي: البغض بالقلوب وزوال مودَّتها والعداوة بالأبدان. وليس لتلك العداوة والبغضاء وقتٌ ولا حدٌّ، بل ذلك {أبداً} ما دمتم مستمرِّين على كفركم، {حتى تؤمِنوا بالله وحدَه}؛ أي: فإذا آمنتم بالله وحده؛ زالت العداوةُ والبغضاءُ وانقلبتْ مودَّةً وولايةً؛ فلكم أيُّها المؤمنون أسوةٌ حسنةٌ في إبراهيم ومن معه في القيام بالإيمان والتوحيد ولوازم ذلك ومقتضياته وفي كلِّ شيءٍ تَعَبَّدُوا به لله وحده، {إلاَّ}: في خصلةٍ واحدةٍ، وهي: {قولَ إبراهيمَ لأبيه}: آزر المشرك الكافر المعاند حين دعاه إلى الإيمان والتوحيدِ، فامتنع، فقال إبراهيمُ له: {لأستغفرنَّ لك و}: الحال أني لا {أملِكُ لك من اللهِ من شيءٍ}: ولكنِّي أدعو ربِّي عسى أن لا أكونَ بدعاءِ ربِّي شقيًّا، فليس لكم أن تقتدوا بإبراهيم في هذه الحالة التي دعا بها للمشرك، فليس لكم أن تدعوا للمشركين وتقولوا: إنَّا في ذلك متَّبِعون لملَّة إبراهيم؛ فإنَّ الله ذَكَرَ عذرَ إبراهيم في ذلك بقوله: {وما كان استغفارُ إبراهيمَ لأبيهِ إلاَّ عن مَوْعِدَةٍ وَعَدَها إيَّاه فلمَّا تَبَيَّنَ له أنَّه عدوٌّ لله تبرَّأ منه ... } الآية، ولكم أسوةٌ حسنةٌ في إبراهيم ومن معه حين دَعَوُا الله وتوكَّلوا عليه وأنابوا إليه واعترفوا بالعجز والتقصير، فقالوا: {ربَّنا عليك توكَّلْنا}؛ أي: اعتمدنا عليك في جلب ما ينفعنا ودفع ما يضرُّنا ووثقنا بك يا ربَّنا في ذلك، {وإليك أنَبْنا}؛ أي: رجعنا إلى طاعتك ومرضاتك وجميع ما يقرِّبُ إليك؛ فنحن في ذلك ساعون، وبفعل الخيرات مجتهدون، ونعلم أنَّا إليك نصيرُ، فسنستعدُّ للقدوم عليك، ونعمل ما يزلفنا إليك.
[4] اے مومنوں کے گروہ! تمھارے لیے ﴿ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ اچھا نمونہ اور ایسی راہ نمائی ہے جو تمھیں فائدہ دے گی ﴿ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ﴾ ’’ابرہیم (u) میں اور ان کے (مومن) رفقاء میں ہے۔‘‘ تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم یکسو ہو کر ملت ابراہیم کی اتباع کرو۔ ﴿ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ یعنی جب حضرت ابراہیمu اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی مشرک قوم اور ان کے معبودوں سے براء ت کا اعلان کیا، جنھیں وہ(مشرک)اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ پھر پوری صراحت سے ان کے ساتھ اپنی عداوت کی تصریح کی ، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا﴾ ’’ہم تمھارا انکار کرتے ہیں اور ظاہر ہو گیا۔‘‘ یعنی پوری طرح ظاہر اور واضح ہو گیا کہ ﴿ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ﴾ ہمارے اور تمھارے درمیان دلوں کا بغض اور ابدان کی عداوت، دلوں میں سے مودت زائل ہو گئی اور اس بغض اور عداوت کے لیے کوئی وقت اور حد مقرر نہیں بلکہ یہ عداوت ﴿ اَبَدًا﴾ اس وقت تک ہمیشہ برقرار رہے گی جب تک کہ تم اپنے کفر پر قائم ہو ﴿ حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ﴾ یعنی جب تم اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ گے تو عداوت اور بغض زائل ہو جائے گا، عداوت مودت اور دوستی میں بدل جائے گی ۔پس اے مومنو! ایمان، توحید اور اس کے لوازم و مقتضیات کو قائم کرنے میں ابراہیم uاور ان کے اصحاب میں تمھارے لیے نمونہ ہے، ہر چیز میں اسی کو نمونہ بنا کر اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ﴿ اِلَّا﴾ سوائے ایک خصلت کے اور وہ ہے ﴿ قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ﴾ حضرت ابراہیمu کے اپنے مشرک، کافر اور معاندِ حق باپ کے بارے میں قول، جب آپ نے اپنے باپ کو ایمان اور توحید کی دعوت دی اور اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ نے اس سے کہا تھا : ﴿ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ﴾ ’’میں تیرے لیے مغفرت طلب کروں گا۔ اور حال یہ ہے کہ ‘‘ ﴿ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’میں اللہ کے سامنے تمھارے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ مگر میں اپنے رب سے دعا کرتا رہوں گا، ہو سکتا ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہ رہوں۔ اس حال میں تم ابراہیم (u) کی اقتدانہ کرو جس میں انھوں نے اپنے مشرک (باپ)کے لیے دعا کی تھی۔ تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم مشرکین کے لیے دعا کرو اور پھر کہو کہ ہم تو ملت ابراہیم کی پیروی کرنے والے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں ابراہیمu کا عذر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے: ﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰؔهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّ٘اهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰؔهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ﴾ (التوبۃ:9؍114) ’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا، صرف ایک وعدے کے سبب سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کر چکے تھے، جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو انھوں نے اس سے براء ت کا اظہار کر دیا بلاشبہ ابراہیم بہت نرم دل اور بردبار تھے۔‘‘ تمھارے لیے حضرت ابراہیمu اور ان کے اصحاب میں نمونہ اس وقت (کے طرز عمل میں)ہے جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا، اس پر بھروسہ کیا، اس کی طرف رجوع کیا اور اپنے عجز و تقصیر کا اعتراف کیا اور کہا :﴿ رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّؔلْنَا﴾ ایسے امور کے حصول میں جو ہمیں فائدہ دیتے ہیں ا ور ایسے امور کو دور کرنے میں، جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں، اے ہمارے رب! ہم تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ﴿ وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا﴾ یعنی ہم تیری اطاعت، تیری رضا، اور ان تمام امور کی طرف لوٹتے ہیں جو تیرا قرب عطا کرتے ہیں۔ نیک اعمال کے ذریعے سے اس قرب کے حصول میں کوشاں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے تیری طرف لوٹنا ہے، ہم تیری خدمت میں حاضر ہونے کے لیے تیاری کر رہے ہیں اور وہ اعمال سر انجام دے رہے ہیں جو تیرے قریب کرتے ہیں۔
#
{5} {ربَّنا لا تجعَلْنا فتنةً للذين كفروا}؛ أي: لا تسلِّطْهم علينا بذنوبنا، فيفتنونا، ويمنعونا مما يقدرون عليه من أمور الإيمان، ويفتتنون أيضاً بأنفسهم؛ فإنَّهم إذا رأوا لهم الغلبة؛ ظنُّوا أنَّهم على الحقِّ وأنَّا على الباطل، فازدادوا كفراً وطغياناً، {واغفِرْ لنا}: ما اقترفنا من الذُّنوب والسيئات وما قصَّرْنا به من المأمورات. {ربَّنا إنَّك أنت العزيز}: القاهر لكلِّ شيءٍ. {الحكيمُ}: الذي يضع الأشياء مواضعها؛ فبعزَّتك وحكمتك انصُرْنا على أعدائنا، واغفر لنا ذنوبنا، وأصلِحْ عيوبنا.
[5] ﴿ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ یعنی اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کے سبب سے تو کفار کو ہم پر مسلط نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں فتنے میں مبتلا کر دیں اور ہمیں ان امورِ ایمان سے روک دیں جن پر عمل کرنے پر ہم قادر ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بھی فتنے میں مبتلا کریں گے کیونکہ جب وہ دیکھیں گے کہ انھیں غلبہ حاصل ہے تو سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور ہم باطل پر ہیں اس طرح وہ کفر اور سرکشی میں اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ﴿ وَاغْ٘فِرْ لَنَا﴾ ہم نے جن گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب کیا ہے اور مامورات کی تعمیل میں ہم سے جو تقصیر سرزد ہوئی ہے، وہ ہمیں معاف کر دے۔ ﴿ رَبَّنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’اے ہمارے رب! بے شک تو ہر چیز پر غالب ہے۔‘‘ ﴿الْحَكِیْمُ﴾ جو تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے، پس اپنی عزت و غلبے اور اپنی حکمت کے وسیلے سےہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما، ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے عیوب کی اصلاح کر۔
#
{6} ثم كرَّر الحثَّ لهم على الاقتداء بهم وقال: {لقد كان لكم فيهم أسوةٌ حسنةٌ}: وليس كلُّ أحدٍ تسهُلُ عليه هذه الأسوة، وإنما تسهل على من {كان يرجو اللهَ واليومَ الآخرَ}: فإنَّ الإيمان واحتساب الأجر والثواب يسهِّل على العبد كلَّ عسير، ويقلِّل لديه كلَّ كثير، ويوجِبُ له [الإكثار مِن] الاقتداء بعباد الله الصالحين والأنبياء والمرسلين؛ فإنَّه يرى نفسه مفتقراً [و] مضطرًّا إلى ذلك غاية الاضطرار، {ومن يتولَّ}: عن طاعة الله والتأسِّي برسل الله؛ فلن يضرَّ إلاَّ نفسه، ولا يضرُّ الله شيئاً، {فإنَّ الله هو الغنيُّ}: الذي له الغنى التامُّ المطلقُ من جميع الوجوه؛ فلا يحتاج إلى أحدٍ من خلقه بوجه. {الحميدُ}: في ذاته [وأسمائه] وصفاته وأفعاله؛ فإنَّه محمود على ذلك كله.
[6] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوبارہ حضرت ابراہیمu اور ان کے اصحاب کی پیروی کی ترغیب دی اور فرمایا: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ ’’تحقیق تمھارے لیے انھی لوگوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔‘‘ اور ہر شخص کے لیے اس نمونہ کی پیروی کرنا آسان نہیں، یہ صرف اسی شخص کے لیے آسان ہے ﴿ لِّ٘مَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ﴾ ’’جو اللہ (سے ملنے) اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو۔‘‘ کیونکہ ایمان اور اجر و ثواب کی امید، بندے کے لیے ہر مشکل کام کو آسان اور ہر کثیر کو اس کے سامنے قلیل کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور انبیاء و مرسلین کی اقتدا کی موجب بنتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس کا بے انتہا محتاج اور ضرورت مند سمجھتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور انبیاء و مرسلین کی اقتدا سے منہ موڑتا ہے، وہ خود اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں دیتا اور وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ ﴾ ’’بے شک اللہ ہی بے پروا ہے۔‘‘ جو ہر لحاظ سے غنائے مطلق کا مالک ہے اور کسی بھی پہلو سے وہ مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں۔ ﴿ الْحَمِیْدُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں قابل ستائش ہے اور ان تمام امور میں اس کی ستائش کی جاتی ہے۔
#
{7} ثم أخبر تعالى أنَّ هذه العداوة التي أمَرَ [اللَّهُ] بها المؤمنين للمشركين ووصفهم بالقيام بها؛ أنَّهم ما داموا على شركهم وكفرهم، وأنَّهم إن انتقلوا إلى الإيمان؛ فإنَّ الحكم يدور مع علته، والمودَّة الإيمانيَّة ترجع؛ فلا تيأسوا أيُّها المؤمنون من رجوعهم إلى الإيمان؛ {فعسى اللهُ أن يجعلَ بينكم وبين الذين عادَيْتُم منهم مودةً}: سببها رجوعهم إلى الإيمان. {والله قديرٌ}: على كلِّ شيءٍ، ومن ذلك هداية القلوب وتقليبها من حال إلى حال. {والله غفورٌ رحيمٌ}: لا يتعاظمُهُ ذنبٌ أن يغفِرَه ولا [يكبر عليه] عيبٌ أن يستُرَه، {قلْ يا عبادي الذين أسْرَفوا على أنفسِهِم لا تَقْنَطوا من رحمةِ الله إنَّ اللهَ يغفرُ الذُّنوب جميعاً إنَّه هو الغفورُ الرحيمُ}. وفي هذه الآية إشارةٌ وبشارةٌ بإسلام بعض المشركين، الذين كانوا إذ ذاك أعداء للمؤمنين، وقد وقع ذلك، ولله الحمد والمنة.
[7] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عداوت جس کے بارے میں اس نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ مشرکین کے ساتھ رکھیں، اور اہل ایمان کو اس وصف سے موصوف کیا کہ جب تک مشرکین اپنے شرک اور کفر پر قائم ہیں، وہ ان کی دشمنی پر قائم ہیں اور اگر مشرکین دائرہ ایمان سے منتقل ہو جائیں گے تو حکم بھی اپنی علت کے مطابق ہو گا اور مودت ایمانی لوٹ آئے گی۔پس اے مومنو! تم ان کے ایمان کی طرف لوٹنے سے مایوس نہ ہو جاؤ ﴿ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّؔنْهُمْ مَّوَدَّةً﴾ ’’عجب نہیں کہ اللہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم عداوت کرتے ہو، دوستی پیدا کرے۔‘‘ اور اس کا سبب ان کا ایمان کی طرف لوٹنا ہے﴿ وَاللّٰهُ قَدِیْرٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دلوں کو ہدایت سے بہرہ ور کرنا اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں بدلنا اس کی قدرت کے تحت ہے ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ﴾ اس کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں کہ وہ اسے بخش نہ سکے اور کوئی عیب بڑا نہیں کہ وہ اسے ڈھانپ نہ سکے۔ ﴿ قُ٘لْ یٰؔعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر:39؍53) ’’(اے نبی!) ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بعض کفار کے اسلام لانے کی طرف اشارہ اور اس کی بشارت ہے جو اس وقت کافر اور اہل ایمان کے دشمن تھے۔ اور یہ بشارت پوری ہوئی۔وَلِلہِ الْحَمْدُ .
#
{8} ولمَّا نزلت هذه الآيات الكريمات المهيِّجةُ على عداوة الكافرين؛ وقعتْ من المؤمنين كلَّ موقع، وقاموا بها أتمَّ القيام، وتَأثَّموا من صِلَةِ بعض أقاربهم المشركين، وظنُّوا أنَّ ذلك داخل فيما نهى الله عنه، فأخبرهم الله أن ذلك لا يدخُلُ في المحرم، فقال: {لا ينهاكُمُ الله عن الذين لم يقاتِلوكم في الدِّينِ ولم يُخْرِجُوكم من دياركُم أن تَبَرُّوهم وتُقْسِطوا إليهم إنَّ الله يحبُّ المقسِطينَ}؛ أي: لا ينهاكم الله عن البرِّ والصِّلة والمكافأة بالمعروف والقسطِ للمشركين من أقاربكم وغيرهم؛ حيث كانوا بحالٍ لم ينتصبوا لقتالكم في الدين والإخراج من دياركم؛ فليس عليكم جناحٌ أن تَصِلوهم؛ فإنَّ صِلَتَهم في هذه الحالة لا محذورَ فيها ولا تَبِعَةَ ؛ كما قال تعالى في الأبوين الكافرين إذا كان ولدهما مسلماً: {وإن جاهَداك على أن تشرِكَ بي ما ليس لك به علمٌ فلا تُطِعْهما وصاحِبْهما في الدُّنيا معروفاً}.
[8] جب یہ آیات کریمہ جو کفار کے ساتھ عداوت پر ابھارتی تھیں، نازل ہوئیں تو اہل ایمان نے ان پر عمل کیا، انھوں نے ان آیات (کے تقاضوں) کو پوری طرح قائم کیا اور بعض مشرک قریبی رشتہ داروں سے تعلق کو گناہ تصور کیا اور سمجھا کہ یہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ صلہ رحمی اس موالات و مودت کے دائرے میں نہیں آتی جو حرام ٹھہرائی گئی ہے۔ ﴿ لَا یَنْهٰؔىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْؔكُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْؔكُمْ مِّنْ دِیَ٘ارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے مشرک عزیز و اقارب وغیرہ سے حسن سلوک، صلہ رحمی، ان کو معروف طریقے سے انصاف کے ساتھ بدلہ دینے سے نہیں روکتا، مگر اس صورت میں کہ انھوں نے دین کے معاملے میں تمھارے ساتھ جنگ کی ہو نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہو۔ اس لیے تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہو، کیونکہ ان حالات میں صلہ رحمی ممنوع نہیں اور نہ ایسا کرنے میں کوئی تاوان ہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر والدین کے بارے میں، جبکہ ان کا بیٹا مسلمان ہو، فرمایا: ﴿ وَاِنْ جَاهَدٰؔكَ عَلٰۤى اَنْ تُ٘شْرِكَ بِیْ مَا لَ٘یْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾ (لقمان:31؍15) ’’اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہ۔‘‘
#
{9} وقوله: {إنَّما ينهاكُم اللهُ عن الذين قاتَلوكم في الدِّين}؛ أي: لأجل دينكم؛ عداوةً لدين الله ولِمَنْ قام به، {وأخْرَجوكم من دِياركم وظاهَروا}؛ أي: عاونوا غيرهم {على إخراجِكم}: نهاكم الله {أن تَوَلَّوهم}: بالنصرة والموَّدة بالقول والفعل، وأما بِرُّكم وإحسانُكم الذي ليس بتولٍّ للمشركين؛ فلم ينهكم الله عنه، بل ذلك داخلٌ في عموم الأمر بالإحسان إلى الأقارب وغيرهم من الآدميين وغيرهم، {ومن يَتَوَلَّهم} منكم {فأولئك هم الظالمونَ}: وذلك الظلمُ يكون بحسب التولِّي؛ فإنْ كان تولياً تامًّا؛ كان ذلك كفراً مخرجاً عن دائرة الإسلام وتحت ذلك من المراتب ما هو غليظٌ وما هو دونه.
[9] ﴿ اِنَّمَا یَنْهٰؔىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْؔكُمْ فِی الدِّیْنِ﴾ ’’اللہ تو تمھیں صرف ان لوگوں کی دوستی سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے ماننے والوں سے عداوت رکھتے ہوئے تمھارے دین کی وجہ سے ﴿ وَاَخْرَجُوْؔكُمْ مِّنْ دِیَ٘ارِكُمْ وَظٰهَرُوْا ﴾ ’’اور انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے نکال دیا اور انھوں نے مدد کی۔‘‘ یعنی انھوں نے دوسروں کی مدد کی ﴿ عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ ﴾ ’’تمھیں تمھارے گھروں سے نکالنے میں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں روک دیا ہے ﴿ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ﴾ اس بات سے کہ قول و فعل میں تم نصرت و مودت کے ساتھ ان سے دوستی رکھو، رہا تمھارا (اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ) نیک برتاؤ اور احسان، جو مشرکین کے ساتھ موالات کے زمرے میں نہ آتا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس سے نہیں روکا۔ بلکہ یہ حکم اقارب وغیرہ انسانوں اور دیگر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے عمومی حکم کے تحت آتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’اور تم میں سے جو لوگ ان سے دوستی کریں گے تو وہ ظالم ہیں۔‘‘ اور یہ ظلم موالات کے مطابق ہو گا۔ اگر کسی نے پوری پوری موالات اور دوستی رکھی ہے تو یہ کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہے، اس سے نیچے بہت سے مراتب ہیں جن میں بعض بہت سخت اور بعض نرم ہیں۔
آیت: 10 - 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (10) وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ (11)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب آئیں تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے تو تم امتحان لو ان کا اللہ خوب جانتا ہےان کے ایمان کو، پس اگر جانو تم ان کو مومن تو نہ لوٹاؤ تم انھیں کفار کی طرف، نہیں وہ (عورتیں) حلال ان کے لیے اور نہ وہ (کافر) حلال ہیں ان کے لیے اور تم دو ان (کفار) کو جو کچھ (مہر) انھوں نے خرچ کیا اور نہیں کوئی گناہ تم پر یہ کہ تم نکاح کر لو ان سے جب تم دے دو انھیں حق مہر ان کے اور نہ روکے (قبضے میں) رکھو تم عصمتیں کافر عورتوں کی اور مانگ لو تم جو کچھ (مہر) خرچ کیا تم نے اور چاہیے کہ مانگیں وہ بھی جو کچھ (مہر) انھوں نے خرچ کیا یہ فیصلہ ہے اللہ کا، وہ فیصلہ کرتا ہے تمھارے درمیان اور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے (10) اور اگر چلی جائیں تم سے کچھ بیویاں تمھاری کفار کی طرف تو بدلہ دو تم ان (خاوندوں) کو پس دو تم ان لوگوں کو کہ چلی گئی ہیں ان کی بیویاں، مثل اس (مہر) کے جو انھوں نے خرچ کیا اور ڈرو تم اللہ سے وہ کہ تم اس کے ساتھ ایمان رکھتے ہو (11)
#
{10} لما كان صلح الحديبية؛ صالَحَ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - المشركين على أنَّ مَن جاء منهم إلى المسلمين مسلماً؛ أنَّه يردُّ إلى المشركين، وكان هذا لفظاً عامًّا مطلقاً يدخل في عمومه النساء والرجال، فأمَّا الرجال؛ فإنَّ الله لم ينه رسولَه عن ردِّهم إلى الكفار وفاءً بالشرط وتتميماً للصلح الذي هو من أكبر المصالح، وأمَّا النساءُ؛ فلمَّا كان ردُّهنَّ فيه مفاسد كثيرةٌ؛ أمرَ المؤمنين إذا جاءهم {المؤمناتُ مهاجراتٍ}: وشَكُّوا في صدق إيمانهنَّ أن يمتحنوهنَّ ويختبروهنَّ بما يظهر به من صدقهنَّ من أيمانٍ مغلظةٍ وغيرها؛ فإنَّه يُحْتمل أن يكون إيمانُها غيرَ صادقٍ، بل رغبةً في زوج أو بلدٍ أو غير ذلك من المقاصد الدنيويِّة؛ فإنْ كُنَّ بهذا الوصف؛ تعيَّن ردُّهنَّ وفاءً بالشرط من غير حصول مفسدةٍ؛ وإن امتحنوهنَّ فوجدنَ صادقاتٍ، أو علموا ذلك منهنَّ من غير امتحانٍ؛ فلا يَرْجِعوهنَّ إلى الكفار. {لا هنَّ حلٌّ لهم ولا هم يَحِلُّون لهنَّ}: فهذه مفسدةٌ كبيرةٌ [في ردهنَّ] راعاها الشارع وراعى أيضاً الوفاء بالشرط؛ بأن يُعطوا الكفار أزواجهنَّ ما أنفقوا عليهنَّ من المهر وتوابعه عوضاً عنهنَّ، ولا جناح حينئذٍ على المسلمين أن ينكحوهنَّ، ولو كان لهنَّ أزواجٌ في دار الشرك، ولكن بشرطِ أن يؤتوهنَّ أجورهنَّ من المهر والنفقة، وكما أنَّ المسلمة لا تحلُّ للكافر؛ فكذلك الكافرة لا تحلُّ للمسلم [أن يمسكها] ما دامت على كفرها؛ غير أهل الكتاب، ولهذا قال تعالى: {ولا تُمسِكوا بعِصَم الكَوافِرِ}. وإذا نهي عن الإمساك بعصمتها؛ فالنهي عن ابتداء تزويجها أولى، {واسألوا ما أنفقتم}: أيُّها المؤمنون حين ترجِعُ زوجاتكم مرتداتٍ إلى الكفار؛ فإذا كان الكفار يأخذون من المسلمين نفقة من أسلمت من نسائهم؛ استحقَّ المسلمون أن يأخذوا مقابلة ما ذهب من زوجاتهم إلى الكفار. وفي هذا دليلٌ على أنَّ خُروجَ البُضْع من الزوج متقوَّمٌ؛ فإذا أفسد مفسدٌ نكاح امرأة رجل برضاع أو غيره؛ كان عليه ضمانُ المهرِ. وقوله: {ذلكم حكم الله}؛ أي: ذلكم الحكم الذي ذكره الله وبيَّنه لكم حكمُ الله؛ بيَّنه لكم ووضَّحه. {والله عليمٌ حكيمٌ}: فيعلم تعالى ما يصلح لكم من الأحكام، فيشرعه بحسب حكمته ورحمته.
[10] صلح حدیبیہ میں جب رسول اللہ e نے مشرکین مکہ کے ساتھ اس شرط پر معاہدہ کیا کہ کفار میں سے جو کوئی مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے تو وہ مشرکین کو واپس کر دیا جائے گا۔ یہ عام اور مطلق لفظ تھا، جس کے عموم میں مرد اور عورت سب شامل ہیں۔ مردوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ایفائے شرط اور معاہدۂ صلح کو پورا کرنے کے لیے کفار کی طرف واپس لوٹانے سے اپنے رسول کو منع نہیں کیا، جو سب سے بڑی مصلحت تھی۔ رہی عورتیں تو چونکہ ان کے واپس لوٹانے میں بہت سے مفاسد تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کر کے ان کے پاس آئیں، اور ان کو ان عورتوں کے ایمان کی صداقت میں شک ہو، تو ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیا کریں، تاکہ سخت قسم وغیرہ کے ذریعے سے، ان کی صداقت ظاہر ہو جائے، کیونکہ اس بات کا احتمال ہو سکتا ہے کہ ان کے ایمان میں صداقت نہ ہو، بلکہ شوہر یا شہر وغیرہ دنیاوی مقاصد کے لیے ہجرت کی ہو، اگر ان میں یہ وصف پایا جائے، تو ایفائے شرط کے لیے کسی خرابی کے حصول کے بغیر ان کا واپس کیا جانا طے شدہ ہے۔ اگر اہل ایمان نے ان کو جانچ لیا اور ان کو سچا پایا ہو، یا جانچ پڑتال کے بغیر ہی اہل ایمان کو ان کے مومن ہونے کا علم ہو، تو وہ ان عورتوں کو کفار کی طرف واپس نہ بھیجیں ﴿ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَ٘هُنَّ ﴾ ’’یہ (عورتیں) ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں نہ وہ (کافر) ان کے لیے۔‘‘ یہ بہت بڑی خرابی ہے جس کی شارع نے رعایت رکھی ہے، شارع نے ایفائے شرط کی بھی رعایت رکھی کہ ان عورتوں کے عوض میں ان کے کفار شوہروں کو وہ مہر اور اس کے توابع وغیرہ واپس لوٹا دیے جائیں جو انھوں نے ان عورتوں پر خرچ کیے ہیں۔ تب مسلمانوں کے لیے، ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ دارالشرک میں ان کے (مشرک) شوہر موجود ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان عورتوں کو مہر اور نان و نفقہ ادا کریں۔ جس طرح مسلمان عورت کافر کے لیے حلال نہیں، اسی طرح اہل کتاب کے سوا کافر عورت، جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہے، مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ﴾ ’’اور تم کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں رکھنے سے منع کیا ہے تب ان کے ساتھ نکاح کی ابتدا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ﴿ وَسْـَٔلُوْا مَاۤ اَنْفَقْتُمْ ﴾ اے مومنو! جب تمھاری مرتد بیویاں کفار کی طرف واپس لوٹیں تو ان سے اس مال کا مطالبہ کرو، جو تم نے ان پر خرچ کیا ہے۔ جب کفار اپنی ان عورتوں کو عطا کیا ہو امہر وصول کر سکتے ہیں، جو مسلمان ہو گئی ہوں، تب اس کے مقابلے مسلمان بھی اس مہر کو وصول کرنے کے مستحق ہیں جو ان کی (مرتد) بیویوں کے ساتھ کفار کے پاس گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے نکلنا قیمت رکھتا ہے ، اگر کوئی فاسد کرنے والا عورت کے نکاح کو رضاعت یا کسی اور سبب کی بنا پر فاسد کر دے، تو اس کے مہر کی ضمان ہے، یعنی مہر کی ادائیگی ضروری ہے ﴿ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ﴾ یعنی یہ فیصلہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، جو اس نے تمھارے سامنے بیان کر کے واضح کیا ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون سے احکام تمھارے لیے درست ہیں ، پس وہ اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق اپنے احکام مشروع کرتا ہے۔
#
{11} وقوله: {وإن فاتَكم شيءٌ من أزواجِكم إلى الكفَّار}: بأن ذهبنَ مرتدَّاتٍ، {فعاقبتُم فآتوا الذين ذهبتْ أزواجُهم مثل ما أنفقوا}: كما تقدَّم أنَّ الكفار إذا كانوا يأخذون بدل ما يفوت من أزواجهم إلى المسلمين؛ فمن ذهبت زوجتُه من المسلمين إلى الكفار، وفاتت عليه؛ فعلى المسلمين أن يعطوه من الغنيمة بدل ما أنفق. {واتَّقوا الله الذي أنتم به مؤمنونَ}: فإيمانكم بالله يقتضي منكم أن تكونوا ملازمين للتقوى على الدَّوام.
[11] ﴿ وَاِنْ فَاتَكُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ ﴾ ’’اور اگر تمھاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمھارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے۔‘‘ اس سبب سے کہ وہ مرتد ہو کر واپس چلی گئی ہو۔ ﴿ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَاۤ اَنْفَقُوْا ﴾ ’’تو تم (مال غنیمت میں سے) ان کو اتنا مال دے دو جتنا انھوں نے خرچ کیا۔‘‘ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ جب کفار مسلمانوں سے اس مہر کا بدل وصول کرتے تھے جو ان کی بیویوں کے پاس مسلمانوں کی طرف چلا جاتا تھا، تب مسلمانوں میں سے کسی کی بیوی کفار کے پاس چلی جائے اور وہ اس سے محروم ہو جائے، تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ غنیمت میں سے اسے اس مال کا بدل عطا کریں جو مہر کی صورت میں اس نے اپنی بیوی پر خرچ کیا۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور تم اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ پر تمھارا ایمان تم سے تقاضا کرتا ہے کہ تم دائمی طور پر تقویٰ کا التزام کرو۔
آیت: 12 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (12)}.
اے نبی! جب آئیں آپ کے پاس مومن عورتیں، وہ بیعت کریں آپ سے اوپر اس بات کے کہ نہیں شریک ٹھہرائیں گی وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو اور نہیں چوری کریں گی وہ اور نہیں زنا کریں گی وہ اور نہیں قتل کریں گی وہ اپنی اولاد کو اور نہیں لگائیں گی وہ کوئی ایسا بہتان کہ گھڑا ہو انھوں نے اس کو درمیان اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے اور نہیں نافرمانی کریں گی وہ آپ کی کسی نیک کام میں، تو آپ بیعت لے لیں ان سے، اور مغفرت طلب کریں آپ ان کے لیے اللہ سے، بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے (12)
#
{12} هذه الشروط المذكورة في هذه الآية تسمَّى مبايعة النساء، اللاتي كنَّ يبايِعْنَّ على إقامة الواجبات المشتركة التي تجب على الذُّكور والنساء في جميع الأوقات، وأما الرجال؛ فيتفاوتُ ما يلزمُهم بحسب أحوالهم ومراتبهم وما يتعيَّن عليهم، فكان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يمتثل ما أمره الله [به]، فكان إذا جاءته النساءُ يبايِعْنَه والتزمن بهذه الشروط؛ بايَعَهُنَّ وجَبَرَ قلوبَهُنَّ، واستغفر لهنَّ الله فيما يحصل منهنَّ من التقصير وأدخلهنَّ في جملة المؤمنين، {على أن لا يُشْرِكنَ بالله شيئاً}: بل يفرِدْنَ الله وحده بالعبادة، {ولا يَقْتُلْنَ أولادهنَّ}: كما يجري لنساء الجاهليَّة الجهلاء، {ولا يَزْنينَ}: كما كان ذلك موجوداً كثيراً في البغايا وذوات الأخدان، {ولا يأتين ببُهتانٍ يفترينَه بين أيديهنَّ وأرجُلهنَّ}: والبهتان الافتراء على الغير؛ أي: لا يفترين بكلِّ حالة، سواءً أتعلَّقت بهنَّ مع أزواجهنَّ أو تعلَّق ذلك بغيرهم، {ولا يَعْصينَكَ في معروفٍ}؛ أي: لا يعصينك في كلِّ أمرٍ تأمرهنَّ به؛ لأنَّ أمرك لا يكون إلاَّ بمعروفٍ، ومن ذلك طاعتهنَّ لك في النهي عن النياحة وشقِّ الجيوب وخمش الوجوه والدُّعاء بدعوى الجاهلية، {فبايِعْهُنَّ}: إذا التزمنَ بجميع ما ذُكِر، {واستَغْفِرْ لهنَّ اللهَ}: عن تقصيرهنَّ وتطييباً لخواطرهنَّ. {إنَّ الله غفورٌ}؛ أي: كثير المغفرة للعاصين والإحسان إلى المذنبين التائبين. {رحيمٌ}: وسعت رحمتُه كلَّ شيءٍ وعمَّ إحسانُه البَرايا.
[12] اس آیت کریمہ میں مذکورہ شرائط ’’عورتوں کی بیعت‘‘ کے نام سے موسوم ہیں ، جو ان مشترکہ واجبات کی ادائیگی پر بیعت کرتی تھیں، جو تمام اوقات میں مردوں اور عورتوں پر واجب ہیں، رہے مرد تو ان پر ان کے احوال و مراتب کے مطابق جو واجبات ان پر لازم آتے اور متعین ہوتے ہیں، ان میں تفاوت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نبیٔ اکرمe کو جو حکم دیتا تھا آپ اس کو بجا لاتے تھے، جب عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کرتیں اور ان مذکورہ شرائط کا التزام کرتیں تو آپ ان سے بیعت لے لیا کرتے تھے، آپ ان کی دل جوئی کرتے اور ان امور میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کرتے جن میں ان سے کوتاہی واقع ہوتی، اور انھیں جملہ مومنین میں ان شرائط کے ساتھ شامل کرتے کہ ﴿ لَّا یُشْرِكْ٘نَ بِاللّٰهِ شَیْـًٔؔا﴾ ’’ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔‘‘ بلکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق سمجھیں گی ﴿ وَلَا یَقْتُلْ٘نَ اَوْلَادَهُنَّ ﴾ ’’اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔‘‘ جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں جاہل عورتوں سے اپنی بیٹیوں کو ’’زندہ درگور‘‘ کرنا صادر ہوتا تھا۔ ﴿وَلَا یَزْنِیْنَ ﴾ ’’اور وہ زنا نہیں کریں گی۔‘‘ جیسا کہ غیر مردوں سے یاری دوستی رکھنے والی عورتوں میں یہ فعل کثرت سے موجود تھا ﴿ وَلَا یَ٘اْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ﴾ ’’اور کوئی ایسا بہتان نہ لگائیں گی جو خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گھڑ لیں۔‘‘ بہتان سے مراد غیر پر افترا پردازی ہے، یعنی وہ کسی بھی حالت میں افترا پردازی نہیں کریں گی، خواہ اس کا تعلق خود اپنے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا شوہر کے علاوہ دوسرے کے ساتھ ہو۔ ﴿ وَلَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ یعنی کسی بھی معاملے میں جس کا آپ حکم دیں، وہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، کیونکہ آپ کا حکم معروف کے مطابق (نیک) ہی ہو گا، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نوحہ کرنے، گریبان چاک کرنے، چہرہ نوچنے اور جاہلیت کی آواز نکالنے کی ممانعت میں آپ کی اطاعت کریں گی۔ ﴿ فَبَایِعْهُنَّ﴾ جب وہ مذکورہ احکام کی تعمیل کا التزام کریں، تو ان سے بیعت لیجیے ﴿وَاسْتَغْفِرْ لَ٘هُنَّ اللّٰهَ﴾ اور ان کی دل جمعی کے لیے ان کی تقصیر کی اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کیجیے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ﴾ یعنی وہ نافرمانوں کو بہت کثرت سے بخشنے والا، اور گناہ گار تائبین پر احسان کرنے والا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمٌ﴾ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں اور اس کا احسان تمام مخلوقات کو شامل ہے۔
آیت: 13 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ (13)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ دوستی کرو تم اس قوم سے کہ غصے ہوا اللہ ان پر، تحقیق وہ مایوس ہو گئے ہیں آخرت سے جیسے مایوس ہو گئے کفار اہل قبور سے (13)
#
{13} أي: يا أيُّها المؤمنون إن كنتُم مؤمنين بربِّكم، ومتَّبعين لرضاه، ومجانبين لسخطه، {لا تَتَوَلَّوا قوماً غضب الله عليهم}: وإنَّما غضب عليهم لكفرهم، وهذا شاملٌ لجميع أصناف الكفار، {قد يَئِسوا من الآخرةِ}؛ أي: قد حُرِموا من خير الآخرة، فليس لهم منها نصيبٌ؛ فاحذروا أن تَتَوَلَّوهم فتوافقوهم على شرِّهم وشركهم ، فتُحرموا خير الآخرة كما حُرِمُوا. وقوله: {كما يئِس الكفَّار من أصحاب القبور}: حين أفضوا إلى الدار الآخرة، وشاهدوا حقيقة الأمر، وعلموا علم اليقين أنَّهم لا نصيب لهم منها. ويُحتمل أنَّ المعنى: قد يئسوا من الآخرة؛ أي: قد أنكروها وكفروا بها؛ فلا يُسْتَغربُ حينئذٍ منهم الإقدام على مساخط الله وموجباتِ عذابِه، وإياسهم من الآخرة كما يئس الكفارُ المنكرون للبعث في الدُّنيا من رجوع أصحاب القبور إلى الله تعالى.
[13] یعنی اے مومنو! اگر تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اس کی رضا کی اتباع کرتے ہو اور اس کی ناراضی سے دور رہتے ہو تو ﴿ لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ﴾ ’’ان لوگوں سے دوستی نہ کرو، جن پر اللہ ناراض ہوا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ محض ان کے کفر کی وجہ سے ان پر ناراض ہے اور یہ کفر کی تمام اصناف کو شامل ہے۔ ﴿ قَدْ یَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’وہ آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں۔‘‘ یعنی انھیں آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیا گیا، اس لیے آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہ ہو گا۔ اس لیے تم ان کو دوست بنانے سے بچو ورنہ تم بھی ان کے شر اور شرک کی موافقت کرنے لگو گے اور اس طرح تم بھی آخرت کی بھلائی سے محروم ہو جاؤ گے، جیسے وہ محروم ہو گئے۔ ﴿ كَمَا یَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰؔبِ الْقُبُوْرِ﴾ ’’جس طرح کا فروں کو مردوں (کے جی اٹھنے) کی امید نہیں۔‘‘ یعنی جب وہ آخرت کے گھر کو جائیں گے، وہاں حقیقتِ امر کا مشاہدہ کریں گے اور انھیں علم الیقین حاصل ہو گا کہ آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔ اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے کہ وہ آخرت سے مایوس ہو گئے ہیں یعنی انھوں نے آخرت کا انکار اور اس کے ساتھ کفر کیا ہے۔ تب ان سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کاموں اور اس کے عذاب کی موجبات کا اقدام کریں اور ان کا آخرت سے مایوس ہونا ایسے ہی ہے جیسے قیامت کا انکار کرنے والے کفار دنیا میں اصحاب قبور کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے سے مایوس ہیں۔