آیت:
تفسیر سورۂ نجم
تفسیر سورۂ نجم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 18 #
{وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (2) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (5) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى (6) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (9) فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (10) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (11) أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى (12) وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى (13) عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى (14) عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى (15) إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (17) لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى (18)}.
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرتا ہے(1) نہیں بہکا تمھارا ساتھی اور نہ وہ بھٹکا(2) اور نہیں بولتا وہ (اپنی) خواہش سے(3) نہیں ہے وہ مگر وحی کہ بھیجی جاتی ہے(اس کی طرف)(4) سکھایا اس کو مضبوط قوتوں والے(جبریل) نے(5) جو نہایت طاقتور ہے ، پھر وہ سیدھا کھڑا ہو گیا(6) ا ور وہ (آسمان کے) بلند کنارے پر تھا(7) پھر وہ قریب ہوا، پس اتر آیا(8) تو ہو گیا وہ بقدر دو کمانوں کےبلکہ اس سے بھی زیادہ قریب(9) پھر اس نے وحی پہنچائی اللہ کے بندے کو جو وحی پہنچائی (10) نہیں جھوٹ بولا دل نے جو کچھ اس نے دیکھا (11) کیا پس تم جھگڑتے ہو اس سے اس پر جو اس نے دیکھا؟ (12) اور البتہ تحقیق اس (رسول) نے دیکھا اس (جبریل) کو ایک بار اور بھی (13) نزدیک سدرۃ المنتٰہی کے (14) نزدیک ہی ہے اس کےجنت الماویٰ (15) جب ڈھانپ رہا تھا سدرہ کو جو کچھ ڈھانپ رہا تھا (16) نہ بہکی نگاہ اور نہ وہ حد سے بڑھی (17) یقیناً اس (رسول) نے دیکھیں بعض نشانیاں اپنے رب کی بڑی (بڑی) (18)
#
{1} يقسم تعالى بالنجم عند هُوِيِّه؛ أي: سقوطه في الأفق في آخر الليل عند إدبار الليل وإقبال النهار؛ لأنَّ في ذلك من الآيات العظيمة ما أوجب أنْ أقسم به، والصحيحُ أنَّ النجم اسم جنسٍ شامل للنُّجوم كلِّها. وأقسم بالنجوم على صحَّة ما جاء به الرسول - صلى الله عليه وسلم - من الوحي الإلهيِّ؛ لأنَّ في ذلك مناسبةً عجيبةً؛ فإنَّ الله تعالى جعل النجوم زينةً للسماء؛ فكذلك الوحي وآثاره زينةٌ للأرض؛ فلولا العلم الموروث عن الأنبياء؛ لكان الناس في ظلمة أشدَّ من ظلمة الليل البهيم.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ ستارے کے ٹوٹنے کی، یعنی رات کے آخری حصے میں، جب رات کے جانے اور دن کے آنے کا وقت ہوتا ہے، اس وقت افق میں ستارے کے گرنے کی قسم کھاتا ہے کیونکہ اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر کی موجب ہیں کہ اس کی قسم کھائی جائے۔ اور صحیح یہ ہے کہ (النجم) ستارہ اسم جنس ہے جو تمام ستاروں کو شامل ہے۔ رسول اللہ e جو وحی الٰہی لے کر آئے ہیں، اس کی صحت پر اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی ہے کیونکہ وحی الٰہی اور ستاروں کے مابین ایک عجیب مناسبت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے وحی اور اس کے آثار کو زمین کے لیے زینت بنایا پس اگر انبیاء کرام oکی طرف سے موروث علم نہ ہوتا تو لوگ (گمراہی کے)تیرہ و تار اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے جو شبِ تاریک کے اندھیروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔
#
{2} والمقسم عليه تنزيه الرسول [- صلى الله عليه وسلم -] عن الضَّلال في علمه والغيِّ في قصده، ويلزم من ذلك أن يكون مهتدياً في علمه هادياً حسنَ القصدِ ناصحاً للخلق ، بعكس ما عليه أهل الضَّلال من فساد العلم وسوء القصد، وقال: {صاحبُكم}؛ لينبههم على ما يعرفونه منه من الصِّدق والهداية، وأنَّه لا يخفى عليهم أمره.
[2] جس امر پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے رسول اللہ e کا اپنے علم میں ضلالت سے اور اپنے قصد میں گمراہی سے منزہ اور پاک ہونا۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اپنے علم میں راست رو، راہ راست کی طرف راہنمائی کرنے والے، حسن قصد رکھنے والے اور مخلوق کی خیر خواہی کرنے والے ہیں۔ اس کے برعکس فساد علم اور سوء قصد کا راستہ وہ ہے، جس پر گمراہ لوگ گامزن ہیں۔ اور فرمایا:﴿ صَاحِبُكُمْ﴾ ’’ تمھارا ساتھی‘‘ تاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے ساتھی کے ان اوصاف کی طرف اشارہ کرے جن کا وہ آپ کے اندر موجود ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ، مثلاً: صدق اور ہدایت، نیز یہ کہ آپ کا معاملہ ان پر مخفی نہیں ہے۔
#
{3 ـ 4} {وما ينطِقُ عن الهوى}؛ أي: ليس نطقُه صادراً عن هوى نفسه. {إن هو إلاَّ وحيٌ يُوحى}؛ أي: لا يتَّبع إلاَّ ما أوحي إليه من الهدى والتقوى في نفسه وفي غيره. ودلَّ هذا على أنَّ السنَّة وحيٌ من الله لرسوله - صلى الله عليه وسلم -؛ كما قال تعالى: {وأنزل الله عليك الكتابَ والحكمةَ}. وأنَّه معصومٌ فيما يخبر به عن الله تعالى وعن شرعه؛ لأنَّ كلامه لا يصدُرُ عن هوى، وإنَّما يصدر عن وحي يوحى.
[3، 4] ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى﴾ یعنی آپ کا کلام، خواہش نفس سے صادر نہیں ہوتا ﴿ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰؔى ﴾ یعنی آپ صرف اس چیز کی پیروی کرتے ہیں، جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے، یعنی ہدایت اور اپنے اور دیگر لوگوں کے بارے میں تقویٰ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ سنت بھی رسول اللہ e کی طرف بھیجی ہوئی وحی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (النساء: 4؍113) ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔‘‘ نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت کے بارے میں خبر دینے میں معصوم ہیں، کیونکہ آپ کا کلام کسی خواہش نفس سے صادر نہیں ہوتا یہ تو وحی سے صادر ہوتا ہے جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے۔
#
{5} ثم ذكر المعلِّم للرسول [- صلى الله عليه وسلم -]، وهو جبريل عليه السلام، أفضل الملائكة الكرام وأقواهم وأكملهم، فقال: {علَّمه شديدُ القُوى}؛ أي: نزل بالوحي على الرسول - صلى الله عليه وسلم - جبريلُ عليه السلام، شديدُ القُوى؛ أي: شديد القوَّة الظاهرة والباطنة، قويٌّ على تنفيذ ما أمره الله بتنفيذه، قويٌّ على إيصال الوحي إلى الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومنعه من اختلاس الشياطين له أو إدخالهم فيه ما ليس منه، وهذا من حفظ الله لوحيه؛ أنْ أرسلَه مع هذا الرسول القويِّ الأمين.
[5] پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ e کے معلم کا ذکر فرمایا اور وہ ہیں جبریلu، جو مکرم فرشتوں میں سب سے افضل، سب سے قوی اور سب سے کامل ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى ﴾ یعنی جبریلu جو نہایت طاقتور ظاہری اور باطنی قویٰ کے مالک ہیں، اس وحی کو لے کر رسول مصطفیe پر نازل ہوئے۔ حضرت جبریل اس حکم کو نافذ کرنے میں، جس کو نافذ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا، بہت طاقتور ہیں۔ اس وحی کو رسول اللہe تک پہنچانے اور اس کو شیاطین کے اچک لینے سے بچانے اور اس کے اندر ان کی دخل اندازی سے حفاظت کرنے میں یہ قوی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی وحی کی حفاظت ہے کہ اس نے اس وحی کو ایسے پیغامبر فرشتے کے ساتھ بھیجا جو نہایت طاقتور اور امانت دار ہے۔
#
{6} {ذو مِرَّةٍ}؛ أي: قوَّةٍ وخلقٍ حسنٍ وجمال ظاهرٍ وباطنٍ، {فاستوى}: جبريلُ عليه السلام.
[6] ﴿ ذُوْ مِرَّةٍ﴾ یعنی وہ قوت، خلق حسن، ظاہری اور باطنی جمال کا حامل ہے ﴿ فَاسْتَوٰى﴾ ’’ پھر وہ (اپنی اصلی صورت میں) سیدھے کھڑے ہوگئے‘‘ یعنی جبریلu ۔
#
{7} {وهو بالأفقُ الأعلى}؛ أي: أُفق السماء الذي هو أعلى من الأرض ؛ فهو من الأرواح العلويَّة، التي لا تنالُها الشياطين ولا يتمكَّنون من الوصول إليها.
[7] ﴿وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى﴾ ’’جبکہ وہ اونچے کنارے پر تھے۔‘‘ یعنی آسمان کے افق پر جو زمین سے بلند تر ہوتا ہے، اس کا شمار ان ارواح علویہ میں ہوتا ہے جنھیں شیاطین حاصل کر سکتے ہیں نہ ان تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
#
{8} {ثم دنا}: جبريلُ من النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - لإيصال الوحي إليه، {فتدلَّى}: عليه من الأفق الأعلى.
[8] ﴿ ثُمَّ دَنَا﴾ پھر جبریلuوحی پہنچانے کے لیے نبی ٔاکرمe کے قریب ہوئے ﴿فَتَدَلّٰى﴾ ’’اور اتر آئے‘‘ افق اعلیٰ سے آپ کے قریب۔
#
{9} {فكان}: في قربه منه {قابَ قوسينِ}؛ أي: قدر قوسين، والقوس معروفٌ، {أو أدنى}؛ أي: أقرب من القوسين. وهذا يدلُّ على كمال مباشرته للرسول - صلى الله عليه وسلم - بالرسالة، وأنَّه لا واسطة بينه وبين جبريل عليه السلام.
[9] ﴿ فَكَانَ﴾ ہوگیا جبریلu کا آپ سے قرب ﴿ قَابَ قَوْسَیْنِ﴾ دو کمانوں کے فاصلے پر ﴿ اَوْ اَدْنٰى﴾ یا دو کمانوں کے فاصلے سے بھی قریب تر۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت جبریلu پیغام لے کر کامل طور پر رسول اللہ e سے بالمشافہ ملے، نیز اس پر بھی دلیل ہے کہ آپ کے اور جبریلu کے درمیان کوئی واسطہ نہ تھا۔
#
{10} {فأوحى} اللهُ بواسطةِ جبريل عليه السلام {إلى عبدِهِ} [محمد - صلى الله عليه وسلم -] {ما أوحى}؛ أي: الذي أوحاه إليه من الشرع العظيم والنبأ المستقيم.
[10] ﴿ فَاَوْحٰۤى﴾ پس اللہ تعالیٰ نے جبریلu کے توسط سے وحی کی ﴿ اِلٰى عَبْدِهٖ﴾ ’’اپنے بندے حضرت محمدe کی طرف ﴿مَاۤ اَوْحٰى﴾’’جو وہی کی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف عظیم شریعت اور درست خبریں وحی کیں۔
#
{11 ـ 12} {ما كَذَبَ الفؤادُ ما رأى}؛ أي: اتَّفق فؤادُ الرسول - صلى الله عليه وسلم - ورؤيته على الوحي الذي أوحاه الله إليه، وتواطأ عليه سمعُه وبصرُه وقلبُه ، وهذا دليلٌ على كمال الوحي الذي أوحاه الله إليه، وأنَّه تلقَّاه منه تلقِّياً لا شكَّ فيه ولا شبهة ولا ريبَ، فلم يكذِبْ فؤادُه ما رأى بَصَرُه، ولم يشكَّ في ذلك. ويُحتمل أنَّ المراد بذلك ما رأى - صلى الله عليه وسلم - ليلة أسْرِيَ به من آيات الله العظيمة، وأنَّه تيقَّنه حقًّا بقلبه ورؤيته، هذا هو الصحيحُ في تأويل الآية الكريمة. وقيل: إنَّ المرادَ بذلك رؤيةُ الرسول - صلى الله عليه وسلم - لربِّه ليلة الإسراء وتكليمه إيَّاه. وهذا اختيار كثيرٍ من العلماء رحمهم الله، فأثبتوا بهذا رؤية الرسول - صلى الله عليه وسلم - لربِّه في الدنيا. ولكنَّ الصحيح القول الأول، وأنَّ المراد به جبريل عليه السلام؛ كما يدلُّ عليه السياق، وأنَّ محمداً - صلى الله عليه وسلم - رأى جبريل في صورته الأصليَّة التي هو عليها مرتين : مرةً في الأفق الأعلى تحت السماء الدُّنيا كما تقدَّم، والمرة الثانية فوق السماء السابعة ليلة أسْرِيَ برسول الله - صلى الله عليه وسلم -.
[11، 12] ﴿ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ﴾ ’’اس (رسول) نے جو کچھ دیکھا، اس کے دل نے (اس کے متعلق) جھوٹ نہیں بولا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف جو بھیجی، اس پر آپ کا قلب مبارک اور آپ کی رؤ یت، آپ کی سماعت اور آپ کی بصارت متفق تھے۔ یہ اس وحی کے کامل ہونے کی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف بھیجی، نیز یہ اس بات کی دليل ہے کہ آپ نے وحی کو اس طرح حاصل کیا کہ اس میں کوئی شک شبہ نہ تھا۔ آپ کی آنکھ مبارک نے جو کچھ دیکھا، آپ کے قلب مقدس نے اس کو نہیں جھٹلایا اور نہ اس میں کوئی شک ہی کیا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ بڑی بڑی آیات الٰہی ہوں جو اس رات آپ کو دکھائی گئیں جس رات آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، آپ کو اپنے قلب مبارک اور رؤ یت کے ساتھ، اس کے حق ہونے کا یقین تھا، آیت کریمہ کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد معراج کی رات رسول اللہ e کا اپنے رب کا دیدار اور اس کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے، اسے بہت سے علمائے کرام نے اختیار کیا ہے، پھر وہ اسی بنیاد پر رسول اللہ e کے لیے دنیا میں دیدار الٰہی کو ثابت کرتے ہیں۔ مگر پہلا قول صحیح ہے کہ اس سے مراد جبریلu ہیں جیسا کہ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے۔ نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ رسول اللہ e نے جبریل uکو اپنی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ آسمان دنیا کے نیچے افق اعلیٰ میں جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اور دوسری دفعہ ساتویں آسمان کے اوپر جس رات آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔
#
{13 ـ 14} ولهذا قال: {ولقد رآه نزلةً أخرى}؛ أي: رأى محمدٌ جبريل مرةً أخرى نازلاً إليه، {عند سِدْرَةِ المُنتَهى}: وهي شجرةٌ عظيمةٌ جدًّا فوق السماء السابعة، سميت سدرةَ المنتهى؛ لأنَّه ينتهي إليها ما يعرج من الأرض، وينزل إليها ما ينزل من الله من الوحي وغيره، أو لانتهاء علم المخلوقات إليها؛ أي: لكونها فوق السماواتِ والأرض؛ فهي المنتهى في علومها، أو لغير ذلك. والله أعلم. فرأى محمد - صلى الله عليه وسلم - جبريلَ في ذلك المكان الذي هو محلُّ الأرواح العلويَّة الزاكية الجميلة التي لا يقربها شيطانٌ ولا غيره من الأرواح الخبيثة.
[13، 14] ﴿ وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰؔى﴾ یعنی رسول اللہ e نے جبریل uکو دوسری دفعہ اپنی طرف اترتے ہوئے دیکھا ﴿ عِنْدَ سِدْرَةِ الْ٘مُنْ٘تَهٰى﴾ ’’سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔‘‘ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر بیری کا بہت بڑا درخت ہے اور اسے سدرۃ المنتہیٰ اس لیے کہا جاتا ہے کہ زمین سے جو چیز اوپر کی طرف عروج کرتی ہے، اس کے پاس آ کر رک جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی وغیرہ نازل ہوتی ہے یہاں آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ یا اس بنا پر اسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوقات کے علم کی انتہائی حد ہے۔ نیز اس نام سے موسوم کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ آسمانوں اور زمین کے اوپر واقع ہے اور سدرۃ المنتہیٰ اس کی بلندی کی انتہا ہے، اس کے علاوہ بھی کوئی سبب ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ چنانچہ اس مقام پر جو پاک، خوبصورت اور بلند مرتبہ ارواح کا مقام ہے، جہاں شیطان اور دیگر ارواح خبیثہ نہیں ٹھہر سکتیں، حضرت محمد e نے جبریلu کو دیکھا۔
#
{15} عند تلك الشجرة، {جنَّة المأوى}؛ أي: الجنة الجامعة لكلِّ نعيم؛ بحيث كانت محلًّا تنتهي إليه الأماني، وترغب فيها الإرادات، وتأوي إليها الرغبات. وهذا دليلٌ على أنَّ الجنة في أعلى الأماكن وفوق السماء السابعة.
[15] ﴿عِنْدَهَا﴾ یعنی اس درخت کے پاس ہی ﴿ جَنَّةُ الْمَاْوٰى﴾ ’’ جنت الماوٰی ہے۔‘‘ یعنی وہ جنت جس میں ہر نعمت جمع ہے۔ یہ ایسا مقام ہے، جو منتہائے آرزو ہے جس کی طرف ارادے راغب رہتے ہیں، جہاں چاہتیں جا کر ٹھہرتی ہے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ جنت بلند ترین مقام ہے اور ساتویں آسمان پر واقع ہے۔
#
{16} {إذْ يغشى السِّدْرة ما يَغْشى}؛ أي: يغشاها من أمر الله شيءٌ عظيم لا يَعْلَمُ وصفَه إلاَّ الله عز وجل.
[16] ﴿ اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى﴾ ’’ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا۔‘‘ یعنی امر الٰہی سے ایک عظیم چیز نے اسے ڈھانپ رکھا تھا جس کا وصف اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
#
{17} {ما زاغ البصرُ }؛ أي: ما زاغ يمنةً ولا يسرةً عن مقصوده {وما طغى}؛ أي: وما تجاوز البصر. وهذا كمال الأدب منه صلوات الله وسلامه عليه؛ أنْ قام مقاماً أقامه الله فيه، ولم يقصِّرْ عنه ولا تجاوزه ولا حاد عنه، وهذا أكمل ما يكون من الأدب العظيم، الذي فاق فيه الأوَّلين والآخرين؛ فإنَّ الإخلال يكون بأحد هذه الأمور: إمَّا أن لا يقوم العبدُ بما أُمِر به، أو يقومَ به على وجه التفريط، أو على وجه الإفراط، أو على وجه الحيدةِ يميناً وشمالاً. وهذه الأمور كلُّها منتفيةٌ عنه - صلى الله عليه وسلم -.
[17] ﴿ مَا زَاغَ الْ٘بَصَرُ﴾ یعنی نگاہ اپنے مقصود سے ہٹ کر دائیں بائیں نہیں ہوئی۔ ﴿ وَمَا طَغٰى﴾ اور نہ نگاہ ہی نے اپنے مقصود سے تجاوز ہی کیا ، یہ رسول اللہ e کا کمال ادب ہے کہ آپ اس مقام پر کھڑے رہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا، آپ اس مقام سے پیچھے ہٹے نہ اس سے تجاوز کیا اور نہ ادھر ادھر ہی انحراف کیا۔ یہ کامل ترین ادب ہے جس میں آپ اولین و آخرین پر فوقیت لے گئے۔ مندرجہ ذیل امور میں سے کسی ایک پر عمل کرنے سے کمال ادب میں خلل واقع ہوتا ہے: | بندہ ان امور پر قائم نہ رہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ | اس میں کوتاہی کرے۔ | اس میں افراط سے کام لے۔ | اس سے قائم رہتے ہوئے دائیں بائیں التفات کرے۔ مذکورہ تمام امور میں سے ایک بھی نبی ٔاکرم e کے اندر موجود نہ تھا۔
#
{18} {لقد رأى من آياتِ ربِّه الكُبرى}: من الجنَّة والنار وغير ذلك من الأمور التي رآها - صلى الله عليه وسلم - ليلة أُسْرِي به.
[18] ﴿ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى ﴾ ’’انھوں نے اپنے رب کی کچھ بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ یعنی جنت، جہنم اور دیگر آیات الٰہی جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ کیا۔
آیت: 19 - 25 #
{أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (20) أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى (21) تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى (22) إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى (23) أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى (24) فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى (25)}.
خبر دو تم مجھے لَات اور عُزّٰی کی(19) اور مَنَات تیسرے کی جو گھٹیا ہے (20) کیا تمھارے لیے لڑکے ہیں اور اس (اللہ) کے لیے لڑکیاں؟ (21) یہ تو اس وقت تقسیم ہے ظالمانہ (22) نہیں ہیں یہ (بت کچھ بھی)مگر چند نام ہی کہ نام رکھے ہیں وہ، تم نے اور تمھارے باپ دادوں نے، نہیں نازل کی اللہ نے ان کی کوئی دلیل، نہیں پیروی کرتے وہ (لوگ) مگر گمان کی اور اس چیز کی جو چاہتے ہیں (ان کے) نفس (دل)، حالانکہ یقیناً آچکی ہے ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت (23) کیا (میسر) ہے انسان کے لیے جو وہ تمنا کرے؟ (24) پس اللہ ہی کے لیے ہے پچھلا جہان اور پہلا جہان (25)
#
{19 ـ 20} لما ذَكَرَ تعالى ما جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - من الهدى ودين الحقِّ والأمر بعبادة الله وتوحيده؛ ذَكَرَ بطلان ما عليه المشركون من عبادة مَنْ ليس له من أوصاف الكمال شيءٌ ولا تنفع ولا تضرُّ، وإنَّما هي أسماءٌ فارغة من المعنى سمَّاها المشركون هم وآباؤهم الجهَّال الضلاَّل، ابتدعوا لها من الأسماء الباطلة التي لا تستحقُّها، فخدعوا بها أنفسهم وغيرهم من الضُّلاَّل؛ فالآلهةُ التي بهذه الحال لا تستحقُّ مثقال ذرَّة من العبادة، وهذه الأنداد التي سمَّوها بهذه الأسماء زعموا أنها مشتقَّة من أوصاف هي متَّصفة بها، فسمَّوا اللات من الإله المستحقِّ للعبادة، والعُزَّى من العزيز، ومناة من المنَّان؛ إلحاداً في أسماء الله، وتجرِّياً على الشرك به! وهذه أسماءٌ متجرِّدة من المعاني؛ فكلُّ من له أدنى مُسكةٍ من عقل يعلم بطلان هذه الأوصاف فيها.
[19، 20] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ہدایت اور دین حق جس کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ e مبعوث ہوئے تھے، نیز عبادت الٰہی اور توحید الٰہی کا ذکر کرنے کے بعد اس مسلک کے بطلان کا ذکر فرمایا جس پر مشرکین گامزن تھے، یعنی ایسی ہستیوں کی عبادت، جو اوصاف کمال سے محروم ہیں، جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، یہ معانی سے خالی محض نام ہیں جن کو مشرکین اور ان کے جاہل اور گمراہ آباء و اجداد نے گھڑ لیا ہے، انھوں نے ان کے لیے اسمائے باطلہ ایجاد کیے، جن کی وہ مستحق نہ تھیں، پس انھوں نے خود اپنے آپ کو اور دیگر گمراہ لوگوں کو فریب میں مبتلا کیا۔ جن معبودوں کا یہ حال ہو وہ عبادت کا ذرہ بھر استحقاق نہیں رکھتے۔ یہ خود ساختہ ہمسر جن کو انھوں نے ان ناموں سے موسوم کیا ہے اور اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ یہ نام ان اوصاف سے مشتق ہیں، جن سے یہ متصف ہیں۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد اور شرک کی جسارت کرتے ہوئے لات کو الٰہ سے مشتق کر کے موسوم کیا جو عبادت کا مستحق ہے، عزیز سے عزّٰی اورمنان سے منات کو مشتق کیا۔ یہ تمام نام معانی سے خالی ہیں، چنانچہ ہر وہ شخص جو ادنیٰ سی عقل سے بہرہ مند ہے وہ ان نام نہادمعبودوں کے اندر ان اوصاف کے بطلان کا علم رکھتا ہے۔
#
{21} {ألكم الذَّكَرُ وله الأنثى}؛ أي: أتجعلون لله البنات بزعمكم ولكم البنون.
[21] ﴿ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى ﴾ یعنی کیا تم اللہ تعالیٰ کے لیے بزعم خود بیٹیاں قرار دیتے ہو اور اپنے لیے بیٹے؟
#
{22} {تلك إذاً قسمةٌ ضيزى}؛ أي: ظالمة جائرة. وأيُّ ظلم أعظم من قسمة تقتضي تفضيل العبد المخلوق على الخالق؟! تعالى عن قولهم علوًّا كبيراً.
[22] ﴿ تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى ﴾ تب تو یہ بہت ہی ظالمانہ تقسیم ہے۔ اس تقسیم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہو سکتا ہے جو خالق پر بندۂ مخلوق کی فضیلت کو مقتضی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی باتوں سے بہت بلند ہے۔
#
{23} وقوله: {إنْ هي إلاَّ أسماءٌ سمَّيْتموها أنتم وآباؤكم ما أنزل الله بها من سلطانٍ}؛ أي: من حجَّة وبرهان على صحَّة مذهبكم، وكلُّ أمرٍ ما أنزل الله فيه من سلطانٍ؛ فهو باطلٌ فاسدٌ لا يُتَّخذ ديناً، وهم في أنفسهم ليسوا بمتَّبعين لبرهان يتيقَّنون به ما ذهبوا إليه، وإنَّما دلَّهم على قولهم الظنُّ الفاسد والجهل الكاسد، وما تهواه أنفسُهم من الشرك والبدع الموافقة لأهويتهم، والحالُ أنَّه لا موجب لهم يقتضي اتِّباعهم الظنَّ من فقدِ العلم والهدى، ولهذا قال تعالى: {ولقد جاءهم من ربِّهم الهدى}؛ أي: الذي يرشدهم في باب التوحيد والنبوَّة وجميع المطالب التي يحتاج إليها العباد؛ فكلُّها قد بيَّنها الله أكمل بيان وأوضحه وأدلَّه على المقصود، وأقام عليه من الأدلَّة والبراهين ما يوجب لهم ولغيرهم اتِّباعه، فلم يبق لأحدٍ حجَّة ولا عذر من بعد البيان والبرهان، وإذا كان ما هم عليه غايته اتِّباع الظنِّ ونهايته الشقاءُ الأبديُّ والعذاب السرمديُّ؛ فالبقاء على هذه الحال من أسفه السَّفه وأظلم الظلم.
[23] ﴿ اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ ’’یہ تو صرف نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔‘‘ یعنی تمھارے مذہب کے صحیح ہونے پر تمھارے پاس کوئی دلیل و برہان نہیں۔ ہر وہ امر جس پر اللہ تعالیٰ نے دلیل نازل نہ کی ہو، باطل اور فاسد ہوتا ہے، اسے دین نہیں بنایا جا سکتا۔ درحقیقت وہ کسی دلیل و برہان کی پیروی نہیں کرتے کہ انھیں اپنے مذہب کے صحیح ہونے کا یقین ہو۔ محض گمان فاسد، جہالت، خواہشات نفس پر مبنی مشرکانہ عقائد اور خواہشات نفس کے موافق بدعات ان کے نظریات کی دلیل ہیں، حالانکہ علم و ہدایت کے فقدان کی وجہ سے، وہم و گمان کے سوا کوئی ایسا موجب نہیں جو اس کا تقاضا کرتا ہو۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰؔى ﴾ ’’اور البتہ یقیناً ان کے رب کی طرف سے، ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔‘‘ جو توحید و نبوت اور ان تمام امور میں ان کی راہ نمائی کرتی ہے، بندے جن کے محتاج ہیں، پس ان تمام امور کو اللہ تعالیٰ نے کامل ترین، واضح ترین اور مضبوط ترین دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر دلائل و براہین قائم کیے ہیں جو ان کے لیے اور دیگر لوگوں کے لیے اتباع کے موجب ہیں۔ اس بیان و برہان کے بعد کسی کے لیے کوئی حجت اور عذر باقی نہیں رہا۔جب ان کے مذہب کی غرض و غایت محض ظن و گمان کی پیروی، اس کی انتہا شقاوت ابدی اور عذاب سرمدی ہے، تو (ان کا) اس حال پر باقی رہنا سب سے بڑی سفاہت اور سب سے بڑا ظلم ہے۔
#
{24 ـ 25} ومع ذلك يتمنَّون الأماني ويغترُّون بأنفسهم! ولهذا أنكر تعالى على من زعم أنه يحصلُ له ما تمنَّى وهو كاذبٌ في ذلك، فقال: {أم للإنسان ما تمنَّى. فللهِ الآخرةُ والأولى}: فيعطي منهما مَن يشاء ويمنع مَن يشاء؛ فليس الأمر تابعاً لأمانيِّهم ولا موافقاً لأهوائهم.
[24، 25] بایں ہمہ وہ اپنی آرزوؤ ں میں گم اور خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی بات کا انکار کیا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی آرزوئیں پوری ہوں گی حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى ٞۖ۰۰ فَلِلّٰهِ الْاٰخِرَةُ وَالْاُوْلٰى﴾ ’’کیا انسان جس چیز کی آرزو کرتا ہے۔ وہ اسے ضرور ملتی ہے؟ آخرت اور دنیا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ پس وہ جس کو چاہتا عطا کرتا اور جس کو چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے۔ لہذا امر الٰہی ان کی آرزوؤ ں کے تابع ہے نہ ان کی خواہشات کے موافق۔
آیت: 26 #
{وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى (26)}.
اور کتنے فرشتے ہیں آسمانوں میں کہ نہیں فائدہ دے گی ان کی سفارش کچھ بھی مگر بعد اس کے کہ اجازت دے گا اللہ جس کے لیے وہ چاہے گا اور پسند کرے گا (26)
#
{26} يقول تعالى منكراً على مَن عَبَدَ غيره من الملائكة وغيرهم، وزعم أنَّها تنفعه وتشفع له عند الله يوم القيامةِ: {وكم من مَلَكٍ في السمواتِ}: من الملائكة المقرَّبين وكرام الملائكة، {لا تُغْني شفاعتُهم شيئاً}؛ أي: لا تفيد من دعاها وتعلَّق بها ورجاها، {إلاَّ من بعدِ أن يأذنَ الله لمن يشاءُ ويرضى}؛ أي: لا بدَّ من اجتماع الشرطين: إذنه تعالى في الشفاعة، ورضاه عن المشفوع له. ومن المعلوم المتقرِّر أنَّه لا يقبل من العمل إلاَّ ما كان خالصاً لوجه الله، موافقاً فيه صاحبُه الشريعةَ؛ فالمشركون إذاً لا نصيبَ لهم من شفاعة الشافعين؛ [وقد] سدُّوا على أنفسهم رحمة أرحم الراحمين.
[26] جو لوگ فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ ہستیاں قیامت کے روز ان کی شفاعت کریں گی، اللہ تعالیٰ ان پر نکیر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَؔكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ﴾ یعنی آسمانوں میں کتنے ہی اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم فرشتے ہیں ﴿ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’جن کی شفاعت کچھ کام نہ آئے گی۔‘‘ یعنی جو کوئی اس شفاعت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے امید وابستہ کرتا ہے یہ شفاعت اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔ ﴿اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّ٘اْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَرْضٰى ﴾ ’’مگر بعد ازاں کہ اللہ اجازت دے جس کے لیے چاہے اور پسند کرے۔‘‘ شفاعت کے لیے دو شرائط کا مجتمع ہونا ضروری ہے: (۱) شفاعت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔ (۲) جس کی شفاعت جا ری رہی ہو، اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ہونا۔ یہ امر متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اور صاحب شریعت(u)کے طریقے کے موافق ہو۔ چنانچہ مشرکین شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے بہرہ مند نہیں ہو سکیں گے کیونکہ انھوں نے خود ہی اپنے اوپر، سب سے رحیم ہستی کی رحمت کے دروازے بند کر لیے ہیں۔
آیت: 27 - 30 #
{إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى (27) وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (28) فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (29) ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى (30)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے آخرت پر، البتہ وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے نام زنانے (27) حالانکہ نہیں ہے ان کو اس کا کوئی علم، نہیں پیروی کرتے وہ مگر گمان کی، اور بلاشبہ گمان نہیں فائدہ دیتا حق کے مقابلے میں کچھ بھی (28) پس آپ اعراض کریں اس سے جو رو گردانی کرے ہمارے ذکر سے، اور نہیں ارادہ کیا اس نے مگر صرف حیاتِ دنیا کا(29) یہی انتہا ہے ان کی علم (کے لحاظ) سے بلاشبہ آپ کا رب، وہی خوب جانتا ہے اس شخص کو جو گمراہ ہوا اس کے راستے سے اور وہی خوب جانتا ہے اس شخص کو جس نے ہدایت پائی (30)
#
{27} يعني: أنَّ المشركين بالله، المكذِّبين لرسله، الذين لا يؤمنون بالآخرة؛ [و] بسبب عدم إيمانهم بالآخرة؛ تجرَّؤوا على ما تجرؤوا عليه من الأقوال والأفعال المحادَّة لله ولرسوله؛ من قولهم: الملائكة بناتُ الله! فلم ينزِّهوا ربَّهم عن الولادة، ولم يكرِموا الملائكة ويُجِلُّوهم عن تسميتهم إيَّاهم إناثاً، والحال أنَّه ليس لهم بذلك علمٌ لا عن الله ولا عن رسوله ولا دلَّت على ذلك الفطر والعقول، بل العلمُ كلُّه دالٌّ على نقيض قولهم، وأنَّ الله منزَّهٌ عن الأولاد والصاحبة؛ لأنَّه الواحد الأحد، الفرد الصمد، الذي لم يلدْ ولم يولدْ، ولم يكن له كفواً أحدٌ، وأنَّ الملائكة كرامٌ مقرَّبون إلى الله قائمون بخدمته، {لا يعصون الله ما أمَرَهم ويفعلونَ ما يُؤمرون}.
[27] اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے، انبیاء و مرسلین کو جھٹلانے والے جو اللہ تعالیٰ پر عدم ایمان کے سبب سے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایسے اقوال و افعال کی جسارت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دشمنی پر مبنی ہیں، مثلاً: وہ کہتے ہیں ’’فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں‘‘پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کو ولادت سے منزہ قرار دیا نہ انھوں نے فرشتوں کا اکرام کیا اور نہ انھوں نے ان کو مؤنث سے بالاتر سمجھا، حالانکہ انھیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم حاصل ہے نہ اس کے رسول کی طرف سے اور نہ عقل اور فطرت ہی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ بلکہ علم تو ان کے قول کے تناقض پر دلالت کرتا ہے۔ نیز اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد اور بیوی سے منزہ ہے۔ کیونکہ وہ اکیلا اور یکتا، متفرد اور بے نیاز ہے۔ اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ وہ جنم دیا گیا ہے اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہی ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم بندے ہیں جو اس کی خدمت پر قائم ہیں ﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم: 66؍6) ’’اللہ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
#
{28} والمشركون إنَّما يتَّبعون في ذلك القول القبيح، وهو الظنُّ الذي لا يُغني من الحقِّ شيئاً؛ فإنَّ الحقَّ لا بدَّ فيه من اليقين المستفاد من الأدلَّة [القاطعة] والبراهين الساطعة.
[28] مشرکین اس بارے میں بدترین قول کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ ہے محض ظن و گمان جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ حق کے لیے ایسے یقین کا وجود ضروری ہے جو نہایت روشن دلائل و براہین سے مستفاد ہو۔
#
{29} ولما كان هذا دأب هؤلاء المذكورين، أنَّهم لا غرض لهم في اتِّباع الحقِّ، وإنَّما غرضهم ومقصودهم ما تهواه نفوسُهم؛ أمر الله رسوله بالإعراض عن من تولَّى عن ذكرِهِ، الذي هو الذكرُ الحكيم والقرآنُ العظيم [والنبأ الكريم]، فأعرضَ عن العلوم النافعة، ولم يُرِدْ إلاَّ الحياة الدنيا؛ فهذا منتهى إرادتِه. ومن المعلوم أن العبد لا يعمل إلاَّ للشيء الذي يريدُه؛ فسعيُ هؤلاء مقصورٌ على الدُّنيا ولذَّاتها وشهواتها كيف حصلتْ حَصَّلوها، وبأيِّ طريق سنحت ابتدروها.
[29] چونکہ ان مشرکین کی عادت یہ ہے کہ انھیں اتباعِ حق سے کوئی غرض نہیں، ان کی غرض و غایت اور ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی کرنا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ اس شخص سے منہ موڑ لیں جو اللہ تعالیٰ کے ذکر، جو کہ حکمت سے لبریز ہے، اور قرآن عظیم سے اعراض کرتا ہے، پس اس نے گویا علوم نافعہ سے منہ موڑا۔ وہ دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔ پس یہ اس کے ارادے کی انتہا ہے۔یہ چیز معلوم اور متحقق ہے کہ بندہ صرف اسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔ پس ان لوگوں کی کوشش اور دوڑ دھوپ، دنیا اور اس کی لذات و شہوات تک محدود ہے۔ یہ لذات و شہوات جیسے بھی حاصل ہوتی ہے یہ انھیں حاصل کرتے ہیں اور جس کے راستے سے بھی ان کا حصول آسان ہو یہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔
#
{30} {ذلك مبلغُهم من العلم}؛ أي: هذا منتهى علمهم وغايته، وأمَّا المؤمنون بالآخرة المصدِّقون بها أولو الألباب والعقول؛ فهمتهم وإرادتهم للدار الآخرة، وعلومُهم أفضلُ العلوم وأجلُّها، وهو العلم المأخوذُ من كتاب الله وسنَّة رسوله - صلى الله عليه وسلم -، والله تعالى أعلمُ بمن يستحقُّ الهداية فيهديه ممَّن لا يستحقُّ ذلك فيكِلُه إلى نفسه ويخذُلُه فيضلُّ عن سبيل الله، ولهذا قال تعالى: {إنَّ ربَّك هو أعلمُ بمن ضلَّ عن سبيله وهو أعلم بمنِ اهتدى}: فيضع فضلَه حيث يعلم المحلَّ اللائقَ به.
[30] ﴿ ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ یہ ان کے علم کی غایت اور انتہا ہے۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے اور اس کی تصدیق کرنے والے عقل مند اور خرد مند لوگ تو ان کی ہمت اور ارادہ آخرت پر مرتکز رہتاہے۔ ان کے علوم سب سے افضل اور سب سے جلیل القدر علوم ہیں، یہ علوم کتاب اللہ اور سنت رسول e سے ماخوذ ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے، پس وہ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہدایت کا مستحق نہیں ہے، اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے اور اس سے الگ ہو جاتا ہے، پس وہ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ٘١ۙ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدٰؔى ﴾ ’’بے شک آپ کا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جواس کے راستے سے بھٹک گیا، اور وہی اس شخص سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چلا۔‘‘ پس وہ اپنے فضل و کرم کو اس محل و مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لائق ہے۔
آیت: 31 - 32 #
{وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى (31) الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (32)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تاکہ وہ سزا دے ان لوگوں کو جنھوں نے برائیاں کیں بہ سبب اس کےجو انھوں نے عمل کیے، اور جزا دے ان لوگوں کو جنھوں نے اچھائیاں کیں بدلے اچھائی کے (31) وہ لوگ جو بچتے ہیں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے سوائے صغیرہ گناہوں کے ،بلاشبہ آپ کا رب بڑی وسیع مغفرت والا ہے، وہ خوب جانتا ہے تمھیں جب اس نے پیدا کیا تمھیں زمین (مٹی) سے، اور جب تم بچے تھے پیٹوں میں اپنی ماؤ ں کے، سو نہ پاکیزگی بیان کرو تم اپنے آپ کی وہ خوب جانتا ہے اس کو جس نے پرہیز گاری اختیار کی (32)
#
{31} يخبر تعالى أنَّه مالك الملك، المتفرِّدُ بملك الدنيا والآخرة، وأنَّ جميع ما فيهما ملكٌ لله، يتصرَّف فيهم تصرُّف الملك العظيم في عبيده ومماليكه، ينفِّذ فيهم قدره، ويجري عليهم شرعَه، ويأمرهم وينهاهم، ويجزيهم على ما أمرهم به ونهاهم عنه، فيثيب المطيع ويعاقب العاصي، {لِيَجْزِيَ الذين أساؤوا} العمل من سيئات الكفر فما دونَه من المعاصي، وبما عملوه من أعمال الشرِّ بالعقوبة الفظيعة ، {ويجزِيَ الذين أحسنوا}: في عبادة الله، وأحسنوا إلى خلق الله بأنواع المنافع {بالحُسْنى}؛ أي: بالحالة الحسنة في الدُّنيا والآخرة، وأكبر ذلك وأجلُّه رضا ربِّهم والفوزُ بالجنة وما فيها من النعيم.
[31] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اقتدار کا مالک ہے، دنیا و آخرت اسی اکیلے کی ملکیت ہے، دنیا و آخرت میں جو کچھ ہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہ ان میں اس طرح تصرف کرتا ہے جیسے عظیم بادشاہ اپنے غلاموں میں تصرف کرتا ہے، وہ ان پر اپنی قضا و قدر نافذ کرتا ہے، ان پر شرعی احکام جاری کرتا ہے، انھیں حکم دیتا ہے، انھیں منع کرتا ہے، اپنے اوامر و نواہی پر انھیں جزا و سزا دیتا ہے، پس اطاعت گزار کو ثواب عطا کرتا ہے اور نافرمان کو عذاب دیتا ہے۔ ﴿ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا﴾ تاکہ وہ ان لوگوں کو جنھوں نے کفر اور اس سے کم تر گناہوں اور ان اعمالِ شر کا ارتکاب کیا، جزا کے طور پر بدترین سزا دے ﴿ وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا﴾ اور ان کو جزا سے سرفراز فرمائے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں احسان سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مختلف فوائد پہنچا کر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ﴿ بِالْحُسْنٰى﴾ اچھائی کے ساتھ ان کو دنیا و آخرت میں، اچھی جزا سے سرفراز فرمائے۔ سب سے بڑی اور سب سے جلیل القدر جزا ان کے رب کی رضا، جنت اور اس کی نعمتوں سے فوز یابی ہے۔
#
{32} ثم ذكر وصفَهم، فقال: {الذين يَجْتَنِبون كبائرَ الإثم والفواحشَ}؛ أي: يفعلون ما أمرهم اللهُ به من الواجبات، التي يكون تركُها من كبائر الذُّنوب، ويتركون المحرَّمات الكبار من الزِّنا وشرب الخمر وأكل الرِّبا والقتل ونحو ذلك من الذُّنوب العظيمة، {إلاَّ اللَّمم}: وهو الذُّنوب الصغارُ التي لا يصرُّ صاحبها عليها، أو التي يلمُّ العبدُ بها المرَّة بعد المرَّة على وجه الندرة والقلَّة؛ فهذه ليس مجرَّد الإقدام عليها مخرجاً للعبد من أن يكون من المحسنين؛ فإنَّ هذه مع الإتيان بالواجبات وترك المحرمات تدخُلُ تحت مغفرة الله التي وسعتْ كلَّ شيءٍ، ولهذا قال: {إنَّ ربَّك واسعُ المغفرةِ}: فلولا مغفرتُه؛ لهلكتِ البلادُ والعبادُ، ولولا عفوُه وحلمه؛ لسقطتِ السماء على الأرض، ولَمَا ترك على ظهرها من دابَّةٍ، ولهذا قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان؛ مكفراتٌ لما بينهنَّ ما اجتُنِبَتِ الكبائر». وقوله: {هو أعلم بكم إذْ أنشأكُم من الأرضِ وإذْ أنتُم أجنَّةٌ في بطون أمَّهاتِكم}؛ أي: هو تعالى أعلم بأحوالكم كلِّها، وما جبلكم عليه من الضَّعف والخَوَر عن كثيرٍ مما أمركم الله به، ومن كثرة الدواعي إلى فعل المحرَّمات، وكثرة الجواذب إليها، وعدم الموانع القويَّة، والضعف موجودٌ مشاهدٌ منكم حين أخرجكم الله من الأرض، وإذ كنتم في بطونِ أمَّهاتكم، ولم يزل موجوداً فيكم، وإنْ كان الله تعالى قد أوجدَ فيكم قوَّةً على ما أمركم به. ولكنَّ الضعف لم يزلْ؛ فلعلمه تعالى بأحوالكم هذه؛ ناسبت الحكمةُ الإلهيَّة والجود الربانيُّ أن يتغمَّدكم برحمته ومغفرته وعفوه، ويغمرَكم بإحسانه، ويزيل عنكم الجرائم والمآثم، خصوصاً إذا كان العبدُ مقصودُه مرضاة ربِّه في جميع الأوقات، وسعيُه فيما يقرُبُ إليه في أكثر الآنات، وفراره من الذُّنوب التي يمقتُ بها عند مولاه، ثم تقع منه الفلتة بعد الفلتة؛ فإنَّ الله تعالى أكرم الأكرمين وأجود الأجودين، أرحم بعبادِهِ من الوالدةِ بولدِها؛ فلا بدَّ لمثل هذا أن يكون من مغفرة ربِّه قريباً، وأن يكونَ الله له في جميع أحوالِهِ مجيباً، ولهذا قال تعالى: {فلا تزكُّوا أنفسَكم}؛ أي: تخبرون الناس بطهارتها على وجه التمدُّح عندهم، {هو أعلم بمن اتَّقى}؛ فإنَّ التَّقوى محلُّها القلبُ، والله هو المطَّلع عليه، المجازي على ما فيه من برٍّ وتقوى، وأما الناسُ؛ فلا يغنون عنكم من الله شيئاً.
[32] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان محسنین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ﴾ ’’جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ ان واجبات پر عمل کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے جن کا ترک کرنا کبائر میں شمار ہوتا ہے، وہ بڑے بڑے محرمات کو ترک کرتے ہیں ، مثلاً: زنا، شراب نوشی، سود خوری، قتل ناحق اور دیگر بڑے بڑے گناہ۔ ﴿ اِلَّا اللَّمَمَ﴾ ’’الا یہ کہ کوئی صغیرہ گناہ (سرزد) ہو۔‘‘ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن پر بندہ مصر نہیں ہوتا یا بار بار ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتا، ان صغیرہ گناہوں کا مجرد ارتکاب بندے کو محسنین کے زمرے سے نہیں نکالتا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ، واجبات پر عمل کرنے، اور محرمات کو چھوڑنے سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے تحت داخل ہو جاتے ہیں، جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے ۔اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْ٘مَغْفِرَةِ﴾ ’’بے شک آپ کا رب بڑی وسیع مغفرت والا ہے۔‘‘ پس اگر اللہ تعالیٰ کی مغفرت نہ ہوتی تو تمام روئے زمین اور بندے تباہ ہو جاتے، اگر اس کا عفو و حلم نہ ہوتا توآسمان زمین پر آگرتا اور روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا۔ بنابریں نبی ٔاکرم e نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک، ان کے درمیان ہونے والے تمام (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہیں، اگر کبائر سے اجتناب کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطہارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ ......، حدیث: 233) ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ﴾ ’’وہ تمھیں (اس وقت سے) بخوبی جانتا ہے جب اس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ تمھارے احوال، تمھاری جبلتوں کو جو اس نے پیدا کی ہیں، خوب جانتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو حکم دیا ہے ان میں سے بہت سے احکام کی تعمیل میں تمھاری کمزوری اور سستی کو، محرمات کے ارتکاب پر آمادہ کرنے والے دواعی کی کثرت کو، ان محرمات کی طرف راغب کرنے والے جذبات کو، اور محرمات کے ارتکاب کی راہ میں حائل ہونے والے موانع کے عدم وجود کو زیادہ جانتا ہے۔ تمھارے اندر کمزوری موجود ہے جس کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے تمھیں جس زمین سے نکالا اور جب تم اپنی ماؤ ں کے پیٹوں میں تھے اور یہ کمزوری تمھارے اندر ہمیشہ موجود رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک چیز کا حکم دیا اگرچہ اس کی تعمیل کے لیے اس نے تمھارے اندر قوت رکھی مگر پھر بھی کمزوری تمھارے اندر موجود رہی۔ پس اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ان احوال کا علم رکھتا ہے، حکمت الٰہی اور جُودِ ربّانی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنی رحمت و مغفرت، اپنے عفو و درگزر اور اپنے احسان سے ڈھانپ لے اور تم سے تمام جرائم اور گناہوں کو دور کر دے۔ خاص طور پر جبکہ ہر وقت بندے کا مقصد اپنے رب کی رضا کا حصول، ہر آن ایسے اعمال میں کوشش جو اس کے قریب کرتے ہیں اور ایسے گناہوں سے فرار جو اس کے آقا کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں ، پھر اس سے لغزش صادر ہوجائے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا کریم اور سب سے بڑا جواد ہے وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحیم ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے۔ پس اس قسم کے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب کی مغفرت کے قریب رہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام احوال میں اس کی دعائیں قبول کرے۔ بنابریں فرمایا :﴿ فَلَا تُزَؔكُّـوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’لہٰذا تم اپنے آپ کی پاکیزگی بیان نہ کرو۔‘‘ یعنی مدح کے حصول کی خواہش کی بنا پر لوگوں کو اپنے نفس کی طہارت کی خبر نہ دیتے پھرو ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّ٘قٰى﴾ ’’وہ اسے (بھی) خوب جانتا ہے جس نے تقویٰ اختیا رکیا۔‘‘ تقویٰ کا مقام دل ہے، اللہ تعالیٰ اس سے مطلع ہے ۔دل کے اندر جو نیکی، بدی یا تقویٰ موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا، رہے لوگ تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمھارے کام نہیں آ سکتے۔
آیت: 33 - 62 #
{أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى (33) وَأَعْطَى قَلِيلًا وَأَكْدَى (34) أَعِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى (35) أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى (36) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى (37) أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (38) وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى (41) وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى (42) وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى (43) وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا (44) وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (45) مِنْ نُطْفَةٍ إِذَا تُمْنَى (46) وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَى (47) وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَى وَأَقْنَى (48) وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى (49) وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَى (50) وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَى (51) وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَى (52) وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى (53) فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى (54) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَى (55) هَذَا نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَى (56) أَزِفَتِ الْآزِفَةُ (57) لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ (58) أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (59) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (60) وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ (61) فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا (62)}.
بھلا آپ نے دیکھا اسے جس نے رو گردانی کی؟ (33) اور اس نے دیا قلیل (مال) اور (پھر دینا) بند کر دیا (34) کیا اس کےپاس علم غیب ہے، کہ وہ (سب کچھ) دیکھ رہا ہے؟ (35) کیا نہیں خبر دیا گیا وہ اس چیز کی جو ہے صحیفوں میں موسیٰ کے؟ (36) اور ابراہیم کے، وہ جس نے پورا کیا (عہد اپنا)؟ (37) یہ کہ نہیں بوجھ اٹھائے گی کوئی(جان) بوجھ اٹھانے والی بوجھ کسی دوسری (جان) کا (38) اور یہ کہ نہیں ہے کسی انسان کے لیے مگر وہی جو اس نے کوشش کی (39) اور بلاشبہ کوشش اس کی عنقریب دیکھی جائے گی (40) پھر بدلہ دیا جائے گا اس کو بدلہ پورا (پورا) (41) اور بے شک آپ کے رب ہی کی طرف انتہا (پہنچنا) ہے (42) اور بلاشبہ وہی ہنساتا اور وہی رلاتا ہے (43) اور بے شک وہی مارتا اور وہی زندہ کرتا ہے (44) اور بلاشبہ اسی نے پیدا کیا جوڑا ( یعنی ) نر اور مادہ (45) نطفے سے جب وہ ڈالا جاتا ہے(رحم میں) (46) اور بلاشبہ اسی کے ذمہ ہے پیدائش دوسری بار بھی (47) اور بے شک وہی غنی (بے نیاز) کرتا اور سرمایہ دار بناتا ہے (48) اور یقیناً وہی ہے رب ِشعریٰ(ستارے)کا(49) اور بلاشبہ اسی نے ہلاک کیا عاد اولیٰ کو (50) اور ثمود کو، پس نہ باقی چھوڑا (کسی کو) (51) اور قوم نوح کو بھی پہلے(ان سے)، بلاشبہ وہ تھے بہت زیادہ ظالم اور بڑے سرکش (52) اور الٹ جانے والی بستی کو اس نے زمین پر دے مارا (53) پھر ڈھانپ لیا اس کو اس (تباہی و بربادی) نے جس نے ڈھانپا (54) پس کون سی نعمتوں میں اپنے رب کی (اے انسان!) تو شک کرے گا؟ (55) یہ (رسول) تو ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والوں میں سے (56) قریب آگئی قریب آنے والی (قیامت) (57) نہیں ہے اس قیامت (کی ہولناکیوں) کو، سوائے اللہ کے کوئی بھی ٹالنے والا (58) کیا پس اس بات (قرآن) سے تم تعجب کرتے ہو؟(59) اور تم ہنستے ہو، اور نہیں روتے (60) اور تم کھیل کود میں مست ہو (61) پس (باز آ جاؤ اور) سجدہ کرو اللہ کو اور عبادت کرو (اسی کی) (62)
#
{33 ـ 35} يقول تعالى: أفرأيتَ قُبْحَ حالة من أُمِرَ بعبادة ربِّه وتوحيده فتولَّى عن ذلك وأعرض عنه؟! فإنْ سمحتْ نفسُه ببعض الشيء القليل؛ فإنَّه لا يستمرُّ عليه، بل يبخل ويُكْدي ويمنعُ؛ فإنَّ الإحسان ليس سجيَّةً له وطبعاً، بل طبعه التولِّي عن الطاعة وعدم الثبوت على فعل المعروف، ومع هذا؛ فهو يزكِّي نفسه وينزلها غير منزلتها التي أنزلها الله بها. {أعنده علم الغيب فهو يرى}: الغيبَ فيخبر به؟! أم هو متقوِّلٌ على الله متجرِّئ عليه جامعٌ بين المحذورين الإساءة والتزكية؟! كما هو الواقع؛ لأنَّه قد عُلِمَ أنَّه ليس عنده علمٌ من الغيب، وأنَّه لو قدِّر أنَّه ادَّعى ذلك؛ فالإخبارات القاطعة عن علم الغيب التي على يد النبيِّ المعصوم تدلُّ على نقيض قوله، وذلك دليل على بطلانه.
[35-33] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَفَرَءَیْتَ﴾ کیا آپ نے اس شخص کا برا حال دیکھا جسے اپنے رب کی عبادت اور توحید کا حکم دیا گیا تھا مگر اس نے اس سے منہ موڑا اور اعراض کیا۔ اگر اس کا نفس قلیل سے عمل پر آمادہ ہوا بھی تو اس پر قائم نہ رہا، بلکہ اس نے بخل سے کام لیا اور اپنے ہاتھ کو روک لیا۔ کیونکہ احسان اس کی عادت اور فطرت نہیں، اس کی فطرت تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی اور نیکی پر عدم ثبات ہے۔ بایں ہمہ وہ اپنے نفس کو پاک گردانتا ہے اور اسے وہ منزلت عطا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں کی۔ ﴿اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَهُوَ یَرٰى ﴾ اس کے پاس علمِ غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے غیب کو اور اس کے بارے میں خبر دیتا ہے؟ یا وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتا ہے۔ وہ دونوں باتوں کو جمع کرنے کی جسارت کرتا ہے، یعنی برائی اور طہارت نفس کے دعوے کو اور فی الواقع ایسا ہی ہے، کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کے پاس غیب کا کچھ بھی علم نہیں اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اسے غیب دانی کا دعویٰ ہے تو علم غیب کے متعلق قطعی اور یقینی خبریں، جو نبئ معصوم کی طرف سے دی گئی ہیں، اس کے قول کے تناقض پر دلالت کرتی ہیں اور یہ اس کے قول کے بطلان کی دلیل ہے۔
#
{36 ـ 37} {أم لم يُنَبَّأْ}: هذا المدَّعي {بما في صُحُف موسى. وإبراهيم الذي وَفَّى}؛ أي: قام بجميع ما ابتلاه الله به، وأمره به من الشرائع وأصول الدين وفروعه.
[36، 37] ﴿اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ﴾ کیا اس مدعی کو وہ خبریں نہیں پہنچیں ﴿بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰؔى۰۰ وَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤى ﴾ ’’جو موسیٰ اور وفادار ابراہیم (i) کے صحیفوں میں ہیں؟‘‘ یعنی حضرت ابراہیمu ان تمام آزمائشوں میں پورے اترے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ڈالا، اور جن احکام شریعت اور دین جن کے اصول و فروع کا آپ کو حکم دیا، آپ نے اس کی تعمیل کی۔
#
{38 ـ 41} وفي تلك الصحف أحكامٌ كثيرةٌ، من أهمِّها ما ذكره الله بقوله: {أن لا تزِرَ وازرةٌ وِزْرَ أخرى. وأن ليس للإنسان إلاَّ ما سَعى}؛ أي: كلُّ عامل له عمله الحسن والسيئُ؛ فليس له من عمل غيره وسعيه شيء، ولا يتحمَّل أحدٌ عن أحدٍ ذنباً، {وأنَّ سعيَه سوف يُرى}: في الآخرة، فيميَّز حسنُه من سيِّئه، {ثم يُجْزاه الجزاءَ الأوفى}؛ أي: المستكمل لجميع العمل، الخالص الحسن بالحسنى، والسيئ الخالص بالسوأى، والمشوب بحسبه؛ جزاء تُقِرُّ بعدله وإحسانه الخليقة كلها، وتَحْمَدُ الله عليه، حتى إنَّ أهل النار ليدخلون النار، وإنَّ قلوبهم مملوءةٌ من حمد ربِّهم والإقرار له بكمال الحكمة ومقت أنفسهم، وأنَّهم الذين أوصلوا أنفسهم وأوردوها شرَّ الموارد. وقد استدل بقوله [تعالى]: {وأن ليس للإنسان إلاَّ ما سعى}: من يرى أنَّ القُرَب لا يجوز إهداؤها للأحياء ولا للأموات، قالوا: لأنَّ الله قال: {وأن ليس للإنسان إلاّ ما سعى}؛ فوصول سعي غيره إليه منافٍ لذلك. وفي هذا الاستدلال نظرٌ؛ فإنَّ الآية إنما تدلُّ على أنه ليس للإنسان إلا ما سعى بنفسه، وهذا حقٌّ لا خلاف فيه، وليس فيها ما يدلُّ على أنَّه لا ينتفع بسعي غيره إذا أهداه ذلك الغير إليه ؛ كما أنَّه ليس للإنسان من المال إلاَّ ما هو في ملكه وتحت يده، ولا يلزم من ذلك أن لا يملِكَ ما وَهَبَه الغير له من مالِهِ الذي يملِكُه.
[41-38] ان صحیفوں میں بہت سے احکام درج تھے جن میں سے سب سے اہم وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے: ﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ۰۰ وَاَنْ لَّ٘یْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ یعنی ہر عمل کرنے والے کا اچھا برا عمل اسی کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کے عمل اور کوشش میں سے اس کے لیے کچھ بھی نہیں اور نہ کوئی کسی اور کے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ ﴿وَاَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى﴾ یعنی آخرت میں اسے اس کی کوشش دکھائی جائے گی اور وہ اپنی نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے گا۔ ﴿ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَآءَؔ الْاَوْفٰى﴾ ’’پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ یعنی تمام اعمال کی کامل جزا، خالص نیک عمل کے لیے اچھی جزا ہو گی، خالص برے عمل کے لیے بری جزا ہو گی اور ملے جلے اعمال کی جزا ان کے مطابق ہو گی۔ اور یہ ایسی جزا ہو گی کہ تمام مخلوق اس کے عدل و احسان کا اقرار اور اس پر اس کی حمد و ثنا بیان کرے گی حتیٰ کہ جہنمی جہنم میں داخل ہو رہے ہوں گے مگر ان کے دل اپنے رب کی حمد و ثنا ، اس کی کامل حکمت کے اقرار اور اپنے آپ پر سخت ناراضی سے لبریز ہوں گے، نیز وہ اس بات پر ناراض ہوں گے کہ انھوں نے اپنے آپ کو بدترین جگہ پر وارد کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَاَنْ لَّ٘یْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ سے استدلال کیا گیا ہے کہ کسی شخص کا زندوں او رمردوں کے لیے ہدیہ کرنا، ان کے لیے کوئی مفید نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَاَنْ لَّ٘یْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی۔‘‘ چنانچہ کسی شخص کی سعی اور اس کے عمل کا کسی اور کو پہنچنا اس آیت کے منافی ہے۔ مگر یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ آیت کریمہ تو صرف یہ دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کے لیے اس نے خود کوشش کی اور یہ حق ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، مگر اس میں کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ وہ غیر کی سعی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جبکہ غیر نے اپنی سعی اور عمل کو اسے ہدیہ کے طور پر پیش کیا ہو۔ جیسے انسان صرف اسی مال کا مالک ہے جو اس کی ملکیت اور اس کے قبضہ میں ہو مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی ایسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا جو غیر نے اپنے مال میں سے جس کا وہ مالک ہے، اسے ہبہ کی ہو۔
#
{42} وقوله: {وأنَّ إلى ربِّك المنتهى}؛ أي: إليه تنتهي الأمور، وإليه تصير الأشياء والخلائقُ بالبعث والنُّشور، وإلى الله المنتهى في كلِّ حال؛ فإليه ينتهي العلم والحكم والرحمة وسائر الكمالات.
[42] ﴿وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْ٘مُنْ٘تَهٰى﴾ یعنی تمام معاملات کو تیرے رب کے پاس ہی پہنچنا ہے۔ تمام اشیاء اور تمام مخلوقات، دوبارہ زندہ ہو کر اسی کی طرف لوٹیں گی۔ ہر حال میں منتہیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ علم کی انتہا اللہ تعالیٰ پر ہے، حکم، رحمت اور تمام کمالات کی انتہا اللہ تعالیٰ ہے۔
#
{43} {وأنَّه هو أضحكَ وأبكى}؛ أي: هو الذي أوجد أسباب الضحك والبكاء، وهو الخير والشرُّ والفرح والسرور والهمُّ والحزن، وهو سبحانه له الحكمة البالغةُ في ذلك.
[43] ﴿وَاَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰى﴾ یعنی وہی ہے جو ہنسنے اور رونے کے اسباب وجود میں لاتا ہے، یہ اسباب خیر، شر، فرحت، مسرت اور حزن و غم پر مشتمل ہیں اور ہنسانے اور رلانے کے اندر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پوشیدہ ہے۔
#
{44} {وأنَّه هو أماتَ وأحيا}؛ أي: هو المنفرد بالإيجاد والإعدام، والذي أوجد الخلق وأمرهم ونهاهم، سيعيدُهم بعد موتهم، ويجازيهم بتلك الأعمال التي عملوها في دار الدُّنيا.
[44] ﴿وَاَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَاَحْیَا﴾ یعنی وہ وجود میں لانے اور معدوم کرنے میں متفرد اور یکتا ہے جس نے مخلوق کو وجود بخشا، ان کو اوامر و نواہی عطا کیے، وہی ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا اور دنیا کے اندر انھوں نے جو عمل کیے ہوں گے وہ انھیں ان اعمال کی جزا دے گا۔
#
{45 ـ 46} {وأنَّه خَلَقَ الزوجين}: فسَّرهما بقوله: {الذَّكَر والأنثى}: وهذا اسمُ جنس شامل لجميع الحيوانات ناطقها وبهيمها؛ فهو المنفرد بخلقها {من نُطفةٍ إذا تُمنى}: وهذا من أعظم الأدلَّة على كمال قدرته وانفراده بالعزَّة العظيمة؛ حيث أوجد تلك الحيوانات صغيرها وكبيرها من نطفةٍ ضعيفةٍ من ماءٍ مَهينٍ، ثم نمَّاها وكمَّلها حتى بلغت ما بلغتْ، ثم صار الآدميُّ منها إمَّا إلى أرفع المقامات في أعلى عليين، وإمَّا إلى أدنى الحالات في أسفل سافلين.
[45، 46] ﴿وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ﴾ ’’اور بلاشبہ اسی نے جوڑے بنائے۔‘‘ پھر ان جوڑوں کی تفسیر بیان فرمائی ﴿الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى﴾ ’’نر اور مادہ‘‘ یہ ا سم جنس ہے جو تمام حیوانات، ناطق اور غیر ناطق بہائم سب کو شامل ہے، وہ ان کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ ﴿مِنْ نُّطْفَةٍ اِذَا تُمْنٰى﴾ ’’نطفے سے جبکہ وہ (رحم میں) ڈالا جاتا ہے۔‘‘ یہ اس کی قدرت کاملہ اور اس کے عظیم غلبہ میں متفرد ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نے تمام چھوٹے بڑے حیوانات کو، حقیر پانی کے نہایت کمزور قطرے سے وجود بخشا، پھر ان کو نشوونما دے کر مکمل کیا، حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ ان حیوانات میں سے آدمی یا تو بلند ترین مقام پر اعلیٰ علیین میں پہنچ جاتا ہے یا وہ ادنیٰ ترین احوال، پست ترین مقامات کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
#
{47} ولهذا استدلَّ بالبداءة على الإعادة، فقال: {وأنَّ عليه النشأةَ الأخرى}: فيعيد العباد من الأجداث، ويجمعهم ليوم الميقات، ويجازيهم على الحسنات والسيئات.
[47] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے وجود کے ذریعے سے اعادۂ وجود پر استدلال کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاَنَّ عَلَیْهِ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى﴾ پس اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی قبروں میں سے دوبارہ زندہ کرے گا، ان کو یوم موعود میں اکٹھا کرے گا اور ان کو ان کی نیکیوں اور برائیوں کی جزا دے گا۔
#
{48} {وأنَّه هو أغنى وأقنى}؛ أي: أغنى العباد بتيسير أمر معاشهم من التِّجارات وأنواع المكاسب من الحِرَف وغيرها، {وأقنى}؛ أي: أفاد عباده من الأموال بجميع أنواعها ما يصيرون به مقتنين لها ومالكين لكثيرٍ من الأعيان، وهذا من نعمه تعالى؛ أنْ أخبرهم أنَّ جميع النعم منه، وهذا يوجب للعبادِ أنْ يشكُروه ويعبدُوه وحدَه لا شريك له.
[48] ﴿وَاَنَّهٗ هُوَ اَغْ٘نٰى وَاَ٘قْنٰى ﴾ ’’اور بے شک وہی غنی کرتا ہے اور وہی دولت دیتا ہے۔‘‘ وہ بندوں کو ان کے معاشی معاملات یعنی تجارت اور صنعت و حرفت کے مختلف پیشوں میں آسانی پیدا کر کے مال دار بناتا ہے۔ ﴿وَاَ٘قْنٰى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کو مال کی تمام انواع عطا کرتا ہے جس سے وہ مال دار بن کر بہت سے اموال کے مالک بن جاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے بندوں کو آگاہ فرمایا کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور یہ چیز بندوں پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور اسی اکیلے کی عبادت کریں جس کا کوئی شریک نہیں۔
#
{49} {وأنَّه هو ربُّ الشِّعرى}: وهو النجم المعروف بالشِّعْرى العبور، المسماة بالمرزم، وخصَّها الله بالذِّكر وإن كان هو ربُّ كلِّ شيء؛ لأنَّ هذا النجم مما عُبد في الجاهلية، فأخبر تعالى أنَّ جنس ما يعبد المشركون مربوبٌ مدبَّرٌ مخلوقٌ؛ فكيف يُتَّخَذُ مع الله آلهة؟!
[49] ﴿وَاَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّ٘عْرٰى ﴾ ’’اور یقیناً وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے۔‘‘ یہ مشہور ستارہ’’شعریٰ عبور‘‘ ہے جو’’مرزم‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اگرچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز کا رب ہے تاہم شعریٰ کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا ہے کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ اشیاء جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں مربوب، مدبر اور مخلوق ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو کیسے معبود قرار دیا جا سکتا ہے۔
#
{50} {وأنَّه أهلك عاداً الأولى}: وهم قوم هودٍ عليه السلام حين كذَّبوا هوداً، فأهلكهم الله بريح صرصرٍ عاتيةٍ.
[50] ﴿وَاَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَنِا الْاُوْلٰى﴾ ’’اور بلاشبہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔‘‘ اس سے مراد حضرت ہود uکی قوم ہے، جب انھوں نے حضرت ہودu کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت تیز اور سرکش طوفان کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا۔
#
{51} {وثمودَ}: قومُ صالح عليه السلام؛ أرسله الله إلى ثمود، فكذَّبوه، فبعث الله إليهم الناقة آية، فعقروها وكذَّبوه، فأهلكهم الله [تعالى]، {فما أبقى}: منهم أحداً، بل أبادهم عن آخرهم.
[51] ﴿وَثَمُوْدَاۡؔ ﴾ ’’اور ثمود کو (ہلاک کیا۔) ‘‘ یہ حضرت صالحu کی قوم تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت صالح uکو ثمود کی طرف مبعوث کیا مگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ نے معجزے کے طور پر ان کی طرف اونٹنی بھیجی، مگر انھوں نے اس کو ہلاک کر ڈالا اور صالح کو جھٹلایا، پس (اس کی پاداش میں) اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر دیا ﴿ فَمَاۤ اَبْقٰى﴾ اور ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ رکھا بلکہ ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر دیا۔
#
{52} {وقومَ نوح من قبلُ إنَّهم كانوا هم أظلمَ وأطْغى}: من هؤلاء الأمم، فأهلكهم الله وأغرقهم.
[52] ﴿وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا هُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰى ﴾ ’’اور ان سے پہلے قوم نوح کو بھی، کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے۔‘‘ حضرت نوحu کی قوم ان قوموں سے زیادہ ظالم اور سرکش تھی، پس اللہ تعالیٰ نے ان کو غرق کر کے ہلاک کر ڈالا۔
#
{53 ـ 54} {والمؤتفكةَ}: وهم قومُ لوطٍ عليه السلام، {أهوى}؛ أي: أصابهم الله بعذابٍ ما عذَّب به أحداً من العالمين، قلب أسفل ديارهم أعلاها، وأمطر عليهم حجارة من سجِّيل، ولهذا قال: {فغشَّاها ما غَشَّى}؛ أي: غشيها من العذاب الأليم الوخيم ما غشي؛ أي: شيءٌ عظيمٌ لا يمكن وصفه.
[53، 54] ﴿وَالْمُؤْتَفِكَةَ ﴾ ’’اور الٹی ہوئی بستی کو (بھی)‘‘ اس سے مراد اس میں آباد حضرت لوط uکی قوم ہے ﴿اَهْوٰى ﴾ ’’اس نے دے پٹکا۔‘‘ یعنی ان پر اللہ تعالیٰ نے ایسا عذاب بھیجا جو دنیا میں کسی پر نہیں بھیجا ، اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کر دیا اور ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسائی۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَغَشّٰىهَا مَا غَ٘شّٰؔى ﴾ ان پر انتہائی درد ناک اور بدترین عذاب چھا گیا، یعنی عذاب ایک بڑی چیز تھی جس کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں۔
#
{55} {فبأيِّ آلاءِ ربِّك تتمارى}؛ أي: فبأيِّ نعم الله وفضله تشكُّ أيُّها الإنسان؛ فإنَّ نعم الله ظاهرةٌ لا تقبل الشكَّ بوجه من الوجوه؛ فما بالعباد من نعمةٍ إلاَّ منه تعالى، ولا يدفع النِّقَم إلاَّ هو.
[55] ﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى ﴾ ’’پھر اے انسان! تو اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں میں شک کرے گا؟‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بالکل ظاہر ہیں جو کسی بھی لحاظ سے شک کے قابل نہیں۔ پس بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اس کے سوا کوئی مصائب کو دور نہیں کر سکتا۔
#
{56} {هذا نذيرٌ من النُّذُر الأولى}؛ أي: هذا الرسول القرشيُّ الهاشميُّ محمد بن عبد الله ليس ببدع من الرسل، بل قد تقدَّمه من الرسل السابقين، ودعوا إلى ما دعا إليه؛ فلأيِّ شيءٍ تنكر رسالته؟! وبأيِّ حجَّة تبطل دعوته؟! أليست أخلاقه أعلى أخلاق الرسل الكرام؟! أليس يدعو إلى كلِّ خير وينهى عن كل شرٍّ ؟! ألم يأت بالقرآن الكريم الذي لا يأتيه الباطلُ من بين يديهِ ولا من خلفه تنزيلٌ من حكيمٍ حميدٍ؟! ألم يُهلك الله مَن كَذَّب مَن قبله من الرسل الكرام؟! فما الذي يمنع العذابَ عن المكذِّبين لمحمد سيِّد المرسلين وإمام المتَّقين وقائد الغرِّ المحجَّلين؟!
[56] ﴿هٰؔذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى ﴾ ’’یہ (رسول) تو پہلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے۔‘‘ یعنی یہ قریشی، ہاشمی رسول محمد بن عبداللہ (e) کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں بلکہ آپ سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں، جنھوں نے اسی چیز کی طرف دعوت دی تھی ، جس کی طرف آپ نے دعوت دی ہے، تب آپ کی رسالت کا کس وجہ سے انکار کیا جا سکتا ہے اور کون سی دلیل ہے جس کی بنیاد پر آپ کی رسالت کو باطل ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا آپ کے اخلاق تمام انبیاء و مرسلین کرام کے اخلاق سے اعلیٰ و ارفع نہیں ہیں؟ کیا آپ ہر بھلائی کی طرف دعوت نہیں دیتے اور ہر برائی سے نہیں روکتے؟ کیا آپ قرآن کریم لے کر تشریف نہیں لائے، جس کے آگے سے باطل آ سکتا ہے نہ پیچھے سے ، جو حکمت والی قابل حمد و ستائش ہستی کی طرف سے اتارا ہوا ہے؟آپ سے پہلے جن لوگوں نے انبیائے کرام کو جھٹلایا، کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک نہیں کیا؟ تب سیدالمرسلین، امام المتقین اور قَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِین حضرت محمدe کی تکذیب کرنے والوں پر عذاب نازل ہونے سے کیا چیز مانع ہے؟
#
{57} {أزِفَتِ الآزفةُ}؛ أي: قربت القيامة ودنا وقتُها وبانت علاماتها، {ليس لها من دونِ الله كاشفةٌ}؛ أي: إذا أتت القيامة وجاءهم العذابُ الموعود به.
[57] ﴿اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ﴾ یعنی قیامت قریب آ گئی، اس کا وقت آن پہنچا اور اس کی علامات واضح ہو گئیں ﴿لَ٘یْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَاشِفَةٌ ﴾ یعنی جب قیامت آ جائے گی اور ان پر عذاب موعود ٹوٹ پڑے گاتو اسے اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکے گا ۔
#
{58} ثم توعَّد المنكرين لرسالة الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، المكذِّبين لما جاء به من القرآن الكريم، فقال:
[58] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد کریم e کی نبوت کا انکار کرنے والوں اور قرآن کو جھٹلانے والوں کو وعید سنائی۔
#
{59} {أفمِنْ هذا الحديث تعجبونَ}؛ أي: أفمن هذا الحديث الذي هو خير الكلام وأفضله وأشرفه تتعجبون، وتجعلونه من الأمور المخالفة للعادة، الخارقة للأمور والحقائق المعروفة؟! هذا من جهلهم وضلالهم وعنادهم، وإلاَّ؛ فهو الحديث الذي إذا حَدَّث صَدَق، وإذا قال قولاً فهو القول الفصل، ليس بالهزل، وهو القرآن العظيم، الذي لو أُنْزِل على جبل لرأيتَه خاشعاً متصدعاً من خشية الله، الذي يزيد ذوي الأحلام رأياً وعقلاً وتسديداً وثباتاً وإيقاناً وإيماناً، بل الذي ينبغي العَجَبُ من عقل من تعجَّب منه وسفهه وضلاله.
[59] چنانچہ فرمایا: ﴿اَفَ٘مِنْ هٰؔذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ﴾ یعنی کیا تم اس کلام پر، جو بہترین اور افضل و اشرف کلام ہے، تعجب کرتے ہو اور اسے امور عادیہ اور حقائق معروفہ کے خلاف قرار دیتے ہو؟ یہ ان کی جہالت، گمراہی اور عناد ہے، ورنہ یہ تو ایسا کلام ہے کہ جب وہ بیان کیا جاتا ہے تو سرا سر صدق ہے، جب وہ بات کہتا ہے تو وہ حق کو باطل سے جدا کرنے والا قول ہے، بے ہو دہ بات نہیں ہے، یہ قرآن عظیم ہے، جسے اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو دیکھتا کہ وہ خوف اور ڈر سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ جو اصلاح کی طلب رکھنے والوں کی رائے، عقل، راست بازی، ثابت قدمی اور ایمان و ایقان میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب تو اس شخص کی عقل، سفاہت اور گمراہی پر ہونا چاہیے جو اس قرآن پر تعجب کرتا ہے۔
#
{60} {وتضحكون ولا تبكونَ}؛ أي: تستعجلون الضَّحك والاستهزاء به، مع أنه الذي ينبغي أن تتأثَّر منه النفوس وتلين له القلوب وتبكي له العيون؛ سماعاً لأمره ونهيه، وإصغاءً لوعده ووعيده، والتفاتاً لأخباره الصادقة الحسنة.
[60] ﴿وَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَ ﴾ ’’اور تم ہنستے ہو، روتے نہیں ہو۔‘‘ یعنی تم اس کی تضحیک کرنے اور تمسخر اڑانے میں جلدی کر رہے ہو، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے اوامر و نواہی کو سن کر، اس کے وعد و وعید پر توجہ دے کر، اور اس کی سچی اور اچھی خبروں کی طرف التفات کر کے نفوس اس سے متاثر ہوتے، دل نرم پڑتے اور آنکھیں رو پڑتیں۔
#
{61} {وأنتُم سامدونَ}؛ أي: غافلون لاهون عنه وعن تدبُّره ، وهذا من قلَّة عقولكم وأديانكم؛ فلو عبدتم الله وطلبتم رضاه في جميع الأحوال؛ لما كنتُم بهذه المثابة التي يأنف منها أولو الألباب.
[61] ﴿وَاَنْتُمْ سٰؔمِدُوْنَ﴾ ’’اور تم غفلت میں پڑ رہے ہو۔‘‘ یعنی تم اس سے اور اس پر تدبر کرنے سے غافل ہو، یہ غفلت تمھاری قلت عقل اور تمھارے دین کی کھوٹ پر دلالت کرتی ہے۔ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوتی اور اپنے تمام احوال میں اس کی رضا کے طلب گار رہے ہوتے تو تمھیں یہ بدلہ نہ ملتا جسے عقل مند لوگ ناپسند کرتے ہیں۔
#
{62} ولهذا قال تعالى: {فاسجُدوا لله واعبدوا}: الأمر بالسجود لله خصوصاً يدلُّ على فضله، وأنَّه سرُّ العبادة ولبُّها؛ فإنَّ روحها الخشوع لله والخضوع له، والسجود [هو] أعظم حالة يخضع بها [العبد] ؛ فإنَّه يخضع قلبه وبدنه، ويجعل أشرف أعضائه على الأرض المهينة موضع وطء الأقدام. ثم أمر بالعبادة عموماً الشاملة لجميع ما يحبُّه الله ويرضاه من الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة.
[62] ﴿فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا﴾ ’’ پس اللہ کے حضور سجدہ کرو او راسی کی عبادت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص طور پر سجدے کا حکم دینا اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے، نیز یہ کہ سجدہ عبادت کا سر نہاں اور اس کا لب لباب ہے، اس کی روح خشوع و خضوع ہے۔ حالت سجدہ بندے کا وہ عظیم ترین حال ہے جس میں بندے پر خضوع طاری ہوتا ہے، بندے کا قلب و بدن دونوں خضوع کی حالت میں ہوتے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا بلند ترین عضو اس حقیر زمین پر رکھ دیتا ہے جو قدموں کے روندنے کا مقام ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر عبادت کا حکم دیا جو ان تمام اعمال اور اقوال ظاہرہ و باطنہ کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا اور ان سے راضی ہوتا ہے۔