آیت:
تفسیر سورۂ قمر
تفسیر سورۂ قمر
آیت: 1 - 5 #
{اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (2) وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ (3) وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ (4) حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ (5)}.
قریب آ گئی قیامت اور پھٹ گیا چاند(1) اور اگر وہ (مشرک) دیکھیں کوئی نشانی(معجزہ)تو اعراض کریں اور کہیں کہ (یہ تو) جادو ہے بڑا مضبوط (ہمیشہ سے چلا آتا) (2) اور انھوں نے جھٹلایا اور پیروی کی اپنی خواہشوں کی، اور ہر کام ٹھہرا ہوا ہے (اس کے لیے وقت مقرر ہے)(3) اور یقیناً آ چکی ہیں ان کے پاس خبریں وہ جن میں تنبیہ و نصیحت ہے(4)(اور) دانائی کی بات مکمل، پس نہیں فائدہ دیتیں تنبیہات(5)
#
{1} يخبر تعالى أنَّ الساعة ـ وهي القيامة ـ اقتربت، وآن أوانُها، وحان وقتُ مجيئها، ومع هذا ؛ فهؤلاء المكذِّبون لم يزالوا مكذِّبين بها غير مستعدين لنزولها، ويريهم الله من الآيات العظيمة الدالَّة على وقوعها ما يؤمنُ على مثله البشرُ؛ فمن أعظم الآياتِ الدالَّة على صحَّة ما جاء به محمد بن عبد الله - صلى الله عليه وسلم - أنَّه لما طلب منه المكذِّبون أن يُرِيَهم من خوارق العادات ما يدلُّ على صحَّة ما جاء به وصدقه ؛ أشار - صلى الله عليه وسلم - إلى القمر، فانشقَّ بإذن الله فلقتين؛ فلقةً على جبل أبي قُبيس، وفلقةً على جبل قعيقعان، والمشركون وغيرهم يشاهدون هذه الآية العظيمة الكائنة في العالم العلويِّ، التي لا يقدر الخلقُ على التمويه بها والتخييل، فشاهدوا أمراً ما رأوا مثلَه، بل ولم يسمعوا أنَّه جرى لأحدٍ من المرسلين قبلَه نظيره، فانبهروا لذلك، ولم يدخُل الإيمانُ في قلوبهم، ولم يردِ الله بهم خيراً، ففزعوا إلى بهتهم وطغيانهم، وقالوا: سحرنا محمدٌ! ولكنَّ علامة ذلك أنكم تسألون من وَرَدَ عليكم من السفر؛ فإنَّه إن قدر على سحركم؛ لم يقدِرْ أن يسحرَ مَن ليس مشاهداً مثلكم! فسألوا كلَّ من قدم، فأخبروهم بوقوع ذلك، فقالوا: {سحرٌ مستمرٌّ}! سحرنا محمدٌ وسحر غيرنا!! وهذا من البَهْتِ الذي لا يروج إلاَّ على أسفه الخلق وأضلِّهم عن الهدى والعقل.
[1] اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ گھڑی، یعنی قیامت قریب آ گئی، اس کی آمد کا وقت ہو گیا، بایں ہمہ اس کو جھٹلانے والے جھٹلاتے چلے جا رہے ہیں اور اس کے نزول کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں، ان جیسی نشانیاں لانا انسان کے بس میں نہیں۔ حضرت محمد مصطفیe جو کچھ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، اس کی صداقت پر دلالت کرنے والا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جب آپ کی تکذیب کرنے والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی ایسا خارق عادت معجزہ دکھائیں جو قرآن کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرے۔ تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ کیا، پس چاند اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو ٹکڑے ہو گیا ، ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور ایک ٹکڑا جبل قعیقعان پر چلا گیا۔ مشرکین اس عظیم معجزے کا مشاہد ہ کر رہے تھے جو عالم علوی میں وقوع پذیر ہوا۔ جس میں مخلوق ملمع سازی کی قدرت رکھتی ہے نہ تخیل کی شعبدہ بازی کر سکتی ہے، چنانچہ انھوں نے ایک ایسے معجزے کا مشاہدہ کیا جو اس سے قبل انھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا بلکہ انھوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء و مرسلین کے ہاتھوں پر اس جیسا معجزہ ظاہر ہوا ہو۔ وہ اس معجزے کو دیکھ کر مغلوب ہو گئے مگر ایمان ان کے دلوں میں داخل ہوا نہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی چاہی۔ انھوں نے اپنی بہتان طرازی اور سرکشی میں پناہ لی اور کہنے لگے: محمد (e) نے ہم پر جادو کر دیا مگر اس کی علامت یہ ہے کہ تم کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سفر پر سے تمھارے پاس آیا ہے اگر محمد e تم پر جادو کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو وہ اس شخص پر جادو نہیں کر سکتے جس نے تمھاری طرح (چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا)مشاہدہ نہیں کیا ، چنانچہ انھوں نے ہر اس شخص سے شق قمر کے بارے میں پوچھا جو سفر پر سے آئے، انھوں نے بھی شق قمر کے وقوع کے بارے میں خبر دی۔ اس پر انھوں نے کہا ﴿ سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾ ’’یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے۔‘‘ محمد (e) نے ہم پر بھی جادو کر دیا اور دوسروں پر بھی۔ یہ ایسا بہتان ہے جو صرف انھی لوگوں میں رواج پا سکتا ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ بے قوف اور ہدایت اور عقل کے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
#
{2} وهذا ليس إنكاراً منهم لهذه الآية وحدَها، بل كلُّ آية تأتيهم؛ فإنَّهم مستعدُّون لمقابلتها بالتكذيب والردِّ لها، ولهذا قال: {وإن يَرَوا آيةً يعرِضوا}: فلم يعدْ الضمير على انشقاق القمر، [فلم يقل: وإن يروها]، بل قال: {وإن يَرَوا آيةً يعرضوا}؛ فليس قصدهم اتِّباع الحق والهدى، وإنَّما مقصودهم اتِّباع الهوى.
[2] یہ ان کی طرف سے صرف اسی ایک معجزے کا انکار نہیں بلکہ ان کے پاس جو بھی معجزہ آتا ہے تو یہ اس کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا﴾ ’’اگر وہ (مشرک) کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ موڑ لیتے ہیں۔‘‘ پس حق اور ہدایت کی اتباع کرنا ان کا مقصد نہیں، ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے۔
#
{3} ولهذا قال: {وكذَّبوا واتَّبعوا أهواءهم}؛ كقوله تعالى: {فإن لم يستجيبوا لك فاعْلَمْ أنَّما يتَّبِعون أهواءَهم}؛ فإنَّه لو كان قصدُهم اتِّباعَ الهدى؛ لآمنوا قطعاً واتَّبعوا محمداً - صلى الله عليه وسلم -؛ لأنه أراهم الله على يديه من البينات والبراهين والحجج القواطع ما دلَّ على جميع المطالب الإلهيَّة والمقاصد الشرعيَّة، {وكلُّ أمرٍ مستقرٍّ}؛ أي: إلى الآن لم يبلغ الأمر غايته ومنتهاه، وسيصير الأمر إلى آخره؛ فالمصدِّق يتقلَّب في جنَّات النعيم ومغفرة الله ورضوانه، والمكذِّب يتقلَّب في سخط الله وعذابِهِ خالداً مخلداً أبداً.
[3] اس لیے فرمایا: ﴿ وَؔكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَؔهُمْ ﴾ ’’اور انھوں نے (اسے )جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی اتباع کی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ﴾ (القصص:28؍50) ’’پھر اگر وہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو جان لیجیے کہ یہ تو صرف اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اگر ان کا مقصد ہدایت کی پیروی کرنا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے اور محمد مصطفیe کی اتباع کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر انھیں براہین و بینات اور قطعی دلائل کا مشاہدہ کرایا ہے جو تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَكُ٘لُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ﴾ ’’ اور ہر کام کا وقت مقرر ہے۔‘‘ یعنی اب تک معاملہ اپنی غایت و منتہیٰ تک نہیں پہنچا، عنقریب معاملہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ تب تصدیق کرنے والے نعمتوں بھری جنتوں، اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضا کے سائے میں چلے پھریں گے اور جھٹلانے والے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
#
{4} وقال تعالى مبيِّناً أنَّهم ليس لهم قصدٌ صحيحٌ واتباعٌ للهدى: {ولقد جاءهم من الأنباءِ}؛ [أي: الأخبار السابقة واللاحقة والمعجزات الظاهرة] {ما فيه مُزْدَجَرٌ}؛ أي: زاجر يزجرهم عن غيِّهم وضلالهم.
[4] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا مقصد صحیح ہے نہ اتباع ہدایت ۔ ﴿ وَلَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبـَآءِ﴾ ’’اور یقیناً ان کے پاس ایسی خبریں پہنچ چکی ہیں۔‘‘ یعنی سابقہ اور موجودہ خبریں اور معجزات ظاہرہ ﴿ مَا فِیْهِ مُزْدَجَرٌ ﴾’’جن میں تنبیہ و نصیحت ہے۔‘‘ یعنی ایک ایسا امر ہے جو ان کی گمراہی پر زجر و توبیخ کرتا ہے۔
#
{5} وذلك {حكمةٌ}: منه تعالى {بالغةٌ}؛ أي: لتقوم حجَّته على العالمين ، ولا يبقى لأحدٍ على الله حجَّةٌ بعد الرسل، {فما تغني النُّذُر}؛ كقوله تعالى: {ولو جاءتهم كلُّ آيةٍ لا يؤمنوا حتى يَرَوُا العذابَ الأليم}.
[5] ﴿ حِكْمَةٌۢ بَ٘الِغَةٌ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے تاکہ تمام جہانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جائے اور رسولوں کے مبعوث کیے جانے کے بعد کسی کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔ ﴿فَمَا تُ٘غْنِ النُّذُرُ﴾ ’’پھر محض ڈرانا فائدہ مند نہیں ہوا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ۰۰وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُ٘لُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ (یونس: 10؍96، 97) ’’وہ ایمان نہیں لائیں گے، خواہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے حتیٰ کہ وہ درد ناک عذاب کو نہ دیکھ لیں۔‘‘
آیت: 6 - 8 #
{فَتَوَلَّ عَنْهُمْ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَى شَيْءٍ نُكُرٍ (6) خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ (7) مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَذَا يَوْمٌ عَسِرٌ (8)}.
سو اعراض کیجیے ان سے، (یاد کریں!) جس دن بلائے گا بلانے والا نہایت ہولناک چیز کی طرف(6) جھکی ہوں گی ان کی نگاہیں، وہ نکلیں گے قبروں سے (ایسے) گویا کہ وہ ٹڈی دل ہے منتشر(7) دوڑ رہے ہوں گے وہ بلانے والے کی طرف کہیں گے کافر، یہ دن ہے نہایت سخت(8)
#
{6} يقول تعالى لرسوله - صلى الله عليه وسلم -: قد بان أنَّ المكذِّبين لا حيلة في هداهم، فلم يبق إلاَّ الإعراضُ عنهم ، فقال: {فتولَّ عنهم}: وانتظرْ بهم يوماً عظيماً وهولاً جسيماً، وذلك حين {يَدعُ الداعِ}؛ وهو إسرافيلُ عليه السلام {إلى شيء نُكُرٍ}؛ أي: إلى أمر فظيع تنكره الخليقة، فلم تر منظراً أفظع ولا أوجع منه، فينفخُ إسرافيل نفخةً يخرج بها الأمواتُ من قبورهم لموقف القيامة.
[6] اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ رسول e سے فرماتا ہے کہ یہ بات واضح ہو گئی کہ اہل تکذیب کی ہدایت کا اب کوئی حیلہ نہیں، ان کے اندر روگردانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تو فرمایا: ﴿ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ﴾ ’’چنانچہ (اے نبی!) آپ بھی ان سے اعراض کریں۔‘‘ آپ ان کے لیے ایک بہت بڑے دن اور ایک بہت بڑی گھبراہٹ اور خوف کا انتظار کیجیے۔ یہ وہ دن ہو گا جب ﴿ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ﴾ ’’پکارنے والا پکارے گا‘‘ یعنی حضرت اسرافیلu ﴿ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ﴾ یعنی ایک بہت ہی برے معاملے کی طرف، طبیعت جس کا انکار کرے گی، تو نے اس سے برا اور اس سے بڑھ کر درد ناک منظر نہیں دیکھا ہوگا، پس اسرافیلu صور پھونکیں گے تو تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر قیامت (کے میدان) میں کھڑے ہوں گے۔
#
{7} {خُشَّعاً أبصارُهم}؛ أي: من الهول والفزع الذي وصل إلى قلوبهم، فخضعت وذلَّت، وخشعت لذلك أبصارهم {يخرجون من الأجْداثِ}: وهي القبورُ {كأنَّهم}: من كثرتهم ورَوَجان بعضهم ببعض {جرادٌ منتشرٌ}؛ أي: مبثوثٌ في الأرض متكاثرٌ جدًّا.
[7] ﴿ خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ﴾ ’’ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی۔‘‘ یعنی اس دہشت اور گھبراہٹ کے باعث جو ان کے دلوں میں پہنچ کر ان کو عاجز اور کمزور کر دے گی اور اس بنا پر ان کی نگاہیں پست ہو جائیں گی۔ ﴿ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ﴾ وہ قبروں سے یوں نکلیں گے۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ﴾ ’’جیسے کہ وہ۔‘‘ اپنی کثرت اور بے ترتیب ہونے کی وجہ سے ﴿ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ﴾ ’’منتشر ٹڈی دل ہوں۔‘‘ یعنی وہ زمین میں پھیلے ہوئے اور بہت زیادہ ہوں گے۔
#
{8} {مهطعينَ إلى الدَّاعِ}؛ أي: مسرعين لإجابة نداء الدَّاعي، وهذا يدلُّ على أنَّ الدَّاعي يدعوهم ويأمرهم بالحضور لموقف القيامة، فيلبُّون دعوته ويسرعون إلى إجابته، {يقول الكافرون}: الذين قد حَضَرَ عذابُهم: {هذا يومٌ عَسِرٌ}؛ كما قال تعالى: {على الكافرين غيرُ يسيرٍ}: مفهوم ذلك أنَّه يسيرٌ سهلٌ على المؤمنين.
[8] ﴿ مُّهْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِ﴾ ’’اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے۔‘‘ یعنی پکارنے والے کی پکار کا جلدی سے جواب دیتے ہوئے ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ پکارنے والا انھیں پکارے گا اور قیامت کے میدان میں حاضر ہونے کا حکم دے گا، وہ اس کی پکار پر لبیک کہیں گے اور جلدی سے تعمیل کریں گے۔ ﴿ یَقُوْلُ الْ٘كٰفِرُوْنَ﴾ یعنی وہ کفار جن کے سامنے ان کا عذاب موجود ہو گا ، کہیں گے: ﴿ هٰؔذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ﴾ ’’یہ بڑا سخت دن ہے ۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ ﴾ (المدثر: 10/74) ’’کافروں پر (وہ دن) آسان نہ ہوگا۔‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دن مومنوں پر بہت آسان ہوگا۔
آیت: 9 - 17 #
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ (9) فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (10) فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ (11) وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ (12) وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ (13) تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ (14) وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (15) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (16) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (17)}.
جھٹلایا تھا ان سے پہلے قوم نوح نے، پس انھوں نے تکذیب کی ہمارے بندے کی اور کہا (یہ) دیوانہ ہے، اور جھڑک دیا گیا(9) تو پکارا اس نے اپنے رب کو کہ بے شک میں بے بس ہوں پس تو انتقام لے (10) سو کھول دیے ہم نے دروازے آسمان کے ساتھ پانی زور دار برسنے والے کے (11) اور جاری کر دیے ہم نے زمین سے چشمے، سو مل گیا (آسمان و زمین کا) پانی ایک امر پر جو مقدر کیا گیا تھا (12) اور سوار کیا ہم نے اس (نوح) کو اوپر (کشتی) تختوں اور میخوں والی کے (13) وہ چلتی تھی ہماری آنکھوں کے سامنے بدلہ لینے کے لیے اس شخص کا جس کا انکار کیا گیا تھا (14) اور تحقیق (بنا) چھوڑا ہم نے اس (کشتی) کو ایک نشانی پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (15) پس (بتاؤ ) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈراوا؟ (16) اور یقیناً آسان کیا ہے ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (17)
#
{9} لما ذكر تبارك وتعالى حالَ المكذِّبين لرسوله وأنَّ الآياتِ لا تنفع فيهم ولا تُجدي عليهم شيئاً؛ أنذرهم وخوَّفهم بعقوبات الأمم الماضية المكذِّبة للرسل وكيف أهلهكم اللهُ وأحلَّ بهم عقابه، فذكر قومَ نوحٍ؛ أول رسول بعثه الله إلى قوم يعبُدون الأصنام، فدعاهم إلى توحيد الله وعبادته وحده لا شريك له، فامتنعوا من ترك الشرك، وقالوا: {لا تَذَرُنَّ آلهتكم ولا تَذَرُنَّ وَدًّا ولا سُواعاً ولا يَغوثَ ويَعوقَ ونَسْراً}، ولم يزل نوحٌ يدعوهم إلى الله ليلاً ونهاراً سرًّا وجهاراً، فلم يزدْهم ذلك إلاَّ عناداً وطغياناً وقدحاً في نبيِّهم، ولهذا قال هنا: {فكذَّبوا عبدَنا وقالوا مجنونٌ}: لزعمهم أنَّ ما هم عليه وآباؤهم من الشرك والضلال هو الذي يدلُّ عليه العقل، وأنَّ ما جاء به نوحٌ عليه السلام جهلٌ وضلالٌ لا يصدُر إلاَّ من المجانين، وكَذَبوا في ذلك، وقَلَبوا الحقائق الثابتة شرعاً وعقلاً ؛ فإنَّ ما جاء به هو الحقُّ الثابت الذي يرشد العقول النيِّرة المستقيمة إلى الهدى والنور والرُّشد، وما هم عليه جهلٌ وضلالٌ مبينٌ. وقوله: {وازْدُجِرَ}؛ أي: زجره قومه وعنَّفوه لما دعاهم إلى الله تعالى، فلم يكفِهِم قبَّحَهُمُ اللهُ عدمُ الإيمان به ولا تكذيبُهم إيَّاه، حتى أوصلوا إليه من أذيَّتهم ما قدروا عليه، وهكذا جميع أعداء الرسل هذه حالهم مع أنبيائهم.
[9] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جنھوں نے اس کے رسول e کو جھٹلایا، نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ معجزات ان کو کوئی فائدہ دیں گے نہ ان کے کسی کام آئیں گے تو انھیں متنبہ کیا اور گزری ہوئی قوموں کی سزاؤ ں سے ڈرایا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا، اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کو ہلاک کیا اور ان پر عذاب نازل کیا، چنانچہ قوم نوح کا ذکر کیا۔ حضرت نوح uپہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو بتوں کی عبادت کرتی تھی۔ نوحu نے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسی اکیلے کی عبادت کا حکم دیا مگر انھوں نے شرک کو ترک نہ کیا اور کہنے لگے: ﴿وَ لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا﴾ (نوح:71؍23) ’’تم اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور نہ چھوڑو تم ود کو اور نہ سواع اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو۔‘‘ حضرت نوحu انھیں شب و روز اور کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر ان میں عناد، سرکشی اور اپنے نبی میں جرح و قدح کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا۔ بنابریں یہاں فرمایا : ﴿ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ﴾ ’’چنانچہ انھوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا (یہ تو) دیوانہ ہے۔‘‘ ان کے زعم باطل کے مطابق ان کے آباء و اجداد جس شرک اور گمراہی کے راستے پر گامزن تھے، اسی پر عقل دلالت کرتی ہے، اور حضرت نوحu جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ جہالت اور گمراہی ہے جو پاگلوں ہی سے صادر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں جھوٹ بولا اور ان حقائق کو بدل ڈالا جو عقلاً اور شرعاً ثابت شدہ تھے۔ کیونکہ حضرت نوحu جو کچھ لے کر آئے وہ ثابت شدہ حق تھا جو راست رو اورروشن عقل کی رشد و ہدایت اور روشنی کی طرف راہ نمائی کرتا تھا۔ اور ان کا موقف محض جہالت اور واضح گمراہی تھا۔ فرمایا: ﴿ وَّ ازْدُجِرَ﴾ یعنی ان کی قوم نے ان کو زجر و توبیخ کی اور برا بھلا کہا، کیونکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی تھی۔ آپ کی قوم نے... اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے... آپ پر ایمان نہ لانے اور آپ کی تکذیب کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنے مقدور بھر آپ کو اذیتیں بھی دیں۔ تمام انبیاء و مرسلین کے دشمنوں کا اپنے نبیوں کے ساتھ یہی وتیرہ رہا ہے۔
#
{10} فعند ذلك دعا نوحٌ ربَّه، فقال: {إنِّي مغلوبٌ}: لا قدرةَ لي على الانتصار منهم؛ لأنه لم يؤمن من قومه إلاَّ القليل النادر، ولا قدرة لهم على مقاومة قومهم، {فانتَصِرْ}: اللهمَّ لي منهم، وقال في الآية الأخرى: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرضِ من الكافرين دَيَّاراً ... } الآيات.
[10] تب اس موقع پر نوح u نے اپنے رب کو پکارا اور کہا:﴿ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ﴾ ’’بے شک میں کمزور ہوں۔‘‘ ان سے انتقام لینے کی مجھ میں قدرت نہیں کیونکہ حضرت نوحu کی قوم میں سے بہت تھوڑے اور چند لوگ ایمان لائے تھے جن میں اپنی قوم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ تھی۔ ﴿ فَانْتَصِرْ﴾ اے اللہ! میری طرف سے بدلہ لے۔ ایک دوسری آیت کریمہ میں حضرت نوح نے دعا مانگی : ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا﴾ (نوح:71؍26) ’’اے میرے رب! کسی کافر کو زمین پر آباد نہ رہنے دے۔‘‘
#
{11} فأجاب الله سؤاله، فانتصر له من قومه؛ قال تعالى: {ففَتَحْنا أبوابَ السماءِ بماءٍ منهمرٍ}؛ أي: كثير جدًّا متتابع.
[11] اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحu کی دعا قبول فرما لی اور حضرت نوحu کی طرف سے ان کی قوم سے بدلہ لیا۔ فرمایا:﴿ فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ﴾ چنانچہ ہم نے زور سے برسنے والے پانی کے ساتھ آسمان کے دہانے کھول دیے۔
#
{12} {وفجَّرْنا الأرض عُيوناً}: فجعلتِ السماءُ ينزل منها من الماء شيءٌ خارقٌ للعادة، وتفجَّرت الأرضُ كلُّها، حتى التنُّور الذي لم تَجْرِ العادةُ بوجود الماء فيه، فضلاً عن كونِهِ منبعاً للماء؛ لأنَّه موضع النار، {فالتقى الماء}؛ أي: ماء السماء والأرض، {على أمرٍ}: من الله له بذلك، {قد قُدِرَ}؛ أي: قد كتبه الله في الأزل وقضاه عقوبةً لهؤلاء الظالمين الطاغين.
[12] ﴿وَ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا﴾ ’’اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کردیے۔‘‘ پس آسمان نے اتنا پانی برسایا جو خارق عادت تھا، تمام روئے زمین پر پانی کے چشمے پھوٹ پڑے حتیٰ کہ تنور سے بھی چشمہ پھوٹ پڑا، جہاں عادۃً چشمے کا ہونا تو کجا، پانی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ تنور آگ کی جگہ ہے ﴿ فَالْ٘تَ٘قَى الْمَآءُ ﴾ تو (آسمان اور زمین کا) پانی مل گیا۔ ﴿عَلٰۤى اَمْرٍ ﴾ ایک ایسے امر پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ﴿ قَدْ قُدِرَ﴾ ’’بے شک طے تھا ‘‘ یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے ازل میں لکھ رکھا تھا اور ان سرکش ظالموں کو سزا دینے کے لیے مقدر کر رکھا تھا۔
#
{13} {وحَمَلْناه على ذاتِ ألواح ودُسُرٍ}؛ أي: ونجَّينا عبدنا نوحاً على السفينة ذات الألواح والدُّسُر ؛ أي: المسامير التي قد سُمِرَتْ بها ألواحُها وشُدَّ بها أسرها.
[13] ﴿ وَحَمَلْنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ﴾ یعنی ہم نے اپنے بندے نوح کو کشتی پر سوار کرا کر(اس طوفان سے)نجات دی، جو لکڑی کے تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی، یعنی میخوں کے ذریعے سے تختوں کو جوڑا اور تسموں سے باندھا گیا تھا۔
#
{14} {تجري بأعْيُنِنا}؛ أي: تجري بنوح ومَنْ آمن معه ومَنْ حمله مِن أصناف المخلوقات برعايةٍ من الله وحفظٍ منه لها عن الغرق ونظرٍ وكلاءةٍ منه تعالى، وهو نعم الحافظُ الوكيلُ، {جزاءً لِمَنْ كان كُفِرَ}؛ أي: فعلنا بنوح ما فعلنا من النَّجاة من الغرق العامِّ جزاءً له؛ حيث كذَّبه قومُه وكفروا به، فصبر على دعوتِهِم، واستمرَّ على أمر الله، فلم يردَّه عنه رادٌّ ولا صدَّه عن ذلك صادٌّ؛ كما قال تعالى في الآية الأخرى: {قيل يا نوحُ اهبطْ بسلام مِنَّا وبَرَكاتٍ عليك وعلى أمم مِمَّن معك ... } الآية. ويُحتمل أنَّ المراد أنَّا أهلَكنا قومَ نوح وفعلنا بهم ما فَعَلنا مِن العذاب والخزي جزاءً لهم على كفرِهم وعنادهم. وهذا متوجِّهٌ على قراءة من قرأها بفتح الكاف.
[14] ﴿ تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا﴾ یعنی یہ کشتی حضرت نوح کے ساتھ، ان لوگوں کے ساتھ جو آپ پر ایمان لائے تھے اور دیگر مخلوقات کی ان اصناف کے ساتھ (پانی پر) چل رہی تھی جن کو حضرت نوحu نے اپنے ساتھ اس میں سوار كيا تھا۔ يہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی، ڈوبنے سے اس کی حفاظت، اور اس کی خاص دیکھ بھال کے تحت پانی پر رواں دواں تھی اور وہ بہت اچھا حفاظت کرنے والا اور بہت اچھا کار ساز ہے۔ ﴿ جَزَآءًؔ لِّ٘مَنْ كَانَ كُفِرَ﴾ یعنی ہم نے نوح u کو غرق عام سے بچایا، اس جزا کے طور پر کہ آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کا انکار کیا مگر آپ ان کو دعوت دینے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے پر ڈٹے رہے، کوئی آپ کو اپنے مقصد سے ہٹا سکا، نہ آپ کا راستہ روک سکا۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿ قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰ٘مٍ مِّؔنَّا وَبَرَؔكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ١ؕ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّؔنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (ھود:11؍48)’’کہا گیا: اے نوح! اتر تو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اوران قوموں پر (نازل کی گئی) ہیں، جو آپ کے ساتھ ہیں، اور کچھ دوسری قومیں ہیں جن کو ہم (دنیا میں) کچھ فائدہ اٹھانے دیں گے ، پھر انھیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے نوح کی قوم کو ہلاک کیا اور ہم نے ان کو عذاب اور رسوائی میں ڈالا، ان کے کفر اور عناد کی جزاکے طور پر۔ یہ معنی اس شخص کی قراء ت پر مبنی ہے، جس نے ’’کفر‘‘ کے کاف کو زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔
#
{15} {ولقد تركناها آيةً فهل من مُدَّكِرٍ}؛ أي: ولقد تركنا قصة نوح مع قومه آيةً يتذكَّر بها المتذكِّرون على أنَّ من عصى الرُّسل وعاندهم أهْلَكَه الله بعقابٍ عامٍّ شديدٍ، أو أنَّ الضمير يعود إلى السفينة وجنسها، وأنَّ أصل صنعتها تعليمٌ من الله لرسوله نوح عليه السلام، ثم أبقى الله صنعتها وجنسها بين الناس؛ ليدلَّ ذلك على رحمته بخلقه وعنايته وكمال قدرته وبديع صنعته. {فهل من مُدَّكِرٍ}؛ أي: فهل متذكِّر للآيات ملقٍ ذهنَه وفكرته لما يأتيه منها؛ فإنَّها في غاية البيان واليُسر؟
[15] ﴿ وَلَقَدْ تَّرَؔكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ﴾ یعنی ہم نے قوم نوح کے ساتھ نوح uکے قصے کو ایک نشانی کے طور پر چھوڑا، جس سے نصیحت حاصل کرنے والے اس بات کی نصیحت حاصل کرتے ہیں کہ جو کوئی رسولوں کی نافرمانی کرتا اور ان کے ساتھ عناد رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک عام اور سخت عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالتا ہے۔ یا ﴿ تَّرَؔكْنٰهَاۤ ﴾کی ضمیر کشتی اور اس کی جنس کی طرف لوٹتی ہے ، اس لیے کہ کشتی کی صنعت کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول نوح uکو دی ، پھر اس کی صنعت اور اس کی جنس کو لوگوں میں باقی رکھا تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور عنایت، اس کی کامل قدرت اور انوکھی صنعت پر دلالت کرے۔ ﴿ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ﴾ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا اور اپنے فکر و ذہن کو ان کے سامنے ڈال دینے والاہے ، بے شک یہ نشانیاں نہایت واضح اور بہت آسان ہیں۔
#
{16} {فكيف كان عذابي ونُذُرِ}؛ أي: فكيف رأيتَ أيها المخاطَبُ عذابَ الله الأليم وإنذاره الذي لا يبقى لأحدٍ عليه حجة.
[16] ﴿ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ﴾ پس اے مخاطب! تو نے اللہ تعالیٰ کے درد ناک عذاب اور اس کی اس تنبیہ کو کیسا دیکھا جو کسی کے لیے کوئی حجت نہیں چھوڑتی؟
#
{17} {ولقد يَسَّرْنا القرآنَ للذِّكْرِ فهل من مُدَّكِرٍ}؛ أي: ولقد يسَّرْنا وسهَّلْنا هذا القرآن الكريم ألفاظه للحفظ والأداء ومعانيه للفهم والعلم؛ لأنَّه أحسن الكلام لفظاً، وأصدقُه معنىً، وأبينه تفسيراً؛ فكلُّ من أقبل عليه؛ يَسَّرَ الله عليه مطلوبه غاية التيسير، وسهَّله عليه، والذِّكر شاملٌ لكل ما يتذكَّر به العالمون من الحلال والحرام وأحكام الأمرِ والنَّهْي وأحكام الجزاء والمواعظ والعِبَرِ والعقائِد النَّافعة والأخبار الصادقة، ولهذا كان علم القرآن حفظاً وتفسيراً أسهل العلوم وأجلُّها على الإطلاق، وهو العلمُ النافعُ الذي إذا طلبه العبدُ؛ أُعِينَ عليه. قال بعضُ السَّلف عند هذه الآية: هل من طالب علم فيعان عليه. ولهذا يدعو الله عباده إلى الإقبال عليه والتذكُّر بقوله: {فهل من مُدَّكِرٍ}.
[17] ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْ٘قُ٘رْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّؔكِرٍ﴾ ہم نے اس قرآن کے الفاظ کو یاد کرنے ان کو ادا کرنے، اور اس کے معانی کو علم و فہم کی خاطر نہایت آسان اور سہل بنایا کیونکہ قرآن لفظ کے اعتبار سے اچھا، معنیٰ کے اعتبار سے سب سے سچا اور تفسیر کے اعتبار سے سب سے واضح کلام ہے۔ جو کوئی قرآن کریم پر اپنی توجہ کو مرکوز کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے مطلوب و مقصود کو حد درجہ آسان اور سہل کر دیتا ہے۔ (اَلذِّکْر) حلال و حرام کے احکام، امر و نہی، جزا و سزا کے احکام، مواعظ، عبرت انگیز واقعات، عقائد نافعہ اور اخبار صادقہ کو شامل ہے۔ بنابریں قرآن کریم کا علم، حفظ اور تفسیر کے اعتبار سے بہت آسان اور علی الاطلاق جلیل ترین علم ہے۔ قرآن کا علم بہت نفع مند علم ہے۔ بندۂ مومن جب اسے طلب کرتا ہے تو اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سلف میں کسی کا قول ہے ’’کیا کوئی علم کا طالب ایسا ہے جس کی اس بارے میں مدد کی جائے۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی طرف توجہ مبذول کرنے اور اس سے نصیحت کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَهَلْ مِنْ مُّدَّؔكِرٍ﴾ ’’ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا۔‘‘
آیت: 18 - 22 #
{كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (18) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ (19) تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ (20) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (21) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (22)}.
تکذیب کی (قوم) عاد نے، پس (دیکھو) کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈراوا؟ (18) بلاشبہ ہم نے بھیجی ان پرشاں شاں کرتی یخ ہوا ایک دن دائمی نحوست والے میں(19) وہ اکھاڑ پھینکتی تھی لوگوں کو گویا کہ وہ تنے ہیں جڑ سے اکھڑی ہوئی، کھجور کے (20) تو کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈراوا (21) اور یقیناً آسان کیا ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے، تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (22)
#
{18 ـ 19} وعادٌ هي القبيلة المعروفة باليمن، أرسل الله إليهم هوداً عليه السلام يدعوهم إلى توحيد الله وعبادته، فكذَّبوه، فأرسل الله عليهم {ريحاً صرصراً}؛ أي: شديدة جدًّا. {في يوم نحسٍ}؛ أي: شديد العذاب والشقاء عليهم {مستمِّرٍ}: عليهم سبع ليال وثمانية أيام حسوماً.
[18، 19] عاد یمن کا ایک معروف قبیلہ ہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہودu کو مبعوث فرمایا جو انھیں توحید اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے مگر انھوں نے حضرت ہودu کو جھٹلایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر ﴿ رِیْحًا صَرْصَرًا﴾ سخت طوفانی ہوا بھیجی ﴿ فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ﴾ ’’منحوس دن میں۔‘‘ جس کا عذاب بہت سخت اور ان کے لیے بہت بدبختی والا تھا۔ ﴿ مُّسْتَمِرٍّ﴾ جو ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دنوں تک انھیں فنا کرنے کے لیے چلتی رہی۔
#
{20} {تنزِعُ الناسَ}: من شدَّتها فترفعهم إلى جوِّ السماء، ثم تدمغهم بالأرض، فتهلكهم، فيصبحون {كأنَّهم أعجازُ نخل مُنقَعِرٍ}؛ أي: كأنَّ جثثهم بعد هلاكهم مثل جذوع النخل الخاوي الذي اقتلعتْه الريح فسقط على الأرض؛ فما أهون الخلق على الله إذا عَصَوْا أمرَه!
[20] ﴿تَنْزِعُ النَّاسَ﴾ وہ اپنے شدت کی وجہ سے لوگوں کی بیخ کنی کر رہی تھی، انھیں آسمان کی طرف اٹھا کر زمین پر دے مارتی تھی اور یوں انھیں ہلاک کر ڈالتی تھی اور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی ﴿كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَ٘عِرٍ﴾ ’’گویا کہ وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی ہلاکت کے بعد ان کی لاشیں ایسے دکھائی دے رہی تھیں جیسے گری ہوئی کھجور کے تنے جنھیں سخت ہوا نے جڑ سے اکھاڑ دیا ہو اور وہ زمین پر گری پڑی ہوں، جب مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتی ہے تو وہ اس کے ہاں کتنی حقیر ہو جاتی ہے۔
#
{21} {فكيف كان عذابي ونُذُرِ}: كان والله العذاب الأليم والنِّذارة التي ما أبقت لأحدٍ عليه حجة.
[21] ﴿ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ﴾ ’’ پھر میرا عذاب اور میرا ڈراوا کیسا تھا؟۔‘‘ اللہ کی قسم! درد ناک عذاب اور تنبیہ تھی جس نے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہنے دی۔
#
{22} {ولقد يَسَّرْنا القرآن للذِّكْر فهل من مُدَّكِرٍ}: كرَّر تعالى ذلك رحمة بعباده وعناية بهم؛ حيث دعاهم إلى ما يصلِحُ دنياهم وأخراهم.
[22] ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْ٘قُ٘رْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّؔكِرٍ﴾ ’’اور یقیناً ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، پس کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمت اور عنایت کی بنا پر اس فقرے کو بتکرار بیان کیا اور انھیں اس امر کی طرف بلایا ہے جو ان کی دنیا اور آخرت کی اصلاح کرتا ہے۔
آیت: 23 - 32 #
{كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ (23) فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ (24) أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ (25) سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ (26) إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ (27) وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ (28) فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ (29) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (30) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ (31) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (32)}.
جھٹلایا (قوم) ثمود نے ڈرانے والوں کو (23) پس انھوں نے کہا، کیا ایسے آدمی کی جو ہم میں سے ہے تنہا ، پیروی کریں ہم اس کی؟ بلاشبہ ہم تو اس وقت ہوں گے گمراہی اور دیوانگی میں (24) کیا القا کی گئی ہے وحی اسی پر ہم سب کے درمیان میں سے؟(نہیں)بلکہ وہ سخت جھوٹا خود پسند ہے (25) عنقریب وہ جان لیں گے کل، کون ہے کذاب خود پسند؟ (26) بلاشبہ ہم بھیجنے(چٹان سے نکالنے)والے ہیں اونٹنی آزمائش کے لیے ان کی سو انتظار کر ان کا اور صبر کر (27) اور خبر دے ان کو کہ بے شک پانی تقسیم شدہ ہے ان کے درمیان، ہر ایک پانی کی باری حاضر کی گئی ہے (28) پس انھوں نے پکارا اپنے ساتھی کو تو اس نے پکڑا ، پھر اُس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں(29) تو کیسا تھا میرا عذاب اور میرا ڈراوا؟ (30) بلاشبہ ہم نے بھیجی ان پر چیخ ایک ہی، تو ہو گئے وہ (ایسے) جیسے روندی ہوئی باڑ، باڑ لگانے والے کی (31) اور یقیناً ہم نے آسان کیا ہے قرآن کو نصیحت کے لیے، تو کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا؟ (32)
#
{23} أي: {كذَّبت ثمودُ}: وهم القبيلة المعروفة المشهورة في أرض الحِجْر نبيَّهم صالحاً عليه السلام حين دعاهم إلى عبادة الله وحده لا شريك له، وأنذرهم العقاب إنْ هم خالفوه.
[23] ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ﴾ ’’ثمود نے جھٹلایا‘‘ اس آیت میں ثمود سے مراد معروف قبیلہ ہے جو حِجر کے علاقے میں آباد تھا جب ان کے نبی حضرت صالحu نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا، جس کا کوئی شریک نہیں اور مخالفت کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔
#
{24} فكذَّبوه واستكبروا عليه وقالوا كبراً وتيهاً: {أبشراً مِنَّا واحداً نَتَّبِعُهُ}؛ أي: كيف نتَّبع بشراً لا مَلَكاً، منَّا لا من غيرنا ممَّن هو أكبر عند الناس منَّا، ومع ذلك؛ فهو شخصٌ واحدٌ. {إنَّا إذاً}؛ أي: إن اتَّبعناه وهو في هذه الحالة {لفي ضلال وسُعُرٍ}؛ أي: [إنَّا] لضالُّون أشقياء. وهذا الكلام من ضلالهم وشقائهم؛ فإنهم أنِفوا أن يَتَّبِعوا رسولاً من البشر، ولم يأنفوا أن يكونوا عابدين للشجر والحجر والصُّوَر.
[24] تو انھوں نے حضرت صالح کو جھٹلایا اور استکبار کا مظاہرہ کیا اور تکبر سے ڈینگیں مارتے ہوئے کہا: ﴿ اَبَشَرًا مِّؔنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗۤ﴾ ’’بھلا ایک ایسا آدمی جو ہم ہی میں سے ہے، ہم اس کی پیروی کریں؟‘‘ یعنی ہم ایک بشر کی اتباع کیسے کر سکتے ہیں جو فرشتہ نہیں، جو ہم میں سے ہے جو ہمارے علاوہ ان لوگوں میں سے بھی نہیں جو لوگوں کے نزدیک ہم سے افضل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اکیلا ہی تو ہے ﴿ اِنَّـاۤ٘ اِذًا﴾ یعنی اگر ہم نے اس حالت میں اس کی اتباع کی ﴿ لَّ٘فِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ﴾ تو تب ہم گمراہی اور بدبختی میں ہوں گے۔ یہ کلام ان کی گمراہی اور بدبختی کے سبب سے صادر ہوا کیونکہ انھوں نے محض تکبر کی بنا پر ایک ایسے رسول کی اتباع سے تو انکار کر دیا جو ان کی جنس میں سے تھا مگر انھیں شجر و حجر اور بتوں کے پجاری بنتے ہوئے غیرت نہ آئی۔
#
{25 ـ 26} {أألقي الذِّكر عليه من بيننا}؛ أي: كيف يخصُّه الله من بيننا وينزِّل عليه الذِّكر؛ فأيُّ مزيَّةٍ خصَّه من بيننا؟! وهذا اعتراضٌ من المكذِّبين على الله لم يزالوا يُدلون به ويصولون [ويحولون] ويردُّون به دعوة الرسل، وقد أجاب الله عن هذه الشبهة بقول الرسل لأممهم: {قالتْ رسُلُهم إن نحنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكم ولكنَّ الله يَمُنُّ على مَنْ يشاءُ من عبادِه}: فالرسل مَنَّ الله عليهم بصفاتٍ وأخلاق وكمالاتٍ بها صلحوا لرسالات ربِّهم والاختصاص بوحيه، ومن رحمته وحكمته أن كانوا من البشر؛ فلو كانوا من الملائكة؛ لم يمكن البشر أن يتلقَّوا عنهم، ولو جعلَهم من الملائكة؛ لعاجل المكذِّبين لهم بالعقاب العاجل. والمقصود من هذا الكلام الصادر من ثمود لنبيِّهم صالح تكذيبه، ولهذا حكموا عليه بهذا الحكم الجائر، فقالوا: {بل هو كذَّابٌ أشِرٌ}؛ أي: كثير الكذب والشرِّ! فقبَّحهم الله ما أسفه أحلامهم وأظلمهم وأشدَّهم مقابلةً للصادقين الناصحين بالخطاب الشنيع.
[25، 26] ﴿ ءَاُلْ٘قِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا﴾ ’’کیا ہمارے سب کے درمیان سے صرف اسی پر وحی اتاری گئی ہے؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہم میں سے اس کو کس بنا پر خصوصیت عطا کرتا ہے اور اس پر ذکر نازل کرتا ہے؟ اس میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم میں سے صرف اسے ہی یہ خصوصیت عطا کی ہے؟ یہ وہ اعتراض ہے جو اہل تکذیب ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ پر کرتے چلے آئے ہیں، اسی کی بنیاد پر انبیاء و مرسلین کی دعوت پر حملہ آور ہوتے رہے اور اس کو رد کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا جواب رسولوں کے اس قول کے ذریعے سے دیا جو انھوں نے امتوں سے کہا تھا: ﴿ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (ابراہیم:14؍11) ’’ان رسولوں نے ان سے کہا: واقعی ہم محض تم جیسے بشر ہی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ایسے اوصاف، اخلاق اور کمالات سے نوازا ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے رب کی رسالت اور اس کی وحی کے اختصاص کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت ہے کہ رسول نوع بشری میں سے ہیں۔ اگر رسول فرشتوں میں سے ہوتے تو انسانوں کا ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر فرشتوں کو رسول بنایا ہوتا تو جھٹلانے والوں پر فوراً عذاب نازل ہو جاتا۔ قومِ ثمود سے اپنے نبی صالحu کے بارے میں صادر ہونے والے اس کلام کا مقصد صرف حضرت صالحu کو جھٹلانا ہے، اس لیے انھوں نے آپ پر یہ ظالمانہ حکم لگایا ، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ﴾ ’’بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور شر کا حامل ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، ان کی آرزوئیں کس قدر بے وقوفی پر مبنی ہیں اور وہ سچے خیر خواہوں کے مقابلے میں ان کو برے خطابات سے مخاطب کرنے میں کتنے ظالم اور کتنے سخت ہیں؟
#
{27} لا جرم عاقبهم الله حين اشتدَّ طغيانُهم، فأرسل الله الناقة التي هي من أكبر النعم عليهم آية من آيات الله ونعمة؛ يحلبونَ من دَرِّها ما يكفيهم أجمعين، {فتنةً لهم}؛ أي: اختباراً منه لهم وامتحاناً، {فارتَقِبْهم واصْطَبِر}؛ أي: اصبر على دعوتك إيَّاهم وارتقبْ ما يحلُّ بهم، أو ارتقبْ هل يؤمنون أو يكفُرون.
[27] جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹنی بھیجی جو ان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت تھی جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس کی ایک نعمت تھی۔ وہ اس کا دودھ دوہتے تھے جو ان سب کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ﴿ فِتْنَةً لَّهُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اونٹنی ان کی آزمائش اور امتحان کے طور پر تھی۔ ﴿فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ﴾ پس ان کو دعوت دینے پر ڈٹے رہیے اور منتظر رہیے کہ ان پر کیا عذاب نازل ہوتا ہے۔ یا اس بات کے منتظر رہیے کہ آیا وہ ایمان لاتے ہیں یا کفر ہی پر ڈٹے رہتے ہیں؟
#
{28} {ونبِّئْهم أنَّ الماءَ قسمةٌ بينهم}؛ أي: وأخبرهم أنَّ الماء؛ أي: موردهم الذي يستعذبونه، قسمةٌ بينهم وبين الناقة، لها شِرْبُ يوم ولهم شِرْبُ يوم آخر معلوم. {كلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ}؛ أي: يحضره من كان قسمته، ويُحْظَر على من ليس بقسمة له.
[28] ﴿ وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَآءَ قِسْمَةٌۢ بَیْنَهُمْ ﴾ یعنی ان کو آگاہ کر دیجیے کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا ، یعنی ان کا پانی پینے کا چشمہ اب ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم ہو گا۔ ایک دن اونٹنی پانی پیئے گی اور ایک مقرر دن ان کے پانی پینے کے لیے ہے۔ ﴿ كُ٘لُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ﴾ ’’ہر ایک (اپنی) باری پر حاضر ہوگا۔‘‘ یعنی اس روز صرف وہی پانی پر آئے گا جس کی باری ہو گی اور جس کی باری نہ ہو گی اس کے لیے پانی پر آنے کی ممانعت ہو گی۔
#
{29} {فنادوا صاحبَهم}: الذي باشر عقرها، الذي هو أشقى القبيلة، {فتعاطى}؛ أي: انقاد لما أمروه به من عقرها، {فعقر}.
[29] ﴿ فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ﴾ ’’پھر انھوں نے اپنے (ایک) ساتھی کو بلایا۔‘‘ جو اونٹنی کو ہلاک کرنے میں براہ راست ملوث تھا جو اپنے قبیلے کا سب سے بدبخت شخص تھا۔ ﴿ فَتَعَاطٰى﴾ تو قومِ ثمود نے اس کو اونٹنی ہلاک کرنے کا جو حکم دیا تھا اس نے اس کی اتباع کی ﴿ فَعَقَرَ﴾ چنانچہ اس نے اونٹنی کو قتل کر ڈالا۔
#
{30 ـ 32} {فكيف كان عذابي ونُذُرِ}: كان أشدَّ عذاب، أرسل الله عليهم صيحةً ورجفةً أهلكتهم عن آخرهم، ونجَّى الله صالحاً ومَن آمن معه، {ولقد يَسَّرْنا القرآنَ للذِّكْر فهل من مُدَّكِرٍ}.
[32-30] ﴿ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ﴾ ’’پھر (دیکھو) میرا عذاب اور میرا ڈراوا کیسا تھا؟‘‘ یعنی یہ سخت ترین عذاب تھا اللہ تعالیٰ نے ایک سخت چنگھاڑ اور زلزلہ بھیجا، جس نے ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر ڈالا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح uاور ان لوگوں کو بچا لیا جو آپ پر ایمان لائے تھے۔
آیت: 33 - 40 #
{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ (33) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ (34) نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا كَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ (35) وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ (36) وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ (37) وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ (38) فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ (39) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (40)}.
جھٹلایا قوم لوط نے ڈرانے والوں کو (33) بلاشبہ ہم نے بھیجی ان پر پتھر برسا نے والی ہوا سوائے آل لوط کے، ہم نے نجات دی انھیں بوقتِ سحر (34) فضل کرتے ہوئے اپنے پاس سے اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں اس کو جو شکر کرتا ہے (35) اور البتہ تحقیق (لوط نے) ڈرایا تھا انھیں ہماری پکڑ سے تو انھوں نے شک کیا ڈراوے میں (36) اور یقیناً انھوں نے مطالبہ کیا لوط سے اس کےمہمانوں کا تو مٹا دیں ہم نے ان کی آنکھیں پس چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا (37) اور البتہ تحقیق ہلاک کر دیا ان کو صبح کے وقت عذاب دائمی نے (38) پس چکھو تم میرا عذاب اور میرا ڈرانا(39) اور یقیناً آسان کیا ہے ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (40)
#
{33 ـ 40} أي: {كذَّبت قومُ لوط}: لوطاً عليه السلام حين دعاهم إلى عبادة الله وحده لا شريك له ونهاهم عن الشرك والفاحشة التي ما سبقهم بها أحدٌ من العالمين، فكذَّبوه واستمرُّوا على شركهم وقبائحهم، حتى إنَّ الملائكة الذين جاؤوه بصورة أضياف، حين سمع بهم قومُه؛ جاؤوا مسرعين يريدون إيقاع الفاحشة فيهم لعنهم الله وقبَّحهم وراودوه عنهم، فأمر الله جبريل عليه السلام، فطمس أعينهم بجناحه، وأنذرهم نبيُّهم بطشة الله وعقوبته، {فتمارَوْا بالنُّذُر}، {ولقد صبَّحهم بُكرةً عذابٌ مستقرٌّ}: قلب الله عليهم ديارهم، وجعل أسفلها أعلاها، وتتبَّعهم بحجارة من سِجِّيل منضودٍ مسوَّمة عند ربِّك للمسرفين، ونجَّى الله لوطاً وأهله من الكرب العظيم؛ جزاء لهم على شكرهم لربِّهم وعبادته وحدَه لا شريك له.
[40-33] ﴿ كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭؔ ﴾ جب حضرت لوط uنے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلایا اور انھیں شرک اور فحش کام سے روکا جو دنیا میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا تو انھوں نے لوطu کی تکذیب کی۔ پس انھوں نے آپ کو جھٹلایا اور اپنے شرک اور فواحش پر جمے رہے۔ حتیٰ کہ وہ فرشتے جو خوبصورت مہمانوں کی شکل میں آئے تھے ان کی آمد کے بارے میں جب حضرت لوط uکی قوم نے سنا تو جلدی سے آئے اور وہ ان مہمانوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے۔ اور ان کا برا کرے۔ وہ ان مہمانوں کے بارے میں آپ کو فریب دینا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جبریلu کو حکم دیا انھوں نے ان کو اندھا کر ڈالا، ان کے نبی نے ان کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا سے ڈرایا ﴿ فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ﴾ ’’تو انھوں نے ڈراوے میں شک کیا۔‘‘ ﴿ وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُؔكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ ﴾ ’’اور یقیناً صبح سویرے ہی اٹل عذاب نے انھیں ہلاک کردیا ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کر کے نچلے کو الٹ کر اوپر کر دیا اس کے بعد ان پر لگاتار کھنگر کے پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں، حد سے گزرنے والوں کے لیے نشان زدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط uاور ان کے گھر والوں کو، ان کی اپنے رب کی شکر گزاری اور اسی اکیلے کی عبادت کرنے کی جزا کے طور پر بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔
آیت: 41 - 55 #
{وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ (41) كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ (42) أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ (43) أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ (44) سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (45) بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ (46) إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ (47) يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ (48) إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (49) وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ (50) وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (51) وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ (52) وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ (53) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ (54) فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (55)}.
اور البتہ تحقیق آئے تھے فرعونیوں کے پاس (بھی) ڈرانے والے (41) انھوں نے تکذیب کی ہماری نشانیوں کی سبکی تو ہم نے پکڑا ان کو پکڑنا (مانند) ایک زبردست قدرت والے کے (42) کیا تمھارے کافر بہتر ہیں ان (کافروں) سے یا تمھارے لیے کوئی نجات (لکھی ہوئی) ہے (سابقہ) صحیفوں میں؟ (43) کیا وہ (مشرکین) کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت ہیں غالب آنے والی؟ (44) عنقریب شکست دی جائے گی وہ جماعت اور بھاگیں گے وہ پیٹھ پھیر کر (45)بلکہ قیامت وعدے کا وقت ہے ان کا، اور قیامت بہت بڑی آفت اور نہایت تلخ ہے (46) بلاشبہ مجرمین گمراہی اور دیوانگی میں (پڑے ہوئے) ہیں (47) جس دن گھسیٹے جائیں گے وہ آگ میں اپنے چہروں کے بل، (کہا جائے گا) چکھو تم تکلیف (عذاب) جہنم کی (48) بلاشبہ ہم نے ہر چیز کو، پیدا کیا ہے ہم نے اسے ساتھ ایک اندازے کے(49) اور نہیں (ہوتا) ہمارا حکم مگر ایک (کلمہ) ہی جیسے جھپکنا آنکھ کا (50) اور تحقیق ہلاک کر چکے ہیں ہم (پہلے) تم جیسوں کو تو کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ (51) اور ہر چیز کہ کی ہے انھوں نے وہ، (لکھی ہوئی) ہے صحیفوں میں (52) اور ہر چھوٹا بڑا (عمل) لکھا ہوا ہے (53) بلاشبہ متقی لوگ باغات اور نہروں میں ہوں گے (54) مقامِ عزت میں نزدیک بادشاہ قدرت والے کے (55)
#
{41 ـ 42} أي: {ولقد جاء آلَ فرعونَ}؛ أي: فرعون وقومه، {النُّذُرُ}: فأرسل الله إليهم موسى الكليم، وأيَّده بالآيات البيِّنات والمعجزات الباهرات، وأشهدهم من العبر ما لم يشهدْ غيرهم ، فكذَّبوا بآيات الله كلِّها، فأخذهم أخذَ عزيزٍ مقتدرٍ، فأغرقه وجنوده في اليمِّ.
[41، 42] ﴿ وَلَقَدْ جَآءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ﴾ اور بلاشبہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس (بھی) ڈرانے والے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ کلیم اللہ حضرت موسیٰ uکو بھیجا، آپ کی تائید کی، ان کو بڑے بڑے عبرت ناک واقعات کا مشاہدہ کرایا جن کا مشاہدہ ان کے سوا کسی اور کو نہیں کرایا۔ مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی تمام نشانیوں کو جھٹلا دیا، تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کی مانند عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں غرق کر دیا۔
#
{43} والمراد من ذِكر هذه القصص تحذير الناس والمكذِّبين لمحمد - صلى الله عليه وسلم -، ولهذا قال: {أكفَّارُكم خيرٌ من أولئكم}؛ أي: أهؤلاء الذين كذَّبوا أفضل الرسل خيرٌ من أولئك المكذِّبين الذين ذكر الله هلاكَهم وما جرى عليهم؟ فإنْ كانوا خيراً منهم؛ أمكن أن يَنْجوا من العذاب ولم يصبهم ما أصاب أولئك الأشرار، وليس الأمر كذلك؛ فإنَّهم إن لم يكونوا شرًّا منهم؛ فليسوا بخير منهم. {أم لكم بَرَآءَةٌ في الزُّبُرِ}؛ أي: أم أعطاكم الله عهداً وميثاقاً في الكتب التي أنزلها على الأنبياء، فتعتقدون حينئذٍ أنَّكم الناجون بأخبار الله ووعده؟! وهذا غير واقع، بل غير ممكنٍ عقلاً وشرعاً أن تُكتب براءتهم في الكُتب الإلهية المتضمِّنة للعدل والحكمة؛ فليس من الحكمة نجاةُ أمثال هؤلاء المعاندين المكذِّبين لأفضل الرسل وأكرمهم على الله.
[43] ان واقعات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو محمد مصطفیe کو جھٹلاتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ﴾ ’’(اے اہلِ عرب!) کیا تمھارے کافران (کافروں) سےبہتر ہیں؟‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جنھوں نے افضل المرسلین حضرت محمد مصطفیe کی تکذیب کی ہے، ان جھٹلانے والوں سے بہتر ہیں جن کی ہلاکت اور ان پر گزرنے والے حالات کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے؟ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بہتر ہیں تو ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں، اور ان پر وہ عذاب نازل نہ ہو جو ان شریر لوگوں پر نازل ہوا تھا مگر معاملہ یوں نہیں کیونکہ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بڑھ کر شر پسند نہیں تو ان سے اچھے بھی نہیں۔ ﴿ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِ﴾ ’’یا تمھارے لیے (سابقہ) صحیفوں میں کوئی نجات لکھی ہوئی ہے؟‘‘ یعنی کیا اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں تمھارے ساتھ کوئی عہد اور میثاق کر رکھا ہے جو گزشتہ انبیاء پر نازل ہوئی ہیں جن کی بنا پر تم یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس خبر کی وجہ سے عذاب سے بچ جاؤ گے؟ مگر یہ غیر واقع چیز ہے، بلکہ یہ عقلاً اور شرعاً غیر ممکن امر ہے کہ ان کتب الٰہیہ میں ان کی براء ت لکھ دی گئی ہو جو عدل و حکمت کو متضمن ہیں۔ یہ حکمت کے منافی ہے کہ ان جیسے معاندین حق کو نجات حاصل ہو جنھوں نے افضل الانبیاء سیدالمرسلین حضرت محمد e جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام انبیاءو مرسلین سے بڑھ کر صاحب تکریم ہیں، کو جھٹلایا۔
#
{44} فلم يبق إلاَّ أن يكون بهم قوَّةٌ ينتصرون بها، فأخبر تعالى أنهم يقولون: {نحن جميعٌ منتصرٌ}.
[44] پس اب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ان کے پاس کوئی قوت ہو جس سے وہ مدد حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : ﴿ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ﴾ ہماری جماعت بڑی طاقتور ہے۔
#
{45} قال تعالى مبيناً لضعفهم وأنهم مهزومون: {سيُهْزَمُ الجمعُ ويولُّون الدُّبُرَ}: فوقع كما أخبر؛ هزم الله جمعهم الأكبر يوم بدرٍ، وقُتلت صناديدُهم وكبراؤهم، فأذلُّوا ، ونصر الله دينه ونبيَّه وحزبه المؤمنين.
[45] اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے اور اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ ہزیمت اٹھائیں گے، فرماتا ہے: ﴿ سَیُهْزَمُ الْ٘جَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ﴾ ’’عنقریب وہ جماعت شکست کھائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔پس اس نے ان کی بہت بڑی جماعت کو غزوۂ بدر کے روز زبردست ہزیمت سے دو چار کیا، ان کے بڑے بڑے بہادراور ان کے سرکردہ سردار قتل ہو کر ذلیل و خوار ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنے نبی اور اہل ایمان پر مشتمل اپنے گروہ کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔
#
{46} ومع ذلك؛ فلهم موعدٌ يجمع به أولهم وآخرهم ومن أصيب في الدُّنيا منهم ومن متع بلذاته، ولهذا قال: {بل الساعةُ موعدُهم}: الذي يجازون به ويؤخذ منهم الحقُّ بالقسط، {والساعةُ أدهى وأمرُّ}؛ أي: أعظم وأشقُّ وأكبر من كلِّ ما يتوهَّم أو يدور في الخيال.
[46] بایں ہمہ ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب اللہ تعالیٰ ان کے اولین و آخرین، جو دنیا میں مصائب میں مبتلا رہے اور جن کو دنیا کی لذتوں سے بہرہ ور کیا گیا، سب کو اکٹھا کرے گا، اس لیے فرمایا: ﴿ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ﴾ ’’بلکہ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے۔‘‘ اس وقت ان کو جزا دی جائے گی اور نہایت عدل و انصاف کے ساتھ ان سے حق لیا جائے گا ﴿ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ﴾ ’’اور قیامت کی گھڑی بہت بڑی آفت اور تلخ چیز ہے۔‘‘ یعنی بہت بڑی، زیادہ مشقت آمیز اور ہر اس چیز سے بڑھ کر ہے جس کا گمان کیا جا سکتا ہے یا وہ تصور میں آ سکتی ہے۔
#
{47} {إنَّ المجرمينَ}؛ أي: الذين أكثروا من فعل الجرائم، وهي الذنوب العظيمة؛ من الشرك وغيره من المعاصي {في ضلال وسُعُرٍ}؛ أي: هم ضالُّون في الدُّنيا، ضُلاَّلٌ عن العلم وضُلاَّلٌ عن العمل الذي ينجِّيهم من العذاب، ويوم القيامةِ في العذاب الأليم والنار التي تستعر بهم وتشتعل في أجسامهم حتى تبلغ أفئدتهم.
[47] ﴿ اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ یعنی وہ لوگ جنھوں نے نہایت کثرت سے جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس سے مراد بڑے بڑے گناہ ، یعنی شرک اور معاصی وغیرہ ہیں۔ ﴿ فِیْ ضَلٰ٘لٍ وَّسُعُرٍ﴾ ’’وہ گمراہی اور دیوانگی میں پڑے ہیں۔‘‘ یعنی وہ دنیا میں گمراہ تھے، وہ علم کی گمراہی اور عمل کی گمراہی میں مبتلا تھے۔ قیامت کے روز درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے، ان پر آگ بھڑکائی جائے گی، آگ ان کے جسموں میں شعلہ زن ہو گی یہاں تک کہ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی۔
#
{48} {يوم يُسْحَبون في النار على وجوهِهِم}: التي هي أشرف ما بهم من الأعضاء، وألمها أشدُّ من [أَلَمِ] غيرها، فيُهانون بذلك ويُخْزَون، ويقال لهم: {ذوقوا مَسَّ سَقَرَ}؛ أي: ذوقوا ألم النار وأسفها وغيظها ولهبها.
[48] ﴿یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ﴾ ’’جس دن انھیں چہروں کے بل آگ میں گھسیٹا جائے گا۔‘‘ چہرہ جو تمام اعضاء میں سب سے زیادہ شرف کا حامل ہے۔ اس کا درد دیگر تمام اعضا سے بڑھ کر ہے، پس انھیں اس عذاب کے ذریعے سے ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ﴾ ’’تم جہنم (کے عذاب) کی تکلیف چکھو۔‘‘ یعنی آگ، اس کے غم، اس کے غیظ و غضب اور اس کے شعلوں (کے عذاب) کو چکھو۔
#
{49} {إنَّا كلَّ شيءٍ خَلَقْناه بقدرٍ}: وهذا شاملٌ للمخلوقات والعوالم العلويَّة والسفليَّة؛ إنَّ الله تعالى وحدَه خلَقَها، لا خالق لها سواه، ولا مشارك له في خلقه ، وخلقها بقضاءٍ سبق به علمُه وجرى به قلمُه بوقتها ومقدارها، وجميع ما اشتملت عليه من الأوصاف.
[49] ﴿ اِنَّا كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ﴾ ’’بے شک ہم نے ہر چیز کو مقرر اندازے سے پیدا کیا۔‘‘ یہ آیت کریمہ، تمام مخلوقات، تمام علوی اور سفلی کائنات کو شامل ہے، تمام کائنات کو اکیلے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ان کا خالق نہیں اور نہ اس کی تخلیق میں کسی کی کوئی شراکت ہی ہے۔ اس نے اس کائنات کو ایسی قضاو قدر کے ساتھ پیدا کیا جس کے بارے میں اس کا علم سبقت کر گیا، اس کی مقدار، وقت اور اس کے تمام اوصاف کو اس کے قلم نے درج کر لیا۔
#
{50} وذلك على الله يسيرٌ؛ فلهذا قال: {وما أمرُنا إلاَّ واحدةٌ كلمحٍ بالبصرِ}: فإذا أراد شيئاً؛ قال له: كن فيكونُ؛ كما أراد؛ كلمح البصر؛ من غير ممانعةٍ ولا صعوبةٍ.
[50] یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان تھے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَ٘لَ٘مْحٍۭ بِالْ٘بَصَرِ﴾ ’’اور ہمارا حکم تو آنکھ جھپکنے کی طرح ایک بات ہی ہوتی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ چیز آنکھ جھپکنے کے مانند، بغیر کسی رکاوٹ اور بغیر کسی صعوبت کے اسی طرح ہو جاتی ہے جیسا اس نے ارادہ کیا تھا۔
#
{51} {ولقد أهْلَكْنا أشياعَكم}: من الأمم السابقين، الذين عملوا كما عملتُم وكذَّبوا كما كذَّبتم، {فهل من مُدَّكِرٍ}؛ أي: متذكِّر يعلم أن سنَّة الله في الأولين والآخرين واحدةٌ، وأن حكمتَه كما اقتضت إهلاك أولئك الأشرار فإنَّ هؤلاء مثلهم، ولا فرق بين الفريقين.
[51] ﴿ وَلَقَدْ اَهْلَكْنَاۤ اَشْیَاعَكُمْ﴾ ’’اور یقیناً ہم تم سے پہلے تمھارے ہم مذہبوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔‘‘ یعنی گزشتہ قوموں میں سے جنھوں نے ویسے ہی عمل کیے تھے جیسے تم نے کیے ہیں، انھوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسے تم نے تکذیب کی۔ ﴿ فَهَلْ مِنْ مُّدَّؔكِرٍ﴾ یعنی ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا جو یہ جانتا ہو کہ اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کی ایک ہی سنت رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان شر پسند لوگوں کی ہلاکت ضروری تھی کیونکہ یہ شر پسند لوگ بھی انھی کے مانند ہیں دونوں فریقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
#
{52} {وكلُّ شيءٍ فعلوه في الزُّبر}؛ أي: كل ما فعلوه من خيرٍ وشرٍّ مكتوبٌ عليهم في الكتب القدريَّة.
[52] ﴿ وَكُ٘لُّ شَیْءٍ فَعَلُوْهُ فِی الزُّبُرِ﴾ یعنی وہ جو بھی کوئی نیکی اور بدی کا فعل سر انجام دیتے ہیں وہ ان کے صحیفۂ تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔
#
{53} {وكلُّ صغيرٍ وكبيرٍ مُسْتَطَرٌ}؛ أي: مسطَّرٌ مكتوبٌ، وهذه حقيقة القضاء والقدر، وأنَّ جميع الأشياء كلها قد علمها الله تعالى وسطرها عنده في اللوح المحفوظ؛ فما شاء الله كان، وما لم يشأ لم يكنْ؛ فما أصاب الإنسان لم يكن ليخطِئَه، وما أخطأه لم يكن ليصيبَه.
[53] ﴿ وَكُ٘لُّ صَغِیْرٍ وَّؔكَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ﴾ یعنی ہر چھوٹا بڑا عمل لکھا ہوا ہوتا ہے، اور قضا و قدر کی حقیقت یہ ہے کہ تمام اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس نے اپنے پاس ہر چیز کو لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، انسان کو جو مصیبت پہنچی ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو مصیبت نہیں پہنچی ہوتی وہ پہنچ نہیں سکتی۔
#
{54 ـ 55} {إنَّ المتَّقين}: لله بفعل أوامره وترك نواهيه، الذين اتَّقوا الشرك والكبائر والصغائر {في جناتٍ ونَهَرٍ}؛ أي: في جنات النعيم، التي فيها ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر؛ من الأشجار اليانعة، والأنهار الجارية، والقصور الرفيعة، والمنازل الأنيقة، والمآكل والمشارب اللذيذة، والحور الحسان، والروضات البهية في الجنان، ورضا الملك الدَّيَّان والفوز بقربه، ولهذا قال: {في مقعدِ صدقٍ عند مليكٍ مقتدرٍ}؛ فلا تسأل بعد هذا عما يعطيهم ربُّهم من كرامته وجوده ويمدُّهم به من إحسانه ومنَّته! جعلنا الله منهم، ولا حرمنا خير ما عنده بشرِّ ما عندنا.
[54، 55] ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ یعنی تعمیل اوامر اور ترک نواہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے وہ لوگ جو شرک، کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ﴿فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَهَرٍ ﴾ وہ نعمتوں بھری جنتوں میں ہوں گے جس میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی آدمی کے حاشیۂ خیال ہی میں ان کا گزر ہوا ہے۔ یعنی ان جنتوں میں پکے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے درخت، بہتی ہوئی نہریں، بلند و بالا محلات، خوبصورت آرام گاہیں، نہایت لذیذ ماکولات و مشروبات، حسین و جمیل حوریں، خوبصورت باغات، جزا و سزا سے نوازنے والے بادشاہ کی رضا اور اس کے قرب کے حصول میں کامیابی، یہ سب کچھ ہو گا۔﴿ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْكٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ ’’حقیقی عزت کی جگہ ہر طر ح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں ۔‘‘ اس کے بعد مت پوچھیے کہ ان کا رب اپنی طرف سے کیسی کیسی عزت و تکریم اور جود و کرم سے نوازے گا اور ان پر اپنے بے پایاں احسانات اور نوازشات میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے، ہمارے دامن میں جو برائیاں ہیں ان کی بنا پر ہمیں ان بھلائیوں سے محروم نہ کرے جو اس کے سایۂ رحمت میں ہیں۔(آمین)