آیت:
تفسیر سورۂ فتح
تفسیر سورۂ فتح
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (1 ضضض) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (ضضض 2) وَيَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا (3)}
بلاشبہ ہم نے فتح دی آپ کو فتح مبین(1) تاکہ بخش دے آپ کے لیے اللہ جو پہلے ہوا کوئی گناہ آپ کا اور جو پیچھے ہوا اور (تاکہ) پوری کرے اپنی نعمت آپ پر اور (تاکہ) ہدایت دے آپ کو صراط مستقیم کی(2) اور (تاکہ) مدد کرے آپ کی اللہ مدد نہایت زبردست(3)
#
{1} هذا الفتحُ المذكور هو صلحُ الحديبيةِ، حين صدَّ المشركون رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - لمَّا جاء معتمراً في قصة طويلة ، صار آخر أمرها أن صالحهم رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - على وَضْع الحرب بينه وبينهم عشر سنين، وعلى أن يعتمرَ من العام المقبل، وعلى أنَّ مَن أراد أن يَدْخُلَ في عهد قريش وحلفهم؛ دَخَلَ، ومن أحبَّ أن يدخُلَ في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وعقده؛ فعل. وسبب ذلك لما أمَّن الناس بعضهم بعضاً؛ اتَّسعت دائرة الدعوة لدين الله عزَّ وجلَّ، وصار كلُّ مؤمن بأيِّ محلٍّ كان من تلك الأقطار يتمكَّن من ذلك، وأمكن الحريص على الوقوف على حقيقة الإسلام، فدخل الناسُ في تلك المدَّة في دين الله أفواجاً؛ فلذلك سمَّاه الله فتحاً، ووصفه بأنَّه فتحٌ مبينٌ؛ أي: ظاهرٌ جليٌّ، وذلك لأنَّ المقصود في فتح بلدان المشركين إعزازُ دين الله وانتصار المسلمين، وهذا حصل بذلك الفتحُ.
[1] اس فتح مذکور سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے رسول اللہe کو اس وقت روکا جب آپ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہe نے مشرکین کے ساتھ دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس شرط پر آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ جو کوئی قریش کے معاہدے میں داخل ہوکر حلیف بننا چاہے ایسا کر سکتا ہے۔ اور جو کوئی رسول اللہe کے عہد میں داخل ہو کر آپ کا حلیف بننا چاہے، وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوں گے تو دعوت دین کا دائرہ وسیع ہو گا، سر زمین کے طول و عرض میں مومن جہاں کہیں بھی ہوگا، وہ دین کی دعوت دے سکے گا جو شخص حقیقت اسلام سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اس مدت کے دوران لوگ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو ’’فتح‘‘ کے نام سے موسوم کر کے اس کو ’’فتح مبین‘‘ کی صفت سے موصوف کیا، یعنی واضح فتح۔ کیونکہ مشرکین کے شہروں کو فتح کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کا اعزاز اور مسلمانوں کی نصرت ہے، اس سے یہ فتح حاصل ہو گئی.
#
{2} ورتَّب الله على هذا الفتح عدة أمور، فقال: {ليغفر لك اللهُ ما تقدَّم من ذنبِكَ وما تأخَّر}: وذلك ـ والله أعلم ـ بسبب ما حَصَلَ بسببه من الطاعات الكثيرة والدُّخول في الدين بكثرة، وبما تحمل - صلى الله عليه وسلم - من تلك الشروط التي لا يصبِرُ عليها إلاَّ أولو العزم من المرسلين، وهذا من أعظم مناقبه وكراماته - صلى الله عليه وسلم -: أنْ غَفَرَ الله له ما تقدَّم من ذنبه وما تأخَّر، {ويتمَّ نعمته عليك}: بإعزاز دينك ونصرِك على أعدائك واتِّساع كلمتك، {ويهدِيَك صراطاً مستقيماً}: تنال به السعادةَ الأبديَّة والفلاح السرمديَّ.
[2] اس فتح پر اللہ تعالیٰ نے متعدد امور مرتب فرمائے۔چنانچہ فرمایا:﴿ لِّ٘یَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ﴾ ’’تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے۔‘‘ و اللّٰہ اعلم ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے باعث بہت سے نیکیاں حاصل ہوئیں، لوگ دین میں بہت کثرت سے داخل ہوئے، نیز اس بنا پر کہ رسول اللہe نے یہ شرائط برداشت کیں جن پر اولوالعزم رسولوں کے سوا کوئی صبر نہیں کر سکتا۔ یہ چیز رسول اللہe کے عظیم ترین مناقب اور کرامات میں شمار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے۔ ﴿ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ﴾ اور تاکہ آپ کے دین کو اعزاز عطا کر کے، آپ کو آپ کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے بہرہ مند کر کے اور آپ کے کلمہ کو وسعت بخش کر آپ پر اپنی نعمت کا اتمام کرے۔ ﴿وَیَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا﴾ ’’اور آپ کو سیدھے راستے پر چلائے۔‘‘ تاکہ آپ سعادت ابدی اور فلاح سرمدی حاصل کر سکیں۔
#
{3} {وينصُرَك الله نصراً عزيزاً}؛ أي: قويًّا لا يتضعضعُ فيه الإسلام، بل يحصُلُ الانتصار التامُّ وقمع الكافرين وذُلُّهم ونقصُهم، مع توفُّر قوى المسلمين ونموِّهم ونموِّ أموالهم؛ [ثم] ذكر آثار هذا الفتح على المؤمنين، فقال:
[3] ﴿ وَّیَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا﴾ ’’اور اللہ آپ کی زبردست مدد کرے۔‘‘ یعنی انتہائی قوی مدد، جس میں اسلام کمزور نہ ہو، بلکہ اسے مکمل فتح و نصرت حاصل ہو، اللہ تعالیٰ کفار کا قلع قمع کرے، ان کو ذلیل اور کمزور کر کے ان میں کمی کرے، مسلمانوں کو زیادہ کرے ان کی تعداد کو بڑھائے اور ان کے اموال میں اضافہ کرے۔پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر مترتب ہونے والی اس فتح کے آثار کا ذکر فرمایا:
آیت: 4 - 6 #
{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (4) لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَكَانَ ذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا (5) وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (6)}
وہ، وہ ذات ہے جس نے نازل کی تسکین دلوں میں مومنوں کے تاکہ زیادہ ہوں وہ ایمان میں ساتھ اپنے ایمان کے اور اللہ ہی کے لیے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے اور ہے اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا(4) (یہ سب اس لیے کیا) تاکہ وہ داخل کرے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں، اور (تاکہ) دور کرے ان سے ان کی برائیاں، اور ہے یہ اللہ کے ہاں کامیابی بہت بڑی(5) اور (تاکہ) عذاب دے منافق مَردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو، وہ جو گمان کرنے والے ہیں ساتھ اللہ کے گمان برا ، انھی پر ہے گردش بری اور غصے ہوا اللہ ان پر اور اس نے لعنت کی انھیں اور تیار کی ان کے لیے جہنم، اور بری جگہ ہے وہ لوٹنے کی(6)
#
{4} يخبر تعالى عن منَّته على المؤمنين بإنزال السكينة في قلوبهم، وهي السكونُ والطمأنينةُ والثباتُ عند نزول المحنِ المقلقةِ والأمور الصعبة التي تشوِّشُ القلوبَ وتزعجُ الألباب وتضعِفُ النفوس؛ فمن نعمة الله على عبده في هذه الحال أن يثبِّتَه ويربطَ على قلبه، وينزِلَ عليه السكينةَ، ليتلقَّى هذه المشقَّاتِ بقلبٍ ثابتٍ ونفس مطمئنةٍ، فيستعدَّ بذلك لإقامة أمر الله في هذه الحال، فيزداد بذلك إيمانُه، ويتمَّ إيقانُه. فالصحابةُ رضي الله عنهم لمَّا جرى ما جرى بينَ رسول اللهِ - صلى الله عليه وسلم - والمشركين من تلك الشروطِ التي ظاهرُها أنَّها غضاضةٌ عليهم وحطٌّ من أقدارِهم، وتلك لا تكادُ تصبِرُ عليها النفوس، فلما صبروا عليها ووطَّنوا أنفسَهم لها؛ ازدادوا بذلك إيماناً مع إيمانهم. وقوله: {ولله جنودُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: جميعها في ملكه وتحت تدبيره وقهره؛ فلا يظنُّ المشركون أنَّ الله لا ينصُرُ دينَه ونبيَّه، ولكنَّه تعالى عليمٌ حكيمٌ، فتقتضي حكمته المداولةَ بين الناس في الأيام وتأخيرَ نصر المؤمنين إلى وقتٍ آخر.
[4] اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس احسان سے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں سکینت نازل کی۔ سکینت سے مراد وہ سکون، اطمینان اور ثبات ہے جو مضطرب کر دینے والے مصائب و محن اور ایسے مشکل امور کے وقت بندۂ مومن کو حاصل ہوتا ہے، جو دلوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، عقل کو سوچنے سمجھنے کی قوت سے عاری اور نفس کو کمزور کر دیتے ہیں۔ پس اس صورت حال میں یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے نعمت ہے کہ وہ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے، اس کے قلب کو مضبوط کرتا ہے تاکہ ان مصائب کا سامنا کر سکے اور اس حال میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے کے لیے مستعد رہے، پس اس سے اس کے ایمان میں اضافہ اور اس کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب رسول اللہe اور مشرکوں کے مابین، صلح کی یہ شرائط طے ہوئیں، جو صحابہ کرام (y) کے لیے بظاہر ذلت آمیز اور ان کے مرتبے سے فرو تر تھیں، تو ان شرائط پر ان کے نفوس صبر کرنے کی قوت نہیں پا رہے تھے۔ پس جب انھوں نے ان شرائط کو صبر کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے نفوس کو ان کی قبولیت پر آمادہ کر لیا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ فرمایا:﴿ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کے تمام لشکر، اس کی ملکیت اور اس کے دست تدبیر اور قہر کے تحت ہیں، اس لیے مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور نبی کی مدد نہیں کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے، بنابریں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے درمیان گردش ایام ہوتی رہے اور اہل ایمان کے لیے فتح و نصرت کسی دوسرے موقع تک مؤخر رہے۔
#
{5} {ليدخِلَ المؤمنين والمؤمناتِ جناتٍ تجري من تحتِها الأنهارُ خالدينَ فيها ويكفِّرَ عنهم سيئاتِهِم}: فهذا أعظمُ ما يحصُلُ للمؤمنين؛ أي: يحصُلُ لهم المرغوبُ المطلوبُ بدخول الجنات، ويزيل عنهم المحذور بتكفير السيئات، {وكان ذلك}: الجزاء المذكورُ للمؤمنينَ، {عند الله فوزاً عظيماً}: فهذا ما يفعلُ بالمؤمنين في ذلك الفتح المبين.
[5] ﴿لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا وَیُكَ٘ـفِّ٘رَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ﴾ ’’تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو، بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، داخل کرے، جن میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہوں کو دور کردے۔‘‘ یہ سب سے بڑی چیز ہے جو اہل ایمان کو حاصل ہوتی ہے یعنی دخول جنت کے ذریعے سے انھیں اپنا مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور گناہوں کو مٹا دینے کے ذریعے سے وہ چیز زائل ہوتی ہے جس کا انھیں خوف تھا۔ ﴿وَكَانَ ذٰلِكَ﴾ یہ مذکورہ جزا جو مومنوں کو عطا ہو گی ﴿عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾ ’’اللہ کے ہاں بڑی کامیابی ہے۔‘‘ یہ ہے وہ فعل جو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین میں اہل ایمان کے بارے میں سر انجام دے گا۔
#
{6} وأمَّا المنافقون والمنافقاتُ والمشركون والمشركاتُ؛ فإنَّ الله يعذِّبُهم بذلك ويريهم ما يسوؤُهم؛ حيث كان مقصودُهم خِذلان المؤمنين، وظنُّوا بالله ظنَّ السَّوْءِ أنَّه لا ينصُرُ دينَه ولا يُعلي كلمته، وأنَّ أهل الباطل ستكونُ لهم الدائرةُ على أهل الحقِّ، فأدار الله عليهم ظَنَّهم، وكانت دائرةُ السوء عليهم في الدنيا، {وغضبَ الله عليهم}: بما اقترفوه من المحادَّة لله ولرسولِهِ، {ولَعَنَهم}؛ أي: أبعدهم وأقصاهم عن رحمتِهِ، {وأعدَّ لهم جهنَّم وساءت مصيراً}.
[6] رہے منافقین اور منافق عورتیں، مشرکین اور مشرک عورتیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو اس فتح مبین کے ذریعے سے عذاب دے گا، انھیں ایسے ایسے امور دکھائے گا جو ان کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوں گے، چونکہ مشرکین کا مقصد یہ تھا کہ مومنین بے یارومددگار رہ جائیں، اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ برا گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد کرے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور اہل باطل کو اہل حق پر غلبہ عطا کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کو الٹ دیا اور دنیا میں ہی ان پر برا وقت آ گیا۔﴿وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ﴾ اور ان کے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت رکھنے کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہے ﴿وَلَعَنَهُمْ﴾ ’’اور ان پر لعنت کی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے ﴿وَاَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ١ؕ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا﴾ ’’اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔‘‘
آیت: 7 #
{وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (7)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے، اور ہے اللہ نہایت زبردست، خوب حکمت والا(7)
#
{7} كرَّر الإخبار بأنَّ له ملك السماواتِ والأرض وما فيهما من الجنود؛ ليعلم العبادُ أنَّه تعالى هو المعزُّ المذلُّ، وأنَّه سينصر جنودَه المنسوبة إليه؛ كما قال تعالى: {وإنَّ جندَنا لهم الغالبونَ}، {وكان الله عزيزاً}؛ أي: قويًّا غالباً قاهراً لكلِّ شيءٍ، ومع عزَّته وقوَّته؛ فهو حكيمٌ في خلقه. وتدبيرُه يَجري على ما تقتضيه حكمتُه وإتْقانُه.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتکرار آگاہ فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین اور ان کے اندر موجود لشکر، اسی کی ملکیت ہیں، تاکہ بندے اس حقیقت کو جان لیں کہ وہی عزت عطا کرنے والا اور وہی ذلت سے دوچار کرنے والا ہے۔ وہ عنقریب اپنے ان لشکروں کو فتح و نصرت سے ہم کنار کرے گا جو اس کی طرف منسوب ہیں جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (الصافات:37؍173) ’’بلاشبہ ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔‘‘ ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ طاقت ور، زبردست اور ہر چیز پر غلبہ رکھتا ہے۔ وہ اپنی قوت اور غلبہ کے باوجود، اپنی تخلیق و تدبیر میں حکمت والا ہے، وہ اپنی حکمت اور مہارت کے مطابق فعل سر انجام دیتا ہے۔
آیت: 8 - 9 #
{إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (8) لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (9)}
بلاشبہ ہم نے بھیجا آپ کو گواہی دینے والا، اور بشارت دینے والا، اور ڈرانے والا (بنا کر) (8) تاکہ ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اور اس کےرسول کے، اور (تاکہ) مدد کرو تم اس کی اور توقیر کرو اس کی اور (تاکہ) پاکی بیان کرو تم اس کی صبح اور شام(9)
#
{8} أي: {إنَّا أرسلناكَ}: أيها الرسولُ الكريمُ، {شاهداً}: لأمتك بما فعلوه من خير وشرٍّ، وشاهداً على المقالات والمسائل حقِّها وباطِلِها، وشاهداً لله تعالى بالوحدانيَّة والانفراد بالكمال من كلِّ وجه، {ومبشراً}: من أطاعك وأطاع الله بالثواب الدنيويِّ والدينيِّ والأخرويِّ، ومنذراً من عصى الله بالعقاب العاجل والآجل، ومن تمام البشارةِ والنِّذارة بيان الأعمال والأخلاق التي يبشر بها وينذر؛ فهو المبيِّن للخير والشرِّ والسعادة والشقاوة والحقِّ من الباطل.
[8] ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَرْسَلْنٰكَ﴾ اے رسول کریم! (e) ہم نے آپ کو بھیجا۔ ﴿ شَاهِدًا﴾ گواہ بناکر ،یعنی آپ کی امت جو نیکی یا بدی کرتی ہے، ہم نے آپ کو اس پر گواہ بنا کر بھیجا اور تمام حق اور باطل مقالات اور مسائل پر، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ہر لحاظ سے اس کے اپنے کمال میں منفرد ہونے پر آپ کو گواہ بنا کر مبعوث کیا۔ ﴿وَّمُبَشِّرًا﴾ جس کسی نے آپ کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اس کے لیے دنیاوی، دینی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنانے والا بنا کر بھیجا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اس کو دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا۔ تبشیر اور انذار یہ ہے کہ ان اعمال و اخلاق کو بیان کیا جائے جن پر خوشخبری دی جاتی ہے اور جن کے انجام سے ڈرایا جاتا ہے ، چنانچہ آپ خیر و شر، سعادت و شقاوت اور حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کر دینے والے ہیں۔
#
{9} ولهذا رتَّب على ذلك قوله: {لتؤمِنوا باللهِ ورسولِهِ}؛ أي: بسبب دعوة الرسول لكم وتعليمه لكم ما ينفعكم أرسلناه؛ لتقوموا بالإيمان بالله ورسولِهِ، المستلزم ذلك لطاعتهما في جميع الأمور، {وتعزِّروهُ وتوقِّروهُ}؛ أي: تعزِّروا الرسول - صلى الله عليه وسلم - وتوقِّروه؛ أي: تعظِّموه، وتجلُّوه، وتقوموا بحقوقِهِ، كما كانت له المنَّة العظيمةُ برقابكم، {وتسبِّحوه}؛ أي: تسبِّحوا لله {بكرةً وأصيلاً}: أول النهار وآخره. فذكر الله في هذه الآية الحقَّ المشترك بين الله وبين رسوله، وهو الإيمان بهما، والمختصُّ بالرسول، وهو التعزير والتوقير، والمختصُّ بالله، وهو التسبيح له والتقديس بصلاةٍ أو غيرها.
[9] اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا یہ ارشاد مرتب فرمایا: ﴿ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘﴾ رسول اللہe کے تمھیں دعوت اور ان امور کی تعلیم دینے کے سبب سے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا جن میں تمھارا فائدہ ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو تمام امور میں ان دونوں کی اطاعت کو مستلزم ہے۔ ﴿ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّ٘رُوْهُ﴾ تم رسول اللہe کا ادب کرو، آپ کی توقیر یعنی تعظیم کرو، آپ کو مرتبے میں بڑا تسلیم کرو اور آپ کے حقوق کو ادا کرو جیسا کہ تمھاری گردنوں پر آپe کا بڑا احسان ہے۔ ﴿ وَتُسَبِّحُوْهُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو ﴿ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ صبح و شام۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ حق بیان کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان مشترک ہے، یعنی ان دونوں پر ایمان۔ ایک حق وہ ہے جو رسول اللہe سے مختص ہے اور وہ ہے آپ کی تعظیم و توقیر اور ایک حق وہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور وہ ہے نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس کی تسبیح و تقدیس۔
آیت: 10 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (10)}
بلاشبہ وہ لوگ جو بیعت کرتے ہیں آپ سے، یقیناً وہ بیعت کرتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھوں کے، پھر جس نے عہد شکنی کی تو یقیناً وہ عہد شکنی کرے گا اپنی ہی ذات کے خلاف اور جس نے پورا کیا اس کو کہ عہد کیا تھا اس نے اس پر اللہ سے تو عنقریب وہ دے گا اس کو اجر بہت بڑا (10)
#
{10} هذه المبايعةُ التي أشار الله إليها هي بيعة الرضوان، التي بايع الصحابةُ رضي الله عنهم فيها رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - على أن لا يفرُّوا عنه؛ فهي عقدٌ خاصٌّ، من لوازمه أن لا يفرُّوا، ولو لم يبقَ منهم إلاَّ القليلُ، ولو كانوا في حال يجوزُ الفرارُ فيها. فأخبر تعالى: {إنَّ الذين يبايِعونَك}: حقيقةُ الأمرِ أنَّهم {يبايِعونَ الله}: ويعقِدونَ العقد معه، حتى إنه من شدَّة تأكُّده أنَّه قال: {يدُ الله فوق أيديهم}؛ أي: كأنهم بايعوا الله وصافحوه بتلك المبايعة، وكلُّ هذا لزيادة التأكيد والتقوية، وحملهم على الوفاء بها، ولهذا قال: {فمن نكث}: فلم يفِ بما عاهد الله عليه، {فإنَّما ينكُثُ على نفسه}؛ أي: لأنَّ وَبال ذلك راجعٌ إليه وعقوبتَه واصلةٌ له، {ومن أوفى بما عاهَدَ عليهُ اللهَ}؛ أي: أتى به كاملاً موفراً، {فسيؤتيه أجراً عظيماً}: لا يعلم عِظَمَه وقَدْرَه إلاَّ الذي آتاه إيَّاه.
[10] یہ بیعت جس کی طرف اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ’’بیعت رضوان‘‘ ہے، اس میں صحابہ کرام y نے رسول اللہe کے ہاتھ پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک خاص معاہدہ ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہ ہوں، خواہ بہت ہی تھوڑے لوگ کیوں نہ باقی رہ جائیں اور خواہ ایسی صورت حال میں ہوں جہاں فرار ہونا جائز ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں، حقیقتِ امر یہ ہے کہ وہ ﴿ یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ﴾ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں، حتیٰ کہ یہ اس کی شدت تاکید ہے کہ فرمایا: ﴿یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ﴾ ’’اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔‘‘ گویا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت کی ہے اور اس بیعت میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مصافحہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ تاکید، تقویت اور ان کو اس بیعت کے پورا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا، بنابریں فرمایا: ﴿فَ٘مَنْ نَّـكَثَ﴾ ’’پس جو بیعت کو توڑے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اسے پورا نہ کرے ﴿فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ﴾ ’’تو بے شک عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔‘‘ کیونکہ اس کا وبال اسی کی طرف لوٹے گا اور اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ ﴿وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ ﴾ ’’اور جو اس بات کو جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے، پورا کرے۔‘‘ یعنی اس معاہدے پر کامل طور پر عمل کرے ﴿فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ ’’تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔‘‘ اس اجر کی عظمت اور قدر کو صرف وہی جان سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ یہ اجر عطا کرے گا۔
آیت: 11 - 13 #
{سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (11) بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَنْقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُورًا (12) وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا (13)}.
ضرور کہیں گے آپ سے وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے دیہایتوں میں سے، مشغول کر دیا تھا ہمیں ہمارے مالوں اور ہمارے اہل(و عیال) نے ، پس آپ مغفرت طلب کریں ہمارے لیے وہ کہتے ہیں اپنی زبانوں سے وہ (بات) کہ نہیں ہے وہ ان کے دلوں میں کہہ دیجیے! تو کون اختیار رکھتا ہے تمھارے لیے اللہ سے کسی چیز کا، اگر وہ ارادہ کرے تمھارے ساتھ نقصان کا یا ارادہ کرے تمھارے ساتھ نفع کا؟ (کوئی بھی نہیں)بلکہ ہے اللہ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار (11)بلکہ تم نے گمان کیا تھا یہ کہ ہرگز نہیں واپس لوٹیں گے رسول اور مومن اپنے اہل و عیال کی طرف کبھی بھی، اور مزین کر دی گئی تھی یہ بات تمھارے دلوں میں، اور گمان کر لیا تھا تم نے گمان برا اور تھے تم لوگ ہلاک ہونے والے (12) اور جو شخص نہیں ایمان لایا ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے تو بلاشبہ ہم نے تیار کی ہے (ایسے) کافروں کے لیے خوب بھڑکتی آگ (13)
#
{11 ـ 13} يذمُّ تعالى المتخلِّفين عن رسول الله في الجهاد في سبيله من الأعراب، الذين ضَعُفَ إيمانُهم وكان في قلوبهم مرضٌ وسوء ظنٍّ بالله تعالى، وأنهم سيعتذرون؛ بأنَّ أموالهم وأهليهم شغلتهم عن الخروج في سبيله، وأنَّهم طلبوا من رسول اللهِ - صلى الله عليه وسلم - أن يستغفرَ لهم؛ قال الله تعالى: {يقولون بألسنَتِهِم ما ليس في قُلوبِهِم}: فإنَّ طلَبَهم الاستغفارَ من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يدلُّ على ندمهم وإقرارهم على أنفسهم بالذَّنب، وأنَّهم تخلَّفوا تخلُّفاً يحتاجُ إلى توبة واستغفار؛ فلو كان هذا الذي في قلوبهم؛ لكان استغفارُ الرسول نافعاً لهم؛ لأنَّهم قد تابوا وأنابوا، ولكنَّ الذي في قلوبهم أنَّهم إنَّما تخلَّفوا لأنَّهم ظنُّوا بالله ظنَّ السَّوْء، فظنُّوا {أن لن يَنقَلِبَ الرسولُ والمؤمنون إلى أهليهم أبداً}؛ أي: أنَّهم سيُقتلون ويُستأصلون، ولم يزلْ هذا الظنُّ يُزَيَّن في قلوبهم، ويطمئنُّون إليه حتى استحكَمَ، وسببُ ذلك أمران: أحدُهما: أنَّهم كانوا {قوماً بوراً}؛ أي: هلكى لا خير فيهم؛ فلو كان فيهم خيرٌ؛ لم يكن هذا في قلوبهم. الثاني: ضَعْفُ إيمانهم ويقينهم بوعد الله ونصرِ دينِهِ وإعلاءِ كلمتِهِ، ولهذا قال: {ومن لم يؤمن بالله ورسولِهِ}؛ أي: فإنَّه كافرٌ مستحقٌّ للعقاب، {فإنَّا أعْتَدْنا للكافرين سعيراً}.
[13-11] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضعیف الایمان بدویوں کی مذمت بیان کی ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں رسول اللہe کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہے، ان کے دلوں میں مرض اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی تھی۔ نیز وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہe کے پاس معذرت کر لیں گے کہ ان کے مال اور اہل و عیال کی مصروفیات نے ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے سے روکے رکھا۔ وہ رسول اللہe سے درخواست کر لیں گے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ۠ مَّا لَ٘یْسَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ﴾ ’’یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔‘‘ رسول اللہe سے استغفار کی درخواست کرنا، ان کی ندامت اور اپنے گناہ کے اقرار پر دلالت کرتا ہے، نیز اس امر کے اعتراف پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، جس کے لیے توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔ پس اگر ان کے دلوں میں یہ بیماری نہ ہوتی تو رسول اللہe کا استغفار ان کے لیے فائدہ مند ہوتا کیونکہ انھوں نے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہے مگر ان کے دلوں میں جو مرض ہے کہ وہ جہاد چھوڑ کر اس لیے گھر بیٹھ رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ﴿ اَنْ لَّ٘نْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا﴾ ’’کہ رسول اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘ یعنی ان کو قتل کر کے نیست و نابود کر دیا جائے گا اور یہ برا گمان ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا، وہ اس پر مطمئن رہے حتیٰ کہ ان کے دلوں میں یہ بدگمانی مستحکم ہو گئی، اور اس کا سبب دو امور ہیں: (۱) وہ ﴿ قَوْمًۢا بُوْرًا﴾ ہلاک ہونے والے لوگ ہیں، ان میں کوئی بھلائی نہیں، اگر ان میں کسی قسم بھلائی ہوتی تو ان کے دلوں میں یہ بدگمانی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے، دین کے لیے اس کی نصرت اور کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کے بارے میں ان کا ایمان اور یقین کمزور ہے۔ (۲) دوسرا سبب اللہ تعالیٰ کے وعدے، اس کے اپنے دین کی مدد کرنے اوراپنے کلمے کو بلند کرنے پر ان کے ایمان اور یقین کا کمزور ہونا ہے، اسی لیے فرمایا: ﴿ وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ ﴾ ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے۔‘‘ یعنی وہ کافر اور عذاب کا مستحق ہے ﴿ فَاِنَّـاۤ٘ اَعْتَدْنَا لِلْ٘كٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا﴾ تو ہم نے کفار کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
آیت: 14 #
{وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (14)}
اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، وہ بخشتا ہے واسطے جس کے چاہتا ہے اور عذاب دیتا ہے جسے چاہتا ہے، اور ہے اللہ نہایت بخشنے والا بڑا مہربان (14)
#
{14} أي: هو تعالى المنفردُ بملك السماواتِ والأرضِ، يتصرَّف فيهما بما يشاء من الأحكام القدريَّة والأحكام الشرعيَّة والأحكام الجزائيَّة، ولهذا ذكر حكم الجزاء المرتَّب على الأحكام الشرعيَّة، فقال: {يَغْفِرُ لِمَن يشاءُ}: وهو مَنْ قام بما أمره الله به، {ويعذِّبُ مَن يشاءُ}: ممَّن تهاونَ بأمرِ الله، {وكان الله غفوراً رحيماً}؛ أي: وصفه اللازم الذي لا ينفكُّ عنه المغفرةُ والرحمةُ، فلا يزال في جميع الأوقات يغفِرُ للمذنبين، ويتجاوزُ عن الخطَّائين، ويتقبَّل توبة التائبين، ويُنزِلُ خيرَه المدرار آناء الليل والنهار.
[41] یعنی اللہ تعالیٰ اکیلا ہی آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے، آسمانوں اور زمین میں اپنے احکام قدری، احکام شرعی اور احکام جزائی نافذ کرتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم جزائی کا ذکر فرمایا جو احکام شرعی پر مترتب ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’وہ جسے چاہے بخش دے۔‘‘ اور یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے حکم کی اطاعت کی۔ ﴿ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’اور وہ جسے چاہے عذاب دے۔‘‘ اور یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ جانا۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’اور اللہ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ اس کا وصف لازم ہے جس کی بنا پر مغفرت اور رحمت کبھی اس سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ ہر وقت گناہ گاروں کے گناہ بخشتا ہے، خطا کاروں کی خطاؤ ں سے درگزر کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اس کی بے پایاں بھلائی رات دن نازل ہوتی رہتی ہے۔
آیت: 15 #
{سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُمْ إِلَى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونَا كَذَلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِنْ قَبْلُ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا (15)}
عنقریب کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے، جب چلو گے تم غنیمتوں کی طرف تاکہ لو تم وہ، چھوڑو ہمیں! ہم بھی چلیں تمھارے ساتھ ، وہ ارادہ کرتے ہیں یہ کہ بدل دیں کلام اللہ کا، کہہ دیجیے! ہرگز نہیں چلو گے تم ہمارے ساتھ، اسی طرح کہہ دیا ہے اللہ نے پہلے ہی سے، پھر یقیناً وہ کہیں گے، بلکہ حسد کرتے ہو تم ہم سے، (نہیں)بلکہ ہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے مگر تھوڑا ہی (15)
#
{15} لما ذكر تعالى المخلَّفين وذمَّهم؛ ذكر أنَّ من عقوبتهم الدنيويَّة أنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه إذا انطلقوا إلى غنائم لا قتال فيها ليأخذوها؛ طلبوا منهم الصحبةَ والمشاركةَ، ويقولون: {ذَرونا نَتَّبِعْكم يريدونَ}: بذلك {أن يبدِّلوا كلامَ الله}؛ حيث حَكَمَ بعقوبتهم واختصاصِ الصحابةِ المؤمنين بتلك الغنائم شرعاً وقدراً، {قل}: لهم: {لن تَتَّبِعونا كذلِكُم قال اللهُ مِن قبلُ}: إنَّكم محرومون منها بما جنيتم على أنفسكم وبما تركتم القتال أول مرة؛ {فسيقولون}: مجيبين لهذا الكلام الذي مُنِعوا به عن الخروج: {بل تحسُدوننا}: على الغنائم! هذا منتهى علمهم في هذا الموضع، ولو فَهموا رُشدَهم؛ لعلموا أنَّ حرمانهم بسبب عصيانهم، وأنَّ المعاصي لها عقوباتٌ دنيويَّةٌ ودينيَّةٌ، ولهذا قال: {بل كانوا لا يفقهونَ إلاَّ قليلاً}.
[15] جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی، تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ جب رسول اللہe اور آپ کے اصحاب کرام، ایسی غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، جس میں جنگ نہیں ہو گی، تو یہ لوگ ان سے صحبت اور مشارکت کی درخواست کریں گے، وہ کہیں گے: ﴿ ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ١ۚ یُرِیْدُوْنَ﴾ ’’ہمیں بھی اجازت دیں کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں، وہ چاہتے ہیں‘‘ اس سے ﴿ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ﴾ ’’ کہ وہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔‘‘ کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان غنائم کو شرعاً اور قدراً صحابہ کرام یعنی اہل ایمان سے مختص کیا ہے۔ ﴿ قُ٘لْ﴾ ان سے کہہ دیجیے ﴿ لَّ٘نْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اسی طرح اللہ نے پہلے فرما دیا ہے۔‘‘ تمھیں اس جرم کی پاداش میں جس کا ارتکاب تم نے اپنے آپ پر کیا، غنائم سے محروم کیا جاتا ہے، نیز اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے پہلی مرتبہ جہاد کو ترک کیا۔ ﴿ فَسَیَقُوْلُوْنَ۠﴾ پس وہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے، جس کی بنا پر انھیں جنگ کے لیے نکلنے سے منع کیا گیا ہے، کہیں گے ﴿ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا﴾ یعنی تم مال غنیمت کے بارے میں ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اس مقام پر یہ ان کا منتہائے علم ہے، اگر انھوں نے رشد و فہم سے کام لیا ہوتا تو انھیں معلوم ہوتا کہ ان کی محرومی کا سبب، ان کی نافرمانی ہے، گناہوں کی کچھ دنیاوی اور کچھ دینی سزا ہوتی ہے اسی لیے فرمایا: ﴿ بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’بلکہ یہ بہت کم سمجھتے ہیں۔‘‘
آیت: 16 - 17 #
{قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (16) لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَنْ يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا (17)}.
کہہ دیجیے پیچھے چھوڑے گئے دیہایتوں سے، عنقریب تم بلائے جاؤ گے ایک قوم کی طرف جو لڑنے والی ہے سخت، تم لڑو گے ان سے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے ، پھر اگر تم اطاعت کرو گے تو دے گا تمھیں اللہ اجر نیک اور اگر تم رو گردانی کرو گے جیسا کہ روگردانی کی تم نے پہلے (اس) سے تو وہ عذاب دے گا تمھیں عذاب نہایت درد ناک (16) نہیں (پیچھے رہنے میں) اندھے پر کوئی حرج (گناہ) اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج اور نہ مریض پر کوئی حرج اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو داخل کرے گا اللہ اس کو باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، اور جو کوئی رو گردانی کرے گا تو وہ (اللہ) عذاب دے گا اسے عذاب نہایت درد ناک (17)
#
{16} لما ذكر تعالى أنَّ المخلَّفين من الأعراب يتخلَّفون عن الجهاد في سبيله، ويعتذِرون بغير عذرٍ، وأنَّهم يطلبون الخروج معهم إذا لم يكن شوكةٌ ولا قتالٌ، بل لمجرَّد الغنيمة؛ قال تعالى ممتحناً لهم: {قل للمخلَّفين من الأعراب سَتُدْعَوْنَ إلى قوم أولي بأس شديدٍ}؛ أي: سيدعوكم الرسولُ ومَنْ ناب منابَه من الخلفاء الراشدين والأئمة، وهؤلاء القوم فارسٌ والرومُ ومَنْ نحا نحوَهم وأشبههم، {تقاتِلونَهم أو يُسْلِمونَ}؛ أي: إمَّا هذا وإمَّا هذا، وهذا هو الأمر الواقع؛ فإنَّهم في حال قتالهم ومقاتلتهم لأولئك الأقوام إذا كانت شدتُهم وبأسُهم معهم؛ فإنَّهم في تلك الحال لا يقبلون أن يبذُلوا الجزيةَ، بل إمَّا أنْ يدخُلوا في الإسلام، وإمَّا أن يُقاتِلوا على ما هم عليه، فلما أثخنهم المسلمونَ وضَعُفوا وذلُّوا؛ ذهب بأسُهم، فصاروا إمَّا أنْ يسلِموا وإمَّا أن يبذُلوا الجزية، {فإن تُطيعوا}: الداعي لكم إلى قتال هؤلاء، {يؤتِكُمُ الله أجراً حسناً}: وهو الأجر الذي رتَّبه الله ورسولُهُ على الجهادِ في سبيل الله، {وإن تَتَوَلَّوْا كما تولَّيْتُم من قبلُ}: عن قتال مَنْ دعاكم الرسولُ إلى قتالِهِ، {يعذِّبْكم عذاباً أليماً}. ودلَّت هذه الآية على فضيلة الخلفاء الرَّاشدين الداعين لجهادِ أهل البأس من الناس، وأنَّه تجب طاعتُهم في ذلك.
[16] اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اعراب (عرب دیہاتیوں) میں سے پیچھے بیٹھ رہنے والے، جہاد سے جی چراتے ہیں اور کسی عذر کے بغیر معذرت پیش کرتے ہیں اور وہ صرف اس صورت میں ان کے ساتھ جہاد پر نکلنے کی درخواست کرتے ہیں، جبکہ جنگ اور قتال نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَ٘اْسٍ شَدِیْدٍ﴾ یعنی عنقریب رسول اللہe ، آپ کے قائم مقام خلفائے راشدین اور دیگر ائمہ تمھیں جہاد کی طرف بلائیں گے اور وہ لوگ جن سے جہاد کے لیے تمھیں دعوت دی جائے گی، وہ اہل فارس، اہل روم اور ان جیسی بعض دیگر قومیں ہوں گی۔ ﴿ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾ یعنی تم ان کے خلاف جنگ کرو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔ فی الواقع معاملہ یہی ہے کہ جب مسلمانوں کی ان قوموں کے ساتھ جنگ ہوئی، جنگ کے حالات میں جب تک ان میں شدت اور قوت رہی تو اس صورت میں انھوں نے جزیہ دینا قبول نہیں کیا، بلکہ یا تو انھوں نے اسلام قبول کر لیا یا وہ اپنے مذہب پر رہتے ہوئے جنگ کرتے رہے، جب مسلمانوں نے جنگ میں ان کو بے بس کر دیا اور وہ کمزور ہو کر مطیع ہو گئے اور ان کی قوت جاتی رہی تو ان کی حالت یہ ہو گئی کہ وہ یا تو مسلمان ہو گئے یا جزیہ ادا کرنے لگے ﴿ فَاِنْ تُطِیْعُوْا﴾ یعنی اگر ان لوگوں کے خلاف جہاد کی دعوت دینے والے کی اطاعت کرو ﴿ یُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًا﴾ ’’تو اللہ تمھیں اچھا اجر دے گا۔‘‘ یہ وہ اجر و ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے اللہ کے راستے میں جہاد پر مرتب فرمایا ہے۔ ﴿ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ﴾ ’’اگر تم منہ پھیر لو جیسے پہلی مرتبہ پھیرا تھا۔‘‘ یعنی ان لوگوں سے جہاد کرنے سے منہ موڑ لو جن کے خلاف جہاد کرنے کی رسول اللہe نے تمھیں دعوت دی ہے۔ ﴿ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا﴾ ’’تو وہ تمھیں دردناک عذاب دے گا۔‘‘ اس آیت کریمہ میں خلفائے راشدین کی، جو طاقت ور قوموں کے خلاف جہاد کرنے کی دعوت دیتے رہے، فضیلت بیان ہوئی ہے، نیز یہ کہ جہاد میں ان کی اطاعت واجب ہے۔
#
{17} ثم ذكر الأعذار التي يُعْذَرُ بها العبد عن الخروج إلى الجهاد، فقال: {ليس على الأعمى حَرَجٌ ولا على الأعرج حَرَجٌ ولا على المريض حَرَجٌ}؛ أي: في التخلُّف عن الجهاد لعذرِهم المانع، {ومن يطع اللهَ ورسولَه}: في امتثال أمرهما واجتناب نهيهما، {يُدْخِلْه جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: فيها ما تشتهيه الأنفس، وتلذُّ الأعينُ، {ومن يَتَوَلَّ}: عن طاعة الله ورسوله، {يعذِّبْه عذاباً أليماً}: فالسعادةُ كلُّها في طاعة الله، والشقاوة في معصيته ومخالفته.
[17] پھر اللہ تعالیٰ نے ان عذروں کا ذکر فرمایا جن کی بنا پر بندہ جہاد میں نکلنے سے معذور ہوتا ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ لَ٘یْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْ٘مَرِیْضِ حَرَجٌ﴾ ’’نہ تو اندھے پر گناہ ہے نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ مریض پر گناہ ہے۔‘‘ یعنی اپنے عذر کی بنا پر، جو جہاد پر نکلنے سے مانع ہے، جہاد سے پیچھے رہ جائیں، تو ان پر کوئی حرج نہیں۔ ﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا۔‘‘ یعنی ان کے اوامر کی تعمیل کرنے اور ان کے نواہی سے اجتناب کرنے میں ﴿ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’ اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔‘‘ ان جنتوں میں ہر وہ چیز ہو گی، نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھوں کو جن سے لذت حاصل ہو گی۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑ لے۔ ﴿ یُعَذِّبْهُ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا﴾ تو اللہ تعالیٰ اسے درد ناک عذاب دے گا۔ سعادت تمام تر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور شقاوت اس کی نافرمانی اور مخالفت میں ہے۔
آیت: 18 - 21 #
{لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (18) وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (19) وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (20) وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا (21)}
البتہ تحقیق راضی ہو گیا اللہ مومنوں سے جب وہ بیعت کر رہے تھے آپ سے نیچے اس درخت کے پس اس نے جان لیا جو (خلوص) ان کے دلوں میں تھا سو نازل کی اس نے سکینت ان پر اور بدلے میں دی انھیں فتح جلد ہی (18) اور (بھی) غتیمتیں بہت کہ وہ حاصل کریں گے ان کو اور ہے اللہ بڑا زبردست خوب حکمت والا(19) اور وعدہ کیا تم سے اللہ نے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم حاصل کرو گے ان کو، پس اس نے جلد ہی دے دی تمھیں یہ اور اس نے روک دیے ہاتھ لوگوں کے تم سے اور تاکہ ہو یہ نشانی مومنوں کے لیے اور تاکہ وہ ہدایت دے تمھیں صراط مستقیم کی (20) اور (غنیمتیں) دوسری کہ نہیں قادر ہوئے تم (ابھی) ان پر، تحقیق گھیر لیا ہوا ہے اللہ نے ان کو اور ہے اللہ ہر چیز پر خوب قادر (21)
#
{18 ـ 19} يخبر تعالى بفضله ورحمته برضاه عن المؤمنين إذ يبايعون الرسول - صلى الله عليه وسلم - تلك المبايعة التي بيَّضت وجوههم واكتسبوا بها سعادة الدُّنيا والآخرة. وكان سبب هذه البيعة ـ التي يقال لها: بيعةُ الرضوان؛ لرضا الله عن المؤمنين فيها. ويقال لها: بيعةُ أهل الشجرة ـ أنَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لما دارَ الكلامُ بينه وبين المشركين يوم الحديبيةِ في شأن مجيئه، وأنَّه لم يجئ لقتال أحدٍ، وإنَّما جاء زائراً هذا البيت معظِّماً له، فبعث رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - عثمان بن عفان لمكَّة في ذلك، فجاء خبر غير صادق أنَّ عثمان قتله المشركون، فجمع رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - مَنْ معه مِنَ المؤمنين، وكانوا نحواً من ألف وخمسمائة، فبايعوه تحت شجرةٍ على قتال المشركين وأنْ لا يفرُّوا حتى يموتوا، فأخبر تعالى أنَّه رضيَ عن المؤمنين في تلك الحال التي هي من أكبر الطاعات وأجلِّ القُرُبات. {فعلم ما في قُلوبِهم}: من الإيمان، {فأنزلَ السكينةَ عليهم}: شكراً لهم على ما في قلوبهم، زادهم هدىً، وعلم ما في قلوبهم من الجزع من تلك الشروط التي شَرَطَها المشركون على رسولِهِ، فأنزل عليهم السكينة تثبِّتُهم، وتطمئنُّ بها قلوبهم، {وأثابهم فتحاً قريباً}: وهو فتح خيبر، لم يحضُرْه سوى أهل الحديبية، فاختصُّوا بخيبر وغنائمها جزاءً لهم وشكراً على ما فعلوه من طاعة الله تعالى والقيام بمرضاته، {ومغانم كثيرةً يأخُذونها وكانَ الله عزيزاً حكيماً}؛ أي: له العزَّة والقدرة، التي قهر بها الأشياء؛ فلو شاء؛ لانتصر من الكفَّار في كلِّ وقعة تكون بينهم وبين المؤمنين، ولكنَّه حكيمٌ يَبْتلي بعضَهم ببعض ويمتحنُ المؤمنَ بالكافر.
[19،18] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم، اپنی رحمت اور اہل ایمان پر اپنی رضا کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جب وہ رسول اللہe کے دست مبارک پر ایسی بیعت کر رہے تھے جس نے ان کو سرخرو کر دیا اور وہ اس بیعت کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ یہ بیعت جسے اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی وجہ سے ’’بیعت رضوان‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے ’’بیعت اہل شجرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ حدیبیہ کے روز، جب رسول اللہe کی آمد کے سلسلے میں آپ اور مشرکین مکہ کے درمیان بات چیت شروع ہوئی، کہ آپ کسی کے ساتھ جنگ لڑنے نہیں آئے، بلکہ آپ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے آئے ہیں ، تو رسول اللہe نے حضرت عثمانt کو اس سلسلے میں مکہ مکرمہ بھیجا۔ آپ کے پاس ایک غیر مصدقہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانt کو مشرکین مکہ نے قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہe نے اپنے ساتھ آئے ہوئے مومنین کو جمع کیا، جو تقریباً پندرہ سو افراد تھے، انھوں نے ایک درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر مشرکین کے خلاف قتال کی بیعت کی، کہ وہ مرتے دم تک فرار نہیں ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ مومنوں سے راضی ہو گیا، درآں حالیکہ یہ بیعت سب سے بڑی نیکی اور جلیل ترین ذریعۂ تقرب ہے۔ ﴿ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ﴾ ان کے دلوں میں جو ایمان ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے ﴿ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ﴾ تو ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کی قدر دانی کے لیے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔ ان شرائط کی وجہ سے، جو مشرکین نے رسول اللہe پر صلح کے لیے عائد کی تھیں، مومنوں کے دلوں میں سخت غم اور بے چینی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر سکینت نازل فرمائی جس نے ان کو ثبات اور اطمینان عطا کیا۔ ﴿ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا﴾ ’’اور انھیں جلد فتح عنایت کی۔‘‘ اس سے مراد فتح خیبر ہے جس میں اہل حدیبیہ کے سوا اور کوئی شریک نہیں ہوا، چنانچہ ان کے لیے جزا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا کی تعمیل کی قدر و منزلت کے طور پر ان کو فتح خبیر اور اس کے اموال غنیمت سے مختص کیا گیا۔ ﴿ وَّمَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّ٘اْخُذُوْنَهَا۠١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا﴾ ’’اور بہت سے اموالِ غنیمت بھی وہ حاصل کریں گے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی طاقت اور قدرت کا وہی مالک ہے، جس کی بنا پر وہ تمام اشیاء پر غالب ہے، اگر وہ چاہے تو ہر اس معرکہ میں جو کفار اور مسلمانوں کے درمیان برپا ہوتا ہے، کفار سے انتقام لے سکتا ہے، مگر وہ حکمت والا ہے وہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے اور مومن کا کافر کے ذریعے سے امتحان لیتا ہے۔
#
{20} {وعدكم اللهُ مغانمَ كثيرةً تأخُذونها}: وهذا يشمل كلَّ غنيمة غَنَّمها المسلمين إلى يوم القيامة، {فعجَّلَ لكم هذهِ}؛ أي: غنيمة خيبر؛ أي: فلا تحسَبوها وحدَها، بل ثمَّ شيءٌ كثيرٌ من الغنائم سيتبعها، {و} احمدوا الله إذْ {كفَّ أيدِيَ الناسِ}: القادرين على قتالكم الحريصين عليه {عنكم}: فهي نعمةٌ وتخفيفٌ عنكم، {ولتكونَ}: هذه الغنيمة {آيةً للمؤمنينَ}: يستدلُّون بها على خبر الله الصادق ووعده الحقِّ وثوابه للمؤمنين، وأنَّ الذي قدَّرها سيقدِّر غيرها، {ويهدِيَكم}: يما يُقَيِّضُ لكم من الأسباب {صراطاً مستقيماً}: من العلم والإيمان والعمل.
[20] ﴿ وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا﴾ ’’اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے، کہ تم انھیں حاصل کرو گے؟‘‘ یہ ان تمام غنائم کو شامل ہے جو قیامت کے روز تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی ﴿ فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰؔذِهٖ﴾ ’’پس اس نے اس غنیمت کی تمھارے لیے جلدی فرمائی، یعنی غزوۂ خیبر کا مال غنیمت، پس تم صرف اتنا ہی غنیمت نہ سمجھو بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اموال غنیمت ہوں گے جو اس کے بعد تمھیں حاصل ہوں گے۔ ﴿ وَؔ﴾ ’’اور‘‘ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو جب ﴿ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ﴾ اس نے ان لوگوں کے ہاتھ روک دیے جو تمھارے ساتھ جنگ کرنے کی قدرت اور اس کی خواہش رکھتے تھے﴿ عَنْكُمْ﴾ ’’تم سے‘‘ یہ ایک نعمت اور تمھارے لیے تخفیف ہے ﴿ وَلِتَكُوْنَ﴾ یعنی یہ مالِ غنیمت ﴿ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اہل ایمان کے لیے نشانی ہے‘‘ جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی سچی بھلائی، اس کے وعدۂ حق اور اہل ایمان کے لیے ثواب پر استدلال کرتے ہیں، جس نے اس غنیمت کو مقدر کیا ہے وہ اور بھی اموال غنیمت مقدر کرے گا۔ ﴿ وَیَهْدِیَكُمْ﴾ اور ان اسباب کے ذریعے سے تمھاری راہ نمائی کرے گا جو اس نے تمھارے لیے مقدر کیے ہیں ﴿ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا﴾ علم، ایمان اور عمل کے سیدھے راستوں میں سے۔
#
{21} {وأخرى}؛ أي: وعدكم أيضاً غنيمة أخرى، {لم تقدِروا عليها}: وقت هذا الخطاب، {قد أحاطَ اللهُ بها}؛ أي: هو قادر عليها وتحت تدبيره وملكه، وقد وعَدَكُموها؛ فلا بدَّ من وقوع ما وَعَدَ به؛ لكمال اقتدار الله تعالى، ولهذا قال: {وكان الله على كلِّ شيءٍ قديراً}.
[21] ﴿ وَّاُخْرٰى﴾ اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے غنائم کا بھی تمھارے ساتھ وعدہ کیا ہے ﴿ لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا﴾ ’’جس پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے‘‘ یعنی اس خطاب کے وقت ۔ ﴿ قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا﴾ ’’بے شک اللہ ہی نے ان کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان غنائم پر قادر ہے، وہ اس کے دست تدبیر کے تحت اور اس کی ملکیت میں ہیں، اس نے تمھارے ساتھ غنائم کا وعدہ کیا ہے، پس اس وعدے کا پورا ہونا لازمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کامل اقتدار کا مالک ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا﴾ ’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
آیت: 22 - 23 #
{وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (22) سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (23)}.
اور اگر لڑتے تم سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تویقیناً وہ پھیر جاتے (اپنی) پیٹھیں ، پھر نہ پاتے وہ کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار (22) (مانند) طریقے اللہ کے وہ جو تحقیق گزر چکا ہے (اس سے )پہلے اور ہرگز نہیں پائیں گے آپ طریقۂ الٰہی میں کوئی تبدیلی (23)
#
{22} هذه بشارةٌ من الله لعباده المؤمنين بنصرهم على أعدائهم الكافرين، وأنَّهم لو قابَلوهم وقاتلوهم؛ {لَوَلَّوا الأدبار ثمَّ لا يجدونَ وليًّا}: يتولَّى أمرَهم، {ولا نصيراً}: ينصُرُهم ويعينُهم على قتالكم، بل هم مخذولونَ مغلوبونَ.
[22] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے خوشخبری ہے۔ وہ ان کو ان کے دشمن کفار کے خلاف فتح و نصرت عطا کرے گا، اگر ان کفار نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے ساتھ جنگ کی ﴿ لَوَلَّوُا الْاَدْبَ٘ارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا﴾ ’’تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ، پھر وہ کوئی دوست نہ پائیں گے۔‘‘ جو ان کی سر پرستی کرے ﴿ وَّلَا نَصِیْرًا﴾ ’’اور نہ مددگار۔‘‘ جو ان کی مدد کرے اور تمھارے خلاف لڑائی میں ان کی اعانت کرے، بلکہ وہ اپنے حال پر تنہا اور مغلوب چھوڑ دیے جائیں گے۔
#
{23} وهذه سنةُ اللهِ في الأمم السابقة أنَّ جندَ الله هم الغالبونَ، {ولن تَجِدَ لِسُنَّة الله تبديلاً}.
[23] گزشتہ قوموں میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر غالب آتے ہیں ﴿ وَلَ٘نْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا﴾ ’’اور آپ سنت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔‘‘
آیت: 24 - 25 #
{وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (24) هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَنْ يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ لَمْ تَعْلَمُوهُمْ أَنْ تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (25)}
اور وہ، وہ ذات ہے جس نے روکے ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے بطن مکہ میں اس کے بعد کہ کامیابی دے دی تھی اس نے تمھیں ان پر اور ہے اللہ ساتھ اس کےجو تم عمل کرتے ہو خوب دیکھنے والا (24) وہ، وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور روکا انھوں نے تمھیں مسجد حرام سے، اور قربانی کے جانوروں کو اس حال میں کہ (جانور) روکے گئے اس سے کہ پہنچیں وہ اپنی قربان گاہ میں اور اگر نہ ہوتے (کچھ) مرد ایماندار اور (کچھ) عورتیں ایماندار (مکہ میں) کہ نہیں جانتے تم ان کو (اگر نہ ہوتا خطرہ) یہ کہ تم روند (کچل) ڈالو گے انھیں، پس پہنچے تمھیں بوجہ ان ( کے قتل) کے تکلیف، بغیر علم کے (تو ضرور اجازت دے دی جاتی تمھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا) تاکہ داخل کرے اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے اگر جدا (الگ تھلگ) ہوتے وہ (مومن تو) ضرور عذاب دیتے ہم ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ان میں سے عذاب نہایت درد ناک (25)
#
{24} يقول تعالى ممتنًّا على عباده بالعافية من شرِّ الكفار ومن قتالهم، فقال: {وهو الذي كَفَّ أيْدِيَهم}؛ أي: أهل مكة {عنكم وأيدِيَكُم عنهم ببطنِ مكَّة من بعدِ أن أظْفَرَكُم عليهم}؛ أي: من بعد ما قدرتُم عليهم وصاروا تحت ولايتكم بلا عقدٍ ولا عهدٍ، وهم نحو ثمانين رجلاً، انحدروا على المسلمين ليصيبوا منهم غِرَّةً، فوجدوا المسلمين منتبهين، فأمسكوهم، فتركوهم ولم يقتُلوهم؛ رحمةً من الله بالمؤمنين إذْ لم يقتُلوهم، {وكان الله بما تعملون بصيراً}: فيجازي كلَّ عامل بعملِهِ، ويدبِّركم أيها المؤمنون بتدبيره الحسن.
[24] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس احسان کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس نے ان کو کفار کے شر اور ان کے قتال سے عافیت میں رکھا، فرماتا ہے: ﴿ وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ ﴾ ’’اور وہی تو ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روکا۔‘‘ یعنی اہل مکہ کے ﴿ عَنْكُمْ وَاَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّـةَ٘ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْ٘فَرَؔكُمْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’تم سے اور تمھارے ہاتھوں کو ان سے ان پر تمھیں فتح دینے کے بعد۔‘‘ یعنی اس کے بعد کہ تمھیں ان پر قدرت حاصل ہو گئی اور وہ کسی عہد اور معاہدے کے بغیر تمھاری ولایت اور سرپرستی میں آ گئے اور وہ تقریباً اسی(80) آدمی تھے، جو مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تاکہ بے خبری میں ان کو آ لیں مگر انھوں نے مسلمانوں کو باخبر اور چاق چوبند پایا، مسلمانوں نے ان کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں پر رحمت تھی کہ انھوں نے ان کو قتل نہ کیا۔ ﴿وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز سے، جو تم عمل کرتے ہو، دیکھتا ہے۔‘‘ پس وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اے مومنو! اللہ تعالیٰ اپنی بہترین تدبیر کے ذریعے سے تمھاری تدبیر کرتا ہے۔
#
{25} ثم ذكر تعالى الأمور المهيِّجة على قتال المشركين، وهي كفرُهم بالله ورسولِهِ، وصدُّهم رسولَ الله ومَنْ معه من المؤمنين أنْ يأتوا للبيت الحرام زائرين معظِّمين له بالحجِّ والعمرة، وهم الذين أيضاً صدُّوا {الهديَ معكوفاً}؛ أي: محبوساً، {أن يبلغَ مَحِلَّه}: وهو مَحِلُّ ذبحِهِ في مكة ، حيث تذبح هدايا العمرة، فمنعوه من الوصول إليه ظلماً وعدواناً. وكلُّ هذه أمورٌ موجبةٌ وداعيةٌ إلى قتالهم، ولكن ثمَّ مانعٌ، وهو وجودُ رجال ونساء من أهل الإيمان بين أظهر المشركين، وليسوا بمتميِّزين بمحلةٍ أو مكانٍ يمكن أن لا ينالَهم أذى؛ فلولا هؤلاء الرجال المؤمنون والنساء المؤمنات الذين لا يعلمهم المسلمون {أن تطؤوهم}؛ أي: خشية أن تطؤوهم، {فتصيبَكم منهم مَعَرَّةٌ بغير علم}: والمعرَّةُ ما يدخل تحت قتالهم من نيلِهِم بالأذى والمكروه، وفائدةٌ أخريَّةٌ، وهو أنه لِيُدْخِلَ {في رحمته مَن يشاءُ}: فَيَمُنَّ عليهم بالإيمان بعد الكفر، وبالهدى بعد الضلال، فيمنعكم من قتالهم لهذا السبب، {لو تَزَيَّلوا}؛ أي: لو زالوا من بين أظهرهم، {لعذَّبْنا الذين كَفَروا منهم عذاباً أليماً}: بأن نبيحَ لكم قتالَهم، ونأذنَ فيه، وننصرَكم عليهم.
[25] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو مشرکین کے خلاف قتال کا باعث ہیں اور وہ ہیں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کا کفر کرنا، رسول اللہe اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کو، بیت اللہ کی زیارت کرنے، اس کی تعظیم کرنے اور حج و عمرہ کے لیے آنے سے روکنا۔ انھی لوگوں نے ﴿وَالْهَدْیَ مَعْكُوْفًا ﴾ قربانی کے جانوروں کو روکا ﴿ اَنْ یَّبْلُ٘غَ مَحِلَّهٗ ﴾ ’’یہ کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ پہنچ جائیں۔‘‘ اس سے مراد مکہ مکرمہ میں ذبح کی جگہ ہے، جہاں قربانیوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ پس انھوں نے ظلم اور تعدی کی بنا پر ان قربانیوں کو اس مقام پر پہنچنے سے روک دیا، یہ تمام امور ان کے خلاف قتال کے داعی اور موجب ہیں۔ لیکن وہاں ایک اور مانع بھی ہے اور وہ ہے مشرکین کے اندر اہل ایمان مرد اور عورتوں کا موجود ہونا، ان کی موجودگی کا محل و مقام ممیز نہ تھا جہاں ان کو نقصان پہنچ جانے کا امکان تھا۔ اگر یہ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جن کو مسلمان نہ جانتے تھے ﴿ اَنْ تَطَـُٔوْهُمْ ﴾یعنی ان کو لا علمی میں روند ڈالنے کا خدشہ نہ ہوتا ﴿فَتُصِیْبَكُمْ مِّؔنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ ’’تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ سکتا تھا۔‘‘ (اَلْمَعَرَّۃُ) سے مراد وہ تکلیف اور نقصان ہے، جو کفار کے ساتھ قتال کے دوران ان اہل ایمان کو بے خبری میں پہنچ سکتا تھا، اور اخروی فائدہ یہ ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں جسے داخل چاہے کرلے، اللہ تعالیٰ ان کو کفر کے بعد ایمان سے، اور گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازتا ہے، پس اس سبب سے اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے ساتھ قتال کرنے سے روکتا ہے۔ ﴿ لَوْ تَزَیَّلُوْا ﴾ اگر وہ کفار سے الگ ہو جاتے ﴿ لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا ﴾ ’’تو جو ان میں کافر تھے، ہم انھیں دردناک عذاب دیتے۔‘‘ وہ اس طرح کہ ہم تمھارے لیے ان سے جنگ کو مباح کردیتے، تمھیں ان کے خلاف لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمھیں ان کے خلاف نصرت سے نوازتے۔
آیت: 26 #
{إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (26)}
جب پیدا کر لی ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے دلوں میں حمیت، حمیت جاہلیت کی تو نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنوں پر اور لازم کر دی اس نے ان پر بات تقوے کی اور تھے وہ زیادہ حق دار اس (تقوے کی بات) کے اور لائق اس کے، اور ہے اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا (26)
#
{26} يقول تعالى: {إذْ جعلَ الذين كفروا في قلوبِهِمْ الحميَّةَ حميَّةَ الجاهليَّةِ}: حيث أنفوا من كتابة «بسم الله الرحمن الرحيم»، وأنفوا من دخول رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين إليهم في تلك السنة ؛ لئلاَّ يقولَ الناس: دَخَلوا مكَّة قاهرين لقريش! وهذه الأمور ونحوها من أمور الجاهلية لم تزلْ في قلوبِهِم حتَّى أوجبتْ لهم ما أوجبتْ من كثيرٍ من المعاصي، {فأنزل الله سكينَتَه على رسوله وعلى المؤمنين}: فلم يحمِلْهم الغضب على مقابلة المشركين بما قابلوهم به بل صبروا لحكم الله والتزموا الشروط التي فيها تعظيم حرمات الله، ولو كانت ما كانت، ولم يبالوا بقول القائلين ولا لوم اللائمين، {وألزَمَهم كلمةَ التَّقوى}، وهي لا إله إلاَّ الله وحقوقها، ألزمهم القيام بها، فالتزموها وقاموا بها، {وكانوا أحقَّ بها}: من غيرهم، {و} كانوا {أهلَها}: الذين استأهلوها؛ لما يعلمُ الله عندَهم وفي قلوبهم من الخير، ولهذا قال: {وكان الله بكلِّ شيءٍ عليماً}.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ﴾ ’’جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی‘‘ کیونکہ انھوں نے رسول اللہe کے معاہدے کی دستاویز سے (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ) کو نکال دیا، نیز انھوں نے رسول اللہe اور مومنین کو اس سال مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ مسلمان قریش پر غالب آ کر مکہ میں داخل ہوئے۔ یہ اور اس قسم کے تمام امور، جاہلیت کے امور ہیں جو ان کے دلوں میں موجود تھے اور بے شمار گناہوں کے موجب بنے رہے۔ ﴿ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ٘ وَعَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔‘‘ اس لیے کفار کے برتاؤ کے مقابلہ میں، ان پر غضب و غصہ غالب نہ آیا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر انہوں نے صبر کیا اور ان شرائط کا التزام کیا، جن میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم تھی، خواہ وہ کچھ بھی تھیں اور انھوں نے باتیں بنانے والوں کی کوئی پروا کی نہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کو خاطر میں لائے۔ ﴿ وَاَلْ٘زَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى ﴾ ’’اور ان کو تقویٰ کی بات پرقائم رکھا۔‘‘ اس سے مراد کلمہ (لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ) اور اس کے حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لازم ٹھہرایا کہ کلمہ اور اس کے حقوق کو ادا کریں۔ پس اہل ایمان نے ان حقوق کا التزام کر کے ان کو قائم کیا۔ ﴿ وَكَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا ﴾ اور وہ اس چیز کے، دوسروں کی نسبت زیادہ مستحق تھے۔ ﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ تھے وہ﴿اَهْلَهَا ﴾ ’’ اس کے اہل ‘‘ جو اپنے آپ کو اس کا اہل جانتے تھے۔ کیونکہ ان کے پاس جو کچھ تھا اور ان کے دلوں میں جو بھلائی تھی اللہ تعالیٰ جانتا تھا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا﴾ اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
آیت: 27 - 28 #
{لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (27) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (28)}
البتہ تحقیق سچی خبر دی اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں ساتھ حق کے، کہ ضرور داخل ہو گے تم مسجد حرام میں، اگر چاہا اللہ نے، امن سے، منڈاتے ہوئے سر اپنے اور بال کتراتے ہوئے، نہ ڈرتے ہو گے تم (کسی سے بھی) پس جان لی اللہ نے وہ بات جو نہیں جانی تم نے، سو کر دی اس نے پہلے اس سے ایک فتح جلد ہی (27) وہ، وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ساتھ ہدایت اور دین حق کے، تاکہ غالب کرے وہ اس کو اوپر سب دینوں کے اور کافی ہے اللہ گواہ (28)
#
{27} يقول تعالى: {لقد صدق اللهُ رسولَه الرُّؤيا بالحقِّ}: وذلك أنَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - رأى في المدينة رؤيا أخبر بها أصحابه؛ أنَّهم سيدخلون مكَّة ويطوفون بالبيت، فلما جرى يوم الحديبية ما جرى، ورجعوا من غير دخول لمكَّة؛ كَثُرَ في ذلك الكلام منهم، حتى إنهم قالوا ذلك لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ألم تُخْبِرْنا أنَّا سنأتي البيت ونطوف به؟! فقال: «أخبرتكم أنَّه العام؟!»، قالوا: لا، قال: «فإنَّكم ستأتونَه وتطوفونَ به». قال الله تعالى هنا: {لقد صَدَقَ الله رسولَه الرؤيا بالحقِّ}؛ أي: لا بدَّ من وقوعها وصِدْقها، ولا يقدُح في ذلك تأخُّر تأويلها، {لَتَدْخُلُنَّ المسجدَ الحرام إن شاء اللهُ آمنينَ محلِّقينَ رؤوسَكم ومقصِّرين}؛ أي: في هذه الحال المقتضية لتعظيم هذا البيت الحرام وأدائكم للنُّسك وتكميلِهِ بالحلق والتَّقصير وعدم الخوفِ. {فعلم}: من المصلحة والمنافع {ما لم تَعْلَموا فجَعَلَ من دونِ ذلك}: الدخول بتلك الصفة {فتحاً قريباً}.
[27] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَ٘ا بِالْحَقِّ﴾ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہe نے مدینہ منورہ میں ایک خواب دیکھا اور آپ نے اپنے اصحاب کرام کو اس خواب سے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب مکہ میں داخل ہو کر بیت اللہ کا طواف کریں گے۔ جب حدیبیہ کے دن ان کے درمیان صلح ہوئی اور اہل ایمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس لوٹے تو اس بارے میں ان سے بہت سی باتیں صادر ہوئیں۔ حتیٰ کہ انھوں نے ان باتوں کا رسول اللہe کے سامنے بھی اظہار کیا ، چنانچہ انھوں نے آپ سے عرض کیا ’’کیاآپ نے ہمیں یہ خبر نہیں دی تھی کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئیں گے اور طواف کریں گے؟‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’کیا میں نے تمھیں یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ کی زیارت اور طواف سے بہرہ مند ہوں گے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تم عنقریب بیت اللہ کی زیارت کے لیے جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد و المصالحۃ..... حدیث: 2732,2731) یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَ٘ا بِالْحَقِّ﴾ یعنی اس خواب کا پورا اور سچا ہونا ضروری امر ہے اور اس تعبیر میں جرح و قدح نہیں کی جا سکتی ﴿ لَتَدْخُلُ٘نَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ١ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ﴾ یعنی تم اس حال میں مسجدِ حرام ميں داخل ہو گے جو اس محترم گھر کی تعظیم کا تقاضا کرتا ہے، کہ تم سر منڈا کر یا بالوں کو ترشوا کر مناسک کو ادا کر رہے ہو گے ان کی تکمیل کر رہے ہو گے اور تمھیں کوئی خوف نہ ہو گا۔ ﴿ فَعَلِمَ﴾ اسے تمام مصالح اور منافع معلوم ہیں ﴿ مَا لَمْ تَعْلَمُوْافَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ﴾ ’’جو تمھیں معلوم نہیں، پس اس نے کی اس سے پہلے‘‘ یعنی ان اوصاف کے ساتھ داخل ہونے سے پہلے﴿فَتْحًا قَرِیْبًا﴾ ’’نزدیک کی فتح‘‘
#
{28} ولما كانت هذه الواقعة مما تشوَّشت بها قلوبُ بعض المؤمنين، وخفيتْ عليهم حكمتُها، فبيَّن تعالى حكمتَها ومنفعتَها، وهكذا سائر أحكامه الشرعيَّة؛ فإنَّها كلَّها هدى ورحمةٌ، أخبر بحكم عام، فقال: {هو الذي أرسل رسولَه بالهُدى}: الذي هو العلمُ النافعُ، الذي يهدي من الضلالة، ويبيِّن طرقَ الخير والشرِّ، {ودين الحقِّ}؛ أي: الدين الموصوف بالحقِّ، وهو العدل والإحسان والرحمة، وهو كلُّ عمل صالح مزكٍّ للقلوب مطهِّرٍ للنفوس مربٍّ للأخلاق معلٍ للأقدار، {ليظهِرَه}: بما بعثَه الله به {على الدِّين كلِّه}: بالحجَّة والبرهان، ويكون داعياً لإخضاعهم بالسيف والسنان.
[28] چونکہ یہ ایسا واقعہ ہے جس سے بعض اہل ایمان کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور ان کی نظروں سے اس کی حکمت اوجھل ہو گئی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت اور منفعت بیان فرمائی۔ یہی صورت تمام احکام شرعیہ کی ہے تمام احکام شرعیہ ہدایت اور رحمت پر مبنی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ایک حکم عام کے ذریعے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰؔى﴾ ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کر بھیجا۔‘‘ جو کہ علم نافع ہے، جو گمراہی میں راہ راست دکھاتا ہے اور خیر و شر کے تمام راستے واضح کر دیتا ہے۔ ﴿ وَدِیْنِ الْحَقِّ﴾ اور ایسے دین کے ساتھ بھیجا، جو حق سے موصوف ہے اور اس سے مراد عدل، احسان اور رحمت ہے، نیز اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جو دلوں کو پاک، نفوس کی تطہیر، اخلاق کی تربیت اور اقدار کو بلند کرتا ہے ﴿ لِیُظْهِرَهٗ﴾ تاکہ اس دین کو غالب کرے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ﴿ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ٘﴾ ’’تمام ادیان پر‘‘ یعنی حجت و برہان کے ذریعے سے اور یہ دین تمام ادیان کو شمشیر و سناں کے ذریعے سے مطیع ہونے کی دعوت دے۔
آیت: 29 #
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (29)}
محمد (e) رسول ہیں اللہ کے، اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں بہت سخت ہیں کافروں پر، نہایت مہربان ہیں آپس میں، تو دیکھے گا انھیں رکوع سجود کرتے ہوئے، وہ تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور رضامندی (اس کی)، علامت ان کی، ان کے چہروں میں ہو گا نشان سجدوں کا، یہ صفت ان کی تورات میں ہے، اور صفت ان کی انجیل میں مانند کھیتی کے ہے جس نے نکالی اپنی سوئی ، پھر اس نے مضبوط کیا اس (سوئی) کو، پھر وہ سخت ہوئی، پھر کھڑی ہو گئی اپنے تنے پر، خوش کرتی ہے کاشتکاروں کو (اللہ نے یہ کیا) تاکہ غصہ دلائے بوجہ ان(صحابہ کرام)کے کافروں کو۔ وعدہ کیا اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک ان میں سے، مغفرت اور اجر عظیم کا(29)
#
{29} يخبر تعالى عن رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه من المهاجرين والأنصار؛ أنَّهم بأكمل الصفات وأجلِّ الأحوال، وأنَّهم {أشداءُ على الكفَّارِ}؛ أي: جادِّين ومجتهدين في عداوتهم، وساعين في ذلك بغاية جهدهم، فلم يروا منهم إلاَّ الغلظةَ والشدَّةَ؛ فلذلك ذلَّ أعداؤُهم لهم وانكسروا وقهرهم المسلمون، {رحماءُ بينَهم}؛ أي: متحابُّون متراحمون متعاطفون كالجسد الواحد، يحبُّ أحدُهم لأخيه ما يحبُّ لنفسه، هذه معاملتُهم مع الخلق، وأمَّا معاملتُهم مع الخالق؛ فتراهم {رُكَّعاً سجداً}؛ أي: وصفهم كثرة الصلاة التي أجلُّ أركانها الركوع والسجود، {يبتغونَ}: بتلك العبادة {فضلاً من الله ورضواناً}؛ أي: هذا مقصودهم، بلوغُ رضا ربِّهم والوصول إلى ثوابِهِ {سيماهم في وجوهِهِم من أثرِ السُّجودِ}؛ أي: قد أثَّرت العبادة مِنْ كثرتِها وحسنِها في وجوههم حتى استنارتْ، لمَّا استنارت بالصلاة بواطنهم؛ استنارتْ ظواهِرُهم. {ذلك}: المذكور {مَثَلُهُم في التَّوراةِ}؛ أي: هذا وصفُهم الذي وصَفَهم الله به مذكورٌ بالتوراة هكذا. وأما {مثلهم في الإنجيل}؛ فإنَّهم موصوفون بوصف آخر، وأنَّهم في كمالهم وتعاونهم {كزرع أخْرَجَ شطأه فآزره}؛ أي: أخرج فراخه فوازرتْه فراخُهُ في الشباب والاستواء، {فاستغلظَ}: ذلك الزرع؛ أي: قوي وغلظ، {فاستوى على سوقِهِ}: جمع ساق، {يعجِبُ الزُّرَّاعَ}: من كماله واستوائه وحسنه واعتداله، كذلك الصحابة رضي الله عنهم هم كالزرع في نفعهم للخلق واحتياج الناس إليهم، فقوَّة إيمانهم وأعمالهم بمنزلة قوَّة عروق الزرع وسوقِهِ، وكون الصغير والمتأخِّر إسلامه قد لَحِقَ الكبير السابق، ووازره وعاونه على ما هو عليه من إقامة دينِ الله والدعوةِ إليه، كالزرع الذي أخْرَجَ شَطأه فآزره فاستغلظ، ولهذا قال: {لِيَغيظَ بهم الكفارَ}: حين يَرَوْنَ اجتماعهم وشدَّتهم على دينهم، وحين يتصادمون هم وهم في معارك النِّزال ومعامع القتال، {وَعَدَ الله الذين آمنوا وعَمِلوا الصالحات منهم مغفرةً وأجراً عظيماً}: فالصحابة رضي الله عنهم، الذين جمعوا بين الإيمان والعمل الصالح، قد جمع الله لهم بين المغفرةِ التي من لوازمها وقايةُ شرور الدُّنيا والآخرة والأجر العظيم في الدنيا والآخرة.
[29] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ ﴿ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ ﴾ کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدوجہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لیے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہو گئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آ گئے۔ ﴿ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ﴾ یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں وہ جسد واحد کی مانند ہیں، ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ ہے ان کا مخلوق کے ساتھ معاملہ۔ رہا خالق کے ساتھ ان کا معاملہ، تو ﴿ تَرٰىهُمْ رُؔكَّـعًا سُجَّدًا ﴾ ’’ تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے۔‘‘ یعنی ان کا وصف کثرتِ نماز ہے جس کے جلیل ترین ارکان رکوع اور سجود ہیں ﴿ یَّبْتَغُوْنَ ﴾ وہ اس عبادت کے ذریعے سے طلب گار ہیں ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ﴾ ’’اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنا اور اس کا ثواب حاصل کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ ﴿ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ﴾ حسن عبادت اور اس کی کثرت نے ان کے چہروں پر اثر کیا ہے حتیٰ کہ وہ منور ہو گئے ہیں، چونکہ نماز کے نور سے ان کے باطن روشن ہیں لہذا جلال سے ان کے ظاہر منور ہیں ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ مذکورہ احوال ﴿ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﴾ یعنی ان کا یہ وصف جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، تو رات کریم میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل میں ان کو ایک اور وصف سے موصوف کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کمال اور باہم تعاون میں ﴿ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ ﴾ ’’گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا۔‘‘ یعنی اس نے اپنی جڑ سے شاخیں نکالیں ، پھر ان کو استوا و ثبات میں مضبوط کیا۔ ﴿ فَاسْتَغْلَظَ ﴾ پس یہ کھیتی طاقت ور اور مضبوط ہو گئی۔ ﴿ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ ﴾ ’’پھر قوت کے ساتھ کھڑی ہو گئی اپنے تنے پر‘‘ (سوق) جمع ہے ساق کی، یعنی اپنی جڑوں پر کھڑی ہو گئی۔ مراد یہ ہے کہ یہ کھیتی مضبوط اور قوی ہو گئی اور اس کے تنے کھڑے ہو گئے۔ ﴿ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ﴾ جو اپنے کامل طور پر سیدھا کھڑا ہونے اور اپنے حسن اعتدال کی بنا پر کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام y مخلوق کو نفع پہنچانے اور لوگوں کا ان کی طرف ضرورت مند ہونے کی وجہ سے، کھیتی کی مانند ہیں۔ ان کی قوت ایمان اور قوت عمل پودے کی رگوں اور اس کے تنوں کی مانند ہے۔ وہ کم عمر صحابہ کرام اور جن کا اسلام متاخر تھا، جنھوں نے بزرگ صحابہ کرام کی پیروی کی، ان کے ہاتھ مضبوط کیے، اقامت دین اور دعوت دین میں، ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی جڑوں سے اور سوئے نکالے، پھر اس کو مضبوط کیا ، پھر وہ موٹی ہو گئی۔ بنابریں فرمایا: ﴿ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ﴾ ’’تاکہ ان کی وجہ سے اللہ کافروں کو چڑائے‘‘ جب کفار ان کے اجتماع اور دشمنان دین پر ان کی سختی کو دیکھتے ہیں، نیز جب وہ دست بدست لڑائی اور جنگی معرکوں میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ان کے دل کو جلاتی ہے۔ ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا﴾ پس صحابہ کرام y ، جنھوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت جس کا لازمہ دنیا و آخرت میں ہر قسم کے شر سے حفاظت ہے اور دنیا و آخرت کے اندر اجر عظیم کو جمع کیا۔
صلح حدیبیہ کے واقعات ہم صلح حدیبیہ کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ امام شمس الدین ابن القیم a نے ’’زاد المعاد‘‘ (زاد المعاد: 296-286)میں بیان کیے ہیں کیونکہ ان واقعات سے اس سورۂ مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ابن القیم نے اس سورۂ مبارکہ کے اسرار و معانی پر بھی بحث کی ہے، چنانچہ انھوں نے فرمایا: نافع کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ذی قعد ۶ھ میں پیش آیا اور یہی صحیح ہے۔ امام زہری ، قتادہ ، موسیٰ بن عقبہ ، اور محمد بن اسحاقS وغیرهم کی بھی یہی رائے ہے۔ ہشام بن عروہ a اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہe ماہ رمضان میں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال میں پیش آیا مگر یہ وہم ہے رمضان میں تو مکہ فتح ہوا تھا۔ ابوالاسود، عروہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ صلح حدیبیہ ذی قعد میں ہوئی تھی۔ صحیحین میں حضرت انسt سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہe نے چار عمرے کیے، جو سب کے سب ذی قعد میں تھے۔ ان میں عمرہ حدیبیہ بھی ذکر کیا، آپ کے ساتھ پندرہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبداللہw سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین میں حضرت جابرt سے مروی ہے کہ نبیe کے ساتھ چودہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں عبداللہ بن ابی اوفیٰt سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تیرہ سو افراد تھے۔ قتادہa روایت کرتے ہیں کہ میں نے جناب سعید بن المسیبa سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی جماعت تھی جو بیعت رضوان میں شریک ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا ’’پندرہ سو افراد تھے‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضرت جابرt فرماتے ہیں کہ وہ چودہ سو افراد تھے‘‘ سعید بن المسیبa نے فرمایا: ’’اللہ ان پر رحم فرمائے، انھیں وہم ہوا ہے، انھی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو افراد تھے۔‘‘ میں (ابن القیم) کہتا ہوں ’’حضرت جابر بن عبداللہw سے دونوں قول صحت کے ساتھ مروی ہیں اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ حدیبیہ والے سال ستر اونٹ قربان کیے، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا ’’آپ کتنے افراد تھے؟‘‘ حضرت جابرt نے جواب دیا ’’سوار اور پیدل دونوں مل کر چودہ سو نفوس تھے‘‘ یعنی ان کے سوار اور پیا دے۔ میلان قلب بھی زیادہ اسی طرف ہے، براء بن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الاکوع y سے بھی صحیح تر روایت کے مطابق یہی تعداد ہے اور مسیب بن حزنw کا بھی قول ہے۔ شعبہa ، قتادهa سے، قتاد سعید بن المسیبa سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہe کے ساتھ درخت کے نیچے (بیعت کرنے والے) چودہ سو افراد تھے۔ جس نے یہ کہا کہ وہ کل سات سو افراد تھے اس نے واضح طور پر غلطی کی ہے۔ سات سو افراد کہنے والے حضرات کا عذر یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس روز ستر اونٹ ذبح کیے تھے اونٹ کی قربانی کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کی قربانی سات یا دس افراد کی طرف سے کافی ہے۔ مگر یہ بھی اس قائل کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ راوی نے تصریح کی ہے کہ اس غزوہ میں ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تھا۔ اگر قربانی کے ستر اونٹ سب کی طرف سے ہوتے تو کل چار سو نوے افراد ہوتے۔ راوی مکمل حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کل چودہ سو نفوس تھے۔ فصل جب رسول اللہe ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانیوں کو ہار پہنائے اور علامتیں لگائیں اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے آگے بنو خزاعہ میں سے ایک جاسوس بھیجا جو قریش کے حالات کے بارے میں آگاہ کرے۔ جب آپ عسفان کے قریب پہنچے تو آپ کے جاسوس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ’’میں کعب بن لوی کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ انھوں نے آپ کے مقابلے کے لیے، مختلف قبیلوں سے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے وہ سب جمع ہو کر آپ سے ضرور لڑیں گے اور بیت اللہ کی زیارت سے آپ کو روکیں گے۔ رسول مصطفیe نے اپنے اصحاب کرام سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان قبائل کے پسماندگان پر حملہ کر دیں جو قریش کی مدد کے لیے جمع ہوئے ہیں اور ان کو قیدی بنا لیں، اگر وہ پھر بیٹھے رہے تو بدلہ لیے بغیر غم زدہ بیٹھے رہیں گے اور اگر وہ بچ نکلے تو وہ ایسی گردن ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے… یا تمھارا خیال ہے کہ ہم بیت اللہ کا قصد رکھیں، جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے تو ہم اس سے جنگ کریں؟ حضرت ابوبکرt نے عرض کیا ’’اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں، ہم کسی کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں آئے۔ تاہم جو کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا ہم اس سے ضرور لڑیں گے۔‘‘ رسول اکرمe نے فرمایا ’’تو پھر کوچ کرو!‘‘ پس صحابہ کرام نے کوچ کیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’خالدبن ولید قریش کے گھڑ سواروں کے ساتھ غمیم کے مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے، اس لیے پہلو بچا کر دائیں جانب کا راستہ اختیار کرو‘‘ اللہ کی قسم! خالد بن ولید کو صحابہ کرام کے نکل جانے کا پتہ تک نہ چلا، یہاں تک مسلمانوں کے لشکر کی گرد ان تک پہنچی تو مسلمانوں کی آمد کا ان کو علم ہوا تو وہ فوراً قریش کو آگاہ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس دوران میں نبی اکرمe چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی میں پہنچ گئے۔ جہاں سے ہو کر مکہ کی طرف اترتے ہیں، تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ نے کہا: (حُلْ حُلْ) مگر اونٹنی بیٹھی رہی۔ صحابہ نے کہا، قصواء تھک کر بیٹھ گئی‘‘ رسول اللہe نے فرمایا‘‘ قصواء تھک کر نہیں بیٹھی اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا، پھر فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریش مجھ سے جس چیز کا سوال کریں، جس میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی حرمت کا لحاظ رکھا ہو، میں ان کو یہ چیز ضرور عطا کر دوں گا۔‘‘ پھر آپ نے اونٹنی کو جھڑکا، وہ فوراً جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی، پس رسول اللہe اس گھاٹی سے ایک طرف سے ہٹ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنویں کے پاس اتر پڑے جس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے پانی ختم کر دیا۔ پس انھوں نے رسول اللہe کے پاس پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور صحابہ سے کہا، کہ وہ اس تیر کو اس کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتا ہے ’’اللہ کی قسم! پورا لشکر اس کنویں سے سیراب ہوتا رہا یہاں تک کہ انھوں نے وہاں سے کوچ کیا۔ قریش آپ کی روانگی کا سن کر بہت گھبرائے۔ رسول اللہe اپنے اصحاب کرام میں سے کسی شخص کو ایلچی بنا کر بھیجنا چاہتے تھے ، چنانچہ آپ نے عمرt کو بلایا تاکہ ان کو قریش کی طرف بھیجیں۔ حضرت عمرt نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ (e)! اگر مکہ میں مجھے کوئی تکلیف پہنچائی گئی تو بنو کعب بن لؤی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو میری خاطر ناراض ہو۔ اس لیے آپ حضرت عثمان کو بھیجيے، وہاں ان کا بہت بڑا قبیلہ ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا پیغام پہنچا دیں گے۔ رسول اللہe نے حضرت عثمانt کو بلایا اور ان کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریش کو کہہ دو کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے لیے آئے ہیں اور انھیں اسلام کی دعوت دو‘‘ نیز آپ نے حضرت عثمان کو حکم دیا کہ مکہ مکرمہ میں جو مومن مرد اور عورتیں ہیں وہ ان کے پاس بھی جائیں اور ان کو فتح کی خوشخبری دیں۔ نیز ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو غالب کرے گا۔ حتیٰ کہ یہاں ایمان کو چھپایا نہیں جائے گا۔ حضرت عثمانt روانہ ہوئے، بلدح کے مقام پر ان کا گزر قریش کے پاس سے ہوا۔ قریش نے پوچھا ’’عثمان کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ حضرت عثمان نے فرمایا ’’مجھے رسول اللہe نے بھیجا ہے تاکہ میں تمھیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور ہم تمھیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا ’’تم نے جو کہا، ہم نے سن لیا، اب جاؤ اپنا کام کرو‘‘ ابان بن سعید اٹھا، اس نے حضرت عثمان کو مرحبا کہا، اپنے گھوڑے پر زین رکھی، حضرت عثمان کو گھوڑے پر سوار کرایا اور ان کو پناہ دی، ابان بن سعید حضرت عثمان کو اپنے ساتھ بٹھا کر مکہ آیا۔ حضرت عثمان کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں نے کہا ’’عثمانt ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کر طواف کریں گے۔‘‘ رسول اللہe نے فرمایا ’’میرا خیال ہے وہ اس حالت میں کہ ہم یہاں محصور ہیں، بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں، انھیں کون سی چیز بیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے؟آپ نے فرمایا ’’عثمان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ ان کے ساتھ ہم نہ کریں۔‘‘ مسلمان صلح کے معاملے میں مشرکین کے ساتھ گھل مل گئے۔ فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کے کسی آدمی کو پتھر مارا، بس معرکہ برپا ہو گیا فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلانے اور پتھر پھینکنے شروع کر دیے دونوں فریق چلائے ہر فریق اپنے اپنے آدمیوں کے فعل پر مجبور تھا۔ رسول اللہe تک جناب عثمان کے قتل کی افواہ پہنچی تو آپ نے بیعت کے لیے صحابہ کرام کو طلب فرمایا۔ رسول اللہe درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ رسول اللہe نے اپنا دست مبارک پکڑا اور فرمایا ’’یہ عثمانt کی طرف سے بیعت ہے۔‘‘ جب بیعت مکمل ہو گئی تو حضرت عثمانt بھی واپس آ گئے۔ صحابہ کرام نے حضرت عثمانt سے کہا ’’آپ نے تو بیت اللہ کا طواف کر کے اپنے دل کو ٹھنڈا کر لیا۔‘‘ حضرت عثمانt نے کہا ’’میرے بارے میں تم نے بہت ہی برا گمان رکھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر سال بھر بھی میں مکہ مکرمہ میں رہوں، اور رسول اللہe حدیبیہ کے مقام پر فروکش ہوں، تو میں اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہe طواف نہ کر لیں۔ قریش نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے کی دعوت دی تھی مگر میں نے انکار کر دیا تھا‘‘ صحابہ کرام نے کہا ’’رسول اللہe اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔‘‘ حضرت عمرt نے درخت کے نیچے بیعت کے لیے جناب رسول اللہe کا دست مبارک تھامے رکھا اور جد بن قیس کے سوا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت معقل بن یسارt آپ پر درخت کی ٹہنیاں اٹھائے رہے۔ ابوسنان اسدیt پہلے شخص تھے جنھوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ سلمہ بن الاکوعt نے تین مرتبہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک دفعہ ابتدا میں، پھر درمیان میں اور ایک دفعہ آخر میں۔ بیعت کا سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، تہامہ کی پوری وادی میں صرف خزاعی آپ کے خیر خواہ تھے، بدیل نے کہا ’’میں بنو کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو اس حال میں چھوڑ کر آ رہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے چشموں پراترے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں بھی ہیں، وہ آپe کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔‘‘ رسول اللہe نے فرمایا: ’’ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے، ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں، جنگ نے قریش کو کمزور کر دیا ہے اور ان کو نقصان پہنچایا ہے، اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت کے لیے ان کے ساتھ صلح کر لوں گا، وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں، اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہو جائیں جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں، ورنہ آرام سے بیٹھیں۔ اور اگر انھیں جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری زندگی ہے۔ میں اپنے اس دین پر ان سے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن تن سے جدا ہو جائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو نافذ کر دے۔‘‘ بدیل نے عرض کیا ’’میں آپ کی بات قریش تک پہنچا دوں گا۔‘‘ بدیل چلا گیا حتیٰ کہ وہ قریش کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا ’’میں اس شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں، میں نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے، اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ بات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔‘‘ قریش کے بیوقوف لوگوں نے کہا ’’ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہمیں کچھ سناؤ ‘‘ مگر ان میں سے اصحاب رائے نے کہا ’’ہاں بتاؤ تم نے اس سے کیا سنا ہے‘‘ بدیل نے کہا ’’میں نے اس کو یہ کچھ کہتے سنا ہے۔‘‘ عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا: ’’اس شخص نے تمھارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو قبول کر لو، اور مجھے اس کے پاس جانے دو‘‘ قریش نے کہا ’’ہاں تم اس کے پاس جاؤ ۔‘‘ عروہ بن مسعود ثقفی آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہe نے عروہ بن مسعود سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ بن مسعود نے کہا ’’اے محمد(e)! کیا تم اپنی قوم ہی کی جڑ کاٹو گے، کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کو نیست و نابود کیا ہو؟ اگر کوئی دوسری بات ہوئی تو اللہ کی قسم! میں کچھ ایسے چہرے اور اس طرح کے لوگ دیکھ رہا ہوں جو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔‘‘ حضرت ابوبکرt نے اس سے کہا ’’تو، لات کی شرم گاہ چو ستا رہ، کیا ہم رسول اللہe کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟‘‘ عروہ بن مسعود نے پوچھا ’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت ابوبکر صدیقt نے کہا ’’میں ابوبکر ہوں۔‘‘ عروہ بن مسعود نے کہا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تیرا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں ابھی تک نہیں اتار سکا تو میں تجھے اس کا جواب دیتا۔‘‘ اس نے رسول اللہe سے بات چیت شروع کی۔ جب وہ بات کرتا تو آپ کی ریش مبارک کو چھوتا، حضرت مغیرہ بن شعبہt آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا۔ جب بھی عروہ بن مسعود اپنا ہاتھ آپ کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا، تو مغیرہt اپنی تلوار کا نعل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے ’’اپنے ہاتھ کو رسول اللہe کی ریش مبارک سے دور رکھو۔‘‘ عروہ بن مسعود نے اپنا سر اٹھا کر پوچھا ’’یہ کون ہے؟‘‘ مغیرہt نے کہا ’’میں مغیرہ بن شعبہ ہوں۔‘‘ عروہ بن مسعود نے کہا ’’اے بے وفا شخص! کیا میں تیری بے وفائی کے انتقام کی کوشش میں نہیں ہوں؟‘‘ حضرت مغیرہ بن شعبہt ایام جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھے، پس مغیرہ بن شعبہt نے ان لوگوں کو قتل کر دیا ان کا مال لے کر رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے۔ آپ نے فرمایا ’’میں تمھارا اسلام لانا تو قبول کرتا ہوں، لیکن مال کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ پھر عروہ بن مسعود دیر تک اصحاب رسولe کو دیکھتا رہا، اللہ کی قسم! جب کبھی نبی اکرمe نے تھوک پھینکا تو کسی نہ کسی شخص نے اسے اپنے ہاتھ پر لیا اور اسے اپنے جسم اور چہرے پر مل لیا ۔آپ کوئی حکم دیتے تو صحابہ اس کی تعمیل کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، جب آپ وضو فرماتے تو صحابہ آپ کے وضو کے مستعمل پانی پر گویا لڑتے تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پاس اپنی آوازوں کو پست کر لیتے تھے، آپ تعظیم کی وجہ سے آپe کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ عروہ بن مسعود اپنے اصحاب ( یعنی قریش) میں واپس آیا اور ان سے کہنے لگا ’’اے لوگو! میں کسریٰ، قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد (e) کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! محمد (e) جب بھی تھوک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتا تھا۔ جب محمد (e) کوئی حکم دیتے تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعمیل کی کوشش کرتے، جب محمد (e) وضو کرتے تو وضو کے مستعمل پانی کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ جب محمد (e) گفتگو کرتے تو لوگ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے وہ محمد (e) کی تعظیم کے طور پر ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ بے شک انھوں نے ایک نہایت اچھی بات تمھارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر زور دیا ہےکہ تم اسے قبول کر لو۔‘‘ بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا ’’مجھے اس کے پاس جانے دو۔‘‘ قریش نے کہا ’’تم اس کے پاس جاؤ ۔‘‘ جب یہ شخص رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’یہ فلاں شخص ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتے ہیں، تم قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آؤ ، پس لوگ قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا ’’سبحان اللہ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں‘‘ پھر وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس آیا اور ان سے کہا ’’میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا ہے کہ ان کو ہار پہنائے گئے ہیں اور ان کا اشعار کیا گیا ہے میری رائے ہے کہ ان کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔‘‘ پھر مکرز بن حفص کھڑا ہوا اور اس نے کہا ’’مجھے اجازت دو کہ میں محمد (e) کے پاس جاؤ ں‘‘ جب مکرز ان کے پاس آیا تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’یہ مکرز بن حفص ہے اور یہ فاسق و فاجر شخص ہے۔ مکرز بن حفص نے رسول اللہe سے گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آ گیا نبی اکرمe نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھارا معاملہ آسان فرما دیا۔‘‘ سہیل بن عمرو نے کہا ’’آپ ہمارے اور اپنے درمیان صلح کا معاہدہ لکھ دیجیے‘‘ رسول اللہe نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا: ’’لکھو: (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) سہیل بن عمرو نے کہا ’’رہا رحمٰن، تو اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ رحمٰن کیا ہے بلکہ لکھو ( بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ) جیسا کہ تو لکھا کرتا تھا۔ مسلمانوں نے کہا ’’اللہ کی قسم! ہم تو (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ہی لکھیں گے تو نبی اکرمe نے فرمایا: ( بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ) ہی لکھ دو‘‘ پھر فرمایا: ’’لکھو: یہ وہ تحریر ہے، جس پر محمد رسول اللہ (e) نے صلح کی۔‘‘ اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا ’’اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے نہ روکتے اور نہ آپ کے خلاف جنگ کرتے۔ بلکہ لکھو ’’محمد بن عبداللہ‘‘ نبی اکرمe نے فرمایا: ’’بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، تاہم لکھ دو ’’محمد بن عبداللہ‘‘ نبی اکرمe نے فرمایا ’’اس بات پر صلح ہے کہ تم بیت اللہ اور ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ گے اور ہم طواف کریں گے۔‘‘ سہیل بن عمرو نے کہا ’’اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو گا، کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مجبور کر دیا گیا، البتہ آپ آئندہ سال طواف کریں، پس یہی لکھ دیا گیا۔ سہیل بن عمرو نے کہا ’’یہ اس بات پر صلح نامہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی شخص (بھاگ کر) تمھارے پاس آ جائے تو تم اسے واپس کر دو گے، خواہ وہ تمھارے دین پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ مسلمانوں نے کہا ’’سبحان اللّٰہ! جو شخص مسلمان ہو کر آیا ہو اسے کیسے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا‘‘ ابھی وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ابوجندل بن سہیلw اپنی بیڑیوں میں بڑی مشکل سے چلتے ہوئے، نشیب مکہ سے نکلے اور اپنے آپ کو صحابہ کے درمیان ڈال دیا، سہیل بن عمرو نے کہا ’’اے محمد! (e) یہ پہلی شرط ہے جس پر میں نے تمھارے ساتھ صلح کی ہے، ابوجندل کو واپس کر دو۔‘‘ رسول اللہe نے فرمایا ’’ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔‘‘ سہیل بن عمرو نے کہا ’’اللہ کی قسم! اگر یہ بات ہے تو میں تمھارے ساتھ کسی بات پر کبھی بھی صلح نہیں کروں گا۔‘‘ نبی ٔاکرمe نے فرمایا ’’مجھے اس کی اجازت دے دو‘‘ سہیل بن عمرو نے کہا ’’میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا‘‘ آپ نے فرمایا ’’کیوں نہیں! اجازت دے دو‘‘ سہیل بن عمرو نے کہا ’’میں اجازت نہیں دوں گا‘‘ مکرز نے کہا ’’میں اجازت دیتا ہوں‘‘ ابوجندل نے کہا ’’اے مسلمانو! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا دراں حالیکہ میں مسلمان ہو کر تمھارے پاس آیا ہوں، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مجھے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے؟‘‘حضرت ابوجندلt کو اللہ کے راستے میں سخت عذاب سے دو چار کیا گیا تھا۔ حضرت عمرt فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے اسلام کی حقانیت پر، اس دن کے سوا، کبھی شک نہیں ہوا، میں رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’کیوں نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’تو پھر ہم اپنے دین میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے عرض کیا’’ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘ رسول اللہe نے فرمایا: ’’کیا میں نے تمھیں یہ خبر دی تھی کہ تم اسی سال آ کر بیت اللہ کا طواف کرو گے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں‘‘ آپ نے فرمایا ’’تم ضرور بیت اللہ کی زیارت اور طواف کرو گے۔‘‘ حضرت عمرt کہتے ہیں: اس کے بعد میں ابوبکرt کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کچھ کہا جو رسول اللہe سے کہا تھا اور انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو رسول اللہe نے دیا تھا، اور مزید کہا: ’’مرتے دم تک ان کے امر و نہی کی اطاعت کر، اللہ کی قسم! وہ حق پر ہیں‘‘ حضرت عمر فرماتے ہیں ’’میں نے اس سوال جواب کی گستاخی کی تلافی کے لیے کفارے کے طور پر بہت اعمال کیے۔‘‘ جب رسول اللہe صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’اٹھو قربانی کرو اور اپنا سر منڈاؤ ۔‘‘ اللہ کی قسم! کوئی شخص نہ اٹھا حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی آدمی نہ اٹھا تو آپ اٹھ کر ام سلمہ r کے خیمہ میں چلے گئے، جو کچھ لوگوں کی طرف سے پیش آیا تھا حضرت ام سلمہr سے کہہ سنایا۔ حضرت ام سلمہr نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! کیا آپ واقعی یہی چاہتے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو آپ باہر تشریف لے جائیے، اور اس وقت تک کسی سے بات نہ کیجیے جب تک کہ آپ اپنی قربانی کو ذبح نہ کر لیں، پھر حجام کو بلائیے اور وہ آپ کا سر مونڈ دے‘‘ نبئ اکرمe کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے، آپ نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی، جب تک کہ یہ سب کچھ نہ کر لیا، آپ نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے ، پھر حجام کو بلوایا، اس نے آپ کا سر مونڈا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو وہ اٹھے اور انھوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے، پھر ازدحام کی وجہ سے ایسے لگتا تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کر دیں۔ پھر مومن خواتین آئیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِیْمَانِهِنَّ۠١ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ١ؕ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَ٘هُنَّ١ؕ وَاٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْا١ؕ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ؕ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ﴾ (الممتحنۃ:60؍10) ’’اے ایمان والو! جب تمھارے پاس مومن عوتیں آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، ان کے ایمان کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر تمھیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ وہ ان کفار کے لیے حلال نہ کفار ان کے لیے حلال ہیں اور انھوں نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہے انھیں دے دو، اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تم ان کے ساتھ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح کر لو اور کافر عورتوں کو اپنے پاس نہ رکھو۔‘‘ حضرت عمرt نے اس روز اپنی دو بیویوں کو طلاق دی تھی جو شرک کی حالت میں ان کے پاس تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ امیر معاویہt نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا۔ پھر رسول اللہe واپس مدینہ لوٹ آئے، واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورۂ فتح نازل فرمائی۔ حضرت عمرt نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’ہاں‘‘! صحابہ کرامy نے عرض کیا، یارسول اللہ! آپ کو مبارک ہو، ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾(الفتح: 4/48)