آیت:
تفسیر سورۂ مؤمن
تفسیر سورۂ مؤمن
آیت: 1 - 3 #
{حم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (2) غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ (3)}.
حٰمٓ(1)اتارنا کتاب کا اللہ کی طرف سے ہے جو بڑا غالب خوب جاننے والا ہے(2) بخشنے والاہے گناہ کا اور قبول کرنے والا ہے توبہ کا، سخت سزا دینے والا ہے ، فضل والا، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی، اسی کی طرف ہے لوٹ کرجانا(3)
#
{1 ـ 3} يخبر تعالى عن كتابِهِ العظيم وأنَّه صادرٌ ومنزَّلٌ من الله المألوه المعبود لكمالِهِ وانفرادِهِ بأفعالِهِ. {العزيز}: الذي قَهَرَ بعزَّته كلَّ مخلوق. {العليم}: بكل شيء، {غافرِ الذنبِ}: للمذنبين، {وقابلِ التَّوْبِ}: من التائبين، {شديدِ العقابِ}: على من تجرَّأ على الذُّنوب ولم يَتُبْ منها، {ذي الطَّوْلَ}؛ أي: التفضُّل والإحسان الشامل. فلمَّا قرَّر ما قرَّر من كماله، وكان ذلك موجباً لأن يكون وحدَه المألوهَ الذي تُخْلَصُ له الأعمالُ؛ قال: {لا إله إلاَّ هو إليه المصيرُ}. ووجهُ المناسبة بذِكْر نزول القرآن من الله الموصوفِ بهذه الأوصافِ أنَّ هذه الأوصافَ مستلزمةٌ لجميع ما يشتملُ عليه القرآنُ من المعاني؛ فإنَّ القرآن: إما إخبارٌ عن أسماء اللهِ وصفاتِهِ وأفعالِهِ، وهذه أسماءٌ وأوصافٌ وأفعالٌ. وإمَّا إخبارٌ عن الغيوبِ الماضيةِ والمستقبلةِ؛ فهي من تعليم العليم لعبادِهِ. وإمَّا إخبارٌ عن نعمه العظيمة وآلائِهِ الجسيمة وما يوصِلُ إلى ذلك من الأوامر؛ فذلك يدلُّ عليه قوله: {ذي الطَّوْل}. وإما إخبارٌ عن نقمِهِ الشديدةِ وعمَّا يوجِبُها ويقتضيها من المعاصي؛ فذلك يدلُّ عليه قولُه: {شديد العقاب}. وإما دعوةٌ للمذنبين إلى التوبةِ والإنابةِ والاستغفار؛ فذلك يدلُّ عليه قوله: {غافرِ الذَّنْبِ وقابلِ التَّوْبِ شديدِ العقابِ}. وإما إخبارٌ بأنَّه وحدَه المألوهُ المعبودُ وإقامةُ الأدلةِ العقليةِ والنقليةِ على ذلك والحث عليه والنهي عن عبادة ما سوى الله وإقامةِ الأدلة العقليَّة والنقليَّة على فسادِها والترهيب منها؛ فذلك يدلُّ عليه قولُهُ تعالى: {لا إله إلاَّ هو}. وإمَّا إخبارٌ عن حكمِهِ الجزائيِّ العدل وثواب المحسنين وعقاب العاصينَ؛ فهذا يدلُّ عليه قوله: {إليه المصيرُ}. فهذا جميعُ ما يشتملُ عليه القرآنُ من المطالبِ العالياتِ.
[3-1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب عظیم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی اور اس کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ جو اپنے کمال اور اپنے افعال میں انفرادیت کی بنا پر عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿الْ٘عَزِیْزِ ﴾ جو اپنے غلبہ کی بنا پر تمام مخلوق پر غالب ہے۔ ﴿الْعَلِیْمِ﴾ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ﴿غَافِرِ الذَّنْۢبِ ﴾ ’’وہ گناہ بخش دینے والا‘‘ گناہ گاروں کے ﴿وَقَابِلِ التَّوْبِ ﴾ توبہ کرنے والوں کی ’’توبہ قبول کرنے والا‘‘ ﴿شَدِیْدِ الْعِقَابِ ﴾ جوگناہوں کا ارتکاب کریں اور ان گناہوں سے توبہ نہ کریں ان کو سخت سزا دینے والا ہے ﴿ذِی الطَّوْلِ ﴾ ’’فضل و احسان کامالک ہے‘‘ یعنی ایسا فضل واحسان جو سب کو شامل ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال کو متحقق کر دیا اور یہ کمال اس حقیقت کا موجب ہے کہ وہ اکیلا ہی معبود ہو جس کے لیے تمام اعمال خالص کیے جائیں، تو فرمایا: ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ ان اوصافِ حمیدہ سے موصوف اللہ تعالیٰ کی طرف سےقرآن مجید کے نازل ہونے کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ یہ اوصاف ان تمام معانی کو مستلزم ہیں جن پر یہ مشتمل ہے۔ کیونکہ قرآن کریم یا تو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کے بارے میں خبر دیتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال ہیں یا گزشتہ زمانوں اور آنے والے واقعات کی خبر دیتا ہے اور یہ علیم کی طرف سے اپنے بندوں کی تعلیم ہے یا وہ اپنی عظیم نعمتوں اور جسمانی احسانات اور ان احسانات تک پہنچانے والے اوامر کی خبر ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ذِی الطَّوْلِ ﴾ دلالت کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی اور ان معاصی کے بارے میں خبر ہے جو اس ناراضی کے موجب ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿شَدِیْدِ الْعِقَابِ ﴾ دلالت کرتا ہے۔ یا اس قرآن عظیم میں گناہ گاروں کو توبہ، انابت اور استغفار کی دعوت دی گئی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ﴾ دلالت کرتا ہے۔ یا اس میں اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود برحق ہے، اس پر عقلی و نقلی دلائل دیے گئے ہیں۔ اور اس مضمون کو بہت تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نیز قرآن کریم میں غیراللہ کی عبادت سے روکا گیا ہے، اس کے فساد پر عقلی و نقلی دلائل قائم کیے گئے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت سے ڈرایا گیا ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول: ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﴾ ہے۔ یا اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم جزائی، یعنی بھلائی کرنے والوں کے ثواب اور نافرمانوں کی سزا کے بارے میں خبر دی گئی ہے اور یہ حکم جزائی عدل پر مبنی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ﴾ دلالت کرتا ہے۔ یہ تمام عالی شان مطالب و معانی ہیں جن پر قرآن مشتمل ہے۔
آیت: 4 - 6 #
{مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ (4) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (5) وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ (6)}.
نہیں جھگڑا کرتے اللہ کی آیتوں میں مگر وہی لوگ جنھوں نے کفر کیا، پس نہ دھوکے میں ڈالے آپ کو چلنا پھرنا ان کا شہروں میں(4) جھٹلایا ان سے پہلے قوم نوح نے اور (دوسرے) گروہوں نے ان کے بعد، اور ارادہ کیا ہر امت نے اپنے رسول کی بابت کہ پکڑ یں وہ اس کو اور جھگڑا کیا انھوں نے جھوٹی باتوں کے ساتھ تاکہ ڈگمگا دیں اس کےذریعے سے حق کو پس پکڑ لیا میں نے ان کو، پس کیسی تھی میری سزا ؟(5) اور اسی طرح ثابت ہو گئی بات آپ کے رب کی اوپر ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا کہ بلاشبہ وہی ہیں دوزخی(6)
#
{4} يخبر تبارك وتعالى أنَّه ما يجادِلُ في آياتِه إلاَّ الذينَ كَفَروا، والمرادُ بالمجادلة هنا المجادلةُ لردِّ آيات الله ومقابلَتِها بالباطل؛ فهذا من صنيع الكفارِ، وأمَّا المؤمنونَ؛ فيخضعون للحقِّ لِيُدْحِضوا به الباطلَ ، ولا ينبغي للإنسان أن يغترَّ بحالةِ الإنسان الدنيويَّة ويظنَّ أنَّ إعطاء اللهِ إيَّاه في الدُّنيا دليلٌ على محبَّتِهِ له وأنَّه على الحقِّ، ولهذا قال: {فلا يَغْرُرْكَ تقلُّبُهم في البلادِ}؛ أي: تردُّدهم فيها بأنواع التجاراتِ والمكاسبِ، بل الواجبُ على العبدِ أن يَعْتَبِرَ الناس بالحقِّ وينظُرَ إلى الحقائق الشرعيَّةِ ويزنَ بها الناسَ، ولا يزنُ الحقَّ بالناس كما عليه مَنْ لا علم ولا عقلَ له.
[4] اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ﴿مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں۔‘‘ یہاں مجادلہ سے مراد ہے، آیات الٰہی کو رد کرنا اور باطل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جھگڑا کرنا اور یہ کفار کا کام ہے، رہے اہل ایمان تو وہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے باطل کو نیچا دکھائیں۔ انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے دنیاوی احوال سے دھوکہ کھائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا دنیا میں اس کو اپنی نعمتوں سے نوازنا، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے اور وہ حق پر ہے۔ بنابریں ارشاد فرمایا: ﴿فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ ﴾ ’’ان کا دنیا کے ملکوں میں چلنا پھرنا آپ کو کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔‘‘ یعنی مختلف انواع کی تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں ان کا ملکوں میں آنا جانا آپe کو دھوکے میں مبتلا نہ کردے۔ بلکہ بندے پر واجب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے حق کے ساتھ عبرت حاصل کرے، حقائق شرعیہ کو دیکھے، ان کی کسوٹی پر لوگوں کو پرکھے، لوگوں کی کسوٹی پر حق کو نہ پر کھے جیسے ان لوگوں کا وتیرہ ہے جو علم وعقل سے محروم ہیں۔
#
{5} ثم هدَّدَ مَنْ جادَلَ بآيات الله لِيُبْطِلَها كما فعل مَنْ قَبْلَه من الأمم من {قوم نوح} وعاد {والأحزاب من بعدِهِم}، الذين تحزَّبوا وتجمَّعوا على الحقِّ ليبطلوه وعلى الباطل لينصُروه، {و} أنَّه بلغت بهم الحالُ وآلَ بهم التحزُّبُ إلى أنَّه {همَّتْ كلُّ أمةٍ}: من الأمم {برسولهم ليأخذوهُ}؛ أي: يقتلوه، وهذا أبلغ ما يكون للرسل، الذين هم قادةُ أهل الخير، الذين معهم الحقُّ الصرفُ، الذي لا شك فيه ولا اشتباه، همُّوا بقتلهم؛ فهل بعد هذا البغي والضلال والشقاء إلاَّ العذاب العظيم الذي لا يخرجون منه؟! ولهذا قال في عقوبتهم الدنيويَّة والأخرويَّة: {فأخذْتُهم}؛ أي: بسبب تكذيبهم وتحزُّبهم {فكيف كان عقاب}: كان أشدَّ العقاب وأفظَعَه، إنْ هو إلا صيحةٌ أو حاصبٌ ينزل عليهم، أو يأمر الأرضَ أن تأخُذَهم أو البحرَ أن يُغْرقَهم؛ فإذا هم خامدونَ.
[5] پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو آیات الٰہی کے ابطال کے لیے جھگڑتے اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے گمراہ قومیں کیا کرتی تھیں ، مثلاً: ﴿قَوْمُ نُوْحٍ ﴾ ’’قوم نوح‘‘ اور قوم عاد ﴿وَّالْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ ’’اور ان کے بعد کی دوسری جماعتوں نے (بھی جھٹلایا)‘‘ جو حق کو نیچا دکھانے اور باطل کی مدد کرنے کے لیے جمع ہو گئے ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ ان کا یہ حال ہو گیا اور وہ اس بات پر اکٹھے ہو گئے کہ ﴿هَمَّتْ كُ٘لُّ اُمَّةٍۭ ﴾ ’’ہر گروہ نے ارادہ کر لیا‘‘ مختلف گروہوں میں سے ﴿بِرَسُوْلِهِمْ لِیَاْخُذُوْهُ ﴾ ’’کہ وہ اپنے رسول کو گرفتار کرلیں۔‘‘ یعنی اس کو قتل کردیں یہ انبیاء و مرسلین کے خلاف، جو اہل خیر کے قائد تھے، بدترین ہتھکنڈا تھا، جو صریح حق پر تھے جس میں کوئی شک وشبہ نہ تھا۔ انھوں نے انبیاء کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ کیا اس بغاوت، گمراہی اور بدبختی کے بعد اس عذاب عظیم کے سوا کچھ رہ جاتا ہے جس میں سے یہ کبھی نہ نکلیں گے؟ بنابریں ان کے لیے دنیاوی اور اخروی عذاب کے بارے میں فرمایا: ﴿فَاَخَذْتُهُمْ ﴾ ’’ پھر میں نے انھیں پکڑ لیا۔‘‘ یعنی ان کو تکذیب حق اور حق کے خلاف اکٹھے ہونے کے سبب سے اپنی گرفت میں لے لیا ﴿فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ’’ پھر (دیکھ لو) ہماری سزا کیسی سخت تھی۔‘‘ یہ سخت ترین اور بدترین عذاب تھا، یہ ایک زور دار آواز تھی، پتھروں کو اڑاتی ہوئی طوفانی ہوا تھی، یا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا اور ان کو اپنی گرفت میں لے لیا یا سمندر کو حکم دیا اور ان کو غرق کر دیا، تب یہ مردہ پڑے کے پڑے رہ گئے۔
#
{6} {وكذلك حَقَّتْ كلمةُ ربِّك على الذين كَفَروا}؛ أي: كما حقَّتْ على أولئك حقَّتْ عليهم كلمةُ الضلال التي نشأت عنها كلمةُ العذاب، ولهذا قال: {إنَّهم أصحابُ النارِ}.
[6] ﴿وَؔكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ﴾ ’’اسی طرح کافروں کے بارے میں بھی تمھارے رب کی بات پوری ہوچکی ہے۔‘‘ جیسا کہ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی بات سچ ثابت ہوئی تھی، اسی طرح ان پر گمراہی ثابت ہو گئی جس کے سبب سے وہ عذاب کے مستحق ہو گئے، اس لیے فرمایا: ﴿اَنَّهُمْ اَصْحٰؔبُ النَّارِ﴾ ’’بلاشبہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘
آیت: 7 - 9 #
{الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (7) رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (8) وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9)}
وہ(فرشتے)جو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کو اورجو اس کےاردگرد ہیں وہ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور ایمان رکھتے ہیں اس پر اور بخشش مانگتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، (کہ) اے ہمارے رب! گھیر لیا ہے تو نے ہر چیز کو (اپنی) رحمت اور علم سے، پس بخش دے ان لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی اور پیروی کی تیرے راستے کی اور بچا ان کو عذاب دوزخ سے(7) اے ہمارے رب! اور داخل کر ان کو باغوں میں (جو) ہمیشہ رہنے والے (ہیں) وہ جن کا وعدہ کیا ہے تو نے ان سے اورجو نیک ہوئے ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اوران کی اولاد میں سے، بے شک تو بڑا غالب نہایت حکمت والا ہے(8) اور بچا ان کو برائیوں سے اور جس کو تو بچائے گا برائیوں سے اس دن، تو تحقیق رحم کر دیا تو نے اس پر، اور یہی ہے کامیابی بڑی(9)
#
{7} يخبرُ تعالى عن كمال لطفِهِ تعالى بعباده المؤمنين، وما قيَّض لأسباب سعادتِهِم من الأسباب الخارجة عن قُدَرِهم من استغفار الملائكةِ المقرَّبين لهم ودعائِهِم لهم بما فيه صلاحُ دينِهم وآخرتِهِم، وفي ضمن ذلك الإخبار عن شرف حملة العرشِ ومَنْ حولَه وقُرْبِهِم من ربِّهم وكثرة عبادتهم ونُصحهم لعبادِ الله لعلمهم أنَّ الله يحبُّ ذلك منهم، فقال: {الذين يحملونَ العرشَ}؛ أي: عرش الرحمن، الذي هو سقف المخلوقات وأعظمها وأوسعها وأحسنها وأقربها من الله تعالى، الذي وسع الأرض والسماوات والكرسيَّ، وهؤلاء الملائكة قد وَكَلَهُمُ الله تعالى بحمل عرشه العظيم؛ فلا شكَّ أنهم من أكبر الملائكة وأعظمهم وأقواهم، واختيار الله لهم لحمل عرشه وتقديمهم في الذكر وقربهم منه يدلُّ على أنهم أفضل أجناس الملائكة عليهم السلام؛ قال تعالى: {ويحملُ عرشَ ربِّك فوقَهم يومئذٍ ثمانيةٌ}، {ومَنْ حولَه}: من الملائكة المقرَّبين في المنزلة والفضيلة، {يسبِّحون بحمد ربِّهم}: هذا مدح لهم بكثرة عبادتهم لله تعالى، وخصوصاً التسبيح والتحميد، وسائر العبادات تدخل في تسبيح الله وتحميده؛ لأنها تنزيهٌ له عن كون العبد يصرفها لغيره وحمدٌ له تعالى، بل الحمدُ هو العبادة لله تعالى، وأما قول العبد: «سبحان الله وبحمده»؛ فهو داخلٌ في ذلك، وهو من جملة العبادات، {ويستغفرون للذين آمنوا}: وهذا من جملة فوائد الإيمان وفضائله الكثيرة جدًّا؛ أن الملائكة الذين لا ذنوب عليهم يستغفرون لأهل الإيمان؛ فالمؤمن بإيمانه تسبَّب لهذا الفضل العظيم. ولمَّا كانت المغفرةُ لها لوازمُ لا تتمُّ إلا بها ـ غير ما يتبادر إلى كثير من الأذهان أنَّ سؤالَها وطلبَها غايتُهُ مجرّد مغفرة الذنوب ـ ذكر تعالى صفةَ دعائهم لهم بالمغفرة بذكر ما لا تتمُّ إلاَّ به، فقال: {ربَّنا وسعتَ كل شيء رحمة وعلماً}: فعلمك قد أحاط بكلِّ شيء، لا يخفى عليك خافيةٌ ولا يعزُبُ عن علمك مثقال ذرةٍ في الأرض ولا في السماء ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، ورحمتُك وسعتْ كلَّ شيء؛ فالكون علويُّه وسفليُّه قد امتلأ برحمة الله تعالى، ووسعتهم، ووصل إلى ما وصل إليه خلقه، {فاغْفِرْ للذين تابوا}: من الشرك والمعاصي، {واتَّبعوا سبيلك}: باتِّباع رسلك بتوحيدك وطاعتك، {وقِهِمْ عذابَ الجحيم}؛ أي: قهم العذاب نفسه، وقِهِم أسباب العذاب.
[7] اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے کامل لطف و کرم اور ان اسباب کا ذکر کرتا ہے جو اس نے ان کی سعادت کے لیے مقرر فرمائے ہیں، یہ اسباب ان کی قدرت سے باہر تھے، مثلاً: ان کے لیے ملائکہ مقربین کا استغفار کرنا اور ان کے دین و آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنا۔ اس ضمن میں عرش الٰہی اٹھانے والے فرشتے اور جو اس کے اردگرد ہیں ان کے شرف کی خبر ہے۔ اور اسی طرح اپنے رب کے قریب رہنے والے فرشتوں، ان کی عبادت کی کثرت، اللہ کے بندوں کے لیے ان کی خیرخواہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْ٘عَرْشَ ﴾ ’’جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی رحمٰن کا عرش، جو تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ جو تمام مخلوقات میں سب سے بڑا، سب سے وسیع، سب سے خوبصورت اور اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے، جو زمین و آسمان اور کرسی پر چھایا ہوا ہے۔ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے عرش اٹھانے پر مقرر کیا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے بڑے اور سب سے طاقتور فرشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان فرشتوں کو اپنا عرش اٹھانے کے لیے چن لینا، ذکر میں ان کو مقدم رکھنا اور ان کو اپنے قرب سے سرفراز کرنا دلالت کرتا ہے کہ یہ سب سے افضل فرشتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ﴾ (الحاقۃ: 69؍17) ’’اور اس روز تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔‘‘ ﴿وَمَنْ حَوْلَهٗ﴾ ’’اور جو اس کے اردگرد ہیں‘‘ یعنی قدرومنزلت اور فضیلت میں اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ﴿یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں۔‘‘ یہ ان فرشتوں کی، ان کی کثرت عبادت خاص طور پر تسبیح و تحمید کی بنا پر مدح ہے۔ تسبیح و تحمید میں تمام عبادات داخل ہیں کیونکہ تمام عبادات کے ذریعے سے اس طرح اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کی جاتی ہے کہ بندہ اپنی عبادات کو غیراللہ سے ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرتا ہے۔ نیز یہ عبادات اللہ تعالیٰ کی حمد ہیں بلکہ حمد ہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ رہا بندے کا قول (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ) تو یہ بھی اسی میں داخل ہے اور جملہ عبادات میں شامل ہے۔ ﴿وَیَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اور وہ مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ ایمان کے جملہ فوائد اور اس کے فضائل میں سے ہے کہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور گناہوں سے پاک ہیں، اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، لہٰذا پس بندۂ مومن اپنے ایمان کے سبب سے اس عظیم فضیلت کو حاصل کرتا ہے۔ چونکہ مغفرت کے لیے کچھ اسباب ہیں جن کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی اور یہ اسباب اس خیال سے بالکل مختلف ہیں جو بہت سے اذہان میں آتا ہے کہ مغفرت طلب کرنے کی غرض و غایت مجرد گناہوں کی بخشش ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فرشتوں کی دعائے مغفرت اور ان امور کا ذکر فرمایا جن کے بغیر دعائے مغفرت کی تکمیل نہیں ہوتی، چنانچہ فرمایا: ﴿رَبَّنَا وَسِعْتَ كُ٘لَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا ﴾ ’’اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘ تیرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، تجھ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز تیرے علم سے اوجھل ہے نہ آسمان میں اور کوئی چھوٹی چیز تجھ سے چھپی ہوئی ہے نہ کوئی بڑی چیز۔ تیری رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ علوی اور سفلی تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لبریز اور اس کی رحمت تمام کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی تمام مخلوق اس رحمت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ ﴿فَاغْ٘فِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا ﴾ ’’پس جن لوگوں نے توبہ کی انھیں بخش دے۔‘‘ یعنی جنھوں نے شرک اور معاصی سے توبہ کی ﴿وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ ﴾ ’’اور جو تیرے راستے پر گامزن ہوئے‘‘ تیرے رسولوں کی اتباع، تیری توحید اور تیری اطاعت کے ذریعے سے ﴿وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ﴾ ’’اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے‘‘ یعنی (اے اللہ!) ان کو عذاب سے اور اس کے اسباب سے بچا۔
#
{8} {ربَّنا وأدْخِلْهم جناتِ عدن التي وَعَدتَهم}: على ألسنة رسلك {ومَن صَلَحَ}؛ أي: صلح بالإيمان والعمل الصالح {من آبائهم وأزواجهم}: زوجاتهم وأزواجهنَّ وأصحابهم ورفقائهم {وذُرِّيَّاتهم إنَّك أنت العزيز}: القاهر لكل شيء؛ فبعزَّتك تغفر ذنوبهم، وتكشف عنهم المحذور، وتوصِلُهم بها إلى كلِّ خير. {الحكيم}: الذي يضع الأشياء مواضعها؛ فلا نسألك يا ربَّنا أمراً تقتضي حكمتك خلافه، بل من حكمتك التي أخبرت بها على ألسنة رسلك واقتضاها فضلُك المغفرة للمؤمنين.
[8] ﴿رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ اِ۟ الَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل فرما جن کا تونے ان سے وعدہ فرمایا‘‘ یعنی جن کا تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا۔ ﴿وَمَنْ صَلَ٘حَ ﴾ ’’اور جو صالح ہوں‘‘ یعنی جو ایمان اور عمل صالح کے ذریعے سے درست ہوں۔ ﴿مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ ﴾ ’’ان کے آباء واجداد اور ان کی بیویوں میں سے‘‘ یعنی ان کی بیویوں، عورتوں کے شوہروں، ان کے دوستوں اور رفقاء میں سے ﴿وَذُرِّیّٰتِهِمْ ﴾ ’’اور ان کی اولاد میں سے‘‘ ﴿اِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ بے شک تو ہر چیز پر غالب ہے، تیری عزت کی قسم! تو ان کے گناہ بخش دیتا ہے، ان کی تکلیف دور کر دیتا ہے اور انھیں ہر بھلائی تک پہنچا دیتا ہے۔ ﴿الْحَكِیْمُ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ ’’حکیم‘‘ اس کو کہتے ہیں جو تمام اشیاء کو ان کے لائق حال مقام پر رکھتا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کرتے جو تیری حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ بلکہ تیری حکمت، جس کی تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر خبر دی ہے اور تیرا فضل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ تو اہل ایمان کو بخش دے۔
#
{9} {وقِهِمُ السيئاتِ}؛ أي: الأعمال السيئة وجزاءها؛ لأنها تسوء صاحبها، {ومَن تَقِ السيئاتِ يومئذ}؛ أي: يوم القيامةِ {فقد رحمتَه}: لأنَّ رحمتك لم تزل مستمرةً على العباد، لا يمنعها إلاَّ ذنوب العباد وسيئاتُهم؛ فمن وقيته السيئات؛ وفَّقْته للحسنات وجزائها الحسن. {وذلك}؛ أي: زوال المحذور بوقاية السيئات وحصول المحبوب بحصول الرحمة؛ {هو الفوزُ العظيم}: الذي لا فوز مثله، ولا يتنافسُ المتنافسون بأحسن منه. وقد تضمَّن هذا الدعاء من الملائكة: كمال معرفتهم بربِّهم، والتوسُّل إلى الله بأسمائه الحسنى التي يحبُّ من عباده التوسُّل بها إليه، والدُّعاء بما يناسب ما دعوا الله فيه. فلما كان دعاؤهم بحصول الرحمة وإزالة أثر ما اقتضته النفوس البشرية التي علم الله نَقْصَها واقتضاءها لما اقتضته من المعاصي ونحو ذلك من المبادئ والأسباب التي قد أحاط الله بها علماً؛ توسَّلوا بالرحيم العليم. وتضمَّن كمالَ أدبهم مع الله تعالى بإقرارهم بربوبيَّته لهم الربوبيَّة العامَّة والخاصَّة، وأنه ليس لهم من الأمر شيءٌ، وإنَّما دعاؤهم لربِّهم صدر من فقير بالذات من جميع الوجوه لا يُدلي على ربِّه بحالة من الأحوال، إن هو إلاَّ فضلُ الله وكرمه وإحسانه. وتضمَّن موافقتهم لربِّهم تمام الموافقة؛ بمحبَّة ما يحبُّه من الأعمال، التي هي العبادات التي قاموا بها واجتهدوا اجتهاد المحبين، ومن العمال الذين هم المؤمنون، الذين يحبُّهم الله تعالى من بين خلقه؛ فسائر الخلق المكلفين يبغضهم الله إلا المؤمنين منهم؛ فمن محبة الملائكة لهم دعوا الله واجتهدوا في صلاح أحوالهم؛ لأن الدعاء للشخص من أدلِّ الدلائل على محبته؛ لأنَّه لا يدعو إلا لمن يحبه. وتضمن ما شرحه الله، وفصَّله من دعائهم ـ بعد قوله: {يستغفرون للذين آمنوا} ـ التنبيهَ اللطيفَ على كيفيَّة تدبُّر كتابه، وأن لا يكون المتدبِّر مقتصراً على مجرد معنى اللفظ بمفرده، بل ينبغي له أن يتدبَّر معنى اللفظ؛ فإذا فهمه فهماً صحيحاً على وجهه؛ نظر بعقله إلى ذلك الأمر والطرق الموصلة إليه، وما لا يتمُّ إلا به، وما يتوقَّف عليه؛ وجزم بأنَّ الله أراده؛ كما يجزم أنه أراد المعنى الخاصَّ الدالَّ عليه اللفظ، والذي يوجب الجزم له، بأنَّ الله أراده أمران: أحدهما: معرفته وجزمه بأنه من توابع المعنى والمتوقّف عليه. الثاني: علمه بأن الله بكل شيء عليم، وأن الله أمر عباده بالتدبُّر والتفكُّر في كتابه. وقد علم تعالى ما يلزم من تلك المعاني، وهو المخبر بأن كتابه هدىً ونورٌ وتبيانٌ لكل شيء، وأنَّه أفصح الكلام وأجلُّه إيضاحاً؛ فبذلك يحصلُ للعبد من العلم العظيم والخير الكثير بحسب ما وفَّقه الله له. وقد كان في تفسيرنا هذا كثيرٌ من هذا منَّ به الله علينا، وقد يخفى في بعض الآيات مأخذه على غير المتأمِّل صحيح الفكرة، ونسأله تعالى أن يفتح علينا من خزائن رحمته ما يكون سبباً لصلاح أحوالنا وأحوال المسلمين، فليس لنا إلا التعلُّق بكرمه والتوسُّل بإحسانه الذي لا نزال نتقلَّب فيه في كل الآنات وفي جميع اللحظات، ونسأله من فضله أن يقينا شرَّ أنفسنا المانع والمعوق لوصول رحمته؛ إنَّه الكريم الوهاب، الذي تفضل بالأسباب ومسبباتها. وتضمَّن ذلك أن المقارن من زوج وولد وصاحب يَسْعَدُ بقرينه ويكون اتِّصاله به سبباً لخير يحصل له خارج عن عمله، وسبب عمله؛ كما كانت الملائكة تدعو للمؤمنين ولمن صَلَحَ من آبائهم وأزواجهم وذرياتهم، وقد يقال: إنه لا بدَّ من وجود صلاحهم؛ لقوله: {ومَن صَلَحَ}؛ فحينئذ يكون ذلك من نتيجة عملهم. والله أعلم.
[9] ﴿وَقِهِمُ السَّیِّاٰتِ ﴾ ’’اور انھیں برائیوں سے بچالے‘‘ یعنی تو ان کو برے اعمال اور ان کی جزا سے دور رکھ کیونکہ یہ انسان کو بہت تکلیف دیتے ہیں۔ ﴿وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’اور جس کو تو اس دن عذابوں سے بچالے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿فَقَدْ رَحِمْتَهٗ﴾ ’’تو بے شک تو نے اس پر رحمت کی۔‘‘ کیونکہ تیری رحمت تیرے بندوں پر ہمیشہ سایہ کناں رہی ہے، بندوں کے گناہ اور ان کی برائیاں ہی انھیں اس رحمت سے محروم کرتے ہیں۔ جس کو تو نے برائیوں سے بچا لیا اسے تو نے نیکیوں کی توفیق اور ان کی جزائے حسن سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذٰلِكَ ﴾ ’’اور یہ‘‘یعنی منہیات کا دور ہونا، برائیوں سے بچانا اور محبوب و مرغوب کا حاصل ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے۔ ﴿هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں اور مقابلہ کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ فرشتوں کی یہ دعا اس حقیقت کو متضمن ہے کہ فرشتے اپنے رب کی کامل معرفت سے سرفراز ہیں وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے اسماء کو وسیلہ بنانے اور جو دعا مانگی جا رہی ہو اس کی مناسبت سے اسمائے الٰہی کو وسیلہ بنانے کو پسند کرتا ہے۔ بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور نفوس بشری کے تقاضوں کے اثرات کے ازالے کے لیے ہوتی ہے، جن کے نقص اور ان کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ، لہٰذا جب وہ ان معاصی اور اس کے مبادی و اسباب کا تقاضا کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات ’’رَحِیْم‘‘ اور ’’عَلِیْم‘‘ کو وسیلۂ دعا بنایا۔اس کی ربوبیت عامہ اور ربوبیت خاصہ کا اقرار ان کا اللہ تعالیٰ کے متعلق کمال ادب کو متضمن ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ۔یہ تو ان کی اپنے رب کے سامنے دعا ہے جو ہر لحاظ سے ایک محتاج ہستی سے صادر ہوتی ہے۔ جو کسی بھی حال کو اپنا وسیلہ نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم و احسان ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ان کی موافقت، ان اعمال یعنی عبادات سے محبت کو متضمن ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدوجہد کی طرح جدوجہد کرتے ہیں، وہ ہیں اہل ایمان، اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق میں سے انھی سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مکلف مخلوق کو ناپسند کرتا ہے مگر ان میں سے اہل ایمان کو پسند کرتا ہے۔ فرشتوں کی اہل ایمان کے ساتھ محبت ہے کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، ان کے احوال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی شخص کے لیے دعا کرنا، اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اس شخص سے محبت کرتا ہے کیونکہ انسان صرف اسی کے لیے دعا مانگتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشاد: ﴿وَیَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ کے بعد کا فرشتوں کی دعا کی تفصیل اور شرح بیان کرنا، کتاب اللہ میں تدبیر کی کیفیت کی طرف لطیف اشارے کو متضمن ہے۔ نیز یہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ تدبر کرنے والا صرف مفرد لفظ کے معنی پر اقتصار نہ کرے۔ بلکہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لفظ کے معنی پر خوب تدبر اور غوروفکر کرے۔ جب اچھی طرح معنی کا فہم حاصل کر لے تو اپنی عقل سے اس معاملے میں غور کرے، ان طریقوں پر غور کرے جو اس منزل تک پہنچاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ ناتمام ہے اور جن پر تمام دارومدار ہے۔ اس کو یقین قطعی ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، جیسا کہ اسے یقین ہے کہ وہ معنیٔ خاص اللہ تعالیٰ کی مراد ہے جس پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ وہ چیز جو اس کے لیے اس یقین کی موجب ہے کہ یہی معنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، دو امور ہیں: ۱۔ اس کی معرفت اور اس بات کا یقین کہ یہ معنی کے توابع میں سے ہے اورمراد الٰہی اسی پر موقوف ہے۔ ۲۔ اس حقیقت کا علم رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی کتاب میں تدبروتفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان معانی سے کیا لازم آتا ہے۔ اسی نے خبردی ہے کہ اس کی کتاب سراسر ہدایت، نور اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، یہ فصیح ترین اور ایضاح کے اعتبار سے جلیل ترین کلام ہے۔ اس سے بندۂ مومن توفیق الٰہی کے مطابق علم عظیم اور خیرکثیر سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ ہماری اس تفسیر میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ کبھی کبھی بعض آیات میں، صحیح الفکر مگر غوروتدبر سے محروم شخص پر اس کا ماخذ مخفی رہتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دے جو ہمارے احوال اور تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح کا سبب بنیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، اس کے احسان کووسیلہ بناتے ہیں، جس سے ہم ہر آن اور ہر لحظہ بہرہ مند رہتے ہیں۔ ہم اس سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، یقینا ہمارے نفس کی برائی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم اور عطا کرنے والا ہے جس نے ہمیں اسباب اور ان کے مسببات عطا کیے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو متضمن ہے کہ مومن کے ساتھ رہنے والے اشخاص، مثلاً: بیوی، اولاد اور دوست بھی اس کی صحبت کے باعث سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں، مومن کی صحبت ان کے لیے ایسی بھلائی کے حصول کا سبب بنتی ہے جو اس کے عمل اور اسباب عمل سے خارج ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان اور ان کے نیک والدین، ان کی نیک بیویوں اور ان کی نیک اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے ماں باپ، بیویوں اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَنْ صَلَ٘حَ ﴾ کے مطابق ’’صلاحیت‘‘ کا وجود لازم ہے تب اس صورت میں، ان کے لیے فرشتوں کی یہ دعا، ان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔ واللہ أعلم۔
آیت: 10 - 12 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ (10) قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ (11) ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ (12)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، وہ پکارے (کہے) جائیں گے، البتہ ناراضی اللہ کی زیادہ بڑی ہے تمھاری ناراضی سے اپنے آپ پر جبکہ تم بلائے جاتے تھے ایمان کی طرف، تو تم انکار کرتے تھے (10) وہ کہیں گے اے ہمارے رب! موت دی تو نے ہمیں دو مرتبہ اورزندہ کیا تو نے ہمیں دو مرتبہ، پس اقرار کیا ہم نے اپنے گناہوں کا، پس کیا (اب) نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے؟ (11) یہ اس سبب سے کہ بلاشبہ جب پکارا جاتا تھا اللہ اکیلے کو تو انکار کرتے تھے تم اوراگر شریک ٹھہرایا جاتا(کسی کو)اس کے ساتھ تو تم (اسے)مان لیتے تھے، پس حکم تو اللہ ہی کا ہے جو نہایت بلند اور بہت بڑا ہے (12)
#
{10} يخبر تعالى عن الفضيحة والخزي الذي يصيب الكافرين وسؤالهم الرجعةَ والخروجَ من النار، وامتناع ذلك عليهم وتوبيخهم، فقال: {إنَّ الذين كفروا}: أطلقه ليشملَ أنواع الكفر كلَّها من الكفر بالله أو بكتبه أو برسله أو باليوم الآخر، حين يدخلون النار، ويُقِرُّون أنهم مستحقُّونها؛ لما فعلوه من الذنوب والأوزار، فيمقتون أنفسهم لذلك أشدَّ المقت، ويغضبون عليها غاية الغضب، فينادَوْن عند ذلك ويقال لهم: {لَمَقْتُ الله}؛ أي: إياكم إذ تُدْعَون إلى الإيمان فتكفرون؛ أي: حين دعتْكُم الرسل وأتباعهم إلى الإيمان، وأقاموا لكم من البيناتِ ما تبين به الحقُّ، فكفرتم وزهدتم في الإيمان الذي خلقكم الله له، وخرجتُم من رحمته الواسعة، فمقتكم وأبغضكم؛ فهذا {أكبر من مقتِكُم أنفسَكم}؛ أي: فلم يزل هذا المقت مستمرًّا عليكم، والسخط من الكريم حالاًّ بكم، حتى آلت بكم الحال إلى ما آلت؛ فاليوم حلَّ عليكم غضبُ الله وعقابه، حين نال المؤمنون رضوانَ الله وثوابه.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ اس فضیحت و رسوائی کا ذکر کرتا ہے جس کا کفار کو سامنا کرنا ہو گا، نیز ان کی دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کے رد ہونے اور ان پر زجروتوبیخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسے مطلق بیان کیا ہے تاکہ یہ کفر کی تمام انواع کو شامل ہو، مثلاً: اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار وغیرہ۔ جب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے، تو اقرار کریں گے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث جہنم کے مستحق ہیں وہ اپنے آپ پر شدید غیظ و غضب کا اظہار کریں گے۔ تب اس وقت ان کو پکار کر کہا جائے گا: ﴿لَمَقْتُ اللّٰهِ ﴾ یعنی تم پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی ﴿اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِیْمَانِ فَتَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ یعنی جب تمھیں اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کے متبعین نے ایمان کی دعوت دی، تمھارے سامنے دلائل و براہین بیان کیے جن سے حق واضح ہو گیا، مگر تم نے کفر کو اپنائے رکھا اور ایمان سے منہ موڑ لیا، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمھیں تخلیق فرمایا تھا اور تم اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے سائے سے نکل گئے تو اللہ تعالیٰ تم پر غصے اور ناراض ہوگیا۔ پس یہ ناراضی ﴿اَكْبَرُ مِنْ مَّؔقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ ﴾ ’’تمھاری اپنی ناراضی سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ یعنی اس کریم ہستی کی یہ ناراضی ہمیشہ تم پر نازل رہی حتی کہ تم اس حالت کو پہنچ گئے۔ آج تم پر اللہ تعالیٰ کا غیظ وغضب اور اس کا عذاب نازل ہوگا جبکہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ثواب سے سر فراز ہوں گے۔
#
{11} فتمنَّوا الرجوع و {قالوا ربَّنا أمتَّنا اثنتين}: يريدون الموتةَ الأولى وما بين النفختين على ما قيل، أو العدم المحض قبل إيجادهم ثم أماتهم بعد ما أوجدهم، {وأحْيَيْتنا اثنتين}: الحياة الدنيا والحياة الأخرى، {فاعتَرَفْنا بذُنوبنا فهل إلى خروج من سبيل}؛ أي: تحسَّروا وقالوا ذلك، فلم يفد ولم ينجعْ.
[11] تب وہ واپس لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے اور کہیں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ ﴾ ’’اے ہمارے رب تونے ہمیں دو مرتبہ موت دی۔‘‘ ایک قول کے مطابق اس سے مراد پہلی موت اور دو مرتبہ صور پھونکنے کے درمیان کی موت ہے یا اس سے مراد ان کے وجود میں لائے جانے سے پہلے عدم محض اور وجود میں لائے جانے کے بعد کی موت ہے۔ ﴿وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ ﴾ ’’اور دو مرتبہ تونے ہمیں زندہ کیا۔‘‘ یعنی دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی، ﴿فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ﴾ ’’پس ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے تو کیا نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟‘‘ یعنی وہ نہایت حسرت سے یہ التجا کریں گے، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
#
{12} ووبِّخوا على عدم فعل أسباب النجاة، فقيل لهم: {ذلكم بأنَّه إذا دُعِيَ الله وحده}؛ أي: إذا دعي لتوحيده وإخلاص العمل له ونُهي عن الشرك به، {كفرتم}: به، واشمأزَّتْ لذلك قلوبكم ونفرتُم غاية النفور، {وإن يُشْرَكْ به تؤمنوا}؛ أي: هذا الذي أنزلكم هذا المنزل وبوأكم هذا المقيل والمحلَّ أنكم تكفرونَ بالإيمان وتؤمنون بالكفر، ترضَوْن بما هو شرٌّ وفسادٌ في الدنيا والآخرة، وتكرهون ما هو خيرٌ وصلاحٌ في الدنيا والآخرة، تؤثرون سبب الشقاوة والذلِّ والغضب، وتزهدون بما هو سببُ الفوز والفلاح والظفر: {وإن يَرَوْا سبيل الرُّشْدِ لا يتَّخذوه سبيلاً وإن يَرَوْا سبيل الغَيِّ يتَّخذوه سبيلاً}. {فالحكم لله العليِّ الكبير}: العلي: الذي له العلو المطلق من جميع الوجوه: علو الذات، وعلو القدر، وعلو القهر، ومن علو قدره كمالُ عدله تعالى، وأنَّه يضع الأشياء مواضعها، ولا يساوي بين المتقين والفجار. الكبير الذي له الكبرياء والعظمة والمجد في أسمائه وصفاته وأفعاله، المتنزِّه عن كل آفة وعيب ونقص؛ فإذا كان الحكم له تعالى، وقد حكم عليكم بالخلود الدائم؛ فحكمه لا يغيَّر ولا يبدَّل.
[12] انھیں اسباب نجات اختیار نہ کرنے پر سخت زجروتوبیخ کی جائے گی۔ ان سے کہا جائے گا: ﴿ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ﴾ ’’یہ اس سبب سے کہ جب اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تھا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے لیے اخلاص عمل کے لیے بلایا جاتا اور شرک سے روکا جاتا تھا ﴿كَفَرْتُمْ ﴾ ’’تو تم انکار کرتے تھے۔‘‘ تمھارے دل اس سے ناگواری محسوس کرتے اور تم اس سے سخت نفرت کرتے تھے ﴿وَاِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا ﴾ ’’اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔‘‘ تمھارے اس رویے نے تمھیں اس منزل پر پہنچایا۔ تم ایمان لانے سے انکار کرتے اور کفر پر ایمان لاتے رہے۔ تم اس طرز عمل پر راضی رہے جو دنیاوآخرت میں فساد اور شر کا باعث تھا اور اس طرز عمل کو برا سمجھتے رہے جس میں دنیاوآخرت کی بھلائی اور اصلاح تھی۔ تم بدبختی، ذلت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے اسباب کو ترجیح دیتے رہے اور فوزوفلاح اور کامیابی کے اسباب سے منہ موڑتے رہے۔ ﴿وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّؔخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ۚ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْ٘غَیِّ یَتَّؔخِذُوْهُ سَبِیْلًا ﴾ (الاعراف:7؍146) ’’اگر وہ سیدھا راستہ دیکھیں تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ان کو گمراہی کا راستہ نظر آجائے تو اس پر چل پڑیں گے۔‘‘ ﴿فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْ٘عَلِیِّ الْكَبِیْرِ ﴾ ’’تو (آج) فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے جو عالی مقام (اور سب سے) بڑا ہے۔‘‘ (العلی) سے مراد وہ ہستی ہے جو علو ذات، علو قدر اور علو قہر یعنی ہر لحاظ سے مطلق بلندی کی مالک ہے۔ اس کے علو قدر میں سے اس کا کمال عدل ہے کہ وہ تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ وہ تقویٰ شعار لوگوں اور فاسق و فاجر لوگوں کو مساوی قرار نہیں دیتا۔ (الکبیر) جو اپنے اسماء و صفات اور افعال میں کبریاء اور عظمت و مجد کا مالک ہے جو ہر آفت، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ اور جب فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور تمھارے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم میں دائمی خلود کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے فیصلے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔
آیت: 13 - 17 #
{هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ (13) فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (14) رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ (15) يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ لَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (16) الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (17)}.
وہی ہے جو دکھاتا ہے تمھیں اپنی نشانیاں اور نازل کرتا ہے تمھارے لیے آسمان سے رزق، اور نہیں نصیحت پکڑتا مگر وہ جو رجوع کرتا ہے (13)پس تم پکارو اللہ کو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے بندگی کو، اگرچہ ناپسند (برا) سمجھیں کافر(14) (وہ) بہت بلند درجوں والا عرش کا مالک ہے وہ ڈالتا ہے روح (وحی) اپنے حکم سے اوپر جس کے چاہتا ہے اپنے بندوں سے تاکہ وہ ڈرائے ملاقات کے دن سے (15) جس دن وہ (قبروں سے) نکلیں گے نہیں مخفی ہو گی اللہ پر ان میں سے کوئی چیز، (اللہ تعالی پوچھے گا)کس کے لیے ہے بادشاہی آج کے دن؟ ( پھر خود ہی فرمائے گا)اللہ ہی کے لیے جو ایک ہے بڑا زبردست (16) آج بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو ساتھ اس کے جو اس نے کمایا، نہیں کوئی ظلم آج، بلاشبہ اللہ جلد حساب لینے والا ہے (17)
#
{13} يذكر تعالى نعمه العظيمة على عباده بتبيين الحقِّ من الباطل بما يُري عباده من آياته النفسيَّة والآفاقيَّة والقرآنيَّة الدالَّة على كل مطلوب مقصودٍ، الموضِّحة للهدى من الضلال، بحيث لا يبقى عند الناظر فيها والمتأمِّل لها أدنى شكٍّ في معرفة الحقائق، وهذا من أكبر نعمه على عباده حيث لم يبق الحق مشتبهاً ولا الصواب ملتبساً بل نوَّع الدلالات ووضَّح الآيات؛ ليهلك من هلك عن بيِّنة ويحيا من حيَّ عن بيِّنة، وكلما كانت المسائل أجلَّ وأكبر؛ كانت الدلائل عليها أكثر وأيسر؛ فانظر إلى التوحيد، لما كانت مسألتُه من أكبر المسائل، بل أكبرها؛ كثرت الأدلة عليها العقليَّة والنقليَّة وتنوَّعت، وضرب الله لها الأمثال، وأكثر لها من الاستدلال، ولهذا ذكرها في هذا الموضع، ونبَّه على جملة من أدلتها، فقال: {فادْعوا اللهَ مخلصينَ له الدينَ}. ولما ذكر أنَّه يري عباده آياته؛ نبَّه على آية عظيمة، فقال: {وينزِّلُ لكم من السماء رزقاً}؛ أي: مطراً به ترتزقون وتعيشون أنتم وبهائمكم، وذلك يدلُّ على أن النعم كلَّها منه؛ فمنه نعم الدين، وهي المسائل الدينيَّة والأدلة عليها وما يتبع ذلك من العمل بها، والنعم الدنيويَّة كلها كالنعم الناشئة عن الغيث الذي تحيا به البلاد والعباد، وهذا يدلُّ دلالةً قاطعةً أنه وحده هو المعبودُ الذي يتعيَّن إخلاص الدين له؛ كما أنه وحده المنعم. {وما يتذكَّرُ}: بالآيات حين يُذَكَّر بها {إلاَّ مَن ينيبُ}: إلى الله تعالى بالإقبال على محبَّته وخشيته وطاعته والتضرُّع إليه؛ فهذا الذي ينتفع بالآيات، وتصير رحمةً في حقِّه، ويزداد بها بصيرة.
[13] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے باطل میں سے حق کو واضح کیا، وہ اپنے بندوں کو آیات نفسیہ، آیات آفاقیہ اور آیات قرآنیہ کا مشاہدہ کراتا ہے جو ہر مطلوب و مقصود پر اس طرح دلالت کرتی ہیں کہ ان میں غوروفکر کرنے والے کے لیے معرفت حقائق میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں رہتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے حق کو مشتبہ رکھا ہے نہ صواب کو مشکوک۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے دلائل کو متنوع طریقوں سے بیان اور آیات کو واضح کیا تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جوزندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ مسائل جتنے اہم اور بڑے ہوں گے، ان کے دلائل اتنے ہی زیادہ اور آسان ہوں گے۔ آپ توحید میں غور کیجیے، توحید کا مسئلہ بڑے مسائل میں شمار ہوتا ہے، بلکہ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اس لیے اس کے عقلی اور نقلی دلائل بہت زیادہ اور متنوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تمثیلیں بیان کی ہیں اور بہت کثرت سے استدلال کیا ہے اس لیے اس مقام پر توحید کے جملہ دلائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ ’’پس اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارو۔‘‘ جب اس نے ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، تو ایک بڑی نشانی کی طرف اشارہ کیا ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَیُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًا ﴾ ’’اور وہ آسمان سے تمھارے لیے رزق اتارتا ہے۔‘‘ یعنی وہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، جس سے تمھیں رزق دیا جاتا ہے، جس سے تم اور تمھارے مویشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ دینی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں اس سے مراد دینی مسائل، ان کے دلائل اور ان پر عمل ہے اور دنیاوی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں، مثلاً: وہ تمام نعمتیں جو بارش سے وجود میں آتی ہیں، بارش سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا ہوتی ہے اور یہ چیز قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے جس کے لیے اخلاص دین متعین ہے جیسا کہ وہ اکیلا ہی منعم حقیقی ہے۔ ﴿وَمَا یَتَذَكَّـرُ ﴾ جب اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتا ہے تو اس سے نہیں نصیحت حاصل کرتا ہے ﴿اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ مگر وہی شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی خشیت، اس کی اطاعت اور اس کے سامنے عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ آیات اس کے حق میں رحمت بن جاتی ہیں اور ان آیات سے اسی کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
#
{14} ولما كانتِ الآياتُ تثمر التذكُّر، والتذكُّر يوجب الإخلاص لله؛ رتَّب الأمر على ذلك بالفاء الدالة على السببية، فقال: {فادعوا الله مخلصين له الدِّينَ}: وهذا شاملٌ لدعاء العبادة ودعاء المسألة. والإخلاص معناه تخليصُ القصدِ لله تعالى في جميع العبادات الواجبة والمستحبة، حقوق الله وحقوق عباده؛ أي: أخلصوا لله تعالى في كلِّ ما تدينونه به، وتتقرَّبون به إليه، {ولو كره الكافرونَ}: لذلك؛ فلا تبالوا بهم، ولا يثنكم ذلك عن دينِكم، ولا تأخذكم بالله لومةُ لائم؛ فإنَّ الكافرين يكرهون الإخلاصَ لله وحدَه غايةَ الكراهة؛ كما قال تعالى: {وإذا ذُكِرَ الله وحده اشمأزَّتْ قلوبُ الذين لا يؤمنون بالآخرة وإذا ذُكِرَ الذين من دونِهِ إذا هم يَسْتَبْشِرون}.
[14] چونکہ آیات الٰہی کا ثمرہ تذکر ہے اور تذکر اللہ تعالیٰ کے اخلاص کا موجب ہے اس لیے اخلاص کے حکم کو ’’فاء‘‘ کے ذریعے سے اس پر مرتب فرمایا جو سببیت پر دلالت کرتی ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ یہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ، دونوں کو شامل ہے۔ اخلاص کا معنی ہے تمام عبادات واجبہ و مستحبہ، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں قصد کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا۔ یعنی ان تمام امور میں، جن پر تم دین کے طور پر عمل کرتے ہو اور جن کو تم اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بناتے ہو، ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص سے کام لو۔ ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’خواہ یہ کفار کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو‘‘ اس لیے تم ان میں ان کی پروا نہ کرو۔ یہ چیز تمھیں تمھارے دین سے نہ پھیر دے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمھیں اللہ کے راستے سے روک نہ دے۔ کیونکہ کفار اخلاص کو بہت ناپسند کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُ٘لُ٘وْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ (الزمر:39؍45) ’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کراہت سے تنگ ہو جاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا خود ساختہ معبودوں کا نام لیا جاتا ہے تو یہ خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
#
{15} ثم ذَكَرَ من جلاله وكماله ما يقتضي إخلاص العبادة له، فقال: {رفيع الدرجات ذو العرش}؛ أي: العلي الأعلى، الذي استوى على العرش واختصَّ به وارتفعتْ درجاتُه ارتفاعاً بايَنَ به مخلوقاتِهِ وارتفع به قدرُهُ وجلَّت أوصافُهُ وتعالت ذاتُه أن يتقرَّب إليه إلا بالعمل الزكي الطاهر المطهَّر، وهو الإخلاص الذي يرفع درجات أصحابه ويقرِّبهم إليه ويجعلهم فوق خلقِهِ. ثم ذكر نعمته على عباده بالرسالة والوحي، فقال: {يُلقي الرُّوحَ}؛ أي: الوحي الذي للأرواح والقلوب بمنزلة الأرواح للأجساد؛ فكما أنَّ الجسد بدون الروح لا يحيا ولا يعيش؛ فالروح والقلب بدون روح الوحي لا يَصْلُحُ ولا يفلحُ؛ فهو تعالى {يُلْقي الرُّوحَ من أمرِهِ}: الذي فيه نفع العباد ومصلحتهم {على مَن يشاءُ من عبادِهِ}: وهم الرسل الذين فضَّلهم، واختصَّهم لوحيه ودعوة عباده. والفائدة في إرسال الرسل هو تحصيل سعادة العبادِ في دينهم ودنياهم وآخرتهم، وإزالة الشقاوة عنهم في دينهم ودنياهم وآخرتهم، ولهذا قال: {لِيُنذِرَ}: من ألقى الله إليه الوحي {يَوْمَ التَّلاقِ}؛ أي: يخوِّف العباد بذلك ويحثهم على الاستعداد له بالأسباب المنجية مما يكون فيه؛ وسمَّاه يوم التلاق لأنَّه يلتقي فيه الخالق والمخلوق، والمخلوقون بعضُهم مع بعض، والعاملون وأعمالُهم وجزاؤهم.
[15] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و کمال کا ذکر فرمایا جو عبادت میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿رَفِیْعُ الدَّرَجٰؔتِ ذُو الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ درجاتِ عالی کا مالک اور صاحب عرش ہے۔‘‘ یعنی وہ بلند اور اعلیٰ ہے جو عرش پر مستوی ہے، عرش اس کے لیے مختص ہے، اس کے درجات بہت بلند ہیں وہ ان کی وجہ سے مخلوقات سے علیحدہ ہے اور ان کے ساتھ اس کامرتبہ بلند ہے۔ اس کے اوصاف جلیل القدر اور اس کی ذات اس سے بلندتر ہے کہ اس کا قرب حاصل کیا جائے سوائے پاک اور طاہر و مطہر عمل کے ذریعے سے اور وہ ہے اخلاص جو مخلص مومنین کے درجات کو بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور تمام مخلوق پر فوقیت عطا کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رسالت اور وحی کی نعمت کا ذکر کرتا ہے، فرمایا: ﴿یُلْ٘قِی الرُّوْحَ ﴾ ’’وہ نازل کرتا ہے روح۔‘‘ یعنی وحی، جو قلب و روح کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہے جو اجساد کے لیے ارواح کی ہے۔ جیسے روح کے بغیر بدن زندہ ہوتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے، اسی طرح روح اور قلب، روحِ وحی کے بغیر درست رہ سکتے ہیں نہ فلاح سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ ﴿یُلْ٘قِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ﴾ ’’اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے۔‘‘ جس میں بندوں کی منفعت اور مصلحت ہے ﴿عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ ’’اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔‘‘ اس سے اللہ تعالیٰ کے رسول مراد ہیں جن کو اس نے فضیلت بخشی اور انھیں اپنی وحی اور بندوں کو دعوت دینے کے لیے مختص فرمایا۔ انبیاء و مرسلین مبعوث کرنے کا فائدہ بندوں کے لیے، ان کے دین، دنیا اور آخرت میں سعادت کا حصول اور ان کے دین، دنیا اور آخرت میں بدبختی کو دور کرنا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿لِیُنْذِرَ ﴾ تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کی طرف وحی بھیجی گئی ہے۔ ﴿یَوْمَ التَّلَاقِ﴾ ’’ملاقات کے دن سے‘‘ یعنی وہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ملاقات کے دن سے ڈرائے اور انھیں ان اسباب کو تیار کرنے کے لیے آمادہ کرے جو ان کو اس صورت حال سے نجات دیتے ہیں جس میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کو (یَوْمَ التَّلَاقْ) کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس دن خالق اور مخلوق کی ملاقات ہو گی، مخلوق ایک دوسرے سے ملاقات کرے گی اور عمل کرنے والے اپنے اعمال اور ان کی جزا کا سامنا کریں گے۔
#
{16} {يومَ هم بارزونَ}؛ أي: ظاهرون على الأرض، وقد اجتمعوا في صعيدٍ واحدٍ لا عوجَ ولا أمتَ فيه، يسمعهم الداعي وينفذهم البصر. {لا يخفى على الله منهم شيءٌ}: لا من ذواتهم ولا من أعمالهم ولا من جزاء تلك الأعمال {لِمَنِ الملكُ اليومَ}؛ أي: من هو المالك لذلك اليوم العظيم الجامع للأوَّلين والآخرين، أهل السماواتِ وأهل الأرض، الذي انقطعت فيه الشركة في الملك وتقطَّعت الأسباب، ولم يبقَ إلا الأعمال الصالحة أو السيئة، الملك {لله الواحدِ القهارِ}؛ أي: المنفرد في ذاته وأسمائه وصفاته وأفعاله؛ فلا شريك له في شيءٍ منها بوجه من الوجوه. القهارُ لجميع المخلوقات، الذي دانتْ له المخلوقات وذلَّت وخضعتْ، خصوصاً في ذلك اليوم الذي عَنَتْ فيه الوجوهُ للحيِّ القيُّوم، يومئذٍ لا تَكَلَّم نفسٌ إلا بإذنه.
[16] ﴿یَوْمَ هُمْ بٰ٘رِزُوْنَ ﴾ ’’جس روز سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی جس روز یہ زمین پر ظاہر ہوں گے اور ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے، جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا، پکارنے والا ان کو اپنی آواز سنا سکے گا اور نگاہ سب تک پہنچ سکے گی۔ ﴿لَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْهُمْ شَیْءٌ ﴾ ’’ ان کی کوئی بات اللہ سے چھپی نہ رہے گی۔‘‘ یعنی ان کی ذات چھپ سکے گی نہ ان کے اعمال، اور نہ ان اعمال کی جزا ہی اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی ہو گی ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ﴾ ’’آج بادشاہی کس کی ہے؟‘‘ یعنی اس عظیم دن کا کون مالک ہے؟ جس نے اولین و آخرین، آسمانوں اور زمین کی مخلوق کو جمع کیا ہے، آج اقتدار میں خود ساختہ شراکت ختم اور تمام اسباب منقطع ہو گئے، اور کچھ باقی نہیں رہا سوائے اچھے برے اعمال کے۔ ﴿لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ ’’اللہ اکیلے کے لیے جو سب پر غالب ہے۔‘‘ یعنی آج اقتدار کی مالک وہ ذات بابرکات ہے جو اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال میں منفرد ہے اور کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿الْقَهَّارِ ﴾ تمام مخلوقات پر غالب و قاہر ہے، تمام مخلوقات اس کی مطیع، اس کے سامنے عاجز ہے خاص طور پر اس دن لوگوں کے سر اس حیّ و قیّوم ہستی کے سامنے جھک جائیں گے اور اس روز اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کر سکے گا۔
#
{17} {اليومَ تُجزى كلُّ نفس بما كَسَبَتْ}: في الدنيا من خيرٍ وشرٍّ قليل وكثير. {لا ظُلْمَ اليوم}: على أحد بزيادة في سيئاته أو نقص من حسناته. {إنَّ الله سريعُ الحساب}؛ أي: لا تستبطئوا ذلك اليوم؛ فإنَّه آتٍ، وكلُّ آتٍ قريب، وهو أيضاً سريع المحاسبة لعباده يوم القيامةِ لإحاطة علمِهِ وكمال قدرتِهِ.
[17] ﴿اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُ٘لُّ نَفْ٘سٍۭؔ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ ’’آج ہر نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کی جزا دی جائے گی۔‘‘ یعنی اس نے دنیا کے اندر، تھوڑی یا بہت، جو بھی نیکی اور بدی کا اکتساب کیا ہے، آج اس کی جزا دی جائے گی۔ ﴿لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ ﴾ ’’آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘‘ آج کسی نفس پر، برائیوں میں اضافہ کر کے یا اس کی نیکیوں میں کمی کر کے، ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ﴾ ’’بلاشبہ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔‘‘ یعنی اس دن کو دور نہ سمجھو یہ دن ضرور آنے والا ہے اور ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے۔ نیز وہ قیامت کے روز اپنے بندوں کا بہت جلد حساب لے لے گا کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ قدرت کاملہ کا مالک ہے۔
آیت: 18 - 20 #
{وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ (18) يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (19) وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (20)}.
اور ڈرائیں ان کو قریب آنے والے دن (قیامت) سے جبکہ دل نزدیک گلوں کے ہوں گے غم سے بھرے ہوئے، نہیں ہو گا ظالموں کے لیے کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے (18) وہ جانتا ہے خیانت کرنے والی آنکھوں کو اور اس کو بھی جو کچھ چھپاتے ہیں سینے(19) اور اللہ فیصلہ کرے گا ساتھ حق (انصاف)کے اور وہ جن کو پکارتے ہیں اس کے سوا وہ نہیں فیصلہ کر سکتے کسی بھی چیز کا، بلاشبہ اللہ، وہی ہے خوب سننے والا خوب دیکھنے والا (20)
#
{18} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {وأنذِرْهم يومَ الآزفةِ}؛ أي: يوم القيامةِ التي قد، أزفت وقرُبت، وآن الوصول إلى أهوالها وقلاقلها وزلازلها. {إذِ القلوبُ لدى الحناجر}؛ أي: قد ارتفعت وبقيت أفئدتُهم هواءً ووصلت القلوبُ من الروع والكرب إلى الحناجر شاخصةً أبصارهم {كاظمين}: لا يتكلَّمون إلاَّ مَنْ أذن له الرحمن وقال صواباً، وكاظمين على ما في قلوبهم من الروع الشديد والمزعجات الهائلة. {ما للظالمينَ من حميم}؛ أي: قريب ولا صاحب {ولا شفيع يُطاع}: لأنَّ الشُّفعاء لا يشفعون في الظالم نفسه بالشرك، ولو قُدِّرَتْ شفاعتُهم؛ فالله تعالى لا يرضى شفاعتَهم فلا يقبلُها.
[18] اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ ﴾ ’’(اے نبی!) انھیں (قریب) آپہنچنے والے دن سے ڈرائیے‘‘ یعنی انھیں قیامت کے دن سے ڈرائیے جو بہت قریب ہے، اس کے اہوال اور اس کے زلزلوں کے پہنچنے کا وقت ہو گیا ہے ﴿اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ ﴾ ’’جبکہ دل گلوں تک آرہے ہوں گے۔‘‘ یعنی ان کے دل ہوا ہو جائیں گے۔ خوف اور کرب سے دل گلے میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں اوپر اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی ﴿كٰظِمِیْنَ ﴾ وہ کلام نہیں کر سکیں گے سوائے اس شخص کے، جسے رحمٰن اجازت دے اور وہ درست بات کہے۔ وہ دلوں میں چھپے ہوئے خوف اور دہشت کو زبان پر نہیں لائیں گے۔ ﴿مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ ﴾ اور ظالموں کا کوئی قریبی اور ساتھی نہیں ہو گا۔ ﴿وَّلَا شَ٘فِیْعٍ یُّطَاعُ﴾ ’’نہ کوئی ایسا سفارشی ہو گا جس کی بات مانی جائے‘‘ کیونکہ اگر سفارشیوں کی سفارش کو فرض کر بھی لیا جائے تب بھی یہ سفارشی شرک کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں کی سفارش نہیں کریں گے۔ اگر یہ سفارش کریں بھی، تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش پر راضی ہو گا نہ اس کو قبول کرے گا۔
#
{19} {يعلم خائنةَ الأعين}: وهو النظرُ الذي يُخفيه العبد من جليسِهِ ومقارنِهِ، وهو نظر المسارقة، {وما تُخفي الصدورُ}: مما لم يبيِّنه العبد لغيره؛ فالله تعالى يعلم ذلك الخفيَّ؛ فغيره من الأمور الظاهرة من باب أولى وأحرى.
[19] ﴿یَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ ﴾ ’’وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔‘‘ یہ وہ نظر ہے جسے بندہ اپنے ہم نشین اور ساتھی سے چھپاتا ہے اور یہ چوری کی نظر ہے۔ ﴿وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ ﴾ ’’اور ان مخفی باتوں کو بھی جو سینوں نے چھپا رکھی ہیں۔‘‘ یعنی وہ امور جنھیں بندہ دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپے ہوئے ان بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔ ظاہری امور سے آگاہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے۔
#
{20} {والله يقضي بالحقِّ}: لأنَّ قوله حقٌّ وحكمَه الشرعيَّ حقٌّ وحكمَه الجزائيَّ حقٌّ، وهو المحيط علماً وكتابةً وحفظاً بجميع الأشياء، وهو المنزَّه عن الظلم والنقص وسائر العيوب، وهو الذي يقضي قضاءه القدريَّ، الذي إذا شاء شيئاً كان، وما لم يشأ لم يكنْ، وهو الذي يقضي بين عبادِهِ المؤمنين والكافرين في الدنيا ويفصِلُ بينهم بفتح ينصُرُ به أولياءه وأحبابه. {والذين يدعون من دونِهِ}: وهذا شاملٌ لكلِّ ما عُبد من دون الله، {لا يقضون بشيء}: لعجزِهم وعدم إرادتهم للخير واستطاعتهم لفعله. {إنَّ الله هو السميع}: لجميع الأصوات باختلاف اللغات على تفنُّن الحاجات. {البصير}: بما كان، وما يكون، وما يُبْصَرُ، وما لا يُبْصَرُ، وما يعلم العبادُ وما لا يعلمونَ. قال في أول هاتين الآيتين: {وأنذِرْهم يومَ الآزفة}، ثم وصفها بهذه الأوصاف المقتضيةِ للاستعداد لذلك اليوم العظيم؛ لاشتمالها على الترغيب والترهيب.
[20] ﴿وَاللّٰهُ یَقْ٘ضِیْ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اس کا قول حق ہے، اس کا حکم شرعی حق ہے اور اس کا حکم جزائی حق ہے۔ اس کا علم محیط ہے، اس نے ہر چیز کو لکھ رکھا ہے اور اس کے پاس ہر چیز محفوظ ہے۔ وہ ظلم، نقص اور تمام عیوب سے پاک ہے۔ وہی ہے جو اپنی قضا و قدر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، جب وہ کوئی چیز چاہتا ہے تو وہ ہو جاتی ہے، جب نہیں چاہتا تو نہیں ہوتی۔ وہ دنیا میں اپنے مومن اور کافر بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور فتح و نصرت کے ذریعے سے اپنے اولیاء اور محبوب بندوں کی مدد کرتا ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾ ’’اور جن کو یہ اس (اللہ) کے سوا پکارتے ہیں۔‘‘ یہ ان تمام ہستیوں کو شامل ہے جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ ﴿لَا یَقْضُوْنَ بِشَیْءٍ ﴾ ’’وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔‘‘ کیونکہ وہ عاجز اور بے بس ہیں ان میں بھلائی کا ارادہ معدوم اور وہ اس کے فعل کی استطاعت سے محروم ہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِیْعُ ﴾ اللہ تعالیٰ ہی تمام آوازوں کو، اختلاف زبان اور اختلاف حاجات کے باوجود سنتا ہے۔ ﴿الْبَصِیْرُ ﴾ ’’وہ دیکھنے والا ہے۔‘‘ جو کچھ تھا اور جو کچھ ہے، جو کچھ نظر آتا ہے اور جو کچھ نظر نہیں آتا، جسے بندے جانتے ہیں اور جسے بندے نہیں جانتے، سب اس کی نظر میں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو آیات کریمہ کی ابتدا میں فرمایا تھا: ﴿وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ ﴾ ’’ان کو قریب آنے والے دن (قیامت) سے ڈرائیے۔‘‘ پھر اس کے یہ اوصاف بیان فرمائے جو اس عظیم دن کے لیے تیاری کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ یہ ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔
آیت: 21 - 22 #
{أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ (21) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ (22)}.
کیا نہیں سیر کی انھوں نے زمین میں، پس وہ دیکھتے کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو تھے ان سے پہلے، تھے وہ زیادہ سخت ان سے قوت میں اور نشانیوں میں (جو چھوڑ گئے وہ) زمین میں، پس پکڑ لیا ان کو اللہ نے بسبب ان کے گناہوں کے، اور نہ تھا ان کے لیے اللہ سے کوئی بچانے والا (21) یہ اس سبب سے کہ بے شک وہ تھے کہ آتے تھے ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ ، تو انھوں نے انکار کیا، پس پکڑ لیا ان کو اللہ نے، بلاشبہ وہ بڑا قوت والا سخت سزا دینے والاہے (22)
#
{21 ـ 22} يقول تعالى: {أوَلَم يسيروا في الأرض}؛ أي: بقلوبهم وأبدانهم سَيْرَ نظرٍ واعتبار وتفكُّر في الآثار، فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم من المكذِّبين، فسيجدونها شرَّ العواقب، عاقبة الهلاك والدمار والخزي والفضيحة، وقد كانوا أشدَّ قوَّةً من هؤلاء في العدد والعُدد وكبر الأجسام، {و} أشدَّ {آثاراً في الأرضِ}: من البناء والغرس، وقوةُ الآثار تدلُّ على قوة المؤثِّر فيها وعلى تمنُّعه بها، {فأخَذَهم الله}: بعقوبته {بذنوبهم}: حين أصرُّوا واستمرُّوا عليها. {إنَّه قويٌّ شديد العقاب}: فلم تغنِ قوتهم عند قوةِ الله شيئاً، بل من أعظم الأمم قوة قومُ عاد الذين قالوا مَنْ أشدُّ منا قوَّةً؟! أرسل الله إليهم ريحاً أضعفت قواهم ودمَّرتهم كلَّ تدمير.
[21، 22] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں؟‘‘ یعنی انھوں نے اپنے قلوب و ابدان کے ساتھ، گزشتہ قوموں کے آثار میں غوروفکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کے لیے چل پھر کر نہیں دیکھا؟ ﴿فَیَنْظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ ’’تاکہ وہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا؟‘‘ یعنی جو ان سے پہلے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے تھے۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا بدترین انجام ہوا وہ تباہ و برباد کر دیے گئے اور انھیں فضیحت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ ﴿كَانُوْا ﴾ وہ ان لوگوں سے زیادہ طاقت ور تھے، یعنی وہ تعداد، سازوسامان اور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھے۔ ﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ بہت زیادہ تھے، ﴿اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’زمین میں (چھوڑے ہوئے) آثار کے لحاظ سے‘‘ یعنی عمارات اور باغات وغیرہ کے لحاظ سے انھوں نے بہت زبردست آثار زمین میں چھوڑے۔ آثار کی قوت آثار چھوڑنے والے کی قوت اور اس کی شان و شوکت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں پکڑ لیا‘‘ اپنے عذاب کے ساتھ ﴿بِذُنُوْبِهِمْ ﴾ ’’ان کے گناہوں کی وجہ سے‘‘ جبکہ انھوں نے گناہوں پر اصرار کیا اور ان پر جمے رہے ۔ ﴿اِنَّهٗ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’بے شک وہ صاحب قوت اور سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قوت کے سامنے ان کی قوت کسی کام نہ آئی بلکہ قوم عاد، سب سے طاقتور قوم تھی، جو کہا کرتے تھے: ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ٘ةً ﴾ (حٰمٓ السجدۃ: 41؍15) ’’ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوا بھیجی جس نے ان کے قویٰ مضمحل کر دیے اور ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے احوال کا نمونہ بیان فرمایا یعنی فرعون اور اس کے لشکروں کی مثال ، چنانچہ فرمایا:
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے موسٰی کو ساتھ اپنی نشانیوں اور (ساتھ) دلیل واضح کے (23) طرف فرعون اور ہامان اور قارون کے، پس انھوں نے کہا، (یہ تو)جادوگر ہے بڑا جھوٹا (24) پس جب آیا وہ ان کے پاس حق لے کر ہماری طرف سے تو انھوں نے کہا، قتل کرو بیٹوں کو ان لوگوں کے جو ایمان لائے ساتھ اس (موسیٰ)کے اور زندہ رکھو ان کی عورتوں(بیٹیوں) کو، اور نہیں تھی چال کافروں کی مگر ناکام ہی (25) اور کہا فرعون نے، چھوڑو مجھے(تاکہ) قتل کر دوں میں موسیٰ کو اور چاہیے کہ پکارے وہ اپنے رب کو، بلاشبہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ بدل دے گا تمھارے دین کو، یا یہ کہ پھیلائے گا وہ زمین میں فساد (26) اور کہا موسیٰ نے، بے شک میں پناہ میں آتا ہوں اپنے رب کی اور تمھارے رب کی ہراس متکبر سے جو نہیں ایمان رکھتا یوم حساب پر(27) اور کہا ایک مرد مومن نے آلِ فرعون میں سے (جو) چھپاتا تھا ایمان اپنا، کیا قتل کرتے ہو تم ایک آدمی کو اس بات پر کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تحقیق وہ لایا ہے تمھارے پاس روشن دلائل تمھارے رب کی طرف سے ، اوراگر ہے وہ جھوٹا تو اسی پر وبال ہے اس کےجھوٹ کا اور اگر وہ ہے سچا تو پہنچے گا تم کو کچھ حصہ اس (عذاب)کا جس کا وہ وعدہ کرتا ہے تم سے، بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا اس شخص کو کہ ہے وہ حد سے بڑھنے والا بہت جھوٹا (28) اے میری قوم! تمھارے لیے ہی بادشاہی ہے آج جبکہ غالب ہو تم زمین میں، پس کون مدد کرے گا ہماری اللہ کے عذاب سے اگر آ گیا وہ ہمارے پاس؟ کہا فرعون نے ، نہیں دکھاتا میں تمھیں مگر وہی جو میں دیکھتا ہوں اور نہیں رہنمائی کرتا میں تمھاری مگر بھلائی ہی کے راستے کی(29) اورکہا اس شخص نے جو ایمان لایا تھااے میری قوم! بلاشبہ میں ڈرتا ہوں تم پر مانند دن(گزشتہ)گروہوں کے سے(30) مانند حال قوم نوح اور عاد اور ثمود کے اور ان لوگوں کے جو ان کے بعد ہوئے اور نہیں اللہ چاہتا ظلم کرنا بندوں پر (31) اور اے میری قوم! بلاشبہ میں ڈرتا ہوں تم پر ایک دوسرے کو پکارنے کے دن سے (32) جس دن پھرو(بھاگو)گے تم پیٹھ پھیرتے ہوئے، نہیں ہو گا تمھارے لیے اللہ(کے عذاب) سے کوئی بچانے والا اور جس کو گمراہ کر دے اللہ تو نہیں ہے اس کو کوئی ہدایت دینے والا (33) اور البتہ تحقیق آیا تمھارے پاس یوسف(بھی)اس سے پہلے ساتھ واضح دلائل کے، پس ہمیشہ رہے تم شک میں اس سے جو وہ لایا تمھارے پاس، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم نے کہا ہرگز نہیں بھیجے گا اللہ اس کے بعد کوئی رسول، اسی طرح گمراہ کرتا ہے اللہ اس شخص کو کہ ہو وہ حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا (34) وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل کے جو آئی ہو ان کے پاس (یہ جھگڑنا) بڑی ناراضی کا باعث ہے نزدیک اللہ کے اور نزدیک ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اسی طرح مہرلگا دیتا ہے اللہ دل پر ہر متکبر سر کش کے (35) اور کہا فرعون نے اے ہامان! تو بنا میرے لیے ایک بلند عمارت تاکہ پہنچوں میں راستوں پر (36) راستوں پر آسمانوں کے، پس جھانک کر دیکھوں میں موسیٰ کے معبود کی طرف اور بے شک میں تو یقیناً گمان کرتا ہوں اسے جھوٹا اور اسی طرح مزین کر دیا گیا فرعون کے لیے اس کا براعمل اور روک دیا گیا وہ (سیدھے) راستے سے اور نہیں تھی چال فرعون کی مگر تباہی ہی میں (37) اور کہا اس شخص نے جو ایمان لایا تھا، اے میری قوم!پیروی کرو تم میری، میں بتلاؤ ں گا تمھیں راستہ بھلائی (نیکی) کا (38) اے میری قوم! بلاشبہ یہ زندگانی ٔ دنیا تو کچھ فائدہ اٹھا لینا ہے، اور بے شک آخرت، وہی ہے گھر ٹھہرنے کا(39) جس نے کی کوئی برائی تو نہیں بدلہ دیا جائے گا وہ مگر اسی کے برابر اور جس نے کیا کوئی نیک کام، وہ مرد ہو یا عورت درآں حالیکہ وہ مومن ہو، تو یہی لوگ داخل ہوں گے جنت میں، رزق دیے جائیں گے وہ اس میں بے حساب (40) اوراے میری قوم! کیا ہے میرے لیے کہ میں تو بلاتا ہوں تمھیں نجات کی طرف اور تم بلاتے ہو مجھے آگ کی طرف؟ (41) تم بلاتے ہو مجھے کہ کفر کروں میں اللہ کے ساتھ اورشریک ٹھہراؤ ں اس کے ساتھ اس کو کہ نہیں ہے مجھے اس کا کوئی علم اور میں بلاتا ہوں تمھیں طر ف غالب بہت بخشنے والے کی (42) نہیں شک (اس میں)کہ وہ چیز، کہ بلاتے ہو تم مجھے اس کی طرف نہیں ہے اس کے لیے پکار (قبول کرنا) دنیا میں اور نہ آخرت میں اور بلاشبہ لوٹنا ہمارا اللہ کی طرف ہے اور بلاشبہ حد سے بڑھنے والے ہی ہیں دوزخی (43) پس عنقریب یاد کرو گے تم جو کہتا ہوں میں تم سے اور سونپتا ہوں میں اپنا معاملہ اللہ کی طرف، بلاشبہ اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کو (44) پس بچا لیا اس کو اللہ نے اس تدبیر کی برائیوں سے جو انھوں نے کی اورگھیر لیا آل فرعون کو برے عذاب نے (45) (وہ) آگ ہے، پیش کیے جاتے ہیں وہ اس پر صبح اور شام اور جس دن قائم ہو گی قیامت (کہا جائے گا) داخل کرو آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں (46)
آیت: 23 - 46 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (23) إِلَى فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (24) فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (25) وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (26) وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ (27) وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (28) يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ (29) وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَاقَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ (30) مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ (31) وَيَاقَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ (32) يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (33) وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34) الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (35) وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاهَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ (36) أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ (37) وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَاقَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ (38) يَاقَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ (39) مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ (40) وَيَاقَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ (41) تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ (42) لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ (43) فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (44) فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46)}.
[23] ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا ﴾ ’’بلاشبہ ہم نے بھیجا۔‘‘ یعنی ان جیسے مکذبین کی طرف ﴿مُوْسٰؔى﴾ موسیٰ بن عمرانu کو ﴿بِاٰیٰتِنَا﴾ ’’اپنی (بڑی بڑی) نشانیوں کے ساتھ‘‘ جو موسیٰu کی دعوت کی حقیقت اور مشرکین کے موقف کے بطلان پر قطعی طور پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿وَسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ﴾ یعنی ایک واضح حجت کے ساتھ جو دلوں پر مسلط ہو کر ان کو سرنگوں کر دیتی ہے، مثلاً: سانپ اور عصا اور اس قسم کے دیگر معجزات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ کی مدد فرمائی اور ان کے لیے حق کی دعوت کو آسان بنایا۔
#
{23} أي: {ولقد أرسلنا}: إلى جنس هؤلاء المكذِّبين {موسى}: ابن عمران {بآياتِنا}: العظيمة الدالَّة دلالة قطعيةً على حقيقة ما أُرْسِل به وبطلان ما عليه مَنْ أرسل إليهم من الشرك وما يتبعه {وسلطانٍ مبين}؛ أي: حجة بيِّنة تتسلَّط على القلوب فتذعِنُ لها كالحيَّة والعصا ونحوهما من الآيات البيِّنات التي أيَّد الله بها موسى، ومكَّنه من ما دعا إليه من الحقِّ.
[24] اور جن کی طرف بھیجا گیا، وہ تھے﴿فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ﴾ فرعون، اس کا وزیر ہامان، ﴿وَقَارُوْنَ ﴾ ’’اور قارون‘‘قارون موسیٰu کی قوم سے تعلق رکھتا تھا، مگر اس نے اپنے مال و دولت کی وجہ سے اپنی قوم سے بغاوت کی۔ ان سب لوگوں نے نہایت سختی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا۔ ﴿فَقَالُوْا سٰحِرٌؔ كَذَّابٌ ﴾ ’’پس انھوں نے کہا، یہ تو جادوگر ہے جھوٹا۔‘‘
#
{24} والمبعوث إليهم {فرعون وهامان}: وزيره {وقارون}: الذي كان من قوم موسى فبغى عليهم بمالِهِ، فكلُّهم ردُّوا عليه أشدَّ الردِّ، وقالوا: {ساحرٌ كذابٌ}.
[25] ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا ﴾ ’’پس جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر ان کے پاس پہنچے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے معجزات کے ذریعے سے حضرت موسیٰu کی تائید فرمائی جو مکمل اطاعت کے موجب تھے، مگر انھوں نے اطاعت نہ کی۔ انھوں نے مجرد ترک اطاعت اور روگردانی کرتے ہوئے ان کے انکار اور باطل کے ذریعے سے ان کی مخالفت ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی جرأت کا یہ حال تھا کہ کہنے لگے: ﴿ اقْتُلُوْۤا اَبْنَآءَؔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ وَاسْتَحْیُوْا نِسَآءَهُمْ١ؕ وَمَا كَیْدُ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو اور نہیں ہے کافروں کی چال‘‘ وہ یہ سازش کرنے ہی والے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ ان کے بیٹوں کو قتل کر دیں گے تو یہ طاقتور نہیں ہو سکیں گے اور یہ ان کی غلامی میں مطیع بن کر رہیں گے، لہٰذا نہ ہوئی ان کی چال ﴿اِلَّا فِیْ ضَلٰ٘لٍ ﴾ ’’مگر ناکام‘‘ کیونکہ ان کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا بلکہ ان کے مقاصد کے برعکس نتیجہ حاصل ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر دیا اور تباہ و برباد کر دیا۔ قاعدہ: اس نکتے پر غور کیجیے جو کتاب اللہ میں کثرت سے پیش آتا ہے، جب آیات کریمہ کا سیاق کسی معین قصہ یا معین چیز میں ہو اور اللہ تعالیٰ اس معین قصہ پر کوئی حکم لگانا چاہتا ہو تو وہ اس حکم کو اس قصہ کے ساتھ مختص کر کے ذکر نہیں فرماتا بلکہ اسے اس کے وصف عام پر معلق کرتا ہے تاکہ یہ حکم عام ہو اور اس میں وہ صورت بھی شامل ہو جس کے لیے کلام لایا گیا ہے اور اس معین قصے کے ساتھ حکم کے اختصاص کی بنا پر پیدا ہونے والا وہم ختم ہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے (وَمَا کَیْدُھُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ) نہیں کہا بلکہ فرمایا: ﴿وَمَا كَیْدُ الْ٘كٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰ٘لٍ ﴾
#
{25} {فلمَّا جاءَهم بالحقِّ من عندِنا}: وأيَده الله بالمعجزات الباهرةِ الموجبة لتمام الإذعانِ؛ لم يقابلوها بذلك، ولم يكفِهِم مجرَّدُ الترك والإعراض، بل ولا إنكارها ومعارضتها بباطلهم، بل وصلتْ بهم الحالُ الشنيعة إلى أن {قالوا اقْتُلوا أبناءَ الذين آمنوا معه واسْتَحْيوا نساءَهم وما كَيْدُ الكافرينَ}: حيث كادوا هذه المكيدَة وزعموا أنَّهم إذا قَتَلوا أبناءَهم لم يَقْوَوْا، وبَقُوا في رقِّهم وتحت عبوديَّتهم. فما كيدهم {إلاَّ في ضلال}: حيث لم يتمَّ لهم ما قصدوا، بل أصابهم ضدُّ ما قصدوا، أهلكهم اللهُ، وأبادَهم عن آخرِهم. قاعدة: وتدبَّر هذه النكتة التي يكثر مرورُها بكتاب الله تعالى إذا كان السياقُ في قصَّة معيَّنة أو على شيء معيَّن، وأراد الله أن يحكُمَ على ذلك المعيَّن بحكم لا يختصُّ به؛ ذَكَرَ الحُكْمَ وعلَّقه على الوصف العامِّ؛ ليكون أعمَّ، وتندرج فيه الصورةُ التي سيق الكلام لأجلها، وليندفع الإيهام باختصاص الحكم بذلك المعيَّن؛ فلهذا لم يقلْ: وما كيدُهم إلاَّ في ضلال، بل قال: {وَما كَيْدُ الكافرين إلاَّ في ضلال}.
[26] ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے نہایت تکبر کے ساتھ اور اپنی قوم کے بے وقوفوں کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا: ﴿ذَرُوْنِیْۤ اَ٘قْتُلْ مُوْسٰؔى وَلْیَدْعُ رَبَّهٗ﴾ ’’مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے رب کو بلالے۔‘‘ فرعون سمجھتا تھا... اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے… اگر اسے اپنی قوم کی دل جوئی مقصود نہ ہوتی تو وہ حضرت موسیٰu کو قتل کرا دیتا اور فرعون یہ بھی سمجھتا تھا کہ حضرت موسیٰu کا اپنے رب سے دعا کرنا اسے اپنے ارادے پر عمل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جس کی بنا پر فرعون نے حضرت موسیٰu کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس نے اپنی قوم کی خیرخواہی اور زمین پر ازالۂ شر کے لیے حضرت موسیٰu کے قتل کا ارادہ کیا تھا ، چنانچہ اس نے کہا: ﴿اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ ﴾ ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ تمھارے دین کو نہ بدل دے۔‘‘ جس پر تم چل رہے ہو۔ ﴿اَوْ اَنْ یُّ٘ظْ٘هِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ ﴾ ’’یا ملک میں فساد نہ پیدا کردے۔‘‘ یہ بہت ہی تعجب خیز امر ہے کہ ایک بدترین انسان لوگوں کی خیرخواہی کے لیے ان کو مخلوق میں سے بہترین ہستی کی اتباع سے روکے۔ یہ درحقیقت باطل کو فریب کاری کے خوبصورت پردے میں چھپانا ہے۔ یہ کام صرف وہی عقل سرانجام دے سکتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ (الزخرف: 43؍54) ’’فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) جانا اور انھوں نے بھی اس کی اطاعت کی، وہ درحقیقت فاسقوں کا گروہ تھا۔‘‘
#
{26} و {قال فرعونُ}: متكبِّراً متجبِّراً مغرِّراً لقومه السفهاء: {ذَروني أقْتُلْ موسى ولْيَدْع ربَّه}؛ أي: زعم قبَّحه الله أنه لولا مراعاةُ خواطر قومه؛ لقتله، وأنه لا يمنعُه منه دعاءُ ربِّه. ثم ذكر الحاملَ له على إرادةِ قتلِهِ، وأنه نصحٌ لقومه وإزالةٌ للشرِّ في الأرض، فقال: {إني أخافُ أن يُبَدِّلَ دينَكُم}: الذي أنتم عليه {أو أن يُظْهِرَ في الأرض الفساد}: وهذا من أعجب ما يكون! أن يكون شرُّ الخلق ينصحُ الناسَ عن اتِّباع خير الخلق. هذا من التمويه والترويج الذي لا يدخُلُ إلاَّ عقل مَنْ قال الله فيهم: {فاستخفَّ قومَه فأطاعوه إنَّهم كانوا قوماً فاسقينَ}.
[27] ﴿وَقَالَ مُوْسٰۤى ﴾ ’’موسیٰ(u) نے کہا:‘‘ جب فرعون نے یہ بڑہانکی، جس کی موجب اس کی سرکشی تھی اور سرکشی پر مبنی یہ بات کہنے میں فرعون نے اپنی قوت و اقتدار سے مدد لی تو حضرت موسیٰu نے اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا: ﴿اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّكُمْ ﴾ ’’میں اپنے اور تمھارے رب کی پناہ لے چکا ہوں۔‘‘ یعنی میں اس کی ربوبیت کی پناہ مانگتا ہوں، جس کے ذریعے سے میرے رب نے تمام امور کی تدبیر کی ہے۔ ﴿مِّنْ كُ٘لِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ’’ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔‘‘ یعنی جس کا تکبر اور یوم حساب پر عدم ایمان، اسے شر اور فساد پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عموم میں فرعون وغیرہ بھی داخل ہے جیسا کہ قریب ہی گزشتہ سطور میں یہ قاعدہ گزر چکا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے حضرت موسیٰu کو یوم حساب کے منکر ہر متکبر سے محفوظ و مامون رکھا اور آپ کو ایسے اسباب مہیا فرمائے جن کی بنا پر فرعون اور اس کے درباریوں کا شر آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس میں فرعون وغیرہ سبھی شامل ہیں جیسا کہ سابقہ ’’قاعدہ‘‘ میں مذکور ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے ہر اس متکبر سے آپ کی حفاظت فرمائی جو یوم الحساب پر ایمان نہیں لاتا اور ایسے اسباب مہیا فرمایا جن کے ذریعے سے فرعون اور اس کے سرداروں کے شر سے محفوظ رہے۔
#
{27} {وقال موسى}: حين قال فرعونُ تلك المقالَة الشنيعةَ التي أوجَبَها له طغيانُه واستعان فيها بقوَّته واقتدارِهِ مستعيناً بربِّه: {إنِّي عذتُ بربِّي وربِّكم}؛ أي: امتنعتُ بربوبيَّته التي دبَّر بها جميع الأمور {من كل متكبِّرٍ لا يؤمنُ بيوم الحساب}؛ أي: يحمله تكبُّره وعدمُ إيمانه بيوم الحساب على الشرِّ والفسادِ، يدخُلُ فيه فرعونُ وغيره كما تقدَّم قريباً في القاعدة، فمنعه الله تعالى بلطفه من كلِّ متكبِّرٍ لا يؤمن بيوم الحساب، وقيَّض له من الأسباب ما اندفع به عنه شرُّ فرعونَ وملئه.
[28] ان جملہ اسباب میں سے وہ صاحب ایمان شخص بھی ہے جو آل فرعون سے تعلق رکھتا تھا بلکہ کاروبار مملکت میں شامل تھا۔ لازماً اس کی بات سنی جاتی ہو گی خاص طور پر جب وہ ان سے موافقت کا اظہار کرتا تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کیونکہ اس صورت میں عام طور پر وہ اس کی رعایت رکھتے تھے اگر وہ ظاہر میں ان کی موافقت نہ کرتا تو وہ یہ رعایت نہ رکھتے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم e کو آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے قریش سے محفوظ رکھا۔ ابو طالب ان کے نزدیک ایک بڑا سردار تھا ان کے دین ہی کی موافقت کرتا تھا۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تووہ آپ کی اس طرح حفاظت نہ کر سکتا۔ اس توفیق یافتہ، عقل مند اور دانا مومن نے اپنی قوم کے فعل کی قباحت واضح کرتے ہوئے کہا: ﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ ﴾ ’’کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔‘‘ یعنی تم اس کے قتل کو کیونکر جائز سمجھتے ہو، اس کا گناہ صرف یہی ہے نا کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اس کا قول دلائل سے خالی بھی نہیں۔ اس لیے صاحب ایمان نے کہا: ﴿وَقَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’اور وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔‘‘ کیونکہ حضرت موسیٰu کے معجزات اتنے مشہور ہو گئے کہ چھوٹے بڑے سب جانتے تھے۔ اس لیے یہ چیز حضرت موسیٰu کے قتل کی موجب نہیں بن سکتی… تم نے اس سے پہلے، جب حضرت موسیٰu تمھارے پاس حق لے کر آئے، اس کا دلیل کے ذریعے سے ابطال کیوں نہیں کیا کہ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا ہوتا، پھر اس کے بعد غور کرتے کہ آیا اس پر دلیل میں غالب آنے کے بعد، اس کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اب جبکہ حجت اور دلیل میں وہ تمھیں نیچا دکھا چکا ہے۔ تمھارے درمیان اور اس کے قتل کے جواز کے درمیان بہت فاصلہ حائل ہے جسے طے نہیں کیا جاسکتا، پھر اس نے ان سے عقل کی بات کہی جو ہر حال میں ہر عقل مند کو مطمئن کر دیتی ہے۔ ﴿وَاِنْ یَّكُ كَاذِبً٘ا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗ١ۚ وَاِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْ ﴾ ’’اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا اور اگر سچا ہوگا تو اس عذاب کا بعض حصہ تم پر واقع ہوکر رہے گا، جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی حضرت موسیٰu کا معاملہ دور امور میں سے کسی ایک پر معلق ہے یا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں یا وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال انھی پر ہے اور اس کا ضرر بھی انھی کے ساتھ مختص ہے تمھیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ تم نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔ اور اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور انھوں نے تمھارے سامنے اپنی صداقت کے دلائل بھی پیش کیے ہیں اور تمھیں یہ وعید بھی سنائی ہے کہ اگر تم نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تمھیں اس دنیا میں عذاب دے گا اور آخرت میں بھی تمھیں جہنم میں داخل کرے گا ، لہٰذا ان کی وعید کے مطابق تم دنیا میں بھی اس عذاب کا ضرور سامنا کرو گے۔ یہ اس صاحب ایمان شخص اور اس کی طرف سے حضرت موسیٰu کی مدافعت کا نہایت لطیف پیرا یہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کو ایسا جواب دیا جو ان کے لیے کسی تشویش کا باعث نہ تھا۔ پس اس نے معاملے کا دارومدار ان مذکورہ دو حالتوں پر رکھا اور دونوں لحاظ سے جناب موسیٰ کا قتل ان کی سفاہت اور جہالت تھی۔ پھر وہ صاحب ایمان شخص...رَضِیَ اللّہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ وَغَفَرَلَہُ وَرَحِمَہُ… اس بارے میں، ایک ایسے معاملے کی طرف منتقل ہوا جو اس سے بہتر اور حضرت موسیٰu کے حق کے قریب ہونے کو زیادہ واضح کرتا ہے، چنانچہ اس نے کہا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ ﴾ ’’بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا ہو‘‘ یعنی جو حق کو ترک اور باطل کی طرف متوجہ ہوکر تمام حدیں پھلانگ جاتا ہے۔ ﴿كَذَّابٌ ﴾ ’’جھوٹا ہو۔‘‘ جو حدود سے تجاوز پر مبنی اپنے موقف کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ راہ صواب نہیں دکھاتا نہ اس کے مدلول میں اور نہ اس کی دلیل میں اور نہ اسے راہ راست کی توفیق ہی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ موسیٰu نے حق کی طرف دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی اور انھوں نے عقلی دلائل و براہین اور آسمانی معجزات کے ذریعے سے اس حق کو واضح کر دیا… جسے یہ راستہ مل جائے، ممکن نہیں کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والا اور کذاب ہو، یہ اس کے کامل علم و عقل اور اس کی معرفت الٰہی کی دلیل ہے۔
#
{28} ومن جملة الأسباب هذا الرجل المؤمن الذي من آل فرعون من بيت المملكةِ، لا بدَّ أن يكونَ له كلمةٌ مسموعةٌ، وخصوصاً إذا كان يظهِرُ موافقتَهم ويكتُمُ إيمانه؛ فإنهم يراعونَه في الغالب ما لا يراعونَه لو خالفهم في الظاهر؛ كما منع الله رسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم - بعمه أبي طالب من قريش؛ حيث كان أبو طالب كبيراً عندهم موافقاً لهم على دينهم، ولو كان مسلماً؛ لم يحصلْ منه ذلك المنع، فقال ذلك الرجل المؤمن الموفَّق العاقل الحازم مقبِّحاً فعل قومه وشناعة ما عزموا عليه: {أتَقْتُلونَ رجلاً أن يقولَ ربِّيَ اللهُ}؛ أي: كيف تستحلُّون قتلَه وهذا ذنبُه وجرمُه أَنَّه يقولَ ربِّيَ الله، ولم يكن أيضاً قولاً مجرَّداً عن البيناتِ، ولهذا قال: {وقد جاءكم بالبيِّناتِ من ربِّكم}: لأنَّ بيِّنته اشتهرت عندهم اشتهاراً علم به الصغيرُ والكبيرُ؛ أي: فهذا لا يوجب قتله؛ فهلاَّ أبطلتم قبل ذلك ما جاء به من الحقِّ، وقابلتم البرهان ببرهان يردُّه ثم بعد ذلك نظرتُم هل يحلُّ قتلُه إذا ظهرتم عليه بالحجة أم لا؟! فأما وقد ظهرت حجَّته واستعلى برهانه؛ فبينكم وبين حِلِّ قتله مفاوزُ تنقطع بها أعناق المطيِّ. ثم قال لهم مقالةً عقليةً تقنِعُ كلَّ عاقل بأيِّ حالة قُدِّرت، فقال: {وإنْ يكُ كاذباً فعليه كذِبُه وإن يكُ صادقاً يصِبْكُم بعض الذي يعدكم}: أي: موسى بين أمرين إما كاذب في دعواه أو صادق فيها، فإن كان كاذباً فكذبه عليه وضرره مختصٌّ به، وليس عليكم في ذلك ضررٌ؛ حيث امتنعتُم من إجابته وتصديقه، وإن كان صادقاً، وقد جاءكم بالبينات وأخبركم أنَّكم إنْ لم تجيبوه عذَّبَكم الله عذاباً في الدُّنيا وعذاباً في الآخرة؛ فإنَّه لا بدَّ أن يصيبَكم بعضُ الذي يعِدُكم، وهو عذاب الدنيا. وهذا من حسن عقلِهِ ولطف دفعِهِ عن موسى؛ حيث أتى بهذا الجواب الذي لا تشويش فيه عليهم، وجعلَ الأمر دائراً بين تلك الحالتين، وعلى كلِّ تقدير؛ فقتله سفهٌ وجهلٌ منكم. ثم انتقل ـ رضي الله عنه وأرضاه وغفر له ورحمه ـ إلى أمرٍ أعلى من ذلك وبيان قرب موسى من الحقِّ فقال: {إن الله لا يهدي من هو مسرف}؛ أي؛ متجاوز الحد بترك الحق والإقبال على الباطل، {كذابٌ}: بنسبته ما أسرف فيه إلى الله؛ فهذا لا يهديه الله إلى طريق الصواب؛ لا في مدلوله، ولا في دليله، ولا يوفَّق للصراط المستقيم؛ أي: وقد رأيتُم ما دعا موسى إليه من الحقِّ وما هداه الله إلى بيانِهِ من البراهين العقليَّة والخوارق السماويَّة؛ فالذي اهتدى هذا الهدى لا يمكنُ أن يكون مسرفاً ولا كاذباً. وهذا دليلٌ على كمال علمِهِ وعقلِهِ ومعرفتِهِ بربِّه.
[29] پھر اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور انھیں ظاہری اقتدار کے دھوکے میں مبتلا ہونے سے روکا، اس نے کہا: ﴿یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ﴾ ’’اے میری قوم! آج تمھاری بادشاہت ہے۔‘‘ یعنی دنیا کے اندر ﴿ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’تم ہی اپنی سرزمین میں غالب ہو‘‘ تم اپنی رعیت پر غالب ہو اور ان پر جو حکم چاہتے ہو نافذ کرتے ہو۔ فرض کیا تمھیں یہ اقتدار پوری طرح حاصل ہو جاتا ہے، حالانکہ تمھارا یہ اقتدار مکمل نہ ہو گا ﴿فَ٘مَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَ٘اْسِ اللّٰهِ ﴾ ’’تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔‘‘ ﴿اِنْ جَآءَنَا ﴾ ’’اگر وہ (عذاب) ہمارے پاس آجائے۔‘‘ یہ اس مومن شخص کی طرف سے دعوت کا نہایت حسین اسلوب ہے کیونکہ اس نے معاملے کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک رکھا۔ اس کا قول تھا ﴿فَ٘مَنْ یَّنْصُرُنَا ﴾ اور ﴿اِنْ جَآءَنَا ﴾ تاکہ ان کو باور کرا سکے کہ وہ ان کا اسی طرح خیرخواہ ہے جس طرح وہ خود اپنی ذات کا خیرخواہ ہے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ اس بارے میں فرعون نے اس مرد مومن کی مخالفت اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰu کی اتباع سے بچانے کے لیے ان کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا: ﴿مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَمَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ﴾ ’’میں تمھیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور تمھیں وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے۔‘‘ وہ اپنے قول: ﴿مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى ﴾ ’’میں تمھیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے‘‘ میں بالکل سچا ہےمگر اسے کیا بات سوجھی ہے؟ اسے یہ بات سوجھی ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) سمجھے اور وہ اس کی پیروی کریں تاکہ اس کی ریاست کو قائم رہے۔ وہ جانتا تھا کہ حق اس کے ساتھ نہیں ہے بلکہ حق حضرت موسیٰu کے ساتھ ہے، اسے اس بات کا یقین تھا بایں ہمہ اس نے حق کا انکار کر دیا۔ البتہ اس نے اپنے اس قول میں جھوٹ بولا: ﴿وَمَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ﴾ ’’میں تو تمھیں صرف ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں۔‘‘ یہ حق کو بدل ڈالنا ہے۔ اگر فرعون نے اپنی قوم کو صرف اتنا ساحکم دیا ہوتا کہ وہ اس کے کفر اور گمراہی میں اس کی اتباع کریں تو یہ برائی کم تر ہوتی، مگر اس نے تو اپنی قوم کو اپنی اتباع کا حکم دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے یہ بھی زعم تھا کہ اس کی اتباع حق کی اتباع ہے اور حق کی اتباع کو گمراہی خیال کرتا تھا۔
#
{29} ثم حذَّر قومه ونَصَحهم وخوَّفهم عذابَ الآخرة ونهاهم عن الاغترار بالمُلْك الظاهر، فقال: {يا قوم لكم الملكُ اليومَ}؛ أي: في الدنيا {ظاهرين في الأرض}: على رعيَّتِكم تنفِّذون فيهم ما شئتم من التدبير؛ فهَبْكم حصل لكم ذلك وتمَّ ولن يتمَّ؛ {فَمن ينصرُنا من بأس الله}؛ أي: عذابه {إن جاءنا}. وهذا من حسن دعوتِهِ؛ حيث جعلَ الأمرَ مشتركاً بينه وبينهم بقوله: {فمن ينصُرُنا}، وقوله: {إن جاءنا}؛ ليفهِمَهم أنَّه ينصحُ لهم كما ينصحُ لنفسه ويرضى لهم ما يرضى لنفسه، فَـ {قَالَ فرعونُ}: معارضاً له في ذلك ومغرِّراً لقومه أن يتَّبعوا موسى: {ما أريكم إلاَّ ما أرى وما أهديكم إلاَّ سبيل الرشادِ}: وصدق في قوله: {ما أريكم إلاَّ ما أرى}، ولكن ما الذي رأى؟! رأى أن يستخفَّ قومَه فيتابعوه ليقيمَ بهم رياسته، ولم يَرَ الحقَّ معه، بل رأى الحقَّ مع موسى وجحد به مستيقناً له، وكذب في قوله: {ما أهديكم إلاَّ سبيل الرشادِ}؛ فإنَّ هذا قلبٌ للحقِّ؛ فلو أمرهم باتِّباعه اتِّباعاً مجرداً على كفره وضلاله؛ لكان الشرُّ أهونَ، ولكنه أمرهم باتِّباعه، وزعم أنَّ في اتِّباعه اتِّباعَ الحقِّ، وفي اتِّباع الحقِّ اتباعَ الضلال.
[30] ﴿وَقَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ ﴾ ’’وہ شخص جو ایمان لایا تھا کہنے لگا:‘‘ یعنی اپنی قوم سے مایوس ہوئے بغیر مسلسل دعوت دیتے ہوئے… جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والوں کی عادت ہے، وہ لوگوں کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہتے ہیں، کوئی روکنے والا انھیں روک سکتا ہے نہ کوئی سرکش انھیں بار بار دعوت دینے سے باز رکھ سکتا ہے… ان سے کہا: ﴿یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْ٘لَ یَوْمِ الْاَحْزَابِ﴾ ’’اے قوم! مجھے تمھاری نسبت خوف ہے کہ تم پر اور امتوں کی طرح کے (برے) دن کا عذاب نہ آجائے۔‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی اور اکٹھے ہو کر انبیاء کی مخالفت کی۔
#
{30} {وقال الذي آمنَ}: مكرِّراً دعوة قومه، غير آيس من هدايتهم؛ كما هي حالةُ الدُّعاة إلى الله تعالى؛ لا يزالون يدعون إلى ربِّهم، ولا يردُّهم عن ذلك رادٌّ، ولا يثنيهم عتوُّ مَنْ دَعَوْه عن تكرار الدعوة، فقال لهم: {يا قوم إنِّي أخاف عليكم مثلَ يوم الأحزاب}؛ يعني: الأمم المكذِّبين الذين تحزَّبوا على أنبيائهم واجتمعوا على معارضتهم.
[31] پھر اس نے واضح کرتے ہوئے کہا: ﴿مِثْ٘لَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ ’’قوم نوح، عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے ہیں ان کے حال کی طرح۔‘‘ یعنی جیسا کہ کفر اور تکذیب میں ان قوموں کی عادت تھی۔ اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی عادت یہ تھی کہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا ہی میں ان پر عذاب نازل کیا۔ ﴿وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا‘‘ کہ ان کو کسی گناہ اور جرم کے بغیر عذاب دے دے۔
#
{31} ثم بيَّنهم فقال: {مثل دأب قوم نوح وعادٍ وثمودَ والذين من بعدِهم}؛ أي: مثل عادتهم في الكفر والتكذيب، وعادة الله فيهم بالعقوبة العاجلة في الدنيا قبل الآخرة، {وما الله يريدُ ظلماً للعبادِ}: فيعذِّبُهم بغير ذنب أذنبوه ولا جرم أسْلَفوه.
[32] اس نے ان کو دنیاوی عذاب سے ڈرانے کے بعد اخروی عقوبت سے ڈراتے ہوئے کہا: ﴿وَیٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِ﴾ ’’اے قوم! مجھے تمھاری نسبت پکار (قیامت) کے دن کا خوف ہے۔‘‘ یعنی قیامت کے دن کا جب اہل جنت اہل جہنم کو پکاریں گے: ﴿ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا١ؕ قَالُوْا نَعَمْ١ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ۰۰ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَیَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ۚ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ﴾ (الاعراف: 7؍44، 45) ’’ہم نے تو ان وعدوں کو سچا پایا جو ہم سے ہمارے رب نے کیے تھے، کیا تم سے تمھارے رب نے جو وعدے کیے تھے تم نے بھی انھیں سچا پایا؟ وه کہیں گے: ہاں! پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ظالموں پر الله کی لعنت ہو جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے (بھی) منکر تھے۔‘‘ اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے: ﴿وَنَادٰۤى اَصْحٰؔبُ النَّارِ اَصْحٰؔبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 7؍50) ’’جہنمی اہل جنت کو پکاریں گے کہ تھوڑا سا پانی ہماری طرف بھی بہا دو، یا اس رزق میں سے ہمیں بھی کچھ دے دو، جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا کیا ہے۔ اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔‘‘ اور جب اہل جہنم، داروغۂ جہنم (مالک) کو پکاریں گے تو وہ انھیں جواب دے گا: ﴿اِنَّـكُمْ مّٰكِثُوْنَ﴾ (الزخرف: 43؍77) ’’تم جہنم میں رہو گے۔‘‘ اور جب اہل جہنم اپنے رب کو پکاریں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰ٘لِمُوْنَ﴾ (المومنؤن: 23؍107) اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال اگر ہم دوبارہ نافرمانی کریں تو بے شک ہم ظالم ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ انھیں جواب دے گا: ﴿ اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ﴾ (المومنؤن: 23؍108) ’’دفع ہو جاؤ اور پڑے رہو اسی جہنم میں اور میرے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ اور جب مشرکین سے کہا جائے گا: ﴿ادْعُوْا شُ٘رَؔكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ ﴾ (القصص: 28؍64) ’’اپنے خودساختہ شریکوں کو پکارو! وہ انھیں پکاریں گے، مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔‘‘
#
{32} ولمَّا خوَّفهم العقوباتِ الدنيويةَ؛ خوَّفهم العقوباتِ الأخرويةَ، فقال: {ويا قوم إنِّي أخاف عليكم يومَ التَّناد}؛ أي: يوم القيامة؛ حين ينادي أهلُ الجنة أهل النار: {أن قد وجَدْنا ما وعَدَنا ربُّنا حقًّا ... } إلى آخر الآيات، {ونادى أصحابُ النارِ أصحابَ الجنَّة أن أفيضوا علينا من الماءِ أو ممَّا رزَقَكُم الله قالوا إنَّ الله حرَّمَهما على الكافرين}، وحين ينادي أهلُ النار مالكاً: {ليقضِ علينا ربُّك}، فيقول: {إنَّكم ماكثون}، وحين ينادون ربَّهم: {ربَّنا أخْرِجْنا منها فإنْ عُدْنا فإنَّا ظالمون}، فيجيبهم: {اخسؤوا فيها ولا تكلِّمونِ}، وحين يُقالُ للمشركين: {ادْعوا شركاءَكم فَدَعَوْهم فلم يستجيبوا لهم}.
[33] پس اس مرد مومن نے ان کو اس ہولناک دن سے ڈرایا اور اسے اس پر بڑی تکلیف ہوئی کہ وہ اس کے باوجود اپنے شرک پر جمے ہوئے ہیں۔ بنابریں اس نے کہا: ﴿یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ ﴾ ’’جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگے بھاگے پھروگے‘‘ یعنی جب تمھیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ﴿مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ﴾ ’’تو تمھیں اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔‘‘ یعنی تم خود اپنی طاقت سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کر سکو گے نہ اللہ کے سوا کوئی تمھاری مدد کر سکے گا۔ ﴿یَوْمَ تُ٘بْلَى السَّرَآىِٕرُۙ۰۰ فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ﴾ (الطلاق: 86؍9، 10) ’’جس روز دلوں کے بھید جانچے جائیں گے، اس روز اس کا بس چلے گا نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہو گا۔‘‘
#
{33} فخوَّفهم رضي الله عنه هذا اليوم المهول، وتوجَّع لهم إن أقاموا على شركِهِم بذلك، ولهذا قال: {يوم تولُّون مدبرينَ}؛ أي: قد ذهب بكم إلى النار. {ما لكم من الله من عاصم}: لا من أنفسكم قوَّة تدفعون بها عذابَ الله ولا ينصرُكم من دونِهِ من أحدٍ، {يوم تُبْلى السرائرُ. فما له من قوَّةٍ ولا ناصرٍ}. {ومن يُضْلِلِ الله فما له من هادٍ}: لأن الهدى بيد الله تعالى. فإذا منع عبدَه الهدى لعلمِهِ أنه غير لائق به لخبثه؛ فلا سبيل إلى هدايته.
﴿وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ﴾ ’’اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘ کیونکہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنی خباثت کی وجہ سے ہدایت کے لائق نہیں، ہدایت سے محروم کر دے، تو اس کے لیے ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔
#
{34} {ولقد جاءكم يوسفُ}: بنُ يعقوب عليهما السلام {من قبل}: إتيان موسى بالبينات الدَّالَّة على صدقه، وأمركم بعبادة ربِّكم وحده لا شريك له، {فما زلتُم في شكٍّ مما جاءكم به}: في حياته، {حتى إذا هَلَكَ}: ازداد شكُّكم وشرككم، {وقلتم لن يبعثَ الله من بعده رسولاً}؛ أي: هذا ظنكم الباطل وحسبانكم الذي لا يليق بالله تعالى؛ فإنَّه تعالى لا يترك خلقه سدى لا يأمرهم وينهاهم، بل يرسل إليهم رسله؛ وظنٌّ أنَّ الله لا يرسل رسولاً ظنُّ ضلال، ولهذا قال: {كذلك يضلُّ الله من هو مسرفٌ [مرتابٌ] }: وهذا هو وصفهم الحقيقيُّ الذي وصفوا به موسى ظلماً وعلوًّا؛ فهم المسرفون بتجاوزهم الحقَّ وعدولهم عنه إلى الضلال، وهم الكذبةُ حيث نسبوا ذلك إلى الله وكذَّبوا رسوله؛ فالذي وصفُه السرفُ والكذبُ لا ينفكُّ عنهما لا يهديه الله ولا يوفِّقه للخير؛ لأنه ردَّ الحقَّ بعد أن وصل إليه وعرفه؛ فجزاؤه أن يعاقِبَه الله بأن يَمْنَعَه الهدى؛ كما قال تعالى: {فلما زاغوا أزاغَ الله قلوبَهم}، {ونقلِّبُ أفئدتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمِنوا به أولَ مرَّةٍ ونَذَرُهم في طغيانهم يَعْمَهون}، {واللهُ لا يهدي القوم الظالمينَ}.
[34] ﴿وَلَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ ﴾ ’’اور یوسف(u) بھی تمھارے پاس آئے۔‘‘ یعنی یوسف بن یعقوبi ﴿مِنْ قَبْلُ ﴾ یعنی موسیٰu کی تشریف آوری سے پہلے یوسفu اپنی صداقت پر واضح دلائل لے کر آئے اور تمھیں اپنے اکیلے رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ﴿فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّؔمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ﴾ ’’تو وہ جو لائے تھے اس سے تم ہمیشہ شک میں رہے۔‘‘ یعنی حضرت یوسفu کی زندگی میں ﴿حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ ﴾ ’’حتیٰ کہ جب وہ فوت ہوگئے۔‘‘ تو تمھارے شک اور شرک میں مزید اضافہ ہو گیا اور ﴿قُلْتُمْ لَ٘نْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا ﴾ ’’تم نے کہا کہ اس کے بعد اللہ کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں تمھارا گمان باطل تھا اور تمھارا اندازہ قطعاً اس کی شان کے لائق نہ تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بے کار نہیں چھوڑتا کہ ان کو نہ نیکی کا حکم دے نہ برائی سے منع کرے، بلکہ ان کی طرف اپنے رسول مبعوث کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ رسول مبعوث نہیں کرتا گمراہی پر مبنی نظریہ ہے اس لیے فرمایا: ﴿كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ﴾ ’’اسی طرح اللہ اس شخص کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے نکل جانے والا اور شک کرنے والا ہو۔‘‘ یہ ہے ان کا وہ حقیقی وصف جس سے انھوں نے محض ظلم اور تکبر کی بنا پر حضرت موسیٰu کو موصوف کیا۔ وہ حق سے تجاوز کر کے گمراہی میں مبتلا ہونے کے باعث حد سے گزرے ہوئے اور انتہائی جھوٹے لوگ تھے کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کیا اور اس کے رسول کو جھٹلایا، پس جھوٹ اور حد سے تجاوز کرنا جس کا وصف لاینفک ہو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نوازتا ہے نہ بھلائی کی توفیق سے بہرہ مند کرتا ہے کیونکہ جب حق اس کے پاس پہنچا تو اس نے حق کو پہچان لینے کے بعد بھی ٹھکرا دیا۔ پس اس کی جزا یہ ہے کہ اللہ اس سے ہدایت روک لیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ (الصف: 61؍5) ’’جب ان لوگوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ﴾ (الانعام: 6؍110) ’’ہم ان کے دل و نگاہ کو اسی طرح پھیر دیتے ہیں جس طرح وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (البقرۃ:2؍258)’’اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
#
{35} ثم ذكر وصفَ المسرف الكذاب، فقال: {الذين يجادلونَ في آياتِ الله}: التي بينت الحقَّ من الباطل وصارت من ظهورها بمنزلة الشمس للبصر؛ فهم يجادلون فيها على وضوحها لِيَدْفَعوها ويُبْطِلوها {بغير سلطانٍ أتاهم}؛ أي: بغير حجَّة وبرهان، وهذا وصفٌ لازمٌ لكلِّ من جادل في آيات الله؛ فإنَّه من المحال أن يجادلَ بسلطان؛ لأن الحقَّ لا يعارضه معارضٌ؛ فلا يمكن أن يعارضَ بدليل شرعيِّ أو عقليٍّ أصلاً. {كَبُرَ}: ذلك القول المتضمِّن لردِّ الحقِّ بالباطل {مقتاً عند الله وعند الذين آمنوا}: فالله أشدُّ بغضاً لصاحبه؛ لأنَّه تضمَّن التكذيب بالحقِّ والتصديق بالباطل ونسبته إليه، وهذه أمورٌ يشتدُّ بغض الله لها ولمن اتَّصف بها، وكذلك عباده المؤمنون يمقتون على ذلك أشدَّ المقت موافقةً لربهم، وهؤلاء خواصُّ خلق الله تعالى؛ فمقتُهم دليلٌ على شناعة مَن مقتوه. {كذلك}؛ أي: كما طبع على قلوب آل فرعون، {يطبعُ الله على كلِّ قلبِ متكبرٍ جبارٍ}: متكبر في نفسه على الحقِّ بردِّه وعلى الخلق باحتقارِهِم، جبارٍ بكثرة ظلمه وعدوانه.
[35] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حد سے گزرنے والے شکی شخص کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں‘‘ جن آیات کی وجہ سے حق اور باطل میں امتیاز ہوا اور ظاہر و باہر ہونے کی بنا پر ایسے تھیں جیسے نگاہ کے لیے سورج۔ وہ ان آیات کے روشن اور واضح ہونے کے باوجود ان کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ ان کا ابطال کر سکیں۔ ﴿بِغَیْرِ سُلْطٰ٘نٍ اَتٰىهُمْ ﴾ ’’بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند (دلیل) آئی ہو۔‘‘ یعنی بغیر کسی حجت و برہان کے۔ یہ ہر اس شخص کا وصف لازم ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑتا ہے کیونکہ دلیل کے ساتھ جھگڑنا ممکن نہیں کوئی چیز حق کا سامنا نہیں کر سکتی اور یہ ممکن نہیں کہ دلیل شرعی یا دلیل عقلی حق کے معارض ہو۔ ﴿كَبُرَ ﴾ یہ قول بڑی ناراضی والا ہے جو باطل کے ذریعے سے حق کو ٹھکرانے کومتضمن ہے ﴿مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’(سخت) ناپسندیدہ ہے یہ رویہ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک‘‘ اللہ تعالیٰ ایسی بات کہنے والے پر سخت ناراض ہے۔ کیونکہ یہ حق کی تکذیب اور باطل کی تصدیق کو متضمن ہے۔ان اوصاف پر اور اس شخص پر جو ان اوصاف سے متصف ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مومن بندے بھی اپنے رب کی موافقت میں اس پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اس لیے ان کی ناراضی اس شخص کی قباحت اور برائی کی دلیل ہے جس پر یہ ناراض ہوں۔ ﴿كَذٰلِكَ ﴾ یعنی اسی طرح جیسے آل فرعون کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ ﴿یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴾ ’’اللہ ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتاہے۔‘‘ جو حق کو ٹھکرا کر اپنے رویے میں تکبر کا اظہار کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آکر تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے ظلم اور تعدی کی کثرت کی بنا پر جابروں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
#
{36 ـ 37} {وقال فرعونُ}: معارضاً لموسى ومكذِّباً له في دعوته إلى الإقرار بربِّ العالمين الذي على العرش استوى وعلى الخلق اعتلى: {يا هامانُ ابنِ لي صرحاً}؛ أي: بناءً عظيماً مرتفعاً، والقصد منه: لعلي أطلع {إلى إله موسى وإنِّي لأظنُّه كاذباً}: في دعواه أن لنا ربًّا، وأنه فوق السماواتِ، ولكنه يريد أن يحتاط فرعون ويختبر الأمر بنفسه، قال الله تعالى في بيان الذي حمله على هذا القول: {وكذلك زُيِّنَ لفرعونَ سوءُ عملِهِ}: فزُيِّن له العمل السيئ، فلم يزل الشيطان يزيِّنه وهو يدعو إليه ويحسِّنه حتى رآه حسناً ودعا إليه وناظر مناظرة المحقِّين وهو من أعظم المفسدين. {وصُدَّ عن السبيل}: الحق بسبب الباطل الذي زُيِّن له. {وما كيدُ فرعونَ}: الذي أراد أن يكيد به الحقَّ ويوهم به الناس أنه محقٌّ وأن موسى مبطلٌ {إلاَّ في تبابٍ}؛ أي: خسارٍ وبوارٍ، لا يفيده إلا الشقاء في الدنيا والآخرة.
[36، 37] ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے حضرت موسیٰu کی مخالفت اور آپ کی اللہ رب العلمین، جو عرش پر مستوی اور مخلوق سے بلند ہے، کے اقرار کی طرف دعوت کی تکذیب کرتے ہوئے کہا: ﴿یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا ﴾ ’’اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت تعمیر کراؤ ‘‘ یعنی ایک بہت عظیم الشان اور بہت بلند عمارت بناؤ، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں دیکھ لوں ﴿اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰؔى وَاِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبً٘ا ﴾ ’’موسیٰ کے معبود کو اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔‘‘ میں موسیٰ کو اس کے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتا ہوں کہ ہمارا کوئی رب ہے اور وہ آسمانوں کے اوپر ہے… مگر وہ چاہتا تھا کہ فرعون احتیاط سے کام لے کر معاملے کی خود خبر لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کرتے ہوئے، جس نے فرعون کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا تھا… فرمایا: ﴿وَؔكَذٰلِكَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ٘﴾ ’’اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا۔‘‘ شیطان اس کی بداعمالی کو سجاتا رہا، اس برے عمل کی طرف اسے دعوت دیتا رہا ،اس عمل کو خوبصورت اور نیک عمل بنا کر اس کے سامنے پیش کرتا رہا حتی کہ وہ اسے اچھا عمل سمجھنے لگا اور اس نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی اور اپنے اس عمل کے بارے میں اس طرح مناظرہ کرنے لگا جس طرح حق پرست مناظرہ کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب سے بڑا مفسد تھا۔ ﴿وَصُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ ﴾ ’’اور راہ راست سے روک دیاگیا‘‘ اس باطل کے سبب سے جو اس کے سامنے مزین کیا گیا تھا، راہ حق سے روکا گیا۔ ﴿وَمَا كَیْدُ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’اور نہیں تھا مکر فرعون کا۔‘‘ جس کے ذریعے سے اس نے حق کے خلاف سازش کی اور اس کے ذریعے سے لوگوں پر ظاہر کیا کہ اس کا موقف حق اور حضرت موسیٰu کا موقف باطل ہے۔ ﴿اِلَّا فِیْ تَبَابٍ ﴾ ’’مگر تباہی کا۔‘‘ یعنی خسارے اور ہلاکت کا شکار ہو گا اور یہ سازش فرعون کو دنیا و آخرت میں بدبختی کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گی۔
#
{38} {وقال الذي آمنَ}: معيداً نصيحته لقومه: {يا قوم اتَّبعونِ أهْدِكُم سبيل الرشادِ}: لا كما يقولُ لكم فرعونُ؛ فإنه لا يهديكم إلا طريق الغيِّ والفساد.
[38] ﴿وَقَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ ﴾ اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کو دوبارہ نصیحت کرتے ہوئے کہا: ﴿یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِ﴾ ’’اے میری قوم! میری اتباع کرو، میں تمھیں بھلائی کا راستہ دکھاؤ ں گا۔‘‘ ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو فرعون کہتا ہے کیونکہ وہ صرف گمراہی اور فساد کی راہ دکھاتا ہے۔
#
{39} {يا قوم إنَّما هذه الحياةُ الدنيا متاعٌ}: يُتَمَتَّع بها ويُتَنَعَّم قليلاً، ثم تنقطع وتضمحلُّ؛ فلا تغرَّنَّكم وتخدعنَّكم عما خلقتم له. {وإن الآخرةَ هي دارُ القرارِ}: التي هي محلُّ الإقامة ومنزل السكون والاستقرار؛ فينبغي لكم أن تؤثروها وتعملوا لها عملاً يسعِدُكم فيها.
[39] ﴿یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰؔذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ ﴾ ’’اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی تو بس چند یوم (کافائدہ) ہے۔‘‘ دنیا کی زندگی ایک متاع ہے جس کی نعمتوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ، پھر یہ متاع مضمحل ہو کر منقطع ہو جائے گی اس لیے یہ متاع دنیا تمھیں ان مقاصد کے بارے میں دھوکے اور فریب میں نہ ڈال دے جن کے لیے تمھیں پیدا کیا گیا ہے۔ ﴿وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ ﴾ ’’اور (ہمیشہ) رہنے کا گھر تو آخرت ہی ہے۔‘‘ جو اقامت گاہ اور سکون و استقرار کا گھر ہے تمھیں چاہیے کہ تم آخرت کو ترجیح دو اور ایسے عمل کرو جو تمھیں آخرت میں سعادت سے ہم کنار کریں۔
#
{40} {من عمل سيئةً}: من شرك أو فسوق أو عصيان {فلا يُجْزى إلا مثلَها}؛ أي: لا يجازَى إلا بما يسؤوه ويحزنه؛ لأن جزاء السيئة السوء. {ومن عمل صالحاً من ذكرٍ أو أنثى}: من أعمال القلوب والجوارح وأقوال اللسان؛ {فأولئك يدخُلون الجنةَ يُرزقون فيها بغير حسابٍ}؛ أي: يعطَوْن أجرهم بلا حدٍّ ولا عدٍّ، بل يعطيهم الله ما لا تبلغه أعمالهم.
[40] ﴿مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً ﴾ ’’جو شخص برائی کرے گا‘‘ جس نے شرک، فسق یا معصیت کا ارتکاب کیا ﴿فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا ﴾ ’’اسے ویسا ہی بدلہ ملے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اسے صرف اسی کی سزا دے گا جو اس نے برائی کی ہے اور اسی قدر اس کو عذاب دے گا جس قدر اس نے برائی کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں برائی کا بدلہ برائی ہے۔ ﴿وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ﴾ ’’جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت‘‘ یعنی اعمالِ قلوب، اعمالِ جوارح اور اقوالِ لسان میں سے ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’اور وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے، وہاں انھیں بے حساب رزق دیا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کو بلا حدوحساب اجر عطا کیا جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں اتنا اجر عطا کرے گا کہ ان کے اعمال وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔
#
{41} {ويا قوم مالي أدعوكُم إلى النجاةِ}: بما قلت لكم، {وتدعونَني إلى النار}: بترك اتِّباع نبيِّ الله موسى عليه السلام.
[41] اس مرد مومن نے کہا: ﴿وَیٰقَوْمِ مَا لِیْۤ اَدْعُوْؔكُمْ اِلَى النَّجٰؔوةِ ﴾ ’’اے قوم! میرا کیا حال ہے کہ میں تو تمھیں نجات کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘ یعنی اس بات کے ذریعے سے جو میں نے تم سے کہی ہے۔ ﴿وَتَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَى النَّارِ﴾ اور اللہ کے نبی موسیٰu کی اتباع کو ترک کر کے تم مجھے آگ کی طرف بلا رہے ہو۔
#
{42} ثم فسر ذلك فقال: {تدعونني لأكفرَ بالله وأشركَ به ما ليس لي به علمٌ}: أنَّه يستحقُّ أن يُعْبَدَ من دون الله، والقول على الله بلا علم من أكبرِ الذُّنوب وأقبحها. {وأنا أدعوكُم إلى العزيز}: الذي له القوةُ كلُّها، وغيره ليس بيدِهِ من الأمر شيء: {الغفَّار}: الذي يسرف العباد على أنفسهم ويتجرؤون على مساخطه، ثم إذا تابوا وأنابوا إليه؛ كفَّر عنهم السيئاتِ والذنوبَ ودفع موجباتها من العقوبات الدنيويَّة والأخرويَّة.
[42] پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿تَدْعُوْنَنِیْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَاُشْرِكَ بِهٖ مَا لَ٘یْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ ﴾ ’’تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس کو شریک کروں جس کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں۔‘‘ یعنی جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا مستحق ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلاعلم بات کہنا سب سے بڑا اور انتہائی گھناؤ نا گناہ ہے۔ ﴿وَّاَنَا اَدْعُوْؔكُمْ اِلَى الْ٘عَزِیْزِ ﴾ ’’جبکہ میں تمھیں غالب (اللہ) کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘ جو تمام طاقت کا مالک ہے اور غیراللہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ ﴿الْغَفَّارِ ﴾ ’’بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔‘‘ جب بندے اپنی جانوں پر زیادتی کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لینے کی جرأت کرتے ہیں ، پھر وہ توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں اور گناہوں کو مٹا ڈالتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دنیاوی اور اخروی سزا کو ہٹا دیتا ہے۔
#
{43} {لا جَرَمَ}؛ أي: حقاً يقيناً {أنَّ ما تدعونني إليه ليس له دعوةٌ في الدنيا ولا في الآخرة}؛ أي: لا يستحقُّ [مِن] الدعوة إليه والحثِّ على اللجأ إليه في الدُّنيا ولا في الآخرة لعجزه ونقصه، وأنَّه لا يملك نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، {وأنَّ مردَّنا إلى الله}: تعالى فسيجازي كلَّ عامل بعمله، {وأنَّ المسرفين هم أصحابُ النار}: وهم الذين أسرفوا على أنفسِهم بالتجرِّي على ربِّهم بمعاصيه والكفر به دون غيرهم.
[43] ﴿لَا جَرَمَ ﴾ ’’کوئی شک نہیں۔‘‘ یقینا ﴿اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ لَ٘یْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’جس کی طرف تم مجھے بلا تے ہو ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت (پکارا جانا) ہے اور نہ آخرت میں۔‘‘ یعنی جس ہستی کی طرف تم مجھے دعوت دے رہے ہو وہ اس کی مستحق نہیں کہ اس کی طرف دعوت دی جائے یا دنیا و آخرت میں اس کی پناہ لینے کی ترغیب دی جائے۔ کیونکہ وہ عاجز و ناقص ہستی ہے، جوکسی کو نفع و نقصان پہنچانے، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ ﴿وَاَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور ہم کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ اور وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ ﴿وَاَنَّ الْ٘مُسْرِفِیْنَ هُمْ اَصْحٰؔبُ النَّارِ ﴾ ’’اور بے شک زیادتی کرنے والے جہنمی ہیں۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حضور کفر اور معاصی کے ارتکاب کی جسارت کر کے اپنے آپ پر زیادتی کی۔
#
{44} فلما نصحهم وحذَّرهم وأنذرهم ولم يطيعوه ولا وافقوه؛ قال لهم: {فستذكرونَ ما أقول لكم}: من هذه النصيحة، وسترون مغبَّة عدم قبولها حين يحلُّ بكم العقاب وتحرمون جزيل الثواب، {وأفوِّضُ أمري إلى الله}؛ أي: ألجأ إليه وأعتصمُ وألقي أموري كلَّها لديه وأتوكَّل عليه في مصالحي ودفع الضرر الذي يصيبني منكم أو من غيركم. {إنَّ الله بصيرٌ بالعباد}: يعلمُ أحوالكم وما يستحقُّون: يعلم حالي وضَعْفي فيمنعني منكم ويكفيني شرَّكم، ويعلم أحوالَكم فلا تتصرَّفون إلاَّ بإرادتِهِ ومشيئتِهِ؛ فإنْ سلَّطكم عليَّ؛ فبحكمة منه تعالى وعن إرادتِهِ ومشيئتِهِ صَدَرَ ذلك.
[44] جب اس شخص نے ان کی خیرخواہی کی اور ان کو برے انجام سے ڈرایا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی نہ اس کی بات مانی، تو اس نے ان سے کہا: ﴿فَسَتَذْكُرُوْنَ۠ مَاۤ اَ٘قُوْلُ لَكُمْ ﴾ ’’جو کچھ میں تمھیں کہہ رہا ہوں عنقریب تم اسے یاد کرو گے۔‘‘ یعنی تم میری اس خیرخواہی کو یاد کرو گے اور اس خیرخواہی کو قبول نہ کرنے کا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا اور تم اللہ تعالیٰ کے بے پایاں ثواب سے محروم کر دیے جاؤ گے۔ ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور میں تو اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ یعنی میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں اور اپنے تمام امور اسی پر چھوڑتا ہوں۔ میں اپنے مصالح میں اور اس ضرر کو دور کرنے میں، جو تمھاری طرف سے یا کسی اور کی طرف سے لاحق ہو سکتا ہے، اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ ’’یقینا اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔‘‘ وہ ان کے تمام احوال کو اور جس چیز کے وہ مستحق ہیں خوب جانتا ہے۔ وہ میرے حال اور میری کمزوری کو بھی جانتا ہے۔ وہ تم سے میری حفاظت کرے گا اور تمھارے شر کے مقابلے میں میرے لیے کافی ہو گا۔ تم اس کے ارادے اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کر سکتے۔ اگر وہ تمھیں مجھ پر مسلط کر دے تو اس میں بھی اس کی کوئی حکمت ہو گی اور یہ بھی اس کے ارادے اور مشیت سے صادر ہو گا۔
#
{45 ـ 46} {فوقاه الله سيئاتِ ما مَكَروا}؛ أي: وقى الله القويُّ الرحيم ذلك الرجلَ المؤمن الموفَّق عقوباتِ ما مكر فرعونُ وآله له من إرادة إهلاكه وإتلافه لأنه بادأهم بما يكرهون وأظهر لهم الموافقةَ التامَّة لموسى عليه السلام، ودعاهم إلى ما دعاهم إليه موسى، وهذا أمرٌ لا يحتملونه، وهم الذين لهم القدرةُ إذ ذاك، وقد أغضبهم واشتدَّ حَنَقُهم عليه، فأرادوا به كيداً، فحفظه الله من كيدهم ومكرهم، وانقلب كيدُهم ومكرُهم على أنفسهم. {وحاق بآل فرعونَ سوءُ العذاب}: أغرقهم الله تعالى في صبيحة واحدةٍ عن آخرهم، وفي البرزخ: {النار يُعْرَضون عليها غدُوًّا وعشيًّا ويوم تقومُ الساعة أدخِلوا آلَ فرعونَ أشدَّ العذاب}: فهذه العقوبات الشنيعة التي تحل بالمكذِّبين لرسل الله المعاندين لأمره.
[45، 46] ﴿فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا ﴾ ’’پس اللہ نے اسے ان کی تدبیروں کے شر سے محفوظ رکھ لیا۔‘‘ قوت والے اللہ نے اس توفیق یافتہ مرد مومن کو فرعون اور آل فرعون کی سازشوں سے بچا لیا جو انھوں نے اس کو ہلاک کرنے کے لیے کی تھیں کیونکہ اس نے ان کے سامنے ایسے امور کا اظہار کیا تھا جو انھیں ناپسند تھے، ان کے سامنے حضرت موسیٰu کے ساتھ پوری موافقت کا اظہار کیا اور ان کے سامنے وہی دعوت پیش کی جو حضرت موسیٰu نے پیش کی تھی۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس وقت طاقت اور اقتدار ان کے پاس تھا اور اس نے ان کو سخت غضب ناک کر دیا تھا، چنانچہ انھوں نے اس کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے مکروفریب سے محفوظ رکھا، ان کی سازشیں اور منصوبے انھی پر الٹ گئے۔ ﴿وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ﴾ ’’اور آل فرعون کو برے عذاب نے آگھیرا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی عذاب میں ان کے آخری شخص تک کو سمندر میں غرق کر دیا۔ اور برزخ میں ﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا١ۚ وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ﴾ ’’وہ صبح و شام آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی (تو کہا جائے گا:) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کر دو۔‘‘ یہ وہ سزائیں ہیں جو اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے اور اس کے احکام سے عناد رکھنے والوں کو دی جائیں گی۔
آیت: 47 - 50 #
{وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ (47) قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ (48) وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ (49) قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَى قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (50)}.
اور جب وہ باہم جھگڑیں گے جہنم میں، پس کہیں گے کمزور لوگ ان لوگوں سے جنھوں نے تکبر کیا تھا، بلاشبہ ہم تو تھے تمھارے تابع، کیا پس تم ہٹاؤ گے ہم سے کچھ حصہ آگ سے؟ (47) کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے تکبر کیا تھا، بے شک ہم سب ہی اس(آگ) میں ہیں، بلاشبہ اللہ نے تحقیق فیصلہ (بھی)کردیا ہے درمیان بندوں کے (48) اورکہیں گے وہ (سب)لوگ جو آگ میں ہوں گے دربانان جہنم سے، دعا کرو تم اپنے رب سے ہلکا کر دے وہ ہم سے کسی دن کچھ عذاب(49) وہ کہیں گے، کیا نہیں تھے آتے تمھارے پاس تمھارے رسول ساتھ واضح دلائل کے؟ وہ کہیں گے، کیوں نہیں، وہ کہیں گے، پس تم (خود ہی) دعا کرو اور نہیں ہو گی دعا کافروں کی مگر تباہی ہی میں (50)
#
{47} يخبر تعالى عن تخاصم أهل النار وعتاب بعضهم بعضاً واستغاثتهم بخَزَنَةِ النار وعدم الفائدة في ذلك، فقال: {وإذْ يتحاجُّون في النار}: يحتجُّ التابعون بإغواء المتبوعين، ويتبرّأ المتبوعون من التابعين، {فيقولُ الضعفاءُ}؛ أي: الأتباع للقادة الذين استكبروا على الحق ودَعَوْهم إلى ما استكبروا لأجله: {إنَّا كنَّا لكم تبَعاً}: أنتم أغويتُمونا وأضللتُمونا، وزيَّنتم لنا الشرك والشرَّ، {فهل أنتم مُغنونَ عنَّا نصيباً من النارِ}؛ أي: ولو قليلاً.
[47] اللہ تبارک وتعالیٰ اہل جہنم کے جھگڑنے، ایک دوسرے پر عتاب کرنے اور جہنم کے داروغے سے مدد مانگنے اور اس کے بے فائدہ ہونے کے بارے میں آگاہ کرتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ ﴾ ’’اور جب وہ دوزخ میں باہم جھگڑیں گے۔‘‘ یعنی پیروکار یہ حجت پیش کریں گے کہ ان کے قائدین نے ان کو گمراہ کیا اور قائدین اپنے پیروکاروں سے بیزاری اور براء ت کا اظہار کریں گے۔ ﴿فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا ﴾ ’’پس ضعفاء کہیں گے۔‘‘ یعنی پیروکار ﴿لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا ﴾ ان قائدین سے جنھوں نے حق کے خلاف تکبر کیا اور جنھوں نے ان کو اس موقف کی طرف بلایا جو ان کے تکبر کا باعث تھا۔ ﴿اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا ﴾ ’’ہم تمھارے تابع تھے۔‘‘ تم نے ہم کو گمراہ کیا اور ہمارے سامنے شرک اور شر کو مزین کیا۔ ﴿فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ ﴾ ’’تو کیا تم دوزخ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے دور کرسکتے ہو۔‘‘ خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو۔
#
{48} {قال الذين استكْبروا}: مبيِّنين لعجزهم ونفوذِ الحكم الإلهيِّ في الجميع: {إنَّا كلٌّ فيها إنَّ الله قد حكم بين العباد}: وجعل لكلٍّ قسطَه من العذاب؛ فلا يزاد في ذلك ولا ينقص منه ولا يغيَّر ما حكم به الحكيم.
[48] ﴿قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا ﴾ ’’بڑے آدمی کہیں گے۔‘‘ یعنی اپنی بے بسی اور سب پر حکم الٰہی کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے۔ ﴿اِنَّا كُ٘لٌّ فِیْهَاۤ١ۙ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ ﴾ ’’ہم سب اس (دوزخ) میں ہیں، بے شک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا۔‘‘ یعنی ہر ایک کے لیے عذاب کا ایک حصہ ہے جس میں اضافہ یا کمی نہیں ہو گی اور حکیم نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوگا۔
#
{49} {وقال الذين في النار}: من المستكبرين والضعفاء {لخزنةِ جهنَّم ادْعوا ربَّكم يخفِّفْ عنَّا يوماً من العذاب}: لعله تحصُلُ بعض الراحة.
[49] ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ ﴾ ’’جو لوگ آگ میں ہوں گے، کہیں گے۔‘‘ یعنی وہ تکبر کرنے والے اور کمزور لوگ جو آگ میں ڈالے گئے تھے ﴿لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ﴾ ’’دوزخ کے داروغوں سے: اپنے رب سے دعا کرو کہ ایک روز تو ہم سے عذاب ہلکا کردے۔‘‘ شاید اس سے کچھ راحت حاصل ہو۔
#
{50} فَـ {قالُوا} لهم موبِّخين ومبيِّنين أن شفاعتهم لا تنفعهم ودعاؤهم لا يفيدهم شيئاً: {أولم تَكُ تأتيكم رسلُكُم بالبيناتِ}: التي تبيَّنتم بها الحقَّ والصراط المستقيم وما يقرِّب من الله وما يُبعِدُ منه، {قالوا بلى}: قد جاؤونا بالبينات، وقامت علينا حجَّةُ الله البالغة، فظلمنا وعاندنا الحقَّ بعدما تبيَّن، {قالوا}؛ أي: الخزنة لأهل النار متبرِّئين من الدعاء لهم والشفاعة: {فادعوا}: أنتم، ولكن هذا الدعاء هل يغني شيئاً أم لا؟ قال تعالى: {وما دعاءُ الكافرين إلاَّ في ضلال}؛ أي: باطل لاغٍ؛ لأنَّ الكفر محبطٌ لجميع الأعمال صادٌّ لإجابة الدعاء.
[50] ﴿قَالُوْۤا ﴾ تو جہنم کے داروغے ان کو زجروتوبیخ کرتے ہوئے اور ان پر واضح کرتے ہوئے کہ سفارش اور چیخ و پکار ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی، یہ کہیں گے: ﴿اَوَلَمْ تَكُ تَاْتِیْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’کیا تمھارے پاس تمھارے رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے؟‘‘ ان دلائل سے تم پر حق اور صراط مستقیم واضح ہوتا اور تمھیں یہ معلوم ہوتا کہ کون سی چیز تمھیں اللہ کے قریب کرتی ہے اور کون سی چیز اللہ سے دور کرتی ہے۔ ﴿قَالُوْا بَلٰى ﴾ ’’وہ کہیں گے، کیوں نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے رسول دلائل و معجزات کے ساتھ ہماری طرف معبوث ہوئے اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی مگر ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس سے عناد رکھا۔ ﴿قَالُوْا ﴾ جہنم کے داروغے جہنمیوں سے، ان کی پکار اور سفارش سے بیزار ہو کر کہیں گے: ﴿فَادْعُوْا ﴾ تم اللہ کو پکارو، مگر کیا یہ پکار تمھیں کوئی فائدہ دے گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ﴿وَمَا دُعٰٓؤُا الْ٘كٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰ٘لٍ ﴾ یعنی ان کی دعا اور پکار اکارت جائے گی کیونکہ کفر تمام اعمال کو ساقط کر دیتا ہے اور دعا کی قبولیت کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔
آیت: 51 - 52 #
{إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (51) يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (52)}.
بلاشبہ ہم البتہ مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے زندگانی ٔدنیا میں اور اس دن کہ (جب) کھڑے ہوں گے گواہ (51) اس دن نہیں نفع دے گی ظالموں کو معذرت ان کی اور ان کے لیے لعنت ہو گی اور ان کے لیے برا گھر ہوگا (52)
#
{51} لما ذَكَرَ عقوبةَ آل فرعون في الدنيا والبرزخ ويوم القيامة، وذَكَرَ حالةَ أهل النار الفظيعة الذين نابذوا رسله وحاربوهم؛ قال: {إنَّا لننصرُ رُسُلَنا والذين آمنوا في الحياة الدُّنيا}؛ أي: بالحجة والبرهان والنصر، وفي الآخرة بالحكم ولأتباعهم بالثواب ولمن حاربهم بشدَّة العذاب.
[ً51] جب اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے لیے دنیا، برزخ اور قیامت کے روز کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اہل جہنم کے، جو اس کے رسولوں سے عناد رکھتے اور ان کے خلاف جنگ کرتے تھے، برے حال کا ذکر کیا، تو فرمایا: ﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’ہم یقینا اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم دنیا میں دلیل، برہان اور نصرت کے ذریعے سے اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾ ’’اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ اور آخرت میں ان کے حق میں فیصلے کے ذریعے سے ان کی مدد کریں گے، ان کے متبعین کو ثواب سے نوازیں گے اور ان لوگوں کو سخت عذاب دیں گے جنھوں نے اپنے رسولوں کے خلاف جنگ کی۔
#
{52} {يوم لا ينفعُ الظالمين معذِرَتُهم}: حين يعتذرون، {ولهم اللعنةُ ولهم سوءُ الدار}؛ أي: الدار السيئة التي تَسوء نازليها.
[52] ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَ٘عُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُهُمْ ﴾ ’’(جب وہ معذرت کریں گے تو) ظالموں کی معذرت اس دن انھیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔‘‘ ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ ﴾ ’’اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔‘‘ یعنی بہت برا گھر جو وہاں داخل ہونے والوں کو بہت تکلیف دے گا۔
آیت: 53 - 55 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ (53) هُدًى وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (54) فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ (55)}.
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو ہدایت اوروارث کیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا (53) برائے ہدایت اور نصیحت ارباب عقل کے لیے (54) پس صبر کیجیے! بلاشبہ وعدہ اللہ کا سچا ہے اور معافی مانگیے اپنے گناہ کی اور پاکیزگی بیان کیجیے اپنے رب کی حمد کے ساتھ شام کو اور صبح کو (55)
#
{53 ـ 54} لما ذكر ما جرى لموسى وفرعون وما آل إليه أمرُ فرعون وجنودِهِ، ثم ذكر الحكم العامَّ الشامل له ولأهل النار؛ ذكر أنه أعطى موسى {الهدى}؛ أي: الآيات والعلم الذي يهتدي به المهتدون، {وأوْرَثْنا بني إسرائيل الكتابَ}؛ أي: جعلناه متوارثاً بينهم من قرن إلى آخر، وهو التوراة، وذلك الكتاب مشتملٌ على الهدى، الذي هو العلم بالأحكام الشرعيَّة وغيرها، وعلى التذكُّر للخير بالترغيب فيه وعن الشرِّ بالترهيب عنه، وليس ذلك لكلِّ أحدٍ، وإنما هو {لأولي الألباب}.
[53، 54] موسیٰu اور فرعون کے مابین جو کچھ واقع ہوا نیز فرعون اور اس کے لشکروں کا جو انجام ہوا اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا، پھر وہ حکم عام بیان کیا جو اس کو اور تمام جہنمیوں کو شامل ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰu کو ﴿الْهُدٰؔى ﴾ ہدایت سے سرفراز فرمایا، یعنی آیات اور علم سے نوازا جن سے راہنمائی حاصل کرنے والے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَاَوْرَثْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْكِتٰبَ﴾ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا‘‘ یعنی ہم نے نسل در نسل ان کو کتاب کا وارث بنایا اور اس سے مراد تورات ہے۔ یہ کتاب ہدایت پر مشتمل ہے اور ہدایت سے مراد احکام شرعیہ کا علم ہے اور اس کے اندر بھلائی کی یاد دہانی، اس کی ترغیب اور برائی سے ترہیب و تخویف ہے اور یہ چیز ہر ایک کو عطا نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف ﴿لِاُولِی الْاَلْبَابِ ﴾ عقل مندوں کو نصیب ہوتی ہے۔
#
{55} {فاصبرْ}: يا أيها الرسولُ كما صبر مَنْ قبلك من أولي العزم المرسلين، {إنَّ وعدَ الله حقٌّ}؛ أي: ليس مشكوكاً فيه أو فيه ريبٌ أو كذبٌ حتى يعسر عليك الصبر، وإنما هو الحقُّ المحض والهدى الصِّرف الذي يصبر عليه الصابرون ويجتهد في التمسُّك به أهل البصائر؛ فقوله: {إنَّ وعد الله حقٌّ}: من الأسباب التي تحثُّ على الصبر على طاعة الله وعن ما يكره الله، {واستغفرْ لذنِبكَ}: المانع لك من تحصيل فوزِك وسعادتِك، فأمره بالصبر الذي فيه يحصُلُ المحبوب، وبالاستغفار الذي فيه دفع المحذور، وبالتسبيح بحمد الله تعالى، خصوصاً {بالعشيِّ والإبكارِ}: اللذين هما أفضل الأوقات، وفيهما من الأوراد والوظائف الواجبة والمستحبَّة ما فيهما؛ لأنَّ في ذلك عوناً على جميع الأمور.
[55] ﴿فَاصْبِرْ ﴾ ’’(اے رسول!) صبر کیجیے‘‘ جس طرح آپ سے پہلے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔ ﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ’’بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔‘‘ یعنی اللہ کے وعدے میں کوئی شک وشبہ ہے نہ اس میں کسی جھوٹ کا شائبہ ہے جس کی بنا پر صبر کرنا آپ کے لیے مشکل ہو، یہ تو خالص حق اور ہدایت ہے جس کے لیے صبر کرنے والے صبر کرتے ہیں اور اہل بصیرت اس سے تمسّک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ان اسباب کے زمرے میں آتا ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ امور سے رکنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ﴿وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ ﴾ ’’اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔‘‘ یعنی جو آپ کے لیے فوزوفلاح اور سعادت کے حصول سے مانع ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا جو محبوب و مرغوب کے حصول کا ذریعہ ہے اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا جو مکروہ کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا۔ خاص طور پر ﴿بِالْ٘عَشِیِّ وَالْاِبْكَارِ ﴾ ’’صبح و شام کو‘‘ جو بہترین اوقات ہیں اور یہی اوقات واجب اور مستحب اذکارو وظائف کے اوقات ہیں کیونکہ ان اوقات میں تمام امور کی تعمیل میں مدد ملتی ہے۔
آیت: 56 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (56)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل کے جو آئی ہو ان کے پاس، نہیں ہے ان کے سینوں میں مگر بڑائی (کا خبط) نہیں ہیں وہ پہنچنے والے اس تک، پس پناہ مانگیے اللہ سے، بلاشبہ وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے (56)
#
{56} يخبر تعالى أنَّ من جادل في آياته لِيُبْطِلَها بالباطل بغير بيِّنةٍ من أمره ولا حجَّةٍ أنَّ هذا صادرٌ من كبرٍ في صدورهم على الحقِّ وعلى مَنْ جاء به؛ يريدون الاستعلاء عليه بما معهم من الباطل؛ فهذا قصدهم ومرادُهم، ولكنَّ هذا لا يتمُّ لهم، وليسوا ببالغيه؛ فهذا نصٌّ صريح وبشارةٌ بأن كل من جادل الحقَّ أنه مغلوبٌ، وكل من تكبر عليه فهو في نهايته ذليلٌ، {فاستعذْ}؛ أي: اعتصم والجأ {بالله}: ولم يذكرْ ما يستعيذ منه إرادةً للعموم؛ أي: استعذْ بالله من الكبر الذي يوجب التكبُّر على الحقِّ، واستعذ بالله من شياطين الإنس والجنِّ، واستعذ بالله من جميع الشرور. {إنَّه هو السميع}: لجميع الأصوات على اختلافها. {البصيرُ}: بجميع المرئياتِ بأيِّ محلٍّ وموضع وزمان كانت.
[56] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو باطل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی آیات کا ابطال کرنے کے لیے کسی دلیل اور حجت کے بغیر جھگڑتے ہیں، ان کا یہ جدال، حق اور اس کے لانے والے کے بارے میں، ان کے سینوں میں موجود تکبر کی وجہ سے صادر ہوتا ہے۔ وہ اپنے باطل نظریات کے ذریعے سے حق پر غالب آنا چاہتے ہیں اور یہی ان کا مقصد اور یہی ان کی مراد ہےمگر ان کایہ مقصد کبھی حاصل نہ ہو گا اور ان کی یہ مراد کبھی پوری نہ ہو گی۔ یہ صریح نص اور واضح بشارت ہے کہ جو کوئی حق کے خلاف بحث و جدال کرتا ہے وہ مغلوب ہوتا ہے اور جو حق کے خلاف تکبر کا رویہ رکھتا ہے وہ نہایت ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ﴾ ’’ لہٰذا آپ (ان کی شرارتوں سے) اللہ کی پناہ مانگیے‘‘ یعنی اللہ کی پناہ طلب کریں۔ یہاں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ آپ کس چیز سے پناہ طلب کریں؟ درحقیقت اس سے عموم مراد ہے، یعنی کبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں جو حق کے مقابلے میں تکبر کا موجب ہے۔ شیاطین جن و انس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔ ﴿اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ ﴾ وہ تمام آوازوں کو ان کے اختلاف کے باوجود سنتا ہے ﴿الْبَصِیْرُ﴾ تمام مرئیات، خواہ وہ کسی بھی زمان و مکان میں ہوں، اس کی نظر میں ہیں۔
آیت: 57 - 59 #
{لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (57) وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ (58) إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (59)}.
البتہ پیدائش آسمانوں اور زمین کی زیادہ بڑی (بات) ہے لوگوں کی پیدائش سے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (57) اور نہیں برابر ہوتاہے اندھا اوردیکھنے والا اور وہ لوگ جوایمان لائے اورعمل کیے انھوں نے نیک اور نہ برائی کرنے والا، بہت تھوڑی ہی تم نصیحت پکڑتے ہو (58) بلاشبہ قیامت البتہ آنے والی ہے، نہیں ہے کوئی شک اس میں، لیکن اکثر لوگ نہیں ایمان لاتے (59)
#
{57} يخبر تعالى بما تقرَّر في العقول أنَّ {خلق السماواتِ والأرض} على عظمهما وسعتهما أعظمُ و {أكبرُ من خلق الناس}؛ فإنَّ الناس بالنسبة إلى خلقِ السماوات والأرض من أصغر ما يكون؛ فالذي خَلَقَ الأجرام العظيمة وأتقنها قادرٌ على إعادة الناس بعد موتهم من باب أولى وأحرى، وهذا أحد الأدلَّة العقليَّة الدالَّة على البعث دلالة قاطعةً بمجرَّد نظر العاقل إليها، يستدلُّ بها استدلالاً لا يقبل الشكَّ والشُّبهة بوقوع ما أخبرت به الرسل من البعث؛ وليس كلُّ أحد يجعل فكره لذلك، ويقبل بتدبُّرِه، ولهذا قال: {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمونَ}: ولذلك لا يعتبرون بذلك، ولا يجعلونه منهم على بالٍ.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو عقلا ثابت ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق، ان کی عظمت و وسعت کے ساتھ، انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا کرشمہ ہے۔ کیونکہ انسان آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی نسبت سے بہت معمولی ہے۔ پس وہ ہستی جس نے اتنے بڑے بڑے اجرام فلکی کو نہایت مہارت سے تخلیق کیا ہے اس کا لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا، زیادہ اولیٰ ہے۔ یہ عقل مند کے لیے حیات بعدالموت پر قطعی اور عقلی دلیل ہے، جو حیات بعدالموت کے بارے میں کسی شک و شبہ کو قبول نہیں کرتی، جس کے وقوع کی انبیاء و مرسلین نے خبر دی ہے، مگر ہر شخص اس میں غوروفکر نہیں کر سکتا۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے وہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں نہ اس کی پروا کرتے ہیں۔
#
{58} ثم قال تعالى: {وما يستوي الأعمى والبصيرُ والذين آمنوا وعَمِلوا الصالحات ولا المسيءُ}؛ أي: كما لا يستوي الأعمى والبصير؛ كذلك لا يستوي مَن آمنَ بالله وعمل الصالحات ومَن كان مستكبراً على عبادة ربِّه، مقدِماً على معاصيه، ساعياً في مساخطه، {قليلاً ما تتذكَّرونَ}؛ أي: تذكُّركم قليلٌ، وإلاَّ؛ فلو تذكَّرتم مراتبَ الأمور ومنازل الخير والشرِّ والفرق بين الأبرار والفجار، وكانت لكم هِمَّةٌ عليَّةٌ؛ لآثرتم النافع على الضارِّ، والهدى على الضلال، والسعادة الدائمة على الدنيا الفانية.
[58] ﴿وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ وَلَا الْ٘مُسِیْٓءُ ﴾ ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہوسکتا اور (اسی طرح) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کیے ،وہ اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘ یعنی جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے نیک لوگ اور وہ لوگ برابر نہیں ہو سکتے جو تکبر سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتے، اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کی ناراضی کے موجب کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ﴿قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’تم کم ہی نصیحت پکڑتے ہو‘‘ ورنہ اگر تم معاملات کے مراتب، خیروشر کے مقامات اور نیکوکاروں اور فاسقوں کے مابین فرق سے نصیحت پکڑتے اور تم اس کا عزم و ارادہ کرتے تو تم ضرر رساں پر نفع رساں کو، گمراہی پر ہدایت کو اور فانی دنیا پر ہمیشہ رہنے والی سعادت کو ترجیح دیتے۔
#
{59} {إنَّ الساعة لآتيةٌ لا ريبَ فيها}: قد أخبرت بها الرسل الذين هم أصدق الخلق، ونطقت بها الكتب السماويَّة التي جميع أخبارها أعلى مراتب الصدق، وقامت عليها الشواهدُ المرئيَّة والآيات الأفقيَّة. {ولكنَّ أكثر الناس لا يؤمنونَ} مع هذه الأمور التي توجب كمال التصديق والإذعان.
[59] ﴿اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا ﴾ ’’بلاشبہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘ اس کے بارے میں انبیاء و مرسلین خبر دے چکے اور وہ سب سے زیادہ سچے لوگ ہیں اور اس کے بارے میں تمام کتب الٰہیہ نے بھی خبر دی ہے جن کی دی ہوئی تمام خبریں صدق کے بلند ترین درجے کی حامل ہیں، جن کی شہادت، شواہد مرئیہ اور آیات افقیہ دیتے ہیں۔ ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ ان مذکورہ بالا امور کے بارے میں جو کامل تصدیق اور اطاعت کے موجب ہیں، اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
آیت: 60 #
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (60)}.
اورکہا تمھارے رب نے، پکارو تم مجھے میں قبول کروں گا تمھاری پکار، بلاشبہ وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری عبادت سے، عنقریب وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل ہو کر (60)
#
{60} هذا من لطفه بعباده ونعمته العظيمة؛ حيث دعاهم إلى ما فيه صلاح دينهم ودنياهم وأمرهم بدعائه دعاء العبادة ودعاء المسألة ووعدهم أن يستجيبَ لهم، وتوعَّد من استكبر عنها، فقال: {إنَّ الذين يستكْبِرونَ عن عبادتي سَيَدْخُلونَ جهنَّمَ داخِرين}؛ أي: ذليلين حقيرين، يجتمعُ عليهم العذابُ والإهانة جزاءً على استكبارهم.
[60] یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی عظیم نعمت ہے کہ اس نے انھیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس میں ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے اور انھیں حکم دیا کہ وہ اس سے دعا کریں... یعنی دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ… اور ان سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کی دعا قبول فرمائے گا اور ان متکبرین کو وعید سنائی ہے جو تکبر کی بنا پر اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ ﴾ ’’جو لوگ میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں وہ جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔‘‘ یعنی ان کے تکبر کی پاداش میں، ان کے لیے عذاب اور رسوائی کو اکٹھا کر دیا جائے گا۔
آیت: 61 - 65 #
{اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (61) ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (62) كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (63) اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (64) هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (65)}.
اللہ وہ ہے جس نے بنایا تمھارے لیے رات کو تاکہ تم آرام کرو اس میں اور (بنایا) دن کو دکھلانے والا، بلاشبہ اللہ البتہ بڑے فضل والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ نہیں شکر کرتے (61) یہی اللہ رب ہے تمھارا، پیدا کرنے والا ہرچیز کا، نہیں کوئی معبود مگر وہی، پس کہاں تم پھیرے جاتے ہو؟ (62) اسی طرح پھیرے گئے وہ لوگ جو تھے اللہ کی آیتوں کا انکارکرتے (63) اللہ وہ ہے جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت اور اس نے صورتیں بنائیں تمھاری تو اچھی بنائیں صورتیں تمھاری اور اس نے رزق دیا تمھیں پاکیزہ چیزوں سے، یہی اللہ رب ہے تمھارا، پس بہت بابرکت ہے اللہ رب جہانوں کا (64) وہ زندہ ہے، نہیں کوئی معبود مگروہی، پس پکارو تم اسی کو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے بندگی کو، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب ہے جہانوں کا (65)
ان آیات کریمہ میں غوروفکر کیجیے، جو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اس کے لامحدود فضل و کرم، اس کے لیے وجوب شکر، اس کی قدت کاملہ، اس کی عظیم طاقت، اس کے وسیع اقتدار، تمام اشیاء کو اس کے تخلیق کرنے، اس کی حیات کاملہ اور اس کے تمام صفات کاملہ اور افعال حسنہ سے موصوف ہونے کی بنا پر ہر قسم کی حمدوثنا سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس کی کامل ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کے متفرد ہونے پر دلالت کرتی ہیں نیز اس عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام تدابیر، ماضی، حال اور مستقبل کے اوقات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ہستی کو کوئی قدرت و اختیار نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے اس کے سوا جس طرح کوئی ہستی ربوبیت کی مستحق نہیں اسی طرح عبودیت کی مستحق نہیں۔ یہ حقیقت اس امر کی موجب ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کے خوف اور اس پر امید سے لبریز ہوں۔ یہ دو امور ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق فرمایا… اور وہ ہیں معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی… یہی دو امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقصد مقرر فرمایا ہے۔ یہی دو امور ہر قسم کی بھلائی، خیروفلاح، دینی اور دنیاوی سعادت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، یہی دو امور اللہ کریم کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے بہترین عطیہ ہیں اور یہی دو امور علی الاطلاق لذید ترین چیزیں ہیں۔ اگر بندہ ان دو چیزوں سے محروم ہو جائے تو وہ ہر خیر سے محروم ہو کر ہر شر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی معرفت و محبت سے لبریز کر دے، ہماری باطنی اور ظاہری تمام حرکات صرف اس کی رضا کے لیے اور صرف اسی کے حکم کے تابع ہوں، کوئی سوال اس کے لیے پورا کرنا مشکل ہے نہ اس کی کوئی عطا اسے لاچار کر سکتی ہے۔
#
{61} فقوله تعالى: {الله الذي جعل لكم الليل}؛ أي: لأجلكم جعل الله الليل مظلماً، {لتسكنوا فيه}: من حركاتكم التي لو استمرَّت لضرَّت؛ فتأوون إلى فرشكم، ويلقي الله عليكم النوم الذي يستريحُ به القلبُ والبدنُ، وهو من ضروريات الآدميِّ، لا يعيش بدونه، ويسكن فيه أيضاً كلُّ حبيب إلى حبيبه، ويجتمع الفكر، وتقلُّ الشواغل. {و} جعل تعالى {النهار مبصراً}: منيراً بالشمس المستمرَّة في الفلك، فتقومون من فرشكم إلى أشغالِكم الدينيَّة والدنيويَّة؛ هذا لذكرِهِ وقراءته، وهذا لصلاته، وهذا لطلبه العلم ودراستِهِ، وهذا لبيعه وشرائه، وهذا لبنائه أو حدادته أو نحوها من الصناعات، وهذا لسفرِهِ برًّا وبحراً، وهذا لفلاحته، وهذا لتصليح حيواناته. {إنَّ الله لَذو فضل}؛ أي: عظيم كما يدلُّ عليه التنكيرُ {على الناس}: حيث أنعم عليهم بهذه النعم وغيرها، وصرف عنهم النقم، وهذا يوجبُ عليهم تمام شكره وذكره. {ولكنَّ أكثر الناس لا يشكرونَ}: بسبب جهلهم وظلمهم. {وقليلٌ من عبادي الشكورُ}، الذين يقرُّون بنعمة ربِّهم ويخضعون لله ويحبُّونه، ويصرفونها في طاعة مولاهم ورضاه.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ ﴾ ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھاری خاطر رات کو سیاہ بنایا ﴿لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ ﴾ ’’تاکہ تم اس میں آرام کرسکو‘‘ تاکہ تم اپنی حرکات سے سکون پاؤ اگر یہ حرکات دائمی ہوتیں تو تمھیں نقصان پہنچتا۔ اور سکون کے حصول کے لیے تم اپنے بستروں میں پناہ لیتے ہو، اللہ تعالیٰ تم پر نیند طاری کر دیتا ہے جس سے انسان کا قلب و بدن آرام پاتے ہیں۔ نیند انسانی ضروریات کا حصہ ہے انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور رات کے وقت ہر حبیب اپنے حبیب کے پاس آرام کرتا ہے، فکر مجتمع ہوتی ہے اور مشاغل کم ہو جاتے ہیں۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ بنایا اللہ تعالیٰ نے ﴿النَّهَارَ مُبْصِرًا ﴾ ’’دن کو دکھلانے والا‘‘ یعنی روشنی والا جو اپنے مدار میں رواں دواں سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے۔ اور تم اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے روز مرہ کے دینی اور دنیاوی امور میں مشغول ہوجاتے ہو، کوئی ذکر اور قراء ت قرآن میں مشغول ہے، کوئی نماز پڑھ رہا ہے، کوئی طلب علم میں مصروف ہے اور کوئی خریدوفروخت اور کاروبار کر رہا ہے۔ کوئی معمار ہے تو کوئی لوہار وغیرہ اپنے کام اور صنعت میں مصروف ہے۔ کوئی بری یا بحری سفر کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی کے کاموں میں لگ گیا ہے تو کوئی اپنے جانوروں اور مویشیوں کے بندوبست میں مصروف ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ ﴾ ’’بے شک اللہ فضل والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ عظیم فضل و کرم کا مالک ہے جیسا کہ اس پر (فَضْلٍ) کی تنکیر دلالت کرتی ہے۔ ﴿عَلَى النَّاسِ ﴾ ’’تمام لوگوں پر‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان مذکورہ اور دیگر نعمتوں سے نوازا اور ان سے مصائب کو دور کیا اور یہ چیز ان پر کامل شکر اور کامل ذکر کو واجب کرتی ہے۔ ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ مگر اکثر لوگ اپنے ظلم اور جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتے جیسا کہ فرمایا: ﴿وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ ﴾ (السبا: 34؍13) ’’میرے بندوں میں کم ہی لوگ شکر گزار ہوتے ہیں۔‘‘ جو اپنے رب کی نعمت کا اقرار کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں، ان نعمتوں کو اپنے آقا کی رضا کے مطابق استعمال کرتے ہوں۔
#
{62} {ذلكم}: الذي فعلَ ما فعلَ {الله ربُّكم}؛ أي: المنفرد بالإلهية والمنفرد بالرُّبوبية؛ لأنَّ انفراده بهذه النعم من ربوبيَّته، وإيجابها للشكر من ألوهيَّته. {خالقُ كلِّ شيءٍ}: تقريرُ لربوبيته ، {لا إله إلا هو}: تقريرٌ أنَّه المستحقُّ للعبادة وحده لا شريكَ له. ثم صرح بالأمر بعبادتِهِ، فقال: {فأنَّى تُؤفَكونَ}؛ أي: كيف تُصرفون عن عبادتِهِ وحدَه لا شريك له بعدما أبانَ لكم الدليلَ، وأنار لكم السبيل.
[62] ﴿ذٰلِكُمُ ﴾ ’’یہ ہے‘‘ جس نے یہ سب کچھ کیا ﴿اللّٰهُ رَبُّكُمْ ﴾ ’’اللہ تمھارا رب‘‘ جو اپنی الوہیت اور ربوبیت میں منفرد ہے اور ان نعمتوں میں اس کا منفرد ہونا اس کی ربوبیت میں سے ہے اور ان نعمتوں پر شکر کا واجب کرنا اس کی الوہیت میں سے ہے۔ ﴿خَالِـقُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ یہ اس کی ربوبیت کا اثبات ہے ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔‘‘ یہ جملہ اس بات کو متحقق کرتا ہے کہ وہ اکیلا ہی عبودیت کا مستحق ہے اس کا کوئی شریک نہیں، پھر نہایت صراحت کے ساتھ اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ ﴾ ’’ پھر تم کدھر بہکے جارہے ہو۔‘‘ یعنی تم اس اکیلے اللہ کی عبادت سے کیونکر گریز کر رہے ہو، حالانکہ اس نے تم پر دلیل کو واضح اور تمھارے سامنے راہِ راست کو روشن کر دیا ہے؟
#
{63} {كذلك يُؤْفَكُ الذين كانوا بآيات الله يَجْحَدونَ}؛ أي: عقوبةً على جحدهم لأيات الله وتعدِّيهم على رسله؛ صُرِفوا عن التوحيد والإخلاص؛ كما قال تعالى: {وإذا ما أنزلت سورةٌ نَظَرَ بعضهم إلى بعض هل يراكم من أحدٍ ثم انصرفوا صَرَفَ الله قلوبَهم بأنَّهم قومٌ لا يفقهون}.
[63] ﴿كَذٰلِكَ یُؤْفَكُ الَّذِیْنَ كَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح وہ لوگ (بھی) بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات سے انکار کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ ان کے آیات الٰہی کے انکار اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ان کے ظلم و تعدی کی سزا ہے کہ ان کو توحید و اخلاص سے پھیر دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّ٘ظَ٘رَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ١ؕ هَلْ یَرٰؔىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْ٘صَرَفُوْا١ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُ٘لُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ ﴾ (التوبۃ: 9؍127) ’’جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ آیا تمھیں کسی نے دیکھا تو نہیں، پھر وہ لوٹ جاتے ہیں، اللہ نے بھی ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔‘‘
#
{64} {الله الذي جَعَلَ لكم الأرضَ قراراً}؛ أي: قارَّةً ساكنةً مهيأةً لكلِّ مصالحكم، تتمكَّنون من حرثها وغرسها والبناء عليها والسفر والإقامة فيها، {والسماء بناء}: سقفاً للأرض الذي أنتم فيها، قد جعل الله فيها ما تنتفعون به من الأنوار والعلامات، التي يُهتدى بها في ظلمات البرِّ والبحر، {وصوَّركم فأحسن صُوَرَكم}: فليس في جنس الحيوانات أحسنُ صورةً من بني آدم؛ كما قال تعالى: {لقد خَلَقْنا الإنسان في أحسن تقويم}، وإذا أردت أن تعرفَ حسنَ الآدميِّ وكمال حكمةِ الله تعالى فيه؛ فانْظُرْ إليه عضواً عضواً؛ هل تجدُ عضواً من أعضائه يليقُ به ويصلحُ أن يكون في غير محلِّه، وانظر أيضاً إلى الميل الذي في القلوب بعضهم لبعض؛ هل تجدُ ذلك في غير الآدميِّين، وانظر إلى ما خصَّه الله به من العقل والإيمان والمحبَّة والمعرفة التي هي أحسن الأخلاق المناسبة لأجمل الصور. {ورزَقَكُم من الطيباتِ}: وهذا شاملٌ لكلِّ طيِّب من مأكل ومشربٍ ومنكح وملبسٍ ومنظرٍ ومسمع وغير ذلك من الطيِّبات التي يسَّرها الله لعبادِهِ ويسَّر لهم أسبابها ومنعهم من الخبائث التي تضادُّها وتضرُّ أبدانهم وقلوبَهم وأديانَهم. {ذلكم}: الذي دبَّر الأمور وأنعم عليكم بهذه النعم، {اللهُ ربُّكم فتبارَكَ الله ربُّ العالمين}؛ أي: تعاظم وكَثُر خيرُه وإحسانُه، المربِّي جميع العالمين بنعمه.
[64] ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَ٘رَارًا ﴾ ’’اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے زمین کو ساکن بنایا اور زمین ہی سے تمھیں تمھارے تمام مصالح مہیا کیے۔ تم زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہو، باغات لگاتے ہو، اس پر عمارتیں تعمیر کرتے ہو، اس کے اندر سفر اور اقامت کرتے ہو۔ ﴿وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً ﴾ ’’اور آسمان کو چھت‘‘ یعنی آسمان کو زمین کے لیے بمنزلہ چھت بنایا جس کے نیچے تم چلتے پھرتے ہو، اس کی روشنیوں اور علامات سے فائدہ اٹھاتے ہو جن کے ذریعے سے بحروبر کی تاریکیوں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ﴿وَّصَوَّرَؔكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَؔكُمْ ﴾ ’’اس نے تمھاری شکل بنائی اور تمھاری شکلوں کو خوبصورت بنایا۔‘‘ پس تمام جانداروں میں بنی آدم سے بڑھ کر کوئی خوبصورت نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ﴾ (التین: 95؍4) ’’ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ اگر آپ انسان کی خوب صورتی جانچنا اور اللہ عزوجل کی حکمت کی معرفت چاہتے ہیں تو انسان کے عضو عضو پر غور کریں کیا آپ کو کوئی ایسا عضو نظر آتا ہے، جو جس کام کے لائق ہے، اس کے علاوہ کسی اور جگہ موجود ہو؟ پھر آپ اس میلان پر غور کیجیے جو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ہوتا ہے کیا آپ کو یہ میلان آدمیوں کے سوا دوسرے جانداروں میں ملے گا؟ آپ اس بات پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، ایمان، محبت اور معرفت سے مختص کیا ہے جو بہترین اختلاق میں اور خوبصورت ترین صورت سے مناسبت رکھتے ہیں۔ ﴿وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ ﴾ ’’اور تمھیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں۔‘‘ یہ ہر قسم کی پاک ماکولات، مشروبات منکوحات، ملبوسات، مسموعات اور مناظر وغیرہ کو شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مہیا کر رکھا ہے اور ان کے حصول کے اسباب کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ناپاک چیزوں سے روکا ہے جو ان مذکورہ طیبات کی متضاد ہیں جو قلب و بدن اور دین کو نقصان دیتی ہیں۔ ﴿ذٰلِكُمُ ﴾ ’’یہ ہے‘‘ وہ ہستی جس نے ان تمام امور کی تدبیر کی ہے اور تمھیں ان نعمتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ ﴿اللّٰهُ رَبُّكُمْ ﴾ ’’اللہ تمھارا رب ہے‘‘ ﴿فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’پس تمام جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے۔‘‘ جس کی بھلائی اور احسانات بہت زیادہ ہیں جو تمام جہانوں کی اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تربیت کرتا ہے۔
#
{65} {هو الحيُّ}: الذي له الحياة الكاملة التامةُ المستلزمةُ لما تستلزمه من صفاتِهِ الذاتيَّة التي لا تتمُّ حياته إلاَّ بها؛ كالسمع والبصر والقدرة والعلم والكلام وغير ذلك من صفات كمالِهِ ونعوتِ جلالِهِ. {لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا معبود بحقٍّ إلاَّ وجهه الكريم، {فادْعوه}: وهذا شاملٌ لدعاء العبادة ودعاء المسألة {مخلصينَ له الدينَ}؛ أي: اقصدوا بكلِّ عبادة ودعاءٍ وعمل وجهَ الله تعالى؛ فإنَّ الإخلاص هو المأمور به؛ كما قال تعالى: {وما أمِروا إلاَّ لِيَعْبُدوا الله مخلصينَ له الدينَ حنفاء}. {الحمدُ لله ربِّ العالمينَ}؛ أي: جميع المحامد والمدائح والثناء؛ بالقول كنطق الخلق بذكره، والفعل كعبادتِهم له؛ كل ذلك لله تعالى وحده لا شريك له؛ لكماله في أوصافه وأفعاله وتمام نعمِهِ.
[65] ﴿هُوَ الْحَیُّ ﴾ ’’وہی زندہ ہے‘‘ جو حیات کامل کا مالک ہے۔ یہ حیات صفات ذاتیہ کو مستلزم ہے، جس کے بغیر حیات مکمل نہیں ہوتی، مثلاً: سمع، بصر، قدرت، علم، کلام اور دیگر صفاتِ کمال اور نعوتِ جلال۔ ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﴾ ’’اس کے سواکوئی الٰہ نہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ ﴿فَادْعُوْهُ ﴾ ’’پس تم اسی کو پکارو۔‘‘ یہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں کو شامل ہے۔ ﴿مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ ’’اسی لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔‘‘ یعنی اپنی ہر عبادت، ہر دعا اور ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھو کیونکہ اخلاص ہی وہ چیز ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۙ۬ حُنَفَآءَ ﴾ (البینۃ: 98؍5) ’’ان کو صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر دین کو صرف اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔‘‘ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ یعنی تمام قولی محامد اور مدح و ثنا ، مثلاً: مخلوق کا اس کا ذکر کرتے ہوئے کلام کرنا، اور فعلی محامد اور مدح و ثنا جیسے اس کی عبادت کرنا یہ سب اللہ واحد کے لیے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے اوصاف و افعال اور مکمل نعمتیں عطا کرنے میں کامل ہے۔
آیت: 66 - 68 #
{قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (66) هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (67) هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (68)}.
کہہ دیجیے:بے شک میں تو روک دیا گیا ہوں اس سے کہ میں عبادت کروں ان کی جن کو تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے جبکہ آ گئیں میرے پاس واضح دلیلیں میرے رب کی طرف سے اور حکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ فرمان بردار رہوں میں واسطے رب العالمین کے (66) وہی ہے جس نے پیدا کیا ہے تم کو مٹی سے ، پھر نطفے سے ، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر نکالتا ہے وہ تم کو بچہ بنا کر، پھر تاکہ پہنچو تم اپنی جوانی(کی قوتوں)کو، پھر تاکہ ہو جاؤ تم بوڑھے، اور تم میں سے کچھ وہ ہیں جو فوت کر دیے جاتے ہیں اس سے پہلے ہی اورتاکہ پہنچو تم ایک مدت معین کو اور تاکہ تم عقل پکڑو (67) وہ (اللہ) وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اورمارتا ہے، پس جب وہ فیصلہ کرلیتا ہے کسی کام تو وہ صرف (یہ)کہتا ہے اس کو، ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے (68)
#
{66} لما ذَكَرَ الأمر بإخلاص العبادة لله وحده، وذَكَرَ الأدلَّة على ذلك والبينات؛ صرَّح بالنهي عن عبادة ما سواه، فقال: {قل} يا أيُّها النبيُّ، {إنِّي نهيتُ أن أعبدَ الذين تدعونَ من دونِ الله}: من الأوثان والأصنام، وكلُّ ما عُبِدَ من دون الله، ولستُ على شكٍّ من أمري، بل على يقينٍ وبصيرةٍ، ولهذا قال: {لَمَّا جاءنِيَ البيناتُ من ربِّي وأمرتُ أن أسلم لربِّ العالمين}: بقلبي ولساني وجوارحي؛ بحيث تكون منقادةً لطاعتِهِ مستسلمةً لأمره، وهذا أعظم مأمورٍ به على الإطلاق؛ كما أن النهي عن عبادة ما سواه أعظمُ منهيٍّ عنه على الإطلاق.
[66] اللہ تبارک وتعالیٰ نے صرف اپنے لیے عبادت کو خالص کرنے کا حکم دیا اور اس کے دلائل و براہین بیان فرمانے کے بعد نہایت صراحت کے ساتھ غیراللہ کی عبادت سے روکا ، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ ﴾ اے نبی! کہہ دیجیے: ﴿اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنھیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔‘‘ مجھے تمام اصنام، بتوں اور ہر اس چیز کی عبادت سے روکا گیا ہے جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ مجھے اپنے موقف پر ذرہ بھر شک نہیں، بلکہ مجھے اس کی حقانیت پر بصیرت کے ساتھ پورا یقین ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿لَمَّا جَآءَؔنِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْ١ٞ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’جبکہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس واضح دلائل بھی آچکے ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار بن کر رہوں۔‘‘ مجھے اپنے دل، زبان، اور جوارح کے ساتھ خالق کائنات کے سامنے سرافگندہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے، کہ یہ تمام اعضاء اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔ یہ علی الاطلاق سب سے ’’بڑا حکم‘‘ ہے۔ اسی طرح غیراللہ کی عبادت سے ’’نہی‘‘ علی الاطلاق سب سے بڑی نہی ہے۔
#
{67} ثم قرَّر هذا التوحيدَ بأنه الخالق لكم والمطوِّر لخلقتِكم؛ فكما خلقكم وحدَه؛ فاعبدوه وحدَه، فقال: {هو الذي خَلَقَكم من ترابٍ}: وذلك بخلقة أصلكم وأبيكم آدم عليه السلام، {ثم من نطفةٍ}: وهذا ابتداءُ خلق سائر النوع الإنسانيِّ ما دام في بطن أمِّه، فنبَّه بالابتداء على بقيَّة الأطوار من العلقة فالمضغة فالعظام فنفخ الروح، {ثم يخرِجُكم طفلاً ثم}: هكذا تنتقلون في الخلقة الإلهية حتى {تبلغوا أشدَّكم}: من قوة العقل والبدن وجميع قواه الظاهرة والباطنة، {ثم لِتكونوا شيوخاً ومنكم مَنْ يُتَوَفَّى من قبلُ}: بلوغ الأشدِّ، {ولِتَبْلُغوا}: بهذه الأطوار المقدَّرة [إلى] أجَلٍ {مسمًّى}: تنتهي عنده أعمارُكم. {ولعلَّكم تعقلونَ}: أحوالكم فتعلمونَ أنَّ المطورَ لكم في هذه الأطوار كامل الاقتدار، وأنَّه الذي لا تنبغي العبادةُ إلاَّ له، وأنَّكم ناقصون من كلِّ وجه.
[67] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس توحید کو اس دلیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ وہ تمھارا خالق ہے اور اس نے تمھیں مختلف مراحل میں تخلیق کیا۔ جس طرح اس اکیلے نے تمھیں پیدا کیا ہے اسی طرح تم اسی کے لیے عبادت کرو، چنانچہ فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ﴾ ’’وہی تو ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا‘‘یعنی اس نے تمھارے جدامجد حضرت آدمu کو مٹی سے تخلیق فرمایا ﴿ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ﴾ ’’ پھر نطفہ سے‘‘ یہ تمام نوع انسانی کی ماں کے پیٹ کے اندر تخلیق کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ابتدا کا ذکر کر کے باقی تمام مراحل کی طرف اشارہ کیا ہے، نطفہ سے خون کا لوتھڑا بننا، پھر بوٹی بننا ، پھر ہڈیوں کا تخلیق پانا اور آخر میں روح کا پھونکا جانا۔ ﴿ثُمَّ یُخْرِجُؔكُمْ طِفْلًا ﴾ ’’ پھر تمھیں بچے کی صورت میں نکالتا ہے۔‘‘ اس طرح تم تخلیق الٰہی میں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتے ہو، یہاں تک کہ تم عقل و بدن کی پوری قوت کوپہنچ جاؤ اور تمھارے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہوجائیں۔ ﴿ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُیُوْخًا١ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’ پھر تم بوڑھے ہوجاتے ہو اور کوئی تم میں سے اس سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے۔‘‘ یعنی بالغ ہونے سے پہلے ﴿وَلِتَبْلُغُوْۤا ﴾ ’’اور تاکہ تم پہنچ جاؤ ۔‘‘ ان مقررہ مراحل کے ذریعے سے ایک مدت مقررہ تک جہاں تمھاری عمر ختم ہو جاتی ہے۔ ﴿وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔‘‘ شاید کہ تم اپنے احوال کو سمجھو اور تمھیں معلوم ہو کہ تمھیں ان مراحل میں سے گزارنے والی ہستی کامل قدرت کی مالک ہے۔ وہی ہے جس کے سوا کوئی اور ہستی عبادت کے لائق نہیں اور تم ہر لحاظ سے ناقص ہو۔
#
{68} {هو الذي يُحيي ويميتُ}؛ أي: هو المنفرد بالإحياء والإماتة؛ فلا تموت نفسٌ بسبب أو بغير سبب إلاَّ بإذنِهِ {وما يُعَمَّرُ من مُعَمَّرٍ ولا يَنْقُصُ من عمرِهِ إلاَّ في كتاب إنَّ ذلك على الله يسيرٌ}. {فإذا قضى أمراً}: جليلاً أو حقيراً {فإنَّما يقول له كن فيكونُ}: لا ردَّ في ذلك ولا مثنويَّة ولا تمنُّع.
[68] ﴿هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ﴾ ’’وہی تو ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے‘‘ یعنی صرف وہی اکیلا ہے جو زندہ کرتا اور موت سے ہم کنار کرتا ہے، کوئی نفس، کسی سبب سے یا کسی سبب کے بغیر، اس کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا۔ ﴿وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَ٘صُ مِنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِیْؔ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ﴾ (فاطر: 35؍11) ’’کسی عمر والے کو عمر عطا نہیں کی جاتی اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی کی جاتی ہے، مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہوتا ہے اور بے شک یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ ﴿فَاِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا ﴾ ’’ پھر جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔‘‘ خواہ یہ کام چھوٹا ہو یا بڑا: ﴿فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ ﴾ ’’تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔‘‘ اس حکم کو رد یا اس سے گریز یا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آیت: 69 - 76 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ (69) الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (70) إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ (71) فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ (72) ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ (73) مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ (74) ذَلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ (75) ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (76)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کی طرف جو جھگڑتے ہیں اللہ کی آیتوں میں، کہاں وہ پھیرے جاتے ہیں؟(69) وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا کتاب کو اور اس (وحی ) کو کہ بھیجا ہم نے ساتھ اس کےاپنے رسولوں کو، پس عنقریب وہ جان لیں گے(70)جبکہ طوق ہوں گے ان کی گردنوں میں اور زنجیریں، وہ گھسیٹے جائیں گے(71) کھولتے پانی میں ، پھر آگ میں وہ جلائے جائیں گے(72) پھر کہا جائے گا ان سے ، کہاں ہیں وہ جن کو تھے تم شریک ٹھہراتے (73)سوائے اللہ کے ؟ وہ کہیں گے: گم ہو گئے وہ ہم سےبلکہ نہیں تھے ہم پکارتے اس سے پہلے کسی چیز کو بھی، اسی طرح گمراہ کرتا ہے اللہ کافروں کو(74) یہ (عذاب ) اس سبب سے ہے کہ تھےتم خوش ہوتے زمین میں ناحق اور بسبب اس کے کہ تھے تم اتراتے(75) داخل ہو جاؤ تم جہنم کے دروازوں میں، ہمیشہ رہنے والے اس میں ، پس برا ہے ٹھکانا تکبر کرنے والوں کا(76)
#
{69} {ألم تر إلى الذين يجادِلون في آيات الله}: الواضحة البيِّنة متعجباً من حالهم الشنيعة، {أنَّى يُصْرَفونَ}؛ أي: كيف ينعدِلون عنها؟! وإلى أيِّ شيء يذهبونَ بعد البيانِ التامِّ؟! هل يجدون آياتٍ بيِّنات تعارض آيات الله؟! لا والله. أم يجدون شُبهاً توافقُ أهواءهم ويصولون بها لأجل باطِلِهم؟!
[69] ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔‘‘ کیا آپ(e) کو ان لوگوں کی مذموم حالت پر تعجب نہیں جو اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ ﴿اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ ﴾ ’’کہاں سے وہ (حق سے) پھیرے جارہے ہیں۔‘‘ یعنی ان آیات سے کیسے منہ موڑ رہے ہیں۔ اس کامل توضیح و تبیین کے باوجود وہ کدھر جا رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے متعارض ہوں؟ اللہ کی قسم ہرگز نہیں! یا وہ ایسے شبہات پاتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہیں اور وہ اپنے باطل نظریات کی تائید میں ان شبہات کو لے کر چڑھ دوڑتے ہیں؟
#
{70 ـ 72} فبئس ما استبدلوا واختاروا لأنفسهم بتكذيبهم بالكتاب الذي جاءهم من الله وبما أرسل الله به رسله الذين هم خيرُ الخلق وأصدقُهم وأعظمُهم عقولاً؛ فهؤلاء لا جزاء لهم سوى النار الحامية، ولهذا توعَّدهم الله بعذابها، فقال: {فسوف يعلمونَ إذِ الأغلالُ في أعناقِهِم}: التي لا يستطيعون معها حركةً، {والسلاسلُ}: التي يقرنون بها هم وشياطينهم {يُسْحَبونَ. في الحميم}؛ أي: الماء الذي اشتدَّ غليانُه وحرُّه، {ثم في النار يُسْجَرونَ}: يوقدُ عليهم اللهبُ العظيم، فيُصْلَون بها، ثم يوبَّخون على شركهم وكذبهم.
[72-70] بدترین ہے وہ چیز جو انھوں نے اپنے لیے اختیار کی اور کتاب اللہ اور رسولوں کی تکذیب کے بدلے حاصل کی جو مخلوق میں سب سے افضل، سب سے سچے اور سب سے زیادہ خردمند ہیں۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا ان کے لیے جزا نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو جہنم کی آگ کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَۙ۰۰اِذِ الْاَغْ٘لٰ٘لُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ ﴾ ’’وہ عنقریب جان لیں گے جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔‘‘ جس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر سکیں گے ﴿وَالسَّلٰسِلُ ﴾ ’’اور زنجیریں (ہوں گی)‘‘ جن کے ساتھ ان کو اور ان کے شیاطین کو جکڑ دیا جائے گا۔ ﴿یُسْحَبُوْنَۙ۰۰ فِی الْحَمِیْمِ ﴾ یعنی سخت کھولتے ہوئے پانی میں ان کو گھسیٹا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ﴾ ’’ پھر وہ آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔‘‘ ان کے لیے بڑے بڑے شعلے بھڑکائے جائیں گے اور ان کے اندر ان کو ڈالا جائے گا ، پھر ان کے شرک اور کذب پر ان کی زجروتوبیخ کی جائے گی۔
#
{73 ـ 74} ويقال {لهم أين ما كنتُم تشركونَ. من دونِ الله}: هل نفعوكم أو دفعوا عنكم بعضَ العذاب؟! {قالوا ضلُّوا عنَّا}؛ أي: غابوا ولم يحضُروا، ولو حَضَروا؛ لم ينفعوا. ثم إنَّهم أنكروا فقالوا: {بل لم نكنْ ندعو من قبلُ شيئاً}: يُحتمل أنَّ مرادهم بذلك الإنكار، وظنُّوا أنه ينفعهم ويفيدهم، ويُحتمل ـ وهو الأظهر ـ أنَّ مرادهم بذلك الإقرار على بطلان إلهيَّة ما كانوا يعبدون، وأنَّه ليس لله شريكٌ في الحقيقة، وإنَّما هم ضالُّون مخطئون بعبادة معدوم الإلهية، ويدلُّ على هذا قوله تعالى: {كذلك يُضِلُّ الله الكافرين}؛ أي: كذلك الضلال الذي كانوا عليه في الدنيا الضلال الواضح لكلِّ أحدٍ، حتى إنهم بأنفسهم يقرُّون ببطلانه يوم القيامة، ويتبيَّن لهم معنى قوله تعالى: {وما يَتَّبِعُ الذين يدعونَ من دون الله شركاءَ إن يَتَّبِعونَ إلاَّ الظنَّ}، ويدلُّ عليه قوله تعالى: {ويوم القيامةِ يكفُرون بشِرْكِكُم}، {ومن أضلُّ ممَّن يدعو من دون الله مَنْ لا يستجيبُ له إلى يوم القيامةِ ... } الآيات.
[73، 74] اور ان سے کہا جائے گا: ﴿اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُ٘شْ٘رِكُوْنَۙ۰۰ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ’’کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا اللہ کے شریک بناتے تھے ۔‘‘ کیا انھوں نے تمھیں کوئی فائدہ دیا یا انھوں نے تم سے عذاب کو دور کر دیا؟ ﴿قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا ﴾ ’’وہ کہیں گے: وہ تو ہم سے بھول گئے ہیں‘‘ یعنی وہ ہم سے دور ہو گئے اگر وہ موجود بھی ہوتے تب بھی ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتے، پھر وہ انکار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿بَلْ لَّمْ نَؔكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔‘‘ اس میں اس کا احتمال ہے کہ ان کی اس انکار سے مراد یہ ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ یہ انکار ان کے کام آئے گا اور ان کو فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے،اور یہی زیادہ قوی ہے، کہ ان کی مراد، اپنے خود ساختہ معبودوں کی الوہیت کے بطلان کا اقرار ہو، نیز اس حقیقت کا اقرار ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور انھوں نے اس ہستی کی عبادت کر کے گمراہی اور خطا کا ارتکاب کیا جس میں الوہیت معدوم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے: ﴿كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی اس گمراہی کی مانند جس میں یہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ گمراہی سب پر واضح تھی، حتی کہ خود ان پر بھی واضح تھی، جس کے بطلان کا اقرار یہ لوگ قیامت کے روز کریں گے، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَمَا یَتَّ٘بِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ ﴾ (یونس: 10؍66) ’’اور جو لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض و ہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ کا معنی بھی واضح ہو جائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے: ﴿وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْ٘فُرُوْنَ بِشِرْؔكِكُمْ ﴾ (فاطر: 35؍14) ’’اور قیامت کے روز وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔‘‘ اور یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے: ﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ﴾ (الاحقاف:46؍5) ’’اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتیں۔‘‘
#
{75} ويقال لأهل النار: {ذلكم}: العذابُ الذي نُوِّعَ عليكم {بما كنتُم تفرحون في الأرض بغير الحقِّ وبما كنتُم تمرحونَ}؛ أي: تفرحون بالباطل الذي أنتم عليه وبالعلوم الذي خالفتم بها علوم الرسل، وتمرحون على عبادِ الله بغياً وعدواناً وظلماً وعصياناً؛ كما قال تعالى في آخر هذه السورة: {فلمَّا جاءَتْهم رسلُهُم بالبيناتِ فَرِحوا بما عندَهم من العلم}، وكما قال قومُ قارون له: {لا تَفْرَحْ إنَّ الله لا يحبُّ الفرحين}، وهذا هو الفرح المذمومُ الموجبُ للعقاب؛ بخلاف الفرح الممدوح، الذي قال الله فيه: {قل بفضل اللهِ وبرحمتِهِ فبذلك فَلْيَفْرَحوا}، وهو الفرح بالعلم النافع والعمل الصالح.
[75] اہل جہنم سے کہا جائے گا: ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ یہ عذاب جو تمھارے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ﴿بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ﴾ ’’ اس وجہ سے ہے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے تھے اور اس وجہ سے (بھی) کہ تم اکڑتے تھے۔‘‘ یعنی یہ اس باطل کے سبب سے ہے جس پر تم بہت خوش ہوتے تھے اور ان علوم کے باعث ہے جن کے ذریعے سے تم انبیاء ومرسلین کے علوم کی مخالفت کیا کرتے تھے اور تم بغاوت، ظلم، تعدی اور عصیان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ کے آخر میں فرمایا: ﴿فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (المؤمن: 40؍83) ’’جب ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے یہ اپنے اسی علم پر خوش رہے جو ان کے پاس تھا۔‘‘ اور جیسا کہ قارون کی قوم نے اس سے کہا تھا: ﴿لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْ٘فَرِحِیْنَ﴾ (القصص: 28؍76) ’’خوشی سے مت اترا، اللہ خوشی سے اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ یہ مذموم خوشی ہے جو عذاب کی موجب ہے۔ اس کے برعکس اس فرحت کے بارے میں جو قابل مدح ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُ٘لْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْ٘یَفْرَحُوْا﴾ (یونس: 10؍58) ’’کہہ دیجیے! یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے (کہ اس نے یہ کتاب نازل فرمائی) اس پر انھیں خوش ہونا چاہیے۔‘‘ یہ وہ فرحت ہے جو علم نافع اور عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔
#
{76} {ادْخُلوا أبوابَ جهنَّمَ}: كلٌّ بطبقةٍ من طبقاتها على قدرِ عمله {خالدين فيها}: لا يخرجون منها أبداً. {فبئس مثوى المتكبِّرينَ}: مثوىً يُخْزَوْن فيه ويهانون ويُحبسون ويُعذَّبون، ويتردَّدون بين حرِّها وزمهريرها.
[76] ﴿اُدْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ ﴾ ’’جہنم کے دروازوں میں سے داخل ہوجاؤ‘‘ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقے میں داخل کر دیا جائے گا۔ ﴿خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’اس میں تم ہمیشہ رہو گے‘‘ کبھی بھی وہاں سے نہ نکلیں گے۔ ﴿فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ ﴾ وہ ایسا ٹھکانا ہوگا جہاں ان کو محبوس کر کے ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور عذاب دیا جائے گا اور جہاں کبھی انھیں سخت گرمی میں اور کبھی سخت سردی میں داخل کیا جائے گا۔
آیت: 77 #
{فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ (77)}.
پس صبر کیجیے! بلاشبہ وعدہ اللہ کا حق ہے، پس اگر ہم دکھا دیں آپ کو بعض وہ (عذاب) جس کا وعدہ کرتے ہیں ہم ان سے (تو وہ اس کے مستحق ہیں) یا ہم (پہلے) فوت کر دیں آپ کو، تو ہماری ہی طرف وہ لوٹائے جائیں گے (77)
#
{77} أي: {فاصبِرْ}: يا أيها الرسولُ على دعوة قومِك وما ينالُك منهم من أذىً، واستَعِنْ على صبرك بإيمانك. {إنَّ وعد الله حقٌّ}: سينصر دينَه ويُعلي كلمتَه وينصرُ رسلَه في الدُّنيا والآخرة، واستعِنْ على ذلك أيضاً بتوقُّع العقوبة بأعدائك في الدُّنيا والآخرة، ولهذا قال: {فإمَّا نُرِيَنَّكَ بعضَ الذي نَعِدُهم}: في الدُّنيا؛ فذاك، {أو نتوفَّيَنَّك}: قبل عقوبتهم، {فإلينا يُرجَعون}: فنجازيهم بأعمالهم؛ فلا تحسبنَّ اللهَ غافلاً عما يعملُ الظالمون.
[77] ﴿فَاصْبِرْ ﴾ اے رسول! آپ(e) کو دعوت دینے پر اپنی قوم کی طرف سے جو تکالیف پہنچتی ہیں اس پر صبر کیجیے اور اپنے صبر پر اپنے ایمان سے مدد لیجیے: ﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ’’بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔‘‘ وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمے کو غالب کرے گا اور اپنے رسولوں کو دنیا و آخرت میں اپنی نصرت سے نوازے گا۔ نیز دنیا و آخرت میں اپنے دشمنوں پر عذاب کے وقوع سے بھی صبر میں مدد لیجیے! اس لیے فرمایا: ﴿فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ﴾ یعنی اگر ہم نے دنیا ہی میں ان کے عذاب کا کچھ حصہ آپ کو دکھا دیا جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ ﴿اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ۠﴾ یا ان کو سزا دینے سے پہلے آپ کو اپنے پاس بلا لیا۔ ﴿فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’پس ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ تو پھر ہم ان کو ان کے کرتوتوں کی سزا دیں گے۔ ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ (ابراہیم: 14؍42) ’’ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھیں۔‘‘
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے برادر انبیاء و مرسلین کا ذکر کر کے آپ کو تسلی دی ہے۔
آیت: 78 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ (78)}.
اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے کئی رسول آپ سے پہلے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال بیان کر دیا ہم نے آپ پر اور کچھ ان میں سے وہ ہیں کہ نہیں حال بیان کیا ہم نے ان کا آپ پر اور نہیں ہے (اختیار) واسطے کسی رسول کے کہ لے آئے وہ کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے، پس جب آ گیا حکم اللہ کا تو فیصلہ کر دیا گیا ساتھ حق کے اور خسارہ اٹھایا وہاں اہل باطل نے (78)
#
{78} أي: {ولقد أرسَلْنا من قبلِكَ رسلاً}: كثيرين إلى قومهم يَدْعونَهم ويصبرونَ على أذاهم. {منهم مَن قَصَصْنا عليك}: خبرهم، {ومنهم مَن لم نَقْصُصْ عليك}: وكل الرسل مدبَّرُون ليس بيدهم شيء من الأمر. {وما كان} لأحدٍ {منهم أن يأتي بآيةٍ}: من الآيات السمعيَّة والعقليَّة {إلاَّ بإذن الله}؛ أي: بمشيئته وأمره؛ فاقتراح المقترح على الرسل الإتيان بالآيات ظلمٌ منهم وتعنُّتٌ وتكذيبٌ بعد أن أيَّدهم الله بالآيات الدالَّة على صدقهم وصحَّة ما جاؤوا به. {فإذا جاء أمر الله}: بالفصل بين الرسل وأعدائِهِم والفتح، {قُضِيَ}: بينهم {بالحقِّ}: الذي يقع الموقع ويوافق الصواب بإنجاء الرسل وأتباعهم وإهلاك المكذِّبين، ولهذا قال: {وخسر هنالك}؛ أي: وقت القضاء المذكور {المبطلونَ}: الذين وصفُهم الباطلُ وما جاؤوا به من العلم والعمل باطلٌ، وغايتهم المقصودة لهم باطلةٌ، فليحذر هؤلاء المخاطبون أن يستمروا على باطلهم، فيخسروا كما خسر أولئك؛ فإنَّ هؤلاء لا خير منهم ولا لهم براءة في الكتب بالنجاة.
[78] یعنی آپ سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول ان کی قوموں کی طرف مبعوث فرمائے جو انھیں توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتے تھے۔ ﴿مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ ﴾ جن میں سے کچھ کے بارے میں ہم نے آپ کو خبر دی ہے۔ ﴿وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَ٘قْ٘صُصْ عَلَیْكَ ﴾ ’’اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے آپ پر بیان نہیں کیے۔‘‘ تمام انبیاء اور رسول اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہیں ان کے اپنے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ تمام رسولوں میں سے کسی کے اختیار میں نہیں ﴿اَنْ یَّ٘اْتِیَ بِاٰیَةٍ ﴾ ’’یہ کہ وہ کوئی نشانی، معجزہ لائے۔‘‘ یعنی ان رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ وہ سمعی یا عقلی نشانی لاسکیں۔ ﴿اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ مگر اس کی مشیت اور اس کے حکم سے۔ اس لیے رسولوں سے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرنا، ظلم تعنت اور تکذیب ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات کے ذریعے سے ان کی تائید کی ہے جو ان کی صداقت اور ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿فَاِذَا جَآءَؔ اَمْرُ اللّٰهِ ﴾ پس جب اللہ تعالیٰ کا حکم رسولوں اور ان کے دشمنوں کے مابین فیصلہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح آجاتی ہے ﴿قُ٘ضِیَ بِالْحَقِّ ﴾ تو ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے جو صحیح موقع پر واقع ہوتا ہے، انبیاء و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کی نجات اور مکذبین کی ہلاکت کے ذریعے سے صواب کی تائید کرتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَخَسِرَ هُنَالِكَ ﴾ ’’اور وہیں نقصان میں پڑ گئے۔‘‘ یعنی مذکورہ فیصلے کے وقت ﴿الْ٘مُبْطِلُوْنَ﴾ ’’غلط کار لوگ‘‘ یعنی وہ لوگ جن کا وصف باطل ہے، وہ جو بھی علم و عمل پیش کرتے ہیں سب باطل ہے، ان کی غرض و غایت اور مقاصد، سب باطل پر مبنی ہیں۔ اس لیے ان مخاطبین کو اپنے باطل نظریات پر جمے رہنے سے ڈرنا چاہیے ورنہ یہ لوگ بھی خسارے میں پڑجائیں گے جیسے وہ لوگ خسارے میں پڑے تھے۔ نہ ان حضرات میں کوئی بھلائی ہے اور نہ ان کے لیے کتابوں میں نجات لکھی گئی ہے۔
آیت: 79 - 81 #
{اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (79) وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (80) وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ (81)}.
اللہ وہ ہے جس نے بنائے تمھارے لیے چوپائے تاکہ سواری کرو تم ان میں سے بعض پر اور بعض کو ان میں سے تم کھاتے ہو(79) اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدے ہیں اور تاکہ تم پہنچو ان پر (سوار ہو کر) اپنی حاجت کو جو تمھارے سینوں میں ہے اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو (80) اور وہ (اللہ) دکھاتا ہے تمھیں اپنی نشانیاں، پس کون سی اللہ کی نشانیوں کا تم انکار کرو گے؟ (81)
#
{79 ـ 80} يمتنُّ تعالى على عبادِهِ بما جعل لهم من الأنعام التي بها جملةٌ من الإنعام: منها منافعُ الركوب عليها والحمل، ومنها منافعُ الأكل من لحومها والشربِ من ألبانها، ومنها [منافع] الدفءُ واتِّخاذ الآلات والأمتعة من أصوافها وأوبارها وأشعارها ... إلى غير ذلك من المنافع. {ولتبلغوا عليها حاجةً في صدوركم}: من الوصول إلى الأقطار البعيدة، وحصول السرور بها والفرح عند أهلها. {وعليها وعلى الفُلْكِ تُحْمَلون}؛ أي: على الرواحل البريَّة والفلك البحريَّة يحملكم الله، الذي سخَّرها، وهيَّأ لها ما هيَّأ من الأسباب، التي لا تتمُّ إلاَّ بها.
[79، 80] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے لیے چوپائے پیدا کیے جن پر ان کے مفادات کا دارومدار ہے۔ ان میں سے کچھ مویشیوں کو وہ سواری اور نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ چوپایوں کا گوشت کھاتے اور ان کا دودھ پیتے ہیں۔ کچھ مویشیوں کی اون سے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بالوں، پشم اور اون سے آلات اور استعمال کا سامان بناتے ہیں اور ان سے دیگر فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَلِتَبْلُغُوْا عَلَیْهَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ ﴾ ’’اور تاکہ تم ان پر سوار ہوکر اپنی حاجت وضرورت کو پہنچو جو تمھارے سینوں میں ہے۔‘‘ یعنی تم ان دور دراز ملکوں میں پہنچ سکو جہاں پہنچنے کی اپنے دلوں میں ضرورت محسوس کرتے ہو اور تاکہ ان کے باعث ان کے مالکوں کو فرحت و سرور حاصل ہو۔ ﴿وَعَلَیْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ﴾ ’’نیز ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔‘‘ یعنی تم زمینی سواریوں پر سواری کرتے ہو اور کشتیاں تمھیں سمندر میں اٹھائے پھرتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے مسخر کر دیا اور تمھارے لیے ایسے چوپائے مہیا کر دیے جن کے بغیر تمھاری یہ سواریاں مکمل نہیں ہوتیں۔
#
{81} {ويريكم آياتِهِ}: الدالَّة على وحدانيَّته وأسمائه وصفاته، وهذا من أكبر نعمه؛ حيث أشهد عباده آياتِهِ النفسيَّة وآياته الأفقيَّة ونعمَه الباهرة وعدَّدها عليهم ليعرِفوه ويشكُروه ويذكُروه. {فأيَّ آيات الله تُنْكِرونَ}؛ أي: أيُّ آية من آياته لا تعترفون بها؟! فإنَّكم قد تقرَّر عندكم أن جميع الآيات والنعم منه تعالى، فلم يبقَ للإنكار محلٌّ، ولا للإعراض عنها موضعٌ، بل أوجبت لذوي الألباب بَذْلَ الجهد واستفراغَ الوسع للاجتهاد في طاعته والتبتُّل في خدمته والانقطاع إليه.
[81] ﴿وَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ﴾ ’’اور وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔‘‘ جو اس کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو آفاق و انفس میں اپنی آیات کا مشاہدہ کرایا، بڑی بڑی نعمتوں سے بہرہ مند کیا اور ان نعمتوں کو شمار کیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں، اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں۔ ﴿فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُنْؔكِرُوْنَ ﴾ ’’ پھر تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی کون کون سی آیات ہیں جن کا تم اعتراف نہیں کرتے؟ تمھارے نزدیک بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تمام آیات اور تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں، تب انکار کی کوئی گنجائش اور روگردانی کا کوئی موقع باقی نہیں۔ بلکہ یہ آیات اور نعمتیں عقل مندوں پر واجب ٹھہراتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے میں اپنی پوری کوشش صرف کریں۔
آیت: 82 - 85 #
{أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (82) فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (83) فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ (84) فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ (85)}.
کیا پس نہیں سیر کی انھوں نے زمین میں پس و ہ دیکھتے کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے ہوئے؟ تھے وہ زیادہ (تعداد میں)ان سے اور زیادہ سخت قوت میں اور نشانات کے اعتبار سے زمین میں، پس نہ کام آیا ان کے وہ، جو کچھ تھے وہ کماتے (82) پس جب آئے ان کے پاس رسو ل ان کے، ساتھ واضح دلائل کے تو خوش ہوئے وہ اس پر جو ان کے پاس تھا علم، اور گھیر لیا ان کو اس (عذاب) نے کہ تھے وہ اس کے ساتھ ٹھٹھا کرتے (83) پس جب دیکھا انھوں نے ہمارا عذاب تو کہا، ایمان لائے ہم اللہ اکیلے پر اور انکار کیا ہم نے ان چیزوں کا کہ تھے ہم ان کو (اللہ کا) شریک ٹھہرانے والے (84) پس نہ ہوا کہ نفع دیتا ان کو ایمان(لانا)ان کا جبکہ دیکھ لیا انھوں نے عذاب ہمارا، (مانند) طریقہ اللہ کے جو گزرا اس کے بندوں میں اور خسارہ اٹھایا وہاں کافروں نے (85)
#
{82} يحثُّ تعالى المكذِّبين لرسولهم على السَّير في الأرض بأبدانهم وقلوبهم وسؤال العالمين، {فينظروا}: نظرَ فكرٍ واستدلال لا نظر غفلةٍ وإهمال {كيف كان عاقبةُ الذين من قبلِهِم}: من الأمم السالفة؛ كعاد وثمود وغيرهم ممن كانوا أعظم منهم قوَّة وأكثر أموالاً وأشدَّ آثاراً في الأرض من الأبنية الحصينة والغراس الأنيقة والزروع الكثيرة. {فما أغنى عنهم ما كانوا يكسِبونَ}: حين جاءهم أمرُ الله، فلم تغن عنهم قوَّتُهم، ولا افْتَدَوا بأموالهم، ولا تحصَّنوا بحصونهم.
[82] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول کی تکذیب کرنے والوں کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین پر چل پھر کر دیکھیں اور اہل علم سے سوال کریں۔ ﴿فَیَنْظُ٘رُوْا ﴾ ’’پس وہ دیکھیں ‘‘ غفلت اور بے پروائی کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ فکرواستدلال کی نظر سے دیکھیں۔ ﴿كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ ’’کیسا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے؟‘‘ یعنی قوم عادوثمود جیسی گزشتہ قوموں کا کیا انجام ہوا؟ جو ان سے قوت میں زیادہ، مال میں کثرت اور زمین میں آثار، یعنی مضبوط محلات، خوب صورت باغات اور بے شمار کھیتیاں چھوڑنے کے لحاظ سے بڑے تھے۔ ﴿فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ ’’ان کی کمائی نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ وہ اپنے مالوں کا فدیہ دے سکے اور نہ وہ اپنے قلعوں کے ذریعے ہی سے بچ سکے۔
#
{83} ثم ذَكَرَ جرمَهم الكبير، فقال: {فلمَّا جاءتْهم رسلُهم بالبيناتِ}: من الكتب الإلهيَّة والخوارق العظيمة، والعلم النافع المبيِّن للهدى من الضلال والحق من الباطل، {فرحوا بما عندَهم من العلم}: المناقض لدين الرسل، ومن المعلوم أنَّ فرحهم به يدلُّ على شدَّة رضاهم به وتمسُّكهم ومعاداة الحقِّ الذي جاءت به الرسل وجعل باطلهم حقًّا، وهذا عامٌّ لجميع العلوم التي نوقِضَ بها ما جاءتْ به الرسل، ومن أحقِّها بالدُّخول في هذا، علوم الفلسفة والمنطق اليوناني الذي رُدَّت به كثيرٌ من آيات القرآن، ونَقَّصَتْ قدرَه في القلوب، وجَعَلَتْ أدلَّته اليقينيَّة القاطعة أدلَّة لفظيَّةً لا تفيدُ شيئاً من اليقين، ويقدَّم عليها عقولُ أهل السَّفه والباطل، وهذا من أعظم الإلحاد في آيات الله والمعارضة لها والمناقضة؛ فالله المستعانُ، {وحاق بهم}؛ أي: نزل ما كانوا يستهزئون به من العذاب.
[83] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم عظیم کا ذکر ہوتے فرمایا: ﴿فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’جب ان کے رسول ان کے پاس معجزات لے کر آئے۔‘‘ یعنی کتب الٰہیہ، بڑے بڑے معجزات اور وہ علم نافع لے کر مبعوث ہوئے جو ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل میں امتیاز کرتا ہے۔ ﴿فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ ’’تو وہ اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔‘‘ یعنی وہ انبیاء و رسل کے دین سے متناقض اور باطل علمی نظریات ہی میں مگن رہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ ان کا اس نام نہاد علم پر خوش ہونا، اس علم پر ان کی رضا اور اس کے ساتھ تمسک اور حق کے ساتھ ان کی شدید عداوت پر دلالت کرتا ہے جسے لے کر رسول مبعوث ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے باطل نظریات کو حق قرار دیا اور یہ ان تمام علوم کے لیے عام ہے جن کے ذریعے سے انبیاء و رسل کے لائے ہوئے علم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان کے ان علوم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ مستحق علوم فلسفہ اور منطق یونان ہیں جن کے ذریعے سے قرآن کی بہت سی آیات کو رد کیا جاتا ہے، دلوں میں قرآن کی قدر کم کی جاتی ہے۔ قرآن کے قطعی اور یقینی دلائل کو لفظی دلائل قرار دیا جاتا ہے جو یقین کا فائدہ نہیں دیتے اور ان دلائل پر اہل سفاہت اور اہل باطل کی عقل کو مقدم رکھا جاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سب سے بڑا الحاد، ان کی مخالفت اور معارضت ہے۔ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔ ﴿وَحَاقَ بِهِمْ ﴾ ’’اور انھیں گھیر لیا‘‘ ﴿مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ اس عذاب نے جس کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے ۔
#
{84} {فلمَّا رأوا بأسَنا}؛ أي: عذابنا؛ أقرُّوا حيث لا ينفعهم الإقرار، و {قالوا آمنَّا بالله وحدَه وكَفَرْنا بما كُنَّا به مشركين}: من الأصنام والأوثان، وتبرَّأنا من كلِّ ما خالف الرسل من علم أو عمل.
[84] ﴿فَلَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا ﴾ ’’جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے‘‘ تو اقرار کرنے لگے۔ تب ان کا اقرار ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکا۔ ﴿قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَؔكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’وہ کہنے لگے: ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس چیز کو اس کے ساتھ شریک بناتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ یعنی جن بتوں اور خودساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا کرتے تھے، اس کا انکار کرتے ہیں اور ہم ہر اس علم و عمل سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو رسولوں کا مخالف ہے۔
#
{85} {فلم يكُ ينفعُهم إيمانُهم لما رأوا بأسَنا}؛ أي: في تلك الحال، وهذه {سنة الله} وعادتُه {التي خَلَتْ في عبادِهِ}: أنَّ المكذِّبين حين ينزل بهم بأسُ الله وعقابُه إذا آمنوا؛ كان إيمانُهم غيرَ صحيح ولا منجياً لهم من العذاب، وذلك لأنَّه إيمانُ ضرورةٍ؛ قد اضطرُّوا إليه، وإيمانُ مشاهدة، وإنَّما الإيمان [النافع] الذي ينجي صاحبه هو الإيمان الاختياريُّ الذي يكون إيماناً بالغيب، وذلك قبل وجودِ قرائن العذاب، {وخَسِرَ هنالك}؛ أي: وقت الإهلاك وإذاقة البأس {الكافرون}: دينَهم ودُنياهم وأخراهم، ولا يكفي مجرَّد الخسارة في تلك الدار، بل لا بدَّ من خسران يشقي في العذاب الشديد والخلود فيه دائماً أبداً.
[85] ﴿فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا ﴾ ’’جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انھیں کچھ فائدہ نہ دیا‘‘ یعنی اس حال میں ان کا ایمان انھیں کوئی فائدہ نہ دے گا جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے ﴿سُنَّتَ اللّٰهِ ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور عادت ہے ﴿الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ﴾ ’’جو اس کے بندوں میں چلی آتی ہے۔‘‘ یعنی ان جھٹلانے والوں کے بارے میں، جو اس وقت ایمان لاتے ہیں جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ان کا ایمان صحیح ہے نہ ان کو عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہ اضطراری اور مشاہدے کا ایمان ہے۔ وہ ایمان جو صاحبِ ایمان کو نجات دیتا ہے، اختیاری ایمان ہے، جو قرائن عذاب کے وجود سے پہلے پہلے، ایمان بالغیب ہے۔ ﴿وَخَسِرَ هُنَالِكَ ﴾ ’’اور خسارے میں پڑ جاتے ہیں ایسے وقت میں‘‘ جب ہم ہلاکت اور عذاب کا مزا چکھاتے ہیں ﴿الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’کافر لوگ‘‘ اپنے دین، دنیا اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ آخرت کے گھر میں مجرد خسارہ ہی نہیں ہو گا بلکہ ایک ایسا خسارہ ہو گا کہ وہ نہایت شدید دائمی اور ابدی عذاب کے اندر، بدبختی میں گھرا ہوا ہو گا۔