آیت:
تفسیر سورۂ حدید
تفسیر سورۂ حدید
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (5) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (6)}.
تسبیح کرتی ہے اللہ کی جو چیز بھی ہے آسمانوں اور زمین میں اور وہ زبردست ہے، حکمت والا(1) اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے(2) وہی اول اور آخر اور ظاہر اور باطن ہے اور وہی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے(3) وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں، پھر مستوی ہو گیا عرش پر وہ جانتا ہے جو چیز داخل ہوتی ہے زمین میں اور جو نکلتی ہے اس سے اور جو چیز اترتی ہے آسمان سے اور جو اوپر چڑھتی ہے اس میں اور وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں ہو تم اور اللہ اس کو، جو تم عمل کرتے ہو، دیکھنے والا ہے(4) اس کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تمام امور(5) وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور وہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے(6)
#
{1} يخبرُ تعالى عن عظمته وجلاله وسعة سلطانِهِ أنَّ جميع {ما في السمواتِ والأرض} من الحيوانات الناطقة [والصامتة] وغيرها والجوامد تسبِّحُ بحمد ربِّها وتنزِّهه عمَّا لا يليق بجلاله، وأنها قانتةٌ لربِّها، منقادةٌ لعزَّته، قد ظهرت فيها آثار حكمته، ولهذا قال: {وهو العزيز الحكيم}؛ فهذا فيه بيان عموم افتقار المخلوقات العلويَّة والسفليَّة لربِّها في جميع أحوالها، وعموم عزَّته وقهره للأشياء كلِّها، وعموم حكمته في خلقه وأمره.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی عظمت و جلال اور اپنی لا محدود قوت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات، حیوانات ناطقہ اور جمادات وغیرہ، اپنے رب کی حمد و ستائش کے ساتھ، اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور ان اوصاف سے اسے منزہ قرار دے رہے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں، نیز یہ کہ تمام موجودات اپنے رب کی مطیع اور اس کے غلبہ کے سامنے سرنگوں ہے۔ ان موجودات میں اس کی حکمت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ ’’اور وہ زبردست باحکمت ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوقات اپنے تمام احوال میں ہر لحاظ سے اپنے رب کی محتاج ہے، اس کے لا محدود غلبہ و قہر نے تمام اشیاء کو مغلوب و مقہور کر رکھا ہے اور اس کی حکمت عامہ اس کے خلق و امر میں جاری و ساری ہے۔
#
{2} ثم أخبر عن عموم ملكه، فقال: {له ملكُ السمواتِ والأرضِ يحيي ويميتُ}؛ أي: هو الخالق لذلك، الرازق المدبِّر لها بقدرته، {وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ}.
[2] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے لا محدود اقتدار کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا :﴿ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١ۚ یُحْیٖ وَیُـمِیْتُ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات کا خالق، رازق اور اپنی قدرت کے ساتھ ان کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ﴿ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
#
{3} {هو الأولُ}: الذي ليس قبلَه شيءٌ. {والآخر}: الذي ليس بعدَه شيءٌ. {والظاهر}: الذي ليس فوقَه شيءٌ. {والباطن}: الذي ليس دونَه شيءٌ. {وهو بكلِّ شيءٍ عليمٌ}: قد أحاط علمُه بالظواهر والبواطن والسرائر والخفايا والأمور المتقدِّمة والمتأخِّرة.
[3] ﴿ هُوَ الْاَوَّلُ﴾ جس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی ﴿ وَالْاٰخِرُ﴾ جس کے بعد کوئی چیز نہ ہو گی۔ ﴿ وَالظَّاهِرُ﴾ جس کے اوپر کوئی چیز نہیں ﴿ وَالْبَاطِنُ﴾ جس سے پرے کوئی چیز نہیں ﴿ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ اس کے علم نے تمام ظواہرو بواطن، تمام بھیدوں ، مخفی چیزوں اور تمام متقدم اور متأخر امور کا احاطہ کر رکھا ہے۔
#
{4} {هو الذي خلق السمواتِ والأرضَ في ستَّة أيام}: أولُها يومُ الأحد، وآخرُها يومُ الجمعة، {ثم استوى على العرش}: استواءً يَليقُ بجلاله فوق جميع خلقه، {يعلم ما يَلِجُ في الأرض}: من حبٍّ وحيوانٍ ومطرٍ وغير ذلك، {وما يخرج منها}: من نبتٍ وشجرٍ وحيوان وغير ذلك، {وما ينزِلُ من السماء}: من الملائكة والأقدار والأرزاق، {وما يَعْرُجُ فيها}: من الملائكة والأرواح والأدعية والأعمال وغير ذلك، {وهو معكم أينما كُنتم}؛ كقوله: {ما يكون من نجوى ثلاثةٍ إلاَّ هو رابِعُهم ولا خمسةٍ إلاَّ هو سادسُهم ولا أدنى من ذلك ولا أكثر إلاَّ هو معهم أينما كانوا}: وهذه المعيَّة معيَّةُ العلم والاطِّلاع، ولهذا توعَّد ووعد بالمجازاة بالأعمال بقوله: {والله بما تعلمون بصيرٌ}؛ أي: هو تعالى بصيرٌ بما يصدر منكم من الأعمال وما صدرت عنه تلك الأعمال من برٍّ وفجورٍ؛ فمجازيكمعليها وحافظها عليكم.
[4] ﴿ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّ٘امٍ﴾ ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔‘‘ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا۔ ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ﴾ ’’پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ تمام مخلوقات کے اوپر، وہ استوا جو اس کے جلال کے لائق ہے ﴿ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ﴾ اناج کا دانہ، کوئی حیوان اور بارش وغیرہ جو کچھ بھی زمین میں داخل ہوتاہے ، وہ اسے جانتا ہے۔ ﴿ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا﴾ نباتات، درخت اور حیوانات وغیرہ جو اس سے نکلتے ہیں، وہ انھیں جانتا ہے ﴿ وَمَا یَنْ٘زِلُ مِنَ السَّمَآءِ﴾ آسمان سے جو فرشتے، تقدیریں اور رزق نازل ہوتے ہیں ﴿ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا﴾ فرشتے، ارواح، دعائیں اور اعمال وغیرہ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہے ﴿ وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ ’’اور وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰ٘ثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَیْنَ مَا كَانُوْا﴾ (المجادلہ:58؍7)’’تین آدمی کوئی سرگوشی کرتے ہیں تو چوتھا وہ ہوتا ہے، پانچ آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو چھٹا وہ ہوتا ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔‘‘ اور یہ معیت، علم اور اطلاع کی معیت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اعمال کی جزا و سزا کا وعدہ کیا ہے، فرمایا : ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال کو دیکھتا ہے جو تم سے صادر ہوتے ہیں اور یہ اچھے برے اعمال جو اس کی طرف لوٹتے ہیں، وہ تمھیں ان کی جزا دے گا اور ان کو تمھارے لیے محفوظ رکھے گا۔
#
{5} {له ما في السمواتِ والأرضِ}: ملكاً وخلقاً وعبيداً يتصرَّف فيهم بما شاءه من أوامره القدريَّة والشرعيَّة الجارية على الحكمة الربَّانيَّة، {وإلى الله تُرْجَعُ الأمور}: من الأعمال والعمال، فيعرض عليه العبادُ، فيميز الخبيثُ من الطيِّب، ويجازي المحسن بإحسانه والمسيء بإساءته.
[5] ﴿ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ملکیت، تخلیق اور عبدیت کے اعتبار سے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے، وہ اپنے اوامر کونی و قدری اور اوامر شرعی جو حکمت ربانی کے مطابق جاری و ساری ہیں، کے ذریعے سے ان میں جو چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ ﴿ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ﴾ تمام اعمال اور عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ بندے اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے، پس وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کر دے گا، وہ نیکو کار کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی بدی کا بدلہ دے گا۔
#
{6} {يولِجُ الليل في النَّهار ويولِجُ النهارَ في الليل}؛ أي: يدخِلُ الليل على النهار، فيغشيهم الليل بظلامه، فيسكنون ويهدؤون، ثم يُدْخِلُ النهار على الليل، فيزول ما على الأرض من الظلام، ويضيء الكون، فيتحرَّك العباد، ويقومون إلى مصالحهم ومعايشهم، ولا يزال اللهُ يكوِّر الليلَ على النهار والنهارَ على الليل، ويداول بينهما في الزيادة والنقص والطول والقصر، حتى تقومَ بذلك الفصول وتستقيمَ الأزمنة ويحصلَ من المصالح بذلك ما يحصل ، فتبارك الله ربُّ العالمين، وتعالى الكريم الجواد الذي أنعم على عباده بالنعم الظاهرة والباطنة، {وهو عليمٌ بذات الصُّدور}؛ أي: بما يكون في صدور العالمين، فيوفِّق مَنْ يعلم أنَّه أهلٌ لذلك، ويخذُلُ من يعلم أنَّه لا يَصْلُحُ لهدايتِهِ.
[6] ﴿ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ﴾ رات دن پر چھا جاتی ہے اور اپنی تاریکی کے ساتھ اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور انسان آرام کرتے ہیں، پھر دن رات پر چھا جاتا ہے، تب زمین پر چھائی ہوئی تمام تاریکی زائل ہو جاتی ہے، تمام کون و مکان روشن ہو جاتے ہیں۔ تب بندے بھی متحرک ہو جاتے ہیں اور اپنے مصالح اور معاش کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا رہتا ہے، ان دونوں کے درمیان، اضافے اور کمی، طول اور قصر کو ادل بدل کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اس سے موسم جنم لیتے ہیں اور زمانوں کا حساب درست رہتا ہے اور بہت سے مصالح حاصل ہوتے ہیں۔ بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام کائنات کا رب ہے جو بہت بلند، فضل و کرم کا مالک اور جواد ہے جس نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا: ﴿ وَهُوَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی جو کچھ تمام کائنات (والوں) کے سینوں میں ہے، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ ہدایت کا اہل ہے، اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ ہدایت کا اہل نہیں، اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
آیت: 7 - 11 #
{آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ (7) وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (8) هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (9) وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (10) مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ (11)}.
ایمان لاؤ ساتھ اللہ اور اس کےرسول کے اور خرچ کرو اس میں سے کہ بنایا ہے اس (اللہ) نے تمھیں جانشین اس میں پس وہ لوگ جو ایمان لائے تم میں سے اور انھوں نے خرچ کیا، ان کے لیے اجر ہے بہت بڑا(7) اور کیا ہے تمھیں کہ نہیں ایمان لاتے تم ساتھ اللہ کے، جبکہ رسول بلاتا ہے تمھیں تاکہ تم ایمان لاؤ ساتھ اپنے رب کے، اور تحقیق وہ لے چکا ہے پختہ وعدہ تم سے؟ اگر ہو تم ایمان لانے والے(8) وہی ہے جو نازل کرتا ہے اپنے بندے پر آیتیں واضح تاکہ وہ نکالے تمھیں اندھیروں سے اجالے کی طرف، اور بلاشبہ اللہ تم پر نہایت شفیق بڑا رحم کرنے والا ہے(9) اور کیا ہے تمھیں یہ کہ نہ خرچ کرو تم اللہ کی راہ میں؟ اور اللہ ہی کے لیے ہے میراث آسمانوں اور زمین کی، نہیں برابر تم میں سے وہ جس نے خرچ کیا پہلے فتح (مکہ) سے اور لڑائی کی یہ لوگ زیادہ عظیم ہیں درجے میں ان لوگوں سے جنھوں نے خرچ کیا اس کے بعد اور لڑائی کی اور ہر ایک سے وعدہ کیا ہے اللہ نے نیک جزا کا اور اللہ، ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے (10) کون ہے وہ جو قرض دے اللہ کو قرض حسنہ؟ پھر وہ (اللہ) بڑھا دے اس کو اس کے لیے؟ اور اس کے لیے ہے اجر عمدہ (11)
#
{7} يأمر تعالى عبادَه بالإيمان به، وبرسوله وبما جاء به، وبالنفقة في سبيله من الأموال التي جعلها الله في أيديهم واستخْلَفَهم عليها؛ لينظر كيف يعملونَ. ثم لمَّا أمرهم بذلك؛ رغَّبهم وحثَّهم عليه بذكر ما رتَّب عليه من الثواب، فقال: {فالذين آمنوا منكم وأنفقوا لهم أجرٌ كبيرٌ}؛ أي: الذين جمعوا بين الإيمان بالله ورسوله والنفقة في سبيله لهم أجرٌ كبيرٌ، أعظمه وأجلُّه رِضا ربِّهم والفوزُ بدار كرامته وما فيها من النعيم المقيم الذي أعدَّه الله للمؤمنين والمجاهدين.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو، اللہ اور اس کے رسول اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے اور اللہ کے راستے میں وہ مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس نے ان کے اختیار میں دیا ہے اور اس پر ان کو خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، پھر جب اس نے یہ حکم دیا تو اس نے ان کے سامنے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کے ثواب کا ذکر کر کے ان کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اس پر آمادہ کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا﴾ یعنی جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کو جمع کیا ﴿ لَهُمْ اَجْرٌؔ كَبِیْرٌ ﴾ ’’ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ اس میں سے عظیم ترین اور جلیل ترین اجر، اپنے رب کی رضا، اللہ تعالیٰ کا اکرام و تکریم والا گھر اور اس کے اندر ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مومنین اور مجاہدین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔
#
{8} ثم ذكر السَّبب الداعي لهم إلى الإيمان وعدم المانع منه، فقال: {وما لكم لا تؤمنونَ بالله والرسولُ يَدْعوكم لِتُؤْمِنوا بربِّكُم وقد أخذ ميثاقَكُم إن كنتُم مؤمنينَ}؛ أي: وما الذي يمنعكم من الإيمانِ والحالُ أنَّ الرسول محمداً - صلى الله عليه وسلم - أفضلُ الرسل وأكرمُ داعٍ دعا إلى الله يدعوكم؟! فهذا مما يوجِبُ المبادرة إلى إجابة دعوتِهِ والتلبيةِ والإجابةِ للحقِّ الذي جاء به، وقد أخذ عليكم العهدَ والميثاق بالإيمان إن كنتُم مؤمنين.
[8] پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جو انھیں ایمان کی دعوت دیتا ہے اور عدم مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ۚ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْؔكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ یعنی وہ کون سی چیز ہے جو تمھیں ایمان لانے سے روکتی ہے حالانکہ رسول مصطفیٰ محمدe جو سب سے افضل رسول اور سب سے اچھے داعی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ اس دعوت کو قبول کرنے اور حق کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے جلدی سے آگے بڑھنا چاہیے جسے محمد e لے کر تشریف لائے ہیں، اللہ تعالیٰ تم سے ایمان لانے کا عہد اور میثاق لے چکا ہے، اگر تم مومن ہو تو تمھیں یہ کام کرنا چاہیے۔
#
{9} ومع ذلك من لطفه وعنايته بكم أنَّه لم يكتفِ بمجرَّد دعوة الرسول الذي هو أشرف العالَم، بل أيَّده بالمعجزات، ودلَّكم على صدق ما جاء به بالآيات البيِّنات؛ فلهذا قال: {هو الذي يُنَزِّلُ على عبدِهِ آياتٍ بيناتٍ}؛ أي: ظاهرات تدلُّ أهل العقول على صحَّة جميع ما جاء به، وأنَّه الحقُّ اليقين؛ {لِيُخْرِجَكم}: بإرسال الرسول إليكم وما أنزله الله على يده من الكتاب والحكمة {من الظُّلُمات إلى النور}؛ أي: من ظلمات الجهل والكفر إلى نور العلم والإيمان. وهذا من رحمته بكم ورأفته؛ حيث كان أرحم بعباده من الوالدة بولدها، {وإنَّ الله بكم لَرءوفٌ رحيمٌ}.
[9] اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا تم پر لطف و کرم اور اس کی عنایت ہے کہ اس نے صرف رسول کی دعوت پر اکتفا نہیں کیا جو تمام کائنات میں سب سے زیادہ شرف کے حامل ہیں بلکہ معجزات کے ذریعے سے اس رسول کی تائید کی اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے، اس کی صداقت پر تمھارے سامنے واضح دلائل پیش کیے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۭؔ بَیِّنٰؔتٍ﴾ ’’وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے۔‘‘ یعنی ایسی ظاہری نشانیاں نازل فرمائیں جو رسول اللہ e لے کر آئے ہیں، اس کی صداقت پر عقل مندوں کی راہ نمائی کرتی ہیں، نیز یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہی حق الیقین ہے۔ ﴿ لِّیُخْرِجَكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ تمھیں نکالے۔‘‘ تمھاری طرف رسول مبعوث کر کے، اور اس کتاب وحکمت کے ذریعے سے جو اس نے اس رسول کے ہاتھ پر اتاری۔ ﴿ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ ’’اندھیروں سے اجالے کی طرف۔‘‘ یعنی تمھیں جہالت اور کفر کی تاریکیوں سے نکال کر علم و ایمان کی روشنی میں لائے۔ یہ تم پر اس کی رحمت و رأفت ہے، وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتنی ماں اپنے بچے پر رحیم ہے ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تم پر بہت شفقت کرنے والا (اور) نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
#
{10} {وما لكم ألاَّ تُنفِقوا في سبيل اللهِ وللهِ ميراثُ السمواتِ والأرض}؛ أي: وما الذي يمنعكم من النَّفقة في سبيل الله؟ وهي طرق الخير كلُّها، ويوجب لكم أن تبخلوا، {و} الحال أنَّه ليس لكم شيءٌ، بل {لله ميراثُ السمواتِ والأرض}: فجميع الأموال ستنتقلُ من أيديكم أو تنقلون عنها، ثم يعود الملك إلى مالكه تبارك وتعالى؛ فاغتنموا الإنفاق ما دامت الأموال في أيديكم، وانتهِزوا الفرصة. ثم ذَكَرَ تعالى تفاضُلَ الأعمال بحسب الأحوال والحكمة الإلهيَّة، فقال: {لا يستوي منكم من أنفقَ من قبل الفتح وقاتَلَ أولئك أعظمُ درجةً من الذين أنفقوا من بعدُ وقاتَلوا}: المراد بالفتح هنا هو فتحُ الحُدَيْبِيَةِ، حين جرى من الصُّلح بين الرسول وبين قريش، مما هو أعظم الفتوحات التي حصل فيها نشرُ الإسلام واختلاطُ المسلمين بالكافرين والدَّعوة إلى الدين من غير معارض، فدخل الناس من ذلك الوقت في دين الله أفواجاً، واعتزَّ الإسلام عزًّا عظيماً، وكان المسلمون قبل هذا الفتح لا يقدرون على الدَّعوة إلى الدين في غير البقعة التي أسلم أهلُها كالمدينة وتوابعها، وكان مَنْ أسلم من أهل مكَّة وغيرها من ديار المشركين يُؤْذَى ويَخَافُ؛ فلذلك كان مَنْ أسلم قبل الفتح [وأنفق] وقاتل أعظمَ درجةً وأجراً وثواباً ممَّن لم يسلمْ ويقاتِلْ وينفقْ إلاَّ بعد ذلك؛ كما هو مقتضى الحكمة، ولهذا كان السابقون وفضلاء الصحابة غالبهم أسلم قبل الفتح. ولمَّا كان التفضيلُ بين الأمور قد يُتَوَهَّم منه نقصٌ وقدحٌ في المفضول؛ احترز تعالى من هذا بقوله: {وكلًّا وَعَدَ الله الحسنى}؛ أي: الذين أسلموا وقاتلوا وأنفقوا من قبل الفتح وبعده كلُّهم وَعَدَه الله الجنة. وهذا يدلُّ على فضل الصحابة كلِّهم رضي الله عنهم، حيث شهد الله لهم بالإيمان ووعَدَهم الجنة. {والله بما تعملونَ خبيرٌ}: فيجازي كلًّا منكم على ما يعلمه من عمله.
[10] ﴿ وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی وہ کون سی چیز ہے جس نے تمھیں انفاق فی سبیل اللہ سے روکا ہے اور ﴿سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ سے مراد تمام تر بھلائی کے راستے ہیں اورتم پر واجب کیا ہے کہ تم بخل نہ کرو۔‘‘ ﴿ وَ﴾ حالانکہ کوئی چیز تمھاری ملکیت میں نہیں ہے بلکہ ﴿ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ ہی کی میراث ہیں۔‘‘ پس تمام اموال تمھارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے یا تم انھیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے، پھر یہ ملکیت اس کے حقیقی مالک، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گی۔پس جب تک یہ اموال تمھارے ہاتھ میں ہیں، اللہ کے راستے میں خرچ کر کے فائدہ اٹھاؤ اور فرصت کو غنیمت سمجھو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے احوال اور حکمت الٰہیہ کے مطابق، اعمال کی ایک دوسرے پر فضیلت کا ذکر کیا ، چنانچہ فرمایا: ﴿ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْ٘فَ٘تْحِ وَقٰتَلَ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا﴾ ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور قتال کیا وہ برابر نہیں بلکہ ان کے درجے ان لوگوں سے بہت بڑے ہیں جنھوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیا۔‘‘ یہاں فتح سے مراد فتح حدیبیہ ہے، جب رسول اللہ e اور قریش کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا، جو درحقیقت سب سے بڑی فتح تھی، اس صلح کے دوران میں اسلام کی نشر و اشاعت ہوئی، مسلمانوں اور کفار کے درمیان میل جول ہوا اور کسی مخالفت کے بغیر دین کی دعوت دی گئی۔ اس عرصے میں لوگ اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اسلام کو عزت و غلبہ حاصل ہوا۔اس فتح سے قبل مسلمان دین کی دعوت نہیں دے سکتے تھے سوائے ان علاقوں کے ، جہاں کے رہنے والوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، جیسے مدینہ منورہ اور اس کے تابع علاقے۔ اہل مکہ میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا انھیں ایذائیں برداشت کرنا پڑیں اور انھیں سخت خوف کا سامنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس کسی نے فتح سے قبل اسلام قبول کر کے جہاد کیا، اس کا اجر و ثواب اور درجہ اس شخص کے درجہ سے زیادہ بڑا ہے جس نے فتح کے بعد اسلام قبول کر کے جہاد کیا اور اللہ کے راستے میں خرچ کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابقین اولین اور فضلائے صحابہ کی غالب اکثریت نے فتح سے قبل اسلام قبول کیا۔چونکہ بعض معاملات کے درمیان فضیلت دینے سے کبھی کبھی مفضول میں نقص اور قدح متوہم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے احتراز کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى﴾ یعنی وہ لوگ جو فتح سے پہلے اور اس کے بعد اسلام لائے، جہاد کیا اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔‘‘ چنانچہ وہ تم سے ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔
#
{11} ثم حثَّ على النفقة في سبيله؛ لأنَّ الجهاد متوقِّف على النفقة فيه وبذل الأموال في التجهُّز له، فقال: {مَن ذا الذي يُقْرِضُ الله قرضاً حسناً}: وهي النفقة الطيِّبة التي تكون خالصةً لوجه الله موافقةً لمرضاة الله من مال حلال طيبٍ طيبةً به نفسه، وهذا من كرم الله تعالى؛ حيث سمَّاه قرضاً، والمال ماله، والعبيد عبيده ، ووعد بالمضاعفة عليه أضعافاً كثيرةً، وهو الكريم الوهَّابُ، وتلك المضاعفة محلُّها وموضعها يوم القيامةِ، يوم كلٌّ يتبيَّن فقرُه، ويحتاج إلى أقلِّ شيءٍ من الجزاء الحسن، ولهذا قال:
[11] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ جہاد کا تمام تر دارومدار انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کی تیاری میں مال خرچ کرنے پر ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْ٘رِضُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا﴾ ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔‘‘ اس سے مراد پاک اور طیب مال ہے جسے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی رضا کے مطابق، حلال اور طیب مال میں سے نہایت خوش دلی کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس انفاق کو ’’قرض‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مال اسی کا مال اور یہ بندے اسی کے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مال کو کئی گنا کر دینے کا وعدہ کیا ہے وہ فضل و کرم کا مالک اور بہت زیادہ داد و دہش والا ہے۔(اس انفاق کے)کئی گنا ہونے کا محل و مقام روز قیامت ہے، اس روز ہر انسان پر اپنا افتقار و احتیاج واضح ہو جائے گا، اس روز وہ قلیل ترین جزائے حسن کا بھی محتاج ہو گا، اس لیے فرمایا:
آیت: 12 - 15 #
{يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (12) يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ (13) يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (14) فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (15)}.
اس دن آپ دیکھیں گے ایمان والوں اور ایمان والیوں کو کہ دوڑتا ہو گا نور ان کا آگے ان کے اور دائیں ان کے خوش خبری ہے تمھیں آج ایسے باغات کی کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں، یہی ہے وہ کامیابی بڑی (12) اس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے، تم انتظار کرو ہمارا کہ ہم بھی کچھ روشنی حاصل کر لیں تمھارے نور سے (ان سے) کہا جائے گا، تم لوٹ جاؤ اپنے پیچھے ، پھر تلاش کرو نور! پس حائل کر دی جائے گی ان کے درمیان ایک دیوار اس کا ایک دروازہ ہو گا، اندر اس کے اس میں رحمت ہو گی اور باہر اس کے اس کی طرف عذاب ہو گا (13) وہ پکاریں گے ان (مومنوں) کو، کیانہ تھے ہم تمھارے ساتھ(دنیا میں)؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں اور لیکن تم نے فتنے میں ڈالا تھا خود کو اور انتظار کیا تم نے اور شک کیا تم نے اور فریب دیا تمھیں خواہشوں نے یہاں تک کہ آ پہنچا حکم اللہ کا اور دھوکا دیا تمھیں اللہ کی بابت دھوکے باز نے (14) پس آج نہ لیا جائے گا تم سے کوئی فدیہ اور نہ ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، تمھارا ٹھکانا آگ ہے، وہی تمھارے زیادہ لائق ہے اور بری جگہ ہے لوٹ جانے کی (وہ آگ) (15)
#
{12} يقول تعالى مبيناً لفضل الإيمان واغتباط أهله به يوم القيامةِ: {يوم تَرى المؤمنينَ والمؤمناتِ يسعى نورُهم بين أيديهم وبأيْمانِهِم}؛ أي: إذا كان يوم القيامةِ، وكوِّرَتِ الشمسُ وخسفَ القمرُ وصار الناس في الظُّلمة، ونُصِبَ الصراط على متن جهنم؛ فحينئذٍ ترى المؤمنين والمؤمنات يسعى نورُهم بين أيديهم وبأيمانهم، فيمشون بنورهم وأيمانهم في ذلك الموقف الهائل الصعب كلٌّ على قَدْرِ إيمانه، ويبشَّرون عند ذلك بأعظم بشارة، فيُقالُ: {بُشراكم اليومَ جناتٌ تجري من تحتِها الأنهارُ خالدين فيها ذلك هو الفوزُ العظيمُ}: فلله ما أحلى هذه البشارة بقلوبهم وألذَّها لنفوسهم؛ حيث حصل لهم كلُّ مطلوب محبوب، ونجوا من كلِّ شرٍّ ومرهوب.
[12] اللہ تعالیٰ ایمان کی فضیلت اور قیامت کے روز اہل ایمان کی فرحت و مسرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَبِاَیْمَانِهِمْ﴾ ’’اس دن آپ ایمان والوں اور ایمان والیوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا۔‘‘ یعنی جب قیامت کا دن ہو گا سورج کو لپیٹ دیا جائے گا، چاند کو بے نور کر دیا جائے گا، تمام لوگ اندھیرے میں ہوں گے اور جہنم کے اوپر پل صراط نصب کر دیا جائے گا، تب تو مومنین اور مومنات کو دیکھے گا کہ ان کی روشنی ان کے آگے، اور ان کے دائیں بائیں چل رہی ہو گی اور وہ اس نہایت مشکل اور ہولناک مقام پر، اپنے ایمان اور روشنی کے ساتھ جا رہے ہوں گے، ہر شخص کو اپنے اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق روشنی حاصل ہو گی۔ اس مقام پر ان کو سب سے بڑی خوشخبری دی جائے گی، پس ان سے کہا جائے گا: ﴿ بُشْرٰؔىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ ’’تم کو بشارت ہو کہ آج تمھارے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں تم ان میں ہمیشہ رہو گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اللہ اللہ! یہ خوشخبری ان کے دلوں کے لیے کتنی شیریں اور ان کے نفوس کے لیے کتنی لذیذ ہو گی جہاں انھیں ہر مطلوب و محبوب چیز حاصل ہو گی اور وہ ہر شر اور ڈرانے والے امر سے نجات پائیں گے۔
#
{13} فإذا رأى المنافقون المؤمنين يمشون بنورهم ، وهم قد طُفِئَ نورُهم وبقوا في الظُّلمات حائرين؛ قالوا للمؤمنين: {انظُرونا نَقْتَبِسْ من نورِكم}؛ أي: أمهلونا لننال من نوركم ما نمشي به لننجوَ من العذاب، فـ {قيلَ} لهم: {ارجِعوا وراءَكُم فالْتَمِسوا نوراً}؛ أي: إن كان ذلك ممكناً، والحال أنَّ ذلك غير ممكن، بل هو من المحالات، فضُرِبَ بين المؤمنين والمنافقين {بسورٍ}؛ أي: حائط منيع وحصنٍ حصينٍ {له بابٌ باطنُه فيه الرحمةُ}: وهو الذي يلي المؤمنين، {وظاهرُهُ من قِبَلِهِ العذابُ}: وهو الذي يلي المنافقين.
[13] جب منافقین دیکھیں گے کہ اہل ایمان روشنی میں چلے جا رہے ہیں اور خود ان کی روشنی بجھ گئی ہے اور وہ اندھیروں میں حیران و پریشان باقی رہ گئے ہیں تو وہ اہل ایمان سے کہیں گے: ﴿ انْ٘ظُ٘رُوْنَا نَ٘قْ٘تَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ﴾ یعنی ٹھہرو! تاکہ ہم تمھاری روشنی سے کچھ روشنی لے کر اس کے اندر چل سکیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں تو ﴿ قِیْلَ﴾ ان سے کہا جائے گا : ﴿ ارْجِعُوْا وَرَآءَؔكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًؔا﴾ ’’پیچھے لوٹ کر جاؤ اور روشنی تلاش کرو۔‘‘ یعنی اگر ایسا کرنا ممکن ہے، حالانکہ یہ ممکن نہ ہو گا بلکہ یہ بالکل محال ہو گا ﴿ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ ﴾ ’’تب حائل کر دی جائے گی ان کے درمیان۔‘‘ یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان ﴿ بِسُوْرٍ﴾ ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دی جائے گی اور ایک محفوظ رکاوٹ بنا دی جائے گی ﴿ لَّهٗ بَ٘ابٌؔ١ؕ بَ٘اطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ ﴾ ’’جس کا ایک دروازہ ہوگا جو اس کی اندرونی جانب ہے اس میں تو رحمت ہے۔‘‘ اور یہ وہ حصہ ہے جو مومنین کی طرف ہو گا ﴿ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ﴾ ’’اور جو اس کی بیرونی جانب ہے اس طرف عذاب ہے۔‘‘ اور یہ وہ حصہ ہے جو منافقین کی طرف ہو گا۔
#
{14} فينادي المنافقونَ المؤمنين، فيقولونَ تضرُّعاً وترحُّماً: {ألم نكن معكُمْ}: في الدُّنيا نقول: لا إله إلاَّ الله، ونصلِّي ونصوم ونجاهد ونعمل مثل عملكم؟ {قالوا بلى}: كنتم معنا في الدنيا وعملتُم في الظاهر مثلَ عملنا، ولكنَّ أعمالَكم أعمالُ المنافقين من غيرِ إيمانٍ ولا نيَّةٍ صادقةٍ صالحةٍ، {بل فَتَنتُم أنفسَكم [وتربَّصْتُم] وارْتَبْتُم}؛ أي: شككتم في خبر الله الذي لا يقبل شكًّا، {وغرَّتْكُم الأماني}: الباطلة؛ حيث تمنَّيتم أن تنالوا منالَ المؤمنين وأنتم غير موقنين، {حتى جاء أمرُ الله}؛ أي: حتى جاءكم الموتُ وأنتم بتلك الحالة الذَّميمة، {وغَرَّكم بالله الغَرورُ}: وهو الشيطانُ الذي زين لكم الكفر والريبَ فاطمأننتم به، ووثقتم بوعدِهِ وصدَّقتم خبره.
[14] منافقین اہل ایمان کو پکاریں گے اور رحم کی درخواست کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہیں گے: ﴿ اَلَمْ نَؔكُنْ مَّعَكُمْ﴾ کیا دنیا میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے میں ہم تمھارے ساتھ نہ تھے، ہم بھی نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، جہاد کرتے تھے اور تمھارے جیسے عمل کرتے تھے؟ ﴿ قَالُوْا بَلٰى﴾ مومنین جواب دیں گے: کیوں نہیں! تم دنیا میں ہمارے ساتھ تھے اور ظاہر میں ہمارے جیسے اعمال بھی بجا لاتے تھے، مگر تمھارے اعمال ایمان ، سچی اور صالح نیت سے خالی تھے بلکہ ﴿ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ ’’ تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈال لیا تھا اور تم نے (اہل ایمان کی بابت گردشِ زمانہ کا) انتظار کیا اور شک کرتے رہے۔‘‘ یعنی تم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک کیا جو شک کو قبول نہیں کرتی۔ ﴿ وَغَ٘رَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ﴾ یعنی جھوٹی تمناؤ ں نے تمھیں دھوکے میں رکھا، تم تمنا کرتے تھے کہ تم بھی مومنین کے مقام پر پہنچ جاؤ گے اور حال تمھارا یہ تھا کہ تم دولتِ یقین سے تہی دامن تھے۔ ﴿ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ﴾ حتیٰ کہ موت نے تمھیں آ لیا اور تمھاری وہی مذموم حالت تھی۔ ﴿ وَغَرَّؔكُمْ بِاللّٰهِ الْ٘غَرُوْرُ﴾ ’’تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے والے نے دھوکے ہی میں رکھا۔‘‘ اس سے مراد شیطان ہے جس نے کفر اور شک کو تمھارے سامنے آراستہ کر دیا، تم اس پر بڑے مطمئن تھے، تم نے اس کے وعدے پر بھروسہ کیا اور اس کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی۔
#
{15} {فاليومَ لا يؤخَذُ منكم فديةٌ ولا من الذين كفروا}: ولو افتديتم بملء الأرض ذهباً ومثله معه؛ لما تقبل منكم. {مأواكُمُ النارُ}؛ أي: مستقرُّكم، {هي مولاكم}: التي تتولاَّكم وتضمُّكم إليها، {وبئس المصير}: النار؛ قال تعالى: {وأمَّا مَنْ خَفَّتْ موازينُه. فأمُّه هاويةٌ وما أدراك ما هيه. نارٌ حاميةٌ}.
[15] ﴿ فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’لہٰذا آج تم سے فدیہ قبول کیا جائے گا نہ کافروں سے۔‘‘ اگرچہ تم زمین بھر سونا، نیز اتنا ہی مزید اپنے فدیے میں ادا کرو تو تم سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ﴿ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ﴾ یعنی جہنم تمھارا ٹھکانا ہے ﴿ هِیَ مَوْلٰىكُمْ﴾ یہ جہنم تمھارا والی ہو گا اور تمھیں اپنے پاس رکھے گا ﴿ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ۰۰فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ۰۰ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ۰۰ نَارٌ حَامِیَةٌ﴾ (القارعۃ:101؍8-11) ’’اور جن کے اعمال کے وزن ہلکے نکلیں گے تو ان کا ٹھکانا ہاویہ ہے، اور آپ کیا جانیں کہ یہ ہاویہ کیا ہے، یہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘
آیت: 16 - 17 #
{أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (16) اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (17)}.
کیا نہیں وقت آیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے یہ کہ جھک جائیں ان کے دل واسطے ذکر الٰہی کے اور (واسطے اس کے) جو نازل ہوا حق سے اور نہ ہوں وہ مانند ان لوگوں کے جو دیے گئے کتاب اس سے پہلے؟ پس لمبی ہو گئی اوپر ان کے مدت تو سخت ہو گئے ان کے دل اور بہت سے ان میں سے فاسق ہیں (16) تم جان لو کہ بلاشبہ اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو بعد اس کی موت کے، تحقیق بیان کیں ہم نے تمھارے لیے آیتیں تاکہ تم عقل پکڑو (17)
#
{16} لما ذكر حال المؤمنين والمؤمنات والمنافقين والمنافقات في الدار الآخرة؛ كان ذلك مما يدعو القلوب إلى الخشوع لربِّها والاستكانة لعظمته، فعاتب الله المؤمنين على عدم ذلك، فقال: {ألم يأنِ للذين آمنوا أن تَخْشَعَ قلوبُهم لذِكْرِ الله وما نَزَلَ من الحقِّ}؛ أي: ألم يأتِ الوقتُ الذي به تلينُ قلوبهم وتخشعُ لذِكْر الله الذي هو القرآن وتنقادُ لأوامره وزواجره وما نَزَلَ من الحقِّ الذي جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، وهذا فيه الحثُّ على الاجتهاد على خشوع القلب لله تعالى ولما أنزله من الكتاب والحكمة، وأن يتذكَّر المؤمنون المواعظ الإلهيَّة والأحكام الشرعيَّة كلَّ وقت ويحاسبوا أنفسَهم على ذلك، {ولا يكونوا كالذين أوتوا الكتاب من قَبْلُ فطال عليهم الأمدُ}؛ أي: ولا يكونوا كالذين أنزل الله عليهم الكتابَ الموجبَ لخشوع القلب والانقياد التامِّ، ثم لم يدوموا عليه، ولا ثَبَتوا، بل طال عليهم الزمان، واستمرَّتْ بهم الغفلةُ، فاضمحلَّ إيمانُهم وزال إيقانهم؛ {فقستْ قلوبُهم وكثيرٌ منهم فاسقونَ}: فالقلوب تحتاجُ في كلِّ وقتٍ إلى أن تُذَكَّرَ بما أنزل الله وتناطق بالحكمة، ولا ينبغي الغفلة عن ذلك؛ فإنَّه سببٌ لقسوة القلب وجمود العين.
[16] جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں مومنین اور مومنات، منافقین اور منافقات کا کیا حال ہو گا، یہ چیز دلوں کو اپنے رب کے خوف و خشوع اور اس کی عظمت کے سامنے عجز و انکساری کی دعوت دیتی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر، ان کے دلوں میں خشوع و انکسار نہ ہونے کی بنا پر عتاب فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَ٘اْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَ٘عَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ یعنی کیا ابھی مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نرم ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ڈر جائیں ۔اس سے مراد قرآن ہے۔ اور اس کے اوامر و نواہی اور جو حق نازل ہوا ہے جسے محمد کریم e لے کر تشریف لائے ہیں، اس سے ڈر جائیں اور اس کے سامنے سر خم کر دیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کتاب و حکمت کے لیے جو اس نے نازل فرمائی ہے، خشوع و خضوع کی ترغیب ہے، نیز اس امر کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اہل ایمان مواعظ الٰہیہ اور احکام شرعیہ سے نصیحت حاصل کریں اور ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ﴿ وَلَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ﴾ یعنی ان لوگوں کی مانند نہ ہو جائیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی جو خشوع قلب اور کامل اطاعت و تسلیم کی موجب تھی، پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے نہ دائمی طور پر اس پر قائم رہے، بلکہ زمانے گزر گئے اور ان کی غفلت جڑ پکڑ گئی، ان کا ایمان کمزور اور ایقان زائل ہو گیا۔ ﴿فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَؔكَثِیْرٌ مِّؔنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ’’پس ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔‘‘ پس دل ہر وقت اس امر کے محتاج ہیں کہ وہ اس کتاب سے نصیحت حاصل کرتے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور حکمت کی گفتگو کرتے رہیں، اس کتاب سے غفلت نہ برتی جائے، کیونکہ یہ چیز دل کی سختی اور آنکھ کے جمود کا سبب بنتی ہے۔
#
{17} {اعلموا أنَّ الله يُحيي الأرض بعد موتِها قد بَيَّنَّا لكم الآياتِ لعلَّكم تَعْقِلونَ}: فإن الآيات تدلُّ العقول على المطالب الإلهيَّة، والذي أحيا الأرض بعد موتها قادرٌ على أن يُحْيِيَ الأموات بعد موتهم فيجازِيَهم بأعمالهم، والذي أحيا الأرض بعد موتها بماء المَطرِ، قادرٌ على أن يُحْيِيَ القلوب الميتة بما أنزله من الحقِّ على رسوله. وهذه الآية تدلُّ على أنه لا عقل لمن لَم يهتدِ بآيات الله ولم ينقدْ لشرائع الله.
[17] ﴿ اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔ یقیناً ہم نے تو تمھارے لیے اپنی آیتیں بیان کر دیں تاکہ تم سمجھو۔‘‘ کیونکہ آیات الٰہی مطالب الٰہیہ کی طرف عقل کی راہ نمائی کرتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے زمین کے مرنے کے بعد اسے حیات نو بخشی، اس پر قادر ہے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے اور ، پھر ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔ پس وہ ہستی جس نے زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد، بارش کے پانی کے ذریعے سے دوبارہ زندہ کیا، وہ مردہ دلوں کو اس حق کے ذریعے سے زندگی بخشنے کی قدرت رکھتی ہے جو اس نے اپنے رسول (e) پر نازل کیا۔یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی آیات الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے، وہ عقل سے بے بہرہ ہے۔
آیت: 18 - 19 #
{إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ (18) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (19)}.
بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنھوں نے قرض دیا اللہ کو قرض حسنہ تو وہ بڑھایا جائے گا واسطے ان کے اور ان کے لیے ہے اجر عمدہ (18) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے، یہی لوگ ہیں راست باز، اور گواہی دینے والے نزدیک اپنے رب کے، ان کے لیے اجر ہے ان کا اور نور ہے ان کا اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو یہی ہیں جہنمی(19)
#
{18} {إنَّ المصَّدِّقينَ والمُصَّدِّقاتِ}: بالتشديد؛ أي: الذين أكثروا من الصدقات الشرعيَّة والنفقات المرضيَّة، {وأقرضوا الله قرضاً حسناً}: بأن قدَّموا من أموالهم في طرق الخيرات ما يكون ذخراً لهم عند ربِّهم، {يضاعَفُ لهم}: الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعافٍ كثيرةٍ، {ولهم أجرٌ كريمٌ}: وهو ما أعدَّه الله لهم في الجنة ممَّا لا تعلمُه النفوس.
[18] ﴿ اِنَّ الْمُصَّؔدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ﴾ یعنی وہ مرداور عورتیں جو نہایت کثرت سے صدقہ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ﴿وَاَ٘قْ٘رَضُوا اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا﴾’’او راللہ کو اچھا قرض دیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ بھلائی کے راستوں میں اپنا مال پیش کرتے ہیں جو ان کے رب کے ہاں ان کے لیے ذخیرہ بن جاتا ہے۔ ﴿ یُّضٰعَفُ لَهُمْ﴾ ’’ان کو دو چند اجر دیا جائے گا۔‘‘ ایک نیکی کا اجر و ثواب دس سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے ﴿ وَلَهُمْ اَجْرٌؔ كَرِیْمٌ﴾’ ’اور ان کے لیے اجر کریم ہے۔‘‘ یہ وہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں تیار کر رکھا ہے جسے نفس نہیں جانتے۔
#
{19} {والذين آمنوا باللهِ ورسلِهِ}: والإيمانُ عند أهل السُّنَّة ما دلَّ عليه الكتاب والسنة، هو قول القلب واللسان وعمل القلب واللسان والجوارح، فيشمل ذلك جميع شرائع الدين الظاهرة والباطنة، فالذين جمعوا [بين] هذه الأمور {هم الصدِّيقون}؛ أي: الذين مرتبتهم فوق مرتبة عموم المؤمنين ودون مرتبة الأنبياء. وقوله: {والشهداءُ عند ربِّهم لهم أجرُهم ونورُهم}؛ كما ورد في الحديث الصحيح: «إنَّ في الجنَّة مائةَ درجةٍ، ما بين كلِّ درجتين كما بين السماء والأرض، أعدَّها الله للمجاهدين في سبيله». وهذا يقتضي شدَّة علوِّهم ورفعتهم وقربهم من الله تعالى، {والذين كفروا وكَذَّبوا بآياتِنا أولئك أصحابُ الجحيم}: فهذه الآيات جمعت أصناف الخلق المتصدِّقين والصِّديقين والشهداء وأصحاب الجحيم، فالمتصدِّقون الذين [كان] جُلُّ عملهم الإحسان إلى الخلق وبذلُ النفع لهم بغاية ما يمكنهم، خصوصاً بالنفع بالمال في سبيل الله، والصِّدِّيقون هم الذين كمَّلوا مراتب الإيمان والعمل الصالح والعلم النافع واليقين الصادق، والشهداء هم الذين قاتلوا في سبيل الله لإعلاء كلمة الله، وبَذَلوا أنفسَهم وأموالهم فَقُتِلوا، وأصحاب الجحيم هم الكفار الذين كذَّبوا بآيات الله. وبقي قسمٌ ذكرهم الله في سورة فاطر، وهم المقتصدون الذين أدَّوا الواجبات وتركوا المحرمات؛ إلاَّ أنَّهم حصل منهم بعض التقصير بحقوق الله وحقوق عباده؛ فهؤلاء مآلهم الجنة ، وإن حصل لبعضهم عقوبة ببعض ما فعل.
[19] ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ٘ۤ﴾ ’’اور وہ لوگ جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘ اہل سنت کے نزدیک ایمان جس پر قرآن و سنت دلالت کرتے ہیں وہ ہے قلب و لسان کا قول اور قلب و لسان اور جوارح کا عمل، تب یہ چیز دین کے تمام ظاہری و باطنی شرائع کو شامل ہے۔ پس جنھوں نے ان تمام امور کو جمع کر لیا وہ صدیق ہیں جن کا مرتبہ عام مومنوں سے اوپر اور انبیاء سے نیچے ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ﴾ ’’اور شہید ہیں ان کے رب کے ہاں ان کے لیے ان کا اجر ہوگا اور ان کی روشنی۔‘‘ کا معنی وہی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے ’’جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجہاد و السیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ، حدیث: 2790) اور یہ چیز ان کے انتہائی بلند مرتبہ، ان کی رفعت اور اللہ تعالیٰ سے ان کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں۔‘‘ ان آیات کریمہ نے مخلوق کی تمام اصناف، یعنی صدقہ کرنے والوں، صدیقین، شہداء اور اہل جہنم کے تذکرے کو یکجا کر دیا ہے۔پس صدقہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے اعمال کا بڑا حصہ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور ممکن حد تک ان کو فائدہ پہنچانے خاص طور پر ان کو اللہ کے راستے میں مال کے ذریعے سے فائدہ پہنچانے پر مشتمل ہے۔ صدیق وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایمان، عمل صالح، علم نافع اور یقین صادق کے مراتب کو مکمل کر لیا۔ شہید وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو غالب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا، اپنے جان و مال کو خرچ کیا اور قتل ہو گئے۔ اہل جہنم وہ کفار ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا۔ مذکور بالا اقسام کے علاوہ ایک قسم باقی رہ گئی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاطر میں کیا ہے اور وہ ہیں مقتصدین جنھوں نے واجبات کو ادا کیا، محرمات کو ترک کیا ، البتہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں ان سے تقصیر واقع ہوئی۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو ان کے بعض افعال کے سبب سے سزا ملے گی، تاہم مآل کار وہ جنت میں جائیں گے۔
آیت: 20 - 21 #
{اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (20) سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (21)}.
تم جان لو ! یقیناً حیات دنیا کھیل ہے اور تماشہ ہے اور زینت ہے اور فخر کرنا ہے آپس میں اور ایک دوسرے پر کثرت جتلانا ہے مالوں اور اولاد میں، مانند بارش کے کہ خوش لگتا ہے کسانوں کو سبزہ اس کا ، پھر وہ خشک ہو جاتا ہے پس آپ دیکھتے ہیں اس کو زرد شدہ، پھر ہو جاتا ہے وہ چورا چورا اور آخرت میں عذاب ہے بہت سخت اور مغفرت ہے اللہ کی طرف سے اور رضا مندی اور نہیں زندگانی ٔ دنیا مگر سامان دھوکے کا (20) دوڑو تم مغفرت کی طرف اپنے رب کی اور اس جنت کی (طرف) کہ اس کی چوڑائی ہے مانند چوڑائی آسمان اور زمین کے وہ تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے، یہ ہے فضل اللہ کا، وہ دیتا ہے یہ جسے چاہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے (21)
#
{20} يخبر تعالى عن حقيقة الدُّنيا وما هي عليه، ويبيِّن غايتها وغاية أهلها؛ بأنَّها {لعبٌ ولهوٌ}: تلعب بها الأبدان وتلهو بها القلوب، وهذا مصداقُه ما هو موجودٌ وواقعٌ من أبناء الدُّنيا؛ فإنَّك تجِدُهم قد قطعوا أوقاتَ عُمُرِهِم بلهوِ قلوبهم وغفلتهم عن ذكر الله وعمَّا أمامهم من الوعد والوعيد، وتراهم قد اتَّخذوا دينَهم لعباً ولهواً؛ بخلاف أهل اليقظة وعُمَّال الآخرة؛ فإنَّ قلوبَهم معمورةٌ بذكر الله ومعرفته ومحبَّته، وقد شغلوا أوقاتهم بالأعمال التي تقرِّبهم إلى الله من النفع القاصر والمتعدِّي. وقوله: {وزينةٌ}؛ أي: تزين في اللباس والطعام والشراب والمراكب والدُّور والقصور والجاه وغير ذلك، {وتفاخرٌ بينكم}؛ أي: كلُّ واحدٍ من أهلها يريد مفاخرةَ الآخر، وأن يكونَ هو الغالبَ في أمورها، والذي له الشهرةُ في أحوالها، {وتكاثرٌ في الأموال والأولادِ}؛ أي: كلٌّ يريدُ أن يكون هو الكاثر لغيره في المال والولد، وهذا مصداقُهُ وقوعُهُ من محبِّي الدُّنيا والمطمئنين إليها؛ بخلاف مَنْ عَرَفَ الدُّنيا وحقيقتها، فجعلها معبراً، ولم يجعلها مستقرًّا، فنافس فيما يقرِّبُه إلى الله، واتَّخذ الوسائل التي توصلُه إلى دار كرامته ، وإذا رأى من يكاثُره وينافسه في الأموال والأولاد؛ نافَسَه بالأعمال الصالحة. ثم ضرب للدُّنيا مثلاً بغيثٍ نزل على الأرض، فاختلط به نباتُ الأرض مما يأكُلُ الناسُ والأنعام، حتى إذا أخذتِ الأرضُ زُخْرُفَها، وأعجب نباتُه الكفارَ الذين قَصَروا نَظَرَهم وهِمَمَهم على الدُّنيا ؛ جاءها من أمرِ الله ما أتلفها، فهاجتْ ويبستْ وعادتْ إلى حالها الأولى ؛ كأنَّه لم ينبتْ فيها خضراءُ ولا رُإِيَ لها مَرْأَى أنيق، كذلك الدُّنيا؛ بينما هي زاهيةٌ لصاحبها زاهرةٌ؛ مهما أراد من مطالبها حصل، ومهما توجَّه لأمر من أمورها؛ وجد أبوابه مفتَّحة؛ إذ أصابها القَدَرُ، فأذهبها من يده، وأزال تسلُّطه عليها، أو ذهب به عنها، فرحل منها صفر اليدين؛ لم يتزَّود منها سوى الكفن، فتبًّا لمن أضحتْ هي غايةَ أمنيَّته ولها عمله وسعيه. وأما العمل للآخرة؛ فهو الذي ينفع ويُدَّخر لصاحبه ويصحب العبدَ على الأبد، ولهذا قال تعالى: {وفي الآخرة عذابٌ شديدٌ ومغفرةٌ من الله ورضوانٌ}؛ أي: حال الآخرة ما يخلو من هذين الأمرين: إمَّا العذابُ الشديدُ في نار جهنَّم وأغلالها وسلاسلها وأهوالها لمن كانت الدُّنيا هي غايتَهُ ومنتهى مطلبِهِ، فتجرَّأ على معاصي الله، وكذَّب بآيات الله، وكفر بأنعم الله، وإمَّا مغفرةٌ من الله للسيئات، وإزالةُ العقوبات، ورضوانٌ من الله يُحِلُّ من أحَلَّه عليه دارَ الرضوان لمن عرف الدُّنيا وسعى للآخرة سعيها؛ فهذا كلُّه مما يدعو إلى الزهد في الدنيا والرغبة في الآخرة، ولهذا قال: {وما الحياةُ الدُّنيا إلاَّ متاعُ الغُرور}؛ أي: إلاَّ متاعٌ يُتَمَتَّعُ به ويُنْتَفَعُ به ويُسْتَدْفَعُ به الحاجات؛ لا يغترُّ به ويطمئنُّ إليه إلاَّ أهل العقول الضعيفة، الذين يغرُّهم بالله الغرور.
[20] اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا اور ان کے امور کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن پر دنیا کا دارومدار ہے، نیز دنیا اور دنیا والوں کی غایت و انتہا بیان فرماتا ہے۔ دنیا بس لہو و لعب ہے، جس کے ساتھ بدن کھیلتے ہیں اور اس کی وجہ سے قلب غافل ہوتے ہیں۔ جو کچھ دنیا میں موجود ہے اور ابنائے دنیا سے جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس کا مصداق ہے۔ آپ ابنائے دنیا کو پائیں گے کہ انھوں نے اپنی عمر کے اوقات کو غفلت قلب میں صرف کیا اور وہ ذکر الٰہی اور آئندہ پیش آنے والے وعد و وعید سے غافل رہے۔ آپ اہل بیدار اور آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کو ان کے برعکس دیکھیں گے ، کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی معرفت اور اس کی محبت سے معمور ہیں۔ وہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ایسے اعمال میں صرف کرتے ہیں جن کا فائدہ صرف ان کو پہنچتا ہے یا دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ۔ اورفرمایا: ﴿ وَّزِیْنَةٌ﴾ یعنی لباس، مشروبات، سواریوں، گھروں، محلات اور دنیاوی جاہ وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔ ﴿ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ﴾ ’’اور آپس میں فخر کرنا ہے۔‘‘ یعنی ان چیزوں کو رکھنے کے لیے ہر شخص دوسرے پر فخر کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان امور میں وہی غالب رہے اور ان احوال میں بس اسی کو شہرت حاصل رہے۔ ﴿ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ﴾ یعنی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ مال اور اولاد میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ دنیا سے محبت کرنے والے اور اس پر مطمئن رہنے والے اس کا مصداق ہیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جو دنیا اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے، وہ اسے مستقل ٹھکانا نہیں بناتا بلکہ اسے گزرگاہ خیال کرتا ہے، وہ ایسے اعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور ایسے وسائل اختیار کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو اس کے ساتھ دنیا، مال و متاع اور اولاد کی کثرت میں مقابلہ کرتا ہے تو یہ اعمال صالحہ میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی کے لیے بارش کی مثال دی ہے، جو زمین پر برستی ہے اور اس کی نباتات کو سیراب کرتی ہے جس سے لوگ اور مویشی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین پوری طرح لہلہانے لگتی ہے اور اس کی نباتات کفار کو بھلی لگتی ہے جن کی نظر و ہمت صرف دنیا ہی پر مرکوز ہوتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آ جاتا ہے جو اسے ہلاک کر دیتا ہے ۔یہ نباتات خشک ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہے، گویا کہ وہاں کبھی ہریالی اگی ہی نہیں تھی اور نہ وہاں کبھی کوئی خوبصورت منظر ہی دیکھا گیا تھا۔یہی حال اس دنیا کا ہے۔ یہ اپنے چاہنے والے کے لیے نہایت خوش نما اور خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ جب بھی اس دنیا میں سے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کر لیتا ہے اور جب بھی وہ کسی دنیاوی معاملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے۔ جب تقدیر نے اس کو آ لیا اور اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا، اور اس پر سے اس کے تسلط کو زائل کر دیا یا اسے خوشنما دنیا سے دور کر دیا اور وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہوا اور کفن کے سوا اس کے پاس کوئی زاد راہ نہ تھا۔ پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کی آرزو کی انتہا یہ دنیا ہے اور اسی کے لیے اس کے اعمال اور اس کی بھاگ دوڑ تھی۔ رہا وہ عمل جو آخرت کے لیے کیا جاتا ہے تو یہی وہ عمل ہے جو فائدہ دیتا ہے اور عمل کرنے والے کے لیے ذخیرہ کر دیا جاتا ہے اور ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ﴾ ’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے۔‘‘ یعنی آخرت کا حال ان دو امور سے خالی نہیں۔اولاً: تو اس شخص کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب، جہنم کی بیڑیاں اور زنجیریں اور اس کی ہولناکیاں ہوں گی جس کی غایت مقصود اور منتہائے مطلوب محض دنیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کرتا ہے، آیات الٰہی کو جھٹلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرتا ہے۔ثانیاً: یا اس شخص کے لیے گناہوں کی بخشش، عقوبتوں کا ازالہ اور دار رضوان میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی، یہ سب اس شخص کے لیے ہے جس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان لیا اور اس نے آخرت کے لے بھرپور کوشش کی۔یہ سب کچھ دنیا میں زہد اور آخرت میں رغبت کی دعوت دیتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْ٘غُرُوْرِ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے۔‘‘ یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا اور اس سے ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے فریب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہوتے اور اس پر مطمئن رہتے ہیں جو ضعیف العقل ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
#
{21} ثم أمر بالمسابقة إلى مغفرة الله ورضوانه وجنته، وذلك يكون بالسعي بأسباب المغفرةِ من التوبة النَّصوح، والاستغفار النَّافع، والبعد عن الذُّنوب ومظانِّها، والمسابقة إلى رضوان الله بالعمل الصالح، والحرص على ما يُرضي الله على الدَّوام من الإحسان في عبادة الخالق، والإحسان إلى الخلق بجميع وجوه النفع، ولهذا ذكر الله الأعمالَ الموجبةَ لذلك، فقال: {وجنَّةٍ عرضُها السمواتُ والأرضُ أعِدَّتْ للذين آمنوا باللهِ ورسلِهِ}، والإيمانُ بالله ورُسُلِهِ يدخلُ فيه أصولُ الدِّين وفروعها. {ذلك فضلُ الله يؤتيهِ مَن يشاءُ}؛ أي: هذا الذي بيَّنَّاه لكم وذَكَرْنا [لكم فيه] الطُّرُقَ الموصلة إلى الجنة والطُّرُقَ الموصلة إلى النار، وأنَّ ثواب الله بالأجر الجزيل والثواب الجميل من أعظم منَّته على عباده وفضله، {والله ذو الفضل العظيم}: الذي لا يُحصى ثناءٌ عليه، بل هو كما أثنى على نفسه، وفوق ما يُثني عليه أحدٌ من خلقه.
[21] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو مغفرت، رضا اور جنت کی طرف مسابقت کا حکم دیا ہے اور یہ چیز مغفرت کے اسباب کے لیے کوشش کرنے، یعنی خالص توبہ اور نفع مند استغفار کرنے، گناہ اور گناہ کے اسباب سے دور رہنے ہی سے ممکن ہے، نیز عمل صالح کے ذریعے سے اللہ کی رضا کی طرف سبقت، ان امور پر دوام کی حرص کرنے سے ممکن ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے ، یعنی خالق کی عبادت میں احسان اور مخلوق کو ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے سے ہی یہ چیز حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کا ذکر فرمایا جو اس کے موجب ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ١ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ٘﴾ ’’اور جنت جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کا سا ہے۔ جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان میں دین کے تمام اصول و فروع داخل ہیں۔ ﴿ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ﴾ یعنی ہم نے تمھارے سامنے جو کچھ بیان کیا ہے اور جنت تک پہنچانے والے طریقوں اور جہنم میں گرانے والے جن راستوں کی نشاندہی کی ہے، وہ سب اللہ کا فضل ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا اجر عظیم اور ثواب جمیل، اس کا اپنے بندوں پر سب سے بڑا احسان اور فضل و کرم ہے ﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘جس کی ثنا کو کوئی شمار نہیں کر سکتا بلکہ وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے خود اپنی ثنا بیان کی، اس کے بندوں میں سے جو کوئی اس کی ثنا بیان کرتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
آیت: 22 - 24 #
{مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (22) لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (23) الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (24)}.
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمھارے نفسوں میں مگر (وہ لکھی) ہے کتاب میں اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں اس کو یقیناً یہ اللہ پر نہایت آسان ہے (22) تاکہ نہ غم کھاؤ تم اس پر جو فوت ہو جائے تم سے اور نہ اتراؤ تم اس پر جو وہ دے تمھیں اور اللہ نہیں پسند کرتا ہر اترانے والے فخر کرنے والے کو (23) وہ لوگ جو (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بخل (کرنے)کا ، اور جو شخص منہ پھیرے تو بلاشبہ اللہ، ہی بے پروا قابل تعریف ہے (24)
#
{22} يقول تعالى مخبراً عن عموم قضائِهِ وقدرِهِ: {ما أصابَ من مصيبةٍ في الأرض ولا في أنفسِكُم}: وهذا شاملٌ لعموم المصائب التي تُصيبُ الخلق من خيرٍ وشرٍّ؛ فكلُّها قد كُتِبَتْ في اللوح المحفوظ صغيرها وكبيرها، وهذا أمرٌ عظيمٌ لا تحيطُ به العقول، بل تَذْهلُ عنده أفئدةُ أولي الألباب، ولكنَّه على الله يسيرٌ.
[22] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قضا و قدر کی عمومیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ﴾ یہ آیت کریمہ خیر و شر پر مبنی ان تمام مصائب کو شامل ہے جو مخلوق پر نازل ہوتی ہیں، ہر چھوٹی بڑی تقدیر لوح محفوظ میں درج ہے۔ یہ ایک بہت بڑا معاملہ ہے، عقل جس کا احاطہ نہیں کر سکتی اور اس مقام پر بڑے بڑے خرد مند ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔
#
{23} وأخبر الله عبادَه بذلك لأجل أن تتقرَّرَ هذه القاعدة عندهم، ويبنوا عليها ما أصابهم من الخير والشرِّ؛ فلا يأسَوْا، ويحزنوا على ما فاتهم، مما طَمِحَتْ له أنفسُهم وتشوَّفوا إليه؛ لعلمِهِم أنَّ ذلك مكتوبٌ في اللوح المحفوظ، لا بدَّ من نفوذه ووقوعه؛ فلا سبيل إلى دفعِهِ، ولا يفرحوا بما آتاهم الله فرحَ بَطَرٍ وأشَرٍ؛ لعلمهم أنَّهم ما أدركوه بحولهم وقوَّتهم، وإنَّما أدركوه بفضل الله ومنِّه، فيشتغلوا بشكر مَنْ أولى النِّعم ودفع النِّقم، ولهذا قال: {واللهُ لا يحبُّ كلَّ مختالٍ فخورٍ}؛ أي: متكبِّر فظٍّ غليظٍ معجبٍ بنفسه فخورٍ بنعم الله ينسبها إلى نفسه وتُطغيه وتُلهيه؛ كما قال تعالى: {وإذا أذَقْناه رحمةً منَّا قال إنَّما أوتيتُهُ على علم بَلْ هي فتنةٌ}.
[23] ﴿ لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تاکہ ان کے سامنے یہ قاعدہ متحقق ہو جائے اور ان پر جو خیر و شر نازل ہوتا ہے اس کی بنا اس قاعدہ پر رکھیں۔ پس جس چیز کو ان کے دل چاہتے تھے اور اس کا اشتیاق رکھتے تھے، اس کے فوت ہونے پر مایوس اور غمگین نہ ہوں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ سب کچھ لوح محفوظ میں درج تھا جس کا نافذ اور واقع ہونا ایک لازمی امر تھا اور اس نوشتہ کے وقوع کو روکنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہے وہ اس پر تکبر اور اتراہٹ کے ساتھ فرحت کا اظہار نہ کریں گے کیونکہ انھیں علم ہے کہ انھیں جو کچھ حاصل ہوا ہے انھیں اپنی قوت اور طاقت سے حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ سب کچھ تو انھیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کے ذریعے سے حاصل ہوا ہے ، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اس ہستی کے شکر میں مشغول رہیں جس نے نعمتیں عطا کیں اور زحمتوں کو دور کیا۔ بنابریں فرمایا :﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُ٘لَّ مُخْتَالٍ فَخُوْ رٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ درشت خو، خود پسند اور متکبر کو پسند نہیں کرتا جو فخر کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو خود اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے یہ نعمتیں سرکشی اور غفلت میں مبتلا کرتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّؔنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ﴾ (الزمر:39؍49)’’ پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمتوں سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم و دانش کی وجہ سے عطا کیا گیا ہے، (ایسی بات نہیں)بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے۔‘‘
#
{24} {الذين يَبْخَلونَ ويأمُرونَ الناس بالبُخْلِ}؛ أي: يجمعون بين الأمرين الذَّميمين اللذين كلٌّ منهما كافٍ في الشرِّ: البخل، وهو منع الحقوق الواجبة، ويأمرون الناس بذلك، فلم يكفِهِم بُخْلُهم، حتى أمروا الناس بذلك، وحثُّوهم [على] هذا الخلق الذميم بقولهم وفعلهم، وهذا من إعراضهم عن طاعة ربِّهم وتولِّيهم عنها، {ومن يَتَوَلَّ}: عن طاعة اللهِ؛ فلا يضرُّ إلاَّ نفسه، ولن يضرَّ الله شيئاً، {فإنَّ الله هو الغنيُّ الحميدُ}: الذي غناه من لوازم ذاته، الذي له مُلْكُ السماواتِ والأرض، وهو الذي أغنى عبادَه وأقْناهم، الحميدُ الذي له كلُّ اسم حسنٍ ووصفٍ كامل وفعل جميل يستحقُّ أن يُحْمَدَ عليه ويُثْنى ويُعَظَّم.
[24] ﴿ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَ٘اْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ ’’جو لوگ خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی دونوں مذموم کاموں کو اکٹھا کر لیتے ہیں جن میں سے ہر ایک شر کے لیے کافی ہے۔ ایک تو بخل ہے جس سے مراد حقوق واجبہ کی ادائیگی سے باز رہنا ہے اور دوسرا وہ لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں۔ انھوں نے بخل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے دیگر لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیا اور اپنے قول و فعل سے انھیں مذموم صفت کو اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ اور یہ ان کا اپنے رب کی اطاعت سے اعراض کرنا اور منہ موڑنا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ صرف اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز اور سزاوارِ حمد وثنا ہے۔‘‘ جس کا غنا اس کی ذات کے لوازمات میں سے ہے جو آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے اور جس نے اپنے بندوں کو غنی اور مال دار بنایا۔ ﴿الْحَمِیْدُ﴾ وہ ہستی ہے جس کا ہر نام اچھا، ہر وصف کامل اور ہر فعل خوبصورت ہے، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے اور اس کی تعظیم کی جائے۔
آیت: 25 - 27 #
{لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (25) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (26) ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (27)}.
البتہ تحقیق بھیجے ہم نے اپنے رسول ساتھ واضح دلیلوں کے، اور نازل کی ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ قائم رہیں لوگ انصاف پر، اور نازل کیا ہم نے لوہا اس میں لڑائی ہے بہت سخت اور فائدے ہیں لوگوں کے لیے اور تاکہ جان لے اللہ اس کو جو مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی بن دیکھے بلاشبہ اللہ قوی ہے، بڑا زبردست (25) اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو، اور رکھی ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب، پس کچھ ان میں سے ہدایت پانے والے ہیں اور بہت سے ان میں سے فاسق ہیں (26) پھر لگاتار پیچھے بھیجا ہم نے اوپر ان کے نقش قدم کے اپنے رسولوں کو، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسٰی ابن مریم کو اور دی ہم نے اس کو انجیل، اور رکھ دی ہم نے دلوں میں ان لوگوں کے جنھوں نے پیروی کی اس کی، شفقت اور مہربانی اور رہبانیت کو انھوں نے خود ایجاد کیا تھا اسے نہیں لکھا تھا ہم نے اسے ان پر سوائے تلاش کرنے رضائے الٰہی کے پس نہ رعایت کی انھوں نے اس کی جیسا حق تھا اس کی رعایت کا، پھر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ان میں سے اجر ان کا اور بہت سے ان میں سے فاسق ہیں (27)
#
{25} يقول تعالى: {ولقد أرْسَلْنا رُسُلَنا بالبيِّناتِ}: وهي الأدلَّة والشواهد والعلامات الدَّالَّة على صدق ما جاؤوا به وحقِّيَّتِهِ، {وأنزلنا معهم الكتابَ}: وهو اسم جنس يَشْمَلُ سائر الكتب التي أنزلها الله لهداية الخلق وإرشادهم ما ينفعهم في دينهم ودنياهم، {والميزانَ}: وهو العدلُ في الأقوال والأفعال، والدين الذي جاءت به الرُّسل كلُّه عدلٌ وقسطٌ في الأوامر والنَّواهي وفي معاملات الخَلْق وفي الجنايات والقِصاص والحدود والمواريث وغير ذلك، وذلك {ليقومَ الناسُ بالقسطِ}: قياماً بدين الله، وتحصيلاً لمصالحهم التي لا يمكنُ حصرُها وعدُّها، وهذا دليلٌ على أنَّ الرسل متَّفقون في قاعدة الشرع، وهو القيامُ بالقسط، وإنِ اختلفتْ صورُ العدل بحسب الأزمنة والأحوال، {وأنزَلْنا الحديدَ فيه بأسٌ شديدٌ}: من آلات الحرب؛ كالسلاح والدُّروع وغير ذلك، {ومنافعُ للناس}: وهو ما يشاهَدُ من نفعه في أنواع الصِّناعات والحرف والأواني وآلات الحَرْثِ، حتى إنَّه قَلَّ أن يوجَدَ شيءٌ إلاَّ وهو يحتاجُ إلى الحديد، {ولِيَعْلَمَ اللهُ مَن يَنصُرُه ورُسُلَه بالغيب}؛ أي: ليقيم تعالى سوقَ الامتحان بما أنزله من الكتاب والحديد، فيتبيَّن من ينصُرُه وينصُرُ رسله في حالة الغيب، التي ينفع فيها الإيمان قبل الشهادة، التي لا فائدة بوجود الإيمان فيها؛ لأنَّه حينئذٍ يكون ضروريًّا. {إنَّ الله لَقَوِيٌّ عزيزٌ}؛ أي: لا يعجِزُه شيءٌ ولا يفوته هاربٌ، ومن قوَّته وعزَّته أن أنزل الحديدَ الذي منه الآلاتُ القويَّة، ومن قوَّته وعزَّته أنه قادرٌ على الانتصار من أعدائه، ولكنَّه يبتلي أولياءه بأعدائه؛ ليعلم من ينصرُهُ بالغيب. وقَرَنَ تعالى بهذا الموضع بين الكتاب والحديد؛ لأنَّ بهذين الأمرين ينصر الله دينه ويُعلي كلمته: بالكتاب الذي فيه الحجَّة والبرهان، والسيف الناصر بإذن الله، وكلاهما قيامُهُ بالعدل والقِسْط، الذي يستدلُّ به على حكمةِ الباري وكماله وكمال شريعتِهِ التي شرعها على ألسنة رسله.
[25] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ﴾ ’’یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا۔‘‘اس سے مراد وہ دلائل، شواہد اور علامات ہیں جو اس چیز کی صداقت اور حقیقت پر دلالت کرتی ہیں جسے انبیاء کرام لے کر آئے ہیں ﴿ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ﴾ ’’اور ہم نے ان پر کتاب اتاری۔‘‘ (الکتاب) اسم جنس ہے جو ان تمام کتابوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت اور ان امور کی طرف راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے جو ان کے دین و دنیا میں فائدہ مند ہیں۔ ﴿ وَالْمِیْزَانَ﴾ ’’اورمیزان‘‘ اور وہ اقوال و افعال میں عدل کا نام ہے۔ وہ دین جو رسول اللہe لے کر آئے وہ اوامرونواہی او رمخلوق کے تمام معاملات، تمام جرائم، حدود، قصاص اور وراثت کے معاملات وغیرہ میں، سراسر عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ اور یہ اس لیے ﴿لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کر کے اور اپنے مصالح کے حصول کی خاطر جن کو شمار کرنا ممکن نہیں، عدل و انصاف پر قائم رہیں۔یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام انبیاء و رسل، شریعت کے قاعدہ پر متفق ہیں اور وہ ہے عدل کو قائم کرنا اگرچہ زمان و احوال کے مطابق عدل کی صورتیں مختلف ہیں۔ ﴿ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَ٘اْسٌ شَدِیْدٌ﴾ ’’او رہم نے لوہا پیدا کیا، اس میں سخت ہیبت و قوت ہے۔‘‘ یعنی آلات حرب، مثلاً: ہر قسم کا اسلحہ اور ذرہ بکتر وغیرہ۔ ﴿وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾ ’’اور لوگوں کے لیے منافع ہے۔‘‘ یہ وہ منافع ہیں جن کا مشاہدہ مختلف انواع کی صنعت و حرفت، مختلف اقسام کے برتنوں اور زرعی آلات میں کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ کم ہی کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہو گی جو لوہے کی محتاج نہ ہو ﴿ وَلِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ﴾ ’’تاکہ اللہ اسے جان لے جو بن دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہا اس لیے نازل فرمایا ہےکہ وہ اس کے ذریعے سے آزمائش کا بازار گرم کرے تاکہ واضح ہو جائے کہ کون اس حالت غیب میں اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں جس میں وہ ایمان فائدہ دیتا ہے جو مشاہدہ سے قبل ہو، مشاہدہ کے اندر ایمان کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تب تو ایمان ضروری اور اضطراری ہو گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ قوی اور زبردست ہے۔‘‘ یعنی اسے کوئی عاجز کر سکتا ہے نہ کوئی بھاگنے والا اس سے بچ کر کہیں جا سکتا ہے۔ یہ اس کی قوت اور غلبے کا نشان ہے کہ اس نے لوہا نازل کیا جس سے بڑے بڑے طاقتور آلات بنتے ہیں۔ یہ اس کی طاقت اور غلبہ ہی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہے مگر وہ اپنے دشمنوں کے ذریعے سے اپنے اولیاء کو آزماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون بن دیکھے اس کی مدد کرتا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہے کو اکٹھا بیان کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کے ذریعے سے اپنے دین کو نصرت عطا کرتا ہے اور اپنے کلمے کوکتاب کے ذریعے سے اور سیفِ ناصر کے ذریعے سے، اللہ کے حکم کے ساتھ بلند کرتا ہے۔ دونوں عدل و انصاف قائم کرتی ہیں جس کے ذریعے سے باری تعالیٰ کی حکمت، اس کے کمال اور اس کی شریعت کے کمال پر استدلال کیا جاتا ہے جس کو اس نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا۔
#
{26} ولما ذكر نبوَّة الأنبياء عموماً؛ ذكر من خواصِّهم النَّبِيَّيْنِ الكريميْنِ نوحاً وإبراهيم، اللَّذين جعل الله النبوَّة والكتاب في ذُرِّيَّتهما، فقال: {ولقد أرسَلْنا نوحاً وإبراهيم وجَعَلْنا في ذُرِّيَّتِهِما النبوَّةَ والكتابَ}؛ أي: الأنبياء المتقدِّمين والمتأخِّرين، كلُّهم من ذُرِّيَّة نوح وإبراهيم عليهما السلام، وكذلك الكتب كلُّها نزلت على ذُرِّيَّة هذين النبيَّيْنِ الكريميْنِ. {فمنهم}؛ أي: ممَّن أرسلنا إليهم الرسل {مهتدٍ}: بدعوتهم، منقادٌ لأمرهم، مسترشدٌ بهداهم، {وكثيرٌ منهم فاسقون}؛ أي: خارجون عن طاعة الله وطاعة رسله ؛ كما قال تعالى: {وما أكثر الناس ولو حرصْتَ بمؤمنينَ}.
[26] جب اللہ تعالیٰ نے جملہ انبیائے کرام کی نبوت کا عمومی ذکر فرمایا تو ان میں سے دو خاص نبیوں، یعنی حضرت نوح اور ابراہیمi کا ذکر بھی فرمایا جن کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب کو جاری کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ﴾ ’’بے شک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب جاری رکھی۔‘‘ یعنی تمام انبیائے متقدمین و متاخرین حضرت نوح اور ابراہیم iکی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح تمام کتابیں انھی دو انبیائے کرام کی اولاد پر نازل ہوئیں ﴿ فَمِنْهُمْ﴾ یعنی ان لوگوں میں سے جن کی طرف ہم نے رسول مبعوث کیے ، بعض لوگ﴿ مُّهْتَدٍ﴾ ان انبیاء کی دعوت کے ذریعے سے ہدایت یافتہ، ان کے احکام کی اطاعت کرنے والے اور ان کی ہدایت سے راہ نمائی حاصل کرنے والے ہوئے۔ ﴿ وَؔكَثِیْرٌ مِّؔنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت سے خارج ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ (یوسف: 12؍103)’’اور اکثر لوگ، خواہ آپ کتنی ہی خواہش کریں ایمان لانے والے نہیں۔‘‘
#
{27} {ثم قَفَّيْنا}؛ أي: أتبعنا {على آثارِهم برُسُلِنا وقفَّيْنا بعيسى ابن مريم}: خصَّ الله عيسى عليه السلام؛ لأنَّ السياق مع النصارى، الذين يزعُمون اتِّباع عيسى، {وآتَيْناه الإنجيل}: الذي هو من كتب الله الفاضلة، {وجَعَلْنا في قلوب الذين اتَّبعوه رأفةً ورحمةً}؛ كما قال تعالى: {لَتَجِدَنَّ أشدَّ الناس عداوةً للذين آمنوا اليهودَ والذين أشركوا ولَتَجِدَنَّ أقرَبَهم مودَّةً للذين آمنوا الذين قالوا إنا نصارى ذلك بأنَّ منهم قِسِّيسينَ ورُهْباناً وأنَّهم لا يستكبرونَ ... } الآيات، ولهذا كان النصارى ألين من غيرهم قلوباً حين كانوا على شريعة عيسى عليه السلام، {ورهبانيةً ابْتَدَعوها}: والرهبانيَّة العبادةُ؛ فهم ابتدعوا من عند أنفسهم عبادةً، ووظَّفوها على أنفسهم، والتزموا لوازم ما كتبها الله عليهم ولا فرضها، بل هم الذين التزموا بها من تلقاء أنفسهم؛ قصْدُهم بذلك رضا الله، ومع ذلك؛ {فما رَعَوْها حقَّ رعايتها}؛ أي: ما قاموا بها، ولا أدَّوْا حقوقها، فقصَّروا من وجهين: من جهة ابتداعهم، ومن جهة عدم قيامهم بما فَرَضوه على أنفسهم. فهذه الحالُ هي الغالبُ من أحوالهم، ومنهم من هو مستقيمٌ على أمر الله، ولهذا قال: {فآتَيْنا الذين آمنوا منهم أجْرَهُم}؛ أي: الذين آمنوا بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - مع إيمانهم بعيسى؛ كلٌّ أعطاه الله على حسب إيمانِهِ، {وكثيرٌ منهم فاسقونَ}.
[27] ﴿ ثُمَّ قَفَّیْنَا﴾ پھر ہم نے بھیجے ﴿ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ﴾ ’’ ان کے پیچھے لگاتار اپنے رسول اور ہم نے ان سب کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ uکا خاص طور پر اس لیے ذکرکیا ہے کیونکہ سیاق آیات نصاریٰ کے بارے میں ہے جو حضرت عیسیٰ کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں ﴿وَاٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ﴾ ’’اور ہم نے ان کو انجیل دی۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی فضیلت والی کتابوں میں سے ہے ﴿وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً﴾ ’’اور ڈال دی ہم نے ان کے پیروکاروں کے دلوں میں شفقت اور مہربانی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْ٘یَهُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا١ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَ٘قْ٘رَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَ٘صٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ (المائدہ: 5/82) ’’آپ پائیں گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور مودت و محبت کے اعتبار سے آپ مومنوں کے سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور راہب بھی اور (اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ اسی لیے جب نصرانی عیسیٰu کی شریعت پر قائم تھے تو دوسروں کی نسبت زیادہ نرم دل تھے۔ ﴿وَرَهْبَانِیَّةَنِ ابْتَدَعُوْهَا﴾ رہبانیت سے مراد عبادت ہے۔ پس انھوں نے اپنی طرف سے ایک عبادت ایجاد کر لی اور اپنے لیے اسے وظیفہ بنا لیا اور انھوں نے مختلف لوازم کا التزام کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے خود اپنی طرف سے اپنے آپ پر لازم ٹھہرایا تھا اس سے ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا تھا۔ مگر بایں ہمہ ﴿فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا﴾ یعنی وہ اس پر قائم نہ رہ سکے اور نہ اس کے حقوق ہی کو ادا کر سکے۔پس وہ دو اعتبار سے قصور کے مرتکب ہوئے۔اول: اس عبادت کو ایجاد کرنے کے اعتبار سے۔ثانی : اس اعتبار سے کہ انھوں نے اپنے آپ پر جس چیز کو فرض کیا تھا اس پر قائم نہ رہ سکے۔ اور یہ حال ان کے غالب احوال میں سے تھا۔ اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر استقامت کے ساتھ قائم تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ﴾ یعنی وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ uپر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محمد مصطفیe پر بھی ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کے ایمان کے مطابق اجر عطا کیا ہے ﴿وَؔكَثِیْرٌ مِّؔنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ’’اور ان میں سے زیادہ تر نافرمان ہیں۔‘‘
آیت: 28 - 29 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (28) لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (29)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ڈرو تم اللہ سے اور ایمان لاؤ اس کے رسول پر، وہ دے گا تمھیں دو حصے اپنی رحمت سے اور بنائے گا تمھارے لیے ایسا نور کہ تم چلو گے ساتھ اس کے، اور وہ بخش دے گا تمھیں، اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (28) تاکہ جان لیں اہل کتاب یہ کہ بلاشبہ وہ نہیں قدرت رکھتے اوپر کسی چیز کے اللہ کے فضل سے، اور یہ کہ بلاشبہ (تمام) فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ دیتا ہے یہ (فضل) جس کو چاہتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے(29)
#
{28} وهذا الخطابُ يُحتمل أنه خطابٌ لأهل الكتاب، الذين آمنوا بموسى وعيسى عليهما السلام؛ يأمرهم أن يعملوا بمقتضى إيمانهم؛ بأن يتَّقوا الله فيتركوا معاصِيَه ويؤمنوا برسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّهم إن فعلوا ذلك؛ أعطاهم الله {كِفْلَيْنِ من رحمتِهِ}؛ أي: نصيبين من الأجر؛ نصيبٍ على إيمانهم بالأنبياء الأقدمين، ونصيبٍ على إيمانهم بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم -. ويُحتمل أن يكون الأمرُ عامًّا؛ يدخل فيه أهلُ الكتابِ وغيرُهم، وهذا الظاهر، وأنَّ الله أمرَهَم بالإيمان والتَّقوى، الذي يدخُلُ فيه جميع الدين ظاهره وباطنه أصوله وفروعه، وأنَّهم إن امتثلوا هذا الأمر العظيم؛ أعطاهم [اللَّه] {كِفْلَيْنِ من رحمتِهِ}؛ لا يعلم قدرهما ولا وصفَهما إلاَّ الله تعالى: أجرٌ على الإيمان وأجرٌ على التقوى، أو أجرٌ على امتثال الأوامر وأجرٌ على اجتناب النَّواهي، أو أنَّ التَّثنية المراد بها تكرار الإيتاء مرةً بعد أخرى. {ويَجْعَل لكم نوراً تمشون به}؛ أي: يعطيكم علماً وهدىً ونوراً تمشون به في ظُلُمات الجهل، ويغفر لكم السيئات، {والله ذو الفضل العظيم}: فلا يُسْتَغْرَبُ كثرةُ هذا الثواب على فضل ذي الفضل العظيم، الذي عمَّ فضلُه أهلَ السماواتِ والأرض؛ فلا يخلو مخلوقٌ من فضله طرفةَ عينٍ ولا أقلَّ من ذلك.
[28] اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ خطاب ان اہل کتاب سے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ iپر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کے تقاضے پر عمل کریں ۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اس کی نافرمانی کو چھوڑ دیں اور اس کے رسول محمدe پر ایمان لائیں، اگر وہ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ عطا کرے گا: ﴿ كِفْلَیْ٘نِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ﴾ ’’اپنی رحمت سے دو گنا اجر ۔‘‘ یعنی ان کے اجر کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ان کے سابق رسولوں پر ایمان لانے کے بدلے میں اور دوسرا حصہ محمدeپر ایمان لانے کے بدلے میں۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور اس میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب داخل ہیں اور یہی ظاہر ہے، نیز اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا ہے جس میں دین کا تمام ظاہر و باطن اور اصول و فروع داخل ہے اور اگر وہ اس عظیم حکم کی تعمیل کریں گے ﴿ كِفْلَیْ٘نِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ﴾ تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انھیں دو گنا اجر عطا کرے گا جس کی مقدار اور وصف اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے مراد یا تو ایمان لانے پر اجر اور تقویٰ اختیار کرنے پر اجر ہے یا اوامر کی تعمیل پر اجر اور نواہی سے اجتناب کرنے پر اجر ہے یا تثنیہ سے مراد یکے بعد دیگر عطائے ثواب میں تکرار ہے۔ ﴿ وَیَجْعَلْ لَّـكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ ﴾ یعنی وہ تمھیں علم، ہدایت اور روشنی عطا کرے گا، جس کی مدد سے تم جہالت کی تاریکیوں میں چل پھر سکو گے اور وہ تمھارے گناہوں کو بخش دے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ اس ثواب کی یہ کثرت، فضل عظیم مالک کے فضل کے سامنے مستبعد نہیں جس کا فضل و کرم تمام آسمانوں اور زمین والوں پر سایہ کناں ہے، لمحہ بھر یا اس سے بھی کم وقت کے لیے مخلوق سے اس کا فضل و کرم جدا نہیں ہوتا۔
#
{29} وقوله: {لئلاَّ يعلم أهلُ الكتاب ألاَّ يقدِرونَ على شيءٍ من فضل الله}؛ أي: بيَّنا لكم فضلنا وإحساننا لمن آمن إيماناً عامًّا واتَّقى الله وآمن برسوله؛ لأجل أن يكونَ عند أهل الكتاب علمٌ بأنَّهم لا يقدرونَ على شيءٍ من فضل الله؛ أي: لا يحجُرون على الله بحسب أهوائهم وعقولهم الفاسدة، فيقولون: {لن يدخُلَ الجنَّةَ إلاَّ مَن كان هوداً أو نَصارى}، ويَتَمَنَّوْنَ على الله الأمانيَّ الفاسدةَ، فأخبر الله تعالى [أن] المؤمنين برسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، المتَّقين لله أنَّ لهم كِفْلَيْنِ من رحمته ونوراً ومغفرةً؛ رغماً على أنوف أهل الكتاب، وليعلموا {أنَّ الفضلَ بيد الله يؤتيه من يشاءُ}: ممَّنِ اقتضت حكمتُه تعالى أن يؤتِيَه من فضله، {والله ذو الفضل العظيم}: الذي لا يقادَرُ قدرُه.
[29] ﴿ لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾ یعنی ہم نے تمھارے سامنے بیان کر دیا ہے کہ اس شخص کو ہم اپنے فضل و احسان سے نوازتے ہیں جو عمومی ایمان سے بہرہ ور ہوتا ہے ، تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لاتا ہے۔ یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی تاکہ اہل کتاب کو یہ علم ہو جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یعنی وہ اپنی خواہشات نفس اور عقول فاسدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اس کے فضل سے روک نہیں سکتے، وہ کہتے ہیں: ﴿ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى﴾ (البقرہ:2؍111) ’’جنت میں داخل نہیں ہو گا سوائے یہودی اور نصرانی کے۔‘‘ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں فاسد آرزوئیں رکھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیe پر ایمان لانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کے علی الرغم ان کے لیے دو گنی رحمت، نور اور مغفرت ہے تاکہ انھیں معلوم ہو جائے ﴿ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘ جس کے بارے میں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے اپنا فضل عطا کرے۔ ﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ وہ فضل عظیم کا مالک ہے جس کی مقدار کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔