آیت:
تفسیر سورۂ واقعہ
تفسیر سورۂ واقعہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 26 #
{إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (1) لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ (2) خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ (3) إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا (4) وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا (5) فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا (6) وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً (7) فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (8) وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ (9) وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ (11) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (12) ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ (13) وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ (14) عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ (15) مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (16) يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ (17) بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ (18) لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ (19) وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ (20) وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (21) وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (23) جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24) لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا (25) إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا (26)}].
جب واقع ہو گی واقع ہونے والی(قیامت)(1) نہیں ہو گا اس کےواقع ہونے کے وقت کوئی بھی جھٹلانے والا(2) پست کرنے والی، بلند کرنے والی(3) جب ہلائی جائے گی زمین (سخت) ہلایا جانا(4) اور ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیا جانا(5) پس ہو جائیں گے وہ ذرات بکھرے ہوئے(6) اور ہو جاؤ گے تم قسمیں تین(7) سو دائیں (ہاتھ) والے، کیا (خوب) ہیں دائیں (ہاتھ) والے ؟(8) اور بائیں (ہاتھ) والے کیا (حقیر) ہیں بائیں (ہاتھ) والے؟(9) اور سبقت لینے والے تو سبقت ہی لینے والے ہیں (10)یہی لوگ مقرب ہیں (11) نعمت والے باغات میں (12) بہت بڑی جماعت پہلوں میں سے (13) اور تھوڑے سے پچھلوں میں سے (14) (بیٹھے ہوں گے) تختوں پر زر و جواہر سے جڑے ہوئے (15) تکیہ لگائے ہوئے ان پر آمنے سامنے (16) آتے جاتے ہوں گے ان پر لڑکے سدا لڑکے ہی رہنے والے (17) آبخورے اور آفتابے لیے ہوئے، اور لبریز جام، شراب کے جاری چشمے سے (18) نہ وہ مبتلائے سر درد ہوں گے اس سے اور نہ (مستی سے) مدہوش (19) اور پھل (لیے ہوئے) اس قسم سے جو وہ پسند کریں گے (20) اور گوشت پرندوں کا اس قسم سے جو وہ چاہیں گے (21) اور (ان کے لیے ہوں گی) حوریں فراخ چشم (22) جیسے موتی غلاف میں رکھے ہوئے (23) بدلے میں اس کے جو تھے وہ عمل کرتے (24) نہیں سنیں گے وہ اس میں کوئی لغو اور نہ گناہ کی بات (25) مگر بول سلام سلام کا (26)
#
{1 ـ 3} يخبر تعالى بحال الواقعة التي لا بدَّ من وقوعها، وهي القيامة، التي {ليس لوقعتها كاذِبةٌ}؛ أي: لا شكَّ فيها؛ لأنَّها قد تظاهرت عليها الأدلَّة العقليَّة والسمعيَّة، ودلَّت عليها حكمته تعالى {خافضةٌ رافعةٌ}؛ أي: خافضةٌ لأناس في أسفل سافلين، رافعةٌ لأناس في أعلى عليين، أو: خفضت بصوتها فأسمعت القريب، ورفعتْ فأسمعتِ البعيد.
[3-1] اللہ تبارک و تعالیٰ اس واقعہ کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے، اس واقعہ سے مراد قیامت ہے ﴿ لَ٘یْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ﴾ ’’اس کے واقع ہونے کے وقت کوئی بھی جھٹلانے والا نہ ہوگا۔‘‘ یعنی اس میں شک نہیں کیونکہ بکثرت عقلی و سمعی دلائل اس کی تائید کرتے ہیں اور حکمت الٰہی اس پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ﴾ ’’وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔‘‘ یعنی یہ واقعہ کچھ لوگوں کو اسفل السافلین کی پستیوں تک گرانے والا ہے اور کچھ کو اعلی علیین کی بلندیوں پر پہنچائے گا یا اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کی آواز دھیمی ہو گی قریب کے لوگوں کو ہی سنائی دے گی اور اس کی آواز اتنی بلند ہو گی کہ دور دور تک سنائی دے گی۔
#
{4 ـ 6} {إذا رُجَّتِ الأرضُ رجًّا}؛ أي: حُركت واضطربتْ، {وبُسَّتِ الجبالُ بَسًّا}؛ أي: فتت، {فكانت هباءً منبثًّا}: فأصبحت ليس عليها جبلٌ ولا مَعْلمٌ، قاعاً صفصفاً، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً.
[6-4] ﴿ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا﴾ یعنی جب زمین کو حرکت دی جائے گی اور وہ لرزنے لگے لگی۔ ﴿ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا﴾ اور پہاڑ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ ﴿ فَكَانَتْ هَبَآءًؔ مُّنْۢـبَثًّا﴾ ’’پھر وہ مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے۔‘‘ زمین کی حالت یہ ہو جائے گی کہ اس پر کوئی پہاڑ رہے گا نہ کوئی اونچی جگہ، بس ہموار اور چٹیل میدان ہو گا اور تجھے اس میں کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آئے گا۔
#
{7 ـ 9} {وكنتم}: أيُّها الخلق، {أزواجاً ثلاثةً}؛ أي: انقسمتم ثلاث فرق بحسب أعمالكم الحسنة والسيئة. ثم فصَّل أحوال الأزواج الثلاثة، فقال: {فأصحابُ الميمنةِ ما أصحابُ الميمنةِ}: تعظيمٌ لشأنهم وتفخيمٌ لأحوالهم، {وأصحابُ المشأمة}؛ أي: الشمال، {ما أصحابُ المشأمة}: تهويلٌ لحالهم.
[9-7] ﴿ وَّؔكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً ﴾ ’’اور (اے مخلوقات!) تم تین جماعتیں ہوجاؤگے۔‘‘ یعنی تم اپنے اچھے برے اعمال کے مطابق تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تین گروہوں کے احوال کی تفصیل بیان فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَاَصْحٰؔبُ الْمَیْمَنَةِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰؔبُ الْمَیْمَنَةِ﴾ ’’پس دائیں (ہاتھ )والے، کیا (خوب) ہیں دائیں (ہاتھ) والے! ‘‘ یہ آیت ان کی شان کی عظمت اور ان کے احوال کی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔ ﴿ وَاَصْحٰؔبُ الْمَشْـَٔمَةِ﴾ ’’اور بائیں (ہاتھ) والے‘‘ یعنی بائیں جانب کا گروہ ﴿ مَاۤ اَصْحٰؔبُ الْمَشْـَٔمَةِ﴾ ’’کیا (حقیر) ہیں بائیں (ہاتھ) والے؟‘‘ یہ آیت کریمہ اس گروہ کے احوال کی ہولناکیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
#
{10 ـ 14} {والسابقون السابقون. أولئك المقرَّبون}؛ أي: السابقون في الدنيا إلى الخيرات هم السابقون في الآخرة لدخول الجنات، أولئك الذين هذا وصفهم المقرَّبون عند الله {في جنات النعيم}: في أعلى علِّيين، في المنازل العاليات التي لا منزلة فوقها، وهؤلاء المذكورون {ثُلَّةٌ من الأوَّلين}؛ أي: جماعة كثيرون من المتقدِّمين من هذه الأمة وغيرهم. {وقليلٌ من الآخِرينَ}: وهذا يدلُّ على فضل صدر هذه الأمَّة في الجملة على متأخِّريها ؛ لكون المقرَّبين من الأولين أكثر من المتأخرين، والمقرَّبون هم خواصُّ الخلق.
[12-10] ﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰؔبِقُوْنَۚۙ۰۰ اُولٰٓىِٕكَ الْ٘مُقَرَّبُوْنَ۠﴾ ’’اور سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ہی ہیں۔ یہی لوگ مقرب ہیں۔‘‘ یعنی جو دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتے تھے، وہی آخرت میں جنت میں داخل ہونے کے لیے جنت کی طرف سبقت کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنت کے اندر، اعلیٰ علیین میں بلند منازل پر مقربین کے وصف سے موصوف ہوں گے، اس سے بلند تر کوئی منزل نہیں۔ [13] یہ مذکورہ لوگ﴿ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ﴾ اس امت اور دیگر امتوں کے متقدمین میں سے بہت سے لوگوں کی جماعت ہو گی۔ [14] یہ آیت کریمہ فی الجملہ اس امت کے اولین کی آخرین پر فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ آخرین کی نسبت اولین میں مقربین زیادہ ہیں۔
#
{15 ـ 16} {على سررٍ موضونةٍ}؛ أي: مرمولةٍ بالذهب والفضة واللؤلؤ والجوهر وغير ذلك من الحليِّ والزينة التي لا يعلمها إلاَّ الله تعالى، {متكئين عليها}؛ أي: على تلك السرر، جلوس تمكُّن وطمأنينةٍ وراحةٍ واستقرارٍ، {متقابلين}: وجه كلٍّ منهم إلى وجه صاحبه؛ من صفاء قلوبهم وتقابلها بالمحبة وحسن أدبهم.
[15] اور مقربین اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے خاص لوگ ہیں جو ﴿عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ﴾ ’’سونے کے تاروں سے بُنی ہوئی چار پائیوں پر ہوں گے۔‘‘ سونے، چاندی، موتیوں، جواہرات اور دیگر زیورات اور سامان آرائش سے آراستہ ہوں گے۔ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ [16] یعنی وہ ان تختوں پر نہایت تمکنت، اطمینان، راحت اور سکون کے ساتھ بیٹھیں گے ﴿ مُتَقٰبِلِیْ٘نَ﴾ ’’آمنے سامنے۔‘‘ ان کے دلوں کی صفائی، حسن ادب اور باہمی محبت کی بنا پر، ان میں سے ہر ایک کا چہرہ اپنے ساتھی کی طرف ہو گا۔
#
{17 ـ 19} {يطوفُ عليهم ولدانٌ مخلَّدونَ}؛ أي: يدور على أهل الجنة لخدمتهم وقضاء حوائجهم ولدانٌ صغارُ الأسنانِ في غاية الحسن والبهاء. {كأنَّهم لؤلؤٌ مكنونٌ}؛ أي: مستورٌ لا يناله ما يغيِّره، مخلوقون للبقاء والخلد؛ لا يهرمون ولا يتغيَّرون ولا يزيدون على أسنانهم، ويدورون عليهم بآنية شرابهم؛ {بأكوابٍ}: وهي التي لا عُرى لها، {وأباريقَ}: الأواني التي لها عرى، {وكأسٍ من مَعينٍ}؛ أي: من خمرٍ لذيذِ المشربِ لا آفة فيه، {لا يُصَدَّعونَ عنها}؛ أي: لا تصدِّعهم رؤوسُهم كما تصدِّعُ خمرة الدُّنيا رأس شاربها، ولا هم عنها {يُنزِفونَ}؛ أي: لا تُنْزَفُ عقولهم ولا تذهب أحلامُهم منها كما يكون لخمر الدنيا. والحاصلُ أنَّ كلَّ ما في الجنة من [أنواع] النعيم الموجود جنسه في الدُّنيا لا يوجد في الجنة فيه آفةٌ؛ كما قال تعالى: {فيها أنهارٌ من ماءٍ غير آسنٍ وأنهارٌ من لبنٍ لم يتغيَّرْ طعمُه وأنهارٌ من خمرٍ لَذَّةٍ للشاربين وأنهارٌ من عسل مُصَفًّى}، وذكر هنا خمر الجنَّة، ونفى عنه كلَّ آفة توجد في الدُّنيا.
[17، 18] ﴿ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ﴾ یعنی اہل جنت کی خدمت، اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم عمر لڑکے گھوم پھر رہے ہوں گے جو حسن و جمال میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔﴿ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ (الطور: 24/52)’’گویا کہ وہ چھپا کر رکھے ہوئے موتی ہیں۔‘‘ ان تک کوئی ایسی چیز نہیں پہنچ سکتی جو ان کو متغیر کر دے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، وہ بوڑھے ہوں گے نہ بدلیں گے اور نہ ان کی عمر ہی بڑھے گی۔ وہ ان کے مشروبات کے برتن لے کر ان میں گھومیں پھریں گے۔ ﴿ بِاَكْوَابٍ﴾ یعنی ایسے پیالوں کے ساتھ جن کے دستے نہیں ہوتے ﴿ وَّاَبَ٘ارِیْقَ﴾ اور ایسی صراحیوں کے ساتھ جن کے دستے ہوتے ہیں ﴿ وَؔكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ﴾ اور شراب کے چھلکتے جام لیے ہوئے جو پینے میں نہایت لذید ہو گی مگر اس میں نشہ کی آفت نہیں ہو گی۔ [19] ﴿ لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا﴾ یہ شراب ان کو سر درد میں مبتلا نہیں کرے گی جس طرح دنیا کی شراب پینے والے کو سر درد میں مبتلا کرتی ہے۔ ﴿ وَلَا یُنْزِفُوْنَ﴾ یہ شراب پینے سے ان کی عقل زائل ہو گی نہ ہوش و حواس ساتھ چھوڑیں گے جیسا کہ دنیا کی شراب سے ہوتا ہے۔اس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کے اندر جو جو نعمتیں مہیا ہوں گی ان کی جنس دنیا میں موجود ہے، البتہ جنت کے اندر کوئی خرابی پیدا کرنے والی چیز نہ ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فِیْهَاۤ اَنْ٘هٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ١ۚ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ لَّـبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ١ۚ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّ٘لشّٰرِبِیْنَ١ۚ ۬ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّ٘صَفًّى﴾ (محمد:47؍15) ’’اس میں (ایسے) پانی کی نہریں ہیں جو بدلنے والا نہیں اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ (کبھی) تبدیل نہ ہوا ہوگا، اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کو لذت دے گی اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہاں شراب جنت کا ذکر کیا ہے ، پھر اس سے ہر خرابی کی نفی کر دی جو دنیا کی شراب میں پائی جاتی ہے۔
#
{20} {وفاكهةٍ مما يتخيَّرون}؛ أي: مهما تخيَّروا وراق في أعينهم واشتهته نفوسُهم من أنواع الفواكه الشهيَّة والجنى اللذيذة؛ حَصَلَ لهم على أكمل وجهٍ وأحسنه.
[20] یعنی جو لذیذ اور خوش ذائقہ میوے وہ منتخب کریں گے یا ان کی آنکھوں کو بھلے لگیں گے اور ان کے دل ان کو کھانا چاہیں گے، وہ کامل ترین اور بہترین صورت میں ان کو حاصل ہوں گے۔
#
{21} {ولحم طيرٍ ممَّا يشتهون}؛ أي: من كلِّ صنف من الطيور يشتهونه، ومن أيِّ جنس من لحمه أرادوا؛ إن شاؤوا مشويًّا أو طبيخاً أو غير ذلك.
[21] یعنی پرندوں کی تمام اصناف کا گوشت جو وہ چاہیں گے اور جس قسم کا گوشت وہ چاہیں گے، انھیں مہیا ہو گا۔ اگر وہ بھنا ہوا گوشت چاہیں گے تو وہ ملے گا، اگر وہ پکا ہوا گوشت یا اس کے علاوہ کسی اور قسم کا گوشت چاہیں گے تو وہ بھی مہیا ہو گا۔
#
{22 ـ 23} {وحورٌ عينٌ كأمثال اللؤلؤ المكنون}؛ أي: ولهم حور عين، والحوراء: التي في عينها كحلٌ وملاحةٌ وحسنٌ وبهاءٌ، والعِينُ حسانُ الأعين ضخامها ، وحسنُ عين الأنثى ، من أعظم الأدلَّة على حسنها وجمالها. {كأمثال اللُّؤلؤ المكنونِ}؛ أي: كأنَّهن اللؤلؤ [الأبيض] الرطبُ الصافي البهيُّ المستور عن الأعين والريح والشمس، الذي يكون لونُه من أحسن الألوان، الذي لا عيب فيه بوجهٍ من الوجوه؛ فكذلك الحور العين، لا عيبَ فيهنَّ بوجهٍ، بل هنَّ كاملاتُ الأوصاف جميلاتُ النُّعوت؛ فكلُّ ما تأمَّلته منها؛ لم تجدْ فيه إلاَّ ما يسرُّ القلب ويروق الناظر.
[24-22] یعنی ان کے لیے بڑی بڑی آنکھوں والی گوری چٹی عورتیں ہوں گی ۔ اَلْحَوْرَاءُ اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کی آنکھیں سرمگیں ہوں اور میں ملاحت اور حسن و جمال ہو ۔ اَلْعِین بڑی بڑی حسین آنکھوں والی عورتوں کو کہا جاتا ہے۔ عورت کی آنکھوں کا حسن، اس کے حسن و جمال کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ﴿ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِؔ الْمَكْنُوْنِ﴾ گویا کہ وہ تازہ، صاف اور خوبصورت موتی ہوں جو آنکھوں، ہوا اور سورج سے چھپا ہوا ہو، جس کا رنگ بہترین رنگ ہوتا ہے، اس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی عیب نہیں ہوتا۔ اسی طرح بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی جن میں کسی بھی لحاظ سے کوئی عیب نہ ہو گا بلکہ وہ کامل اوصاف اور بہترین صفات کی مالک ہوں گی۔ آپ ان اوصاف میں جتنا بھی غور کریں گے، آپ ایسی چیز پائیں گے جو دل کو خوش کرے گی اور دیکھنے والے کو اچھی لگے گی۔ یہ نعمتیں جو ان کے لیے تیار کی گئی ہیں ﴿ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ جس طرح ان سے اچھے اعمال صادر ہوئے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو اچھی جزا عطا کرے گا، ان کو فوز عظیم اور بے شمار نعمتوں سے سرفراز کرے گا۔
#
{24} وذلك النعيم المعدُّ لهم {جزاءً بما كانوا يعملون}؛ فكما حَسُنَتْ منهم الأعمال؛ أحسن الله لهم الجزاء، ووفَّر لهم الفوز والنعيم.
[25] یعنی ان نعمتوں بھری جنتوں میں کوئی ایسی بات نہیں سنیں گے جو لغو ہو جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ کوئی ایسی بات سنیں گے جس کو کہنے والے گنا ہ گار ہوں۔
#
{25 ـ 26} {لا يسمعون فيها لغواً ولا تأثيماً}؛ أي: لا يسمعون في جنَّاتِ النعيم كلاماً يُلغي، ولا يكون فيه فائدةً ولا كلاماً يؤثم صاحبه {إلاَّ قيلاً سلاماً سلاماً}؛ أي: إلاَّ كلاماً طيباً، وذلك لأنَّها دار الطيبين، ولا يكون فيها إلاَّ كلُّ طيبٍ، وهذا دليلٌ على حسن أدب أهل الجنَّة في خطابهم فيما بينهم، وأنه أطيبُ كلام وأسرُّه للقلوب وأسلمه من كلِّ لغوٍ وإثم، نسأل الله من فضله.
[26] یعنی سوائے اچھی بات کے کیونکہ یہ پاک لوگوں کا گھر ہو گا، اس میں صرف پاک چیزیں ہوں گی۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اہل جنت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے میں حسن ادب سے کام لیں گے، ان کا کلام بہترین کلام اور دلوں کو خوش کرنے والا ہو گا، ہر قسم کی لغویات اور گناہ سے پاک ہو گا،ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی اہل جنت میں شامل کرے۔
آیت: 27 - 40 #
[{وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ (27) فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ (28) وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ (29) وَظِلٍّ مَمْدُودٍ (30) وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ (31) وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ (32) لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ (33) وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ (34) إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا (36) عُرُبًا أَتْرَابًا (37) لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ (38) ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ (39) وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (40)}].
اور دائیں (ہاتھ) والے، کیا (خوب) ہیں دائیں (ہاتھ) والے؟ (27) (ہوں گے) بے خار بیریوں میں (28) اور تہ بہ تہ کیلوں میں(29) اور پھیلائی ہوئی چھاؤ ں میں (30) اور پانی بہتے ہوئے (آبشاروں) میں (31) اور ایسے بہ کثرت پھلوں میں (32) جو نہ مقطوع (ختم) ہوں گے اور نہ ممنوع (33) اور ایسے تختوں پر جو اونچے ہوں گے (34) بلاشبہ ہم پیدا کریں گے ان (بیویوں) کو نئے سرے سے (35) پس بنا دیں گے ہم انھیں کنواریاں (36) دلربا، ہم عمر (37) اصحاب یمین کے لیے (38) کثیر جماعت پہلوں میں سے(39) اور کثیر جماعت پچھلوں میں سے (40)
#
{27 ـ 34} ثم ذَكَرَ ما أعدَّ لأصحاب اليمين ، فقال: {وأصحابُ اليمين ما أصحابُ اليمين}؛ أي: شأنُهم عظيمٌ وحالهم جسيمٌ، {في سدرٍ مخضودٍ}؛ أي: مقطوع ما فيه من الشوك والأغصان الرَّديئة المضرَّة، مجعول مكان ذلك الثمر الطيب. وللسِّدْرِ من الخواصِّ الظلُّ الظَّليل وراحة الجسم فيه، {وطلحٍ منضودٍ}: والطَّلْح معروفٌ، وهو شجرٌ كبارٌ يكون بالبادية تُنَضَّدُ أغصانه من الثمر اللذيذ الشهي، {وماءٍ مسكوبٍ}؛ أي: كثير من العيون والأنهار السارحة والمياه المتدفِّقة، {وفاكهةٍ كثيرةٍ. لا مقطوعةٍ ولا ممنوعةٍ}؛ أي: ليست بمنزلة فاكهة الدُّنيا؛ تنقطعُ في وقتٍ من الأوقات وتكون ممتنعةً؛ أي: متعسِّرة على مبتغيها، بل هي على الدوام موجودةٌ، وجناها قريبٌ يتناوله العبد على أيِّ حال يكون، {وفُرُشٍ مرفوعةٍ}؛ أي: مرفوعة فوق الأسرَّة ارتفاعاً عظيماً، وتلك الفرش من الحرير والذهب واللؤلؤ وما لا يعلمه إلاَّ الله.
[27] پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس نے اصحاب یمین کے لیے کیا کچھ تیار کر رکھا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاَصْحٰؔبُ الْیَمِیْنِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰؔبُ الْیَمِیْنِ﴾ ’’اور داہنے (ہاتھ) والے کیا (ہی اچھے) ہیں داہنے (ہاتھ) والے۔‘‘ یعنی وہ عظیم الشان لوگ اور بڑے احوال کے مالک ہیں۔ [28] یعنی بیری کے کانٹے اور ردی قسم کی ضرر رساں شاخیں تراش دی گئی ہوں گی اور ان کی جگہ نہایت لذیذ پھل لگا دیے جائیں گے۔ گہرا سایہ اور راحت جسم، بیری کے درخت کے خواص میں شمار ہوتے ہیں۔ [29، 30] ﴿ طَلْحٍ ﴾معروف درخت ہے، یہ بہت بڑا درخت ہوتا ہے جو صحراؤ ں میں اگتا ہے، اس کی شاخیں لذیذ اور مزیدارپھل سے لدی ہوئی ہوتی ہیں۔ [31] یعنی بہت سے چشموں اور بہتی ہوئی ندیوں کا بہتا ہوا اور اچھلتا ہوا پانی ہے۔ [32، 33] یعنی یہ پھل دنیا کے پھلوں کے مانند نہیں ہوں گے جو کسی وقت ختم ہو جاتے ہیں اور ان کو تلاش کرنے والوں کے لیے ان کا حصول مشکل ہو جاتا ہے بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے موجود رہیں گے، ان کو بہت قریب سے چنا جا سکے گا، بندۂ مومن کسی بھی حال میں ان کو حاصل کر سکے گا۔ [34] یعنی ان بچھونوں کو بہت بلند تختوں سے بھی بلند کیا گیا ہو گا۔ یہ بچھونے ریشم، سونے، موتیوں اور ایسی ایسی چیزوں سے بنے ہوئے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
#
{35 ـ 38} {إنَّا أنشأناهنَّ إنشاءً}؛ أي: إنَّا أنشأنا نساءَ أهل الجنة نشأةً غير النشأة التي كانت في الدنيا، نشأةً كاملةً، لا تقبل الفناء، {فَجَعَلْناهنَّ أبكاراً}: صغارهنَّ وكبارهنَّ، وعموم ذلك يشمل الحور العين ونساء أهل الدنيا، وأنَّ هذا الوصف ـ وهو البكارةُ ـ ملازم لهنَّ في جميع الأحوال؛ كما أنَّ كونهنَّ {عُرُباً أتراباً}: ملازمٌ لهنَّ في كلِّ حال، والعَروبُ هي المرأة المتحبِّبة إلى بعلها بحسن لفظها وحسن هيئتها ودلالها وجمالها ومحبَّتها؛ فهي التي إن تكلَّمت سبتِ العقول، وودَّ السامعُ أنَّ كلامها لا ينقضي، خصوصاً عند غنائهنَّ بتلك الأصوات الرخيمة والنَّغَمات المطربة، وإنْ نَظَرَ إلى أدبها وسمتها ودَلِّها؛ ملأت قلبَ بعلها فرحاً وسروراً، وإن انتقلتْ من محلٍّ إلى آخر؛ امتلأ ذلك الموضع منها ريحاً طيباً ونوراً، ويدخُلُ في ذلك الغنجة عند الجماع، والأتراب: اللاتي على سنٍّ واحدةٍ ثلاث وثلاثين سنة، التي هي غايةُ ما يتمنَّى ونهاية سنِّ الشباب؛ فنساؤهم عربٌ أترابٌ متفقاتٌ مؤتلفاتٌ راضياتٌ مرضياتٌ لا يَحْزَنَّ ولا يُحْزِنَّ، بل هنَّ أفراح النفوس وقُرَّة العيون وجلاء الأبصار، {لأصحاب اليمين}؛ أي: معدات لهم مهيَّآت.
[35] یعنی ہم نے اہل جنت کی عورتوں کو ایسی تخلیق پر پیدا کیا ہے جو دنیا کی تخلیق سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسی کامل تخلیق ہے جس کو فنا نہیں۔ [37,36] ہم جنت کی تمام چھوٹی بڑی عورتوں کو دو شیزائیں بنا دیں گے۔ اس کا عموم، خوبصورت آنکھوں والی حوروں اور دنیا کی عورتوں کو شامل ہے اور یہ وصف ، یعنی دو شیزگی، تمام احوال میں ان کا وصف لازم ہے جس طرح ان کا ﴿ عُرُبً٘ا اَ٘تْرَابً٘ا﴾ ’’محبت والیاں اور ہم عمر ہونا۔‘‘ ہر حال میں وصف لازم ہے۔ اَلْعُرُوباس عورت کو کہا جاتا ہے جو اپنے حسن ہیئت، اپنی ناز و ادا، اپنے جمال اور اپنی محبت کی وجہ سے شوہر کو بہت محبوب ہو، یہی وہ عورت ہے کہ جب وہ بات کرتی ہے تو عقلوں کو غلام بنا لیتی ہے اور سننے والا چاہتا ہے کہ اس کی بات کبھی ختم نہ ہو، خاص طور پر جبکہ وہ اس نرم اور مترنم آوازوں میں طربیہ نغمے گا رہی ہوں گی جب اس کا شوہر اس کے ادب، اس کی ہیئت اور اس کے ناز و ادا کی طرف دیکھتا ہے تو اس کا دل فرحت و سرور سے لبریز ہو جاتا ہے، جب وہ اس جگہ سے کسی اور جگہ منتقل ہو جاتی ہے تو وہ جگہ اس کی خوشبو اور نور سے لبریز ہو جاتی ہے، اس میں جماع کے وقت ناز و ادا بھی داخل ہے۔ اَلْاَتْرَاب ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی عمر میں ہوں، یعنی تینتیس سال کی عمر میں ہوں گی جس کے بارے میں تمنا کی جاتی ہے کہ یہ جوانی کی کامل ترین عمر کی انتہا ہے۔ پس ان کی بیویاں ان کو بہت محبوب، ہم عمر، اتفاق اور الفت کرنے والی، راضی رہنے والی ہوں گی اور ان کے شوہر ان پر راضی ہوں گے، بلکہ وہ دلوں کی فرحت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور نگاہوں کی روشنی ہوں گی۔ [38] یعنی (وہ بیویاں) اصحاب یمین کے لیے تیار اور ان کو مہیا کی جائیں گی ۔
#
{39 ـ 40} {ثلَّةٌ من الأوَّلين. وثُلَّةٌ من الآخرين}؛ أي: هذا القسم، وهم أصحاب اليمين، عددٌ كثيرٌ من الأوَّلين وعدد كثيرٌ من الآخرينِ.
[39، 40] لوگوں کی یہ قسم، یعنی اصحاب یمین، اولین میں سے بہت سی تعداد اور آخرین میں سے بہت سی تعداد پر مشتمل ہوں گی۔
آیت: 41 - 48 #
{وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ (41) فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ (42) وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ (43) لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ (44) إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُتْرَفِينَ (45) وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ (46) وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (47) أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ (48)}
اور بائیں (ہاتھ) والے، کیا (حقیر) ہیں بائیں (ہاتھ) والے؟ (41) (ہوں گے) سخت گرم ہوا اور گرم کھولتے پانی میں (42) اور سائے میں سیاہ ترین دھوئیں کے (43) نہ (وہ) ٹھنڈا ہو گا اور نہ فرحت بخش (44) بلاشبہ وہ تھے پہلے اس سے خوش حال (45) اور تھے وہ اصرار کرتے اوپر بڑے گناہ (شرک) کے (46) اور تھے وہ کہتے، کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں ہم مٹی اور ہڈیاں تو کیا بے شک ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ (47) کیا (ہم) اور ہمارے پہلے باپ دادا بھی؟ (48)
#
{41 ـ 44} المرادُ بأصحاب الشمال هم أصحابُ النارِ والأعمال المشؤومة، فذكر الله لهم من العقاب ما هم حقيقون به، فأخبر أنَّهم {في سَموم}؛ أي: ريح حارَّة من حرِّ نار جهنَّم؛ تأخذ بأنفاسهم، وتقلِقُهم أشدَّ القلق، {وحميم}؛ أي: ماءٍ حارٍّ يقطِّع أمعاءهم، {وظِلٍّ من يَحْموم}؛ أي: لهب نارٍ يختلط بدخان، {لا باردٍ ولا كريم}؛ أي: لا بردَ فيه ولا كرم. والمقصودُ أنَّ هناك الهمَّ والغمَّ والحزنَ والشرَّ الذي لا خير فيه؛ لأنَّ نفي الضدِّ إثباتٌ لضدِّه.
[44-41] اصحاب شمال سے مراد، اہل جہنم اور ان کے منحوس اعمال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کا ذکر فرمایا ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے، چنانچہ آگاہ فرمایا کہ وہ ﴿ فِیْ سَمُوْمٍ ﴾’’ باد سموم میں ہوں گے۔‘‘ یعنی جہنم کی آگ کی حرارت سے گرم کی ہوئی ہوا جو ان کی سانسوں کو پکڑ لے گی اور سخت اضطراب میں مبتلا کر دے گی ﴿ وَّحَمِیْمٍ﴾ یعنی سخت کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ ﴿ وَّظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ﴾ ’’اور سیاہ ترین دھویں کے سارے میں ہوں گے۔‘‘ یعنی آگ کے شعلوں میں ہوں گے جن کے ساتھ دھواں ملا ہوا ہو گا۔ ﴿ لَّا بَ٘ارِدٍ وَّلَا كَرِیْمٍ﴾ یعنی اس میں ٹھنڈک ہو گی نہ وہ خوشگوار ہو گا مقصد یہ ہے کہ وہاں ہم و غم اور حزن و شر ہو گا، جس میں کوئی بھلائی نہ ہو گی کیونکہ ضد کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے۔
#
{45 ـ 48} ثم ذكر أعمالهم التي أوصلتهم إلى هذا الجزاء، فقال: {إنَّهم كانوا قبل ذلك مُتْرَفينَ}؛ أي: قد ألهتْهم دنياهم وعمِلوا لها وتنعَّموا وتمتَّعوا بها، فألهاهم الأملُ عن إحسان العمل؛ فهذا الترفُ الذي ذمَّهم الله عليه، {وكانوا يُصِرُّونَ على الحِنثِ العظيم}؛ أي: وكانوا يفعلون الذُّنوب الكبار ولا يتوبون منها ولا يندمون عليها، بل يصرُّون على ما يُسْخِطُ مولاهم، فقَدِموا عليه بأوزارٍ كثيرةٍ غير مغفورةٍ، وكانوا يُنْكِرونَ البعث، فيقولون استبعاداً لوقوعه: {أإذا مِتْنا وكُنَّا تراباً وعظاماً أإنا لمبعوثونَ. أوَ آباؤنا الأوَّلونَ}؛ أي: كيف نُبْعَثُ بعد موتنا وقد بلينا فكُنَّا تراباً وعظاماً! هذا من المحال.
[48-45] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا ذکر فرمایا جنھوں نے ان کو اس انجام تک پہنچایا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِیْنَ﴾ یعنی وہ ایسے لوگ تھے کہ ان کی دنیا نے ان کو غافل کر دیا، انھوں نے دنیا کے لیے کام کیا، دنیا کی آسائشوں میں مگن رہے، دنیا سے فائدہ اٹھاتے رہے، دنیا کی مہلت نے ان کو اپنے عمل کو درست کرنے سے غافل رکھا۔ پس یہی وہ خوش حالی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے۔ ﴿وَكَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ﴾ یعنی وہ بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے اور ان سے توبہ کرتے تھے نہ انھیں ان گناہوں پر ندامت ہی ہوتی تھی۔ بلکہ وہ ایسے کاموں پر مصر رہتے تھے جن سے ان کا آقا ناراض تھا۔ پس انھوں نے نے اپنے آقا کے سامنے بڑے بڑے گناہ پیش کیے جن کی بخشش نہ تھی۔وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے اور اس کے وقوع کو بہت بعید سمجھتے ہوئے کہتے تھے ﴿ اَىِٕذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُ٘وْنَ۠۰۰ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ﴾ ’’کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر دوبارہ کھڑے کیے جائیں گے؟ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب اور ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 49 - 57 #
{قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ (49) لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (50) ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ (51) لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ (52) فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (53) فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ (54) فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ (55) هَذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ (56) نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ (57)}].
کہہ دیجیے! بلاشبہ پہلے بھی اور پچھلے بھی(49) یقیناً جمع کیے جائیں گے مقرر وقت پر ایک معلوم دن کے (50) پھر یقیناً تم اے گمراہو! جھٹلانے والو! (51) البتہ کھانے والے ہو گے تھوہڑ کے درخت سے (52) پس (تم) بھرنے والے ہو گے اس سے پیٹ (53) پھر پینے والے ہو گے اس پر گرم کھولتا پانی (54) پھر پینے والے (مانند) پینے پیاسے اونٹوں کے (55) یہ ہو گی مہمانی ان کی روز قیامت (56) ہم ہی نے پیدا کیا تمھیں، پھر کیوں نہیں تصدیق کرتے تم (بعثت کی)؟ (57)
#
{49 ـ 50} أي: قل: إنَّ متقدِّم الخلق ومتأخِّرهم؛ الجميع سيبعثهم الله ويجمعهم لميقات يوم معلوم قدَّره الله لعباده حين تنقضي الخليقة، ويريد الله [تعالى] جزاءهم على أعمالهم التي عملوها في دار التكليف.
[49، 50] یعنی گزری ہوئی اور آئندہ آنے والی تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور انھیں ایک مقرر دن میں اکٹھا کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے ختم ہو جانے پر، ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے ارادے سے جو انھوں نے دنیا میں کیے تھے ان کو اکٹھا کرنے کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
#
{51 ـ 53} {ثم إنَّكم أيُّها الضالُّون}: عن طريق الهدى، التابعون لطريق الرَّدى، {المكذِّبون}: بالرسول - صلى الله عليه وسلم - وما جاء به من الحقِّ والوعد والوعيد، {لآكلون من شجرٍ من زَقومٍ}: وهو أقبح الأشجار وأخسُّها وأنتنُها ريحاً وأبشعها منظراً، {فمالِئونَ منها البطونَ}: والذي أوجب لهم أكلها مع ما هي عليه من الشناعة، الجوعُ المفرِطُ الذي يلتهبُ في أكبادِهم وتكادُ تنقطعُ منه أفئدتهم، هذا الطعام الذي يدفعون به الجوع، وهو الذي لا يسمِنُ ولا يُغْني من جوع.
[53-51] ﴿ ثُمَّ اِنَّـكُمْ اَیُّهَا الضَّآلُّوْنَ ﴾ پھر بے شک تم ہدایت کے راستے سے بھٹک کر ہلاکت کے راستے پر چلنے والو! ﴿ الْمُكَذِّبُوْنَ۠﴾ رسول اکرم e اور اس حق کو جو آپ لے کر آئے ہیں اور وعد و وعید کو جھٹلانے والو! ﴿ لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ﴾ ’’تم تھوہر کے درخت سے ضرور کھاؤ گے۔‘‘ یہ قبیح ترین اور خسیس ترین درخت ہے جس کی بدبو انتہائی گندی اور اس کا منظر انتہائی برا ہے۔﴿ فَمَالِــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ﴾ ’’اس سے تم اپنے پیٹوں کو بھرو گے۔‘‘ وہ چیز جو انھیں اس درخت کو کھانے پر مجبور کرے گی، حالانکہ یہ بہت ہی گندا درخت ہو گا، بے انتہا بھوک ہوگی جو ان کے کلیجوں کو جلائے جا رہی ہو گی، قریب ہوگا کہ اس بھوک سے ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ یہ وہ کھانا ہے جس سے وہ اپنی بھوک کو مٹائیں گے جو ان کو موٹا کرے گا نہ ان کی بھوک مٹا سکے گا۔
#
{54 ـ 56} وأما شرابهم؛ فهو بئس الشرابُ، وهو أنهم يشربون على هذا الطعام من الماء الحميم الذي يغلي في البطون {شُرْبَ الهيم}: وهي الإبل العطاش ، التي قد اشتدَّ عَطَشها، أو أنَّ الهَيَم داءٌ يصيب الإبل لا تَرْوَى معه من شرب الماء. {هذا}: الطعام والشراب {نُزُلُهم}؛ أي: ضيافتهم {يومَ الدِّين}: وهي الضيافة التي قدَّموها لأنفسهم وآثروها على ضيافةِ الله لأوليائه؛ قال تعالى: {إنَّ الذين آمنوا وعَمِلوا الصالحاتِ كانتْ لهم جنَّاتُ الفِرْدَوْسِ نُزُلاً. خالدين فيها لا يَبْغونَ عنها حِوَلاً}.
[54، 56] اور رہا ان کا مشروب تو وہ بدترین مشروب ہے، وہ اس (تھوہر کے) کھانے کے بعد کھولتا ہوا پانی پئیں گے جو ان کے پیٹوں میں جوش مارے گا ، وہ اسے پیاسے کی طرح پئیں گے جس کی پیاس انتہائی شدید ہو۔ ﴿ الْهِیْمِ﴾ سے مراد ایک بیماری ہے جو اونٹوں کو لاحق ہوتی ہے، اس بیماری کی وجہ سے پانی پینے سے اونٹ کی پیاس نہیں بجھتی۔ ﴿ هٰؔذَا﴾ یعنی یہ کھانا اور پینا ﴿ نُزُلُهُمْ﴾ ان کی ضیافت ہو گی ﴿ یَوْمَ الدِّیْنِ﴾’’ قیامت کے دن۔‘‘ اور یہ وہ ضیافت ہے جسے انھوں نے اپنے لیے آگے بھیجا تھا اور جسے انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اس ضیافت پر ترجیح دی جو اس نے اپنے اولیاء کے لیے تیار کر رکھی تھی۔ فرمایا :﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْ٘فِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ۰۰ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا﴾ (الکہف: 18؍107، 108) ’’بے شک جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے، مہمانی کے طور پر ان کے لیے جنت الفردوس ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہاں سے وہ نقل مکانی کرنا نہیں چاہیں گے۔‘‘
#
{57} ثم ذكر الدليل العقليَّ على البعث، فقال: {نحن خَلَقْناكم فلولا تصدِّقونَ}؛ أي: نحن الذين أوجَدْناكم بعد أن لم تكونوا شيئاً مذكوراً من غير عجزٍ ولا تعبٍ، أفليس القادر على ذلك بقادرٍ على أن يُحيي الموتى؟ بلى إنَّه على كلِّ شيءٍ قديرٌ، ولهذا وبَّخهم على عدم تصديقهم بالبعث وهم يشاهدون ما هو أعظم منه وأبلغ.
[57] پھر اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت پر عقلی دلیل دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ﴾ ’’ہم ہی نے تمھیں پیدا کیا، پھر تم (دوبارہ جی اُٹھنے کی) تصدیق کیوں نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ہم نے کسی عاجزی اور تھکاوٹ کے بغیر تمھیں وجود بخشا، اس کے بعد کہ تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے، کیا اس کام پر قدرت رکھنے والا، مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں! وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بنابریں ان کے حیات بعد الموت کی تصدیق نہ کرنے پر، ان کو زجر و توبیخ کی ہے، حالانکہ وہ ایسے ایسے امور کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس سے زیادہ بڑے اور زیادہ بلیغ ہیں۔
آیت: 58 - 62 #
{أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ (58) أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ (59) نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ (60) عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ (61) وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَى فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ (62)}.
بھلا بتاؤ تو جو منی تم ٹپکاتے ہو (58) کیا تم پیدا کرتے ہو اس کو یا ہم ہیں (اس کے) خالق؟(59) ہم ہی نے مقدر کر دی ہے تمھارے درمیان موت اور نہیں ہم عاجز (بلکہ قادر ہیں) (60) اس بات پر کہ بدل کر لے آئیں (اور مخلوق) تم جیسی، اور نئے سرے سے پیدا کریں تمھیں ایسی (صورت) میں جو نہیں جانتے تم (61) اور یقیناً تم نے جان لیا ہے پہلی پیدائش کو، پھر کیوں نہیں تم نصیحت پکڑتے؟ (62)
#
{58 ـ 62} أي: {أفرأيتم} ابتداء خَلْقِكُم من المنيِّ الذي {تُمنون} فهل أنتم خالقون ذلك المنيَّ، وما ينشأ منه أم الله تعالى الخالق؟ الذي خَلَقَ فيكم من الشهوة وآلتها في الذكر والأنثى، وهدى كلاًّ منهما لما هنالك، وحبَّب بين الزوجين، وجعل بينهما من المودَّة والرَّحمة ما هو سبب التناسل ، ولهذا أحالهم اللهُ تعالى بالاستدلال بالنَّشأة الأولى على النشأة الأخرى، فقال: {ولقد علمتُمُ النَّشْأةَ الأولى فلولا تَذَكَّرونَ}: أنَّ القادر على ابتداء خلقكم قادرٌ على إعادتكم.
[62-58] یعنی کیا تم نے منی کے ذریعے سے اپنی تخلیق کی ابتدا پر غور کیا جو تم (اپنی بیویوں کے رحم میں)ٹپکاتے ہو؟ کیا اس منی اور اس سے جو کچھ پیدا ہوتا ہے، اس کے تم خالق ہو یا اس کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جس نے تم میں، یعنی مرد اور عورت میں شہوت پیدا کی ہے اور اس کے لیے دونوں میں سے ہر ایک کی راہ نمائی فرمائی، میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کی، ان کے درمیان مودت اور رحمت کا تعلق قائم کیا جو تناسل کا سبب ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق اول کے ذریعے سے تخلیق ثانی پر استدلال کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْلَا تَذَكَّـرُوْنَ﴾ بے شک تمھاری تخلیق کی ابتدا پر قدرت رکھنے والی ہستی، تمھیں دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔
آیت: 63 - 67 #
{أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ (63) أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (64) لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ (65) إِنَّا لَمُغْرَمُونَ (66) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (67)}.
بھلا بتلاؤ تو جو تم بوتے ہو(63)کیا تم اگاتے ہو اسے یا ہم ہیں اگانے والے؟ (64) اگر ہم چاہیں تو البتہ کر دیں اس کو ریزہ ریزہ پھر ہو جاؤ تم پشیمان ہونے والے (65) کہ بلاشبہ ہم البتہ چٹی ڈال دیے گئے (66)بلکہ ہم محروم ہی رہ گئے (67)
#
{63 ـ 67} وهذا امتنانٌ منه على عباده؛ يدعوهم به إلى توحيدِهِ وعبادتِهِ والإنابةِ إليه؛ حيث أنعم عليهم بما يسَّره لهم من الحرث للزُّروع والثمار، فيخرجُ من ذلك من الأقوات والأرزاق والفواكه ما هو من ضروراتهم وحاجاتهم ومصالحهم التي لا يقدِرون أن يُحصوها، فضلاً عن شكرها وأداء حقِّها، فقرَّرهم بمنَّته، فقال: {أأنتُم تَزْرَعونَه أم نحنُ الزَّارِعونَ}؛ أي: أنتم أخرجْتُموه نباتاً من الأرض؟ أم أنتُم الذي نمَّيتموه؟ أم أنتم الذين أخرجتم سُنْبله وثمرَه حتى صار حبًّا حصيداً وثمراً نضيجاً؟ أم الله الذي انفرد بذلك وحدَه وأنعم به عليكم، وأنتم غايةُ ما تفعلون أن تحرُثوا الأرض، وتشقُّوها، وتُلْقوا فيها البذرَ، ثم لا علم عِندكم بما يكون بعد ذلك ولا قدرةَ لكم على أكثر من ذلك؟ ومع ذلك؛ فنبَّههم على أنَّ ذلك الحرثَ معرضٌ للأخطار لولا حفظُ الله وإبقاؤه بُلغةً لكم ومتاعاً إلى حين. فقال: {لو نشاء لجعلناه}؛ أي: الزرع المحروث وما فيه من الثمار {حُطاماً}؛ أي: فتاتاً متحطِّماً لا نفع فيه ولا رزق، {فظَلْتُمْ}؛ أي: فصرتُم بسبب جعله حطاماً بعد أن تعبتم فيه، وأنفقتم النفقات الكثيرة، {تَفَكَّهونَ}؛ أي: تندمون وتحسرون على ما أصابكم، ويزول بذلك فرحُكم وسرورُكم وتفكُّهكم، فتقولون: {إنَّا لَمُغْرَمونَ}؛ أي: إنَّا قد نقصنا وأصابتنا مصيبةٌ اجتاحَتْنا. ثم تعرفون بعد ذلك من أين أتيتُم، وبأيِّ سبب دُهيتم؟ فتقولون: {بل نحنُ محرومونَ}! فاحْمَدوا الله تعالى حيث زَرَعَه [اللَّهُ] لكم، ثم أبقاه وكمَّله لكم، ولم يرسلْ عليه من الآفات ما به تُحرمون من نفعِهِ وخيرِهِ.
[67-63] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر احسان ہے جس کے ذریعے سے وہ انھیں اپنی توحید، اپنی عبادت، اور اپنی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کھیتی باڑی اور باغات کو میسر کر کے انھیں نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کھیتی باڑی اور باغات سے خوراک، رزق اور پھل مہیا ہوتے ہیں جو ان کی ضرورت، حاجات اور ان کے مصالح میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق ادا کرنا تو کجا، وہ ان نعمتوں کو شمار تک نہیں کر سکتے۔پس فرمایا:﴿ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ﴾ یعنی کیا تم نے اس کو اگا کر زمین سے نکالا ہے؟ کیا تم نے اس کو نشوونما دی؟ کیا تم ہو جنھوں نے اس کے خوشوں اور اس کے پھل کو نکالا، یہاں تک کہ وہ تیار شکل میں اناج اور پکا ہوا پھل بن گیا؟ یا یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جو یہ سب کچھ سر انجام دینے میں متفرد ہے اور اسی نے تمھیں ان نعمتوں سے نوازا ہے۔ تمھارے فعل کی غایت اور انتہا تو بس یہ ہے کہ تم زمین میں ہل چلاتے اور اسے پھاڑ دیتے ہو اور پھر اس میں بیج ڈال دیتے ہو، تمھیں کوئی علم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ پر تمھیں کوئی قدرت و اختیار نہیں، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ کھیتی خطرات کی زد میں رہتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کر کے، تمھاری گزاران اور ایک مدت مقررہ تک استعمال کے لیے اسے باقی نہ رکھتا (تو یہ کھیتی کبھی محفوظ نہ رہتی۔) ﴿لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ﴾’’ اور اگر ہم چاہتے تو اسے کردیتے۔‘‘ یعنی یہ کاشت کی گئی کھیتی اور اس کے اندر موجود پھل کو ﴿حُطَامًا﴾ ریزہ ریزہ کیا گیا چورا، جس میں کسی قسم کا کوئی فائدہ ہے نہ رزق کا کام دیتا ہے ﴿ فَظَلْتُمْ﴾ یعنی اس کے چورا اور بھس بنائے جانے کے سبب سے، اس کے بعد کہ تم نے اس میں بہت مشقت اٹھائی اور بہت زیادہ اخراجات برداشت کیے ، پھر تم رہ جاتے۔﴿ تَفَكَّهُوْنَ﴾ ندامت اٹھانے والے اور اس مصیبت پر حسرت زدہ ہو نے والے جو تم پر نازل ہوئی، تمھاری ساری فرحت، مسرت اور لذت زائل ہو جاتی اور تم کہہ اٹھتے : ﴿اِنَّا لَ٘مُغْرَمُوْنَ﴾ ’’کہ بلاشبہ ہم پر چٹی ڈال دی گئی۔‘‘ یعنی ہم نے نقصان اٹھایا، ہم پر ایسی مصیبت نازل ہوئی، جس نے ہمیں ہلاک کر ڈالا، پھر اس کے بعد تمھیں معلوم ہوتا کہ یہ مصیبت تم پر کہاں سے آئی اور کس سبب سے یہ آفت تم پرآن پڑی؟ پھر تم کہتے ﴿بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ﴾ ’’بلکہ ہم تو بالکل ہی محروم رہ گئے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کرو کہ اس نے تمھارے لیے کھیتی اگائی، اسے باقی رکھا ۔اسے تمھارے لیے پایۂ تکمیل کو پہنچایا، اس پر کوئی آفت نہ بھیجی جس کی وجہ سے تم اس کے فائدے اور اس کی بھلائی سے محروم ہو جاتے۔
آیت: 68 - 70 #
{أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ (68) أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (69) لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ (70)}
بھلا بتلاؤ تو وہ پانی جو تم پیتے ہو (68) کیا تم نے نازل کیا ہے اسے بادلوں سے یا ہم ہیں نازل کرنے والے؟(69) اگر ہم چاہیں تو کر دیں ہم اسے کھارا تو کیوں نہیں تم شکر کرتے؟ (70)
#
{68 ـ 70} لما ذكر تعالى نعمته على عباده بالطعام؛ ذَكَرَ نعمته عليهم بالشراب العذب الذي منه يشربون، وأنَّه لولا أنَّ الله يسَّره وسهَّله؛ لما كان لكم إليه سبيلٌ ، وأنَّه الذي أنزله {من المزنِ}: وهو السحابُ والمطرُ الذي يُنْزِلُه الله تعالى، فيكون منه الأنهار الجارية على وجه الأرض وفي بطنها، ويكون منه الغدرانُ المتدفِّقة، ومن نعمته تعالى أن جعله عذباً فراتاً تُسيغُه النفوس، ولو شاء؛ لَجَعَلَهُ ملحاً {أجاجاً}: لا يُنتفع به ، {فلولا تشكرون}: الله تعالى على ما أنعم به عليكم.
[70-68] جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کو طعام کی نعمت سے نوازا ہے تو اس نے اس خوشگوار شیریں پانی کی نعمت کا بھی ذکر فرمایا جسے وہ پیتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو حاصل کرنا آسان اور سہل نہ بنایا ہوتا تو اس کے حصول کا تمھارے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ وہی ہے جس نے بادل میں سے اس کو نازل کیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بارش نازل کرتا ہے، پھر روئے زمین پر اور زمین کے نیچے، اس پانی سے بہتے ہوئے دریا اور ابلتے ہوئے چشمے بن جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اسے خوشگوار شیریں بنایا جسے لوگ مزے سے پیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے کھاری اور کڑوا بنا دیتا جس سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا۔ ﴿ فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ﴾ پس تم ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے، جو اس نے تمھیں عطا کی ہیں؟
آیت: 71 - 74 #
{أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ (71) أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ (72) نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ (73) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (74)}.
بھلا بتلاؤ تو وہ آگ جو تم جلاتے ہو (71) کیا تم نے پیدا کیا ہے اس کا درخت یا ہم ہیں پیدا کرنے والے؟ (72) ہم ہی نے بنایا ہے اسے یاد دہانی کا ذریعہ اور فائدہ مسافروں کے لیے (73) سو تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو نہایت عظمت والا ہے (74)
#
{71 ـ 73} وهذه نعمةٌ تدخل في الضروريَّات التي لا غنى للخلق عنها؛ فإنَّ الناس محتاجون إليها في كثيرٍ من أمورهم وحوائجهم، فقرَّرهم تعالى بالنار التي أوجدها في الأشجار، وأنَّ الخلق لا يقدرون أن ينشئوا شجرها، وإنَّما الله تعالى قد أنشأها من الشجر الأخضر؛ فإذا هي نارٌ توقد بقدر حاجة العباد؛ فإذا فرغوا من حاجتهم؛ أطفؤوها وأخمدوها. {نحن جَعَلْناها تذكرةً}: للعباد بنعمة ربِّهم، وتذكرةً بنار جهنَّم التي أعدَّها الله للعاصين، وجعلها سوطاً يسوقُ به عبادَه إلى دار النعيم، {ومتاعاً للمُقْوينِ}؛ أي المنتفعين أو المسافرين، وخصَّ الله المسافرين؛ لأنَّ نفع المسافر بها أعظم من غيره، ولعلَّ السبب في ذلك لأنَّ الدُّنيا كلَّها دارُ سفرٍ، والعبدُ من حين ولد فهو مسافرٌ إلى ربِّه؛ فهذه النار جعلها الله متاعاً للمسافرين في هذه الدار وتذكرةً لهم بدار القرار.
[73-71] یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ضروریات زندگی میں داخل ہے جس سے مخلوق مستغنی نہیں رہ سکتی کیونکہ لوگ اپنے بہت سے امور اور حوائج میں اس کے محتاج ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے آگ کی نعمت کو متحقق کیا ہے جس کو اس نے درختوں کے اندر وجود بخشا، مخلوق میں یہ قدرت نہ تھی کہ وہ اس کے درخت کو پیدا کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے سر سبز درخت سے آگ کو پیدا کیا، تب یکایک یہ بندوں کی ضرورت کے مطابق جل اٹھتی ہے، جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اسے بجھا دیتے ہیں۔ ﴿ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً﴾ یعنی ہم نے اس کو بندوں کے لیے ان کے رب کی نعمت اور جہنم کی آگ کی یاد دہانی بنایا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، یہ (یاد دہانی) ایک کوڑا ہے جو اس کے بندوں کو نعمتوں بھری جنت کی طرف ہانکتا ہے ﴿ وَّمَتَاعًا لِّ٘لْ٘مُقْوِیْنَ﴾ یعنی فائدہ اٹھانے والوں یا مسافروں کے لیے کچھ سامان زیست بنایا، اللہ تعالیٰ نے مسافروں کو اس لیے مخصوص فرمایا کیونکہ مسافر کے لیے اس کا فائدہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہے اور شاید اس کا سبب یہ بھی ہو کہ دنیا تمام تر مسافر خانہ ہے۔ پس اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مسافروں کے لیے سامان زیست اور آخرت کے دائمی گھر کی یاد دہانی بنایا ہے۔
#
{74} فلما بيَّن من نعمه ما يوجب الثناء عليه من عباده وشكره وعبادته؛ أمر بتسبيحه وتعظيمه ، فقال: {فسبِّحْ باسم ربِّك العظيم}؛ أي: نزِّهْ ربَّك العظيم كامل الأسماء والصفات، كثير الإحسان والخيرات، واحْمَدْه بقلبك ولسانك وجوارِحكَ؛ لأنَّه أهلٌ لذلك، وهو المستحقُّ لأن يُشْكَرَ فلا يُكْفَرَ ويُذْكَرَ فلا ينسى ويُطاعَ فلا يُعْصَى.
[74] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو بیان فرمایا جو بندوں کی طرف سے اس کی حمد و ثنا ، اس کے شکر اور اس کی عبادت کی موجب ہیں تو اس نے اپنی تسبیح و تحمید کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَ٘سَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ یعنی اپنے رب عظم کی تنزیہ بیان کیجیے جو اسماء و صفات میں کامل اور بے پایاں احسانات اور بھلائیوں کا مالک ہے۔ اپنے دل، زبان اور جوارح کے ساتھ اس کی حمد و ستائش بیان کیجیے کیونکہ وہ اس کا اہل اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے، اس کی ناشکری نہ کی جائے، اس کو یاد رکھا جائے اس کو فراموش نہ کیا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے۔
آیت: 75 - 87 #
{فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ (75) وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (76) إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (77) فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (78) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (79) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (80) أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ (81) وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (82) فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (83) وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (84) وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (85) فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (86) تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (87)}.
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی (75) اور بلاشبہ یہ البتہ قسم ہے، اگر تمھیں علم ہو، بہت بڑی (76) کہ بلاشبہ یہ قرآن ہے نہایت معزز (77) کتاب محفوظ میں (78) نہیں ہاتھ لگاتے اس کو مگر پاک (فرشتے) ہی(79) نازل کردہ ہے رب العالمین کی طرف سے (80) کیا پس اس حدیث (قرآن) سے تم بے اعتنائی کرتے ہو؟ (81) اور کرتے ہو تم اپنا حصہ یہ کہ تم تکذیب کرتے ہو (82) پس کیوں نہیں، جب پہنچتی ہے (روح) حلق تک (83) اور تم اس وقت دیکھتے ہو (84) اور ہم زیادہ قریب ہوتے ہیں اس سے تمھاری نسبت اور لیکن نہیں دیکھتے ہو تم (85) پس کیوں نہیں، اگر ہو تم نہیں بدلہ دیے جاؤ گے (86) پھیر لاتے تم اس (روح) کو، اگر ہو تم سچے؟ (87)
#
{75 ـ 76} أقسم تعالى بالنُّجوم ومواقعها، أي: مساقطها في مغاربها وما يُحْدِثُ الله في تلك الأوقات من الحوادث الدالَّة على عظمته وكبريائه وتوحيده، ثم عظَّم هذا المقسم به، فقال: {وإنَّه لقسمٌ لو تعلمون عظيمٌ}، وإنَّما كان القسم عظيماً؛ لأنَّ في النجوم وجريانها وسقوطها عند مغاربها آياتٍ وعبراً لا يمكن حصرها.
[75، 76] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ستاروں کی اور ان کے منازل ، یعنی ان کے غروب کے مقامات اور ان کے سقوط کی جگہ کی قسم کھائی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان حوادث کی قسم کھائی ہے جو ان اوقات میں واقع ہوتے ہیں جو اس کی عظمت، اس کی کبریائی اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں ۔پھر اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی قسم کھائی ہے، اس کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ﴾ اور یہ قسم صرف اس لیے عظمت کی حامل ہے کہ ستاروں، ان کی رفتار اور ان کے غروب کے مقامات میں ان کے سقوط کی جگہوں میں بہت سی نشانیاں اور عبرتیں ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
#
{77} وأمَّا المقسَمُ عليه؛ فهو إثبات القرآن، وأنَّه حقٌّ لا ريب فيه ولا شكَّ يعتريه، وأنَّه {كريمٌ}؛ أي: كثير الخير غزير العلم، فكلُّ خيرٍ وعلم؛ فإنَّما يُستفادُ من كتاب الله ويُسْتَنْبَطُ منه.
[77] جس امر پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے قرآن کا اثبات، نیز یہ کہ قرآن حق ہے جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ۔ یہ کریم ہے، یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہت زیادہ علم والا ہے، ہر بھلائی اور ہر علم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے مستفاد اور مستنبط ہوتا ہے۔
#
{78} {في كتابٍ مكنونٍ}؛ أي: مستورٍ عن أعين الخلق، وهذا الكتاب المكنون هو اللوحُ المحفوظُ؛ أي: أنَّ هذا القرآن مكتوبٌ في اللوح المحفوظ، معظَّم عند الله وعند ملائكته في الملأ الأعلى. ويُحتمل أنَّ المراد بالكتاب المكنون هو الكتاب الذي بأيدي الملائكة الذين يُنْزِلُهُمُ الله لوحيه ورسالته ، وأنَّ المرادَ بذلك أنَّه مستورٌ عن الشياطين، لا قدرةَ لهم على تغييره ولا الزيادة والنقص منه واستراقه.
[78] ﴿ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ﴾ ’’ کتاب محفوظ میں ہے۔‘‘ یعنی مخلوق کی آنکھوں سے مستور ہے، یہ کتاب مکنون لوح محفوظ ہے، یعنی یہ قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اور ملأاعلیٰ میں فرشتوں کے ہاں قابل عظمت ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہو جو ان فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی جنھیں اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور رسالت کے لیے نازل کرتا ہے، اور مراد یہ ہے کہ یہ کتاب شیاطین سے مستور ہے شیاطین کو اس میں تغیر تبدل ، کمی بیشی اور چوری کرنے کی قدرت حاصل نہیں۔
#
{79} {لا يَمَسُّهُ إلاَّ المُطَهَّرونَ}؛ أي: لا يَمَسُّ القرآن إلاَّ الملائكةُ الكرام، الذينَ طهَّرهم الله تعالى من الآفات والذنوب والعيوب، وإذا كان لا يمسُّه إلاَّ المطهَّرون، وأنَّ أهل الخبث والشياطين لا استطاعة لهم ولا يدان إلى مسِّه؛ دلَّت الآية تنبيهاً على أنَّه لا يجوز أن يَمَسَّ القرآن إلاَّ طاهرٌ [كما ورد بذلك الحديثُ، ولهذا قيل: إنّ الآية خبرٌ بمعنى النهي؛ أي: لا يمسَّ القرآن إلاَّ طاهر].
[79] ﴿ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْ٘مُطَهَّرُوْنَ۠﴾ ’’اسے صرف پاک (فرشتے) ہی چھوتے ہیں۔‘‘ یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ کرام ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہاً اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لیے قرآن کو چھونا جائز نہیں ۔
#
{80} {تنزيلٌ من ربِّ العالمين}؛ أي: إنَّ هذا القرآن الموصوف بتلك الصفات الجليلة هو تنزيلُ ربِّ العالمين، الذي يربِّي عباده بنعمه الدينيَّة والدنيويَّة، وأجلُّ تربيةٍ ربَّى بها عباده إنزالُه هذا القرآن، الذي قد اشتمل على مصالح الدَّارين، ورحم الله به العباد رحمةً لا يقدرون لها شكوراً، ومما يجب عليهم أن يقوموا به، ويعلنوه، ويدعوا إليه، ويصدعوا به.
[80] ﴿ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ یہ قرآن جو ان صفاتِ جلیلہ سے موصوف ہے، ربِ کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے جو دینی اور دنیاوی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تربیت کرتا ہے، وہ جلیل ترین چیز جس کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کی تربیت کی، اس قرآن کو نازل کرنا ہے جو دونوں جہانوں کے مصالح پر مشتمل ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا رحم فرمایا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ان پر واجب ہے کہ وہ اس قرآن کو قائم کریں، برسر عام اس کا اعلان کریں، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیں، اور اس کو کھلم کھلا بیان کریں۔
#
{81} ولهذا قال: {أفبهذا الحديث أنتم مُدْهِنونَ}؛ أي: أفبهذا الكتاب العظيم والذِّكْرِ الحكيم {أنتم مُدْهِنون }؛ أي: تختفون وتدلِّسون خوفاً من الخلق وعارهم وألسنتهم! هذا لا ينبغي ولا يَليقُ! إنَّما يليق أن يُداهَنَ بالحديث الذي لا يثقُ صاحبه منه، وأمَّا القرآن الكريم؛ فهو الحقُّ الذي لا يغالِبُ به مغالِبٌ إلاَّ غَلَبَ، ولا يصول به صائلٌ إلاَّ كان العالي على غيره، وهو الذي لا يُداهَنُ به ويُختفى ، بل يُصْدَعُ به ويُعْلَن.
[81] بنابریں فرمایا: ﴿ اَفَبِهٰؔذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ﴾ ’’پھر تم اس کلام (قرآن) سے بے پروائی کرتے ہو؟‘‘یعنی کیا تم اس کتاب عظیم اور ذکر حکیم کو مخلوق کے خوف، ان کے عار اور ان کی زبانوں کے ڈر سے چھپاتے ہو؟ ایسا کرنا مناسب ہے نہ لائق شان ہے، لائق شان اور مناسب تو یہ ہے کہ اس بات میں مداہنت کی جائے جس کے بارے میں انسان کو وثوق حاصل نہ ہو۔رہا قرآن کریم تو یہ ایسا حق ہے کہ جب بھی کوئی مقابلہ کرنے والا اس کا مقابلہ کرتا ہے تو یہی غالب آتا ہے اور کوئی بھی حملہ آور اگر اس قرآن کے ساتھ حملہ کرتا ہے تو یہ اپنے مدمقابل کے مقابلے میں کامیاب رہتا ہے۔ قرآن ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں مداہنت کی جائے نہ اسے چھپایا جائے بلکہ برسر عام اس کا اعلان کیا جائے۔
#
{82} وقوله: {وتجعلون رِزْقَكم أنَّكم تكذِّبون}؛ أي: تجعلون مقابلة منَّة الله عليكم بالرزق التكذيبَ والكفرَ لنعمة الله، فتقولون: مُطِرْنا بِنَوْء كذا وكذا! وتضيفون النعمة لغير مُسديها ومُوليها؛ فهلاَّ شكرتُم الله على إحسانه إذْ أنزله إليكم ليزيدَكم من فضله؛ فإنَّ التكذيب والكفر داعٍ لرفع النِّعم وحلول النِّقم.
[82] ﴿ وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّـكُمْ تُكَذِّبُوْنَ﴾ ’’اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ تم جھٹلاتے پھرو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے احسان و عنایت کا مقابلہ وظیفۂ تکذیب اور اس کی نعمت کی ناسپاسی کے ذریعے سے کرتے ہو اور کہتے ہو ’’فلاں ستارے کے طلوع ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی‘‘ اور تم نعمت کو ان ہستیوں کی طرف منسوب کرتے ہو جنھوں نے یہ نعمتیں عطا نہیں کیں۔ پس تم نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیوں ادا نہ کیا کہ اسی نے تم پر یہ بارش برسائی ہے تاکہ وہ تمھیں اور زیادہ اپنے فعل و کرم سے سرفراز کرے کیونکہ کفر و تکذیب نعمتوں کو اٹھا لینے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے نازل ہونے کے اسباب ہیں۔
#
{83 ـ 85} {فلولا إذا بلغتِ الحلقوم. وأنتُم حينئذٍ تنظرونَ. ونحنُ أقربُ إليه منكُم ولكن لا تُبْصِرونَ}؛ أي: فهلاَّ إذا بلغت الروحُ الحلقومَ، وأنتم تنظُرون المحتضر في هذه الحالة، والحال أنَّا نحن أقربُ إليه منكم بعلمنا وملائكتنا، ولكن لا تبصرون.
[85-83] ﴿ فَلَوْلَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ۰۰وَاَنْتُمْ حِیْنَىِٕذٍ تَنْظُ٘رُوْنَۙ۰۰وَنَحْنُ اَ٘قْ٘رَبُ اِلَیْهِ مِنْؔكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُ٘بْصِرُوْنَ﴾ یعنی جب روح حلق تک پہنچتی ہے اور تم اس حالت میں موت کے آنے کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہو، حالانکہ ہم اپنے علم اور اپنے فرشتوں کے ذریعے سے، مرنے والے کے تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے۔
#
{86 ـ 87} {فلولا إن كنتُم غير مَدينينَ}؛ أي: فهلاَّ إذ كنتُم تزعمون أنكم غير مبعوثين ولا محاسبين ومجازين، ترجعون الروح إلى بدنها {إن كنتُم صادقين}: وأنتم تقرُّون أنكم عاجزون عن ردِّها إلى موضعها؛ فحينئذٍ إمَّا أن تقرُّوا بالحقِّ الذي جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، وإمَّا أن تعانِدوا فتعلم حالكم وسوء مآلكم.
[86، 87] ﴿ فَلَوْلَاۤ اِنْ كُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ۰۰ تَرْجِعُوْنَهَاۤ۠﴾ ’’پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں، تو کیوں نہیں اس روح کو پھیر لیتے۔‘‘ یعنی بھلا جب تم اس زعم باطل میں مبتلا ہو کہ تمھیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا نہ تمھارا حساب کتاب کر کے تمھیں جزا و سزا دی جائے گی تو تم روح کو بدن میں واپس کیوں نہیں لے آتے ﴿ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر تم سچے ہو۔‘‘ حالانکہ تم اقرار کرتے ہو کہ تم اس روح کو بدن میں واپس لانے سے عاجز ہو، تب تمھیں یا تو اس حق کا اقرار کرنا ہو گا جو محمد کریمe لے کر آئے ہیں یا تم عناد رکھو گے، پس تمھارا حال اور تمھارا برا انجام معلوم ہے۔
آیت: 88 - 96 #
{فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ (88) فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ (89) وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ (90) فَسَلَامٌ لَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ (91) وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ (92) فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ (93) وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ (94) إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ (95) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (96)}
پس لیکن اگر ہے وہ (مُردہ) مقربین میں سے ہو (88) تو ہے (اس کے لیے) راحت اور خوشبو اور نعمتوں والا باغ(89) اور لیکن اگر ہے وہ اصحاب الیمین میں سے (90) تو (کہا جائے گا:) سلامتی ہے تیرے لیے، (تو) اصحاب الیمین میں سے ہے (91) اور لیکن اگر ہے وہ، تکذیب کرنے والے گمراہوں میں سے (92) تو مہمانی ہو گی (اس کی) گرم کھولتے پانی سے (93) اور داخل کرنا ہے جہنم میں (94) بلاشبہ یہ (خبر) یہی یقینی حق ہے (95) پس تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو عظیم ہے (96)
#
{88 ـ 89} ذكر الله تعالى أحوال الطوائف الثلاث: المقرَّبين، وأصحاب اليمين، والمكذِّبين الضالِّين في أول السورةِ في دارِ القرارِ، ثم ذكر أحوالَهم في آخرها عند الاحتضارِ والموتِ، فقال: {فأمَّا إن كان من المقرَّبين}؛ أي: إن كان الميِّت من المقرَّبين إلى الله، المتقرِّبين إليه بأداء الواجبات والمستحبَّات وترك المحرَّمات والمكروهات وفضول المباحات، {فـ} لهم {روحٌ}؛ أي: راحةٌ وطمأنينةٌ وسرورٌ وبهجةٌ ونعيمُ القلب والروح، {ورَيْحانٌ}: وهو اسم جامعٌ لكل لذَّةٍ بدنيَّةٍ من أنواع المآكل والمشارب وغيرها، وقيل: الريحانُ هو الطيبُ المعروف، فيكون من باب التعبير بنوع الشيء عن جنسه العام، {وجنَّةُ نعيم}: جامعةٌ للأمرين كليهما، فيها ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر، فيبشَّر المقرَّبون عند الاحتضار بهذه البشارة، التي تكاد تطير منها الأرواح فرحاً وسروراً ؛ كما قال تعالى: {إنَّ الذين قالوا ربُّنا الله ثم استقَاموا تَتَنَزَّلُ عليهم الملائكةُ أن لا تخافوا ولا تحزنوا وأبْشِروا بالجنَّةِ التي كُنتُمْ توعَدونَ. نحنُ أولياؤكم في الحياةِ الدُّنيا وفي الآخرةِ ولكم فيها ما تَشْتَهي أنفسُكم ولكم فيها ما تدَّعونَ. نُزُلاً من غفورٍ رحيم}، وقد فُسِّرَ قولُه [تبارك و] تعالى: {لهم البُشرى في الحياة الدُّنيا وفي الآخرة}: أنَّ هذه البشارة المذكورة هي البُشرى في الحياة الدنيا.
[88، 89] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ کے اوائل میں، قیامت کے دن تین گروہوں، یعنی مقربین، اصحاب یمین اور مکذبین کے احوال کا ذکر فرمایا، پھر اس کے آخر میں ان کے ان احوال کا ذکر فرمایا جب موت کا وقت آ پہنچے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْ٘مُقَرَّبِیْنَ۠﴾ اگر مرنے والا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے ہو گا۔ اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو واجبات و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات اور بے فائدہ مباحات سے اجتناب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول میں کوشاں رہے ہوں گے۔ ﴿ فَرَوْحٌ﴾ تب ان کے لیے راحت و اطمینان ، فرحت و سرور اور قلب و روح کی نعمتیں ہوں گی ﴿وَّرَیْحَانٌ﴾ یہ ایسی لذت بدنی کے لیے ایک جامع لفظ ہے جو مختلف انواع کےماکولات و مشروبات پر مشتمل ہو۔کہا جاتا ہے ’’ریحان‘‘ سے مراد معروف خوشبو ہے، تب یہ کسی چیز کی نوع کے ذریعے سے اس کی جنس عام کی تعبیر کے باب میں سے ہے۔ ﴿ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ﴾ ’’اور نعمتوں والی جنت ہے۔‘‘ جو دونوں امور کی جامع ہو گی، اس میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں، نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے تصور میں ان کا گزر ہوا ہے۔ مقربین کی موت کے قرب کے وقت، ان کو ان نعمتوں کی بشارت دی جاتی ہے جس کی بنا پر فرحت اور سرور سے ان کی ارواح اڑنے لگتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۰۰ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَ٘شْ٘تَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۰۰نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۰۰﴾ ( حٰمۗ السجدۃ:41/30-32) ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم ڈرو نہ غم کھاؤ ، اور جنت کی خوشخبری سے خوش ہو جاؤ جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا، دنیا کی زندگی میں بھی ہم تمھارے دوست تھے اور آخرت (کی زندگی) میں بھی (ہم تمھارے دوست ہوں گے) اس جنت میں تمھارے لیے ہر وہ چیز ہو گی جس کی تمھارے دل خواہش کریں گے اور اس میں تمھیں ہر وہ چیز ملے گی جو تم طلب کرو گے۔ یہ سب کچھ رب غفور و رحیم کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہو گا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ لَهُمُ الْ٘بُشْرٰؔى فِی الْحَؔیٰؔوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’(یونس:10/64) ’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوشخبری ہے۔‘‘ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ مذکورہ بشارت، دنیا کی زندگی کی بشارت ہے۔
#
{90 ـ 91} وقوله: {وأمَّا إن كان من أصحابِ اليمين}؛ وهم الذين أدَّوا الواجبات وتركوا المحرَّمات، وإن حَصَلَ منهم بعضُ التقصير في بعض الحقوق التي لا تُخِلُّ بإيمانهم وتوحيدهم، فيقالُ لأحدهم: {سلامٌ لك من أصحابِ اليمين}؛ أي: سلامٌ حاصلٌ لك من إخوانك أصحاب اليمين؛ أي: يسلِّمون عليه، ويحيُّونه عند وصوله إليهم ولقائهم له، أو يقال له: سلامٌ لك من الآفات والبليَّات والعذاب؛ لأنَّك من أصحاب اليمين، الذين سَلِموا من الموبقات.
[90، 91] ﴿ وَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰؔبِ الْیَمِیْنِ﴾ ’’اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے واجبات کو ادا کیا اور محرمات کو ترک کیا، اگرچہ ان سے بعض ایسے حقوق کے بارے میں کوتاہی سرزد ہوئی جن سے ان کے ایمان اور توحید میں خلل واقع نہیں ہوا﴿فَـــ﴾ تو ان میں سے ہر کسی سے کہا جائے گا: ﴿سَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰؔبِ الْیَمِیْنِ﴾ تمھارے اصحاب یمین بھائیوں کی طرف سے تمھیں سلامتی حاصل ہے۔ یعنی جب وہ ان کے پاس پہنچے گا اور ان سے ملاقات کرے گا تو وہ اسے سلام اور خوش آمدید کہیں گے۔ یا اس سے کہا جائے گا کہ دنیا کی آفات، مصائب اور عذاب سے تم سلامت ہو کیونکہ تم اصحاب یمین میں سے ہو جو ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچتے رہے ہیں۔
#
{92 ـ 94} {وأمَّا إن كان من المكذِّبين الضَّالِّين} أي: الذين كذَّبوا بالحقِّ وضلُّوا عن الهدى، {فنُزُلٌ من حميمٍ. وتصليةُ جَحيم}؛ أي: ضيافتهم يومَ قدومهم على ربِّهم تصليةُ الجحيم التي تحيط بهم وتصِلُ إلى أفئدتهم، وإذا استغاثوا من شدَّة العطش والظمأ؛ {يغاثوا بماءٍ كالمهل يَشْوي الوجوهَ بئس الشرابُ وساءتْ مُرْتَفَقاً}.
[94-92] ﴿ وَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِیْنَ۠ الضَّآلِّیْ٘نَ﴾ ’’اور لیکن اگر وہ تکذیب کرنے والے گمراہوں میں سے ہوا۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے حق کو جھٹلایا اور ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے ﴿ فَنُ٘زُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍۙ۰۰ وَّتَصْلِیَةُ جَحِیْمٍ ۰۰﴾ تو جس روز وہ اپنے رب کی خدمت میں حاضر ہوں گے، اس روز ان کی ضیافت یہ ہو گی کہ ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا جو ان کو گھیرے گی اور ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی اور جب وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگیں گے ﴿ یُغَاثُ٘وْا بِمَآءٍ كَالْ٘مُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ١ؕ بِئْسَ الشَّرَابُ١ؕ وَسَآءَتْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف:18؍29) ’’تو انھیں ایسا کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا، جو پگھلے ہوئے تانپے کے مانند گرم ہو گا جو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا، ان کا مشروب کتنا برا، اور ان کی آرام گاہ کتنی بری ہو گی۔‘‘
#
{95} {إنَّ هذا}: الذي ذكره الله تعالى من جزاء العباد بأعمالهم خيرها وشرِّها وتفاصيل ذلك {لَهُوَ حقُّ اليقينِ}؛ أي: الذي لا شكَّ فيه ولا مريةَ، بل هو الحقُّ الثابتُ الذي لا بدَّ من وقوعه، وقد أشهد اللهُ عبادَه الأدلَّة القواطع على ذلك، حتى صار عند أولي الألباب كأنَّهم ذائقون له مشاهدونَ لحقيقتِهِ ، فحمدوا الله تعالى على ما خصَّهم من هذه النعمة العظيمة والمنحة الجسيمة.
[95] ﴿ اِنَّ هٰؔذَا﴾ یہ سب کچھ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، مثلاً: بندوں کے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا، اور اس کی تفاصیل ﴿ لَهُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ﴾ ’’بلاشبہ یہی (مذکور) حق الیقین ہے۔‘‘ یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ بلکہ یہ ثابت شدہ حق ہے جس کا وقوع لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے، اس پر قطعی دلائل پیش کیے ہیں اور اس کی حیثیت خرد مندوں کے نزدیک ایسے ہے گویا کہ وہ اس کا ذائقہ چکھ رہے ہوں اور اس کی حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ پس انھوں نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی کہ اس نے ان کو اس عظیم نعمت اور اتنی بڑی عنایت سے مختص کیا۔
#
{96} ولهذا قال تعالى: {فسبِّحْ باسم ربِّك العظيم}؛ فسبحان ربِّنا العظيم، وتعالى وتنزَّه عما يقول الظالمون والجاحدون علوًّا كبيراً، والحمدُ لله ربِّ العالمين حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه.
[96] بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘سَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ ’’لہٰذا تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر۔‘‘ پس پاک ہے ہمارا رب عظیم، منزہ اور بہت بلند و برتران باتوں سے جو منکرین حق (اس کے بارے میں)کرتے ہیں۔