آیت:
تفسیر سورۂ حجرات
تفسیر سورۂ حجرات
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (1) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (2) إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (3)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ آگے بڑھو تم اللہ اور اس کے رسول سے اور ڈرو تم اللہ سے، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے(1) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بلند کرو تم اپنی آوازیں اوپر نبی کی آواز کے، اور نہ اونچی آواز میں آپ سے بات کرو مانند اونچی آواز (سے بات) کرنے کے تمھارے ایک کا دوسرے سے، کہیں برباد(نہ)ہو جائیں تمھارے عمل اور تمھیں شعور (بھی) نہ ہو(2) بلاشبہ وہ لوگ جو پست رکھتے ہیں اپنی آوازیں رسول اللہ کے پاس، یہی وہ لوگ ہیں کہ پرکھ کر خالص کر دیے اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے، ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے(3)
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کے ادب، نیز آپ کی تعظیم، احترام اور اکرام و تکریم کو متضمن ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان امور کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کے متقاضی ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب۔ نیز یہ کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کے مطابق چلیں اور اس کے رسول کی سنت کی اتباع کریں، اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھیں، اس وقت تک کوئی بات نہ کریں جب تک کہ اللہ کا رسول بات نہ کرے، وہ کسی کام کا حکم نہ دیں جب تک کہ اللہ کا رسول حکم نہ دے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کا یہی حقیقی ادب ہے جو فرض ہے۔ یہی ادب بندے کی سعادت اور فلاح کا عنوان ہے، چنانچہ اس کے حصول میں ناکامی، سعادت ابدی اور نعیم سرمدی کے حصول میں ناکامی ہے۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہe کے قول پر کسی اور کے قول کو مقدم رکھنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ جب مصطفیe کی سنت مبارکہ واضح ہو کر سامنے آ جائے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کو کسی اور کے قول اور رائے پر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، مقدم رکھنا واجب ہے۔
#
{1} ثم أمر الله بتقواه عموماً، وهي كما قال طَلْق بن حبيب: أن تعملَ بطاعة الله على نور من الله ترجو ثواب الله، وأن تترك معصية الله على نور من الله تخشى عقاب الله. وقوله: {إنَّ الله سميعٌ}؛ أي: لجميع الأصوات، في جميع الأوقات، في خفيِّ المواضع والجهات، {عليمٌ}: بالظواهر والبواطن، والسوابق واللواحق، والواجبات والمستحيلات والجائزات. وفي ذكر الاسمين الكريمين بعد النهيِ عن التقدّم بين يدي الله ورسوله والأمر بتقواه حثٌّ على امتثال تلك الأوامر الحسنة والآداب المستحسنة وترهيبٌ عن ضدِّه.
[1] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا عمومی حکم دیا ہے۔ اور تقویٰ کا معنی طلق بن حبیب کے قول کے مطابق، یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ثواب کے عطا ہونے کی امید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کر دیں۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ﴾ یعنی بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات اور تمام مخفی مقامات وجہات میں تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿ عَلِیْمٌ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظواہر اور بواطن، گزرے ہوئے اور آنے والے امور، تمام واجبات مستحیلات اور ممکنات کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی ممانعت اور تقویٰ کا حکم دینے کے بعد، ان دو اسمائے کریمہ کا ذکر کرنے میں، ان مذکورہ اوامر حسنہ اور آداب مستحسنہ کی تعمیل کی ترغیب اور ان کے منافی امور کو اختیار کرنے پر ترہیب ہے۔
#
{2} ثم قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتَكُم فوقَ صوتِ النبيِّ ولا تَجْهَروا له بالقولِ}: وهذا أدب مع الرسول - صلى الله عليه وسلم - في خطابه؛ أي: لا يرفع المخاطِبُ له صوتَهُ معه فوق صوتِهِ، ولا يجهرْ له بالقول، بل يغضُّ الصوتَ ويخاطبُه بأدبٍ ولينٍ وتعظيم وتكريم وإجلال وإعظام، ولا يكون الرسول كأحدهم، بل يميِّزونه في خطابهم كما تميَّز عن غيرِه في وجوبِ حقِّه على الأمَّة، ووجوب الإيمان به، والحبِّ الذي لا يتمُّ الإيمانُ إلا به؛ فإن في عدم القيام بذلك محذوراً وخشية أن يحبط عملُ العبد وهو لا يشعر؛ كما أن الأدب معه من أسباب حصول الثواب وقبول الأعمال.
[2] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ﴾ یہ رسول اللہe سے مخاطب ہونے میں آپ کا ادب ہے ،یعنی رسول اللہe سے مخاطب ہونے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز کو آپ سے بلند کرے نہ اونچی آواز میں آپ سے گفتگو کرے، بلکہ اپنے لہجے کو پست رکھے، آپ سے نہایت ادب و ملائمت، تعظیم و تکریم اور اجلال و اعظام کے ساتھ بات کرے۔ رسول اللہe ان میں سے کسی فرد جیسے نہیں ہیں۔ اس لیے آپ سے مخاطب ہونے میں آپ کے امتیاز کا خاص خیال رکھیں۔ جیسا کہ آپ اپنی امت پر اپنے حقوق، آپ پر ایمان اور آپ کے ساتھ محبت کے واجب ہونے میں امتیاز رکھتے ہیں، جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان آداب کا لحاظ نہ رکھنے سے ڈر ہے کہ کہیں بندے کا عمل اکارت نہ جائے اور اسے شعور تک نہ ہو، جس طرح آپ کا ادب حصول ثواب اور قبولیت اعمال کا سبب ہے۔
#
{3} ثم مدح من غضَّ صوته عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بأنَّ الله امتحن قلوبَهم للتقوى؛ أي: ابتلاها واختبرها، فظهرت نتيجةُ ذلك بأن صَلَحَت قلوبهم للتقوى. ثم وَعَدَهم المغفرةَ لذنوبهم، المتضمِّنة لزوال الشرِّ والمكروه، وحصول الأجر العظيم، الذي لا يعلم وصفه إلاَّ الله تعالى، وفيه حصولُ كل محبوب. وفي هذا دليلٌ على أن الله يمتحنُ القلوبَ بالأمر والنهي والمحن؛ فمَن لازمَ أمر الله واتَّبع رضاه وسارعَ إلى ذلك وقدَّمه على هواه؛ تمحَّض وتمحَّص للتقوى، وصار قلبُه صالحاً لها، ومَن لم يكن كذلك؛ علم أنه لا يصلح للتقوى.
[3] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح فرمائی ہے، جو رسول اللہe کی خدمت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے چن لیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دل تقویٰ کے لیے درست پائے، پھر اس نے ان کے ساتھ ان کے گناہوں کی بخشش کا وعدہ کیا جو ہر قسم کے شر اور ناپسندیدہ امر کے زائل ہونے اور اجر عظیم کے حصول کو متضمن ہے، جس کے وصف کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسی میں محبوب چیز کا حصول ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ امر و نہی اور مصائب و محن کے ذریعے سے دلوں کو آزماتا ہے، پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے اوامر کا التزام کرتا ہے، اس کی رضا کی اتباع کرتا ہے، اس کی تعمیل کے لیے جلدی سے آگے بڑھتا ہے، اسے اپنی خواہشات نفس پر مقدم رکھتا ہے تو وہ تقویٰ کے لیے پاک صاف ہے اور اس کا قلب صحیح اور درست ہے۔ اور جو کوئی ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ وہ تقویٰ کے قابل نہیں۔
آیت: 4 - 5 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (4) وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5)}
بلاشبہ وہ لوگ جو پکارتے ہیں آپ کو حجروں کے باہر سے، اکثر ان کے نہیں عقل رکھتے(4) اور اگربے شک وہ صبر کرتے حتی کہ آپ(خود ہی)نکلتے ان کی طرف تو ہوتا بہت بہتر ان کے لیے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے(5)
#
{4} نزلت هذه الآيات الكريمة في ناس من الأعراب، الذين وصفهم الله بالجفاء، وأنهم أجدرُ أن لا يعلموا حدودَ ما أنزل الله على رسوله؛ قدموا وافدين على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فوجدوه في بيته وحجرات نسائِهِ، فلم يصبروا ويتأدَّبوا حتى يخرج، بل نادوه: يا محمد، يا محمد ؛ أي: اخرج إلينا. فذمَّهم الله بعدم العقل؛ حيث لم يعقلوا عن الله الأدب مع رسوله واحترامه؛ كما أن من العقل استعمال الأدب؛ فأدب العبد عنوان عقله، وأنَّ الله مريدٌ به الخير.
[4] یہ آیت کریمہ، اعراب (عرب دیہاتیوں)میں سے، چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے جفا سے موصوف کیا ہے۔ وہ اس لائق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حدود کو نہ جانیں جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں۔ یہ عرب دیہاتی رسول اللہe کی خدمت میں وفد بن کر آئے اور انھوں نے آپ کو اپنے گھر میں اپنی ازواج مطہرات کے پاس پایا، انھوں نے ادب کو ملحوظ نہ رکھا اور آپ کے باہر تشریف لانے تک انتظار نہ کر سکے اور پکارنا شروع کر دیا ’’اے محمد! اے محمد! (e) ہمارے پاس آؤ ‘‘ ... پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی عدم عقل کی بنا پر مذمت کی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے ساتھ ادب و احترام کو نہ سمجھ سکے۔ جیسا کہ ادب کا استعمال عقل مندی میں شمار ہوتا ہے، بندے کا باادب ہونا اس کی عقل کا عنوان ہے۔اللہ بندے کی بھلائی چاہتا ہے
#
{5} ولهذا قال: {ولو أنَّهم صَبَروا حتى تخرُجَ إليهم لكان خيراً لهم والله غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: غفورٌ لما صدر عن عباده من الذُّنوب والإخلال بالآداب، رحيمٌ بهم حيث لم يعاجلْهم بذنوبهم بالعقوبات والمَثُلات.
[5] بنابریں فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اگر وہ صبر کرتے حتیٰ کہ آپ خود نکل کر ان کے پاس آتے، تو یہ ان کے لیے بہتر تھا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی بندوں سے جو گناہ صادر ہوتے ہیں اور ان سے ادب میں جو خلل واقع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بخشنے والا ہے، وہ ان پر بہت مہربان ہے کہ وہ ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں فوراً عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔
آیت: 6 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (6)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر لائے تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر تو تحقیق کر لیا کرو (اس کی، ایسا نہ ہو) کہ تکلیف پہنچاؤ تم کسی قوم کو نادانی سے، پھر ہو جاؤ تم اس پر جو کیا تم نے نادم(6)
#
{6} وهذا أيضاً من الآداب التي على أولي الألباب التأدُّبُ بها واستعمالها، وهو أنه إذا أخبرهم فاسقٌ بنبأ؛ أي: خبرٍ: أن يتثبَّتوا في خبره، ولا يأخذوه مجرداً؛ فإن في ذلك خطراً كبيراً ووقوعاً في الإثم؛ فإنَّ خبره إذا جُعل بمنزلة خبر الصادق العدل؛ حكم بموجب ذلك ومقتضاه، فحصل من تلف النفوس والأموال بغير حقٍّ بسبب ذلك الخبر ما يكون سبباً للندامة، بل الواجبُ عند خبر الفاسق التثبُّت والتبيُّن؛ فإن دلَّت الدلائل والقرائن على صدقه؛ عُمِلَ به وصُدِّق، وإن دلت على كذبه؛ كذِّب ولم يعمل به؛ ففيه دليل على أن خبر الصادق مقبول، وخبر الكاذب مردود، وخبر الفاسق متوقَّف فيه ، ولهذا كان السلف يقبلون روايات كثير من الخوارج المعروفين بالصدق، ولو كانوا فساقاً.
[6] یہ بھی ان آداب میں شامل ہے جن پر عقل مند لوگ عمل پیرا ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو وہ اس کی خبر کی تحقیق کر لیا کریں اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کریں، کیونکہ اس میں بہت بڑا خطرہ اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جب فاسق و فاجر شخص کی خبر کو صادق اور عادل شخص کی خبر کے طور پر لیا جائے، اور اس کے موجب اور تقاضے کے مطابق حکم لگایا جائے، تو اس خبر کے سبب سے ناحق جان و مال کا اتلاف ہو گا جو ندامت کا باعث ہو گا۔ فاسق و فاجر کی دی ہوئی خبر سننے کے بعد اس کی تحقیق و تبیین واجب ہے۔ اگر دلائل اور قرائن اس کی صداقت پر دلالت کرتے ہوں تو اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے، اور اگر دلائل و قرائن اس کے کذب پر دلالت کریں تو اس کو جھوٹ سمجھا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صادق و عادل کی خبر مقبول، کاذب کی خبر مردود اور فاسق کی خبر میں توقف ہے۔ بنابریں سلف نے خوارج کی بہت سی روایات کو قبول کیا ہے، جو صداقت میں معروف تھے۔ اگرچہ وہ فاسق تھے۔
آیت: 7 - 8 #
{وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (7) فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (8)}
اور جان لو بلاشبہ تم میں اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ تمھاری اطاعت کریں بہت سے معاملات میں (تو) یقیناً تم مشقت میں پڑ جاؤ اور لیکن اللہ نے محبوب بنا دیا تمھاری طرف ایمان کو اور مزین کر دیا اس نے اسے تمھارے دلوں میں، اور ناپسندیدہ بنا دیا تمھارے لیے کفر اور فسق اور نافرمانی کو، اور یہی لوگ ہیں رشد و ہدایت والے(7) بطور فضل کے اللہ کی طرف سے اور احسان کے اور اللہ خوب جاننے والا خوب حکمت والا ہے(8)
#
{7} أي: وليكن لديكم معلومًا أنَّ {رسول الله} - صلى الله عليه وسلم - بين أظهُرِكم، وهو الرسولُ الكريم البارُّ الراشدُ، الذي يريد بكم الخير، وينصح لكم، وتريدون لأنفسكم من الشرِّ والمضرَّة ما لا يوافقكم الرسولُ عليه، و {لو يطيعكم في كثيرٍ من الأمر} لشقَّ عليكم وأعنتكم، ولكن الرسول يرشدكُم، والله تعالى يحبِّب إليكم {الإيمان} ويزيِّنه {في قلوبكم} بما أودع في قلوبكم من محبة الحقِّ وإيثاره، وبما نصب على الحقِّ من الشواهد والأدلَّة الدالَّة على صحَّته وقبول القلوب والفِطَر له، وبما يفعله تعالى بكم من توفيقه للإنابة إليه، ويكرِّه {إليكم الكفر والفسوق}؛ أي: الذنوبَ الكبار. {والعصيان}؛ أي: الذنوبَ الصغار؛ بما أودع في قلوبكم من كراهة الشرِّ وعدم إرادة فعله، وبما نَصَبَه من الأدلَّة والشواهد على فسادِه ومضرَّته وعدم قبول الفطر له، وبما يجعل الله في القلوب من الكراهة له. {أولئك}؛ أي: الذين زيَّن الله الإيمان في قلوبهم وحبَّبه إليهم، وكرَّه إليهم الكفر والفسوق والعصيان {هم الراشدونَ}؛ أي: الذين صلحت علومُهم وأعمالُهم، واستقاموا على الدين القويم والصراط المستقيم، وضدُّهم الغاوون الذين حُبِّب إليهم الكفر والفسوق والعصيان، وكُرِّه إليهم الإيمان، والذنب ذنبُهم؛ فإنهم لما فسقوا؛ طبعَ اللهُ على قلوبهم، ولما زاغوا؛ أزاغ اللهُ قلوبهم، ولما لم يؤمنوا بالحق لمَّا جاءهم أولَ مرة؛ قلب الله أفئدتهم.
[7] یعنی تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہe تمھارے اندر موجود ہیں وہ ایسے رسول ہیں، جو صاحب کرم، نیک طینت اور راہِراست دکھانے والے ہیں، جو تمھاری بھلائی چاہتے ہیں تمھارے خیرخواہ ہیں اور تم اپنے لیے شر اور ضرر چاہتے ہو، جس پر رسول تمھاری موافقت نہیں کر سکتے۔ اگر رسولe بہت سے معاملات میں تمھاری اطاعت کرنے لگے تو تم مشقت میں پڑ جاؤ گے اور ہلاکت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ مگر رسول اللہe تمھیں رشد و ہدایت کی راہ دکھاتے ہیں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ایمان کو محبوب بناتا ہے، اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں میں حق کی محبت اور اس کی ترجیح ودیعت کی ہے، اس نے حق پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں اور قلوب اور فطرت اس کی قبولیت کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انابت کی جو توفیق عطا کرتا ہے…وہ ان کے ذریعے سے تمھارے دلوں میں ایمان کو مزین کرتا ہے۔ اس نے تمھارے دلوں میں شر سے جو نفرت و دیعت کی ہے، تمھارے دلوں میں شر کی تعمیل کا جو ارادہ معدوم ہے، اس نے شر کے فساد اور اس کی مضرت پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، تمھارے دلوں اور فطرت کے اندر شر کی جو عدم قبولیت ودیعت کی ہے اور دلوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے شر کے لیے جو کراہت پیدا کی ہے...۔ وہ ان کے ذریعے سے تمھارے دلوں کے لیے کفر و فسق یعنی چھوٹے بڑے گناہ کو ناپسندیدہ بناتا ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان مزین کردیا اور اسے ان کا محبوب بنا دیا، اور ان کو کفر، گناہ اور معصیت سے بیزار کردیا۔ ﴿ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ﴾ ’’وہی راہ ہدایت پر ہیں۔‘‘ یعنی جن کے علوم و اعمال درست ہوگئے اور وہ دین قویم اور صراط مستقیم پر کاربند ہوگئے۔ ان کے برعکس اور ان کی ضد وہ لوگ ہیں جن کے لیے کفر، فسق اور عصیان کو پسندیدہ اور ایمان کو ناپسندیدہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ گناہ ان کا اپنا گناہ ہے کیونکہ جب انھوں نے فسق کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ﴿ زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ﴾ (الصف:61؍5) ’’جب وہ کج رو ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔‘‘ چونکہ جب حق پہلی مرتبہ ان کے پاس آیا تو وہ اس پر ایمان نہ لائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا۔
#
{8} وقوله: {فضلاً من اللهِ ونعمةً}؛ أي: ذلك الخير الذي حصل لهم هو بفضل الله عليهم وإحسانِهِ، لا بحولهم وقوَّتهم. {واللهُ عليمٌ حكيمٌ}؛ أي: عليمٌ بمن يشكر النعمة فيوفِّقه لها ممَّن لا يشكرها ولا تليقُ به، فيضع فضلَه حيث تقتضيه حكمتُه.
[8] ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعْمَةً﴾ یعنی یہ بھلائی جو انھیں حاصل ہے، ان پر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل و احسان ہے، اس میں ان کی اپنی قوت و اختیار کو کوئی دخل نہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو جانتا ہے جو اس نعمت کی قدر کرتا ہے پس وہ اسے اس نعمت کی توفیق سے نواز دیتا ہے اور اس شخص کو بھی جانتا ہے جو اس نعمت کی قدر نہیں کرتا اور یہ نعمت اس کے لائق نہیں ہوتی۔ پس وہ اپنے فضل و کرم کو اس مقام پر رکھتا ہے جہاں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے۔
آیت: 9 - 10 #
{وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (9) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (10)}
اور اگر دو گروہ مومنوں کے آپس میں لڑپڑیں تو تم صلح کرا دو ان کے درمیان پھر اگر زیادتی کرے ایک (گروہ ان) دونوں میں سے دوسرے پر تو تم لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتٰی کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف ، پھر اگر وہ لوٹ آئے تو تم صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان ساتھ عدل (حق) کے اور تم انصاف کرو، بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو(9) یقیناً مومن (ایک دوسرے کے) بھائی ہیں، سو تم صلح کراؤ درمیان اپنے بھائیوں کے اور ڈرو تم اللہ سے تاکہ تم رحم کیے جاؤ (10)
#
{9} هذا متضمِّنٌ لنهي المؤمنين عن أن يبغيَ بعضُهم على بعض ويقتلَ بعضُهم بعضاً، وأنه إذا اقتتلتْ طائفتان من المؤمنين؛ فإن على غيرهم من المؤمنين أن يتلافَوْا هذا الشرَّ الكبير بالإصلاح بينهم والتوسُّط على أكمل وجه يقع به الصلحُ ويسلكوا الطرق الموصلة إلى ذلك؛ فإن صلحتا؛ فبها ونعمت. {فإن بغتْ إحداهُما على الأخْرى فقاتِلوا التى تبغي حتى تفيءَ إلى أمرِ اللهِ}؛ أي: ترجع إلى ما حدَّ الله ورسولُه من فعل الخير وترك الشرِّ الذي من أعظمه الاقتتال. وقولُه: {فإن فاءتْ فأصْلِحوا بينَهما بالعَدْلِ}: هذا أمرٌ بالصُّلح وبالعدل في الصلح؛ فإنَّ الصُّلح قد يوجد، ولكن لا يكون بالعدل، بل بالظُّلم والحيف على أحد الخصمين؛ فهذا ليس هو الصُّلح المأمورُ به، فيجب أن لا يراعَى أحدهما لقرابةٍ أو وطنٍ أو غير ذلك من المقاصد والأغراض، التي توجب العدول عن العدل. {إنَّ اللهَ يحبُّ المُقْسِطينَ}؛ أي: العادلين في حكمهم بين الناس، وفي جميع الولايات التي تولوها، حتى إنه قد يدخل في ذلك عدلُ الرجل في أهله وعيالِه في أداء حقوقهم، وفي الحديث الصحيح: «المقسِطون عند الله على منابرَ من نورٍ؛ الذين يعدِلون في حكمِهم وأهليهم وما ولوا».
[9] یہ آیت کریمہ، اہل ایمان کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے سے روکنے کو متضمن ہے، نیز یہ کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ ان دو گروہوں کے درمیان پڑ کر، جس کے ذریعے سے ان کے مابین صلح ہو جائے، اور ان کے درمیان اصلاح کے ذریعے سے، اس بہت بڑے شر کی تلافی کریں اور وہ ذرائع اختیار کریں جو صلح پر منتج ہوتے ہوں۔ اگر وہ دونوں گروہ باہم صلح کر لیں تو بہت اچھی بات ہے ﴿ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰؔىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَ٘بْغِیْ حَتّٰى تَ٘فِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔‘‘ یعنی اس حد کی طرف لوٹ آئیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے یعنی فعل خیر اور ترک شر۔ اور سب سے بڑا شر آپس میں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ ’’پس جب وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔‘‘ صلح اور صلح میں عدل و انصاف کا حکم ہے کیونکہ کبھی کبھار صلح تو ہوتی ہے مگر عدل و انصاف پر نہیں بلکہ ظلم اور کسی ایک فریق پر زیادتی پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے یہ وہ صلح نہیں جس کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ فریقین میں سے کسی کی کسی قرابت یا وطن یا دیگر اغراض و مقاصد کے حوالے سے رعایت نہ رکھی جائے، جو عدل و انصاف سے انحراف کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿ وَاَقْسِطُوْا ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾ ’’اور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جو لوگوں کے درمیان اپنے فیصلوں اور ان تمام ذمہ داریوں میں جن پر ان کو متعین کیا جاتا ہے انصاف سے کام لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس میں وہ عدل و انصاف بھی داخل ہے جو انسان اپنے اہل و عیال کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کرتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر فائز ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور منصبی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 1827)
#
{10} {إنَّما المؤمنونَ إخوةٌ}: هذا عقدٌ عقدَه الله بين المؤمنين؛ أنَّه إذا وجد من أيِّ شخصٍ كان في مشرق الأرض ومغربها الإيمانُ بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر؛ فإنَّه أخٌ للمؤمنين أخوَّةً توجبُ أن يحبَّ له المؤمنون ما يحبُّون لأنفسهم، ويكرهوا له ما يكرهون لأنفسهم، ولهذا قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - آمراً بالأخوَّة الإيمانيَّة: «لا تَحاسدوا ولا تَناجشوا ولا تَباغضوا ولا تَدابروا، وكونوا عبادَ اللهِ إخواناً. المسلمُ أخو المسلم؛ لا يظلمُه ولا يخذُلُه ولا يكذبه». متفقٌ عليه. وفيهما عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: «المؤمنُ للمؤمن كالبنيان يشدُّ بعضُه بعضاً، وشبك - صلى الله عليه وسلم - بين أصابعه». ولقد أمر اللهُ ورسولُه بالقيام بحقوق المؤمنين بعضهم لبعض وبما يحصُلُ به التآلفُ والتوادُدُ والتواصُلُ بينهم، كل هذا تأييدٌ لحقوق بعضهم على بعض؛ فمن ذلك إذا وقع الاقتتال بينهم الموجب لتفرُّق القلوب وتباغُضها وتدابُرها؛ فَلْيُصْلِح المؤمنون بين إخوانهم، ولْيَسْعَوا فيما به يزول شَنَآنهم. ثم أمر بالتقوى عموماً، ورتب على القيام بالتقوى وبحقوق المؤمنين الرحمةَ، فقال: {لعلَّكم تُرْحَمونَ}، وإذا حصلت الرحمةُ؛ حصل خيرُ الدنيا والآخرة. ودلَّ ذلك على أنَّ عدم القيام بحقوق المؤمنين من أعظم حواجب الرحمة. وفي هاتين الآيتين من الفوائد غير ما تقدم: أنَّ الاقتتال بين المؤمنين منافٍ للأخوَّة الإيمانيَّة، ولهذا كان من أكبر الكبائر. وأنَّ الإيمان والأخوَّة الإيمانيَّة لا يزولان مع وجود الاقتتال؛ كغيره من الذنوب الكبائر، التي دون الشرك، وعلى ذلك مذهب أهل السنة والجماعة. وعلى وجوب الإصلاح بين المؤمنين بالعدل. وعلى وجوب قتال البُغاة حتى يرجِعوا إلى أمر الله، وعلى أنهم لو رجعوا لغير أمرِ الله؛ بأن رجعوا على وجهٍ لا يجوز الإقرار عليه والتزامه؛ أنَّه لايجوز ذلك. وأنَّ أموالهم معصومةٌ؛ لأنَّ الله أباح دماءهم وقت استمرارهم على بَغْيِهم خاصةً دون أموالهم.
[10] ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ ’’بے شک سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے درمیان قائم کیا ہے، زمین کے مشرق یا مغرب میں کوئی بھی شخص جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ مومنوں کا بھائی ہے۔ یہ ایسی اخوت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ مومن اس کے لیے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اور وہ چیز اس کے لیے ناپسند کریں جسے وہ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ بنابریں رسول مصطفیe نے اسی اخوت ایمان کی بنا پر حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’باہم حسد نہ کرو، مال کی خرید و فروخت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے ناراض نہ ہو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ ، مومن، مومن کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 1543 مختصراً و صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 2564) صحیحین میں رسول اللہe سے مروی ہے آپ نے فرمایا: ’’مومن مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔‘‘ اور رسول اللہe نے ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسری میں ڈال کر دکھایا۔(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6026، و صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 2585) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے حکم دیا کہ تمام مومنین ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کریں اور ایک دوسرے سے ایسا سلوک کریں جس سے باہمی الفت، محبت اور باہمی میل جول پیدا ہوتا ہے یہ سب کچھ ایک دوسرے کے حقوق کی تائید ہے۔ اہل ایمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کسی ایسی لڑائی میں مبتلا ہو جائیں جو دلوں میں تفرقہ، باہم ناراضی، اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی موجب ہو تو اہل ایمان اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں تاکہ ان کی باہمی دشمنی ختم ہو جائے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی تقویٰ کا حکم دیا اور قیام تقویٰ اور مومنوں کے حقوق کی ادائیگی پر رحمت کو مترتب فرمایا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہو جاتی ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے حقوق کی عدم ادائیگی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان دو آیات کریمہ میں مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ بھی بعض فوائد ہیں: (۱) اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا، اخوت ایمانی کے منافی ہے، اس لیے یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ (۲) ایمان اور اخوت ایمانی، آپس کی لڑائی کے باوجود زائل نہیں ہوتے جیسے دوسرے کبیرہ گناہوں سے ایمان زائل نہیں ہوتا، جو شرک سے کم تر ہوں۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔ (۳) یہ آیاتِ کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ مومنوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانا واجب ہے۔ (۴) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے خلاف لڑنا واجب ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئیں۔ (۵) نیز یہ آیات کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اگر باغی غیراللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں ، یعنی وہ اس طرح رجوع کریں جس پر قائم رہنا اور اس کا التزام جائز نہ ہو، تو غیراللہ کے حکم کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ (۶) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے اموال معصوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بغاوت پر جمے رہنے کی بنا پر، ان کے اموال کی بجائے خاص طور پر ان کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔
آیت: 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (11)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ ٹھٹھا کرے ایک قوم (دوسری) قوم سے، شاید کہ ہوں وہ (لوگ) بہتر ان سے اور نہ عورتیں ہی (ٹھٹھا کریں دوسری) عورتوں سے، شاید کہ ہوں وہ (عورتیں) بہتر ان سے اور نہ عیب لگاؤ تم آپس میں (ایک دوسرے پر) اور نہ پکارو تم ایک دوسرے کو برے لقبوں سے برا ہے نام فسق (سے ملقب کرنا) بعد ایمان کے اور جس نے توبہ نہ کی، تو وہی (لوگ) ظالم ہیں (11)
#
{11} وهذا أيضاً من حقوق المؤمنين بعضهم على بعض؛ أن: {لا يَسْخَرْ قومٌ من قومٍ}: بكلِّ كلامٍ وقولٍ وفعلٍ دالٍّ على تحقير الأخ المسلم؛ فإنَّ ذلك حرامٌ لا يجوز، وهو دالٌّ على إعجاب الساخر بنفسه، وعسى أن يكون المسخورُ به خيراً من الساخر، وهو الغالبُ والواقعُ؛ فإنَّ السخرية لا تقع إلاَّ من قلب ممتلئٍ من مساوئ الأخلاق، متحلٍّ بكل خلقٍ ذميمٍ، متخلٍّ من كلِّ خلقٍ كريم، ولهذا قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «بحسب امرئٍ من الشرِّ أن يحقر أخاه المسلمَ». ثم قال: {ولا تَلْمِزوا أنفُسَكُم}؛ أي: لا يعب بعضكم على بعض، واللَّمزُ بالقول، والهمز بالفعل، وكلاهما منهيٌّ عنه حرامٌ متوعَّدٌ عليه بالنار؛ كما قال تعالى: {ويلٌ لكلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ ... } الآية، وسمَّى الأخ المسلم نفساً لأخيهِ؛ لأن المؤمنين ينبغي أن يكون هكذا حالُهم؛ كالجسد الواحد، ولأنَّه إذا همزَ غيرَه؛ أوجبَ للغير أن يهمزه، فيكون هو المتسبِّب لذلك، {ولا تنابَزوا بِالألقابِ}؛ أي: لا يعيِّر أحدُكم أخاه ويلقِّبه بلقبٍ يكره أن يقالَ فيه، وهذا هو التنابز، وأما الألقاب غير المذمومة؛ فلا تدخل في هذا. {بئسَ الاسمُ الفُسوقُ بعدَ الإيمانِ}؛ أي: بئسما تبدَّلتم عن الإيمان والعمل بشرائعِهِ وما يقتضيه بالإعراضِ عن أوامرِهِ ونواهيه باسم الفسوق والعصيان الذي هو التنابُزُ بالألقاب، {ومَن لم يَتُبْ فأولئك هم الظَّالمونَ}: وهذا هو الواجب على العبد: أن يتوبَ إلى الله تعالى، ويخرجَ من حقِّ أخيه المسلم باستحلالِهِ والاستغفار والمدح له مقابلةً على ذمِّه. {ومَن لمْ يَتُبْ فأولئكَ هم الظالمونَ}؛ فالناس قسمان: ظالمٌ لنفسه غيرُ تائبٍ، وتائبٌ مفلحٌ، ولا ثَمَّ غيرهما.
[11] یہ بھی مومنوں کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے ﴿ لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ﴾ ’’کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔‘‘ یعنی کسی قسم کی گفتگو اور قول و فعل کے ذریعے سے تمسخر نہ اڑائے، جو مسلمان بھائی کی تحقیر پر دلالت کرتے ہوں۔ بے شک یہ تمسخر حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں نیز یہ چیز تمسخر اڑانے والے کی خود پسندی پر دلیل ہے۔ ہو سکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو اور غالب طور پر یہی ہوتا ہے۔ کیونکہ تمسخر صرف اسی شخص سے صادر ہوتا ہے جس کا قلب اخلاق بد سے لبریز ہو، جو ہر قسم کے اخلاق مذمومہ سے آراستہ اور اخلاق کریمہ سے بالکل خالی ہو۔ بنابریں نبی ٔاکرمe نے فرمایا: ’’کسی شخص کی برائی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم..... حدیث: 2564) پھر فرمایا: ﴿ وَلَا تَلْ٘مِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی عیب چینی نہ کرے۔ (اَللَّمْزُ) قول کے ذریعے سے عیب چینی کرنا۔ (اَلْھَمْزُ) فعل کے ذریعے سے عیب چینی کرنا یہ دونوں امور ممنوع اور حرام ہیں جن پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیْلٌ لِّ٘كُ٘لِّ هُمَزَةٍ لُّ٘مَزَةِ ﴾ (الہمزۃ:104؍1) ’’ہلاکت ہے ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے عیب جو کے لیے۔‘‘ مسلمان بھائی کو اپنے مسلمان بھائی کے لیے نفس سے موسوم کیا ہے کیونکہ تمام اہل ایمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ جسد واحد کی مانند ہوں، نیز جب وہ کسی دوسرے کی عیب چینی کرے تو یہ چیز اس بات کی موجب ہو گی کہ دوسرا اس کی عیب چینی کرے، لہذا وہی اس عیب چینی کا سبب بنے گا۔ ﴿ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾ یعنی تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کسی ایسے لقب سے ملقب نہ کرے جس سے پکارا جانا وہ ناپسند کرتا ہے، اور یہی (تَنَابُزْ) ’’یعنی ایک دوسرے کو برا لقب دینا‘‘ ہے۔ رہے غیر مذموم القاب، تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ﴾ ’’ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے۔‘‘ یعنی کتنی بری ہے وہ چیز جو تم نے ایمان اور شریعت پر عمل کے بدلے حاصل کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے اعراض کے ذریعے سے فسق و عصیان کے نام کی مقتضی ہے جو کہ تنابز بالالقاب ہے۔ ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔‘‘ اور یہی چیز بندے پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنے مسلمان بھائی سے اس کے حق کو حلال کرا کے، اس کے لیے استغفار کر کے، اور اس کی جو مذمت کی گئی ہے اس کے مقابلے میں اس کی مدح و ستائش کر کے اس کا حق ادا کرے ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اور جس نے توبہ نہیں کی، تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘ لوگوں کی دو اقسام ہیں1 اپنی جان پر ظلم کرنے والا وہ شخص جو توبہ نہیں کرتا۔ 2توبہ کر کے فوز و فلاح سے بہرہ مند ہونے والا۔ ان دو اقسام کے سوا اور کوئی قسم نہیں۔
آیت: 12 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (12)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اجتناب کرو بہت سی بدگمانیوں سے، بلاشبہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور نہ ا یک د وسرے کی جاسوسی کرو اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی کیا پسند کرتا ہے (کوئی) ایک تم میں سے یہ کہ وہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جبکہ ہو وہ(بھائی) مردہ؟ پس تم ناپسند کرتے ہو اس کو اور ڈرو اللہ سے، بلاشبہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے (12)
#
{12} نهى تعالى عن كثيرٍ من الظَّنِّ السيِّئِ بالمؤمنين، {إنَّ بعضَ الظَّنِّ إثمٌ}: وذلك كالظَّنِّ الخالي من الحقيقة والقرينة، وكظنِّ السَّوْءِ الذي يقترن به كثيرٌ من الأقوال والأفعال المحرَّمة؛ فإنَّ بقاءَ ظنِّ السَّوْءِ بالقلب لا يقتصر صاحبه على مجرَّد ذلك، بل لا يزال به حتى يقول ما لا ينبغي ويفعل ما لا ينبغي، وفي ذلك أيضاً إساءةُ الظنِّ بالمسلم وبغضُهُ وعداوتُهُ المأمور بخلافها منه، {ولا تَجَسَّسوا}؛ أي: لا تفتِّشوا عن عورات المسلمين، ولا تَتَّبعوها، ودَعُوا المسلم على حاله، واستعملوا التغافُل عن زلاَّته، التي إذا فُتِّشَتْ؛ ظهرَ منها ما لا ينبغي، {ولا يَغْتَب بعضُكُم بعضاً}: والغيبة كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «ذِكْرُكَ أخاك بما يكرَهُ، ولو كان فيه». ثم ذَكَرَ مثلاً منفراً عن الغيبة، فقال: {أيحبُّ أحدُكُم أن يأكُلَ لحمَ أخيه مَيْتاً فكَرِهْتُموه}: شبَّه أكلَ لحمِهِ ميتاً المكروه للنفوس غايةَ الكراهةِ باغتيابه؛ فكما أنَّكم تكرهون أكل لحمه، خصوصاً إذا كان ميتاً فاقد الروح؛ فكذلك فَلْتَكْرهوا غيبته وأكل لحمه حيًّا، {واتَّقوا اللهَ إنَّ اللهَ توابٌ رحيمٌ}: والتوَّابُ: الذي يأذن بتوبة عبده، فيوفِّقه لها، ثم يتوبُ عليه بقبول توبته، رحيمٌ بعباده؛ حيث دعاهم إلى ما ينفعهم، وقبل منهم التوبة. وفي هذه الآية دليلٌ على التَّحذير الشديد من الغِيبة، وأنَّها من الكبائر؛ لأنَّ الله شبَّهها بأكل لحم الميت، وذلك من الكبائر.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے بارے میں بدگمانی سے روکا ہے، اس لیے کہ ﴿ اِنَّ بَعْضَ الظَّ٘نِّ اِثْمٌ﴾ ’’بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ ظن و گمان ہے جو حقیقت اور قرینے سے خالی ہے ، مثلاً: وہ بدگمانی جس کے ساتھ بہت سے اقوال بد اور افعال بد مقرون ہوتے ہیں۔ کیونکہ دل کے اندر بدگمانی کے جڑ پکڑ لینے سے، بدگمانی کرنے والا شخص صرف بدگمانی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے بارے میں باتیں اور ایسے کام کرتا رہتا ہے جس کا کرنا مناسب نہیں، نیز یہ چیز مسلمان کے بارے میں بدگمانی، اس کے ساتھ بغض و عداوت کو متضمن ہے جس کے برعکس معاملے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَّلَا تَجَسَّسُوْا﴾ یعنی مسلمانوں کے پوشید معاملات کی ٹوہ لگاؤ نہ ان کا پیچھا کرو۔ مسلمان کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو اور اس کی ان لغزشوں کو نظر انداز کر دو جن کی اگر تفتیش کی جائے تو نامناسب امور ظاہر ہوں۔ ﴿ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘ غیبت کا معنی یہ ہے، جیسا کہ نبی ٔاکرمe نے فرمایا: ’’تو اپنے بھائی کی کسی خامی کا ذکر کرے جس کے ظاہر کرنے کو وہ ناپسند کرتا ہو ...خواہ وہ خامی اس کے اندر موجود ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 2589) پھر اللہ تعالیٰ نے غیبت سے نفرت دلانے کے لیے مثال دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّ٘اْكُ٘لَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَؔكَرِهْتُمُوْهُ۠﴾ ’’کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ پس اس سے تم نفرت کرو گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے، جو نفوس انسانی کے لیے انتہائی ناپسندیدہ چیز ہے۔ پس جس طرح تم اپنے بھائی، خاص طور پر بے جان اور مردہ بھائی کا گوشت کھانا ناپسند کرتے ہو اسی طرح تمھیں اس کی غیبت کرنا اور زندہ حالت میں اس کا گوشت کھانے کو ناپسند کرنا چاہیے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘(تَوَّاب) وہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو توبہ کا حکم دے کر اسے توبہ کی توفیق سے نوازتی ہے، پھر اس کی توبہ قبول کر کے اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے کہ اس نے ان کو اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے لیے فائدہ مند ہے اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں غیبت سے نہایت سختی سے ڈرایا گیا ہے، نیز یہ کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔
آیت: 13 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (13)}
اے لوگو! بلاشبہ ہم نے پیدا کیا تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے، اور بنائے ہم نے تمھارے خاندان اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بلاشبہ زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے ہاں، (وہ ہے جو) زیادہ پرہیز گار ہے تم میں سے بلاشبہ اللہ خوب جاننے والا خوب خبردار ہے (13)
#
{13} يخبرُ تعالى أنَّه خلقَ بني آدم من أصل واحدٍ وجنسٍ واحدٍ، وكلُّهم من ذكر وأنثى، ويرجعون جميعُهم إلى آدم وحواء، ولكنَّ الله تعالى بثَّ منهما رجالاً كثيراً ونساءً، وفرَّقهم، وجعلهم {شعوباً وقبائلَ}؛ أي: قبائل صغاراً وكباراً، وذلك لأجل أن يتعارَفوا؛ فإنَّه لو استقلَّ كلُّ واحد منهم بنفسه؛ لم يحصُلْ بذلك التعارف الذي يترتَّب عليه التَّناصر والتَّعاون والتَّوارث والقيام بحقوق الأقارب، ولكنَّ الله جعلهم شعوباً وقبائل؛ لأجل أن تحصُلَ هذه الأمور وغيرها ممَّا يتوقَّف على التعارف ولحوق الأنساب، ولكن الكرمَ بالتَّقوى؛ فأكرمُهم عند الله أتقاهم، وهو أكثرُهم طاعةً وانكفافاً عن المعاصي، لا أكثرُهم قرابةً وقوماً، ولا أشرفُهم نسباً، ولكن اللهَ تعالى {عليمٌ خبيرٌ}، يعلمُ منهم مَن يقوم بتقوى الله ظاهراً وباطناً ممَّن لا يقوم بذلك ظاهراً ولا باطناً، فيجازي كلًّا بما يستحقُّ. وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّ معرفة الأنساب مطلوبةٌ مشروعةٌ؛ لأنَّ الله جعلهم شعوباً وقبائلَ لأجل ذلك.
[13] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے بنی آدم کو ایک ہی اصل اور ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے تمام بنی آدم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ تمام بنی آدم، حضرت آدم اور حواi کی طرف لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نسل میں سے بے شمار مردوں اور عورتوں کو پھیلایا، پھر ان کو قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا ، یعنی چھوٹے بڑے قبیلوں میں تاکہ وہ ایک دوسرے کی پہچان کر رکھیں۔ کیونکہ اگر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت کو قائم رکھے تو وہ تعارف حاصل نہیں ہو سکتا جس پر ایک دوسرے کی مدد اور باہمی تعاون، باہمی توارث اور عزیز و اقارب کے حقوق کا قیام مرتب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قوموں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ وہ امور حاصل ہو سکیں جو باہمی تعارف اور الحاقِ نسب پر موقوف ہیں۔ مگر عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ شعار ہے اور یہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور گناہوں سے رکنے والا ہے۔ وہ شخص سب سے زیادہ عزت والا نہیں جس کا کنبہ قبیلہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بلند حسب و نسب رکھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے وہ جانتا ہے کہ ان میں کون ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ سے اپنے ظاہر میں ڈرتا ہے نہ باطن میں پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ایسی جزا دے گا جس کا مستحق وہ ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسب و نسب کی معرفت مطلوب اور مشروع ہے کیونکہ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قوم اور قبیلے بنائے۔
آیت: 14 - 18 #
{قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (14) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (15) قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (16) يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (17) إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (18)}
کہا دیہاتیوں نے ہم ایمان لائے، کہہ دیجیے! نہیں ایمان لائے تم اور لیکن تم کہو ہم اسلام لائے، اور ابھی تک نہیں داخل ہوا ایمان تمھارے دلوں میں اور اگر تم اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی (تو) نہیں کم کرے گا وہ تمھارے اعمال (کی جزا) سے کچھ بھی، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے (14) یقیناً (سچے) مومن (تو) وہ ہیں جو ایمان لائے ساتھ اللہ اور اس کےرسول کے، پھر نہ شک کیا انھوں نے، اور جہاد کیا انھوں نے ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے اللہ کی راہ میں، یہی لوگ سچے (مومن) ہیں (15) کہہ دیجیے! کیا تم خبر دیتے ہو اللہ کو اپنے دین کی؟ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (16) وہ (دیہاتی) احسان جتاتے ہیں آپ پر یہ کہ وہ مسلمان ہوئے، کہہ دیجیے! نہ احسان جتاؤ تم مجھ پر اپنے اسلام (لانے) کا، بلکہ اللہ احسان فرماتا ہےتم پر یہ کہ اس نے ہدایت دی تمھیں ایمان کی اگر ہو تم سچے (17) بلاشبہ اللہ جانتا ہے چھپی باتیں آسمانوں اور زمین کی، اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اس کو جو تم عمل کرتے ہو (18)
#
{14} يخبرُ تعالى عن مقالةِ الأعراب، الذين دخلوا في الإسلام على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - دخولاً من غير بصيرةٍ ولا قيامٍ بما يجبُ ويقتضيه الإيمان؛ أنَّهم مع هذا ادَّعوا وقالوا {آمنَّا}؛ أي: إيماناً كاملاً مستوفياً لجميع أموره. هذا موجب هذا الكلام، فأمر الله رسوله أن يردَّ عليهم، فقال: {قل لمْ تؤمِنوا}؛ أي: لا تدَّعوا لأنفسِكُم مقامَ الإيمان ظاهراً وباطناً كاملاً، {ولكن قولوا أسْلَمْنا}؛ أي: دخلْنا في الإسلام، واقْتَصِروا على ذلك، {و} السبب في ذلك أنه {لَمَّا يدخلِ الإيمانُ في قلوبِكُم}: وإنَّما أسلمتم خوفاً أو رجاءً أو نحو ذلك مما هو السبب في إيمانكم؛ فلذلك لم تدخل بشاشة الإيمان في قلوبكم. وفي قوله: {ولمَّا يدخلِ الإيمانُ في قلوبِكُم}؛ أي: وقتَ هذا الكلام الذي صدر منكم، فكان فيه إشارةٌ إلى أحوالهم بعد ذلك؛ فإنَّ كثيراً منهم منَّ الله عليهم بالإيمان الحقيقيِّ والجهاد في سبيل الله، {وإن تُطيعوا اللهَ ورسولَه}: بفعل خير أو ترك شرٍّ {لا يَلِتْكُم من أعمالِكُمْ شيئاً}؛ أي: لا يَنْقُصْكم منها مثقال ذرَّةٍ، بل يوفيكم إيَّاها أكمل ما تكون، لا تفقدون منها صغيراً ولا كبيراً. {إنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: غفورٌ لمَن تابَ إليه وأناب، رحيمٌ به؛ حيث قبل توبته.
[14] اللہ تبارک و تعالیٰ بعض ان عرب دیہاتیوں کے قول کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو رسول اللہe کے عہد میں کسی بصیرت کے بغیر اسلام میں داخل ہوئے اور ان امور کو قائم نہ کیا جن کا قیام واجب اور جن کے قیام کا تقاضا ایمان کرتا ہے۔ اور اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں ’’ہم ایمان لائے‘‘ یعنی کامل ایمان جو تمام امور کو پورا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول(e) کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس قول کی تردید کر دیں، چنانچہ فرمایا ﴿ قُ٘لْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا﴾ یعنی کہہ دیجیے: تم اپنے لیے ظاہری اور باطنی طور پر کامل مقام ایمان کا دعوی نہ کرو ﴿ وَلٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا﴾ ’’لیکن کہو ہم اسلام لائے۔‘‘ یعنی ہم اسلام میں داخل ہو گئے اور اسی پر اکتفا کرو۔ ﴿ وَ ﴾’’اور ‘‘اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ﴾ تم نے تو محض کسی خوف یا کسی امید وغیرہ کی بنا پر اسلام قبول کیا ہے، جو تمھارے ایمان کا سبب ہے، اس لیے ایمان کی بشاشت ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ﴾ سے مراد ہے کہ جب تم سے یہ کلام صادر ہوا اس وقت تک تمھارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا، اس آیت کریمہ میں ان کے بعد کے احوال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان سے بہرہ مند اور جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت سے سرفراز فرمایا۔ ﴿ وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ اور اگر تم کسی فعلِ خیر اور اجتنابِ شر کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہو ﴿ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْـًٔـا﴾ تو وہ تمھارے اعمال میں ذرہ بھر کمی نہیں کرے گا بلکہ تمھارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور تم اپنا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل غیر موجود نہیں پاؤ گے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ یقیناً اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اس پر نہایت مہربان ہے کہ اس نے اس کی توبہ قبول کی۔
#
{15} {إنَّما المؤمنون}؛ أي: على الحقيقة، {الذين آمنوا بالله ورسولِهِ وجاهدوا في سبيلِ اللهِ}؛ أي: من جمعوا بينَ الإيمان بالله ورسولِهِ والجهادِ في سبيله؛ فإنَّ مَن جاهدَ الكفارَ؛ دلَّ ذلك على الإيمان التامِّ في قلبِهِ؛ لأنَّ من جاهد غيره على الإسلام والإيمان والقيام بشرائعه؛ فجهاده لنفسه على ذلك من باب أولى وأحرى، ولأنَّ من لم يقوَ على الجهاد؛ فإنَّ ذلك دليلٌ على ضعف إيمانه. وشرط تعالى في الإيمان عدم الريب؛ أي: الشكِّ؛ لأنَّ الإيمان النافع هو الجزم اليقينيُّ بما أمر الله بالإيمان به، الذي لا يعتريه شكٌّ بوجه من الوجوه. وقوله: {أولئك هم الصادقون}؛ أي: الذين صدَّقوا إيمانهم بأعمالهم الجميلة؛ فإنَّ الصدقَ دعوى عظيمةٌ في كل شيء يُدَّعى، يحتاج صاحبه إلى حجة وبرهانٍ، وأعظم ذلك دعوى الإيمان، الذي هو مدار السعادة والفوز الأبديِّ والفلاح السرمديِّ؛ فمن ادَّعاه وقام بواجباته ولوازمه؛ فهو الصادق المؤمن حقًّا، ومن لم يكن كذلك؛ عُلِم أنه ليس بصادق في دعواه، وليس لدعواه فائدة؛ فإنَّ الإيمان في القلب، لا يطلع عليه إلا الله تعالى؛ فإثباتُه ونفيُه من باب تعليم الله بما في القلب وهو سوء أدبٍ وظنٍّ بالله.
[15] ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی حقیقی مومن ﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ وہ ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور اللہ کے راستے میں جہاد کو یکجا کیا۔ اور جس نے کفار کے ساتھ جہاد کیا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں کامل ایمان ہے۔ کیونکہ جو کوئی اسلام، ایمان اور اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کے لیے دوسروں سے جہاد کرتا ہے تو اس کا اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ جو کوئی جہاد کی قوت نہیں پاتا تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لیے عدم شک و ریب کی شرط عائد کی ہے کیونکہ ایمان نافع سے مراد ہے اس معاملے میں قطعی یقین سے بہرہ ور ہونا جس پر اللہ تعالیٰ نے ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے جس میں کسی لحاظ سے بھی شک و شبہ کا شائبہ نہ ہو۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰؔدِقُوْنَ﴾ ’’یہی لوگ سچے ہیں‘‘ یعنی جنھوں نے اعمال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی، کیونکہ ہر معاملے میں صدق ایک بڑا دعویٰ ہے، جس میں صاحبِ صدق کسی دلیل و برہان کا محتاج ہے، اور ایمان کا دعویٰ تو سب سے بڑا دعویٰ ہے جس پر بندے کی سعادت، ابدی کامیابی اور سرمدی فلاح کا دار ومدار ہے۔ پس جو کوئی ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے واجبات و لوازم کو قائم کرتا ہے، وہی حقیقی اور سچا مومن ہے۔ اور جو کوئی ایسا نہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں اور اس کے اس دعوائے ایمان کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ ایمان دل کے اندر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے ایمان کا اثبات کرنا یا اس کی نفی کرنا، گویا دل میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بے ادبی اور بدظنی ہے۔
#
{16} ولهذا قال: {قل أتُعَلِّمون اللهَ بِدينِكم واللهُ يعلمُ ما في السمواتِ وما في الأرضِ واللهُ بكلِّ شيءٍ عليمٌ}: وهذا شاملٌ للأشياء كلِّها، التي من جملتِها ما في القلوب من الإيمان والكفران والبرِّ والفجور؛ فإنَّه تعالى يعلمُ ذلك كلَّه، ويجازي عليه، إن خيراً فخيرٌ، وإن شرًّا فشرٌّ.
[16] ﴿ قُ٘لْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِیْنِكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَاللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’کہہ دیجیے: کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دین داری سے آگاہ کر رہے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘ یہ تمام اشیاء کو شامل ہے اور دل کے اندر جو ایمان اور کفر، نیکی اور بدی ہوتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی جزا دے گا، اگر اچھا عمل ہو گا تو اچھی جزا ہو گی اور برا عمل ہوگا تو بری جزا ہو گی۔
#
{17} هذه حالةٌ من أحوال من ادَّعى لنفسه الإيمان وليس به؛ فإنَّه إمَّا أن يكون ذلك تعليماً لله، وقد علم أنه عالمٌ بكلِّ شيء، وإمَّا أن يكون قصدُهم بهذا الكلام المنة على رسولِه، وأنَّهم قد بذلوا وتبرَّعوا بما ليس من مصالحهم بل هو من حظوظه الدنيويَّة، وهذا تجمُّلٌ بما لا يجمل، وفخرٌ بما لا ينبغي لهم الفخر به على رسوله؛ فإنَّ المنَّة لله تعالى عليهم؛ فكما أنه تعالى هو المانُّ عليهم بالخلق والرزق والنعم الظاهرة والباطنة؛ فمنَّتُه عليهم بهدايتهم إلى الإسلام ومنَّتُه عليهم بالإيمان أفضلُ من كلِّ شيء، ولهذا قال: {يَمُنُّونَ عليك أنْ أسلَموا قل لا تَمُنُّوا عليَّ إسلامكم بلِ اللهُ يمنُّ عليكم أنْ هداكُم للإيمانِ إن كنتُم صادقينَ}.
[17] یہ اس شخص کا حال ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ اس میں ایمان نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ یا تو اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنے کے لیے ہے درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے یا اس کلام کا مقصد رسول اللہe پر احسان کا اظہار ہے کہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے اس میں ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ رسول اللہe ہی کو اس کا دنیاوی فائدہ حاصل ہوا ہے یہ رسول اللہe کے سامنے ایسے معاملے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے جس سے آراستہ نہیں ہوا جا سکتا اور ایسے معاملے پر فخر کرنا ہے جو قابل فخر نہیں۔ کیونکہ احسان اور نوازش کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو تخلیق کیا اور رزق عطا کیا، ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ پس یہ اس کی عنایت اور احسان ہے کہ اس نے اسلام کی طرف ان کی راہ نمائی کی اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس ایمان سے ان کو سرفراز فرمایا جو ہر چیز سے افضل ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُ٘لْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰؔىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمھیں ایمان کی ہدایت کی، اگر تم راست گو ہو۔‘‘
#
{18} {إنَّ اللهَ يعلمُ غَيْبَ السَّمواتِ والأرضِ}؛ أي: الأمور الخفية فيهما، التي تخفى على الخلق؛ كالذي في لُجَج البحار، ومَهامِهِ القِفار، وما جنَّهُ الليلُ أو واراهُ النهارُ؛ يعلمُ قطرات الأمطار، وحبات الرمال، ومكنونات الصدور، وخبايا الأمور، {وما تَسْقُطُ مِن ورقةٍ إلاَّ يَعْلَمُها ولا حبَّةٍ في ظُلُماتِ الأرضِ ولا رَطْبٍ ولا يابس إلاَّ في كتابٍ مبينٍ}. {واللهُ بصيرٌ بما تعملون}: يُحصي عليكم أعمالَكم ويُوَفيكُم إيَّاها، ويجازيكم عليها بما تقتضيه رحمته الواسعة وحكمته البالغة.
[18] ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ اللہ تعالیٰ ان تمام امور کو جانتا ہے جو کائنات کے اندر چھپے ہوئے اور مخلوق سے مخفی ہیں، جو سمندروں کی موجوں، بیابانوں کی سختیوں میں اور ریگزاروں کے ذروں، سینوں کے بھیدوں اور تمام چھپے ہوئے امور کو جانتا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰؔتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَ٘ابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الانعام:6؍59) ’’کوئی پتا نہیں گرتا مگر اللہ اسے جانتا ہے، زمین کی تاریکیوں میں پڑا ہوا ایک دانہ بھی اللہ کے علم میں ہے خشک یا تر کوئی ایسی چیز نہیں جو ایک بیان کرنے والی کتاب کے اندر درج نہ ہو۔‘‘ ﴿ وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ ان اعمال کو دیکھتا ہے جن کا تم ارتکاب کرتے ہو۔‘‘ وہ تمھارے اعمال کو شمار کرتا ہے، وہ تمھیں پورے پورے لوٹائے گا اور اپنی بے پایاں رحمت اور حکمتِ بالغہ کے تقاضوں کے مطابق تمھیں ان اعمال کی جزا دے گا۔