آیت:
تفسیر سورۂ ذاریات
تفسیر سورۂ ذاریات
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا (1) فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا (2) فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا (3) فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا (4) إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ (5) وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ (6)}
قسم ہے ہواؤ ں کی جو (گرد) بکھیرنے والی ہیں اڑا کر(1) پھر بادلوں کی جو اٹھانے والے ہیں بوجھ (پانی کا) (2) پھر کشتیوں کی جو چلنے والی ہیں آسانی سے(3) پھر( قسم ہے) ان فرشتوں کی جو تقسیم کرنے والے ہیں کام کو(4) بلاشبہ جو وعدہ دیے جاتے ہو تم (وہ) البتہ سچا ہے(5) اور بلاشبہ جزا ا لبتہ واقع ہونے والی ہے(6)
#
{1 ـ 6} هذا قسمٌ من الله الصادق قي قيله بهذه المخلوقات العظيمة، التي جعل اللهُ فيها من المصالح والمنافع ما جعل، على أنَّ وعدَه صدقٌ، وأنَّ الدين الذي هو يوم الجزاء والمحاسبة على الأعمال لواقعٌ لا محالةَ، ما له من دافع. فإذا أخبر به الصادقُ العظيم، وأقسم عليه، وأقام الأدلَّة والبراهين عليه؛ فلِمَ يكذِّب به المكذِّبون، ويعرِض عن العمل له العاملون؟! {والذَّارياتِ}: هي الرياح التي تذرو في هبوبها {ذرواً}: بلينها ولطفها وقوَّتها وإزعاجها، {فالحاملاتِ وِقراً}: هي السحاب، تحمل الماء الكثير، الذي ينفع الله به العباد والبلاد ، {فالجارياتِ يُسراً}: النجوم التي تجري على وجه اليُسر والسُّهولة، فتتزيَّن بها السماواتُ، ويُهتدَى بها في ظلمات البرِّ والبحر، ويُنْتَفَعُ بالاعتبار بها، والمقَسِّمات {أمراً}: الملائكة التي تقسِّم الأمر وتدبِّره بإذن الله؛ فكلٌّ منهم قد جعله الله على تدبير أمرٍ من أمور الدنيا والآخرة لا يتعدَّى ما حُدَّ له وقُدِّر ورُسِم ولا ينقص منه.
[6-1] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، جو اپنے قول میں سچا ہے، ان عظیم مخلوقات کی قسم ہے، جن کے اندر اس نے بہت مصالح اور منافع مقرر کر رکھے ہیں جن کو اس امر کی دلیل بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کا دن، جزا و سزا اور اعمال کے محاسبے کا دن ہے، جو لا محالہ آنے والا ہے، جسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پس جب ایک عظیم سچی ہستی اس کی خبر دے، اس پر قسم کھائے اور اس پر دلائل و براہین قائم کرے تو جھٹلانے والے اسے جھٹلا سکتے ہیں نہ عمل کرنے والے اس سے روگردانی کر سکتے ہیں۔ ﴿ وَ الذّٰرِيٰتِ ﴾یہ وہ ہوائیں ہیں جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ﴿ ذَرْوًا﴾ اپنی نرمی، اپنے لطف، اپنی قوت اور زور سے چلتی ہے۔ ﴿ فَالْحٰؔمِلٰ٘تِ وِقْ٘رًا﴾ اس سے مراد بادل ہے جو بہت زیادہ پانی لیے ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انسانوں اور زمین کو فائدہ عطا کرتا ہے۔ ﴿فَالْجٰرِیٰؔتِ یُسْرًا﴾ وہ ستارے جو نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ چلتے رہتے ہیں، جن سے آسمان مزین ہوتے ہیں، جن کی مدد سے بحر و بر کی تاریکیوں میں راہ تلاش کی جاتی ہے اور ان کے ذریعے سے فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ ﴿ فَالْمُقَسِّمٰتِ۠ اَمْرًا﴾ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے اوامر و تدبیر کو نافذ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کے امور میں سے کسی امر کی تدبیر پر مقرر کر رکھا ہے اس لیے جو حدود مقرر کر دی گئی ہیں، وہ ان سے تجاوز کر سکتا ہے نہ ان میں کچھ کمی کر سکتا ہے۔
آیت: 7 - 9 #
{وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ (7) إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ (8) يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ (9)}
قسم ہے آسمان کی جو راستوں والا ہے(7) بلاشبہ تم (باہم) البتہ مختلف بات میں (پڑے) ہو (8) پھیرا جاتا ہے اس (ایمان) سے جو شخص پھیرا گیا (بھلائی سے) (9)
#
{7} أي: {والسماء}: ذات الطرائق الحسنة، التي تشبه حُبُكَ الرمال ومياه الغدران حين يحركها النسيم.
[7] خوبصورت راستوں والے آسمان کی قسم! یہ راستے ریگزاروں کے راستوں اور چشموں کے پانی سے، جب ان کو نسیمِ سحر نے چھیڑا ہو، مشابہت رکھتے ہیں۔
#
{8} {إنَّكم}: أيُّها المكذِّبون لمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، {لفي قول مختلفٍ}: منكم من يقولُ: ساحر! ومنكم من يقول: كاهن! ومنكم من يقول: مجنون! إلى غير ذلك من الأقوال المختلفة الدالَّة على حيرتهم وشكِّهم، وأنَّ ما هم عليه باطلٌ.
[8] ﴿ اِنَّـكُمْ﴾ محمد کریمe کو جھٹلانے والو! تم ﴿ لَ٘فِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ﴾ ’’مختلف قول میں ہو۔‘‘ یعنی تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ یہ جادوگر ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ کاہن ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہ مجنون ہے اور دیگر مختلف قسم کے اقوال جو ان کی حیرت اور شک نیز اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا موقف باطل ہے۔
#
{9} {يؤفَكُ عنه من أُفِكَ}؛ أي: يُصْرَفُ عنه من صُرف عن الإيمان وانصرف [قلبه] عن أدلَّة الله اليقينيَّة وبراهينه. واختلافُ قولهم دليلٌ على فساده وبطلانه؛ كما أنَّ الحقَّ الذي جاء به محمد - صلى الله عليه وسلم - متَّفق؛ يصدِّقُ بعضه بعضاً، لا تناقض فيه ولا اختلاف، وذلك دليلٌ على صحَّته، وأنَّه من عند الله؛ فلو كان من عند غير الله؛ لوجدوا فيه اختلافاً كثيراً.
[9] ﴿ یُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَ﴾ پس اس سے وہی پھرتا ہے جو ایمان سے پھرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یقینی دلائل و براہین سے منہ موڑتا ہے۔ ان کے قول میں اختلاف اس کے فاسد اور باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے جس طرح حق، جسے رسول مصطفی محمدe لے کر آئے ہیں، متفق علیہ ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرتا ہے، اس میں کوئی تناقض ہے نہ کسی قسم کا اختلاف۔ اور یہ چیز اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا﴾ (النساء:4؍82) ’’اور اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘
آیت: 10 - 14 #
{قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ (10) الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ (11) يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ (12) يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (13) ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ (14)}.
مارے گئے اٹکل پچو کرنے والے (10) وہ لوگ کہ وہ غفلت میں بھولے پڑے ہیں (11) وہ پوچھتے ہیں کب ہو گا دن جزا کا ؟ (12) جس دن وہ آگ میں جلائے جائیں گے (13) (کہا جائے گا:) چکھو تم عذاب اپنا ، یہ وہ (عذاب) ہے کہ تھے تم اسے جلدی طلب کرتے (14)
#
{10} يقول تعالى: {قُتِلَ الخرَّاصونَ}؛ أي: قاتل الله الذين كَذَبوا على الله، وجحدوا آياته، وخاضوا بالباطل ليُدْحِضوا به الحقَّ، الذين يقولون على الله ما لا يعلمون.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قُ٘تِلَ الْخَرّٰصُوْنَ﴾ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہلاک کرے، جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا، اس کی آیات کا انکار کیا اور باطل میں مشغول ہوئے تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو نیچا دکھائیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جس کا وہ علم نہیں رکھتے۔
#
{11} {الذين هم في غمرةٍ}؛ أي: في لُجَّةٍ من الكفر والجهل والضلال، {ساهون}.
[11] ﴿ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ غَ٘مْرَةٍ﴾ ’’جو بے خبری میں ہیں۔‘‘ یعنی وہ کفر، جہالت اور ضلالت کی موجوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ﴿ سَاهُوْنَ﴾ ’’اور بھولے ہوئے ہیں۔‘‘
#
{12} {يسألون}: على وجه الشكِّ والتكذيب: {أيَّان [يوم الدين] }: يبعثون؛ أي: متى يُبعثون؟! مستبعدين لذلك!
[12] ﴿ یَسْـَٔلُوْنَ﴾ وہ شک اور تکذیب کے طور پر پوچھتے ہیں:ان کو کب دوبارہ اٹھایا جائے گا؟ انھوں نے یہ سوال حیات بعد الموت کو بعید سمجھتے ہوئے کیا تھا۔
#
{13 ـ 14} فلا تسألْ عن حالهم وسوء مآلهم! {يوم هم على النار يُفتنون}؛ أي: يعذَّبون بسبب ما انطووا عليه من خبث الباطن والظاهر، ويُقالُ لهم: {ذوقوا فتنتكم}؛ أي: العذاب والنار، الذي هو أثر ما افتتنوا به من الابتلاء، الذي صيَّرهم إلى الكفر والضلال. {هذا}: العذابُ الذي وصلتم إليه هو {الذي كنتُم به تستعجلونَ}: فالآن تمتَّعوا بأنواع العقاب والنَّكال، والسلاسل والأغلال، والسخط والوَبال.
[14،13] ان کے حال اور برے ٹھکانے کے بارے میں مت پوچھ ﴿ یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ﴾ ’’ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر الٹے سیدھے پڑیں گے۔‘‘ یعنی جس دن انھیں ان کے خبث باطن اور خبث ظاہر کے سبب سے ان کو عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿ ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ﴾ آگ اور عذاب کا مزا چکھو یہ اس فتنے کے اثرات ہیں جس میں وہ مبتلا ہوئے، جس نے انھیں کفر اور گمراہی میں دھکیل دیا تھا۔ ﴿ هٰؔذَا﴾ یہ عذاب جس میں تم ڈال دیے گئے ہو ﴿ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۠﴾ ’’وہی ہے جس کے لیے تم جلدی مچایا کرتے تھے۔‘‘ پس اب مختلف انواع کی عقوبتوں، سزاؤ ں، زنجیروں، بیڑیوں، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کا مزہ چکھو۔
آیت: 15 - 19 #
{إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (15) آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (16) كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (17) وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (18) وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (19)}.
بلاشبہ متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے (15) لینے والے ہوں گے اس کو جو دے گا، انھیں ان کا رب، بلاشبہ وہ تھے پہلے اس سے نیکو کار (16) تھے وہ بہت ہی تھوڑا رات کو سوتے (17) اور سحری کے وقت وہ مغفرت طلب کرتے (18) اور ان کے مالوں میں حق (ہوتا) تھا واسطے سائل اور محروم کے(19)
#
{15} يقول تعالى في ذكر ثواب المتَّقين وأعمالهم التي وصلوا بها إلى ذلك الجزاء: {إنَّ المتَّقينَ}؛ أي: الذين كانت التَّقوى شعارهم وطاعةُ اللهِ دثارهم، {في جناتٍ}: مشتملات على جميع أصناف الأشجار والفواكه، التي يوجد لها نظيرٌ في الدنيا، والتي لا يوجد لها نظيرٌ، مما لم تنظر العيونُ إلى مثله، ولم تسمع الآذانُ، ولم يخطرْ على قلب بشرٍ ، {وعيونٍ}: سارحة تشرب منها تلك البساتين، ويشربُ بها عبادُ الله يفجِّرونها تفجيراً.
[15] اللہ تبارک و تعالیٰ متقین کے ثواب اور ان کے ان اعمال کا ذکر فرماتا ہے جن کے باعث انھیں یہ ثواب حاصل ہوا۔ ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا شعار تقویٰ اور ان کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ﴿ فِیْ جَنّٰتٍ﴾ ان باغات میں ہوں گے جو مختلف انواع کے درختوں اور میووں پر مشتمل ہو گی، جن کی نظیر اس دنیا میں ملتی ہے اور ایسے بھی ہوں گے جن کی نظیر اس دنیا میں نہیں ملتی۔ ان جیسا میوہ آنکھوں نے کبھی دیکھا ہو گا نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ بندوں کے تصور میں کبھی آیا ہو گا۔ ﴿ وَّعُیُوْنٍ﴾ وہ بہتے ہوئے چشموں میں ہوں گے، ان چشموں سے ان باغات کو سیراب کیا جائے گا، اور اللہ کے بندے ان چشموں سے پانی پئیں گے اور ان سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکالیں گے۔
#
{16} {آخذينَ ما آتاهم ربُّهم}: يُحتملُ أنَّ المعنى أنَّ أهل الجنَّة قد أعطاهم مولاهم جميع مناهم من جميع أصناف النعيم، فأخذوا ذلك راضين به، قد قرَّت به أعينُهم، وفرحتْ به نفوسُهم، ولم يطلبُوا منه بدلاً، ولا يبغون عنه حولاً، وكلٌّ قد ناله من النعيم ما لا يطلب عليه المزيد. ويُحتمل أنَّ هذا وصف المتَّقين في الدُّنيا، وأنَّهم آخذون ما آتاهم الله من الأوامر والنواهي؛ أي: قد تلقَّوها بالرحب وانشراح الصدر، منقادين لما أمر الله به بالامتثال على أكمل الوجوه، ولما نهى عنه بالانزجار عنه لله على أكمل وجه؛ فإنَّ الذي أعطاهم الله من الأوامر والنواهي هو أفضل العطايا التي حقُّها أن تُتَلَقَّى بالشُّكر لله عليها والانقياد. والمعنى الأول ألصقُ بسياق الكلام؛ لأنَّه ذكر وصفهم في الدُّنيا وأعمالهم بقوله: {إنَّهم كانوا قبل ذلك}: الوقت الذي وصلوا به إلى النعيم {محسنين}: وهذا شاملٌ لإحسانهم بعبادة ربِّهم؛ بأن يعبدوه كأنهم يرونه؛ فإنْ لم يكونوا يرونه؛ فإنَّه يراهم، وللإحسان إلى عباد الله ببذل النفع والإحسان من مال أو علم أو جاهٍ أو نصيحةٍ أوأمرٍ بمعروف أو نهي عن منكرٍ، أو غير ذلك من وجوه البرِّ وطرق الخيرات، حتى إنَّه يدخُلُ في ذلك الإحسان بالقول والكلام الليِّن والإحسان إلى المماليك والبهائم المملوكة وغير المملوكة.
[16] ﴿ اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ﴾ ’’ان کا رب انھیں جو کچھ دے گا وہ اسے لے لیں گے۔‘‘ اس میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اہل جنت کا آقا، ان کی نعمتوں کے بارے میں تمام آرزوئیں پوری کرے گا اور وہ اپنے آقا سے راضی ہو کر یہ نعمتیں قبول کریں گے، اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان کے نفوس خوش ہوں گے، وہ ان کو بدلنا چاہیں گے نہ اس سے منتقل ہونے کی خواہش کریں گے۔ (جنت میں) ہر شخص کو اتنی نعمتیں عطا ہوں گی کہ وہ اس سے زیادہ طلب نہیں کرے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ متقین کا یہ وصف دنیا کے اندر ہو ، یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر جو اوامر و نواہی ان کو عطا کرتا ہے وہ نہایت خوش دلی، انشراح صدر کے ساتھ، اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اور بہترین طریقے سے ان پر عمل کرتے ہوئے انھیں قبول کرتے ہیں اور جن امور سے اللہ تعالیٰ نے ان کو روکا ہے وہ اس سے پوری طرح رک جاتے ہیں۔ پس جن کو اللہ تعالیٰ نے اوامر و نواہی عطا کیے ہیں، یہ سب سے بڑا عطیہ ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، اطاعت کے جذبے کے ساتھ قبول کیا جائے۔ پہلا معنی سیاق کلام کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (آگے چل کر) ان الفاظ میں دنیاکے اندر ان کے وصف اور ان کے اعمال کا ذکر کیا ہے۔ ﴿ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ ﴾ یعنی اس وقت سے پہلے، جب انھیں جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی ﴿ مُحْسِنِیْنَ﴾ ’’وہ نیکوکار تھے۔‘‘ یہ ان کی اپنے رب کی عبادت میں ’’احسان‘‘ کو شامل ہے یعنی وہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرتے تھے کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں، اگر وہ اسے دیکھنے کی کیفیت پیدا نہ کر سکتے تو یہ کیفیت لیے ہوئے ہوتے تھے کہ ان کا رب انھیں دیکھ رہا ہے۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بھی احسان کو شامل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے مال، علم، جاہ، خیر خواہی، امر بالمعروف، نہی عن المنکر ، نیکی اور بھلائی کے مختلف طریقوں سے فائدہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ حتیٰ کہ اس میں نرم کلام ، غلاموں، بہائم، مملوکہ اور غیر مملوکہ کے ساتھ حسن سلوک بھی داخل ہے۔
#
{17} ومن أفضل أنواع الإحسان في عبادة الخالق صلاةُ الليل الدالَّة على الإخلاص وتواطؤ القلب واللسان، ولهذا قال: {كانوا}؛ أي: المحسنون، {قليلاً من الليل ما يَهْجَعونَ}؛ أي: كان هجوعهم؛ أي: نومهم بالليل قليلاً، وأمَّا أكثر الليل؛ فإنَّهم قانتون لربِّهم، ما بين صلاة وقراءة وذكر ودعاء وتضرُّع.
[17] خالق کی عبادت میں احسان کی بہترین نوع، تہجد کی نماز ہے جو اخلاص اور قلب و لسان کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ كَانُوْا﴾ یعنی نیکوکار ﴿ قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ﴾ ان کی راتوں کی نیند بہت کم ہوتی تھی۔ رات کے اکثر حصے میں نماز قراء ت، دعا، اور آہ و زاری کے ذریعے سے اپنے رب کے حضور جھکے رہتے تھے۔
#
{18} {وبالأسحار}: التي هي قبيل الفجر، {هم يستغفرونَ}: الله تعالى، فمدُّوا صلاتهم إلى السحر، ثم جلسوا في خاتمة قيامهم بالليل يستغفرون الله تعالى استغفار المذنبِ لذنبه. وللاستغفار بالأسحار فضيلةٌ وخصيصةٌ ليست لغيره؛ كما قال تعالى في وصف أهل الإيمان والطاعة: {والمستغفرين بالأسحار}.
[18] ﴿ وَبِالْاَسْحَارِ﴾ طلوع فجر سے تھوڑا سا پہلے ﴿ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۠﴾ وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ وہ اپنی نماز کو طلوع سحر کے وقت تک لمبا کرتے ہیں، پھر قیام لیل کے بعد بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ سحر کے وقت استغفار میں ایسی فضیلت اور خاصیت ہے جو کسی اور وقت استغفار کرنے میں نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان و اطاعت کے وصف میں فرمایا: ﴿ وَالْ٘مُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ﴾ (آل عمران:3؍17) ’’اوقات ِسحر میں استغفار کرنے والے۔‘‘
#
{19} {وفي أموالهم حقٌّ}: واجبٌ ومستحبٌّ {للسائل والمحروم}؛ أي: للمحتاجين الذين يطلبون من الناس والذين لا يسألونهم.
[19] ﴿ وَفِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ﴾ ان کے اموال میں حق واجب اور حق مستحب ہے ﴿ لِّلسَّآىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ﴾ یعنی ان محتاجوں کے لیے جو لوگوں سے سوال کرتے ہیں اور ان محتاجوں کے لیے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتے۔
آیت: 20 - 23 #
{وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (21) وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (22) فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ (23)}
اور زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے (20) اور (خود) تمھارے نفسوں میں بھی، کیا پس نہیں دیکھتے تم؟ (21) اور آسمان میں ہے تمھارا رزق اور وہ جو تم وعدہ دیے جاتے ہو(22) پس قسم ہے پروردگار کی آسمان اور زمین کے! بلاشبہ وہ (مذکورہ باتیں) البتہ حق ہیں مثل اس کے جو تم بولتے ہو (23)
#
{20} يقول تعالى داعياً عباده إلى التفكُّر والاعتبار: {وفي الأرضِ آياتٌ للموقِنينَ}: وذلك شاملٌ لنفس الأرض وما فيها من جبال وبحارٍ وأنهارٍ وأشجارٍ ونباتٍ تدلُّ المتفكِّر فيها، المتأمِّل لمعانيها على عظمة خالقها وسعة سلطانه وعميم إحسانه وإحاطة علمه بالظواهر والبواطن.
[20] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو تفکر و تدبر اور عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ﴾ ’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یہ آیت کریمہ زمین اور اس کی موجودات کو شامل ہے ، مثلاً: پہاڑ، سمندر، دریا، درخت اور نباتات جو غور و فکر کرنے والے اور اس کے معانی میں تدبر کرنے والے کو اپنے خالق کی عظمت، اس کی وسیع طاقت، اس کے احسان عام اور ظاہر و باطن پر اس کے علم کے محیط ہونے کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں۔
#
{21} وكذلك في نفس العبد من العِبَرِ والحكمة والرحمة ما يدلُّ على أنَّ الله واحدٌ أحدٌ فردٌ صمدٌ ، وأنَّه لم يخلق الخلق سدىً.
[21] اور اسی طرح خود بندے کی ذات میں بے شمار عبرتیں ، حکمتیں اور رحمتیں پنہاں ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک اور بے نیاز ہے، اس نے مخلوق کو بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔
#
{22} وقوله: {وفي السماء رزقُكُم}؛ أي: مادة رزقكم من الأمطار وصنوف الأقدار؛ الرزق الدينيُّ والدنيويُّ، وما توعدونه من الجزاء في الدنيا والآخرة؛ فإنَّه ينزل من عند الله كسائر الأقدار.
[22] ﴿ وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ﴾ ’’اور آسمانوں میں تمھارا رزق ہے۔‘‘ یعنی تمھارے رزق کا مادہ ، مثلاً: بارش، رزق دینی اور رزق دنیاوی کی مختلف مقدار ﴿ وَمَا تُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا جو وعدہ کیا گیا ہے، یہ جزا و سزا دیگر تقدیروں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔
#
{23} فلما بيَّن الآيات ونبَّه عليها تنبيهاً ينتبه به الذكيُّ اللبيبُ؛ أقسم تعالى على أنَّ وعده وجزاءه حقٌّ، وشبَّه ذلك بأظهر الأشياء لنا، وهو النُّطق، فقال: {فوربِّ السماءِ والأرضِ إنَّه لَحَقٌّ مثلما أنَّكم تَنطِقونَ}؛ فكما أنَّكم لا تشكُّون في نطقكم؛ فكذلك ينبغي أن لا يعترِيَكم الشكُّ في البعث والجزاء.
[23] جب اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی کو بیان کر کے ان پر اس طرح متنبہ فرمایا جس سے عقل مند اور ذہین شخص تنبہ حاصل کرتا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اس کا وعدہ اور اس کی جزا و سزا حق ہیں۔ تب ظاہر اور واضح ترین چیز سے اس کو تشبیہ دی اور وہ نطق ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّـكُمْ تَنْطِقُوْنَ﴾ ’’پس آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم! یہ اسی طرح حق ہے جس طرح تمھیں اپنے نطق لسان میں کوئی شک نہیں اسی طرح تمھیں قیامت اور جزا و سزا میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
آیت: 24 - 37 #
{هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ (24) إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (25) فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (26) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (27) فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (28) فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ (29) قَالُوا كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (30) قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (31) قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (32) لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ (33) مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ (34) فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (35) فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (36) وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (37)}.
کیا آئی ہے آپ کے پاس خبر ابراہیم کے مہمانوں کی جو معزز تھے؟ (24) جب وہ داخل ہوئے اس پر تو انھوں نے کہا سلام (کرتے ہیں ہم)، ابراہیم نے کہا، سلام ( تم پر) ، (یہ) لوگ تو اجنبی ہیں(25) پھر چپکے سے گیا اپنے اہل کی طرف، پس لے آیا(بھون کر)ایک بچھڑا موٹا تازہ (26) پھر قریب کیا اسے ان کی طرف، کہا: کیا نہیں کھاتے تم؟ (27) پس اس نے (دل میں) محسوس کیا ان سے خوف انھوں نے کہا: نہ ڈر تو، اور انھوں نے بشارت دی اس کوایک لڑکے بڑے علم والے کی (28) پس سامنے آئی عورت ابراہیم کی حیرت میں پس (تعجب سے) ہاتھ مارا اپنے منہ پر اور کہا: (میں) بڑھیا ہوں بانجھ (اولاد کیسے؟)(29) انھوں نے کہا: اسی طرح کہا ہے تیرے رب نے، بلاشبہ وہی خوب حکمت والا خوب علم والا ہے (30) اُس (ابراہیم) نے کہا پس کیا مقصد ہے تمھارا اے بھیجے ہوئے(فرشتو)؟ (31) انھوں نے کہا، بلاشبہ بھیجے گئے ہیں ہم ایک مجرم قوم کی طرف (32) تاکہ ہم بھیجیں (برسائیں) ان پر پتھر مٹی کے (33) نشان زدہ آپ کے رب کے ہاں، حد سے گزرنے والوں کے لیے (34) پس نکال لیا ہم نے اس شخص کو کہ تھا وہ اس (بستی) میں مومنوں میں سے (35) سو نہ پایا ہم نے اس میں سوائے ایک گھر کے مسلمانوں میں سے (36) اور چھوڑی ہم نے اس میں ایک نشانی ان لوگوں کے لیے جو خوف کھاتے ہیں عذاب درد ناک سے (37)
#
{24} يقول تعالى: {هل أتاك}؛ أي: أما جاءك؟ {حديثُ ضيفِ إبراهيمَ المُكْرَمينَ}: ونبأهُم الغريب العجيب، وهم الملائكة الذين أرسلهم الله لإهلاك قوم لوطٍ، وأمرهم بالمرور على إبراهيم، فجاؤوه في صورة أضياف.
[24] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ هَلْ اَتٰىكَ﴾ کیا آپ کے پاس نہیں پہنچی ﴿ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُؔكْرَمِیْنَ﴾ ’’ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات۔‘‘ اور ان کی عجیب و غریب خبر، یہ ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے لوطu کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا تھا اور انھیں حکم دیا تھا کہ وہ ابراہیمu کے پاس سے ہو کر جائیں ، چنانچہ وہ مہمانوں کی شکل میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
#
{25} {إذْ دَخَلوا عليه فقالوا سلاماً قال}: مجيباً لهم: {سلامٌ}؛ أي: عليكم، {قومٌ منكَرون}؛ أي: أنتم قوم منكَرون، فأحبُّ أن تعرِّفوني بأنفسكم، ولم يعرفهم إلاَّ بعد ذلك.
[25] ﴿ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰ٘مًا ١ؕ قَالَ﴾ ’’جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کیا تو انھوں نے کہا:‘‘ حضرت ابراہیمu نے ان کو سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: ﴿ سَلٰ٘مٌ﴾ یعنی تم پر بھی سلام ہو ﴿ قَوْمٌ مُّنْؔكَرُوْنَ﴾ تم اجنبی لوگ ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنا تعارف کراؤ ،آپ کو ان کا تعارف اس کے بعد ہی ہوا۔
#
{26} ولهذا راغ {إلى أهلِهِ}؛ أي: ذهب سريعاً في خفيةٍ ليحضر لهم قِراهم، {فجاء بعجلٍ سمينٍ}.
[26] اسی لیے وہ چپکے چپکے جلدی سے گھر گئے تاکہ ان کی خدمت میں ضیافت کا سامان پیش کریں ﴿ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ﴾ اور خوب موٹا (بھنا ہوا) بچھڑا لے آئے۔
#
{27} {فقرَّبه إليهم}: وعرض عليهم الأكل، فَـ {قَالَ ألا تأكُلونَ}؟
[27] ﴿ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ﴾ اور ان کے سامنے کھانے کے لیے پیش کیا ﴿ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ﴾ حضرت ابراہیم نے کہا تم کیوں نہیں کھاتے؟
#
{28} {فأوجسَ منهم خيفةً}: حين رأى أيديهم لا تصلُ إليه، {قالوا لا تخفْ}: وأخبروه بما جاؤوا له، {وبشَّروه بغلام عليم}: وهو إسحاق عليه السلام.
[28] ﴿ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً﴾جب ابراہیمu نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ کو ان سے خوف محسوس ہوا۔ ﴿ قَالُوْا لَا تَخَفْ﴾ ’’انھوں نے کہا: خوف نہ کیجیے۔‘‘ وہ جس مقصد کے ساتھ آئے تھے انھوں نے حضرت ابراہیم کو اس سے آگاہ کیا ﴿ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰ٘مٍ عَلِیْمٍ﴾ ’’اور انھیں ایک دانش مند لڑکے کی خوش خبری دی۔‘‘ اس سے مراد اسحاقu ہیں۔
#
{29} فلمَّا سمعت المرأةُ البشارةَ؛ {أقبلتْ}: فرحةً مستبشرةً {في صَرَّةٍ}؛ أي: صيحة، {فصكَّتْ وجهها}: وهذا من جنس ما يجري للنساء عند السرور ونحوه من الأقوال والأفعال المخالفة للطبيعة والعادة، {وقالتْ عجوزٌ عقيمٌ}؛ أي: أنَّى لي الولد وأنا عجوزٌ قد بلغتُ من السنِّ ما لا تلد معه النساء! ومع ذلك؛ فأنا عقيمٌ غير صالح رحمي للولادة أصلاً؛ فثمَّ مانعان، كلٌّ منهما مانعٌ من الولد، وقد ذكرت المانع الثالث في سورة هودٍ في قولها: {وهذا بعلي شيخاً إنَّ هذا لشيءٌ عجيبٌ}.
[29] پس حضرت ابراہیم کی بیوی (حضرت سارہ) نے یہ خوشخبری سنی ﴿ فَاَقْبَلَتِ﴾ تو وہ فرحاں و شاداں (ان کی طرف) متوجہ ہوئیں ﴿ فِیْ صَرَّةٍ﴾ چیخ مار کر ﴿فَصَكَّؔتْ وَجْهَهَا﴾ ’’اور انھوں نے (تعجب سے) اپنا چہرے پرہاتھ مارا۔‘‘ یہ اس نوع کی کیفیت ہے جو خوشی اور مسرت کے ایسے اقوال و افعال کے وقت طاری ہو جایا کرتی ہے جو طبیعت اور عادت کے خلاف ہوا کرتے ہیں ﴿ وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ﴾ اور کہا مجھے بیٹا کیوں کر ہو سکتا ہے، میں تو ایک بڑھیا ہوں اور ایسی عمر کو پہنچ گئی ہوں جس عمر میں عورتیں بچوں کو جنم نہیں دیتیں، مزید برآں میں تو بانجھ بھی ہوں اور میرا رحم بچوں کو جنم دینے کے قابل نہیں۔ پس یہاں دو اسباب ہیں، دونوں ہی بچے کی ولادت سے مانع ہیں۔ سورۂ ہود میں حضرت سارہ [ نے ایک تیسرے مانع کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَّ هٰؔذَا بَعْلِیْ شَیْخًا١ؕ اِنَّ هٰؔذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ﴾ (ہود:11؍72) ’’میرا یہ شوہر بھی بہت بوڑھا ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘
#
{30} {قالوا كذلِكِ قال رَبُّكِ}؛ أي: الله الذي قدَّر ذلك وأمضاه؛ فلا عجب في قدرة الله [تعالى]، {إنَّه هو الحكيم العليم}؛ أي: الذي يضع الأشياء مواضعها، وقد وسعَ كلَّ شيء علماً، فسلِّموا لحكمه، واشكروه على نعمته.
[30] ﴿ قَالُوْا كَذٰلِكِ١ۙ قَالَ رَبُّكِ﴾ ’’فرشتوں نے کہا، (ہاں) تیرے پرودگار نے اسی طرح کہا ہے۔‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو مقدر کر کے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ﴾ ’’بے شک وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ ہستی جو تمام اشیاء کو ان کے محل و مقام پر رکھتی ہے، وہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس لیے اس کی حکمت کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔
#
{31} {قال فما خطبُكم أيُّها المرسلونَ} ؛ أي: قال لهم إبراهيم عليه السلام: ما شأنُكم أيُّها المرسلون؟! وماذا تريدون؟! لأنَّه استشعر أنهم رسلٌ أرسلهم الله لبعض الشؤون المهمَّة.
[31] ﴿ قَالَ﴾ حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھا: ﴿ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ ’’اے رسولو! تمھارا کیا معاملہ ہے اور تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ کیونکہ حضرت ابراہیم سمجھ گئے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی اہم معاملے میں بھیجا ہے۔
#
{32} {قالوا إنَّا أرْسِلْنا إلى قوم مجرمينَ}: وهم قومُ لوطٍ، قد أجرموا بإشراكهم بالله وتكذيبهم لرسولهم وإتيانهم الفاحشة التي لم يَسْبِقْهم إليها أحدٌ من العالمين.
[32] ﴿ قَالُوْۤا اِنَّـاۤ٘ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ﴾’’انھوں نے کہا، ہمیں مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔‘‘ اور اس سے مراد قوم لوط ہے، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، اپنے رسول کو جھٹلایا اور ایسی بدکاری کا ارتکاب کیا جس کا ارتکاب دنیا میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔
#
{33 ـ 34} {لنرسلَ عليهم حجارةً من طينٍ. مسوَّمةً عند ربِّكَ للمسرفينَ}؛ أي: معلَّمة على كلِّ حجرٍ اسم صاحبه؛ لأنَّهم أسرفوا وتجاوزوا الحدَّ. فجعل إبراهيمُ يجادِلُهم في قوم لوطٍ، لعلَّ الله يدفعُ عنهم العذاب، فقيل له: {يا إبراهيمُ أعْرِضْ عن هذا إنَّه قد جاء أمرُ رَبِّك وإنَّهم آتيهم عذابٌ غيرُ مردودٍ}.
[33، 34] ﴿لِـنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍۙ۰۰ مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْ٘مُسْرِفِیْنَ۠﴾ ’’تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں جو حد سے بڑھنے والوں کے لیے آپ کے رب کے ہاں سے نشان زدہ ہیں۔‘‘ یعنی ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کو اس پتھر کا شکار ہونا تھا۔ کیونکہ وہ گناہ میں بڑھ گئے اور تمام حدود کو پھلانگ گئے تھے، چنانچہ ابراہیم u، قوم لوط کے بارے میں ان سے جھگڑنے لگے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو ہٹا دے ، چنانچہ ان سے کہا گیا: ﴿یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰؔذَا١ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ﴾ (ہود:11؍76) ’’اے ابراہیم! اس بات کو جانے دو، تیرے رب کا حکم آ گیا ہے اور ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑنے والا ہے، جو کبھی نہیں ٹل سکتا۔‘‘
#
{35 ـ 36} {فأخْرَجْنا من كان فيها من المؤمنينَ. فما وَجَدْنا فيها غيرَ بيتٍ من المسلمين}: وهم بيتُ لوطٍ عليه السلام؛ إلاَّ امرأتَه؛ فإنَّها من المهلكين.
[35، 36] ﴿ فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ۰۰ فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ﴾ ’’پس وہاں جتنے مومن تھے، ہم نے انھیں نکال لیا۔ اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔‘‘ یہ حضرت لوط u کے گھرانے کے لوگ تھے، سوائے ان کی بیوی کے، وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل تھی۔
#
{37} {وتركْنا فيها آيةً للذين يخافون العذابَ الأليمَ}: يعتبرون بها ويعلمون أنَّ الله شديدُ العقاب، وأنَّ رسلَه صادقون مصدوقون.
[37] ﴿وَتَرَؔكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ ’’اور ہم نے ان کے بارے میں ان لوگوں کے لیے نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔‘‘ اس سے وہ عبرت حاصل کرتے، اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والاہے اور اس کے رسول سچے ہیں جن کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس قصے سے حاصل شدہ بعض فوائد (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ کے اپنے بندوں کے سامنے نیک اور بد لوگوں کے واقعات بیان کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ بندے ان سے عبرت حاصل کریں اور تاکہ معلوم ہو جائے کہ ان کے احوال نے انھیں کہا ں پہنچا دیا۔ (۲) اس قصے میں ابراہیم خلیل اللہu کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu سے قصے کی ابتدا کی جو اس قصے کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ (۳) یہ قصہ ضیافت کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے، نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا ابراہیمu کی عادت تھی، اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیe اور آپ کی امت کو حکم دیا ہے کہ وہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں اور اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس قصے کو مدح و ثنا کے سیاق میں بیان کیا ہے۔ (۴) اس واقعہ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قول و فعل اور اکرام و تکریم کے مختلف طریقوں سے مہمان کی عزت و تکریم کی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے مہمانوں کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ قابل تکریم ہیں ،یعنی حضرت ابراہیم نے ان کی عزت و تکریم کی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ حضرت ابراہیمu نے قول و فعل سے کس طرح ان کی مہمان نوازی کی، نیز یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مہمان اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اکرام و تکریم سے بہرہ مند تھے۔ (۵) اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم u کا گھر، رات کے وقت آنے والے مسافروں اور مہمانوں کا ٹھکانا تھا۔ کیونکہ وہ اجازت طلب کیے بغیر حضرت ابراہیم کے گھر میں داخل ہوئے اور سلام میں پہل کرنے میں ادب کا طریقہ استعمال کیا اور حضرت ابراہیمu نے بھی کامل ترین سلام کے ساتھ ان کو جواب دیا کیونکہ جملہ اسمیہ ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ (۶) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ انسان کے پاس جو کوئی آتا ہے یا اسے ملتا ہے، تو اس سے تعارف حاصل کرنا مشروع ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ (۷) یہ واقعہ بات چیت میں حضرت ابراہیم uکے آداب اور آپ کے لطف و کرم پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے (اپنے مہمانوں سے ) فرمایا تھا : ﴿قَوْمٌ مُّنْؔكَرُوْنَ﴾ (الذاریات: 25/51) ’’تم اجنبی لوگ ہو۔‘‘ اور یہ نہیں فرمایا کہ (انکرتکم )’’میں تمھیں نہیں پہچانتا‘‘ اور دونوں جملوں میں جو فرق ہے وہ مخفی نہیں۔ (۸) یہ واقعہ مہمان نوازی میں جلدی کرنے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر جلدی سے عمل کیا جائے، اس لیے ابراہیم u نے مہمانوں کے سامنے ضیافت پیش کرنے میں عجلت کی۔ (۹) اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ذبیحہ (یا کھانا) جو کسی اور کے لیے تیار کیا گیا ہو، اسے مہمان کی خدمت میں پیش کرنے میں، اس کی ذرہ بھر اہانت نہیں بلکہ اس کی عزت و تکریم ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمu نے کیا تھا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے مکرم مہمان تھے۔ (۱۰) اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کو بکثرت رزق سے نواز رکھا تھا، اور یہ رزق ان کے پاس گھر میں ہر وقت تیار اور موجود رہتا تھا، انھیں بازار سے لانے کی ضرورت ہوتی تھی نہ پڑوسیوں سے مانگنے کی۔ (۱۱) اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم u نے خود بنفس نفیس مہمانوں کی خدمت کی حالانکہ آپ اللہ تعالیٰ کے خلیل اور مہمان نوازوں کے سردار تھے۔ (۱۲) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم u نے مہمانوں کو اسی جگہ ضیافت پیش کی جہاں وہ موجود تھے۔ کسی اور جگہ ضیافت کے لیے انھیں نہیں بلایا کہ آئیے تشریف لائیے کیونکہ مہمان کو اپنی جگہ کھانا پیش کرنے میں مہمان کے لیے زیادہ آسانی اور بہتر ہے۔ (۱۳) اس واقعہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان کے ساتھ نرم کلامی اور ملاطفت سے پیش آنا چاہیے، خاص طور پر کھانا پیش کرتے وقت۔ کیونکہ حضرت ابراہیم نے نہایت نرمی سے اپنے مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا تھا۔ اور کہا تھا ﴿اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾ (الذاریات: 27/51)’’آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اور یہ نہیں کہا تھا: کُلُوا ’’کھانا کھا لو‘‘ بلکہ آپ نے اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے جن میں ’’درخواست اور التماس‘‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے ، چنانچہ فرمایا : ﴿اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾(الذاریات: 27/51)’’آپ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے؟‘‘ چنانچہ حضرت ابراہیم u کی پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بہترین الفاظ استعمال کرے جو مہمان کے لیے مناسب اور لائق حال ہوں، مثلاً: آپ کا مہمانوں سے کہنا ’’کیا آپ کھانا تناول نہیں کریں گے؟‘‘ ’’ہمیں شرف بخشیے اور ہم پر عنایت کیجیے‘‘ اور اس قسم کے دیگر الفاظ۔ (۱۴) اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص، کسی بھی سبب کی بنا پر کسی سے خوفزدہ ہو جائے تو خوفزدہ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ اس کے خوف کو زائل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے سامنے ایسی باتوں کا ذکر کرے جس سے اس کا خوف دور ہو اور وہ پرسکون ہو جائے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم u سے کہا تھا: جب وہ ان سے خوفزدہ ہو گئے تھے: ﴿ لَا تَخَفْ﴾ ’’ڈریے مت‘‘! اور انھوں نے حضرت ابراہیمu کو وہ خوش کن خبر سنائی۔ (۱۵) یہ قصہ حضرت ابراہیم u کی زوجۂ محترمہ کی بے انتہا مسرت و فرحت پر دلالت کرتا ہے حتیٰ کہ انھوں نے خوشی میں چلا کر بے ساختگی سے اپنا چہرہ پیٹ ڈالا۔ (۱۶) نیز اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور آپ کی زوجہ محترمہ کو ایک علم رکھنے والے بیٹے کی بشارت سے نوازا۔
آیت: 38 - 40 #
وقوله تعالى: {وَفِي مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (38) فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (39) فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌ (40)}.
اور موسیٰ (کے قصے) میں (نشانی ہے)، جب بھیجا ہم نے اس کو فرعون کی طرف ساتھ دلیل (معجزے) ظاہر کے (38) پس اس نے رو گردانی کی بہ سبب اپنی قوت کے اور کہا: (موسیٰ) ساحر یا مجنون ہے(39) پس گرفت کی ہم نے اس کی اور اس کےلشکروں کی اور پھینک دیا ہم نے ان کو سمندر میں اس حال میں کہ وہ قابل ملامت تھا (40)
#
{38} أي: {وفي موسى}: وما أرسله الله به إلى فرعون وملئه بالآيات البينات والمعجزات الظاهرات آيةٌ للذين يخافون العذاب الأليم.
[38] ﴿ وَفِیْ مُوْسٰۤى﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو جو واضح آیات اور ظاہری معجزات کے ساتھ مبعوث فرمایا، اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔
#
{39} فلمَّا أتى موسى فرعون بذلك السلطان المبين؛ تولَّى فرعون {بركنِهِ}؛ أي: أعرض بجانبه عن الحقِّ، ولم يلتفتْ إليه، وقدحوا فيه أعظم القدح، فقالوا: {ساحرٌ أو مجنونٌ}؛ أي: إن موسى لا يخلوا إمَّا أن يكون ما أتى به سحراً وشعبذةً ليس من الحقِّ قي شيء، وإمَّا أن يكون مجنوناً لا يؤاخَذُ بما صدر منه لعدم عقله! هذا وقد علموا ـ خصوصاً فرعون ـ أنَّ موسى صادقٌ؛ كما قال تعالى: {وجَحَدوا بها واسْتَيْقَنَتْها أنفسُهم ظلماً وعلوًّا}، وقال موسى لفرعون: {لقد علمتَ ما أنزل هؤلاءِ إلاَّ ربُّ السمواتِ والأرض بصائرَ ... } الآية.
[39] چنانچہ جب حضرت موسیٰu واضح معجزہ لے کر آئے تو فرعون نے منہ موڑ لیا ﴿ بِرُؔكْنِهٖ﴾ ’’اپنے لشکر کے ساتھ‘‘ یعنی اس نے حق سے روگردانی کی اور حضرت موسیٰu کی طرف التفات نہ کیا بلکہ انھوں نے حضرت موسیٰu میں جرح و قدح کی اور کہنے لگے: ﴿ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ﴾ یعنی موسیٰ میں ان دو چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ہے۔جو چیز موسیٰ پیش کر رہا ہے وہ جادو اور شعبدہ بازی ہے، یہ حق نہیں ہے یا موسیٰ مجنون ہے، اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے، اسے، اس کے فاتر العقل ہونے کی وجہ سے، اخذ نہ کیا جائے۔ حالانکہ انھیں پوری طرح علم تھا خاص طور پر فرعون جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ u سچے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾ (النمل:27؍14) ’’انھوں نے ظلم اور تکبر سے آیات الٰہی کا انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل تو ان کو تسلیم کر چکے تھے۔‘‘ اور حضرت موسیٰ uنے فرعون سے فرمایا :﴿ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ ﴾ (بنی اسرائیل: 17؍102)’’تجھے علم ہو چکا ہے کہ ان بصیرت افروز نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیا ۔‘‘
#
{40} {فأخذْناه وجنودَه فنَبَذْناهم في اليمِّ وهو مُليمٌ}؛ أي: مذنبٌ طاغٍ عاتٍ على الله، فأخذه [اللَّهُ] أخذَ عزيزٍ مقتدرٍ.
[40] ﴿فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ وَهُوَ مُلِیْمٌ﴾ ’’پس ہم نے اسے اور اس کے لاؤ شکر کو پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا۔‘‘ اور وہ قابل ملامت کام کرنے والا تھا۔‘‘ یعنی وہ گناہ گار، حد سے تجاوز کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرکشی کرنے والا تھا پس غالب اور مقتدر ہستی نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔
آیت: 41 - 42 #
{وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ (41) مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ (42)}.
اور عاد (کے قصے) میں (نشانی ہے) جب بھیجی ہم نے ان پر ہوا بانجھ (بے برکت) (41) نہیں چھوڑتی تھی وہ کسی چیز کو کہ آتی تھی وہ اس پر، مگر کر دیتی تھی اس کو مانند بوسیدہ ہڈی کے (42)
#
{41} أي: {و} آية لهم {في عادٍ}: القبيلة المعروفة، {إذْ أرسَلْنا عليهم الريحَ العقيمَ}؛ أي: التي لا خير فيها، حين كذَّبوا نبيَّهم هوداً عليه السلام.
[41] ﴿ وَفِیْ عَادٍ﴾ ’’اور عاد میں بھی ۔‘‘نشان عبرت ہے جو ایک معروف قبیلہ تھا۔ ﴿ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ﴾ جب انھوں نے اپنے نبی ہود u کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر نامبارک ہوا بھیجی جو خیر سے خالی تھی۔
#
{42} {ما تَذَرُ من شيءٍ أتتْ عليه إلاَّ جَعَلَتْهُ كالرَّميم}؛ أي: كالرِّمم البالية؛ فالذي أهلكهم على قوَّتهم وبطشهم دليلٌ على كمال قوَّته واقتداره، الذي لا يعجِزُه شيء، المنتقم ممَّن عصاه.
[42] ﴿مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِ﴾ ’’وہ جس پر سے بھی گزرتی تو وہ اسے ریزہ ریزہ کیے بغیرنہ چھوڑتی۔‘‘ یعنی ریزہ ریزہ کی ہوئی بوسیدہ چیز کے مانند۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہستی جس نے قوم عاد کو ان کی قوت اور طاقت کے باوجود ہلاک کر ڈالا، کامل قوت و اقتدار کی مالک ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی، وہ نافرمانی کرنے والوں سے انتقام لے سکتی ہے۔
آیت: 43 - 45 #
{وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّى حِينٍ (43) فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (44) فَمَا اسْتَطَاعُوا مِنْ قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنْتَصِرِينَ (45)}.
اور ثمود(کے قصے) میں (نشانی ہے)، جب کہا گیا ان سے، تم فائدہ اٹھاؤ ایک وقت (تین دن) تک (43) پس انھوں نے سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے تو پکڑ لیا ان کوکڑک نے اس حال میں کہ وہ دیکھ رہے تھے (44) پھر نہ استطاعت رکھی انھوں نے کھڑے ہونے کی اور نہ تھے وہ بدلہ لینے والے ہی (45)
#
{43} أي: {وفي ثمودَ}: آيةٌ عظيمةٌ حين أرسل الله إليهم صالحاً عليه السلام، فكذَّبوه وعاندوه، وبعث الله له الناقة آيةً مبصرةً، فلم يزدْهم ذلك إلاَّ عتُوًّا ونفوراً، {قيل لهم تمتَّعوا حتى حينٍ}.
[43] ﴿وَفِیْ ثَمُوْدَ﴾ ’’اور ثمود میں بھی۔‘‘ ایک عظیم نشان عبرت ہے، جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت صالحu کو مبعوث کیا تو انھوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ عناد کا رویہ رکھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف واضح معجزے کے طورپر اونٹنی بھیجی ۔مگر ان کی سرکشی اور نفرت اور بڑھ گئی ﴿ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ۰۰﴾’’چنانچہ انھیں کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھالو۔‘‘
#
{44} {فعَتَوْا عن أمرِ ربِّهم فأخَذَتْهُمُ الصَّاعقةُ}؛ أي: الصيحة العظيمة المهلكة، {وهم ينظرونَ}: إلى عقوبتهم بأعينهم.
[44] ﴿فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰؔعِقَةُ﴾ ’’تو انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کو کڑک نے آپکڑا۔‘‘ یعنی ہلاک کر دینے والی ایک بہت بڑی کڑک نے آ لیا ﴿ وَهُمْ یَنْظُ٘رُوْنَ﴾ اور وہ اپنی اس سزا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
#
{45} {فما استَطاعوا من قيامٍ}: ينجون به من العذاب، {وما كانوا منتصِرينَ}: لأنفسهم.
[45] ﴿ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِيَامٍ﴾ ’’پس وہ اٹھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔‘‘ جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات حاصل کرتے ﴿ وَّمَا كَانُوْا مُنْ٘تَصِرِیْنَ ﴾ اور نہ وہ اپنے لیے کوئی مدد ہی حاصل کر سکے۔
آیت: 46 #
{وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (46)}.
اور (ہلاک کیا ہم نے) قوم نوح کو، (اس سے) پہلے، بلاشبہ وہ تھے لوگ نافرمان (46)
#
{46} أي: وكذلك ما فعل الله بقوم نوح حين كذَّبوا نوحاً عليه السلام وفَسَقوا عن أمِر الله، فأرسل الله عليهم السماء والأرض بماءٍ منهمرٍ ، فأغرقهم عن آخرهم، ولم يُبْقِ من الكافرين ديَّاراً. وهذه عادة الله وسنَّتُه فيمَن عصاه.
[46] یعنی اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے ساتھ بھی یہی کیا، جب انھوں نے حضرت نوح uکو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمان سے اور زمین سے بے پناہ سیلاب بھیجا، جس نے ان کے آخری آدمی تک کو غرق کر دیا اور کافروں کا ایک بھی بستا ہوا گھر باقی نہ چھوڑا۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی عادت اور سنت ہے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔
آیت: 47 - 51 #
{وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (47) وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (48) وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (49) فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (50) وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ (51)}.
اور آسمان، بنایا ہم نے اس کو ساتھ قوت کے، اور بلاشبہ ہم البتہ وسعت والے ہیں (47) اور زمین، بچھایا ہم نے اس کو پس اچھا بچھانے والے ہیں (ہم) (48) اور ہر چیز کو پیدا کیا ہم نے جوڑا (جوڑا) شاید کہ تم نصیحت پکڑو(49) پس دوڑو تم اللہ کی طرف بلاشبہ میں تمھیں اس سے ڈرانے والا ہوں ظاہر (50) اور نہ بناؤ تم اللہ کے ساتھ معبود دوسرا، بلاشبہ میں تمھیں اس سے ڈرانے والا ہوں ظاہر (51)
#
{47} يقول تعالى مبيِّناً لقدرته العظيمة: {والسماءَ بَنَيْناها}؛ أي: خلقناها وأتقنَّاها وجَعَلْناها سقفاً للأرض وما عليها، {بأيْدٍ}؛ أي: بقوَّةٍ وقدرةٍ عظيمةٍ، {وإنَّا لَموسعونَ}: لأرجائها وأنحائها، وإنَّا لموسعون أيضاً على عبادنا بالرِّزق الذي ما ترك دابَّة في مهامه القفارِ ولُجج البحارِ وأقطار العالم العلويِّ والسفليِّ إلاَّ وأوصل إليها من الرزق ما يكفيها، وساق إليها من الإحسان ما يُغنيها. فسبحان من عمَّ بجوده جميع المخلوقات، وتبارك الذي وسعتْ رحمتُه جميع البريَّات.
[47] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی عظیم قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا﴾ یعنی ہم نے آسمان کو تخلیق کیا اور نہایت مہارت سے بنایا اور اسے زمین اور اس کی موجودات کے لیے چھت بنایا۔ ﴿ بِاَیْىدٍ﴾ ’’ قوت سے۔‘‘ یعنی عظیم قدرت و قوت کے ساتھ۔ ﴿ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾ اور ہم اس کو اس کے کناروں اور گوشوں تک وسعت دیتے ہیں، نیز ہم اپنے بندوں کے لیے بھی رزق کو وسیع کرتے ہیں۔ بیابانوں کے چٹیل میدانوں میں سمندروں کی سرکش موجوں میں اور عالم علوی اور عالم سفلی میں ان کے کناروں تک کوئی جاندار ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا رزق بہم نہ پہنچایا ہو جو اس کے لیے کافی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے احسان سے نہ نوازا ہو جو اسے بے نیاز کرتا ہو۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کا جود و کرم تمام مخلوقات کے لیے عام ہے اور نہایت بابرکت ہے وہ ہستی جس کی بے پایاں رحمت تمام جانداروں پر سایہ کناں ہے۔
#
{48} {والأرضَ فَرَشْناها}؛ أي: جعلناها فراشاً للخلق يتمكَّنون فيها من كلِّ ما تتعلَّق به مصالحهم من مساكنَ وغراسٍ وزرعٍ وحرثٍ وجلوسٍ وسلوكٍ للسُّبل الموصلة إلى مقاصدهم ومآربهم. ولمَّا كان الفراشُ قد يكون صالحاً للانتفاع من كلِّ وجهٍ، وقد يكون من وجهٍ دون وجهٍ؛ أخبر تعالى أنه مَهَدَها أحسنَ مهادٍ على أكمل الوجوه وأحسنها، وأثنى على نفسه بذلك، فقال: {فنعمَ الماهِدونَ}: الذي مَهَدَ لعبادِهِ ما اقتضتْه حكمتُه ورحمتُه.
[48] ﴿ وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا﴾ یعنی ہم نے زمین کو مخلوق کے لیے فرش بنایا ہے تاکہ وہ ان تمام امور پر متمکن ہوں جو ان کے مصالح سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلاً: گھر بنانا، باغات لگانا، کھیتی باڑی کرنا، بیٹھنا اور ان راستوں پر چلنا جو ان کو ان کے مقصد تک پہنچاتے ہیں۔ اور چونکہ فرش کبھی تو ہر لحاظ سے انتفاع کے قابل ہوتا ہے اور کبھی کسی لحاظ سے قابل انتفاع نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے مکمل طور پر بہترین طریقے سے ہموار کیا ہے اور اس بنا پر اپنی حمد و ثنا بیان کرتے ہو ئے فرمایا: ﴿ فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ﴾ ’’پس ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں۔‘‘ جس نے اپنی حکمت اور رحمت کے تقاضے کے مطابق زمین کو ہموار کیا۔
#
{49} {ومن كلِّ شيءٍ خَلَقْنا زوجين}؛ أي: صنفين ذكرٍ وأنثى من كلِّ نوع من أنواع الحيوانات، {لعلَّكم تذكَّرونَ}: لنعم اللهِ التي أنعم بها عليكم في تقدير ذلك وحكمتِهِ؛ حيث جعل ما هو السبب لبقاء نوع الحيوانات كلها؛ لتقوموا بتنميتها وخدمتها وتربيتها فيحصل من ذلك ما يحصل من المنافع.
[49] ﴿ وَمِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ ﴾ یعنی حیوانات کی ہر نوع میں نر اور مادہ دو اصناف پیدا کیں ۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ﴾ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی بدولت جو اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے دوڑے بناکر تم پر کیں، غور و فکرکرو اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اس نے جوڑوں کی تخلیق کو تمام حیوانات کی انواع کی بقا کا سبب بنایا تاکہ تم ان کی افزائش، ان کی خدمت اور ان کی تربیت کا انتظام کرو جس سے مختلف منافع حاصل ہوتے ہیں۔ ﴿ فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ﴾ ’’لہٰذا تم اللہ کی طرف دوڑو۔‘‘
#
{50} فلما دعا العبادَ إلى النظر إلى آياته الموجبة لخشيته والإنابة إليه؛ أمر بما هو المقصود من ذلك، وهو الفرارُ إليه؛ أي: الفرار مما يكرهه الله ظاهراً وباطناً إلى ما يحبُّه ظاهراً وباطناً، فرارٌ من الجهل إلى العلم، ومن الكفر إلى الإيمان، ومن المعصية إلى الطاعة، من الغفلة إلى الذِّكر؛ فمن استكمل هذه الأمور؛ فقد استكمل الدين كلَّه، وزال عنه المرهوب، وحصل له غايةُ المراد والمطلوب. وسمى الله الرجوع إليه فراراً؛ لأنَّ في الرجوع إلى غيره أنواعَ المخاوف والمكاره، وفي الرجوع إليه أنواعَ المحابِّ والأمن والسرور والسعادة والفوزِ، فيفرُّ العبدُ من قضائه وقدره إلى قضائه وقدره، وكلُّ مَنْ خِفْتَ منه فررتَ منه إلاَّ الله تعالى؛ فإنَّه بحسب الخوف منه يكون الفرارُ إليه، {إنِّي لكُم منه نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: منذرٌ لكم من عذاب الله ومخوِّفٌ بيِّن النذارة.
[50] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی ان آیات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے جو خشیت الٰہی اور انابت الی اللہ کی موجب ہیں، اس لیے اس چیز کا حکم دیا جو اس غور و فکر کی مقصود و مطلوب ہے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف فرار ہونا، یعنی جو چیز ظاہری اور باطنی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اسے چھوڑ کر اس چیز کی طرف فرار ہونا جو ظاہری اور باطنی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، جہالت سے فرار ہو کر علم کی طرف آنا، کفر سے بھاگ کر ایمان کی طرف آنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے فرار ہو کر اس کی اطاعت کی طرف آنا اور غفلت کو چھوڑ کر ذکر الٰہی کی طرف آنا۔ پس جس نے ان امور کو مکمل کر لیا، اس نے تمام دین کی تکمیل کر لی، اس سے خوف زائل ہو گیا اور اسے اس کی منزلِ مراد اور مطلوب و مقصود حاصل ہو گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف اس رجوع کو ’’فرار‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ غیر اللہ کی طرف رجوع میں خوف اور ناپسندیدہ امور کی بہت سی انواع پنہاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع میں انواع و اقسام کے پسندیدہ امور، امن مسرت، سعادت اور فوز و فلاح پوشیدہ ہیں۔پس بندہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے بھاگ کر اس کی قضا و قدر کی طرف آئے اور ہر وہ ہستی جس سے آپ ڈرتے ہیں اس سے بھاگ کر اللہ تعالیٰ کی پناہ لیں۔ کیونکہ اس خوف کی مقدار کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی طرف فرار ہو گا ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ مِّؔنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ یعنی میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔
#
{51} {ولا تَجْعَلوا مع الله إلهاً آخرَ}: هذا من الفرار إلى الله، بل هذا أصلُ الفرارِ إليه: أنْ يَفِرَّ العبدُ من اتِّخاذ آلهةٍ غير الله من الأوثان والأندادِ والقبورِ وغيرها مما عُبِدَ من دون الله، ويخلِصَ [العبدُ] لربِّه العبادة والخوف والرجاء والدعاء والإنابة.
[51] ﴿ وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ ’’اور اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا الٰہ نہ بناؤ۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف فرار میں شمار ہوتا ہے، بلکہ یہی اس کی طرف حقیقی فرار ہے کہ بندہ غیر اللہ کو معبود بنانے کو ترک کر کے، یعنی بتوں، اللہ تعالیٰ کے خود ساختہ ہمسروں، اور قبروں وغیرہ کو جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، چھوڑ کر اپنے رب کے لیے اپنی عبادت، اپنے خوف و رجا، دعا اور انابت کو خالص کرے۔
آیت: 52 - 53 #
{كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (52) أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (53)}.
اسی طرح نہیں آیا تھا ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے کوئی رسول مگر انھوں نے کہا، (یہ)ساحر ہے یا مجنون (52) کیا (یہ) ایک دوسرے کو وصیت کرتے آئے ہیں اس (بات) کی؟(نہیں)بلکہ وہ (سارے) لوگ ہی ہیں سرکش (53)
#
{52} يقول الله مسلياً لرسوله - صلى الله عليه وسلم - عن تكذيب المشركين بالله، المكذِّبين له، القائلين فيه من الأقوال الشنيعة ما هو منزَّه عنه، وأنَّ هذه الأقوال ما زالتْ دأباً وعادةً للمجرمين المكذِّبين للرسل؛ فما أرسل اللهُ من رسول؛ إلاَّ رماه قومُه بالسحر أو الجنون.
[52] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول e کو مشرکین کی تکذیب کے مقابلے میں تسلی دیتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں، اس کے بارے میں مختلف بری باتیں کرتے ہیں جن سے وہ منزہ اور پاک ہے۔ ایسی باتیں کہنا ہمیشہ سے ان مجرموں اور رسولوں کو جھٹلانے والوں کی عادت رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا رسول مبعوث نہیں فرمایا جس پر اس کی قوم نے جادوگر اور مجنون ہونے کا بہتان نہ لگایا ہو۔
#
{53} يقول الله تعالى: هذه الأقوال التي صَدَرَتْ منهم ـ الأولين والآخرين ـ هل هي أقوالٌ تواصَوْا بها، ولقَّن بعضُهم بعضاً بها؛ فلا يُستغرب بسبب ذلك اتِّفاقهم عليها؟! أم {هم قومٌ طاغونَ}؛ تشابهتْ قلوبُهم وأعمالهم بالكفر والطُّغيان، فتشابهت أقوالُهم الناشئة عن طغيانهم؟! وهذا هو الواقع؛ كما قال تعالى: {وقال الذين لا يعلمون لولا يُكَلِّمُنا الله أو تأتينا آيةٌ كذلك قال الذينَ من قَبْلِهِم مثلَ قولِهِم تشابهتْ قلوبُهم}، وكذلك المؤمنون لمَّا تشابهتْ قلوبُهم بالإذعان للحقِّ وطلبه والسعي فيه؛ بادروا إلى الإيمان برسُلِهم وتعظيمهم وتوقيرهم وخطابهم بالخطاب اللائق بهم.
[53] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اقوال جو ان کے اولین و آخرین سے صادر ہوئے ہیں کیا یہ ایسے اقوال نہیں جن کی انھوں نے ایک دوسرے کو وصیت اور ایک دوسرے کو تلقین کی ہے؟ پس اس سبب سے ان کا ان اقوال پر اتفاق کر لینا کچھ بعید نہیں۔ ﴿ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ﴾ ’’بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں۔‘‘ ان کے دل اور اعمال، کفر اور سرکشی کے سبب سے باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ پس ان کی سرکشی سے جنم لینے والے ان کے اقوال بھی باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ اور فی الواقع ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْلَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْ٘لَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُ٘لُ٘وْبُهُمْ﴾(البقرہ: 2؍118)’’اور وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے، کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی اسی طرح ان سے پہلے لوگ ان جیسی باتیں کیا کرتے تھے، ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔‘‘ اور اسی طرح اہل ایمان کے دل، چونکہ اطاعت حق اور اس کی طلب اور کوشش میں باہم مشابہ ہیں، اس لیے وہ اپنے رسولوں پر ایمان، ان کی تعظیم و توقیر اور ان کے مرتبے کے لائق خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہونے میں جلدی کرتے ہیں۔
آیت: 54 - 55 #
{فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ (54) وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (55)}.
سو آپ منہ پھیر لیں ان سے، پس نہیں ہیں آپ قابلِ ملامت (54) اور آپ نصیحت کرتے رہیں، پس بلاشبہ نصیحت نفع دیتی ہے مومنوں کو(55)
#
{54} يقولُ تعالى آمراً رسولَه بالإعراض عن المعرضين المكذِّبين: {فتولَّ عنهم}؛ أي: لا تبالِ بهم، ولا تؤاخِذْهم، وأقبِلْ على شأنك؛ فليس عليك لومٌ في ذنبهم، وإنَّما عليك البلاغُ، وقد أدَّيت ما حملتَ وبلَّغتَ ما أرسلت به.
[54] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول کو اعراض کرنے اور جھٹلانے والوں سے روگردانی کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ﴾ یعنی آپ ان کی پروا کیجیے نہ ان کا کوئی مواخذہ کیجیے، اپنے معاملات پر توجہ مرکوز رکھیے ﴿ فَمَاۤ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ﴾ ان کے گناہ پر آپ کو کوئی ملامت نہیں، آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے جو ذمہ داری آپ e کے سپرد کی گئی تھی وہ آپ نے پوری کر دی ہے اور جو پیغام دے کر آپ کو بھیجا گیا تھا وہ آپ نے پہنچا دیا ہے۔
#
{55} {وذكِّرْ فإنَّ الذِّكْرى تنفعُ المؤمنين}: والتَّذكير نوعان: تذكيرٌ بما لم يُعْرَفْ تفصيله مما عُرِفَ مجملُه بالفِطَر والعقول ؛ فإنَّ الله فطر العقول على محبَّة الخير وإيثاره وكراهة الشرِّ والزُّهد فيه، وشرعُه موافقٌ لذلك؛ فكل أمرٍ ونهيٍ من الشرع؛ فهو من التذكير، وتمامُ التذكير أن يذكر ما في المأمور من الخير والحسن والمصالح، وما في المنهيِّ عنه من المضارِّ. والنوع الثاني من التذكير: تذكيرٌ بما هو معلومٌ للمؤمنين، ولكن انسحبتْ عليه الغفلةُ والذُّهول، فيذكَّرون بذلك، ويكرَّر عليهم؛ ليرسخ في أذهانهم، وينتبهوا، ويعملوا بما تَذَكَّروه من ذلك، وليحدثَ لهم نشاطاً وهمَّة توجب لهم الانتفاع والارتفاع. وأخبر الله أنَّ الذِّكرى تنفع المؤمنين؛ لأنَّ ما معهم من الإيمان والخشية والإنابة واتِّباع رضوان الله يوجب لهم أن تنفع فيهم الذِّكرى وتقع الموعظة منهم موقعها؛ كما قال تعالى: {فذكِّرْ إن نفعتِ الذِّكرى. سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشى. وَيَتَجَنَّبُها الأشقى}، وأما من ليس معه إيمانٌ ولا استعدادٌ لقبول التذكير؛ فهذا لا ينفع تذكيره؛ بمنزلة الأرض السبخة التي لا يفيدها المطر شيئاً. وهؤلاء الصنف لو جاءتهم كلُّ آية؛ لم يؤمنوا حتى يروا العذاب الأليم.
[55] ﴿ وَّذَكِّ٘رْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَ٘نْفَ٘عُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور نصیحت کیجیے، بلاشبہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔‘‘ اور تذکیر کی دو اقسام ہیں: (۱) ایسے امور کے ذریعے سے تذکیر جس کی تفصیل کی معرفت حاصل نہیں ، البتہ وہ فطرت اور عقل کے ذریعے سے مجمل طور پر معروف ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل میں خیر سے محبت اور خیر کو ترجیح دینا ، شر کو ناپسند کرنا اور اس سے دور بھاگنا ودیعت کر دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اس کے موافق ہے۔ پس شریعت کا ہر امر و نہی، تذکیر ہے۔ تذکیر کامل یہ ہے کہ مامورات شریعت میں بھلائی، حسن اور انسانی مصالح پوشیدہ ہیں ان کا ذکر کیا جائے اور منہیات میں جو نقصانات پنہاں ہیں ان کا ذکر کیا جائے۔ (۲) تذکیر کی دوسری قسم ان امور کے ذریعے سے تذکیر ہے جو اہل ایمان کو معلوم ہیں۔ مگر غفلت اور مدہوشی نے انھیں ڈھانپ رکھا ہے، ان کو ان امور کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے، ان کے سامنے ان باتوں کو مکرر بیان کیا جاتا ہے، تاکہ یہ باتیں ان کے ذہن میں راسخ ہو جائیں، ان کو تنبیہ ہوتی رہے اور جن باتوں کی انھیں یاد دہانی ہوئی ہے ان پر عمل پیرا ہوں۔ نیز یہ کہ ان میں نشاط اور ہمت پیدا ہو جو ان کے لیے فائدے اور بلندی کی موجب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ نصیحت اور تذکیر مومنوں کو فائدہ دیتی ہے، کیونکہ ان کے پاس جو سرمایۂ ایمان، خشیتِ الٰہی، انابتِ الی اللہ اور اتباع رسول ہے، یہ تمام اوصاف اس بات کے موجب ہیں کہ تذکیر ان کو فائدہ دے اور نصیحت ان کے دل میں اتر جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَذَكِّ٘رْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى ؕ۰۰ سَیَذَّكَّـرُ مَنْ یَّخْشٰى ۙ۰۰ وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْ٘قَى﴾ (الاعلیٰ: 87؍9-11) ’’پس نصیحت کرتے رہیے، اگر نصیحت کوئی فائدہ دے۔ جو خشیت سے بہرہ ور ہے، وہ نصیحت پکڑے گا اور بدبختی کا مارا ہوا اس سے پہلو تہی کرے گا۔‘‘ جس میں ایمان کی رمق ہے نہ نصیحت کو قبول کرنے کی استعداد ہے، اس کو تذکیر اور نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی، وہ اس شور زدہ زمین کی مانند ہے جس کو بارش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس قسم کے لوگوں کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آ جائیں تو وہ پھر بھی اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں۔
آیت: 56 - 58 #
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (56) مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ (57) إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (58)}.
اور نہیں پیدا کیے میں نے جن اور انسان مگر (اس لیے) تاکہ وہ عبادت کریں میری ہی (56) نہیں چاہتا میں ان سے کوئی رزق اور نہیں چاہتا میں یہ کہ وہ کھلائیں مجھے (57) بلاشبہ اللہ ہی ہے، رزاق، قوت والا، نہایت قوی (58)
#
{56} هذه الغاية التي خَلَقَ الله الجنَّ والإنس لها، وبعث جميعَ الرسل يدعون إليها، وهي عبادتُه المتضمِّنة لمعرفته ومحبَّته والإنابة إليه والإقبال عليه والإعراض عما سواه، وذلك متوقِّف على معرفة الله تعالى ؛ فإنَّ تمام العبادة متوقِّف على المعرفةِ بالله ، بل كلَّما ازداد العبد معرفةً بربِّه ؛ كانت عبادته أكمل؛ فهذا الذي خلق الله المكلَّفين لأجله؛ فما خَلَقَهم لحاجة منه إليهم.
[56] وہ مقصد جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو تخلیق فرمایا، تمام انبیاء و رسل کو مبعوث کیا جو لوگوں کو اس مقصد کی طرف بلاتے رہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو اس کی معرفت، اس کی محبت، اس کی طرف انابت اور ماسوا سے منہ موڑ کر صرف اسی کی طرف توجہ کرنے کو متضمن ہے۔ اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی معرفت سے وابستہ ہے۔ بلکہ بندے میں اپنے رب کی معرفت جتنی زیادہ ہو گی اس کی عبادت اتنی ہی کامل ہو گی۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ اسے ان سے کوئی ضرورت تھی۔
#
{57} فما يريد {منهم من رزقٍ وما} يريدُ {أن يطعمونِ}: تعالى الغنيُّ المغني عن الحاجة إلى أحدٍ بوجه من الوجوه، وإنَّما جميع الخلق فقراءُ إليه في جميع حوائجهم ومطالبهم الضروريَّة وغيرها.
[57] ﴿ مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ﴾ ’’ میں ان سے كوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔‘‘ یعنی اللہ عزوجل اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کا محتاج ہو۔ تمام مخلوق اپنی حوائج و مطالب ضروریہ اور غیر ضروریہ میں اس کی محتاج ہے۔
#
{58} ولهذا قال: {إنَّ الله هو الرزَّاقُ}؛ أي: كثير الرزق، الذي ما من دابَّةٍ في الأرض ولا في السماء إلاَّ على الله رزقُها، ويعلمُ مستقرَّها ومستودَعَها، {ذو القوَّةِ المتينُ}؛ أي: الذي له القوة والقدرةُ كلُّها، الذي أوجد بها الأجرام العظيمة السفليَّة والعلويَّة، وبها تصرَّف في الظواهر والبواطن، ونفذت مشيئته في جميع البريَّات؛ فما شاء الله كان، وما لم يشأ لم يكن، ولا يعجِزُه هاربٌ، ولا يخرج عن سلطانه أحدٌ، ومن قوَّته أنه أوصل رزقه إلى جميع العالم، ومن قدرته وقوَّته أنه يبعث الأموات بعدما مزَّقهم البِلى، وعصفت بهم الرياحُ، وابتلعتْهم الطيور والسِّباع، وتفرَّقوا وتمزَّقوا في مهامه القفار ولُجج البحار؛ فلا يفوته منهم أحدٌ، ويعلم ما تَنْقُصُ الأرضُ منهم؛ فسبحان القويِّ المتين.
[58] اسی لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ رزق کثیر کا مالک ہے۔ زمین میں نہ آسمان میں کوئی ایسا جاندار نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو، وہ اس کا ٹھکانا بھی جانتا ہے اور اس جگہ کو بھی جانتا ہے جہاں اس کو سونپا جانا ہے ﴿ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ﴾ یعنی وہ تمام قوت اور قدرت کا مالک ہے۔ جس نے اس قدرت کے ذریعے سے عالم علوی اور عالم سفلی کے اتنے بڑے بڑے اجسام کو وجود بخشا، اس قدرت کے ذریعے سے وہ ظاہر و باطن میں تصرف کرتا ہے اور اس کی مشیت تمام مخلوق پر نافذ ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے، جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ، کوئی بھاگنے والا اسے بے بس کر سکتا ہے نہ کوئی اس کے تسلط سے باہر نکل سکتا ہے۔ یہ اس کی قوت کا کرشمہ ہے کہ اس نے تمام کائنات کو رزق بہم پہنچایا۔یہ اس کی قدرت و قوت ہے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندگی بخشے گا جبکہ بوسیدگی نے ان کو ریزہ ریزہ کر دیا ہو گا، ہوائیں ان (کے ذرات) کو اڑا کر بکھیر چکی ہوں گی، پرندے اور درندے انھیں نگل چکے ہوں گے، اور وہ چٹیل بیابانوں اور سمندر میں بکھر چکے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ان کے اجساد کو جو زمین کم کر رہی ہے وہ اسے خوب جانتا ہے، پاک ہے وہ ذات جو قوت والی اور طاقت ور ہے۔
آیت: 59 - 60 #
{فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ (59) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (60)}.
پس بے شک ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ایک ڈول(حصہ عذاب)ہے مثل ڈول(حصے)ان کے ساتھیوں کے پس نہ جلدی طلب کریں وہ مجھ سے(عذاب) (59) پس ہلاکت ہے ان کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کے اس دن (کے آنے) سے جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں (60)
#
{59} أي: {فإنَّ للذين ظلموا}: بتكذيبهم محمداً - صلى الله عليه وسلم - من العذاب والنَّكال {ذَنوباً}؛ أي: نصيباً وقسطاً، مثل ما فُعِلَ بأصحابهم من أهل الظُّلم والتكذيب، {فلا يستعجلونَ}: بالعذاب؛ فإنَّ سنة الله في الأمم واحدةٌ؛ فكلُّ مكذِّب يدوم على تكذيبه من غير توبةٍ وإنابةٍ؛ فإنَّه لا بدَّ أن يقع عليه العذابُ ولو تأخَّر عنه مدَّة.
[59] وہ لوگ جنھوں نے محمد e کی تکذیب کر کے ظلم کا ارتکاب کیا، ان کے لیے عذاب اور سزا ہے۔ ﴿ ذَنُوْبً٘ا﴾ یعنی ان کے لیے بھی اسی طرح حصہ ہے جس طرح ان کے ساتھی اہل ظلم اور اہل تکذیب کے ساتھ کیا گیا۔ ﴿ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ۠﴾ اس لیے وہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں، کیونکہ قوموں کے بارے میں سنت الٰہی ایک ہی ہے۔ پس ہر جھٹلانے والا شخص جو اپنی تکذیب پر جما ہوا ہے جو توبہ کرتا ہے نہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اس پر عذاب ضرور واقع ہو گا، خواہ کچھ مدت کے لیے موخر ہو جائے۔
#
{60} ولهذا توعَّدهم الله بيوم القيامة، فقال: {فويلٌ للذين كفروا من يومهمُ الذي يوعَدون}: وهو يومُ القيامةِ، الذي قد وُعِدوا فيه بأنواع العذاب والنَّكال [والسلاسل] والأغلال؛ فلا مغيثَ ولا منقذَ لهم من عذاب الله. نعوذ بالله منه.
[60] بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کی وعید سنائی ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِهِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’پس کافروں کے لیے اس دن ہلاکت ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔جس میں ان کو مختلف قسم کے عذاب، سزاؤ ں، بیڑیوں کی وعید سنائی گئی ہے، ان کا کوئی مددگار ہو گا نہ کوئی ان کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا ہو گا۔ ہم اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔