آیت:
تفسیر سورۂ طور
تفسیر سورۂ طور
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 16 #
{وَالطُّورِ (1) وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ (2) فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ (3) وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ (4) وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ (5) وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ (6) إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (7) مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ (8) يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا (9) وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا (10) فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (11) الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ (12) يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا (13) هَذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (14) أَفَسِحْرٌ هَذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ (15) اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (16)}.
قسم ہے طور (پہاڑ ) کی(1) اور ایک کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے(2) کاغذ میں جو کھلا ہوا ہے(3) اور بیت المعمور کی(4) اور چھت بلند کی ہوئی کی(5) اور سمندر بھڑکائے ہوئے کی(6) بلاشبہ عذاب آپ کے رب کا ضرور واقع ہونے والا ہے(7) نہیں ہے اسے کوئی دفع کرنے والا(8) (واقع ہو گا)جس دن تیزی سے حرکت کرے گا آسمان تیزی سے حرکت کرنا(9) اور چلیں گے پہاڑ چلنا (10) پس ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (11) وہ لوگ کہ وہ (تکذیب میں) مشغول ہیں کھیل رہے ہیں (12) جس دن سختی سے دھکیلے جائیں گے وہ آتش جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جانا (13) (کہا جائے گا:)یہی ہے، وہ آگ وہ جو تھے تم اس کو جھٹلاتے (14) کیا پس جادو ہے یہ؟ یا تم نہیں دیکھتے؟ (15) داخل ہو جاؤ تم اس میں، پس صبر کرو یا نہ صبر کرو برابر ہے تم پر، یقیناً جزا دیے جاؤ گے تم جو کچھ کہ تھے تم عمل کرتے (16)
#
{1} يقسم تعالى بهذه الأمور العظيمة المشتملة على الحِكَم الجليلة على البعث والجزاء للمتَّقين وللمكذِّبين ، فأقسم بالطور، وهو الجبلُ الذي كلَّم الله عليه موسى بن عمران عليه الصلاة السلام، وأوحى إليه ما أوحى من الأحكام، وفي ذلك من المنَّة عليه وعلى أمَّته ما هو من آيات الله العظيمة ونعمه التي لا يَقْدِرُ العباد لها على عدٍّ ولا ثمن.
[1] اللہ تبارک و تعالی جلیل القدر حکمتوں پر مشتمل عظیم امور کے ساتھ حیات بعد الموت اور متقین اور مکذبین کی جزا و سزا پر۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوہ طور کی قسم کھائی، طور وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰu سے ہم کلام ہوا اور اس نے ان کی طرف وحی بھیجی اور ان پر احکام شریعت نازل فرمائے، یہ حضرت موسیٰu اور آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں اور اس کی نعمتیں ہیں، بندے جن کو شمار کر سکتے ہیں نہ ان کی قیمت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
#
{2} {وكتابٍ مسطورٍ}: يُحتمل أنَّ المراد به اللوحُ المحفوظ، الذي كتب الله به كلَّ شيءٍ، ويُحتمل أنَّ المراد به القرآن الكريم، الذي هو أفضل الكتب ، أنزله الله محتوياً على نبأ الأوَّلين والآخرين وعلوم السَّابقين واللاحقين.
[2] ﴿ وَؔكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ﴾ ’’اور کتاب کی (قسم) جو لکھی ہوئی ہے۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز لکھ رکھی ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم ہو جو سب سے افضل کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح نازل کیا ہے کہ وہ اولین و آخرین کی خبروں اور سابقین و لاحقین کے علوم پر مشتمل ہے۔
#
{3} وقوله: {في رَقٍّ}؛ أي: ورقٍ {منشورٍ}؛ أي: مكتوبٍ، مسطرٍ، ظاهرٍ غير خفيٍّ، لا تخفى حالُه على كلِّ عاقل بصيرٍ.
[3] ﴿ فِیْ رَقٍّ ﴾ یعنی اوراق میں لکھا گیا ہے جو بالکل ظاہر ہے، مخفی نہیں ہے اور اس کا حال ہر خرد مند اور صاحب بصیرت سے چھپا ہوا نہیں ہے۔
#
{4} {والبيت المعمورِ}: وهو البيتُ الذي فوق السماء السابعة، المعمور مدى الأوقات بالملائكة الكرام، [الذي] يدخُله كلُّ يوم سبعون ألف مَلَك، يتعبَّدون فيه لربِّهم، ثمَّ لا يعودون إليه إلى يوم القيامةِ، وقيل: إنَّ البيت المعمور هو بيت الله الحرام المعمور بالطائفين والمصلِّين والذَّاكرين كلَّ وقت وبالوفود إليه بالحجِّ والعمرة؛ كما أقسم الله به في قوله: {وهذا البلدِ الأمين}، وحقيقٌ ببيت هو أفضل بيوت الأرض، الذي يَقْصِدُه الناس بالحجِّ والعمرة، أحد أركان الإسلام ومبانيه العظام، التي لا يتمُّ إلاَّ بها، وهو الذي بناه إبراهيمُ وإسماعيلُ، وجعله الله مثابةً للناس وأمناً؛ أنْ يُقْسِمَ الله به، ويبيِّن من عظمته ما هو اللائقُ به وبحرمته.
[4] ﴿ وَّالْبَیْتِ الْ٘مَعْمُوْرِ﴾ ’’اور بیت معمور کی (قسم)۔‘‘ یہ وہ گھر ہے جو ساتویں آسمان سے اوپر واقع ہے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے مکرم فرشتوں سے معمور رہتا ہے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہو کر اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ، پھر قیامت تک دوبارہ ان کی باری نہیں آئے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ’’بیت معمور‘‘ سے مراد بیت اللہ ہے جو ہر وقت طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں، ذکر کرنے والوں اور حج و عمرہ کے لیے آنے والوں سے آباد رہتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں قسم کھائی ہے : ﴿ وَهٰؔذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾(التین 95؍3) ’’اور اس امن والے شہر کی قسم۔‘‘ وہ گھر جو روئے زمین کے تمام گھروں سے افضل ہے، لوگ حج اور عمرہ کے لیے اس کا قصد کرتے ہیں جو اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن اوراس کی ان عظیم بنیادوں پر قائم ہے جن کے بغیر یہ مکمل نہیں ہوتا ۔ یہ وہ گھر ہے جس کو حضرت ابراہیمu اور حضرت اسماعیلu نے تعمیر کیا، جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے جمع ہونے اور امن کی جگہ مقرر فرمایا یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے اور اس کی عظمت کو بیان فرمائے جو اس گھر کے اور اس کی حرمت کے لائق ہے۔
#
{5} {والسقفِ المرفوع}؛ أي: السماء التي جعلها الله سقفاً للمخلوقات وبناءً للأرض تستمدُّ منها أنوارها، ويُقتدى بعلاماتها ومنارها، ويُنْزِلُ اللهُ منها المطر والرحمة وأنواع الرزق.
[5] ﴿ وَالسَّقْفِ الْ٘مَرْفُوْعِ﴾ ’’اور اونچی چھت کی (قسم)۔‘‘ یعنی آسمان کی جس کو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے لیے چھت اور زمین کے لیے آبادی کی بنیاد بنایا، زمین کی خوش نمائیاں آسمان سے مدد لیتی ہیں، آسمان کی علامات اور روشنیوں سے راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش، رحمت اور انواع و اقسام کے رزق نازل کرتا ہے۔
#
{6} {والبحر المَسْجورِ}: أي: المملوء ماءً، قد سجره الله ومنعه من أن يَفيضَ على وجه الأرض، مع أنَّ مقتضى الطبيعة أن يغمرَ وجه الأرض، ولكنَّ حكمته اقتضت أن يمنعه عن الجريان والفيضان؛ ليعيش مَنْ على وجه الأرض من أنواع الحيوان. وقيل: إنَّ المراد بالمسجور: الموقَد، الذي يوقَدُ ناراً يوم القيامةِ، فيصير ناراً تَلَظَّى، ممتلئاً على سعته من أصناف العذاب.
[6] ﴿ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ﴾ یعنی پانی سے لبریز سمندر کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اسے پانی سے لبریز کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اسے بہہ کر روئے زمین پر پھیل جانے سے روک دیا، حالانکہ پانی کی فطرت یہ ہے کہ وہ زمین کو ڈھانپ لیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ یہ پانی کو ادھر ادھر بہہ جانے سے روک دے تاکہ روئے زمین پر مختلف حیوانات زندہ رہ سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ﴿ الْمَسْجُوْرِ﴾ سے مراد وہ سمندرہے جس میں قیامت کے دن آگ بھڑکائی جائے گی، اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور وہ اپنی کشادگی کے باوجود عذاب کی مختلف اصناف سے بھرا ہوا ہو گا۔
#
{7} هذه الأشياء التي أقسم الله بها ممَّا يدلُّ على أنَّها من آيات الله وأدلَّة توحيده وبراهين قدرته وبعثه الأموات، ولهذا قال: {إنَّ عذابَ ربِّك لواقعٌ}؛ أي: لابدَّ أن يقع، ولا يخلفُ اللهُ وعده وقيله.
[7] یہ اشیاء جن کی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قسم کھائی ہے دلالت کرتی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں، اس کی توحید کے دلائل، اس کی قدرت اور حیات بعد الموت کے براہین ہیں۔ بنابریں فرمایا : ﴿ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ﴾ یعنی تیرے رب کے عذاب کا واقع ہونا لازمی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے قول اور وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
#
{8} {ما له من دافع}: يدفعُه، ولا مانع يمنعُه، لأنَّ قدرة الله لا يغالبها مغالبٌ ولا يفوتها هاربٌ.
[8] ﴿ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ﴾ ’’اسے کوئی روکنے والا نہیں۔‘‘ کوئی ایسی ہستی نہ ہو گی جو اسے دور ہٹا سکے اور نہ کوئی ایسا مانع ہو گا جو اسے روک سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی مقابلہ کر سکتا ہے نہ کوئی بھاگ کر اس سے بچ سکتا ہے۔
#
{9} ثم ذكر وصفَ ذلك اليوم الذي يقع فيه العذابُ، فقال: {يوم تمورُ السَّماء مَوْراً}؛ أي: تدور السماء وتضطرب وتدوم حركتها بانزعاج وعدم سكونٍ.
[9] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کا وصف بیان فرمایا، جس دن یہ عذاب واقع ہو گا، چنانچہ فرمایا: ﴿یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًا﴾ ’’جس دن آسمان تیز تیز حرکت کرنے لگے گا۔‘‘ یعنی گھومے گا اور مضطرب ہو گا۔ بے قراری اور عدم سکون کی وجہ سے دائمی طور پر متحرک رہے گا۔
#
{10} {وتسير الجبالُ سيراً}؛ أي: تزولُ عن أماكنها، وتسير كسير السحاب، وتتلوَّن كالعهن المنفوش، وتبثُّ بعد ذلك حتى تصير مثل الهباء، وذلك كلُّه لعظم هول يوم القيامةِ؛ [وفظاعة ما فيه من الأمور المزعجة والزلازل المقلقة التي أزعجت هذه الأجرام العظيمة] فكيف بالآدميِّ الضعيف؟!
[10] ﴿ وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا ﴾ یعنی پہاڑ اپنی جگہوں سے ہل جائیں گے اور بادل کی مانند چلیں گے اور وہ ایسے رنگ برنگے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون۔ اس کے بعد یہ پہاڑ بکھر جائیں گے یہاں تک کہ وہ غبار بن جائیں گے۔ یہ سب کچھ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کی وجہ سے ہو گا۔ تب بے چارے کمزور آدمی کا کیا حال ہو گا؟
#
{11} {فويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}: والويل كلمةٌ جامعةٌ لكلِّ عقوبةٍ وحزنٍ وعذابٍ وخوفٍ.
[11] ﴿ فَوَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ ﴾ ’’پس اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے۔‘‘ اَلْوَیْل ہر قسم کی عقوبت، حزن و غم، عذاب اور خوف کے لیے ایک جامع کلمہ ہے۔
#
{12} ثم ذَكَرَ وصفَ المكذِّبين، الذين استحقُّوا به الويل، فقال: {الذين هم في خَوْضٍ يلعبون}؛ أي: خوض بالباطل ولعب به؛ فعلومُهم وبحوثهم بالعلوم الضارَّة المتضمِّنة للتكذيب بالحقِّ والتصديق بالباطل، وأعمالُهم أعمال أهل الجهل والسَّفَه واللعب؛ بخلاف ما عليه أهل التصديق والإيمان من العلوم النافعة والأعمال الصالحة.
[12] پھر اللہ تعالیٰ نے ان جھٹلانے والوں کا وصف بیان فرمایا جو اس ویل کے مستحق ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَؔ﴾ ’’جو اپنی بے ہودہ گوئی میں اچھل کود کر رہے ہیں۔‘‘ یعنی وہ باطل میں گھس کر اس سے کھیل رہے ہیں، پس ان کے تمام علوم اور ان کی تمام ضرررساں علمی تحقیقات تکذیبِ حق اور تصدیق باطل کو متضمن ہیں، ان کے تمام اعمال، جہلاء، سفہاء اور لہو ولعب میں مشغول لوگوں کے اعمال ہیں، بخلاف ان اعمال کے جن پر اہلِ تصدیق اور اہلِ ایمان کار بند ہیں، یعنی علوم نافعہ اور اعمالِ صالحہ۔
#
{13 ـ 14} {يومَ يُدَعُّونَ إلى نار جهنَّم دعاً}؛ أي: [يوم] يُدفعون إليها دفعاً، ويساقون إليها سوقاً عنيفاً، ويجرون على وجوههم، ويُقال لهم توبيخاً ولوماً: {هذه النارُ التي كنتمُ بها تكذِّبون}: فاليوم ذوقوا عذابَ الخُلد الذي لا يُبْلَغُ قدرهُ ولا يوصَفُ أمره.
[13، 14] ﴿ یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا﴾ یعنی جہنم کی آگ کی طرف دھکیلے اور نہایت درشتی سے انھیں ہانکا جائے گا، انھیں چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور زجر و توبیخ اور ملامت کے طور پر انھیں کہا جائے گا : ﴿هٰؔذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ﴾ ’’یہی وہ آگ ہے جسے تم جھوٹ سمجھتے تھے۔‘‘ آج دائمی عذاب کا مزہ چکھو جس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کا وصف بیان ہو سکتا ہے۔
#
{15} {أفسحرٌ هذا أم أنتم لا تُبصرونَ}: يُحتمل أنَّ الإشارة إلى النار والعذاب؛ كما تدلُّ عليه سياق الآيات ؛ أي: لما رأوا النار والعذاب؛ قيل لهم من باب التقريع: أهذا سحرٌ لا حقيقة له؛ فقد رأيتموه؟! أم أنتم في الدُّنيا لا تبصرون؛ أي: لا بصيرة لكم ولا علم عندَكم، بل كنتُم جاهلين بهذا الأمر، لم تقمْ عليكم الحجَّة؟! والجواب انتفاء الأمرين: أمَّا كونُه سحراً؛ فقد ظهر لهم أنَّه أحقُّ الحقِّ وأصدق الصدق المنافي للسحر من جميع الوجوه. وأمَّا كونُهم لا يبصرون؛ فإنَّ الأمر بخلاف ذلك، بل حجَّة الله قد قامت عليهم، ودعتهُمُ الرُّسل إلى الإيمان بذلك، وأقامت من الأدلَّة والبراهين على ذلك ما يجعله من أعظم الأمور المبرهَنَة الواضحة الجليَّة. ويُحتمل أنَّ الإشارة بقولِهِ: {أفسحرٌ هذا أم أنتُم لا تبصرونَ}: إلى ما جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - من الحقِّ المبين والصراط المستقيم؛ أي: أفيتصوَّر مَن له عقلٌ أن يقولَ عنه: إنَّه سحرٌ، وهو أعظم الحقِّ وأجلُّه، ولكن لعدم بصيرتهم قالوا فيه ما قالوا.
[15] ﴿ اَفَسِحْرٌ هٰؔذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ ’’کیا پھر یہ جادو ہے؟ یا تم دیکھتے ہی نہیں۔‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ اشارہ جہنم اور عذاب کی طرف ہو جیسا کہ آیات کا سیاق دلالت کرتا ہے، یعنی جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو جھڑکنے کے انداز میں ان سے پوچھا جائے گا: کیا یہ جادو ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور تم نے اسے دیکھ لیا ہے یا تم دنیا کے اندر دیکھ نہیں سکتے تھے ، یعنی تمھارے اندر کوئی بصیرت تھی نہ تم علم رکھتے تھے، بلکہ تم اس معاملے میں بالکل جاہل تھے اور تم پر حجت قائم نہ ہوئی تھی؟‘‘ اور جواب دونوں امور کی نفی ہے۔ رہا اس کا جادو ہونا تو تم پر یہ حقیقت پوری طرح واضح تھی کہ یہ سب سے بڑا حق اور سب سے بڑی سچائی ہے جو ہر لحاظ سے جادو کے منافی ہے۔ رہا ان کا (دنیا کے اندر) بصیرت سے محروم ہونا تو معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی، انبیاء و مرسلین نے ان کو ایمان کی طرف دعوت دی، ان پر دلائل و براہین قائم کیے جنھوں نے اسے سب سے بڑی، سب سے واضح جلیل القدر اور ثابت شدہ حقیقت بنا دیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ اَفَسِحْرٌهٰؔذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ میں اشارہ اس حق مبین اور صراط مستقیم کی طرف ہو جسے لے کر محمد مصطفیe مبعوث ہوئے ہیں، کیا کوئی ایسا شخص جو عقل سے بہرہ مند ہے، اس کے بارے میں یہ کہنے کا تصور کر سکتا ہے کہ یہ جادو ہے، حالانکہ یہ عظیم ترین اور جلیل ترین حق ہے؟ مگر وہ بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
#
{16} {اصْلَوْها}؛ أي: ادخلوا النار على وجهٍ تحيطُ بكم وتشملُ أبدانكم وتطَّلع على أفئدتكم، {فاصْبِروا أو لا تصبروا سواءٌ عليكم}؛ أي: لا يفيدكم الصبر على النار شيئاً، ولا يتأسَّى بعضُكم ببعض، ولا يخفَّف عنكم العذاب، وليست من الأمور التي إذا صبر العبدُ عليها هانت مشقَّتها وزالت شدَّتها، وإنَّما فُعِلَ بهم ذلك بسبب أعمالهم الخبيثة وكسبهم، ولهذا قال: {إنَّما تُجْزَوْن ما كنتم تعملونَ}.
[16] ﴿ اِصْلَوْهَا﴾ یعنی اس جہنم میں اس طرح داخل ہو جاؤ کہ یہ تمھیں گھیر لے، تمھارے بدنوں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لے اور تمھارے دلوں تک جا پہنچے۔ ﴿ فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا١ۚ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ﴾ ’’پس تم صبر کرو یا نہ کرو تمھارے لیے یکساں ہے۔‘‘ یعنی جہنم کے اندر صبر تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا، تم ایک دوسرے کو تسلی دے سکو گے نہ تمھارے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ یہ عذاب ان امور میں سے نہیں، جن پر بندہ صبر کرتا ہے تو ان کی مشقت کم اور ان کی شدت زائل ہو جاتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ سب کچھ ان کے گندے اعمال اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’تمھیں اسی چیز کا بدلہ دیا جاتا ہے جو تم کرتے رہے۔‘‘
آیت: 17 - 20 #
{إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ (17) فَاكِهِينَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (18) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (19) مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (20)}.
بلاشبہ متقی لوگ باغات اور نعمتوں میں ہوں گے (17) لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ان چیزوں سے جو دے گا ان کو ان کا رب اور بچا لیا انھیں ان کے رب نے عذاب جہنم سے (18)کھاؤ اور پیو خوب مزے سے بدلے اس کے جو تھے تم عمل کرتے(19) تکیہ لگائے ہوں گے ایسے تختوں پر جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں گے اور ہم نکاح کر دیں گے ان کا بڑی آنکھوں والی حوروں سے (20)
#
{17} لمَّا ذكر تعالى عقوبة المكذِّبين؛ ذكر نعيم المتَّقين؛ ليجمع بين الترغيب والترهيب، فتكون القلوبُ بين الخوف والرجاء، فقال: {إنَّ المتَّقين}: لربِّهم، الذين اتَّقوا سخطه وعذابه بفعل أسبابه من امتثال الأوامر واجتناب النواهي، {في جنَّاتٍ}؛ أي: بساتين، قد اكتست رياضها من الأشجار الملتفَّة والأنهار المتدفِّقة والقصور المُحْدِقة والمنازل المُزَخْرَفة، {ونعِيمٍ}: وهذا شاملٌ لنعيم القلب والروح والبدن.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد، اہل تقویٰ کی نعمتوں کا ذکر فرمایا تاکہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا کر دے اور دل خوف و رجا کے درمیان رہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ جنھوں نے اپنے رب کے لیے تقویٰ کو اپنا شعار بنایا جو اس کے اوامر کے تعمیل اور اس کی نواہی سے کنارہ کشی کر کے اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچتے رہے۔ ﴿ فِیْ جَنّٰتٍ ﴾ وہ باغات میں ہوں گے ، ان باغات کی روشوں کو گھنے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہو گا، ان میں اچھلتی کودتی ندیاں ہوں گی، چار دیواری سے گھرے ہوئے محل اور آراستہ کیے ہوئے گھر ہوں گے ﴿ وَّنَعِیْمٍ﴾ ’’اور نعمتوں میں ہوں گے‘‘ یہ قلب کی نعمت اور روح و بدن کی نعمت کو شامل ہے۔
#
{18} {فاكهين بما آتاهم ربُّهم}؛ أي: معجبين به، متمتِّعين على وجه الفرح والسرور بما أعطاهم الله من النعيم الذي لا يمكن وصفُه، و {لا تعلمُ نفسٌ ما أُخْفِيَ لهم من قرَّةِ أعينٍ}، {ووقاهم ربُّهم عذابَ الجحيم}: فرزقهم المحبوب، ونجَّاهم من المرهوب، لمَّا فعلوا ما أحبَّه [اللَّهُ] وجانبوا ما يسخطه.
[18] ﴿ فٰ٘ــكِهِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ﴾ یعنی ان کا رب ان کو جس نعمت سے نوازے گااس سے خوش ہوتے ہوئے، نہایت فرحت و سرور کے ساتھ اس سے متمتع ہوتے ہوئے اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ ایسی نعمت جس کا وصف ممکن نہیں اور نہ کوئی نفس یہ جانتا ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے۔ پس ان کو ان کی پسندیدہ چیزیں عطا کرے گا اور ناپسندیدہ چیزوں سے بچائے گا کیونکہ انھوں نے وہ کام کیے جو ان کے رب کو پسند تھے اور ان کاموں سے اجتناب کیا جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔
#
{19} {كلوا واشربوا}؛ أي: مما تشتهيه أنفسكم من أصناف المآكل والمشارب اللذيذة {هنيئاً}؛ أي: متهنِّئين بذلك على وجه البهجة والفرح والسرور والحبور، {بما كنتُم تعملون}؛ أي: نلتم ما نلتم بسبب أعمالكم الحسنة وأقوالكم المستحسنة.
[19] ﴿ كُلُوْا وَاشْ٘رَبُوْا﴾ یعنی ہر قسم کے لذیذ کھانے اور مشروبات جو تمھارا دل چاہتا ہے کھاؤ پیو ﴿هَنِيْٓـًٔۢا﴾ یعنی مزے سے، بہجت و سرور اور فرحت و مسرت کے ساتھ ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی تمھیں جو کچھ حاصل ہوا ہے ، تمھارے نیک اعمال اور اچھے اقوال کے باعث حاصل ہوا ہے۔
#
{20} {متَّكِئينَ على سررٍ مصفوفةٍ}: الاتِّكاء هو الجلوس على وجه التمكُّن والراحة والاستقرار، والسرر هي الأرائك المزيَّنة بأنواع الزينة من اللباس الفاخر والفرش الزاهية. ووصف الله السُّرر بأنها مصفوفةٌ؛ ليدلَّ ذلك على كثرتها وحسن تنظيمها واجتماع أهلها وسرورهم بحسن معاشرتهم وملاطفة بعضهم بعضاً. فلمَّا اجتمع لهم من نعيم القلب والرُّوح والبدن ما لا يخطُرُ بالبال ولا يدور في الخيال من المآكل والمشارب اللذيذة والمجالس الحسنة الأنيقة؛ لم يبق إلاَّ التمتُّع بالنساء اللاتي لا يتمُّ سرورٌ إلاَّ بهنَّ، فذكر تعالى أنَّ لهم من الأزواج أكمل النساء أوصافاً وخلقاً وأخلاقاً، ولهذا قال: {وزوَّجْناهم بحورٍ عينٍ}: وهنَّ النساء اللواتي قد جَمَعْنَ جمال الصورة الظاهرة وبهاءها ومن الأخلاق الفاضلة ما يوجب أن يحيِّرْنَ بحسنهنَّ الناظرين، ويسلبنَ عقول العالمين، وتكاد الأفئدة أن تطير شوقاً إليهن ورغبةً في وصالهنَّ، والعِيْن: حسان الأعين مليحاتها، التي صفا بياضها وسوادها.
[20] ﴿ مُتَّـكِـــِٕیْنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍ﴾ ’’وہ برابر بچھے ہوئے (شاندار) تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ الاتکاء سے مراد ہے راحت اور قرار کے ساتھ جم کر بیٹھنا۔ اَلسُّرُرُ سے مراد وہ تخت ہیں جو قیمتی پارچات اور خوبصورت بچھونوں سے آراستہ کیے گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا تختوں کا وصف بیان کرنا، کہ وہ صف در صف بچھائے گئے ہوں گے، ان کی کثرت، حسن تنظیم، اہل جنت کے اجتماع، ان کی مسرت، ان کے حسن معاشرت اور باہم ملاطفت پر دلالت کرتا ہے۔ جب ان کے لیے قلب اور بدن و روح کی ایسی ایسی نعمتیں یکجا ہو جائیں گی یعنی لذیذماکولات، مشروبات اور حسین اور دلکش مجالس، جن کا گزر کبھی تصور و خیال میں بھی نہ ہوا ہو گا تو عورتوں کے ساتھ تمتع کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا، جن کے بغیر مسرت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ان کے لیے ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے اوصاف، تخلیق اور اخلاق کے اعتبار سے کامل ترین عورتیں ہوں گی ۔اس لیے فرمایا: ﴿وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ﴾ ’’اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کا عقد کریں گے۔‘‘ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں، جن میں ظاہری حسن و جمال اور اخلاق فاضلہ جمع ہیں، جو اپنے حسن و جمال سے دیکھنے والوں کو متحیر کر دیتی ہیں اور لوگوں کی عقل سلب کر لیتی ہیں اور دل و صال کی چاہت میں ان کی طرف اڑ کر جاتے ہیں۔ اَلْعَیْنُ سے مراد ملیح اور خوبصورت آنکھوں والی عورتیں جن کی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی نہایت صاف اور واضح ہو۔
آیت: 21 - 28 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ (21) وَأَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (22) يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ (23) وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (24) وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (27) إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ (28)}.
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پیروی کی ان کی ان کی اولاد نے ساتھ ایمان کے تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو(جنت میں)، اور نہیں کم کریں گے ہم ان کے لیے ان کے عمل سے کچھ بھی ہر شخص ساتھ اس کے جو اس نے کمایا گروی ہے (21) اور ہم خوب دیں گے ان کو لذیذ میوے اور گوشت اس سے جو وہ چاہیں گے (22) ایک دوسرے سے جھپٹیں گے ایسا جام شراب کہ نہ لغو(بکواس)ہو گی اس میں اور نہ کوئی گنا ہ (23) اور پھر رہے ہوں گے ان پر نو عمر لڑکے ان (کی خدمت) کے لیے گویا کہ وہ موتی ہیں پردے میں چھپائے ہوئے (24) اور متوجہ ہوں گے بعض ان کے بعض پر، ایک دوسرے سے(حال) پوچھتے ہوئے (25) وہ کہیں گے، بلاشبہ تھے ہم پہلے (اس سے) اپنے اہل (و عیال) میں ڈرنے والے (26) پس احسان کیا اللہ نے ہم پر اور اس نے بچایا ہمیں لو (گرم ہوا) کے عذاب سے (27) بلاشبہ تھے ہم پہلے ہی اس(اللہ) کو پکارتے بے شک وہی ہے خوب احسان کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا (28)
#
{21} وهذا من تمام نعيم [أهلِ] الجنَّة: أنْ ألحَقَ الله بهم ذُرِّيَّتهم الذين اتَّبعوهم بإيمان؛ أي: لحقوهم بالإيمان الصادر من آبائهم، فصارت الذُّرِّية تبعاً لهم بالإيمان، ومن باب أولى؛ إذا تبعتهم ذُرِّيَّتهم بإيمانهم الصادر من أنفسهم؛ فهولاء المذكورون يُلْحِقُهُمُ اللهُ بمنازل آبائهم في الجنة، وإن لم يبلغوها؛ جزاءً لآبائهم، وزيادةً في ثوابهم، ومع ذلك؛ لا يَنْقُصُ اللهُ الآباء من أعمالهم شيئاً. ولمَّا كان ربَّما توهَّم متوهِّم أن أهل النار كذلك يُلْحِقُ اللهُ بهم ذرِّيَّتهم ؛ أخبر أنه ليس حكم الدارين حكماً واحداً؛ فإنَّ النار دار العدل، ومن عدله تعالى أن لا يعذِّب أحداً إلاَّ بذنبٍ، ولهذا قال: {كلُّ امرئٍ بما كَسَبَ رهينٌ}؛ أي: مرتهنٌ بعمله؛ فلا تزر وازرةٌ وزرَ أخرى، ولا يُحْمَلُ على أحدٍ ذنبُ أحدٍ، فهذا اعتراضٌ من فوائده إزالة هذا الوهم المذكور.
[21] یہ اہل جنت کی نعمتوں کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ، اہل جنت کے ساتھ ان کی اس اولاد کو بھی لے جائے گا، جنھوں نے ایمان لانے میں ان کی پیروی کی۔ یعنی وہ اس ایمان کی بنا پر ان کے ساتھ جا ملیں گے جو ان کے آباء و اجداد سے صادر ہوا اور اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی اتباع کی۔ اگر اولاد نے اپنے ایمان کے ساتھ جو خود ان سے صادر ہوا، اپنے آباء و اجداد کی اتباع کی تو ان کے اپنے آباء کے ساتھ لاحق ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ بالا لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے آباء و اجداد کے ساتھ ان کے مقامات میں ملائے گا، اگرچہ وہ ان مقامات پر نہ جا سکیں گے، یہ الحاق ان کے آباء و اجداد کے لیے جزا اور ان کے ثواب میں اضافہ کے طور پر ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ آباء اجداد کے اعمال میں کوئی کمی واقع نہیں کرے گا۔ چونکہ کسی کو یہ توہم لاحق ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جہنم کے ساتھ بھی یہی کرے گا، ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جنت اور جہنم کے احکام ایک جیسے نہیں ہیں۔ جہنم دار عدل ہے اور اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ وہ کسی کو گناہ کے بغیر سزا نہیں دیتا، اس لیے فرمایا : ﴿ كُ٘لُّ امْرِئٍۭؔ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ﴾ یعنی ہر شخص اپنے عمل ہی کا گروی ہے۔ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گی نہ کسی پر کسی دوسرے کا گناہ ڈالا جائے گا۔
#
{22} وقوله: {وأمددْناهم}؛ أي: أمددنا أهل الجنة من فضلنا الواسع ورزقنا العميم، {بفاكهةٍ}: من العنب والرُّمان والتُّفاح وأصناف الفواكه اللذيذة الزائدة على ما به يتقوَّتون، {ولحمٍ ممَّا يشتهونَ}: من كلِّ ما طلبوه واشتهته أنفسُهم من لحوم الطير وغيرها.
[22] ﴿وَاَمْدَدْنٰهُمْ ﴾ یعنی ہم اپنے بے پایاں فضل وکرم سے اہل جنت کو اور زیادہ نعمتیں عطا کریں گے اور رزق عام میں سے بہرہ مند کریں گے۔ ﴿بِفَاكِهَةٍ﴾ یعنی انگور، انار، سیب اور نہایت لذیذ میووں کی مختلف اصناف سے نوازیں گے جو اس پر مستزاد ہوں گے جسے عام خوراک کے طور پر استعمال کریں گے ﴿ وَّلَحْمٍ مِّؔمَّا یَشْتَهُوْنَ ﴾ اور پرندوں وغیرہ کے ہر قسم کے گوشت جو وہ طلب کریں گے اور جو ان کا دل چاہے گا۔
#
{23} {يتنازَعون فيها كأساً}؛ أي: تدور كاسات الرحيق والخمر عليهم، ويتعاطَونها فيما بينهم، وتطوف عليهم الولدانُ المخلَّدون بأكواب وأباريق. {لا لغوٌ فيها ولا تأثيمٌ}؛ أي: ليس في الجنَّة كلامُ لغوٍ، وهو الذي لا فائدة فيه، ولا تأثيمٍ، وهو الذي فيه إثمٌ ومعصيةٌ. وإذا انتفى الأمران؛ ثبت الأمر الثالث، وهو أن كلامهم فيها سلامٌ طيبٌ طاهرٌ مسرٌّ للنفوس مفرحٌ للقلوب، يتعاشرون أحسن عشرة، ويتنادمون أطيب المنادمة، ولا يسمعون من ربِّهم إلاَّ ما يُقِرُّ أعينَهم ويدلُّ على رضاه عنهم ومحبَّته لهم.
[23] ﴿ یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا ﴾ رحیق اور شراب کے جاموں کا دور چلے گا وہ آپس میں ایک دوسرے سے جام لے رہے ہوں گے اور ہمیشہ رہنے والے لڑکے پیالے اور صراحیاں لیے ان کے درمیان (خدمت کے لیے) گھوم رہے ہوں گے۔ ﴿ لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَلَا تَاْثِیْمٌ ﴾ یعنی جنت میں کوئی لغو بات نہ ہو گی، وہ بات جس میں کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس میں کوئی گناہ کی بات ہو گی ۔ اور اس سے مراد وہ بات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کا کوئی پہلو ہو۔جب کلام لغو اور کلام معصیت دونوں کی نفی ہو گئی تو اس سے تیسری چیز کا اثبات ہو گیا ، یعنی ان کا کلام (لغو امور سے) سلامت، اور طیب و طاہر ہو گا جو نفوس کو مسرت اور دلوں کو فرحت بخشے گا، وہ بہترین طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کی دوستی پاکیزہ ترین دوستی ہو گی، انھیں اپنے رب کی طرف سے صرف وہی باتیں سننے کو ملیں گی، جو ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں گی اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے ان پر راضی ہونے اور ان سے محبت پر دلالت کرتی ہے۔
#
{24} {ويطوف عليهم غلمانٌ لهم}؛ أي: خدمٌ شبابٌ، {كأنَّهم لؤلؤٌ [مكنون] } من حسنهم وبهائهم، يدورون عليهم بالخدمة وقضاء أشغالهم ، وهذا يدلُّ على كثرة نعيمهم وسعته وكمال راحتهم.
[24] ﴿ وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ ﴾ یعنی نوجوان خدام ان کے آس پاس پھریں گے۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ اپنے حسن اور خو ب صورتی کی بنا پر گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہیں، ان کی خدمت اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس آ جا رہے ہوں گے۔ یہ چیز ان کے لیے بے پایاں نعمتوں اور ان کے لیے کامل راحت پر دلالت کرتی ہے۔
#
{25} {وأقبلَ بعضُهم على بعض يتساءلونَ}: عن أمور الدُّنيا وأحوالها.
[25] ﴿ وَاَ٘قْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔‘‘ یعنی دنیا کے معاملات اور اس کے احوال کے بارے میں۔
#
{26} {قالوا}: في ذكر بيان الذي أوصَلَهم إلى ما هم فيه من الحبرة والسرور: {إنَّا كنَّا قبلُ}؛ أي: في دار الدُّنيا {في أهلِنا مشفقينَ}؛ أي: خائفين وجِلين، فتركْنَا من خوفه الذُّنوب، وأصلحنا لذلك العيوب.
[26] ﴿ قَالُوْۤا ﴾ یعنی وہ اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے جس نے انھیں خوشی اور مسرت کے احوال تک پہنچایا ہے، کہیں گے: ﴿ اِنَّا كُنَّا قَبْلُ﴾ ’’بلاشبہ اس سے پہلے ہم۔‘‘ یعنی دنیا کے گھر میں ﴿ فِیْۤ اَهْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ﴾ ’’اپنے اہل و عیال میں (اللہ سے) ڈرا کرتےتھے۔‘‘ یعنی ہم نے اس کے خوف کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دیا اور اس بنا پر عیوب کو درست کر لیا۔
#
{27} {فمنَّ اللهُ علينا}: بالهداية والتوفيق، {ووَقانا عذابَ السَّموم}؛ أي: العذاب الحار الشديد حرُّه.
[27] ﴿ فَ٘مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا ﴾ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت اور توفیق سے سرفراز فرمایا اور ہم پر احسان فرمایا۔ ﴿ وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ ﴾ اور گرم عذاب سے جس کی حرارت بہت سخت ہو گی، ہمیں بچایا۔
#
{28} {إنَّا كنَّا من قبلُ ندعوه}: أن يَقِيَنا عذابَ السَّموم، ويوصِلَنا إلى النعيم، وهذا شاملٌ لدعاء العبادة ودعاء المسألة؛ أي: لم نزل نتقرَّب إليه بأنواع العبادات ، وندعوه في سائر الأوقات. {إنَّه هو البرُّ الرحيم}: فمن برِّه [بنا] ورحمته إيَّانا أنالَنا رضاه والجنة، ووقانا سخطه والنار.
[28] ﴿ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ ﴾ ’’بے شک اس سے پہلے ہم اس سے دعائیں کیا کرتے تھے۔‘‘ کہ وہ ہمیں عذاب سموم سے بچائے اور نعمتوں بھری جنت میں پہنچائے ۔یہ جملہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں کو شامل ہے۔ یعنی ہم مختلف عبادات کے ذریعے سے اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور تمام اوقات میں اس کو پکارتے ہیں۔ ﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْـبَرُّ الرَّحِیْمُ﴾ پس ہم پر اس کا احسان اور رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اپنی رضا اور جنت سے بہرہ ور کیا اور اپنی ناراضی اور جہنم کے عذاب سے بچایا۔
آیت: 29 - 43 #
{فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ (29) أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ (30) قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ (31) أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُمْ بِهَذَا أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (32) أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَلْ لَا يُؤْمِنُونَ (33) فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (34) أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ (36) أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ (37) أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (38) أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ (39) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ (40) أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ (41) أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (42) أَمْ لَهُمْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (43)}.
سو آپ نصیحت کریں، پس نہیں ہیں آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور نہ دیوانے(29) کیا وہ (کافر) کہتے ہیں کہ (وہ پیغمبر)شاعر ہے، ہم انتظار کرتے ہیں اس کی بابت حوادث زمانہ (موت) کا (30) آپ کہہ دیجیے! تم انتظار کرو، پس بلاشبہ میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں (31)کیا حکم دیتی ہیں ان کو ان کی عقلیں اسی (بات) کا یا وہ لوگ ہی سرکش ہیں؟ (32) کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود ہی گھڑا ہے اس (قرآن) کو؟بلکہ نہیں وہ ایمان لاتے (33) پس چاہیے کہ وہ لے آئیں ایک بات مثل اس (قرآن) کے، اگر ہیں وہ سچے (34) کیا پیدا کیے گئے ہیں وہ بغیر کسی چیز (خالق) کے یا وہی ہیں (خود) پیدا کرنے والے؟ (35) کیا انھوں نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو؟بلکہ نہیں وہ یقین رکھتے (36) کیا ان کے پاس خزانے ہیں آپ کے رب کے؟ یا وہ (ان کے) داروغے ہیں؟ (37) کیا ان کے لیے کوئی سیڑھی ہے کہ وہ سن لیتے ہیں اس پر (چڑھ کر)؟ پس چاہیے کہ لے آئے ان کا سننے والا کوئی دلیل واضح (38) کیا اس (اللہ) کے لیے بیٹیاں ہیں اور تمھارے لیے بیٹے؟(39) کیا آپ مانگتے ہیں ان سے کوئی معاوضہ، پس وہ (اس کے) تاوان سے بوجھل ہیں؟ (40) یا ان کے پاس (علم) غیب ہے پس وہ لکھتے ہیں؟ (41) کیا وہ ارادہ کرتے ہیں کسی فریب کا؟ پس وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہی ہیں فریب خوردہ (42) کیا ان کے لیے کوئی اور معبود ہے سوائے اللہ کے؟ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں (43)
#
{29} يأمر الله تعالى رسوله - صلى الله عليه وسلم - أن يُذَكِّرَ الناس مسلمهم وكافرهم؛ لتقوم حجَّة الله على الظَّالمين، ويهتدي بتذكيره الموفَّقون، وأن لا يبالي بقول المشركين المكذِّبين وأذيَّتهم وأقوالهم التي يَصدُّون بها الناس عن اتِّباعه، مع علمهم أنَّه أبعدُ الناس عنها، ولهذا نفى عنه كلَّ نقص رَمَوْه به، فقال: {فما أنتَ بنعمةِ ربِّكَ}؛ أي: منَّه ولطفه {بكاهنٍ}؛ أي: له رِئْيٌ من الجنِّ يأتيه بخبر بعض الغيوب التي يضمُّ إليها مئة كذبةٍ، {ولا مجنونٍ}: فاقد العقل ، بل أنت أكملُ الناس عقلاً، وأبعدهم عن الشياطين، وأعظمهم صدقاً، وأجلُّهم، وأكملهم.
[29] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول e کو حکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو، مسلمانوں اور کفار کو نصیحت کریں، تاکہ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جائے، اور توفیق یافتہ لوگ آپ کی تذکیر کے ذریعے سے راہ راست پا لیں۔ نیز یہ کہ آپ مشرکین اہل تکذیب کی باتوں اور ان کی ایذا رسانی کو خاطر میں نہ لائیں اور ان کی ان باتوں کی پروا نہ کریں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو آپ کی اتباع سے روکتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ ان باتوں سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور ہیں، بنابریں اللہ تعالیٰ نے ہر اس نقص کی نفی کر دی جسے وہ آپ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ﴾ یعنی نہیں ہیں آپ اپنے رب کے لطف و کرم سے ﴿ بِكَاهِنٍ﴾ ’’کاہن‘‘ جس کے پاس جنوں کا سردار آتا ہے اور اس کے پاس غیب کی خبر لاتا ہے اور وہ اس میں سو جھوٹ خود اپنی طرف سے شامل کر دیتا ہے۔ ﴿ وَّلَا مَجْنُوْنٍ﴾ اور نہ آپ فاترالعقل ہیں، بلکہ آپ عقل میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل، شیاطین سے سب سے زیادہ دور، صداقت میں سب سے بڑے، تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور سب سے زیادہ کامل ہیں۔
#
{30} وتارةً {يقولون} فيه: إنَّه {شاعرٌ}: يقول الشعر، والذي جاء به شعرٌ، والله يقول: {وما علَّمناه الشعرَ وما ينبغي له}، {نتربَّصُ به ريبَ المَنونِ}؛ أي: ننتظر به الموتَ، فيبطُلُ أمرُه ونستريح منه.
[30] اور کبھی کبھی ﴿ یَقُوْلُوْنَ﴾ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ﴿ شَاعِرٌ﴾ ’’شاعر ہے۔‘‘ شعر کہتا ہے اور اس کے پاس جو چیز آتی ہے وہ شاعری ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّ٘عْرَ وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ﴾ (یٰسین:36؍69) ’’ہم نے اسے شاعری سکھائی ہے نہ شاعری اس کے لائق ہے۔‘‘ ﴿نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ﴾ یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں، پس اس کا معاملہ ختم ہو جائے گا اور ہم اس سے نجات حاصل کر کے راحت پا لیں گے۔
#
{31} {قل}: لهم جواباً لهذا الكلام السخيف: {تربَّصوا}؛ أي: انتظروا بي الموت، {فإنِّي معكم من المتربِّصين}: نتربَّص بكم أن يصيبكم الله بعذابٍ من عنده، أو بأيدينا.
[31] ﴿قُ٘لْ﴾ آپ اس حماقت آمیز بات کے جواب میں ان سے کہہ دیجیے ﴿ تَرَبَّصُوْا﴾ یعنی تم میرے مرنے کا انتظار کرو ﴿ فَاِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ﴾ ’’پس میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘ ہم تمھارے بارے میں اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں تمھیں عذاب میں مبتلا کرے۔
#
{32} {أم تأمُرُهم أحلامُهم بهذا أم هم قومٌ طاغونَ}؛ أي: أهذا التكذيبُ لك والأقوال التي قالوها؛ هل صدرتْ عن عقولِهم وأحلامِهم؛ فبئس العقولُ والأحلامُ التي هذه نتائجها وهذه ثمراتها ؛ فإنَّ عقولاً جعلتْ أكملَ الخلق عقلاً مجنوناً، وجعلت أصدقَ الصِّدق وأحقَّ الحقِّ كذِباً وباطلاً؛ لهي العقول التي ينزَّه المجانين عنها؟ أم الذي حملهم على ذلك ظلمُهم وطغيانُهم؟ وهو الواقع؛ فالطغيانُ ليس له حدٌّ يقف عليه؛ فلا يُستغرب من الطاغي المتجاوزِ الحدَّ ، كلُّ قول وفعل صَدَرَ منه.
[32] ﴿ اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰؔذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ﴾ یعنی کیا ان کا آپ کو یہ جھٹلانا اور ان کی یہ باتیں جو وہ (آپ کے بارے میں) کرتے ہیں، ان کی عقل و خردسے صادر ہوئی ہیں؟ کتنی بری ہے ان کی عقل و خرد جس کے یہ نتائج اور یہ ثمرات ہیں کیونکہ ان عقلوں ہی نے تو مخلوق میں سے زیادہ کامل العقل کو مجنون اور سب سے بڑی صداقت اور سب سے بڑے حق کو کذب اور باطل قرار دیا، ایسی (فاسد) عقلوں سے تو مجانین بھی منزہ ہیں۔ یا اس پر جس چیز نے ان کو آمادہ کیا ہے وہ ان کا ظلم اور سرکشی ہے؟ اور فی الواقع ظلم اور سرکشی ہی اس کا سبب ہے۔ پس سرکشی ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں، جہاں آ کر رک جائے۔ ایک سرکش اور حدود سے تجاوز کرنے والے شخص سے کسی بھی قول و فعل کا صدور ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔
#
{33} {أم يقولون تَقَوَّلَه}؛ أي: تقوَّل محمدٌ القرآن وقاله من تلقاء نفسه، {بل لا يؤمنونَ}؛ فلو آمنوا؛ لم يقولوا ما قالوا.
[33] ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّ٘لَهٗ﴾ کیا وہ کہتے ہیں کہ محمد (e) نے خود ہی یہ (قرآن )گھڑ لیا ہے اور اسے خود اپنی طرف سے کہا ہے؟ ﴿ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’بلکہ وہ ایمان نہیں رکھتے ۔‘‘ پس اگر وہ ایمان لائے ہوتے تو وہ اس طرح کی باتیں نہ کہتے جو انھوں نے کہی ہیں۔
#
{34} {فَلْيَأتوا بحديثٍ مثلِهِ إنْ كانوا صادقينَ}: إنَّه تقوَّله؛ فإنَّكم العرب الفصحاء والفحول البلغاء، وقد تحدَّاكم أن تأتوا بمثلِهِ؛ فتصدق معارضتكم، أو تقرُّوا بصدقه، وإنكم لو اجتمعتم أنتم والإنس والجنُّ؛ لم تقدروا على معارضته والإتيان بمثله؛ فحينئذٍ أنتم بين أمرين: إمَّا مؤمنون به مقتدون بهديِهِ، وإمَّا معاندون متَّبعون لما علمتُم من الباطل.
[34] ﴿ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّؔثْلِهٖ٘ۤ اِنْ كَانُوْا صٰؔدِقِیْنَ﴾ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اسے محمد (e) نے تصنیف کیا ہے، تو تم نہایت فصیح عرب اور بڑے بلیغ لوگ ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں مقابلے کی دعوت بھی دی ہوئی ہے کہ تم اس جیسا کلام بنا لاؤ تاکہ تمھاری مخالفت کی صداقت ثابت ہو، ورنہ تم قرآن کی صداقت کو تسلیم کر لو۔ اور اگر تم تمام انسان اور جنات اکٹھے ہو جاؤ تب بھی تم اس کا معارضہ کر سکتے ہو نہ اس جیسا کلام بنا کر لا سکتے ہو۔ تب اس وقت تمھارا معاملہ دو امور میں سے ایک ہے۔ یا تو اس کو تسلیم کرتے ہو اور اس کی ہدایت کی پیروی کرتے ہو یا تم عناد رکھتے ہوئے باطل کی اتباع کرتے ہو۔
#
{35} {أم خُلِقوا من غير شيءٍ أم هُمُ الخالقونَ}: وهذا استدلالٌ عليهم بأمرٍ لا يمكنهم فيه إلاَّ التسليمُ للحقِّ، أو الخروج عن موجب العقل والدين. وبيان ذلك أنهم منكرون لتوحيد الله، مكذِّبون لرسوله، وذلك مستلزمٌ لإنكار أنَّ الله خَلَقَهم، وقد تقرَّر في العقل مع الشرع أنَّ ذلك لا يخلو من أحد ثلاثة أمورٍ: إمَّا أنهم {خُلِقوا من غير شيءٍ}؛ أي: لا خالق خلقهم؛ بل وجدوا من غير إيجادٍ ولا موجدٍ؛ وهذا عينُ المحال. {أم هم الخالقونَ}: لأنفسِهم؛ وهذا أيضاً محالٌ؛ فإنَّه لا يتصوَّر أن يوجِدَ أحدٌ نفسَه. فإذا بطل هذان الأمران وبان استحالتُهما؛ تعيَّن القسم الثالثُ، وهو أنَّ الله هو الذي خلقهم. وإذا تعين ذلك؛ عُلِمَ أنَّ الله تعالى هو المعبودُ وحدَه، الذي لا تنبغي العبادة ولا تَصْلُح إلاَّ له تعالى.
[35] ﴿ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ﴾ ’’کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے آپ کو ) پیدا کرنے والے ہیں‘‘ یہ ان کے سامنے ایک ایسی چیز کے ذریعے سے استدلال ہے جس میں حق کو تسلیم کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ نہیں یا ان کا عقل و دین کی موجبات سے نکلنا ثابت ہو جائے گا ۔۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء و رسل کو جھٹلاتے ہیں اور یہ اس حقیقت کے انکار کو مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ شریعت کے ساتھ ساتھ عقل میں بھی یہ چیز متحقق ہے کہ ان کی تخلیق تین امور میں سے کسی ایک سے خالی نہیں۔ (۱) ان کو کسی چیز کے بغیر پیدا کیا گیا ہے ، یعنی ان کا کوئی خالق نہیں جس نے ان کو تخلیق کیا ہو۔ بلکہ وہ کسی ایجاد اور موجد کے بغیر وجود میں آئے ہیں اور یہ عین محال ہے۔ (۲) انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے اور یہ بھی محال ہے کیونکہ اس بات کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی اپنے آپ کو بذات خود وجود بخشے۔ (۳) جب مذکورہ بالا دونوں امور باطل ہو گئے اور ان کا محال ہونا ثابت ہو گیا تو تیسری بات متعین ہو گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کو تخلیق کیا۔ جب یہ بات متعین ہو گئی تو معلوم ہوا کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے جس کے سوا اور ہستی کی عبادت مناسب ہے نہ درست۔
#
{36} وقوله: {أم خَلَقوا السمواتِ والأرضَ}: وهذا استفهامٌ يدلُّ على تقرير النفي؛ أي: ما خلقوا السماواتِ والأرضَ، فيكونوا شركاء لله، وهذا أمرٌ واضحٌ جدًّا. {بل} المكذبونَ {لا يوقنونَ}؛ أي: ليس عندهم [علم تامٌّ و] يقينٌ يوجب لهم الانتفاع بالأدلَّة الشرعيَّة والعقليَّة.
[36] ﴿ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’یا انھوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟‘‘ یہ ایسا استفہام ہے جو نفی کے اثبات پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی انھوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا نہیں کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک بن جائیں، یہ حقیقت بالکل واضح ہے لیکن تکذیب کرنے والے﴿ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ﴾ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یعنی یہ جھٹلانے والے علمِ کامل سے محروم ہیں جو ان کے لیے دلائل شرعی و عقلی سے استفادے کا موجب ہوتا۔
#
{37} {أمْ عندَهم خزائنُ ربِّك أم هم المُصَيْطِرونَ}؛ أي: أعند هؤلاء المكذِّبين خزائنُ رحمة ربِّك، فيعطوا من يشاؤون ويمنعوا من يشاؤون ؛ أي: فلذلك حجروا على الله أن يُعطي النبوَّة عبدَه ورسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم -، وكأنَّهم الوكلاء المفوَّضون على خزائن رحمة الله، وهم أحقرُ وأذلُّ من ذلك؛ فليس في أيديهم لأنفسهم نفعٌ ولا ضرٌّ ولا موتٌ ولا حياةٌ ولا نشورٌ؛ {أهم يقسِمونَ رحمةَ ربِّك نحنُ قَسَمْنا بينهم معيشَتَهم في الحياة الدُّنيا}؟ {أم هم المُصَيْطِرُونَ}؛ أي: المتسلِّطون على خلق الله وملكه بالقهر والغلبة؟! ليس الأمر كذلك، بل هم العاجزون الفقراء.
[37] ﴿ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْ٘مُصَۜیْطِرُوْنَ﴾ یعنی کیا ان جھٹلانے والوں کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں کہ جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم کر دیں؟ اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کو، اپنے بندے اور رسول، محمد e کو نبوت سے سرفراز کرنے سے روک دیا ہے۔ اور گویا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے ان کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ اس سے حقیر اور ذلیل تر ہیں کہ یہ کام ان کے سپرد کیا جائے۔ ان کے ہاتھ میں تو خود اپنی ذات کے لیے نفع و نقصان، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد زندہ ہونا نہیں ہے۔ ﴿ اَهُمْ یَقْ٘سِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ (الزحزف:43؍32) ’’کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ دنیاوی زندگی میں ہم نے ان کے درمیان ان کی روزی کو تقسیم کیا ہے۔‘‘ ﴿ اَمْ هُمُ الْ٘مُصَۜیْطِرُوْنَ﴾ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے اقتدار پر قہر اور غلبہ سے مسلط ہیں؟ مگر معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو عاجز اور محتاج ہیں۔
#
{38} {أمْ لهم سُلَّمٌ يستمعون فيه}؛ أي: ألهم اطِّلاع على الغيب واستماعٌ له بين الملأ الأعلى، فيخبرون عن أمورٍ لا يعلمُها غيرُهم، {فليأتِ مستمِعُهم}: المدَّعي لذلك {بسلطانٍ مبينٍ}: وأنَّى له ذلك والله تعالى عالم الغيب والشهادة؛ فلا يُظْهِرُ على غيبه أحداً؛ إلاَّ من ارتضى من رسولٍ يخبره بما أراد من علمِهِ، وإذا كان محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، أفضل الرسل وأعلمهم وإمامهم، وهو المخبر بما أخبر به من توحيد الله ووعده ووعيده وغير ذلك من أخباره الصادقة، والمكذِّبون هم أهل الجهل والضَّلال والغيِّ والعناد؛ فأيُّ المخبرين أحقُّ بقَبول خبره، خصوصاً والرسول - صلى الله عليه وسلم - قد أقام من الأدلَّة والبراهين على ما أخبر به ما يوجِبُ أن يكون ذلك عين اليقين وأكمل الصدق، وهم لم يُقيموا على ما ادَّعَوْه شبهةً فضلاً عن إقامة حجَّة؟!
[38] ﴿ اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْهِ﴾ ’’کیا ان کے پاس سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن آتے ہیں۔‘‘ یعنی کیا انھیں غیب کا علم ہے اور وہ ملأاعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں اور ایسے امور کے بارے میں خبریں دیتے ہیں جنھیں ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ﴿ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ ﴾ ’’پھر چاہیے کہ ان کا سننے والا لائے۔‘‘ یعنی ملأ ا علیٰ کی باتیں سننے کا دعوے دار ﴿ بِسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’کوئی صریح دلیل‘‘ اور یہ دلیل اس کے پاس کہاں سے آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی غیب اور موجود کا علم رکھتا ہے، وہ کسی پر غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے، جس پر وہ غیب کو ظاہر کرنے پر راضی ہو، وہ اپنے علم میں سے جو چاہتا ہے اس کے بارے میں اس رسول کو آگاہ کرتا ہے۔ جبکہ محمد مصطفیe، رسولوں میں سب سے افضل، سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور ان کے امام ہیں، آپ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے وعدے اور وعید وغیرہ کے بارے میں سچی خبریں دینے والے ہیں، اور آپ کی تکذیب کرنے والے جہالت، ضلالت، گمراہی اور عناد میں مبتلا ہیں، تب دونوں خبر دینے والوں میں سے کون زیادہ مستحق ہے کہ اس کی خبر قبول کی جائے، خاص طور پر جبکہ رسول اللہ e نے جن امور کی خبر دی ہے، ان پر دلائل و براہین قائم ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ یہ عین الیقین، حقیقت اور کامل ترین صداقت ہے۔ ان کا اپنے دعوے (انبیاء کے جھوٹے ہونے) پر دلیل قائم کرنا تو کجا، وہ اس میں کوئی شبہ تک نہیں پیدا کر سکتے۔
#
{39} وقوله: {أم له البناتُ}: كما زعمتُم، {ولكم البنونَ}: فتجمعون بين المحذورَيْن: جَعْلُكُم له الولد، واختيارُكُم له أنقص الصنفين؛ فهل بعد هذا التنقُّص لربِّ العالمين غايةٌ أو دونه نهايةٌ؟!
[39] ﴿ اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ﴾ ’’یا اس (اللہ) کے لیے کی بیٹیاں ہیں؟‘‘ جیسا کہ تم سمجھتے ہو ﴿ وَلَكُمُ الْبَنُوْنَ﴾’’اور تمھارے لیے بیٹے‘‘ پس تم قابلِ احتراز امور کو جمع کر رہے ہو ، یعنی تمھارا اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا اور ناقص ترین صنف کو اس کی طرف منسوب کرنا، رب کائنات کی اس تنقیص کے بعد بھی کوئی غایت و انتہا ہے؟
#
{40} {أم تسألُهُم}: يا أيُّها الرسولُ، {أجراً}: على تبليغ الرسالة، {فهم من مَغْرَمٍ مُثْقَلونَ}: ليس الأمر كذلك، بل أنت الحريص على تعليمهم تبرُّعاً من غير شيء، بل تبذلُ لهم الأموالَ الجزيلة على قَبول رسالتك والاستجابة لأمرِك ودعوتك ، وتعطي المؤلَّفة قلوبهم؛ ليتمكَّن العلم والإيمان من قلوبهم.
[40] ﴿ اَمْ تَسْـَٔؔلُهُمْ﴾ اے رسول! کیا آپ ان سے مانگتے ہیں ﴿ اَجْرًا﴾ تبلیغ رسالت پر اجر؟ ﴿ فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ﴾ کہ وہ اس کے تاوان سے بوجھل ہو رہے ہیں۔ مگر معاملہ ایسا نہیں، آپ تو ان کو کسی معاوضے کے بغیر علم سکھانے کے خواہش مند ہیں، آپ تو اپنی رسالت قبول کرنے، آپ کے حکم اور آپ کی دعوت پر لبیک کہنے پر بہت زیادہ مال خرچ کرتے ہیں۔ آپ زکاۃ میں سے تالیف قلب کے لیے مال عطا کرتے ہیں تاکہ ان کے دلوں میں علم و ایمان جاگزیں ہو جائے۔
#
{41} {أم عندَهم الغيبُ فهم يكتبونَ}: ما كانوا يعلمونَه من الغُيوب، فيكونون قد اطِّلعوا على ما لم يطَّلع عليه رسولُ الله، فعارضوه وعاندوه بما عندَهم من علم الغيب، وقد عُلِمَ أنَّهم الأمَّة الأميَّة الجهَّال الضَّالون، ورسول الله - صلى الله عليه وسلم - هو الذي عنده من العلم أعظم من غيره، وأنبأه الله من علم الغيب على ما لم يَطَّلِعْ عليه أحدٌ من الخلق، وهذا كلُّه إلزامٌ لهم بالطرق العقليَّة والنقليَّة على فساد قولهم وتصوير بطلانِهِ بأحسن الطُّرق وأوضحها وأسلمها من الاعتراض.
[41] ﴿ اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ﴾ یا غیب میں سے جو کچھ انھیں معلوم ہوتا ہے اسے لکھ لیتے ہیں، انھیں ان امور کی اطلاع ہوتی ہے جن کی اطلاع رسول اللہe کو نہیں ہوتی، پس وہ اپنے علم غیب کے ذریعے سے آپ کا مقابلہ کرتے ہیں اور آپ سے عناد رکھتے ہیں؟ حالانکہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ان پڑھ، جاہل اور گمراہ لوگ ہیں اور رسول مصطفیe ایسی ہستی ہیں جن کے پاس دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ علم ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو غیب کے علم سے آگاہ فرمایا کہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اتنا علم عطا نہیں کیا۔ اور یہ سب ان کے قول کے فاسد ہونے پر عقلی اورنقلی طریقے سے الزامی دلیل ہے، نیز نہایت احسن، نہایت واضح اور اعتراض سے محفوظ طریقے سے اس قول کے بطلان کی تصویر پیش کرتا ہے۔
#
{42} وقوله: {أم يريدون}: بقدحِهِم فيك وفيما جئتَ به {كيداً}: يُبْطلونَ به دينَك، ويفسدون به أمرَك. {فالذين كفروا هُمُ المَكيدونَ}؛ أي: كيدُهم في نحورهم، ومضرَّته عائدةٌ إليهم، وقد فعل الله ذلك، ولله الحمد، فلم يُبْقِ الكفارُ من مقدورهم من المكر شيئاً إلاَّ فعلوه، فنصر الله نبيَّه عليهم، وأظهر دينَه ، وخَذَلَهُم وانتصر منهم.
[42] ﴿ اَمْ یُرِیْدُوْنَ﴾ کیا وہ آپ کی لائی ہوئی کتاب میں جرح و قدح کر کے ﴿ كَیْدًا﴾ کوئی سازش کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے سے وہ آپ کے دین اور آپ کے کام کو فاسد کرنا چاہتے ہیں؟ ﴿ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَ﴾ یعنی ان کی سازش ان کے سینوں ہی میں رہے گی اور اس کا نقصان انھی کی طرف لوٹے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ وللہ الحمد. کوئی ایسی چال جو کفار کی قدرت و اختیارمیں تھی، انھوں نے باقی نہ رکھی جس پر عمل نہ کیا ہو مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں اپنے نبی e کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا، اپنے دین کو غالب فرمایا، ان کو بے یار و مددگار تنہا چھوڑا اور ان سے انتقام لیا۔
#
{43} {أم لهم إلهٌ غير اللهِ}؛ أي: ألهم إلهٌ يُدعى ويرجى نفعُه ويُخاف من ضرِّه غير الله تعالى؟ {سبحان اللهِ عمَّا يشرِكون}: فليس له شريكٌ في الملك، ولا شريكٌ في الوحدانيَّة والعبادة، وهذا هو المقصود من الكلام الذي سيق لأجله، وهو بطلانُ عبادة ما سوى الله، وبيانُ فسادها بتلك الأدلَّة القاطعة، وأنَّ ما عليه المشركون هو الباطل، وأنَّ الذي ينبغي أن يُعْبَدَ ويصلَّى له ويُسْجَدَ ويُخْلَصَ له دعاءُ العبادة ودعاءُ المسألة هو الله المألوهُ المعبود، كاملُ الأسماء والصفاتِ، كثيرُ النعوتِ الحسنة والأفعال الجميلة، ذو الجلال والإكرام والعزِّ الذي لا يُرام، الواحد الأحدُ، الفردُ الصمدُ، الكبيرُ الحميدُ المجيدُ.
[43] ﴿ اَمْ لَهُمْ اِلٰ٘هٌ غَیْرُ اللّٰهِ﴾ یعنی کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبود ہے، جسے پکارا جائے اس سے کسی نفع کی امید رکھی جائے اور اس کے ضرر سے ڈرا جائے؟ ﴿سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ ’’اللہ پاک ہے ان سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ وحدانیت اور عبودیت میں۔ یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر کلام لایا گیا اور وہ ہے قطعی دلائل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ہستی کی عبادت کا بطلان اور اس کے فاسد ہونے کا بیان۔ جس موقف پر مشرکین قائم ہیں وہ باطل ہے۔ وہ ہستی جس کی عبادت کی جانی چاہیے، جس کے لیے نماز پڑھنی چاہیے، جس کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے، دعا ، یعنی دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کو اسی کے لیے خالص کرنا چاہیے، وہ اللہ تعالیٰ معبود حقیقی کی ہستی ہے، جو اسماء و صفات میں کامل، بے شمار نعوت حسنہ اور افعال جمیلہ کا مالک، صاحب جلال و اکرام، قوت و غلبہ کا مالک، جس کو مغلوب کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا جا سکتا، جو اکیلا، یکتا، متفرد، بے نیاز، بہت بڑا، قابل حمد و ثنا اور مالک مجد و جلال ہے۔
آیت: 44 - 46 #
{وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ (44) فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ (45) يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (46)}.
اور اگر وہ دیکھیں کوئی ٹکڑا آسمان سے گرتا ہوا تو وہ کہیں گے، (یہ) بادل ہے تہ بہ تہ (44) پس آپ چھوڑ دیجیے ان کو یہاں تک کہ وہ ملیں اپنے اس دن سے کہ جس میں وہ بے ہوش کیے جائیں گے (45) اس دن نہیں فائدہ دے گا انھیں ان کا فریب کچھ بھی اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے (46)
#
{44} يقول تعالى في ذكر بيان أنَّ المشركين المكذِّبين بالحقِّ الواضح قد عَتَوا عن الحقِّ وعسوا على الباطل، وأنَّه لو قام على الحقِّ كلُّ دليل؛ لما اتَّبعوه، ولخالفوه وعاندوه: {وإنْ يروا كِسْفَاً من السماء ساقطاً}؛ أي: لو سقط عليهم من السماء من الآيات الباهرة كِسْفٌ ؛ أي: قطعٌ كبارٌ من العذاب، {يقولوا سحابٌ مركومٌ}؛ أي: هذا سحابٌ متراكمٌ على العادة؛ أي: فلا يبالون بما رأوا من الآيات، ولا يعتبرون بها!
[44] اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات میں ذکر فرماتا ہے کہ مشرکین جو واضح حق کو جھٹلا رہے ہیں، انھوں نے حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور باطل پر نہایت سختی سے جم گئے ہیں، نیز بیان فرمایا کہ اگر حق کے اثبات کے لیے ہر قسم کی دلیل قائم کر دی جائے تو ، پھر بھی وہ اس کی اتباع نہیں کریں گے بلکہ اس کی مخالفت کرتے رہیں گے اور اس سے عناد رکھیں گے ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا﴾ یعنی اگر وہ بہت بڑی نشانیوں میں سے آسمان کا ٹکڑا عذاب بن کر گرتا دیکھیں ﴿ یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْؔكُوْمٌ﴾ تو کہیں گے کہ یہ تو عام عادت کے مطابق گہرا بادل ہے۔ یعنی وہ جن آیات الٰہی کا مشاہدہ کریں گے، اس کی پروا کریں گے نہ اس سے عبرت حاصل کریں گے۔
#
{45} وهؤلاء لا دواء لهم إلاَّ العذاب والنَّكال، ولهذا قال: {فَذَرْهُم حتى يُلاقوا يومَهم الذي فيه يُصْعَقون}: وهو يوم القيامةِ، الذي يصيبهم فيه من العذاب ما لا يقادَرُ قَدْرُه ولا يوصَف أمرُه.
[45] عذاب اور سخت سزا کے سوا ان لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔اس لیے فرمایا: ﴿ فَذَرْهُمْ حَتّٰى یُلٰ٘قُوْا یَوْمَهُمُ الَّذِیْ فِیْهِ یُصْعَقُوْنَ﴾’’ پس ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ دن جس میں وہ بے ہوش کردیے جائیں گے، سامنے آجائے۔‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس میں ان پر عذاب نازل ہو گا جس کی مقدار کا انداز کیا جا سکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جا سکتا ہے۔
#
{46} {يوم لا يُغْني عنهم كيدُهم شيئاً}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيراً، وإنْ كان في الدُّنيا قد يوجد منهم كيدٌ يعيشون به زمناً قليلاً؛ فيوم القيامةِ يضمحلُّ كيدُهم، وتبطلُ مساعيهم، ولا ينتصرون من عذاب الله، {ولا هم يُنصَرون}.
[46] ﴿ یَوْمَ لَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’جس دن ان کی چالیں (کم یا زیادہ) کچھ کام نہ آئیں گی۔‘‘ اگرچہ دنیا کے اندر انھوں نے سازشیں کیں اور ان کے ذریعے سے قلیل سے زمانے تک زندگی گزاری، قیامت کے دن ان کی سازشوں کا تار و پود بکھر جائے گا، ان کی دوڑ دھوپ رائیگاں جائے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہ سکیں گے ﴿ وَّلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ اور نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔
آیت: 47 - 49 #
{وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (47) وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ (48) وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ (49)}.
اور بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ایک عذاب ہے (دنیا میں) علاوہ اس (عذاب آخرت) کے اور لیکن اکثر ان کے نہیں جانتے (47) اور آپ صبر کیجیے حکم آنے تک اپنے رب کا، پس بلاشبہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، اور تسبیح کیجیے ساتھ حمد کے اپنے رب کی جس وقت آپ کھڑے ہوں (48) اور (کچھ حصہ) رات میں بھی، پس تسبیح کیجیے اس کی اور پیچھے (غروب ہونے) ستاروں کے بھی(49)
#
{47} لما ذَكَرَ اللهُ عذابَ الظالمين في الآخرة؛ أخبر أنَّ لهم عذاباً قبل عذاب يوم القيامةِ، وذلك شاملٌ لعذاب الدُّنيا بالقتل والسبي والإخراج من الديار، ولعذابِ البرزخ والقبر. {ولكنَّ أكثرهم لا يعلمونَ}؛ أي: فلذلك أقاموا على ما يوجب العذاب وشدة العقاب.
[47] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ قیامت کے روز ظالموں کے لیے عذاب ہے، آگاہ فرمایا کہ قیامت کے روز عذاب سے پہلے بھی ان کے لیے عذاب ہے اور یہ عذاب قتل کیے جانے، قیدی بنائے جانے، اپنے گھروں سے نکالے جانے، قبر اور برزخ کے عذاب کو شامل ہے ﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ یعنی اسی لیے ایسے کاموں پر جمے ہوئے ہیں جو عذاب اور سخت سزا کے موجب ہیں۔
#
{48 ـ 49} ولمَّا بيَّن تعالى الحجج والبراهين على بطلان أقوال المكذِّبين؛ أمر رسوله - صلى الله عليه وسلم - أن لا يعبأ بهم شيئاً، وأنْ يصبِرَ لحكم ربِّه القدريِّ والشرعيِّ؛ بلزومه والاستقامة عليه، وَوَعَدَهُ الله الكفاية بقوله: {فإنَّك بأعيننا}؛ أي: بمرأى منَّا وحفظٍ واعتناءٍ بأمرك، وأمره أن يستعين على الصبر بالذكر والعبادة، فقال: {وسبِّح بحمد ربِّك حين تقومُ}؛ [أي]: من الليل؛ ففيه الأمر بقيام الليل، أو حين تقومُ إلى الصلوات الخمس؛ بدليل قوله: {ومن الليل فسبِّحْه وإدْبارَ النُّجومِ}؛ أي: آخر الليل، ويدخل فيه صلاة الفجر. والله أعلم.
[48، 49] جب اللہ تعالیٰ نے اہل تکذیب کے اقوال کے بطلان پر دلائل وبراہین بیان کر دیے تو اپنے رسول e کو حکم دیا کہ وہ ان مشرکین کی کچھ بھی پروا نہ کریں اور اپنے رب کے حکم قدری و شرعی کا استقامت کے ساتھ التزام کرتے ہوئے اس پر صبر کریں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ وعدہ فرمایا کہ وہ آپ کے لیے کافی ہے۔ فرمایا: ﴿فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا﴾ یعنی آپ ہمارے سامنے، ہماری حفاظت میں اور آپ کا معاملہ ہمارے زیر عنایت ہے اور آپ کو حکم دیا کہ صبر، ذکر الٰہی اور عبادت سے مدد لیں ، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُ﴾ ’’او ر (اے نبی!) جب آپ کھڑیں ہوں تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیجیے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں رات کے قیام کا حکم ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ e نماز پنجگانہ کے لیے کھڑے ہوں، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَ٘ارَؔ النُّجُوْمِ﴾ ’’اور (کچھ حصہ) رات میں بھی، پس آپ اس کی تسبیح کیجیے اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی۔‘‘ یعنی رات کے آخری حصے میں اور اس میں فجر کی نماز بھی داخل ہے۔