آیت:
تفسیر سورۂ قٓ
تفسیر سورۂ قٓ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 4 #
{ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ (1) بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ (2) أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (3) قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ (4)}
قٓ! قسم ہے قرآن مجید کی(1)بلکہ انھوں نے تعجب کیا کہ آیا ان کے پاس ایک ڈرانے والا انھی میں سے، تو کہا کافروں نے یہ ایک عجیب چیز ہے(2) کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں گے ہم مٹی (تو کیا ہم اٹھائے جائیں گے؟) یہ واپسی تو بہت بعید ہے(3) تحقیق ہمیں علم ہے جو کچھ کم کرتی ہے زمین ان میں سے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے (ہر چیز کی) حفاظت کرنے والی(4)
#
{1} يقسم تعالى بـ {القرآنِ المجيد}؛ أي: وسيع المعاني، عظيمها، كثير الوجوه، كثير البركات، جزيل المبرات، والمجد سعة الأوصاف وعظمتها، وأحق كلام يوصف بذلك هذا القرآن، الذي قد احتوى على علوم الأوَّلين والآخرين، الذي حوى من الفصاحة أكملَها، ومن الألفاظ أجزلَها، ومن المعاني أعمَّها وأحسنها.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی قسم کھاتا ہے۔ یعنی اس کے معانی بہت وسیع اور عظیم، اس کے پہلو بے شمار ہیں، اس کی برکات بے پایاں اور اس کی عنایات بہت زیادہ ہیں۔ (مَجْد) کا معنی ہے اوصاف کی وسعت اور ان کی عظمت۔ (مجد) سے موصوف ہونے کا سب سے زیادہ مستحق کلام، یہ قرآن ہے جو اولین و آخرین کے علوم پر مشتمل ہے، جس کی فصاحت کامل ترین، جس کے الفاظ عمدہ ترین اور جس کے معانی عام اور حسین ترین ہیں۔
#
{2} وهذا موجب لكمال اتِّباعه وسرعة الانقياد له وشكر الله على المنَّة به، ولكن أكثر الناس لا يقدِّر نعمَ الله قَدْرَها، ولهذا قال تعالى: {بلْ عَجِبوا}؛ أي: المكذِّبون للرسول - صلى الله عليه وسلم -، {أن جاءَهُم منذرٌ منهم}؛ أي: يُنْذرهم ما يضرُّهم ويأمرهم بما ينفعهم، وهو من جنسهم، يمكنُهم التلقِّي عنه ومعرفة أحوالِه وصدقِه، فتعجَّبوا من أمرٍ لا ينبغي لهم التعجُّب منه، بل يتعجَّب من عَقل من تعجب منه، {فقالَ الكافرون}؛ أي: الذين حَمَلَهُم كفرُهم وتكذيبُهم لا نقص بذكائِهِم وآرائِهِم: {هذا شيءٌ عجيبٌ}؛ أي: مستغربٌ. وهم في هذا الاستغراب بين أمرين: إمَّا صادقونَ في استغرابهم وتعجُّبهم؛ فهذا يدلُّ على غاية جهلهم وضعف عقولهم؛ بمنزلة المجنون الذي يستغربُ كلامَ العاقل، وبمنزلة الجبانِ الذي يتعجَّب من لقاء الفارس للفرسان، وبمنزلة البخيل الذي يستغرب سخاء أهل السَّخاء؛ فأيُّ ضررٍ يلحق من تعجب مَن هذه حالُه؟! وهل تعجُّبه إلا دليلٌ على زيادة جهله وظلمه ؟! وإما أن يكونوا متعجِّبين على وجهٍ يعلمون خطأهم فيه؛ فهذا من أعظمِ الظُّلم وأشنعِه.
[2] یہ اوصاف اس کی کامل اتباع، اس کی فوری اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر شکر کے موجب ہیں۔مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے بنابریں فرمایا: ﴿ بَلْ عَجِبُوْۤا﴾ یعنی رسول مصطفیe کو جھٹلانے والے تعجب کرتے ہیں۔ ﴿ اَنْ جَآءَهُمْ مُّؔنْذِرٌؔ﴾ یعنی ان ہی میں سے ایک متنبہ کرنے والا آیا، جو انھیں ایسے امور کے بارے میں متنبہ کرتا ہے جو انھیں نقصان دیتے ہیں اور وہ انھیں ایسے امور کا حکم دیتا ہے جو انھیں فائدہ دیتے ہیں، اور وہ خود ان کی جنس سے ہے جس سے علم حاصل کرنا، اس کے احوال اور اس کی صداقت کے بارے میں معرفت حاصل کرنا ممکن ہے۔ پس انھوں نے ایک ایسے امر پر تعجب کیا جس پر تعجب کرنا ان کے لیے مناسب نہیں بلکہ اس پر تعجب کرنے والی عقل پر تعجب کرنا چاہیے۔ ﴿ فَقَالَ الْ٘كٰفِرُوْنَ﴾ ’’ کافر کہنے لگے۔‘‘ جس نے ان کو اس تعجب پر آمادہ کیا ہے وہ ان کی ذہانت اور عقل کی کمی نہیں بلکہ ان کا کفر اور تکذیب ہے۔ ﴿هٰؔذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ﴾ یہ بڑی انوکھی چیز ہے، ان کا اس کو انوکھا اور نادر سمجھنا دو امور میں سے کسی ایک پر مبنی ہے۔ (۱) یا تو وہ اپنے تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے میں سچے ہیں، تب یہ چیز ان کی جہالت اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے، اس پاگل اور مجنون شخص کی مانند، جو عقل مند شخص کے کلام پر تعجب کرتا ہے، اس بزدل شخص کی مانند جو شہسوار کے شہسواروں کے ساتھ بھڑ جانے پر تعجب کرتا ہے اور اس کنجوس کی مانند جو سخی لوگوں کی سخاوت پر تعجب کرتا ہے جس کا یہ حال ہو، اس کے تعجب کرنے سے کون سا نقصان ہے؟ کیا اس کا تعجب اس کی بہت زیادہ جہالت اور اس کے ظلم کی دلیل نہیں؟ (۲) یا ان کا تعجب اس لحاظ سے ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی غلطی کو جانتے ہیں، تب یہ سب سے بڑا اور بد ترین ظلم ہے۔
#
{3 ـ 4} ثم ذكر وجه تعجُّبهم، فقال: {أإذا مِتْنا وكُنَّا تراباً ذلك رَجْعٌ بعيدٌ}: فقاسوا قدرة من هو على كلِّ شئٍ قديرٌ الكامل من كلِّ وجهٍ، بقدرة العبد الفقير العاجز من جميع الوجوه! وقاسوا الجاهلَ الذي لا علمَ له، بمن هو بكلِّ شيءٍ عليمٌ، الذي يعلم {ما تَنقُصُ الأرضُ}: من أجسادهم مدَّة مقامِهم في البرزخِ ، وقد أحصى في كتابه الذي هو عنده ـ محفوظٌ عن التغيير والتبديل ـ كلَّ ما يجري عليهم في حياتهم ومماتهم. وهذا استدلالٌ بكمال سعة علمه ، التي لا يحيطُ بها إلاَّ هو على قدرته على إحياء الموتى.
[4,3] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے تعجب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا١ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ﴾ ’’بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے (تو کیا پھر زندہ ہوں گے) یہ زندہ ہونا بعید ہے۔‘‘ انھوں نے اس ہستی کی قدرت کو، جو ہر چیز پر قادر اور ہر لحاظ سے کامل ہے محتاج بندے کی قدرت پر قیاس کیا ہے جو ہر لحاظ سے عاجز ہےاور جاہل کو، جسے کسی چیز کا علم نہیں، اس ہستی پر قیاس کیا ہے جو ہر چیز کا علم رکھتی ہے اور برزخ میں قیام کی مدت کے دوران، زمین ان کے اجساد میں جو کمی کرتی ہے، وہ اسے بھی جانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں درج کر رکھا ہے، یعنی جو کچھ ان کی زندگی اور موت میں ان کے ساتھ وقوع پذیر ہو گا، اس کے بارے میں یہ کتاب ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل اور وسیع علم کے ذریعے سے ، جس کا اس کے سوا اور کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، اس کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت پر استدلال ہے۔
آیت: 5 #
{بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ (5)}
بلکہ انھوں نے جھٹلایا حق کو جب وہ آیا ان کے پاس، پس وہ ایک الجھے ہوئے معاملے میں ہیں(5)
#
{5} أي: {بل}: كلامُهم الذي صدر منهم إنَّما هو عنادٌ وتكذيبٌ للحقِّ الذي هو أعلى أنواع الصدق. {لمَّا جاءهم فهم في أمرٍ مَريجٍ}؛ أي: مختلطٍ مشتبهٍ، لا يثبتون على شيءٍ، ولا يستقرُّ لهم قرارٌ، فتارةً يقولون عنك: إنَّك ساحرٌ! وتارةً: مجنونٌ! وتارة: شاعرٌ! وكذلك جعلوا القرآن عِضين، كلٌّ قال فيه ما اقتضاه فيه رأيُه الفاسدُ. وهكذا كلُّ من كذَّب بالحقِّ؛ فإنَّه في أمرٍ مختلطٍ، لا يدرى له وجهٌ ولا قرارٌ، فترى أموره متناقضةً مؤتفكةً؛ كما أنَّ من اتَّبع الحقَّ وصدق به قد استقام أمرُه واعتدل سبيلُه، وصدق فعلُه قيلَه.
[5] ﴿ بَلْ﴾ ان کا وہ کلام جو ان سے صادر ہوا ہے، محض عناد اور تکذیب ہے جو صدق کی بلند ترین نوع ہے۔ ﴿ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِیْۤ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ﴾ ’’جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک الجھاؤ میں پر گئے۔‘‘ یعنی وہ ایک مختلف اور مشتبہ معاملے میں پڑے ہوئے ہیں، کسی چیز پر انھیں ثبات حاصل ہے نہ قرار۔ کبھی تو آپ کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’تو جادوگر ہے‘‘ کبھی کہتے ہیں ’’تو پاگل ہے‘‘ اور کبھی کہتے ہیں ’’تو شاعر ہے‘‘ اسی طرح انھوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، وہ مشتبہ معاملے میں پڑا ہوا ہے، اسے کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ قرار آتا ہے۔ اس لیے تو اس کے معاملات کو باہم متناقض اور افک و بہتان پر مبنی پائے گا۔ جو کوئی حق کی اتباع اور اس کی تصدیق کرتا ہے، اس کا معاملہ درست اور اعتدال کی راہ پر ہوتا ہے، اس کا فعل، اس کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔
آیت: 6 - 11 #
{أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (6) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (7) تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ (8) وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ (9) وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ (10) رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ (11)}
کیا پس نہیں دیکھا انھوں نے آسمان کی طرف اپنے اوپر (کہ) کیسا بنایا ہم نے اس کو اور ہم نے مزین کیا اسے اور نہیں اس میں کوئی شگاف؟(6) اور زمین کو، پھیلایا ہم نے اسے، اور ڈال (گاڑ) دیے ہم نے اس میں مضبوط پہاڑ، اور ہم نے اگائی اس میں ہر ایک قسم خوشنما(7) بطور بصیرت اور نصیحت کے ہر اس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والا ہے(8) اور نازل کیا ہم نے آسمان سے پانی بابرکت، پھر ہم نے اگائے اس کے ذریعے سے باغات اور اناج (اور غلے) کاٹی جانے والی (کھیتی) کے(9) اور کھجوریں بلند و بالا، ان کے شگوفے ہیں تہ بہ تہ (10) روزی کے لیے بندوں کی اور ہم نے زندہ کیا اس (پانی) کے ذریعے سے ایک شہر مردہ (بنجر زمین) کو، اسی طرح (قبروں سے) نکلنا ہے (11)
#
{6} لمَّا ذكر تعالى حالة المكذِّبين وما ذمَّهم به؛ دعاهم إلى النَّظر في آياته الأفقيَّة كي يعتبروا ويستدلُّوا بها على ما جُعلت أدلةً عليه، فقال: {أفلمْ ينظُروا إلى السماءِ فوقَهم}؛ أي: لا يحتاجُ ذلك النظرُ إلى كلفةٍ وشدِّ رحل، بل هو في غاية السهولة، فينظرون {كيفَ بَنَيْناها}: قبةً مستويةَ الأرجاء ثابتة البناء مزيَّنةً بالنجوم الخُنَّس والجواري الكُنَّس، التي ضُرِبتْ من الأفُق إلى الأفُق في غاية الحسن والملاحة، لا ترى فيها عيباً ولا فروجاً ولا خلالاً ولا إخلالاً، قد جعلها الله سقفاً لأهل الأرض، وأودع فيها من مصالحهم الضروريَّة ما أودع.
[6] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کا حال اور ان کے قابل مذمت افعال کا ذکر کرنے کے بعد، انھیں آیات آفاقیہ میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ان امور پر استدلال کریں جن کے لیے ان کو دلیل بنایا ہے، فرمایا: ﴿ اَفَلَمْ یَنْظُ٘رُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ﴾ ’’کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟‘‘ یعنی غور و فکر کی یہ نظر کسی مشقت اور سامانِ سفر باندھنے کی محتاج نہیں بلکہ بہت آسان ہے۔ وہ دیکھیں ﴿ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا﴾ کہ ہم نے اسے کیسے ایک گنبد بنایا، جو اپنے کناروں پر برابر اور مضبوط بنیاد رکھتا ہے، جسے ان ستاروں سے آراستہ کیا گیا ہے جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور چلتے چلتے غائب ہو جاتے ہیں، جو ایک افق سے دوسرے افق تک اپنے حسن اور ملاحت میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے، تو اس میں کوئی سوراخ دیکھے نہ شگاف اور نہ تجھے اس میں کوئی خلل نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اہل زمین کے لیے چھت بنایا ہے اور اس کے اندر ان کے لیے ضروری مصالح ودیعت کیے ہیں۔
#
{7} وإلى الأرض كيف مَدَدْناها ووسَّعناها حتى أمكن كلَّ حيوانٍ السكونُ فيها والاستقرار والاستعداد لجميع مصالحه، وأرساها بالجبال؛ لتستقرَّ من التَّزلزل والتموُّج. {وأنبَتْنا فيها من كلِّ زوجٍ بهيجٍ}؛ أي: من كل صنفٍ من أصناف النبات التي تسرُّ ناظريها، وتُعْجِب مبصريها، وتُقِرُّ عين رامقيها لأكل بني آدم وأكل بهائمهم ومنافعهم.
[7] ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ طرف ﴿ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا﴾ ’’زمین کی‘‘ دیکھیں کہ کیسے ﴿مَدَدْنَہَا﴾ ’’ہم نے اسے کشادہ بنایا ہے؟‘‘ حتیٰ کہ ہر حیوان کے لیے سکون و قرار اور اس کے تمام مصالح اور استعداد کو ممکن بنایا، اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا کہ وہ نہ ہلے اور ٹھہری رہے ﴿ وَاَنْۢـبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ﴾ انسانوں اور جانوروں کی خوراک اور ان کے فائدے کے لیے نباتات کی اصناف میں سے ہر صنف اگائی، جو دیکھنے والوں کو بھلی لگتی اور خوش کرتی ہے اور اس کا نظارہ کرنے والے کی آنکھ ٹھنڈی ہوتی ہے.
#
{8 ـ 11} وخصَّ من تلك المنافع [بالذكر] الجنَّات المشتملة على الفواكه اللَّذيذة من العنب والرُّمان والأترجِّ والتُّفاح وغير ذلك من أصناف الفواكه، ومن النخيل الباسقات؛ أي: الطوال، التي يطول نفعها ، وترتفع إلى السماء حتى تبلغ مبلغاً لا يبلغه كثيرٌ من الأشجار، فتخرجَ من الطلع النضيد في قنوانها ما هو رزقٌ للعباد قوتاً وأدماً وفاكهةً يأكلون منه ويدَّخرون هم ومواشيهم. وكذلك ما يخرج الله بالمطر، وما هو أثره من الأنهار التي على وجه الأرض و [التي] تحتها من {حبِّ الحصيدِ}؛ أي: من الزَّرع المحصود من بُرٍّ وشعير وذرة وأرزٍّ ودخن وغيره؛ فإن في النظر في هذه الأشياء {تبصرةً}: يُتَبَصَّر بها من عمى الجهل، {وذكرى}: يُتَذَكَّر بها ما ينفع في الدين والدنيا، ويُتَذَكَّر بها ما أخبر الله به وأخبرت به رسله، وليس ذلك لكلِّ أحدٍ، بل {لكلِّ عبدٍ منيبٍ} إلى الله؛ أي: مقبل عليه بالحبِّ والخوف والرجاء وإجابة داعيه، وأمَّا المكذِّب أو المعرض؛ فما تغني الآياتُ والنُّذُر عن قوم لا يؤمنون. وحاصلُ هذا أنَّ ما فيها من الخلق الباهر والقوَّة والشدَّة دليلٌ على كمال قدرة الله تعالى، وما فيها من الحسن والإتقان وبديع الصنعة وبديع الخلقة دليلٌ على أنَّ اللهَ أحكمُ الحاكمين، وأنَّه بكلِّ شيء عليمٌ، وما فيها من المنافع والمصالح للعباد دليلٌ على رحمة الله التي وسعت كل شيء، وجوده الذي عمَّ كلَّ حيٍّ، وما فيها من عظمة الخلقة وبديع النِّظام دليلٌ على أنَّ الله تعالى هو الواحدُ الأحدُ الفردُ الصمدُ الذي لم يتَّخذ صاحبةً ولا ولداً، ولم يكن له كفواً أحدٌ، وأنه الذي لا تنبغي العبادة والذُّلُّ والحبُّ إلاَّ له، وما فيها من إحياء الأرض بعد موتها دليلٌ على إحياء الله الموتى ليجازِيَهم بأعمالهم، ولهذا قال: {وأحْيَيْنا به بلدةً ميتاً كذلك الخروجُ}. ولمَّا ذكَّرهم بهذه الآيات السماوية والأرضيَّة؛ خوَّفهم أخذات الأمم، وألاَّ يستمرُّوا على ما هم عليه من التكذيب، فيصيبهم ما أصاب إخوانَهم من المكذِّبين، فقال:
[11-8] اور ان فوائد میں سے ان باغات کا خاص طور پر ذکر کیا جو لذیذ پھلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، مثلاً: انگور، انار، لیموں اور سیب وغیرہ اور دیگر پھلوں کی تمام اقسام، نیز کھجور کے لمبے لمبے درخت، جن کا فائدہ بھی بہت طویل اور دیر پا ہوتا ہے۔ جو آسمان میں اتنے بلند ہو جاتے کہ بہت سے درخت اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ تہ بہ تہ گابھے میں سے گچھوں کی صورت میں ایسا پھل نکالتے ہیں جو بندوں کے لیے رزق، خوراک، سالن اور میوہ ہے۔ جسے وہ کھاتے ہیں اور اپنے اور اپنے مویشیوں کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس بارش اور ان عوامل کے ذریعے سے، جس کے نتیجے میں روئے زمین پر دریا بہتے ہیں اور اس کے نیچے ﴿حَبَّ الْحَصِیْدِ﴾کھیتی کا اناج ہوتا ہے، یعنی وہ کھیتی جسے پکنے پر کاٹا جاتا ہے، مثلاً: گیہوں، جو، مکئی، چاول اور باجرہ وغیرہ۔کیونکہ ان اشیاء میں غور و فکر کرنے میں ﴿ تَبْصِرَةً﴾ ’’ہدایت ہے‘‘ جس کے ذریعے سے بندہ جہالت کے اندھے پن میں بصیرت حاصل کرتا ہے ﴿وَّذِكْرٰى﴾ ’’اور یاد دہانی ہے‘‘ جس سے نصیحت حاصل کرتا ہے جو دین و دنیا میں اسے فائدہ دیتی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ان امور میں نصیحت حاصل کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے، اور اس سے ہر شخص بہرہ مند نہیں ہوتا بلکہ ﴿ لِكُ٘لِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ﴾ صرف وہی بندہ بہرہ مند ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا، حق اور خوف و رجا کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرنے والا اور اس کے داعی کی آواز پر لبیک کہنے والا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس نصیحت کو جھٹلاتا اور اس سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور تنبیہ کرنے والے اسے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس زمین پر جو بڑی بڑی مخلوق ، قوت، اور شدت کا وجود ملتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے، اور اس میں جو حسن، مہارت، نادر صنعت کاری اور بے مثال تخلیق پائی جاتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کے اندر بندوں کے لیے جو فوائد اور مصالح پنہاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے جو ہر چیز پر وسیع اور اس کے جود و کرم کی دلیل ہے، جو ہر زندہ کے لیے عام اور سب کو شامل ہے۔ اس کے اندر جو بڑی بڑی مخلوق اور بے مثال نظام ہے وہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد، یکتا اور بےنیاز ہے، جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا، اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی عبادت، تذلل، اور محبت کے لائق نہیں۔ زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد جو اسے زندگی عطا ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی مردوں کو زندہ کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَاَحْیَیْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّؔیْتًا١ؕ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ﴾ ’’اور ہم نے اس (پانی) کے ذریعے سے مردہ شہرکو زندہ کیا بس اسی طرح (قیامت کے دن) نکل پڑنا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو سماوی ارضی اور آیات کے ذریعے سے نصیحت کرنے کے بعد قوموں کو گرفت میں لینے والے عذاب سے ڈرایا کہ وہ تکذیب کے رویے پر جمے نہ رہیں، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب ٹوٹ پڑے گا جو ان کے تکذیب کرنے والے بھائیوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ فرمایا:
آیت: 12 - 15 #
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ (12) وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ (13) وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ (14) أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ (15)}
جھٹلایا ان سے پہلے قوم نوح نے اور رَس (کنویں) والوں نے اور ثمود نے (12) اور عاد اور فرعون اور بر ادرانِ لوط نے (13)اور ایکہ (بستی) والوں اور قوم تُبَّعْ نے، (ان) سب نے جھٹلایا رسولوں کو تو ثابت ہو گئی (ان پر) میری وعید (14)کیا پس ہم تھک گئے ہیں پہلی بار پیدا کر کے؟ (نہیں)بلکہ وہ شک میں ہیں پیدا کرنے سے از سر نو (15)
#
{12 ـ 14} أي: كذَّب الذين من قبلهم من الأمم رُسُلَهم الكرام وأنبياءَهم العظام؛ كنوح كذَّبه قومه، وثمود كذَّبوا صالحاً، وعاد كذَّبوا هوداً، وإخوان لوطٍ كذَّبوا لوطاً، وأصحابُ الأيكةِ كذَّبوا شعيباً، وقوم تُبَّعٍ ـ وتُبَّعٌ كل ملكٍ مَلَكَ اليمن في الزمان السابق قبل الإسلام ـ فقوم تُبَّع كذَّبوا الرسول الذي أرسله الله إليهم، ولم يخبرْنا اللهُ من هو ذلك الرسولُ، وأيُّ تُبَّعٍ من التَّبابعة؛ لأنه ـ والله أعلم ـ كان مشهوراً عند العرب العرباء ، الذين لا تخفى ماجرياتهم على العرب، خصوصاً مثل هذه الحادثة العظيمة؛ فهؤلاء كلُّهم كذَّبوا الرُّسل الذين أرسلهم الله إليهم، فحقَّ عليهم وعيدُ الله وعقوبته، ولستم أيُّها المكذِّبون لمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - خيراً منهم، ولا رسلهم أكرم على الله من رسولكم؛ فاحذروا جرمهم؛ لئلاَّ يصيبكم ما أصابهم.
[14-12] یعنی ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں نے بھی اپنے انبیائے عظام اور مرسلین کرام کو جھٹلایا، جیسے نوحu کو ان کی قوم نے جھٹلایا، ثمود نے حضرت صالحu کی تکذیب کی، عاد نے ہودu کو جھٹلایا، لوط کی قوم نے لوطu کو اور اصحاب ایکہ نے شعیبu کو جھوٹا سمجھا۔ زمانہ اسلام سے قبل یمن کے ہر بادشاہ کو (تبع) کہا جاتا تھا، چنانچہ تبع کی قوم نے اپنے رسول کی تکذیب کی جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ نہیں فرمایا کہ وہ رسول کون تھا اور اسے کس (تبع) کے زمانے میں مبعوث کیا گیا؟ کیونکہ… واللہ اعلم… وہ رسول عربوں میں مشہور اور معروف تھا اور عرب میں پیش آنے والے واقعات ان سے چھپے ہوئے نہ تھے، خاص طور پر اس قسم کے عظیم حادثے سے وہ بے خبر نہیں رہ سکتے تھے۔ پس ان تمام قوموں نے ان رسولوں کو جھٹلایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ پس اس پاداش میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی وعید اور اس کی سزا واجب ہو گئی۔ حضرت محمد(e) کو جھٹلانے والو! تم ان گزری ہوئی قوموں سے بہتر ہو نہ گزرے ہوئے رسول تمھارے رسولeسے بہتر ہیں۔ اس لیے ان کے جرم سے بچو ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے جو ان قوموں پر نازل ہوا تھا۔
#
{15} ثم استدل تعالى بالخلق الأول ـ وهو النشأة الأولى ـ على الخلق الآخر ـ وهو النشأة الآخرة ـ؛ فكما أنه الذي أوجدهم بعد العدم؛ كذلك يعيدهم بعد موتهم وصيرورتهم إلى الرُّفات والرِّمم، فقال: {أفَعَيينا}؛ أي: أفعَجَزْنا وضعفتْ قدرتُنا {بالخلق الأوَّلِ}: ليس الأمر كذلك، فلم نعجز ونعيَ عن ذلك، وليسوا في شكٍّ من ذلك، وإنما {هم في لَبْسٍ من خَلْقٍ جديدٍ}: هذا الذي شكُّوا فيه والتبس عليهم أمره، مع أنَّه لا محلَّ للَّبس فيه؛ لأنَّ الإعادة أهونُ من الابتداء؛ كما قال تعالى: {وهو الذي يبدأ الخَلْقَ ثمَّ يعيدُهُ وهو أهونُ عليه}.
[15] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق اول یعنی ابتدائی پیدائش کے ذریعے سے آخرت کی تخلیق پر استدلال کیا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ ان کو عدم کے بعد وجود میں لایا اسی طرح وہ ان کے مرنے اور ان کے مٹی ہو جانے کے بعد انھیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا ۔اس لیے فرمایا: ﴿ اَفَعَیِیْنَا ﴾ کیا ہم بے بس ہو گئے اور ہماری قدرت کمزور پڑ گئی ﴿ بِالْخَلْ٘قِ الْاَوَّلِ ﴾ ’’پہلی بار پیدا کرکے۔‘‘ معاملہ ایسا نہیں ہے، ہم ایسا کرنے سے عاجز ہیں نہ بے بس اور انھیں اس بارے میں کوئی شک نہیں، وہ تو تخلیق جدید کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کا معاملہ ان پر ملتبس ہو کر رہ گیا۔ حالانکہ یہ التباس کا مقام نہیں کیونکہ اعادہ، ابتدا سے زیادہ سہل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِ ﴾ (الروم:30؍27) ’’وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے ، پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور وہ اس کے لیے آسان تر ہے۔‘‘
آیت: 16 - 18 #
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (16) إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (17) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (18)}.
اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو اور ہم جانتے ہیں ان کو جو باتیں کرتا ہے اس (انسان) سے اس کا دل اور ہم قریب تر ہیں اس سے (اس کی) شہ رگ سے بھی (16) جب ضبط کرتے ہیں دو ضبط کرنے والے(ایک)دائیں پہلو میں (بیٹھا ہوا) اور (دوسرا) بائیں پہلو میں بیٹھا ہوا (17) نہیں بولتا وہ (انسان) کوئی بات مگر اس کے پاس ہوتا ہے ایک نگران (فرشتہ)تیار (لکھنے کے لیے) (18)
#
{16} يخبر تعالى أنَّه المتفرِّد بخلق جنس الإنسان ذكورِهم وإناثِهم، وأنَّه يعلم أحواله وما يُسِرُّه وتوسوس به نفسه ، وأنه {أقربُ إليه من حبلِ الوريدِ}: الذي هو أقرب شيء إلى الإنسان، وهو [العرق] المكتنف لثُغرة النحر. وهذا ممّا يدعو الإنسان إلى مراقبة خالقه، المطَّلع على ضميره وباطنه، القريب إليه في جميع أحواله، فيستحي منه أن يراه حيث نهاه، أو يفقده حيث أمره.
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ انسان کی جنس مرد اور عورت کو پیدا کرنے میں وہ تنہا ہے۔ وہ انسان کے تمام احوال کو جنھیں وہ چھپاتا ہے اور اس کا نفس اسے وسوسے میں مبتلا کرتا ہے، خوب جانتا ہے اور وہ ﴿ اَ٘قْ٘رَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ ’’اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے۔‘‘ جو انسان کے سب سے زیادہ قریب والی رگ ہے، اس سے مراد وہ رگ ہے جس نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ چیز انسان کو اپنے خالق کے مراقبے کی دعوت دیتی ہے، جو اس کے ضمیر اور اس کے باطن سے مطلع ہے اور اس کے تمام احوال میں اس کے قریب والی رگ ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ ایسے کام کے ارتکاب سے حیا کرے جس کام سے اللہ نے اس کو روکا ہے، اس لیے کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے، اور جس کام کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے ترک نہ کرے۔
#
{17} وكذلك ينبغي له أن يجعل الملائكةَ الكرامَ الكاتبين منه على بال، فيجلُّهم ويوقِّرهم ويحذر أن يفعل أو يقول ما يكتب عنه ممَّا لا يرضي ربَّ العالمين، ولهذا قال: {إذْ يَتَلَقَّى المُتَلَقِّيانِ}؛ أي: يتلقَّيانِ عن العبد أعماله كلَّها، واحدٌ {عن اليمين}: يكتب الحسنات، {و} الآخر {عن الشمال}: يكتب السيئات، وكل منهما مقيدٌ بذلك، متهيئٌ لعمله الذي أعدَّ له، ملازمٌ لذلك.
[17] اسی طرح اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں’’ کرامًا کاتبین‘‘ کا لحاظ رکھے، ان کی عزت و توقیر کرے۔ وہ کسی ایسے قول و فعل سے بچے جو اس کی طرف سے لکھ لیا جائے جس سے رب کائنات راضی نہ ہو۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ اِذْ یَتَلَ٘قَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ۠﴾ ’’جب دو لکھنے والے لکھ لیتے ہیں۔‘‘ یعنی بندے کے تمام اعمال درج کر رہے ہیں ﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ﴾ دائیں جانب کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور دوسرا فرشتہ۔ ﴿ عَنِ الشِّمَالِ﴾ بائیں جانب سے برائیاں لکھتا ہے اور ان میں ہر ایک ﴿ قَعِیْدٌ﴾ یہ کام کرنے کے لیے بیٹھا ہوا اور اپنے اس عمل کے لیے مستعد ہے، جس کے لیے اسے مقرر کیا گیا ہے یعنی اس کام میں لگا ہوا ہے۔
#
{18} {ما يَلْفِظُ من قولٍ}: خير أو شرٍّ {إلاَّ لديه رقيبٌ عتيدٌ}؛ أي: مراقب له، حاضرٌ لحاله؛ كما قال تعالى: {وإنَّ عليكم لحافظينَ. كراماً كاتبينَ. يعلمون ما تفعلون}.
[18] ﴿ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ﴾ وہ خیر یا شر جو بھی لفظ بولتا ہے ﴿ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾ تو ایک نگران موجود ہوتا ہے، جو اس کے پاس ہر حال میں موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰؔفِظِیْنَۙ۰۰كِرَامًا كَاتِبِیْنَۙ۰۰ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الانفطار:82؍10-12) ’’اور بے شك تم پر نگہبان مقرر ہیں، بلند مرتبہ کاتب، جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں۔‘‘
آیت: 19 - 22 #
{وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ (19) وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ (20) وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ (21) لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (22)}
اور (سامنے) لے آتی ہے سختی موت کی حق کو یہ وہ (موت) ہے کہ تھا تو اس سے بھاگتا(19) اور پھونکا جائے گا صورمیں، یہ ہے دن وعید کا (20) اور آئے گا ہر نفس، اس کے ساتھ ہو گا ایک ہانکنے والا اور ایک شہادت دینے والا (21) البتہ تحقیق تھا تو غفلت میں اس سے، سو کھول (ہٹا) دیا ہم نے تجھ سے پردہ تیرا، پس تیری نگاہ آج بڑی تیز ہے (22)
#
{19} أي: وجاءت هذا الغافل المكذِّب بآيات الله، {سَكْرَةُ الموتِ بالحقِّ}: الذي لا مردَّ له ولا مناص. {ذلك ما كنتَ منه تَحيدُ}؛ أي: تتأخَّر وتنكصُ عنه.
[19] ﴿ وَجَآءَتْ﴾ ’’اور آئی‘‘ یعنی اس غافل اور آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے کے پاس ﴿ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ ’’موت کی بے ہوشی، حق کے ساتھ۔‘‘ جس سے لوٹنا اور بچنا ممکن نہیں۔ ﴿ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ﴾ یہ وہی چیز ہے جس سے پیچھے ہٹتے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔
#
{20} {ونُفِخَ في الصُّورِ ذلك يَوْمُ الوعيدِ}؛ أي: اليوم الذي يلحقُ الظالمين ما أوعدهم الله به من العقاب والمؤمنين ما وعدهم به من الثواب.
[20] ﴿ وَنُ٘فِخَ فِی الصُّوْرِ١ؕ ذٰلِكَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ﴾ ’’اور صور پھونکا جائے گا، یہی وعید کا دن ہے۔‘‘ یہ وہ دن ہے جس دن ظالموں کو عذاب دیا جائے گا، جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور مومنوں کو ثواب عطا کیا جائے گا جس کا اس نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔
#
{21} {وجاءتْ كلُّ نفسٍ معها سائقٌ}: يسوقُها إلى موقف القيامة؛ فلا يمكنُها أن تتأخَّر عنه، {وشهيدٌ}: يشهدُ عليها بأعمالها؛ خيرِها وشرِّها. وهذا يدلُّ على اعتناء الله بالعباد، وحفظه لأعمالهم، ومجازاته لهم بالعدل.
[21] ﴿ وَجَآءَتْ كُ٘لُّ نَ٘فْ٘سٍ مَّعَهَا سَآىِٕقٌ ﴾ ’’اور ہر شخص آئے گا، ایک اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا۔‘‘ جو اسے قیامت کے میدان کی طرف ہانک کر لے جائے گا یہ اس سے بچ کر پیچھے نہیں رہ سکے گا ﴿وَّشَهِیْدٌ﴾ ’’اور ایک گواہ ہوگا۔‘‘ جو اس کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گا۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی طرف اعتنا اور اس کی طرف سے ان کے اعمال کی حفاظت اور نہایت عدل و انصاف سے اس کو جزا و سزا دینے پر دلالت کرتی ہے۔
#
{22} فهذا الأمر مما يجب أن يجعله العبدُ منه على بالٍ، ولكن أكثر الناس غافلون، ولهذا قال: {لقد كُنتَ في غفلةٍ من هذا}؛ أي: يقال للمعرض المكذِّب يوم القيامة هذا الكلام توبيخاً ولوماً وتعنيفاً؛ أي: لقد كنتَ مكذِّباً بهذا تاركاً للعمل له. {فـ}: الآن {كَشَفْنا عنك غِطاءَك}: الذي غطَّى قلبَك فكثر نومُك واستمرَّ إعراضُك، {فبصرُك اليومَ حديدٌ}: ينظر ما يزعجه ويروِّعه من أنواع العذاب والنَّكال، أو هذا خطابٌ من الله للعبد؛ فإنَّه في الدُّنيا في غفلةٍ عما خُلِقَ له، ولكنه يوم القيامة ينتبه ويزول عنه وَسَنُه في وقت لا يمكِنُه أن يتداركَ الفارطَ ولا يستدركَ الفائتَ. وهذا كلُّه تخويفٌ من الله للعباد، وترهيبٌ بذكر ما يكون على المكذِّبين في ذلك اليوم العظيم.
[22] یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندہ اس کا اہتمام کرے۔مگر اکثر لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿ لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰؔذَا﴾ ’’اس سے تو غافل ہورہا تھا۔‘‘ یہ بات قیامت کے روز روگردانی کرنے والے اور انبیاء و رسل کو جھٹلانے والے کو زجر و توبیخ، ملامت اور عتاب کے طور پر کہی جائے گی۔ یعنی تو اس دن کو جھٹلایا کرتا تھا اور اس دن کے لیے عمل نہ کرتا تھا، پس اب ﴿ فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ﴾ ’’ہم نے تجھ سے پردہ ہٹا دیا‘‘ جس نے تیرے دل کو ڈھانپ رکھا تھا جس کی بنا پر تو کثرت سے سوتا تھا اور اپنی روگردانی پر جما ہوا تھا۔ ﴿ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ﴾ ’’پس آج تیری نگاہ تیز ہے۔‘‘ وہ مختلف قسم کے عذاب اور سزاؤ ں کو دیکھتا ہے جو اسے ڈرا رہی ہوں گی اور گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی ہوں گی ۔ یا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے سے خطاب ہے، کیونکہ دنیا میں وہ ان فرائض سے غافل تھا جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا تھا مگر قیامت کے روز وہ بیدار ہو گا، اس کی غفلت دور ہو جائے گی اور یہ سب ایسے وقت میں ہو گا جب کوتاہی کا تدارک اور ناکامی کی تلافی ممکن نہ ہو گی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عظیم دن کو اہل تکذیب کے ساتھ سلوک کے ذکر کے ذریعے سے، بندوں کے لیے تخویف اور ترہیب ہے۔
آیت: 23 - 29 #
{وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ (23) أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ (24) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ (25) الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ (26) قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (27) قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ (28) مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (29)}
اور کہے گا اس کا ساتھی (فرشتہ)، یہ ہے وہ (روز نامچہ) جو میر ے پاس تیار ہے(23) (حکم ہو گا) ڈال دو تم دونوں جہنم میں ہر کافر سرکش کو (24) بھلائی سے منع کرنے والے کو، حد سے نکلنے والے، (دین میں) شک کرنے والے کو(25) وہ جس نے بنا لیا تھا اللہ کے ساتھ معبود دوسرا، پس ڈال دو تم دونوں اس کو عذاب شدید میں (26) کہے گا اس کا ساتھی (شیطان)، اے ہمارے رب! نہیں سرکش بنایا تھا میں نے اس کو اور لیکن تھا وہ (خود ہی) گمراہی میں دور کی (27) وہ (اللہ) فرمائے گا، نہ جھگڑا کرو تم میرے پاس حالانکہ میں پہلے ہی بھیج چکا تھا تمھاری طرف وعید (وعدۂ عذاب) (28) نہیں تبدیل کی جاتی بات میرے ہاں، اور نہیں میں ظلم کرنے والا بندوں پر(29)
#
{23} يقول تعالى: {وقال قرينُهُ}؛ أي: قرين هذا المكذِّب المعرض من الملائكة، الذين وَكَلَهم الله على حفظه وحفظ أعماله، فيحضره يوم القيامة، ويحضر أعماله، ويقول: {هذا ما لديَّ عتيدٌ}؛ أي: قد أحضرتُ ما جعلتُ عليه من حفظه وحفظ عمله.
[23] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَقَالَ قَ٘رِیْنُهٗ﴾ اس جھٹلانے اور روگردانی کرنے والے کا فرشتوں میں سے وہ ساتھی جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی اور اس کے اعمال کی حفاظت کے لیے مقرر کیا ہے، قیامت کے روز اس کے سامنے موجود ہو گا اور اس کے اعمال کو اس کے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا: ﴿هٰؔذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ﴾ ’’یہ (اعمال نامہ) میرے پاس حاضر ہے۔‘‘ یعنی میں نے وہ سب کچھ پیش کر دیا ہے جس کی حفاظت اور اس کے عمل کو محفوظ رکھنے پر مجھے مقرر کیا گیا تھا ۔
#
{24} فيجازى بعمله، ويقال لمن استحقَّ النار: {ألْقِيا في جَهَنَّم كلَّ كفَّارٍ عنيدٍ}؛ أي: كثير الكفر والعناد لآيات الله، المكثر من المعاصي، المتجرِّئ على المحارم والمآثم.
[24] پس اب اس کے عمل کی جزا دی جائے گی۔ جو کوئی جہنم کا مستحق ہو گا اس سے کہا جائے گا: ﴿اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُ٘لَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ﴾ ’’ہر ناشکر ے، سرکش کو جہنم میں ڈال دو۔‘‘ یعنی جو بہت زیادہ کفر کرنے والا، آیات الٰہی سے عناد رکھنے والا، بہت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرنے والا، اور اللہ تعالیٰ کے محارم اور معاصی میں جسارت کرنے والا ہے۔
#
{25} {منَّاع للخيرِ}؛ أي: يمنع الخير الذي قِبَله ، الذي أعظمه الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله، منَّاع لنفع ماله وبدنه، {معتدٍ}: على عباد الله وعلى حدوده، أثيم، أي: كثير الإثم، {مريبٍ}؛ أي: شاكٍّ في وعد الله ووعيده؛ فلا إيمان ولا إحسان، ولكن وصفه الكفر والعدوان والشكُّ والريب والشحُّ واتِّخاذُ الآلهة من دون الرحمن.
[52] ﴿مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ﴾ ’’بھلائی سے روکنے والا۔‘‘ اس کے پاس جو بھلائی موجود ہے وہ اسے روکتا ہے، جس میں سے سب سے بڑی بھلائی اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے اور وہ اپنے مال اور بدن کے فائدے کو (لوگوں تک پہنچنے سے) روکتا ہے ﴿مُعْتَدٍ﴾ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کرنے والا اور اس کی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے ﴿مُّرِيْبِ ﴾ اللہ تعالیٰ کے وعد ے اور وعید میں شک کرنے والا ہے۔ اس میں کوئی ایمان ہے نہ احسان، بلکہ اس کا وصف، کفر و عدوان، شک و ریب، بخل اور رحمان کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنا ہے۔
#
{26} ولهذا قال: {الذي جَعَلَ مع اللهِ إلهاً آخر}؛ أي: عبد معه غيره ممَّن لا يملك لنفسه ضرًّا ولا نفعاً ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، {فألقياه}: أيُّها المَلَكان القرينان {في العذابِ الشديدِ}: الذي هو معظمها وأشدُّها وأشنعُها.
[26] بنابریں فرمایا: ﴿الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ﴿ فَاَلْقِیٰهُ﴾ اس کے دونوں ساتھی فرشتو! اس کو ڈال دو ﴿ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ ﴾ ’’سخت عذاب میں۔‘‘ جو سب سے بڑا، سب سے سخت اور سب سے برا عذاب ہے۔
#
{27} {قال قرينُهُ}: الشيطان متبرِّئاً منه حاملاً عليه إثمه: {ربَّنا ما أطْغَيْتُه}: لأنِّي لم يكن لي عليه سلطانٌ ولا حجةٌ ولا برهانٌ، {ولكن كانَ في ضلالٍ بعيدٍ}: فهو الذي ضلَّ وبَعُدَ عن الحقِّ باختياره؛ كما قال في الآية الأخرى: {وقال الشيطانُ لَمَّا قُضِيَ الأمرُ إن الله وَعَدَكم وَعْدَ الحقِّ ووعدتُكم فأخْلَفْتُكم ... } الآية.
[72] ﴿ قَالَ قَ٘رِیْنُهٗ ﴾ اس کا شیطان ساتھی اس سے بری ٔالذمہ ہوتے ہوئے اور اس کے گناہ کا اسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہے گا: ﴿ رَبَّنَا مَاۤ اَطْغَیْتُهٗ ﴾ ’’اے ہمارے رب! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا‘‘ کیونکہ مجھے اس پر کوئی اختیار تھا نہ میرے پاس کوئی دلیل و برہان تھی’’بلکہ یہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا، وہ خود ہی اپنے اختیار سے گمراہ ہو کر حق سے دور ہو گیا۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقَالَ الشَّ٘یْطٰنُ لَمَّا قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۠ ﴾ (ابراہیم:14؍22) ’’جب فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا: بے شک اللہ نے تمھارے ساتھ سچا وعدہ کیا اور میں نے جو وعدہ تمھارے ساتھ کیا ، میں نے اس کی خلاف ورزی کی ۔ میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، میں نے تمھیں پکارا اور تم نے میری مان لی۔ پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمھارا فریادرس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
#
{28} قال الله تعالى مجيباً لاختصامهم: {لا تَخْتَصِموا لديَّ}؛ أي: لا فائدة في اختصامكم عندي، {و} الحال أني {قد قدَّمْتُ إليكم بالوعيدِ}؛ أي: جاءتكم رسلي بالآيات البيِّنات والحجج الواضحات والبراهين الساطعات، فقامت عليكم حجَّتي وانقطعت حجَّتُكم، وقدمتُم إليَّ بما أسلفتم من الأعمال التي وَجَبَ جزاؤها.
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی آپس کی خصومت کا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ ﴾ ’’میرے پاس نہ جھگڑو‘‘ یعنی میرے پاس تمھارے آپس میں جھگڑنے کا فائدہ نہیں۔ ﴿ وَ ﴾ حالانکہ ﴿ قَدْ قَدَّمْتُ اِلَیْكُمْ بِالْوَعِیْدِ ﴾ ’’میں تمھارے پاس وعید بھیج چکا تھا۔‘‘ یعنی میرے رسول کھلی نشانیاں، واضح دلائل، اور روشن براہین لے کر تمھارے پاس آئے، تم پر میری حجت قائم اور تمھاری حجت منقطع ہو گئی تم نے اپنے گزشتہ اعمال میرے سامنے پیش کیے جن کی جزا واجب ہے۔
#
{29} {ما يُبَدَّلُ القولُ لديَّ}؛ أي: لا يمكن أن يخلف ما قاله الله وأخبر به؛ لأنَّه لا أصدق من الله قيلاً، ولا أصدق حديثاً. {وما أنا بظلاَّمٍ للعبيد}: بل أجزيهم بما عملوا من خيرٍ وشرٍّ؛ فلا يزاد في سيئاتهم، ولا ينقص من حسناتهم.
[29] ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ ﴾ ’’میرے ہاں بات بدلا نہیں کرتی۔‘‘ یعنی یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا اور جو خبر دی ہے، اس کی خلاف ورزی کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی ہستی اپنے قول اور اپنی بات میں سچی نہیں ﴿ وَمَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾ ’’اور میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ بلکہ وہ اچھا اور برا جو عمل کرتے ہیں اسی کی جزا و سزا دیتا ہوں، ان کی برائیوں میں اضافہ کیا جاتا ہے نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جاتی ہے۔
آیت: 30 - 35 #
{يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (30) وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ (31) هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (32) مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ (33) ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ (34) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ (35)}
(یاد کرو!) جس دن ہم کہیں گے جہنم سے، کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے؟ (30) اور قریب کی جائے گی جنت متقی لوگوں کے، نہیں ہو گی وہ دور (31) یہ ہے وہ جس کا وعدہ دیا جاتا تھا تمھیں، ہر خوب رجوع کرنے والے (امر الہی) حفاظت کرنے والے کو (32) جو ڈر گیا رحمٰن سے بن دیکھے، اور وہ لایا دل رجوع کرنے والا (33) (کہا جائے گا) تم داخل ہو جاؤ اس (جنت) میں سلامتی سے، یہی ہے دن ہمیشہ رہنے کا (34) ان کے لیے ہو گا جو کچھ وہ چاہیں گے اس میں، اور ہمارے پاس مزید بھی ہے (35)
#
{30} يقول تعالى مخوِّفاً لعباده: {يومَ نقولُ لجهنَّم هلِ امتلأتِ}: وذلك من كثرةِ ما ألقيَ فيها، {وتقولُ هلْ مِن مَزيدٍ}؛ أي: لا تزال تطلبُ الزيادة من المجرمين العاصين؛ غضباً لربِّها، وغيظاً على الكافرين، وقد وعدها الله ملأها؛ كما قال تعالى: {لأملأنَّ جهنَّم من الجِنَّة والنَّاس أجمعينَ}: حتى يضعَ ربُّ العزَّة عليها قدمه الكريمة المنزَّهة عن التشبيه، فينزوي بعضُها على بعضٍ، وتقول: قط، قط ؛ قد اكتفيت وامتلأت.
[30] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ﴾ ’’اس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے، کیا تو بھر گئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، جہنم میں ڈالے گئے لوگوں کی کثرت کی وجہ سے ہو گا ﴿وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ﴾ ’’وہ کہے گی کچھ اور بھی ہے۔‘‘ یعنی جہنم اپنے رب کی خاطر ناراضی اور کفار پر غیظ و غضب کی وجہ سے اپنے اندر مجرموں کے اضافے کا مطالبہ کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو بھرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿لَاَمْلَ٘ــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾ (السجدہ:32؍13) ’’میں جہنم کو جنات اور انسانوں سے ضرور بھروں گا۔ حتیٰ کہ اللہ رب العزت اپنا قدم کریم، جو تشبیہ سے پاک ہے، جہنم میں رکھ دے گا۔ جہنم کی لپٹیں ایک دوسرے کی طرف سمٹ جائیں گی، جہنم پکار اٹھے گی، بس کافی ہے، میں بھر چکی ہوں۔
#
{31} {وأزلِفَتِ الجنةُ}؛ أي: قرِّبت بحيث تشاهَد ويُنْظَرُ ما فيها من النعيم المقيم والحبرة والسرور، وإنما أزْلِفَتْ وقُرِّبَتْ لأجل المتَّقين لربِّهم، التاركين للشرك كبيره وصغيره ، الممتَثِلينَ لأوامر ربهم، المنقادين له.
[31] ﴿وَاُزْلِفَتِ الْؔجَنَّةُ﴾ جنت کو قریب کر دیا جائے گا ﴿لِلْ٘مُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ﴾ ’’پرہیز گاروں کے لیے، دور نہ ہوگی۔‘‘ جہاں اس کا مشاہدہ کیا جا سکے گا، اس کی دائمی نعمتوں اور مسرتوں کو دیکھا جا سکے گا۔ جنت کو صرف ان لوگوں کے قریب کیا جائے گا جو اپنے رب سے ڈر کر شرک اکبر اور شرک اصغر سے اجتناب کرتے ہیں، نیز اپنے رب کے احکام کی تعمیل اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔
#
{32} ويقال لهم على وجه التَّهنئة: {هذا ما توعدون لكلِّ أوَّابٍ حفيظٍ}؛ أي: هذه الجنة وما فيها مما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين هي التي وعدَ اللهُ كلَّ أوابٍ؛ أي: رجَّاع إلى الله في جميع الأوقات؛ بذكرِه وحبِّه والاستعانةِ به ودعائِه وخوفِه ورجائِه. {حفيظ}؛ أي: محافظ على ما أمر الله به؛ بامتثاله على وجه الإخلاص والإكمال له على أتمِّ الوجوه، حفيظ لحدوده.
[32] انھیں مبارک بادی کے طور پر کہا جائے گا ﴿هٰؔذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُ٘لِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ﴾ ’’یہی وہ چیز ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر رجوع کرنے والے اور حفاظت کرنے والے سے۔‘‘ یعنی یہ جنت، اور اس میں جو کچھ موجود ہے، جس کی نفوسِ انسانی خواہش رکھتے ہیں، جس سے آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں، جس کا ہر اس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کے ساتھ محبت، اس سے استعانت، اس سے دعا اور اس کے خوف اور اس سے امید کے ذریعے سے، اس کی طرف بہت کثرت سے رجوع کرتا ہے۔ ﴿ حَفِیْظٍ﴾ اخلاق اور تکمیل کے ساتھ کامل ترین طریقے سے ان اوامر کی تعمیل کرتا ہے، نیز اس کی حدود کی حفاظت کرتا ہے۔
#
{33} {مَنْ خَشِيَ الرحمنَ}؛ أي: خافه على وجه المعرفة بربِّه والرجاء لرحمته، ولازم على خشية الله في حال غيبه؛ أي: مغيبه عن أعين الناس. وهذه الخشية الحقيقيَّة، وأمَّا خشيتُه في حال نظر الناس وحضورهم؛ فقد يكون رياءً وسمعةً؛ فلا يدلُّ على الخشية، وإنما الخشية النافعة خشيته في الغيب والشهادة، [ويحتمل أنّ المراد بخشية اللَّه بالغيب، كالمراد بالإيمان بالغيب. وأنّ هذا مقابل للشهادة حيث يكون الإيمان والخشية ضرورياً لا اختيارياً حيث يعاين العذاب، وتأتي آيات اللَّه وهذا هو الظاهر.] {وجاء بقلبٍ منيبٍ}؛ أي: وصفه الإنابة إلى مولاه، وانجذاب دواعيه إلى مراضيه.
[33] ﴿مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ﴾ اپنے رب کی پوری معرفت، اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس سے ڈرتا ہے، اپنی حالت غیب ، یعنی جب وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، تو خشیت الٰہی کا التزام کرتا ہے۔ اور یہی حقیقی خشیت ہے۔ رہی وہ خشیت جس کا اظہار لوگوں کی نظروں کے سامنے اور ان کی موجودگی میں کیا جائے تو اس میں کبھی کبھی ریا اور شہرت کی خواہش کا شائبہ آ جاتا ہے۔ یہ حقیقی خشیت پر دلالت نہیں کرتی۔ فائدہ مند خشیت تو صرف وہی ہے جو کھلے اور چھپے ہر حال میں ہو۔ ﴿وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِ﴾ ’’اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔‘‘ یعنی اس کا وصف اپنے آقا کی طرف رجوع ہو اور اس کے تمام داعیے اپنے آقا کی رضا میں جذب ہو گئے ہوں۔
#
{34} ويقال لهؤلاء الأتقياء الأبرار: {ادْخُلوها بِسلامٍ}؛ أي: دخولاً مقروناً بالسلامة من الآفات والشرور، مأموناً فيه جميع مكاره الأمور؛ فلا انقطاع لنعيمهم ولا كدر ولا تنغيص. {ذلك يومُ الخُلودِ}: الذي لا زوال له ولا موت ولا شيء من المكدِّرات.
[34] ان نیک اور پرہیزگار لوگوں سے کہا جائے گا ﴿ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ﴾ اس طرح داخل ہو جاؤ کہ یہ داخلہ ہر قسم کی آفات اور شر سے سلامتی سے مقرون اور تمام ناپسندیدہ امور سے مامون ہے۔ ان کو عطا کی گئی نعمتیں منقطع ہوں گی نہ ان میں کوئی تکدر اور بدمزگی آئے گی۔ ﴿ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ﴾ ’’یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔‘‘ جسے کبھی زوال آئے گا نہ موت اور نہ کسی قسم کا کوئی تکدر ہو گا۔
#
{35} {لهم ما يشاؤون فيها}؛ أي: كلُّ ما تعلَّقت به مشيئتهم؛ فهو حاصلٌ فيها، {ولدَينا}: فوق ذلك {مَزيدٌ}؛ أي: ثوابٌ يمدُّهم به الرحمن الرحيم، ممَّا لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشرٍ، وأعظم ذلك وأجلُّه وأفضله النظر إلى وجهه الكريم، والتمتُّع بسماع كلامه، والتنعُّم بقربه، فنسأله من فضله.
[35] ﴿لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا﴾ انھیں وہاں ہر وہ چیز حاصل ہو گی، جس سے ان کی چاہت وابستہ ہو گی۔ اس سے بڑھ کر ﴿مَزِیْدٌ ﴾ ’’اور بھی زیادہ ہے‘‘ یعنی ثواب، جسے رحمان و رحیم ان کے لیے بڑھاتا رہے گا، جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اس کا گزر ہوا ہے... سب سے بڑا، سب سے جلیل اور سب سے افضل ثواب اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور کا دیدار، اس کے کلام کی سماعت اور اس کے قرب کی نعمت ہو گی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی انھی لوگوں میں شامل کردے۔
آیت: 36 - 37 #
{وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ (36) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ (37)}
اور کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے ان سے پہلے قومیں، وہ زیادہ سخت تھیں ان سے پکڑنے(قوت)میں، پس وہ چلے پھرے شہروں میں کیا ہے کوئی جگہ بھاگنے کی؟ (36) بلاشبہ اس میں البتہ نصیحت ہے اس شخص کے لیے کہ ہو اس کے لیے (خاص) دل یا وہ لگائے کان جبکہ وہ حاضر ہو(دل و دماغ سے) (37)
#
{36} يقول تعالى مخوفاً للمشركين المكذِّبين للرسول: {وكمْ أهْلَكْنا قبلَهم من قرنٍ}؛ أي: أمماً كثيرة {هم أشدُّ منهم بَطْشاً}؛ أي: قوةً وآثاراً في الأرض، ولهذا قال: {فَنَقَّبوا في البلاد}؛ أي: بنوا الحصون المنيعة والمنازل الرفيعة، وغرسوا الأشجار، وأجروا الأنهار، وزرعوا، وعمَّروا، ودمَّروا، فلما كذَّبوا رسل الله وجحدوا آياته ؛ أخذهم الله بالعقاب الأليم والعذاب الشديد. {هل من مَحيصٍ}؛ أي: لا مفرَّ لهم من عذاب الله حين نزل بهم ولا منقذ، فلم تغن عنهم قوَّتُهم ولا أموالهم ولا أولادهم.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کو، جو رسول اکرمe کو جھٹلاتے ہیں، ڈراتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَؔكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَ٘رْنٍ﴾ ’’ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کرڈالیں۔‘‘ یعنی بہت سی قوموں کو ہلاک کیا ﴿ هُمْ اَشَدُّ مِنْهُمْ ﴾ ’’وہ زیادہ تھے ‘‘ان لوگوں سے ﴿بَطْشًا﴾ ’’قوت میں‘‘ یعنی زمین میں، قوت اور آثار میں ان سے بڑھ کر تھے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ﴾ ’’پس انھوں نے شہروں کاگشت کیا۔‘‘ یعنی انھوں نے نہایت مضبوط قلعے اور بلند عمارتیں تعمیر کیں، باغات لگائے، نہریں نکالیں، کھیت اگائے، زمین کو آباد کیا اور ہلاک ہو گئے۔ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کی آیات کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو درد ناک سزا اور سخت عذاب کے ذریعے سے گرفت میں لے لیا ﴿ هَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ﴾ ’’کیا کہیں بھاگنے کی جگہ ہے۔‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے، اس وقت ان کے لیے کوئی بھاگنے کی جگہ ہوتی ہے۔ نہ کوئی بچانے والا ہوتا ہے پس ان کی قوت ان کا مال اور ان کی اولاد ان کے کسی کام نہ آ سکی۔
#
{37} {إنَّ في ذلك لَذِكْرى لِمَن كان له قلبٌ}؛ أي: قلبٌ عظيمٌ حيٌّ ذكيٌّ زكيٌّ؛ فهذا إذا ورد عليه شيء من آيات الله؛ تذكَّر بها وانتفع فارتفع، وكذلك من ألقى سمعه إلى آيات الله واستمعها استماعاً يسترشد به وقلبُه {شهيدٌ}؛ أي: حاضرٌ؛ فهذا أيضاً له ذكرى وموعظةٌ وشفاءٌ وهدى، وأمَّا المعرض الذي لم يصغِ سمعه إلى الآيات؛ فهذا لا تفيده شيئاً؛ لأنه لا قبول عنده، ولا تقتضي حكمةُ الله هداية من هذا نعته.
[37] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ ’’بےشک جو شخص دل رکھتا ہے اس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔‘‘ یعنی ایک عظیم، زندہ، ذہین اور پاک دل، یہ دل جب آیات الٰہی میں سے کوئی آیت اس پر گزرتی ہے تو اس سے نصیحت حاصل کر کے فائدہ اٹھاتا ہے اور بلند مقام پر فائز ہوتا ہے اور اسی طرح جو کوئی کان لگا کر آیات الٰہی کو اس طرح غور سے سنتا ہے، جس سے رشد و ہدایت حاصل کرتا ہے اور اس کا قلب ﴿ شَهِیْدٌ﴾ ’’حاضر ہوتا ہے‘‘ تو وہ بھی تذکر، نصیحت، شفا اور ہدایت سے بہرہ مند ہوتا۔ رہا روگردانی کرنے والا شخص جو آیات الٰہی کو غور سے نہیں سنتا تو اس شخص کو آیات الٰہی کوئی فائدہ نہیں دیتیں، کیونکہ اس کے پاس قبولیت کا مادہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اس شخص کی ہدایت کا تقاضا نہیں کرتی جس کا یہ وصف ہو۔
آیت: 38 - 40 #
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (38) فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (39) وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ (40)}.
اور البتہ تحقیق پیدا کیا ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، چھ دن میں، اور نہیں چھوا ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے (38) پس آپ صبر کریں اس پر جو وہ کہتے ہیں، اور تسبیح کریں ساتھ حمد کے اپنے رب کی پہلے طلوع شمس سے اور پہلے اس کے غروب سے (39) اور کچھ حصہ رات میں، پس آپ تسبیح کریں اس کی اور سجود (نمازوں) کے بعد بھی (40)
#
{38} وهذا إخبارٌ منه تعالى عن قدرته العظيمة ومشيئته النافذة، التي أوجد بها أعظم المخلوقات؛ {السمواتِ والأرضَ وما بينَهما في ستَّة أيامٍ}: أولها يوم الأحد، وآخرها يوم الجمعة؛ من غير تعبٍ ولا نصبٍ ولا لغوبٍ ولا إعياءٍ؛ فالذي أوجدها على كبرها وعظمها قادرٌ على إحياء الموتى من باب أولى وأحرى.
[38] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنی قدرت عظیم اور مشیت نافذہ کے بارے میں خبر ہے، جن کے ذریعے سے اس نے سب سے بڑی مخلوق کو وجود بخشا۔ ﴿ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّ٘امٍ﴾ ’’آسمانوں اور زمین اور جو ان کے دمیان ہے، چھ دن میں (پیدا کیا)۔‘‘ پہلا دن اتوار تھا اور آخری یعنی چھٹا دن جمعہ تھا، اس کو کسی مشقت کا سامنا کرنا پڑا نہ تھکن کا، اور نہ اسے کوئی لاغری لاحق ہوئی اور نہ لاچاری۔ پس وہ اللہ، جو زمین و آسمان کو، ان کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وجود میں لایا، اس کا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونا زیادہ اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔
#
{39 ـ 40} {فاصبرْ على ما يقولونَ}: من الذمِّ لك والتكذيب بما جئتَ به، واشتغلْ عنهم والْه بطاعة ربِّك وتسبيحه أول النهار وآخره وفي أوقات الليل وأدبار الصلوات؛ فإن ذِكْرَ الله تعالى مسلٍّ للنفس مؤنسٌ لها مهوِّنٌ للصبر.
[40،39] ﴿ فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ﴾ ’’پس جو کچھ یہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے۔‘‘ وہ آپ کی مذمت کرتے ہیں اور آپ جو کتاب لے کر آئے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں، آپ ان کو نظر انداز کر کے اپنے رب کی اطاعت کیجیے اور صبح ، شام، رات کے اوقات میں اور نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیجیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نفس کو تسلی دیتا، اس کو سکون عطا کرتا اور صبر کو آسان بناتا ہے۔
آیت: 41 - 45 #
{وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (41) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ (42) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ (43) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ (44) نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ (45)}
اور توجہ سے سنیے جس دن ندا دے گا منادی کرنے والامکان قریب سے (41) جس دن وہ سنیں گے اس چیخ (نفخۂ ثانیہ)کو حقیقتاً ، یہی دن ہو گا (قبروں سے) نکلنے کا (42) بلاشبہ ہم ہی زندہ کرتے اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری طرف ہی (سب کی) واپسی ہے (43) جس دن پھٹے گی زمین ان (پر) سے دراں حالیکہ وہ دوڑتے ہوں گے، یہ حشر ہے ہم پر نہایت ہی آسان (44) ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو وہ (مشرک) کہتے ہیں، اور نہیں ہیں آپ ان پر زبردستی کرنے والے، پس آپ نصیحت کرتے رہیں اس قرآن کے ذریعے سے، اس شخص کو جو ڈرتا ہے میری وعید سے(45)
#
{41} أي: {واستمعْ}: بقلبك نداء المنادي، وهو إسرافيل عليه السلام، حين ينفخُ في الصور {من مكانٍ قريبٍ}: من الأرض.
[41] ﴿ وَاسْتَمِعْ ﴾ اپنے دل کے ساتھ پکارنے والے کی پکار کو غور سے سن اور اس سے مراد حضرت اسرافیلu ہیں۔ یعنی جب اسرافیلu صور پھونکیں گے ﴿ مِنْ مَّكَانٍ قَرِیْبٍ﴾ ’’نزدیک کی جگہ سے۔‘‘ یعنی کسی ایسی جگہ سے مخلوق کے قریب ہے۔
#
{42} {يوم يسمعونَ الصَّيحَةَ}؛ أي: كلُّ الخلائق يسمعون تلك {الصيحة}: المزعجة المهولة {بالحقِّ}: الذي لا شكَّ فيه ولا امتراء. {ذلك يومُ الخروج}: من القبور، الذي انفرد به القادر على كلِّ شيء.
[42] ﴿ یَّوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَةَ ﴾ جس روز تمام خلائق ہول ناک اور خوف ناک چیخ کی آواز سنیں گے ﴿ بِالْحَقِّ ﴾ جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ ﴿ ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ ﴾ وہ قبروں سے نکلنے کا دن ہو گا۔ اس روز اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر ہو گا۔
#
{43 ـ 44} ولهذا قال: {إنَّا نحن نحيي ونميتُ وإلينا المصيرُ. يومَ تَشَقَّقُ الأرضُ عنهم}؛ أي: عن الخلائق {سراعاً}؛ أي: يسرعون لإجابة الدَّاعي لهم إلى موقفِ القيامة. {ذلك حشرٌ علينا يسيرٌ}؛ أي: سهل على الله ، لا تعبَ فيه ولا كلفةَ.
[44،43] اسی لیے فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نُحْیٖ وَنُمِیْتُ وَاِلَیْنَا الْمَصِیْرُۙ۰۰ یَوْمَ تَ٘شَ٘قَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ ﴾ ’’بے شک ہم ہی تو زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے جس روز ان سے زمین پھٹ جائے گی‘‘ یعنی مردوں سے ﴿ سِرَاعًا ﴾ وہ پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیزی سے حشر کے میدان کی طرف آئیں گے۔ ﴿ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ ﴾ ’’یہ جمع کرنا ہمیں آسان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے، جس میں کوئی تکان ہے نہ کلفت۔
#
{45} {نحنُ أعلمُ بما يقولون}: لك مما يحزنك من الأذى، وإذا كنَّا أعلم بذلك؛ فقد علمت كيف اعتناؤنا بك وتيسيرنا لأمورك ونصرنا لك على أعدائك؛ فليفرح قلبك، ولتطمئنَّ نفسُك، ولتعلم أنَّنا أرحم بك وأرأف من نفسك، فلم يبق لك إلا انتظار وعد الله والتأسِّي بأولي العزم من رسل الله، {وما أنت عليهم بجبَّارٍ}؛ أي: مسلَّط عليهم، {إنَّما أنت منذرٌ ولكلِّ قومٍ هادٍ}، ولهذا قال: {فذكِّر بالقرآن من يخاف وعيد}، والتذكير هو تذكير ما تقرَّر في العقول والفطر من محبَّة الخير وإيثاره وفعله ومن بغض الشرِّ ومجانبته، وإنما يتذكَّر بالتذكير من يخاف وعيد الله، وأما من لم يخفِ الوعيد ولم يؤمنْ به؛ فهذا فائدة تذكيره إقامة الحجَّة عليه لئلا يقول: ما جاءنا من بشيرٍ ولا نذيرٍ.
[45] ﴿ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ﴾ ہم جانتے ہیں جو وہ آپ کو تکلیف دہ باتیں کہتے ہیں، جن سے آپ غم زدہ ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ سب کچھ جانتے ہیں تب آپ کو معلوم ہو گیا کہ ہم آپ پر کیسی عنایت رکھتے ہیں، آپ کے معاملات کو کیسے آسان بناتے ہیں اور آپ کو آپ کے دشمنوں کے خلاف کیسے مدد سے نوازتے ہیں۔ پس آپ کے دل کو خوش اور آپ کے نفس کو مطمئن ہونا چاہیے اور تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ ہم آپ(e) پر اس سے زیادہ رحمت و رافت رکھتے ہیں جو آپ خود اپنے آپ پر رکھتے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے انتظار اور اولوالعزم رسولوں کی سیرت کے ذریعے سے تسلی حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہے۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ ﴾ آپ کو ان پر مسلط نہیں کیا گیا ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُ٘لِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ (الرعد:13؍7) ’’آپ تو صرف متنبہ کرنے والے ہیں اور ہر ایک قوم کے لیے ایک راہ نما ہوتا ہے۔‘‘ بنابریں فرمایا: ﴿ فَذَكِّ٘رْ بِالْ٘قُ٘رْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ﴾ یہاں تذکیر سے مراد وہ نصیحت ہے جو عقل و فطرت میں راسخ ہے، یعنی نیکی سے محبت کرنا، اس کو ترجیح دینا اور اس پر عمل کرنا، نیز بدی کو ناپسند کرنا اور اس سے دور رہنا، اس تذکیر سے وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وعید سے ڈرتے ہیں اور رہے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی وعید سے خائف ہیں نہ اس پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کو نصیحت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان پر حجت قائم ہوتی ہے، تاکہ وہ یہ نہ کہیں: ﴿ مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ﴾ (المائدہ:5؍19) ’’ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا آیا نہ متنبہ کرنے والا۔‘‘