آیت:
تفسیر سورۂ مجادلہ
تفسیر سورۂ مجادلہ
آیت: 1 - 4 #
{قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (1) الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ (2) وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (3) فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (4)}.
تحقیق سن لی اللہ نے بات اس عورت کی وہ جو تکرار کر رہی تھی آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں اور وہ شکایت کر رہی تھی طرف اللہ کی جبکہ اللہ سن رہا تھا گفتگو تم دونوں کی بلاشبہ اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (1) وہ لوگ جو ظہار کرتے ہیں تم میں سے اپنی بیویوں سے نہیں ہو جاتیں وہ ان کی مائیں، نہیں ہیں ان کی مائیں مگر وہی جنھوں نے جنا ان کو اور بلاشبہ وہ البتہ کہتے ہیں نامعقول بات اور جھوٹ اور بے شک اللہ البتہ بہت معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والا ہے(2) اور وہ لوگ جو ظہار کرتے ہیں اپنی عورتوں سے ، پھر وہ رجوع کر لیں اس سے جو انھوں نے کہا تو آزاد کرنا ہے ایک گردن کا پہلے اس سے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ (حکم)، نصیحت کیے جاتے ہو تم ساتھ اس کے، اور اللہ ساتھ اس کےجو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے(3) پس جو شخص نہ پائے تو روزے رکھنے ہیں دو مہینے متواتر پہلے اس سے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، پس جو شخص نہ استطاعت رکھے تو کھانا کھلانا ہے ساٹھ مسکینوں کو، یہ (حکم) اس لیے ہے کہ تم ایمان لاؤ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے، اور یہ حدیں ہیں اللہ کی اور کافروں کے لیے عذاب ہے بہت درد ناک(4)
#
{1} نزلت هذه الآيات الكريماتُ في رجل من الأنصار اشتكتْه زوجته إلى الله وجادلته إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لمَّا حرَّمها على نفسه بعد الصُّحبة الطويلة والأولاد، وكان هو رجلاً شيخاً كبيراً، فشكتْ حالَها وحالَه إلى الله وإلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وكرَّرت ذلك، وأبدتْ فيه وأعادتْ، فقال تعالى: {قد سَمِعَ الله قولَ التي تجادِلُك في زوجها وتَشْتَكي إلى الله واللهُ يسمعُ تحاوُرَكما}؛ أي: تخاطُبَكما فيما بينكما. {إنَّ الله سميعٌ}: لجميع الأصوات في جميع الأوقات على تفنُّن الحاجات. {بصيرٌ}: يبصر دبيبَ النملة السوداء، على الصَّخرة الصمَّاء، في الليلة الظلماء. وهذا إخبارٌ عن كمال سمعه وبصره، وإحاطتهما بالأمور الدَّقيقة والجليلة، وفي ضمن ذلك الإشارة بأنَّ الله [تعالى] سيزيلُ شكواها ويرفع بلواها، ولهذا ذكر حكمها وحكمَ غيرها على وجه العموم، فقال:
[1] یہ آیات کریمہ انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں، جب اس نے اپنی بیوی کو طویل مصاحبت اور اولاد ہونے کے بعد اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا، تو اس کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے پاس شکایت کی اور اس کے خلاف مقدمہ لے کر رسول اللہ e کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس خاتون نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہe کے پاس اپنے حال اور اس شخص کے حال کے بارے میں شکوہ کیا اور بار بار کیا اور جرأت کے ساتھ اس کا اعادہ کیاتو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِيْۤ اِلَى اللّٰهِ١ۖ ۗ وَاللّٰهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَؔكُمَا﴾ ’’(اے پیغمبر!) جو عورت آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث وجدال کرتی اور اللہ سے شکایت کرتی تھی۔ اللہ نے اس کی التجا سن لی۔ اور اللہ تم دونوں کی بات چیت کو سن رہا تھا۔‘‘ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات میں، مخلوق کی مختلف حاجتوں کے باوجود تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿ بَصِیْرٌ﴾ جو اندھیری رات میں، سیاہ پتھر پر رینگتی ہوئی سیاہ چیونٹی کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل سمع و بصر کی خبر ہے، نیز تمام چھوٹے بڑے امور پر اس کے سمع و بصر کے احاطہ کی خبر ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کی شکایت اور مصیبت کا ازالہ کرے گا اس لیے اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر اس عورت اور دیگر عورتوں کے بارے میں حکم بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا:
#
{2} {الذين يظاهِرونَ منكم من نسائِهِم ما هنَّ أمَّهاتِهم إن أمَّهاتُهم إلاَّ اللاَّئي وَلَدْنَهم}: المظاهرة من الزوجة أن يقولَ الرجل لزوجته: أنت عليَّ كظهرِ أمِّي، أو غيرها من محارمه، أو أنت عليَّ حرامٌ. وكان المعتاد عندَهم في هذا اللفظ الظهر، ولهذا سماه الله ظِهاراً، فقال: {الذين يظاهِرون منكم من نسائِهِم ما هنَّ أمَّهاتِهم}؛ أي: كيف يتكلَّمون بهذا الكلام الذي يعلمون أنَّه لا حقيقة له، فيشبهون أزواجهم بأمَّهاتِهم اللاَّتي ولدنهم؟! ولهذا عظَّم الله أمره وقبَّحه، فقال: {وإنَّهم لَيقولونَ منكراً من القول وزوراً}؛ أي: قولاً شنيعاً وكذباً ، {وإنَّ الله لَعَفُوٌّ غفورٌ}: عمَّن صَدَرَ منه بعضُ المخالفات فتداركَها بالتَّوْبَةِ النَّصوح.
[2] ﴿ اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ١ؕ اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ﴾ ’’جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں سے ظہار کرلیتے ہیں، وہ ان کی مائیں نہیں (ہوجاتیں) ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جَنا۔‘‘ بیوی کے ساتھ ظہار یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے کہے ’’تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ یا ماں کے علاوہ دیگر محارم کا ذکر کرے یا یہ کہے ’’تو مجھ پر حرام ہے‘‘ عربوں کے ہاں اس موقع پر پیٹھ (اَلظِّھر) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’ظِہَار‘‘ سے موسوم کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ﴾ یعنی وہ ایسی بات کیوں کر کہتے ہیں جس کے بارے میں انھیں معلوم ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں، اور وہ اپنی بیویوں کو ان ماؤ ں سے تشبیہ دیتے ہیں جنھوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ظہار کے معاملے کو بہت بڑا اور نہایت قبیح قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْؔكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا﴾ یعنی وہ جھوٹی اور نہایت بری بات کہہ رہے ہیں۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌؔ﴾ یعنی اس سے جو کچھ مخالفت صادر ہوئی ، پھر اس نے خالص توبہ کے ذریعے سے اس کا تدارک کیا، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرنے اور بخش دینے والا ہے۔
#
{3} {والذين يظاهِرونَ من نسائِهِم ثم يعودونَ لِما قالوا}: اختلف العلماء في معنى العَوْد، فقيل معناه العزمُ على جماع مَنْ ظاهر منها، وأنَّه بمجرَّد عزمِهِ؛ تجب عليه الكفَّارة المذكورة، ويدلُّ على هذا أنَّ الله تعالى ذَكَرَ في الكفَّارة أنَّها تكون قبل المسيس، وذلك إنَّما يكون بمجرَّد العزم، وقيل: معناه حقيقةُ الوطءِ، ويدلُّ على ذلك أنَّ الله قال: {ثم يعودونَ لِما قالوا}، والذي قالوا إنَّما هو الوطءُ، وعلى كلٍّ من القولين؛ فإذا وُجِدَ العَوْدُ؛ صار كفارةُ هذا التحريم {تحرير رقبةٍ}: مؤمنةٍ؛ كما قُيِّدَتْ في آية القتل ؛ ذكرٍ أو أنثى؛ بشرط أن تكون سالمةً من العيوب الضارَّة بالعمل {من قبل أن يَتَماسَّا}؛ أي: يلزم الزوج أن يترك وطء زوجته التي ظاهر منها حتى يكفِّرَ برقبة. {ذلكم}: الحكم الذي ذكرناه لكم {توعظونَ به}؛ أي: يبيِّن لكم حكمه مع الترهيب المقرون به؛ لأن معنى الوعظ ذكر الحكم مع الترغيب والترهيب فالذي يريد أن يظاهر؛ إذا ذَكَرَ أنَّ عليه عتقَ رقبةٍ؛ كفَّ نفسه عنه. {واللهُ بما تعملونَ خبيرٌ}: فيجازي كلَّ عامل بعمله.
[3] ﴿ وَالَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ’’جو اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں، پھر انھوں نے جو کہا، اس سے رجوع کرلیں۔‘‘ رجوع کرنے کے معنی میں اہل علم اختلاف کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض کہتے ہیں کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ ظہار کیا ہے اس کے ساتھ جماع کا عزم کیا جائے، مجرد عزم ہی سے ظہار کرنے والے پر مذکورہ کفارہ واجب ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارے کے بارے میں ذکر فرمایا کہ یہ کفارہ (اس بیوی کو) چھونے سے قبل ہے اور یہ مجرد عزم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا معنیٰ حقیقی جماع ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ’’ پھر وہ اپنی بات سے رجوع کرلیں۔‘‘ اور جو بات انھوں نے کہی وہ جماع (کو حرام کرنا) ہے۔ اور دونوں قولوں میں سے ہر ایک کے مطابق، جب بھی رجوع کیا جائے گا، تو بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا کفارہ ہوگا۔ ﴿ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ﴾ ’’تو ایک غلام آزاد کرنا ہے۔‘‘ لیکن وہ مومن ہو، جیسا کہ دوسری آیت میں کہا گیا ہے۔ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ غلام یا لونڈی ان عیوب سے سلامت ہو جو کام کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ﴿مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا﴾ ’’پہلے اس کے کہ وہ دونوں ہم بستری کریں۔‘‘ یعنی شوہر پر لازم ہے کہ جب تک کہ وہ غلام آزاد کر کے کفارہ ادا نہ کرے اپنی اس بیوی سے جماع نہ کرے جس سے اس نے ظہار کیا ہے ﴿ذٰلِكُمْ﴾ یعنی یہ حکم جو ہم نے تمھارے لیے بیان کیا ہے ﴿تُوْعَظُوْنَ بِهٖ﴾ ’’اس کے ذر یعے سے تم نصیحت کیے جاتے ہو۔‘‘ یعنی وہ تمھارے سامنے ترہیب سے مقرون اپنا حکم بیان کرتا ہے کیونکہ وعظ کا معنیٰ ترغیب و ترہیب کے ساتھ حکم کا ذکر کرنا ہے۔ پس جو شخص ظہار کا ارادہ کرتا ہے، جب اسے یاد آتا ہے کہ غلام آزاد کرنا پڑے گا، تو اس سے رک جاتا ہے ﴿وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ’’اور اللہ تمھارے عملوں سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ لہٰذا وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا و سزا دے گا۔
#
{4} {فمن لم يجِدْ}: رقبةً يُعْتِقُها؛ بأن لم يجِدْها أو لم يجِدْ ثَمَنَها، {فـ} عليه {صيامُ شهرين متتابعين من قبل أن يَتَماسَّا فمَن لمْ يَسْتَطِعْ}: الصيام، {فإطعامُ ستينَ مسكيناً}: إمَّا أنْ يطعِمَهم من قوت بلده ما يكفيهم؛ كما هو قول كثيرٍ من المفسِّرين، وإمَّا أنْ يطعِمَ كلَّ مسكين مُدَّ بُرٍّ أو نصفَ صاع من غيره مما يُجْزِي في الفطرة؛ كما هو قول طائفة أخرى. {ذلك}: الحكم الذي بيَّنَّاه لكم ووضَّحناه، {لتؤمِنوا بالله ورسولِهِ}: وذلك بالتزام هذا الحكم وغيره من الأحكام والعمل به؛ فإنَّ التزام أحكام الله والعمل بها من الإيمانِ، بل هي المقصودةُ، ويزداد بها الإيمانُ ويكمُلُ وينمو. {وتلك حدودُ اللهِ}: التي تمنع من الوقوع فيها، فيجب أن لا تُتَعَدَّى ولا يُقَصَّرَ عنها. {وللكافرين عذابٌ أليمٌ}.
[4] ﴿فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ پس جو آزاد کرنے کے لیے غلام نہ پائے یا اس کے پاس غلام کی قیمت موجود نہ ہو تو اس کے ذمے﴿ فَصِیَامُ شَ٘هْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا فَ٘مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ ﴾ مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے ہیں۔ اور جو روزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْكِیْنًا﴾ ’’تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یا تو وہ اپنے شہر میں مروج خوراک میں سے انھیں کھانا کھلائے جو ان کے لیے کافی ہو، جیسا کہ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے۔ یا وہ ایک مسکین کو ایک مد گیہوں یا گیہوں کے علاوہ کسی دیگر جنس سے نصف صاع عطا کرے ، جیسا کہ مفسرین کے ایک دوسرے گروہ کی رائے ہے۔ یہ حکم جو ہم نے تمھارے سامنے بیان کیا ہے اور اسے واضح کیا ہے ﴿لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘﴾ ’’تاکہ تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔‘‘ اور یہ ایمان اس کے حکم اور دیگر احکام کے التزام اور اس پر عمل کرنے ہی سے ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا التزام اور ان پر عمل کرنا ایمان ہے بلکہ یہ احکام اور ان پر عمل ہی درحقیقت مقصود و مطلوب ہیں ان سے ایمان میں اضافہ اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ نشوونما پاتا ہے۔ ﴿وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ﴾ ’’اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔‘‘ جو ان میں واقع ہونے سے روکتی ہیں، اس لیے واجب ہے کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے نہ ان سے قاصر پیچھے رہا جائے ﴿وَلِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ ’’اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
ان آیات کریمہ میں متعدد احکام بیان کیے گئے ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور عنایت ہے کہ اس نے مصیبت زدہ عورت کی شکایت کا ذکر کر کے، اس کی مصیبت کا ازالہ کیا، بلکہ اس نے اپنے حکم عام کے ذریعے سے ہر اس شخص کی مصیبت کا ازالہ کیا جو اس قسم کی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ (۲) ظہار، بیوی کو حرام ٹھہرا لینے کے ساتھ مختص ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ﴾ ’’اپنی عورتوں سے۔‘‘ اگر وہ اپنی لونڈی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہراتا ہے تو یہ ظہار شمار نہ ہو گا ، بلکہ یہ طیبات کی تحریم کی جنس سے ہے ، مثلاً: کھانے پینے کو حرام ٹھہرا لینا، اس میں صرف قسم کا کفارہ واجب ہے۔ (۳) کسی عورت سے نکاح کرنے سے پہلے، اس سے ظہار درست نہیں، کیونکہ ظہار کے وقت وہ اس کی بیویوں میں داخل نہیں ہے۔ جیسا کہ نکاح سے قبل اس کو طلاق نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ طلاق دے دے یا اس کو معلق کر دے۔ (۴) ظہار حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے منکر کہا ہے ۔ (۵) ان آیات کریمہ میں، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ﴾ ’’وہ تمھاری مائیں نہیں ہیں۔‘‘ (۶) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے محارم کے نام سے پکارے ، مثلاً: ’’اے میری ماں!‘‘ ’’اے میری بہن!‘‘ وغیرہ کیونکہ یہ محرمات سے مشابہت رکھتا ہے۔ (۷) کفارہ مجرد ظہار سے واجب نہیں ہوتا بلکہ سابقہ دونوں اقوال کے اختلاف معنیٰ کے مطابق، ظہار کرنے والے کے ’’رجوع کرنے‘‘ پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ (۸) کفارہ میں چھوٹے یابڑے غلام کو اور مرد یا عورت کو آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہو جاتا ہے، کیونکہ آیت میں مطلق غلام کو آزاد کرنے کا حکم ہے۔ (۹) آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کفارے میں غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا ہے تو جماع سے قبل، کفارہ ادا کرنا واجب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقید ذکر کیا ہے، بخلاف مسکینوں کو کھانا کھلانے کے، کیونکہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کے دوران میں جماع جائز ہے۔ (۱۰) جماع سے قبل کفارے کے واجب ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس سے کفارے کی ادائیگی میں زیادہ ترغیب ملتی ہے کیونکہ جب ظہار کرنے والے میں جماع کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کفارہ ادا کیے بغیر جماع ممکن نہیں، تو کفارہ ادا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ (۱۱) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ ظہار کا ارتکاب کرنے والا اگر ساٹھ مسکینوں کا اکٹھا کھانا کسی ایک مسکین، یا ایک سے زائد مسکینوں کو، جو تعداد میں ساٹھ سے کم ہوں، دے دے، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْكِیْنًا﴾
آیت: 5 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (5)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کےرسول کی، وہ ذلیل کیے جائیں گے جیسے ذلیل کیے گئے تھے وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے اور تحقیق نازل کیں ہم نے آیتیں واضح، اور کافروں کے لیے ہے عذاب رسوا کن(5)
#
{5} محادَّة الله ورسوله مخالفتُهما ومعصيتُهما، خصوصاً في الأمور الفظيعة؛ كمحادَّة الله ورسوله بالكفر ومعاداة أولياء الله. وقوله: {كُبِتُوا كما كُبِتَ الذين من قبلهم}؛ أي: أذِلُّوا وأهينوا كما فُعِلَ بمن قبلَهم جزاءً وِفاقاً، وليس لهم حجَّةٌ على الله؛ فإنَّ الله قد قامت حجَّته البالغةُ على الخلق، وقد أنزل من الآيات البيِّناتِ والبراهين ما يبيِّنُ الحقائق ويوضِّحُ المقاصدَ؛ فمن اتَّبعها وعمل عليها، فهو من المهتدين الفائزين. {وللكافرين}: بها {عذابٌ مهينٌ}؛ أي: يهينهم ويُذِلُّهم؛ فكما تكبَّروا عن آيات الله؛ أهانهم وأذلَّهم.
[5] اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت اور نافرمانی ان کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں آتی ہے، خاص طور امور قبیحہ میں، مثلاً: اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر کے دشمنی کرنا اور اولیاء اللہ سے عداوت رکھنا۔ فرمایا: ﴿ كُبِتُوْا كَمَا كُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ یعنی پوری پوری جزا کے طور پر ان کو ذلیل و رسوا کیا گیا، جیسا کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو ذلیل و رسوا کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے خلاف ان کے پاس حجت نہیں، کیونکہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت بالغہ قائم ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور براہین نازل فرمائے، جو حقائق کو بیان اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔ پس جس کسی نے ان کی اتباع کی اور ان پر عمل پیرا ہوا وہی ہدایت یافتہ اور کامیاب ہے۔ ﴿ وَلِلْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ یعنی ان آیات و براہین کا انکار کرنے والوں کے لیے ﴿عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ ایسا عذاب ہے جو انھیں ذلیل و رسوا کرے گا، چنانچہ جس طرح انھوں نے آیات الٰہی کے مقابلے میں تکبر کیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان کو ذلیل و رسوا کرے گا۔
آیت: 6 - 7 #
{يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (6) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (7)}.
جس دن اٹھائے گا ان کو اللہ، سب کو، پھر وہ خبر دے گا انھیں اس کی جو عمل کیے تھے انھوں نے، شمار کر رکھا ہے اس کو اللہ نے جبکہ وہ بھول گئے تھے اسے، اور اللہ اوپر ہر چیز کے شاہد ہے(6) کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بلاشبہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، نہیں ہوتی کوئی سرگوشی تین(آدمیوں)کی مگر وہ چوتھا ہوتا ہے ان میں، اور نہ پانچ (آدمیوں) کی مگر وہ چھٹا ہوتا ہے ان میں، اور نہ کم اس سے اور نہ زیادہ مگر وہ ہوتا ہے ساتھ ان کے جہاں کہیں بھی وہ ہوں، پھر وہ خبر دے گا انھیں اس کی جو انھوں نے عمل کیے تھے روز قیامت، بلاشبہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے(7)
#
{6} يقول الله تعالى: {يوم يبعثهم اللهُ} الخلقَ جميعاً فيقومون من أجداثهم سريعاً، فيجازيهم بأعمالهم؛ وينبِّئهم بما عملوا من خيرٍ وشرٍّ؛ لأنَّه علم ذلك وكتبه في اللوح المحفوظ، وأمر الملائكة الكرام الحَفَظَة بكتابته، هذا والعاملون قد نسوا ما عملوه والله أحصى ذلك. {والله على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}: على الظَّواهر والسَّرائر والخبايا والخفايا.
[6] یعنی جس روز اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ﴿ جَمِیْعًا﴾ ’’سب کو۔‘‘ تو وہ اپنی قبروں سے تیزی سے نکل کھڑے ہوں گے ، پھر وہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا﴾ چنانچہ انھوں نے جو اچھے برے اعمال کیے ہوں گے، اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا کیونکہ اسے ان تمام اعمال کا علم ہے اور ﴿اَحْصٰىهُ اللّٰہُ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کو لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے اور حفاظت پر مامور ملائکہ کرام کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ ان اعمال کو درج کرتے رہیں۔ اور عمل کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ ﴿ وَنَسُوْهُ﴾ انھوں نے اپنے اعمال کو فراموش کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شمار کر رکھا ہے ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾ اللہ تعالیٰ، تمام ظاہری باتوں، تمام اسرار نہاں، اور تمام چھپی ہوئی چیزوں کو دیکھتا ہے۔
#
{7} ولهذا أخبر عن سعةِ علمه وإحاطته بما في السماواتِ والأرض من دقيق وجليل، وأنَّه {ما يكون من نَجْوى ثلاثةٍ إلاَّ هو رابِعُهم ولا خمسةٍ إلاَّ هو سادِسُهم ولا أدنى مِن ذلك ولا أكثر إلاَّ هو مَعَهُم أينما كانوا}: والمراد بهذه المعيَّة معيَّةُ العلم والإحاطة بما تناجَوْا به وأسرُّوه فيما بينَهم، ولهذا قال: {إنَّ الله بكلِّ شيءٍ عليمٌ}.
[7] بنابریں اس نے اپنے لا محدود علم کے بارے میں خبر دی ہے نیز آگاہ فرمایا کہ اس کا علم آسمانوں اور زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ ایسی ہستی ہے کہ ﴿ مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰ٘ثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَیْنَ مَا كَانُوْا﴾’’ کسی بھی جگہ تین اشخاص کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر چوتھا وہ ہوتا ہے، نہ کہیں پانچ اشخاص کی سرگوشی ہوتی ہے مگر چھٹا وہ ہوتا ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ اشخاص سرگوشی کرتے ہیں مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔‘‘ اس معیت سے مراد معیت علم، ان کی سرگوشیوں اور ان کے سرا ئر کا احاطہ ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’بلاشبہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 8 - 9 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ (8) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (9)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو روکے گئے تھے سر گوشی کرنے سے، پھر وہ لوٹتے ہیں طرف اس چیز کی کہ روکے گئے تھے وہ اس سے، اور وہ سرگوشیاں کرتے ہیں گناہ کی اور زیادتی کی اور نافرمانی ٔ رسول کی اور جب وہ آتے ہیں آپ کے پاس تو وہ دعا دیتے(سلام کہتے) ہیں آپ کو ساتھ اس (کلمے) کے کہ نہیں دعا دی آپ کو ساتھ اس کےاللہ نے، اور وہ کہتے ہیں اپنے نفسوں میں، کیوں نہیں عذاب دیتا ہمیں اللہ بوجہ اس کےجو ہم کہتے ہیں؟ کافی ہے ان کو جہنم، داخل ہوں گے وہ اس میں، پس برا ہے وہ ٹھکانا(8) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب سرگوشی کرو تم، تو نہ سرگوشی کرو گناہ کی اور زیادتی کی اور نافر مانی ٔرسول کی اور سرگوشی کرو تم نیکی اور تقوے کی اور ڈرو تم اللہ سے، وہ کہ اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے تم(9)
#
{8 ـ 9} النَّجْوى هي التناجي بين اثنين فأكثر، وقد تكون في الخير وتكونُ في الشرِّ، فأمر الله المؤمنين أنْ يَتَناجَوْا بالبرِّ، وهو اسمٌ جامعٌ لكلِّ خيرٍ وطاعةٍ وقيام بحقِّ الله وحقِّ عباده ، والتَّقوى، وهي هنا اسمٌ جامعٌ لترك جميع المحارم والمآثم؛ فالمؤمن يمتثل هذا الأمر الإلهيَّ؛ فلا تجده مناجياً ومتحدثاً إلاَّ بما يقرِّبه إلى الله ويباعده من سخطه، والفاجر يتهاونُ بأمر الله ويناجي بالإثم والعدوان ومعصية الرسول؛ كالمنافقين الذين هذا دأبهم وحالهم مع الرسول - صلى الله عليه وسلم -، قال تعالى: {وإذا جاؤوك حَيَّوْكَ بما لمْ يُحَيِّكَ به الله}؛ أي: يسيئون الأدب في تحيَّتهم لك، {ويقولونَ في أنفُسِهم}؛ أي: يسرُّون فيها ما ذكره عالم الغيب والشهادة عنهم، وهو قولهم: {لولا يُعَذِّبنا الله بما نقولُ}: ومعنى ذلك أنَّهم يتهاونون بذلك، ويستدلُّون بعدم تعجيل العقوبة عليهم أنَّ ما يقولونه غيرُ محذورٍ، قال تعالى في بيان أنَّه يمهِلُ ولا يهمِلُ: {حَسْبُهُم جهنَّمُ يَصْلَوْنها فبئس المصيرُ}؛ أي: تكفيهم جهنَّم التي جمعت كلَّ عذابٍ وشقاء عليهم، تحيط بهم ويعذَّبون بها؛ فبئس المصير. وهؤلاء المذكورون إما أناس من المنافقين، يظهِرون الإيمان ويخاطبون الرسول - صلى الله عليه وسلم - بهذا الخطاب الذي يوهمون أنَّهم أرادوا به خيراً، وهم كذبةٌ في ذلك، وإما أناسٌ من أهل الكتاب الذين إذا سلَّموا على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ قالوا: السام عليك يا محمد. يعنون: الموت.
[8، 9] ﴿ النَّجْوٰى﴾ دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کا آپس میں سرگوشی کرنا ۔کبھی سرگوشی بھلائی کے معاملے میں ہوتی ہے اور کبھی برائی کے معاملے میں ہوتی ہے پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ نیکی کے معاملے میں سرگوشی کیا کریں۔(اَلْبِرُّ) نیکی اور اطاعت کے ہر کام اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے قیام کے لیے ایک جامع نام ہے۔ ﴿ التَّقْوٰى﴾ تمام محارم اور گناہ کے کاموں کو ترک کر دینے کے لیے جامع نام ہے پس بندۂ مومن اس حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے، اس لیے آپ اسے صرف اسی چیز کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کی ناراضی سے دور کرتی ہے۔ (اَلْفَاجِر) اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ اور حقیر سمجھتا ہے، جو گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشی کرتا ہے، جیسے منافقین، جن کا رسول اللہ e کے ساتھ یہی حال اور وتیرہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُ﴾ ’’اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس کلمے سے سلام کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔‘‘ یعنی آپ کو سلام کرنے میں سوء ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ﴾ یعنی وہ اپنے دل میں ایک قول کو چھپاتے ہیں جس کا ذکر غیب و شہادت کا علم رکھنے والی ہستی نے کیا ہے اور وہ ان کا یہ قول ہے: ﴿ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ﴾ ’’اللہ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا۔‘‘ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ اس کو حقیر اور ہیچ سمجھتے ہیں، اور ان پر جلدی عذاب نہ آنے سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں باطل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ (مجرموں کو) مہلت دیتا ہے، مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ یَصْلَوْنَهَا١ۚ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی ان کے لیے جہنم کافی ہے، جس میں ان کے لیے ہر قسم کا عذاب اور بدبختی جمع ہے۔ جہنم ان کو گھیر لے گا اور جہنم میں ان کو عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ ’’پس وہ بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ یہ لوگ جن کا (ان آیا ت کریمہ میں)ذکر کیا گیا ہے، یا تو منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے اور رسول اللہ e سے اس خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہوتے تھے، جس سے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس خطاب سے ان کا ارادہ بھلائی ہے حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ یا اہل کتاب میں سے وہ لوگ تھے جو رسول اللہ e کو سلام کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ (السَّامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّدُ)اور وہ اس سے موت مراد لیتے تھے۔
آیت: 10 #
{إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (10)}.
یقیناً (بری) سرگوشی شیطان ہی کی طرف سے ہے تاکہ وہ غم زدہ کرے ان لوگوں کوجو ایمان لائے اور نہیں وہ ضرر دینے والا انھیں کچھ بھی مگر ساتھ حکم اللہ کے، اور اللہ ہی پر پس چاہیے توکل کریں مومن (10)
#
{10} يقول تعالى: {إنَّما النَّجوى}؛ أي: تناجي أعداء المؤمنين بالمؤمنين بالمكرِ والخديعة وطلب السوءِ من الشيطان الذي كيدُهُ ضعيفٌ، [ومكره غير مفيد] {ليحزنَ الذين آمنوا}: هذا غايةُ هذا المكر ومقصوده، {وليس بضارِّهم شيئاً إلاَّ بإذنِ الله}: فإنَّ الله [تعالى] وَعَدَ المؤمنين بالكفاية والنصر على الأعداء، وقال تعالى: {ولا يَحيقُ المكرُ السيِّئُ إلاَّ بأهلِهِ}: فأعداء الله ورسوله والمؤمنين مهما تَناجَوْا ومَكَروا؛ فإنَّ ضَرَرَ ذلك عائدٌ إلى أنفسهم ، ولا يضرُّ المؤمنين إلاَّ شيءٌ قدَّره الله وقضاه. {وعلى الله فَلْيَتَوَكَّلِ المؤمنون}؛ أي: ليعتمدوا عليه ويَثِقوا بوعده؛ فإنَّ مَن تَوَكَّلَ على الله؛ كَفاه وكَفاه أمرَ دينِهِ ودُنياه.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّمَا النَّجْوٰى﴾ یعنی مومنوں کے دشمن ان کے بارے میں سازش، دھوکے اور بری خواہشات کی جو سرگوشیاں کرتے ہیں ﴿مِنَ الشَّیْطٰنِ﴾یہ شیطان کی طرف سے ہیں، جس کی چال بہت کمزور اور مکر غیر مفید ہے۔ ﴿ وَلَ٘یْسَ بِضَآرِّهِمْ شَیْـًٔؔا اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کے حکم کے بغیر ان سے انھیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ کفایت اور دشمن کے خلاف فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے:﴿ وَلَا یَحِیْقُ الْمَؔكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ٘﴾ (فاطر:35-43) ’’اور بری چال کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے دشمن جب کبھی (اہل ایمان کے خلاف) سازش کرتے ہیں تو اس کا ضرر انھی کی طرف لوٹتا ہے، اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا سوائے کسی ایسے ضرر کے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَؔكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی مومن اسی پر اعتماد کریں اور اس کے وعدے پر بھروسہ کریں، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں ،نیز اس کے دین و دنیا کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
آیت: 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب کہا جائے تم سے، کشادگی کرو تم مجلسوں میں تو کشادگی کرو تم، کشادگی کرے گا اللہ تمھارے لیے، اور جب کہا جائے، اٹھ کھڑے ہو تم تو کھڑے ہو جایا کرو تم، بلند کرے گا اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے تم میں سے اور ان لوگوں کو جو دیے گئے علم، درجوں میں اور اللہ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے (11)
#
{11} هذا أدبٌ من الله لعباده [المؤمنين] إذا اجتمعوا في مجلس من مجالس مجتمعاتهم، واحتاجَ بعضُهم أو بعضُ القادمين [عليهم] للتفسُّح له في المجلس؛ فإنَّ من الأدب أن يَفْسَحوا له؛ تحصيلاً لهذا المقصود، وليس ذلك بضارٍّ للفاسح شيئاً، فيحصلُ مقصود أخيه من غير ضررٍ يلحقه، والجزاء من جنس العمل؛ فإنَّ من فَسَحَ؛ فَسَحَ الله له، ومن وسَّع لأخيه؛ وسَّع الله عليه، {وإذا قيل انشُزوا}؛ أي: ارتفعوا وتَنَحَّوْا عن مجالسكم لحاجةٍ تعرِضُ، {فانشُزوا}؛ أي: فبادروا للقيام لتحصيل تلك المصلحة؛ فإنَّ القيام بمثل هذه الأمور من العلم والإيمان، والله تعالى يرفع أهل العلم والإيمان درجاتٍ بحسب ما خصَّهم [اللَّه] به من العلم والإيمان. {والله بما تعملونَ خبيرٌ}: فيجازي كلَّ عامل بعمله؛ إن خيراً فخيرٌ، وإن شرًّا فشرٌّ. وفي هذه الآية فضيلة العلم، وأنَّ زينته وثمرتَه التأدُّب بآدابه والعمل بمقتضاه.
[11] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ادب کی تعلیم ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ یا آنے والے دیگر لوگ مجلس میں کشادگی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، پس یہ آداب مجلس کا حصہ ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کی خاطر مجلس میں کشادگی پیدا کریں، یہ چیز کشادگی کرنے والے کو کوئی نقصان نہیں دیتی، لہٰذا اس کو ضرر لاحق ہوئے بغیر اس کے بھائی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور جزا عمل کی جنس میں سے ہوتی ہے، اس لیے جو کوئی اپنے بھائی کے لیے کشادگی پیدا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے کشادگی پیدا کر دیتا ہے، جو کوئی اپنے بھائی کے لیے وسعت پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے وسعت پیدا کرتا ہے۔ ﴿ وَاِذَا قِیْلَ انْ٘شُ٘زُوْا﴾ جب کسی ضرورت کے تحت یہ کہا جائے کہ اٹھ جاؤ اور اپنی مجالس کو چھوڑ دو ﴿ فَانْ٘شُ٘زُوْا﴾ تو اس مصلحت کے حصول کی خاطر فوراً اٹھ جایا کرو۔ کیونکہ اس قسم کے معاملات کا لحاظ رکھنا، علم اور ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل علم و ایمان کے، ان کے علم و ایمان کے مطابق درجات بلند کرتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ہر اس عمل سے جو تم کرتے ہو، خوب خبردار ہے۔‘‘ پس وہ ہر عمل کرنے والے کو ان کے عمل کی جزا دے گا، اگر اچھا عمل ہو گا تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برا عمل ہو گا تو بری جزا ہو گی۔اس آیت کریمہ میں علم کی فضیلت کا اثبات ہے، نیز یہ کہ علم کی زینت اور اس کا ثمرہ اس کے آداب کو اختیار کرنا اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنا ہے۔
آیت: 12 - 13 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (12) أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (13)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب سرگوشی کرو تم رسول سے تو پیش کرو تم پہلے اپنی سرگوشی سے صدقہ، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اور زیادہ پاکیزہ پس اگر نہ پاؤ تم (صدقہ) تو بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے (12) کیا ڈر گئے تم اس بات سے کہ پیش کرو تم پہلے اپنی سرگوشی سے صدقے؟ سو جب نہ کیا تم نے (یہ) اور متوجہ ہوا اللہ تم پر، تو قائم کرو تم نماز اور دو زکاۃ اور اطاعت کرو تم اللہ اور اس کے رسول کی، اور اللہ خوب خبردار ہے ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو (13)
#
{12} يأمر تعالى المؤمنين بالصَّدقة أمام مناجاة رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - تأديباً لهم وتعليماً وتعظيماً للرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ هذا التعظيم خيرٌ للمؤمنين وأطهر؛ أي: بذلك يكثر خيركم وأجركم، وتحصُلُ لكم الطهارة من الأدناس، التي من جملتها ترك احترام الرسول - صلى الله عليه وسلم - والأدبِ معه بكثرة المناجاة التي لا ثمرةَ تحتها؛ فإنَّه إذا أمر بالصدقة بين يدي مناجاتِهِ؛ صار هذا ميزاناً لمن كان حريصاً على العلم والخير ؛ فلا يُبالي بالصدقة، ومَنْ لم يكن له حرصٌ ولا رغبةٌ في الخير، وإنَّما مقصودُه مجرَّدُ كثرة الكلام، فينكفُّ بذلك عن الذي يشقُّ على الرسول، هذا في الواجد للصدقة، وأما الذي لا يجد الصدقة؛ فإنَّ الله لم يضيِّقْ عليه الأمر، بل عفا عنه وسامَحَه وأباح له المناجاة بدون تقديم صدقةٍ لا يقدِرُ عليها.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کی تادیب و تعلیم اور رسول اللہ e کی تعظیم کے لیے ان کو حکم دیتا ہے کہ رسول اللہ e سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دیا کریں کیونکہ یہ تعظیم، اہل ایمان کے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے یعنی ایسا کرنے سے تمھاری بھلائی اور اجر میں اضافہ ہو گا نیز ہر قسم کی گندگی سے طہارت حاصل ہو گی۔ بے فائدہ سرگوشی کے ذریعے سے رسول اللہ e کے ادب و احترام کو ترک کرنا بھی، اسی گندگی میں شمار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ e کے ساتھ سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ کرنے کا حکم دیا تو یہ چیز اس شخص کی پرکھ کے لیے میزان بن گئی جو علم اور بھلائی کا خواہشمند ہے تو وہ صدقے کی پروا نہیں کرے گا۔جسے بھلائی کی حرص ہے نہ رغبت، اس کا مقصد محض کثرت کلام ہے، پس اس طرح وہ ایسے امر سے باز رہے گاجو رسول اللہ e پر شاق گزرتا ہے، یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو صدقہ دے سکتا ہے۔جس کے پاس صدقہ دینے کے لیے کچھ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں اس کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس کو معاف کر دیا اور اس سے نرمی سے کام لیا ہے اور اس شخص کے لیے صدقہ پیش کیے بغیر، جو اس کی قدرت میں نہیں، سرگوشی کرنا مباح ٹھہرا دیا۔
#
{13} ثم لما رأى [تبارك و] تعالى شفقةَ المؤمنين ومشقَّةَ الصدقاتِ عليهم عند كلِّ مناجاةٍ؛ سهَّل الأمر عليهم، ولم يؤاخِذْهم بترك الصدقة بين يدي المناجاة، وبقي التعظيم للرسول والاحترام بحاله لم يُنْسَخْ؛ لأنَّ هذا [الحكمَ] من باب المشروع لغيره، ليس مقصوداً لنفسه، وإنَّما المقصود هو الأدب مع الرسول والإكرام له، وأمرهم تعالى أن يقوموا بالمأمورات الكبارِ المقصودةِ بنفسها، فقال: {فإذْ لم تَفْعَلوا}؛ أي: لم يهنْ عليكم تقديم الصدقةِ، ولا يكفي هذا؛ فإنَّه ليس من شرط الأمر أن يكون هيناً على العبد، ولهذا قيَّده بقوله: {وتاب الله عليكم}؛ أي: عفا لكم عن ذلك، {فأقيموا الصلاة}: بأركانها وشروطها وجميع حدودها ولوازمها، {وآتوا الزَّكاةَ}: المفروضة في أموالكم إلى مستحقِّيها. وهاتان العبادتان هما أمُّ العبادات البدنيَّة والماليَّة؛ فمن قام بهما على الوجه الشرعيِّ؛ فقد قام بحقوق الله وحقوق عباده، ولهذا قال بعده: {وأطيعوا اللهَ ورسولَه}: وهذا أشملُ ما يكون من الأوامر، فيدخُلُ في ذلك طاعة الله وطاعة رسوله بامتثال أوامرِهما واجتنابِ نواهيهما وتصديق ما أخبرا به والوقوفِ عند حدودِ الشرع ، والعبرةُ في ذلك على الإخلاص والإحسان؛ فلهذا قال: {والله خبيرٌ بما تعملون}: فيعلم تعالى أعمالهم، وعلى أيِّ وجه صَدَرَتْ، فيجازيهم على حسب علمه بما في صدورهم.
[13] پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خوف اور ہر سرگوشی کے وقت ان پر صدقات کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا، تو ان پر معاملے کو آسان کر دیا اور سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ ترک کرنے پر مواخذہ نہیں فرمایا، البتہ رسول اللہ e کی تعظیم اور آپ کا احترام باقی رہا اور اس کو منسوخ نہیں فرمایا، کیونکہ سرگوشی سے قبل صدقہ مشروع لغیرہ کے باب سے ہے، فی نفسہ مقصود نہیں۔ اصل مقصد تو رسول اللہ e کا ادب اور اکرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان بڑے بڑے احکام کی تعمیل کریں جو فی نفسہ مقصود ہیں ، چنانچہ فرمایا :﴿ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا﴾ ’’چنانچہ جب تم نے یہ نہ کیا۔‘‘ یعنی صدقہ پیش کرنا تمھارے لیے آسان نہیں تھا اور نہ یہ کافی ہی تھا کیونکہ یہ حکم کی شرط نہیں ہے کہ وہ بندے پر آسان ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے مقید فرمایا: ﴿ وَتَابَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ﴾ یعنی اس نے صدقہ کرنا تم پر معاف کر دیا ﴿ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ ﴾ پس نماز کو اس کے تمام ارکان و شرائط اور اس کی تمام حدود و لوازم کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ اور مستحق لوگوں کو زکاۃ ادا کرو جو تمھارے مال میں سے تم پر فرض ہے۔ یہی دو عبادات، بدنی اور مالی عبادات کی بنیاد ہیں۔ جو کوئی ان عبادات کو شرعی طریقے سے قائم کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو قائم کرتا ہے، بنابریں فرمایا :﴿ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ یہ تمام امور کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر کے، ان کے نواہی سے اجتناب کر کے، ان کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کر کے اور شریعت کی حدود پر رک کر، ان کی اطاعت کرنا سب اس میں داخل ہے۔اس سے عبرت حاصل کرنا اخلاص اور احسان پر مبنی ہے، اسی لیے فرمایا : ﴿ وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ان کے اعمال کسی طرح بھی صادر ہوں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے، پس انھوں نے جو کچھ اپنے سینوں میں چھپا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہوئے اپنے علم کے مطابق ان کو جزا دے گا۔
آیت: 14 - 19 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (14) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (15) اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (16) لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (17) يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ (18) اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (19)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جنھوں نے دوستی کی اس قوم سے کہ غصے ہوا اللہ ان پر، نہیں ہیں وہ تم میں سے اور نہ ان میں سے اور وہ قسمیں کھاتے ہیں جھوٹ پر حالانکہ وہ جانتے ہیں (14) تیار کیا ہے اللہ نے ان کے لیے عذاب شدید بلاشبہ برا ہے وہ جو تھے وہ عمل کرتے (15) بنا لیا ہے انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال پس روکا انھوں نے اللہ کی راہ سے، پس ان کے لیے عذاب ہے رسوا کن (16) ہرگز نہیں فائدہ دیں گے ان کو مال ان کے اور نہ اولاد ان کی اللہ (کے عذاب) سے کچھ بھی، یہی لوگ ہیں جہنمی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (17) جس دن دوبارہ اٹھائے گا ان کو اللہ، سب کو، تو وہ قسمیں کھائیں گے اس کے سامنے بھی جیسے وہ قسمیں کھاتے ہیں تمھاری خاطر اور وہ گمان کریں گے کہ بے شک وہ کسی چیز (فائدے) پر ہیں، آگاہ رہو! بلاشبہ وہی ہیں جھوٹے (18) غالب آ گیا ہے ان پر شیطان پس اس نے بھلا دیا ان کو ذکر اللہ کا، یہ لوگ لشکر ہیں شیطان کا، آگاہ رہو! یقیناً لشکر شیطان کا، وہی ہیں خسارہ پانے والے(19)
#
{14 ـ 15} يخبر تعالى عن شناعة حال المنافقين، الذين يَتَوَلَّوْنَ الكافرين من اليهود والنصارى وغيرهم ممَّن غَضِبَ الله عليهم ونالوا من لعنةِ الله أوفى نصيبٍ، وأنَّهم ليسوا من المؤمنين ولا من الكافرين: {مُذَبْذَبين بين ذلك لا إلى هؤلاءِ ولا إلى هؤلاءِ}: فليسوا مؤمنين ظاهراً وباطناً؛ لأنَّ باطنهم مع الكفار، ولا مع الكفار ظاهراً وباطناً؛ لأنَّ ظاهرهم مع المؤمنين، وهذا وصفهم الذي نعتهم الله به، والحالُ أنَّهم يحلفون على ضدِّه الذي هو الكذب، فيحلفون أنَّهم مؤمنون، والحال أنَّهم ليسوا مؤمنين، فجزاءُ هؤلاء الخونة الفجرة الكَذَبة أنَّ الله أعدَّ لهم عذاباً شديداً لا يقادَرُ قدرُه ولا يُعْلَم وصفُه؛ {إنَّهم ساء ما كانوا يعملون}: حيث عملوا بما يُسْخِطُ الله ويوجِبُ عليهم العقوبة واللعنة.
[14، 15] اللہ تبارک و تعالیٰ نے منافقین کے احوال کی شناعت و قباحت کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے دوستی اور موالات رکھتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ اہل ایمان میں سے ہیں نہ کفار میں سے بلکہ﴿ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖ ۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَلَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ﴾ (النساء:4؍143) ’’ایمان اور کفر کے درمیان تذبذب کی حالت میں ہیں، نہ پورے مومنین کی طرف ہیں نہ پورے کفار کی طرف۔‘‘ پس وہ ظاہر و باطن میں مومن نہیں ہیں، کیونکہ ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے، اور نہ وہ ظاہر و باطن میں کفار ہی کے ساتھ ہیں، کیونکہ ان کا ظاہر اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ یہ ہے ان کا وصف جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، وہ قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ مومن ہیں، حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔ ان جھوٹے، فاجر و خائن لوگوں کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس قدر سخت عذاب تیار کر رکھا ہے جس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کا وصف معلوم کیا جا سکتا ہے، بہت ہی برے ہیں وہ اعمال جو ان سے صادر ہوتے ہیں، وہ ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور ان پر عذاب اور لعنت واجب ٹھہراتا ہے۔
#
{16} {اتَّخذوا أيمانَهم جُنَّةً}؛ أي: ترساً ووقايةً يتَّقون بها من لوم الله ورسوله والمؤمنين، فبسبب ذلك صدُّوا أنفسهم وغيرهم عن سبيل الله، وهو الصراط الذي مَن سَلَكَه؛ أفضى به إلى جنات النعيم، ومن صدَّ عنه؛ فليس إلاَّ الصراط الموصل إلى الجحيم، {فلهم عذابٌ مهينٌ}: حيث استَكْبَروا عن الإيمان بالله والانقياد لآياته؛ أهانهم بالعذاب السرمديِّ الذي لا يُفَتَّر عنهم ساعةً ولا هم يُنْظَرونَ.
[16] ﴿ اِتَّؔخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً﴾ یعنی وہ اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل ایمان کی ملامت سے بچتے ہیں اسی سبب سے وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہیں اور یہ وہ راستہ ہے کہ جو کوئی اس پر گامزن ہوتا ہے، یہ راستہ اسے جنت میں لے جاتا ہے۔ اور جو کوئی اس راستے سے منہ موڑتا ہے، تو اس کے لیے صرف وہ راستہ رہ جاتا ہے جو اسے جہنم میں گراتا ہے ﴿ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ﴾ ’’چنانچہ ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ کیونکہ جب وہ تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے اور انھوں نے اس کی آیات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دائمی عذاب کے ذریعے سے ذلیل و رسوا کیا، جو گھڑی بھر کے لیے بھی ان سے علیحدہ نہیں ہو گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔
#
{17} {لن تُغْنِيَ عنهم أموالُهم ولا أولادُهم من الله شيئاً}؛ أي: لا تَدْفَعُ عنهم شيئاً من العذاب، ولا تحصِّلُ لهم قسطاً من الثواب، {أولئك أصحابُ النار}: الملازمون لها، الذين لا يخرُجون عنها، و {هم فيها خالدون}.
[17] ﴿ لَ٘نْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْـًٔؔا﴾ ’’ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں ہرگز کچھ کام نہ آئیں گی۔‘‘ یعنی ان کا مال اور اولاد، ان سے عذاب کو ہٹا سکیں گے نہ ثواب کا کچھ حصہ ان کے لیے حاصل کر سکیں گے ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ﴾ وہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہنے والے ہیں، جو کبھی عذاب سے باہر نہ نکلیں گےاور ﴿ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
#
{18} ومن عاش على شيءٍ؛ مات عليه؛ فكما أنَّ المنافقين في الدُّنيا يموِّهون على المؤمنين ويحلفون لهم أنَّهم مؤمنون، فإذا كان يوم القيامةِ وبعثَهُم الله جميعاً؛ حلفوا لله كما حلفوا للمؤمنين، ويحسبون في حلفهم هذا {أنَّهم على شيءٍ}: لأنَّ كفرهم ونفاقهم وعقائدهم الباطلة لم تَزَلْ تَرْسخُ في أذهانهم شيئاً فشيئاً، حتى غرَّتهم وظنُّوا أنَّهم على شيءٍ يعتدُّ به ويعلَّقُ عليه الثواب، وهم كاذبون في ذلك، ومن المعلوم أن الكذِبَ لا يروجُ على عالم الغيب والشهادة.
[18] جو کوئی جس چیز پر ساری زندگی بسر کرتا ہے اسی پر مرتا ہے۔ جیسے منافقین دنیا کے اندر اہل ایمان کے ساتھ دھوکا کرتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر ان سے کہتے ہیں کہ وہ مومن ہیں۔ وہ اپنے اس حلف کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ کسی چیز پر قائم ہیں، کیونکہ ان کا کفر و نفاق اور ان کے باطل عقائد ان کے اذہان میں آہستہ آہستہ راسخ ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان عقائد نے ان کو دھوکے میں مبتلا کر دیا اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ معتد بہ موقف پر ہیں جس پر ثواب کا دار و مدار ہے، حالانکہ وہ ایسا سمجھنے میں جھوٹے ہیں۔ اور یہ معلوم ہے کہ غائب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی کے سامنے جھوٹ نہیں چل سکتا۔
#
{19} وهذا الذي جرى عليهم من استحواذِ الشيطان الذي استولى عليهم وزَيَّنَ لهم أعمالهم وأنساهم ذِكْرَ الله، وهو العدوُّ المبينُ الذي لا يريدُ بهم إلاَّ الشرَّ، إنَّما يدعو حِزْبَه ليكونوا من أصحاب السعير، {أولئك حزبُ الشيطان ألا إنَّ حزبَ الشيطانِ هم الخاسرون}: الذين خسروا دينَهم ودُنياهم وأنْفُسَهم وأهليهم.
[19] یہ ان پر شیطان کا غلبہ ہے جس نے ان پر قابو پا رکھا ہے، اس نے ان کے سامنے ان کے اعمال آراستہ کر دیے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرا دیا۔ وہ ان کا کھلا دشمن ہے اور ان کے ساتھ صرف برائی چاہتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾(فاطر: 35؍6)’’وہ تو اپنے گروہ کے لوگوں کو اپنی راہ پر اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والوں میں شامل ہو جائیں۔‘‘ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ الشَّ٘یْطٰ٘نِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ﴾ ’’یہ شیطان کی پارٹی ہے۔ سن لو! شیطان ہی کی پارٹی نقصان اٹھانے والی ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دین و دنیا، اپنے اہل و عیال اور گھر بار کے بارے میں خسارے میں پڑ گئے۔
آیت: 20 - 21 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ (20) كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (21)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کےرسول کی یہ لوگ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں (20) لکھ رکھا ہے اللہ نے کہ ضرور غالب آؤں گا میں اور میرے رسول، بلاشبہ اللہ قوی ہے، بڑا زبردست (21)
#
{20 ـ 21} هذا وعدٌ ووعيدٌ، وعيدٌ لمن حادَّ الله ورسوله بالكفر والمعاصي أنَّه مخذولٌ مذلولٌ لا عاقبةَ له حميدةٌ، ولا رايةَ له منصورةٌ، ووعدٌ لمن آمن به وبرسله واتَّبع ما جاء به المرسلون فصار من حزبِ الله المفلحين أنَّ لهم الفتحَ والنصرَ والغلبةَ في الدُّنيا والآخرة، وهذا وعدٌ لا يُخْلَفُ ولا يغيَّر؛ فإنَّه من الصادق القويِّ العزيز الذي لا يعجِزُه شيءٌ يريده.
[21,20] یہ وعد ہ اور وعید ہے۔ وعید اس شخص کے لیے جو کفر و معاصی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (e) کے ساتھ دشمنی کرتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ بے یار و مددگار اور ذلیل و رسوا ہے، اس کا انجام قابل تعریف ہے نہ اس کی مدد کی جائے گی۔ وعدہ اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہے، جو کچھ انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں، ان کی اتباع کرتا ہے، پس وہ اللہ کے گروہ میں شامل ہو گیا جو فلاح یاب لوگوں پر مشتمل ہے، ان کے لیے فتح و نصرت اور دنیا و آخرت میں غلبہ ہے۔ یہ ایسا وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی کی جائے گی نہ اس میں تغیر و تبدل کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ ایسی ہستی کا وعدہ ہے جو سچی، نہایت طاقت ور اور غالب ہستی ہے، وہ ہستی جو چاہتی ہے وہ چیز اسے عاجز اور بے بس نہیں کر سکتی۔
آیت: 22 #
{لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22)}.
نہیں پائیں گے آپ کسی قوم کو جو ایمان رکھتے ہوں اللہ اور دن آخرت پر، کہ وہ دوستی کریں ان سے جو مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کےرسول کی، اگرچہ ہوں وہ ان کے باپ، یا ان کے بیٹے ،یا ان کے بھائی، یا ان کا قبیلہ ہی ،یہ لوگ، لکھ دیا ہے (اللہ نے) ان کے دلوں میں ایمان اور تائید کی ان کی ساتھ ایک روح کے اپنی طرف سے اور داخل کرےگا انھیں ایسے باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں، راضی ہو گیا اللہ ان سے اور وہ راضی ہو گئے اس سے، یہ لوگ گروہ ہیں اللہ کا، آگاہ رہو! یقیناً گروہ اللہ کا، وہی ہیں فلاح پانے والے (22)
#
{22} يقول تعالى: {لا تَجِدُ قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخرِ يوادُّونَ من حادَّ الله ورسولَه}؛ أي: لا يجتمع هذا وهذا، فلا يكون العبدُ مؤمناً بالله واليوم الآخر حقيقةً إلاَّ كان عاملاً على مقتضى إيمانه ولوازمه من محبَّةِ مَنْ قام بالإيمان وموالاته وبُغْضِ مَنْ لم يَقُمْ به ومعاداتِهِ، ولو كان أقربَ الناس إليه، وهذا هو الإيمان على الحقيقة، الذي وجدت ثمرته والمقصود منه، وأهل هذا الوصف هم الذين {كَتَبَ} الله {في قلوبهم الإيمان}؛ أي: رسمه وثبَّته وغرسه غرساً لا يتزلزلُ ولا تؤثِّر فيه الشُّبه والشُّكوك، وهم الذين قواهم الله {بروح منه}؛ أي: بوحيه ومعونته ومدده الإلهي وإحسانه الرباني وهم الذين لهم الحياة الطيبة في هذه الدار، ولهم جناتُ النعيم في دار القرار، التي فيها كلُّ ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين وتختارُ، ولهم أفضل النعيم وأكبره ، وهو أنَّ اللهَ يُحِلُّ عليهم رضوانَه؛ فلا يسخطُ عليهم أبداً، ويرضَوْن عن ربِّهم بما يعطيهم من أنواع الكرامات ووافر المَثوبات وجزيل الهِبات ورفيع الدَّرجات؛ بحيث لا يَرَوْنَ فوق ما أعطاهم مولاهم غايةً ولا وراءه نهايةً، وأما مَنْ يزعُمُ أنَّه يؤمن بالله واليوم الآخر، وهو مع ذلك موادٌّ لأعداء الله محبٌّ لمن نَبَذَ الإيمان وراء ظهرِهِ؛ فإنَّ هذا إيمانٌ زعميٌّ لا حقيقة له؛ فإنَّ كلَّ أمرٍ لا بدَّ له من برهانٍ يصدِّقه؛ فمجرَّدُ الدعوى لا تفيدُ شيئاً ولا يصدَّقُ صاحبها. والحمد لله.
[22] اے نبی! آپ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے۔ یعنی یہ دونوں رویے ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ ایمان کے تقاضوں اور اس کے لوازم پر عمل نہیں کرتا اور ایمان کو قائم کرنے والے کے ساتھ محبت اور موالات رکھنا یہ ہے کہ اس شخص کے ساتھ بغض اور عداوت رکھی جائے جو ایمان کو قائم نہیں کرتا، خواہ وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے وہ حقیقی ایمان جس کا پھل ملتا ہے اور جس سے مقصود حاصل ہوتا ہے۔ اس وصف کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے یعنی اس کور اسخ اور ثابت کر دیا ہے اور ان کے دلوں میں شجر ایمان کو اگا دیا ہے جو کبھی متزلزل ہو سکتا ہے نہ شکوک و شبہات اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے روح کے ذریعے سے طاقت ور بنایا ہے یعنی اپنی وحی، اپنی معرفت، مدد الٰہی اور اپنے احسان ربانی کے ذریعے سے تائید کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اس دنیا میں حیات طیبہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے نعمتوں بھری جنتیں ہیں، جہاں ہر وہ چیز ہو گی جو دل چاہیں گے۔ جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گی اور اسے پسند کریں گی، ان کے لیے ایک سب سے بڑی اور افضل ترین نعمت ہو گی اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رضا نازل فرمائے گا اور ان سے کبھی ناراض نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ ان کو جو اکرام و تکریم کی مختلف انواع سے نوازے گا، ان کو جو وافر ثواب عطا کرے گا، جو بے پایاں عنایات سے بہرہ مند اور ان کے درجات بلند کرے گا، وہ اس پر اپنے رب سے راضی ہوں گے، وہ اس طرح کہ ان کے مولا نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہو گا، اس کی کوئی انتہا ان کو نظر نہیں آئے گی۔ رہا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کا زعم رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ مودت و موالات بھی رکھتا ہے، اور ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جنھوں نے ایمان کو پس پشت ڈال رکھا ہےتو یہ ایمان کا محض خالی خولی دعویٰ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ ہر دعوے کے لیے کسی دلیل کا ہونا لازمی ہے جو اس کی تصدیق کرے۔ پس مجرد دعویٰ کسی کام نہیں آتا اور ایسا دعویٰ کرنے والے کی تصدیق نہیں کی جاتی۔