آیت:
تفسیر سورۂ رحمٰن
تفسیر سورۂ رحمٰن
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 13 #
{الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4) الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5) وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6) وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (7) أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (8) وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ (9) وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (10) فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ (11) وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ (12) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (13)}.
رحمن(1) سکھایا اس نے قرآن(2) پیدا کیا اس نے انسان کو(3) سکھایا اس کو بولنا(4) سورج اور چاند (چلتے ہیں) ایک حساب سے(5) اور بیلیں اور درخت سجدہ کرتے ہیں(6) اور آسمان، اسی (رحمن) نے بلند کیا اس کو اور اسی نے رکھی ترازو(7) تاکہ نہ تجاوز کرو تم تولنے میں(8) اور قائم کرو تم وزن کو انصاف سے، اور نہ کمی کرو تم تولی جانے والی چیز میں(9) اور زمین، اسی نے رکھا (بچھایا) اس کو مخلوق کے لیے (10) اس میں میوے ہیں اور کھجور کے درخت (جن کے شگوفے اور پھل ہوتے ہیں) غلافوں والے (11) اور دانے(اناج اور غلے) ہیں بھوسے والے اور پھول خوشبو دار (12) تو (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی تم دونوں(اے جن و انس!) جھٹلاؤ گے؟ (13)
#
{1} هذه السورة الكريمة الجليلةُ افتتحها باسمه الرحمن، الدالِّ على سعة رحمته وعموم إحسانه وجزيل برِّه وواسع فضله، ثم ذَكَرَ ما يدلُّ على رحمته وأثرها الذي أوصله الله إلى عباده من النعم الدينيَّة والدنيويَّة والأخرويَّة، وبعد كل جنس ونوع من نعمه ينبِّه الثقلين لشكره ويقول: {فبأيِّ آلاء ربِّكما تكذِّبان}.
[1] اس سورۂ کریمہ کا افتتاح اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ﴿ اَلرَّحْمٰنُ ﴾ سے ہوا ہے جو اس کی بے پایاں رحمت، عمومی احسان، بے شمار بھلائیوں اور وسیع فضل و کرم پر دلالت کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو اس کی رحمت اور ان کے آثار یعنی دینی، دنیاوی، اور اخروی نعمتوں پر دلالت کرتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں تک پہنچایا۔ اپنی ان نعمتوں کی ہر جنس اور نوع کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں، یعنی جن و انس کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں۔ چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ ’’پھر تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
#
{2} فذكر أنه: {علم القرآن}؛ أي: علَّم عباده ألفاظه ومعانيه ويسَّرها على عباده، وهذا أعظم منَّة ورحمة رحم بها العباد، حيث أنزل عليهم قرآناً عربياً بأحسن الألفاظ وأوضح المعاني ، مشتملٌ على كلِّ خير، زاجرٌ عن كلِّ شرٍّ.
[2] پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا :﴿ عَلَّمَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ﴾ یعنی اس نے اپنے بندوں کو قرآن کے الفاظ و معانی کی تعلیم دی اور اس کے الفاظ کو بندوں پر آسان کر دیا۔ یہ اس کی سب سے بڑی عنایت اور رحمت ہے، جو بندوں پر سایہ کناں ہے کہ اس نے ان پر بہترین الفاظ میں اور واضح ترین معانی کے ساتھ عربی قرآن نازل کیا جو ہر بھلائی پر مشتمل اور ہر برائی سے روکتا ہے۔
#
{3 ـ 4} {خلق الإنسان}: في أحسن تقويم، كامل الأعضاء، مستوفَى الأجزاء، محكم البناء، قد أتقن البارئ تعالى البديع خلقه أيَّ إتقان، وميَّزه على سائر الحيوانات بأن {علَّمه البيانَ}؛ أي: التبيين عمَّا في ضميره. وهذا شاملٌ للتعليم النُّطقيِّ والتعليم الخطِّيِّ؛ فالبيان الذي ميَّز الله به الآدميَّ على غيره من أجلِّ نعمه وأكبرها عليه.
[3، 4] ﴿ خَلَقَ الْاِنْسَانَ﴾ انسان کو بہترین صورت میں، کامل اعضاء اور پورے اجزاء کے ساتھ نہایت محکم بنیاد پر تخلیق فرمایا، باری تعالیٰ نے انسان کو پوری مہارت کے ساتھ بنایا اور اسے تمام حیوانات پر امتیاز بخشا ﴿ عَلَّمَهُ الْبَیَانَ﴾ یعنی اسے ما فی الضمیر کو بیان کرنا سکھایا اور یہ تعلیم نطقی اور تعلیم خطی دونوں کو شامل ہے، مافی الضمیر کا بیان جس کی بنا پر آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات پر امتیاز بخشا، اس کا شمار اللہ کی سب سے بڑی اور جلیل ترین نعمتوں میں ہوتا ہے۔
#
{5} {الشمسُ والقمرُ بحُسْبانٍ}؛ أي: خلق الله الشمس والقمر وسخَّرهما يجريان بحساب مقنَّن وتقدير مقدَّر رحمةً بالعباد وعنايةً بهم، وليقوم بذلك من مصالحهم ما يقوم، وليعرفوا عدد السنين والحساب.
[5] ﴿ اَلشَّ٘مْسُ وَالْ٘قَ٘مَرُ بِحُسْبَانٍ﴾ ’’سورج اور چاند ایک حساب سے چلتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو پیدا کیا، ان کو مسخر کیا، جو بندوں پررحمت اور ان کے ساتھ عنایت کے طور پر ایک متعین حساب اور مقررانداز سے چل رہے ہیں، نیز اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بندوں کے مصالح کا انتظام کرتا ہے تاکہ بندے ماہ و سال کی گنتی اور حساب کی معرفت حاصل کر لیں۔
#
{6} {والنجم والشجر يسجُدان}؛ أي: نجوم السماء وأشجار الأرض تعرِفُ ربَّها وتسجُد له وتطيع وتخضع وتنقاد لما سخَّرها له من مصالح عباده ومنافعهم.
[6] ﴿ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰؔنِ ﴾ آسمان کے ستارے اور زمین کے درخت سب اپنے رب کو پہچانتے ہیں، اس کو سجدہ کرتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے مصالح اور منافع کے لیے ان کو مسخر کر رکھا ہے۔
#
{7 ـ 8} {والسماء رفعها}: سقفاً للمخلوقات الأرضيَّة، {ووضع} [اللَّه] {الميزان}؛ أي: العدل بين العبادِ في الأقوال والأفعال، وليس المراد به الميزان المعروف وحده، بل هو كما ذكرنا؛ يدخل فيه الميزان المعروف والمكيال الذي تُكال به الأشياء والمقادير والمساحات التي تُضْبَط بها المجهولات والحقائق التي يُفْصَل بها بين المخلوقات ويُقام بها العدل بينهم، ولهذا قال: {ألاَّ تَطْغَوْا في الميزان}؛ أي: أنزل الله الميزان لئلاَّ تتجاوزوا الحدَّ في الميزان؛ فإنَّ الأمر لو كان يرجع إلى عقولكم وآرائكم؛ لحصل من الخلل ما الله به عليم، ولفسدت السماواتُ والأرض ومن فيهنَّ.
[7، 8] ﴿ وَالسَّمَآءَؔ رَفَعَهَا﴾ یعنی ارضی مخلوقات کے لیے آسمان کی چھت کو بلند کیا ﴿ وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے ترازو وضع کیا، یعنی بندوں کے درمیان، اقوال و افعال میں عدل جاری کیا۔ اس سے مراد صرف معروف میزان ہی نہیں بلکہ وہ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں ، معروف میزان، ناپ تول جس کے ذریعے سے اشیاء اور دیگر مقداروں کو ناپا جاتا ہے، دیگر پیمانے جن کے ذریعے سے مجہولات کو منضبط کیا جاتا ہے اور وہ حقائق بھی داخل ہیں جن کے ذریعے سے مخلوقات میں فرق کیا جاتاہے اور ان کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل قائم کیا جاتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے میزان نازل فرمائی تاکہ تم حقوق اور دیگر معاملات میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اگر معاملہ عقل اور تمھاری آراء کی طرف لوٹتا تو ایسا خلل واقع ہوتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہےاور آسمان، زمین اور ان کے رہنے والے فساد کا شکار ہو جاتے ہیں۔
#
{9} {وأقيموا الوزنَ بالقسطِ}؛ أي: اجعلوه قائماً بالعدل، الذي تصل إليه مقدرتكم وإمكانكم، {ولا تُخْسِروا الميزانَ}؛ أي: لا تنقصوه وتعملوا بضدِّه، وهو الجور والظلم والطغيان.
[9] ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ﴾ ’’اور تم وزن انصاف سے کرو۔‘‘ یعنی جہاں تک تمھاری قدرت، طاقت اور تمھارے امکان میں ہے، وزن کو انصاف کے ساتھ قائم رکھو۔ ﴿ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ﴾ یعنی اسے کم نہ کرو کہ اس کی ضد پر عمل کرنے لگو، اس سے مراد ہے ظلم و جور اور سرکشی ہے۔
#
{10} {والأرضَ وضعها}: الله على ما كانت عليه من الكثافة والاستقرار واختلاف أوصافها وأحوالها {للأنام}؛ أي: للخلق؛ لكي يستقرُّوا عليها، وتكون لهم مهاداً وفراشاً، يبنون بها ويحرُثون ويغرِسون ويحفرون، ويسلكون سُبُلَها فجاجاً، وينتفعون بمعادنها، وجميع ما فيها مما تدعو إليه حاجتهم بل ضرورتهم.
[10] ﴿ وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس کی کثافتوں، اس کے استقرار اور اس کے اوصاف و احوال سمیت بنایا۔ ﴿ لِلْاَنَامِ﴾ مخلوق کے لیے تاکہ وہ زمین کو ٹھکانا بنائے، زمین ان کے لیے ہموار فرش کا کام دے، یہ اس پر عمارتیں تعمیر کریں، زمین پر کھیتی باڑی کریں، باغات لگائیں، کنویں کھودیں، اس کے راستوں پر چلیں، اس کی معدنیات اور ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائیں جن کی انھیں حاجت اور ضرورت ہو،
پھر اللہ تعالیٰ نے خوراک کی ضروری اشیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
#
{11} {فيها فاكهةٌ}: وهي جميع الأشجار التي تثمر الثمراتِ التي يتفكَّه بها العبادُ من العنب والتين والرمان والتُّفاح وغير ذلك، {والنَّخْلُ ذاتُ الأكمام}؛ أي: ذات الوعاء الذي ينفلق عن القِنْوان التي تَخْرُجُ شيئاً فشيئاً حتى تتمَّ فتكون قوتاً يدَّخر ويؤكل ويتزوَّد منه المقيم والمسافر وفاكهةً لذيذةً من أحسن الفواكه.
[11] ﴿ فِیْهَا فَاكِهَةٌ﴾ ’’اس میں لذیذ پھل ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ تمام درخت ہیں جو پھل پیدا کرتے ہیں جنھیں بندے مزے سے کھاتے ہیں، مثلاً: انگور، انجیر، انار اور سیب وغیرہ ۔﴿ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَؔكْمَامِ﴾ ’’اور کھجور کے درخت ہیں جن کے شگوفے غلافوں میں لپٹے ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی غلاف والی کھجوریں جو گچھے سے پھوٹتی ہیں جو تھوڑی تھوڑی کر کے نکلتی ہیں یہاں تک کہ مکمل ہو جاتی ہیں ، تب وہ خوراک بن جاتی ہیں جس کو کھایا جاتا ہے، اس کو ذخیرہ کیا جاتا ہے، مقیم اور مسافر اس کو توشہ بناتے ہیں، کھجور بہترین پھلوں میں سے نہایت لذیذ پھل ہے۔
#
{12} {والحبُّ ذو العصفِ}؛ أي: ذو الساق الذي يُداس فينتفع بتبنه للأنعام وغيرها، ويدخل في ذلك حبُّ البُرِّ والشعير والذُّرة والأرز والدخن وغير ذلك، {والريحانُ}: يُحتمل أنَّ المراد به جميع الأرزاق التي يأكلها الآدميُّون، فيكون هذا من باب عطف العامِّ على الخاصِّ، ويكون الله [تعالى] قد امتنَّ على عباده بالقوت والرزق عموماً وخصوصاً. ويُحتمل أنَّ المراد بالريحان الريحان المعروف، وأنَّ الله امتنَّ على عباده بما يسَّره في الأرض من أنواع الروائح الطيبة والمشامِّ الفاخرة التي تسرُّ الأرواح وتنشرح لها النفوس.
[12] ﴿ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ﴾ ’’اور بھوسے والے دانے (اناج) ۔‘‘ یعنی نال دار اناج جسے گاہا جاتا ہے ، پھر مویشیوں وغیرہ کے لیے اس کے بھوسے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس میں گیہوں، جو، مکئی، چاول اور چنا وغیرہ داخل ہیں ﴿وَالرَّیْحَانُ﴾ ’’اور خوشبودار پھول ہیں۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے رزق کی تمام اقسام مراد ہوں جس کو آدمی کھاتے ہیں۔ تب یہ خاص پر عطف عام کے باب میں شمار ہو گا اور اس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عمومی اور خصوصی خوراک اور رزق سے نوازا ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد معروف ریحان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع کی خوش کن اور فاخرہ خوشبوؤ ں کو زمین میں سے مہیا کر کے، ان سے اپنے بندوں کو نوازا ہے جو روح کو مسرت عطا کرتی ہیں اور ان سے نفوس میں انشراح پیدا ہوتا ہے۔
#
{13} ولما ذَكَرَ جملةً كثيرةً من نعمه التي تشاهد بالأبصار والبصائر، وكان الخطابُ للثَّقلين الجن والإنس؛ قررهم تعالى بنعمه، فقال: {فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبانِ}؛ أي: فبأيِّ نعم الله الدينيَّة والدنيويَّة تكذِّبان؟ وما أحسن جواب الجن حين تلا عليهم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - هذه السورة؛ فكلَّما مرَّ بقوله: {فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبان}؛ قالوا: ولا بشيءٍ من آلائك ربنا نكذِّبُ؛ فلك الحمد. فهكذا ينبغي للعبد إذا تليت عليه نعم الله وآلاؤه أن يُقِرَّ بها ويشكر ويحمد الله عليها.
[13] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سے نعمتوں کا ذکر فرمایا جن کا آنکھوں اور بصیرت کے ذریعے سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور خطاب دونوں گروہوں یعنی جنات اور انسانوں کے لیے ہے، اس لیے اپنی نعمتوں کو متحقق کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ یعنی (اے جن و انس!) تم اللہ تعالیٰ کی کون کون سی دینی اور دنیاوی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ جب رسول اللہ e نے یہ آیت کریمہ جنات کے سامنے تلاوت فرمائی تو ان کا کیا ہی خوبصورت جواب تھا۔ جب بھی آپ ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ پڑھتے تو وہ جواب میں کہتے:لَا بِشَیْءٍ مِّنْ نِّعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ ’’اے ہمارے رب!ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، پس تو ہی ہر قسم کی حمد و ثنا کا مستحق ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ الرحمٰن، حدیث: 3291) اسی طرح بندۂ مومن کو چاہیے کہ جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی آیات تلاوت کی جائیں تو وہ ان کا اقرار کرے ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی حمد و ثنا بیان کرے۔
آیت: 14 - 16 #
{خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14) وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ (15) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (16)}.
اس نے پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکری (14) اور اس نے پیدا کیا جن کو شعلۂ آتش سے (15) پس (کون)کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (16)
#
{14} وهذا من نعمه تعالى على عباده؛ حيث أراهم من آثارِ قدرتِهِ وبديع صنعته أنْ {خَلَقَ} أبا {الإنسان}، وهو آدم عليه السلام، {من صلصالٍ كالفخَّارِ}؛ أي: من طينٍ مبلول، قد أحكم بلَّه وأتقن، حتى جفَّ فصار له صلصلةٌ وصوتٌ يشبه صوت الفخَّار، وهو الطين المشويُّ.
[14] یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر نعمت ہے کہ اس نے انھیں اپنی قدرت اور کاریگری کے آثار دکھائے کہ ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ﴾ انسان کے جد امجد حضرت آدمu کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ﴿مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّؔارِ﴾ جس کے نم کو مہارت کے ساتھ محکم کیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ خشک ہو گئی اور اس میں آگ پر پکائے گئے ٹھیکرے کی آواز کے مانند کھنکھنانے کی آواز پیدا ہوئی ۔
#
{15} {وخلق الجانَّ}؛ أي: أبا الجنِّ، وهو إبليس لعنه الله {من مارج من نارٍ}؛ أي: من لهب النار الصافي، أو الذي قد خالطه الدخان. وهذا يدلُّ على شرف عنصر الآدميِّ المخلوق من الطين والتراب، الذي هو محل الرزانة والثقل والمنافع؛ بخلاف عنصر الجانِّ، وهو النار، التي هي محلُّ الخفَّة والطيش والشرِّ والفساد.
[15] ﴿وَخَلَقَ الْجَآنَّ ﴾ اور جنات کے باپ ابلیس لعین کو پیدا کیا۔ ﴿مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ﴾ آگ کے صاف شعلے سے یا اس سے مراد وہ شعلہ ہے جس کے ساتھ دھواں ملا ہوا ہو۔ یہ آیت کریمہ آدمی کے عنصر کے شرف پر دلالت کرتی ہے جسے گارے اور مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جو وقار، ثقل اور منافع کا محل ہے، بخلاف جنات کے عنصر ، یعنی آگ کے جو خفت، طیش شر اور فساد کا محل ہے۔
#
{16} ولما بيَّن خَلْقَ الثَّقَلَين ومادة ذلك ، وكان ذلك مِنَّةً منه تعالى عليهم ؛ قال: {فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبانِ}؟!
[16] جب اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کی تخلیق اور ان کا مادۂ تخلیق بیان فرمایا، یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان تھا تو ارشاد فرمایا : ﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾’’( اے جن و انس!) پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
آیت: 17 - 18 #
{رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (17) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (18)}.
(وہی) رب ہے دونوں مشرقوں کا اور رب ہے دونوں مغربوں کا (17) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (18)
#
{17 ـ 18} أي: هو تعالى ربُّ كلِّ ما أشرقت عليه الشمس والقمر والكواكب النيِّرة، وكلِّ ما غربت عليه، وكلِّ ما كانا فيه؛ فالجميع تحت تدبيره وربوبيته، وثنَّاهما هنا باعتبار مشارقها شتاءً وصيفاً. والله أعلم.
[17، 18] یعنی اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کا رب ہے جس پر سورج، چاند اور روشن ستارے طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ جس کے اندر چاند سورج ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق اور مغرب کو سورج کے گرمیوں اور سردیوں کے مقاماتِ طلوع و غروب ہونے کے اعتبار سے تثنیہ ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم.
آیت: 19 - 23 #
{مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (19) بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (20) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (21) يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (22) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (23)}.
رحمٰن نے جاری کیے دو سمندر جو باہم ملتے ہیں(19) ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے، نہیں تجاوز کرتے وہ دونوں (20) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (21) نکلتے ہیں ان دونوں (سمندروں )سے موتی اور مونگے (22) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (23)
#
{19 ـ 23} المراد بالبحرين: البحر العذب والبحر المالح؛ فهما يلتقيان [كلاهما]، فيصبُّ العذب في البحر المالح ويختلطان ويمتزجان، ولكنَّ الله تعالى جعل بينهما برزخاً من الأرض، حتى لا يبغي أحدهما على الآخر، ويحصُلَ النفع بكلٍّ منهما؛ فالعذب منه يشربون وتشرب أشجارهم وزروعهم وحروثهم، والملح به يطيبُ الهواء ويتولَّد الحوت والسمك واللؤلؤ والمرجان، ويكون مستقرًّا مسخراً للسفن والمراكب، ولهذا قال:
[23-19] یہاں بحرین سے مراد ہے: میٹھے پانی کا سمندر اور نمکین پانی کا سمندر جو آپس میں مل جاتے ہیں۔ (دریا کا) میٹھا پانی نمکین سمندر میں گرتا ہے ، پھر دونوں قسم کے پانی ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان زمین کو ایک رکاوٹ بنا رکھا ہے، ایک پانی دوسرے پانی پر سرکشی نہیں کرتا اور یوں دونوں پانیوں کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔لوگ میٹھے پانی کو خود پیتے ہیں اور اس سے اپنے باغات اور کھیتی باڑی کو سیراب کرتے ہیں، کھاری پانی فضا کو پاک صاف کرتا ہے، اس میں وہیل، مچھلیاں، موتی اور گھونگے پیدا ہوتے ہیں اور یہ کشتیوں اور دیگر بحری سواریوں کے لیے مستقر اور مسخر ہوتا ہے۔
آیت: 24 - 25 #
{وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (24) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (25)}.
اور اسی کی ہیں (کشتیاں) چلنے والی، جو بلند کی ہوئی ہیں سمندر میں پہاڑوں کی مانند (24) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (25)
#
{24 ـ 25} أي: وسخَّر تعالى لعباده السفن الجواري التي تمخرُ البحر وتشقُّه بإذن الله، التي ينشئها الآدميون، فتكون من عِظَمِها وكبرها كالأعلام، وهي الجبال العظيمة، فيركبها الناس، ويحملون عليها أمتعتهم وأنواع تجاراتهم وغير ذلك ممّا تدعو إليه حاجتهم وضرورتهم، وقد حفظها حافظُ السماواتِ والأرض، وهذه من نعم الله الجليلة، ولهذا قال: {فبأيِّ آلاء ربِّكما تكذِّبان}؟!
[24، 25] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سمندروں میں چلنے والی کشتیوں کو مسخر کیا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمندر کے سینے کو چیرتی چلی جاتی ہیں جن کو آدمیوں نے بنایا ہے جو اپنی عظمت کی وجہ سے بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ ان کشتیوں پر سواری کرتے ہیں اور ان پر اپنا سامان، مال تجارت اور دیگر اشیاء لادتے ہیں جن کی وہ ضرورت اور حاجت محسوس کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی حفاظت کرنے والی ہستی ان کشتیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ (اے جن و انس!) پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
آیت: 26 - 28 #
{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (27) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (28)}.
سب (کے سب) جو(اس زمین) پر ہیں فنا ہوجانے والے ہیں (26) اور باقی رہے گا چہرہ آپ کے رب صاحب جلال و اکرام کا (27) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (28)
#
{26 ـ 28} أي: كلُّ مَن على الأرض من إنسٍ وجنٍّ ودوابٍّ وسائر المخلوقات يفنى [ويموت] ويبيد، ويبقى الحيُّ الذي لا يموت، {ذو الجلال والإكرام}؛ أي: ذو العظمة والكبرياء والمجد، الذي يعظَّم ويبجَّل ويجلُّ لأجله، والإكرام الذي هو سعة الفضل والجود، الذي يكرم أولياءه وخواصَّ خلقه بأنواع الإكرام، الذي يكرِمُه أولياؤه ويجلُّونه ويعظِّمونه ويحبُّونه وينيبون إليه ويعبدونه. {فبأيِّ آلاء ربِّكما تكذِّبانِ}؟!
[28-26] یعنی زمین کی ہر چیز، انسان، جنات، جانور اور تمام مخلوقات فنا اور ہلاک ہو جائیں گے اور وہ زندہ ہستی باقی رہ جائے گی جو کبھی نہیں مرے گی ﴿ ذُو الْجَلٰ٘لِ وَالْاِكْرَامِ﴾ جو عظمت اور کبریائی کی مالک ہے جو مجد اور بزرگی کی مالک ہے جس کی بنا پر اس کی تعظیم اور عزت کی جاتی ہے اور اس کے جلال کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا ہے اَلْإِکْرَام سے مراد بے پایاں فضل و جود ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء و خواص کو مختلف انواع کے اکرام کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے جس کی بنا پر اس کے اولیاء و خواص اس کی تکریم کرتے، اس کے جلال کا اقرار کرتے ہیں، اس کی تعظیم کرتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ ﴾ ’’پھر (اے جن و انس!) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
آیت: 29 - 30 #
{يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (29) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (30)}.
اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ ہر روز(وقت) وہ ایک (نئی) شان میں ہے(29) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (30)
#
{29 ـ 30} أي: هو الغنيُّ بذاته عن جميع مخلوقاته، وهو واسعُ الجود والكرم، فكلُّ الخلق مفتقرون إليه، يسألونه جميع حوائجهم بحالهم ومقالهم، ولا يستغنون عنه طرفةَ عينٍ ولا أقلَّ من ذلك، وهو تعالى {كلَّ يوم هو في شأنٍ}: يغني فقيراً ويجبرُ كسيراً ويعطي قوماً، ويمنع آخرينَ، ويميتُ، ويُحيي، ويخفض، ويرفع ، لا يشغلُه شأنٌ عن شأنٍ، ولا تغلِّطُه المسائل، ولا يبرِمُه إلحاح الملحين، ولا طول مسألةِ السائلين. فسبحان الكريم الوهَّاب، الذي عمَّت مواهبه أهل الأرض والسماواتِ، وعمَّ لطفه جميع الخلق في كلِّ الآنات واللحظات، وتعالى الذي لا يمنعه من الإعطاء معصيةُ العاصين ولا استغناءُ الفقراء الجاهلين به وبكرمِهِ. وهذه الشؤون التي أخبر أنَّه [تعالى] {كلَّ يوم هو في شأنٍ}: هي تقاديره وتدابيره التي قدَّرها في الأزل وقضاها، لا يزال تعالى يمضيها وينفذها في أوقاتها التي اقتضتها حكمته، وهي أحكامُه الدينيَّة التي هي الأمر والنهي، والقدريَّة التي يُجريها على عباده مدَّة مقامهم في هذه الدار، حتى إذا تمَّتْ هذه الخليقة، وأفناهم الله تعالى، وأراد أن ينفِّذَ فيهم أحكام الجزاء ويريهم من عدله وفضله وكثرة إحسانه ما به يعرِفونه ويوحِّدونه؛ نقل المكلَّفين من دار الابتلاء والامتحان إلى دار الحيوان، وفرغ حينئذٍ لتنفيذ هذه الأحكام التي جاء وقتُها، وهو المراد بقولِهِ:
[29، 30] یعنی اللہ تعالیٰ بذاتہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ وہ بے پایاں جود و کرم کا مالک ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ اس سے اپنی تمام حوائج کے متعلق اپنے حال وقال کے ذریعے سے سوال کرتے ہیں۔ وہ لمحہ بھر بلکہ اس سے بھی کم وقت کے لیے اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ﴿ كُ٘لَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ ’’ہر روز (ہر وقت) ایک (نئی) شان میں ہوتا ہے۔‘‘ یعنی وہ محتاج کو غنی کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، کسی قوم کو عطا کرتا ہے، کسی کو محروم کرتا ہے، وہ موت دیتا اور زندگی عطا کرتا ہے، وہی کسی کو جھکاتا اور کسی کو بلند کرتا ہے۔ کوئی کام اسے کسی دوسرے کام سے غافل نہیں کرتا، مسائل اسے کسی غلطی میں مبتلا نہیں کر سکتے، مانگنے والوں کا اصرار کے ساتھ مانگنا اور سوال کرنے والوں کا لمبا چوڑا سوال اسے زچ نہیں کر سکتا۔ پاک ہے وہ ذات جو فضل و کرم کی مالک اور بے حد و حساب عطا کرنے والی ہے جس کی نوازشیں زمین اور آسمان والوں، سب کے لیے عام ہیں۔ اس کا لطف و کرم ہر آن اور ہر لحظہ تمام مخلوق پر سایہ فگن ہے۔ نہایت بلند ہے وہ ہستی جس کو گناہ گاروں کا گناہ اور اس سے اور اس کے کرم سے ناواقف فقراء کا استغنا عطا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ یہ تمام معاملات جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر روز کام میں ہوتا ہے، وہ تقادیر اور تدابیر ہیں جن کو اس نے ازل میں مقدر کر دیا تھا، اللہ تبارک و تعالیٰ ان کوان اوقات میں جن کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے، نافذ کرتا رہتا ہے، یہ اس کے احکام دینی ہیں جو اوامر و نواہی پر مشتمل ہیں اور یہ اس کے احکام کونی و قدری ہیں جن کو وہ اپنے بندوں پر اس وقت تک جاری کرتا رہے گا جب تک کہ ان کا قیام اس دنیا میں ہے۔ جب یہ مخلوقات تمام ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ سب کو فنا کر دے گا اور وہ چاہے گا کہ ان پر اپنے احکام جزائی نافذ کرے، انھیں اپنے عدل و فضل اور بے پایاں احسانات کا مشاہدہ کرائے جن کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں، اس کی توحید بیان کرتے ہیں، وہ مکلفین کو امتحان و ابتلا کے گھر سے ہمیشہ کی زندگی والے گھر میں منتقل کرے گا، تب وہ ان احکام کو نافذ کرنے کے لیے فارغ ہو گا جن کی تنفیذ کا وقت آ پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا درج ذیل ارشاد اسی بات پر دلالت کرتا ہے:
آیت: 31 - 32 #
{سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ (31) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (32)}.
عنقریب ہم فارغ ہوں گے تمھارے لیے اے جن و انس! (31) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (32)
#
{31 ـ 32} أي: سَنَفْرُغُ لحسابكم ومجازاتكم بأعمالكم التي عملتموها في دار الدُّنيا.
[31، 32] یعنی ہم تمھارے حساب کتاب اور تم نے جو اعمال دنیا میں کیے ہیں، ان کی جزا و سزا دینے کے لیے فارغ ہوں گے۔
آیت: 33 - 34 #
{يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (33) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (34)}].
اے گروہ جن و انس! اگر طاقت رکھتے ہو تم یہ کہ نکل جاؤ تم کناروں سے آسمانوں اور زمین کے تو نکل جاؤ ،نہیں نکل سکتے تم مگر غلبے ہی سے (33) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (34)
#
{33 ـ 34} أي: إذا جمعهم الله في موقف القيامة؛ أخبرهم بعجزهم وضَعْفهم وكمال سلطانِهِ ونفوذ مشيئتِهِ وقدرتِهِ، فقال معجِّزاً لهم: {يا معشر الجنِّ والإنسِ إنِ اسْتَطَعْتُم أن تَنفُذوا من أقطارِ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: تجدون مسلكاً ومنفذاً تخرجون به عن ملك الله وسلطانه، {فانفُذوا لا تَنفُذونَ إلاَّ بسلطانٍ}؛ أي: لا تخرجون منه إلاَّ بقوَّةٍ وتسلُّطٍ منكم وكمال قدرةٍ، وأنَّى لهم ذلك وهم لا يملكون لأنفسهم نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً؛ ففي ذلك الموقف لا يتكلَّم أحدٌ إلاَّ بإذنه، ولا تسمعُ إلاَّ همساً، وفي ذلك الموقف يستوي الملوك والمماليك والرؤساء والمرؤوسون والأغنياء والفقراء.
[33، 34] جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے روز جمع کرے گا تو انھیں ان کی کمزوری و بے بسی اور اپنی کامل طاقت، اپنی مشیت اور قدرت کی تنفیذ سے آگاہ کرے گا، ان کی بے بسی کو ظاہر کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ یٰمَعْشَرَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی اے جنوں اور انسان کی جماعت! اگر تمھیں کوئی راستہ اور کوئی سوراخ ملتا ہے جہاں سے تم اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اس کی سلطنت سے نکل بھاگو ﴿ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰ٘نٍ﴾ تو تم نکل بھاگو لیکن تم قوت، طاقت اور کامل قدرت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ قوت انھیں کہاں سے حاصل ہو،حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں نہ زندگی اور موت کا، اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص کلام نہیں کر سکے گا اور مدھم سی آوازوں کے سوا تم کچھ نہیں سن سکو گے، اس مقام پر بادشاہ اور غلام، سردار اور رعایا، غنی اور محتاج سب برابر ہوں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جو اس دن ان کے لیے تیار کی گئی ہوں گی ، چنانچہ فرمایا:
آیت: 35 - 36 #
{يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (35) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (36)}.
چھوڑا جائے گا تم پر دونوں شعلہ ٔ آتش اور دھواں پس نہیں بچ سکو گے تم دونوں (عذاب سے) (35) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (36)
#
{35 ـ 36} أي: {يرسَل عليكما} لهبٌ صافٍ من النار {ونحاسٌ} وهو اللهب الذي قد خالَطَه الدخانُ. والمعنى: أنَّ هذين الأمرين الفظيعين يرسلانِ عليكما [يا معشر الجن والإنس] ويحيطانِ بكما فلا تنتصران؛ لا بناصرٍ من أنفسكم، ولا بأحدٍ ينصُرُكم من دون الله. ولما كان تخويفُهُ لعباده نعمةً منه عليهم وسوطاً يسوقهم به إلى أعلى المطالب وأشرف المواهب؛ ذكر منَّته بذلك فقال: {فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبانِ}؟!
[35، 36] یعنی تم پر آگ کے صاف شعلے چھوڑے جائیں گے۔ ﴿وَ نُحَاسٌ﴾ ’’اور دھواں۔‘‘ اور یہ ایسے شعلے ہوں گے کہ ان میں دھواں ملا ہوا ہوگا۔معنیٰ یہ ہے کہ یہ دونوں قبیح چیزیں تم پر چھوڑی جائیں گی جو تمھیں گھیر لیں گی، پس تم خود مدد کر سکو گے نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور تمھاری مدد کر سکے گا۔ چونکہ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی تخویف، اس کی طرف سے ان کے لیے ایک نعمت اور ایک کوڑا ہے جو انھیں بلند ترین مقاصد اور بہترین مواہب کے حصول کے لیے رواں دواں رکھتا ہے۔ اس لیے اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ ’’ پھر (اے جن و انس!) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
آیت: 37 - 42 #
[{فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (37) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (38) فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ (39) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (40) يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (41) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (42)}].
پس جب پھٹ جائے گا آسمان تو ہو جائے گا وہ سرخ جیسے سرخ چمڑا (37) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (38)پس اس دن نہ پوچھا جائے گا اپنے گناہ کی بابت کوئی انسان اور نہ کوئی جن(39) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (40) پہچان لیے جائیں گے مجرم اپنے چہرے کی علامت ہی سے پس پکڑے جائیں گے وہ پیشانی کے بالوں اور قدموں سے (41) تو (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (42)
#
{37 ـ 38} {فإذا انشقَّتِ السماءُ}؛ أي: يوم القيامة من الأهوال وكثرة البلبال وترادُف الأوجال، فانخسفتْ شمسُها وقمرُها، وانتثرتْ نجومُها؛ {فكانت}: من شدَّة الخوفِ والانزعاج {وردةً كالدِّهانِ}؛ أي: كانت كالمهل والرصاص المذابِ ونحوه. {فبأيِّ آلاء ربِّكما تكذِّبان}؟!
[37، 38] ﴿ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ ﴾ یعنی جب قیامت کے روز، ہولناکیوں، شدت غم اور خوف کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے گا، سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ﴿ فَكَانَتْ﴾ ’’تو وہ ہوجائے گا۔‘‘ شدت خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے ﴿ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ﴾ ’’سرخ چمڑے کی طرح سرخ مائل ۔‘‘ یعنی تانبے اور پگھلے ہوئے سیسے وغیرہ کی طرح ہو جائے گا ۔
#
{39 ـ 40} {فيومئذٍ لا يُسأل عن ذنبه إنسٌ ولا جانٌّ}؛ أي: سؤال استعلام بما وقع؛ لأنَّه تعالى عالم الغيب والشهادة والماضي والمستقبل، ويريد أن يجازي العباد بما علمه من أحوالهم، وقد جعل لأهل الخيرِ والشرِّ يوم القيامةِ علاماتٍ يُعرفون بها؛ كما قال تعالى: {يومَ تَبْيَضُّ وجوهٌ وتَسْوَدُّ وجوهٌ}.
[39، 40] یعنی جو کچھ ان کے ساتھ واقع ہوا، اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ان سے سوال نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ غائب اور شاہد، ماضی اور مستقبل، ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ بندوں کے احوال کے بارے میں اپنے علم کے مطابق ان کو جزا دے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز اہل خیر اور اہل شر کی کچھ علامات مقرر کر رکھی ہیں جن کے ذریعے سے وہ پہچانے جائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ یَّوْمَ تَ٘بْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ (آل عمران: 3؍106) ’’اس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
#
{41 ـ 42} وقال هنا: {يُعْرَفُ المجرمون بسيماهم فيؤخَذُ بالنواصي والأقدام. فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبانِ}؛ أي: فيؤخذ بنواصي المجرمين وأقدامهم، فيُلْقَوْنَ في النار ويُسحبون إليها. وإنَّما يسألهم تعالى سؤال توبيخ وتقريرٍ بما وقع منهم، وهو أعلم به منهم، ولكنَّه تعالى يريد أن تَظْهَرَ للخلق حجَّته البالغة وحكمته الجليلة.
[41، 42] یعنی مجرموں کو ان کی پیشانیوں کے بالوں اور ان کے پاؤ ں سے پکڑ کر جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا اور جہنم کی طرف انھیں گھسیٹ کر لے جایا جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے محض زجر و توبیخ اور جو کچھ ان کے ساتھ واقع ہوا، اس کے تحقق کے لیے سوال کرے گا۔ حالانکہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں وہ ان سے بہتر جانتا ہےمگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مخلوق پر اس کی حجت بالغہ اور حکمت جلیلہ ظاہر ہو جائے۔
آیت: 43 - 45 #
{هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ (43) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ (44) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (45)}.
(انھیں کہا جائے گا:) یہی ہے جہنم وہ جو جھٹلاتے تھے اس کو مجرم لوگ (43) وہ چکر لگائیں گے درمیان اس (جہنم) کے اور درمیان سخت گرم کھولتے پانی کے (44) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (45)
#
{43 ـ 45} أي: يقالُ للمكذِّبين بالوعد والوعيد حين تُسَعَّر الجحيم: {هذه جهنَّمُ التي يكذِّبُ بها المجرمون}: فلْيهنهم تكذيبُهم بها، ولْيذوقوا من عذابها ونَكالها وسعيرها وأغلالها ما هو جزاءٌ لهم على تكذيبهم ، يطوفون بين أطباق الجحيم ولهبها، {وبين حميم آنٍ}؛ أي: ماء حارٍّ جدًّا قد انتهى حرُّه، وزمهريرٍ قد اشتدَّ بردُه وقرُّه. {فبأيِّ آلاءِ ربِّكما تكذِّبانِ}؟!
[45-43] جنھوں نے وعد و وعید کو جھٹلایا، جب ان پر جہنم کی آگ بھڑکے گی، تو ان سے کہا جائے گا: ﴿هٰؔذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ یُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾’’ یہی وہ جہنم ہے جسے گناہ گار جھٹلاتے تھے۔‘‘ پس ان کی تکذیب ان کو رسوا کرے گی اور اب وہ اس کے عذاب، اس کی سزا، اس کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس کی بیڑیوں کا مزا چکھیں، یہ ان کے لیے ان کی تکذیب کی جزا ہے۔ ﴿یَطُوْفُوْنَ بَیْنَهَا﴾ ’’وہ جہنم کے درمیان گھومیں گے۔‘‘ یعنی جہنم اور اس کے شعلوں کے طبقوں میں گھومتے پھریں گے۔ ﴿وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ﴾ اور وہ سخت کھولتے ہوئے پانی کے درمیان بھی گھومیں گے جس کی حرارت انتہا کو پہنچی ہوئی ہو گی اور زمہریر جس کی ٹھنڈک بہت شدید ہو گی۔ ﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰ٘نِ﴾ ’’پھر (اے جن و انس!) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ وہ مجرموں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تقویٰ شعار لوگوں کی جزا کا بھی ذکر فرمایا:
آیت: 46 - 78 #
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (46) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (47) ذَوَاتَا أَفْنَانٍ (48) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (49) فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ (50) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (51) فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ {(52) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (53) مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ (54) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (55) فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (56) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (57) كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (58) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (59) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (60) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (61) وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ (62) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (63) مُدْهَامَّتَانِ (64) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (65) فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ (66) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (67) فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ (68) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (69) فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ (70) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (71) حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (72) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (73) لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (74) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (75) مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ (76) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (77) تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (78)}.
اور اس کے لیے جو ڈر گیا کھڑے ہونے سے اپنے رب کے سامنے، دو باغ ہیں (46) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (47) دونوں خوب شاخوں والے (48) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟(49) ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے (50) پس (کون) کون سی نعمتوں کواپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (51) ان دونوں (جنتوں) میں ہر پھل کی دو (دو) قسمیں ہوں گی (52) پس (کون) کونسی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (53) تکیہ لگائے ہوئے ایسے فرشوں پر جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور پھل ان دونوں باغوں کے قریب ہی ہوں گے (54) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (55) ان میں (حوریں) ہوں گی جھکی نظروں والی نہیں ہاتھ لگایا انھیں کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے (56) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (57) گویا کہ وہ ہیرے اور موتی ہیں (58) تو (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟(59) نہیں جزا احسان کی مگر احسان ہی (60) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (61) اور ان دونوں سے کم درجہ دو باغ (اور) ہیں (62) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (63) گہرے سبز سیاہی مائل (64) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (65) ان دونوں میں دو چشمے ہیں جوش مارتے ہوئے (66) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (67) ان دونوں میں پھل ہوں گے اور کھجوریں اور انار بھی (68) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟(69) ان میں خوب سیرت خوب صورت (عورتیں) ہیں (70) تو (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (71) حوریں محفوظ ہوں گی، خیموں میں (72) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (73) نہیں ہاتھ لگایا انھیں کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے (74) تو (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟ (75) تکیہ لگائے ہوئے قالینوں پر جو سبز اور نادر نہایت نفیس ہوں گے (76) پس (کون) کون سی نعمتوں کو اپنے رب کی، تم دونوں جھٹلاؤ گے؟(77) بابرکت ہے نام آپ کے رب صاحب جلال و اکرام کا (78)
#
{46 ـ 47} أي: وللذي خاف ربَّه وقيامه عليه، فترك ما نهى عنه، وفعل ما أمره به؛ له {جنَّتانِ} من ذهبٍ آنيتهما وحليتهما وبنيانهما وما فيهما، إحدى الجنتين جزاءً على ترك المنهيَّات، والأخرى على فعل الطَّاعات.
[46، 47] یعنی اس شخص کے لیے جو اپنے رب اور اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس نے نواہی کو ترک کر دیا اور جس کام کا اسے حکم دیا گیا اس کی تعمیل کی، دو جنتیں ہیں جن کے برتن، زیورات، عمارتیں اور اس میں موجود تمام چیزیں سونے کی ہوں گی۔ ایک جنت ان کو اس امر کی جزا کے طور پر عطا کی جائے گی کہ انھوں نے منہیات کو ترک کیا اور دوسری جنت نیکیوں کی جزا ہو گی۔
#
{48 ـ 49} ومن أوصاف تلك الجنتين أنَّهما {ذواتا أفنانٍ}؛ أي: فيهما من ألوان النَّعيم المتنوِّعة؛ نعيم الظاهر والباطن؛ ما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطرَ على قلب بشرٍ؛ أي: فيهما الأشجار الكثيرة الزاهرة، ذوات الغصون الناعمة، التي فيها الثمار اليانعة الكثيرة اللَّذيذة.
[48، 49] ان دونوں جنتوں کا ایک وصف یہ ہے کہ ﴿ ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ﴾ ’’ان دونوں میں بہت سی شاخیں ہیں۔‘‘ (﴿اَفْنَانٍ﴾ فَنَنْ کی جمع ہے بمعنی شاخ و ٹہنی یا فَنّ کی جمع ہے بمعنی نعمتیں) یعنی ان جنتوں میں انواع و اقسام کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں آئی ہیں۔ ان جنتوں میں بے شمار خوبصورت درخت ہوں گے جن کی نرم و نازک ڈالیوں پر بے شمار پکے ہوئے لذیذ پھل ہوں گے۔
#
{50 ـ 51} وفي تلك الجنتين {عينانِ تجريانِ}: يفجِّرونَهما على ما يريدون ويشتَهون.
[50، 51] ان جنتوں کے اندر ﴿ عَیْنٰ٘نِ تَجْرِیٰنِ﴾ ’’دو چشمے بہہ رہے ہوں گے۔‘‘ وہ ان چشموں سے جہاں چاہیں گے اور ارادہ کریں گے نہریں نکال کر لے جائیں گے۔
#
{52 ـ 53} {فيهما من كلِّ فاكهةٍ}: من جميع أصناف الفواكه {زوجان}؛ أي: صنفان؛ كلُّ صنف له لَذَّةٌ ولونٌ ليس للنوع الآخر.
[52، 53] ﴿ فِیْهِمَا مِنْ كُ٘لِّ فَاكِهَةٍ﴾ ان میں پھلوں کی تمام اصناف میں سے ﴿ زَوْجٰؔنِ﴾ دو دو انواع ہوں گی، ہر ایک کی اپنی اپنی لذت اور اپنا اپنا رنگ ہو گا جو دوسری نوع میں نہ ہو گا۔
#
{54 ـ 55} {متكئين على فرشٍ بطائِنُها من إستبرقٍ}: هذه صفة فُرُشِ أهل الجنَّة وجلوسهم عليها، وأنَّهم متَّكئون عليها؛ أي: جلوسَ تمكُّن واستقرار وراحةٍ؛ كجلوس الملوك على الأسرَّة، وتلك الفُرُش لا يعلم وصفَها وحسنَها إلاَّ الله تعالى ، حتى إنَّ بطائنها التي تلي الأرض منها من إستبرقٍ وهو أحسن الحرير وأفخره؛ فكيف بظواهرها التي يباشرون ، {وجنى الجنَّتينِ دانٍ}: الجنى هو الثمر المستوي؛ أي: وثمر هاتين الجنتين قريبُ التناول، ينالُه القائم والقاعدُ والمضطجع.
[54، 55] ﴿ مُتَّـكِـــِٕیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭؔ بَطَآىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ﴾ ’’وہ ایسی مسندوں پر تکیے لگائے (بیٹھے) ہوں گے جن کے استرد بیز ریشم کے ہوں گے۔‘‘ یہ اہل جنت کے بچھونوں اور ان بچھونوں پر ان کے بیٹھنے کا وصف ہے، نیز یہ کہ وہ تکیے لے کر ان بچھونوں پر بیٹھیں گے، یعنی ان کا بیٹھنا تمکنت، قرار اور راحت کا بیٹھنا ہو گا، جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں، ان بچھونوں کا وصف اور حسن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا حتیٰ کہ ان کے نیچے والے حصے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں، استبرق کے ہوں گے جو ریشم کی خوبصورت ترین اور اعلیٰ ترین قسم ہے تب ان بچھونوں کے ظاہری حصے جن پر بیٹھا جاتا ہے، ان کی خوبصورتی کیسی ہو گی؟ ﴿ وَجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ﴾ ’’اور ان دونوں جنتوں کے پھل قریب ہی ہوں گے۔‘‘ اَلْجنٰی سے مراد ہے پوری طرح پکا ہوا پھل، یعنی ان دو جنتوں کے پھل، تناول کے لیے بہت قریب ہوں گے، کھڑا ہوا، بیٹھا ہوا حتی کہ لیٹا ہوا شخص اسے آسانی سے حاصل کر سکے گا۔
#
{56 ـ 59} {فيهنَّ قاصراتُ الطرفِ}؛ أي: قد قصرنَ طرفهنَّ على أزواجهنَّ من حسنهم وجمالهم وكمال محبتهنَّ لهم، وقصرنَ أيضاً طرفَ أزواجهنَّ عليهنَّ من حسنهنَّ وجمالهنَّ ولَذَّةِ وصالهنَّ وشدَّة محبَّتهنَّ، {لم يطمثهنَّ إنسٌ قبلَهم ولا جانٌّ}؛ أي: لم ينلهنَّ أحدٌ قبلهم من الإنس والجنِّ، بل هنَّ أبكارٌ عربٌ متحبِّباتٌ إلى أزواجهنَّ؛ بحسن التبعُّل والتغنُّج والملاحة والدَّلال، ولهذا قال: {كأنهنَّ الياقوت والمرجان}، وذلك لصفائهنَّ وجمال منظرهنَّ وبهائهنَّ.
[59-56] ﴿ فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ﴾ ’’ان میں نیچی نگاہوں والی (حوریں) ہوں گی۔‘‘ یعنی ان کی نگاہیں، اپنے حسن و جمال اور اپنے شوہروں کے ساتھ کامل محبت کی بنا پر صرف انھی پر لگی ہوئی ہوں گی، اسی طرح ان کے شوہروں کی نگاہیں بھی ان کے حسن و جمال، ان کے وصل کی لذت اور ان کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر صرف انھی پر جمی ہوئی ہوں گی۔ ﴿ لَمْ یَطْمِثْ٘هُنَّ اِنْ٘سٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَآنٌّ﴾ یعنی ان سے پہلے انھیں جن و انس میں سے کسی نے ان کو حاصل نہ کیا ہو گا۔ بلکہ شوہر کی پیاری دوشیزائیں ہوں گی جو حسن اطاعت، حسن و جمال اور ناز وادا کی وجہ سے اپنے شوہروں کو بہت محبوب ہوں گی۔ ﴿ كَاَنَّ٘هُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْ٘مَرْجَانُ﴾ ’’گویا وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔‘‘ یہ ان کی صفائی ان کے حسن و جمال اور ان کی خوبصورتی کی وجہ سے کہا گیا ہے۔
#
{60 ـ 61} {هل جزاءُ الإحسان إلاَّ الإحسان}؛ أي: هل جزاء مَن أحسن في عبادة الخالق، ونفع عبيدَه إلاَّ أن يُحْسَنَ إليه بالثواب الجزيل والفوز الكبير والنعيم المقيم والعيش السليم؟ فهاتان الجنَّتان العاليتان للمقرَّبين.
[60، 61] ﴿ هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾ ’’احسان کی جزا احسان ہی ہے۔‘‘ یعنی کیا اس شخص کی جزا جس نے بہترین طریقے سے اپنے رب کی عبادت کی اور اس کے بندوں کو فائدہ پہنچایا، اس کے سوا کچھ اور ہو سکتی ہے کہ ثواب جزیل، فوزکبیر، نعمتیں، اور تکدر سے سلامت زندگی عطا کر کے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے؟ پس یہ دو بلند مرتبہ جنتیں مقربین کے لیے ہیں۔
#
{62 ـ 69} {ومن دونِهما جنَّتانِ}: من فضَّة بنيانهما وحليتهما وآنيتهما وما فيهما لأصحاب اليمين، وتلك الجنتانِ {مدهامَّتان}؛ أي: سوداوان من شدَّة الخضرة والريِّ ، {فيهما عينان نَضَّاختانِ}؛ أي: فوَّارتان، {فيهما فاكهةٌ}: من جميع أصناف الفواكه، وأخصُّها النخل والرمان، اللذان فيهما من المنافع ما فيهما.
[65-62] ﴿ وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰ٘نِ﴾ ’’اور ان دو کے علاوہ دو اور جنتیں ہیں۔‘‘ یہ جنتیں چاندی سے تعمیر کی گئی ہوں گی، ان کے زیورات اور ان کے اندر موجود دیگر چیزیں چاندی سے بنی ہوں گی اور یہ سب کچھ اصحاب یمین کے لیے ہو گا۔ یہ جنتیں ﴿مُدْهَآمَّؔتٰ٘نِ﴾ گہری سبز ہونے اور اپنی سیرابی کی وجہ سے سیاہ نظر آئیں گی۔
#
{70 ـ 75} {فيهنَّ}؛ أي: في الجنات كلِّها {خيراتٌ حسانٌ}؛ أي: خيرات الأخلاق حسان الأوجه، فجمعنَ بين جمال الظاهر والباطن وحسن الخَلْق والخُلُق. {حورٌ مقصوراتٌ في الخيام}؛ أي: محبوسات في خيام اللؤلؤ، قد تهيأنَ وأعددنَ أنفسهنَّ لأزواجهنَّ، ولا ينفي ذلك خروجهنَّ في البساتين ورياض الجنة كما جرت العادةُ لبنات الملوك المخدَّرات الخَفِرات ، {لم يطمثهنَّ إنسٌ قبلهم ولا جانٌّ. فبأيِّ آلاء ربِّكما تكذِّبان}؟!
[71-66] ﴿ فِیْهِمَا عَیْنٰ٘نِ نَضَّاخَتٰ٘نِ﴾ ’’ان میں دو ابلنے والے چشمے ہیں۔‘‘ یعنی فوراے۔ ﴿ فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌ﴾ ان جنتوں میں تمام اقسام کے میوے ہوں گے، خاص طور پر کھجور اور انار جن کے اندر بے شمار فوائد ہیں۔﴿ فِیْهِنَّ﴾ یعنی جنت کے ان تمام باغات میں ﴿ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ﴾ بہترین اخلاق اور خوبصورت چہروں والی عورتیں ہوں گی، پس وہ ظاہری اور باطنی جمال، حسن خلقت اور حسن اخلاق کی جامع ہوں گی۔
#
{76 ـ 77} {متَّكئين على رفرفٍ خضرٍ}؛ أي: أصحاب هاتين الجنتين متَّكأهم على الرفرف الأخضر، وهي الفرش التي تحت المجالس العالية، التي قد زادت على مجالسهم، فصار لها رفرفة من وراء مجالسهم؛ لزيادة البهاء وحسن المنظر، {وعبقريٍّ حسانٍ}: العبقريُّ نسبةً لكلِّ منسوج نسجاً حسناً فاخراً، ولهذا وصفها بالحسن الشامل لحسن الصفة و [حسن] المنظر ونعومة الملمس وهاتان الجنتان دون الجنتين الأولَيَيْن؛ كما نصَّ الله على ذلك بقوله: {ومن دونِهِما جنَّتانِ}، وكما وصف الأوليين بعدَّة أوصاف لم يصِفْ به الأخريين، فقال في الأوليين: {فيهما عينان تجريانِ}، وفي الأخريين: {عينان نضَّاختان}: ومن المعلوم الفرق بين الجارية والنضَّاخة، وقال في الأوليين: {ذواتا أفنانٍ}، ولم يقلْ ذلك في الأخريين، وقال في الأوليين: {فيهما من كلِّ فاكهةٍ زوجانِ}، وفي الأخريين: {فيهما فاكهةٌ ونخلٌ ورمانٌ}، وقد عُلِمَ ما بين الوصفين من التفاوت. وقال في الأوليين: {متَّكئين على فرشٍ بطائنها من إستبرقٍ وجنى الجنَّتين دانٍ}، ولم يقلْ ذلك في الأخريين، بل قال: {متكئينَ على رفرفٍ خضرٍ وعبقريٍّ حسانٍ}، وقال في الأوليين في وصف نسائهم وأزواجهم: {فيهن قاصراتُ الطرفِ [لم يطمثهن إنس قبلهم ولا جان]}، وفي الأخريين: {حور مقصوراتٌ في الخيام}، وقد عُلم التفاوت بين ذلك، وقال في الأوليين: {هل جزاءُ الإحسان إلاَّ الإحسانُ}، فدلَّ ذلك أنَّ الأوليين جزاء المحسنين، ولم يقل ذلك في الأخيرتين، ومجرَّد تقديم الأوليين على الأخريين يدلُّ على فضلهما. فبهذه الأوجه يُعْرَفُ فضلُ الأوليين على الأخريين، وأنهما معدَّتان للمقرَّبين من الأنبياء والصدِّيقين وخواصِّ عباد الله الصالحين، وأنَّ الأخريين معدَّتان لعموم المؤمنين. وفي كلٍّ من الجنات المذكورات ما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطر على قلب بشرٍ، وفيهنَّ ما تشتهيه الأنفسُ وتلذُّ الأعين، وأهلهنَّ في غاية الراحة والرضا والطمأنينة وحسن المأوى، حتى إنَّ كلَّ واحدٍ منهم لا يرى أحداً أحسن حالاً منه ولا أعلى من نعيمِهِ الذي هو فيه.
[72، 73] یعنی وہ حوریں موتیوں کے خیموں میں مستور ہوں گی جنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شوہروں کے لیے تیار کر رکھا ہو گا۔ ان کا خیموں میں مستور ہونا، ان کے جنت کے باغات میں نکلنے کے منافی نہیں، جیسا کہ باپردہ شہزادیوں کی عادت ہے۔
#
{78} ولمَّا ذكر سعةَ فضله وإحسانه؛ قال: {تبارك اسمُ ربِّك ذي الجلال والإكرام}؛ أي: تعاظم وكثر خيره الذي له الجلال الباهر والمجدُ الكامل والإكرام لأوليائه.
[77-74] ان دونوں جنتوں کے اصحاب کا تکیہ سبز ریشم پر لگا ہوا ہو گا، یہ وہ بچھونے ہیں جو بیٹھنے کی بلند جگہوں کے نیچے ہوں گے جو ان بیٹھنے کی جگہوں سے زائد ہوتے ہیں، ان کے بیٹھنے کے جگہ پیچھے، اس کی خوبصورتی اور خوبصورت منظر میں اضافے کے لیے پردے لٹک رہے ہوں گے۔ ﴿ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ اَلْعَبْقَرِی ہر اس بُنے ہوئے کپڑے وغیرہ کو کہتے ہیں جسے نہایت خوبصورت طریقے سے بنایا گیا ہو، بنابریں ایک ایسے حسن کے ذریعے سے اس کا وصف بیان کیا گیا ہے جو حسن صنعت اور حسن منظر اور ملائمت لمس کو شامل ہے۔ یہ دونوں جنتیں ان پہلی جنتوں سے کم تر ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا ہے ﴿ وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰ٘نِ﴾ (الرحمٰن 62/55)’’اور ان سے کمتر درجے کی دو جنتیں ہوں گی۔‘‘ اور پہلی دو جنتوں کو متعدد اوصاف سے موصوف کیا ہے اور دوسری جنتوں کو ان اوصاف سے موصوف نہیں کیا۔ پہلی دو جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ فِیْهِمَا عَیْنٰ٘نِ تَجْرِیٰنِ﴾ (الرحمٰن 50/55) ’’ان میں دو چشمے جاری ہیں۔‘‘ اور آخری دو جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ فِیْہِمَاعَیْنٰ٘نِ نَضَّاخَتٰ٘نِ﴾(الرحمٰن 66/55) ’’ان میں دو چشمے ابل رہے ہیں۔‘‘ اور یہ ایک معلوم امر ہے کہ جاری چشموں اور ابلنے والے چشموں کے درمیان فرق ہے۔ پہلی جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ﴾ (الرحمٰن 48/55) ’’دونوں جنتیں شاخوں والی ہیں۔‘‘ اور آخر الذکر جنتوں کے بارے میں یہ الفاظ ارشاد نہیں فرمائے۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ فِیْهِمَا مِنْ كُ٘لِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰؔنِ﴾(الرحمٰن 56/55) ’’ان جنتوں میں ہر قسم کے پھلوں کی دو دو قسمیں ہوں گی۔‘‘ اور آخر الذکر کے بارے میں فرمایا : ﴿ فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌؔ﴾ (الرحمٰن 68/55)’’ان دونوں میں پھل، کھجور اور انار ہوں گے۔‘‘ ان دونوں بیان کردہ اوصاف کے درمیان جو تفاوت ہے وہ معلوم ہے۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا ﴿ مُتَّـكِـــِٕیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭؔ بَطَآىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ١ؕ وَجَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ﴾(الرحمٰن 54/55) ’’جنتی ایسی مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئےہوں گے جن کے استرد بیز ریشم کے ہوں گے اور ان دونوں جنتوں کے پھل بالکل قریب ہی ہوں گے۔‘‘ اور آخر الذکر کے بارے میں یہ الفاظ ذکر نہیں کیے بلکہ فرمایا: ﴿ مُتَّـكِـــِٕیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ ’’(ان جنتوں میں) سبز قالینوں اور عمدہ بچھونوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ اول الذکر جنتوں کی عورتوں کے اوصاف کے بارے میں فرمایا : ﴿ فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّ﴾ (الرحمٰن 56/55) ’’وہاں نیچی نگاہ والی (حوریں) ہیں جنھیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ اور آخر الذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿حُورٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ﴾ (الرحمٰن 72/55)’’حوریں جو خیموں میں محفوظ ہوں گی۔‘‘ ان دونوں کے درمیان جو تفاوت ہے وہ بھی معلوم ہے۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن 60/55)یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ جنتیں محسنین کی جزا ہیں۔ آخر الذکر جنتوں کے بارے میں یہ نہیں کہا۔ نیز اول الذکر جنتوں کی مجرد تقدیم ہی ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر اول الذکر جنتوں کی آخر الذکر جنتوں پر فضیلت کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نیز معلوم ہوتا ہے کہ اول الذکر جنتیں، مقربین یعنی انبیاء، صدیقین اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے خواص کے لیے تیار کی گئی ہیں اور آخر الذکر جنتیں تمام اہل ایمان کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ ان مذکورہ تمام جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا تصور آیا ہے۔ ان جنتوں میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ ان جنتوں کے رہنے والے انتہائی راحت، رضا، طمانینت اور بہترین مقام میں رہیں گے حتیٰ کہ ہر شخص کسی دوسرے کو اس سے بہتر حال، اور ان نعمتوں سے اعلیٰ نعمتوں میں نہیں سمجھے گا جن میں وہ خود ہے۔
[78] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل و احسان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : یعنی اس کی بھلائی بہت بڑی اور بہت زیادہ ہے۔ وہ بہت بڑے جلال، کامل بزرگی اور اپنے اولیاء کے لیے اکرام و تکریم کا مالک ہے۔