آیت:
تفسیر سورۂ نساء
تفسیر سورۂ نساء
آیت: 1 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (1)}.
اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے، وہ جس نے پیدا کیا تمھیں ایک جان سے اور پیدا کیا اسی سے اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے مرد کثرت سے اور عورتیں۔ اور ڈرو اللہ سے، وہ کہ سوال کرتے ہو تم آپس میں اس کے واسطے سےاور (ڈرو) رشتوں (کے توڑنے) سے۔ بلاشبہ اللہ ہے اوپر تمھارے نگہبان(1)
#
{1} افتتحَ تعالى هذه السورةَ بالأمر بتقواه والحثِّ على عبادتِهِ والأمرِ بصلةِ الأرحام والحثِّ على ذلك، وبيَّن السبب الداعيَ الموجبَ لكلٍّ من ذلك، وأن الموجب لتقواه: لأنه ربُّكم {الذي خلقكم} ورزقكم وربَّاكم بنعمِهِ العظيمة التي من جملتها خَلْقُكم {من نفس واحدة} وجعل {منها زوجها} ليناسِبَها فيسكنَ إليها وتتمَّ بذلك النعمة ويحصل به السرور؛ وكذلك من الموجب الداعي لتقواه تساؤلُكم به وتعظيمكم، حتى إنكم إذا أردتم قضاء حاجاتكم ومآربكم؛ توسَّلتم بها بالسؤال [باللهِ]، فيقول من يريد ذلك لغيره: أسألك بالله أن تفعل الأمر الفلاني؛ لعلمه بما قام في قلبه من تعظيم الله الداعي أن لا يردَّ من سأله بالله؛ فكما عظَّمتموه بذلك؛ فلتعظِّموه بعبادتِهِ وتقواه. وكذلك الإخبار بأنه رقيبٌ؛ أي: مطَّلع على العباد في حال حركاتهم وسكونهم وسرِّهم وعلنهم وجميع الأحوال مراقباً لهم فيها، مما يوجب مراقبتَهُ وشدةَ الحياء منه بلزوم تقواه؛ وفي الإخبار بأنه خلقهم من نفس واحدة، وأنه بثَّهم في أقطار الأرض مع رجوعهم إلى أصل واحدٍ ليعطِّفَ بعضَهم على بعض، ويرقِّقَ بعضَهم على بعض. وقرن الأمر بتقواه بالأمر ببرِّ الأرحام والنهي عن قطيعتها ليؤكد هذا الحق، وأنه كما يلزم القيام بحق الله كذلك يجب القيام بحقوق الخلق، خصوصاً الأقربين منهم، بل القيام بحقوقهم هو من حقِّ الله الذي أمر الله به. وتأمل كيف افتتح هذه السورةَ بالأمر بالتقوى، وصلة الأرحام، والأزواج عموماً، ثم بعد ذلك فصَّل هذه الأمور أتمَّ تفصيل من أول السورة إلى آخرها؛ فكأنها مبنيَّةٌ على هذه الأمور المذكورة، مفصِّلةٌ لما أُجْمِلَ منها، موضِّحةٌ لما أُبْهِمَ. وفي قوله: {وخلق منها زوجها}: تنبيه على مراعاة حقِّ الأزواج والزوجات والقيام به؛ لكون الزوجات مخلوقاتٍ من الأزواج؛ فبينهم وبينهنَّ أقربُ نسب وأشدُّ اتصال وأوثق علاقة.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے حکم، اپنی عبادت کی تاکید اور صلہ رحمی کے حکم اور اس کی تاکید سے کیا ہے۔ اور ان اسباب کو بیان کیا ہے جو ان تمام امور کے موجب ہیں اور تقویٰ کا موجب یہ ہے ﴿ رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ﴾ ’’وہ تمھارا رب ہے جس نے تمھیں پیدا کیا‘‘ تمھیں رزق عطا کیا اور بڑی بڑی نعمتوں کے ذریعے سے تمھاری تربیت کی اور ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے تمھیں پیدا کیا ﴿ مِّنْ نَّ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ’’ایک ہی جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا‘‘ تاکہ وہ اس کے مشابہ اور مناسب ہو اور اسے اس کے پاس سکون حاصل ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہو اور اس سے فرحت و سرور حاصل ہو۔ اسی طرح تقویٰ کا موجب اور اس کا داعی اس کے نام پر تمھارا ایک دوسرے سے سوال کرنا اور تمھارا تعظیم کرنا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہو تو تم اپنے سوال میں اس کا وسیلہ اختیار کرتے ہو۔ پس جو کوئی دوسرے کے لیے یہ چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’میں اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو فلاں کام کر‘‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت جاگزیں ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو رد نہ کرے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرتا ہے جیسا کہ تم نے اس کی اس ذریعے سے تعظیم کی ہے پس تمھیں چاہیے کہ تم اس کی عبادت اور تقویٰ کے ذریعے سے اس کی تعظیم کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی آگاہ فرمایا ہے کہ وہ نگہبان ہے وہ بندوں کی حرکات و سکنات، ان کے کھلے چھپے تمام احوال میں ان کی خبر رکھتا ہے اور ان احوال میں ان کا نگہبان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نگہبان ہونا جن امور کا موجب بنتا ہے ان میں تقویٰ کے التزام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے حیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خبر میں کہ اس نے انھیں ایک جان سے تخلیق کیا ہے اور اس نے ان کو روئے زمین کے کناروں تک پھیلایا جبکہ وہ ایک ہی اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ بندے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم، صلہ رحمی کے حکم اور قطع رحمی کی ممانعت کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا تاکہ یہ حق موکد ہو جائے۔ یعنی جس طرح حقوق اللہ کو قائم کرنا لازم ہے اسی طرح حقوق العباد کو قائم کرنا بھی لازم ہے۔ خاص طور پر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بلکہ رشتہ داروں کے حقوق کو قائم کرنا تو حقوق اللہ میں شمار ہوتا ہے جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ غور کیجیے کہ اللہ نے کیسے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے اختیار کرنے، صلہ رحمی اور عمومی طور پر بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حکم کے ساتھ کیا، پھر اس کے بعد اس سورت میں اس کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ان تمام امور کی پوری تفصیلات بیان ہوئی ہیں گویا یہ سورۂ مبارکہ مذکورہ امور کی ان تفصیلات کو بیان کرتی ہے جن کو مجمل رکھا گیا تھا اور ان امور کو واضح کرتی ہے جو مبہم تھے۔ اللہ تبارک کے ارشاد ﴿ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ’’اور پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا‘‘ میں شوہروں اور بیویوں کے حقوق کی مراعات پر تنبیہ ہے اور ان کو قائم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ بیویاں بھی شوہروں ہی کی صلب سے پیدا کی گئی ہیں۔ پس شوہروں اور بیویوں کے درمیان قریب ترین نسب، مضبوط ترین اتصال اور نہایت قوی رشتہ ہے۔
آیت: 2 #
{وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا (2)}.
اور دو تم یتیموں کو ان کے مال اور نہ بدل کر لو تم ناپاک کو پاک کے عوض اور نہ کھاؤ تم ان کے مال ساتھ (ملا کر) اپنے مالوں کے، بلاشبہ یہ ہے گناہ بہت بڑا(2)
#
{2} هذا أول ما أوصى به من حقوق الخلق في هذه السورة، وهم اليتامى الذين فقدوا آباءهم الكافلين لهم، وهم صغارٌ ضعافٌ، لا يقومون بمصالحهم، فأمر الرءوف الرحيم عباده أن يحسِنوا إليهم، وأن لا يَقْرَبوا أموالهم إلا بالتي هي أحسن، وأن يؤتوهم أموالهم ـ إذا بلغوا ورَشَدوا ـ كاملةً موفرةً، وأن لا يتبدلوا الخبيث الذي هو أكلُ مال اليتيم بغير حقٍّ {بالطيب} وهو الحلال الذي ما فيه حرجٌ ولا تَبِعة {ولا تأكلوا أموالهم إلى أموالكم}؛ أي: مع أموالكم، ففيه تنبيهٌ لقبح أكل مالِهم بهذه الحالة، التي هي قد استغنى بها الإنسان بما جعل الله له من الرزق في ماله؛ فمَنْ تجرَّأ على هذه الحالة؛ فقد أتى {حوباً كبيراً}؛ أي: إثماً عظيماً ووزراً جسيماً. ومن استبدال الخبيث بالطيِّب أن يأخذ الوليُّ من مال اليتيم النفيسِ ويجعلَ بدلَه من ماله الخسيسَ. وفيه الولايةُ على اليتيم؛ لأنَّ من لازم إيتاء اليتيم ماله ثبوتَ ولاية المؤتي على ماله. وفيه الأمرُ بإصلاح مال اليتيم؛ لأنَّ تمام إيتائِهِ مالَه حفظُه والقيامُ به بما يصلحه ويُنَمِّيه وعدم تعريضه للمخاوف والأخطار.
[2] اس سورۂ مبارکہ میں جن حقوق العباد کی تاکید کی گئی ہے، یہ ان میں سے پہلا حکم ہے اور وہ یتیم بچے ہیں جن کے باپ فوت ہو گئے ہیں جو ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ وہ بہت چھوٹے اور نہایت کمزور ہیں اپنے مصالح کی خود دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ بنابریں اللہ رؤف و رحیم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے مال کے قریب نہ جائیں مگر بھلے طریقے سے۔ اور جب یہ بالغ اور سمجھ دار ہو جائیں تو ان کا پورے کا پورا مال ان کے حوالے کر دیں۔ ﴿ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ ﴾ ’’اور بدل نہ لو خبیث مال کو‘‘ خبیث سے مراد ناحق یتیم کا مال کھانا ہے ﴿ بِالطَّيِّبِ ﴾ طیب مال سے مراد حلال مال ہے جس میں کوئی حرج ہے نہ تاوان ﴿ وَلَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ ﴾ یعنی ’’تم اپنے اموال کے ساتھ ان کے اموال نہ کھاؤ۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یتیموں کا مال کھانے کی قباحت پر دلیل ہے۔ اس حال میں جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خود اس کے مال میں رزق عطا کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کی وجہ سے یتیم کے مال سے مستغنی ہوتا ہے اور جو کوئی اس حال میں یتیم کا مال کھانے کی جرأت کرتا ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ﴿حُوْبً٘ا كَبِیْرًا ﴾ یعنی گناہ عظیم اور بہت بڑا بوجھ۔ خبیث کو طیب سے بدلنا یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کا نفیس مال خود رکھ لے اور اس کے بدلے میں اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے دے۔ اس آیت کریمہ میں یتیم کی سرپرستی کی دلیل ہے۔ کیونکہ یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے والے کی سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کا بھی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی اصلاح کی جائے کیونکہ یتیم کو اس کا پورا مال حوالے کرنے کے حکم میں ازخود یہ بات آ جاتی ہے کہ اس مال کی حفاظت کی جائے، اس کی اصلاح اور نشوونما کا انتظام کیا جائے اور اس کو تلف ہونے کے خطرات سے بچایا جائے۔
آیت: 3 - 4 #
{وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (3) وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا (4)}.
اور اگر ڈرو تم یہ کہ نہ انصاف کر سکو گے تم یتیم عورتوں کے بارے میں تو (ان کی بجائے) نکاح کرو تم (ان سے) جو اچھی لگیں تمھیں عورتوں سے، دو دواور تین تین اور چار چار۔ پس اگر ڈرو تم اس بات سے کہ نہ انصاف کر سکو گے تم تو (نکاح کرو) ایک ہی سے یا جس کے مالک ہوئے تمھارے دائیں ہاتھ۔ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ نہ ناانصافی کرو تم(3) اور دو تم عورتوں کو مہر ان کے خوش دلی سے، پس اگر وہ خوشی سے دیں تم کو کچھ اس میں سے دل سے تو کھا لو تم اسے رچتا بچتا(4)
#
{3} أي: وإن خفتم ألا تعدلوا في يتامى النساء [اللاتي] تحت حُجوركم وولايتكم، وخفتم أن لا تقوموا بحقِّهن لعدم محبتكم إياهنَّ، فاعدلوا إلى غيرهنَّ وانكحوا {ما طاب لكم من النساء}؛ أي: ما وقع عليهن اختياركم من ذوات الدين والمال والجمال والحَسَب والنَّسَب وغير ذلك من الصفات الداعية لنكاحهنَّ؛ فاختاروا على نظركم، ومن أحسن ما يُختار من ذلك صفة الدين؛ كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «تُنْكَحُ المرأةُ لأربع: لمالِها ولِجمالِها ولحسبِها ولدينِها؛ فاظفرْ بذاتِ الدينِ تَرِبَتْ يمينُك». وفي هذه الآية أنه ينبغي للإنسان أن يختار قبل النكاح، بل قد أباح له الشارعُ النظرَ إلى مَنْ يريد تزوجها؛ ليكون على بصيرة من أمره. ثم ذكر العدد الذي أباحه من النساء، فقال: {مثنى وثلاث ورباع}، أي: من أحب أن يأخذ ثنتين؛ فليفعل، أو ثلاثاً؛ فليفعل، أو أربعاً؛ فليفعل، ولا يزيد عليها؛ لأن الآية سيقت لبيان الامتنان؛ فلا يجوز الزيادة على غير ما سمى الله تعالى إجماعاً، وذلك لأن الرجل قد لا تندفع شهوتُه بالواحدة، فأبيح له واحدة بعد واحدة، حتى تبلغ أربعاً؛ لأن في الأربع غُنيةً لكل أحد إلا ما ندر، ومع هذا؛ فإنما يباح له ذلك إذا أمن على نفسه الجَوْر والظلم ووثق بالقيام بحقوقهن؛ فإن خاف شيئاً من هذا؛ فليقتصر على واحدة أو على ملك يمينه؛ فإنه لا يجب عليه القَسْم في ملك اليمين، {ذلك}؛ أي: الاقتصار على واحدة أو ما ملكتِ اليمينُ {أدنى ألاَّ تعولوا}؛ أي: تظلموا، وفي هذا أنَّ تعرَّضَ العبد للأمر الذي يُخافُ منه الجورُ والظلم وعدم القيام بالواجب ولو كان مباحاً؛ أنه لا ينبغي له أن يتعرَّضَ له، بل يلزم السعةُ والعافيةُ؛ فإنَّ العافية خير ما أعطي العبد.
[3] یعنی اگر تمھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ تم ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے جو تمھاری پرورش اور سرپرستی میں ہیں اور تمھیں ڈر ہے کہ ان کے ساتھ تمھاری محبت نہ ہونے کی وجہ سے تم ان کے حقوق ادا نہ کر سکو گے۔ تو تم ان کے علاوہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کر لو ﴿ مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ﴾ ’’اور عورتوں میں سے جو تمھیں اچھی لگیں‘‘ یعنی، دین، مال، حسب و نسب اور حسن و جمال جیسی دیگر صفات جو نکاح کی ترغیب دیتی ہیں ، ان صفات کی حامل عورتوں میں جس کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہو، اپنی خواہش اور صوابدید کے مطابق نکاح کر لو۔ نکاح کے انتخاب کے لیے بہترین صفت دین ہے جیسا کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’عورت سے چار صفات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال، اس کے حسن و جمال، اس کے حسب و نسب اور اس کے دین کی وجہ سے، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، تو دین دار عورت سے نکاح کرنے کی کوشش کر۔‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ نکاح سے قبل عورت کو منتخب کر لے۔ بلکہ شارع نے تو یہاں تک مباح کیا ہے کہ انسان جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اسے ایک نظر دیکھ لے تاکہ یہ نکاح بصیرت کی بنیاد پر ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تعداد کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا مباح ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ مَثْ٘نٰى وَثُلٰ٘ثَ وَرُبٰ٘عَ ﴾ ’’دو دو اور تین تین اور چار چار‘‘ یعنی جو کوئی دو بیویاں رکھنا چاہتا ہے وہ دو بیویاں رکھ لے اگر تین بیویوں سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو تین سے نکاح کر لے اور اگر چار سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو چار سے نکاح کر لے۔ البتہ چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح نہ کرے۔ کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق اللہ تعالیٰ کے احسان کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو عدد مقرر کر دیا ہے بالاتفاق اس سے زیادہ بیویاں جائز نہیں۔ ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات مرد کی شہوت ایک بیوی سے پوری نہیں ہوتی اس لیے یکے بعد دیگرے چار بیویاں جائز ہیں کیونکہ شاذ اور نادر صورت کے سوا، چار بیویاں کافی ہوتی ہیں۔ یہ چار بیویاں بھی مرد کے لیے صرف اس وقت جائز ہیں جب وہ ظلم و جور کرنے سے محفوظ ہو اور اسے یقین ہو کہ وہ چار بیویوں کے حقوق پورے کر سکے گا اور اگر اسے ظلم و زیادتی اور حقوق کی عدم ادائیگی کا خدشہ ہو تو اسے صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ یا اس کے ساتھ لونڈیوں پر اکتفا کرے۔ لونڈیوں میں وظیفہ زن و شو کی مساوی تقسیم واجب نہیں۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘یعنی ایک بیوی یا لونڈیوں پر اکتفا کرنا ﴿ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ ’’اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو۔‘‘ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بندے کو کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جہاں اس سے ظلم و جور کے ارتکاب کا خدشہ ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ وہ اس معاملے کے حقوق پورے نہیں کر سکے گا۔ خواہ یہ معاملہ مباحات کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی تعرض کرے۔ بلکہ وہ اس میں بچاؤ اور عافیت کا التزام کرے۔ کیونکہ عافیت بہترین چیز ہے جو بندے کو عطا کی گئی ہے۔
#
{4} ولما كان كثير من الناس يظلمون النساء ويهضمونهنَّ حقوقَهنَّ، خصوصاً الصداق الذي يكون شيئاً كثيراً ودفعةً واحدةً يشقُّ دفعُه للزوجةِ؛ أمرهم وحثَّهم على إيتاء النساء {صَدُقاتهنَّ}، أي: مهورهنَّ {نِحْلَةً}؛ أي: عن طيب نفس وحال طمأنينة؛ فلا تمطلوهنَّ أو تبخسوا منه شيئاً؛ وفيه أن المهر يُدْفَع إلى المرأة إذا كانت مكلفةً، وأنها تملكه بالعقد؛ لأنه أضافه إليها، والإضافة تقتضي التمليك؛ {فإن طبن لكم عن شيء منه}؛ أي: من الصداق {نفساً}؛ بأن سَمَحْنَ لكم عن رضا واختيار بإسقاط شيء منه أو تأخيره أو المعاوضة عنه؛ {فكلوه هنيئاً مريئاً}؛ أي: لا حرج عليكم في ذلك ولا تَبِعَة. وفيه دليل على أن للمرأة التصرف في مالها ولو بالتبرع إذا كانت رشيدةً؛ فإن لم تكن كذلك؛ فليس لعطيَّتِها حكم، وأنه ليس لوليها من الصداق شيء غير ما طابت به. وفي قوله: {فانكحوا ما طاب لكم من النساء}: دليلٌ على أن نكاح الخبيثة غير مأمور به، بل منهيٌّ عنه كالمشركة وكالفاجرة؛ كما قال تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمنَّ}، وقال: {الزانية لا ينكحها إلا زانٍ أو مشركٌ}.
[4] چونکہ اکثر لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق غصب کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر حق مہر (اکثر) بہت زیادہ ہوتا ہے یہ مہر ایک ہی بار پورے کا پورا ادا کرنا باعث مشقت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنی بیویوں کو مہر ادا کریں ﴿ صَدُقٰ٘تِهِنَّ ﴾ یعنی ان کے مہر ﴿ نِحْلَةً ﴾ یعنی ان کا مہر خوش دلی اور اطمینان قلب کے ساتھ ادا کرو۔ مہر ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرو اور اسے ادا کرتے وقت اس میں کچھ کم نہ کرو۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت مکلف (یعنی بالغ اور عاقل) ہو تو مہر اس کو ادا کر دیا جائے گا اور عقد کے موقع پر عورت مہر کی مالک بن جاتی ہے۔ کیونکہ حق مہر کی اضافت اس کی طرف جاتی ہے اور اضافت تملیک کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّؔنْهُ ﴾ ’’اگر وہ خود اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں‘‘ یعنی حق مہر سے ﴿ نَفْسًا﴾ یعنی اگر بیویاں برضا و رغبت مہر کا کچھ حصہ چھوڑ کر یا ادائیگی میں مہلت دے کر یا مہر کا کوئی عوض قبول کر کے شوہروں کے ساتھ نرمی کرتی ہیں ﴿ فَكُلُوْهُ هَنِیْٓـــًٔا مَّرِیْٓــــًٔا ﴾ ’’تو کھاؤ تم اس کو ذوق شوق سے‘‘ یعنی اس صورت میں تمھارے لیے کوئی حرج اور کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بالغ اور عاقل ہے تو اپنے مال میں تصرف کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ خواہ وہ صدقہ ہی کیوں نہ کر دے۔ لیکن اگر بالغ اور عاقل نہیں ہے تو اس کے عطیہ کا حکم معتبر نہیں نیز عورت کا سرپرست اس مہر میں سے کچھ حصہ لینے کا حق دار نہیں سوائے اس کے، کہ عورت برضا و رغبت خود اسے کچھ عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ خبیث یعنی ناپاک عورت سے نکاح مامور نہیں، بلکہ خبیث عورتوں سے نکاح کرنا منع ہے مثلاً مشرک اور فاسق و فاجر عورت سے۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَنْكِحُوا الْ٘مُشْ٘رِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ ﴾ (البقرۃ : 2؍221) ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْ٘رِكَةً ﴾ (النور:24؍3) ’’بدکار عورت کے ساتھ ایک زانی اور مشرک مرد کے سوا کوئی نکاح نہیں کرتا۔‘‘
آیت: 5 #
{وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (5)}.
اور نہ دو تم بے وقوفوں کو اپنے مال، وہ جن کو بنایا ہے اللہ نے تمھارے لیے گزران کا سبب اور کھلاؤ تم ان کو اس میں سے اور پہناؤ ان کو اور کہو ان سے بات معقول(5)
#
{5} السفهاء: جمع سفيه، وهو من لا يحسن التصرف في المال: إما لعدم عقله كالمجنون والمعتوه ونحوهما، وإما لعدم رشده؛ كالصغير وغير الرشيد، فنهى الله الأولياء أن يؤتوا هؤلاء أموالَهم خشيةَ إفسادها وإتلافها؛ لأنَّ الله جعل الأموال قياماً لعباده في مصالح دينهم ودنياهم، وهؤلاء لا يُحْسِنُون القيام عليها وحفظَها، فأمر الله الولي أن لا يؤتيهم إياها، بل يرزقهم منها ويكسوهم ويبذل منها ما يتعلَّق بضروراتهم وحاجاتهم الدينيَّة والدنيويَّة، وأن يقولوا لهم قولاً معروفاً؛ بأن يعدوهم إذا طلبوها أنهم سيدفعونها لهم بعد رُشْدِهم ونحوِ ذلك، ويلطفوا لهم في الأقوال جبراً لخواطرهم. وفي إضافته تعالى الأموال إلى الأولياء إشارة إلى أنه يجب عليهم أن يعملوا في أموال السفهاء ما يفعلونه في أموالهم من الحفظ والتصرف وعدم التعريض للأخطار. وفي الآية دليل على أن نفقة المجنون والصغير والسفيه في مالهم إذا كان لهم مال، لقوله: {وارزقوهم فيها واكسوهم}. وفيه دليلٌ على أنَّ قول الوليِّ مقبول فيما يدعيه من النفقة الممكنة والكسوة؛ لأن الله جعله مؤتَمَناً على مالهم، فلزم قبول قول الأمين.
[5] ﴿ السُّفَهَآءَؔ ﴾ (سَفِیہٌ) کی جمع ہے اور (سفیہ) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بے عقل ہونے مثلاً پاگل وغیرہ یا عدم بلوغت جیسے چھوٹا بچہ اور بے سمجھ وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال میں تصرف اور دیکھ بھال کی اہلیت سے محروم ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے بے عقل لوگوں کے سرپرستوں کو اس ڈر سے ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو خراب یا تلف کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کو اپنے بندوں کے دینی اور دنیاوی مفادات و مصالح کی دیکھ بھال کے لیے بنایا ہے اور یہ بے سمجھ لوگ اس مال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سرپرست کو حکم دیا ہے کہ وہ مال ان بے سمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرے بلکہ وہ اس مال میں سے ان کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کا انتظام کرے اور جو ان کی دینی اور دنیاوی ضروریات ہیں ان میں خرچ کرے اور ان سے اچھی بات ہی کہے۔ یعنی جب وہ اپنے مال کا مطالبہ کریں تو وہ ان سے وعدہ کرے کہ وہ ان کے بالغ اور عاقل ہو جانے کے بعد ان کا مال ان کو لوٹا دے گا اور ان کی دل جوئی کی خاطر ان سے نرم مقالی سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان اموال کو سرپرستوں کی طرف مضاف کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان بے سمجھ لوگوں کے مال کا اس طرح انتظام کرنا ان پر فرض ہے جس طرح وہ اپنے مال کا انتظام کرتے ہیں مثلاً مال کی حفاظت، اس میں تصرف اور اس مال کو خطرات سے بچانا وغیرہ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ پاگل، نابالغ اور بے عقل جب مال کے مالک ہوں تو ان پر انھی کے مال میں سے اخراجات کیے جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ وَّارْزُقُ٘وْهُمْ فِیْهَا وَاكْسُوْهُمْ ﴾ ’’اس مال میں سے ان کو کھلاتے پہناتے رہو۔‘‘ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے، ممکن حد تک اخراجات میں سرپرست کا قول اور اس کا دعویٰ قابل قبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان بے سمجھ لوگوں کے مال پر امین مقرر کیا ہے اور امین کا قول قابل قبول ہے۔
آیت: 6 #
{وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (6)}.
اور جانچ پرکھ کرو تم یتیموں کی یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں وہ نکاح (کی عمر) کو، پھر اگر پاؤ تم ان میں سمجھ داری تو سونپ دو طرف ان کی ان کے مال اور نہ کھاؤ تم ان کو حد سے بڑھ کر اور جلدی کرتے ہوئے اس سے کہ وہ (یتیم) بڑے ہو جائیں گےاور جو ہو مال دار تو چاہیے کہ بچے اور جو ہو فقیر تو چاہیے کہ کھا لے وہ موافق دستور کے۔ پس جب سونپو تم ان کو ان کے مال تو گواہ ٹھہرا لو ان پراور کافی ہے اللہ خوب حساب لینے والا(6)
#
{6} الابتلاء هو: الاختبار والامتحان، وذلك بأن يُدْفَعَ لليتيم المقارب للرشد الممكن رشده شيء من ماله، ويتصرف فيه التصرف اللائق بحاله، فيتبين بذلك رشده من سفهه؛ فإن استمر غير محسن للتصرف؛ لم يدفع إليه ماله، بل هو باق على سفهه، ولو بلغ عمراً كثيراً؛ فإن تبيَّن رشدُه وصلاحُه في ماله وبلغ النكاح؛ {فادفعوا إليهم أموالهم} كاملة موفرة، {ولا تأكلوها إسرافاً}؛ أي: مجاوزة للحدِّ الحلال الذي أباحه الله لكم من أموالكم إلى الحرام الذي حرمه الله عليكم من أموالهم؛ {وبِداراً أن يكبروا}، أي: ولا تأكلوها في حال صغرهم التي لا يمكنهم فيها أخذها منكم، ولا منعكم من أكلها تبادرون بذلك أن يكبروا فيأخذوها منكم ويمنعوكم منها، وهذا من الأمور الواقعة من كثير من الأولياء الذين ليس عندهم خوف من الله ولا رحمة ومحبة للمولَّى عليهم، يرون هذه الحالَ حالَ فرصةٍ، فيغتنمونها ويتعجلون ما حرم الله عليهم، فنهى الله تعالى عن هذه الحالة بخصوصها.
[6] یہاں (ابتلا) سے مراد آزمائش و امتحان ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس قریبی یتیم کو جس کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اب سمجھ دار ہو گیا ہے، اس کے مال میں سے کچھ مال دے دیا جائے وہ اپنے لائق حال اس میں تصرف کرے اس طرح اس کی سمجھ داری واضح ہو جائے گی۔ اگر وہ اپنے تصرف میں مسلسل ناسمجھی کا ثبوت دے رہا ہو تو مال اس کے حوالے نہ کیا جائے اور اسے ناسمجھ ہی سمجھا جائے، خواہ وہ بہت بڑی عمر کو کیوں نہ پہنچ جائے۔ پھر جب اس کی سمجھ داری اور صلاحیت واضح ہوجائے اور وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے ﴿ فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ ﴾ ’’تو ان کا مال (پورے کا پورا) ان کے حوالے کر دو‘‘ ﴿ وَلَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا ﴾ ’’اور اس (مال) کو فضول خرچی سے نہ کھاؤ‘‘ یعنی اس حد سے تجاوز کر کے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے مال میں سے حلال ٹھہرایا ہے ان کے مال میں نہ جاؤ جس کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حرام ٹھہرایا ہے ﴿ وَّبِدَارًا اَنْ یَّؔكْبَرُوْا ﴾ ’’اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے‘‘ یعنی ان کی صغر سنی میں ان کا مال نہ کھاؤ جس عمر میں وہ تم سے اپنا مال واپس لینے پر قادر نہیں ہیں اور نہ تمھیں مال کھانے سے منع کر سکتے ہیں۔ تم جلدی جلدی مال کھاتے رہو کہ وہ بڑے ہو کر تم سے مال لے لیں گے اور ناحق مال کھانے سے منع کر دیں گے۔ یہ امور فی الواقع بہت سے سرپرستوں سے پیش آتے رہتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور زیرسرپرستی بے سمجھ لوگوں کی محبت اور ان پر رحم سے خالی ہوتے ہیں، چنانچہ اس مال کو وہ غنیمت سمجھتے ہیں اور جلدی جلدی وہ مال کھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرام ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس حال میں مال کھانے سے روکا ہے۔
آیت: 7 #
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7)}.
مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت دار اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس سے جو چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت دار، اس (متروکہ) سے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ، اس حال میں کہ وہ حصہ ہے مقرر کیا ہوا(7)
#
{7} كان العرب في الجاهلية من جبريَّتِهم وقسوتهم لا يورِّثون الضعفاء كالنساء والصبيان، ويجعلون الميراث للرجال الأقوياء؛ لأنهم بزعمهم أهل الحرب والقتال والنهب والسلب، فأراد الرب الرحيم الحكيم أن يشرع لعباده شرعاً يستوي فيه رجالهم ونساؤهم وأقوياؤهم وضعفاؤهم، وقدم بين يدي ذلك أمراً مجملاً لتتوطَّن على ذلك النفوس فيأتي التفصيل بعد الإجمال قد تشوقت له النفوس وزالت الوحشة التي منشؤها العادات القبيحة، فقال: {للرجال نصيب}؛ أي: قسط وحصة، {مما ترك}؛ أي: خلَّفَ، {الوالدان}؛ أي: الأب والأم، {والأقربون}؛ عموماً بعد خصوص، {وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون}، فكأنه قيلَ: هل ذلك النصيب راجعٌ إلى العُرف والعادة وأن يرضخوا لهم ما يشاؤون أو شيئاً مقدَّراً؟ فقال تعالى: {نصيباً مفروضاً}؛ أي: قد قدَّره العليم الحكيم. وسيأتي إن شاء الله تقدير ذلك. وأيضاً؛ فهنا توهُّم آخر: لعل أحداً يتوهَّم أن النساء والولدان ليس لهم نصيب إلا من المال الكثير، فأزال ذلك بقوله: {مما قلَّ منه أو كَثُر}؛ فتبارك الله أحسن الحاكمين.
[7] زمانہ جاہلیت میں عرب، اپنی جابریت اور قساوت قلبی کی وجہ سے کمزوروں یعنی عورتوں اور بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے۔ وہ صرف طاقتور مردوں کو میراث دیا کرتے تھے ان کے زعم کے مطابق یہ لوگ جنگ و جدل اور لوٹ مار میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ پس حکمت والے رب رحیم نے ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کے لیے وراثت کا ایسا قانون بنا دے جس میں ان کے مرد اور عورتیں، طاقتور اور کمزور سب مساوی ہوں۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس قانون کو بیان کرنے سے پہلے ایک مجمل حکم بیان کیا تاکہ نفوس اس قانون میراث کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جب نفوس اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور وہ وحشت زائل ہو گئی جس کا سبب بری عادات تھیں تو اس اجمال کی تفصیل آ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ ﴾ یعنی مردوں کے لیے حصہ ہے ﴿ مِّؔمَّؔا تَرَكَ الْوَالِدٰؔنِ ﴾ یعنی ان میں سے جو کچھ ماں اور باپ پیچھے (ترکہ میں) چھوڑ جاتے ہیں ﴿ وَالْاَقْ٘رَبُوْنَ ﴾ ’’اور رشتہ دار‘‘ یعنی خاص کے بعد عام کا ذکر کیا ہے ﴿ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّؔمَّؔا تَرَكَ الْوَالِدٰؔنِ وَالْاَقْ٘رَبُوْنَ ﴾ ’’اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکے میں سے حصہ ہے جو والدین اور دیگر اقارب چھوڑ کر فوت ہوتے ہیں‘‘ گویا کہ سوال کیا گیا کہ یہ حصہ عرف عام اور عادت کی طرف راجع ہے اور لوگ جو چاہیں ورثاء کو دے دیں؟ یا میراث کے حصے مقرر شدہ ہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے، جو علم اور حکمت والا ہے ہر ایک کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔ ان مقرر کردہ حصوں کا ان شاء اللہ عنقریب ذکر آئے گا۔ یہاں ایک اور وہم کا خدشہ ہے، شاید کوئی سمجھے کہ عورتوں اور بچوں کو صرف مال کثیر کی صورت میں حصہ ملے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کر دیا ﴿ مِمَّؔا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُ٘رَ ﴾ ’’خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا بہت۔‘‘ نہایت ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ، جو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔
آیت: 8 #
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (8)}.
اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتے دار اور یتیم اور مساکین تو دو تم ان کو کچھ اس (مقسوم) میں سے اور کہو تم ان سے بات معقول(8)
#
{8} وهذا من أحكام الله الحسنة الجليلة الجابرة للقلوب، فقال: {وإذا حضر القسمة}؛ أي: قسمة المواريث، {أولو القربى}؛ أي: الأقارب غير الوارثين بقرينة قوله: {القسمة}؛ لأن الوارثين من المقسوم عليهم، {واليتامى والمساكين}؛ أي: المستحقون من الفقراء؛ {فارزقوهم منه}؛ أي: أعطوهم ما تيسَّر من هذا المال الذي جاءكم بغير كدٍّ ولا تعب ولا عَناءٍ ولا نَصَبٍ؛ فإنَّ نفوسَهم متشوفةٌ إليه وقلوبَهم متطلعةٌ؛ فاجبُروا خواطرهم بما لا يضركم وهو نافعهم. ويؤخذ من المعنى أنَّ كل مَنْ له تطلُّع وتشوُّف إلى ما حضر بين يدي الإنسان ينبغي له أن يعطِيَهُ منه ما تيسَّر؛ كما كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول: «إذا جاء أحدكم خادمه بطعامه؛ فليُجْلِسْه معه؛ فإن لم يُجْلِسْه معه؛ فليناوله لقمة أو لقمتين» ، أو كما قال. وكان الصحابة رضي الله عنهم إذا بدأت باكورة أشجارهم؛ أتوا بها رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فَبَرَّكَ عليها، ونظر إلى أصغر وليد عنده، فأعطاه ذلك؛ علماً منه بشدة تشوفه لذلك، وهذا كله مع إمكان الإعطاء؛ فإن لم يمكن ذلك لكونه حقَّ سفهاء أو ثَمَّ أهمُّ من ذلك؛ فليقولوا لهم {قولاً معروفاً}؛ يردُّونهم ردًّا جميلا بقول حسن غير فاحش ولا قبيح.
[8] یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ ﴾ یعنی میراث کی تقسیم کے وقت ﴿ اُولُوا الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے وارث نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ الْقِسْمَةَ ﴾ ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہو گی ﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنُ ﴾ ’’یتیم اور مساکین‘‘ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ ﴿ فَارْزُقُ٘وْهُمْ مِّؔنْهُ ﴾ یعنی اس مال میں سے جو تمھیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہو سکے عطا کردو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کی دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو دے دو جس سے تمھیں نقصان نہ ہو اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس معنیٰ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ اگر انسان کے سامنے کوئی چیز رکھی جائے اور وہاں کوئی ایسا فرد موجود ہو جو کسی آس میں اس پر نظر رکھتا ہو تو اس شخص کے لیے مناسب ہے کہ جتنا بھی ہو سکے اس کو عطا کر دے۔ جیسا کہ نبی اکرمeنے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے سامنے کھانا پیش کرے تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے ایک یا دو لقمے عطا کر دے۔‘‘ صحابہ کرامy کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان کے سامنے موسم کا پہلا پھل آتا تو وہ اسے رسول اللہeکی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس میں برکت کی دعا فرماتے اور پھر وہاں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطا کر دیتے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ننھا بچہ نہایت شدت سے اس کی خواہش رکھتا ہو گا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عطا کرنا ممکن ہو اگر عطا کرنا ممکن نہ ہو ۔۔۔ مثلاً یہ بے سمجھ لوگوں کا حق ہے یا اس سے بھی اہم کوئی اور وجہ ہو تو ایسی صورت میں ﴿ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴾ ان کو اچھی اور غیر قبیح بات کہہ کر بھلے طریقے سے لوٹا دو۔
آیت: 9 - 10 #
{وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)}.
اور چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ کہ اگر چھوڑ جائیں وہ اپنے پیچھے اولاد کمزور تو (کیسے) خوف کھاتے ہیں وہ اوپر ان کے۔ پس چاہیے کہ ڈریں وہ اللہ سے اور چاہیے کہ کہیں بات سیدھی(9) بلاشبہ وہ لوگ جو کھاتے ہیں مال یتیموں کے ظلم سے تو بلاشبہ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ۔ اور عنقریب داخل ہوں گے وہ دہکتی آگ میں(10)
#
{9} قيل: إن هذا خطاب لمن يحضُرُ من حَضَرَهُ الموت، وأجنف في وصيته أن يأمره بالعدل في وصيته والمساواة فيها؛ بدليل قوله: {وليقولوا قولاً سديداً}؛ أي: سداداً موافقاً للقسط والمعروف، وأنهم يأمرون من يريد الوصية على أولاده بما يحبُّون معاملةَ أولادهم بعدهم. وقيل: إن المراد بذلك أولياء السفهاء من المجانين والصغار والضعاف أن يعاملوهم في مصالحهم الدينية والدنيوية بما يحبون أن يعامل به مَنْ بعدهم مِنْ ذُرِّيَّتهم الضعاف؛ {فليتقوا الله}: في ولايتهم لغيرهم؛ أي: يعاملونهم بما فيه تقوى الله من عدم إهانتهم والقيام عليهم وإلزامهم لتقوى الله.
[9] کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس شخص کے لیے ہے جو کسی قریب المرگ شخص کے پاس موجود ہو اور مرنے والا اپنی وصیت میں ظلم اور گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ تو وہ اس شخص کو اس کی وصیت میں عدل و انصاف اور مساوات کی تلقین کرے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ﴾ یعنی ان سے درست بات کہو جو انصاف اور معروف کے موافق ہو۔ وہ ان لوگوں کو، جو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرنا چاہتے ہیں، ان کی اولاد کے بارے میں ایسی تلقین کریں جو وہ خود اپنے بعد اپنی اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے سمجھ، یعنی پاگل، کم سن اور کمزور لوگوں کے سرپرست ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ وہ ان بے سمجھ لوگوں کے دینی اور دنیاوی مفادات کا ایسا انتظام کریں جو وہ اپنے مرنے کے بعد اپنی کمزور اور بے سمجھ اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ ﴿ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ وہ دوسروں کی سرپرستی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں یعنی وہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں جو تقویٰ پر مبنی ہو جس میں ان لوگوں کی اہانت نہ ہو جو ان کی سرپرستی میں ہیں، ان کی دیکھ بھال کریں اور ان سے تقویٰ کا التزام کروائیں۔
#
{10} ولما أمرهم بذلك زجرهم عن أكل أموال اليتامى وتوعَّد على ذلك أشد العذاب، فقال: {إنَّ الذين يأكلون أموال اليتامى ظلماً}؛ أي: بغير حق، وهذا القيد يخرُجُ به ما تقدَّم من جواز الأكل للفقير بالمعروف، ومن جواز خلط طعامهم بطعام اليتامى؛ فمن أكلها ظُلماً؛ فإنما {يأكلون في بطونهم ناراً}؛ أي: فإن الذي أكلوه نار تتأجَّج في أجوافهم، وهم الذين أدخلوه في بطونهم، {وسيصلون سعيراً}؛ أي: ناراً محرقة متوقدة. وهذا أعظم وعيد ورد في الذنوب يدل على شناعة أكل أموال اليتامى وقُبحها وأنها موجبة لدخول النار، فدلَّ ذلك أنها من أكبر الكبائر، نسأل الله العافية.
[10] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے مال کی دیکھ بھال کا حکم دیا تو اب ان کو یتیموں کا مال کھانے پر زجر و توبیخ کی ہے اور اس پر سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَ٘اْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْ٘یَ٘تٰمٰى ظُلْمًا ﴾ ’’جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔‘‘ اس ’’ناحق‘‘ کی قید سے وہ نادار سرپرست نکل گئے جن کو معروف طریقے سے بقدر ضرورت ان کے مال میں سے کھانے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ بھی اس سے خارج ہو گئے جو آسانی اور اصلاح کی نیت سے اپنا کھانا یتیموں کے کھانے کے ساتھ ملا لیتے ہیں، کیونکہ یہ بھی جائز ہے۔ پس جو کوئی ظلم سے یتیموں کا مال کھاتا ہے ﴿ یَ٘اْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا ﴾ ’’وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔‘‘ یعنی انھوں نے یتیموں کا جو مال کھایا ہے وہ آگ ہے جو ان کے پیٹ میں بھڑکے گی، یہ آگ خود انھوں نے اپنے پیٹ میں داخل کی ہے ﴿ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا﴾ یعنی وہ عنقریب جلانے والی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ یہ سب سے بڑی وعید ہے جو گناہوں کے بارے میں سنائی گئی ہے جو یتیموں کا مال کھانے کی برائی اور قباحت پر دلالت کرتی ہے نیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یتیموں کا مال کھانا جہنم میں جانے کا موجب ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
آیت: 11 - 12 #
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11) وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12)}.
وصیت کرتا ہے تمھیں اللہ تمھاری اولاد کی بابت، واسطے مرد کے ہے مثل حصے دو عورتوں کے۔ پھر اگر ہوں (صرف) عورتیں (ہی، دو یا) زیادہ دو سے تو ان کے لیے ہے دو تہائی اس میں سے جو چھوڑ گیا وہ اور اگر ہو ایک ہی (لڑکی) تو اس کے لیے ہے آدھااور واسطے اس کے ماں باپ کے، ہر ایک کے لیے ان میں سے چھٹا حصہ ہے اس سے جو وہ چھوڑ گیا، اگر ہے اس کی اولاد۔ پس اگر نہ ہو اس کی اولاد اور وارث ہوں اس کے ماں باپ ہی تو اس کی ماں کے لیے ہے تیسرا حصہ۔ پس اگر ہوں اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی (بہن) تو اس کی ماں کا ہے چھٹا حصہ۔ بعد وصیت کے کہ وصیت کر جائے وہ اس کی یا (بعد) قرض کے۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، نہیں تم جانتے کون ان میں سے زیادہ قریب ہے تمھارے لیے بہ اعتبار نفع کے۔ (یہ) مقرر ہے اللہ کی طرف سے، بلاشبہ اللہ ہے خوب جاننے والا بڑا حکمت والا(11) اور تمھارے لیے آدھا ہے اس کا جو چھوڑ گئیں تمھاری بیویاں اگر نہ ہو ان کی اولاد۔ پس اگر ہو واسطے ان کے اولاد تو تمھارے لیے ہے چوتھا حصہ اس سے جو وہ چھوڑ گئیں، بعد وصیت کے کہ وصیت کر جائیں وہ اس کی یا (بعد) قرض کے۔ اور ان (بیویوں) کے لیے ہے چوتھا حصہ اس سے جو چھوڑ جاؤ تم، اگر نہ ہو تمھاری اولاد، پس اگر ہو تمھاری اولاد تو ان (بیویوں) کے لیے ہے آٹھواں حصہ، اس سے جو چھوڑ جاؤ تم، بعد وصیت کے کہ وصیت کر جاؤ تم اس کی یا (بعد) قرض کے۔ اور اگر ہو وہ مرد کہ وراثت لی جارہی ہے (اس کی) کلالہ یا عورت ہو(ایسی ہی) اور واسطے اس کے ایک بھائی ہے یا ایک بہن تو ہر ایک کے لیے ان دونوں میں سے چھٹا حصہ ہے۔ پس اگر ہوں وہ زیادہ اس سے تو وہ شریک ہوں گے تہائی حصے میں۔ بعد وصیت کے کہ وصیت کر دی جائے اس کی یا (بعد) قرض کے۔ بشرطیکہ نہ نقصان پہنچانے والا ہو وہ، (یہ) وصیت ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے(12)
وراثت کے احکام اور اصحاب وراثت: یہ آیات اور اس سورت کی آخری آیت وراثت کی آیات ہیں اور وراثت کے احکام پر مشتمل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسwسے صحیح بخاری میں مروی ہے ’’میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے‘‘ (صحیح البخاری، الفرائض، حديث:6732، وصحیح مسلم، الفرائض، حديث:1615)ان آیات کو اس حدیث سے ملایا جائے تو یہ دونوں وراثت کے بڑے بڑے، بلکہ تمام احکام پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ابھی تفصیل سے واضح ہو گا، سوائے نانی کی وراثت کے، کیونکہ اس کا ذکر ان میں نہیں ہے، مگر سنن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہwسے ثابت ہے کہ رسول اللہeنے میت کی نانی کو وراثت کا چھٹا حصہ عطا کیا، اس پر علماء کا بھی اجماع ہے۔ وراثت میں میت کی اولاد کا حصہ
#
{11} فقوله تعالى: {يوصيكم الله في أولادكم}؛ أي: أولادكم يا معشر الوالدين عندكم ودائع قد وصاكم الله عليهم لتقوموا بمصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، فتعلِّمونهم وتؤدِّبونهم وتكفُّونهم عن المفاسد وتأمرونَهم بطاعة الله وملازمة التقوى على الدوام؛ كما قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم ناراً وَقودها الناس والحجارةُ}؛ فالأولاد عند والِديهم موصىً بهم؛ فإمَّا أن يقوموا بتلك الوصية؛ فلهم جزيل الثواب، وإمَّا أن يضيِّعوها؛ فيستحقوا بذلك الوعيد والعقاب. وهذا مما يدلُّ على أن الله تعالى أرحم بعباده من الوالِدينِ، حيث أوصى الوالِدينِ مع كمال شفقتهم عليهم. ثم ذكر كيفية إرثهم، فقال: {للذكر مثل حظ الأنثيين}؛ أي: الأولاد للصلب والأولاد للابن، للذكر مثل حظِّ الأنثيين إن لم يكن معهم صاحبُ فرض، أو ما أبقت الفروض يقتسمونه كذلك، وقد أجمع العلماء على ذلك، وأنه مع وجود أولاد الصلب؛ فالميراث لهم، وليس لأولاد الابن شيء؛ حيث كان أولاد الصلب ذكوراً وإناثاً. هذا مع اجتماع الذكور والإناث. وهنا حالتان: انفراد الذكور. وسيأتي حكمها، وانفراد الإناث. وقد ذكره بقوله: {فإن كنَّ نساءً فوق اثنتين}؛ أي: بنات صلب أو بنات ابن ثلاثاً فأكثر؛ {فلهن ثلثا ما ترك وإن كانت واحدة}؛ أي: بنتاً أو بنت ابن؛ {فلها النصف}. وهذا إجماع. بقي أن يُقال: من أين يُستفاد أنَّ للابنتين الثِّنْتَيْنِ الثلثين بعد الإجماع على ذلك؟ فالجواب: أنه يستفاد من قوله: {إن كانت واحدةً فلها النصف}؛ فمفهوم ذلك أنه إن زادت على الواحدة؛ انتقل الفرض عن النصف، ولا ثَمَّ بعده إلا الثلثان. وأيضاً؛ فقوله: {للذكر مثل حظ الأنثيين}: إذا خلَّفَ ابناً وبنتاً؛ فإن الابن له الثلثان، وقد أخبر الله أنه مثل حظ الأنثيين، فدلَّ ذلك على أن للبنتين الثلثين. وأيضاً؛ فإن البنت إذا أخذت الثلث مع أخيها وهو أزيد ضرراً عليها من أختها، فأخْذُها له مع أختها من باب أولى وأحرى. وأيضاً؛ فإن قوله تعالى في الأختين: {فإن كانتا اثنتينِ فلهما الثلثانِ مما ترك}: نصٌّ في الأختين الثنتين؛ فإذا كان الأختان الثنتان مع بعدهما يأخذان الثلثين؛ فالابنتان مع قربهما من باب أولى وأحرى. وقد أعطى النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - ابنتي سعد الثلثين؛ كما في «الصحيح». بقي أن يُقال: فما الفائدة في قوله: {فوق اثنتين}؟ قيل: الفائدة في ذلك والله أعلم: أنه لِيُعْلَمَ أن الفرض الذي هو الثلثان لا يزيد بزيادتهن على الثنتين، بل من الثنتين فصاعداً. ودلت الآية الكريمة أنه إذا وُجِدَ بنتُ صلبٍ واحدة وبنتُ ابن أو بناتُ ابن؛ فإن لبنت الصلب النصف، ويبقى من الثلثين اللذين فرضهما الله للبنات أو بنات الابن السدس، فيعطى بنت الابن أو بنات الابن، ولهذا يسمى هذا السدس تكملةَ الثلثين. ومثل ذلك بنت الابن مع بنات الابن اللاتي أَنْزَلُ منها. وتدلُّ الآية أنه متى استغرقَ البناتُ أو بناتُ الابن الثلثين: أنه يسقُطُ من دونهنَّ من بنات الابن؛ لأن الله لم يفرض لهن إلا الثلثين، وقد تم؛ فلو لم يسقطن؛ لزم من ذلك أن يفرضَ لهنَّ أزيدُ من الثلثين، وهو خلاف النص. وكل هذه الأحكام مجمع عليها بين العلماء، ولله الحمد. ودل قوله: {مما ترك}: أن الوارثين يرثون كل ما خلف الميت من عقار وأثاث وذهب وفضة وغير ذلك، حتى الدية التي لم تجب إلا بعد موته، وحتى الديون التي في الذمة. ثم ذكر ميراث الأبوين، فقال: {ولأبويه}؛ أي: أبوه وأمه، {لكل واحد منهما السدس مما ترك إن كان له ولد}؛ أي: ولد صلب أو ولد ابن ذكراً كان أو أنثى واحداً أو متعدداً: فأما الأم؛ فلا تزيد على السدس مع أحد من الأولاد، وأما الأب؛ فمع الذكور منهم لا يستحق أزيد من السدس؛ فإن كان الولد أنثى أو إناثاً، ولم يبق بعد الفرض شيء؛ كأبوين وابنتين؛ لم يبق له تعصيب، وإن بقي بعد فرض البنت أو البنات شيء؛ أخذ الأب السدس فرضاً والباقي تعصيباً؛ لأننا ألحقنا الفروض بأهلها؛ فما بقي؛ فلأولى رجل ذكر، وهو أولى من الأخ والعم وغيرهما. {فإن لم يكن له ولدٌ وورثه أبواه فلأمه الثلث}؛ أي: والباقي للأب؛ لأنه أضاف المال إلى الأب والأم إضافة واحدة، ثم قدر نصيب الأم، فدل ذلك على أن الباقي للأب، وعُلم من ذلك أن الأب مع عدم الأولاد لا فرضَ له، بل يرث تعصيباً المالَ كلَّه، أو ما أبقت الفروض. لكن لو وُجِدَ مع الأبوين أحدُ الزوجين ـ ويعبَّر عنهما بالعمريَّتين ـ؛ فإن الزوج أو الزوجة يأخذ فرضه، ثم تأخذ الأم ثلث الباقي والأب الباقي، وقد دل على ذلك قوله: {وورثه أبواه فلأمه الثلث}؛ أي: ثلث ما ورثه الأبوان، وهو في هاتين الصورتين: إما سدس في زوج وأم وأب، وإما ربع في زوجة وأم وأب، فلم تدل الآية على إرث الأم ثلث المال كاملاً مع عدم الأولاد حتى يقالَ: إنَّ هاتين الصورتين قد اسْتُثنِيتا من هذا. ويوضح ذلك أن الذي يأخذه الزوج أو الزوجة بمنزلة ما يأخذه الغرماء، فيكون من رأس المال، والباقي بين الأبوين. ولأنَّا لو أعطينا الأم ثلث المال؛ لزم زيادتها على الأب في مسألة الزوج أو أخذ الأب في مسألة الزوجة زيادة عنها نصف السدس، وهذا لا نظير له؛ فإن المعهود مساواتها للأب أو أخذه ضعف ما تأخذه الأم. {فإن كان له إخوة فلأمه السدس}: أشقاء أو لأب أو لأم ذكوراً كانوا أو إناثاً وارثين أو محجوبين بالأب أو الجد. لكن قد يُقال: ليس ظاهر قوله: {فإن كان له إخوة}: شاملاً لغير الوارثين، بدليل عدم تناولها للمحجوب بالنصف؛ فعلى هذا لا يحجبها عن الثلث من الإخوة إلا الإخوة الوارثون. ويؤيده أن الحكمة في حجبهم لها عن الثلث لأجل أن يتوفَّر لهم شيء من المال، وهو معدوم. والله أعلم. ولكن بشرط كونهم اثنين فأكثر. ويشكل على ذلك إتيان لفظ الإخوة بلفظ الجمع. وأجيب عن ذلك بأن المقصود مجرد التعدد لا الجمع، ويصدق ذلك باثنين، وقد يطلق الجمع ويراد به الاثنان؛ كما في قوله تعالى عن داود وسليمان: {وكُنَّا لِحُكْمِهم شاهدين}. وقال في الإخوة للأم: {وإن كان رجل يورَث كَلالةً أو امرأةٌ وله أخ أو أختٌ فلكل واحد منهما السدس فإن كانوا أكثر من ذلك فهم شركاء في الثلث}: فأطلق لفظ الجمع، والمراد به اثنان فأكثر بالإجماع. فعلى هذا؛ لو خلَّف أمًّا وأباً وإخوةً؛ كان للأم السدس والباقي للأب، فحجبوها عن الثلث مع حجب الأب إياهم؛ إلا على الاحتمال الآخر؛ فإن للأم الثلث والباقي للأب. ثم قال تعالى: {من بعد وصية يوصى بها أو دين}؛ أي: هذه الفروض والأنصباء والمواريث، إنما ترد وتستحق بعد نزع الديون التي على الميت لله أو للآدميين، وبعد الوصايا التي قد أوصى الميت بها بعد موته؛ فالباقي عن ذلك هو التركة الذي يستحقه الورثة. وقدم الوصية مع أنها مؤخرة عن الدين للاهتمام بشأنها لكون إخراجها شاقًّا على الورثة، وإلاَّ؛ فالديون مقدَّمة عليها، وتكون من رأس المال، وأما الوصية؛ فإنها تصح من الثلث فأقل للأجنبي الذي هو غير وارث، وأما غير ذلك؛ فلا ينفذ إلا بإجازة الورثة. قال تعالى: {آباؤكم وأبناؤكم لا تدرون أيهم أقرب لكم نفعاً}؛ فلو رُدَّ تقدير الإرث إلى عقولكم واختياركم؛ لحصل من الضرر ما الله به عليم؛ لِنَقْصِ العقولِ وعدم معرفتها بما هو اللائق الأحسن في كل زمان ومكان، فلا يدرون أي الأولاد أو الوالدين أنفع لهم وأقرب لحصول مقاصدهم الدينية والدنيوية. {فريضة من الله إنَّ الله كان عليماً حكيماً}؛ أي: فرضها الله الذي قد أحاط بكل شيء علماً وأحكم ما شرعه وقدَّر ما قدَّره على أحسن تقدير، لا تستطيع العقول أن تقترح مثل أحكامه الصالحة الموافقة لكل زمان ومكان وحال.
[11] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ﴾ ’’اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تمھیں وصیت (حکم) فرماتا ہے۔‘‘ یعنی اے والدین کے گروہ! تمھاری اولاد تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمھیں وصیت کی ہے تاکہ تم ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال کرو۔ تم ان کو تعلیم دو ادب سکھاؤ، انھیں برائیوں سے بچاؤ، انھیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ کے دائمی التزام کا حکم دو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾ (التحریم:66؍6) ’’اے ایمان دارو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ پس اولاد کے بارے میں والدین کو وصیت کی گئی ہے۔ اس لیے چاہیں تو وہ اس وصیت پر عمل کریں تب ان کے لیے بہت زیادہ ثواب ہے اور چاہیں تو اس وصیت کو ضائع کر دیں تب وہ سخت وعید اور عذاب کے مستحق ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے والدین کو ان کی اولاد کے بارے میں وصیت کی درآں حالیکہ والدین اپنی اولاد کے لیے کمال شفقت کے حامل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لیے وراثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْ٘لُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ یعنی اگر اصحاب الفروض نہ ہوں یا اصحاب الفروض کو دینے کے بعد ترکہ بچ جائے تو صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد کے لیے وراثت کا حکم یہ ہے کہ دو لڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے نیز اگر میت کی صلبی اولاد موجود ہو تو وراثت انھی میں تقسیم ہوگی۔ اگر میت کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو پوتے پوتیوں کو وراثت نہیں ملے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ میت کے بیٹے اور بیٹیاں دونوں موجود ہیں، یہاں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت کہ صرف بیٹے ہوں، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری صورت کہ صرف بیٹیاں ہوں، اس کا ذکر ذیل میں ہے۔ بیٹیوں کے لیے وراثت کے احکام: اگر صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ كُ٘نَّ نِسَآءًؔ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ﴾ یعنی اگر صلبی بیٹیوں یا پوتیوں کی تعداد تین یا تین سے زیادہ ہے ﴿ فَ٘لَ٘هُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ﴾ ’’تو ان سب کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔‘‘ ﴿ فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ ’’اگر ایک بیٹی یا پوتی ہے تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے‘‘ اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اس پر اجماع کے بعد یہ اصول کہاں سے مستفاد ہوا کہ دو بیٹیوں کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہے؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے اگر بیٹی ایک سے زائد ہو تو وراثت کا حصہ بھی نصف سے منتقل ہو کر آگے بڑھے گا اور نصف کے بعد دو تہائی حصہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْ٘لُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ جب میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہو تو ترکہ میں سے بیٹے کے لیے دو تہائی حصہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کا یہ حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو بیٹیوں کے لیے دو تہائی حصہ ہے۔ نیز اگر بیٹی اپنے بھائی کی معیت میں وراثت میں سے ایک تہائی حصہ لیتی ہے درآں حالیکہ بھائی بہن کی نسبت وراثت میں اس کے لیے زیادہ نقصان کا باعث ہے تو بہن کی معیت میں بیٹی کا وراثت سے حصہ لینا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز بہنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُ٘ـثٰ٘نِ مِمَّؔا تَرَكَ ﴾ (النساء:4؍176) ’’اگر دو بہنیں ہوں تو ان دونوں کے لیے ترکے میں سے دو تہائی حصہ ہے۔‘‘ دو بہنوں کے لیے دو تہائی ترکہ کے بارے میں یہ واضح نص ہے۔ جب دو بہنیں میت سے رشتہ میں بعد کے باوجود اس کے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ لیتی ہیں تو دو بیٹیاں میت سے رشتہ میں قرب کی بنا پر دو تہائی ترکہ لینے کی زیادہ مستحق ہیں۔ نیز صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہeنے سعدtکی دو بیٹیوں کو دو تہائی ترکہ عطا کیا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ﴾ ’’اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں‘‘ کا کیا فائدہ؟ کہا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ کہ یہ معلوم ہو جائے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ دو تہائی ہی ہے۔ وارث بیٹیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وراثت کا حصہ دو تہائی سے زیادہ نہیں ہو گا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب میت کی صلب میں سے ایک بیٹی ہو اور ایک یا ایک سے زائد پوتیاں ہوں تو بیٹی کے لیے نصف ترکہ ہے اور اس دو تہائی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد بیٹیوں یا پوتیوں کے لیے مقرر کیا ہے، چھٹا حصہ باقی بچ جاتا ہے تو یہ چھٹا حصہ پوتی یا پوتیوں کو دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے اس چھٹے حصے کو ’’دو تہائی کا تکملہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اس کی مثال پوتی کی معیت میں وہ پوتیاں ہیں جو اس سے زیادہ نیچے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر بیٹیاں یا پوتیاں پورے کا پورا دو تہائی حصہ لے لیں تو وہ پوتیاں جو زیادہ نیچے ہیں ان کا حصہ ساقط ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے صرف دو تہائی کا حصہ مقرر کیا ہے جو کہ پورا ہو چکا ہے۔ اگر ان کا حصہ ساقط نہ ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے لیے دو تہائی سے زیادہ حصہ مقرر ہو اور یہ بات نص کے خلاف ہے اور ان تمام احکام پر علماء کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مِمَّؔا تَرَكَ ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ میت ترکہ میں جو کچھ بھی چھوڑتی ہے خواہ وہ زمین کی صورت میں جائیداد ہو، گھر کا اثاثہ یا سونا چاندی وغیرہ ہو حتیٰ کہ دیت بھی جو اس کے مرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اور وہ قرضے جو میت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ ورثاء ان سب چیزوں کے وارث ہوں گے۔ ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام: پھر اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلِاَبَوَیْهِ ﴾ اس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں ﴿ لِكُ٘لِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّؔا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ﴾ یعنی اگر میت کا ایک یا ایک سے زائد صلبی بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی موجود ہوں۔ تو پس ماں اولاد (بیٹے یا پوتے) کی معیت میں چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گی۔ باپ کے لیے وراثت کے احکام: اگر میت کی نرینہ اولاد موجود ہے تو ان کی معیت میں باپ چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گا۔ اگر اولاد بیٹی یا بیٹیاں ہیں اور مقررہ حصے ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے، جیسے ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں، تو باپ کا استحقاق عصبہ باقی نہیں رہے گا۔ اور اگر بیٹی یا بیٹیوں کے حصے کے بعد کچھ بچ جائے تو باپ چھٹا حصہ مقررہ حصے کے طور پر اور باقی مال عصبہ ہونے کے اعتبار سے لے گا۔ اس لیے کہ اصحاب الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو بچ جائے تو اس کا وہ مرد زیادہ مستحق ہوتا ہے جو میت کے زیادہ قریب ہو، اس لیے اس صورت میں باپ بھائی اور چچا وغیرہ سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَكُ٘نْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ﴾ ’’اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے‘‘ یعنی باقی ترکہ باپ کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کی اضافت بیک وقت ماں اور باپ کی طرف کی ہے پھر ماں کا حصہ مقرر کر دیا، تو یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ باقی مال باپ کے لیے ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں میت کا باپ اصحاب فروض میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ عصبہ کی حیثیت سے تمام مال یا مقرر کردہ حصوں (فروض) سے بچے ہوئے باقی مال کا حق دار ہو گا۔ اگر ماں باپ کی موجودگی میں میت کا خاوند یا بیوی بھی موجود ہو۔ جن کو (عمریتین) سے تعبیر کیا جاتا ہے… تو خاوند یا بیوی اپنا حصہ لیں گے، ماں باقی میں سے ایک تہائی لے گی اور جو بچ رہے گا اس کا مالک میت کا باپ ہو گا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ﴾ یعنی جس مال کے وارث ماں باپ ہوں اس کا ایک تہائی حصہ ماں کے لیے ہے اور وہ ان دو صورتوں میں یعنی میت کے خاوند، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ، اور میت کی بیوی، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ہے۔ پس یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ میت کی ماں، میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں تمام مال کی ایک تہائی کی وارث ہے۔ جب تک یہ نہ کہا جائے کہ یہ مذکورہ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ اس کی مزید توضیح اس سے ہوتی ہے کہ خاوند یا بیوی جو حصہ لیتی ہے، وہ اس حصے کی طرح ہے جو قرض خواہ لیتے ہیں، اس لیے وہ سارے مال سے ہو گا اور باقی مال کے وارث ماں باپ ہوں گے۔ کیونکہ اگر ہم کل مال کا تیسرا حصہ ماں کو عطا کر دیں تو اس سے میت کے خاوند کی معیت میں ماں کا حصہ باپ کے حصے سے بڑھ جائے گا یا میت کی بیوی کی معیت میں باپ کا حصہ ماں کی نسبت چھٹے حصے کے نصف سے زیادہ ہو جائے گا جس کی کوئی نظیر نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ ماں، باپ کے مساوی حصہ لے گی یا باپ اس سے دگنا لے گا جو ماں کے حصہ میں آتا ہے۔ ﴿ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾ ’’اگر مرنے والے کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے‘‘ یعنی حقیقی بھائی ہوں یا باپ کی طرف سے (علاتی بھائی) ہوں یا ماں کی طرف سے (اخیافی بھائی) ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں۔۔۔ وارث بنتے ہوں یا وہ باپ یا دادا کی موجودگی میں محجوب ہوں۔ مگر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ ﴾ کا ظاہر غیر ورثاء کو شامل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ محجوب کو نصف حصہ نہیں پہنچتا۔۔۔ تب اس صورت میں میت کے وارث بننے والے بھائیوں کے سوا ماں کو ایک تہائی حصہ سے کوئی بھائی محجوب نہیں کر سکتا۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ میت کے بھائیوں کی ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کر دینے میں حکمت یہ ہے کہ کہیں ان کے لیے مال میں کچھ بڑھ نہ جائے حالانکہ وہ معدوم ہے۔ مگر یہاں ایک شرط عائد کی گئی ہے کہ بھائی دو یا دو سے زائد ہوں۔ البتہ اس میں اشکال یہ ہے کہ یہاں ﴿ اِخْوَةٌ ﴾ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں جمع مقصود نہیں بلکہ مجرد تعدد (متعدد ہونا) مقصود ہے۔ اور یہ تعدد دو کے عدد پر بھی صادق آتا ہے۔ کبھی جمع کا صیغہ تو بول لیا جاتا ہے، مگر اس سے مراد دو ہوتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمانiکے بارے میں فرمایا: ﴿ وَؔكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَ﴾ (الانبیاء:21؍78) ’’اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بھائیوں کے بارے میں فرمایا ﴿ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰ٘لَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ٘ اَوْ اُخْتٌ فَ٘لِكُ٘لِّ وَاحِدٍ مِّؔنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَ كْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَؔكَآءُ فِی الثُّلُثِ ﴾ (النساء:4؍12) ’’اگر ایسے مرد یا عورت کی وراثت ہو جو کلالہ ہو یعنی جس کی اولاد ہو نہ باپ، مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔‘‘ پس یہاں بھی جمع کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے مگر بالاجماع اس سے مراد دو اور دو سے زائد افراد ہیں۔ اس صورت میں اگر میت اپنے پیچھے ماں، باپ اور کچھ بھائی وارث چھوڑتا ہے تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے اور باقی ترکے کا وارث باپ ہے پس انھوں نے ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ باپ نے ان کو بھی محجوب کر دیا۔ البتہ اس میں ایک دوسرا احتمال موجود ہے، جس کی رو سے ماں کے لیے ایک تہائی اور باقی ترکہ باپ کے لیے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ﴾ یعنی میت کے ذمے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاذ کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے وہ میت کا ترکہ ہے جس کے مستحق ورثاء ہیں اور یہ وراثت قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاذ کے بعد فروض اور ورثاء کے حصوں میں تقسیم ہو گی اور آیت میں وصیت کو مقدم رکھا گیا ہے، باوجود اس بات کے کہ اس کا نفاذ قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گا، اس کی وجہ وصیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے (تاکہ ورثاء اس کو نظرانداز نہ کریں) علاوہ ازیں وصیت کا نفاذ ورثاء پر شاق گزرتا ہے (اور وہ اس پر عمل کرنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں) وگرنہ قرض کی ادائیگی، وصیت پر مقدم ہے اور وصیت اصل مال میں سے ہو گی۔ جہاں تک وصیت کا معاملہ ہے تو وہ صرف ایک تہائی مال یا اس سے کم میں، نیز صرف غیروارث اجنبیوں کے لیے جائز ہے اس کے علاوہ اگر وصیت کی گئی ہے تو وہ نافذ نہیں ہو گی البتہ اگر ورثاء اجازت دے دیں تو نافذ ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْ٘رَبُ لَكُمْ نَفْعًا ﴾ ’’تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمھارے زیادہ قریب ہے‘‘ یعنی اگر وراثت کے حصے تمھاری عقل اور تمھارے اختیار کے مطابق بنائے جاتے تو اس قدر نقصان پہنچتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ عقل ناقص ہے اور ہر زمان و مکان کے مطابق جو چیز زیادہ اچھی اور زیادہ لائق ہے اس کی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ پس انسان نہیں جانتا کہ اس کی اولاد یا والدین میں سے دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں کون اس کے لیے زیادہ فائدہ مند اور اس کے زیادہ قریب ہے۔ ﴿ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا ﴾ ’’اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے‘‘ یعنی وراثت کے ان حصوں کو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس نے جو شریعت بنائی ہے اسے محکم کیا ہے اور اس نے جو چیز مقدر کی ہے اسے بہترین اندازے کے ساتھ مقدر کیا ہے۔ عقل ان جیسے احکام وضع کرنے سے قاصر ہے جو ہر حال اور ہر زمان و مکان کے موافق اور نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شوہر اور بیویوں کے لیے وراثت کے احکام:
#
{12} ثم قال تعالى: {ولكم} أيها الأزواج {نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن من بعد وصية يوصين بها أو دين ولهن الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد، فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم من بعد وصية توصون بها أو دين}، ويدخل في مسمى الولد المشروط وجوده أو عدمه ولد الصلب، أو ولد الابن، الذكر والأنثى، الواحد، والمتعدد الذي من الزوج أو من غيره، ويخرج عنه ولد البنات إجماعاً. ثم قال تعالى: {وإن كان رجل يورث كلالة أو امرأة وله أخ أو أخت}؛ أي: من أم؛ كما هي في بعض القراءات، وأجمع العلماء على أن المراد بالإخوة هنا الإخوة للأم؛ فإذا كان يورث كلالة؛ أي: ليس للميت والد ولا ولد؛ أي: لا أب ولا جد ولا ابن ولا ابن ابن ولا بنت ولا بنت ابن وإن نزلوا، وهذه هي الكلالة كما فسرها بذلك أبو بكر الصديق رضي الله عنه، وقد حصل على ذلك الاتفاق ولله الحمد، {فلكل واحد منهما}؛ أي؛ من الأخ والأخت {السدس، فإن كانوا أكثر من ذلك}؛ أي: من واحد؛ {فهم شركاء في الثلث}؛ أي: لا يزيدون على الثلث ولو زادوا عن اثنين. ودل قوله: {فهم شركاء في الثلث}: أن ذكرهم وأنثاهم سواء؛ لأن لفظ الشريك يقتضي التسوية. ودل لفظ {الكلالة} على أن الفروع وإن نزلوا، والأصول الذكور وإن علوا، يسقطون أولاد الأم؛ لأن الله لم يورثهم إلا في الكلالة؛ فلو لم يكن يورث كلالة؛ لم يرثوا منه شيئاً اتفاقاً. ودل قوله: {فهم شركاء في الثلث}: أن الإخوة الأشقاء يسقطون في المسألة المسماة بالحمارية، وهي زوج وأم وإخوة لأم وإخوة أشقاء: للزوج النصف، وللأم السدس، وللإخوة للأم الثلث، ويسقط الأشقاء لأن الله أضاف الثلث للإخوة من الأم؛ فلو شاركهم الأشقاء؛ لكان جمعاً لما فرق الله حكمه. وأيضاً؛ فإن الإخوة للأم أصحاب فروض والأشقاء عصبات، وقد قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «ألحقوا الفرائض بأهلها؛ فما بقي؛ فلأولى رجل ذكر». وأهل الفروض هم الذين قدر الله أنصباءهم؛ ففي هذه المسألة لا يبقى بعدهم شيء، فيسقط الأشقاء، وهذا هو الصواب في ذلك. وأما ميراث الإخوة والأخوات الأشقاء أو لأب؛ فمذكور في قوله: {يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة ... } الآية؛ فالأخت الواحدة شقيقة أو لأب لها النصف، والثنتان لهما الثلثان، والشقيقة الواحدة مع الأخت للأب أو الأخوات تأخذ النصف والباقي من الثلثين للأخت أو أخوات الأب وهوالسدس تكملة الثلثين، وإذا استغرقت الشقيقات الثلثين؛ تسقط الأخوات للأب؛ كما تقدم في البنات وبنات الابن، وإن كان الإخوة رجالاً ونساء؛ فللذكر مثل حظ الأنثيين. فإن قيل: فهل يستفاد حكم ميراث القاتل والرقيق والمخالف في الدين والمُبَعَّضُ والخنثى والجد مع الإخوة لغير أُمٍّ والعَوْل والردِّ وذوي الأرحام وبقية العَصَبة والأخوات لغير أم مع البنات أو بنات الابن من القرآن أم لا؟ قيل: نعم فيه تنبيهات وإشارات دقيقة يَعْسُرُ فهمُها على غير المتأمل تدلُّ على جميع المذكورات: فأما القاتل والمخالف في الدين؛ فيُعْرَفُ أنهما غير وارثين من بيان الحكمة الإلهية في توزيع المال على الورثة بحسَبِ قربهم ونفعهم الديني والدنيوي، وقد أشار تعالى إلى هذه الحكمة بقوله: {لا تدرونَ أيُّهم أقربُ لكم نفعاً}، وقد عُلِمَ أن القاتلَ قد سعى لموروثه بأعظم الضَّرر، فلا ينتهضُ ما فيه من موجب الإرث أن يقاوم ضرر القتل الذي هو ضد النفع الذي رُتِّبَ عليه الإرثُ، فُعِلمَ من ذلك أن القتل أكبر مانع يمنع الميراث ويقطع الرحم الذي قال الله فيه: {وأولو الأرحام بعضُهم أولى ببعضٍ في كتاب الله}، مع أنه قد استقرَّتِ القاعدة الشرعية: أن من استعجل شيئاً قبل أوانه؛ عوقب بحرمانه. وبهذا ونحوه يُعْرَفُ أن المخالف لدين الموروث لا إرثَ له، وذلك أنه قد تعارض الموجبُ الذي هو اتصال النسب الموجب للإرث والمانعُ الذي هو المخالفة في الدين الموجبةُ للمباينة من كلِّ وجه، فقوي المانع، ومنع موجِبَ الإرث الذي هو النسب، فلم يعمل الموجِبُ لقيام المانع. يوضِّحُ ذلك أن الله تعالى قد جعل حقوق المسلمين أولى من حقوق الأقارب الكفار الدنيوية؛ فإذا مات المسلم؛ انتقلَ مالُهُ إلى من هو أولى وأحق به، فيكون قوله تعالى: {وأولو الأرحام بعضُهم أولى ببعض في كتاب الله}: إذا اتَّفقت أديانُهم، وأما مع تبايُنِهِم؛ فالأخوَّةُ الدينيةُ مقدَّمة على الأخوَّة النسبيَّة المجرَّدة. قال ابن القيم في «جلاء الأفهام»: «وتأمَّل هذا المعنى في آية المواريث وتعليقه سبحانه التوارثَ فيها بلفظِ الزوجة دون المرأةِ؛ كما في قوله تعالى: {وَلكم نصفُ ما تَرَكَ أزواجكم}: إيذانٌ بأن هذا التوارثَ إنَّما وقع بالزوجيةِ المقتضيةِ للتشاكل والتناسب، والمؤمِنُ والكافر لا تشاكلَ بينهما ولا تناسبَ، فلا يقع بينهما التوارثُ، وأسرار مفردات القرآن ومركباته فوق عقول العالمين». انتهى. وأما الرقيق؛ فإنه لا يَرِثُ ولا يورث: أما كونه لا يورث؛ فواضحٌ؛ لأنه ليس له مال يورث عنه، بل كل ما معه فهو لسيده. وأما كونه لا يرث؛ فلأنه لا يملك؛ فإنه لو ملك لكان لسيده، وهو أجنبيٌّ من الميت، فيكون مثل قوله تعالى: {للذكر مثل حظ الأنثيين} {ولكم نصف ما ترك أزواجكم} {فلكل واحد منهما السدس} .... ونحوها لمن يتأتَّى منه التملُّك، وأما الرقيق؛ فلا يتأتَّى منه ذلك، فعُلِمَ أنه لا ميراث له. وأما من بعضُهُ حرٌّ وبعضُهُ رقيقٌ؛ فإنَّه تتبعَّض أحكامُه؛ فما فيه من الحرية يستحقُّ بها ما رتبه الله في المواريث؛ لكون ما فيه من الحرية قابلاً للتملُّك وما فيه من الرقِّ؛ فليس بقابل لذلك؛ فإذاً يكون المبَعَّض يرث ويورِّث ويحجب بقدر ما فيه من الحرية، وإذا كان العبد يكون محموداً ومذموماً مثاباً ومعاقباً بقدر ما فيه من موجبات ذلك؛ فهذا كذلك. وأمَّا الخنثى؛ فلا يخلو إما أن يكون واضحاً ذكوريَّته أو أنوثيَّته أو مشكلاً؛ فإن كان واضحاً؛ فالأمر فيه واضحٌ: إن كان ذكراً؛ فله حكم الذكور، ويشمله النص الوارد فيهم، وإن كانت أنثى؛ فلها حكم الإناث، ويشملها النص الوارد فيهن. وإن كان مشكلاً؛ فإن كان الذكر والأنثى لا يختلف إرثهما ـ كالإخوة للأم ـ؛ فالأمر فيه واضح، وإن كان يختلف إرثه بتقدير ذكوريَّته وبتقدير أنوثيَّته، ولم يبق لنا طريق إلى العلم بذلك؛ لم نعطه أكثر التقديرين لاحتمال ظلم من معه من الورثة، ولم نعطه الأقل لاحتمال ظلمنا له، فوجب التوسُّط بين الأمرين وسلوك أعدل الطريقين، قال تعالى: {اعْدِلوا هو أقربُ للتقوى}؛ فليس لنا طريق إلى العدل في مثل هذا أكثر من هذا الطريق المذكور، ولا يكلفُ الله نفساً إلا وسعها؛ فاتقوا الله ما استطعتم. وأما ميراث الجد مع الإخوة الأشقاء أو لأب، وهل يرثون معه أم لا؟ فقد دلَّ كتاب الله على قول أبي بكر الصديق رضي الله عنه ، وأن الجد يحجب الإخوة أشقاء أو لأب أو لأم كما يحجبهم الأبُ، وبيان ذلك أن الجد أبٌ في غير موضع من القرآن؛ كقوله تعالى: {إذ حَضَرَ يعقوبَ الموتُ إذ قال لبنيه ما تعبدون من بعدي قالوا نعبد إلهك وإله آبائك إبراهيم وإسماعيل وإسحق ... } الآية، وقال يوسف عليه السلام: {واتبعتُ ملة آبائي إبراهيم وإسحق ويعقوب}، فسمى الله الجدَّ وجدَّ الأب أباً، فدل ذلك على أن الجد بمنزلة الأب، يرث ما يرثه الأب، ويحجب من يحجبه، وإذا كان العلماء قد أجمعوا على أن الجدَّ حكمُهُ حكم الأب عند عدمه في ميراثه مع الأولاد وغيرهم من بين الإخوة والأعمام وبنيهم وسائر أحكام المواريث؛ فينبغي أيضاً أن يكون حكمُهُ حكمَهُ في حجب الإخوة لغير أم، وإذا كان ابن الأب بمنزلة ابن الصلب؛ فلم لا يكون الجد بمنزلة الأب؟ وإذا كان جد الأب مع ابن الأخ قد اتفق العلماء على أنه يحجبه؛ فلم لا يحجب جد الميت أخاه؟ فليس مع من يورِّث الإخوة مع الجدِّ نصٌّ ولا إشارة ولا تنبيه ولا قياس صحيح. وأمَّا مسائل العَوْل؛ فإنه يُستفاد حكمها من القرآن، وذلك أن الله تعالى قد فرض وقدر لأهل المواريث أنصباء، وهم بين حالتين: إما أن يحجب بعضهم بعضاً، أو لا؛ فإن حجب بعضهم بعضاً؛ فالمحجوب ساقط لا يزاحم ولا يستحق شيئاً، وإن لم يحجب بعضهم بعضاً؛ فلا يخلو: إما أن لا تستغرق الفروض التركة، أو تستغرقها من غير زيادة ولا نقص، أو تزيد الفروض على التركة؛ ففي الحالتين الأوليين كلٌّ يأخذ فرضَه كاملاً، وفي الحالة الأخيرة، وهي ما إذا زادت الفروض على التركة؛ فلا يخلو من حالين: إما أن ننقص بعض الورثة عن فرضه الذي فرضه الله له ونكمل للباقين منهم فروضهم، وهذا ترجيحٌ بغير مرجح، وليس نقصان أحدهم بأولى من الآخر، فتعينت الحال الثانية، وهو أننا نعطي كل واحد منهم نصيبه بقدر الإمكان، ونحاصص بينهم؛ كديون الغرماء الزائدة على مال الغريم، ولا طريق موصل إلى ذلك إلا بالعول، فعلم من هذا أن العول في الفرائض قد بينه الله في كتابه. وبعكس هذه الطريقة بعينها يُعْلَمُ الردُّ؛ فإن أهل الفروض إذا لم تستغرق فروضُهم التركة، وبقي شيءٌ ليس له مستحقٌّ من عاصبٍ قريب ولا بعيد؛ فإن ردَّه على أحدهم ترجيح بغير مرجِّح، وإعطاءه غيرهم ممن ليس بقريب للميت جَنَفٌ وميل ومعارضة لقوله: {وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض في كتاب الله}، فتعيَّن أن يُرَدَّ على أهل الفروض بقدر فروضهم، ولما كان الزوجان ليسا من القرابة؛ لم يستحق الزيادة على فرضهم المقدَّر [عند القائلين بعدم الرد عليهم، وأما على القول الصحيح أن حكم الزوجين حكم باقي الورثة في الرد؛ فالدليل المذكور شامل للجميع كما شملهم دليل العول]. وبهذا يُعْلَمُ أيضاً ميراث ذوي الأرحام؛ فإنَّ الميت إذا لم يخلِّف صاحب فرض ولا عاصباً، وبقي الأمر دائراً بين كون ماله يكون لبيت المال لمنافع الأجانب وبين كون ماله يرجع إلى أقربائه المُدْلين بالورثة المجمع عليهم؛ تعين الثاني، ويدل على ذلك قوله تعالى: {وأولو الأرحام بعضُهم أولى ببعضٍ في كتاب الله}، فصرفه لغيرهم تركٌ لمن هو أولى من غيره، فتعيَّن توريثُ ذوي الأرحام، وإذا تعيَّن توريثُهم؛ فقد علم أنه ليس لهم نصيب مقدر بأعيانهم في كتاب الله، وأن بينهم وبين الميت وسائط صاروا بسببها من الأقارب، فينزَّلُون منزلة من أدْلَوا به من تلك الوسائط. والله أعلم. وأمّا ميراث بقية العَصَبَة؛ كالبنوة والأخوة وبنيهم والأعمام وبنيهم ... إلخ؛ فإن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي؛ فلأولى رجل ذكر» ، وقال تعالى: {ولكلٍّ جعلنا موالي مما ترك الوالدان والأقربون}؛ فإذا ألحقنا الفروض بأهلها ولم يبق شيءٌ؛ لم يستحق العاصب شيئاً، وإن بقي شيءٌ؛ أخذه أولي العَصَبة بحسب جهاتهم ودرجاتهم؛ فإنَّ جهات العصوبة خَمْسٌ: البنوة، ثمَّ الأبوة، ثمَّ الأخوة وبنوهم، ثمَّ العمومة وبنوهم، ثمَّ الولاء، ويقدم منهم الأقرب جهة؛ فإن كانوا في جهة واحدة؛ فالأقرب منزلة؛ فإن كانوا بمنزلة واحدة؛ فالأقوى، وهو الشقيق؛ فإن تساووا من كل وجه؛ اشتركوا؛ والله أعلم. وأمَّا كون الأخوات لغير أم مع البنات أو بنات الابن عصبات يأخذن ما فضل عن فروضهنَّ؛ فلأنه ليس في القرآن ما يدل على أن الأخوات يَسْقُطْن بالبنات؛ فإذا كان الأمر كذلك، وبقي شيء بعد أخذ البنات فرضهنَّ؛ فإنه يُعطى للأخوات ولا يُعْدَلُ عنهنَّ إلى عَصَبَةٍ أبعد منهن كابن الأخ والعم ومن هو أبعد منهم. والله أعلم.
[12] پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَكُمْ ﴾ یعنی اے شوہرو! ﴿ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُ٘نْ لَّ٘هُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَ٘هُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّؔا تَرَؔكْ٘نَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَلَ٘هُنَّ الرُّبُعُ مِمَّؔا تَرَؔكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَؔكُ٘نْ لَّـكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَ٘لَ٘هُنَّ الثُّ٘مُنُ مِمَّؔا تَرَؔكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ﴾ ’’اور جو کچھ تمھاری بیویاں (ترکے میں) چھوڑ جائیں اس میں سے نصف کے تم حق دار ہو بشرطیکہ ان سے اولاد نہ ہو۔ اگر ان کے اولاد ہے تو تمھیں جو کچھ وہ چھوڑ جائیں اس کا چوتھائی ملے گا (یہ تقسیم) مرنے والی کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضے کی (ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) اور ان کے لیے جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ تمھاری اولاد نہ ہو اور اگر تمھاری اولاد ہو تو ان کے لیے تمھارے ترکے کا آٹھواں حصہ ہوگا (یہ تقسیم) تمھاری وصیت کی تکمیل یا قرضے (کی ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے)‘‘ اولاد کے مسمیٰ کے زمرے میں جس کے وجود اور عدم وجود کو میاں بیوی کی وراثت میں شرط بنایا گیا ہے، صلبی اولاد یا بیٹے کی اولاد لڑکے یا لڑکیاں خواہ ایک ہو یا متعدد جو اس شوہر یا بیوی سے ہوں یا کسی اور سے، شمار ہوتی ہیں اس میں بیٹیوں کی اولاد شامل نہیں اور اس پر اجماع ہے۔ (کلالہ) کا معنی اور اس کے احکام: ﴿ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰ٘لَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ٘ اَوْ اُخْتٌ ﴾ ’’اور اگر کوئی مرد یا عورت ہو (جو ترکہ چھوڑ جائے) اور اس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا اور بھائی یا بہن ہو‘‘ اس سے مراد اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی ہیں جیسا کہ بعض قراء ت میں بھی وارد ہے۔ اور فقہاء کا اجماع ہے کہ یہاں بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں۔ اگر میت کلالہ ہے۔ یعنی میت کا باپ ہے نہ بیٹا، یعنی باپ ہے نہ دادا، بیٹا ہے نہ پوتا، بیٹی ہے نہ پوتی۔۔۔۔ خواہ نیچے تک چلے جائیں۔۔۔۔ ایسی میت کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقtنے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور اسی مفہوم پر اجماع واقع ہو گیا۔ وَلِلہِ الْحَمْدُ! ﴿ فَ٘لِكُ٘لِّ وَاحِدٍ مِّؔنْهُمَا ﴾ یعنی بھائی اور بہن دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ﴿ السُّدُسُ ﴾ چھٹا حصہ ہے ﴿ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ ﴾ یعنی اگر وہ ایک سے زائد ہوں ﴿ فَهُمْ شُرَؔكَآءُ فِی الثُّلُثِ ﴾ یعنی ایک تہائی میں سب شریک ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ نہیں ملے گا خواہ ان کی تعداد دو سے بڑھ جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَهُمْ شُرَؔكَآءُ فِی الثُّلُثِ ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں کیونکہ لفظ ’’شریک‘‘ مساوات کا تقاضا کرتا ہے۔ (یعنی اس صورت میں مرد کو عورت سے دگنا حصہ نہیں، بلکہ برابر کا حصہ ملے گا) لفظ ’’کلالہ‘‘ دلالت کرتا ہے کہ فروع نیچے تک اور اصول مرد اوپر تک خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ جائیں، وہ ماں کی اولاد کو ساقط کر دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بہن بھائیوں کو صرف کلالہ کی صورت میں وارث بنایا ہے اور اگر وہ کلالہ کی صورت میں وارث نہیں بنتے تو وہ کسی اور صورت میں میت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَهُمْ شُرَؔكَآءُ فِی الثُّلُثِ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ ’’مسئلہ حماریہ‘‘ کے مطابق حقیقی بھائی ساقط ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ یعنی اگر میت کا شوہر، ماں اور حقیقی بھائی بھی ہوں تو شوہر کے لیے نصف ترکہ، ماں کے لیے چھٹا حصہ اور اخیافی بھائیوں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے اور حقیقی بھائی ساقط ہو جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی ترکہ کو اخیافی بھائیوں کی طرف مضاف کیا ہے اگر اس ترکہ میں حقیقی بھائیوں کو شریک کر لیا جائے تو یہ اس چیز کو جمع کرنا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اخیافی بھائی اصحاب فروض ہیں اور حقیقی بھائی عصبہ ہیں۔ چنانچہ رسول اللہeنے فرمایا ’’میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔‘‘(صحیح البخاری، الفرائض، حديث:6732، وصحیح مسلم، الفرائض، حديث:1615) اور اصحاب فروض وہ لوگ ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔ زیر بحث کلالہ کے مسئلہ میں اصحاب فروض کو دینے کے بعد کچھ باقی نہیں بچتا اس لیے حقیقی بھائی ساقط ہو جائیں گے اور یہی صحیح موقف ہے۔ رہی حقیقی بھائیوں اور بہنوں کی وراثت یا باپ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ یَسْتَفْتُوْنَكَ۠١ؕ قُ٘لِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰ٘لَةِ ﴾ (النساء:4؍176) میں مذکور ہے۔ پس ایک حقیقی یا باپ کی طرف سے بہن کے لیے نصف ترکہ ہے۔ اگر دو ہوں تو ان کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔ اگر کلالہ کی ایک حقیقی بہن، ایک یا زائد باپ کی طرف سے بہنیں ہوں تو ترکہ کا نصف حصہ حقیقی بہن کو ملے گا اور دو تہائی میں سے باقی جو کہ چھٹا حصہ بنتا ہے دو تہائی کی تکمیل کے لیے باپ کی طرف سے بہن یا بہنوں کو ملے گا۔ اگر حقیقی بہنیں دو تہائی حصہ لے لیں تو باپ کی طرف سے بہنیں ساقط ہو جائیں گی جیسا کہ بیٹیوں اور پوتیوں کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اگر بھائی اور بہنیں وارث ہوں تو ایک بھائی کو دو بہنوں کے مساوی حصہ ملے گا۔ قاتل اور مختلف دین رکھنے والے کے لیے وراثت: اگر یہ کہا جائے کہ آیا قرآن کریم سے قاتل، غلام، غیر مسلم، جزوی غلام، مخنث، باپ کی طرف سے بھائیوں کی معیت میں دادا، عول، رد، ذوالارحام، بقیہ عصبہ، بیٹیوں کی معیت میں باپ شریک بہنوں یا پوتیوں کی وراثت مستفاد ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس بارے میں بعض دقیق اشارے اور تنبیہات موجود ہیں، گہرے غور و فکر کے بغیر ان اشارات کو سمجھنا مشکل ہے۔ رہا قاتل اور مخالف دین یعنی غیر مسلم، تو یہ بات معروف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ورثاء میں ان کے میت سے قرب اور دینی اور دنیاوی فوائد کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی جو حکمت بیان کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وارث نہیں بن سکتے… اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت بالغہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے ﴿ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْ٘رَبُ لَكُمْ نَفْعًا ﴾ (النساء : 4؍11) ’’تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمھارے زیادہ قریب ہے۔‘‘ یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ قاتل نے اپنے مورث کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے لہٰذا وہ امر جو اس کے لیے وراثت کا موجب ہے، قتل کے ضرر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ قتل اس نفع کی ضد ہے جس پر وراثت مرتب ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتل سب سے بڑا مانع ہے جو میراث کے حصول سے روکتا ہے اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُ٘هُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ (الانفال:8؍75) ’’اور رشتہ دار اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ نیز ایک شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ ’’جو کوئی وقت سے پہلے کوئی چیز حاصل کرنے میں جلدی کرتا ہے اسے اس چیز سے محرومی کی سزا دی جاتی ہے۔‘‘ مندرجہ بالا توضیح سے واضح ہوتا ہے کہ اگر وارث، مورث کے دین سے مختلف دین رکھتا ہے تو وہ وراثت سے محروم ہے۔ وراثت کا موجب، جو کہ نسب کا اتصال ہے اور وراثت کا مانع جو کہ اختلاف دین ہے اور اختلاف دین ہر لحاظ سے وارث کو مورث سے علیحدہ کر دیتا ہے۔ پس موجب اور مانع میں تعارض ہے۔ مانع زیادہ قوی ہے اور موجب وراثت کو روک دیتا ہے۔ بنا بریں مانع کے ہوتے ہوئے موجب پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کی وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حقوق کو کفار رشتہ داروں کے حقوق پر اولیت دی ہے۔ اس لیے جب مسلمان وفات پا جاتا ہے تو اس کا مال اس شخص کی طرف منتقل ہو گا جو اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُ٘هُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ تو اسی صورت میں صادق آئے گا جب وارث اور مورث کا دین ایک ہو۔ وارث اور مورث کے دین میں تباین اور اختلاف کی صورت میں دینی اخوت مجرد نسبی اخوت پر مقدم ہے۔ علامہ ابن القیمa جلاء الافھام میں رقمطراز ہیں ’’اس لفظ کے معنیٰ پر مواریث کی آیت میں غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان توارث کو ’’عورت‘‘ کی بجائے ’’زوجہ‘‘ کے لفظ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آیا ہے ﴿ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ ﴾ اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ یہ توارث اس زوجیت کی بنا پر واقع ہوا ہے جو کامل مشابہت اور تناسب کا تقاضا کرتی ہے۔ مومن اور کافر کے مابین کوئی مشابہت اور کوئی تناسب نہیں ہوتا اس لیے ان کے مابین توارث واقع نہیں ہو سکتا قرآن کریم کے مفردات اور مرکبات کے اسرار نہاں اس سے بہت بلند ہیں کہ عقل مندوں کی عقل اس کا احاطہ کر سکے۔۔۔‘‘ غلاموں کے لیے وراثت کے احکام: جہاں تک غلام کا معاملہ ہے تو نہ وہ خودکسی کا وارث بن سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے۔۔۔ رہا یہ معاملہ کہ کوئی اس کا وارث نہیں بن سکتا تو یہ بالکل واضح ہے کیونکہ اس کا کوئی مال ہی نہیں جس کا کوئی وارث ٹھہرے، بلکہ اس کے برعکس اس کا تمام مال اس کے آقا کی ملکیت ہے رہی یہ بات کہ وہ وارث بھی نہیں ہو سکتا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز آتی بھی ہے تو وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ پس وہ میت کے لیے اجنبی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے ارشادات: ﴿ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ ﴾ ، ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْ٘لُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾اور ﴿لِكُ٘لِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ﴾ وغیرہ اس کے لیے ہے جو ملکیت کا اثبات کر سکتا ہو اور غلام کے لیے چونکہ ملکیت کا اثبات ممکن نہیں، اس لیے معلوم ہوا کہ وہ میراث کا حق دار نہیں۔ رہا وہ شخص جو جزوی طور پر آزاد اور جزوی طور پر غلام ہو تو اس کے احکام میں بھی تبعیض ہوگی۔ پس اس میں جو آزادی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے اللہ نے وراثت کا جو حق مترتب کیا ہے، اس کا وہ مستحق ہو گا، کیونکہ آزادی کی وجہ سے وہ مالک بننے کے قابل ہے اور اس میں جو غلامی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے وہ اس کے قابل نہیں۔ تب اس صورت میں یہ جزوی طور پر آزاد ہے۔ وراثت میں حصہ لے گا اور خود اس کی میراث بھی اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگی اور اپنی آزادی کی مقدار کے مطابق دوسروں کو وراثت سے محجوب کرے گا اور جب غلام، قابل تعریف اور قابل مذمت، ثواب کا حق دار اور عذاب کا حق دار، ان موجبات کی مقدار کے مطابق ہو سکتا ہے جو اسے ان امور کا مستحق بناتی ہیں تو یہ معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ مخنث کے لیے وراثت کے احکام: مخنث کا معاملہ تین امور سے خالی نہیں ہوتا: مخنث کی ذکوریت واضح ہوتی ہے (یعنی اس میں مرد کی علامتیں پائی جاتی ہیں) یا اس کی انوثیت واضح ہوتی ہے۔ (اس میں عورت کی علامتیں غالب ہوتی ہیں) یا اس کا مذکر ہونا یا مونث ہونا واضح نہیں ہوتا تب اس کو ’’مشکل‘‘ کہتے ہیں۔ اگر مخنث کا معاملہ واضح ہے تو اس کی وراثت کا مسئلہ بھی واضح ہے۔ چنانچہ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر اس نص کا اطلاق ہو گا جو مردوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور اگر اس میں عورت کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر عورتوں کے احکام کا اطلاق ہو گا۔ اگر وہ مشکل ہے تو اگر وہ مرد اور عورت ہیں جن کا حصہ وراثت مختلف نہیں۔ (بلکہ یکساں ہے) جیسے اخیافی بہن بھائیوں کا معاملہ ہے تو اس میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ اور اگر اس کو مرد مقدر کرتے ہوئے یا عورت مقدر کرتے ہوئے اس کا حصہ وراثت مختلف ہو اور ہمارے پاس اس کے بارے میں تیقن کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ تو ہم اسے وہ حصہ نہ دیں گے جو دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ بنتا ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں پر ظلم کا احتمال ہے جو اس کی معیت میں وراثت کے حق دار ہیں اور نہ ہم اسے کم ترین حصہ دیں گے کیونکہ اس صورت میں خود اس پر ظلم کا احتمال ہے۔ پس ان کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ﴾ (المائدہ : 5؍8) ’’عدل کیا کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ اس قسم کی صورتحال میں ہمارے پاس اس سے زیادہ کوئی عدل کا راستہ نہیں جس کا گزشتہ سطور میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ (البقرۃ : 2؍286) ’’اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن:64؍16) ’’پس جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘ دادا کے لیے وراثت کے احکام رہا حقیقی بھائیوں یا باپ شریک (علاتی) بھائیوں کی موجودگی میں میت کے دادا کے لیے وراثت کا مسئلہ کہ آیا مذکورہ بھائی دادا کی معیت میں وراثت میں سے حصہ لیں گے یا نہیں ۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب حضرت ابوبکر صدیقtکے اس فتویٰ کی تائید کرتی ہے کہ دادا بھائیوں کو محجوب کر دے گا، چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا علاتی (باپ شریک) یا اخیافی (ماں شریک) ہوں۔ جیسے باپ ان سب کو محجوب کر دیتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دادا کو باپ کہا گیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْ٘مَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبـَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ ﴾ (البقرۃ:2؍133) ’’جب یعقوب وفات پانے لگے تو انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انھوں نے جواب دیا تیرے معبود اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفuکا قول نقل فرمایا: ﴿ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ ﴾ (یوسف:12؍38) ’’میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی پیروی کی ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے دادا اور باپ کے دادا کو ’’باپ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دادا باپ کے مقام پر ہوتا ہے اور وراثت میں اس کا وہی حصہ ہے جو باپ کا حصہ ہے جس کو باپ محجوب کرتا ہے اس کو دادا بھی محجوب کرے گا(یعنی باپ کی عدم موجودگی میں) اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کے باپ کی عدم موجودگی میں میت کی میراث میں میت کی اولاد وغیرہ کی معیت میں اس کے بھائیوں، چچاؤں اور چچاؤں کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے دادا کا وہی حکم ہے جو باپ کا حکم ہے۔۔۔۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اخیافی بھائیوں کے علاوہ دوسرے بھائیوں کو محجوب کرنے میں بھی دادا کا وہی حکم ہو جو باپ کا حکم ہے اور جب بیٹے کا بیٹا صلبی بیٹے کی مانند ہے تو دادا باپ کے مقام پر کیوں نہیں ہو سکتا اور جب باپ کا دادا میت کے بھتیجے کی موجودگی میں، اہل علم کے اجماع کے مطابق، بھتیجے کو محجوب کر دے گا۔ تو پھر میت کا دادا میت کے بھائی کو کیوں محجوب نہیں کر سکتا؟ لہٰذا جو دادا کی معیت میں بھائیوں کو وارث قرار دیتا ہے اس کے پاس کوئی نص ہے نہ اشارہ نہ تنبیہ اور نہ قیاس صحیح۔ عول اور اس کے احکام عول کے مسائل کے احکام قرآن مجید سے مستفاد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب مواریث کے لیے حصے مقرر کر دیے ہیں اور ان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو محجوب کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اگر وہ ایک دوسرے کو محجوب کرتے ہیں تو وراثت میں محجوب ساقط ہو جاتا ہے اور وہ کسی چیز کا مستحق نہیں رہتا۔ اگر وہ ایک دوسرے کو محجوب نہیں کرتے تو وہ مندرجہ ذیل دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو وہ ترکہ کے تمام حصے کے وارث نہیں بنتے۔ (یعنی ورثاء کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد بھی ترکہ بچ جاتا ہے) یا وہ ترکہ کے تمام حصوں کے وارث اس طرح بنتے ہیں کہ یہ مقرر کردہ حصے مجموعی طور پر نہ تو ترکہ سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ۔ یا مقرر کردہ حصے ترکہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلی دو صورتوں میں ہر وارث اپنا پورا حصہ حاصل کرتا ہے مگر آخری صورت میں جب حصے ترکہ سے بڑھ جائیں تویہ بھی دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو ہم بعض ورثاء کا وہ حصہ کم کر دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور ان میں سے باقی ورثاء کا حصہ پورا پورا عطا کرتے ہیں۔ یہ ترجیح بلادلیل ہے ان میں سے کوئی ایک نقصان اٹھانے کا کسی دوسرے سے زیادہ مستحق نہیں۔ پس دوسری صورت کا یوں تعین ہوتا ہے کہ ہم امکانی حد تک ہر وارث کو اس کا پورا حصہ ادا کرتے ہیں اور موجود ترکہ کو ان کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیتے ہیں جیسے مقروض کے اس مال کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے جو قرض خواہوں کے مطالبے سے کم ہوتا ہے۔ اب اس مال کو عول کے اصول کو استعمال کیے بغیر تقسیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم فرائض (وراثت) میں عول کا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔ رد اور اس کے احکام عول کے اس طریقے کے بالکل برعکس رد کا اصول معلوم ہوا، اس لیے کہ جب اصحاب فروض میں ترکہ کو تقسیم کرنے کے بعد ترکہ میں سے کچھ بچ جائے۔ اور اس کا کوئی حق دار نہ ہو اور قریب یا دور میت کا عصبہ بھی نہ ہو۔ اگر یہ بچا ہوا ترکہ کسی ایک کو عطا کر دیں تو یہ بلادلیل ترجیح ہے۔ اور یہ بچا ہوا کسی ایسے شخص کو دے دینا جو میت کا قریبی نہیں ہے تو یہ گناہ، کج روی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مخالفت ہے ﴿ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُ٘هُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ (الانفال:8؍75) ’’اور رشتہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ پس یہ بات متحقق ہو گئی کہ بچا ہوا ترکہ اصحاب فروض کو ان کے حصے کے مطابق واپس لوٹا دینا چاہیے۔ زوجین کی طرف رد کے احکام ان فقہاء کے نزدیک جو بچے ہوئے ترکے کو زوجین کی طرف لوٹانے کے قائل نہیں، ان کے مسلک کے مطابق زوجین اپنے مقررہ حصے سے زیادہ لینے کے مستحق نہیں، کیونکہ ان کے درمیان نسبی قرابت نہیں ہوتی۔ مگر صحیح مسلک یہ ہے کہ رد کے ضمن میں زوجین کا حکم بھی وہی ہے جو باقی ورثاء کا ہے۔ مذکورہ بالا دلیل سب کو اسی طرح شامل ہے جس طرح اصول عول میں سب شامل ہیں۔ میراث میں ذوی الارحام کا حکم اس کے ذریعے سے ذوی الارحام کی وراثت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اگر میت کے پیچھے کوئی ایسا شخص نہ بچے جو اصحاب فروض (جن کے حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں) یا عصبہ (میت کا قریب ترین رشتے دار) میں شمار ہوتا ہو تو میراث کا معاملہ دو امور کے مابین گھومتا ہے۔ ترکہ کا مال بیت المال میں جمع ہو جس سے اجنبی لوگ استفادہ کریں یا ترکہ میت کے ان اقارب کی طرف لوٹ جائے جو ورثاء کے متفق علیہ قریبی ہیں۔ ان دونوں میں سے دوسرا مسلک متعین ہے اور اس کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ﴿ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُ٘هُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ (الانفال:8؍75) اس لیے میراث کو اولو الارحام کے علاوہ کسی اور طرف پھیرنا اس شخص کو محروم کرنا ہے جو دوسروں سے زیادہ اس کا مستحق ہے۔ پس ذوی الارحام کو وارث بنانا متعین ہو گیا اور جب ان کو وارث بنانا متعین ہو گیا تو یہ معلوم ہو گیا کہ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے مقرر نہیں فرمائے۔ نیز یہ کہ ان کے اور میت کے درمیان کچھ واسطے ہیں جن کے سبب سے وہ میت کے رشتہ دار بنے پس ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس کے ذریعے سے وہ میت کے قریبی بنتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ میت کا عصبہ کون ہے؟ اور میراث میں اس کا حکم رہی باقی عصبہ کی وراثت جیسے بیٹے، بھائی، بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، تو ان کے بارے میں رسول اللہeنے فرمایا: ’الحقوا الفرائض باھلھا، فمابقی فلاولیٰ رجل ذکر‘ (صحیح البخاری، الفرائض، باب میراث ابن الابن اذا لم يکن ابن، حديث: 6735 و صحیح مسلم، الفرائض، باب الحقوا الفرائض بأھلھا......، حديث: 1615)’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دے دو جو بچ جائے اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَلِكُ٘لٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّؔا تَرَكَ الْوَالِدٰؔنِ وَالْاَقْ٘رَبُوْنَ ﴾ (النساء : 4؍33) ’’جو مال ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مر جاتے ہیں ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘ جب ہم اصحاب فروض کو ان کے مقررہ حصے عطا کر دیں اور کچھ باقی نہ بچے تو عصبہ کسی چیز کا حق دار نہیں ہوتا اور اگر ترکہ میں سے کچھ باقی بچ جائے تو عصبہ میں سے جو سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ اپنی جہات اور درجات کے مطابق حصہ لیں گے۔ عصبہ کی جہات عصبہ کی پانچ جہات ہیں: بیٹے، باپ، بھائی اور بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، پھر ولاء۔ ان میں سے اس کو مقدم رکھا جائے گا جو جہت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔ اگر منزلت کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ قوی ہے وہ زیادہ مستحق ہے اور وہ حقیقی بھائی ہے۔ اگر ہر پہلو سے برابر ہوں تو سب عصبہ میں شریک ہوں گے، اللہ اعلم۔ رہا باپ شریک بہنوں کا بیٹیوں کی معیت یا بھتیجیوں کی معیت میں عصبہ ہونا اور ان کا ترکہ میں سے اپنے حصوں سے زائد لینا ۔۔۔۔ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی چیز نہیں جو یہ دلالت کرتی ہو کہ بہنیں بیٹیوں کی وجہ سے ساقط ہو جائیں گی۔ جب صورتحال یہ ہو اور بیٹیوں کے اپنا حصہ لینے کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ بہنوں کو دیا جائے گا اور ان کو چھوڑ کر اس عصبہ کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو ان سے بعید تر ہے۔ مثلاً بھتیجا اور چچا اور وہ لوگ جو ان سے بھی بعید تر ہیں۔ واللہ اعلم۔
آیت: 13 - 14 #
{تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)}.
یہ حدیں ہیں اللہ کی اور جو اطاعت کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی تو داخل کرے گا وہ اس کو ایسے باغوں میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں اور یہ ہے کامیابی بہت بڑی(13) اور جونافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی اور تجاوز کرے گا اس کی حدوں سے تو داخل کرے گا وہ اس کو آگ میں، ہمیشہ رہے گا وہ اس میں اور اس کے لیے عذاب ہے رسوا کن(14)
#
{13} أي: تلك التفاصيل التي ذكرها في المواريث حدود الله التي يجب الوقوف معها، وعدم مجاوزتها ولا القصور عنها، وفي ذلك دليل على أن الوصية للوارث منسوخة بتقديره تعالى أنصباء الوارثين. ثم قوله تعالى: {تلك حدود الله فلا تعتدوها}؛ فالوصية للوارث بزيادة على حقه يدخل في هذا التعدي مع قوله - صلى الله عليه وسلم -: «لا وصيةَ لوارث». ثم ذكر طاعة الله ورسوله ومعصيتهما عموماً؛ ليدخل في العموم لزوم حدوده في الفرائض أو ترك ذلك، فقال: {ومن يطع الله ورسوله}: بامتثال أمرهما الذي أعظمه طاعتهما في التوحيد ثم الأوامر على اختلاف درجاتها، واجتناب نهيهما الذي أعظمه الشرك بالله ثم المعاصي على اختلاف طبقاتها. {يُدْخِلْهُ جناتٍ تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها}: فمن أدَّى الأوامر واجتنب النواهي؛ فلا بد له من دخول الجنة والنجاة من النار. {وذلك الفوز العظيم}: الذي حصل به النجاة من سخطه وعذابه والفوز بثوابه ورضوانه بالنعيم المقيم الذي لا يصفه الواصفون.
[13] یہ تفاصیل جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے میراث کے ضمن میں کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جن پر رکنا، ان سے تجاوز نہ کرنا اور ان میں کوتاہی سے بچنا فرض ہے اور اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ وارث کے لیے وصیت منسوخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام ورثاء کے حصے مقرر کر دیے ہیں اور اس کے بعد فرمایا: ﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں‘‘ بنابریں وارث کے لیے اس کے حق سے زیادہ وصیت کرنا اس تعدی میں داخل ہے۔ نیز رسول اللہeنے فرمایا ہے: ’لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ‘ (جامع الترمذی، الوصایا، باب ماجاء لا وصیۃ لوارث، حديث:2120، 2121)’’کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں۔‘‘ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی طور پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا اور نافرمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ اس عمومی اطاعت کے حکم میں فرائض (وراثت) کی حدود کا التزام اور اس سے تجاوز نہ کرنا بھی شامل ہو جائے۔ فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّ٘طِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو بجا لاکر، جس میں سب سے بڑی چیز توحید میں ان کی اطاعت کرنا ہے، پھر اوامر میں ان کے درجات کے مطابق اطاعت کرنا اور ان کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ہے، جن میں سب سے بڑا ممنوع اللہ کے ساتھ شرک ہے، پھر دوسری معاصی ہیں، ان کی درجہ بندی کے ساتھ۔ ﴿ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’اسے اللہ باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے اور منہیات سے بچتا ہے وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا اور اسے جہنم سے نجات ملے گی۔ ﴿وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ ’’یہی وہ بڑی کامیابی ہے‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات کے حصول کی ضمانت ہے اور اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کے ثواب اور اس کی دائمی نعمتوں سے بہرہ ور ہوا جا سکتا ہے جن کا کوئی وصف بیان نہیں کر سکتا۔
#
{14} {ومن يعص الله ورسوله ... } إلخ، ويدخل في اسم المعصية الكفر فما دونه من المعاصي؛ فلا يكون فيها شبهة للخوارج القائلين بكفر أهل المعاصي؛ فإنَّ الله تعالى رتَّب دخول الجنة على طاعته وطاعة رسوله، ورتب دخول النار على معصيته ومعصية رسوله؛ فمن أطاعه طاعة تامة؛ دخل الجنة بلا عذاب، ومن عصى الله ورسوله معصية تامة يدخل فيها الشرك فما دونه؛ دخل النار وخُلِّد فيها، ومن اجتمع فيه معصية وطاعة؛ كان فيه من موجب الثواب والعقاب بحسب ما فيه من الطاعة والمعصية. وقد دلت النصوص المتواترة على أن الموحِّدين الذين معهم طاعةُ التوحيد غيرُ مخلَّدين في النار؛ فما معهم من التوحيد مانع لهم من الخلود فيها.
[14] ﴿ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا‘‘ اور نافرمانی میں کفر اور اس سے کم تر گناہ سب شامل ہیں۔ یہاں خوارج کے لیے کوئی شبہ کی گنجائش نہیں جو گناہ گاروں کے کفر کے قائل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت پر دخول جنت کو مترتب کیا ہے اور اپنی نافرمانی اور اپنے رسول کی نافرمانی پر دخول جہنم کو مترتب کیا ہے۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتا ہے وہ بلاعذاب جنت میں داخل ہو گا، اسی طرح جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مکمل نافرمانی کرتا ہے، جس میں شرک اور دیگر گناہ بھی شامل ہیں وہ جہنم میں داخل ہو گا اور ہمیشہ وہاں رہے گا اور جس میں اطاعت اور نافرمانی دونوں مجتمع ہیں تو گویا اس میں اس کی اطاعت اور نافرمانی کی مقدار کے مطابق ثواب اور عذاب کی موجبات موجود ہیں اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ موحدین جن کے ساتھ اطاعت توحید ہے، جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ پس جن کے ساتھ توحید ہے، وہ توحید ان کے جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہے (یعنی ایسے لوگ اپنی نافرمانیوں کی سزا بھگت کر بالآخر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے)
آیت: 15 - 16 #
{وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا (15) وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِيمًا (16)}.
اور وہ جو کریں بے حیائی کا کام تمھاری عورتوں میں سے تو گواہ ٹھہرا لو تم ان پر چار مرد اپنے میں سے۔ پس اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھو ان کو گھروں میں یہاں تک کہ ختم کر دے ان کو موت یا بنا دے اللہ ان کے لیے کوئی راستہ(15) اور وہ دو مردجو کریں یہی بے حیائی کا کام تم میں سے تو ایذا دو ان کو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں تو درگزر کرو ان سے، بلاشبہ اللہ ہے بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان(16)
#
{15} أي: النساء {اللاتي يأتين الفاحشة}؛ أي: الزنا، فوصفها بالفاحشة لشناعتها وقبحها. {فاستشهدوا عليهن أربعة منكم}؛ أي: من رجالكم المؤمنين العدول. {فإن شهدوا فأمسكوهنَّ في البيوت}؛ أي: احبسوهن عن الخروج الموجب للريبة، وأيضاً؛ فإن الحبس من جملة العقوبات. {حتَّى يتوفاهنَّ الموت}؛ أي: هذا منتهى الحبس. {أو يجعلَ الله لهن سبيلاً}؛ أي: طريقاً غير الحبس في البيوت. فهذه الآية ليست منسوخة؛ فإنَّما هي مُغَيَّاة إلى ذلك الوقت، فكان الأمر في أول الإسلام كذلك، حتى جعل الله لهن سبيلاً، وهو رجم المحصن وجلد غير المحصن.
[15] یعنی عورتیں ﴿ وَالّٰتِیْ یَ٘اْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ ﴾ ’’جو زنا کا ارتکاب کرتی ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ نے زنا کو اس کی قباحت اور برائی کی وجہ سے فاحشہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ﴿ فَاسْتَشْهِدُوْا۠ عَ٘لَ٘یْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’اپنے میں سے چار اہل ایمان عادل مردوں کو گواہ بنا لو‘‘ ﴿ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ ﴾ ’’اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں محبوس کر دو‘‘ اور باہر جانے سے روک دو جو شک و شبہ کا موجب ہے۔ نیز گھر میں محبوس کر دینا ایک قسم کی سزا بھی ہے ﴿حَتّٰى یَتَوَفّٰ٘هُنَّ الْ٘مَوْتُ ﴾ ’’یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے‘‘ یعنی یہ محبوس رکھنے کی انتہا ہے ﴿ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَ٘هُنَّ سَبِیْلًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ انھیں گھروں میں محبوس کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ مقرر فرما دے۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں بلکہ یہ تو اس وقت تک کے لیے غایت مقرر ہے (جب تک اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی اور راستہ نہیں نکال دیتا) اسلام کی ابتدا میں یہی طریقہ رائج رہا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا متبادل حکم نازل نہیں فرما دیا۔ اور وہ ہے شادی شدہ زانی اور زانیہ کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگانا۔
#
{16} {و} كذلك {اللذان يأتيانها}؛ أي: الفاحشة {منكم}: من الرجال والنساء. {فآذوهما}: بالقول والتوبيخ والتعيير والضرب الرادع عن هذه الفاحشة. فعلى هذا يكون الرجال إذا فعلوا الفاحشة يؤذَوْن والنساء يُحْبَسْن ويؤذين؛ فالحبس غايته للموت ، والأذية نهايتها إلى التوبة والإصلاح. ولهذا قال: {فإن تابا}؛ أي: رجعا عن الذنب الذي فعلاه وندما عليه وعزما أن لا يعودا، {وأصلحا}: العمل الدالَّ على صدق التوبة. {فأعرضوا عنهما}؛ أي: عن أذاهما. {إن الله كان تواباً رحيماً}؛ أي: كثير التوبة على المذنبين الخطائين، عظيم الرحمة والإحسان الذي من إحسانه، وفَّقهم للتوبة، وقبلها منهم، وسامحهم عن ما صدر منهم. ويؤخذ من هاتين الآيتين أن بَيِّنة الزنا [لابُدَّ] أن تكون أربعة رجال مؤمنين، ومن باب أولى وأحرى اشتراط عدالتهم؛ لأن الله تعالى شدَّد في أمر هذه الفاحشة ستراً لعباده، حتى إنه لا يقبل فيها النساء منفردات ولا مع الرجل ولا مع دون أربعة، ولا بد من التصريح بالشهادة كما دلت على ذلك الأحاديث الصحيحة وتومئ إليه هذه الآية: لِمَا قال: {فاستشهدوا عليهن أربعة منكم}؛ لم يكتف بذلك، حتى قال: {فإن شهدوا}؛ أي: لا بدَّ من شهادة صريحة عن أمر يشاهد عِياناً من غير تعريض ولا كناية. ويؤخذ منهما أن الأذَّية بالقول والفعل والحبس قد شرعه الله تعزيراً لجنس المعصية التي يحصل به الزجر.
[16] اور اسی طرح ﴿ وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰؔنِهَا مِنْكُمْ ﴾ تمھارے مردوں اور عورتوں میں سے جو کوئی اس فحش کام کا ارتکاب کرتا ہے ﴿ فَاٰذُوْهُمَا ﴾ پس انھیں زبانی طور پر زجر و توبیخ اور ملامت کرو اور اس برے کام پر عار دلاؤ اور ان کو عبرت ناک مارپیٹ کی سزا دو، جس سے یہ اس فحش کام سے رک جائیں۔ تب اس صورت میں مردوں کو اس فحش کام کے ارتکاب پر مار پیٹ کی سزا دی جائے اور عورتوں کو گھروں میں محبوس رکھ کر سزا دی جائے۔ پس حبس (گھر میں بند کر دینا) کی انتہا، موت ہے اور مار پیٹ کی اذیت کی انتہا، توبہ اور اصلاح ہے بنا بریں فرمایا ﴿ فَاِنْ تَابَ٘ا ﴾ یعنی اگر وہ اپنے اس گناہ سے رجوع کر لیں جس کا انھوں نے ارتکاب کیا اس فعل پر نادم ہوں اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کریں ﴿ وَاَصْلَحَا ﴾ یعنی اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں جو ان کی سچی توبہ پر دلالت کرے ﴿ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا ﴾ تو ان کو اذیت پہنچانے سے گریز کرو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ﴾ یعنی وہ خطاکار گناہ گاروں کی توبہ کو بہت کثرت سے قبول کرتا ہے، وہ عظیم رحمت و احسان کا مالک ہے۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے انھیں توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان سے صادر ہونے والے گناہوں کے بارے میں ان سے نرمی اختیار کی۔ ان دو آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زنا کی شہادت میں چار مومن مردوں کی گواہی ضروری ہے اور ان کی عدالت کی شرط عائد کرنا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فحش کام کے بارے میں بہت سختی کی ہے تاکہ اس سے بندوں کی پردہ پوشی رہے۔ یہاں تک کہ اس بارے میں عورتوں کی شہادت، خواہ وہ اکیلی ہو یا مردوں کی معیت میں، ناقابل قبول ٹھہرایا ہے اور چار مردوں سے کم کی گواہی بھی قبول نہیں کی نیز اس میں صراحت کے ساتھ شہادت کو لازم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں اور یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے ﴿ فَاسْتَشْهِدُوْا۠ عَ٘لَ٘یْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّؔنْكُمْ ﴾ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا: ﴿ فَاِنْ شَهِدُوْا ﴾ یعنی ایک ایسے معاملے میں اشارہ کنایہ کے بغیر صریح شہادت لازم ہے جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا گیا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قول و فعل سے اذیت پہنچانا اور قید کر دینا، اس کو اللہ نے معصیت کاری کے لیے تعزیر بنایا جس سے زجروتوبیخ کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔
آیت: 17 - 18 #
{إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (17) وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (18)}.
یقینا توبہ (کا قبول کرنا) تو اللہ کے ذمے انھی لوگوں کے لیے ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے، پھر توبہ کر لیتے ہیں جلد ہی۔ پس یہی لوگ ہیں کہ متوجہ ہوتا ہے اللہ ان پر (یعنی توبہ قبول کر لیتا ہے) اور ہے اللہ بہت جاننے والا بڑا حکمت والا(17) اور نہیں توبہ (قبول ہوتی) ان لوگوں کی جو کرتے (رہتے) ہیں برے کام، یہاں تک کہ جب آتی ہے ایک کو ان میں سے موت تو کہتا ہے، بے شک میں نے توبہ کی اب اور نہ ان لوگوں کی جو مرتے ہیں اس حال میں کہ وہ کافر ہی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ، تیار کیا ہے ہم نے ان کے لیے عذاب بہت دردناک(18)
#
{17 ـ 18} توبة الله على عباده نوعان: توفيقٌ منه للتوبة، وقبول لها بعد وجودها من العبد. فأخبر هنا أن التوبة المستحقَّة على الله حقًّا أَحقَّه على نفسه كرماً منه وجوداً لمن عمل السوء؛ أي: المعاصي {بجهالة}؛ أي: جهالة منه لعاقبتها وإيجابها لسخط الله وعقابه، وجهل منه لنظر الله ومراقبته له، وجهل منه بما تؤول إليه من نقص الإيمان أو إعدامه؛ فكل عاصٍ لله فهو جاهل بهذا الاعتبار وإن كان عالماً بالتحريم، بل العلم بالتحريم شرطٌ لكونها معصيةً معاقَب عليها. {ثم يتوبون من قريبٍ}: يُحتمل أن يكونَ المعنى: ثمَّ يتوبون قبل معاينة الموت؛ فإن الله يقبل توبة العبد إذا تاب قبل معاينة الموت والعذاب قطعاً، وأما بعد حضور الموت؛ فلا يُقْبَلُ من العاصين توبةٌ ولا من الكفار رجوعٌ؛ كما قال تعالى عن فرعون: {فلمَّا أدركَه الغرقُ قال آمنتُ أنه لا إله إلا الذي آمنت به بنو إسرائيل وأنا من المسلمين ... } الآية، وقال تعالى: {فلما رأوا بأسنا قالوا آمنّا بالله وحده وكفرنا بما كنّا به مشركين. فلم يكن ينفعُهم إيمانُهم لمَّا رأوا بأسنا سنةَ الله التي قد خلتْ في عبادِهِ}، وقال هنا: {وليست التوبة للذين يعملون السيئات}؛ أي: المعاصي فيما دون الكفر. {حتى إذا حضر أحدهم الموت قال إني تبت الآن ولا الذين يموتون وهم كفار فأولئك أعتدنا لهم عذاباً أليماً}، وذلك أن التوبة في هذه الحال توبةُ اضطرارٍ لا تنفع صاحِبَها، إنما تنفع توبةُ الاختيار. ويُحتمل أن يكون معنى قوله: {من قريبٍ}؛ أي: قريب من فعلهم للذنب الموجب للتوبة، فيكون المعنى: أنَّ مَن بادر إلى الإقلاع من حين صدور الذنب وأناب إلى الله وندم عليه؛ فإنَّ الله يتوبُ عليه؛ بخلاف من استمرَّ على ذنبه وأصرَّ على عيوبه حتى صارت فيه صفات راسخة؛ فإنه يَعْسُرُ عليه إيجاد التوبة التامة، والغالب أنه لا يوفَّق للتوبة ولا ييسَّر لأسبابها؛ كالذي يعمل السوء على علم قائم ويقين متهاون بنظر الله إليه؛ فإنه يسدُّ على نفسه باب الرحمة. نعم؛ قد يوفِّق اللهُ عبده المصرَّ على الذنوب عن عمد ويقينٍ للتوبة النافعة التي يمحو بها ما سَلَفَ من سيئاته وما تقدَّم من جناياتِهِ، ولكنَّ الرحمة والتوفيق للأول أقرب، ولهذا ختم الآية الأولى بقوله: {وكان الله عليماً حكيماً}؛ فمن علمِهِ أنه يعلم صادقَ التوبة وكاذبَها، فيجازي كلاًّ منهما بحسب ما استحقَّ بحكمتِهِ، ومن حكمته أن يوفِّق من اقتضت حكمتُهُ ورحمتُهُ توفيقَه للتوبة، ويخذلَ من اقتضت حكمتُهُ وعدلُهُ عدم توفيقه. والله أعلم.
[18,17] اللہ تعالیٰ کا بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ کا بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرنا۔ (۲) بندے کے توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا اس کو قبول کر لینا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ توبہ اللہ تعالیٰ پر استحقاق ہے، قبولیت توبہ ایک ایسا حق ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے جود و کرم کی بنا پر اپنے آپ پر اس بندے کے لیے لازم فرمایا ہے جو برا کام کر بیٹھتا ہے ﴿ بِجَهَالَةٍ ﴾ یعنی وہ اس برائی کے انجام، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے، جس کی یہ برائی موجب ہوتی ہے۔۔۔ لاعلمی کی وجہ سے برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ برائی کرتے وقت اس بات سے بھی جاہل ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے نیز وہ اس سے بھی لاعلم ہوتا ہے کہ برائی کا ارتکاب ایمان میں کمی یا اسے معدوم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ہر نافرمان شخص اس اعتبار سے جاہل ہوتا ہے خواہ وہ اس برائی کی تحریم کا علم رکھتا ہو۔ بلکہ برائی کی تحریم کا علم، اس کے معصیت ہونے اور اس کے مرتکب کی سزا کے لیے شرط ہے۔ ﴿ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَ٘رِیْبٍ ﴾ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ موت کو دیکھ لینے سے قبل توبہ کر لیتے ہیں۔ یہ بات قطعی ہے کہ جب بندہ موت کے معائنہ سے قبل توبہ کر لیتاہے تو اللہ بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ موت کو دیکھ لینے کے بعد گناہ گاروں کی توبہ قابل قبول نہیں ہوتی اور نہ کفار کے لیے رجوع کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔ فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَؔكَهُ الْ٘غَرَقُ١ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ﴾ (یونس : 10؍90) ’’یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ﴿ فَلَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَؔكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۰۰ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْ٘كٰفِرُوْنَ﴾ (المومن:40؍84،85) ’’جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو انھوں نے کہا ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان خداؤں کا انکار کیا جنھیں ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ مگر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔‘‘ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّؔیِّاٰتِ ﴾ ’’ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں‘‘ یہاں برائیوں سے مراد کفر سے کم تر گناہ ہیں ﴿ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْ٘مَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْ٘ـٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَهُمْ كُفَّارٌ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، ان کی توبہ قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے الم ناک عذاب تیار کر رکھے ہیں‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں توبہ اضطراری توبہ ہے جو توبہ کرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ صرف اختیاری توبہ فائدہ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ مِنْ قَ٘رِیْبٍ ﴾ میں اس معنیٰ کا بھی احتمال ہے کہ توبہ کے موجب، گناہ کے ارتکاب کے ساتھ ہی توبہ کی جائے ۔۔۔ تب آیت کا معنیٰ یہ ہو گا ’’جس کسی نے برائی کا ارتکاب کرتے ہی برائی کو چھوڑنے میں جلدی کی اور نادم ہو کر اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ اس کے برعکس وہ شخص جو اپنے گناہ پر قائم اور اپنے عیوب پر مصر رہتا ہے یہاں تک کہ یہ گناہ اس کی عادت راسخہ بن جاتا ہے تب اس کے لیے پوری طرح توبہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ غالب طور پر اسے توبہ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کے لیے توبہ کے اسباب مہیا نہیں کیے جاتے۔ مثلاً وہ شخص جو جانتے بوجھتے اور اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور استہزا کے ساتھ برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ بند کر لیتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے عمداً گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور ان گناہوں پر مصر رہتا ہے مگر اللہ اسے توبہ نافعہ کی توفیق عطا کر دیتا ہے یہ توبہ اس کے گزشتہ گناہ اور جرائم کو دھو ڈالتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی توفیق پہلے شخص کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت اس طرح ختم فرمائی: ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا ﴾ ’’اللہ علم اور حکمت والا ہے‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے جاننے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کون سچی توبہ کرتا ہے اور کون اپنی توبہ میں جھوٹا ہے، ان میں سے ہر ایک کو اپنی حکمت کے مطابق، جس کا وہ مستحق ہو گا، جزا دیتا ہے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ وہ اسے توبہ کی توفیق عطا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کی حکمت، رحمت اور توفیق تقاضا کرتی ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے جس کو چھوڑنا اس کا عدل و حکمت اور عدم توفیق تقاضا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
آیت: 19 - 21 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (19) وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (20) وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (21)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہیں ہے حلال تمھارے لیے یہ کہ وارث ہو جاؤ تم عورتوں کے زبردستی اور نہ روکو تم انھیں تاکہ لے لو تم کچھ (حصہ) اس (حق مہر) کا جو دیا تم نے ان کو۔ مگر یہ کہ کریں وہ بے حیائی کھلی کا کام۔ اور گزر بسر کرو تم ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے۔ پس اگر ناپسند کرو تم ان کو تو شاید کہ ناپسند کرو تم کسی چیز کو اور کر دے اللہ اس میں بھلائی بہت (19) اور اگر چاہو تم بدلنا ایک بیوی کا ایک بیوی کی جگہ اور دیا ہو تم نے ایک کو ان میں سے بہت سا مال، پس نہ (واپس) لو تم اس میں سے کچھ بھی۔ کیا لو گے تم اسے بہتان باندھ کر اور گناہ صریح سے؟(20) اور کیسے لو گے تم اسے، جبکہ ملاپ کر چکا ہے ایک تمھارا دوسرے سےاور لیا ہے ان عورتوں نے تم سے عہد پختہ(21)
#
{19} كانوا في الجاهلية إذا مات أحدهم عن زوجته؛ رأى قريبُهُ كأخيه وابن عمه ونحوهما ـ أنه أحقُّ بزوجته من كل أحدٍ، وحماها عن غيره، أحبت أو كرهت؛ فإن أحبَّها؛ تزوجها على صداق يحبُّه دونها، وإن لم يرضها؛ عَضَلَها فلا يزوِّجها إلاَّ مَن يختاره هو، وربما امتنع من تزويجها حتى تبذل له شيئاً من ميراث قريبه أو من صداقها. وكان الرجل أيضاً يعضُلُ زوجته التي يكون يكرهُها ليذهبَ ببعض ما آتاها. فنهى الله المؤمنين عن جميع هذه الأحوال إلا حالتين: إذا رضيت واختارت نكاح قريب زوجها الأول كما هو مفهومُ قولِهِ: {كَرْهاً}. وإذا أتَيْنَ بفاحشة مبيِّنةٍ كالزنا والكلام الفاحش وأذيتها لزوجها؛ فإنه في هذه الحال يجوز له أن يعضُلَها عقوبةً لها على فعلها، لتفتدي منه إذا كان عضلاً بالعدل. ثم قال: {وعاشروهنَّ بالمعروف}: وهذا يشمل المعاشرةَ القوليَّة والفعليَّة، فعلى الزوج أن يعاشر زوجته بالمعروف من الصحبة الجميلة وكفِّ الأذى وبذل الإحسان وحسن المعاملة، ويدخل في ذلك النفقة والكسوة ونحوهما، فيجب على الزوج لزوجته المعروف من مثلِهِ لمثلها في ذلك الزمان والمكان، وهذا يتفاوت بتفاوت الأحوال. {فإن كرهتموهنَّ فعسى أن تكرهوا شيئاً ويجعلَ الله فيه خيراً كثيراً}؛ أي: ينبغي لكم أيها الأزواج أن تُمْسِكوا زوجاتِكم مع الكراهة لهنَّ؛ فإنَّ في ذلك خيراً كثيراً: من ذلك امتثالُ أمر الله وقَبولُ وصيَّته التي فيها سعادة الدنيا والآخرة. ومنها: أن إجباره نفسه مع عدم محبَّته لها فيه مجاهدةُ النفس والتخلُّق بالأخلاق الجميلة، وربما أن الكراهة تزول وتخلُفُها المحبةُ كما هو الواقع في ذلك، وربما رُزِقَ منها ولداً صالحاً، نفع والديه في الدنيا والآخرة.
[19] زمانہ جاہلیت میں اگر کوئی شخص مر جاتا اور اپنے پیچھے بیوی چھوڑتا تو مرنے والے کا کوئی قریبی مثلاً بھائی یا چچا زاد بھائی وغیرہ سمجھتا تھا کہ وہ اس عورت کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ چنانچہ عورت خواہ پسند کرتی یا ناپسند کرتی وہ اس عورت پر قبضہ کر لیتا تھا اور اسے کسی اور کے ساتھ نکاح نہ کرنے دیتا۔ اگر وہ چاہتا تو وہ اس کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق حق مہر پر اس سے نکاح کر لیتا۔ اور اگر وہ اسے پسند نہ کرتا تو اسے نکاح کرنے سے روک دیتا اور صرف اسی کے ساتھ اس کا نکاح کرتا جسے وہ خود منتخب کرتا اور بسااوقات وہ اس کا نکاح اس وقت تک نہ ہونے دیتا جب تک وہ مرنے والے شوہر کی میراث یا مہر میں سے اسے کچھ نہ دے دیتی۔ نیز وہ اپنی ناپسندیدہ بیوی کو بھی روک رکھتا اور دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دیتا تاکہ وہ اپنا حق مہر اور وہ سامان ساتھ نہ لے جائے جو اس نے اسے عطا کیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور سے اہل ایمان کو منع کیا ہے۔ سوائے مندرجہ ذیل دو حالتوں کے۔ ۱۔ جب عورت برضا و رغبت اپنے سابقہ شوہر کے کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ نکاح کر لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ كَرْهًا ﴾ کا مفہوم مخالف ہے۔ ۲۔ جب واضح بدکاری مثلاً زنا وغیرہ کا ارتکاب کرے اور فحش گوئی کے ذریعے سے اپنے شوہر کو اذیت دے، تو اس صورت میں خاوند کا اس کو اس کے کرتوتوں کی سزا کے طور پر، دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا جائز ہے، تاکہ وہ خاوند سے وصول کردہ مال واپس کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ (یہ گویا خلع کی صورت ہے جس میں خاوند حق مہر وغیرہ واپس لے سکتا ہے) لیکن شرط یہی ہے کہ یہ روکنا عدل و انصاف کے مطابق ہو۔ ﴿ وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’اور ان سے اچھے طریقے سے گزران کرو‘‘ یہ حکم قولی اور فعلی دونوں قسم کی معاشرت (گزران) کو شامل ہے، پس شوہر پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے رہے، اسے کوئی اذیت نہ دے اس کے ساتھ بھلائی اور حسن معاملہ سے پیش آئے۔ اس میں نان و نفقہ، اور لباس وغیرہ سب شامل ہے۔ پس زمان و مکان کے احوال کے مطابق شوہر کا بیوی سے معروف طریقے سے پیش آنا فرض ہے اور اسی طرح بیوی پر بھی فرض ہے۔ یہ چیز احوال کے تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتی ہے۔ ﴿ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَؔكْرَهُوْا شَیْـًٔـا وَّیَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا ﴾ ’’اگر تم انھیں ناپسند کرو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے‘‘ یعنی اے شوہرو تم اپنی بیویوں کو ناپسند کرنے کے باوجود اپنے پاس رکھو کیونکہ ایسا کرنے میں خیر کثیر ہے۔ مثلاً، اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی وصیت کو قبول کرنا ہے، جس کے اندر دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔ ۳۔ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ عدم محبت کے باوجود اپنے آپ کو اس کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا، اس میں مجاہدۂ نفس بھی ہے اور خلق جمیل سے آراستہ ہونا بھی۔ ۴۔ بسااوقات ناپسندیدگی زائل ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ محبت لے لیتی ہے جیسا کہ فی الواقع ہوتا ہے۔ ۵۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صالح اولاد عطا کر دیتا ہے جو دنیا و آخرت میں اپنے والدین کو نفع دیتی ہے۔
#
{20} وهذا كله مع الإمكان في الإمساك وعدم المحذور، فإنْ كان لا بدَّ من الفراق وليس للإمساك محلٌّ؛ فليس الإمساك بلازم، بل متى {أردتم استبدال زوج مكان زوج}؛ أي: تطليق زوجة وتزوُّج أخرى؛ أي: فلا جُناح عليكم في ذلك ولا حرج، ولكن إذا {آتيتم إحداهن}؛ أي: المفارِقة أو التي تزوجها {قنطاراً}؛ أي: مالاً كثيراً. {فلا تأخذوا منه شيئاً}، بل وفِّروه لهن ولا تَمْطُلوا بهنَّ. وفي هذه الآية دلالة على عدم تحريم كثرة المهر، مع أن الأفضل واللائق الاقتداء بالنبي - صلى الله عليه وسلم - في تخفيف المهر، ووجه الدلالة أنَّ الله أخبر عن أمر يقعُ منهم ولم ينكِرْه عليهم، فدل على عدم تحريمه. لكن قد ينهى عن كثرة الصداق إذا تضمن مفسدة دينية وعدم مصلحةٍ تقاوم. ثم قال: {أتأخذونه بهتاناً وإثماً مبيناً}؛ فإنَّ هذا لا يحلُّ، ولو تحيَّلتم عليه بأنواع الحيل؛ فإن إثمه واضح.
[20] بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے میں ان تمام امور کے امکانات موجود ہیں، البتہ جب بیوی سے مفارقت ناگزیر ہو جائے اور اس کو ساتھ رکھنے کی کوئی صورت بنتی نظر نہ آئے، تب اسے روک رکھنا لازم نہیں ﴿وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ﴾ یعنی جب تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو یعنی ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو تو اس میں کوئی گناہ اور حرج کی بات نہیں ﴿ وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰؔىهُنَّ ﴾ البتہ اگر تم نے جدا ہونے والی بیوی کو یا اس کو جس سے نکاح کیا ہے ﴿ قِنْطَارًا ﴾ مال کثیر عطا کر رکھا ہو ﴿ فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْـًٔا ﴾ تو اس سے کوئی چیز واپس نہ لو بلکہ اس میں اور زیادتی کرو اور ان کے ساتھ ٹال مٹول نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کثرت مہر حرام نہیں۔ مگر بایں ہمہ تخفیف مہر میں رسول اللہeکی اقتدا افضل اور زیادہ لائق اعتنا ہے اور استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک معاملے کی خبر دی ہے جو ان سے واقع ہوا، مگر اس پر نکیر نہیں فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل حرام نہیں ہے، مگر کبھی زیادہ حق مہر مقرر کرنے سے روکا بھی گیا ہے جبکہ اس میں دینی مفاسد ہوں اور اس کے مقابلے میں کوئی مصلحت نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَتَاْخُذُوْنَهٗ۠ بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّؔبِیْنًا ﴾ ’’کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے‘‘ کیونکہ ایسا کرنا جائز نہیں خواہ تم بیوی کو عطا کی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے کوئی بھی حیلہ کر لو، بہرحال یہ واضح گناہ ہے۔
#
{21} وقد بيَّن تعالى حكمة ذلك بقوله: {وكيف تأخذونه وقد أفضى بعضكم إلى بعض وأخذن منكم ميثاقاً غليظاً}، وبيان ذلك أن الزوجة قبل عقد النكاح محرمةٌ على الزوج، ولم ترضَ بحلِّها له إلا بذلك المهر الذي يدفعُهُ لها؛ فإذا دخل بها وأفضى إليها وباشرها المباشرة التي كانت حراماً قبل ذلك والتي لم ترض ببذلها إلاَّ بذلك العوض؛ فإنَّه قد استوفى المعوَّض، فثبت عليه العِوَض؛ فكيف يَسْتَوفي المعوَّض ثم بعد ذلك يرجع على العوض؟ هذا من أعظم الظلم والجور، وكذلك أخذ الله على الأزواج ميثاقاً غليظاً بالعقد والقيام بحقوقها. ثم قال تعالى:
[21] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی حکمت بیان فرمائی ہے ﴿ وَؔ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْ٘ضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّؔیْثَاقًا غَلِیْظًا ﴾ ’’تم اسے کیسے لے لو گے؟ حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں سے تم نے مضبوط عہدوپیمان لے رکھا ہے‘‘ اور اس کی توضیح یوں ہے کہ بیوی شوہر کے لیے نکاح سے قبل حرام ہوتی ہے اس نے بیوی کے طور پر حلال ہونے کے لیے صرف حق مہر کے عوض رضامندی کا اظہار کیا تھا جو وہ بیوی کو ادا کرے گا۔ جب اس نے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ میں صحبت اور مباشرت کی جو اس سے قبل حرام تھی اور وہ بیوی اس کے لیے اس عوض کے بغیر راضی نہ تھی، پس شوہر نے مہر کا معوض پوری طرح وصول کر لیا، تو اس پر عوض (مہر) کی ادائیگی واجب ہو گئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شوہر معوض (یعنی صحبت و مباشرت) تو پورا پورا وصول کرے پھر اس کے بعد حق مہر ادا نہ کرے۔ یہ بہت بڑا ظلم اور جور ہے۔ (اس لیے ایسا نہ کرو) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عقد میں بیوی کے حقوق کے قیام کے لیے شوہروں سے پکا عہد لیا ہے۔ (اس کا بھی تقاضا عدل و کرم ہے نہ کہ ظلم و جبر) پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 22 #
{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا (22)}.
اور نہ نکاح کرو تم ان سے کہ نکاح کیا تمھارے باپوں نے جن عورتوں سے مگر جو پہلے گزر گیا، بلاشبہ یہ ہے بے حیائی کا کام اور ناراضی کی بات اور برا ہے طریقہ(22)
#
{22} أي: لا تتزوَّجوا من النساء ما تزوَّجهنَّ آباؤكم؛ أي: الأب وإن علا. {إنه كان فاحشة}؛ أي: أمراً قبيحاً يفحُشُ ويعظُمُ قبحُهُ. {ومَقْتاً}: من الله لكم، ومن الخلق، بل يَمْقُتُ بسبب ذلك الابن أباه والأب ابنه مع الأمر ببرِّه. {وساء سبيلاً}؛ أي: بئس الطريق طريقاً لمن سلكه؛ لأنَّ هذا من عوائد الجاهلية التي جاء الإسلام بالتنزُّه عنها والبراءة منها.
[22] یعنی ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمھارے باپ اور دادا نکاح کر چکے ہوں ﴿ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ﴾ ’’یہ بہت قبیح کام ہے‘‘ اور اس کی قباحت بہت بڑھی ہوئی ہے ﴿ وَّمَقْتًا ﴾ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی ناراضی کا باعث ہے۔ بلکہ اس کے سبب سے بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے ناراض ہو جاتا ہے، حالانکہ بیٹے کو باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ہے ﴿ وَسَآءَؔ سَبِیْلًا﴾ (اس راستے پر) چلنے والے کے لیے یہ برا راستہ ہے۔ کیونکہ یہ جاہلیت کی قبیح رسم و عادات ہیں جن سے (معاشرے کو) پاک کرنے کے لیے اسلام آیا ہے۔
آیت: 23 - 24 #
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (23) وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (24)}.
حرام کی گئی ہیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں اور (بھتیجیاں) بیٹیاں بھائیوں کی اور (بھانجیاں) بیٹیاں بہنوں کی اور تمھاری مائیں وہ جنھوں نے دودھ پلایا تمھیں اور تمھاری بہنیں رضاعی اور (ساسیں) مائیں تمھاری بیویوں کی اور تمھاری سوتیلی بیٹیاں وہ جو (پرورش پائیں) تمھاری گودوں میں، ان عورتوں (کے بطن) سے کہ صحبت کی تم نے ان سے، پس اگر نہیں صحبت کی تم نے ان سے تو نہیں گناہ تم پراور (بہوئیں) بیویاں تمھارے بیٹوں کی، جو تمھاری پشتوں سے ہیں۔ اور (حرام ہے تم پر) جمع کرنا تمھارا درمیان دو بہنوں کے مگر جو پہلے گزر گیا، بلاشبہ اللہ ہے بہت بخشنے والا بڑا مہربان(23) اور (حرام ہیں) شادی شدہ عورتیں (بھی) مگر جن کے مالک ہوں تمھارے دائیں ہاتھ (یہ) لکھ دیا ہے اللہ نے تم پراور حلال کر دی گئی ہیں تمھارے لیے جو علاوہ ہیں ان کے (بشرطیکہ) تلاش کرو تم اپنے مالوں کے بدلے، نکاح میں لانے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے، پس جو فائدہ اٹھایا تم نے اس کے بدلے ان سے تو دو تم ان کو مہر ان کے مقرر شدہ اور نہیں گناہ تم پر اس (کمی بیشی) میں کہ باہم راضی ہو جاؤ تم ساتھ اس کے، بعد مقرر کر لینے کے، بلاشبہ اللہ ہے خوب جاننے والا بڑا حکمت والا(24)
یہ آیات کریمہ نسبی محرمات، رضاعی محرمات اور سسرالی قرابت کی بنا پر محرمات، جمع کرنے کی بنا پر محرمات اور حلال عورتوں کے احکام پر مشتمل ہے۔
#
{23} فأما المحرمات في النسب؛ فهنَّ السبعُ اللاتي ذكرهنَّ الله: الأمُّ: يدخل فيها كلُّ من لها عليك ولادةٌ وإن بَعُدَتْ. ويدخل في البنت كلُّ من لك عليها ولادة. والأخوات الشقيقات أو لأبٍ أو لأمٍ. والعمة: كلُّ أختٍ لأبيك أو لجدِّك وإن علا. والخالة: كلُّ أخت لأمِّك أو جدَّتك وإن علت وارثة أم لا. وبناتُ الأخ وبناتُ الأخت؛ أي: وإن نزلت. فهولاء هنَّ المحرَّمات من النسب بإجماع العلماء؛ كما هو نصُّ الآية الكريمة، وما عداهنَّ؛ فيدخُلُ في قولِهِ: {وأحِلَّ لكم ما وراء ذلكم}، وذلك كبنت العمَّة والعمِّ وبنت الخال والخالة. وأما المحرَّمات بالرَّضاع؛ فقد ذكر الله منهنَّ الأمَّ والأخت، وفي ذلك تحريم الأم، مع أنَّ اللبن ليس لها، إنَّما هو لصاحب اللبن، دلَّ بتنبيهه على أن صاحب اللبن يكون أباً للمرتضع؛ فإذا ثبتت الأبوة والأمومة؛ ثبت ما هو فرعٌ عنهما؛ كأخوتهما وأصولهما وفروعهما ، وقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «يحرُمُ من الرَّضاع ما يحرُمُ من النسب» ، فينتشر التحريم من جهة المرضعة ومَن له اللبن كما ينتشر في الأقارب وفي الطفل المرتضع إلى ذريَّته فقط، لكن بشرط أن يكون الرضاعُ خمسَ رَضَعات في الحولين؛ كما بيَّنت السنة. وأما المحرمات بالصهر؛ فهنَّ أربع: حلائل الآباء وإن علوا، وحلائل الأبناء وإن نزلوا وارثين أو محجوبين، وأمهات الزوجة وإن علون؛ فهؤلاء الثلاث يَحْرُمْنَ بمجرَّد العقد، والرابعة الربيبة، وهي بنت زوجته وإن نزلت؛ فهذه لا تحرُمُ حتى يدخلَ بزوجتِهِ؛ كما قال هنا: {وربائبُكُمُ اللاَّتي في حجورِكُم من نسائِكُمُ اللاتي دخلتم بهن ... } الآية. وقد قال الجمهور: إن قوله: {اللاتي في حجوركم}: قيدٌ خَرَجَ بمخرَج الغالب لا مفهوم له؛ فإن الربيبة تحرُمُ ولو لم تكن في حجره، ولكن للتقييد بذلك فائدتان: إحداهما: [فيه] التنبيه على الحكمة في تحريم الربيبة، وأنها كانت بمنزلة البنت؛ فمن المستقبح إباحتها. والثانية: فيه دلالة على جواز الخَلْوة بالربيبة، وأنها بمنزلة من هي في حجره من بناته ونحوهن. والله أعلم. وأمّا المحرمات بالجمع؛ فقد ذكر الله الجمع بين الأختين وحرَّمه، وحرَّم النبي - صلى الله عليه وسلم - الجمع بين المرأة وعمتها أو خالتها ؛ فكل امرأتين بينهما رحمٌ محرَّم، لو قُدِّرَ إحداهُما ذكراً والأخرى أنثى حَرُمَتْ عليه؛ فإنه يحرُمُ الجمع بينهما، وذلك لما في ذلك من أسباب التقاطع بين الأرحام.
[23] نسب کے اعتبار سے حرام عورتیں سات ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے: (۱) ماں : اس میں ہر وہ عورت داخل ہے جس سے آپ پیدا ہوئے ہیں خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر چلی جائیں۔ (۲) بیٹی : بیٹی کے رشتے میں ہر وہ عورت داخل ہے جس کو آپ نے جنم دیا ہے۔ (۳) بہن : اس رشتے میں تمام حقیقی، اخیافی (ماں شریک) اور علاتی (باپ شریک) بہنیں شامل ہیں۔ (۴) پھوپھی : ہر وہ عورت جو آپ کے باپ یا دادا کی بہن ہے خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ (۵) خالہ : ہر وہ عورت جو آپ کی ماں یا آپ کی نانی کی بہن ہے خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں، خواہ وہ وارث ہے یا نہیں ہے۔ (۷،۶) اسی طرح بھائی کی بیٹیاں (بھتیجیاں) اور بہن کی بیٹیاں (بھانجیاں) خواہ کتنی ہی دور تک نیچے چلی جائیں۔ یہ وہ سات محرمات ہیں جو نسب کے اعتبار سے حرام ہیں اور ان کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے جیسا کہ آیت کریمہ کی نص سے ظاہر ہے۔ ان مذکورہ عورتوں کے علاوہ دیگر عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہیں ﴿ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّؔا وَرَآءَؔ ذٰلِكُمْ ﴾ ’’ان محرمات عورتوں کے سوا دیگر تمام عورتیں تمھارے لیے حلال کر دی گئیں‘‘ مثلاً: پھوپھی کی بیٹی، چچا کی بیٹی، ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی۔ جہاں تک رضاعت کے اعتبار سے محرمات کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اس تحریم میں رضاعی ماں کی ماں بھی شامل ہے حالانکہ حرمت کا باعث دودھ اس کا نہیں بلکہ وہ تو دودھ کے مالک یعنی رضاعی ماں کے شوہر کا ہے۔ یہ تنبیہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رضاعی ماں کا شوہر (یعنی دودھ کا مالک) دودھ پینے والے کا (رضاعی) باپ ہے۔ جب رضاعی باپ ہونا اور ماں ہونا ثابت ہو گیا تو ان کی بہنوں وغیرہ اور ان کے اصول و فروع کی حرمت ثابت ہوگئی۔ رسول اللہeنے فرمایا: ’یَحْرُمُ مِنَ الرِّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ‘ (صحیح مسلم، الرضاع، باب يحرم من الرضاعۃ.....، حديث: 1444 و سنن النسائی، النکاح، يحرم من الرضاع، حديث: 3304)’’جو رشتہ نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہے۔‘‘ پس یہ تحریم دودھ پلانے والی کی جہت سے اور اس کے خاوند کی جہت سے پھیلے گی۔ جیسا کہ وہ تحریم نسبی اقارب میں پھیلتی ہے اور یہ تحریم دودھ پینے والے بچے میں صرف اس کی اولاد تک پھیلے گی۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بچے نے اپنے دو سال کی عمر میں کم از کم پانچ بار دودھ پیا ہو۔ جیسا کہ سنت نے واضح کیا ہے۔ سسرالی قرابت کے اعتبار سے حرام رشتے چار ہیں۔ باپ دادا کی بیویاں ۔ خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلے جائیں۔ بیٹوں کی بیویاں : خواہ کتنی ہی دور نیچے تک چلے جائیں، خواہ وہ وارث ہوں یا محجوب۔ بیوی کی ماں : خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ یہ تین رشتے مجرد نکاح سے حرام ہو جاتے ہیں۔ چوتھا رشتہ سوتیلی بیٹی کا ہے۔ سوتیلی بیٹی بیوی کے پچھلے شوہر کی بیٹی ہے۔ خواہ کتنی ہی دور نیچے چلی جائیں۔ یہ سوتیلی بیٹی اس وقت تک حرام نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی ماں سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَرَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ﴾ ’’اور تمھاری پرورش کردہ وہ لڑکیاں جو تمھاری گود میں ہیں، تمھاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول (خلوت صحیحہ) کر چکے ہو۔‘‘ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ ﴾ ’’جو تمھاری پرورش میں ہیں‘‘ کی قید ہے جس میں غالب احوال کا اعتبار کیا گیا ہے اس کا مفہوم مخالف معتبر نہیں۔ بنا بریں سوتیلی بیٹی خواہ سوتیلے باپ کے گھر میں نہ ہو تب بھی حرام ہے۔ البتہ اس تقیید کے دو فائدے ہیں۔ (اول) اس میں سوتیلی بیٹی کی تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ بھی صلبی بیٹی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کی اباحت بہت ہی قبیح بات ہے۔ (ثانی) اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ سوتیلی بیٹی کے ساتھ تنہائی اور خلوت جائز ہے کیونکہ وہ صلبی اور نسبی بیٹیوں کی مانند ہے۔ واللہ اعلم۔ رہا ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے ممنوع اور حرام رشتے تو اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو جمع کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جمع کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے اور رسول اللہeنے بیوی اور اس کی پھوپھی، بیوی اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ پس ہر وہ دو عورتیں جن کے مابین رحم کا رشتہ ہے، اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک کو مرد اور دوسری کو عورت مان لیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہوں، تو ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہو گا اور یہ اس لیے کہ اس صورت میں باہم قطع رحمی کے اسباب ہیں۔
#
{24} ومن المحرَّمات في النكاح {المحصناتُ من النساء}؛ أي: ذوات الأزواج؛ فإنَّه يَحْرُمُ نكاحهنَّ ما دمنَ في ذمة الزوج حتى تَطْلُقَ وتنقضيَ عِدَّتُها؛ {إلا ما ملكت أيمانكُم}؛ أي: بالسبي؛ فإذا سُبِيَتِ الكافرةُ ذات الزوج؛ حلَّت للمسلمين بعد أن تُسْتَبْرأ، وأما إذا بيعت الأمة المزوَّجةَ أو وُهِبَتْ؛ فإنَّه لا ينفسخُ نكاحُها؛ لأنَّ المالك الثاني نزل منزلة الأول، ولقصة بَريرة حين خيَّرها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -. وقوله: {كتاب الله عليكم}؛ أي: الزموه واهتدوا به؛ فإن فيه الشفاء والنور، وفيه تفصيل الحلال من الحرام. ودخل في قوله: {وأحِلَّ لكم ما وراء ذلكم}: كلُّ ما لم يُذْكَرْ في هذه الآية؛ فإنه حلال طيب؛ فالحرام محصورٌ، والحلال ليس له حدٌّ ولا حصرٌ؛ لطفاً من الله ورحمة وتيسيراً للعباد. وقوله: {أن تبتغوا بأموالكم}؛ أي: تطلُبوا مَن وَقَعَ عليه نظرُكُم واختيارُكُم من اللاتي أباحهنَّ الله لكم حالة كونكم {محصنينَ}؛ أي: مستعفين عن الزنا ومعفين نساءكم. {غير مسافحين}: والسفحُ سفحُ الماء في الحلال والحرام؛ فإنَّ الفاعل لذلك لا يحصن زوجته؛ لكونه وضع شهوته في الحرام، فتضعف داعيته للحلال، فلا يبقى محصناً لزوجته. وفيها دلالة على أنه لا يزوَّج غيرُ العفيف؛ لقوله تعالى: {الزاني لا ينكح إلا زانيةً أو مشركةً والزانيةُ لا ينكِحُها إلا زانٍ أو مشركٌ}. {فما استمتعتم به منهن}؛ أي: من تزوَّجْتُموها. {فآتوهنَّ أجورهنَّ}؛ أي: الأجور في مقابلة الاستمتاع، ولهذا إذا دخل الزوج بزوجته؛ تقرَّر عليه صداقها {فريضةً}؛ أي: إتيانكم إياهنَّ أجورهنَّ فرضٌ فرضه الله عليكم، ليس بمنزلة التبرُّع الذي إن شاء أمضاه وإن شاء ردَّه، أو معنى قوله: {فريضةً}؛ أي: مقدَّرة، قد قدَّرتموها، فوجبت عليكم؛ فلا تنقصوا منها شيئاً. {ولا جُناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة}؛ أي: بزيادةٍ من الزوج أو إسقاطٍ من الزوجة عن رضا وطيب نفس. هذا قولُ كثيرٍ من المفسِّرين. وقال كثيرٌ منهم: إنها نزلت في متعة النساء التي كانت حلالاً في أول الإسلام، ثم حرَّمها النبي - صلى الله عليه وسلم -، وأنه يؤمر بتوقيتها وأجرها، ثم إذا انقضى الأمد الذي بينهما، فتراضيا بعد الفريضة؛ فلا حرج عليهما. والله أعلم. {إنَّ الله كان عليماً حكيماً}؛ أي: كامل العلم واسعه، كامل الحكمة؛ فمن علمه وحكمته شرع لكم هذه الشرائع، وحدَّ لكم هذه الحدود الفاصلة بين الحلال والحرام. ثم قال تعالى:
[24] نیز ان عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے جو اس آیت میں مذکور ہیں ﴿ وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ﴾ ’’اور شوہر والی عورتیں بھی‘‘ (تم پر حرام ہیں) یعنی جو پہلے سے شادی شدہ اور خاوند والی ہیں۔ جب تک یہ عورتیں پہلے شوہر کی زوجیت میں ہیں اور جب تک پہلا خاوند طلاق نہ دے دے اور یہ اپنی عدت پوری نہ کر لیں، اس وقت تک دوسرے خاوند کے لیے حرام ہیں۔ ﴿ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ﴾ البتہ تمھارے لیے تمھاری لونڈیاں حلال ہیں اگر جنگ کے دوران خاوند والی عورت کو قیدی بنا لیا جائے تو وہ استبرائے رحم (ایک حیض) کے بعد مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ اگر منکوحہ لونڈی کو فروخت کر دیا جائے یا کسی کو ہبہ میں دے دی جائے تو اس سے لونڈی کا نکاح فسخ نہیں ہو گا۔ دوسرا مالک پہلے مالک کے مقام پر تصور کیا جائے گا اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہeنے بریرہrکو اپنے خاوند کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار عطا فرمایا تھا۔(سنن أبی داود، الطلاق، باب فی المملوکۃتعتق وھی تحت حراً وعبد، حديث:2231) ﴿ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ﴾ ’’(یہ حکم) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے۔‘‘ اس کا التزام کرو اور اس کو راہنما بناؤ۔ کیونکہ اس کے اندر تمھارے لیے شفا اور روشنی ہے اور اس کے اندر حلال و حرام کی تفصیلات ہیں۔ ﴿ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّؔا وَرَآءَؔ ذٰلِكُمْ﴾ ہر وہ عورت جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں نہیں ہے، وہ حلال ہے۔ حرام محدود ہے اور حلال لامحدود اور غیر محصور ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر لطف و کرم، اس کی رحمت اور ان کے لیے اس کی عطا کردہ آسانی ہے۔ ﴿ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾ ’’اس طرح سے کہ مال خرچ کرکے ان سے نکاح کرلو۔‘‘ یعنی ان عورتوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے مباح قرار دیاہے، جن کو تمھاری نظر نے منتخب کیا (ان کو حق مہر کے عوض) اپنے نکاح میں لاؤ ﴿ مُّحْصِنِیْنَ﴾ ’’نکاح کرنے والے ہو‘‘ یعنی خود بھی زنا سے محفوظ رہتے ہوئے اور اپنی عورتوں کو بھی زنا سے بچاتے ہوئے ﴿ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ﴾ ’’نہ کہ بدکاری کرنے والے‘‘ (اَلسَّفْحُ) سے مراد ہے حرام یا حلال جگہ پانی بہانا (یعنی مباشرت کرنا) کیونکہ زنا کا ارتکاب کرنے والا اپنی بیوی کو محفوظ نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرتا رہا، پس اس میں حلال طریقے سے شہوت پوری کرنے کا داعیہ کمزور پڑ گیا بنا بریں اپنی بیوی کو پاکباز رکھنے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ بچا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف پاک دامنوں سے نکاح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْ٘رِكَةً١ٞ وَّالزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْ٘رِكٌ﴾ (النور : 24؍3) ’’بدکار مرد بدکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور بدکار عورت کے ساتھ بھی بدکار مرد یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے۔‘‘ ﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ﴾ ’’تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو۔‘‘ یعنی جن کے ساتھ تم نے نکاح کیا ہے ﴿ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ﴾ ’’تو ان کو ان کا مہر ادا کردو۔‘‘ یعنی تم ان کے جسم سے فائدہ اٹھانے کے بدلے میں ان کو ان کا اجر یعنی حق مہر ادا کرو۔ بنا بریں جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ خلوت کرے سب سے پہلے مہر مقرر کرے ﴿ فَرِیْضَةً﴾ ’’جو مقرر کیا ہو۔‘‘ یعنی تمھاری اپنی بیویوں کو مہر عطا کرنا تم پر فرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے یہ کوئی عطیہ اور بخشش نہیں ہے کہ دل چاہا تو دے دیا اور دل چاہا تو واپس لے لیا۔ یا ’’فریضۃ‘‘ کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ مہر ایک مقرر کردہ حق ہے جسے تم نے خود مقرر کیا ہے جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے، پس تم اس میں سے کچھ کم نہ کرو۔ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰؔضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِالْ٘فَرِیْضَةِ﴾ ’’اور تم پر گناہ نہیں اس میں جس پر تم مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضامند ہو جاؤ‘‘ یعنی اگر شوہر مقرر کردہ مہر سے زیادہ ادا کر دیتا ہے یا بیوی برضا و رغبت مہر میں سے کچھ حصہ ساقط کر دیتی ہے (تو ایسا کرنا جائز ہے) اکثر مفسرین کا قول یہی ہے۔ بعض دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت کریمہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حلال اور جائز تھا اس کے بعد رسول اللہeنے حرام قرار دے دیا۔ متعہ کی صورت یہ تھی کہ وقت اور معاوضہ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ پھر جب ان دونوں کے درمیان معینہ مدت پوری ہو جائے اور مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضامند ہو جائیں تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔واللہ اعلم ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا﴾ ’’بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ وسیع اور کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ یہ اس کا علم اور حکمت ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے یہ قوانین بنائے اور تمھارے لیے یہ حدود مقرر کیں جو حلال و حرام کے درمیان فاصلہ رکھتی ہیں۔
آیت: 25 #
{وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (25)}.
اور جو شخص نہ رکھے تم میں سے طاقت یہ کہ نکاح کرے وہ آزاد مومن عورتوں سے تو (نکاح کر لے) اس سے کہ مالک ہوئے دائیں ہاتھ تمھارے،تمھاری مومن لونڈیوں سےاور اللہ خوب جانتا ہے تمھارے ایمان کو۔ ایک تمھارا، دوسرے سے ہے، پس نکاح کر لو تم ان سے، اجازت سے ان کے مالکوں کی اور دو تم ان کو مہر ان کے موافق دستور کے، جبکہ وہ نکاح میں لائی گئی ہوں، نہ ہوں بدکاری کرنے والیں ا ور نہ بنانے والیں چھپے یار۔ پس جب وہ نکاح میں لے آئی جائیں، پھر اگر کریں وہ بے حیائی کا کام تو ان پر آدھی ہے وہ جو کہ اوپر آزاد عورتوں کے ہے سزا سے۔ یہ (اجازت) اس کے لیے ہے جو ڈرے تکلیف میں پڑنے سے تم میں سےاور یہ کہ صبر کرو تم (تو) بہتر ہے تمھارے لیے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے(25)
#
{25} أي: ومن لم يستطع الطَّول ـ الذي هو المهر ـ لنكاح المحصنات؛ أي: الحرائر المؤمنات، وخاف على نفسه العنت؛ أي: الزنا والمشقة الكثيرة؛ فيجوز له نكاح الإماء المملوكات المؤمنات، وهذا بحسب ما يظهر، وإلاَّ؛ فالله أعلم بالمؤمن الصادق من غيره؛ فأمور الدنيا مبنيَّة على ظواهر الأمور، وأحكام الآخرة مبنيَّة على ما في البواطن. {فانكِحوهنَّ}؛ أي: المملوكات {بإذن أهلهنَّ}؛ أي: سيِّدهن واحداً أو متعدداً. {وآتوهنَّ أجورهنَّ بالمعروف}؛ أي: ولو كنَّ إماءً؛ فإنه كما يجب المهر للحرة؛ فكذلك يجب للأمة، ولكن لا يجوز نكاح الإماء إلاَّ إذا كنَّ {محصنات}؛ أي: عفيفات عن الزنا، {غير مسافِحاتٍ}؛ أي: زانيات علانية، {ولا متَّخذاتِ أخدانٍ}؛ أي: أخلاء في السرِّ. فالحاصل أنه لا يجوز للحرِّ المسلم نكاح أمةٍ إلاَّ بأربعة شروط ذكرها الله: الإيمان بهنّ، والعفة ظاهراً وباطناً، وعدم استطاعة طَوْل الحرة، وخوف العنت؛ فإذا تمت هذه الشروط؛ جاز له نكاحهنَّ، ومع هذا؛ فالصبر عن نكاحهنَّ أفضلُ؛ لما فيه من تعريض الأولاد للرقِّ، ولما فيه من الدناءة والعيب، وهذا إذا أمكن الصبر؛ فإن لم يمكن الصبر عن الحرام إلاَّ بنكاحهنَّ؛ وجب ذلك، ولهذا قال: {وأن تصبروا خير لكم والله غفور رحيم}. وقوله: {فإذا أحْصِنَّ}؛ أي: تزوَّجن أو أسلمن؛ أي: الإماء. فعليهن نصف ما على المحصنات؛ أي: الحرائر {من العذاب}. وذلك الذي يمكن تنصيفُهُ وهو الجلد، فيكون عليهن خمسون جلدةً، وأما الرجم؛ فليس على الإماء رجمٌ؛ لأنه لا يتنصَّف؛ فعلى القول الأول: إذا لم يتزوَّجن؛ فليس عليهن حدٌّ، إنما عليهن تعزيرٌ يردعهنَّ عن فعل الفاحشة. وعلى القول الثاني: إن الإماء غير المسلمات إذا فعلن فاحشةً أيضاً عزِّرْن. وختم هذه الآية بهذين الاسمين الكريمين: الغفور، والرحيم؛ لكون هذه الأحكام رحمة بالعباد وكرماً وإحساناً إليهم، فلم يضيِّق عليهم، بل وسَّع غاية السعة. ولعل في ذكر المغفرة بعد ذكر الحدِّ إشارة إلى أن الحدود كفاراتٌ يغفرُ الله بها ذنوبَ عباده كما وردَ بذلك الحديث. وحُكم العبد الذَّكر في الحد المذكور حُكم الأمة لعدم الفارق بينهما.
[25] یعنی تم میں سے جو کوئی آزاد اور مومن عورتوں کو حق مہر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ پر بدکاری اور مشقت کا خطرہ ہو، تو اس کے لیے مومن لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یہ تو ظاہری احوال کے مطابق ہے ورنہ اللہ تعالیٰ مومن صادق کو خوب جانتا ہے۔ دنیاوی امور ان کے ظاہر پر مبنی ہیں اور آخرت کے احکام کا تعلق انسان کے باطن میں چھپی نیتوں کے ساتھ ہے۔ ﴿ فَانْؔكِحُوْهُنَّ۠ بِـاِذْنِ اَهْلِهِنَّ﴾ ’’پس تم لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کرلو‘‘ خواہ مالک ایک ہو یا متعدد ہوں ﴿ وَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْ٘مَعْرُوْفِ﴾ ’’اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو۔‘‘ یعنی اگرچہ جن کے ساتھ نکاح کیا جا رہا ہے وہ لونڈیاں ہیں تاہم ان کو مہر ادا کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح آزاد کو ادا کرنا فرض ہے۔ مگر لونڈیوں سے نکاح کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ وہ ﴿ مُحْصَنٰتٍ﴾ ہوں یعنی زنا سے پاک ہوں ﴿ غَیْرَ مُسٰفِحٰؔتٍ﴾ علانیہ بدکاری سے بچی ہوئی ہوں ﴿ وَّلَا مُتَّؔخِذٰتِ اَخْدَانٍ﴾ نہ انھوں نے خفیہ یار دوست بنا رکھے ہوں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ آزاد مسلمان کے لیے لونڈی کے ساتھ ان چار شرائط کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (۱) لونڈیاں مومن ہوں۔ (۲) ظاہر اور باطن میں پاکباز ہوں۔ (۳) آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت نہ ہو۔ (۴) عدم نکاح کی صورت میں بدکاری کا خوف ہو۔ جب یہ شرائط پوری ہوں تو لونڈی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔ بایں ہمہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے باز رہنا افضل ہے کیونکہ لونڈیوں سے نکاح کرنے والے کی اولاد کو غلامی کا طعنہ دیا جاتا ہے نیزیہ گھٹیا بات ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ انسان صبر کر سکتا ہواگر وہ حرام میں پڑنے سے باز نہ رہ سکتا ہو تب اس پر لونڈی سے نکاح کرنا واجب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌؒ﴾ ’’اور تمھارا صبر کرنا تمھارے لیے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ﴿ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ﴾ یعنی جب وہ نکاح کر لیں یا مسلمان ہو جائیں ﴿ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَ٘عَ٘لَ٘یْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ ’’پھر اگر ان سے بے حیائی کا کام سرزد ہو تو انھیں آزاد عورتوں سے آدھی سزا دی جائے گی‘‘ یعنی جو آزاد عورتوں کی سزا ہے اس سے نصف لونڈیوں کی سزا ہے۔ وہ سزا جس کا نصف ممکن ہے کوڑوں کی سزا ہے تب ان کے لیے پچاس کوڑوں کی سزا ہے۔ رہی رجم کی بات تو لونڈیوں کے لیے رجم نہیں ہے کیونکہ رجم کا نصف ممکن نہیں۔ لہٰذا اس میں پہلا قول یہ ہے کہ اگر انھوں نے نکاح نہ کیا ہو تو ان پر کوئی حد نہیں۔ البتہ ان کو تعزیری سزا دی جائے تاکہ وہ فواحش کے ارتکاب سے باز رہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر غیر مسلم لونڈیاں فواحش کا ارتکاب کریں تو ان کو بھی تعزیر کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کا اختتام اپنے دو اسمائے مبارک ﴿ غَفُوْرٌؔ﴾ ’’بخشنے والا‘‘ ﴿ رَّحِیْمٌ﴾’’نہایت رحم کرنے والا‘‘ پر کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہ احکام بندوں پر رحمت اور اس کا کرم و احسان ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ ان کو کشادگی اور وسعت عطا کی۔ شاید حد کا ذکر کرنے کے بعد مغفرت کا ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حد کفارہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ بخشتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ مذکورہ بالا حد میں غلام کا بھی وہی حکم ہے جو لونڈی کا حکم ہے کیونکہ دونوں میں امتیاز اور فرق کرنے والا سبب معدوم ہے۔
آیت: 26 - 28 #
{يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (26) وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا (27) يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (28)}.
ارادہ کرتا ہے اللہ کہ بیان کرے تمھارے لیے اور ہدایت کرے تمھیں طریقوں کی ان لوگوں کے جو تم سے پہلے ہوئے اور متوجہ ہو تم پراور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے(26) اور اللہ ارادہ کرتا ہے کہ متوجہ ہو وہ تم پر اور ارادہ کرتے ہیں وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں خواہشات کی یہ کہ پھر جاؤ تم (حق سے) ، پھر جانا بہت زیادہ(27) ارادہ کرتا ہے اللہ یہ کہ آسانی کرے تم سے اور پیدا کیا گیا ہے انسان بہت کمزور(28)
#
{26} يخبر تعالى بمنَّته العظيمة ومنحته الجسيمة وحسن تربيته لعباده المؤمنين وسهولة دينه، فقال: {يريد الله لِيبيِّنَ لكم}؛ أي: جميع ما تحتاجون إلى بيانه من الحق والباطل والحلال والحرام. {ويهدِيَكم سنن الذين من قبلكم}؛ أي: الذين أنعم الله عليهم من النبيِّين وأتباعهم في سِيَرِهم الحميدة وأفعالهم السديدة وشمائلهم الكاملة وتوفيقهم التام؛ فلذلك نفَّذ ما أراده، ووضَّح لكم، وبيَّن بياناً كما بين لمن قبلكم، وهداكم هدايةً عظيمة في العلم والعمل. {ويتوبَ عليكم}؛ أي: يلطف [بكم] في أحوالكم وما شَرَعَه لكم، حتى تتمكَّنوا من الوقوف على ما حدَّه الله والاكتفاء بما أحلَّه، فتقلَّ ذنوبُكم بسبب ما يسَّر الله عليكم؛ فهذا من توبته على عباده، ومن توبته عليهم أنهم إذا أذنبوا فتح لهم أبواب الرحمة، وأوزع قلوبَهم الإنابة إليه والتذلُّل بين يديه، ثم يتوب عليهم بقبول ما وفَّقهم له؛ فله الحمد والشكر على ذلك. وقوله: {والله عليم حكيم}؛ أي: [كامل العلم]، كامل الحكمة؛ فمن علمه أن عَلَّمكم ما لم تكونوا تعلمون، ومنها هذه الأشياء والحدود. ومن حكمته أنه يتوبُ على من اقتضت حكمته ورحمته التوبة عليه، ويخذلُ من اقتضت حكمته وعدلُه أن لا يصلُحَ للتوبة.
[26] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی عظیم نوازش، بہت بڑے فضل و کرم اور اپنے مومن بندوں کی حسن تربیت اور دین کی سہولت سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ﴾ ’’اللہ چاہتا ہے کہ تمھارے واسطے بیان کرے‘‘ یعنی حق و باطل اور حلال و حرام میں سے جس جس چیز کی توضیح کے تم محتاج ہو اللہ تعالیٰ اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﴿وَیَهْدِیَكُمْ سُنَ٘نَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ﴾ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کا راستہ دکھاتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا یعنی انبیائے کرام اور ان کے متبعین کی سیرت حمیدہ، ان کے افعال صالحہ، ان کی عادات کاملہ اور ان کی توفیق تام کا راستہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا اسے نافذ کیا، تمھارے سامنے اسے پوری طرح واضح کر دیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر اسے پوری طرح واضح کر دیا تھا اور تمھیں علم و عمل میں عظیم ہدایت سے نوازا ﴿وَیَتُوْبَ عَلَیْكُمْ﴾ ’’اور رجوع کرے تم پر‘‘ یعنی اللہ تم پر تمھارے تمام احوال میں اور تمھارے لیے بنائی ہوئی شریعت میں اپنے لطف و کرم کا فیضان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تمھارے لیے ان حدود پر ٹھہرنا ممکن ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں اور تم اسی پر اکتفاء کرتے ہو جو اس نے تمھارے لیے حلال ٹھہرایا ہے، پس اس آسانی کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے پیدا کی ہے، تمھارے گناہ کم ہو جاتے ہیں، پس یہ اللہ کا اپنے بندے کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا ہے۔ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا یہ بھی ہے کہ جب ان سے گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں میں انابت اور تذلل الہام کر دیتا ہے، پھر وہ توبہ کو قبول کرتا ہے جس کی توفیق اس نے خود عطا کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد و ثنا ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ کامل حکمت والا ہے یہ اس کے علم ہی کا حصہ ہے کہ اس نے تمھیں اس چیز کی تعلیم دی جس کا تمھیں علم نہیں تھا۔ یہ اشیاء اور یہ حدود اسی زمرے میں آتی ہیں اور اس کی حکمت کے حصے سے یہ ہے کہ وہ اس بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جس کی توبہ قبول کرنے کا تقاضا اس کی حکمت اور رحمت کرتی ہے اور اس بندے کو چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے جس کو اپنے حال پر چھوڑ دینا اس کی حکمت اور عدل تقاضا کرتا ہے اور جو توبہ کی قبولیت کا اہل نہیں ہوتا۔
#
{27} وقوله: {والله يريدُ أن يتوبَ عليكم}؛ أي: توبةً تلمُّ شَعَثَكُم وتجمع متفرِّقكم وتقرِّب بعيدكم. {ويريد الذين يتَّبِعون الشهواتِ}؛ أي: يميلون معها حيث مالت، ويقدِّمونها على ما فيه رضا محبوبهم ويعبُدون أهواءَهم من أصناف الكَفَرَةِ والعاصينَ المقدِّمين لأهوائهم على طاعة ربهم؛ فهؤلاء يريدون {أن تميلوا ميلاً عظيماً}؛ أي: أن تنحرِفوا عن الصراط المستقيم إلى صراط المغضوب عليهم والضالين، يريدون أن يصرفوكم عن طاعة الرحمن إلى طاعة الشيطان، وعن التزام حدود مَن السعادةُ كلُّها في امتثال أوامره إلى مَن الشقاوة كلُّها في اتباعه؛ فإذا عرفتم أنَّ الله تعالى يأمرُكم بما فيه صلاحُكم وفلاحُكم وسعادتكم، وأنَّ هؤلاء المتبعين شهواتهم يأمرونكم بما فيه غايةُ الخَسَارِ والشقاء؛ فاختاروا لأنفسكم أَوْلَى الداعيين وتخيَّروا أحسن الطريقتين.
[27] ﴿وَاللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ﴾ ’’اور اللہ تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسی توبہ (رجوع) کے ساتھ تمھاری طرف توجہ کرنا چاہتا ہے جو تمھاری پراگندگی کو درست کرے، تمھارے تفرقہ کو جمعیت قلبی میں اور تمھارے بعد کو قرب میں بدل دے۔ ﴿وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ﴾ ’’اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اپنی شہوات کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ اپنے محبوب کی رضا پر ان شہوات کو ترجیح دیتے ہیں یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ کفار اور نافرمانوں کی اصناف میں سے ہیں جو اپنی خواہشات کو اپنے رب کی اطاعت پر مقدم رکھتے ہیں۔ پس یہ لوگ چاہتے ہیں ﴿اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا﴾ ’’کہ تم (کجی کی طرف) بہت زیادہ جھک جاؤ‘‘ یعنی تم صراط مستقیم سے انحراف کر کے ان لوگوں کی راہ پر چل نکلو جو مغضوب اور گمراہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اللہ رحمان کی اطاعت سے ہٹا کر شیطان کی اطاعت کی طرف پھیر دیں اور ہر قسم کی سعادت کی حدود سے نکال کر جو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں پنہاں ہے، شقاوت اور بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دیں جو کہ شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جب تم نے یہ پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمھاری اصلاح، تمھاری فلاح اور تمھاری سعادت ہے اور یہ کفار جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں تمھیں ان امور کا حکم دیتے ہیں جس میں تمھارے لیے انتہائی خسارہ اور بدبختی ہے۔ پس تم ان دونوں داعیوں میں سے صرف اسے منتخب کرو جو چنے جانے کا زیادہ مستحق ہے اور دونوں راستوں میں سے وہ راستہ اختیار کرو جو زیادہ بہتر ہے۔
#
{28} {يريدُ الله أن يخفِّفَ عنكم}؛ أي: بسهولة ما أمركم به وما نهاكم عنه، ثم مع حصول المشقة في بعض الشرائع أباح لكم ما تقتضيه حاجتكم كالميتة والدم ونحوهما للمضطر وكتزوج الأمة للحر بتلك الشروط السابقة وذلك لرحمته التامة وإحسانه الشامل وعلمه وحكمته بضعف الإنسان من جميع الوجوه، ضعف البنية وضعف الإرادة وضعف العزيمة وضعف الإيمان وضعف الصبر فناسب ذلك أن يخفف الله عنه ما يضعف عنه، وما لا يطيقه إيمانه وصبره وقوته.
[28] ﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ﴾ ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اوامر و نواہی کی آسانی کے ذریعے سے تمھارے لیے تخفیف پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پھر بعض شرعی احکام میں مشقت کے باوجود اگر حاجت تقاضا کرتی ہے تو اضطراری حالت میں مجبور شخص کے لیے انھیں مباح کر دیا ہے مثلاً مردار اور خون وغیرہ کا تناول کرنا مجبور شخص کے لیے مباح ہے۔ اسی طرح مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے۔ یہ اس کی رحمت کاملہ اور اس احسان کے سبب سے ہے جو سب کو شامل ہے اور یہ اس کی حکمت اور علم پر مبنی ہے وہ جانتا ہے کہ انسان ہر لحاظ سے کمزور ہے اس کی بنیاد ہی کمزوری پر رکھی گئی ہے، اس کا عزم و ارادہ کمزور ہے اور ایمان و صبر کمزور ہے۔ پس ان احوال میں مناسب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ ان احکام میں تخفیف کر دے جن کی بندہ اپنی کمزوری کی وجہ سے تعمیل سے قاصر ہے اس کا ایمان، صبر اور قوت جن کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔
آیت: 29 - 30 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ کھاؤ تم اپنے مال آپس میں ناحق طریقے سے مگر یہ کہ ہو تجارت رضامندی سے آپس کی اور نہ قتل کرو تم اپنے نفسوں کو، بلاشبہ اللہ ہے تمھارے ساتھ بڑا مہربان(29) اور جو کرے گا یہ (کام) زیادتی اور ظلم سے تو عنقریب داخل کریں گے ہم اس کو آگ میں اور ہے یہ اوپر اللہ کے آسان(30)
#
{29} ينهى تعالى عباده المؤمنين أن يأكلوا أموالهم بينهم بالباطل، وهذا يشمل أكلَها بالغصوب والسرقات وأخذَها بالقمار والمكاسب الرديئة، بل لعله يدخل في ذلك أكل مال نفسِك على وجه البطر والإسراف؛ لأن هذا من الباطل، وليس من الحق. ثم إنه لما حرَّم أكلها بالباطل؛ أباح لهم أكلها بالتجارات والمكاسب الخالية من الموانع المشتملة على الشروط من التراضي وغيره. {ولا تقتلوا أنفسكم}؛ أي: لا يقتل بعضكم بعضاً، ولا يقتل الإنسان نفسه، ويدخل في ذلك الإلقاء بالنفس إلى التهلكة وفعل الأخطار المفضية إلى التلف والهلاك {إنَّ الله كان بكم رحيماً}: ومن رحمته أن صان نفوسَكم وأموالكم ونهاكم عن إضاعتها وإتلافها ورتَّب على ذلك ما رتَّبه من الحدود. وتأمل هذا الإيجاز والجمع في قوله {لا تأكلوا أموالكم} {ولا تقتلوا أنفسكم}؛ كيف شمل أموال غيرك ومال نفسك وقتل نفسك وقتل غيرك بعبارة أخصر من قوله: لا يأكل بعضكم مال بعض ولا يقتل بعضكم بعضاً؛ مع قصور هذه العبارة على مال الغير ونفس الغير، مع أن إضافة الأموال والأنفس إلى عموم المؤمنين فيه دلالة على أنَّ المؤمنين في توادِّهم وتراحمهم وتعاطفهم ومصالحهم كالجسد الواحد؛ حيث كان الإيمان يجمعهم على مصالحهم الدينية والدنيوية. ولما نهى عن أكل الأموال بالباطل التي فيها غاية الضرر عليهم، على الآكل ومن أخذ ماله؛ أباح لهم ما فيه مصلحتهم من أنواع المكاسب والتجارات وأنواع الحرف والإجارات، فقال: {إلا أن تكون تجارةً عن تراضٍ منكم}؛ أي: فإنها مباحة لكم. وشَرَطَ التراضي مع كونها تجارةً لدلالة أنه يشترط أن يكون العقد غير عقد رباً، لأنَّ الربا ليس من التجارة، بل مخالفٌ لمقصودها، وأنه لا بدَّ أن يرضى كلٌّ من المتعاقدين ويأتي به اختياراً، ومن تمام الرِّضا أن يكون المعقودُ عليه معلوماً؛ لأنه إذا لم يكن كذلك؛ لا يتصوَّرُ الرِّضا، مقدوراً على تسليمه؛ لأنَّ غير المقدور عليه شبيهٌ ببيع القمار؛ فبيع الغرر بجميع أنواعه خالٍ من الرِّضا فلا ينفذ عقده. وفيها أنه تنعقد العقودُ بما دلَّ عليها من قول أو فعل؛ لأن الله شرط الرِّضا، فبأيِّ طريق حصل الرِّضا؛ انعقد به العقد. ثم ختم الآية بقوله: {إن الله كان بكم رحيماً}: ومن رحمتِهِ أن عصم دماءكم وأموالَكم، وصانَها، ونهاكُم عن انتهاكِها.
[29] اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو باہم ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا ہے اور اس میں غصب کر کے مال کھانا، چوری کے ذریعے سے مال کھانا، جوئے کے ذریعے سے مال ہتھیانا اور دیگر ناجائز اور گھٹیا طریقوں سے مال حاصل کرنا، سب شامل ہے۔ بلکہ شاید اس میں آپ کا اپنا وہ مال کھانا بھی آجاتا ہے جو آپ تکبر اور اسراف سے کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی باطل ہے، طریق حق نہیں ہے۔ پھر چونکہ اس نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا ہے اس لیے اس نے تجارت اور ایسے پیشوں کے ذریعے سے، جس میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو، اور جو باہم رضامندی اور جائز شرائط پر مشتمل ہوں، مال کمانا مباح قرار دے دیا۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور نہ کوئی شخص اپنے آپ کو قتل کرے۔ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اور ایسے خطرات مول لینا شامل ہیں جن کا نتیجہ ہلاکت اور اتلاف کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے تمھاری جان اور مال کو محفوظ کیا اور ان کو ضائع کرنے اور تلف کرنے سے منع کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی سزا تجویز کی جیسے دیگر جرائم پر حدود ہیں۔ ذرا اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ﴾ اور ﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ کے اختصار و ایجاز اور اس کی جامعیت پر غور فرمایئے کہ یہ ارشاد دوسروں کے مال اور خود اپنے مال، دوسروں کی جان اور خود اپنی جان کو شامل ہے اور ایسی عبارت کے ذریعے بیان کیا ہے جو (لَا یَاْکُلْ بَعْضُکُمْ مَالَ بَعْضٍ ) اور (لَا یَقْتُلْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا) سے زیادہ مختصر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مؤخر الذکر عبارت دوسروں کے مال اور دوسروں کے نفس کو شامل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز جان اور مال کی عمومیت کے ساتھ تمام اہل ایمان کی طرف اضافت کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان باہم محبت کرنے، باہم رحم کرنے، باہم شفقت و عاطفت سے پیش آنے میں اور اپنے مشترک مصالح میں جسد واحد کی مانند ہیں۔ کیونکہ ان کے ایمان نے ان کو دینی اور دنیاوی مصالح پر جمع کر دیا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا کیونکہ دوسروں کا مال ہتھیانا اور کھانا ان کے لیے نقصان دہ تھا۔ تب مختلف قسم کے پیشوں کو، جن میں ان کی مصلحت تھی مثلاً تجارت، صنعت و حرفت اور اجارات وغیرہ کو، ان کے لیے مباح کر دیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَكُ٘وْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ’’اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہوجائے تو وہ جائز ہے۔‘‘ یعنی تجارت تمھارے لیے مباح ہے۔ تجارت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رضامندی کی شرط اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تجارتی عقد سود پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ سود تجارت نہیں ہے بلکہ سود تجارت کے مقاصد کے خلاف ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس تجارتی عقد کے دونوں فریق برضا و رغبت اسے قبول کریں اور کامل رضا و رغبت یہ ہے کہ جس معاملے پر معاہدہ کیا گیا ہے وہ پوری طرح معلوم ہو کیونکہ اگر وہ چیز جس پر معاہدہ کیا گیا ہے پوری طرح معلوم نہ ہو گی۔ تو یہ معاہدہ تسلیم و رضامندی پر مبنی متصور نہ ہو گا کیونکہ جس چیز کا حصول انسان کی طاقت اور اختیار میں نہ ہو، جوا بازی ہے۔ اسی طرح دھوکے کی بیع اپنی تمام انواع سمیت باہمی رضامندی سے خالی ہوتی ہے اس لیے ایسا معاہدہ منعقد نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ معاہدے قول و فعل کے ذریعے سے اظہار رضامندی سے منعقد ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقد کے انعقاد کے لیے رضامندی کی شرط عائد کی ہے اور رضامندی کا اظہار جس طریقے سے بھی کیا جائے اس سے معاہدہ منعقد ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کا اختتام اس جملے پر کیا ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمھاری جان اور مال کو محفوظ و مامون کیا اورتمھیں جان و مال کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔
#
{30} ثم قال: {ومَن يفعل ذلك}؛ أي: أكل الأموال بالباطل وقتل النفوس. {عدواناً وظلماً}؛ أي: لا جهلاً ونسياناً {فسوف نصليه ناراً}؛ أي: عظيمة كما يفيده التنكير. {وكان ذلك على الله يسيراً}.
[30] ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ﴾ ’’اور جو ایسا کرے گا‘‘ یعنی باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھانا اور انسان کو ناحق قتل کرنا ﴿عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا﴾ ’’تعدی اور ظلم سے۔‘‘ یعنی لاعلمی اور بھول کر نہیں بلکہ ظلم اور تعدی سے ﴿فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا﴾ ’’تو ہم اسے آگ میں داخل کریں گے‘‘ یہ بہت بڑی آگ ہو گی جیسا کہ یہ (نَارًا) کے نکرہ ہونے سے مستفاد ہو رہا ہے ﴿ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا ﴾ ’’اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘
آیت: 31 #
{إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا (31)}.
اگر بچو گے تم ان بڑے گناہوں سے کہ روکے جاتے ہو تم ان سے تو دور کر دیں گے ہم تم سے تمھاری برائیاں اور داخل کریں گے تمھیں جگہ میں عزت کی(31)
#
{31} وهذا من فضل الله وإحسانه على عباده المؤمنين، وَعَدَهم أنهم إذا اجتنبوا كبائر المنهيَّات؛ غفر لهم جميع الذنوب والسيئات، وأدخلهم مُدخلاً كريماً كثير الخير، وهو الجنة، المشتملة على ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر. ويدخُلُ في اجتناب الكبائِر فعلُ الفرائض التي يكون تاركُها مرتكباً كبيرةً؛ كالصَّلوات الخمس والجمعة ورمضانَ؛ كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان؛ مكفراتٌ لما بينهن، ما اجتُنِبَتِ الكبائر». وأحسنُ ما حُدَّتْ به الكبائر: أنَّ الكبيرةَ ما فيه حدٌّ في الدُّنيا أو وعيدٌ في الآخرة أو نفيُ إيمان أو ترتيبُ لعنةٍ أو غضبٍ عليه.
[31] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کریں گے تو وہ ان کے تمام گناہ اور برائیاں بخش دے گا اور انھیں اچھا ٹھکانا عطا کرے گا جہاں خیر کثیر ہو گا اور وہ ہے جنت جو ایسی نعمتوں پر مشتمل ہے جو کسی آنکھ نے کبھی دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی بشر کے حاشیہ خیال میں ان کا گزر ہوا ہے۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب میں ان فرائض کا بجا لانا بھی شامل ہے جن کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ نماز پنجگانہ، نماز جمعہ، رمضان کے روزے رکھنا وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرمeنے فرمایا ’’نماز پنجگانہ، اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان کے مابین جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مٹا دیتا ہے بشرطیکہ کبائر سے بچتے رہیں۔‘‘(صحیح مسلم، الصلوٰۃ، باب الصلوات الخمس ......الخ، حديث:552) گناہ کبیرہ کی بہترین تعریف یہ ہے : گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جو دنیا میں حد کا موجب ہو یا آخرت میں اس پر سخت وعید آئی ہو یا اس کے مرتکب کے ایمان کی نفی یا اس پر لعنت کی گئی ہو یا اس گناہ پر سخت غصے کا اظہار کیا گیا ہو۔
آیت: 32 #
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (32)}.
اور نہ تمنا کرو تم اس چیز کی کہ فضیلت دی اللہ نے اس کے ساتھ بعض تمھارے کو بعض پر، مردوں کے لیے حصہ ہے اس سے جو کمایا انھوں نے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس سے جو کمایا انھوں نےاور سوال کرو تم اللہ سے اس کے فضل کا بلاشبہ اللہ ہے ساتھ ہر چیز کے خوب جاننے والا(32)
#
{32} ينهى تعالى المؤمنين عن أن يتمنَّى بعضُهم ما فضَّل الله به غيره من الأمور الممكنة وغير الممكنة؛ فلا تتمنَّى النساءُ خصائص الرجال التي بها فضَّلهم على النساء، ولا صاحب الفقر والنقص حالة الغنيِّ والكامل تمنياً مجرداً؛ لأنَّ هذا هو الحسد بعينه؛ تمني نعمة الله على غيرك أن تكونَ لك ويُسْلَبَ إياها، ولأنه يقتضي السَّخَطَ على قدر الله، والإخلاد إلى الكسل، والأماني الباطلة التي لا يقترن بها عمل ولا كسب، وإنما المحمود أمران: أن يسعى العبدُ على حسب قدرته بما ينفعه من مصالحه الدينيَّة والدنيويَّة، ويسألَ الله تعالى من فضلِهِ؛ فلا يتَّكل على نفسه ولا على غير ربِّه، ولهذا قال تعالى: {للرجال نصيبٌ مما اكتسبوا}؛ أي: من أعمالهم المنتجة للمطلوب. {وللنساء نصيبٌ مما اكتسبنَ}؛ فكل منهم لا يناله غير ما كسبه وتعب فيه. {واسألوا الله من فضله}؛ أي: من جميع مصالحكم في الدين والدنيا؛ فهذا كمال العبد وعنوانُ سعادته، لا من يترك العمل أو يتَّكِلُ على نفسه غير مفتقرٍ لربِّه أو يجمع بين الأمرين؛ فإنَّ هذا مخذولٌ خاسرٌ. وقوله: {إنَّ الله كان بكل شيءٍ عليماً}: فيعطي من يعلمُهُ أهلاً لذلك، ويمنعُ من يعلَمُهُ غير مستحقٍّ.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اس چیز کی تمنا نہ کریں جو اس نے اپنے فضل و کرم سے دوسروں کو عطا کی ہے۔ خواہ یہ ممکن امور ہوں یا غیر ممکن۔ چنانچہ عورتیں مردوں کے خصائص کی تمنا نہ کریں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ نہ صاحب فقر اور صاحب نقص، مالداری اور کاملیت کی مجرد تمنا کریں کیونکہ ایسی مجرد تمنا حسد کے زمرے میں شمار ہوتی ہے یعنی دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر اس سے اس کے سلب ہونے اور خود کو حاصل ہونے کی تمنا کرنا۔ نیز یہ تمنا اس امر کی مقتضی ہے کہ تمنا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ کاہلی اور جھوٹی تمناؤں میں گرفتار ہے جو عمل اور محنت سے عاری ہوتی ہیں۔ البتہ صرف دو امور محمود ہیں۔ (۱) بندہ اپنی استطاعت اور مقدرت بھر اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول کے لیے کوشش اور جدوجہد کرے۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرے، اپنے نفس پر بھروسہ کرے نہ اپنے رب کے سوا کسی اور پر۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلرِّؔجَالِ نَصِیْبٌ مِّؔمَّؔا اكْتَسَبُوْا ﴾ ’’مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انھوں نے کیے۔‘‘ یعنی مردوں کے نتیجہ خیز اعمال میں ان کا حصہ ہے ﴿ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّؔمَّؔا اكْتَسَبْنَ ﴾ ’’اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں‘‘ پس ان میں سے تمام لوگ وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جو انھوں نے کمایا اور جس میں انھوں نے محنت کی ﴿ وَسْـَٔؔلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ ’’اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے دین و دنیا کے تمام مصالح میں صرف اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ یہ بندۂ مؤمن کا کمال اور اس کی سعادت کا عنوان ہے۔ وہ شخص اس سے محروم ہے جو عمل کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے نفس پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب کا محتاج نہیں سمجھتا۔ یا اس میں دونوں چیزیں جمع ہیں۔ (عمل کرتا ہے نہ رب کی طرف رجوع اور اس پر اعتماد) یہ شخص خائب و خاسر اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ پس وہ صرف اسے عطا کرتا ہے جو اس کے علم میں اس کا اہل ہوتا ہے اور اسے محروم کر دیتا ہے جو اس کے علم میں غیرمستحق ہوتا ہے۔
آیت: 33 #
{وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (33)}.
اور ہر ایک کے لیے بنائے ہم نے وارث اس (مال) کے جو چھوڑا ماں باپ نے اور قریب تر رشتے داروں نےاور وہ لوگ کہ (جن سے) گرہ باندھی (عہد کیا) تمھارے دائیں ہاتھوں نے تو دو تم ان کو حصہ ان کا۔ بلاشبہ اللہ ہے اوپر ہر چیز کے گواہ(33)
#
{33} أي: {ولكلٍّ}: من الناس {جعلنا مواليَ}؛ أي: يتولَّوْنَهُ ويتولاَّهم بالتعزُّز والنُّصرة والمعاونة على الأمور، {ممَّا ترك الوالدن والأقربون}: وهذا يشملُ سائر الأقارب من الأصول والفروع والحواشي، هؤلاء الموالي من القرابة. ثم ذكر نوعاً آخر من الموالي، فقال: {والذين عَقدَت أيمانُكم}؛ أي: حالفتُموهم بما عَقَدْتُم معهم من عقد المحالفة على النُّصرة والمساعدة والاشتراك بالأموال وغير ذلك، وكل هذا من نعم الله على عباده؛ حيث كان الموالي يتعاونون بما لا يقدِرُ عليه بعضُهم مفرداً. قال تعالى: {فآتوهم نصيبَهم}؛ أي: آتوا الموالي نصيبهم الذي يجب القيام به من النُّصرة والمعاونة والمساعدة على غير معصيةِ الله والميراث للأقارب الأدْنَيْنَ من الموالي. {إنَّ الله كان على كلِّ شيءٍ شهيداً}؛ أي: مطَّلعاً على كلِّ شيءٍ بعلمه لجميع الأمور وبصرِهِ لحركات عبادِهِ وسمعه لجميع أصواتهم.
[33] ﴿ وَلِكُ٘لٍّ ﴾ ’’اور واسطے ہر ایک کے‘‘ یعنی تمام لوگوں میں سے ﴿ جَعَلْنَا مَوَالِیَ ﴾ ’’ہم نے وارث بنائے‘‘ وہ اس کی سرپرستی کرتے ہیں اور وہ بھی نصرت و حمایت اور دیگر معاملات میں معاونت کے ذریعے سے ان کی سرپرستی کرتا ہے ﴿ مِمَّؔا تَرَكَ الْوَالِدٰؔنِ وَالْاَقْ٘رَبُوْنَ ﴾ ’’اس مال کے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت دار‘‘ اس میں اصول و فروع اور حواشی کے تعلق سے تمام رشتہ دار شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ قرابت کے اعتبار سے وارث (موالی) ہیں۔ پھر سرپرستوں (موالی) کی ایک اور قسم کا ذکر کیا۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ ﴾ ’’جن سے تمھارا معاہدہ ہوا‘‘ یعنی وہ لوگ جن کے ساتھ تم باہم نصرت و حمایت کر کے، اور مال میں اشتراک کا معاہدہ کر کے ایک دوسرے کے حلیف بنے ہو۔ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے۔ سرپرست ایک دوسرے کی وہاں مدد کرتے ہیں جہاں ان میں سے تنہا آدمی کسی چیز پر قادر نہیں ہوتا۔ ﴿ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ ﴾ ’’پس ان کو ان کا حصہ دو‘‘ یعنی غیر معصیت کے امور میں اپنے سرپرستوں اور رشتہ داروں کو نصرت و معاونت اور اپنی مدد سے حصہ دو۔ مگر میراث ان لوگوں کا حق ہے جو رشتہ داروں میں سب سے زیادہ قریب ہیں ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا﴾ ’’بے شک ہر چیز اللہ کے روبرو ہے‘‘ یعنی وہ ہر چیز کی اطلاع رکھتا ہے اپنے علم کے ذریعے سے تمام امور کی، اپنی بصر کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تمام حرکات کی اور اپنی سمع کے ذریعے سے ان کی تمام آوازوں کی خبر رکھتا ہے۔
آیت: 34 #
{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (34)}.
مرد حاکم ہیں اوپر عورتوں کے بہ سبب اس کے جو فضیلت دی اللہ نے ان میں سے بعض کو اوپر بعض کےاور بہ سبب اس کے جو خرچ کرتے ہیں وہ اپنے مالوں سے۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں، حفاظت کرنے والیاں پیٹھ پیچھے ساتھ حفاظت کرنے اللہ کے۔ اور وہ عورتیں کہ ڈرتے ہو تم ان کی سرکشی سے تو نصیحت کرو تم ان کو اور الگ کر دو ان کو خواب گاہوں میں اور مارو انھیں، پھر اگر اطاعت کریں وہ تمھاری تو نہ تلاش کرو ان پر کوئی راہ (ستانے کی)۔ بلاشبہ اللہ ہے بہت بلند نہایت بڑا(34)
#
{34} يخبر تعالى أنَّ {الرجال قوامون على النساء}؛ أي: قوَّامون عليهنَّ بإلزامهنَّ بحقوق الله تعالى من المحافظة على فرائضه وكفِّهِنَّ عن المفاسد، والرجال عليهم أن يُلْزِموهنَّ بذلك، وقوَّامون عليهنَّ أيضاً بالإنفاق عليهنَّ والكسوة والمسكن. ثم ذكر السبب الموجب لقيام الرجال على النساء، فقال: {بما فضَّل الله بعضَهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم}؛ أي: بسبب فضل الرجال على النساء وإفضالهم عليهنَّ؛ فتفضيل الرجال على النساء من وجوهٍ متعدِّدة: من كون الولايات مختصَّة بالرجال، والنبوَّة، والرسالة، واختصاصهم بكثيرٍ من العبادات كالجهاد والأعياد والجمع، وبما خصَّهم الله به من العقل والرَّزانة والصَّبر والجَلَد الذي ليس للنساء مثله، وكذلك خصَّهم بالنفقات على الزوجات، بل وكثير من النفقات يختصُّ بها الرجال ويتميَّزون عن النساء، ولعل هذا سرُّ قوله: {بما أنفقوا}، وحذف المفعول؛ ليدلَّ على عموم النفقة، فعُلِمَ من هذا كلِّه أنَّ الرجل كالوالي والسيِّد لامرأتِهِ، وهي عنده عانية أسيرةٌ خادمةٌ، فوظيفتُهُ أن يقومَ بما استرعاه الله به، ووظيفتُها القيام بطاعة ربِّها وطاعة زوجها؛ فلهذا قال: {فالصالحاتُ قانتاتٌ}؛ أي: مطيعات لله تعالى، {حافظاتٌ للغيب}؛ أي: مطيعات لأزواجهنَّ حتى في الغيب، تحفظُ بعلَها بنفسها ومالِهِ، وذلك بحفظ الله لهنَّ وتوفيقه لهنَّ لا من أنفسهنَّ؛ فإنَّ النفس أمارةٌ بالسوء، ولكن من توكَّل على الله؛ كفاه ما أهمَّه من أمر دينه ودنياه. ثم قال: {واللاَّتي تخافونَ نُشوزهنَّ}؛ أي: ارتفاعهن عن طاعة أزواجهنَّ؛ بأن تعصيه بالقول أو الفعل؛ فإنه يؤدِّبها بالأسهل فالأسهل. {فعظوهنَّ}؛ أي: ببيان حكم الله في طاعة الزوج ومعصيته، والترغيب في الطاعة، والترهيب من المعصية؛ فإن انتهت؛ فذلك المطلوب، وإلاَّ؛ فيهجُرُها الزوجُ في المضجع؛ بأن لا يضاجِعَها ولا يجامِعَها بمقدار ما يحصُلُ به المقصود، وإلاَّ؛ ضربها ضرباً غير مبرِّح؛ فإن حصل المقصود بواحد من هذه الأمور وأطعنكم؛ {فلا تبغوا عليهنَّ سبيلاً}؛ أي: فقد حصل لكم ما تحبُّون؛ فاتركوا معاتبتها على الأمور الماضية والتنقيب عن العيوب التي يضرُّ ذكرُها، ويَحْدُثُ بسببه الشرُّ. {إنَّ الله كان عليًّا كبيراً}؛ أي: له العلوُّ المطلق بجميع الوجوه والاعتبارات؛ علوُّ الذات وعلوُّ القدر، وعلوُّ القهر. الكبير: الذي لا أكبر منه ولا أجلَّ ولا أعظم، كبير الذات والصفات.
[34] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے ﴿ اَلرِّؔجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾ ’’مرد عورتوں کے نگران، محافظ ہیں‘‘ یعنی مرد عورتوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کا التزام کروانے والے، ان سے ان کے فرائض کی حفاظت کروانے والے اور ان کو مفاسد سے روکنے والے ہیں۔ اور اس اعتبار سے وہ عورتوں پر قوام ہیں۔ اور مردوں پر فرض ہے کہ وہ عورتوں سے ان امور کا التزام کروائیں۔ وہ عورتوں پر اس اعتبار سے بھی قوام ہیں کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں اور انھیں لباس اور مسکن مہیا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کیا ہے جو عورتوں پر مردوں کے قوام ہونے کا موجب ہے، فرمایا ﴿ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ﴾ ’’اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اس سبب سے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے نیز اس سبب سے کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں۔ پس مردوں کی عورتوں پر فضیلت کی متعدد وجوہات ہیں۔ (۱) تمام بڑے بڑے منصب مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، نبوت، رسالت، اور بہت سی عبادات مثلاً جہاد، عیدین اور جمعات وغیرہ میں مردوں کو اختصاص حاصل ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے مردوں کو وافر عقل، وقار، صبر اور وہ جفاکشی عطا کی ہے جو عورتوں میں نہیں پائی جاتی۔ (۳) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اپنی بیویوں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری عطا کی ہے بلکہ بہت سے اخراجات ایسے ہیں جو صرف مردوں سے مختص ہیں اور اس اعتبار سے عورتوں سے ممتاز ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا ﴾ ’’اور اس لیے بھی کہ وہ (مرد) خرچ کرتے ہیں۔‘‘ کا یہی سر نہاں ہے یہاں جملے میں مفعول کو حذف کرنا، عمومی نان و نفقہ اور اخراجات کی دلیل ہے۔ ان تمام توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت کے آقا اور والی کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت اپنے شوہر کے پاس ایک اسیر کی مانند ہے۔ پس مرد کی ذمہ داری اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور کا انتظام کرے جن کی رعایت رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور عورت کی ذمہ داری اور اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے رب اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَالصّٰؔلِحٰؔتُ قٰنِتٰؔتٌ ﴾ ’’تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مطیع ہوتی ہیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ کی اطاعت کرنے والی ہیں ﴿ حٰؔفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ﴾ یعنی وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے والی ہیں حتیٰ کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کی اطاعت کرتی ہیں۔ اپنی عفت کی حفاظت کے ذریعے سے اپنے شوہر کی اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی توفیق سے ہے ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں، کیونکہ نفس تو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے مگر جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رنج میں ڈالنے والے دینی اور دنیاوی امور میں اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ پھر فرمایا ﴿ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ ﴾ ’’اور وہ عورتیں، جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو‘‘ یعنی ان کا اطاعت سے باہر نکلنا، قول و فعل کے ذریعے سے اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا۔ اس صورت میں شوہر آسان سے آسان طریقے سے اس کی تادیب کرے ﴿ فَعِظُوْهُنَّ ﴾ ’’ان کو نصیحت کرو۔‘‘ یعنی شوہر کی اطاعت، اور اس کی نافرمانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کر کے ان کو نصیحت کرو۔ شوہر کی اطاعت کی ترغیب دو اور اس کی نافرمانی سے ڈراؤ۔ اگر وہ نافرمانی سے باز آ جائیں تو یہی چیز مطلوب ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلیں تو شوہر اسے اس کے بستر پر تنہا چھوڑ دے، اس کے بستر پر سوئے نہ اس کے ساتھ مجامعت کرے۔ یہ سزا بس اسی قدر ہو جس سے مقصد حاصل ہو جائے۔ اگر پھر بھی نافرمانی ترک نہ کرے تو شوہر اس کو ایسی مار مارے جو نقصان دہ نہ ہو۔ اگر ان مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے سے مقصد حاصل ہو جائے اور وہ تمھاری اطاعت کرنے لگ جائیں ﴿ فَلَا تَبْغُوْا عَ٘لَ٘یْهِنَّ سَبِیْلًا ﴾ ’’تو نہ ڈھونڈو ان پر کوئی راہ‘‘ پس جو مقصد تم حاصل کرنا چاہتے تھے تمھیں حاصل ہو گیا، اس لیے اب تم گزشتہ معاملات میں ان پر عتاب کرنا اور ان کو کریدنا چھوڑ دو جن کے ذکر سے نقصان پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے شر پیدا ہوتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّؔا كَبِیْرًا ﴾ ’’بے شک اللہ سب سے اعلیٰ، جلیل القدر ہے۔‘‘ ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ علو مطلق (مطلق بلندی) کا مالک ہے۔ اس کی ذات بلند ہے، وہ قدرت کے اعتبار سے بلند ہے اور وہ قہر اور غلبہ کے اعتبار سے بھی بلند ہے۔ وہ بڑا ہے جس سے کوئی بڑا نہیں اس سے زیادہ جلیل اور اس سے زیادہ عظیم کوئی ہستی نہیں، وہ اپنی ذات میں اور صفات میں بڑا ہے۔
آیت: 35 #
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (35)}.
اور اگر ڈرو تم اختلاف سے درمیان ان دونوں کے تو مقرر کر دو ایک منصف مرد کے کنبے سے اور ایک منصف عورت کے کنبے سے۔ اگر چاہیں گے یہ دونوں (منصف) صلح کروانا تو موافقت پیدا کر دے گا اللہ ان دونوں کے درمیان، بے شک اللہ ہے جاننے والا خبردار(35)
#
{35} أي: وإن خفتم الشقاق بين الزوجين والمباعدة والمجانبة حتى يكون كل منهما في شقٍّ؛ {فابعثوا حكماً من أهله وحكماً من أهلها}؛ أي: رجلينِ مكلَّفينِ مسلمينِ عدلينِ عاقلينِ، يعرفان ما بين الزوجين، ويعرفان الجمع والتفريق، وهذا مستفادٌ من لفظ الحكم؛ لأنه لا يصلح حَكماً إلاَّ من اتَّصف بتلك الصفات، فينظران ما يَنْقُمُ كلٌّ منهما على صاحبه، ثم يُلْزِمان كلاًّ منهما ما يجب؛ فإن لم يستطع أحدهما ذلك؛ قنَّعا الزوج الآخر بالرِّضا بما تيسَّر من الرزق والخلق، ومهما أمكنهما الجمع والإصلاح؛ فلا يعدِلا عنه؛ فإن وصلت الحال إلى أنه لا يمكنُ اجتماعهما وإصلاحهما إلا على وجه المعاداة والمقاطعة ومعصية الله، ورأيا أنَّ التفريق بينهما أصلح؛ فرَّقا بينهما، ولا يُشْتَرَطُ رضا الزوج كما يدلُّ عليه أن الله سماهما الحكمين، والحكمُ يَحْكُمُ، وإن لم يرضَ المحكوم عليه، ولهذا قال: {إن يُريدا إصلاحاً يُوفِّقِ اللهُ بينَهما}؛ أي: بسبب الرأي الميمون والكلام الذي يجذِبُ القلوبَ ويؤلِّف بين القرينين. {إنَّ الله كان عليماً خبيراً}؛ أي: عالماً بجميع الظواهر والبواطن، مطلعاً على خفايا الأمور وأسرارها؛ فمن علمِهِ وخبرِهِ أن شرع لكم هذه الأحكام الجليلة والشرائع الجميلة.
[35] یعنی اگر تمھیں میاں بیوی کے مابین مخالفت، دوری اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کا خوف ہو، حتی کہ ان میں سے ہر ایک، ایک کنارے پر ہو (یعنی اختلاف و نفرت کی انتہا پر ہو) ﴿ فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا ﴾ ’’تو ایک منصف مرد والوں میں سے اورایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو‘‘ یعنی دو مکلف، مسلمان، عادل اور عاقل مردوں کو ثالث بنا لو جو میاں بیوی کے مابین تمام معاملات کو جانتے ہوں اور وہ جمع اور تفرقہ کو بھی جانتے ہوں۔ مذکورہ تمام صفات لفظ حَکَم سے مستفاد ہیں کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک حَکَم (منصف) بننے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان صفات کا حامل نہ ہو۔ وہ دونوں حَکَم (منصف) ان شکایات پر غور کریں جو وہ ایک دوسرے کے خلاف رکھتے ہوں، پھر دونوں حکم، میاں بیوی کی جو ذمہ داری بنتی ہے دونوں سے اس کا التزام کروائیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر رہے تو دونوں حکم دوسرے فریق کو، رزق اور خلق میں جو کچھ میسر ہے، اس پر راضی رہنے پر آمادہ کریں۔ میاں بیوی کے درمیان معاملات کی اصلاح کرنے اور ان کو اکٹھا رکھنے کے لیے جو طریقہ بھی ممکن ہو، ثالث اس کے استعمال سے گریز نہ کریں۔ اگر صورتحال یہاں تک پہنچ جائے کہ ان دونوں کے درمیان اصلاح اور ان کا اکٹھا رہنا ممکن نہ ہو بلکہ اس سے دشمنی، قطع تعلق اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اضافہ ہوتا ہو اور دونوں حکم یہ رائے رکھتے ہوں کہ ان میں علیحدگی دونوں کے لیے بہتر ہے، تو دونوں میں تفریق کروا دیں۔ دونوں کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ شوہر کی رضامندی سے مشروط نہیں ہے جیسا کہ یہ معنی دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ثالثوں کو ’’حکم‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حکم وہ ہوتا ہے جو فیصلہ کرے خواہ اس کے فیصلے پر محکوم علیہ راضی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَؔفِّ٘قِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا ﴾ ’’اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرا دیں تو اللہ ان کے درمیان موافقت کر دے گا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ مبارک رائے اور فریقین کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے والے دلکش کلام کے ذریعے سے ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے باخبر ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمام ظاہر و باطن کو جاننے والا اور تمام خفیہ امور اور تمام بھیدوں کی اطلاع رکھنے والا ہے۔ یہ اس کا علم اور اس کی خبر ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے یہ جلیل القدر احکام اور خوبصورت قوانین مشروع فرمائے۔
آیت: 36 - 38 #
{وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (36) الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (37) وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (38)}.
اور عبادت کرو تم اللہ کی اور نہ شریک ٹھہراؤ اس کے ساتھ کسی چیز کو اور (کرو) ماں باپ کے ساتھ احسان اور رشتے داروں کے ساتھ اور یتیموں (کے ساتھ) اور مسکینوں (کے ساتھ) اور پڑوسی قرابت دار اور پڑوسی اجنبی (کے ساتھ) اور ہم نشیں (کے ساتھ) اور مسافر کے ساتھ اور (ان کے ساتھ) جن کے مالک ہوئے تمھارے دائیں ہاتھ، بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا اس شخص کو جو ہے اترانے والا فخر کرنے والا(36) وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بخل کرنے کا اور چھپاتے ہیں وہ جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور تیار کیا ہم نے کافروں کے لیے عذاب رسوا کرنے والا(37) اور وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں مال اپنے دکھلاوے کے لیے لوگوں کو اور نہیں ایمان لاتے وہ ساتھ اللہ کے اور نہ ساتھ یوم آخرت کے اور جو شخص کہ ہو شیطان اس کا ہم نشیں تو برا ہے وہ ہم نشیں(38)
#
{36 ـ 37} يأمر تعالى عباده بعبادتِهِ وحدَه لا شريك له، وهو الدخول تحت رقِّ عبوديَّتِهِ والانقياد لأوامره ونواهيه محبةً وذلًّا وإخلاصاً له في جميع العبادات الظاهرة والباطنة، وينهى عن الشرك به شيئاً، لا شركاً أصغر، ولا أكبر، لا مَلَكاً، ولا نبيًّا، ولا وليًّا، ولا غيرهم من المخلوقين الذين لا يملِكون لأنفسهم نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً، بل الواجبُ المتعيِّن إخلاصُ العبادة لمن له الكمالُ المطلق من جميع الوجوه، وله التدبير الكامل الذي لا يَشْرَكُه ولا يعينُهُ عليه أحدٌ. ثم بعد ما أمر بعبادتِهِ والقيام بحقِّه أمر بالقيام بحقوق العبادِ الأقرب فالأقرب، فقال: {وبالوالدين إحساناً}؛ أي: أحسنوا إليهم بالقول الكريم والخطاب اللطيف والفعل الجميل، بطاعةِ أمرِهما واجتنابِ نهيِهِما، والإنفاق عليهما، وإكرام من له تعلُّق بهما، وصلة الرحم التي لا رحمَ لك إلاَّ بهما. وللإحسان ضدَّانِ الإساءةُ وعدمُ الإحسان، وكلاهما منهيٌّ عنه. {وبذي القربى} أيضاً إحساناً، ويشمل ذلك جميع الأقارب، قَرُبوا أو بَعُدوا، بأن يُحْسِنَ إليهم بالقول والفعل، وأنْ لا يقطعَ برحمه بقولِهِ أو فعلِهِ. {واليتامى}؛ أي: الذين فُقِدَ آباؤهم وهم صغارٌ، فلهم حقٌّ على المسلمين، سواءٌ كانوا أقارب أو غيرهم، بكفالتهم وبِرِّهم وجبرِ خواطرِهم وتأديبِهم وتربيتهم أحسن تربية في مصالح دينهم ودنياهم. {والمساكين}: وهم الذين أسكنتهم الحاجةُ والفقرُ، فلم يحصُلوا على كفايتهم ولا كفاية من يمونون، فأمر الله تعالى بالإحسان إليهم بسدِّ خلَّتهم وبدفع فاقتهم والحضِّ على ذلك والقيام بما يمكن منه. {والجار ذي القربى}؛ أي: الجار القريب الذي له حقَّان؛ حقُّ الجوار وحقُّ القرابة؛ فله على جارِهِ حقٌّ وإحسانٌ راجعٌ إلى العرف. وكذلك {الجار الجُنُب}؛ أي: الذي ليس له قرابةٌ، وكلَّما كان الجارُ أقربَ باباً؛ كان آكد حقًّا، فينبغي للجار أن يتعاهدَ جارَه بالهدية والصدقة والدعوة واللطافة بالأقوال والأفعال وعدم أذيَّتِهِ بقول أو فعل. {والصاحب بالجنب}: قيل: الرفيقُ في السفر، وقيل: الزوجة، وقيل: الصاحب مطلقاً، ولعله أولى؛ فإنه يَشْمَلُ الصاحبَ في الحضر والسفر ويَشْمَلُ الزوجةَ؛ فعلى الصاحب لصاحبه حقٌّ زائد على مجرَّد إسلامه، من مساعدته على أمور دينه ودنياه، والنصح له، والوفاء معه في اليسر والعسر والمنشط والمكره، وأن يحبَّ له ما يحبُّ لنفسه، ويكره له مايكره لنفسه، وكلَّما زادت الصحبة؛ تأكد الحق وزاد. {وابن السبيل}: وهو الغريب الذي احتاج في بلد الغربة أو لم يحتج؛ فله حقٌّ على المسلمين لشدَّة حاجتِهِ وكونِهِ في غير وطنه بتبليغه إلى مقصوده أو بعض مقصوده وبإكرامه وتأنيسه. {وما ملكت أيمانكم}؛ أي: من الآدميين والبهائم، بالقيام بكفايتهم وعدم تحميلهم ما يشقُّ عليهم، وإعانتُهم على ما تحمَّلوه وتأديبهم لما فيه مصلحتُهم؛ فَمَنْ قام بهذه المأمورات؛ فهو الخاضع لربه، المتواضع لعباد الله، المنقاد لأمر الله وشرعه، الذي يستحقُّ الثواب الجزيل والثناء الجميل، ومن لم يقم بذلك؛ فإنه عبد معرِضٌ عن ربه، غير منقاد لأوامره، ولا متواضع للخلق، بل هو متكبِّر على عباد الله، معجبٌ بنفسه، فخورٌ بقوله. ولهذا قال: {إنَّ الله لا يحبُّ من كان مختالاً}؛ أي: معجَباً بنفسه متكبراً على الخلق، {فخوراً}؛ يثني على نفسه ويمدحُها على وجه الفخر والبطرِ على عباد الله؛ فهؤلاء ما بهم من الاختيال والفخر يمنعُهم من القيام بالحقوق، ولهذا ذمَّهم بقوله: {الذين يبخلون}؛ أي: يمنعون ما عليهم من الحقوق الواجبة، {ويأمرون الناس بالبُخل}: بأقوالهم وأفعالهم، {ويكتُمون ما آتاهمُ الله من فضلِهِ}؛ أي: من العلم الذي يهتدي به الضالون ويسترشِدُ به الجاهلون، فيكتُمونه عنهم، ويُظْهِرون لهم من الباطل ما يَحولُ بينَهم وبين الحقِّ، فجمعوا بين البخل بالمال والبخل بالعلم وبين السعي في خسارة أنفسهم وخسارة غيرهم، وهذه هي صفات الكافرين؛ فلهذا قال تعالى: {وأعتَدْنا للكافرين عذاباً مهيناً}؛ أي: كما تكبَّروا على عباد الله، ومنعوا حقوقه، وتسبَّبوا في منع غيرِهم من البخل وعدم الاهتداء؛ أهانهم بالعذاب الأليم والخزي الدائم؛ فعياذاً بك اللهمَّ من كلِّ سوء.
[37,36] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ وہ واحد اور لا شریک ہے۔ یہ درحقیقت اس کی عبودیت کے دائرے میں داخل ہونے، محبت، تذلل اور ظاہری اور باطنی تمام عبادات میں اخلاص کے ساتھ اس کے تمام اوامر و نواہی کی تعمیل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک اصغر اور شرک اکبر ہر قسم کے شرک سے روکتا ہے۔ کسی فرشتہ، کسی نبی، ولی یا دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے سے منع کرتا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان، موت وحیات اور دوبارہ اٹھانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص واجب ہے۔ جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے۔ وہ کائنات کی پوری تدبیر کر رہا ہے جس میں اس کا کوئی شریک ہے نہ معاون اور مددگار۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے قیام کا حکم دینے کے بعد حقوق العباد کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے (حقوق العباد کے مراتب میں اصول یہ قائم فرمایا ہے) جو سب سے زیادہ قریب ہے اس کے سب سے زیادہ حقوق ہیں۔ فرمایا: ﴿ وَّبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ ’’ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘ یعنی ان کے ساتھ احسان کرو ان سے اچھی گفتگو، ان کے ساتھ تخاطب میں نرمی اور فعل جمیل کر کے ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے ممنوعہ امور سے اجتناب اور ان کی ضروریات پر خرچ کر کے، ان کے دوستوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کر کے اور ان رشتے داریوں کو قائم اور ان کے حقوق ادا کر کے، جن سے صرف والدین کی وجہ سے رشتے داری ہے۔ احسان (یعنی حسن سلوک) کی دو اضداد ہیں، برا سلوک اور عدم احسان (حسن سلوک نہ کرنا) اور ان دونوں سے روکا گیا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَّبِذِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ ’’او رقرابت والوں کے ساتھ۔‘‘ یعنی دیگر اقرباء کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔یہ آیت کریمہ تمام اقارب کو شامل ہے۔ خواہ وہ زیادہ قریبی ہوں یا قدرے دور کے رشتہ دار ہوں۔ ان کے ساتھ قول و فعل کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آئے اور اپنے قول و فعل سے ان کے ساتھ قطع رحمی نہ کرے۔ ﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى ﴾ ’’اور یتیموں کے ساتھ‘‘ یعنی وہ چھوٹے بچے جو اپنے باپ سے محروم ہو گئے ہوں تمام مسلمانوں پر ان کا حق ہے۔۔۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔۔۔ کہ وہ ان کی کفالت کریں ان کے ساتھ نیک سلوک کریں، ان کی دلجوئی کریں، ان کو ادب سکھائیں اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں ان کی بہترین تربیت کریں۔ ﴿ وَالْمَسٰكِیْنِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جن کو فقر و حاجت نے بے حرکت اور عاجز کر دیا ہو ،جنھیں اتنی ضروریات زندگی حاصل نہ ہوں جو ان کو کفایت کر سکیں اور نہ ان کو جن کے یہ کفیل ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ان کا فقر و فاقہ دور کیا جائے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے اور حتی الامکان ان امور کا انتظام کیا جائے۔ ﴿ وَالْجَارِ ذِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ ’’اور رشتہ دار ہمسایوں کے ساتھ‘‘ یعنی رشتہ دار پڑوسی، اس کے دو حقوق ہیں۔ پڑوس کا حق اور قرابت کا حق۔ پس وہ اپنے پڑوسی پر حق رکھتا ہے اور اس کے حسن سلوک کا مستحق ہے۔ یہ سب عرف کی طرف راجع ہے۔ اسی طرح ﴿ وَالْجَارِ الْجُنُبِ ﴾ ’’اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ۔‘‘ یعنی وہ پڑوسی جو قریبی نہ ہو۔ پڑوسی کا دروازہ جتنا زیادہ قریب ہو گا اس کا حق اتنا ہی زیادہ مؤکد ہو گا۔ پڑوسی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہدیہ اور صدقہ دیتا رہے، اس کو دعوت پر بلاتا رہے اور اقوال و افعال میں نرمی اور ملاطفت سے پیش آیا کرے اور قول و فعل سے اس کو اذیت دینے سے باز رہے۔ ﴿ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ ﴾ ’’پہلو کے ساتھی سے حسن سلوک کرو‘‘ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد شریک سفر ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے اور بعض اہل علم اس کا اطلاق مطلق ساتھی پر کرتے ہیں اور یہی زیادہ قرین صحت ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اس کو شامل ہے جو سفر و حضر میں ساتھ رہے اور یہ لفظ بیوی کو بھی شامل ہے۔ ساتھی پر ساتھی کا حق ہے جو اس کے مجرد اسلام سے زائد ہے یعنی دینی اور دنیاوی امور میں اس کی مدد کرنا، اس کی خیر خواہی کرنا، آسانی اور تنگی، خوشی اور غمی میں اس کے ساتھ وفا کرنا۔ جو اپنے لیے پسند کرنا اس کے لیے بھی وہی پسند کرنا، اور جو اپنے لیے ناپسند کرنا وہ اس کے لیے بھی ناپسند کرنا، صحبت جتنی زیادہ ہو گی، یہ حق اتنا ہی زیادہ، اور مؤکد ہو گا۔ ﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ وہ غریب الوطن شخص جو دور اجنبی شہر میں ہو، وہ خواہ محتاج ہویا نہ ہو، اس کی شدت احتیاج اور وطن سے دور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے نہایت انس و اکرام کے ساتھ اس کے مقصد تک پہنچائیں۔ ﴿ وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ﴾ ’’اور جن کے تمھارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے‘‘ یعنی آپ کی ملکیت میں آدمی ہوں یا بہائم ان کی ضروریات کا انتظام رکھنا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا، بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد کرنا ان کی مصلحت اور بھلائی کی خاطر ان کی تادیب کرنا ان کا آپ پر حق ہے۔ پس جو ان احکامات کی تعمیل کرتا ہے وہ اپنے رب کے سامنے جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آنے والا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کی شریعت کی پیروی کرتا ہے۔ یہی شخص ثواب جزیل (بہت زیادہ ثواب) اور ثنائے جمیل کا مستحق ہے اور جو ان احکامات پر عمل نہیں کرتا وہ اپنے رب سے روگردان، اس کے اوامر کا نافرمان اور مخلوق کے لیے غیر متواضع ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والا ، خود پسند اور بے حد فخر کرنے والا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا ﴾ ’’یقینا اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ خود پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ تکبر سے پیش آتا ہے ﴿ فَخُوْرَاِۨ ﴾ ’’اپنی بڑائی بیان کرنے والا ہے‘‘ وہ لوگوں کے سامنے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ اپنی تعریفیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا فخر اور تکبر ان حقوق کو ادا کرنے سے مانع رہتا ہے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ ﴾ ’’جو لوگ بخل کرتے ہیں‘‘ یعنی جو حقوق واجب ہیں ان کو ادا نہیں کرتے ﴿ وَیَ٘اْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ ’’اور وہ لوگوں کو بخیلی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں ﴿وَیَكْ٘تُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ ’’اور جو (مال) اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو علم عطا کیا جس کے ذریعے سے گمراہ راہ پاتے ہیں اور جاہل رشد و ہدایت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس علم کو ان لوگوں سے چھپاتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کا اظہار کرتے ہیں، اس طرح وہ مخلوق اور حق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ پس انھوں نے مالی بخل اور علمی بخل کو یکجا کر دیا اور اپنے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ اور دوسروں کے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ کو جمع کر دیا۔ یہ کفار کی صفات ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَعْتَدْنَا لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا﴾ ’’اور ہم نے کفار کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر کے ساتھ پیش آئے، اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنے سے انکار کیا اور اپنے بخل اور بے راہ روی کی وجہ سے دوسروں کو محروم کرنے کا باعث بنے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو دردناک عذاب اور دائمی رسوائی کے ذریعے سے رسوا کیا۔ اے اللہ! ہر برائی سے ہم تیری پناہ کے طلبگار ہیں۔
#
{38} ثم أخبر عن النفقة الصادرة عن رياءٍ وسُمْعَة وعدم إيمان به، فقال: {والذين ينفقون أموالهم رئاء الناس}؛ أي: ليروهم ويمدحوهم ويعظموهم. {ولا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخِرِ}؛ أي: ليس إنفاقهم صادراً عن إخلاص وإيمان بالله ورجاء ثوابه؛ أي: فهذا من خطوات الشيطان وأعماله، التي يدعو حزبه إليها ليكونوا من أصحاب السعير، وصدرت منهم بسبب مقارنته لهم وأزِّهم إليها؛ فلهذا قال: {ومن يَكُنِ الشيطانُ له قريناً فساءَ قريناً}؛ أي: بئس المقارن والصاحب الذي يريد إهلاك مَن قارنه ويسعى فيه أشدَّ السعي؛ فكما أن مَن بخل بما آتاه الله وكَتَمَ ما منَّ به الله عليه عاصٍ آثمٌ مخالفٌ لربِّه؛ فكذلك من أنفق وتعبَّد لغير الله؛ فإنه آثم عاصٍ لربِّه مستوجبٌ للعقوبة؛ لأن الله إنما أمر بطاعتِهِ وامتثال أمره على وجه الإخلاص؛ كما قال تعالى: {وما أُمِروا إلا ليعبدوا الله مُخلصينَ له الدِّين}؛ فهذا العمل المقبول الذي يستحقُّ صاحبُهُ المدح والثواب؛ فلهذا حثَّ تعالى عليه بقوله:
[38] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مال کے بارے میں خبر دی ہے جو محض دکھاوے اور شہرت کی خاطر اور اللہ تعالیٰ پر عدم ایمان کی بنا پر خرچ کیا جاتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَؔ النَّاسِ ﴾ ’’جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ تاکہ لوگ انھیں دیکھیں، ان کی مدح و ثنا کریں اور ان کی تعظیم کریں ﴿ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے‘‘ یعنی ان کا مال، اخلاص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور ثواب کی امید پر خرچ نہیں ہوتا۔ یعنی یہ سب کچھ درحقیقت شیطان کا نقش قدم اور اس کے اعمال ہیں جن کی طرف وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنمیوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ اعمال شیطان کی دوستی اور شیطان کی انگیخت پر ان سے سرزد ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔكُ٘نِ الشَّ٘یْطٰ٘نُ لَهٗ قَ٘رِیْنًا فَسَآءَؔ قَ٘رِیْنًا ﴾ ’’اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے‘‘ بدترین ہے وہ مصاحب اور ساتھی جو اپنے ساتھی کی ہلاکت چاہتا ہے اور اسے ہلاک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص اس نعمت میں بخل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر کیا ہے۔ وہ نافرمان، گناہ گار اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت کا مرتکب ہے، اسی طرح وہ شخص بھی گناہ گار، اپنے رب کا نافرمان اور سزا کا مستحق ہے جو غیر اللہ کی عبادت کے لیے خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے حکم پر عمل کیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ (البینۃ 98؍5) ’’ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کریں۔‘‘ یہی وہ عمل ہے جو اللہ کے ہاں قابل قبول ہے اور اس عمل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے والا مدح و ثواب کا مستحق ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ایسے عمل کی ترغیب دینے کے لیے فرمایا:
آیت: 39 #
{وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا (39)}.
اور کیا ہوتا (نقصان) ان کا، اگر ایمان لے آتے وہ ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے اور خرچ کرتے وہ اس (مال) سے جو دیا ان کو اللہ نے؟ اور ہے اللہ ساتھ ان کے خوب جاننے والا(39)
#
{39} أي: أيُّ شيء عليهم وأيُّ حرج ومشَّقة تلحقُهم لو حَصَلَ منهم الإيمانُ بالله الذي هو الإخلاص وأنفقوا من أموالِهِم التي رَزَقَهم الله وأنعم بها عليهم، فجمعوا بين الإخلاص والإنفاق، ولما كان الإخلاص سرًّا بين العبد وبين ربِّه لا يطَّلع عليه إلا الله؛ أخبر تعالى بعلمِهِ بجميع الأحوال، فقال: {وكان الله بهم عليماً}.
[39] یعنی ان کے لیے کون سا حرج اور ان پر کون سی مشقت ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں، جو کہ سراسر اخلاص ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں وہ مال خرچ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے اور جس مال سے ان کو نوازا ہے۔ تب اس صورت میں وہ اخلاص اور انفاق کو جمع کریں گے۔ چونکہ اخلاص ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک سر نہاں ہے جس کی اطلاع صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ بندے کے تمام احوال کو جانتا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا ﴾ ’’اللہ ان سب کو خوب جانتا ہے۔‘‘
آیت: 40 - 42 #
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا (40) فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (41) يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا (42)}.
بلاشبہ اللہ نہیں ظلم کرتا برابر ایک ذرے کےاور اگر ہو کوئی نیکی تو دگنا کر دے گا اس کو اور دے گا اپنی طرف سے اجر بہت بڑا(40) پس کیا حال ہوگا جب لائیں گے ہم ہر امت سے ایک گواہ اور لائیں گے ہم آپ کو (اے رسول!) ان پر گواہ(41) اس دن چاہیں گے وہ لوگ، جنھوں نے کفر کیا اور نافرمانی کی انھوں نے رسول کی کاش کہ برابر کر دی جائے ساتھ ان کے زمین اور نہ چھپا سکیں گے وہ اللہ سے کوئی بات(42)
#
{40} يخبر تعالى عن كمال عدلِهِ وفضله وتنزُّهه عما يضادُّ ذلك من الظلم القليل والكثير، فقال: {إنَّ الله لا يظلم مثقالَ ذرَّة}؛ أي: يَنْقُصُها من حسنات عبده أو يزيدُها في سيئاتِهِ؛ كما قال تعالى: {فَمَن يعمل مثقالَ ذَرَّةٍ خيراً يَرَه. ومَن يعمل مثقالَ ذرَّة شرًّا يَرَه}. {وإن تكُ حسنةً يضاعِفْها}؛ أي: إلى عشرة أمثالها، إلى أكثر من ذلك، بحسب حالها ونفعها وحال صاحبها إخلاصاً ومحبةً وكمالاً. {ويؤتِ من لَدُنْهُ أجراً عظيماً}؛ أي: زيادة على ثواب العمل بنفسه من التوفيق لأعمال أُخَرَ وإعطاء البرِّ الكثير والخير الغزير.
[40] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کامل عدل و فضل کے بارے میں خبر دیتا اور آگاہ فرماتا ہے کہ وہ عدل کے متضاد صفات، یعنی ظلم سے۔ خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر۔ پاک ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ﴾ ’’اللہ کسی کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کرتا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نیکیوں میں ذرہ بھر کمی کرے گا نہ اس کی برائیوں میں ذرہ بھر اضافہ کرے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ۰۰۷ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال : 99؍7۔8) ’’جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ ﴿ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا ﴾ ’’اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے‘‘ یعنی وہ اس نیکی کو دس گنا یا اس کے حسب حال، اس کے نفع کے مطابق اور نیکی کرنے والے کے اخلاص، محبت اور کمال کے مطابق اس سے بھی کئی گنا زیادہ کر دے گا ﴿ وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے‘‘ یعنی وہ عمل کے ثواب سے زیادہ عطا کرے گا۔ مثلاً وہ اسے دیگر اعمال کی توفیق سے نوازے گا، بہت سی نیکی اور خیر کثیر عطا کرے گا۔
#
{41} ثم قال تعالى: {فكيف إذا جِئْنا من كلِّ أُمةٍ بشهيدٍ وجئنا بك على هؤلاء شهيداً}؛ أي: كيف تكون تلك الأحوالُ؟ وكيف يكونُ ذلك الحكم العظيم الذي جَمَعَ أنَّ مَن حكم به كامل العلم كامل العدل كامل الحكمةِ بشهادة أزكى الخلق وهُم الرسلُ على أُممِهِم مع إقرار المحكوم عليه؟ فهذا والله الحكم الذي هو أعمُّ الأحكام وأعدلها وأعظمها، وهناك يبقى المحكومُ عليهم مقرِّين له. بكمال الفضل والعدل والحمد والثناء، وهنالك يسعد أقوامٌ بالفوز والفلاح والعزِّ والنجاح ويشقى أقوام بالخِزْي والفضيحة والعذاب المُهين.
[41] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَكَـیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُ٘لِّ اُمَّؔةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا﴾ ’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے‘‘ وہ کیسے حالات ہوں گے اور وہ عظیم فیصلہ کیسا ہو گا۔ جو اس حقیقت پر مشتمل ہو گا کہ فیصلہ کرنے والا کامل علم، کامل عدل اور کامل حکمت کا مالک ہے اور وہ مخلوق میں سب سے زیادہ سچی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ یہ شہادت انبیاء ومرسلین کی شہادت ہے جو وہ اپنی امتوں کے خلاف دیں گے اور جن کے خلاف فیصلہ ہو گا وہ بھی اس کا اقرار کریں گے۔ اللہ کی قسم یہ وہ فیصلہ ہے جو تمام فیصلوں میں سب سے زیادہ عام، سب سے زیادہ عادل اور سب سے عظیم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جن کے خلاف فیصلہ ہو گا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے کمال فضل، عدل و انصاف اور حمدوثناء کا اقرار کرتے رہ جائیں گے۔ وہاں کچھ لوگ فوز و فلاح، عزت اور کامیابی کی سعادت سے بہرہ ور ہوں گے اور کچھ فضیحت و رسوائی اور عذاب مہین کی بدبختی میں گرفتار ہوں گے۔
#
{42} ولهذا قال: {يومئذٍ يَوَدُّ الذين كفروا وعَصَوُا الرسولَ}؛ أي: جمعوا بين الكفر بالله وبرسوله ومعصية الرسول، {لو تُسَوَّى بهم الأرض}؛ أي: تبتلعهم ويكونون تراباً وعدماً؛ كما قال تعالى: {ويقولُ الكافرُ يا ليتني كنتُ تُراباً}. {ولا يكتمونَ اللهَ حديثاً}؛ أي: بل يقرُّون له بما عَمِلوا وتشهدُ عليهم ألسنتُهم وأيديهم وأرجُلُهم بما كانوا يعملونَ، يومئذٍ يوفِّيهم الله دينَهم، جزاءَهم الحقَّ، ويعلمون أنَّ الله هو الحقُّ المبينُ. فأما ما ورد من أنَّ الكفار يكتُمون كفرَهم وجحودَهم؛ فإنَّ ذلك يكون في بعض مواضع القيامةِ حين يظنُّون أن جحودَهم ينفعُهم من عذابِ الله؛ فإذا عرفوا الحقائقَ وشهِدَتْ عليهم جوارِحُهم، حينئذٍ ينجلي الأمر، ولا يبقى للكتمان موضعٌ ولا نفعٌ ولا فائدةٌ.
[42] بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ ﴾ ’’جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے‘‘ یعنی ان میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار اور رسول کی نافرمانی اکٹھے ہو گئے ہیں ﴿ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ ﴾ ’’کہ کاش انھیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا‘‘ یعنی وہ خواہش کریں گے کہ کاش زمین انھیں نگل لے اور وہ مٹی ہو کر معدوم ہو جائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَیَقُوْلُ الْ٘كٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْؔ كُنْتُ تُرٰبً٘ا﴾ (النباء : 78؍40) ’’اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہوتا۔‘‘ ﴿ وَلَا یَكْ٘تُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا﴾ ’’اور وہ نہیں چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات‘‘ بلکہ وہ اپنی بداعمالیوں کا اعتراف کریں گے ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس روز اللہ تعالیٰ انھیں پوری پوری جزا دے گا۔ یعنی ان کی جزائے حق۔ اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور کھلا کھلا بیان کر دینے والا ہے اور کفار کے بارے میں یہ جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار کو چھپائیں گے تو قیامت کے بعض مواقع پر ایسا کریں گے جبکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کا کفر سے انکار اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں کسی کام آ سکے گا۔ لیکن جب وہ حقائق کو پہچان لیں گے اور خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے تب تمام معاملہ روشن ہو کر سامنے آجائے گا۔ پھر ان کے لیے چھپانے کی کوئی گنجائش باقی رہے گی نہ چھپانے کا کوئی فائدہ ہی ہوگا۔
آیت: 43 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (43)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ قریب جاؤ تم نماز کے جبکہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تمھیں علم ہو جو تم کہتے ہواور نہ حالت جنابت میں مگر عبور کرنے والے ہو راستے کو، یہاں تک کہ غسل کر لو۔ اور اگر ہو تم بیمار یا سفر پر یا آئے کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے یا صحبت کی ہو تم نے عورتوں سے، پس نہ پاؤ تم پانی توتیمم کر لو پاک مٹی سے، پس مسح کرو تم اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا، بلاشبہ اللہ ہے بہت معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا(43)
#
{43} ينهى تعالى عباده المؤمنين أن يَقْرَبوا الصلاة وهم سُكارى حتى يعلَموا ما يقولونَ، وهذا شاملٌ لِقُرْبانِ مواضع الصلاة؛ كالمسجد؛ فإنه لا يمكَّنُ السكرانُ من دخولِهِ، وشاملٌ لنفس الصلاة؛ فإنه لا يجوز للسكران صلاةٌ ولا عبادةٌ لاختلاط عقلِهِ وعدم علمِهِ بما يقول، ولهذا حدَّد تعالى ذلك وغيَّاه إلى وجود العلم بما يقول السكران. وهذه الآية الكريمة منسوخةٌ بتحريم الخمر مطلقاً؛ فإنَّ الخمر في أول الأمر كان غير محرَّم، ثم إنَّ الله تعالى عَرَّضَ لعبادِهِ بتحريمِهِ بقوله: {يَسألونَكَ عن الخمرِ والمَيْسِرِ قُلْ فيهما إثمٌ كبيرٌ ومَنافعُ للنَّاسِ وإثْمُهُما أكبرُ مِنْ نَفعِهِما}، ثم إنَّه تعالى نهاهم عن الخمر عند حضورِ الصلاة كما في هذه الآية، ثم إنه تعالى حرَّمه على الإطلاق في جميع الأوقات في قوله: {يا أيُّها الذينَ آمنوا إنَّما الخمرُ والمَيْسِرُ والأنصابُ والأزلام رِجسٌ مِن عملِ الشيطانِ فاجتنبوهُ} الآية. ومع هذا؛ فإنه يشتدُّ تحريمه وقتَ حضور الصلاة؛ لتضمُّنه هذه المفسدة العظيمة بعدم حصول مقصود الصلاة الذي هو روحها ولبُّها، وهو الخشوع وحضور القلب؛ فإنَّ الخمر يُسْكِرُ القلبَ، ويصدُّ عن ذِكْرِ الله وعن الصلاة. ويؤخَذُ من المعنى منعُ الدُّخول في الصلاة في حال النُّعاس المفرط الذي لا يشعُرُ صاحبه بما يقولُ ويفعل، بل لعلَّ فيه إشارة إلى أنه ينبغي لمن أراد الصلاة أن يقطعَ عنه كلَّ شاغل يَشْغَلُ فكره؛ كمدافعةِ الأخبثين والتَّوْق لطعام ونحوِهِ؛ كما ورد في ذلك الحديث الصحيح. ثم قال: {ولا جُنُباً إلا عابري سبيل}؛ أي: لا تقربوا الصلاة حالة كونِ أحدِكم جُنباً إلاَّ في هذه الحال، وهو عابرُ السبيل؛ أي: تمرُّون في المسجد ولا تمكُثون فيه. {حتَّى تغتَسِلوا}؛ أي: فإذا اغتسلتم؛ فهو غاية المنع من قربانِ الصلاة للجُنُبِ، فيحلُّ للجُنُبِ المرورُ في المسجد فقط. {وإن كنتُم مرضى أو على سفرٍ أو جاء أحدٌ منكم من الغائط أو لامستُمُ النساءَ فلم تجِدوا ماءً فتيمَّموا}: فأباح التيمُّم للمريض مطلقاً مع وجود الماء وعدمِهِ، والعلَّة المرضُ الذي يشقُّ مع استعمال الماء، وكذلك السفر؛ فإنه مَظِنَّة فقد الماء؛ فإذا فقده المسافر، أو وجد ما يتعلَّق بحاجته من شرب ونحوه؛ جاز له التيمُّم، وكذلك إذا أحدث الإنسان ببول أو غائطٍ أو ملامسة النساء؛ فإنه يُباح له التيمُّم إذا لم يجد الماء حضراً وسفراً؛ كما يدلُّ على ذلك عموم الآية. والحاصل أنَّ الله تعالى أباح التيمُّم في حالتين: حال عدم الماء، وهذا مطلقاً في الحضر والسفر. وحال المشقة باستعماله بمرض ونحوه. واختلف المفسِّرون في معنى قوله: {أو لامستُمُ النساءَ}: هل المرادُ بذلك الجِماع؟ فتكونُ الآية نصًّا في جواز التيمُّم للجُنُب كما تكاثرت بذلك الأحاديث الصحيحة ، أو المراد بذلك مجردُ اللمس باليد، ويقيَّد ذلك بما إذا كان مَظِنَّة خروج المذي، وهو المس الذي يكون لشهوةٍ، فتكون الآيةُ دالةً على نقض الوضوء بذلك. واستدلَّ الفقهاء بقوله: {فلم تجدوا ماء}: بوجوب طَلَبِ الماء عند دخول الوقت؛ قالوا: لأنه لا يُقال: لم يجد لِمَنْ لم يطلب، بل لا يكون ذلك إلا بعد الطلب. واستدلَّ بذلك أيضاً على أن الماء المتغيِّرَ بشيء من الطاهرات يجوز ـ بل يتعيَّن ـ التطهُّر به لدخولِهِ في قوله: {فلم تجدوا ماءً}، وهذا ماء. ونوزع في ذلك بأنَّه ماء غير مطلق، وفي ذلك نظر. وفي هذه [الآية] الكريمة: مشروعيَّة هذا الحكم العظيم الذي امتنَّ به الله على هذه الأمة، وهو مشروعية التيمُّم، وقد أجمع على ذلك العلماء، ولله الحمد. وأنَّ التيمُّم يكون بالصَّعيد الطيب، وهو كل ما تصاعد على وجه الأرض، سواء كان له غبار أم لا، ويُحتمل أن يختصَّ ذلك بذي الغبار؛ لأن الله قال: {فامْسَحوا بوجوهِكم وأيديكم} منه، وما لا غبار له لا يُمْسَحُ به. وقوله: {فامسحوا بوجوهِكم وأيديكم} منه: هذا محل المسح في التيمُّم: الوجه جميعه واليدين إلى الكوعين؛ كما دلَّت على ذلك الأحاديث الصحيحة، ويستحبُّ أن يكون ذلك بضربةٍ واحدةٍ؛ كما دلَّ على ذلك حديث عمار ، وفيه أنَّ تيمُّم الجُنُب كتيمُّم غيره بالوجه واليدين. فائدة: اعلم أن قواعد الطبِّ تدور على ثلاث قواعدَ: حفظ الصحة عن المؤذيات، والاستفراغ منها، والحميةُ عنها. وقد نبَّه تعالى عليها في كتابه العزيز: أمَّا حفظ الصحة والحمية عن المؤذي؛ فقد أمر بالأكل والشرب وعدم الإسراف في ذلك، وأباح للمسافر والمريض الفطر حفظاً لصحَّتهما باستعمال ما يُصْلِحُ البدن على وجه العدل، وحماية للمريض عما يضرُّه. وأما استفراغُ المؤذي؛ فقد أباح تعالى للمحرم المتأذِّي برأسه أن يحلِقَهُ لإزالة الأبخرة المحتقنة فيه؛ ففيه تنبيهٌ على استفراغ ما هو أولى منها من البول والغائط والقيء والمنيِّ والدم وغير ذلك. نبه على ذلك ابن القيم رحمه الله تعالى. وفي الآية وجوبُ تعميم مسح الوجه واليدين، وأنَّه يجوز التيمُّم، ولو لم يضق الوقت، وأنه لا يخاطَب بطلب الماء إلا بعد وجود سبب الوجوب. والله أعلم. ثمَّ ختم الآية بقوله: {إنَّ اللهَ كانَ عفُوًّا غَفوراً}؛ أي: كثير العفو والمغفرة لعباده المؤمنين بتيسير ما أمرهم به وتسهيلِهِ غايةَ التسهيل بحيثُ لا يَشُقُّ على العبد امتثالُه فيحرج بذلك، ومن عفوه ومغفرته أنْ رَحِمَ هذه الأمة بشرع طهارة التُّراب بدل الماء عند تعذُّر استعماله، ومن عفوِهِ ومغفرتِهِ أن فتح للمذنبين باب التوبة والإنابة ودعاهُم إليه ووعدهم بمغفرة ذنوبهم، ومن عفوه ومغفرته أنَّ المؤمن لو أتاه بقُراب الأرض خطايا ثم لَقِيَهُ لا يشرك به شيئاً؛ لأتاه بقرابها مغفرةً.
[43] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انھیں معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختل ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لیے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہو اسے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہو گئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا: ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘خَمْرِ وَالْ٘مَیْسِرِ١ؕ قُ٘لْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ١ٞ وَاِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ﴾ (البقرۃ : 2؍219) ’تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کر دیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا۔ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْ٘مَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (المائدہ : 5؍90) ’’بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب، شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنیٰ سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت، اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔ ﴿ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ ﴾ ’’اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ جاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو۔‘‘ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ ﴿ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ﴾ ’’حتی کہ تم غسل کر لو۔‘‘ یہ جنبی کے لیے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لیے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔ ﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَؔ اَحَدٌ مِّؔنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰ٘ـمَسْتُمُ النِّسَآءَؔ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ فَتَیَمَّمُوْا ﴾ ’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو تیمم کرلو‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لیے تیمم کو پانی کی موجودگی اور عدم موجودگی، دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تیمم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب مسافر کے پاس پینے اور دیگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و براز یا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تیمم مباح فرمایا ہے۔ (۱) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں (۲) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اَوْ لٰ٘ـمَسْتُمُ النِّسَآءَؔ ﴾ کا معنیٰ بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لیے تیمم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھونا ہے؟ البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہو گا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔ فقہاء ﴿ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ ﴾ سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ’’اس نے نہ پایا‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہو جائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ ﴾ میں داخل ہے۔ اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے۔اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے۔ اور وہ ہے تیمم کی مشروعیت۔ تیمم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد! تیمم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے ﴿ صَعِیْدًا ﴾ سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے کہ ’’صعید‘‘ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے ﴿ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ مِّؔنْهُ ﴾ (المائدہ : 5؍6) ’’پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ﴿ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ ﴾ ’’اس (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘ جیسا کہ سورۂ مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، تمام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تیمم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسرwکی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کے تیمم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تیمم میں ہے۔ فائدہ : معلوم ہونا چاہیے کہ طب کا دارو مدار تین قواعد پر ہے۔ (۱) موذی امراض وغیرہ سے حفظان صحت۔ (۲)موذی مرض سے نجات حاصل کرنا۔(۳) ان امراض سے بچاؤ۔ رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔ مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لیے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لیے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے مُحْرِم شخص کے لیے سر منڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کر سکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔ آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تیمم کرنا جائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لیے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًؔا ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہ گاروں کے لیے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انھیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندۂ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔
آیت: 44 - 46 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيلَ (44) وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللَّهِ نَصِيرًا (45) مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا (46)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو دیے گئے کچھ حصہ کتاب سے؟ خریدتے ہیں وہ گمراہی کو اور چاہتے ہیں یہ کہ گمراہ ہو جاؤ تم راستے سے(44) اور اللہ خوب جانتا ہے تمھارے دشمنوں کو اور کافی ہے اللہ دوست اور کافی ہے اللہ مددگار(45) کچھ ان لوگوں میں سے جو یہودی ہوئے، بدل ڈالتے ہیں باتوں کو ان کی جگہوں سے اور کہتے ہیں، سنا ہم نے اور نافرمانی کی ہم نے اور سُن! نہ سنایا جائے تواور (کہتے ہیں) رَاعِنَا، موڑتے ہوئے اپنی زبانیں اور طعن کرتے ہوئے دین میں اور اگر بلاشبہ وہ کہتے ہیں، سنا ہم نے اور اطاعت کی ہم نے اور سنیے! اور دیکھیے ہمیں تو یقیناً ہوتا بہت بہتر ان کے لیے اور درست تراور لیکن لعنت کی ان پر اللہ نے بہ سبب ان کے کفر کے، پس نہیں ایمان لاتے وہ مگر تھوڑے ہی(46)
#
{44} هذا ذمٌّ لمن {أوتوا نصيباً من الكتاب}، وفي ضمنه تحذيرُ عبادِهِ عن الاغترار بهم والوقوع في أشراكهم، فأخبر أنهم في أنفسهم {يشترون الضلالة}؛ أي: يحبُّونها محبةً عظيمةً ويؤثِرونها إيثار مَن يبذُلُ المال الكثير في طلب ما يحبُّه، فيؤثرون الضلال على الهدى والكفر على الإيمان والشقاء على السعادة، ومع هذا {يريدونَ أن تَضِلُّوا السبيل}؛ فهم حريصون على إضلالِكُم غايةَ الحرص، باذِلون جهدَهم في ذلك، ولكن لما كان الله وليَّ عباده المؤمنين وناصرهم؛ بيَّن لهم ما اشتملوا عليه من الضلال والإضلال.
[44] اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنھیں کتاب عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑیں اور ان کا ساتھی بننے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت آگاہ فرمایا کہ وہ اپنے بارے میں ﴿ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰ٘لَةَ ﴾ گمراہی خریدتے ہیں یعنی گمراہی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی محبوب چیز کی طلب میں مال کثیر خرچ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پس یہ لوگ ہدایت پر گمراہی کو، ایمان پر کفر کو اور سعادت پر شقاوت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ﴾ ’’وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر لو۔‘‘ پس وہ تمھیں گمراہ کرنے کے بے حد خواہش مند ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا ولی اور مددگار ہے اس لیے ان کے سامنے ان کفار کی گمراہی اور ان کی دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔
#
{45} ولهذا قال: {وكفى بالله وليًّا}؛ أي: يتولَّى أحوال عباده، ويلطف بهم في جميع أمورهم، وييسِّر لهم ما به سعادتهم وفلاحهم، {وكفى بالله نصيراً}: ينصرُهُم على أعدائهم، ويبيِّن لهم ما يحذَرون منهم، ويعينُهم عليهم؛ فولايتُهُ تعالى فيها حصول الخير، ونصرُهُ فيه زوال الشرِّ.
[45] اس لیے فرمایا ﴿ وَؔ كَ٘فٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا ﴾ ’’اللہ ہی کافی کارساز ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمام امور میں اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام احوال میں ان کی سرپرستی فرماتا ہے اور ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہوں کو آسان کرتا ہے ﴿ وَّكَ٘فٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا ﴾ ’’اللہ ہی کافی مددگار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف مدد عطا کرتا ہے اور ان کے سامنے واضح کرتا ہے کہ انھیں کن لوگوں سے بچنا چاہیے وہ ان کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ولایت اور سرپرستی میں خیر کا حصول اور اس کی نصرت میں شر کا زوال ہے۔
#
{46} ثم بيَّن كيفية ضلالهم وعنادهم وإيثارهم الباطل على الحق، فقال: {من الذين هادوا}؛ أي: اليهود، وهم علماء الضلال منهم، {يُحرِّفون الكلمَ عن مواضعه}: إما بتغيير اللفظ أو المعنى أو هما جميعاً؛ فمن تحريفهم تنزيل الصفات التي ذُكِرَت في كتبهم التي لا تنطبق ولا تصدُقُ إلاَّ على محمد - صلى الله عليه وسلم - على أنه غيرُ مراد بها ولا مقصودٍ بها، بل أُريد بها غيره، وكتمانهم ذلك؛ فهذا حالهم في العلم شر حال، قلبوا فيه الحقائق، ونزَّلوا الحقَّ على الباطل، وجحدوا لذلك الحق. وأما حالهم في العمل والانقياد؛ فإنَّهم {يقولون سمعنا وعصينا}؛ أي: سمعنا قولك وعصينا أمرك، وهذا غاية الكفر والعناد والشرود عن الانقياد، وكذلك يخاطبون الرسول - صلى الله عليه وسلم - بأقبح خطاب وأبعده عن الأدب، فيقولون: {اسمع غير مُسْمَع}؛ قصدُهم: اسمع منا غير مُسْمَع ما تحبُّ بل مُسْمَع ما تكره. {وراعنا}: [و] قصدهم بذلك الرعونةَ بالعيب القبيح، ويظنُّون أن اللفظ لما كان محتملاً لغير ما أرادوا من الأمور؛ أنه يَروج على الله وعلى رسوله، فتوصَّلوا بذلك اللفظ الذي يلوون به ألسنتهم إلى الطعن في الدين والعيب للرسول، ويصرِّحون بذلك فيما بينهم؛ فلهذا قال: {ليًّا بألسنتهم وطعناً في الدين}. ثم أرشدهم إلى ما هو خيرٌ لهم من ذلك، فقال: {ولو أنهم قالوا سمعنا وأطعنا واسمع وانظُرْنا لكان خيراً لهم وأقوم}: وذلك لما تضمَّنه هذا الكلام من حسن الخطاب والأدب اللائق في مخاطبة الرسول والدُّخول تحت طاعة الله والانقياد لأمره وحُسن التلطُّف في طلبهم العلم بسماع سؤالهم والاعتناء بأمرهم؛ فهذا هو الذي ينبغي لهم سلوكه، ولكن لما كانت طبائِعُهم غير زكيَّةٍ؛ أعرضوا عن ذلك وطردهم الله بكفرِهم وعنادِهم، ولهذا قال: {ولكن لعنهم الله بكفرهم فلا يؤمنون إلا قليلاً}.
[46] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی گمراہی، عناد اور ان کے حق پر باطل کو ترجیح دینے کی کیفیت بیان فرمائی ہے۔ ﴿ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا ﴾ ’’اور جو یہودی ہیں۔‘‘ یعنی یہودی، اور اس سے مراد یہودیوں کے گمراہ علماء ہیں ﴿ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ﴾ ’’ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ کلمات الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ تحریف یا تو لفظ میں ہوتی تھی یا معنی میں یا دونوں میں۔ یہ ان کی تحریف تھی کہ آنے والے نبی کی وہ صفات جو ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں وہ محمد رسول اللہeکے سوا کسی پر منطبق اور صادق نہ آتی تھیں۔ (یہودی کہتے تھے) کہ یہ صفات رسول اللہeکی نہیں کسی اور کی بیان ہوئی ہیں ان صفات سے مراد رسول اللہeنہیں ہیں وہ ان صفات کو چھپاتے تھے۔ پس علم کے بارے میں یہ ان کا بدترین حال ہے۔ انھوں نے حقائق کو بدل ڈالا حق کو باطل بنا دیا اور پھر انھوں نے اس کی وجہ سے اس حق کا انکار کر دیا۔ رہا عمل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کا حال تو کہا کرتے تھے ﴿ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ﴾ ’’ہم نے سن لیا اور نہیں مانا۔‘‘ یعنی ہم نے تیری بات سنی اور تیرے حکم کی نافرمانی کی۔ یہ کفر و عناد اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے کی انتہا ہے۔ اسی طرح وہ رسول اللہeکو انتہائی سوء ادبی، اور بدترین خطابات کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ﴿ وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ ﴾ ’’سنیے نہ سنوائے جاؤ۔‘‘ اور ان الفاظ سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری بات سن اور تجھے وہ بات نہ سنوائی جائے جو تجھے پسند ہے بلکہ وہ بات سنوائی جائے جو تجھے ناپسند ہے ﴿ وَّرَؔاعِنَا ﴾ اس رعونت سے ان کی مراد تھی قبیح عیب۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ لفظ میں ان معنوں کا احتمال ہے جو ان کے معنی مراد کے علاوہ ہیں، اس لیے یہ اللہ اور اس کے رسولeکے بارے میں رائج ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ اس لفظ کو، جس کا وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر تلفظ کرتے تھے، دین میں طعن اور رسول اللہeکی عیب چینی کا ذریعہ بناتے تھے۔ اور باہم ایک دوسرے کو نہایت صراحت سے بتاتے تھے اسی لیے فرمایا: ﴿ لَیًّ٘ـۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ۠ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ﴾ ’’زبانوں کو مروڑ کر اور دین میں عیب لگانے کو‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز کی طرف ان کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْ٘ظُ٘رْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَاَ٘قْوَمَ ﴾ ’’اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرماں برداری کی اور آپ سنیے اور ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لیے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا‘‘ چونکہ یہ کلام رسول اللہeکو مخاطب ہونے کے بارے میں حسن خطاب، ادب لائق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی تعمیل کو متضمن ہے نیز یہ کلام ان کے طلب علم، ان کے سوال کو سننے اور ان کے معاملے کو درخور اعتنا سمجھنے کے بارے میں حسن ملاطفت کا حامل ہے۔ اس لیے یہ وہ راستہ ہے جس پر انھیں گامزن ہونا چاہیے، مگر چونکہ ان کی طبائع پاکیزگی سے محروم ہیں اس لیے انھوں نے اس سے اعراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و عناد کے باعث انھیں دھتکار دیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَلٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُ٘فْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کی، پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت تھوڑے۔‘‘
آیت: 47 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (47)}.
اے وہ لوگو جو دیے گئے کتاب! ایمان لاؤ ساتھ اس کے جو اُتارا ہم نے، وہ تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو تمھارے ساتھ ہے، پہلے اس کے کہ مٹا دیں ہم چہروں کو، پھر لوٹا دیں ان کو اوپر ان کی پیٹھوں کے یا لعنت کریں ہم ان پر، جس طرح لعنت کی ہم نے سبت والوں پراور ہے حکم اللہ کا کیا ہوا (یعنی اٹل) (47)
#
{47} يأمُرُ تعالى أهل الكتاب من اليهود والنصارى أن يؤمنوا بالرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - وما أنزل الله عليه من القرآن العظيم المهيمن على غيره من الكتب السابقة الذي صدقها؛ فإنها أخبرت به، فلما وقع المُخْبَرُ به؛ كان تصديقاً لذلك الخبر. وأيضاً؛ فإنهم إن لم يؤمنوا بهذا القرآن؛ فإنهم لم يؤمنوا بما في أيديهم من الكتب؛ لأنَّ كتب الله يصدِّق بعضها بعضاً، ويوافق بعضها بعضاً؛ فدعوى الإيمان ببعضها دون بعضٍ دعوى باطلة، لا يمكن صدقها. وفي قوله: {آمنوا بما نزَّلنا مصدقاً لما معكم}: حثٌّ لهم، وأنهم ينبغي أن يكونوا قبل غيرهم مبادِرين إليه بسبب ما أنعم الله عليهم به من العلم والكتاب الذي يوجِبُ أن يكون ما عليهم أعظم من غيرهم، ولهذا توعَّدهم على عدم الإيمان، فقال: {من قبل أن نطمِسَ وجوهاً فنردَّها على أدبارِها}: وهذا جزاءٌ من جنس ما عملوا؛ كما تركوا الحقَّ وآثروا الباطل وقلبوا الحقائق فجعلوا الباطل حقًّا والحقَّ باطلاً، جُوزوا من جنس ذلك بطَمْس وجوههم كما طَمَسوا الحقَّ، وردِّها على أدبارها بأن تُجْعَلَ في أقفائهم، وهذا أشنع ما يكون. {أو نَلْعَنَهم كما لَعَنَّا أصحاب السبت}: بأن يَطْرُدَهم من رحمته ويعاقِبَهم بجعلهم قردةً؛ كما فعل بإخوانهم الذين اعتدَوا في السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين. {وكان أمر الله مفعولاً}. كقوله: {إنما أمره إذا أراد شيئاً أن يقول له كن فيكون}.
[47] اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہeاور اس قرآن عظیم پر ایمان لائیں جو آپeپر نازل کیا گیا ہے جو دوسری کتابوں کا نگہبان ہے جن کی یہ تصدیق کرتا ہے ان کتابوں نے اس رسول کی خبر دی ہے۔ جب وہ امر واقع ہو گیا جس کے بارے میں خبر دی گئی تھی تو یہ چیز اس خبر کی تصدیق ہے۔ نیز اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو گویا ان کا اپنی کتابوں پر بھی ایمان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتابیں ایک دوسری کی تصدیق اور ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اس لیے بعض کتابوں پر ایمان کا دعویٰ اور بعض پر ایمان نہ رکھنا ، محض باطل دعویٰ ہے جس کی صداقت کا ہرگز امکان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ ﴾ ’’ہماری نازل کی ہوئی کتاب پر جو تمھاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ۔‘‘ میں اہل کتاب کو ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نیز ان کے لیے مناسب یہ تھا، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم اور کتاب عطا کی اس لیے وہ اس سبب سے دوسرے لوگوں سے آگے بڑھ کر اس کی طرف سبقت کرتے یہ علم اور کتاب دوسروں کی نسبت ان کے لیے زیادہ اس بات کے موجب ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایمان لاتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم ایمان کی وجہ سے ان کو وعید سنائی ہے ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّ٘طْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَ٘ارِهَاۤ ﴾ ’’اس پر اس سے پہلے (ایمان لے آؤ) کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انھیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں‘‘ یہ جزا ان کے عمل ہی کی جنس میں سے ہے۔ چونکہ انھوں نے حق کو چھوڑ دیا، باطل کو ترجیح دی اور حقائق کو بدل ڈالا، باطل کو حق اور حق کو باطل بنا دیا، اس لیے ان کو ان کے اعمال ہی کی جنس سے سزا دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیا۔ جس طرح انھوں نے حق کو بگاڑا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو ان کی گدی کی طرف کر دیا اور یہ بدترین حال ہے۔ ﴿ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰؔبَ السَّبْتِ ﴾ ’’یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے والوں پر لعنت کی‘‘ بایں طور کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور انھیں سزا کے طور پر بندر بنا دے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان بھائی بند لوگوں کو سزا دی تھی جنھوں نے ظلم و تعدی کے ساتھ سبت کے اصولوں سے تجاوز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـِٕیْنَ﴾ (البقرۃ : 2؍65) ’’پس ہم نے ان سے کہا بندر بن جاؤ دھتکارے ہوئے۔‘‘ ﴿ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا﴾ ’’اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے :﴿ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔؔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ﴾ (یٰسین : 36؍82) ’’اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
آیت: 48 #
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (48)}.
بلاشبہ اللہ نہیں بخشے گا یہ کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور بخش دے گا جو علاوہ ہے اس کے جس کے لیے چاہے گا اور جو شریک کرتا ہے اللہ کے ساتھ تو تحقیق گھڑا اس نے گناہ بہت بڑا(48)
#
{48} يخبر تعالى أنه لا يَغْفِرُ لمن أشرك به أحداً من المخلوقين ويغفر ما دون ذلك من الذُّنوب صغائرها وكبائرها، وذلك عند مشيئته مغفرةَ ذلك إذا اقتضتْ حكمتُهُ مغفرتَه؛ فالذُّنوب التي دون الشرك قد جعل الله لمغفرتِها أسباباً كثيرةً؛ كالحسنات الماحية والمصائب المكفِّرة في الدُّنيا والبرزخ ويوم القيامة، وكدعاء المؤمنين بعضهم لبعض، وبشفاعة الشافعين، ومن [فوق] ذلك كلِّه رحمته التي أحق بها أهل الإيمان والتوحيد، وهذا بخلاف الشرك؛ فإنَّ المشرك قد سدَّ على نفسه أبواب المغفرة، وأغلق دونه أبواب الرحمة؛ فلا تنفعه الطاعاتُ من دون التوحيد، ولا تفيده المصائب شيئاً، {وما لهم يوم القيامةِ من شافعينَ ولا صديقٍ حميم}، ولهذا قال تعالى: {ومَن يُشْرِكْ بالله فقد افترى إثماً عظيماً}؛ أي: افترى جرماً كبيراً، وأيُّ ظلم أعظم ممَّن سوَّى المخلوقَ من ترابٍ، الناقصَ من جميع الوجوه، الفقيرَ بذاته من كلِّ وجه، الذي لا يملِكُ لنفسه فضلاً عمَّن عَبَدَهُ نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً؛ بالخالق لكل شيء، الكامل من جميع الوجوه، الغني بذاتِهِ عن جميع مخلوقاتِهِ، الذي بيدِهِ النفع والضُّرُّ والعطاء والمنع، الذي ما من نعمةٍ بالمخلوقين إلا فمنه تعالى؛ فهل أعظمُ من هذا الظلم شيء؟! ولهذا حتَّم على صاحبه بالخلود بالعذاب وحرمان الثواب: {إنَّه مَن يُشْرِكْ بالله فقد حرَّم اللهُ عليه الجنةَ ومأواه النار}. وهذه الآية الكريمة في حقِّ غير التائب، وأما التائب؛ فإنه يُغْفَرُ له الشرك فما دونه؛ كما قال تعالى: {قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تَقْنَطوا من رحمة الله إنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذنوبَ جميعاً}؛ أي: لمن تاب إليه وأناب.
[48] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس شخص کو کبھی نہیں بخشے گا جس نے مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا۔ اس کے علاوہ اگر اس نے چاہا اور اس کی حکمت مقتضی ہوئی تو وہ تمام چھوٹے بڑے گناہ بخش دے گا۔ شرک سے کمتر گناہوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اسباب مقرر فرمائے ہیں مثلاً برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں، دنیا اور برزخ میں نیز قیامت کے روز گناہوں کا کفارہ بننے والے مصائب، اہل ایمان کی ایک دوسرے کے لیے مغفرت کی دعائیں اور شفاعت اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت جس کے سب سے زیادہ مستحق اہل ایمان و توحید ہیں۔ جبکہ شرک کا معاملہ اس کے برعکس ہے مشرک نے خود اپنے لیے مغفرت کا دروازہ بند کر لیا اس نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی راہیں مسدود کر لیں۔ توحید کے بغیر نیکیاں اسے کوئی نفع نہ دیں گی اور توحید کے بغیر مصائب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ۰۰ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ ﴾ (الشعراء : 26؍100،101) ’’کافر قیامت کے دن کہیں گے پس آج نہ کوئی ہمارا سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔‘‘ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّشْ٘رِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا‘‘ یعنی اس نے بہت بڑے جرم کا بہتان باندھا۔ اس سے بڑا کون سا ظلم ہو سکتا ہے کہ کوئی اس مخلوق کو جو مٹی سے تخلیق کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے اور ہر لحاظ سے بذاتہ محتاج ہے۔ جس کا بندے کو کوئی نفع و نقصان پہنچانا، اس کو زندہ کرنا، مارنا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کرنا تو کجا وہ تو اپنے آپ کی بھی مالک نہیں، اس ہستی کے برابر ٹھہرائے جو ہر چیز کی خالق ہے، جو ہر لحاظ سے کامل ہے جو بذاتہ اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان، عطا کرنا اور محروم کرنا سب کچھ ہے۔ مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی عطا و بخشش ہے۔ تب کیا اس ظلم سے بڑی کوئی اور چیز ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر مشرک کو دائمی عذاب اور ثواب سے محرومی کی وعید سنائی ﴿ مَنْ یُّ٘شْ٘رِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ﴾ (المائدۃ : 5؍72) ’’بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ غیر تائب کے بارے میں ہے۔ رہا تائب تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے پر شرک اور دیگر تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ﴿ قُ٘لْ یٰؔعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ﴾ (الزمر : 39؍53) ’’کہہ دو اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ بے شک اللہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیتاہے۔
آیت: 49 - 50 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (49) انْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا (50)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو پاک کہتے ہیں اپنے آپ کو؟بلکہ اللہ ہی پاک کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور نہیں ظلم کیے جائیں گے وہ تاگے برابر (بھی) (49) دیکھیے! کیسے گھڑتے ہیں وہ اوپر اللہ کے جھوٹ؟ اور کافی ہے یہ (افترا باندھنا) گناہ ظاہر(50)
#
{49} هذا تعجُّب من الله لعباده وتوبيخٌ للذين يُزكُّون أنفسهم من اليهود والنصارى ومَن نحا نحوَهم من كلِّ من زَكَّى نفسَه بأمر ليس فيه، وذلك أن اليهود والنصارى يقولون: {نحنُ أبناءُ الله وأحبَّاؤُهُ}، ويقولون: {لن يدخُلَ الجنَّة إلاَّ مَن كانَ هُوداً أو نصارى}: وهذا مجردُ دعوى لا برهانَ عليها، وإنَّما البرهانُ ما أخبر به في القرآن في قوله: {بلى مَن أسلمَ وجهَهُ للهِ وهو محسنٌ فلهُ أجرُهُ عندَ ربِّه ولا خوفٌ عليهم ولا هُم يحزنون}، فهؤلاء هم الذين زكَّاهم الله، ولهذا قال هنا: {بلِ اللهُ يُزكِّي مَن يشاء}؛ أي: بالإيمان والعمل الصالح، بالتخلِّي عن الأخلاق الرَّذيلة والتحلِّي بالصفات الجميلة، وأما هؤلاء؛ فهم وإن زَكَّوا أنفسهم بزعمهم أنهم على شيء وأنَّ الثواب لهم وحدهم؛ فإنهم كذبة في ذلك، ليس لهم من خصال الزاكين نصيبٌ بسبب ظلمهم وكفرهم لا بظُلم من الله لهم، ولهذا قال: {ولا يُظْلَمونَ فَتيلاً}، وهذا لتحقيق العموم؛ أي: لا يظلمون شيئاً، ولا مقدار الفتيل الذي في شِقِّ النَّواة أو الذي يُفْتَلُ من وسخ اليدِ وغيرها.
[49] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار اور ان یہودو نصاریٰ وغیرہ کے لیے زجر و توبیخ ہے جو اپنے آپ کو پاک گردانتے ہیں یہ زجر و توبیخ ہر اس شخص کے لیے ہے جو کسی ایسے امر کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پاک گردانتا ہے جو اس میں نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے :﴿ نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّآؤُهٗ ﴾ (المائدۃ : 5؍18) ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔‘‘ وہ کہا کرتے تھے :﴿ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى ﴾ (البقرۃ : 2؍111) ’’جنت میں صرف وہی داخل ہو گا جو یہودی یا نصرانی ہو گا۔‘‘ یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ دلیل تو وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمائی ہے ﴿ بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ﴾ (البقرۃ : 2؍112) ’’کیوں نہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور نیکوکار بھی ہو۔ تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم۔‘‘ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلِ اللّٰهُ یُزَؔكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاک کرتا ہے‘‘ یعنی ایمان و عمل صالح کے ساتھ، اخلاق رذیلہ ترک کرنے اور اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو پاک کرتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو اگرچہ بزعم خود انھوں نے اپنے آپ کو پاک کیا ہوا ہے، اور سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور صرف وہی ثواب کے مستحق ہیں مگر وہ جھوٹے ہیں اور وہ اپنے ظلم اور کفر کے سبب سے پاک لوگوں کی خصوصیات اور خصائل سے بے بہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان خصوصیات سے محروم کرکے ظلم نہیں کیا، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا﴾ ’’ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ عموم کے تحقق کے لیے ہے یعنی ان کے ساتھ اس باریک دھاگے جتنا بھی ظلم نہیں ہو گا جو کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگا ہوتا ہے یا ہاتھ رگڑنے سے جو میل کی باریک بتی سی بنتی ہے اس مقدار میں بھی ان پر ظلم نہ ہو گا۔
#
{50} قال تعالى: {انظر كيف يفترونَ على الله الكذب}؛ أي: بتزكيتهم أنفسهم؛ لأنَّ هذا من أعظم الافتراء على الله؛ لأنَّ مضمون تزكيتِهِم لأنفسهم الإخبارُ بأنَّ الله جَعَلَ ما هم عليه حَقًّا وما عليه المؤمنون المسلمون باطلاً، وهذا أعظم الكذب وقلبِ الحقائق بجعل الحقِّ باطلاً والباطل حقًّا، ولهذا قال: {وكفى به إثماً مبيناً}؛ أي: ظاهراً بَيِّناً موجباً للعقوبة البليغة والعذاب الأليم.
[50] اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ ﴾ ’’دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘ یعنی انھوں نے اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ کر کے اللہ تعالی پر افتراء پردازی کی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالی پر سب سے بڑا بہتان ہے اور ان کے تزکیہ نفوس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کا موقف حق اور مسلمانوں کا موقف باطل ہے۔ اور یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حق کو باطل اور باطل کو حق بنانا حقائق کو بدلنے کے مترادف ہے۔ بنابریں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَكَ٘فٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا﴾ ’’اور یہ (حرکت) صریح گناہ ہونے کے لیے کافی ہے‘‘ یعنی یہ ظاہر اور کھلا گناہ ہے جو سخت عقوبت اور دردناک عذاب کا موجب ہے۔
آیت: 51 - 57 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا (51) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52) أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا (53) أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (54) فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ صَدَّ عَنْهُ وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا (55) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (56) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا (57)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو دیے گئے کچھ حصہ کتاب سے؟ ایمان لاتے ہیں وہ ساتھ بتوں اور شیطان کے اور کہتے ہیں واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، یہ لوگ زیادہ ہدایت والے ہیں، ان لوگوں سے جو ایمان لائے، راستے کے لحاظ سے(51) یہ لوگ وہ ہیں کہ لعنت کی ان پر اللہ نےاور جس پر لعنت کرے اللہ تو ہرگز نہیں پائیں گے آپ اس کے لیے کوئی مددگار(52) کیا ان کے لیے کچھ حصہ ہے بادشاہی سے؟ تب تو نہیں دیں گے وہ لوگوں کو تل برابر (بھی) (53) کیا حسد کرتے ہیں وہ لوگوں سے اوپر اس کے جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے؟ پس تحقیق دی ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت اور دی ہم نے ان کو بادشاہی بہت بڑی(54) پس بعض ان میں سے وہ ہیں جو ایمان لائے ساتھ اس کے اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو رکے رہے اس سےاور کافی ہے جہنم دہکتی ہوئی(55) بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ساتھ ہماری آیتوں کے عنقریب داخل کریں گے ہم ان کو آگ میں۔ جب جل جائیں گی کھالیں ان کی تو بدل دیں گے ہم ان کو کھا لیں علاوہ ان کے تاکہ چکھیں وہ عذاب، یقیناً اللہ ہے بہت زبردست بڑا حکمت والا(56) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھو ں نے نیک، عنقریب داخل کریں گے ہم ان کو ایسے باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں ابد تک، ان کے لیے ان میں بیویاں ہیں پاک صاف اور داخل کریں گے ہم ان کو چھاؤں میں (جو) بہت گھنی ہوگی(57)
#
{51} وهذا من قبائح اليهود وحسدِهم للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين؛ أنَّ أخلاقَهم الرذيلة وطبعَهم الخبيث حَمَلَهم على ترك الإيمان باللهِ ورسوله والتعوُّض عنه بالإيمان بالجبت والطاغوت، وهو الإيمان بكلِّ عبادةٍ لغير الله أو حكم بغير شرع الله، فدخل في ذلك السِّحر والكهانة وعبادة غير الله وطاعة الشيطان، كلُّ هذا من الجبت والطاغوت، وكذلك حَمَلَهُمُ الكفر والحسد على أن فضَّلوا طريقة الكافرين بالله عبدةِ الأصنام على طريق المؤمنين، فقال: {ويقولون للذين كفروا}؛ أي: لأجلهم تملُّقاً لهم ومداهنةً وبغضاً للإيمان: {هؤلاء أهدى من الذين آمنوا سبيلاً}؛ أي: طريقاً؛ فما أسْمَجَهم وأشدَّ عنادهم وأقلَّ عقولهم! كيف سلكوا هذا المسلك الوخيم والواديَ الذَّميم؟! هل ظنُّوا أنَّ هذا يروج على أحدٍ من العقلاء أو يدخل عقلَ أحدٍ من الجهلاء؟! فهل يَفْضُلُ دينٌ قام على عبادة الأصنام والأوثان، واستقام على تحريم الطيِّبات وإباحة الخبائث وإحلال كثيرٍ من المحرَّمات، وإقامة الظلم بين الخَلْق وتسوية الخالق بالمخلوقين، والكفر بالله ورسله وكتبه على دينٍ قام على عبادة الرحمن، والإخلاص لله في السرِّ والإعلان والكفر بما يُعْبَدُ من دونه من الأوثان والأنداد والكاذبين، وعلى صلة الأرحام والإحسان إلى جميع الخَلْق حتى البهائم، وإقامة العدل والقسط بين الناس وتحريم كلِّ خبيث وظلم ومصدق في جميع الأقوال والأعمال؟! فهل هذا إلاَّ من الهذيان؟! وصاحب هذا القول إما من أجهل الناس وأضعفهم عقلاً، وإما من أعظمهم عناداً وتمرداً ومراغمة للحق، وهذا هو الواقع.
[51] یہ یہودیوں کی برائیوں اور رسول اللہeاور اہل ایمان کے ساتھ ان کے حسد کا ذکر ہے۔ ان کے رذیل اخلاق اور خبیث طبیعتوں نے انھیں اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان ترک کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے عوض ان کو بتوں اور طاغوت پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ طاغوت پر ایمان لانے سے مراد ہر غیر اللہ کی عبادت یا شریعت کے بغیر کسی اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ اس میں جادو، ٹونہ، کہانت، غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب بت اور طاغوت ہیں۔ اسی طرح ان کے کفر اور حسد نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کفار اور بت پرستوں کے طریقہ کو اہل ایمان کے طریقہ پر ترجیح دیں ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں۔‘‘ یعنی کفار کی خوشامد اور مداہنت کی خاطر اور ایمان سے بغض کی وجہ سے کہتے تھے ﴿ هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰؔى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا﴾ ’’طریقے کے اعتبار سے یہ کفار اہل ایمان سے زیادہ راہ ہدایت پر ہیں۔‘‘ وہ کتنے قبیح ہیں، ان کا عناد کتنا شدید، اور ان کی عقل کتنی کم ہے؟ وہ مذمت کی وادی میں، ہلاکت کے راستے پر کیسے گامزن ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کسی عقلمند کو قائل کر لے گی یا کسی جاہل کی عقل میں آجائے گی؟ کیا اس دین کو جو بتوں اور پتھروں کی عبادت کی بنیاد پر قائم ہے، جو طیبات کو حرام ٹھہرانے، خبائث کو حلال ٹھہرانے، بہت سی محرمات کو جائز قرار دینے، اللہ تعالی کی مخلوق پر ظلم کے ضابطوں کو قائم کرنے، خالق کو مخلوق کے برابر قرار دینے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر کرنے کو درست گردانتا ہے ۔۔۔ اس دین پر فضیلت دی جا سکتی ہے جو اللہ رحمن کی عبادت، کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، بتوں اور جھوٹے خداؤں کے انکار، صلہ رحمی، تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے درمیان عدل کا قیام، ہر خبیث چیز اور ظلم کی تحریم اور تمام اقوال و اعمال میں صدق پر مبنی ہے؟.... کیا یہ تفضیل محض ہذیان نہیں؟ ایسا کہنے والا شخص یا تو سب سے زیادہ جاہل یا سب سے کم عقل یا حق کے ساتھ سب سے زیادہ عناد رکھنے والا اور تکبر کا اظہار کرنے والا ہے۔ یہ فی الواقع ایسے ہی ہے۔
#
{52} ولهذا قال تعالى عنهم: {أولئك الذين لَعَنَهم الله}؛ أي: طَرَدَهُم عن رحمته وأحلَّ عليهم نقمته. {ومَن يلعنِ الله فلن تجدَ له نَصيراً}؛ أي: يتولاَّه ويقوم بمصالحه ويحفظُه عن المكارِهِ، وهذا غايةُ الخِذلان.
[52] اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور انھیں اپنی سزا کا مستحق ٹھہرایا ﴿ وَمَنْ یَّلْ٘عَنِ اللّٰهُ فَلَ٘نْ تَجِدَ لَهٗ نَصِیْرًا﴾ ’’اور جس پر اللہ لعنت کردے تو تم اس کا کسی کو مددگار نہیں پاؤگے۔‘‘ جسے اللہ تعالی دھتکار دے تو اس کے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا جو اس کی سرپرستی کرے، اس کے مصالح کی نگرانی کرے اور ناپسندیدہ امور میں اس کی حفاظت کرے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کی انتہا ہے۔
#
{53} {أم لهم نصيبٌ من الملك}؛ أي: فيفضِّلون من شاؤوا على من شاؤوا بمجرَّد أهوائهم، فيكونون شركاء لله في تدبير المملكة؛ فلو كانوا كذلك؛ لشحُّوا وبخلوا أشدَّ البخل. ولهذا قال: {فإذاً}؛ أي: لو كان لهم نصيبٌ من الملك {لا يؤتون الناس نقيراً}؛ أي: شيئاً ولا قليلاً. وهذا وصفٌ لهم بشدَّة البخل على تقدير وجود ملكهم المشارك لملك الله، وأُخْرِجَ هذا مخرج الاستفهام المتقرِّر إنكاره عند كلِّ أحدٍ.
[53] ﴿ اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ ﴾ ’’کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے۔‘‘ کہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی بنا پر جس کو چاہیں اور جس پر چاہیں فضیلت دیں اور تدبیر مملکت میں اللہ تعالی کے شریک بن جائیں؟ اگر وہ ایسے ہوتے تو وہ بہت زیادہ بخل سے کام لیتے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِذًا ﴾ یعنی اگر اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہوتا، تب ﴿ لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا﴾ ’’وہ لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیتے۔‘‘ یعنی وہ لوگوں کو تھوڑی سی چیز بھی نہ دیتے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ (کائنات کی) بادشاہی اور اقتدار میں ان کا حصہ ہے انتہائی شدید بخل ان کا وصف بیان کیا ہے۔ یہ ہر ایک کے نزدیک تسلیم شدہ اور متحقق استفہام انکاری ہے۔
#
{54} {أم يحسُدون الناس على ما آتاهُمُ الله من فضلِهِ}؛ أي: هل الحاملُ لهم على قولهم كونُهم شركاءَ لله فيفضِّلون مَن شاؤوا؟ أم الحامل لهم على ذلك الحسد للرسول وللمؤمنين على ما آتاهم الله من فضله؟ وذلك ليس ببدع ولا غريب على فضل الله؛ {فقد آتينا آلَ إبراهيم الكتابَ والحكمة وآتيناهم ملكاً عظيماً}، وذلك ما أنعم الله به على إبراهيم وذرِّيَّته من النبوَّة والكتاب والملك الذي أعطاه مَن أعطاه من أنبيائه؛ كداود وسليمان؛ فإنعامه لم يزل مُسْتمِرًّا على عبادِهِ المؤمنين؛ فكيف ينكِرون إنعامَهُ بالنبوَّة والنصر والملك لمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - أفضل الخلق وأجلِّهم وأعظمهم معرفةً بالله وأخشاهم له؟!
[54] ﴿ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ ’’یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے‘‘ یعنی یہ کہنے پر ان کو بزعم خود ان کے اللہ تعالی کے شریک ہونے نے آمادہ کیا ہے کہ جس کو چاہیں فضیلت دیں یارسول اللہeاور اہل ایمان کے ساتھ حسد اس کا باعث تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولeاور اہل ایمان کو اپنے فضل سے نوازا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل کے لیے یہ کوئی انوکھی اور نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ ﴿ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَیْنٰهُمْ مُّلْ٘كًا عَظِیْمًا ﴾ ’’پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بڑی سلطنت عطا فرمائی ہے‘‘ یہ ان نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن سے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمuاور انکی اولاد کو نوازا۔ یعنی نبوت، کتاب اور حکومت جو اس نے اپنے بعض انبیاء کو عطا کی جیسے داؤد اور سلیمانu۔ اللہ تعالی کے مومن بندوں پر یہ نعمتیں ہمیشہ سے چلی آ رہی ہیں۔ پس وہ محمدeکی نبوت، آپ کے لیے اللہ تعالی کی فتح و نصرت اور آپ کے اقتدار کا کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے افضل، سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے زیادہ اللہ تعالی کی معرفت رکھنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے ہیں۔
#
{55} {فمنهم من آمن به}؛ أي: بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - فنال بذلك السعادة الدنيويَّة والفلاح الأخرويَّ، {ومنهم من صدَّ عنه}؛ عناداً وبغياً وحسدًا، فحصل لهم من شقاء الدُّنيا ومصائبها ما هو بعض آثار معاصيهم، {وكفى بجهنَّم سعيراً}: تُسَعَّرُ على مَن كَفَرَ بالله، وجَحَدَ نبوَّة أنبيائِهِ من اليهود والنصارى وغيرِهم من أصناف الكَفَرة.
[55] ﴿ فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ ﴾ ’’پھر ان میں سے بعض اس پر ایمان لائے۔‘‘ یعنی ان میں سے بعض لوگ محمدeپر ایمان لائے۔ اس لیے وہ دنیاوی خوش بختی اور اخروی فلاح سے بہرہ ور ہوئے ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ ﴾ اور ان میں سے بعض نے محض عناد، بغاوت اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے اس سے اعراض کیا اس لیے وہ دنیا میں بدبختی اور مصائب کا شکار ہو گئے۔ جو ان کے گناہوں کے اثرات ہیں۔ ﴿ وَكَ٘فٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا﴾ ’’اور (ان کے لیے) دہکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے‘‘ یہ آگ یہود و نصاریٰ اور دیگر اقسام کے کفار پر بھڑکائی جائے گی، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے انبیاءoکا انکار کیا۔
#
{56} ولهذا قال: {إنَّ الذين كفروا بآياتِنا سوفَ نُصليهم ناراً}؛ أي: عظيمة الوَقود شديدة الحرارة، {كلَّما نَضِجَتْ جلودُهم}؛ أي: احترقت، {بدَّلْناهم جلوداً غيرَها لِيَذوقوا العذابَ}؛ أي: ليبلغ العذابُ منهُم كلَّ مبلغ، وكما تكرَّرَ منهم الكفرُ والعنادُ؛ وصار وصفاً لهم وسجيَّةً؛ كرَّر عليهم العذاب جزاء وفاقاً، ولهذا قال: {إنَّ الله كان عزيزاً حكيماً}؛ أي: له العزَّة العظيمة والحكمة في خلقه وأمره وثوابِهِ وعقابِهِ.
[56] بنابریں اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا ﴾ ’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انھیں ہم یقینا آگ میں ڈال دیں گے‘‘ یعنی ہم ان کو ایسی آگ میں جھونکیں گے جو ایندھن کے لحاظ سے بہت بڑی اور حرارت کے لحاظ سے بہت شدید ہو گی ﴿ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ ﴾ ’’جب ان کی جلد جل جائے گی۔‘‘ ﴿ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ﴾ ’’ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں‘‘ تاکہ عذاب ان کے جسم کے ہر مقام تک پہنچ جائے۔ چونکہ وہ کفر اور عناد کا بار بار مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ کفر اور عناد ان کا وصف اور عادت بن گیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی ان کو بار بار عذاب کا مزا چکھائے گا تاکہ ان کو پورا پورا بدلہ مل جائے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا ﴾ ’’یقینا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالی عظیم غلبے کا مالک ہے، اس کی تخلیق، اس کے امر اور اس کے ثواب و عقاب میں اس کی حکمت جاری و ساری ہے۔
#
{57} {والذين آمنوا}؛ أي: بالله وما أوجب الإيمان به، {وعملوا الصالحات}: من الواجبات والمستحبات، {سندخلهم جناتٍ تجري من تحتها الأنهارُ لهم فيها أزواج مطهرة}؛ أي: من الأخلاق الرذيلة والخُلُق الذَّميم وممّا يكون من نساء الدُّنيا من كل دَنَسٍ وعيبٍ، {وندخِلُهم ظِلاًّ ظليلاً}.
[57] ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالی پر اور ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا واجب ہے ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور عمل نیک کرتے رہے۔‘‘ یعنی وہ واجبات اور مستحبات پر عمل کرتے ہیں ﴿ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّ٘طَهَّرَةٌ ﴾ ’’ہم عنقریب انھیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لیے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی‘‘ یعنی یہ بیویاں ان رذیل عادات اور گندے اخلاق اور ہر میل اور عیب سے پاک ہوں گی جن میں دنیا کی عورتیں ملوث ہوتی ہیں ﴿ وَّنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا ﴾ ’’اور ہم انھیں گھنے سائے میں داخل کریں گے۔‘‘ یعنی ہم انھیں ہمیشہ رہنے والے سائے میں داخل کریں گے ۔
آیت: 58 - 59 #
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (58) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59)}.
بلاشبہ اللہ حکم دیتا ہے تمھیں یہ کہ ادا کرو تم امانتیں ان کے اہل کواور جب فیصلہ کرو تم درمیان لوگوں کے تو فیصلہ کرو ساتھ انصاف کے۔ بلاشبہ اللہ، بہت ہی اچھی بات ہے وہ کہ نصیحت کرتا ہے تمھیں ساتھ اس کے۔ بے شک اللہ ہے سننے والا دیکھنے والا(58) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو تم اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اصحاب امر کی اپنے میں سے، پھر اگر تم باہم اختلاف کرو کسی چیز میں تو لوٹا دو اس کو اللہ اور رسول کی طرف، اگر ہو تم ایمان رکھتے ساتھ اللہ اور دن آخرت کے۔ یہ بہتر اور بہت اچھا ہے انجام میں(59)
#
{58} الأمانات كلُّ ما اؤتُمِنَ عليه الإنسان وأُمِرَ بالقيام به، فأمر اللهُ عباده بأدائِها؛ أي: كاملة موفَّرة لا منقوصة ولا مبخوسةً ولا ممطولاً بها، ويدخُلُ في ذلك أماناتُ الولايات والأموال والأسرار والمأمورات التي لا يطَّلع عليها إلا الله. وقد ذكر الفقهاء على أنَّ مَن اؤتُمِنَ أمانة؛ وَجَبَ عليه حفظُها في حِرْز مثلها؛ قالوا: لأنه لا يمكنُ أداؤها إلاَّ بحفظها، فوجب ذلك. وفي قوله: {إلى أهلها}: دلالة على أنها لا تُدْفَعُ وتؤدَّى لغير المؤتَمِن، ووكيلُهُ بمنزلتِهِ؛ فلو دفعها لغير ربِّها؛ لم يكن مؤدِّياً لها. {وإذا حكمتُم بين الناس أن تحكُموا بالعدل}: وهذا يشمل الحكم بينهم في الدِّماء والأموال والأعراض؛ القليل من ذلك والكثير، على القريب والبعيد والبَرِّ والفاجر والوليِّ والعدوِّ. والمراد بالعدل الذي أمر الله بالحكم به هو ما شَرَعَهُ الله على لسان رسولِهِ من الحدود والأحكام، وهذا يستلزم معرفة العدل ليحكُمَ به، ولما كانت هذه أوامر حسنةً عادلةً؛ قال: {إنَّ الله نِعمَّا يَعِظُكُم به، إنَّ اللهَ كان سميعاً بصيراً}: وهذا مدحٌ من الله لأوامره ونواهيه؛ لاشتمالها على مصالح الدارين ودفع مضارِّهما؛ لأنَّ شارعها السميع البصير الذي لا تَخْفى عليه خافيةٌ ويعلم من مصالح العباد ما لا يعلمون.
[58] ہر وہ چیز جس پر انسان کو امین بنایا جائے اور اس کے انتظام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے، امانت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ امانتیں بغیر کسی کمی اور بغیر کسی ٹال مٹول کے پوری کی پوری ادا کر دیں۔اس میں عہدوں کی امانت، اموال کی امانت، بھید اور رازوں کی امانت اور ان مامورات کی امانت جنھیں اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، سب شامل ہیں۔فقہاء کہتے ہیں کہ جس کسی کے پاس کوئی امانت رکھی جائے اس پر اس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ چونکہ امانت کی حفاظت کیے بغیر اس کو واپس ادا کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے حفاظت واجب ہے۔ اللہ تعالی کے ارشاد ﴿ اِلٰۤى اَهْلِهَا ﴾ ’’اس کے مالک کی طرف‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امانت صرف اسی شخص کو لوٹائی جائے اور ادا کی جائے جو اس کا مالک ہے۔ اور وکیل مالک ہی کے قائم مقام ہے۔ اگر وہ امانت مالک کے سوا کسی اور شخص کے حوالے کر دے تو اس نے امانت ادا نہیں کی۔ ﴿ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ﴾ ’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے مطابق کرو‘‘ یہ حکم ان کے درمیان قتل کے مقدمات ، مالی مقدمات اور عزت و آبرو کے مقدمات، خواہ یہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کو شامل ہے اور اس کا اطلاق قریب، بعید، صالح، فاجر، دوست اور دشمن سب پر ہوتا ہے۔ وہ عدل جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حکم دیا ہے اس سے مراد حدود و احکام میں عدل کے وہ ضابطے ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولeکی زبان پر مشروع فرمایا ہے۔ یہ حکم معرفت عدل کو مستلزم ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے۔ چونکہ یہ احکام بہت اچھے اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا ﴾ ’’اللہ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے‘‘ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے اوامر و نواہی کی مدح و تعریف ہے کیونکہ یہ اوامر و نواہی دنیا و آخرت کے مصالح کے حصول اور دنیا و آخرت کی مضرتوں کو دور کرنے پر مشتمل ہیں کیونکہ ان اوامر و نواہی کو مشروع کرنے والی ہستی سمیع و بصیر ہے۔ جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں کے ان مصالح کو جانتا ہے جو وہ خود نہیں جانتے۔
#
{59} ثم أمر بطاعتِهِ وطاعة رسولِهِ، وذلك بامتثال أمرهما الواجب والمستحبِّ واجتناب نهيهِما، وأمر بطاعة أولي الأمر، وهم الولاة على الناس من الأمراء والحكَّام والمفتين؛ فإنَّه لا يستقيمُ للناس أمرُ دينهم ودُنياهم إلاَّ بطاعِتِهم والانقيادِ لهم. طاعةً لله ورغبةً فيما عنده، ولكن بشرط أن لا يأمروا بمعصية الله؛ فإنْ أمروا بذلك؛ فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ولعل هذا هو السرُّ في حذف الفعل عند الأمر بطاعتهم وذِكْرِهِ مع طاعة الرسول؛ فإنَّ الرسول لا يأمر إلا بطاعة الله، ومَنْ يُطِعْهُ؛ فقد أطاع الله، وأما أولو الأمر؛ فشرطُ الأمرِ بطاعتهم أن لا يكونَ معصيةً. ثم أمَرَ بردِّ كلِّ ما تنازع الناس فيه من أصول الدين وفروعه إلى الله وإلى الرسول ؛ أي: إلى كتاب الله وسنة رسوله؛ فإنَّ فيهما الفصل في جميع المسائل الخلافيَّة: إمَّا بصريحهما أو عمومهما أو إيماءٍ أو تنبيهٍ أو مفهوم أو عموم معنى يُقاسُ عليه ما أشبهه؛ لأنَّ كتاب الله وسنة رسوله عليهما بناءُ الدين، ولا يستقيم الإيمان إلاَّ بهما؛ فالردُّ إليهما شرطٌ في الإيمان؛ فلهذا قال: {إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر}: فدلَّ ذلك على أنَّ من لم يردَّ إليهما مسائلَ النزاع؛ فليس بمؤمن حقيقةً، بل مؤمنٌ بالطاغوت؛ كما ذكر في الآية بعدها. {ذلك}؛ أي: الردُّ إلى الله ورسوله، {خيرٌ وأحسنُ تأويلاً}؛ فإنَّ حُكم الله ورسوله أحسنُ الأحكام وأعدلُها وأصلحُها للناس في أمر دينهم ودُنياهم وعاقبتهم.
[59] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور یہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ واجبات و مستحبات پر عمل اور ان کی منہیات سے اجتناب ہی کے ذریعے سے ہو سکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اولو الامر سے مراد لوگوں پر مقرر کردہ حکام، امراء اور اصحاب فتویٰ ہیں کیونکہ لوگوں کے دینی اور دنیاوی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی فرماں برداری کرتے ہوئے اولو الامر کی اطاعت نہیں کرتے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اولو الامر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرماں برداری ہرگز جائز نہیں۔ شاید یہی سر نہاں ہے کہ اولو الامر کی اطاعت کے حکم کے وقت فعل کو حذف کر دیا گیا ہے اور اولو الامر کی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہeصرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں لہٰذا جو کوئی رسولeکی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ رہے اولو الامر تو ان کی اطاعت کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ ان کا حکم معصیت نہ ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنے تمام تنازعات کو، خواہ یہ اصول دین میں ہوں یا فروع دین میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائیں۔ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف ۔ کیونکہ تمام اختلافی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے یا تو ان اختلافات کا حل صراحت کے ساتھ قرآن اور سنت میں موجود ہوتا ہے یا ان کے عموم، ایماء، تنبیہ، مفہوم مخالف اور عموم معنی میں ان اختلافات کا حل موجود ہوتا ہے اور عموم معنی میں اس کے مشابہہ مسائل میں قیاس کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہeکی سنت پر دین کی بنیاد قائم ہے ان دونوں کو حجت تسلیم کیے بغیر ایمان درست نہیں۔ اپنے تنازعات کو قرآن و سنت کی طرف لوٹانا شرط ایمان ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نزاعی مسائل کو قرآن و سنت پر پیش نہیں کرتا وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے۔ جیسا کہ بعد والی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا ﴿ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ ’’یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکا فیصلہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عدل و انصاف کا حامل اور لوگوں کے دین و دنیا اور ان کی عاقبت کی بھلائی کے لیے سب سے اچھا فیصلہ ہے۔
آیت: 60 - 63 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (60) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا (61) فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا (62) أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا (63)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو دعویٰ کرتے ہیں اس بات کا کہ وہ ایمان لائے ہیں ساتھ اس کے جو اُتارا گیا طرف آپ کی اور جو نازل کیا گیا پہلے آپ سے، وہ ارادہ کرتے ہیں یہ کہ فیصلہ لے جائیں طرف طاغوت کی، حالانکہ حکم دیے گئے تھے وہ یہ کہ کفر کریں ساتھ اس کے۔ اور ارادہ کرتا ہے شیطان یہ کہ گمراہ کر دے ان کو گمراہ کرنا دور کا(60) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، آؤ تم طرف اس کی جو نازل کیا اللہ نے اور (آؤ) طرف رسول کی تو دیکھیں گے آپ منافقوں کو، رکتے ہیں وہ آپ سے اعراض کرتے ہوئے(61) پس کیا حال ہوتا ہے جب پہنچتی ہے ان کو مصیبت، بوجہ اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے، پھر آتے ہیں وہ آپ کے پاس، قسمیں کھاتے ہیں وہ اللہ کی، نہیں ارادہ کیا تھا ہم نے مگر بھلائی اور موافقت کا(62) یہ وہ لوگ ہیں کہ جانتا ہے اللہ جو ان کے دلوں میں ہے، پس اعراض کریں آپ ان سے اور نصیحت کریں انھیں اور کہیں ان سے ان کے دلوں میں بات اثر کرنے والی(63)
#
{60 ـ 61} يُعجِّب تعالى عبادَه من حالة المنافقين الذين يزعُمون أنَّهم مؤمنون بما جاء به الرسولُ وبما قبلَه، ومع هذا {يُريدون أن يتحاكموا إلى الطَّاغوت}، وهو كلُّ مَن حَكَمَ بغير شرع الله؛ فهو طاغوتٌ، والحالُ أنَّهم {قد أُمِروا أن يكفُروا به}؛ فكيف يجتمع هذا والإيمان؛ فإنَّ الإيمان يقتضي الانقيادَ لشرع الله وتحكيمِهِ في كل أمر من الأمور؛ فَمنْ زَعَمَ أنه مؤمنٌ واختار حكم الطاغوت على حكم الله؛ فهو كاذبٌ في ذلك، وهذا من إضلال الشيطان إيَّاهم، ولهذا قال: {ويُريد الشيطانُ أنْ يُضلَّهم ضلالاً بعيداً} عن الحقِّ.
[61,60] اللہ تعالیٰ منافقین کی حالت کے بارے میں اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار کرتا ہے ﴿ الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ﴾ ’’جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے جو رسول اللہeلے کر آئے اور جو کچھ آپeسے پہلے تھا۔ بایں ہمہ ﴿ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُ٘وْتِ ﴾ ’’وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں۔‘‘ ہر وہ شخص جو شریعت الٰہی کے بغیر فیصلے کرتا ہے طاغوت ہے۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ ﴿ وَقَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْ٘فُ٘رُوْا بِهٖ ﴾ ’’انھیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔‘‘ ان کا یہ رویہ اور ایمان کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایمان اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی کی جائے اور اس کی تحکیم کو قبول کیا جائے۔ پس جو کوئی مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چھوڑ کر طاغوت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کر دیا ہے ﴿ وَیُرِیْدُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰ٘لًۢا بَعِیْدًا ﴾ ’’اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انھیں بہکا کر راستے سے دور کردے۔‘‘ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ وہ انھیں حق سے دور کر دے۔
#
{62} {فكيف} يكونُ حال هؤلاء الضالِّين {إذا أصابتهم مصيبةٌ بما قدَّمت أيديهم} من المعاصي، ومنها تحكيمُ الطَّاغوت، {ثم جاؤوك} متعذرين لما صَدَرَ منهم، ويقولون: {إن أردْنا إلَّا إحساناً وتوفيقاً}؛ أي: ما قصدنا في ذلك إلاَّ الإحسان إلى المتخاصمين والتوفيقَ بينهم، وهم كَذَبَةٌ في ذلك؛ فإن الإحسان كل الإحسان تحكيم الله ورسوله، ومَنْ أحسنُ من الله حكماً لقوم يوقنون.
[62] فرمایا ﴿ فَكَـیْفَ ﴾ یعنی ان گمراہوں کا کیا حال ہوتا ہے ﴿ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’جب ان پر ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آ پڑتی ہے‘‘ یعنی گناہ معاصی اور طاغوت کی تحکیم بھی اس میں شامل ہے ﴿ ثُمَّ جَآءُوْكَ ﴾ ’’پھر آپ کے پاس آتے ہیں۔‘‘ یعنی جو کچھ ان سے صادر ہوا اس پر معذرت کرتے ہوئے آپeکے پاس آتے ہیں ﴿ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّتَوْفِیْقًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا۔‘‘ یعنی ہمارا مقصد تو صرف جھگڑے کے فریقین کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کے درمیان صلح کروانا ہے۔ حالانکہ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے ہیں۔ بھلائی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی تحکیم میں ہے ﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾ (المائدۃ : 5؍50) ’’جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کس کا ہے؟‘‘
#
{63} ولهذا قال: {أولئك الذين يعلمُ الله ما في قلوبهم}؛ أي: من النفاق والقصد السيئ؛ {فأعرضْ عنهم}؛ أي: لا تُبال بهم ولا تقابِلْهم على ما فعلوه واقترفوه، {وعِظْهُم}؛ أي: بيِّن لهم حكم الله تعالى مع الترغيب في الانقياد لله والترهيب من تركه، {وقل لهم في أنفسِهم قولاً بليغاً}؛ أي: انصحْهم سِرًّا بينك وبينهم؛ فإنه أنجح لحصول المقصود، وبالغْ في زجرِهم وقَمْعِهِم عمَّا كانوا عليه. وفي هذا دليل على أن مقترفَ المعاصي وإن أُعْرِضَ عنه؛ فإنه يُنصَح سِرًّا ويبالغ في وعظه بما يظنُّ حصول المقصود به.
[63] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے نفاق اور برے مقاصد کو جانتا ہے ﴿ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ ﴾ ’’آپ ان کا کچھ خیال نہ کریں۔‘‘ یعنی ان کی پروا نہ کیجیے اور جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس پر دھیان نہ دیجیے ﴿ وَعِظْهُمْ﴾ ’’اور انھیں نصیحت کریں۔‘‘ یعنی انھیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دیتے ہوئے اور ترک اطاعت پر انھیں ڈراتے ہوئے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم بیان کیجیے ﴿ وَقُ٘لْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا ﴾ ’’اور ان سے وہ بات کیجیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو‘‘ یعنی اپنے درمیان اور ان کے درمیان معاملے کو راز رکھتے ہوئے انھیں نصیحت کیجیے۔ حصول مقصد کے لیے یہ طریقہ زیادہ مفید ہے اور ان کو برائیوں سے روکنے اور زجر و توبیخ میں پوری کوشش سے کام لیجیے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہ گار کے ساتھ اگر اعراض کیا جائے تو پوشیدہ طور پر اس کے لیے خیر خواہی کا اہتمام ضرور کیا جائے اور اس کو نصیحت کرنے میں پوری کوشش سے کام لیا جائے جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکے۔
آیت: 64 - 65 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (64) فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (65)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر یہ کہ اطاعت کیا جائے وہ، اللہ کے حکم سے۔ اور اگر وہ لوگ، جب ظلم کیا انھوں نے اپنی جانوں پر آتے وہ آپ کے پاس، پھر معافی مانگتے وہ اللہ سے اور معافی مانگتا ان کے لیے رسول تو یقینا پاتے وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان(64) قسم ہے آپ کے رب کی، نہیں مومن ہو سکتے وہ یہاں تک کہ حاکم مانیں آپ کو اس چیز میں کہ اختلاف ہو جائے درمیان ان کے، پھر نہ پائیں وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی اس سے جو آپ فیصلہ کر دیں اور تسلیم کر لیں وہ اسے (دل و جان سے) تسلیم کرنا(65)
#
{64} يخبر تعالى خبراً في ضمنِهِ الأمرُ والحثُّ على طاعة الرسول والانقيادِ له، وأنَّ الغاية من إرسال الرسل أن يكونوا مطاعين ينقادُ لهم المرسَل إليهم في جميع ما آمروا به ونَهوا عنه، وأن يكونوا معظَّمين تعظيمَ المطاع للمطيع ، وفي هذا إثبات عصمة الرُّسل فيما يبلِّغونَهُ عن اللهِ وفيما يأمرونَ به ويَنْهَوْنَ عنه؛ لأنَّ الله أمر بطاعتهم مطلقاً؛ فلولا أنهم معصومون لا يشرعون ما هو خطأ؛ لما أمر بذلك مطلقاً. وقوله: {بإذن الله}؛ أي: الطاعة من المطيع صادرة بقضاء الله وقدرِهِ؛ ففيه إثباتُ القضاء والقَدَر، والحثُّ على الاستعانة بالله، وبيان أنَّه لا يمكَّنُ الإنسان إن لم يُعِنْه الله أن يطيع الرسول. ثم أخبر عن كرمِهِ العظيم وجُودِهِ ودعوته لمن اقترف السيِّئات أن يعترِفوا ويتوبوا ويستغفِروا الله، فقال: {ولو أنَّهم إذ ظَلَموا أنفُسَهم جاؤوك}؛ أي: معترفين بذنوبهم باخِعين بها. {فاستَغْفَروا الله واستغفرَ لهم الرسولُ لوجدوا الله توَّاباً رحيماً}؛ أي: لتاب عليهم بمغفرتِهِ ظُلْمَهم ورَحِمَهُم بقَبول التوبة والتوفيق لها والثواب عليها. وهذا المجيء إلى الرسول - صلى الله عليه وسلم - مختصٌّ بحياتِهِ؛ لأنَّ السياق يدلُّ على ذلك؛ لكون الاستغفار من الرسول لا يكون إلاَّ في حياتِهِ، وأمَّا بعد موتِهِ؛ فإنَّه لا يطلب منه شيءٌ، بل ذلك شركٌ.
[64] اللہ تبارک و تعالیٰ اوامر کے ضمن میں اور رسول اللہeکی اطاعت اور فرماں برداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے کی غرض و غایت صرف یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے۔ اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے، حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو انبیاء کرام کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ منصب تشریع میں خطا سے پاک نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ ﴿ بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے فرمان کے مطابق۔‘‘ یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے صادر ہوتی ہے۔ پس اس آیت میں قضا و قدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے نیز اس میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم جود و کرم کا ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ ﴾ ’’اگر یہ لوگ جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے‘‘ یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپeکے پاس آتے۔ ﴿ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابً٘ا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو یقینا یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے ، توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطا کر کے ان پر رحم فرماتا۔ رسول اللہeکی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا۔ کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول(e)کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہو سکتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے، بلکہ یہ شرک ہے۔
#
{65} ثم أقسم تعالى بنفسِهِ الكريمة أنَّهم لا يؤمنون حتَّى يحكِّموا رسولَهُ فيما شَجَرَ بينَهم؛ أي: في كل شيء يحصُلُ فيه اختلافٌ؛ بخلاف مسائل الإجماع؛ فإنَّها لا تكون إلاَّ مستندةً للكتاب والسنَّة، ثم لا يكفي هذا التحكيم حتى ينتفي الحرجُ من قلوبِهِم والضيقُ. وكونُهم يحكِّمونه على وجه الإغماض، ثم لا يكفي هذا التحكيم حتى يسلِّموا لحكمِهِ تسليماً بانشراح صدرٍ وطمأنينةِ نفس وانقيادٍ بالظاهر والباطن؛ فالتحكيم في مقام الإسلام، وانتفاء الحرج في مقام الإيمان، والتسليم في مقام الإحسان؛ فمَن استكمل هذه المراتبَ وكمَّلها؛ فقد استكمل مراتبَ الدِّينِ كلَّها، فمَن ترك هذا التحكيم المذكورَ غير ملتزم له؛ فهو كافر، ومَن تركه مع التزامه؛ فله حكمُ أمثالِهِ من العاصين.
[65] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں اس کے رسول کو حَکَم تسلیم نہ کریں۔ یعنی ہر اس معاملے میں رسول اللہeکو حکم اور فیصل تسلیم کریں جس میں اجماعی مسائل کے برعکس ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع ہو۔ کیونکہ اجماعی مسائل کتاب و سنت کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر اس تحکیم کو تسلیم کرنا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ شرط بھی عائد کی کہ آپ کو حکم تسلیم کرنا محض اغماض کے پہلو سے نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہ ہو۔ اور اس تحکیم کو ہی کافی قرار نہیں دیا جب تک کہ وہ شرح صدر، اطمینان نفس، ظاہری اور باطنی اطاعت کے ساتھ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کر لیں۔ پس آپ کو حکم تسلیم کرنا اسلام کے مقام میں ہے۔ اس تحکیم میں تنگی محسوس نہ کرنا، ایمان کے مقام میں ہے۔ اور آپ کے فیصلے پر تسلیم و رضا احسان کے مقام میں ہے۔ جس کسی نے ان مراتب کو مکمل کر لیا اس نے دین کے تمام مراتب کی تکمیل کر لی۔ اور جس نے اس کا التزام کیے بغیر اس تحکیم کو ترک کر دیا وہ کافر ہے اور جس نے التزام کرنے کے باوجود اس تحکیم کو ترک کر دیا وہ دیگر گناہ گاروں کی مانند ہے۔
آیت: 66 - 68 #
{وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (66) وَإِذًا لَآتَيْنَاهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا (67) وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (68)}.
اور اگر بے شک فرض کر دیتے ہم ان پر یہ کہ قتل کرو تم اپنی جانوں کو یا نکلو تم اپنے گھروں سے تو نہ کرتے وہ یہ کام مگر تھوڑے ان میں سےاور اگر بلاشبہ کر لیتے وہ (وہ کام) کہ نصیحت کیے جاتے ہیں وہ اس کی تو ہوتا بہت بہتر ان کے لیے اور زیادہ ثابت قدم رکھنے والا (دین میں) (66) اور تب ، البتہ دیتے ہم انھیں اپنی طرف سے اجر بہت بڑا(67) اور ضرور چلاتے ہم انھیں راستے سیدھے پر(68)
#
{66} يخبر تعالى أنَّه لو كَتَبَ على عباده الأوامرَ الشاقَّة على النفوس من قتل النفوس والخروج من الدِّيار؛ لم يفعلْه إلا القليلُ منهم والنادرُ؛ فَلْيَحْمَدوا ربَّهم ولْيَشْكُروه على تيسير ما أمَرَهم به من الأوامر التي تَسْهُلُ على كلِّ أحدٍ ولا يشقُّ فعلُها، وفي هذا إشارةٌ إلى أنه ينبغي أن يَلْحَظَ العبدُ ضدَّ ما هو فيه من المكروهات؛ لتخفَّ عليه العباداتُ، ويزدادَ حمداً وشكراً لربِّه. ثم أخبر أنَّهم لو {فعلوا ما يُوعَظونَ به}؛ أي: ما وُظِّفَ عليهم في كلِّ وقتٍ بحسبه، فبذلوا هممهم، ووفَّروا نفوسهم للقيام به وتكميله، ولم تطمح نفوسهم لما لم يَصِلوا إليه، ولم يكونوا بصدده، وهذا هو الذي ينبغي للعبد أن ينظر إلى الحالة التي يلزمُهُ القيام بها، فيكملها، ثم يتدرَّج شيئاً فشيئاً، حتى يصلَ إلى ما قُدِّر له من العلم والعمل في أمر الدين والدُّنيا، وهذا بخلاف من طمحتْ نفسُهُ إلى أمرٍ لم يصلْ إليه ولم يؤمرْ به بعدُ؛ فإنه لا يكاد يصل إلى ذلك بسبب تفريق الهمة وحصول الكسل وعدم النشاط؛ ثم رتَّب ما يحصُلُ لهم على فعل ما يوعظون به، وهو أربعةُ أمورٍ: أحدها: الخيريَّةَ في قوله: {لكان خيراً لهم}؛ أي: لكانوا من الأخيار المتَّصفين بأوصافِهِم من أفعال الخير التي أُمروا بها؛ أي: وانتفى عنهم بذلك صفة الأشرار؛ لأنَّ ثبوت الشيء يستلزم نفي ضدِّه. الثاني: حصول التثبيت والثبات وزيادتُه؛ فإنَّ الله يثبِّتُ الذين آمنوا بسبب ما قاموا به من الإيمان الذي هو القيام بما وُعِظوا به، فيثبِّتُهم في الحياة الدُّنيا عند ورود الفتن في الأوامر والنواهي والمصائب، فيحصُل لهم ثباتٌ يوفَّقون به لفعل الأوامر وترك الزواجر التي تقتضي النفسُ فعلها وعند حلول المصائب التي يكرهها العبدُ، فيوفَّق للتثبيت بالتوفيق للصبر أو للرِّضا أو للشكر، فينزل عليه معونةٌ من الله للقيام بذلك، ويحصُلُ لهم الثبات على الدين عند الموت وفي القبر. وأيضاً؛ فإن العبد القائم بما أمر به لا يزال يتمرَّن على الأوامر الشرعية حتى يألفَها ويشتاقَ إليها وإلى أمثالها فيكون ذلك معونةً له على الثبات على الطاعات.
[66] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کیے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کر سکتے، پس انھیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کیے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہو جائیں۔ تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انھوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انھیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کیے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انھیں حاصل نہ ہو سکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کر لے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں: اول: بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ﴾ ’’البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا‘‘ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہو جاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔ ثانی: ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول ۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب سے، جسے قائم رکھنے کی انھیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انھیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامر و نواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انھیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انھیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندۂ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہو جاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
#
{67} الثالث: قوله: {وإذاً لآتيناهُم من لَدُنَّا أجراً عظيماً}؛ أي: في العاجل والآجل، الذي يكون للروح والقلب والبدن، ومن النعيم المقيم ممَّا لا عينٌ رأت ولا أُذُنٌ سمعتْ ولا خَطَرَ على قلب بشر.
[67] ثالث: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَّاِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّـاۤ٘ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ ’’اور تب تو انھیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں ہم اسے اجر عظیم سے نوازتے جو قلب و روح اور بدن کے لیے ہے اور ایسی ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے طائر خیال کا وہاں سے گزر ہوا ہے۔
#
{68} الرابع: الهدايةُ إلى صراطٍ مستقيم، وهذا عمومٌ بعد خُصوص؛ لشرف الهداية إلى الصراط المستقيم، من كونِها متضمنةً للعلم بالحقِّ ومحبَّتِهِ وإيثارِهِ والعمل به وتوقُّف السعادة والفلاح على ذلك؛ فمن هُدِي إلى صراطٍ مستقيم؛ فقد وُفِّق لكلِّ خير، واندفع عنه كلُّ شَرٍّ وضيرٍ.
[68] رابع: صراط مستقیم کی طرف راہنمائی ۔ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے کیونکہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی شرف کی حامل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدایت حق کے علم کو، حق کے ساتھ محبت اور حق کو ترجیح دینے اور اس پر عمل کرنے کو اور اس پر فلاح و سعادت کے موقوف ہونے کو متضمن ہوتی ہے۔ پس جس کسی کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کر دی گئی اسے گویا ہر بھلائی کی توفیق عطا کر دی گئی اور اس سے ہر برائی اور ہر ضرر کو دور کر دیا گیا۔
آیت: 69 - 70 #
{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (69) ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (70)}.
اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور رسول کی تو یہ لوگ ساتھ ہوں گے ان لوگوں کے کہ انعام کیا اللہ نے ان پر، یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین (کے ساتھ) اور اچھے ہیں یہ لوگ رفیق (ساتھی) کے طور پر(69) یہ فضل ہے اللہ کی طرف سےاور کافی ہے اللہ جاننے والا(70)
#
{69} أي: كلُّ من أطاع الله ورسولَه على حَسَبِ حالِهِ وقَدْرِ الواجب عليه من ذكرٍ وأنثى وصغيرٍ وكبيرٍ؛ {فأولئك مع الذين أنعم الله عليهم}؛ أي: النعمة العظيمة التي تقتضي الكمال والفلاح والسعادة، {من النبيِّين}: الذين فضَّلهم الله بوحيهِ واختصَّهم بتفضيلهم بإرسالهم إلى الخَلْق ودعوتهم إلى الله تعالى. {والصِّدِّيقين}: وهم الذين كَمُلَ تصديقُهم بما جاءت به الرُّسل، فعلموا الحقَّ وصدَّقوه بيقينِهِم وبالقيام به قولاً وعملاً وحالاً ودعوةً إلى الله. {والشُّهداء}: الذين قاتلوا في سبيل الله لإعلاء كلمةِ الله، فقُتِلوا. {والصالحين}: الذين صَلُحَ ظاهرُهم وباطنُهم، فصَلَحَتْ أعمالُهم؛ فكلُّ من أطاع الله تعالى كان مع هؤلاء وفي صحبتهم. {وحَسُنَ أولئك رفيقاً}: بالاجتماع بهم في جنَّات النعيم والأنس بقربِهِم في جوارِ ربِّ العالمين.
[69] یعنی ہر وہ شخص جو اپنے حسب حال، قدر واجب کے مطابق، خواہ مرد ہو یا عورت اور بچہ ہو یا بوڑھا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ﴾ ’’پس یہی وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے فضل کیا‘‘ یعنی ان کو عظیم نعمت سے نوازا، جو کمال ، فلاح اور سعادت کی مقتضی ہے۔ ﴿ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے وحی عطا کر کے فضیلت بخشی اور انھیں خصوصی فضیلت عطا کی کہ ان کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انھوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی ﴿ وَالصِّدِّؔیْقِیْنَ۠ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس وحی کی کامل تصدیق کی جو رسول لے کر آئے تھے۔ انھوں نے حق کو جان لیا اور یقین کامل کے ساتھ اس کی تصدیق کی اور پھر اپنے قول و فعل، حال اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے کر اس حق کو قائم کیا ﴿ وَالشُّهَدَآءِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور قتل کر دیے گئے ﴿ وَالصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ظاہر و باطن درست ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے اعمال درست ہیں۔ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کی صحبت سے بہرہ ور ہو گا ﴿ وَحَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًا﴾ ان مذکورہ اصحاب فضیلت کے ساتھ نعمت والے باغوں میں اکٹھے ہونا اور اللہ رب العالمین کے جوار میں ان اصحاب کی قربت کا انس، ایک اچھی رفاقت ہے۔
#
{70} {ذلك الفضل}: الذي نالوه {من الله}: فهو الذي وفَّقهم لذلكَ وأعانَهم عليه، وأعطاهم من الثواب ما لا تبلُغُه أعمالُهم. {وكفى بالله عليماً}: يعلم أحوالَ عبادِهِ ومن يستحقُّ منهم الثوابَ الجزيلَ بما قام به من الأعمال الصالحةِ التي تواطأ عليها القلبُ والجوارحُ.
[70] ﴿ ذٰلِكَ الْفَضْلُ ﴾ یہ فضیلت جو انھوں نے حاصل کی ہے ﴿ مِنَ اللّٰهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے انھیں اس کی توفیق سے نوازا، اس کے حصول میں ان کی مدد کی اور انھیں اتنا زیادہ ثواب عطا کیا کہ ان کے اعمال وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے ﴿ وَؔ كَ٘فٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا علم رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان میں سے کون ان اعمال صالحہ کے ذریعے سے، جن پر ان کا دل اور اعضاء متفق ہوں، ثواب جزیل (زیادہ اجر) کا مستحق ہے۔
آیت: 71 - 74 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (71) وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا (72) وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَالَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا (73) فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (74)}.
اے ایمان والو! لے لو تم اپنے بچاؤ کا سامان، پس نکلو تم گروہ گروہ یا نکلو تم اکٹھے(71) اور بلاشبہ بعض تم میں سے وہ ہیں جو یقیناً دیر کرتے ہیں (نکلنے میں) پس اگر پہنچے تمھیں کوئی مصیبت تو کہتا ہے، تحقیق انعام کیا اللہ نے مجھ پر کہ نہیں تھا میں ان کے ساتھ حاضر(72) اور البتہ اگر پہنچے تمھیں فضل اللہ کا تو وہ ضرور کہے گا، گویا کہ نہ تھی تمھارے درمیان اور اس کے درمیان کوئی دوستی، کاش کہ ہوتا میں ساتھ ان کے تو حاصل کرتا میں کامیابی بہت بڑی(73) پس چاہیے کہ لڑیں راستے میں اللہ کے، پھر وہ قتل کر دیا جائے یا غالب آجائے تو عنقریب دیں گے ہم اس کو اجر بہت بڑا(74)
#
{71} يأمر تعالى عباده المؤمنين بأخذ حِذْرِهِم من أعدائهم الكافرين، وهذا يَشْمَلُ الأخذ بجميع الأسباب التي بها يُستعان على قتالهم ويُسْتَدْفَع مَكْرُهم وقوَّتُهم؛ من استعمال الحصون والخنادق، وتعلُّم الرمي والرُّكوب، وتعلُّم الصناعات التي تُعينُ على ذلك، وما به يُعْرَفُ مداخِلُهم ومخارِجُهم ومكرُهم، والنفير في سبيل الله، ولهذا قال: {فانفِروا ثُباتٍ}؛ أي: متفرِّقين؛ بأن تنفر سريَّةٌ أو جيشٌ ويقيم غيرهم، {أوِ انفِروا جميعاً}، وكلُّ هذا تَبَعٌ للمصلحة والنِّكاية والراحة للمسلمين في دينهم. وهذه الآية نظيرُ قوله تعالى: {وأعِدُّوا لهم ما استطعتُم من قوَّةٍ}.
[71] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے کفار دشمنوں سے چوکنے رہو۔ یہ حکم ان تمام اسباب کو شامل ہے جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتے ہیں۔ جن کے ذریعے سے دشمن کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جاتا اور اس کی قوت کو توڑا جاتا ہے۔ مثلاً قلعہ بندیوں اور خندقوں کا استعمال، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھنا اور ان تمام صنعتوں کا علم حاصل کرنا جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتا ہے، وہ علوم سیکھنا جن کے ذریعے سے دشمن کے داخلی اور خارجی حالات اور ان کی سازشوں سے باخبر رہا جا سکے۔ اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ ﴾ ’’جماعت جماعت ہوکر نکلا کرو۔‘‘ یعنی متفرق ہو کر جہاد کے لیے نکلو اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جماعت یا لشکر جہاد کے لیے نکلے اور دیگر لوگ مقیم رہیں ﴿ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا ﴾ ’’یا تمام کے تمام جہاد کے لیے نکلو۔‘‘ یہ سب کچھ مصلحت، دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور دین میں مسلمانوں کی راحت کے تابع ہے۔ اس آیت کریمہ کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُ٘وَّ٘ةٍ ﴾ (الانفال : 8؍60) ’’جہاں تک ہو سکے دشمن کے مقابلہ کے لیے فوجی قوت تیار کرو۔‘‘
#
{72} ثم أخبر عن ضعفاء الإيمان المتكاسِلين عن الجهاد فقال: {وإنَّ منكُم}؛ أي: أيُّها المؤمنون، {لمن لَيُبَطِّئَنَّ}؛ أي: يتثاقل عن الجهاد في سبيل الله ضعفاً وخَوَراً وجُبناً. هذا الصحيح، وقيل: معناه لَيُبَطِّئَنَّ غَيْرَهُ؛ أي: يزهِّده عن القتال، وهؤلاء هم المنافقون، ولكنَّ الأول أولى لوجهين: أحدهما: قولُه: {منكم}، والخطاب للمؤمنين. والثاني: قوله في آخر الآية: {كأن لم تَكُن بينَكُم وبينَه مودَّةٌ}؛ فإنَّ الكفَّار من المشركين والمنافقين قد قَطَعَ الله بينَهم وبينَ المؤمنين المودَّةَ. وأيضاً؛ فإنَّ هذا هو الواقع؛ فإنَّ المؤمنين على قسمين: صادقون في إيمانِهِم أوْجَبَ لهم ذلك كمالَ التصديق والجهاد. وضعفاءُ دخلوا في الإسلام فصار معهم إيمانٌ ضعيفٌ لا يقوى على الجهادِ؛ كما قال تعالى: {قالتِ الأعرابُ آمَنَّا قُلْ لم تُؤْمِنوا ولكن قولوا أسْلَمْنا ... } إلى آخر الآيات. ثم ذَكَرَ غاياتِ هؤلاء المتثاقلين ونهاية مقاصدهم، وأنَّ معظم قصدِهم الدُّنيا وحطامها، فقال: {فإنْ أصابَتْكم مصيبةٌ}؛ أي: هزيمةٌ وقتلٌ وظَفِر الأعداء عليكم في بعض الأحوال لِمَا لِلَّهِ في ذلك من الحِكَمِ، {قال} ذلك المتخلِّف: {قد أنعم الله عليَّ إذ لم أكُن معهم شهيداً}: رأى من ضَعْف عقلِهِ وإيمانِهِ أنَّ التقاعُدَ عن الجهادِ الذي فيه تلك المصيبةُ نعمةٌ، ولم يدرِ أن النعمة الحقيقيَّةَ هي التوفيق لهذه الطاعة الكبيرة التي بها يَقْوى الإيمانُ ويَسْلَم بها العبدُ من العقوبة والخسران، ويحصُلُ له فيها عظيمُ الثواب ورضا الكريم الوهَّاب، وأما القعود؛ فإنه وإن استراح قليلاً؛ فإنَّه يَعْقُبُه تعبٌ طويلٌ وآلامٌ عظيمةٌ، ويفوتُهُ ما يحصُلُ للمجاهدين.
[72] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو کاہلی کی بنا پر جہاد سے جی چراتے ہیں۔ ﴿ وَاِنَّ مِنْكُمْ لَ٘مَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ ﴾ ’’اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ عمداً دیر لگاتا ہے۔‘‘ یعنی اے اہل ایمان! تم میں سے بعض لوگ کمزوری، سستی اور بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں، کہ وہ دوسروں کو جہاد کے لیے نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے منافق تھے لیکن پہلے معنی دو لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں۔ اول: اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ مِنْكُمْ ﴾ ’’تم میں سے‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ ثانی: آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ كَاَنْ لَّمْ تَكُ٘نْۢ بَیْنَؔكُمْ وَبَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ ﴾ ’’گویا کہ تمھارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، منافقین اور اہل ایمان کے مابین محبت اور مودت کو منقطع کر دیا۔ نیز یہ فی الواقع ایسے ہی ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان کی دو قسمیں ہیں: (۱) وہ لوگ جو اپنے ایمان میں سچے ہیں، یہ صدق ایمان ان کے لیے کامل تصدیق اور جہاد کا موجب ہوتا ہے۔ (۲) وہ کمزور لوگ جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں مگر وہ کمزور ایمان کے مالک ہوتے ہیں جہاد پر نکلنے کے لیے قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُ٘لْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا …﴾ (الحجرات : 49؍14) ’’عرب دیہاتی کہتے ہیں : ہم ایمان لائے۔ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد میں نہ نکلنے والوں کی غرض و غایت اور ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کا سب سے بڑا مقصد دنیا اور اس کے چند ٹکڑے ہیں۔ ﴿ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ ﴾ ’’پھر اگر تمھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے‘‘ یعنی اگر تمھیں ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے، اہل ایمان قتل ہوتے ہیں اور بعض حالات میں دشمن ظفریاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کچھ حکمت ہوتی ہے ﴿ قَالَ ﴾ یعنی جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہنے والا کہتا ہے ﴿ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُ٘نْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھا‘‘ وہ اپنی ضعف عقل اور ضعف ایمان کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا نعمت ہے حالانکہ یہی تو مصیبت ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ حقیقی نعمت تو اس بڑی نیکی کی توفیق ہے جس کے ذریعے سے ایمان قوی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب اور خسران سے محفوظ ہوتا ہے اور اس جہاد میں ثواب اور رب کریم و وہاب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔رہا جہاد چھوڑ کر بیٹھ رہنا تو اگرچہ پیچھے بیٹھ رہنے والا تھوڑا سا آرام تو کر لیتا ہے مگر اس آرام کے بعد طویل دکھ اور بہت بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ اس عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے جو مجاہدین کو حاصل ہوتا ہے۔
#
{73} ثم قال: {ولئن أصابَكُم فضلٌ من الله}؛ أي: نصرٌ وغنيمةٌ، {ليقولَنَّ كأن لم تكن بينَكم وبينَه مودَّةٌ يا ليتني كنتُ معهم فأفوزَ فوزاً عظيماً}؛ أي: يتمنَّى أنه حاضرٌ لينال من المغانم، ليس له رغبةٌ ولا قصدٌ في غير ذلك، كأنه ليس منكم يا معشر المؤمنين، ولا بينكم وبينه المودَّة الإيمانيَّةُ الذي من مقتضاها أنَّ المؤمنين مشتركون في جميع مصالحهم ودفع مضارِّهم، يفرَحون بحصولها ولو على يدِ غيرِه من إخوانه المؤمنين ويألمون بفَقْدِها ويسعَوْن جميعاً في كلِّ أمرٍ يُصْلِحون به دينَهم ودُنياهم، فهذا الذي يتمنَّى الدُّنيا فقط ليست معه الرُّوح الإيمانيَّة المذكورة.
[73] پھر فرمایا ﴿ وَلَىِٕنْ اَصَابَكُمْ فَضْ٘لٌ مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اگر تمھیں اللہ کا کوئی فضل مل جائے‘‘ یعنی فتح و نصرت اور مال غنیمت ﴿ لَیَقُوْلَ٘نَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُ٘نْۢ بَیْنَؔكُمْ وَبَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾ ’’تو اس طرح ہے کہ گویا تم میں، اس میں دوستی تھی ہی نہیں، (افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرلیتا۔‘‘ یعنی وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوتا تاکہ وہ بھی مال غنیمت حاصل کر سکتا۔ مال غنیمت کے سوا اس کا کوئی مقصد ہے نہ اس کے سوا کسی اور چیز میں رغبت ہے۔ اے مسلمانوں کے گروہ! وہ گویا تم میں سے نہیں ہیں اور نہ ان کے درمیان اور تمھارے درمیان رشتہء ایمان کی مودت و محبت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مومنین اپنے مفادات و مصالح اور دفع ضرر میں مشترک ہیں۔ وہ اس کے حصول پر خوش ہوتے ہیں خواہ یہ مفاد و مصلحت مومن بھائیوں میں سے کسی کے ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں۔ اس سے محرومی پر دکھ محسوس کرتے ہیں اور جس میں ان کے دین اور دنیا کی اصلاح ہو، اس کے حصول کے لیے سب مل کر کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ فقط دنیا کی تمنا کرتا ہے اور مذکورہ روح ایمانی سے تہی دست ہوتا ہے ۔
#
{74} ومن لُطف الله بعباده أن لا يَقْطَعَ عنهم رحمتَه، ولا يغلقَ عنهم أبوابها، بل من حصل على غير ما يليق؛ أمرَه ودعاه إلى جبر نقصِهِ وتكميل نفسِهِ، فلهذا أمر هؤلاء بالإخلاص والخروج في سبيلهِ، فقال: {فَلْيُقاتِلْ في سبيل الله الذين يَشْرونَ الحياة الدُّنيا بالآخرة}؛ هذا أحد الأقوال في هذه الآية وهو أصحها، وقيل إن معناه فليقاتل في سبيل الله المؤمنون الكاملو الإيمان الصادقون في إيمانهم {الذين يشرون الحياة الدنيا بالآخرة}؛ أي: يبيعون الدُّنيا رغبةً عنها بالآخرة رغبةً فيها؛ فإنَّ هؤلاء [هم] الذين يوجَّه إليهم الخطاب؛ لأنهم الذين قد أعدُّوا أنفسَهم ووطَّنوها على جهاد الأعداء؛ لما معهم من الإيمان التامِّ المقتضي لذلك، وأمَّا أولئك المتثاقلون؛ فلا يُعبأ بهم خرجوا أو قعدوا، فيكون هذا نظيرَ قوله تعالى: {قل آمنوا به أو لا تؤمنوا إنَّ الذين أوتوا العلم من قبلِهِ إذا يُتْلى عليهم يَخِرُّونَ للأذقان سُجَّداً ... } إلى آخر الآيات، وقوله: {فإن يَكْفُر بها هؤلاء فقد وَكَّلْنا بها قوماً ليسوا بها بكافرينَ}. وقيل: إن معنى الآية: فليقاتل المقاتِلُ والمجاهدُ للكفار الذين يَشْرون الحياةَ الدُّنيا بالآخرةِ، فيكون على هذا الوجه. {الذين} في محلِّ نصب على المفعولية، {ومَن يقاتِلْ في سبيل الله}: بأن يكونَ جهاداً قد أمر الله به ورسولُهُ، ويكون العبد مخلصاً لله فيه قاصداً وجه الله، {فَيُقْتَلْ أو يَغْلِبْ فسوف نُؤْتيهِ أجراً عظيماً}: زيادةً في إيمانِهِ ودينِهِ وغنيمةً وثناءً حسناً وثواب المجاهدين في سبيل الله الذين أعدَّ الله لهم في الجنة ما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خَطَرَ على قلب بشرٍ.
[74] یہ بندوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ ان پر اپنی رحمت کا سلسلہ منقطع کرتا ہے، نہ اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کرتا ہے بلکہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو اس کے حکم کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ اسے اپنے نقصان کی تلافی کرنے اور اپنے نفس کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اخلاص اور اللہ کی راہ میں نکلنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا ﴿ فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’پس چاہیے کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچتے ہیں‘‘ یہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں چند اقوال میں سے ایک قول ہے اور سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا چاہیے جو اپنے ایمان میں کامل اور صدق کے حامل ہیں۔ ﴿ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ﴾ یعنی آخرت میں رغبت رکھتے ہیں دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ ہے کیونکہ انھوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تیار کر کے عادی بنا لیا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان کامل کے حامل ہیں جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو جہاد کے لیے نہیں اٹھتے تو یہ لوگ جہاد کے لیے نکلیں یا گھر بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ قُ٘لْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ۤ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍107) ’’کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔‘‘ آیات کے آخر تک۔ نیز اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ ﴿ فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَؔكَّؔلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ﴾ (الانعام : 6؍89) ’’اگر یہ کفار اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس پر ایمان لانے کے لیے کچھ ایسے لوگوں کومقرر کر دیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں۔‘‘ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ لڑائی کرنے والے مجاہد کو کفار کے خلاف لڑنا چاہیے جنھوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔ تب اس صورت میں آیت کریمہ میں موجود لفظ (اَلَّذِیْنَ) مفعول ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو لڑتا ہے اللہ کے راستے میں‘‘ یعنی یہ جہاد ہو جس کا اللہ اور اس کے رسولeنے حکم دیا ہے اور بندہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اس کی رضا کا قصد رکھتا ہو ﴿ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’پس وہ قتل کر دیا جائے یا غالب آجائے، ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے‘‘ یعنی یہ اجر ان کے دین و ایمان میں اضافہ، مال غنیمت اور ثنائے حسن کی صورت میں عطا ہو گا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ ثواب تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کا کبھی گزر ہوا۔
آیت: 75 #
{وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (75)}.
اور کیا ہے تمھیں کہ نہیں لڑتے تم راستے میں اللہ کے اور ان لوگوں کی خاطر جو کمزور ہیں مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے؟ وہ جو کہتے ہیں، اے ہمارے رب! نکال ہمیں اس بستی سے کہ ظالم ہیں اس کے باشندے اور کر دے ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حمایتی اور کر دے ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار(75)
#
{75} هذا حثٌّ من الله لعبادِهِ المؤمنين وتهييجٌ لهم على القتال في سبيله، وأنَّ ذلك قد تعيَّن عليهم وتوجَّه اللوم العظيم عليهم بتركِهِ، فقال: {وما لكم لا تقاتِلون في سبيل اللهِ}؛ والحالُ أنَّ المستضعفين من الرجال والنساءِ والولدان الذين لا يستطيعونَ حيلةً ولا يهتدونَ سبيلاً، ومع هذا فقد نالهم أعظم الظُّلم من أعدائهم؛ فهم يدعون الله أن يخرِجَهم من هذه القريةِ الظالم أهلُها لأنفسهم بالكفرِ والشركِ، وللمؤمنينَ بالأذى والصدِّ عن سبيل الله، ومنعِهِم من الدعوة لدينهم والهجرة، ويدعونَ الله أن يجعلَ لهم وليًّا ونصيراً يستنقِذُهم من هذه القرية الظالم أهلُها، فصار جهادُكم على هذا الوجه من باب القتال والذَّبِّ عن عَيْلاتِكم وأولادِكم ومحارِمِكم؛ لأنَّ بابَ الجهادِ الذي هو الطمعُ في الكفارِ؛ فإنه وإن كان فيه فضلٌ عظيمٌ ويُلامُ المتخلِّفُ عنه أعظم اللوم ؛ فالجهادُ الذي فيه استنقاذُ المستضعفينَ منكُم أعظمُ أجراً وأكبرُ فائدةً بحيث يكونُ من باب دفع الأعداءِ.
[75] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے اس کی راہ میں جہاد کی ترغیب ہے نیز یہ کہ جہاد ان پر فرض کر دیا گیا ہے اور ترک جہاد ان کے لیے بہت بڑی ملامت کا باعث ہو گا۔ ﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں لڑتے نہیں؟‘‘ اور حال یہ ہے کہ مستضعفین مرد، عورتیں اور بچے جن کے پاس کوئی چارہ ہے نہ ان کے پاس آزادی حاصل کرنے کا کوئی راستہ اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں دشمنوں کے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ ان کو اس بستی سے نکالے جس کے باشندے کفر و شرک کے ارتکاب کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اہل ایمان کو اذیتیں دے کر، ان کو اللہ کے راستے سے روک کر اور انھیں دعوت دین اور ہجرت سے منع کر کے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کا کوئی ولی اور مددگار مقرر فرما دے جو انھیں اس ظالم بستی سے نکال لے جائے۔ تب اس صورت میں جہاد تمھارے بچوں، عورتوں اور تمھاری عزت و ناموس کے دفاع کے زمرے میں شمار ہو گا۔ کیونکہ جہاد تو وہ ہے جس میں کفار کے مقابلے کی خواہش ہو۔ جہاد کی اگرچہ بہت بڑی فضیلت ہے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر ملامت ہے۔ تاہم وہ جہاد جس کے ذریعے سے اہل ایمان مستضعفین کو کفار سے نجات دلائی جاتی ہے اجر و ثواب کے اعتبار سے سب سے عظیم اور فائدے کے لحاظ سے سب سے بڑا جہاد ہے کیونکہ یہ دشمنوں سے دفاع کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
آیت: 76 #
{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (76)}.
وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ لڑتے ہیں راستے میں اللہ کےاور وہ جنھوں نے کفر کیا، وہ لڑتے ہیں راستے میں شیطان کے، پس لڑو تم دوستوں سے شیطان کے، بلاشبہ مکر شیطان کا ہے نہایت کمزور(76)
#
{76} هذا إخبارٌ من الله بأنَّ المؤمنين يقاتِلون في سبيله، {والذين كفروا يقاتِلونَ في سبيل الطَّاغوت} الذي هو الشيطانُ. في ضمن ذلك عدة فوائد: منها: أنه بحَسَبِ إيمان العبد يكون جهاده في سبيل الله وإخلاصُه ومتابعته، فالجهادُ في سبيل الله من آثار الإيمان ومقتضياتِهِ ولوازمِهِ؛ كما أنَّ القتالَ في سبيل الطاغوت من شُعَبِ الكفر ومقتضياتِهِ. ومنها: أن الذي يقاتل في سبيل الله ينبغي له ويَحْسُنُ منه من الصبر والجَلَدِ ما لا يقوم به غيره؛ فإذا كان أولياء الشيطان يصبِرون ويقاتِلون وهم على باطل؛ فأهل الحقِّ أولى بذلك؛ كما قال تعالى في هذا المعنى: {إن تكونوا تألمونَ فإنَّهم يألَمونَ كما تَألَمونَ وترجُون من اللهِ ما لا يَرجونَ ... } الآية. ومنها: أن الذي يقاتِلُ في سبيل الله معتمداً على ركنٍ وثيقٍ، وهو الحقُّ والتوكُّل على الله؛ فصاحب القوة والرُّكن الوثيق يُطْلَبُ منه من الصبر والثَّبات والنشاط ما لا يُطْلَبُ مِمَّن يقاتِل عن الباطل الذي لا حقيقة له ولا عاقبة حميدة؛ فلهذا قال تعالى: {فقاتِلوا أولياءَ الشَّيطانِ إنَّ كيدَ الشيطانِ كان ضعيفاً}؛ والكيدُ سلوكُ الطرق الخفيَّة في ضرر العدو؛ فالشيطانُ وإن بَلَغَ مكرُهُ مهما بَلَغَ؛ فإنه في غاية الضَّعْفِ الذي لا يقوم لأدنى شيءٍ من الحقِّ ولا لكيدِ الله لعبادِهِ المؤمنين.
[76] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ اہل ایمان اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ ﴾ ’’اور کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ اس آیت سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (۱) بندۂ مومن کے ایمان، اس کے اخلاص اور اس کی اتباع رسولeکے مطابق، اس کا جہاد اللہ کے راستے میں جہاد شمار ہوتا ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے آثار، اس کے مقتضیات اور اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسے طاغوت کی راہ میں لڑنا کفر اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔ (۲) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے صبر و استقلال سے کام لے جس کا مظاہرہ دیگر لوگ نہیں کر سکتے۔ جب اولیائے شیطان لڑائی کرتے ہیں اور لڑائی میں صبر سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہ اہل باطل ہیں۔ تب اہل حق کو تو صبر و استقلال سے زیادہ کام لینا چاہیے جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ﴾ (النساء : 4؍104) ’’اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو جس طرح تمھیں تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح ان کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ البتہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ (۳) وہ بندۂ مومن جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے پاس ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے حق اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ اس مضبوط اور صاحب قوت ہستی سے صبر و ثبات اور نشاط طلب کیے جاتے ہیں۔ جبکہ باطل کے راستے میں لڑنے والے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کا کوئی قابل تعریف انجام ہے یہ صبر و ثبات کہیں سے طلب نہیں کر سکتے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَؔ الشَّ٘یْطٰ٘نِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ كَانَ ضَعِیْفًا﴾ ’’تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو یقینا شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔‘‘ (کید) سے مراد وہ خفیہ چال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ شیطان کی چال خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، بہرحال وہ انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ نہ وہ اس چال کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے چلتا ہے۔
آیت: 77 - 79 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا (77) أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی کہ کہا گیا ان سے، روکے رکھو تم اپنے ہاتھ اور قائم کرو نماز اور دو تم زکاۃ، پھر جب لکھ دیا (فرض کر دیا) گیا ان پر لڑنا، تب ایک فریق ان میں سے ڈرتا تھا وہ لوگوں سے، مانند ڈرنے کے اللہ سے یا اس سے بھی زیادہ سخت ڈرنااور کہا انھوں نے، اے ہمارے رب! کیوں لکھا (فرض کیا) تونے ہم پر لڑنا؟ کیوں نہ مہلت دی تونے ہمیں ایک مدت قریب تک؟ کہہ دیجیے! فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے اس کے لیے جس نے تقویٰ اختیار کیا اور نہ ظلم کیے جاؤ گے تم تاگے برابر(77) جہاں کہیں بھی ہوگے تم! پا لے گی تمھیں موت خواہ ہو تم قلعہ ہائے مضبوط میں اور اگر پہنچے ان کو کوئی بھلائی تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر پہنچے ان کو کوئی برائی (تکلیف) تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے، کہہ دیجیے! سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، پس کیا حال ہے ان لوگوں کا؟ نہیں قریب کہ سمجھیں بات کو(78) جو پہنچے (اے انسان!) تجھ کو کوئی بھلائی تو (وہ) اللہ کی طرف سے ہے اور جو پہنچے تجھ کو برائی (تکلیف) تو (وہ) تیری اپنی طرف سے ہےاور بھیجا ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے رسول بنا کراور کافی ہے اللہ گواہ(79)
#
{77} كان المسلمون إذ كانوا بمكَّة مأمورين بالصَّلاة والزَّكاة؛ أي: مواساة الفقراء، لا الزكاة المعروفة ذات النُّصُب والشُّروط؛ فإنها لم تُفْرَضْ إلاَّ بالمدينة، ولم يؤمروا بجهاد الأعداء لعدَّة فوائدَ: منها: أن من حكمة الباري تعالى أن يَشْرَعَ لعبادِهِ الشرائعَ على وجهٍ لا يشقُّ عليهم، ويبدأ بالأهمِّ فالأهمِّ والأسهل فالأسهل. ومنها: أنه لو فُرِضَ عليهم القتالُ مع قلَّة عَددهم وعُددهم وكثرة أعدائهم؛ لأدَّى ذلك إلى اضمحلال الإسلام، فَرُوعِيَ جانبُ المصلحة العُظمى على ما دونِها. ولغير ذلك من الحكم. وكان بعض المؤمنين يودُّون أن لو فُرِضَ عليهم القتالُ في تلك الحال غير اللائق فيها ذلك، وإنما اللائقُ فيها القيامُ بما أمِروا به في ذلك الوقت من التوحيد والصَّلاة والزَّكاة ونحو ذلك؛ كما قال تعالى: {ولو أنَّهم فَعَلوا ما يُوعَظونَ به لكان خيراً لهم وأشدَّ تَثْبيتاً}، فلمَّا هاجروا إلى المدينة وقَوِيَ الإسلام؛ كُتِبَ عليهم القتال في وقته المناسب لذلك، فقال فريقٌ من الذين يستعجِلون القتال قبل ذلك خوفاً من الناس وضعفاً وخَوَراً: {ربَّنا لِمَ كَتَبْتَ علينا القتالَ}؟ وفي هذا تضجُّرهم واعتراضُهم على الله، وكان الذي ينبغي لهم ضدَّ هذه الحال؛ التسليمَ لأمر الله والصبرَ على أوامره، فعكسوا الأمر المطلوبَ منهم، فقالوا: {لولا أخَّرْتنا إلى أجلٍ قريبٍ}؛ أي: هلاَّ أخَّرْتَ فرضَ القتال مدةً متأخِّرةً عن الوقت الحاضر، وهذه الحال كثيراً ما تعرِضُ لمن هو غير رزينٍ واستعجل في الأمور قبلَ وَقْتِها؛ فالغالبُ عليه أنَّه لا يصبِرُ عليها وقت حُلولها ولا ينوءُ بِحَمْلِها، بل يكونُ قليل الصبرِ. ثم إنَّ الله وَعَظَهم عن هذه الحال التي فيها التخلُّف عن القتال، فقال: {قُلْ متاعُ الدُّنيا قليلٌ والآخرةُ خيرٌ لِمَن اتَّقى}؛ أي: التمتُّع بلذَّات الدُنيا وراحتها قليلٌ، فَتَحَمُّل الأثقال في طاعة الله في المدَّة القصيرة مما يَسْهُلُ على النفوس ويَخِفُّ عليها؛ لأنها إذا عَلِمَتْ أنَّ المَشَقَّة التي تنالها لا يطول لُبثها؛ هان عليها ذلك؛ فكيف إذا وازنتْ بين الدُّنيا والآخرة، وأنَّ الآخرة خيرٌ منها في ذاتها ولَذَّاتها وزمانها؛ فذاتُها كما ذَكَرَ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - في الحديث الثابت عنه: «إنَّ موضعَ سَوْطٍ في الجنة خيرٌ من الدُّنيا وما فيها» ، ولَذَّاتُها صافيةٌ عن المكدِّرات، بل كلُّ ما خَطَرَ بالبال أو دار في الفكر من تصوُّرِ لَذَّةٍ؛ فَلَذَّةُ الجنة فوقَ ذلك؛ كما قال تعالى: {فلا تعلمُ نفسٌ ما أخفي لهم من قُرَّةِ أعين}، وقال الله على لسان نبيِّه: «أعددتُ لعبادي الصالحين ما لا عينٌ رأت ولا أُذنٌ سمعتْ ولا خَطَرَ على قلب بشر». وأما لَذَّات الدُّنيا؛ فإنَّها مشوبةٌ بأنواع التنغيص الذي لو قُوبِلَ بين لَذَّاتها وما يقترنُ بها من أنواع الآلام والهُموم والغُموم؛ لم يكن لذلك نسبةٌ بوجهٍ من الوجوه. وأما زمانُها؛ فإنَّ الدُّنيا منقضيةٌ وعمر الإنسان بالنسبة إلى الدُّنيا شيءٌ يسيرٌ، وأما الآخرةُ؛ فإنها دائمة النعيم، وأهلُها خالدون فيها؛ فإذا فكَّر العاقل في هاتين الدارين، وتصوَّر حقيقتهما حقَّ التصوُّر؛ عَرَفَ ما هو أحقُّ بالإيثار والسَّعْي له والاجتهادِ لطلبِهِ، ولهذا قال: {والآخرةُ خيرٌ لمنِ اتَّقى}؛ أي: اتَّقى الشرك وسائر المحرمات. {ولا تُظْلَمون فتيلاً}؛ أي: فسعيُكم للدار الآخرة ستجدونه كاملاً موفراً غير منقوص منه شيئاً. {78} ثم أخبر أنه لا يُغني حذرٌ عن قدرٍ، وأنَّ القاعد لا يدفع عنه قعودُه شيئاً، فقال: {أينما تكونوا يدرككم الموتُ}؛ أي: في أيِّ زمان وأيِّ مكان. {ولو كنتُم في بروجٍ مُشَيَّدة}؛ أي: قصورٍ منيعةٍ ومنازل رفيعةٍ. وكلُّ هذا حثٌّ على الجهاد في سبيل الله؛ تارةً بالترغيب في فضلِهِ وثوابِهِ، وتارةً بالترهيبِ من عقوبةِ تركِهِ، وتارةً بالإخبارِ أنَّه لا ينفع القاعدين قعودُهم، وتارةً بتسهيل الطريق في ذلك وقصرها. ثم قال: {وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (78) مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (79)}. {78} يخبر تعالى عن الذين لا يعلمونَ، المعرضينَ عمَّا جاءت به الرسلُ، المعارضين لهم أنَّهم إذا جاءتهم حسنةٌ؛ أي: خِصْبٌ وَكَثْرَةُ أموال وتوفُّر أولاد وصحة؛ قالوا: {هذه من عند الله}، وأنَّهم إن أصابتهم سيئةٌ؛ أي: جدبٌ وفقرٌ ومرضٌ وموتُ أولادٍ وأحبابٍ؛ قالوا: {هذه من عندك}؛ أي: بسبب ما جئتنا به يا محمد! تطيَّروا برسول الله - صلى الله عليه وسلم - كما تطيَّر أمثالُهم برسل الله؛ كما أخبر الله عن قوم فرعون أنهم: {إذا جاءتْهُمُ الحسنةُ قالوا لنا هذه وإن تُصِبْهم سيئةٌ يَطَّيَّروا بموسى ومن معهُ}، وقال قومُ صالح: {قالوا اطَّيَّرْنا بك وبَمن معكَ}، وقال قومُ يس لرسلهم: {إنَّا تطيَّرنا بكم لئن لم تَنتَهوا لَنَرْجُمَنَّكم ... } الآية، فلما تشابهتْ قلوبهم بالكفر؛ تشابهتْ أقوالهم وأفعالهم ، وهكذا كلُّ من نَسَبَ حصولَ الشَّرِّ أو زوالَ الخيرِ لما جاءت به الرُّسُل أو لبعضِهِ؛ فهو داخلٌ في هذا الذَّمِّ الوخيم. قال الله في جوابهم: {قل كلٌّ}؛ أي: من الحسنة والسيئة والخير والشر، {من عندِ الله}؛ أي: بقضائِهِ وقَدَرِهِ وخَلْقِهِ. {فمال هؤلاء القوم}؛ أي: الصادر منهم تلك المقالةُ الباطلة، {لا يكادونَ يفقهونَ حديثاً}؛ أي: لا يفهمون حديثاً بالكُلِّيَّة ولا يَقْرَبون من فهمِهِ أو لا يفهمون منه إلاَّ فهماً ضعيفاً. وعلى كلٍّ فهو ذمٌّ لهم وتوبيخ على عدم فهمهم وفقههم عن الله وعن رسوله، وذلك بسبب كفرهم وإعراضهم. وفي ضمن ذلك مدح مَن يَفْهَمُ عن الله وعن رسوله، والحثُّ على ذلك وعلى الأسباب المعينة على ذلك من الإقبال على كلامِهِما، وتدبُّره وسلوك الطرق الموصلة إليه؛ فلو فَقِهوا عن الله؛ لعلموا أنَّ الخير والشرَّ والحسنات والسيئات كلَّها بقضاء الله وقَدَره، لا يخرج منها شيء عن ذلك، وأنَّ الرسل عليهم الصلاة والسلام لا يكونون سبباً لشرٍّ يحدُث. لا هم ولا ما جاؤوا به؛ لأنَّهم بُعِثوا بمصالح الدُّنيا والآخرة والدين. {79} ثم قال تعالى: {ما أصابك من حسنة}؛ أي: في الدين والدنيا {فمن الله}: هو الذي مَنَّ بها ويَسَّرَها بتيسير أسبابها، {وما أصابك من سيِّئة}: في الدِّين والدُّنيا {فمن نفسِكَ}؛ أي: بذنوبك وكسبك وما يعفو الله عنه أكثر؛ فالله تعالى قد فَتَحَ لعبادِهِ أبوابَ إحسانِهِ وأمَرَهم بالدُّخول لبرِّهِ وفضلِهِ، وأخبرهم أنَّ المعاصي مانعةٌ من فضلِهِ؛ فإذا فَعَلَها العبد؛ فلا يلومنَّ إلاَّ نفسَه؛ فإنَّه المانعُ لنفسِهِ عن وصول فضل اللهِ وبِرِّهِ. ثم أخبر عن عموم رسالةِ رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، فقال: {وأرسلناكَ للنَّاسِ رسولاً وكفى باللهِ شهيداً}: على أنك رسولُ الله حَقًّا بما أيَّدك بنصرِهِ والمعجزاتِ الباهرة والبراهين الساطعةِ؛ فهي أكبر شهادةً على الإطلاق؛ كما قال تعالى: {قلْ أيُّ شيءٍ أكبرُ شهادةً قل اللهُ شهيدٌ بيني وبينَكم}؛ فإذا علم أنَّ الله تعالى كامل العلم تامُّ القدرة عظيم الحكمة وقد أيَّد اللهُ رسولَه بما أيَّده ونَصَرَهُ نصراً عظيماً؛ تيقَّن بذلك أنَّه رسولُ الله، وإلاَّ؛ فلو تقوَّل عليه بعضَ الأقاويل؛ لأخذ منه باليمينِ ثم لَقَطَعَ منه الوتينَ.
[77] جب مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے تو انھیں نماز اور زکٰوۃ کا حکم دیا گیا تھا۔ یعنی محتاجوں کی غمگساری کرنا۔ اور اس سے مراد وہ معروف زکٰوۃ نہیں جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق اور مخصوص شرائط کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یہ زکٰوۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی تھی اسی طرح اس وقت تک متعدد فوائد کی بنا پر جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ مثلاً: (۱) اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں پر شریعت کے احکام اس طرح فرض کرے کہ وہ ان پر شاق نہ گزریں۔ سب سے پہلے اہم ترین امر کا حکم دے، پھر آسان امور سے ابتدا کر کے بتدریج مشکل امور کا حکم دے۔ (۲) اگر اہل ایمان پر ان کی قلت تعداد و قلت سامان اور کثرت اعداء کے باوجود قتال فرض کر دیا جاتا تو یہ چیز اسلام کو مضمحل کر دیتی۔ اس لیے چھوٹی مصلحت کو نظر انداز کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی گئی اور اس میں اس قسم کی دیگر حکمتیں تھیں۔ بعض اہل ایمان چاہتے تھے کہ اس حال میں بھی ان پر قتال فرض کر دیا جاتا۔ مگر ان حالات میں ان پر جہاد فرض کیا جانا مناسب نہ تھا۔ اس وقت ان لوگوں کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ توحید، نماز، زکٰوۃ اور اس نوع کے دیگر احکام پر عمل کرتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِیْتًا﴾ (النساء : 4؍66) ’’اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور دین میں زیادہ ثابت قدمی اور استقامت کا باعث ہوتا۔‘‘ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور اسلام قوی ہو گیا تو مناسب وقت پر ان پر قتال فرض کر دیا گیا۔وہ لوگ جو اس سے قبل قتال فرض ہونے کے لیے جلدی مچاتے تھے ان میں سے ایک گروہ نے لوگوں کے خوف، کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے کہا۔ ﴿ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ ﴾ ’’اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟‘‘ ان الفاظ سے ان کی تنگ دلی اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ ان کے لیے مناسب حال یہ تھا کہ وہ اس سے متضاد رویہ کا اظہار کرتے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے اوامر پر صبر کرنا، مگر جو کچھ ان سے مطلوب تھا انھوں نے اس کے برعکس کیا۔ پس انھوں نے کہا ﴿ لَوْلَاۤ اَخَّ٘رْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَ٘رِیْبٍ ﴾ ’’تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔‘‘ یعنی تو نے قتال کی فرضیت کچھ عرصہ اور متاخر کیوں نہ کر دی۔ غالب طور پر اس قسم کی صورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو غیر سنجیدہ ہوتے ہیں اور تمام امور میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا غالب رویہ یہ ہوتا ہے کہ ان امور کے نازل ہونے پر یہ لوگ صبر نہیں کر سکتے۔ یہ امور ان کے لیے بوجھل تو نہیں مگر یہ لوگ بہت ہی کم صبر سے بہرہ ور ہیں۔ جن حالات میں وہ جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہے ان سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت کی چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّ٘مَنِ اتَّ٘قٰى ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے دنیا کا فائدہ تو بہت ہی کم ہے اور آخرت اس شخص کے لیے بہتر ہے جو متقی ہے‘‘ یعنی دنیا کی لذت اور راحت سے فائدہ اٹھانا بہت ہی کم عرصہ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھوڑی سی مدت کے لیے بھاری بوجھ اٹھانا نفوس انسانی کے لیے آسان اور ہلکا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشقت جو وہ برداشت کر رہا ہے طویل عرصے کے لیے نہیں ہے تو اس کے لیے اس کو برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ تب کیا کیفیت ہو گی جب تو دنیا اور آخرت کا موازنہ کرے اور معلوم ہو کہ آخرت اپنی ذات اور لذات میں اور زمان کے اعتبار سے دنیا سے کہیں بہتر ہے جنت کی ذات کے بارے میں ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دنیا اور اس کی موجودات سے کہیں بہتر ہے۔‘‘(جامع ترمذی، تفسير، باب ومن سورۃ آل عمران، حديث:3513) جنت کی لذتیں ہر قسم کی کدورتوں سے پاک ہیں بلکہ لذت کا جو تصور بھی فکر و خیال کی گرفت میں آ سکتا ہے۔ جنت کی لذتیں اس پر فوقیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ ﴾ (السجدۃ : 32؍17) ’’کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان کے لیے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیeکی زبان پر فرمایا: ’’میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں ان کا کبھی گزر ہوا ہے۔‘‘(مسند أحمد:2؍438) رہی دنیا کی لذتیں تو یہ مختلف قسم کی کدورتوں کے شائبے سے پاک نہیں ہوتیں۔ اگر ان لذات کا ان آلام و مصائب اور غم و ہموم سے مقابلہ کیاجائے جو ان لذات کے ساتھ ملے ہوتے ہیں تو جنت کی لذتوں کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ رہا ان لذتوں کا زمانہ، تو دنیا آخر کار ختم ہو جائے گی اور انسان کی عمر، دنیا کی نسبت سے نہایت ہی معمولی سا عرصہ ہے۔ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جب عقلمند شخص ان دو گھروں کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور ان کی حقیقت کا تصور کرتا ہے جیسا کہ تصور کرنے کا حق ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سا گھر ترجیح کا مستحق ہے؟ کس کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور کس کی طلب میں اسے جدوجہد کرنی چاہیے؟ ﴿ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّ٘مَنِ اتَّ٘قٰى ﴾ ’’اور پرہیز گار کے لیے آخرت تو بہت اچھی چیز ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی شرک اور دیگر تمام محرمات سے بچتا ہے اس کے لیے آخرت بہتر ہے۔ ﴿ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا ﴾ ’’اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘ تم آخرت کے گھر کے لیے جو دوڑ دھوپ کرو گے تو اس کا کامل اور وافر اجر پاؤ گے جس میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔ [78] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ بچاؤ کی تدبیر تقدیر کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی اور گھر میں بیٹھ رہنے والے کا بیٹھنا، اللہ کی تقدیر کو ہٹا نہیں سکتا۔ ﴿ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْ٘مَوْتُ ﴾ ’’تم جہاں کہیں بھی رہو موت تمھیں آ پکڑے گی‘‘ یعنی تم کسی زمانے میں اور کسی بھی جگہ پر ہو ﴿ وَلَوْؔ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ ﴾ ’’خواہ تم مضبوط قلعوں اور اونچے محلوں میں ہی پناہ کیوں نہ لے لو (موت تمھیں پا لے گی)۔‘‘ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کی ترغیب کے لیے ہے اللہ تعالیٰ کبھی تو جہاد کی فضیلت اور اس کا ثواب بیان کر کے اس کی ترغیب دیتا ہے اور کبھی جہاد کو ترک کرنے کی سزا سے ڈرا کر جہاد پر آمادہ کرتا ہے۔ کبھی اس بارے میں آگاہ کر کے جہاد کے لیے ابھارتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر گھروں میں بیٹھ رہنے والوں کا بیٹھنا کسی کام نہیں آتا۔ اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ جہاد کے راستے کو ان کے لیے آسان کر دیتا ہے۔ ﴿ وَاِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ ﴾ ’’اور اگر انھیں کوئی بھلائی ملتی ہے‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو علم نہیں رکھتے، انبیاء و رسلoکی تعلیمات سے روگردانی اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب انھیں کوئی بھلائی مثلاً شادابی، کثرت مال، کثرت اولاد اور صحت وغیرہ حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں ﴿ هٰؔذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘ جب انھیں کسی تکلیف مثلاً قحط، فقر و فاقہ، احباب و اولاد کی موت اور مرض وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں: ﴿ هٰؔذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ﴾ ’’یہ (تکلیف) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچی) ہے۔‘‘ یعنی اے محمدe!یہ تمام مصیبت اس کے سبب سے آن پڑی ہے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ انھوں نے رسول اللہeکی ذات اقدس سے بدشگونی لی، جیسا کہ ان سے پہلے کفار اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے برا شگون لیتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی قوم کے بارے میں خبر دی ہے: ﴿ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰؔذِهٖ١ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰؔى وَمَنْ مَّعَهٗ ﴾ (الاعراف : 7؍131) ’’جب ان کو کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی بدشگونی قرار دیتے ہیں۔‘‘ اور جیسا کہ حضرت صالحuکی قوم نے کہا: ﴿ اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ ﴾ (النمل : 27؍47) ’’تم اور تمھارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا باعث ہیں۔‘‘ اور جیسے یاسین کی قوم نے اپنے رسولوں سے کہا: ﴿ اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ١ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَـنَرْجُمَنَّـكُمْ﴾ (یٰسین : 36؍18) ’’ہم تمھیں بدشگون سمجھتے ہیں اگر تم باز نہیں آؤ گے تو ہم تمھیں سنگسار کر دیں گے۔‘‘ چونکہ کفر کی وجہ سے ان کے دل باہم مشابہ ہیں اس لیے ان کے اقوال و افعال میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو برائی کے حصول اور بھلائی کے زوال کو انبیائے کرام کی تعلیمات یا بعض تعلیمات سے منسوب کرتے ہیں وہ اس مذمت میں داخل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے: ﴿ قُ٘لْ كُ٘لٌّ٘ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ سب‘‘ یعنی نیکی اور برائی خیر اور شر ﴿ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ ہی کی طرف سے ہے۔‘‘ یعنی سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے اور اسی کی تخلیق ہے ﴿ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ ﴾ ’’انھیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ یعنی جن لوگوں سے یہ باطل قول صادر ہوا ہے ﴿ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا ﴾ ’’کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ یعنی یہ لوگ بات کو بالکل ہی نہیں سمجھ پاتے اور نہ یہ لوگ سمجھنے کے قریب جاتے ہیں۔ یا یہ لوگ بات کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ مذکورہ تمام معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ ان کے عدم فہم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں عدم تفقہ پر زجر و توبیخ ہے۔ اور اس کا سبب ان کا کفر اور روگردانی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ضمناً ان لوگوں کی مدح کا پہلو نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکے احکام کا فہم رکھتے ہیں۔ نیز اس میں فہم اور اس کے اسباب کے حصول کی ترغیب ہے۔ یہ فہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کلام میں تدبر و تفکر اور اس منزل تک پہنچانے والے راستوں پر گامزن ہونے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھا ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ نیکی اور برائی اور خیر و شر سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ نیز انبیاء و رسل اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کبھی بھی شر کا باعث نہیں ہوتیں کیونکہ وہ تو دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں۔ [79] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ ﴾ ’’تجھ کو جو فائدہ پہنچے۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو بھلائی حاصل ہوتی ہے ﴿ فَ٘مِنَ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘ وہی ہے جس نے اس بھلائی سے نوازا اور اس کے اسباب پیدا کر کے اس کے حصول کو آسان بنایا ﴿ وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ﴾ ’’تجھے جو نقصان پہنچے۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو برائی پہنچتی ہے ﴿ فَ٘مِنْ نَّفْسِكَ ﴾ ’’وہ تیری طرف سے ہے۔‘‘ یعنی تیرے اپنے گناہوں کی وجہ سے اور تیری اپنی کمائی ہے اور جو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے دروازے کھول دیے ہیں اس نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے فضل و کرم سے بہرہ مند ہونے کے لیے ان دروازوں میں داخل ہوں اور انھیں آگاہ فرمایا ہے کہ گناہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے مانع ہیں۔ اس لیے جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اسے صرف اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے تو وہ خود مانع ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جناب محمدeکی رسالت کی عمومیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ﴿ وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَكَ٘فٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا ﴾ ’’اور اے محمد(e)ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس بات کا) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی شہادت اس بات پر کافی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت، بڑے بڑے معجزات اور روشن براہین و دلائل کے ساتھ آپ کی تائید فرمائی۔ اور یہ علی الاطلاق سب سے بڑی شہادت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ قُ٘لْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً١ؕ قُ٘لِ اللّٰهُ١ۙ۫ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَؔكُمْ ﴾ (الانعام : 6؍19) ’’ان سے پوچھو کہ سب سے بڑی شہادت کس چیز کی ہے۔ کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ہی میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے۔‘‘ جب اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل، اس کی قدرت تام اور اس کی حکمت عظیم ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور نصرت عظیم کے ذریعے سے اس کی مدد فرمائی۔ تو اسے یقین ہو جائے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ورنہ اگر آپ نے جھوٹ گھڑا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتا اور آپeکی رگ جاں کاٹ دیتا۔
آیت: 80 - 81 #
{مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (80) وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (81)}.
جس نے اطاعت کی رسول کی پس تحقیق اطاعت کی اس نے اللہ کی اور جس نے روگردانی کی تو نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ان پر نگہبان(80) اور (منافق) کہتے ہیں (ہمارا کام تو) فرماں برداری ہے، پھر جب نکلتے ہیں وہ آپ کے پاس سے تورات کو مشورہ کرتا ہے ایک گروہ ان میں سے خلاف اس (بات) کے جو کہتے ہیں آپ، اور اللہ لکھتا ہے جو وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں، پس اعراض کریں آپ ان سے اور توکل کریں اللہ پر اور کافی ہے اللہ کارساز(81)
#
{80} أي: كلُّ من أطاع رسول الله في أوامره ونواهيه؛ {فقد أطاع الله} تعالى؛ لكونِهِ لا يأمر ولا ينهى إلا بأمر الله وشرعه ووحيه وتنزيله، وفي هذا عصمةُ الرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ لأنَّ الله أمر بطاعتِهِ مطلقاً؛ فلولا أنَّه معصومٌ في كلِّ ما يبلِّغ عن الله؛ لم يأمرْ بطاعتِهِ مطلقاً وَيمدَحْ على ذلك، وهذا من الحقوق المشتركة؛ فإنَّ الحقوق ثلاثةٌ: حقٌّ لله تعالى لا يكونُ لأحدٍ من الخَلْق، وهو عبادةُ الله والرغبةُ إليه وتوابع ذلك؛ وقسمٌ مختصٌّ بالرسول، وهو التعزيرُ والتوقيرُ والنُّصرةُ. وقسمٌ مشترك، وهو الإيمان بالله ورسولِهِ ومحبتُهما وطاعتُهما؛ كما جَمَعَ الله بين هذه الحقوق في قوله: {لِتُؤْمنوا بالله ورسوله وتعزِّروهُ وتوقِّروه وتسبِّحوه بكرةً وأصيلاً}؛ فمَنْ أطاع الرسول؛ فقد أطاع الله، وله من الثواب والخير ما رُتِّب على طاعة الله. {ومَن تولَّى}: عن طاعة الله ورسولِهِ؛ فإنه لا يضرُّ إلا نفسَه، ولا يضرُّ الله شيئاً. {فما أرسلناك عليهم حفيظاً}؛ أي: تحفظ أعمالَهم وأحوالَهم، بل أرسلناك مبلِّغاً ومبيِّناً وناصحاً، وقد أديتَ وظيفتكَ ووَجَبَ أجرُك على الله، سواءٌ اهتدَوا أم لم يهتدُوا؛ كما قال تعالى: {فَذَكِّرْ إنَّما أنت مُذَكِّرٌ لستَ عليهم بمصيطرٍ ... } الآية.
[80] یعنی ہر وہ شخص جس نے اوامر و نواہی میں رسول اللہeکی اطاعت کی ﴿ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ﴾ ’’اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ کیونکہ اگر آپ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں یا کسی چیز سے روکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت، اس کی وحی اور تنزیل ہے۔ یہ آیت کریمہ رسول اللہeکی عصمت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانے کے بارے میں معصوم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا اور اطاعت کرنے والوں کی مدح نہ فرماتا۔ اور اس کا شمار مشترکہ حقوق میں ہوتا ہے۔ یہ حقوق تین اقسام میں منقسم ہوتے ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ کا حق۔ یہ حق مخلوق میں سے کسی کے لیے نہیں ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی طرف رغبت ہے اور ان کے توابع ہیں۔ (۲) رسول اللہeکا حق، جو صرف آپ کے ساتھ مختص ہے وہ ہے آپ کی توقیر اور آپ کا احترام اور آپ کی مدد کرنا۔ (۳) حقوق کی تیسری قسم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہeکے درمیان مشترکہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، ان سے محبت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کو اس آیت کریمہ میں جمع کر دیا ہے ﴿ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّ٘رُوْهُ١ؕ وَتُسَبِّحُوْهُ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا ﴾ (الفتح : 48؍9) ’’تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔‘‘ پس جس نے رسول اللہeکی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اس کے لیے وہی ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مترتب ہوتا ہے ﴿ وَمَنْ تَوَلّٰى ﴾ ’’جس نے (اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے) منہ موڑا‘‘ وہ صرف اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتا ﴿ فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا﴾ ’’ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘ یعنی ہم نے آپ کو اس لیے مبعوث نہیں کیا کہ آپ ان کے اعمال و احوال کی نگہبانی کریں، بلکہ ہم نے تو آپ کو مبلغ، کھول کھول کر بیان کرنے والا اور ناصح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے آپ کے لیے آپ کا اجر واجب ہو گیا۔ خواہ وہ راہ راست اختیار کریں یا نہ کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَذَكِّ٘رْ١ؕ۫ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّ٘رٌؕ۰۰۲۱ لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ﴾ (الغاشیہ : 88؍21۔22) ’’تم ان کو نصیحت کرتے رہو اور تم صرف نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ تم ان پر نگہبان نہیں۔‘‘
#
{81} ولا بدَّ أن تكون طاعةُ الله ورسولِهِ ظاهراً وباطناً في الحضرة والمغيبِ، فأمّا من يُظْهِرُ في الحضرة الطاعةَ والالتزامَ؛ فإذا خلا بنفسِهِ أو أبناء جنسِهِ؛ تَرَكَ الطاعة وأقبل على ضِدِّها؛ فإنَّ الطاعة التي أظهرها غيرُ نافعةٍ ولا مفيدةٍ، وقد أشبهَ مَن قال الله فيهم: {ويقولونَ طاعةٌ}؛ أي: يظهِرونَ الطاعةَ إذا كانوا عندك؛ {فإذا بَرَزوا من عندِكَ}؛ أي: خرجوا وخَلَوا في حالة لا يُطَّلع فيها عليهم، {بَيَّت طائفةٌ منهم غير الذي تقول}؛ أي: بيَّتوا ودبَّروا غير طاعتِك ولا ثمَّ إلا المعصية. وفي قوله: {بَيَّتَ طائفةٌ منهم غيرَ الذي تقول}: دليلٌ على أنَّ الأمر الذي استقرُّوا عليه غيرُ الطاعة؛ لأنَّ التبييت تدبيرُ الأمر ليلاً على وجهٍ يستقرُّ عليه الرأي. ثم توعَّدهم على ما فَعلوا، فقال: {والله يكتُبُ ما يُبَيِّتونَ}؛ أي: يحفظه عليهم وسيجازيهم عليه أتمَّ الجزاء؛ ففيه وعيدٌ لهم. ثم أمر رسوله بمقابلتهم بالإعراض وعدم التعنيف؛ فإنهم لا يضرُّونه شيئاً إذا توكَّل على الله واستعان به في نصر دينِهِ وإقامة شرعِهِ، ولهذا قال: {فأعرِضْ عنهم وتوكَّل على الله وكفى باللهِ وكيلاً}.
[81] نیز یہ بھی لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت میں ہو۔ رہا وہ شخص جو لوگوں کے سامنے اطاعت اور التزام کا اظہار کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے یا اپنے ہم مشرب ٹولے کے ساتھ ہوتا ہے تو اطاعت ترک کر دیتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو اطاعت کی ضد ہوتے ہیں تو ایسی اطاعت جس کا اس نے اظہار کیا ہے اس کے لیے نفع مند اور مفید نہیں ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ ﴾ ’’وہ کہتے ہیں مان لیا۔‘‘ یعنی جب وہ آپeکے پاس ہوتے ہیں تو اطاعت کا اظہار کرتے ہیں ﴿ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ ﴾ ’’جب وہ آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں‘‘ یعنی تنہا ہوتے ہیں اور ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی اس حالت سے مطلع نہیں ہوتا ﴿ بَیَّتَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ﴾ ’’مشورہ کرتے ہیں رات کو کچھ لوگ ان میں سے اس کے خلاف جو آپ کہتے ہیں۔‘‘ تو رات کے وقت آپeکی اطاعت کے خلاف تدبیریں کرتے ہیں اور وہاں ان کے پاس نافرمانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿ بَیَّتَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وہ معاملہ جس کو انھوں نے دائمی وتیرہ بنایا ہوا تھا وہ عدم اطاعت کا رویہ تھا۔ کیونکہ (تَبْیِیْت) سے مراد رات کے وقت اس طرح معاملات کی تدبیر کرنا ہے کہ اس پر رائے کا استقرار ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پر وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ﴾ ’’اللہ لکھتا ہے جو وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ان کارستانیوں کو محفوظ کر رہا ہے وہ عنقریب ان کو ان کارستانیوں کی پوری پوری جزا دے گا یہ ان کے لیے وعید ہے۔ ان کی ان کارستانیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeکو اعراض اور سختی کا حکم دیا ہے۔ اگر آپeنے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، اس کے دین کی نصرت اور اس کی شریعت کے نفاذ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی تو وہ آپeکو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ﴿ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَكَ٘فٰى بِاللّٰهِ وَؔكِیْلًا ﴾ ’’پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔‘‘
آیت: 82 #
{أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (82)}.
کیا پس نہیں تدبر (غور و فکر) کرتے وہ قرآن میں؟ اور اگر ہوتا یہ غیر اللہ کی طرف سے تو پاتے وہ اس میں اختلاف بہت(82)
#
{82} يأمر تعالى بتدبُّر كتابه، وهو التأمُّل في معانيه وتحديق الفكر فيه وفي مبادئِهِ وعواقبه ولوازم ذلك؛ فإنَّ في تدبُّر كتاب الله مفتاحاً للعلوم والمعارف، وبه يُسْتَنْتَجُ كلُّ خير وتستخرجُ منه جميعُ العلوم، وبه يزداد الإيمان في القلب وترسَخُ شجرته؛ فإنَّه يعرِّف بالربِّ المعبود وما له من صفات الكمال وما يُنَزَّهُ عنه من سماتِ النقص، ويعرِّف الطريقَ الموصلة إليه وصِفَةَ أهلها وما لهم عند القدوم عليه، ويعرِّف العدوَّ الذي هو العدوُّ على الحقيقة والطريقَ الموصلة إلى العذاب وصفة أهلها وما لهم عند وجود أسباب العقاب. وكلَّما ازداد العبد تأمُّلاً فيه؛ ازداد علماً وعملاً وبصيرةً، لذلك أمر الله بذلك وحثَّ عليه وأخبر أنه هو المقصود بإنزال القرآن؛ كما قال تعالى: {كتابٌ أنزلناه إليك مُبارَكٌ ليدَّبَّروا آياتِهِ وليتذكَّرَ أُولو الألبابِ}؛ وقال تعالى: {أفلا يتدبَّرون القرآن أم على قُلوبٍ أقفالُها}. ومن فوائدِ التدبُّر لكتاب الله أنَّه بذلك يصل العبدُ إلى درجة اليقين والعلم بأنَّه كلام الله؛ لأنَّه يراه يصدِّق بعضُه بعضاً، ويوافق بعضُه بعضاً، فترى الحِكَمَ والقصةَ والإخبارات تُعاد في القرآن في عِدَّة مواضع، كلُّها متوافقة متصادقة، لا ينقُض بعضُها بعضاً؛ فبذلك يُعلم كمال القرآن، وأنَّه من عند مَن أحاط علمُهُ بجميع الأمور؛ فلذلك قال تعالى: {ولو كانَ مِن عندِ غيرِ الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيراً}؛ أي: فلما كان من عند الله، لم يكن فيه اختلافٌ أصلاً.
[82] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں تدبر سے مراد ہے کتاب اللہ کے معانی میں غور و فکر اس کے مبادی، نتائج و عواقب اور اس کے لوازم میں گہری نظر سے سوچنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تدبر تمام علوم و معارف کی کنجی ہے۔ ہر بھلائی اسی کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہے اور تمام علوم کا استخراج اسی سے کیا جاتا ہے۔ کتاب اللہ ہی سے قلب میں ایمان کا اضافہ ہوتا ہے اور شجرۂ ایمان جڑ پکڑتا ہے۔ کتاب اللہ ہی رب معبود کی معرفت عطا کرتی ہے، اس معرفت سے نوازتی ہے کہ رب معبود کی صفات کمال کیا ہیں اور وہ کون سی صفات نقص سے منزہ ہے۔ کتاب اللہ اس راستے کی معرفت عطا کرتی ہے جو رب معبود تک پہنچاتا ہے نیز اس راستے پر چلنے والے لوگوں کی معرفت سے نوازتی ہے اور ان نعمتوں کا ذکر کرتی ہے جو رب رحیم کی خدمت میں حاضر ہونے پر عطا ہوں گی۔ کتاب اللہ بندے کو اس کے دشمن کی معرفت عطا کرتی ہے، ایسا دشمن جو حقیقی دشمن ہے۔ ان راہوں کی نشاندہی کرتی ہے جو انسان کو عذاب کی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ ان راہوں پر چلنے والے لوگوں کی معرفت عطا کرتی ہے نیز آگاہ کرتی ہے کہ اسباب عقاب کے وجود پر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ بندۂ مومن کتاب اللہ میں جتنا زیادہ غور و فکر کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کے علم و عمل اور بصیرت میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے۔ اور آگاہ فرمایا کہ قرآن عظیم کو نازل کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّ٘رُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَلِیَتَذَكَّـرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ (ص:38؍29) ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی جو بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت پکڑیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ﴾ (محمد : 47؍24) ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ کتاب اللہ میں تدبر کا فائدہ یہ ہے کہ بندۂ مومن اس کے ذریعے سے درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ اسے صاف نظر آتا ہے کہ یہ کلام ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، احکام، اور اخبار کا اعادہ کیا جاتا ہے مگر ہر مقام پر وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتے ہیں ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کامل ہے اور ایک ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس کے علم نے تمام امور کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا ﴾ ’’اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت اختلاف پاتے‘‘ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
آیت: 83 #
{وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (83)}.
اور جب آتی ہے ان کے پاس کوئی بات امن کی یا خوف کی تو مشہور کر دیتے ہیں اس کواور اگر لوٹاتے وہ اس کو طرف رسول کی یا طرف اصحاب امر کی ان میں سے تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو وہ لوگ جو تحقیق کرتے ہیں اس کی ان میں سےاور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی رحمت تو ضرور پیچھے لگ جاتے تو شیطان کے مگر تھوڑے ہی(83)
#
{83} هذا تأديبٌ من الله لعبادِهِ عن فعلهم هذا غير اللائق، وأنه ينبغي لهم إذا جاءهم أمرٌ من الأمور المهمَّة والمصالح العامَّة ما يتعلَّق بالأمن وسرور المؤمنين أو بالخوف الذي فيه مصيبةٌ عليهم أن يتثبَّتوا ولا يستعجِلوا بإشاعة ذلك الخبر، بل يردُّونه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم أهل الرأي والعلم والنُّصح والعقل والرزانة الذين يعرفونَ الأمور ويعرفون المصالح وضدَّها؛ فإنْ رأوا في إذاعته مصلحة ونشاطاً للمؤمنين وسروراً لهم وتحرُّزاً من أعدائِهِم؛ فعلوا ذلك، وإن رأوا [أنه ليس] فيه مصلحةٌ، أو فيه مصلحة ولكن مضرَّته تزيد على مصلحتِهِ؛ لم يذيعوهُ. ولهذا قال: {لَعَلِمَهُ الذين يستنبطونَه منهم}؛ أي: يستخِرجونه بفِكْرهم وآرائهم السَّديدة وعلومهم الرشيدة. وفي هذا دليلٌ لقاعدةٍ أدبيَّة، وهي أنه إذا حَصَلَ بحثٌ في أمر من الأمور؛ ينبغي أن يُوَلَّى مَن هو أهلٌ لذلك، ويُجْعَلَ إلى أهله، ولا يُتَقَدَّم بين أيديهم؛ فإنه أقرب إلى الصواب وأحرى للسلامة من الخطأ. وفيه النهي عن العجلة والتسرُّع لنشر الأمور من حين سماعها، والأمر بالتأمُّل قبل الكلام والنظر فيه؛ هل هو مصلحةٌ فيقْدِمُ عليه الإنسان أم لا فيُحْجِمُ عنه؟ ثم قال تعالى: {ولولا فضلُ الله عليكم ورحمتُهُ}؛ أي: في توفيقِكم وتأديبِكم وتعليمِكم ما لم تكونوا تعلمون، {لاتَّبعتم الشيطانَ إلَّا قليلاً}؛ لأنَّ الإنسان بطبعِهِ ظالمٌ جاهلٌ فلا تأمرُهُ نفسُه إلاَّ بالشَّرِّ؛ فإذا لجأ إلى ربِّه، واعتصم به، واجتهدَ في ذلك؛ لَطَفَ به ربُّه، ووفَّقه لكلِّ خيرٍ، وعصمَه من الشيطان الرجيم.
[83] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک غیر مناسب فعل پر تادیب ہے۔ اہل ایمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی اہم معاملہ آئے جس کا تعلق مصالح عامہ، امن اور اہل ایمان کی خوشی کے ساتھ ہو یا اس کا تعلق کسی خوف سے ہو جس کے اندر کوئی مصیبت پوشیدہ ہو تو اس کو اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیں اور اس خبر کی اشاعت میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بلکہ وہ اس خبر کو رسول اللہe، اصحاب امر، اہل رائے، اہل علم، خیر خواہی کرنے والوں، عقلمندوں، سنجیدہ اور باوقار لوگوں کی طرف لوٹائیں جو ان تمام امور کی معرفت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے مصالح اور ان کے اضداد کی پہچان رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس خبر کی اشاعت میں کوئی مصلحت، اہل ایمان کے لیے سرور و نشاط کا کوئی پہلو اور ان کے دشمنوں سے بچاؤ کی کوئی بات دیکھیں تو وہ ضرور ایسا کریں۔ اگر وہ یہ دیکھیں کہ اس میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت نہیں ہے یا اس میں مصلحت تو ہے مگر اس کی مضرت اس مصلحت پر حاوی ہے تو وہ اس خبر کو نہ پھیلائیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ ﴾ ’’تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے۔‘‘ یعنی وہ اپنے غور و فکر ، درست آراء اور صحیح راہنمائی کرنے والے علوم کے ذریعے سے درست نتائج کا استخراج کر لیں گے۔ اس آیت کریمہ میں ادب و احترام کے ایک قاعدہ پر دلیل ہے کہ جب کسی معاملے میں بحث اور تحقیق مطلوب ہو تو مناسب یہ ہے کہ معاملہ اس شخص کے سپرد کر دیا جائے جو ذمے دار ہے اور وہ اس معاملے کو تحقیق کے لیے ایسے شخص کے حوالے کر دے جو اس کی اہلیت رکھتا ہے اور ان ذمہ دار اصحاب کی تحقیق سے پہلے کسی رائے کا اظہار نہ کریں۔ یہ طریق کار زیادہ قرین صواب اور خطا سے زیادہ محفوظ ہے۔ اس میں کسی معاملے کو سنتے ہی اس کو پھیلانے میں عجلت اور جلدی کرنے کی ممانعت کی بھی دلیل ہے نیز حکم ہے کہ بولنے سے پہلے اس معاملے میں خوب غور و فکر کر لیا جائے کہ آیا اس میں کوئی مصلحت ہے کہ انسان آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرے یا کوئی مصلحت نہیں ہے کہ انسان پیچھے ہٹ جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ ﴾ ’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔‘‘ یعنی تمھیں توفیق عطا کرنے، ادب سکھانے اور ان امور کی تعلیم دینے میں جو تم نہ جانتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی ﴿ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’تو چند لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے‘‘ کیونکہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ظالم اور جاہل ہے، پس اس کا نفس اسے شر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ بندہ جب اپنے رب کے پاس پناہ لیتا ہے اور اس کی پناہ میں آ کر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنے لطف و کرم کے دروازے کھول دیتا ہے اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا کرتا ہے اور اسے شیطان مردود سے بچاتا ہے۔
آیت: 84 #
{فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا (84)}.
پس لڑیں آپ راستے میں اللہ کے، نہیں ذمے دار بنائے گئے آپ مگر اپنی ہی ذات کے اور رغبت دلائیں مومنوں کو، امید ہے کہ اللہ روک دے لڑائی ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیااور اللہ بہت سخت ہے لڑائی میں اور بہت سخت ہے سزا (دینے) میں(84)
#
{84} هذه الحالة أفضل أحوال العبد؛ أن يجتهدَ في نفسه على امتثال أمر الله من الجهاد وغيره، ويحرِّض غيره عليه، وقد يعدم في العبد الأمران أو أحدهما؛ فلهذا قال [اللهُ] لرسوله: {فقاتِلْ في سبيل الله لا تُكَلَّفُ إلا نفسَك}؛ أي: ليس عليك قدرة على غير نفسك، فلن تُكَلَّفَ بفعل غيرك. {وحرِّضِ المؤمنين} على القتال، وهذا يشمل كلَّ أمر يحصُل به نشاط المؤمنين وقوَّة قلوبهم؛ من تقويتهم، والإخبار بضَعْف الأعداء وفشلهم، وبما أعدَّ الله للمقاتلين من الثواب، وما على المتخلِّفين من العقاب؛ فهذا وأمثاله كلُّه يدخُل في التحريض على القتال. {عسى الله أن يكفَّ بأس الذين كفروا}؛ أي: بقتالِكم في سبيل الله وتحريض بعضِكم بعضاً. {والله أشدُّ بأساً}؛ أي: قوة وعزَّة، {وأشدُّ تنكيلاً}: بالمذنب في نفسه وتنكيلاً لغيره؛ فلو شاء تعالى؛ لانتصر من الكفار بقوَّته، ولم يجعلْ لهم باقيةً، ولكن من حكمتِهِ يبلو بعض عبادِهِ ببعض؛ ليقوم سوق الجهاد، ويحصُل الإيمان النافع إيمان الاختيار لا إيمان الاضطرار، والقَهْر الذي لا يفيدُ شيئاً.
[84] بندۂ مومن کے احوال میں سے بہترین حال یہ ہے کہ جہاد وغیرہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں خود بھی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے۔ کبھی کبھی بندے میں کوئی ایک امر یا دونوں امور معدوم ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeسے فرمایا: ﴿ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ﴾ ’’آپ اللہ کی راہ میں لڑیں۔ آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں۔‘‘ یعنی چونکہ آپ کو اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے پر قدرت حاصل نہیں اس لیے آپ کو کسی دوسرے کے فعل کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔ ﴿ وَحَرِّضِ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔‘‘ یعنی اہل ا یمان کو قتال کی ترغیب دیں اور یہ ترغیب ان تمام امور کو بھی شامل ہے جس سے اہل ایمان کو نشاط، ان کے دلوں کو قوت اور ان کو طاقت حاصل ہوتی ہو۔ نیز یہ ترغیب اس بات کو بھی شامل ہے کہ دشمنوں کے ضعف اور کمزوری سے مومنوں کو آگاہ کیا جائے اور یہ ترغیب اس بات کو شامل ہے کہ مومنوں کو اس امر سے آگاہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کے لیے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے اور جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے والوں کے لیے کیا عذاب ہے۔ مذکورہ بالا اور اس قسم کے تمام امور جہاد اور قتال کی ترغیب کے زمرے میں آتے ہیں۔ ﴿ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّؔكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’قریب ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی کو بند کردے۔‘‘ یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں تمھارے جہاد اور جہاد کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کفار کو روک دے۔ ﴿ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَ٘اْسًا ﴾ ’’اور اللہ لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ زیادہ قوت اور غلبہ والا ہے ﴿ وَّاَشَدُّ تَنْكِیْلًا﴾ ’’اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے۔‘‘ گناہ گار کو فی نفسہ سخت سزا دیتا ہے۔ جس سے دوسرے کو بھی عبرت ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی قوت کے ذریعے سے ہی کفار پر غالب آجائے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور نفع مند ایمان حاصل ہو، یعنی اختیاری ایمان۔ نہ کہ جبری اضطراری ایمان، جو کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا۔
آیت: 85 #
{مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا (85)}.
جو کوئی سفارش کرے سفارش اچھی، ہوگا اس کے لیے حصہ اس میں سے اور جو کوئی سفارش کرے سفارش بری، ہوگا اس کے لیے حصہ اس میں سےاور ہے اللہ اوپر ہر چیز کے نگہبان(85)
#
{85} المراد بالشفاعة هنا المعاونةُ على أمرٍ من الأمور؛ فمنْ شَفَعَ غيرَهُ وقام معه على أمرٍ من أمور الخير ومنه الشفاعة للمظلومين لمن ظلمهم؛ كان له نصيبٌ من شفاعته بحسب سعيه وعمله ونفعه، ولا ينقُصُ من أجر الأصيل أو المباشر شيءٌ، ومن عاون غيره على أمر من الشرِّ؛ كان عليه كِفْلٌ من الإثم بحسب ما قام به وعاون عليه. ففي هذا الحثُّ العظيم على التعاون على البر والتقوى، والزجر العظيم عن التعاون على الإثم والعدوان. وقرَّر ذلك بقوله: {وكان الله على كل شيء مُقيتاً}؛ أي: شاهداً حفيظاً حسيباً على هذه الأعمال، فيجازي كلاًّ ما يستحقُّه.
[85] یہاں شفاعت سے مراد کسی معاملے میں معاونت ہے۔ جو کوئی کسی دوسرے کی بھلائی کے کسی کام میں سفارش کرتا ہے اور اس کام میں اس کی مدد کرتا ہے۔ مثلاً مظلوموں کے بارے میں ظالم کے پاس سفارش کرنا اسے اس کی کوشش اور عمل کے مطابق اس نیک سفارش سے حصہ نصیب ہو گا۔ اور اصل کام کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی اور جو کوئی برائی کے کسی کام میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے تعاون اور مدد کے مطابق عذاب میں سے اس کو حصہ ملے گا۔ اس آیت کریمہ میں نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے۔ اسی طرح گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت پر زجر و توبیخ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے متحقق کیا ہے ﴿ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ مُّؔقِیْتًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا گواہ اور حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ ان اعمال کا حساب لے گا اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا۔
آیت: 86 #
{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (86)}.
اور جب دعا دیے جاؤ تم ساتھ دعا کے تو دعا دو تم ساتھ زیادہ بہتر کے اس سے یا لوٹا دو اسی (دعا) ہی کو تحقیق اللہ ہے ہر چیز کا حساب لینے والا(86)
#
{86} التحية: هي اللفظ الصادر من أحد المتلاقيين على وجه الإكرام والدُّعاء وما يقترن بذلك اللفظ من البشاشة ونحوها، وأعلى أنواع التحية ما ورد به الشرعُ من السلام ابتداءً وردًّا، فأمر تعالى المؤمنين أنَّهم إذا حُيُّوا بأيِّ تحيَّة كانت أن يردُّوها بأحسن منها لفظاً وبشاشةً أو مثلها في ذلك، ومفهوم ذلك النهي عن عدم الردِّ بالكلِّيَّة أو رَدِّها بدونها. ويؤخذ من الآية الكريمة الحثُّ على ابتداء السلام والتحيَّة من وجهين: أحدهما: أنَّ الله أمر بردِّها بأحسنَ منها أو مثلِها، وذلك يستلزم أن التحيَّة مطلوبةٌ شرعاً. والثاني: ما يُستفادُ من أفعل التفضيل، وهو أحسن، الدالُّ على مشاركة التحيَّة وردِّها بالحسن؛ كما هو الأصل في ذلك. ويستثنى من عموم الآية الكريمة من حيَّا بحال غير مأمورٍ بها؛ كعلى مشتغل بقراءةٍ أو استماع خطبةٍ أو مصلٍّ ونحو ذلك؛ فإنه لا يُطلب إجابةُ تحيَّته، وكذلك يُستثنى مِن ذلك مَن أمر الشارع بهجره وعدم تحيَّته، وهو العاصي غير التائب، الذي يرتدِعُ بالهجر؛ فإنَّه يُهْجَرُ ولا يُحَيَّا ولا تُرَدُّ تحيَّته، وذلك لمعارضة المصلحة الكبرى، ويدخل في ردِّ التحيَّة كلُّ تحيَّة اعتادها الناس، وهي غير محظورة شرعاً؛ فإنه مأمورٌ بردِّها أو أحسن منها. ثم أوعد تعالى وتوعَّد على فعل الحسنات والسيئاتِ بقوله: {إنَّ الله كان على كلِّ شيءٍ حسيباً}: فيحفظُ على العباد أعمالهم حَسَنها وسيِّئها، صغيرها وكبيرها، ثم يجازيهم بما اقتضاه فضلُه وعدلُه وحكمُه المحمود.
[86] (تَحِیَّۃ) کا لفظ دو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے عزت و احترام نیز دعا اور بشاشت وغیرہ کے طور پر صادر ہوتا ہے۔ سلام و دعا کا بہترین طریقہ وہ ہے جو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے بارے میں شریعت میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب انھیں کسی بھی طریقے سے سلام کیا جائے تو وہ الفاظ اور بشاشت کے اعتبار سے اس سے بہتر یا اسی طریقے سے سلام کا جواب دیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلام کا بالکل جواب نہ دینے یا کمتر طریقے سے جواب دینے سے روکا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ نے سلام کا بہتر طریقے سے یا ویسا ہی جواب دینے کا حکم دیا ہے اور اس سے یہ امر لازم آتا ہے کہ سلام درحقیقت شرعاً مطلوب ہے۔ (۲) لفظ (اَحَسَنَ) سے جو کہ ’’اَفْعَلُ التَّفْضِیْل‘‘ ہے، جو چیز مستفاد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سلام اور اس کا جواب لفظ ’’حسن‘‘ میں دونوں شریک ہیں جیسا کہ اس بارے میں یہ چیز اصل ہے۔ آیت کریمہ کے عموم سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو کسی کو ایسے حال میں سلام کرتا ہے جس میں اسے سلام کرنے کا حکم نہ تھا۔ مثلاً کسی ایسے شخص کو سلام کرنا جو قراء ت قرآن میں مشغول ہو، خطبہ سن رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو۔( لیکن شریعت نے ان حالتوں میں سلام کرنے سے کہاں منع کیا ہے؟ اس لیے فاضل مفسر کا ان مقامات کو مستثنیٰ کرنا بلا دلیل ہے۔ بلکہ یہ مقامات بھی سلام کرنے کے عموم میں داخل ہیں اور نماز کی حالت میں سلام کرنے کی اور اشارے کے ساتھ جواب دینے کی صراحت ترمذی کی حدیث میں موجود ہے) (ص۔ی) کیونکہ وہ اپنے سلام کے جواب کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ شخص بھی آیت کریمہ کے عموم سے مستثنیٰ ہے جس سے قطع کلامی اور سلام نہ کرنے کا حکم شارع نے دیا ہو۔ یہ وہ نافرمان شخص ہے جس نے توبہ نہ کی ہو جو بول چال اور سلام کی بندش کی وجہ سے نافرمانیوں سے باز آ جاتا ہے۔ پس ایسے شخص سے بول چال بند کر دی جائے اسے سلام کیا جائے نہ سلام کا جواب دیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی مصلحت کے قیام کی خاطر ہے۔ سلام کا جواب دینے میں ہر قسم کے سلام کا جواب دینا شامل ہے جس کے لوگ عام طور پر عادی ہیں۔ ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں، کیونکہ بندہ سلام کا جواب دینے اور اس سے بہتر جواب دینے پر مامور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں پر ثواب کا وعدہ اور برائی کے کاموں پر وعید سنائی ہے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ﴾ پس وہ اپنے بندوں کے اچھے برے اور چھوٹے بڑے تمام اعمال کا حساب رکھتا ہے پھر وہ اپنے فضل و عدل اور قابل تعریف فیصلے کے تقاضے کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا۔
آیت: 87 #
{اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا (87)}.
اللہ، نہیں کوئی معبود (برحق) مگر وہی، البتہ ضرور جمع کرے گا وہ تم کو دن قیامت کے نہیں ہے شک اس میں اور کون زیادہ سچا ہے اللہ سے، بات میں؟(87)
#
{87} يخبر تعالى عن انفرادِهِ بالوحدانيَّة، وأنَّه لا معبود ولا مألوه إلاَّ هو لكمالِهِ في ذاته وأوصافه، ولكونِهِ المنفردَ بالخلق والتدبير والنِّعم الظاهرة والباطنة، وذلك يستلزم الأمر بعبادتِهِ والتقرُّب إليه بجميع أنواع العبوديَّة؛ لكونِهِ المستحقَّ لذلك وحده، والمجازي للعباد بما قاموا به من عبوديَّته أو تركوه منها، ولذلك أقسم على وقوع محلِّ الجزاء، وهو يوم القيامة، فقال: {لَيَجْمَعَنَّكم}؛ أي: أولكم وآخركم، في مقام واحد، في {يوم القيامة لا ريبَ فيه}؛ أي: لا شكَّ ولا شبهة بوجهٍ من الوجوه بالدليل العقلي والدليل السمعي. فالدليل العقليُّ ما نشاهدُهُ من إحياء الأرض بعد موتها، ومن وجود النَّشأة الأولى التي وقوع الثانية أولى منها بالإمكان، ومن الحكمة التي يجزمُ بأنَّ الله لم يخلق خلقه عبثاً يَحْيَوْنَ ثم يموتون. وأما الدليل السمعيُّ؛ فهو إخبار أصدق الصادقين بذلك، بل إقسامه عليه، ولهذا قال: {ومَن أصدقُ من الله حديثاً}، كذلك أمر رسولَه - صلى الله عليه وسلم - أن يُقْسِمَ عليه في غير موضع من القرآن؛ كقوله تعالى: {زَعَمَ الذين كفروا أن لن يُبْعَثوا، قل بلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثم لَتُنَبَّؤنَّ بما عمِلْتُم وذلك على الله يسيرٌ}. وفي قوله: {ومن أصدقُ من الله حديثاً}، {ومن أصدق من الله قِيلاً}: إخبارٌ بأنَّ حديثه وأخباره وأقواله في أعلى مراتب الصدق، بل أعلاها، فكلُّ ما قيل في العقائد والعلوم والأعمال مما يناقِضُ ما أخبر الله به؛ فهو باطلٌ لمناقضته للخبر الصادق اليقين؛ فلا يمكِنُ أن يكون حقًّا.
[87] اللہ تعالیٰ وحدانیت میں اپنی انفرادیت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ذات اور اوصاف میں کامل ہے نیز اس لیے کہ وہ تخلیق و تدبیر کائنات میں اور ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے میں متفرد ہے اور یہ امر اس کی عبادت اور عبودیت کی تمام انواع کے ذریعے سے اس کے تقرب کو مستلزم ہے۔ اس لیے اس نے محل جزا کے وقوع یعنی روز قیامت پر قسم کھائی ہے فرمایا: ﴿ لَیَجْمَعَنَّـكُمْ ﴾ ’’وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے اولین و آخرین کو ایک ہی جگہ پر جمع کرے گا ﴿ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ﴾ ’’قیامت کے دن‘‘ یعنی عقلی اور سمعی دلیل کے اعتبار سے کسی بھی پہلو سے قیامت میں کوئی شک نہیں۔ رہی عقلی دلیل تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ زمین کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اسے زندگی عطا کرتا ہے۔ امکان کے اعتبار سے پہلی دفعہ پیدا کرنے سے دوسری دفعہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ حکمت الٰہی انسان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ قطعی طور پر جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا۔ کہ وہ زندگی حاصل کریں گے اور بس مر جائیں گے۔ (اور اس کے بعد کچھ نہیں ہو گا، ایسا نہیں ہو گا، بلکہ روز قیامت حساب ہو گا) رہی سمعی اور نقلی دلیل تو سب سے زیادہ سچی ہستی نے اس کے وقوع کے بارے میں خبر دی ہے بلکہ اس پر قسم کھائی ہے۔ ﴿ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا﴾ ’’اللہ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول اللہeکو اس حقیقت پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّ٘نْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُ٘لْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُ٘نَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ﴾ (التغابن : 64؍7) ’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، سمجھتے ہیں کہ انھیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا نہیں جائے گا کہہ دو ہاں میرے رب کی قسم! تمھیں ضرور اٹھایا جائے گا اور جو اعمال تم نے کیے ہیں ان کے بارے میں تمھیں ضرور بتایا جائے گا اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا﴾ اور ﴿وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا ﴾ میں اس بات کی خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات اس کی خبریں اور اس کے اقوال صداقت کے اعلیٰ مراتب بلکہ اعلیٰ ترین مراتب پر ہیں۔لہٰذا ہر وہ بات جو عقائد، علوم اور اعمال کے بارے میں کہی گئی ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی خبر کے خلاف ہے تو وہ باطل ہے کیونکہ یہ امور یقینی طور پر سچی خبر کے متناقض ہیں ان کا حق ہونا ممکن ہی نہیں۔
آیت: 88 - 91 #
{فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا أَتُرِيدُونَ أَنْ تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (88) وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (89) إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَنْ يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا (90) سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا فَإِنْ لَمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأُولَئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُبِينًا (91)}.
پس کیا ہے تمھیں کہ منافقوں (کے بارے) میں دو گروہ ہوگئے؟ اور اللہ نے الٹ دیا ان کو بہ سبب ان (اعمال) کے جو انھوں نے کمائے، کیا چاہتے ہو تم کہ ہدایت دو ان کو جنھیں گمراہ کیا اللہ نے؟ اور جسے گمراہ کرے اللہ پس ہرگز نہیں پائیں گے آپ اس کے لیے کوئی راہ(88) چاہتے ہیں یہ لوگ کاش کہ کفر کرو تم جس طرح کفر کیا انھوں نے، پس ہو جاؤ تم (اور وہ) برابر، پس نہ بناؤ تم ان میں سے (کسی کو) دوست یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں راستے میں اللہ کے ، پھر اگر پھر جائیں وہ تو پکڑو ان کو اور قتل کرو ان کو جہاں کہیں پاؤ تم ان کو اور نہ بناؤ تم ان میں سے (کسی کو) دوست اور نہ مددگار(89) سوائے ان لوگوں کے جو جا ملتے ہیں اس قوم سے کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان عہد ہے یا آتے ہیں تمھارے پاس (اس حال میں) کہ تنگ ہیں ان کے سینے اس بات سے کہ لڑیں وہ تم سے یا لڑیں وہ اپنی قوم سےاور اگر چاہتا اللہ تو مسلط کر دیتا ان کو تم پر پس لڑتے وہ تم سے ، پھر اگر کناہ کش رہیں وہ تم سےاور نہ لڑیں تم سے اور پیش کریں تمھاری طرف صلح تو نہیں بنائی اللہ نے تمھارے لیے ان پر کوئی راہ (ان سے لڑنے کی) (90) عنقریب تم پاؤ گے کچھ اور لوگوں کو جو چاہتے ہیں کہ امن میں رہیں وہ تم سے اور امن میں رہیں اپنی قوم سے (بھی) جب بھی لوٹائے جاتے ہیں وہ طرف فتنے کی تو الٹا دیے جاتے ہیں اس میں، پس اگر وہ نہ کنارہ کش رہیں تم سے اور نہ پیش کریں تمھاری طرف صلح اور نہ روکیں تم سے اپنے ہاتھ تو پکڑو تم ان کو اور قتل کرو تم ان کو جہاں کہیں پاؤ تم ان کواور یہی لوگ ہیں کہ کیا ہم نے تمھارے لیے ان پر غلبہ ظاہر(91)
#
{88 ـ 89} المراد بالمنافقين المذكورين في هذه الآيات، المنافقون المظهِرون إسلامَهم ولم يهاجِروا مع كفرِهم، وكان قد وقع بين الصحابة رضوانُ الله عليهم فيهم اشتباهٌ ؛ فبعضُهم تحرَّج عن قتالهم وقطْع موالاتهم بسبب ما أظهروه من الإيمان، وبعضُهم عَلِمَ أحوالهم بقرائن أفعالهم فحَكَمَ بكفرِهم، فأخبرهم الله تعالى أنه لا ينبغي لكم أن تشتبهوا فيهم ولا تشكُّوا، بل أمرُهم واضحٌ غيرُ مُشْكِل، إنهم منافقون، قد تكرَّر كفرُهم وودُّوا مع ذلك كفركم وأن تكونوا مثلهم؛ فإذا تحقَّقتم ذلك منهم؛ {فلا تتَّخِذوا منهم أولياء}: وهذا يستلزم عدم محبَّتِهم؛ لأنَّ الولاية فرع المحبَّة، ويستلزم أيضاً بُغْضَهم وعداوتهم؛ لأن النهي عن الشيء أمر بضده، وهذا الأمر موقَّت بهجرتهم؛ فإذا هاجروا؛ جرى عليهم ما جرى على المسلمين؛ كما كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يُجْري أحكام الإسلام؛ لكلِّ مَن كان معه وهاجر إليه، وسواء كان مؤمناً حقيقةً أو ظاهر الإيمان، وإنهم إن لم يهاجروا وتولَّوا عنها؛ {فخُذوهم واقتُلوهم حيث وجدتُموهم}؛ أي: في أيِّ وقت وأيِّ محلٍّ كان، وهذا من جملة الأدلة الدَّالة على نسخ القتال في الأشهر الحرم؛ كما هو قول جمهور العلماء، والمنازعون يقولون: هذه نصوص مطلقة محمولةٌ على تقييد التحريم في الأشهر الحرم.
[89,88] ان آیات کریمہ(یعنی ایک دوسرے نسخے کے حاشیے میں) میں یہ عبارت مذکور ہے کہ: ’’صحیحین میں حضرت زید بن ارقمt سے روایت ہے کہ رسول اللہe جنگ احد کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے کچھ لوگ واپس ہوگئے۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامy کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان کو قتل کریں گے جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿ فَمَا لَكُمْ فِى الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ﴾ ’’پس تمہیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہورہے ہو؟‘‘ (اس موقع پر) نبی کریمe نے فرمایا: ’’بے شک مدینہ پاک ہے اور بلاشبہ مدینہ بدطینت افراد کو اس طرح نکال باہر کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے۔‘‘اس اضافے کی جگہ پر دلالت کرنے والی کوئی علامت یہاں موجود نہیں۔ (محقق) پتہ نہیں اس سے فاضل محقق کا مطلب کیا ہے؟ ورنہ اس حدیث کی مناسبت تو آیت :﴿ فَمَا لَكُمْ فِى الْمُنٰفِقِيْنَ …﴾ کے ساتھ بالکل واضح ہے کیونکہ اس سے شان نزول کی وضاحت ہورہی ہے) (ص۔ي) میں مذکور منافقین سے مراد وہ منافقین ہیں جو اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اپنے کفر کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہجرت بھی نہیں کی۔ ان کے بارے میں صحابہ کرامyمیں اشتباہ واقع ہو گیا۔ چنانچہ بعض صحابہyان منافقین کے اظہار اسلام کے باعث ان کے ساتھ قتال اور قطع موالات میں حرج سمجھتے تھے۔ اور بعض صحابہyکو چونکہ ان کے افعال کے قرینے سے ان کے احوال کا علم تھا اس لیے انھوں نے ان پر کفر کا حکم لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ تمھارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو۔ بلکہ ان کا معاملہ بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ وہ منافق ہیں۔ وہ اپنے کفر کا بار بار اظہار کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر بن کر انھی کی مانند ہو جاؤ۔ پس جب تمھارے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی ﴿ فَلَا تَتَّؔخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَؔ ﴾ ’’تو تم ان کو دوست نہ بناؤ۔‘‘ یہ ممانعت ان کے ساتھ عدم محبت کو لازم ٹھہراتی ہے کیونکہ موالات اور دوستی محبت ہی کی ایک شاخ ہے۔ نیز یہ ممانعت ان کے ساتھ بغض اور عداوت کو لازم ٹھہراتی ہے کیونکہ کسی چیز سے ممانعت درحقیقت اس کی ضد کا حکم ہے اور اس حکم کی مدت ان کی ہجرت تک ہے۔ اگر وہ ہجرت کر کے آجاتے ہیں تو ان پر وہی احکام جاری ہوں گے جو دیگر مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں۔ جیسا کہ نبی اکرمeہر اس شخص پر اسلام کے احکام جاری فرماتے تھے جو آپeکے ساتھ تھا اور ہجرت کر کے آپ کی خدمت میں پہنچ گیا تھا۔ خواہ وہ حقیقی مومن تھا یا محض ایمان کا اظہار کرتا تھا۔ اگر وہ ہجرت نہیں کرتے اور اس سے روگردانی کرتے ہیں ﴿ فَخُذُوْهُمْ وَاقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ﴾ ’’تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کردو۔‘‘ یعنی جب بھی اور جس جگہ تم ان کو پاؤ ان کو قتل کر دو۔ یہ آیت کریمہ ان جملہ دلائل میں شامل ہے جو حرام مہینوں میں قتال کی حرمت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا قول ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ یہ تمام نصوص مطلق ہیں، حرام مہینوں میں قتال کی تحریم کی تخصیص پر محمول ہوں گی۔
#
{90} ثم إن الله استثنى من قتال هؤلاء المنافقين ثلاث فرق: فرقتين أمر بتركهم وَحتَّم على ذلك: إحداهما: من يصل إلى قوم بينهم وبين المسلمين عهدٌ وميثاقٌ بترك القتال، فينضمُّ إليهم، فيكون له حكمُهم في حقن الدم والمال. والفرقة الثانية: قومٌ {حَصِرَتْ صدورُهم أن يُقاتِلوكم أو يُقاتِلوا قومَهم}؛ أي: بقوا لا تسمحُ أنفسُهم بقتالِكم ولا بقتال قومِهم، وأحبُّوا ترك قتال الفريقين؛ فهؤلاء أيضاً أمَرَ بتركهم، وذَكَرَ الحكمةَ في ذلك بقوله: {ولو شاء الله لسلَّطَهم عليكم فَلَقاتَلوكم}؛ فإنَّ الأمورَ الممكنة ثلاثةُ أقسام: إما أن يكونوا معكم ويقاتِلوا أعداءَكم، وهذا متعذِّر من هؤلاء، فدار الأمرُ بين قتالِكم مع قومهم، وبين ترك قتال الفريقين، وهو أهون الأمرين عليكم، والله قادرٌ على تسليطِهم عليكم؛ فاقْبَلوا العافية واحْمَدوا ربَّكم الذي كفَّ أيدِيَهم عنكم مع التمكُّن من ذلك؛ فهؤلاء إن اعتزلوكم {فلم يقاتلوكم وألقوا إليكُمُ السَّلمَ فما جَعَلَ الله لكم عليهم سبيلاً}.
[90] پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین میں سے تین گروہوں کو قتال سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ان میں سے دو گروہوں کو ترک کرنے کا حتمی حکم دیا ہے۔ ان میں پہلا گروہ وہ ہے جو کسی ایسی قوم کے ساتھ مل جاتا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ پس ان منافقین کو اس قوم میں شامل قرار دیا جائے گا اور جان و مال کے بارے میں ان کا بھی وہی حکم ہو گا جو اس قوم کا ہو گا۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ حَصِرَتْ صُدُوْرُهُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْؔكُمْ۠ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَهُمْ ﴾ ’’ان کے دل تمھارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے رک گئے۔‘‘ یعنی وہ تمھارے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں نہ اپنی قوم کے ساتھ۔ وہ دونوں فریقوں کے ساتھ قتال ترک کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ قتال نہ کیا جائے اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَسَلَّطَ٘هُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقٰتَلُوْؔكُمْ۠ ﴾ ’’اگر اللہ چاہتا تو وہ ان کو تم پر مسلط کر دیتا، پس وہ تم سے لڑتے‘‘ اس معاملے میں تین صورتیں ممکن ہو سکتی ہیں: وہ یا تو تمھارے ساتھ ہوتے اور تمھارے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے، ان سے ایسا ہونا مشکل ہے۔ اب معاملہ صرف اس بات پر مبنی ہے کہ جنگ تمھارے اور ان کی قوم کے درمیان ہو یا دونوں فریقوں کے درمیان جنگ نہ ہو اور یہ صورت تمھارے لیے زیادہ آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو تم پر مسلط کرنے پر قادر ہے۔ پس تم عافیت کو قبول کرو اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو جس نے ان کو تمھارے خلاف لڑنے سے روکا حالانکہ وہ تمھارے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتے تھے ﴿ فَاِنِ اعْتَزَلُوْؔكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْؔكُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ١ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا ﴾ ’’اگر وہ تمھارے ساتھ جنگ کرنے سے کنارہ کشی کر لیں اور تمھاری طرف صلح اور سلامتی کا پیغام بھیجیں تو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ان پر زیادتی کرنے کی کوئی راہ نہیں رکھی۔‘‘
#
{91} الفرقة الثالثة: قومٌ يريدون مصلحة أنفسهم، بقطع النظر عن احترامكم، وهم الذين قال الله فيهم: {ستجِدون آخرينَ}؛ أي: من هؤلاء المنافقين. {يريدونَ أن يأمَنوكم}؛ أي: خوفاً منكم، {ويأمنوا قومَهم كلَّما رُدُّوا إلى الفتنةِ أُرْكِسوا فيها}؛ أي: لا يزالون مقيمين على كفرِهم ونفاقِهم، وكلَّما عَرَضَ لهم عارضٌ من عوارض الفتنِ؛ أعماهم ونَكَّسَهُم على رؤوسهم وازداد كفرُهم ونفاقُهم، وهؤلاء في الصورة كالفرقة الثانية، وفي الحقيقة مخالفة لها؛ فإنَّ الفرقة الثانية تركوا قتال المؤمنين احتراماً لهم لا خوفاً على أنفسهم، وأما هذه الفرقة؛ فتركوه خوفاً لا احتراماً، بل لو وجدوا فرصةً في قتال المؤمنين؛ فإنَّهم سيُقِدمون لانتهازها؛ فهؤلاء إن لم يتبيَّن منهم، ويتَّضح اتِّضاحاً عظيماً اعتزال المؤمنين وترك قتالهم؛ فإنَّهم يقاتَلون، ولهذا قال: {فإن لم يعتزِلوكم ويُلْقوا إليكُمُ السَّلمَ}؛ أي: المسالمة والموادعة، {ويَكُفُّوا أيديَهم فخذوهم واقتلوهم حيث ثَقِفْتُموهم وأولئكم جعلنا لكم عليهم سلطاناً مُبيناً}؛ أي: حجةً بيِّنةً واضحةً؛ لكونهم معتدين ظالمين لكم تاركين للمسالمة؛ فلا يلوموا إلا أنفسهم.
[91] تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو تمھارے احترام سے قطع نظر صرف اپنی بھلائی چاہتے ہیں۔ اور یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ ﴾ ’’تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے‘‘ یعنی ان منافقین میں سے ﴿ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّ٘اْمَنُوْؔكُمْ ﴾ ’’وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں۔‘‘ یعنی وہ تم سے ڈرتے ہوئے تمھارے ساتھ پرامن رہنا چاہتے ہیں ﴿ وَ یَ٘اْمَنُوْا قَوْمَهُمْ١ؕ كُلَّمَا رُدُّوْۤا اِلَى الْفِتْنَةِ اُرْكِسُوْا فِیْهَا ﴾ ’’اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دیے جاتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اپنے کفر اور نفاق پر قائم ہیں اور جب کبھی وہ کسی فتنہ سے دوچار ہوتے ہیں، یہ فتنہ انھیں اندھا کر دیتا ہے اور وہ پہلی حالت پر لوٹ جاتے ہیں اور ان کا کفر و نفاق بڑھ جاتا ہے یہ لوگ بھی اس صورت میں دوسرے گروہ کی مانند ہیں حالانکہ درحقیقت یہ اس گروہ کے مخالف ہیں۔ کیونکہ دوسرے گروہ نے مسلمانوں کے خلاف اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے قتال ترک نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے احترام کی بنا پر ترک کیا ہے۔ جبکہ اس گروہ نے تمھارے خلاف قتال، احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے ترک کیا ہے بلکہ اگر وہ اہل ایمان کے خلاف لڑنے کا کوئی موقع پائیں تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے تمھارے خلاف لڑیں۔ لہٰذا اگر یہ لوگ واضح طور پر اہل ایمان کے ساتھ لڑنے سے کنارہ کشی نہ کریں۔ تو وہ گویا تمھارے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْؔكُمْ۠ وَیُلْقُوْۤا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ ﴾ ’’اگر وہ تم سے کنارہ کشی کریں نہ تمھاری طرف پیغام صلح بھیجیں۔‘‘ یعنی اگر وہ تمھارے ساتھ امن اور صلح نہیں چاہتے ﴿ وَیَكُفُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فَخُذُوْهُمْ وَاقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ۠١ؕ وَاُولٰٓىِٕكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَیْهِمْ سُلْؔطٰنًا مُّبِیْنًا﴾ ’’اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں تو انھیں پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ۔ یہی ہیں جن پر ہم نے تمھیں ظاہر حجت عنایت فرمائی ہے‘‘ تب ہم نے تمھیں ان کے خلاف ایک واضح حجت عطا کر دی ہے کیونکہ وہ تمھارے خلاف ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ صلح اور امن کے رویے کو ترک کر رہے ہیں۔ پس انھیں چاہیے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کریں۔
آیت: 92 #
{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (92)}.
اور نہیں لائق کسی مومن کے یہ (بات) کہ قتل کرے وہ کسی مومن کو مگر غلطی سےاور جو کوئی قتل کرے کسی مومن کو غلطی سے تو آزاد کرنا ہے ایک مسلمان گردن کا اور دیت سونپی جائے گی اس کے وارثوں کی طرف مگر یہ کہ معاف کر دیں وہ پس اگر ہو وہ (مقتول) ایسی قوم میں سے جو دشمن ہے تمھاری جبکہ وہ (خود) مسلمان تھا تو آزاد کرنا ہے ایک مسلمان گردن کا اور اگر ہو وہ ایسی قوم سے کہ تمھارے اور ان کے درمیان عہد ہے تو دیت سونپی جائے گی اس کے وارثوں کی طرف اور آزاد کرنا ہے ایک مسلمان گردن کا، پھر جو شخص نہ پائے (غلام) تو روزے رکھنے ہیں دو مہینے لگاتار۔ (یہ کفارہ) توبہ (کا قبول کرنا) ہے اللہ کی طرف سےاور ہے اللہ خوب جاننے والا خوب حکمت والا(92)
#
{92} هذه الصيغة من صيغ الامتناع، أي: يمتنع ويستحيل أن يصدر من مؤمن قتلُ مؤمنٍ؛ أي: متعمداً. وفي هذا الإخبار بشدَّة تحريمه وأنه منافٍ للإيمان أشدَّ منافاة، وإنَّما يصْدر ذلك إمَّا من كافر أو من فاسق قد نَقَصَ إيمانه نقصاً عظيماً ويُخشَى عليه ما هو أكبر من ذلك؛ فإنَّ الإيمان الصحيح يمنعُ المؤمن من قتل أخيه الذي قد عَقَدَ الله بينَه وبينَه الأخوَّة الإيمانيَّة التي من مقتضاها محبَّته وموالاته وإزالة ما يعرض لأخيه من الأذى، وأيُّ أذىً أشد من القتل؟! وهذا يصدقه قوله - صلى الله عليه وسلم -: «لا ترجِعوا بعدي كفَّاراً يضرِبُ بعضُكم رقابَ بعض» ، فعُلِمَ أنَّ القتل من الكفر العمليِّ، وأكبر الكبائر بعد الشرك بالله. ولما كان قوله: {وما كان لمؤمنٍ أن يقتُلَ مؤمناً}: لفظاً عامًّا لجميع الأحوال، وأنه لا يصدُرُ منه قتلُ أخيه بوجهٍ من الوجوه؛ استثنى تعالى قتلَ الخطأ، فقال: {إلَّا خطأً}؛ فإنَّ المخطئ الذي لا يقصد القتل غير آثم ولا متجرئ على محارم الله، ولكنه لما كان قد فعل فعلاً شنيعاً وصورتُهُ كافيةٌ في قبحه وإن لم يقصِدْه؛ أمر تعالى بالكفَّارة والدِّية، فقال: {ومَن قَتَلَ مؤمناً خطأً}: سواء كان القاتلُ ذكراً أو أنثى حُرًّا أو عبداً صغيراً أو كبيراً عاقلاً أو مجنوناً مسلماً أو كافراً؛ كما يفيده لفظ {مَنْ} الدالة على العموم، وهذا من أسرار الإتيان بـ «مَن» في هذا الموضع؛ فإنَّ سياق الكلام يقتضي أنه يقول: فإن قتله، ولكن هذا لفظٌ لا يشمل ما تشمله «مَنْ»، وسواء كان المقتول ذكراً أو أنثى صغيراً أو كبيراً؛ كما يفيده التنكير في سياق الشرط؛ فإنَّ على القاتل {تحريرُ رقبةٍ مؤمنةٍ}: كفارةً لذلك، تكون في مالِه، ويشمل ذلك الصغير والكبير والذكر والأنثى والصحيح والمعيب في قول بعض العلماء، ولكن الحكمة تقتضي أن لا يُجزئ عتق المعيب في الكفارة؛ لأن المقصود بالعتق نفعُ العتيق ومُلْكُه منافع نفسه؛ فإذا كان يضيع بعتقه، وبقاؤه في الرقِّ أنفع له؛ فإنه لا يجزئ عتقه، مع أن في قوله: {تحرير رقبة}؛ ما يدلُّ على ذلك؛ فإن التحرير تخليصُ مَنِ استحقت منافعُهُ لغيرِهِ أن تكون له؛ فإذا لم يكن فيه منافع؛ لم يُتَصَوَّر وجود التحرير، فتأمَّل ذلك؛ فإنه واضح. وأما الدِّية؛ فإنها تجب على عاقلة القاتل في الخطأ وشبه العمد. {مسلَّمةٌ إلى أهله}: جبراً لقلوبهم. والمراد بـ {أهله} هنا هم ورثتُهُ؛ فإن الورثة يرثون ما ترك الميت، فالدِّية داخلةٌ فيما ترك، وللدِّيةِ تفاصيل كثيرة مذكورة في كتب الفقه. وقوله: {إلَّا أن يَصَّدَّقوا}؛ أي: يتصدَّق ورثة القتيل بالعفو عن الدِّية؛ فإنها تسقُط، وفي ذلك حثٌّ لهم على العفو؛ لأنَّ الله سمّاها صدقةً، والصدقة مطلوبة في كلِّ وقت. {فإن كان} المقتول {من قوم عدوٍّ لكم}؛ أي: من كفارٍ حَرْبيِّينَ، {وهو مؤمنٌ فتحريرُ رقبةٍ مؤمنةٍ}؛ أي: وليس عليكم لأهله دِيَةٌ؛ لعدم احترامهم في دمائهم وأموالهم. {وإن كان}: المقتول {من قوم بينكم وبينهم ميثاقٌ فَدِيَةٌ مسلَّمةٌ إلى أهله وتحريرُ رقبة مؤمنة}، وذلك لاحترام أهله بما لهم من العهد والميثاق. {فَمَن لم يجد}: الرقبةَ ولا ثمنها؛ بأن كان معسراً بذلك، ليس عنده ما يَفْضُلُ عن مؤنته وحوائجه الأصلية شيء يفي بالرَّقبة. {فصيام شهرين متتابعين}؛ أي: لا يفطر بينهما من غير عذرٍ؛ فإن أفطر لعذرٍ؛ فإن العذر لا يقطع التتابع؛ كالمرض والحيض ونحوهما، وإن كان لغير عذرٍ؛ انقطع التتابُع، ووجب عليه استئناف الصوم، {توبةً من الله}؛ أي: هذه الكفارات التي أوجبها الله على القاتل توبةً من الله على عباده ورحمةً بهم وتكفيراً لما عساه أن يحصُلَ منهم من تقصير وعدم احتراز كما هو الواقع كثيراً للقاتل خطأ. {وكان الله عليماً حكيماً}؛ أي: كامل العلم كامل الحكمة، لا يخفى عليه مثقال ذرَّة في الأرض ولا في السماء، ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، في أي وقت كان وأي محلٍّ كان، ولا يخرج عن حكمتِهِ من المخلوقات والشرائع شيءٌ، بل كل ما خلقه وشرعه فهو متضمِّن لغاية الحكمة. ومن علمه وحكمته أن أوجب على القاتل كفارةً مناسبةً لما صدر منه؛ فإنَّه تسبَّب لإعدام نفس محترمة، وأخرجها من الوجود إلى العدم، فناسب أن يَعْتِقَ رقبةً ويخرِجَها من رِقِّ العبوديَّة للخلق إلى الحريَّة التامَّة؛ فإنْ لم يجد هذه الرقبة؛ صام شهرين متتابعين، فأخرج نفسه من رقِّ الشهوات واللَّذَّات الحسيَّة القاطعة للعبد عن سعادتِهِ الأبديَّة إلى التعبُّد لله تعالى بتركها تقرباً إلى الله، ومدَّها تعالى بهذه المدة الكثيرة الشاقَّة في عددها ووجوب التتابُع فيها، ولم يشرع الإطعام في هذه المواضع لعدم المناسبة؛ بخلاف الظِّهار؛ كما سيأتي إن شاء الله تعالى. ومن حكمته أن أوجب في القتل الدِّية، ولو كان خطأ؛ لتكون رادعةً وكافَّةً عن كثير من القتل باستعمال الأسباب العاصمة عن ذلك. ومن حكمته أن أُوجِبت على العاقلة في قتل الخطأ بإجماع العلماء؛ لكون القاتل لم يُذْنِبْ، فيشق عليه أن يحمل هذه الدية الباهظة، فناسب أن يقوم بذلك مَن بينه وبينهم المعاونةُ والمناصرةُ والمساعدةُ على تحصيل المصالح وكفِّ المفاسد، ولعلَّ ذلك من أسباب منعهم لمن يعقِلون عنه من القتل حذار تحميلهم، ويخف عليهم بسبب توزيعه عليهم بقدر أحوالهم وطاقتهم، وخُفِّفَت أيضاً بتأجيلها عليهم ثلاث سنين. ومن حكمته وعلمه أن جبر أهل القتيل عن مصيبتهم بالدِّية التي أوجبها على أولياء القاتل.
[92] آیت کریمہ کا یہ اسلوب ، امتناع یعنی ناممکن ہونے کے اظہار کے اسالیب میں سے ہے یعنی یہ ممتنع اور محال ہے کہ ایک مومن سے دوسرے مومن کا جان بوجھ کر قتل صادر ہو۔ اس آیت کریمہ میں قتل مومن کی تحریم کو نہایت شدت سے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن کا قتل ایمان کے سخت منافی ہے۔ مومن کا قتل یا تو کافر سے صادر ہوتا ہے یا ایسے فاسق و فاجر سے صادر ہوتا ہے جس کے ایمان میں بہت زیادہ کمی ہو۔ ایسے فاسق و فاجر سے اس سے بھی بڑے اقدام کا ڈر ہے۔ اس لیے کہ ایمان صحیح مومن کو اپنے مومن بھائی کے قتل سے باز رکھتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اخوت ایمانی کا رشتہ جوڑا ہے جس کا تقاضا محبت و موالات اور اپنے بھائی سے اذیتوں کو دور کرنا ہے اور قتل سے بڑھ کر کون سی اذیت ہے؟ یہ چیز رسول اللہeکے اس ارشاد کی مصداق ہے :’لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘ ’’میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘(صحیح البخاری، الدیات، باب ﴿ومن أحیا ……﴾، حديث:6868) پس معلوم ہوا کہ قتل مومن عملی کفر ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا ﴾ ’’اور کسی مومن کو شایاں نہیں کے مومن کو مار ڈالے۔‘‘ تمام احوال کے لیے عام ہے اور مومن کسی بھی اعتبار سے اپنے مومن بھائی کے قتل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ قتل خطا کو مستثنی کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اِلَّا خَطَــًٔؔا ﴾ ’’مگر غلطی سے‘‘ اس لیے کہ قتل خطا کا مرتکب شخص قتل اور گناہ کا قصد نہیں رکھتا، نہ وہ اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مگر چونکہ اس نے ایک بہت ہی قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی ظاہری شکل اس کی قباحت کے لیے کافی ہے، اگرچہ اس کا مقصد اس کو قتل کرنا ہرگز نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کفارہ اور دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا ﴿ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــًٔؔا ﴾ ’’جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے‘‘ قاتل خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، عاقل ہو یا پاگل اور مسلمان ہو یا کافر جیسا کہ لفظ (مَنْ) عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ یہاں لفظ (مَنْ) کو لانے کا یہی سرنہاں ہے کیونکہ سیاق کلام تو تقاضا کرتا ہے کہ یہاں لفظ (فَاِنْ قَتَلَہٗ) استعمال ہوتا مگر یہ لفظ وہ معنی ادا نہیں کرتا جو (مَنْ) ادا کرتا ہے۔ اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا (آیت کریمہ تمام صورتوں کو شامل ہے) جیسا کہ سیاق شرط میں نکرہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ ﴿ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ﴾ قاتل پر کفارہ کے طور پر مومن غلام کا آزاد کرنا واجب ہے۔ یہ غلام قاتل کے مال سے آزاد کیا جائے گا۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آیت کریمہ چھوٹے بڑے، مرد عورت، بے عیب اور عیب دار، ہر قسم کے غلام کو شامل ہے۔ مگر حکمت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عیب زدہ غلام کو کفارہ میں آزاد نہ کیا جائے، اس لیے کہ آزادی عطا کرنے کا مقصد آزاد کیے جانے والے کو نفع پہنچانا ہے اور اس کو ملکیت میں رکھنا خود اپنے آپ کو نفع پہنچانا ہے۔ پس جب آزادی عطا کرنے سے یہ نفع ضائع ہو جاتا ہے اور غلامی میں اسے باقی رکھنا اس کے لیے زیادہ نفع مند ہے تو اس کو آزاد کرنا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ) کا معنی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں آزادی عطا کرنے سے مراد کسی ایسے شخص کے منافع کا استحقاق خود اس کے لیے خالص کرنا ہے جس کے منافع کا استحقاق کسی دوسرے کے پاس ہو۔ پس اگر اس میں (عیب زدہ ہونے کی وجہ سے) کوئی منفعت نہیں تو آزادی کے وجود کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں غور کیجیے یہ بالکل واضح ہے۔ رہی دیت، تو یہ قاتل کی برادری اور اس کے رشتہ داروں پر واجب ہے۔ دیت قتل خطا اور قتل شبہ عمد میں واجب ہوتی ہے ﴿ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ ﴾ ’’مقتول کے وارثوں کو ادا کرے۔‘‘ یعنی مقتول کے وارثوں کی دل جوئی کی خاطر ان کے حوالے کرے۔ یہاں (اَھْلِہٖ) سے مراد مقتول کے ورثاء ہیں کیونکہ یہی لوگ میت کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں۔ نیز دیت بھی ترکہ میں داخل ہے۔ اور دیت بہت سی تفاصیل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُ٘وْا﴾ ’’ہاں اگر وہ معاف کردیں۔‘‘ یعنی مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر کے دیت اس کو بخش دیں۔ تب یہ دیت بھی ساقط ہو جائے گی۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی ترغیب دی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معافی کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور صدقہ ہر وقت مطلوب ہے۔ ﴿فَاِنْ كَانَ﴾ ’’پس اگر وہ ہو‘‘ یعنی مقتول ﴿ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمْ﴾ ’’ایسی قوم سے جو تمھاری دشمن ہے‘‘ یعنی اگر مقتول حربی کفار میں سے ہو ﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ ’’اور وہ مومن ہو تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے‘‘ یعنی تب اس صورت میں تم پر مقتول کے (کافر) ورثاء کو دیت ادا کرنا واجب نہیں۔ کیونکہ ان کی جان اور مال کا احترام واجب نہیں۔ ﴿ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّؔیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ ’’اور اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہدوپیمان ہو تو خون بہا لازمی ہے جو اس کے کنبے والے کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے‘‘ یہ ان کے ساتھ عہد و میثاق کی بنا پر مقتول کے ورثاء کے احترام کی وجہ سے ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ ’’اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔‘‘ یعنی جس کے پاس تنگ دستی کی وجہ سے آزاد کرنے کے لیے غلام یا اس کی قیمت نہیں ہے اور بنیادی ضروریات و حوائج کے اخراجات کے بعد اتنی رقم نہیں بچتی جس سے غلام کو آزاد کیا جا سکے ﴿ فَصِیَامُ شَ٘هْرَیْنِ مُتَـتَابِعَیْنِ﴾ ’’تب دو مہینے مسلسل روزے رکھے‘‘ اور ان کے دوران بغیر کسی عذر کے روزہ نہ چھوڑے۔ اگر کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوٹ جائے مثلاًمرض اور حیض وغیرہ تو اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا اگر اس نے بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دیا ہے تو اس سے تسلسل منقطع ہو جائے گا اور اسے نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے۔ ﴿ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کے ليے ہے۔‘‘ یعنی یہ کفارات جو اللہ تعالیٰ نے قاتل پر واجب کیے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت توبہ، ان پر رحمت اور ان کے گناہوں کی تکفیر ہے جو ممکن ہے کسی کوتاہی اور عدم احتیاط کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئے ہوں جیسا کہ قتل خطا کے مرتکب سے اکثر واقع ہوتے ہیں ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا﴾ ’’اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ زمین و آسمان میں، کسی جگہ اور کسی وقت چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔ تمام مخلوقات اور تمام شرائع اس کی حکمت سے خالی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق، اور جو کچھ مشروع کیا ہے وہ حکمت پر مبنی ہے۔ یہ اس کا علم و حکمت ہے کہ اس نے قاتل پر کفارہ واجب کیا جو اس سے صادر ہونے والے گناہ سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک قابل احترام جان کو معدوم کرنے کا سبب بنا اور اسے وجود سے نکال کر عدم میں لے گیا۔ اس جرم سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے کہ وہ غلام آزاد کرے، اس کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر مکمل آزادی عطا کرے۔ اگر وہ غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھے۔ یوں وہ اپنے آپ کو شہوات، اور ان لذات حسیہ کی غلامی سے آزاد کر کے جو بندے کو ابدی سعادت سے محروم کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے رکھنے کے لیے شاق گزرنے والی طویل مدت مقرر کی ہے اور اس میں روزوں کے تسلسل کو واجب قرار دیا ہے اور ان تمام مقامات پر عدم مناسبت کی بنا پر، روزے رکھنے کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس ظہار میں روزوں کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع ہے۔ اس کا ذکر ان شاء اللہ آئے گا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ قتل خواہ خطا ہی سے کیوں نہ ہو، اس نے اس میں دیت واجب ٹھہرائی ہے تاکہ دیت اور دیگر اسباب کے ذریعے سے قتل کے جرائم کا سدباب ہو سکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے قتل خطا میں دیت قاتل کے پدری (باپ کی طرف سے) رشتہ داروں (یعنی عاقلہ) پر فرض کی ہے۔ اس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ کیونکہ گناہ کی نیت سے قاتل نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا کہ اس دیت کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا جائے جو اس کے لیے سخت مشقت کا باعث ہو۔ اس لیے یہ امر مناسبت رکھتا ہے کہ حصول مصالح اور سدمفاسد کی خاطر اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان تعاون، اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہو۔ شاید یہ چیز اس شخص کو قتل سے روکنے کا سبب بن جائے جس کی طرف سے وہ دیت ادا کرتے ہیں تاکہ انھیں دیت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ نیز ان کی طاقت اور ان کے احوال کے مطابق ان پر دیت کو تقسیم کرنے سے دیت کے بوجھ میں تخفیف ہو جائے گی۔ نیز دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال مقرر کر کے اس میں مزید تخفیف پیدا کر دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ہے کہ اس نے اس دیت کے ذریعے سے جو اس نے قاتل کے اولیاء پر واجب کی ہے، مقتول کے ورثاء کی مصیبت میں ان کے نقصان کی تلافی کی ہے۔
آیت: 93 #
{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93)}.
اور جو کوئی قتل کرے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی سزا جہنم ہے، ہمیشہ رہے گا وہ اس میں اور غضب ناک ہوا اللہ اس پر اور لعنت کی اس پر اور تیار کیا ہے اس کے لیے عذاب بہت بڑا(93)
#
{93} تقدَّم أن الله أخبر أنه لا يصدر قتل المؤمن من المؤمن، وأن القتل من الكفر العملي، وذكر هنا وعيد القاتل عمداً وعيداً ترجُفُ له القلوبُ وتنصدِع له الأفئدة وتنزعج منه أولو العقول، فلم يرد في أنواع الكبائر أعظمُ من هذا الوعيد، بل ولا مثلُه، ألا وهو الإخبارُ بأنَّ جزاءَه جهنَّم؛ أي: فهذا الذنب العظيم قد انتهض وحدَه أن يجازي صاحبَهُ بجهنَّم بما فيها من العذاب العظيم والخزي المهين وسخط الجبار وفوات الفوز والفلاح وحصول الخيبة والخسار؛ فعياذاً بالله من كلِّ سبب يبعد عن رحمته. وهذا الوعيد له حكم أمثاله من نصوص الوعيد على بعض الكبائر والمعاصي بالخلود في النار أو حرمان الجنة. وقد اختلف الأئمة رحمهم الله في تأويلها، مع اتفاقهم على بطلان قول الخوارج والمعتزلة الذين يخلِّدونهم في النار ولو كانوا موحِّدين، والصواب في تأويلها ما قاله الإمام المحقِّق شمس الدين ابن القيم رحمه الله في «المدارج» ؛ فإنه قال بعد ما ذكر تأويلات الأئمة في ذلك وانتقدها، فقال: وقالت فرقةٌ: إن هذه النصوص وأمثالها مما ذُكِرَ فيه المقتضي للعقوبة، ولا يلزم من وجود مقتضى الحكم وجودُه؛ فإن الحكم إنما يتمُّ بوجود مقتضيه وانتفاء موانعه، وغاية هذه النصوص الإعلام بأن كذا سببٌ للعقوبة ومقتضٍ لها، وقد قام الدليل على ذِكْرِ الموانع؛ فبعضُها بالإجماع وبعضُها بالنص؛ فالتوبة مانعٌ بالإجماع، والتوحيد مانعٌ بالنصوص المتواترة التي لا مدفع لها، والحسناتُ العظيمة الماحية مانعةٌ، والمصائب الكبارُ المكفِّرة مانعة، وإقامة الحدود في الدُّنيا مانع بالنصِّ، ولا سبيل إلى تعطيل هذه النصوص، فلا بدَّ من إعمال النصوص من الجانبين، ومن هنا قامت الموازنةُ بين الحسنات والسيئات اعتباراً لمقتضى العقاب ومانعه وإعمالاً لأرجحها. قالوا: وعلى هذا بناء مصالح الدارين ومفاسِدِهما، وعلى هذا بناء الأحكام الشرعية والأحكام القدريَّة، وهو مقتضى الحكمة السارية في الوجود، وبه ارتباط الأسباب ومسبَّباتها خَلْقاً وأمراً، وقد جعل الله سبحانه لكل ضدٍّ ضدًّا يدافِعُه ويقاومه ويكون الحكم للأغلب منهما؛ فالقوة مقتضيةٌ للصحة، والعافية وفساد الأخلاط وبغيها مانعٌ من عمل الطبيعة، وفعل القوة والحكم للغالب منهما، وكذلك قوى الأدوية والأمراض، والعبد يكون فيه مقتضٍ للصحَّة ومقتضٍ للعطب، وأحدُهما يمنع كمال تأثير الآخر ويقاوِمُه؛ فإذا ترجَّح عليه وقهره؛ كان التأثير له، ومن هنا يُعلم انقسام الخلق إلى من يدخل الجنة ولا يدخل النار وعكسه، ومن يدخل النار ثم يخرُجُ منها ويكون مكثه فيها بحسب ما فيه من مقتضى المكث في سرعة الخروج وبطئه، ومن له بصيرةٌ منورةٌ يرى بها كلَّ ما أخبر الله به في كتابه من أمر المعاد وتفاصيلِهِ، حتى كأنه يشاهدُهُ رأي العين، ويعلم أنَّ هذا مقتضى إلهيته سبحانه وربوبيَّته وعزَّته وحكمته، وأنه يستحيل عليه خلاف ذلك، ونسبة ذلك إليه نسبة ما لا يليق به إليه، فيكون نسبة ذلك إلى بصيرته كنسبة الشمس والنجوم إلى بصره، وهذا يقين الإيمان، وهو الذي يحرق السيِّئات كما تحرق النار الحطب، وصاحب هذا المقام من الإيمان يستحيل إصرارُهُ على السيِّئات وإن وقعت منه وكثرت؛ فإنَّ ما معه من نور الإيمان يأمره بتجديد التوبة كلَّ وقت بالرجوع إلى الله في عدد أنفاسه، وهذا من أحبِّ الخلق إلى الله. انتهى كلامه قدَّس الله رُوحه وجزاه عن الإسلام والمسلمين خيراً.
[93] گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ مومن سے مومن کا قتل صادر نہیں ہو سکتا نیز یہ کہ قتل کفر عملی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے وعید کا ذکر فرمایا ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں، کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور عقلمند لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں میں سے کسی اور گناہ کے لیے اس سے بڑی بلکہ اس جیسی وعید بھی وارد نہیں ہوئی۔ آگاہ رہو کہ یہ اس امر کی خبر دینا ہے کہ مومن کے قتل کے مرتکب کے لیے جہنم ہے۔ یعنی یہ گناہ عظیم اکیلا ہی کافی ہے کہ اپنے مرتکب کو جہنم، عذاب عظیم، رسوائی، اللہ جبار کی ناراضی، فوز و فلاح سے محرومی و ناکامی اور خسارے جیسی سزا کا مستحق بنائے۔ ہم ہر اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرے۔ اس وعید کا حکم، کبیرہ گناہوں کے بارے میں وارد اس جیسی دیگر نصوص وعید کی مانند ہے جن میں جہنم میں خلود اور جنت سے محرومی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ائمہ کرام، خوارج اور معتزلہ کے اس قول کے بطلان پر متفق ہونے کے باوجود، کہ موحد گناہ گار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس آیت کریمہ کی تاویل میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تاویل و تفسیر میں حق و صواب وہ ہے جو امام محقق شمس الدین ابن القیم a نے اپنی مشہور کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں ذکر فرمایا ہے۔ انھوں نے ائمہ کی تاویلات ذکر کرنے کے بعد نقد کرتے ہوئے فرمایا: ’’کچھ دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ نصوص اور اس قسم کی دیگر نصوص، جن میں سزا کی اقتضا کا ذکر آتا ہے مقتضائے حکم کے وجود سے اس کا وجود لازم نہیں آتا کیونکہ حکم اپنے مقتضی کے وجود اور انتفائے مانع سے پورا ہوتا ہے اور ان نصوص کی غرض و غایت محض اس امر کی اطلاع دینا ہے کہ اس قسم کے جرائم عقوبت کا سبب ہیں اور اس کا تقاضا کرتے ہیں اور موانع کے ذکر پر دلیل قائم ہو چکی ہے کچھ تو اجماع کی بنا پر اور کچھ نصوص کی بنا پر چنانچہ توبہ بالاجماع عقوبت اور سزا کومانع ہے اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ توحید بھی مانع عقوبت ہے اسی طرح برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں بھی مانع عقاب ہیں۔ بڑے بڑے مصائب جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں مانع عقاب ہیں۔ دنیا میں ان جرائم پر حد قائم ہونا بھی مانع عقوبت ہے ان امور پر نصوص دلالت کرتی ہیں اور ان نصوص کو معطل کرنے کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا جانبین کی طرف سے نصوص کے عمل کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ ہے وہ مقام جہاں اقتضائے عقاب اور اس کے مانع کے لیے، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے جو راجح ہو، اس کے مطابق عمل کیا جائے (اقتضائے عذاب راجح ہو تو عذاب کا اور مانع راجح ہو تو عدم عذاب کا فیصلہ ہو گا) وہ کہتے ہیں کہ اسی اصول پر دنیا و آخرت کے مصالح اور مفاسد کی بنا ہے اور یہی اصول احکام شرعیہ اور احکام قدریہ کی بنیاد ہیں اور یہی اس حکمت کا تقاضا ہے جو وجود کائنات میں جاری و ساری ہے۔ خلق و امر کے لحاظ سے اسی اصول کے ذریعے سے اسباب اور مسببات ایک دوسرے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی ضد پیدا کی ہے تاکہ یہ ضد اس شے کو دفع کرے اور ضدین میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ قوت صحت و عافیت کا تقاضا کرتی ہے اور اخلاط فاسدہ کا غلبہ، عمل طبعی اور فعل قوت کو مانع ہے، ان دونوں میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ یہی اصول ادویہ اور امراض کے قویٰ میں عمل کرتا ہے انسان کے اندر ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی صحت کی متقاضی ہیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی ہلاکت کا تقاضا کرتی ہیں۔ (ان کے درمیان کشمکش رہتی ہے) اور ایک چیز دوسری چیز کے کمال تاثیر کو روکتی اور اس کا مقابلہ کرتی ہے پس اگر وہ اس پر غالب آ جاتی ہے تو اس کی تاثیر اس میں کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسانوں کی تقسیم کا علم ہوتا ہے۔ کوئی سیدھا جنت میں جائے گا کسی کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کو جہنم میں داخل کر کے پھر نکال لیا جائے گا اور وہ لوگ جہنم میں بس اسی قدر ٹھہریں گے جس قدر ان کے اعمال ان کے ٹھہرنے کا تقاضا کریں گے۔ جس شخص کی چشم بصیرت روشن ہے اس اصول کے مطابق اسے معاد کے متعلق وہ تمام امور جن کی قرآن خبر دیتا ہے یوں نظر آتے ہیں گویا کہ وہ انھیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور عزت و حکمت کا تقاضا ہے اور اس کی خلاف ورزی اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔ اس کی خلاف ورزی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک ایسے امر کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ ان امور کو وہ اپنی چشم بصیرت سے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھ سے سورج اور ستاروں کو دیکھتا ہے اور یہ ایمان کا یقین ہے اور یہ وہ یقین ہے جو برائیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے خشک ایندھن کو آگ جلا دیتی ہے۔ وہ شخص جو ایمان کے اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے اس کے لیے برائیوں پر مصر رہنا محال ہے۔ برائیاں اگرچہ اس سے بکثرت واقع ہو جاتی ہیں مگر اس کا نور ایمان اسے ہر وقت تجدید توبہ کا حکم دیتا رہتا ہے اور ہر سانس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ ۔ ۔ ۔ ابن القیم قدس اللہ روحہ کا کلام ختم ہوا، اللہ تعالیٰ انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے مدارج السالکین 1؍396۔ مترجم)
آیت: 94 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (94)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب سفر کرو تم راستے میں اللہ کے تو تحقیق کر لیا کرواور نہ کہو تم اس شخص کو جو عرض کرے تمھیں سلام، نہیں ہے تو مسلمان، طلب کرتے ہو تم سامان زندگانیٔ دنیا کا؟ پس اللہ کے ہاں غنیمتیں ہیں بہت، اسی طرح تھے تم پہلے (اس سے)، پس احسان کیا اللہ نے تم پر پس تحقیق کر لیا کرو، یقینا اللہ ہے، ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار(94)
#
{94} يأمر تعالى عباده المؤمنين إذا خرجوا جهاداً في سبيله وابتغاء مرضاتِهِ أن يتبيَّنوا ويتثبَّتوا في جميع أمورهم المشتبهة؛ فإنَّ الأمور قسمان: واضحةٌ وغير واضحةٍ؛ فالواضحة البيِّنة لا تحتاج إلى تثبُّت وتبيُّن؛ لأنَّ ذلك تحصيل حاصل. وأما الأمور المُشكلة غير الواضحة؛ فإنَّ الإنسان يحتاج إلى التثبُّت فيها والتبيُّن؛ لِيَعْرِفَ هل يُقْدِمُ عليها أم لا؛ فإنَّ التثبُّت في هذه الأمور يحصُل فيه من الفوائد الكثيرة والكفِّ لشرورٍ عظيمةٍ؛ ما به يُعْرَفُ دينُ العبد وعقلُه ورزانتُه؛ بخلاف المستعجِل للأمور في بداوتها قبل أن يتبيَّن له حكمها؛ فإنَّ ذلك يؤدِّي إلى ما لا ينبغي؛ كما جرى لهؤلاء الذين عاتبهم الله في الآية لمّا لم يتثبَّتوا وقتلوا مَن سَلَّم عليهم وكان معه غُنيمةٌ له أو مالُ غيره؛ ظنًّا أنه يستكفي بذلك قتلهم، وكان هذا خطأً في نفس الأمر؛ فلهذا عاتبهم بقوله: {ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمناً تبتغونَ عَرَض الحياة الدُّنيا فعندَ الله مغانم كثيرة}؛ أي: فلا يحملنَّكم العَرَض الفاني القليل على ارتكاب ما لا ينبغي، فيفوتكُم ما عند الله من الثواب الجزيل الباقي؛ فما عند الله خيرٌ وأبقى. وفي هذا إشارةٌ إلى أنَّ العبد ينبغي له إذا رأى دواعي نفسه مائلةً إلى حالةٍ له فيها هوى وهي مضرَّةٌ له؛ أن يذكِّرها ما أعدَّ الله لِمَن نهى نفسه عن هواها، وقدَّم مرضاة الله على رضا نفسِهِ؛ فإنَّ في ذلك ترغيباً للنفس في امتثال أمر الله، وإن شقَّ ذلك عليها. ثم قال تعالى مذكِّراً لهم بحالهم الأولى قبل هدايتهم إلى الإسلام: {كذلك كنتُم من قبلُ فَمَنَّ اللهُ عليكم}؛ أي: فكما هداكم بعد ضلالِكم؛ فكذلك يهدي غيركم، وكما أنَّ الهداية حصلتْ لكم شيئاً فشيئاً؛ فكذلك غيركم؛ فنظرُ الكامل لحالِهِ الأولى الناقصة ومعاملته لمن كان على مثلها بمقتضى ما يعرف من حاله الأولى ودعائه له بالحكمة والموعظة الحسنة من أكبر الأسباب لنفعِهِ وانتفاعِهِ، ولهذا أعاد الأمر بالتبيين، فقال: {فتبيَّنوا}! فإذا كان من خرج للجهاد في سبيل الله ومجاهدة أعداء الله واستعدَّ بأنواع الاستعداد للإيقاع بهم مأموراً بالتبيين لمن ألقى إليه السلام، وكانتِ القرينةُ قويةً في أنه إنما سَلَّم تعوذاً من القتل وخوفاً على نفسه؛ فإن ذلك يدلُّ على الأمر بالتبيُّن والتثبُّت في كل الأحوال التي يقع فيها نوعُ اشتباه، فيتثبَّت فيها العبدُ، حتى يتَّضح له الأمرُ، ويبين الرشدُ والصوابُ. {إنَّ الله كان بما تعملونَ خبيراً}: فيجازي كلاًّ ما عَمِلَهُ ونواه بحسب ما عَلِمهُ من أحوال عبادِهِ ونيَّاتِهِم.
[94] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جہاد پر نکلیں تو تمام مشتبہ امور میں اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں اور جلدی نہ کیا کریں۔ کیونکہ تمام معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ واضح اور غیر واضح۔ جو امور واضح ہوتے ہیں ان میں تحقیق اور جانچ پڑتال کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ چیز تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے۔ رہے مشکل اور غیر واضح امور تو انسان ان میں جانچ پڑتال اور تحقیق کا محتاج ہوتا ہے۔ کہ آیا وہ اس میں اقدام کرے یا نہ کرے؟ کیونکہ ان امور میں تحقیق اور جانچ پڑتال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی برائیوں کا سدباب ہو جاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بندے کے دین، عقل اور وقار کے بارے میں معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو معاملات کی ابتدا ہی میں ان کی جانچ پڑتال سے پہلے فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیتا ہے۔ اسے اس عجلت سے ایسے نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے جو نہایت غیر مناسب ہوں۔ جیسا کہ ان مسلمانوں کے ساتھ ہوا جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ جنھوں نے بغیر کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے ان کو سلام کیا تھا۔ اس کے پاس کچھ بکریاں یا کوئی اور مال تھا اس کا خیال تھا کہ اس طرح (سلام کرنے سے) قتل ہونے سے بچ جائے گا اور ان کا یہ فعل (قتل) درحقیقت خطا تھا، بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا۔ ﴿ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْ٘قٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰ٘مَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ٞ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ﴾ ’’جو تمھیں سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں‘‘ یعنی فانی دنیا کا یہ قلیل اور فانی مال و متاع تمھیں کسی ایسے کام کے ارتکاب پر آمادہ نہ کرے جو مناسب نہ ہو اور اس کے نتیجے میں تم اس بے پایاں ثواب سے محروم ہو جاؤ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ پس جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ جب وہ دیکھے کہ اس کے نفس کے داعیے کسی ایسے حال کی طرف مائل ہیں جس میں خواہشات نفس کا شائبہ ہے اور یہ اس کے لیے ضرر رساں ہے تو وہ اس ثواب اور نعمتوں کو یاد کرے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں جنھوں نے خواہشات نفس کو روکا ہوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھا کیونکہ اس میں نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ترغیب ہے خواہ اس میں اس کے لیے مشقت ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اسلام سے قبل ان کی حالت یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَ٘مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ﴾ ’’پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمھیں تمھاری گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازا ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کو بھی راہ ہدایت دکھاتا ہے اور جس طرح تمھیں بتدریج آہستہ آہستہ ہدایت حاصل ہوئی ہے اسی طرح تمھارے علاوہ بھی آہستہ آہستہ راہ ہدایت پر گامزن ہو جائیں گے۔ پس کامل شخص کا اپنے پہلے اور ناقص حال پر نظر رکھنا، اور اس ناقص شخص کے ساتھ، جس کی مانند کبھی وہ بھی ناقص تھا، اس کے مقتضائے حال کے مطابق معاملہ کرنا اور اس کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بھلائی کی طرف دعوت دینا اس کے لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے تحقیق حال کے حکم کا ان الفاظ میں اعادہ کیا ﴿ فَتَبَیَّنُوْا﴾ ’’تحقیق کرلیا کرو۔‘‘ یعنی خوب تحقیق کر لیا کرو۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی تیاری کرتا ہے، تو وہ اس بات پر مامور ہے کہ جو کوئی اس کو سلام کرے، اس کی تحقیق کر لے حالانکہ بہت ہی قوی قرینہ موجود تھا کہ اس نے جان کے خوف سے اور جان بچانے کے لیے سلام کیا ہو۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان تمام احوال کے بارے میں، جن میں کسی قسم کا اشتباہ واقع ہو گیا ہو تحقیق اور جانچ پڑتال کی جائے پس بندہ حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے حتیٰ کہ اس کے سامنے معاملہ واضح ہو جائے اور رشد و صواب متحقق ہو کر سامنے آجائے۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا﴾ ’’اور جو عمل تم کرتے ہو، اللہ کو سب کی خبر ہے۔‘‘ اللہ اپنے بندوں کے احوال اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے اس لیے وہ ہر ایک کو اس کے عمل اور نیت کے مطابق جزا دے گا۔
آیت: 95 - 96 #
{لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (95) دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (96)}.
نہیں برابر ہو سکتے (وہ جو ہیں)، بیٹھ رہنے والے مومنوں میں سے، نہیں ہیں وہ تکلیف (عذر رکھنے) والےاور جو جہاد کرنے والے ہیں راستے میں اللہ کے، ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے، فضیلت دی ہے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو، ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے، بیٹھ رہنے والوں پر مرتبے میں اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے بھلائی کااور فضیلت دی ہے اللہ نے مجاہدین کو اوپر بیٹھ رہنے والوں کے بہ لحاظ اجر عظیم کے(95) (یعنی ) درجے ہیں اس کی طرف سے اور بخشش اور رحمت اور ہے اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان(96)
#
{95 ـ 96} أي: لا يستوي مَن جاهد من المؤمنين بنفسِهِ ومالِهِ ومن لم يخرجْ للجهاد ولم يقاتِلْ أعداء الله؛ ففيه الحث على الخروج للجهاد والترغيب في ذلك والترهيب من التَّكاسل والقعود عنه من غير عذر، وأما أهل الضَّرر كالمريض والأعمى والأعرج والذي لا يجدُ ما يتجهَّزُ به؛ فإنهم ليسوا بمنزلة القاعدين من غير عذر؛ فمن كان من أولي الضرر راضياً بقعوده، لا ينوي الخروج في سبيل الله لولا وجود المانع ولا يحدِّث نفسه بذلك؛ فإنه بمنزلة القاعد لغير عذر، ومن كان عازماً على الخروج في سبيل الله لولا وجود المانع يتمنَّى ذلك ويحدِّث به نفسَه؛ فإنه بمنزلة من خرج للجهاد؛ لأنَّ النيَّة الجازمة إذا اقترن بها مقدورُها من القول أو الفعل، يُنَزَّلُ صاحبها منزلة الفاعل. ثمَّ صرَّح تعالى بتفضيل المجاهدين على القاعدين بالدرجة؛ أي: الرفعة، وهذا تفضيل على وجه الإجمال، ثم صرَّح بذلك على وجه التفصيل، ووعدهم بالمغفرة الصادرة من ربِّهم والرحمة التي تشتَمِلُ على حصول كلِّ خير واندفاع كلِّ شرٍّ، والدرجات التي فصلها النبي - صلى الله عليه وسلم - بالحديث الثابت عنه في «الصحيحين»: «إن في الجنة مائة درجة، ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، أعدها الله للمجاهدين في سبيله». وهذا الثواب الذي رتَّبه الله على الجهاد نظير الذي في سورة الصفِّ في قوله: {يا أيُّها الذين آمنوا هل أدلُّكم على تجارةٍ تُنجيكم من عذابٍ أليم. تؤمنون بالله ورسولِهِ وتجاهِدون في سبيل اللهِ بأموالِكم وأنفسِكم ذلكم خيرٌ لكم إن كنتُم تعلَمون. يَغْفِرْ لكُم ذُنوبَكُم ويُدْخِلْكم جناتٍ تجري من تحتِها الأنهارُ ومساكنَ طيبةً في جنَّاتِ عدنٍ ذلك الفوزُ العظيم ... } إلى آخر السورة. وتأمَّل حُسْنَ هذا الانتقال من حالةٍ إلى أعلى منها؛ فإنه نفى التسوية أولاً بين المجاهد وغيره، ثم صرَّح بتفضيل المجاهدِ على القاعِد بدرجةٍ، ثمَّ انتقل إلى تفضيلِهِ بالمغفرةِ والرحمةِ والدَّرجات. وهذا الانتقال من حالة إلى أعلى منها عند التفضيل والمدح أو النزول من حالةٍ إلى ما دونَها عند القدح والذمِّ أحسنُ لفظاً وأوقع في النفس، وكذلك إذا فضَّل تعالى شيئاً على شيءٍ، وكلٌّ منهما له فضلٌ؛ احترز بذكر الفضل الجامع للأمرين؛ لئلا يتوهَّم أحد ذمَّ المفضَّل عليه؛ كما قال هنا: {وكلاًّ وَعَدَ الله الحسنى}، وكما قال تعالى في الآيات المذكورة في الصَّفِّ في قوله: {وبشِّرِ المؤمنين}، وكما في قوله تعالى: {لا يستوي منكُم مَن أنفق مِن قبل الفتح وقاتَلَ}؛ أي: ممَّن لم يكن كذلك، ثم قال: {وكلاًّ وَعَدَ الله الحسنى}، وكما قال تعالى: {ففهَّمْناها سليمانَ وكلاًّ آتَيْنا حُكماً وعلماً}. فينبغي لمن بَحَثَ في التفضيل بين الأشخاص والطوائف والأعمال أن يتفطن لهذه النكتة، وكذلك لو تكلَّم في ذمِّ الأشخاص والمقالات؛ ذكر ما تجتمع فيه عند تفضيل بعضِها على بعض؛ لئلاَّ يُتَوَهَّم أن المفضَّل قد حصل له الكمال؛ كما إذا قيل: النصارى خيرٌ من المجوس؛ فليقلْ مع ذلك: وكلٌّ منهما كافر. والقتلُ أشنع من الزِّنا، وكلٌّ منهما معصيةٌ كبيرةٌ، حرَّمها الله ورسولُهُ، وزَجَرَ عنها. ولمَّا وَعَدَ المجاهدين بالمغفرة والرحمةِ الصادِرَيْن عن اسميهِ الكريمين الغفور الرحيم؛ خَتَمَ هذه الآية بهما، فقال: {وكان الله غفوراً رحيماً}.
[96,95] یعنی اہل ایمان میں سے وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ذریعے سے جہاد کرتا ہے اور وہ شخص جو جہاد کے لیے نہیں نکلتا اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ قتال نہیں کرتا، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے کی ترغیب ہے اور سستی اور کسی عذر کے بغیر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ رہے وہ لوگ جو کسی تکلیف میں مبتلا ہیں مثلاً مریض، اندھا اور لنگڑا وغیرہ اور وہ شخص جس کے پاس جہاد پر جانے کے لیے سامان وغیرہ نہیں، تو یہ لوگ بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے۔ ہاں! وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا ہے اور وہ اپنے گھر بیٹھ رہنے پر خوش اور راضی ہے اور وہ یہ نیت بھی نہیں رکھتا کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ جہاد میں ضرور شریک ہوتا۔ اور اس کے دل میں کبھی جہاد کی خواہش بھی نہیں ہوئی تو ایسا شخص بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار ہو گا۔ جو کوئی یہ عزم رکھتا ہے کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا، وہ جہاد کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اور اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ہے تو ایسا شخص جہاد کرنے والوں میں شمار ہو گا۔ کیونکہ نیت جازم کے ساتھ جب وہ عمل مقرون ہوتا ہے جو قولاً یا فعلاً نیت کرنے والے کے اختیار میں ہے تو وہ اس صاحب نیت کو فاعل کے مقام پر فائز کر دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ مجاہدین کو گھر بیٹھ رہنے والوں پر بلندئ درجات کی فضیلت سے نوازا ہے۔ یہ فضیلت اجمالاً بیان فرمائی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا جو ہر بھلائی کے حصول اور ہر برائی کے سدباب پر مشتمل ہے۔ صحیحین میں مروی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہeنے ان درجات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’جنت کے اندر سو درجے ہیں اور ان ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ اس جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘(صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین في سبيل اللہ، حديث:2790) یہ ثواب جو اللہ تعالیٰ نے جہاد پر مرتب کیا ہے اس کی نظیر سورۂ صف کی یہ آیات ہیں : ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۰۰تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَتُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ۰۰ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَیُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (الصف : 61؍10-12) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمھیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے نجات دے، تم اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرو۔ اگر تم علم رکھتے ہو تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔ جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور جنت جاوداں میں پاکیزہ آرام گاہوں میں داخل کرے گا، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ذرا حسن انتقال پر غور فرمائيے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حالت سے دوسری بلند تر حالت کی طرف منتقل ہونے کا کیسے ذکر فرمایا ہے۔ سب سے پہلے مجاہد اور غیر مجاہد کے درمیان مساوات (برابر ہونے) کی نفی فرمائی۔ پھر تصریح فرمائی کہ مجاہد کو گھر بیٹھ رہنے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے پھر مغفرت، رحمت اور بلند درجات کے ذریعے سے مجاہد کو فضیلت عطا کرنے کی طرف انتقال فرمایا۔ فضیلت اور مدح کے موقع پر فروتر سے بلند تر حالت کی طرف اور مذمت اور برائی کے موقع پر بلند تر حالت سے فروتر حالت کی طرف یہ انتقال، لفظوں کے اعتبار سے حسین تر اور نفوس انسانی میں کارگر ہونے کے اعتبار سے مؤثر تر ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیتا ہے جبکہ دونوں ہی کو فضیلت حاصل ہو تو وہ ایسے لفظ کے ساتھ فضیلت بیان کرنے سے احتراز کرتا ہے جو دونوں کا جامع ہو۔ تاکہ کسی کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ کم تر فضیلت کی حامل چیز کی مذمت بیان کی ہے۔ جیسا کہ یہاں بیان فرمایا ﴿ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى﴾ ’’اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ محولہ بالا سورۂ صف کی آیات میں فرمایا ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے‘‘ فرمایا: ﴿ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْ٘فَ٘تْحِ وَقٰتَلَ﴾ (الحدید : 57؍10) ’’تم میں سے جس شخص نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جس نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کیے) برابر نہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ﴿ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى﴾ (الحدید : 57؍10) ’’اور اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَ٘یْمٰنَ١ۚ وَؔكُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ (الانبیاء : 21؍79) ’’پس فیصلہ کرنے کا طریقہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو علم و حکمت عطا کی تھی۔‘‘ پس جو کوئی شخصیات کے درمیان، گروہوں کے درمیان اور اعمال کے درمیان فضیلت کی تحقیق کرتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھ لے۔ اسی طرح اگر وہ بعض شخصیات اور مقالات کی مذمت بیان کرتا ہے تو ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے کے لیے ایسا اسلوب استعمال کرے جو دونوں کو جامع ہو۔ تاکہ جس کو فضیلت دی گئی ہے وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ اسے کمال حاصل ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ نصاریٰ مجوسیوں سے بہتر ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ دونوں ہی کافر ہیں۔ جب یہ کہا جائے قتل زنا سے زیادہ بڑا جرم ہے تو ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeنے حرام قرار دیا ہے اور ان گناہوں پر زجر و توبیخ کی ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجاہدین کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو اس کے اسمائے کریمہ (اَلْغَفُوْرُ) اور (اَلرَّحِیْمُ) سے صادر ہوتی ہیں اس لیے اس آیت کریمہ کے اختتام پر فرمایا ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
آیت: 97 - 99 #
{إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (97) إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا (98) فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا (99)}.
تحقیق جو لوگ کہ فوت کرتے ہیں ان کو فرشتے دراں حالیکہ وہ ظلم کرنے والے ہیں اپنی جانوں پر تو کہتے ہیں کس حال میں تھے تم؟ کہتے ہیں وہ، تھے ہم کمزور زمین میں، کہتے ہیں وہ(فرشتے) کیا نہ تھی زمین اللہ کی فراخ؟ پس ہجرت کرتے تم اس میں، پس یہ لوگ ان کا ٹھکانا جہنم ہےاور بہت بری جگہ ہے وہ ، پھرنے کی(97) مگر وہ جو کمزور ہیں مردوں اور عورتوں اور بچوں سے، نہیں (اختیار) کر سکتے وہ کوئی تدبیر اور نہ پاتے ہیں کوئی راہ(98) پس یہ لوگ، امید ہے کہ اللہ معاف فرما دے انھیں اور ہے اللہ نہایت معاف کرنے والا بہت بخشنے والا(99)
#
{97} هذا الوعيد الشديد لمن ترك الهجرة مع قدرته عليها حتى مات؛ فإنَّ الملائكة الذين يقبضون روحه يوبِّخونه بهذا التوبيخ العظيم، ويقولون لهم: {فيم كنتُم}؛ أي: على أيِّ حال كنتم؟ وبأيِّ شيءٍ تميَّزْتم عن المشركين؟ بل كثَّرْتُم سوادَهم، وربَّما ظاهرتُموهم على المؤمنين، وفاتكم الخير الكثير والجهادُ مع رسولِهِ والكون مع المسلمين ومعاونتهم على أعدائهم. {قالوا كُنَّا مستضعفين في الأرض}؛ أي: ضعفاء مقهورين مظلومين ليس لنا قدرة على الهجرة، وهم غير صادقين في ذلك؛ لأنَّ الله وَبَّخَهم وتوعَّدَهم، ولا يكلِّف الله نفساً إلاَّ وسعها، واستثنى المستضعفين حقيقةً، ولهذا قالت لهم الملائكة: {ألم تَكُنْ أرضُ الله واسعةً فتهاجِروا فيها}؟ وهذا استفهام تقرير؛ أي: قد تقرَّر عند كلِّ أحدٍ أنَّ أرض الله واسعةٌ؛ فحيثما كان العبد في محلٍّ لا يتمكن فيه من إظهار دينه؛ فإنَّ له متَّسعاً وفسحةً من الأرض يتمكَّن فيها من عبادة الله؛ كما قال تعالى: {يا عبادي الذين آمنوا إنَّ أرضي واسعةٌ فإيَّايَ فاعبُدُونِ}. قال الله عن هؤلاء الذين لا عذر لهم: {فأولئك مأواهم جهنَّمُ وساءت مصيراً}. وهذا كما تقدَّم فيه ذِكْرُ بيان السبب الموجب؛ فقد يترتَّب عليه مقتضاهُ مع اجتماع شروطِهِ وانتفاءِ موانعِهِ، وقد يمنعُ من ذلك مانع. وفي الآية دليل على أن الهجرة من أكبر الواجبات، وتركها من المحرمات، بل من أكبر الكبائر. وفي الآية دليلٌ على أنَّ كلَّ من تُوُفِّي فقد استكمل واستوفى ما قُدِّرَ له من الرِّزْق والأجل والعمل، وذلك مأخوذٌ من لفظ التوفِّي؛ فإنه يدلُّ على ذلك؛ لأنَّه لو بقي عليه شيءٌ من ذلك؛ لم يكن متوفياً. وفيه الإيمان بالملائكة ومدحهم؛ لأنَّ الله ساق ذلك الخطاب لهم على وجه التقرير والاستحسان منهم وموافقته لمحلِّه.
[97] اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت وعید آئی ہے جو ہجرت کی قدرت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتا اور دارالکفر ہی میں مر جاتا ہے۔ کیونکہ جب فرشتے اس کی روح قبض کریں گے تو اس کو سخت زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ فِیْمَ كُنْتُمْ﴾ ’’تم کس حال میں تھے‘‘ اور کیسے تم نے اپنے تشخص کو مشرکین کے درمیان ممیز رکھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ان کی تعداد میں اضافے کا باعث بنے اور بسا اوقات اہل ایمان کے خلاف تم نے کفار کی مدد کی، تم خیر کثیر، اللہ کے رسول کی معیت میں جہاد، مسلمانوں کی رفاقت اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی معاونت کی سعادت سے محروم رہے۔ ﴿ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ۠ فِی الْاَرْضِ﴾ وہ کہیں گے کہ ہم کمزور مجبوراور مظلوم تھے اور ہجرت کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ اپنے اس قول میں سچے نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے اور ان کو وعید سنائی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے حقیقی مستضعفین کو مستثنی قرار دیا ہے اس لیے فرشتے ان سے کہیں گے ﴿ اَلَمْ تَكُ٘نْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا﴾ ’’کیا اللہ کی زمین وسیع و فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے‘‘ یہ استفہام تقریری ہے یعنی ہر ایک کے ہاں یہ چیز متحقق ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بندۂ مومن جہاں کہیں بھی ہو اگر وہاں اپنے دین کا اظہار نہیں کر سکتا تو زمین اس کے لیے بہت وسیع ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّ٘ایَ فَاعْبُدُوْنِ﴾ (العنکبوت : 29؍56) ’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو بے شک میری زمین بہت وسیع ہے پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں جن کے پاس کوئی عذر نہیں، فرمایا: ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا﴾ ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہو گا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے‘‘ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ اس میں سبب موجب کا بیان ہے جس پر ، اس کی شرائط کے جمع ہونے اور موانع کے نہ ہونے کے ساتھ، مقتضا مرتب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی مانع اس مقتضا کو روک دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ ہجرت سب سے بڑا فرض ہے اور اس کو ترک کرنا حرام بلکہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے وفات پائی اس نے اپنا وہ رزق، عمر اور عمل پورا کر لیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا۔ یہ دلیل لفظ ’’تَوَفّٰی‘‘ سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اگر اس نے وہ سب کچھ پورا نہیں کیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا تو لفظ ’’ تَوَفّٰی ‘‘ کا اطلاق صحیح نہیں۔ اس آیت میں فرشتوں پر ایمان لانے اور ان کی مدح کی دلیل بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اثبات، ان کی تحسین اور اپنی موافقت کے انداز میں فرشتوں سے خطاب کیا ہے۔
#
{98 ـ 99} ثم استثنى المستضعفين على الحقيقة الذين لا قدرة لهم على الهجرة بوجهٍ من الوجوه {ولا يَهْتَدونَ سبيلاً}؛ فهؤلاء قال الله فيهم: {فأولئك عسى اللهُ أن يعفُوَ عنهم وكان الله عفوًّا غفوراً}، و {عسى} ونحوها واجب وقوعها من الله تعالى بمقتضى كرمِهِ وإحسانه. وفي الترجية بالثواب لمن عمل بعض الأعمال فائدةٌ، وهو أنَّه قد لا يوفِّيه حقَّ توفيته، ولا يعمله على الوجه اللائق الذي ينبغي، بل يكون مقصِّراً، فلا يستحقُّ ذلك الثواب، والله أعلم. وفي الآية الكريمة دليل على أن من عَجَزَ عن المأمور من واجب وغيره؛ فإنه معذور؛ كما قال تعالى في العاجزين عن الجهاد: {ليس على الأعمى حَرَجٌ ولا على الأعرج حَرَجٌ ولا على المريض حَرَجٌ}، وقال في عموم الأوامر: {فاتَّقوا الله ما استطعتُم}، وقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «إذا أمرتُكم بأمرٍ؛ فأتوا منه ما استطعتم». ولكن لا يُعْذَرُ الإنسان إلاَّ إذا بَذَلَ جهدَه، وانسدَّت عليه أبوابُ الحيل؛ لقوله: {لا يستطيعونَ حيلةً}. وفي الآية تنبيهٌ على أنَّ الدَّليل في الحج والعمرة ـ ونحوهما مما يحتاج إلى سفر ـ من شروط الاستطاعة.
[99,98] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی مستضعفین کو مستثنیٰ قرار دیا جو کسی وجہ سے ہجرت کرنے پر قادر نہیں۔ فرمایا: ﴿ وَّلَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًا﴾ ’’نہ وہ کوئی راستہ جانتے ہیں۔‘‘ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَفُوًّ٘ا غَ٘فُوْرًا ﴾ ’’امید ہے کہ ان لوگوں کو اللہ بخش دے اور اللہ بہت درگزر کرنے والا اور نہایت بخشنے والا ہے‘‘ )عَسَی( اور اس کا ہم معنی کلمہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور احسان کے تقاضے کے مطابق اس کو لازم کرتا ہے۔ جو کوئی کچھ نیک اعمال بجا لاتا ہے اس کو ثواب کی امید دلانے میں فائدہ ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص ہے جو پوری طرح عمل نہیں کرتا اور نہ وہ اس عمل کو اس طریقے سے بجا لاتا ہے جو اس کے لیے مناسب ہے بلکہ وہ کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے لہٰذا وہ اس ثواب کا مستحق قرار نہیں پاتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی امر واجب کی تعمیل کرنے سے عاجز ہو وہ معذور ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے عاجز رہنے والوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ لَ٘یْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْ٘مَرِیْضِ حَرَجٌ ﴾ (الفتح : 48؍17) ’’نہ تو اندھے کے لیے کوئی گناہ ہے نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر۔‘‘ اور تمام احکام کی عمومی اطاعت کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن : 64؍16) ’’اپنی استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘ نبی اکرمeنے فرمایا: ’اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘ ’’جس چیز کا میں تمھیں حکم دوں مقدور بھر اس پر عمل کرو‘‘ (صحیح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ في العمر، حديث:1337) جب انسان پوری کوشش کرتا ہے مگر اس پر ہر قسم کے حیلے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں تب اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوتا کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ حِیْلَةً ﴾ ’’وہ کوئی تدبیر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے‘‘ یعنی وہ لاچار ہیں۔ آیت میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ حج و عمرہ اور اس قسم کی دیگر عبادات میں جن میں سفر کی ضرورت پیش آتی ہے، رہنمائی کرنے والے کا ہونا بھی ’’استطاعت‘‘ کی شرطوں میں سے ہے۔
آیت: 100 #
{وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (100)}.
اور جو شخص ہجرت کرے راستے میں اللہ کے، پائے گا وہ زمین میں جگہ بہت اور فراوانی اور جو شخص نکلے اپنے گھر سے ہجرت کرتے ہوئے طرف اللہ اور اس کے رسول کی، پھر آپکڑے اس کو موت پس تحقیق ثابت ہو گیا اس کا اجر اللہ پراور ہے اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان(100)
#
{100} هذا في بيان الحثِّ على الهجرة والترغيب وبيان ما فيها من المصالح، فوعد الصادق في وعده أنَّ من هاجر في سبيله ابتغاء مرضاتِهِ أنه يَجِدُ مراغَماً في الأرض وسعة؛ فالمراغَم مشتملٌ على مصالح الدين، والسعة على مصالح الدنيا، وذلك أنَّ كثيراً من الناس يتوهَّم أنَّ في الهجرة شتاتاً بعد الألفة وفقراً بعد الغنى وذلاًّ بعد العزِّ وشدَّة بعد الرخاء، والأمر ليس كذلك؛ فإنَّ المؤمن ما دام بين أظهر المشركين؛ فدينُهُ في غاية النقص؛ لا في العبادات القاصرة عليه كالصلاة ونحوها، ولا في العبادات المتعدِّية كالجهاد بالقول والفعل وتوابع ذلك؛ لعدم تمكُّنه من ذلك، وهو بصدد أن يُفْتَنَ عن دينِهِ، خصوصاً إن كان مستضعفاً؛ فإذا هاجر في سبيل الله؛ تمكَّن من إقامة دين الله وجهاد أعداء الله ومراغمتهم؛ فإنَّ المراغمة اسم جامعٌ لكلِّ ما يحصُلُ به إغاظةٌ لأعداء الله من قول وفعل وكذلك يحصل له سعة في رزقه، وقد وقع كما أخبر الله تعالى. واعْتَبِرْ ذلك بالصحابة رضي الله عنهم؛ فإنهم لما هاجروا في سبيل الله وتركوا ديارهم وأولادهم وأموالهم لله؛ كمل بذلك إيمانهم، وحصل لهم من الإيمان التامِّ والجهاد العظيم والنصرِ لدين الله ما كانوا به أئمة لمن بعدهم، وكذلك حصل لهم مما يترتب على ذلك من الفتوحات والغنائم ما كانوا به أغنى الناس، وهكذا كلُّ مَن فَعَلَ فعلَهم؛ حَصَلَ له ما حَصَلَ لهم إلى يوم القيامة. ثم قال: {ومن يخرج من بيتِهِ مهاجراً إلى الله ورسولِهِ}؛ أي: قاصداً ربَّه ورضاه ومحبَّته لرسوله ونصراً لدين الله لا لغير ذلك من المقاصد. {ثم يدرِكْه الموتُ}: بقتل أو غيره، {فقد وَقَعَ أجرُهُ على الله}؛ أي: فقد حَصَلَ له أجرُ المهاجر الذي أدرك مقصودَه بضمان الله تعالى، وذلك لأنَّه نوى وجَزَمَ وحصل منه ابتداءٌ وشروعٌ في العمل؛ فمن رحمة الله به وبأمثاله أنْ أعطاهم أجْرَهم كاملاً، ولو لم يُكْمِلوا العمل، وَغَفَرَ لهم ما حصل منهم من التقصير في الهجرة وغيرها، ولهذا ختم هذه الآية بهذين الاسمين الكريمين، فقال: {وكان الله غفوراً رحيماً}: يغفر للمؤمنين ما اقترفوه من الخطيئاتِ، خصوصاً التائبين المنيبين إلى ربهم، رحيماً بجميع الخلق رحمةً أوجدتهم وعافتْهم ورزقتْهم من المال والبنين والقوَّة وغير ذلك، رحيماً بالمؤمنين؛ حيث وفَّقهم للإيمان، وعلَّمهم من العلم ما يحصُلُ به الإيقان، ويَسَّرَ لهم أسبابَ السعادة والفلاح، وما به يدركونَ غايةَ الأرباح، وسيرون من رحمته وكرمِهِ ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر. فنسأل الله أن لا يحرِمَنا خيره بشرِّ ما عندنا.
[100] اس آیت کریمہ میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور ان مصالح اور فوائد کا بیان ہے جو ہجرت میں پنہاں ہیں۔ اس سچی ہستی نے وعدہ کیا ہے کہ جو کوئی اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے وہ زمین میں بہت سے راستے اور کشادگی پائے گا۔ پس یہ راستے دینی مصالح، زمین کی وسعت اور دنیاوی مصالح پر مشتمل ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہجرت، وصال کے بعد فراق، غنا کے بعد فقر، عزت کے بعد ذلت اور فراخی کے بعد تنگدستی میں پڑنے کا نام ہے۔ معاملہ دراصل یہ نہیں کیونکہ بندۂ مومن جب تک کفار کے درمیان رہ رہا ہے اس کا دین انتہائی ناقص ہے اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق صرف اسی کی ذات سے ہے جیسے نماز وغیرہ۔ اور اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق دوسروں سے ہے، مثلاً: قولی و فعلی جہاد اور اس کے دیگر توابع۔ کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ اور وہ اپنے دین کے بارے میں ہمیشہ فتنے اور آزمائش میں مبتلا رہے گا۔ خاص طور پر جبکہ وہ مستضعفین ’’کمزوروں‘‘ میں شمار ہوتا ہو۔ پس جب وہ دارالکفر سے ہجرت کر جاتا ہے تو اقامت دین کی کوشش اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کر سکتا ہے۔ کیونکہ (اَلْمُرَاغَمَۃ) ایک جامع نام ہے اور اس سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کے خلاف غیظ و غضب پیدا ہو۔ اسی طرح (مُرَاغَمٌ) سے مراد رزق وغیرہ کی فراخی ہے اور یہ چیز اسی طرح واقع ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ چونکہ صحابہ کرامyنے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار، اپنا مال اور اپنی اولاد کو چھوڑ دیا اس لیے ہجرت کے ذریعے سے ان کے ایمان کی تکمیل ہوئی، انھیں ایمان کامل، جہاد عظیم اور اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت حاصل ہوئی۔ بنابریں وہ بعد میں آنے والوں کے لیے امام بن گئے۔ اس ایمان کی تکمیل پر انھیں فتوحات اور غنائم حاصل ہوئیں اور وہ سب سے زیادہ بے نیاز ہو گئے۔ اسی طرح، قیامت تک ہر وہ شخص جو ان کی سیرت کو اختیار کرے گا اس کو بھی انھی انعامات سے نوازا جائے گا جن انعامات سے ان کو نوازا گیا تھا۔ پھر فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ﴾ ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے۔‘‘ یعنی جو شخص صرف اپنے رب کی رضا اور اس کے رسولeکی محبت اور اللہ کے دین کی نصرت کی خاطر ہجرت کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی اور مقصد نہیں ﴿ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ ﴾ ’’پھر اس کو موت آپکڑے۔‘‘ یعنی پھر قتل یا کسی اور سبب سے اسے موت آ جاتی ہے ﴿ فَقَدْ وَ قَ٘عَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ﴾ ’’تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہوچکا۔‘‘ یعنی اسے اس مہاجر کا اجر حاصل ہو گیا جسے اللہ تعالیٰ کی ضمانت سے اپنی منزل مقصود مل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عزم جازم کے ساتھ ہجرت کی نیت کی تھی اور اس پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر، اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگرچہ انھوں نے اپنے عمل کو مکمل نہیں کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو کامل عمل عطا کر دیا۔ اور ہجرت وغیرہ کے معاملے میں ان سے جو کوتاہی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو ان دو اسمائے حسنی پر ختم کیا ہے ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ان تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں خاص طور پر، وہ اہل ایمان جو توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمًا﴾ یعنی وہ تمام مخلوق پر رحم کرنے والا ہے، اس کی رحمت ہی انھیں وجود میں لائی، اس کی رحمت ہی نے انھیں عافیت عطا کی اور اس کی رحمت ہی نے انھیں مال، بیٹوں اور قوت وغیرہ سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انھیں ایسے علم سے نوازا جس سے ایقان حاصل ہوتا ہے۔ ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہیں آسان کر دیں، جن کے ذریعے سے وہ بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عنقریب اس کی رحمت اور فضل و کرم کے وہ نظارے دیکھیں گے جو کسی آنکھ نے دیکھے ہوں گے نہ کسی کان نے سنے ہوں گے اور نہ کسی بشر کے قلب سے ان کا گزر ہوا ہو گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری برائیوں کی وجہ سے اپنی بھلائیوں سے محروم نہ کرے۔
آیت: 101 - 102 #
{وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا (101) وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (102)}.
اور جب سفر کرو تم زمین میں، پس نہیں تم پر گناہ یہ کہ قصر کرو تم نماز اگر ڈرو تم اس بات سے کہ فتنے میں ڈال دیں گے تمھیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، یقیناً کافر ہیں تمھارے دشمن ظاہر(101) اور جب ہوں آپ ان میں، پھر قائم کریں ان کے لیے نماز تو چاہیے کہ کھڑی ہو ایک جماعت ان میں سے آپ کے ساتھ اور چاہیے کہ (ساتھ) لے لے وہ اپنے ہتھیار، پھر جب سجدہ کر لے وہ تو ہو جائے تمھارے پیچھے اور چاہیے کہ آئے جماعت دوسری کہ نہیں نماز پڑھی اس نے، کہ نماز پڑھے وہ آپ کے ساتھ اور چاہیے کہ لے لے وہ اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار، چاہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش کہ غافل ہو تم اپنے اسلحے اور اپنے سامان سے، پس ٹوٹ پڑیں وہ تم پر ٹوٹ پڑنا، یک بارگی اور نہیں گناہ تم پر اگر ہو تمھیں تکلیف بارش سے یا ہو تم بیمار یہ کہ رکھ دو تم اپنے ہتھیاراور (ساتھ) لے لو تم اپنا بچاؤ، تحقیق اللہ نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے عذاب رسواکن(102)
#
{101} هاتان الآيتان: أصل في رخصة القصر وصلاة الخوف، يقول تعالى: {وإذا ضربتُم في الأرض}؛ أي: في السفر، وظاهر الآية أنه يقتضي الترخُّص في أي سفر كان، ولو كان سفر معصية؛ كما هو مذهب أبي حنيفة رحمه الله، وخالف في ذلك الجمهور، وهم الأئمة الثلاثة وغيرهم، فلم يجوِّزوا الترخيص في سفر المعصية؛ تخصيصاً للآية بالمعنى والمناسبة؛ فإنَّ الرخصة سهولةٌ من الله لعباده إذا سافروا أن يقصُروا ويفطروا، والعاصي بسفره لا يناسب حاله التخفيف. وقوله: {فليس عليكم جناح أن تقصُروا من الصلاة}؛ أي: لا حرج ولا إثم عليكم في ذلك. ولا ينافي ذلك كون القصر هو الأفضل؛ لأن نفي الحرج إزالةٌ لبعض الوهم الواقع في كثيرٍ من النفوس، بل ولا ينافي الوجوب؛ كما تقدَّم ذلك في سورة البقرة في قوله: {إن الصَّفا والمروة من شعائرِ الله ... } إلى آخر الآية، وإزالة الوهم في هذا الموضع ظاهرة؛ لأنَّ الصلاة قد تقرَّر عند المسلمين وجوبُها على هذه الصفة التامَّة، ولا يزيل هذا عن نفوس أكثرهم إلا بذكر ما ينافيه. ويدلُّ على أفضلية القصر على الإتمام أمران: أحدُهما: ملازمة النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - على القصر في جميع أسفاره. والثاني: أن هذا من باب التوسعة والترخيص والرحمة بالعباد، والله تعالى يُحِبُّ أن تُؤتى رُخَصُه، كما يكره أن تُؤتى معصيَتُه. وقوله: {أن تقصُروا من الصلاة}، ولم يقل: أن تقصُروا الصلاة: فيه فائدتان: إحداهما: أنه لو قال: أن تقصروا الصلاة؛ لكان القصرُ غيرَ منضبط بحدٍّ من الحدود، فربَّما ظنَّ أنه لو قَصَرَ معظم الصلاة وجعلها ركعةً واحدةً؛ لأجزأ؛ فإتيانه بقوله: {من الصلاة}؛ ليدل ذلك على أن القصر محدودٌ مضبوطٌ مرجوعٌ فيه إلى ما تقرَّر من فعل النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه. الثانية: أنَّ {من} تفيدُ التبعيض؛ ليعلم بذلك أن القصر لبعض الصلواتِ المفروضاتِ لا جميعها؛ فإنَّ الفجر والمغرب لا يُقصران، وإنما الذي يُقْصَر الصلاة الرباعية من أربع إلى ركعتين. فإذا تقرَّر أنَّ القصر في السفر رخصةٌ؛ فاعلمْ أنَّ المفسِّرين قد اختلفوا في هذا القيد، وهو قولُهُ: {إن خفتم أن يَفْتِنَكُمُ الذين كفروا}، الذي يدلُّ ظاهرُهُ أنَّ القصر لا يجوزُ إلا بوجود الأمرين كليهما السفر مع الخوف، ويرجِعُ حاصل اختلافهم إلى أنه هل المرادُ بقوله: {أن تقصُروا}: قصرُ العدد فقط أو قصرُ العدد والصفة؟ فالإشكال إنما يكون على الوجه الأوَّل. وقد أشكل هذا على أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، حتَّى سأل عنه النبيَّ - صلى الله عليه وسلم -، فقال: يا رسول الله! ما لنا نقصُرُ الصلاة وقد أمِنَّا؟ أي: والله يقولُ: {إن خِفْتُم أن يَفْتِنَكُمُ الذين كفروا}. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «صدقةٌ تصدَّق الله بها عليكم؛ فاقبلوا صَدَقَتَهُ». أو كما قال. فعلى هذا يكون هذا القيد أتى به نظراً لغالب الحال التي كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه عليها؛ فإنَّ غالب أسفاره أسفار جهاد. وفيه فائدةٌ أخرى: وهي بيان الحكمة والمصلحة في مشروعية رخصة القصر؛ فبيَّن في هذه الآية أنْهَى ما يُتَصَوَّر من المشقة المناسبة للرخصة، وهي اجتماع السفر والخوف، ولا يستلزم ذلك أن لا يُقْصَرَ مع السفر وحده الذي هو مَظِنَّة المشقَّة. وأما على الوجه الثاني، وهو أنَّ المراد بالقصر [هنا] قصرُ العدد والصِّفة؛ فإنَّ القيدَ على بابِهِ؛ فإذا وجد السفر والخوف؛ جاز قصرُ العدد وقصرُ الصفة، وإذا وُجِدَ السفر وحده؛ جاز قَصْرُ العدد فقط، أو الخوف وحدَه؛ جاز قصرُ الصفة.
[101] یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لیے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جب چلو تم زمین میں‘‘ یعنی سفر کے دوران۔ آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نمازمیں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہو، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کر لیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ﴿ فَ٘لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَ٘قْ٘صُرُوْا مِنَ الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفئ حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منافی نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورۂ البقرۃ کی اس آیت میں گزر چکی ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْ٘مَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ...الی آخر الآیۃ ﴾ (البقرۃ : 2؍158) ’’صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں… آیت کے آخر تک۔‘‘ اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے۔ اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضلیت کو دو امور ثابت کرتے ہیں: اول: رسول اللہeکا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔ ثانی: قصر، بندوں کے لیے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَنْ تَ٘قْ٘صُرُوْا مِنَ الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’نماز میں سے کچھ کم کر دو‘‘ اور یہ نہیں فرمایا (اَنْ تَقْصُرُوا الصَّلٰوۃَ) ’’نماز کو کم کر دو‘‘ اس میں دو فائدے ہیں: اول: اگر یہ کہا ہوتا کہ ’’نماز کو کم کر دو‘‘ تو قصر غیر منضبط اور غیر محدود ہوتی۔ اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کر دیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے (مِنَ الصَّلٰوۃِ) کا لفظ استعمال فرمایا۔ تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہeاور آپ کے اصحاب کرامyکے فعل سے ثابت ہے۔ ثانی: حرف جار (مِنْ) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہو گئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے ﴿ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے‘‘ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (اَنْ تَقْصُرُوْا) سے مراد صرف عدد رکعات میں کمی ہے یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے؟ اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطابtکو لاحق ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انھوں نے رسول اللہeسے پوچھا ’’یارسول اللہ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے ﴿ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اگر تمھیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے‘‘ رسول اللہeنے جواب میں فرمایا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو‘‘(اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ)(صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین وقصرہا، حديث:1573) اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہeاور صحابہ کرام دو چار تھے۔ کیونکہ رسول اللہeکے اکثر سفر جہاد کے لیے ہوتے تھے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باب کے مطابق ہو گی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔
#
{102} ولذلك أتى بصفة صلاة الخوف بعدها بقوله: {وإذا كنتَ فيهم فأقمتَ لهمُ الصَّلاة}؛ أي: صَلَّيْتَ بهم صلاةً تُقيمها وتُتِمُّ ما يجبُ فيها ويلزم فعلُهم ما ينبغي لك ولهم فعلُه، ثم فسَّر ذلك بقوله: {فَلْتَقُمْ طائفةٌ منهم معك}؛ أي: وطائفةٌ قائمةٌ بإزاء العدوِّ؛ كما يدلُّ على ذلك ما يأتي. {فإذا سجدوا}؛ أي: الذين معك؛ أي: أكملوا صلاتهم، وعبَّر عن الصلاة بالسُّجود؛ ليدلَّ على فضل السجود وأنَّه ركنٌ من أركانها، بل هو أعظمُ أركانها، {فليكونوا من ورائِكُم ولتأتِ طائفةٌ أخرى لم يصلُّوا}: وهم الطائفةُ الذين قاموا إزاءَ العدوِّ، {فَلْيُصَلُّوا معك}: ودلَّ ذلك على أنَّ الإمام يبقى بعد انصراف الطائفةِ الأولى منتظراً للطائفة الثانية؛ فإذا حضروا صلَّى بهم ما بقي من صلاته، ثم جلس ينتظِرُهم حتى يُكْمِلوا صلاتَهم، ثم يسلِّم بهم. وهذا أحد الوجوه في صلاة الخوف؛ فإنَّها صحَّت عن النبي صلى الله عليه (وسلم) من وجوه كثيرة كلها جائزة. وهذه الآية تدلُّ على أنَّ صلاة الجماعة فرض عين من وجهين: أحدهما: أنَّ الله تعالى أمر بها في هذه الحالة الشديدة وقت اشتداد الخوف من الأعداء وحذر مهاجمتهم؛ فإذا أوجبها في هذه الحالة الشديدة، فإيجابُها في حالة الطمأنينة والأمن من باب أولى وأحرى. والثاني: أنَّ المصلِّين صلاة الخوف يترُكون فيها كثيراً من الشُّروط واللوازم، ويُعفى فيها عن كثيرٍ من الأفعال المبطلة في غيرها، وما ذاك إلا لتأكُّد وجوب الجماعة؛ لأنَّه لا تعارض بين واجبٍ ومستحبٍّ؛ فلولا وجوب الجماعة؛ لم تتركْ هذه الأمور اللازمة لأجلها. وتدلُّ الآية الكريمة على أنَّ الأَوْلَى والأفضل أن يصلُّوا بإمام واحد ولو تضمَّن ذلك الإخلال بشيءٍ لا يخلُّ به لو صلَّوها بعدة أئمة، وذلك لأجل اجتماع كلمة المسلمين واتِّفاقهم وعدم تفرُّق كلمتِهِم، وليكونَ ذلك أوقع هيبةً في قلوب أعدائِهِم. وأمر تعالى بأخذ السلاح والحذر في صلاة الخوف، وهذا وإن كان فيه حركةٌ واشتغالٌ عن بعض أحوال الصلاة؛ فإنَّ فيه مصلحةً راجحةً، وهو الجمع بين الصلاة والجهاد والحَذَر من الأعداء الحريصين غايةَ الحرص على الإيقاع بالمسلمين والميل عليهم وعلى أمتعتهم، ولهذا قال تعالى: {ودَّ الذين كفروا لو تغفُلون عن أسلحتكِم وأمتعتِكم فيمليونَ عليكم ميلةً واحدةً}. ثم إنَّ الله عَذَرَ من له عُذْرٌ من مرض أو مطرٍ أن يَضَعَ سلاحَه، ولكن مع أخذ الحذرِ، فقال: {ولا جُناح عليكم إن كان بكم أذىً من مطرٍ أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم وخذوا حِذْركم إن الله أعدَّ للكافرين عذاباً مهيناً}، ومن العذابِ المهين ما أمر الله به حزبَهُ المؤمنين وأنصار دينِهِ الموحِّدين مِن قتلهم وقتالهم حيثما ثَقفوهم، ويأخذوهم، ويحصُروهم، ويقعدوا لهم كلَّ مرصدٍ، ويحذروهم في جميع الأحوال، ولا يغفلوا عنهم خشية أن ينال الكفار بعض مطلوبهم فيهم؛ فللهِ أعظم حمدٍ وثناءٍ على ما منَّ به على المؤمنين وأيَّدهم بمعونتِهِ وتعاليمه التي لو سَلَكوها على وجه الكمال؛ لم تهزمْ لهم رايةٌ، ولم يظهرْ عليهم عدوٌّ في وقتٍ من الأوقات. وقوله: {فإذا سَجَدوا فليكونوا من ورائكم}: يدلُّ على أنَّ هذه الطائفة تُكْمِلُ جميع صلاتها قبل ذهابهم إلى موضع الحارسين، وأنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - يثبت منتظراً للطائفة الأخرى قبل السلام؛ لأنه أولاً ذكر أنَّ الطائفة تقوم معه، فأخبر عن مصاحبتهم له، ثم أضاف الفعل بعد إليهم دون الرسول، فدل ذلك على ما ذكرناه. وفي قوله {فلتأت طائفة أخرى لم يصلوا فليصلوا معك}: دليلٌ على أنَّ الطائفة الأولى قد صلوا، وأنَّ جميع صلاة الطائفة الثانية تكون مع الإمام حقيقةً في ركعتهم الأولى وحكماً في ركعتهم الأخيرة، فيستلزمُ ذلك انتظارَ الإمام إيَّاهم حتَّى يُكْمِلوا صلاتهم، ثم يُسَلِّم بهم. وهذا ظاهرٌ للمتأمِّل.
[102] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔ ﴿ وَاِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’اور (اے پیغمبر!) جب آپ ان (مجاہدین کے لشکر میں ہوں) اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔‘‘ یعنی جب آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں اور اس کے ان واجبات کو پورا کریں جن کا پورا کرنا آپ پر اور آپ کے اصحاب پر لازم ہے۔ پھر اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر بیان فرمائی ﴿ فَلْتَقُمْ طَآىِٕفَةٌ مِّؔنْهُمْ مَّعَكَ ﴾ ’’تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو‘‘ اور دوسری جماعت دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہو جیسا کہ آیت کا ٹکڑا ﴿ فَاِذَا سَجَدُوْا ﴾ ’’جب وہ سجدہ کرچکیں۔‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو آپeکے ساتھ نماز میں شریک ہیں اپنی نماز مکمل کر لیں۔ یہاں نماز کو سجدے سے تعبیر کیا ہے تاکہ سجدے کی فضیلت ظاہر ہو۔ نیز یہ کہ سجدہ نماز کا رکن بلکہ سب سے بڑا رکن ہے۔ ﴿ فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَؔآىِٕكُمْ١۪ وَلْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْ٘رٰى لَمْ یُصَلُّوْا ﴾ ’’تو یہ تمھارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی‘‘ اور یہ وہ گروہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں کھڑا تھا ﴿ فَلْ٘یُصَلُّوْا مَعَكَ ﴾ ’’اب یہ گروہ آپ کے ساتھ نماز پڑھے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے گروہ کے نماز سے چلے جانے کے بعد امام نماز میں باقی رہے اور دوسرے گروہ کا انتظار کرے جب دوسرا گروہ آجائے تو ان کے ساتھ اپنی باقی نماز پڑھے پھر بیٹھ جائے اور ان کا انتظار کرے جب وہ اپنی نماز مکمل کر لیں تو ان کے ساتھ سلام پھیرے۔یہ نماز خوف اد اکرنے کے متعدد طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ رسول اللہeسے نماز خوف کے متعدد طریقے مروی ہیں۔ ان تمام طریقوں سے نماز پڑھنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز باجماعت دو وجوہ سے فرض عین ہے۔ اول: اللہ تعالیٰ نے خوف کی اس شدید حالت میں یعنی دشمن کے حملہ کے خوف کی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا حکم دیا ہے۔ جب اس شدید حالت میں بھی جماعت کو واجب قرار دیا ہے تو امن و اطمینان کی حالت میں اس کا واجب ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ثانی: نماز خوف ادا کرنے والے نمازی نماز کی بہت سی شرائط اور لوازم کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس نماز میں نماز کو باطل کرنے والے بہت سے افعال کو نظرانداز کر کے ان کو معاف کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف جماعت کے وجوب کی تاکید کی بنا پر ہے۔ کیونکہ فرض اور مستحب میں کوئی تعارض نہیں۔ اگر جماعت کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض نہ ہوتا، تو اس کی خاطر نماز کے ان واجبات کو ترک کرنے کی کبھی اجازت نہ دی جاتی۔ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے۔ اگر ایسا کرنا کسی خلل کا باعث ہو تو متعدد ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے اجتماع و اتفاق اور ان کے عدم افتراق کی خاطر ہے تاکہ یہ اتفاق ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈال دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز خوف کے اندر مسلح اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نماز خوف میں اگرچہ کچھ زائد حرکات ہوتی ہیں اور نماز کے بعض احوال چھوٹ جاتے ہیں تاہم اس میں ایک راجح مصلحت ہے اور وہ ہے نماز اور جہاد کا اجتماع اور ان دشمنوں سے ہوشیار رہنا جو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے مال و متاع لوٹنے کے سخت حریص ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَاَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً﴾ ’’کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عذر کو قبول فرمایا جو کسی مرض یا بارش کی وجہ سے اپنا اسلحہ اتار دیتا ہے مگر بایں ہمہ وہ دشمن سے چوکنا ہے۔ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَخُذُوْا حِذْرَؔكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا ﴾ ’’ہاں! اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تمھیں تکلیف ہو بوجہ بارش کے یا تم بیمار ہو۔ اور بچاؤ کی چیزیں ساتھ رکھو۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اور اس کا رسوا کن عذاب یہ ہے کہ اس نے اہل ایمان اور اپنے دین کے موحدین انصار کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کو جہاں کہیں پائیں ان کو پکڑیں اور ان کو قتل کریں، ان کے ساتھ جنگ کریں، ان کا محاصرہ کریں، ہر جگہ ان کے لیے گھات لگائیں اور ہر حال میں ان سے چوکنا رہیں۔ ان کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کفار اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد و ثنا ہے کہ اس نے اہل ایمان پر احسان فرمایا اور اس نے اپنی مدد اور تعلیم کے ذریعے سے ان کی تائید فرمائی اگر وہ اس تعلیم پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں تو ان کاپرچم کبھی سرنگوں نہیں ہو سکتا اور کسی زمانے میں بھی دشمن ان پر غالب نہیں آ سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَؔآىِٕكُمْ ﴾ ’’جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجائیں۔‘‘ دلالت کرتا ہے کہ اس گروہ نے دشمن کے مقابلے میں جانے سے پہلے اپنی نماز مکمل کر لی تھی۔ اور یہ کہ رسول اللہeسلام پھیرنے سے پہلے دوسرے گروہ کے منتظر تھے۔ کیونکہ پہلے ذکر فرمایا کہ وہ گروہ نماز میں آپeکے ساتھ کھڑا ہو پس آپeسے ان کی مصاحبت کی خبر دی۔ پھر رسولeکو چھوڑ کر فعل کو ان کی طرف مضاف کیا یہ چیز ہمارے اس موقف پر دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَلْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْ٘رٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْ٘یُصَلُّوْا مَعَكَ ﴾ ’’پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے‘‘ اس امر پر دلیل ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ چکا تھا۔ اور دوسرے گروہ کی تمام نماز امام کی معیت میں پڑھی گئی۔ ان کی پہلی رکعت حقیقی طور پر امام کے ساتھ تھی اور دوسری حکمی طور پر۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ امام ان کا انتظار کرے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں پھر ان کے ساتھ سلام پھیرے۔ یہ چیز غور کرنے والے پر صاف واضح ہے۔
آیت: 103 #
{فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (103)}.
پھر جب پوری کر لو تم نماز تو ذکر کرو اللہ کا کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور اپنی کروٹوں پر، پس جب بے خوف ہو جاؤ تم تو، پھر قائم کرو نماز کو (باقاعدہ)، تحقیق نماز ہے مسلمانوں پر فرض مقررہ وقتوں میں(103)
#
{103} أي: فإذا فَرَغْتُم من صلاتكم صلاة الخوف وغيرها؛ فاذكروا الله في جميع أحوالكم وهيئاتكم، ولكن خُصَّتْ صلاة الخوف بذلك لفوائدَ: منها: أنَّ القلبَ صلاحُهُ وفلاحُهُ وسعادتُهُ بالإنابة إلى الله تعالى في المحبة وامتلاء القلب من ذكرِهِ والثناء عليه، وأعظم ما يحصُلُ به هذا المقصود الصلاةُ التي حقيقتها أنها صلةٌ بين العبد وبين ربِّه. ومنها: أنَّ فيها من حقائق الإيمانِ ومعارف الإيقانِ ما أوجب أن يَفْرضَها الله على عبادِهِ كلَّ يوم وليلة، ومن المعلوم أنَّ صلاة الخوف لا تحصُلُ فيها هذه المقاصد الحميدة بسبب اشتغال القلب والبدن، والخوف، فأمر بجَبْرِها بالذِّكر بعدها. ومنها: أنَّ الخوف يوجِبُ [من] قلق القلب وخوفه، ما هو مَظِنَّةٌ لضعفه، وإذا ضَعُفَ القلبُ ضَعُفَ البدنُ عن مقاومة العدوِّ. والذِّكر لله والإكثار منه من أعظم مقويات القلب. ومنها: أن الذكر لله تعالى مع الصبر والثبات سبب للفلاح والظفر بالأعداء؛ كما قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إذا لقيتم فئة فاثْبُتوا واذْكُروا الله كثيراً لعلَّكم تفلحونَ}، فأمر بالإكثار منه في هذه الحال، إلى غير ذلك من الحكم. وقوله: {فإذا اطمأنَنتُم فأقيموا الصلاة}؛ أي: إذا أمنتم من الخوف واطمأنَّت قلوبُكم وأبدانُكم؛ فأتموا صلاتَكم على الوجه الأكمل ظاهراً وباطناً بأركانها وشروطِها وخشوعِها وسائر مكمِّلاتها. {إنَّ الصلاةَ كانت على المؤمنين كتاباً موقوتاً}؛ أي: مفروضاً في وقته. فدلَّ ذلك على فرضيَّتها وأنَّ لها وقتاً لا تصحُّ إلاَّ به، وهو هذه الأوقات التي قد تقرَّرت عند المسلمين صغيرهم وكبيرهم عالمهم وجاهلهم وأخذوا ذلك عن نبيِّهم محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «صلُّوا كما رأيتموني أصلِّي». ودلَّ قوله: {على المؤمنين}: على أنَّ الصلاة ميزانُ الإيمان، وعلى حسب إيمان العبد تكون صلاتُهُ وتتمُّ وتكمُلُ. ويدلُّ ذلك على أن الكفار ـ وإن كانوا ملتزمين لأحكام المسلمين كأهل الذمة ـ أنهم لا يخاطَبون بفروع الدين كالصلاة، ولا يُؤْمَرون بها، بل ولا تصحُّ منهم ما داموا على كفرِهم، وإن كانوا يعاقَبون عليها وعلى سائر الأحكام في الآخرة.
[103] جب تم اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ، یعنی نماز خوف وغیرہ سے تو اپنے تمام احوال اور تمام ہیئات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ یہاں یہ حکم خاص طور پر نماز خوف کے بارے میں دیا گیا ہے، جس کے چند فائدے ہیں: (۱) قلب کی صلاح و فلاح اور اس کی سعادت اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی انابت اور اس کے ساتھ محبت میں پنہاں ہے نیز اس بات میں ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی حمد و ثنا سے لبریز رہے۔ سب سے بڑا ذریعہ جس سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے نماز ہے جو درحقیقت بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ (۲) نماز حقائق ایمان اور معارف ایقان پر مشتمل ہے جو اس امر کے موجب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر دن اور رات کے اوقات میں نماز فرض قرار دے دے اور معلوم ہے کہ نماز خوف کے ذریعے سے یہ مقاصد حمیدہ حاصل نہیں ہو سکتے، کیونکہ قلب و بدن خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لیے نماز خوف کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے۔ (۳) خوف قلب میں قلق کا موجب بنتا ہے جو کہ کمزوری کا باعث ہے۔ جب دل کمزور ہو جاتا ہے تو بدن بھی دشمن کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی کثرت سب سے بڑی مقویات قلب سے ہے۔ (۴) صبر و استقامت کی معیت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فوز و فلاح اور دشمنوں کے خلاف فتح و ظفر کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (الانفال : 8؍45) ’’اے مومنو! اگر تمھارا کفار کی کسی جماعت کے ساتھ مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حال میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کی دیگر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ﴿ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’پھر جب خوف جاتا رہے تو نماز قائم کرو۔‘‘ یعنی جب تم خوف سے مامون ہو جاؤ، تمھارے دلوں اور تمھارے ابدان کو اطمینان میسر آجائے تو نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے تمام ارکان و شرائط اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ کامل طریقے سے ادا کرو۔ ﴿اِنَّ الصَّلٰ٘وةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا ﴾ ’’نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے‘‘ یعنی اپنے وقت میں فرض کی گئی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہے اور اس کو ادا کرنے کا ایک وقت مقرر کیا گیا ہے اور نماز مقررہ وقت پر پڑھے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ نماز کے اوقات وہی ہیں جو تمام مسلمانوں کے ہاں معروف اور متحقق ہیں نماز کے اوقات کو چھوٹے بڑے، عالم اور جاہل سب جانتے ہیں انھوں نے یہ اوقات اپنے نبیeسے اخذ کیے ہیں آپeنے فرمایا ﴿صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ﴾ ’’ویسے ہی نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، باب الأذان ……الخ، حديث:631) اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’مومنوں پر‘‘ دلالت کرتا ہے کہ نماز ایمان کی میزان ہے اور بندۂ مومن کے ایمان کی مقدار کے مطابق نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کفار، جو اگرچہ اہل ذمہ کی طرح مسلمانوں کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں، تاہم وہ فروع دین میں مخاطب نہیں مثلاً نماز وغیرہ اس لیے ان کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہیں ان کی نماز صحیح نہیں البتہ ان کو نماز اور دیگر تمام احکام کو ترک کرنے پر آخرت میں سزا دی جائے گی۔
آیت: 104 #
{وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (104)}.
اور نہ ہمت ہارو تم تلاش میں (دشمن) قوم کی، اگر ہو تم دکھ اٹھاتے تو بلاشبہ وہ بھی دکھ اٹھاتے ہیں، جیسے تم دکھ اٹھاتے ہو۔ اور تم امید رکھتے ہو اللہ سے جس کی وہ نہیں امید رکھتے اور ہے اللہ جاننے والا حکمت والا(104)
#
{104} أي: لا تضعُفوا ولا تكسلوا في ابتغاء عدوِّكم من الكفَّار؛ أي: في جهادهم والمرابطة على ذلك؛ فإنَّ وَهَنَ القلب مستدعٍ لوَهَن البدن، وذلك يضعف عن مقاومة الأعداء، بل كونوا أقوياء نشيطين في قتالهم. ثم ذكر ما يقوِّي قلوب المؤمنين، فذكر شيئين: الأول: أنَّ ما يصيبكم من الألم والتعب والجراح ونحو ذلك؛ فإنه يصيب أعداءكم، فليس من المروءة الإنسانيَّة والشهامة الإسلاميَّة أن تكونوا أضعفَ منهم وأنتم وهم قد تساوَيْتم فيما يوجِبُ ذلك؛ لأنَّ العادة الجارية أنه لا يَضْعُفُ إلاَّ من توالت عليه الآلام، وانتصر عليه الأعداء على الدوام، لا مَن يُدال مرةً ويُدال عليه أخرى. الأمر الثاني: أنكم ترجونَ من الله ما لا يرجون، فترجون الفوز بثوابِهِ والنجاة من عقابه، بل خواصُّ المؤمنين لهم مقاصدُ عاليةٌ وآمال رفيعةٌ من نصر دين الله وإقامة شرعه واتِّساع دائرة الإسلام وهداية الضالِّين وقمع أعداء الدين؛ فهذه الأمور توجب للمؤمن المصدق زيادة القوة وتضاعف النشاط والشجاعة التامَّة؛ لأنَّ من يقاتل ويصبر على نيل عزِّه الدُّنيويِّ إن ناله ليس كمن يقاتِلُ لنيل السعادة الدنيويَّة والأخرويَّة والفوز برضوان الله وجنَّته؛ فسبحان من فاوت بين العباد وفرَّق بينهم بعلمِهِ وحكمتِهِ، ولهذا قال: {وكان الله عليماً حكيماً}: كامل العلم كامل الحكمةِ.
[104] یعنی اپنے دشمن کفار کو طلب کرنے ان کے خلاف جہاد اور ان کے مقابلے میں تیار رہنے میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ کیونکہ دل کی کمزوری بدن کی کمزوری کو دعوت دیتی ہے۔ اور یہ کمزوری دشمن کے مقابلے میں کمزوری کا باعث بنتی ہے بلکہ دشمن کے خلاف جنگ میں چست و چالاک اور طاقتور بنو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کے دل کو قوت بخشتے ہیں اور وہ دو چیزیں ہیں: اول: جس درد و الم، مشقت اور تھکاوٹ اور زخموں وغیرہ کا تمھیں سامنا کرنا پڑتا ہے انھی چیزوں کا سامنا تمھارے دشمن کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انسانی مروت اور اسلامی شجاعت و شہامت کے شایاں نہیں کہ تم ان کے مقابلے میں زیادہ کمزوری کا مظاہرہ کرو جبکہ تمھیں اور ان کو برابر کی تکالیف کا سامنا ہے۔ عادت جاریہ یہ ہے کہ صرف وہی شخص کمزور ہوتا ہے جو نہایت تسلسل کے ساتھ رنج و آلام کا شکار رہا ہو اور دشمن دائمی طور پر اس پر غالب ہو۔ نہ کہ وہ شخص جو کبھی غالب رہا ہو اور کبھی مغلوب۔ ثانی: اللہ تعالیٰ پر جو امید تم رکھتے ہو وہ امید کفار نہیں رکھتے۔ تم اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عذاب سے نجات کی امید رکھتے ہو بلکہ خواص اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اس کی شریعت کے نفاذ، گمراہوں کی راہ نمائی اور دین کے دشمنوں کے قلع قمع جیسے بلند مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ پس یہ تمام امور صاحب تصدیق مومن کی قوت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، ان سے ان کی چستی اور بہادری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جو دنیاوی عزت و جاہ کے حصول کی خاطر جنگ کرتا ہے اور اس میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اس شخص کی مانند تو نہیں ہو سکتا جو دنیاوی اور اخروی سعادت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کی خاطر لڑتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت رکھا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے ذریعے سے ان کے مابین تفریق کی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا﴾ ’’اور اللہ سب کچھ جانتا، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ علم کامل اور حکمت کامل کا مالک ہے۔
آیت: 105 - 113 #
{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا (105) وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (106) وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا (107) يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا (108) هَاأَنْتُمْ هَؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا (109) وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (110) وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (111) وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (112) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (113)}.
تحقیق ہم نے نازل کی طرف آپ کی کتاب ساتھ حق کے تاکہ فیصلہ کریں درمیان لوگوں کے، ساتھ اس کے جو سکھلایا آپ کو اللہ نےاور نہ ہوں آپ، خیانت کرنے والوں کی خاطر، جھگڑنے والے(105) اور بخشش مانگیں اللہ سے، بے شک ہے اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان(106) اور نہ جھگڑا کریں آپ ان لوگوں کی طرف سے جو خیانت کرتے ہیں اپنے آپ سے، تحقیق اللہ نہیں پسند کرتا اس شخص کو جو ہو خائن گناہ گار(107) چھپتے ہیں وہ لوگوں سے اور نہیں چھپ سکتے وہ اللہ سےاور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں ایسی چیز کا کہ نہیں راضی ہوتا وہ اس بات سےاور ہے اللہ اس کو جو وہ کرتے ہیں، گھیرنے والا(108) ہاں! تم وہی لوگ ہو کہ جھگڑا کیا تم نے ان کی طرف سے زندگانیٔ دنیا میں، پس کون جھگڑا کرے گا اللہ سے ان کی طرف سے دن قیامت کے یا کون ہوگا ان کی طرف سے وکیل؟(109) اور جو کوئی عمل کرے برا یا ظلم کرے اپنی جان پر ، پھر وہ بخشش مانگے اللہ سے تو پائے گا اللہ کو بہت بخشنے والا نہایت مہربان(110) اور جو شخص کماتا ہے کوئی گناہ تو بلاشبہ کماتا ہے وہ اس کو اپنے ہی خلاف اور ہے اللہ خوب جاننے والا خوب حکمت والا(111) اور جو شخص کرتا ہے کوئی خطا یا کوئی گناہ، پھر الزام لگاتا ہے اس کا (کسی) بے گناہ پر تو تحقیق اپنے ذمے لیا اس نے بہتان اور گناہ ظاہر(112)اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا آپ پر اور اس کی رحمت تو یقیناً ارادہ کر لیا تھا ایک گروہ نے ان میں سے یہ کہ بہکاوے وہ آپ کو اور نہیں بہکاتے وہ مگر اپنے آپ ہی کو اور نہیں نقصان پہنچا سکتے وہ آپ کو کچھ بھی اور نازل کی اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اور سکھایا آپ کو وہ کچھ کہ نہیں تھے آپ جانتے اور ہے فضل اللہ کا آپ پر بہت بڑا(113)
#
{105} يخبر تعالى أنَّه أنزل على عبدِهِ ورسولِهِ الكتاب بالحقِّ؛ أي: محفوظاً في إنزاله من الشياطين أن يتطرَّق إليه منهم باطل، بل نزل بالحقِّ ومشتملاً أيضاً على الحقِّ؛ فأخباره صدقٌ وأوامره ونواهيه عدلٌ، {وتمَّتْ كلمةُ ربِّك صدقاً وعدلاً}، وأخبر أنه أنزله ليحكم بين الناس، وفي الآية الأخرى: {وأنْزَلْنا إليك الذِّكْر لِتُبَيِّنَ للناس ما نُزِّلَ إليهم}، فيحتَمَل أنَّ هذه الآية في الحكم بين الناس في مسائل النزاع والاختلاف، وتلك في تبيين جميع الدِّين وأصوله وفروعه. ويُحتمل أنَّ الآيتين كليهما معناهما واحدٌ، فيكون الحكم بين الناس هنا يشملُ الحكم بينهم في الدِّماء والأعراض والأموال وسائر الحقوق وفي العقائد وفي جميع مسائل الأحكام. وقولُه: {بما أراك الله}، أي: لا بهواك بل بما علمك الله وأَلْهَمَكَ كقوله تعالى: {وما ينطِقُ عن الهوى، إن هو إلا وَحْيٌ يُوحى}. وفي هذا دليلٌ على عصمتِهِ - صلى الله عليه وسلم - فيما يُبَلِّغُ عن الله من جميع الأحكام وغيرِها، وأنَّه يُشْتَرط في الحَكَم العلم والعدل؛ لقوله: {بما أراك الله}، ولم يقلْ: بما رأيتَ. ورتَّب أيضاً الحكم بين الناس على معرفة الكتاب. ولما أمر الله بالحكم بين الناس المتضمِّن للعدل والقِسْط؛ نهاه عن الجَوْر والظُّلم الذي هو ضدُّ العدل، فقال: {ولا تكن للخائنينَ خَصيماً}؛ أي: لا تخاصِمْ عن من عَرَفْتَ خيانته من مدَّعٍ ما ليس له أو منكرٍ حقًّا عليه سواء علم ذلك أو ظنَّه. ففي هذا دليل على تحريم الخصومة في باطل، والنيابة عن المبطل في الخصومات الدينيَّة والحقوق الدنيويَّة، ويدلُّ مفهوم الآية على جوازِ الدُّخول في نيابة الخصومة لمن لم يُعْرَفْ منه ظلمٌ.
[105] اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یعنی بوقت نزول اس کتاب کو شیاطین کے باطل وسوسوں سے محفوظ و مامون رکھا۔ بلکہ یہ کتاب عظیم حق کے ساتھ نازل ہوئی اور حق پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی خبریں سچی اور اس کے اوامر و نواہی عدل پر مبنی ہیں ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ﴾ (الانعام : 6؍115) ’’تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوئیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اس کتاب کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ ﴾ (النحل : 16؍44) ’’ہم نے آپ(e)کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ لوگوں پر واضح کر دیں۔‘‘ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ یہ آیت کریمہ لوگوں کے آپس کے اختلافات اور نزاعی مسائل کے فیصلے کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ اور سورۃ النحل کی آیت کریمہ تمام دین، اس کے اصول و فروع کی تبیین کے بار ے میں نازل ہوئی ہو۔ نیز یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہوں۔ تب اس صورت میں لوگوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا، ان کے خون، اموال، عزت و آبرو، حقوق، عقائد اور تمام مسائل و احکام کے فیصلوں کو شامل ہے۔ فرمایا: ﴿ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ کی ہدایات کے مطابق‘‘ یعنی آپ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کریں بلکہ اس الہام اور علم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ۰۰ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰؔى﴾ (النجم : 53؍3۔4) ’’ہمارا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہeان تمام احکام میں معصوم اور محفوظ ہیں جو آپeنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچائے۔ نیز اس امر کی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے علم اور عدل شرط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ کی ہدایات کے مطابق‘‘ اور یہ نہیں فرمایا: (بِمَا رَایْتَ) ’’جو آپ نے دیکھا یا جو آپ کی اپنی رائے ہے‘‘ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کتاب اللہ کی معرفت پر مترتب فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے مابین ایسے فیصلے کا حکم دیا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اس لیے ظلم وجور سے منع کیا ہے جو عدل و انصاف کی عین ضد ہے۔ پس فرمایا ﴿ وَلَا تَكُ٘نْ لِّلْخَآىِٕنِیْنَ خَصِیْمًا﴾ ’’اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو‘‘ یعنی جس کی خیانت کے بارے میں آپeکو علم ہے کہ اس کا دعویٰ ناحق ہے یا وہ کسی کے حق کا انکار کر رہا ہے، اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کریں۔ خواہ وہ علم رکھتے ہوئے اس خیانت کا ارتکاب کر رہا ہو یا محض ظن و گمان کی بنا پر۔ آیت کریمہ کے اس حصے میں کسی باطل معاملے میں جھگڑنے اور دینی خصومات اور دنیاوی حقوق میں کسی باطل پسند کی نیابت کی تحریم کی دلیل ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ کسی ایسے شخص کے جھگڑے کی نیابت کرنا جائز ہے جو کسی ظلم میں معروف نہ ہو۔
#
{106} {واستغفرِ الله}: مما صَدَرَ منك إنْ صدر. {إنَّ الله كان غفوراً رحيماً}؛ أي: يغفر الذنب العظيم لمن استغفره، وتاب إليه وأناب، يوفِّقه للعمل الصالح بعد ذلك الموجب لثوابِهِ وزوال عقابِهِ.
[106] ﴿ وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔‘‘ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔
#
{107} {ولا تجادِلْ عن الذين يختانون أنفسَهم}: الاختيانُ والخيانةُ بمعنى الجنايةِ والظُّلم والإثم، وهذا يَشْمَلُ النهي عن المجادلة عن من أذنب وتُوَجَّهُ عليه عقوبةٌ من حدٍّ أو تعزيرٍ؛ فإنَّه لا يجادل عنه بدفع ما صدر منه من الخيانة أو بدفع ما ترتَّب على ذلك من العقوبة الشرعية. {إنَّ الله لا يحبُّ مَن كان خوَّاناً أثيماً}؛ أي: كثير الخيانة والإثم، وإذا انتفى الحبُّ؛ ثبتَ ضدُّه، وهو البغض، وهذا كالتعليل للنهي المتقدم.
[107] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’اور آپ ان لوگوں کی طرف سے مت جھگڑیں جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں‘‘ (الاخْتِیَانُ) اور (اَلْخِیَانَۃُ) جرم، ظلم اور گناہ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں اس شخص کی طرف سے جھگڑنا بھی شامل ہے جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہے جس میں کوئی حد یا تعزیر لازم آتی ہو۔ اس شخص سے جو خیانت وغیرہ صادر ہوئی ہے اس کی مدافعت میں یا اس کو شرعی عقوبت سے بچانے کے لیے اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کیا جائے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا﴾ ’’کیونکہ اللہ خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو نہایت کثرت سے خیانت اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب محبت کی نفی ہو جائے تو اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے اور محبت کی ضد بغض ہے۔ آیت کریمہ کی ابتدا میں مذکور ممانعت کے لیے یہ چیز تعلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
#
{108} ثم ذكر عن هؤلاء الخائنين أنهم {يَسْتَخْفونَ من الناس ولا يَسْتَخْفونَ من الله وهو معهم إذ يُبَيِّتونَ ما لا يرضى من القول}: وهذا من ضَعْف الإيمان ونقصان اليقين أن تكونَ مخافةُ الخلق عندَهم أعظمَ من مخافةِ الله فيحرصون بالطرق المباحة والمحرَّمة على عدم الفضيحة عند الناس، وهُم مع ذلك قد بارزوا الله بالعظائم، ولم يبالوا بنظرِهِ واطِّلاعه عليهم، وهو معهم بالعلم في جميع أحوالهم، خصوصاً في حال تبييتِهِم ما لا يُرضيه من القول من تبرئة الجاني ورمي البريء بالجناية والسعي في ذلك للرسول - صلى الله عليه وسلم - ليفعلَ ما بيَّتوه؛ فقد جَمَعَوا بين عدَّة جنايات، ولم يُراقبوا ربَّ الأرض والسماوات المطَّلع على سرائِرِهم وضمائِرِهم، ولهذا توعَّدهم تعالى بقوله: {وكان الله بما يعملونَ محيطاً}؛ أي: قد أحاط بذلك علماً، ومع هذا لم يعاجِلْهم بالعقوبة، بل استأنى بهم، وعَرَضَ عليهم التوبةَ، وحذَّرهم من الإصرارِ على ذَنْبِهِم الموجب للعقوبة البليغة.
[108] پھر ان خائن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا: ﴿ یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَهُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ ﴾ ’’وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں (لیکن) اللہ سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ راتوں کے وقت وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں‘‘ یہ ایمان کی کمزوری اور یقین کی کمی ہے کہ ان کے نزدیک مخلوق کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ وہ مباح اور حرام ہر طریقے سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کی فضیحت نہ ہو ...بایں ہمہ...ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ انھیں دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے علم کے ذریعے سے ان کے تمام احوال میں ان کے ساتھ ہے خاص طور پر جب وہ رات کے وقت مجرم کی براء ت اور بے گناہ پر جرم کے الزام کے بارے میں باتیں اور سازشیں کرتے ہیں، پھر رسول اللہeسے اپنی ان سازشوں پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے متعدد جرائم کا ارتکاب کیا مگر انھیں اللہ کا خوف نہ آیا جو زمین و آسمان کا رب ہے، جو ان کے بھیدوں اور سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا ﴾ ’’اور اللہ ان کے تمام کاموں پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی بلکہ ان کو مہلت دی ان کو توبہ کا موقع دیا اور ان کو ان گناہوں پر اصرار کرنے پر ڈرایا جو بہت بڑی سزا کے موجب ہیں۔
#
{109} {ها أنتم هؤلاء جادَلْتُم عنهم في الحياة الدُّنيا فمن يجادِلُ الله عنهم يوم القيامة أم من يكونُ عليهم وكيلاً}؛ أي: هَبْكم جادلتم عنهم في هذه الحياة الدنيا ودَفَعَ عنهم جدالُكم بعضَ ما يحذَرون من العارِ والفضيحةِ عند الخَلْق؛ فماذا يُغني عنهم وينفعُهم؟! ومَن يجادلُ الله عنهم يوم القيامة حين تتوجَّه عليهم الحجَّة وتشهد عليهم ألسنتهم وأيديهم وأرجُلُهم بما كانوا يعملون؟! يومئذٍ يوفِّيهم الله دينهم الحق ويعلمون أنَّ الله هو الحق المبين؛ فمن يجادلُ عنهم من يعلم السِّرَّ وأخفى ومن أقام عليهم من الشهود ما لا يمكن معه الإنكارُ؟ وفي هذه الآية الإرشاد إلى المقابلة بين ما يُتَوَهَّم من مصالح الدُّنيا المترتبة على ترك أوامر الله أو فعل مناهيه وبين ما يَفوتُ من ثواب الآخرة أو يَحْصُلُ من عقوباتِها، فيقولُ من أمرتْه نفسُهُ بتركِ أمر الله: ها أنت تركتَ أمره كسلاً وتفريطاً؛ فما النفع الذي انتفعت به؟ وماذا فاتك من ثواب الآخرة؟ وماذا ترتَّب على هذا الترك من الشقاء والحرمان والخيبة والخسران؟ وكذلك إذا دعته نفسُه إلى ما تشتهيه من الشَّهوات المحرَّمة؛ قال لها: هبكِ فعلتِ ما اشتهيتِ؛ فإنَّ لذَّته تنقضي ويعقُبها من الهموم والغموم والحَسَرات وفوات الثواب وحصول العقاب ما بعضُه يكفي العاقل في الإحجام عنها، وهذا من أعظم ما ينفع العبدَ تدبُّره، وهو خاصَّة العقل الحقيقي؛ بخلاف من يدَّعي العقل وليس كذلك؛ فإنَّه بجهله وظلمِهِ يؤثر اللَّذَّة الحاضرة والراحة الراهنة، ولو ترتَّب عليها ما ترتب. والله المستعان.
[109] ﴿ هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰؔدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١۫ فَ٘مَنْ یُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّكُوْنُ عَلَیْهِمْ وَؔكِیْلًا ﴾ ’’ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا اور کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا‘‘ یعنی فرض کیا اس دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑ لیا، تمھاری اس حمایت نے مخلوق کے سامنے ان کو عار اور فضیحت سے بچا لیا۔ تب قیامت کے روز کون سی چیز انھیں بچائے گی اور وہ اسے کیا فائدہ دے گی؟ اور قیامت کے روز جب حجت اس کے خلاف ہو گی، ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں پر گواہی دیں گے، کون ان کی حمایت میں بولے گا؟ ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ ﴾ (النور : 24؍25) ’’اس روز اللہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی برحق اور حق کو ظاہر کرنے والا ہے۔‘‘ پس ان کی حمایت میں اس ہستی سے کون جھگڑے گا جو مخفی رازوں کو جانتی ہے جو ان کے خلاف ایسے گواہوں کو کھڑا کرے گی جن کے ہوتے ہوئے کسی کو انکار کی مجال نہ ہو گی؟ اس آیت کریمہ میں اس امر کے مقابلہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جو ان موہوم دنیاوی مصالح کے مابین، جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی منہیات کے ارتکاب پر مترتب ہوتے ہیں اور اس اخروی ثواب کے مابین ہوتا ہے جس سے انسان محروم یا وہاں کے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ پس جس شخص کو اس کے نفس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنے آپ سے پوچھے ’’تو نے سستی اور کوتاہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کر دیا تو اس کے عوض تو نے کون سا منافع کمایا؟ اور کتنا اخروی ثواب ہے جو تجھے حاصل ہونے سے رہ گیا؟ اور اللہ کے حکم کو ترک کرنے کے نتیجے میں کتنی بدبختی، محرومی، ناکامی اور خسارے کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘ اسی طرح جب اس کا نفس شہوات محرمہ کی طرف بلائے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہے ’’فرض کیا جس چیز کی تو نے خواہش کی میں نے پوری کر دی، اس کی لذت تو ختم ہو جائے گی مگر یہ لذت اپنے پیچھے اتنے غم و ہموم، حسرتیں، ثواب سے محرومیاں اور عذاب چھوڑ جائے گی کہ ان کا کچھ حصہ بھی عقلمند شخص کو ان لذتوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘‘ یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس میں تدبر بندے کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہی حقیقی عقل مندی کی خصوصیت ہے، اس شخص کے برعکس جو عقل مندی کا دعویٰ کرتا ہے مگر وہ عقلمند ہوتا نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے دنیا کی لذت و راحت کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس پر کیسے ہی نتائج مرتب کیوں نہ ہوں۔۔۔ واللہ المستعان!
#
{110} ثم قال تعالى: {ومَن يعملْ سوءاً أو يَظْلِمْ نفسَه ثم يستغفرِ الله يجدِ الله غفوراً رحيماً}؛ أي: من تجرَّأ على المعاصي واقتحم على الإثم، ثم استغفر الله استغفاراً تامًّا يستلزم الإقرار بالذنب والندم عليه والإقلاع والعزم على أن لا يعود؛ فهذا قد وَعَدَه من لا يُخْلِف الميعاد بالمغفرة والرحمة، فيغفر له ما صدر منه من الذَّنب، ويزيل عنه ما ترتَّب عليه من النقص والعيب، ويعيد إليه ما تقدَّم من الأعمال الصالحة، ويوفِّقه فيما يستقبله من عمرِهِ، ولا يجعل ذنبه حائلاً عن توفيقِهِ؛ لأنَّه قد غفره، وإذا غفره؛ غفر ما يترتَّب عليه. واعلم أنَّ عمل السوء عند الإطلاق يشملُ سائر المعاصي الصغيرة والكبيرة، وسُمِّي سوءاً لكونِهِ يسوءُ عامله بعقوبته، ولكونِهِ في نفسه سيئاً غير حسن، وكذلك ظلم النفس عند الإطلاق يَشْمَلُ ظلمها بالشِّرك فما دونَه، ولكن عند اقتران أحدِهما بالآخرِ قد يُفَسَّرُ كلُّ واحدٍ منهما بما يناسبه، فيفسَّر عمل السوء هنا بالظُّلم الذي يسوء الناس، وهو ظلمهم في دمائهم وأموالهم وأعراضهم، ويفسَّر ظلم النفس بالظُّلم والمعاصي التي بين الله وبين عبده، وسمي ظلم النفس ظلماً؛ لأن نفس العبد ليست مُلكاً له يتصرَّف فيها بما يشاء، وإنَّما هي ملك لله تعالى، قد جعلها أمانةً عند العبد، وأمره أن يُقيمها على طريق العدل بإلزامها للصراط المستقيم علماً وعملاً، فيسعى في تعليمها ما أمر به، ويسعى في العمل بما يجب، فسعيه في غير هذا الطريق ظلمٌ لنفسه وخيانةٌ وعدول بها عن العدل الذي ضده الجور والظلم.
[110] پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پر پشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہو چکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کر دیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کر دیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔ آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ ’’برا عمل‘‘ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، شامل ہے اور (سوء) ’’برائی‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے۔ مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔ یہاں برے عمل کی تفسیر ’’ظلم‘‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون، مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم۔ اور نفس کے ظلم کی تفسیر ’’ظلم اور گناہ‘‘ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف و عدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔
#
{111} ثم قال: {ومن يكسِبْ إثماً فإنَّما يكسِبُهُ على نفسه}: وهذا يَشْمَلُ كلَّ ما يؤثم من صغير وكبير؛ فمن كسب سيئةً؛ فإن عقوبتها الدُّنيوية والأخروية على نفسه لا تتعدَّاها إلى غيرها؛ كما قال تعالى: {ولا تَزِرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى}، لكن إذا ظهرتِ السيئاتُ فلم تُنْكَرْ؛ عَمَّتْ عقوبتُها وشَمَلَ إثمُها؛ فلا تخرج أيضاً عن حكم هذه الآية الكريمة؛ لأنَّ من ترك الإنكار الواجبَ؛ فقد كسب سيئةً، وفي هذا بيان عدل الله وحكمتِهِ أنه لا يعاقب أحداً بذنبِ أحدٍ، ولا يعاقبُ أحداً أكثر من العقوبة الناشئة عن ذنبِهِ، ولهذا قال: {وكان الله عليماً حكيماً}؛ أي: له العلم الكامل والحكمةُ التامةُ، ومن علمه وحكمتِهِ أنَّه يعلم الذنبَ وما صدرَ منه والسببَ الداعي لفعله والعقوبةَ المترتبةَ على فعله، ويعلم حالة المذنبِ أنَّه إن صَدَرَ منه الذنبُ بغلبة دواعي نفسِهِ الأمَّارة بالسوء مع إنابته إلى ربِّه في كثيرٍ من أوقاته: أنَّه سيغفرُ له ويوفِّقه للتوبة، وإن صدر منه بتجرُّئه على المحارم استخفافاً بنظر ربِّه وتهاوناً بعقابِهِ؛ فإنَّ هذا بعيدٌ من المغفرة بعيدٌ من التوفيق للتوبة.
[111] پھر فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖ ﴾ ’’اور جو شخص گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے‘‘ اس میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا گناہ شامل ہے۔ جو کوئی کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی دنیاوی اور اخروی سزا صرف اسی کے لیے ہے یہ سزا کسی اور کی طرف منتقل نہ ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ (الانعام : 6؍164) ’’کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ مگر جب برائیاں غالب آ جائیں اور ان پر نکیر نہ کی جائے تو ان کا عذاب عام ہو جاتا ہے اور ان کے گناہ میں سب شامل ہو جاتے ہیں اور کوئی شخص اس آیت کے حکم سے خارج نہیں۔ کیونکہ جو کوئی برائیوں پر نکیر نہیں کرتا جبکہ ایسا کرنا واجب ہے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں دیتا اور نہ کسی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ بخوبی جاننے والا، بہت حکمت والا ہے‘‘ یعنی وہ علم کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا علم و حکمت ہے۔ کہ اسے گناہ کا علم ہے اسے یہ بھی علم ہے کہ گناہ کس سے صادر ہوا۔ اس گناہ کا داعیہ کیا تھا۔ اور اس گناہ پر کیا سزا مترتب ہوگی۔ وہ گناہ کے مرتکب کے احوال کو بھی خوب جانتا ہے کہ اگر اس سے یہ گناہ نفس امارہ کے داعیہ کے غلبہ سے صادر ہوا اور وہ اپنے اکثر اوقات میں توبہ و انابت کے ذریعے سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اسے بخش دے گا اور اسے توبہ کی توفیق عطا کرے گا اور اگر اس نے اللہ تعالیٰ کی نظر کا استخفاف اور اس کے عذاب کی تحقیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی ہے تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور توبہ کی توفیق سے بہت دور ہے۔
#
{112} ثم قال: {ومن يَكْسِبْ خطيئةً}؛ أي: ذنباً كبيراً، {أو إثماً}: ما دون ذلك، {ثم يَرْم به}؛ أي: يتَّهم بذنبه {بريئاً} من ذلك الذنب وإن كان مذنباً. {فقد احتمل بُهتاناً وإثماً مبيناً}؛ أي: فقد حَمَلَ فوق ظهره بَهْتاً للبريء وإثماً ظاهراً بيِّناً. وهذا يدلُّ على أنَّ ذلك من كبائر الذُّنوب وموبقاتها؛ فإنه قد جمع عدَّةَ مفاسد: كسبَ الخطيئة والإثم، ثم رميَ من لم يفعلْها بفعلِها، ثم الكذبَ الشَّنيعَ بتبرئة نفسه واتِّهام البريء، ثم ما يترتَّب على ذلك من العقوبة الدُّنيويَّة تندفع عمَّن وجبتْ عليه وتُقام على مَن لا يستحقُّها، ثم ما يترتَّب على ذلك أيضاً من كلام الناس في البريء، إلى غير ذلك من المفاسد التي نسأل الله العافية منها ومن كل شرٍّ.
[112] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔكْسِبْ خَطِیْٓئَةً اَوْ اِثْمًا ﴾ ’’جو شخص کبیرہ یا صغیرہ گناہ تو خود کرے‘‘ ﴿ ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ ﴾ ’’پھر اس سے کسی (بے گناہ) کو متہم کرے۔‘‘ یعنی اپنے گناہ کو کسی اور کے سر تھوپ دے ﴿ بَرِیْؔـٓـــًٔا ﴾ ’’جو اس گناہ سے بری ہے۔‘‘ خواہ اس نے کسی اور گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو ﴿ فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا﴾ ’’تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا اور کھلا گناہ کیا‘‘ یعنی اس نے بے گناہ پر لگائے گئے بہتان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیا اور اس ظاہری گناہ کا بوجھ بھی جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بہتان ہلاک کرنے والے کبائر میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں متعدد مفاسد جمع ہیں: (۱) گناہ کبیرہ کا ارتکاب۔ (۲) پھر اس گناہ کا بہتان اس شخص پر لگا دینا جو بے گناہ ہے۔ (۳) پھر اپنے آپ کو بے گناہ اور بے گناہ کو گناہ گار ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔ (۴) پھر اس گناہ پر جو دنیاوی عقوبت مترتب ہوتی ہے وہ عقوبت ایک بے گناہ پر نافذ کر دینا اور اس شخص کو اس سزا سے بچا لینا جو حقیقی مجرم ہے۔ (۵) پھر بے گناہ شخص کے بارے میں لوگوں کی باتیں اور دیگر مفاسد۔ ان تمام مفاسد اور ہر شر سے ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
#
{113} ثم ذكر منَّته على رسوله بحفظه وعصمتِهِ ممَّن أراد أن يضلَّه، فقال: {ولولا فضلُ الله عليك ورحمتُهُ لهمَّتْ طائفةٌ منهم أن يضلوك}: وذلك أنَّ هذه الآيات الكريمات قد ذكر المفسرون أنَّ سبب نزولها أنَّ أهل بيت سَرَقوا في المدينة، فلما اطُّلع على سرقتهم؛ خافوا الفضيحة، وأخذوا سرقتهم، فرموها ببيت من هو بريء من ذلك، واستعان السارق بقومِهِ أن يأتوا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ويطلُبوا منه أن يبرِّئ صاحِبَهم على رؤوس الناس، وقالوا: إنَّه لم يسرِقْ وإنَّما الذي سرق من وجدت السرقةُ ببيتِهِ وهو البريء، فهمَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن يبرِّئ صاحبهم، فأنزل الله هذه الآيات تذكيراً وتبييناً لتلك الواقعة وتحذيراً للرسول - صلى الله عليه وسلم - من المخاصمة عن الخائنين؛ فإنَّ المخاصمة عن المبطِل من الضَّلال؛ فإنَّ الضلال نوعان: ضلالٌ في العلم وهو الجهل بالحقِّ، وضلالٌ في العمل وهو العملُ بغير ما يجب؛ فحفظ الله رسوله عن هذا النوع من الضَّلال كما حفظه عن الضلال في الأعمال، وأخبر أن كَيْدَهم ومَكْرَهم يعودُ على أنفسِهم كحالة كلِّ ماكر، فقال: {وما يضلُّون إلا أنفسَهم}؛ لكون ذلك المكر وذلك التحيُّل لم يحصُل لهم فيه مقصودُهم ولم يحصُل لهم إلا الخيبة والحرمان والإثم والخُسران، وهذا نعمةٌ كبيرةٌ على رسوله - صلى الله عليه وسلم -، يتضمَّن النعمةَ بالعمل، وهو التوفيق لفعل ما يجب والعصمة له عن كل محرم، ثم ذكر نعمته عليه بالعلم، فقال: {وأنزل الله عليك الكتابَ والحكمةَ}؛ أي: أنزل عليك هذا القرآن العظيم والذِّكر الحكيم الذي فيه تبيانُ كلِّ شيءٍ وعلم الأولين والآخرين. والحكمة إمّا السُّنة التي قد قال فيها بعض السلف: إن السُّنةَ تُنزل عليه كما يُنزل القرآن، وإمّا معرفة أسرار الشريعة الزائدة على معرفة أحكامها وتنزيل الأشياء منازلها وترتيب كلِّ شيءٍ بحسبه. {وعلَّمك ما لم تكُن تعلمُ}: وهذا يشمل جميع ما علَّمه الله تعالى؛ فإنه - صلى الله عليه وسلم - كما وصفه الله قبل النبوة بقوله: {ما كنت تدري ما الكتابُ ولا الإيمان}، {ووجدَكَ ضالاًّ فهدى}، ثم لم يزل يُوحي الله إليه ويعلِّمه ويكمِّله حتى ارتقى مقاماً من العلم يتعذَّر وصولُه على الأولين والآخرين، فكان أعلم الخلق على الإطلاق وأجمعهم لصفات الكمال وأكملهم فيها، ولهذا قال: {وكان فضلُ الله عليك عظيماً}؛ ففضلُهُ على الرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - أعظم من فضلِهِ على كلِّ الخلق ، وأجناس الفضل الذي قد فضَّله الله به لا يمكن استقصاؤه ولا يتيسَّر إحصاؤه.
[113] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول پر اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو ان لوگوں کے ارادوں سے محفوظ رکھا جو آپ کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔ ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ وَرَحْمَتُهٗ لَهَمَّؔتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّؔنْهُمْ اَنْ یُّضِلُّوْكَ ﴾ ’’اگر اللہ کا فضل و رحم آپ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا‘‘ ان آیات کریمہ کے بارے میں اصحاب تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ ان کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک گھرانے نے مدینہ میں چوری کا ارتکاب کیا۔ جب چوری کی اطلاع لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے فضیحت اور رسوائی سے ڈرتے ہوئے چوری کا سامان کسی بے گناہ شخص کے گھر پھینک دیا۔ پھر چور نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے مدد طلب کی کہ وہ رسول اللہeکی خدمت میں حاضر ہو کر لوگوں کے سامنے اسے بری کروائیں۔ اس کے قبیلہ والوں نے رسول اللہeکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے آدمی نے چوری نہیں کی۔ چوری تو اس شخص نے کی ہے جس کے گھر سے مسروقہ سامان برآمد ہوا ہے۔ رسول اللہeنے ان کے آدمی کو بری قرار دینے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال بیان کرنے اور رسول اللہeکو خیانت کاروں کی حمایت کرنے سے بچانے کے لیے یہ آیات نازل فرمائیں کیونکہ باطل پسندوں کی حمایت کرنا گمراہی ہے۔ گمراہی کی دو اقسام ہیں: (۱) علم میں گمراہی، یہ حق سے لاعلمی اور جہالت کا نام ہے۔ (۲) عمل میں گمراہی، عمل واجب کے خلاف عمل کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولeکو اس نوع کی گمراہی سے اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح اس نے آپeکو عمل کی گمراہی سے محفوظ و مصون رکھا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا مکر و فریب انھی کی طرف لوٹے گا جیسا کہ ہر فریبی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ﴿ وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں‘‘ کیونکہ اس فریب اور حیلہ سازی سے انھیں اپنا مقصد حاصل نہ ہو سکا اور انھیں سوائے ناکامی، محرومی، گناہ اور خسارے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولeپر بہت بڑی نعمت ہے جو نعمت عمل کو متضمن ہے اور یہ اس فعل کی توفیق ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور ہر قسم کے محرمات سے آپeکی حفاظت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپeپر اپنی نعمت علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ’’اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپeپر قرآن عظیم اور ذکر حکیم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان اور اولین و آخرین کا علم ہے۔ حکمت سے مراد یا تو سنت ہے جس کے بارے میں سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ سنت بھی رسول اللہeپر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے یا اس سے مراد اسرار شریعت کی معرفت ہے جو احکام شریعت کی معرفت سے زائد چیز ہے۔ نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور ہر شے کو اس کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُ٘نْ تَعْلَمُ ﴾ ’’اور آپ کو وہ (کچھ) سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے‘‘ یہ ان تمام امور کو شامل ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آپeکو عطا فرمایا۔ ورنہ نبوت سے قبل آپeکے جو احوال تھے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ﴾ (الشوری : 42؍52) ’’آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟‘‘ اور فرمایا ﴿وَوَجَدَكَ ضَآ لًّا فَهَدٰؔى ﴾ (الضحی : 93؍7) ’’اس نے آپ کو رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ آپeکی طرف وحی بھیجتا رہا، آپ کو علم سکھاتا رہا اور آپ کے علم کی تکمیل کرتا رہا یہاں تک کہ آپeعلم کے ایسے مقام پر فائز ہو گئے کہ اولین و آخرین وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ پس رسول اللہeعلی الاطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صفات کمال کے سب سے زیادہ جامع اور ان صفات میں سب سے زیادہ کامل تھے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ فَضْ٘لُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا ﴾ ’’اللہ کا آپ پر بڑا بھاری فضل ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کا فضل مخلوق میں سب سے زیادہ محمد رسول اللہeپر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی ہر جنس سے آپeکو نوازا ہے جن کی تہہ تک پہنچنانا ممکن اور ان کو شمار کرنا آسان نہیں۔
آیت: 114 #
{لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (114)}.
نہیں ہے کوئی بھلائی اکثر میں ان کی سرگوشیوں سے مگر جو شخص حکم دے صدقے کا یا نیکی کا یا صلح کرانے کا درمیان لوگوں کےاور جو شخص کرے یہ تلاش کرنے کے لیے رضامندی اللہ کی تو عنقریب ہم دیں گے اس کو اجر بہت بڑا(114)
#
{114} أي: لا خير في كثير مما يتناجى به الناس ويتخاطبون، وإذا لم يكنْ فيه خيرٌ؛ فإمّا لا فائدة فيه؛ كفضول الكلام المباح، وإما شرٌّ ومضرَّة محضةٌ؛ كالكلام المحرَّم بجميع أنواعه. ثم استثنى تعالى فقال: {إلاَّ من أمر بصدقةٍ}: من مال أو علم أو أيِّ نفع كان، بل لعلَّه يدخُل فيه العباداتُ القاصرةُ؛ كالتسبيح والتحميد ونحوِهِ؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «إنَّ بكلِّ تسبيحةٍ صدقة، وكلِّ تكبيرة صدقة، وكلِّ تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة .... » الحديث. {أو معروفٍ}: وهو الإحسان والطاعة وكلُّ ما عُرِف في الشرع والعقل حسنُه، وإذا أُطلِقَ الأمرُ بالمعروف من غير أن يُقْرَنَ بالنَّهي عن المنكر؛ دخلَ فيه النهي عن المنكر؛ وذلك لأنَّ ترك المنهيّات من المعروف، وأيضاً لا يتمُّ فعل الخير إلا بترك الشرِّ، وأما عند الاقتران؛ فيفسَّر المعروف بفعل المأمور والمنكَر بترك المنهيِّ. {أو إصلاح بين الناس}: والإصلاحُ لا يكون إلاَّ بين متنازعينِ متخاصمينِ، والنِّزاع والخصام والتغاضُب يوجِب من الشَّرِّ والفرقة ما لا يمكن حصرُه؛ فلذلك حثَّ الشارع على الإصلاح بين الناس في الدِّماء والأموال والأعراض، بل وفي الأديان؛ كما قال تعالى: {واعتَصِموا بحبل الله جميعاً ولا تفرَّقوا}، وقال تعالى: {وإن طائفتان من المؤمنين اقْتَتَلوا فأصلحوا بينَهما، فإن بَغَتْ إحداهما على الأخرى فقاتِلوا التي تبغي حتَّى تفيءَ إلى أمر الله ... } الآية، وقال تعالى: {والصُّلْحُ خيرٌ}، والساعي في الإصلاح بين الناس أفضل من القانتِ بالصلاة والصيام والصدقة، والمصلِح لا بدَّ أن يُصْلِحَ الله سعيَه وعمله؛ كما أنَّ الساعي في الإفساد لا يُصْلِحُ الله عمله ولا يتم له مقصوده؛ كما قال تعالى: {إنَّ الله لا يُصْلِحُ عملَ المفسدين}؛ فهذه الأشياء حيثما فعلت؛ فهي خيرٌ؛ كما دلَّ على ذلك الاستثناء، ولكن كمال الأجر وتمامه بحسب النيَّة والإخلاص. ولهذا قال: {ومن يفعل ذلك ابتغاءَ مرضاةِ الله فسوف نؤتيه أجراً عظيماً}؛ فلهذا ينبغي للعبد أن يقصدَ وجه الله تعالى ويُخْلِصَ العمل لله في كلِّ وقت وفي كلِّ جزء من أجزاء الخير؛ ليحصلَ له بذلك الأجر العظيم، وليتعوَّد الإخلاص، فيكون من المخلصين. وليتمَّ له الأجر، سواءٌ تمَّ مقصودُه أم لا؛ لأنَّ النيَّة حصلت، واقترن بها ما يمكنُ من العمل.
[114] یعنی بہت سی ایسی سرگوشیاں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں ان میں کوئی بھلائی نہیں۔ اور جس کلام میں کوئی بھلائی نہ ہو تو وہ یا تو بے فائدہ کلام ہوتا ہے مثلاً فضول مگر مباح بات چیت۔ یا وہ محض شر ہوتا ہے مثلاً محرم کلام کی تمام اقسام۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثناء بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ ﴾ ’’ہاں وہ شخص جو صدقہ کا حکم دے۔‘‘ یعنی اس میں سے وہ شخص مستثنی ہے جو مال، علم یا کسی اور منفعت میں صدقہ کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ شاید بعض چھوٹی عبادات بھی اس زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ مثلاً تسبیح و تحمید وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرمeنے فرمایا: ’’ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر تہلیل صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے کسی کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔‘‘ الحدیث۔ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث:1006 ،صحیح مسلم، الزکاۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، ح: 1006) ﴿ اَوْ مَعْرُوْفٍ ﴾ ’’یا نیک بات‘‘ معروف سے مراد بھلائی اور نیکی ہے اور ہر وہ کام، جسے شریعت نے نیکی قرار دیا اور عقل نے اس کی تحسین کی، معروف کے زمرے میں آتا ہے جب ’’اَمَر بِالْمَعْرُوف‘‘ کا لفظ ’’نَہْیِ عَنِ الْمُنْکَر‘‘ کے ساتھ ملائے بغیر استعمال کیا جائے تو برائی سے روکنا اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ منہیات کو ترک کرنا بھی نیکی ہے، نیز بھلائی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ برائی کو ترک نہ کر دیا جائے اور جب ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا ایک ساتھ ذکر ہو تو، ’’معروف‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہو ’’منکر‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے شریعت میں روکا گیا ہو۔ ﴿ اَوْ اِصْلَاحٍ ۭ بَیْنَ النَّاسِ ﴾ ’’یا لوگوں کے مابین صلح کرانے کا حکم کرے‘‘ اور اصلاح صرف دو جھگڑنے والوں کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ نزاع، جھگڑا، مخاصمت اور آپس میں ناراضی اس قدر شر اور تفرقہ کا باعث بنتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پس اسی لیے شارع نے لوگوں کو ان کے قتل، مال، اور عزت ناموس کے جھگڑوں میں اصلاح کی ترغیب دی ہے بلکہ تمام ادیان میں اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران : 3؍103) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ فرمایا ﴿ وَاِنْ طَآىِٕفَتٰ٘نِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰؔىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَ٘بْغِیْ حَتّٰى تَ٘فِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ ﴾ (الحجرات : 49؍9) ’’اگر مومنوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَالصُّلْ٘حُ خَیْرٌ ﴾ (النساء: 4؍128) ’’اور صلح اچھی چیز ہے۔‘‘ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والا اس شخص سے بہتر ہے جو کثرت سے (نفلی) نماز روزے اور صدقہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح نہیں کرتا اور نہ اس کا مقصد پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ (یونس : 10؍81) ’’اللہ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں کرتا۔‘‘ یہ تمام افعال جہاں کہیں بھی بجا لائے جائیں گے۔ بھلائی کے زمرے میں آئیں گے، جیسا کہ یہ استثناء دلالت کرتا ہے۔ مگر پورا اور کامل اجر بندے کی نیت پر منحصر ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَؔ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور جو شخص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے‘‘ بنابریں بندے کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھے اور ہر وقت چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے تاکہ اسے اجر عظیم حاصل ہو، تاکہ اس میں اخلاص کی عادت راسخ ہو اور وہ اہل اخلاص کے زمرے میں شمار ہو اور اس کے اجر کی تکمیل ہو خواہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو کیونکہ اس نے اس نیک مقصد کی نیت کی تھی اور امکان بھر اس پر عمل بھی کیا تھا۔
آیت: 115 - 116 #
{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (115) إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (116)}.
اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی، بعد اس کے کہ واضح ہو گئی اس کے لیے ہدایت اور پیروی کرے سوائے راستے کے مسلمانوں کے تو پھیر دیں گے ہم اسے جدھر ، پھرتا ہے اور داخل کریں گے اس کو جہنم میں اور بری جگہ ہے وہ ، پھرنے کی(115) یقیناً اللہ نہیں بخشے گا یہ کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور بخش دے گا جو علاوہ ہے اس کے، جس کے لیے چاہے گا اور جو شخص شریک ٹھہرائے اللہ کے ساتھ پس تحقیق گمراہ ہوگیا وہ گمراہ ہونا دور کا(116)
#
{115} أي: ومن يخالِف الرسول - صلى الله عليه وسلم - ويعانِده فيما جاء به، {من بعدِ ما تبيَّن له الهدى}: بالدَّلائل القرآنيَّة والبراهين النبويَّة، {ويتَّبِع غير سبيل المؤمنين}: وسبيلُهم هو طريقُهم في عقائِدِهم وأعمالهم، {نولِّه ما تولَّى}؛ أي: نتركه وما اختاره لنفسِهِ ونخذُله؛ فلا نوفِّقُه للخير؛ لكونِهِ رأى الحق وعَلِمَهُ وتركَه؛ فجزاؤه من الله عدلاً أن يُبْقِيه في ضلاله حائراً ويزداد ضلالاً إلى ضلاله؛ كما قال تعالى: {فلمَّا زاغوا أزاغ الله قلوبَهم}، وقال تعالى: {ونقلِّب أفئِدَتهم وأبصارَهم كما لَمْ يؤمِنوا به أوَّل مرة}. ويدلُّ مفهومها على أن من لم يشاقق الرسول {ويتَّبع غير سبيل المؤمنين}؛ بأن كان قصده وجه الله واتِّباع رسوله ولزوم جماعة المسلمين، ثم صدر منه من الذنوب أو الهمِّ بها ما هو من مقتضيات النفوس وغَلَبات الطباع؛ فإن الله لا يولِّيه نفسه وشيطانه، بل يتداركُه بلطفه ويمنُّ عليه بحفظه ويعصمه من السوء؛ كما قال تعالى عن يوسف عليه السلام: {كذلك لنصرفَ عنه السوءَ والفحشاءَ إنَّه من عبادنا المخلَصين}؛ أي: بسبب إخلاصِهِ صَرَفْنا عنه السوءَ، وكذلك كلُّ مخلص؛ كما يدلُّ عليه عموم التعليل، وقوله: {ونُصْلِهِ جهنَّم}؛ أي: نعذِّبه فيها عذاباً عظيماً. {وساءت مصيراً}؛ أي: مرجعاً له ومآلاً.
[115] یعنی جو کوئی رسول اللہeکی مخالفت کرتا ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت میں آپ سے عناد رکھتا ہے ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰؔى ﴾ ’’سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد‘‘ یعنی دلائل قرآنی اور براہین نبوی کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ واضح ہو جانے کے بعد ﴿ وَیَتَّ٘بِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کے راستے کے خلاف چلے‘‘ اہل ایمان کے راستے سے مراد ان کے عقائد و اعمال ہیں ﴿ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى ﴾ ’’ہم اس کو پھیر دیتے ہیں اسی طرف جس طرف وہ پھرتا ہے‘‘ یعنی ہم اسے اور اس چیز کو جو اس نے اپنے لیے اختیار کی ہے چھوڑ کر اس سے الگ ہو جاتے ہیں اور ہم اسے بھلائی کی توفیق سے محروم کر دیتے ہیں۔ کیونکہ اس نے حق کو جان بوجھ کر ترک کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جزا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ وہ اسے اس کی گمراہی میں حیران و پریشان چھوڑ دیتا ہے۔ اور وہ اپنی گمراہی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ﴾ (الصف : 61؍5) ’’جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام : 6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہ لائے تھے (اب بھی ایمان نہ لائیں گے)۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی رسول اللہeکی مخالفت نہیں کرتا اور مومنین کے راستے کی اتباع کرتا ہے۔ اس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا، رسول اللہeکی اتباع، اور مسلمانوں کی جماعت کی معیت کا التزام کرنا ہے۔ تب اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوتا ہے یا نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غلبے کی بنا پر گناہ کا ارادہ کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنے لطف و کرم سے اس کا تدارک کر دیتا ہے اور اسے برائی سے بچا کر اس پر احسان کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب یوسفuکے بارے میں فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ١ؕ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ (یوسف : 12؍24) ’’تاکہ ہم اس طرح اس سے برائی اور بے حیائی کو روک دیں بلاشبہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔‘‘ یعنی یوسفuکے اخلاص کے سبب سے ان سے برائی کو دور کر دیا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے ہر چنے ہوئے بندے کے ساتھ یونہی کرتا ہے۔ جیسا کہ علت کی عمومیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ﴾ ’’اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔‘‘ یعنی ہم جہنم میں اسے بہت بڑے عذاب سے دوچار کریں گے ﴿ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا﴾ ’’اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ یعنی انجام کار یہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
#
{116} وهذا الوعيد المترتِّب على الشقاق ومخالفة المؤمنين مراتب لا يحصيها إلا الله بحسب حالة الذنب صغراً وكبراً؛ فمنه ما يخلد في النار ويوجب جميع الخذلان، ومنه ما هو دون ذلك؛ فلعلَّ الآية الثانية كالتفصيل لهذا المطلق، وهو أن الشرك لا يغفره الله تعالى؛ لتضمُّنه القدح في ربِّ العالمين و [في] وحدانيَّته، وتسوية المخلوق الذي لا يملك لنفسه ضرًّا ولا نفعاً بمن هو مالك النفعِ والضرِّ، الذي ما من نعمة إلاَّ منه، ولا يدفع النقم إلاَّ هو، الذي له الكمال المطلق من جميع الوجوه والغنى التامُّ بجميع وجوه الاعتبارات؛ فمن أعظم الظُّلم وأبعد الضَّلال عدم إخلاص العبادة لمن هذا شأنه وعظمته، وصرف شيء منها للمخلوق الذي ليس له من صفات الكمال شيء ولا له من صفات الغنى شيءٌ، بل ليس له إلاَّ العدم: عدم الوجود وعدم الكمال وعدم الغنى، والفقر من جميع الوجوه. وأما ما دون الشرك من الذنوب والمعاصي؛ فهو تحت المشيئة: إن شاء الله غَفَرَهُ برحمتِهِ وحكمتِهِ، وإن شاء عذَّب عليه وعاقب بعدلِهِ وحكمتِهِ. وقد استدلَّ بهذه الآية الكريمة على أن إجماع هذه الأمة حجة، وأنها معصومةٌ من الخطأ، ووجه ذلك أنَّ الله توعَّد من خالف سبيل المؤمنين بالخِذلان والنار، وسبيل المؤمنين مفردٌ مضاف يشمل سائر ما المؤمنون عليه من العقائد والأعمال؛ فإذا اتَّفقوا على إيجاب شيء أو استحبابه أو تحريمه أو كراهته أو إباحته؛ فهذا سبيلهم فمن خالفهم في شيء من ذلك بعد انعقاد إجماعهم عليه؛ فقد اتّبَعَ غير سبيلهم. ويدلُّ على ذلك قوله تعالى: {كنتُم خير أمةٍ أخْرِجَتْ للناس تأمرون بالمعروفِ وتَنْهَوْنَ عن المنكرِ}، ووجهُ الدِّلالة منها أنَّ الله تعالى أخبر أن المؤمنين من هذه الأمة لا يأمُرون إلا بالمعروف؛ فإذا اتَّفقوا على إيجاب شيءٍ أو استحبابِهِ؛ فهو مما أمروا به، فيتعيَّن بنصِّ الآية أن يكون معروفاً، ولا شيء بعد المعروف غير المنكر، وكذلك إذا اتَّفقوا على النهي عن شيء؛ فهو مما نهوا عنه، فلا يكون إلاَّ منكراً. ومثلُ ذلك قولُه تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطاً لتكونوا شهداءَ على الناس}، فأخبر تعالى أنَّ هذه الأمة جعلها الله وسطاً؛ أي: عدلاً خياراً؛ ليكونوا شهداء على الناس؛ أي: في كل شيء؛ فإذا شهدوا على حكم بأنَّ الله أمر به أو نهى عنه أو أباحه؛ فإنَّ شهادتهم معصومةٌ؛ لكونِهِم عالمين بما شهدوا به عادلين في شهادتهم؛ فلو كان الأمرُ بخلاف ذلك؛ لم يكونوا عادلين في شهادتِهم ولا عالمين بها. ومثلُ ذلك قوله تعالى: {فإنْ تنازَعْتُم في شيءٍ فرُدُّوه إلى الله والرسول}؛ يُفهم منها أنَّ ما لم يَتَنازعوا فيه بل اتَّفقوا عليه أنهم غير مأمورين بردِّه إلى الكتاب والسنة، وذلك لا يكون إلاَّ موافقاً للكتاب والسُّنة، لا يكون مخالفاً. فهذه الأدلة ونحوها تفيدُ القطع أنَّ إجماع هذه الأمة حجَّةٌ قاطعةٌ.
[116] یہ وعید، جو رسول اللہeاور مومنین کی مخالفت پر مرتب ہوتی ہے گناہ کے چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے اس کے بہت سے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ ان میں سے بعض مراتب ایسے ہیں جو جہنم میں خلود کا باعث ہوں گے۔ باقی تمام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دوری کا موجب ہیں۔ بعض گناہوں کا مرتبہ کمتر ہے۔ شاید دوسری آیت اس آیت کریمہ کے اطلاق کی تفصیل کی طرح ہے۔ یعنی شرک کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا کیونکہ شرک اللہ رب العالمین، اور اس کی توحید میں نقص اور مخلوق کو، جو خود اپنے نفع و نقصان کی مالک نہیں، اس اللہ کے برابر قرار دینا ہے جو نفع و نقصان کا مالک ہے، ہر قسم کی نعمت صرف اسی کی طرف سے ہے، تمام تکلیفوں کو صرف وہی دور کرنے والا ہے ہر اعتبار سے کمال مطلق اور تمام وجوہ سے غنائے تام کا وہی مالک ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ جس ہستی کی یہ عظمت و شان ہو، اس کی عبادت کے لیے اخلاص نہ ہو اور جو صفات کمال اور صفات غنا میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہ ہو۔ بلکہ وہ عدم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا وجود نیست ہے، کمال نیست ہے، بے نیازی نیست ہے اور ہر لحاظ سے محتاجی ہی محتاجی ہے۔ وہ گناہ جو شرک سے کمتر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اپنی رحمت اور حکمت سے ان گناہوں کو بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو اپنے عدل و حکمت سے ان کو عذاب دے گا۔ اس آیت کریمہ سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اجماع امت حجت ہے نیز یہ کہ وہ خطا سے محفوظ ہے۔ اس استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے راستے کی مخالفت کرنے پر جہنم اور خذلان کی وعید سنائی ہے اور مومنین کا راستہ مفرد اور مضاف ہے جو ان عقائد و اعمال پر مشتمل ہے جن پر تمام اہل ایمان عمل پیرا ہیں۔ جب تمام اہل ایمان کسی چیز کے وجوب، استحباب، تحریم، کراہت یا جواز پر متفق ہیں تو یہی ان کا راستہ ہے۔ اور جو کوئی اہل ایمان کے کسی چیز پر انعقاد اجماع کے بعد ان کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر گامزن ہے۔ اجماع امت کے حجت ہونے پر یہ آیت کریمہ بھی دلالت کرتی ہے ﴿ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ (آل عمران : 3؍110) ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے پیدا کی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘ اس آیت کریمہ میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اس امت کے اہل ایمان صرف نیکی ہی کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا جب وہ کسی چیز کے وجوب یا استحباب پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ گویا وہ چیز ہے جس کا انھیں حکم دیا گیا۔ پس آیت کریمہ کی نص سے متعین ہو گیا کہ وہ معاملہ معروف ہی ہو گا اور معروف کے علاوہ جو کچھ ہے وہ منکر ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی چیز سے منع کرنے پر متفق ہو جاتے ہیں تو وہ انھی باتوں میں سے ہے جن سے انھیں روکا گیا ہے، پس وہ یقینا منکر ہے۔ اسی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَؔ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰؔكُمْ اُمَّؔةً وَّسَطًا لِّتَكُ٘وْ٘نُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ ﴾ (البقرۃ : 2؍143) ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ’’امت وسط‘‘ بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اس امت کو معتدل اور بہترین امت بنایا ہے تاکہ وہ ہر چیز کے بارے میں لوگوں پر گواہ بنیں۔ جب وہ کسی حکم کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے یا اس نے اس کو مباح قرار دیا ہے۔ تو ان کی شہادت معتبر اور معصوم ہے کیونکہ وہ جس چیز کی شہادت دے رہے تھے اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی شہادت میں عادل ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ اپنی شہادت میں عادل اور اس کا علم رکھنے والے نہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی اس کی نظیر ہے ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ﴾ (النساء : 4؍59) ’’اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو جائے تو معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘ اس آیت کریمہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس معاملہ میں انکے درمیان کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے، اسے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے پر مامور نہیں ہیں۔ ایسا معاملہ قرآن اور سنت کے موافق ہی ہوگا، مخالف نہیں ہوسکتا۔ ان دلائل سے قطعی طور پر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اس امت کا اجماع حجت ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی گمراہی کی برائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 117 - 121 #
{إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا (117) لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (118) وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا (119) يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (120) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا (121)}.
نہیں پکارتے وہ اس (اللہ) کے سوا مگر عورتوں کو اور نہیں پکارتے وہ مگر شیطان سرکش کو(117) لعنت کی اس پر اللہ نےاور کہا اس (شیطان) نے ، البتہ ضرور لوں گا میں تیرے بندوں میں سے ایک حصہ مقرر(118) اور ضرور گمراہ کروں گا میں ان کو اور امیدیں دلاؤں گا ان کو اور ضرور حکم دوں گا میں ان کو پس چیریں گے وہ کان چوپایوں کے اور یقینا حکم دوں گا میں ان کو پس ضرور تبدیل کر لیں گے وہ بناوٹ اللہ کی اور جو بناتا ہے شیطان کو دوست سوائے اللہ کے، پس تحقیق خسارہ اٹھایا اس نے خسارہ ظاہر(119) وعدہ دیتا ہے وہ (شیطان) ان کو اور امیدیں دلاتا ہے انھیں اور نہیں وعدہ دیتا انھیں شیطان مگر دھوکے کا(120) یہ لوگ ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور نہیں پائیں گے وہ اس (جہنم) سے کوئی بھاگنے کی جگہ(121)
#
{117 ـ 118} أي: ما يدعو هؤلاء المشركون مِن دون الله إلا إناثاً؛ أي: أوثاناً وأصناماً مسمَّيات بأسماء الإناث؛ كالعزَّى ومناة ونحوهما. ومن المعلوم أنَّ الاسم دالٌّ على المسمَّى؛ فإذا كانت أسماؤها أسماءً مؤنَّثة ناقصةً؛ دلَّ ذلك على نقص المسمَّيات بتلك الأسماء وفقدها لصفات الكمال؛ كما أخبر الله تعالى في غير موضع من كتابه أنَّها لا تخلُقُ ولا ترزُقُ ولا تدفَعُ عن عابديها بل ولا عن نفسها نفعاً ولا ضرًّا ولا تنصُرُ أنفسها ممَّن يريدُها بسوءٍ، وليس لها أسماعٌ ولا أبصارٌ ولا أفئدةٌ؛ فكيف يُعْبَدُ من هذا وصفه ويترك الإخلاص لمن له الأسماءُ الحسنى، والصِّفات العليا، والحمدُ والكمال والمجدُ والجلال والعزُّ والجمال والرحمة والبرُّ والإحسان والانفراد بالخَلْق والتدبير والحكمة العظيمة في الأمر والتقدير؛ هل هذا إلا من أقبح القبيح الدالِّ على نقص صاحبه وبلوغه من الخِسَّة والدناءة أدنى ما يتصوَّره متصورٌ أو يصفه واصفٌ؟! ومع هذا فعبادتهم إنما صورتُها فقط لهذه الأوثان الناقصة، وبالحقيقة ما عبدوا غير الشيطان الذي هو عدوُّهم، الذي يريد إهلاكهم، ويسعى في ذلك بكلِّ ما يقدر عليه، الذي هو في غاية البعد من الله، لعنه الله وأبعده عن رحمتِهِ؛ فكما أبعده الله من رحمتِهِ، يسعى في إبعاد العباد عن رحمة الله، إنما يدعو حزبه ليكونوا من أصحاب السعير. ولهذا أخبر الله عن سعيه في إغواء العباد، وتزيين الشَّرِّ لهم، والفساد، وأنَّه قال لربِّه مقسماً: {لأتَّخِذَنَّ من عبادِكَ نصيباً مفروضاً}؛ أي: مقدَّراً، علم اللعين أنه لا يقدر على إغواء جميع عباد الله، وأن عباد الله المخلَصين ليس له عليهم سلطانٌ، وإنَّما سلطانُهُ على من تولاَّه وآثر طاعته على طاعة مولاه. وأقسم في موضع آخر لَيُغْوِيَنَّهم أجمعين؛ إلاَّ عبادَكَ منهم المُخْلَصين؛ فهذا الذي ظنه الخبيث، وجزم به، أخبر الله تعالى بوقوعه بقوله: {ولقد صدَّقَ عليهم إبليسُ ظنَّه فاتَّبعوه إلاَّ فريقاً من المؤمنين}.
[118,117] یعنی یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہیں سب مؤنث ہیں یعنی لوگ جن بتوں کو پوجتے ہیں وہ عورتوں جیسے ناموں سے موسوم ہیں۔ مثلاً ’’عزی‘‘ اور ’’مناۃ‘‘ وغیرہ۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اسم اپنے مسمی پر دلالت کرتا ہے اور جب ان بتوں کے نام مؤنث اور ناقص ہیں تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان اسماء کے مسمیات بھی ناقص اور صفات کمال سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ بت کوئی چیز تخلیق کر سکتے ہیں نہ رزق عطا کر سکتے ہیں نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی ذات تک کے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ اور اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ اپنی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان میں سماعت ہے نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت۔ جس کے یہ اوصاف ہوں وہ کیسے عبادت کا مستحق ہو سکتا ہے اور اس ہستی کے لیے اخلاص کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے جو اسمائے حسنی، صفات علیا، حمد و کمال، مجد و جلال، غلبہ و جمال، رحمت و احسان، تخلیق و تدبیر میں منفرد اور امر و تقدیر میں عظیم حکمت کی مالک ہے۔ کیا یہ بدترین قباحت نہیں ہے جو ان ہستیوں کے نقص پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی پرستش خساست و دناء ت کے اس انتہائی نچلے درجے پر پہنچی ہوئی ہے جس کا کوئی تصورکر سکتا ہے یا کوئی بیان کرنے والا بیان کر سکتا ہے؟ بایں ہمہ یہ لوگ جو ان ناقص بتوں کی عبادت کرتے ہیں محض ان کی شکل و صورت کی عبادت کرتے ہیں ورنہ درحقیقت وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کا دشمن ہے اور وہ ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ملعون قرار دے کر اپنی رحمت سے بہت دور کر دیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی رحمت سے دور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر : 35؍6) ’’وہ تو اپنے پیروکاروں کے گروہ کو محض اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گمراہ کرنے، شر اور فساد کو ان کے لیے مزین کرنے کی شیطانی کوششوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ شیطان نے قسم کھا کر اپنے رب سے کہا ہے ﴿ لَاَتَّؔخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا﴾ ’’میں ضرور لوں گا تیرے بندوں سے حصہ مقررہ‘‘ یعنی مقدر کیا ہوا حصہ۔ شیطان لعین کو علم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر اس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس کا بس تو صرف اسی پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہے ایک اور مقام پر وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ ضرور ان کو گمراہ کرے گا ﴿ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ۰۰ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ (ص : 38؍82۔83) ’’میں ضرور ان سب کو بہکاتا رہوں گا سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔‘‘ یہ شیطان خبیث کا خیال تھا جس کو اس نے نہایت جزم کے ساتھ ظاہر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں اس کے وقوع کی خبر دی ہے ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہٗ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُوْمِنِیْنَ﴾ (سبا : 34؍20) ’’اور ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا قول سچ کر دکھایا کہ اہل ایمان کے ایک گروہ کے سوا سب نے اس کی پیروی کی۔‘‘
#
{119} وهذا النصيب المفروض الذي أقسم لله أنهم يتخذهم ؛ ذَكَرَ ما يريدُ بهم، وما يقصدُه لهم بقوله: {ولأضِلَّنَّهم}؛ أي: عن الصراط المستقيم ضلالاً في العلم وضلالاً في العمل، {ولأمنِّينَّهم}؛ أي: مع الإضلال لأمنِّينَّهم أن ينالوا ما ناله المهتدونَ، وهذا هو الغرور بعينه، فلم يقتصِرْ على مجرَّد إضلالهم، حتى زيَّن لهم ما هم فيه من الضلال، وهذا زيادةُ شرٍّ إلى شرِّهم، حيث عملوا أعمال أهل النار الموجبة للعقوبة، وحسِبوا أنَّها موجبةٌ للجنة. واعتَبِرْ ذلك باليهود والنَّصارى ونحوهم؛ فإنهم كما حكى الله عنهم: {وقالوا لَن يَدْخُلَ الجنَّة إلاَّ مَن كان هوداً أو نصارى تلك أمانِيُّهم}، {وكذلك زينَّا لكلِّ أمةٍ عَمَلَهم}، {قل هل ننبِّئُكم بالأخسرينَ أعمالاً الذين ضلَّ سعيُهم في الحياة الدُّنيا وهم يحسَبون أنَّهم يحسنون صنعاً ... } الآية، وقال تعالى عن المنافقين: إنهم يقولون يوم القيامة للمؤمنين: {ألم نَكُن معكُم قالوا بلى ولكنَّكم فتنتُم أنفسَكم وتربَّصْتم وارتَبْتُم وغرَّتكم الأماني حتى جاء أمرُ الله وغرَّكم بالله الغَرورُ}. وقوله: {ولآمُرَنَّهم فَلَيُبَتِّكُنَّ آذان الأنعام}؛ أي: بتقطيع آذانها، وذلك كالبحيرة والسائبة والوصيلة والحام، فنبَّه ببعض ذلك على جمعيه، وهذا نوعٌ من الإضلال يقتضي تحريم ما أحلَّ الله، أو تحليل ما حرَّم الله، ويلتحق بذلك من الاعتقادات الفاسدة والأحكام الجائرة ما هو من أكبرِ الإضلال. {ولآمُرَنَّهم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ الله}: وهذا يتناول [تغيير] الخِلقة الظاهرة بالوشم والوَشْر والنَّمْص والتفلُّج للحسن، ونحو ذلك مما أغواهم به الشيطان، فغيَّروا خِلقة الرحمن، وذلك يتضمَّن التسخُّط من خلقتِهِ، والقدح في حكمتِهِ واعتقاد أنَّ ما يصنعونَه بأيديهم أحسنَ من خلقة الرحمن، وعدم الرِّضا بتقديرِهِ وتدبيرِهِ، ويتناول أيضاً تغيير الخِلقة الباطنةِ؛ فإن الله تعالى خَلَقَ عباده حنفاء، مفطورين على قَبول الحقِّ وإيثارِهِ، فجاءتهم الشياطين، فاجتالتْهم عن هذا الخَلْق الجميل، وزيَّنت لهم الشرَّ والشرك والكفر والفسوق والعصيان؛ فإنَّ كلَّ مولود يولد على الفطرة، ولكن أبواه يهوِّدانِه أو ينصِّرانِه أو يمجِّسانِه ونحو ذلك مما يغيِّرون به، ما فَطَرَ الله عليه العباد من توحيدِهِ وحبِّه ومعرفته، فافترستهم الشياطينُ في هذا الموضع افتراس السبع والذئاب للغنم المنفردةِ، لولا لطفُ الله وكرمُهُ بعباده المخلصينَ؛ لجرى عليهم ما جرى على هؤلاء المفتونين، وهذا الذي جرى عليهم من تولِّيهم عن ربِّهم وفاطرهم وتولِّيهم لعدوِّهم المريد لهم الشرَّ من كل وجه، فخسروا الدُّنيا والآخرة، ورجعوا بالخيبة والصفقةِ الخاسرة، ولهذا قال: {ومن يتَّخِذِ الشيطان وليًّا من دون الله فقد خَسِرَ خسراناً مبيناً}، وأيُّ خسارٍ أبين وأعظم ممن خَسِرَ دينه ودُنياه وأوبقته معاصيه وخطاياه فحصل له الشقاءُ الأبديُّ وفاته النعيم السرمديُّ؟! كما أن من تولَّى مولاه، وآثر رضاه، رَبِحَ كلَّ الرِّبح، وأفلح كلَّ الفلاح، وفاز بسعادةِ الدَّارين، وأصبح قرير العين. فلا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت، اللهم! تولَّنا فيمن تولَّيت، وعافنا فيمن عافيت.
[119] یہی وہ مقررہ حصہ ہے جس کے بارے میں شیطان نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ان سے ضرور حاصل کر کے رہے گا۔ اس نے بتا دیا ہے کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے اور ان کے بارے میں اس کے کیا مقاصد ہیں ﴿ وَّلَاُضِلَّنَّهُمْ۠ ﴾ ’’اور میں انھیں گمراہ کرتا رہوں گا۔‘‘ یعنی میں انھیں صراط مستقیم سے بھٹکاؤں گا اور علم و عمل میں انھیں گمراہ کر کے رہوں گا۔ ﴿ وَلَاُمَنِّیَنَّهُمْ ﴾ ’’اور انھیں امیدیں دلاتا رہوں گا۔‘‘ یعنی میں ان کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں بھی دلاتا رہوں گا کہ انھیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جو ہدایت یافتہ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور یہ عین فریب ہے۔ پس اس نے ان کو مجرد گمراہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے اس گمراہی کو ان کے سامنے آراستہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوئے اور یہ ان کی برائی میں مزید اضافہ ہے کہ انھوں نے اہل جہنم کے اعمال کیے جو عذاب کے موجب ہیں اور سمجھتے رہے کہ یہ اعمال انھیں جنت میں لے جائیں گے۔ ذرا یہود و نصاریٰ وغیرہ کا حال دیکھو، ان کا وہی رویہ ہے جس کی بابت اللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا۔ ﴿ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ﴾ (البقرۃ : 2؍111) ’’کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔‘‘ فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُ٘لِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ﴾ (الانعام : 6؍108) ’’اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا ہے۔‘‘ اور فرمایا ﴿ قُ٘لْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْ٘سَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ۰۰ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾ (الکہف : 18؍103۔104) ’’کہہ دو کہ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے خسارے میں کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے کہ قیامت کے روز وہ اہل ایمان سے کہیں گے ﴿ اَلَمْ نَؔكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَ٘رَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّؔكُمْ بِاللّٰهِ الْ٘غَرُوْرُ ﴾ (الحدید : 57؍14) ’’کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے؟ اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہیں مگر تم نے اپنے تئیں فتنے میں ڈال لیا تھا اور ہمارے بارے میں حوادث زمانہ کے منتظر تھے اور تم شک میں مبتلا ہوئے۔ تمھیں آرزوؤں نے فریب میں مبتلا کیے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا۔ اور دھوکے باز (شیطان) تمھیں اللہ کے بارے میں فریب دیتا رہا۔‘‘ ﴿ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُ٘نَّ۠ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’اور یہ حکم دیتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں۔‘‘ یعنی میں ان کو مویشیوں کے کان کاٹنے کا حکم دوں گا (تاکہ علامت بن جائے کہ یہ غیر اللہ کے نام پر چھوڑا ہوا جانور ہے) مثلاً ’’بَحِیرَہ‘‘ ’’سَائِبَہ‘‘ ’’وَصِیلَہ‘‘ اور ’’حَام‘‘ وغیرہ پس ایک کی طرف اشارہ کر کے تمام مراد لیے ہیں۔ گمراہی کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرانے کی مقتضی ہے اور اسی میں فاسد اعتقادات اور ظلم و جور پر مبنی احکام بھی شامل ہیں جو بڑی گمراہیوں میں سے ہیں۔ ﴿ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ۠ خَلْ٘قَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور میں انھیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں گے‘‘ اس کا اطلاق ظاہری تخلیق پر ہوتا ہے یعنی گودنا، دانتوں کو باریک کرنا، چہرے سے بال اکھیڑنا اور دانتوں کے درمیان فاصلہ بنانا ان تمام چیزوں کے ذریعے سے شیطان نے لوگوں کو گمراہ کیا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی یہ حرکتیں اس بات کو متضمن ہیں کہ یہ لوگ اللہ کی پیدائش پر ناراض اور اس کی حکمت پر نکتہ چین ہیں۔ نیز ان کا اعتقاد ہے کہ وہ کام جو وہ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے ہیں وہ اللہ کی تخلیق سے بہتر ہے۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور تدبیر پر بھی راضی نہیں ہیں۔ شیطان کا یہ کام باطنی تخلیق کی تبدیلی کو بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حنیف بنا کر اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، ان میں قبول حق اور حق کو ترجیح دینے والوں کی فطرت تخلیق کی۔ شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو اس خوبصورت تخلیق سے ہٹا دیا اور شر، شرک، کفر، فسق اور معصیت کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا، اس لیے کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی محبت اور اس کی معرفت، وہ اس فطرت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اس مقام پر شیاطین بندوں کا اسی طرح شکار کرتے ہیں جس طرح درندے اور بھیڑیئے ریوڑ سے الگ ہونے والی بھیڑ بکریوں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو ان فتنہ زدہ لوگوں کا ہوا ہے۔ پس وہ بھی دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑ جاتے اور انھیں ناکامی اور گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑتا۔ ان فتنہ زدہ لوگوں کا یہ حشر اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اپنے رب اور اپنے پیدا کرنے والے سے منہ موڑ کر ایسے دشمن کو اپنا سرپرست بنا لیا جو ہر لحاظ سے ان سے برائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔتَّؔخِذِ الشَّ٘یْطٰ٘نَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُ٘سْرَانًا مُّؔبِیْنًا﴾ ’’جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔‘‘ جو دین و دنیا کے خسارے میں پڑ جائے اور جسے اس کے گناہ اور نافرمانیاں ہلاک کر ڈالیں اس سے زیادہ واضح اور بڑا خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ وہ ہمیشہ رہنے والی نعمت سے محروم ہو کر ابدی بدبختی میں مبتلا ہو گئے۔ اسی طرح جو کوئی اپنے آقا اور مولا ہی کو اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی رضا کو ترجیح دیتا ہے، وہ ہر لحاظ سے فائدے میں رہتا ہے، ہر طرح سے فلاح پاتا ہے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اے اللہ! جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز سے تو محروم کر دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا۔ اے اللہ! جن لوگوں کی تو نے سرپرستی فرمائی ان لوگوں کی معیت میں ہماری بھی سرپرستی فرما۔ اور جن لوگوں کو تو نے عافیت سے نوازا ان کے ساتھ ہمیں بھی عافیت سے نواز۔
#
{120} ثم قال: {يَعِدُهم ويمنِّيهم}؛ أي: يعد الشيطانُ من يسعى في إضلالهم والوعد يشمل حتى الوعيد؛ كما قال تعالى: {الشيطان يَعِدُكم الفقْرَ}؛ فإنه يعدهم إذا أنفقوا في سبيل الله؛ افتقروا، ويخوِّفهم إذا جاهدوا بالقتل وغيره؛ كما قال تعالى: {إنَّما ذلكم الشيطان يخوِّفُ أولياءَه ... } الآية، ويخوِّفهم عند إيثار مرضاة الله بكلِّ ما يمكن وما لا يمكنُ مما يدخله في عقولهم حتى يكسلوا عن فعل الخير، وكذلك يمنِّيهم الأماني الباطلة التي هي عند التحقيق كالسراب الذي لا حقيقة له، ولهذا قال: {وما يَعِدُهم الشيطان إلا غُروراً}.
[120] ﴿ یَعِدُهُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ ﴾ ’’وہ ان کو وعدے دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے۔‘‘ یعنی شیطان ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو امیدیں دلاتا ہے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ یہاں وعدہ میں وعید بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلشَّ٘یْطٰ٘نُ یَعِدُؔكُمُ الْ٘فَقْ٘رَ ﴾(البقرۃ : 2؍268) ’’شیطان تمھیں محتاجی سے ڈراتا ہے۔‘‘ وہ بندوں کو یہ وعید سناتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے راستے میں خرچ کریں گے تو محتاج اور تنگ دست ہو جائیں گے۔ وہ انھیں خوف دلاتا ہے کہ انھوں نے اللہ کے راستے میں جہاد میں حصہ لیا تو وہ قتل ہو جائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ ﴾ (آل عمران : 3؍175) ’’یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے خوف دلاتا ہے۔‘‘ جب بندے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ انھیں ہر ممکن طریقے سے جو اس کی عقل میں آ سکے، ڈراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھلائی کا کام کرنے میں سست پڑ جاتے ہیں۔۔۔ اسی طرح شیطان انھیں جھوٹی اور باطل تمناؤں میں مبتلا کرتا ہے اور تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تمنائیں تو محض سراب تھیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
#
{121} {أولئك مأواهم جهنَّمُ}؛ أي: من انقاد للشيطانِ وأعرض عن ربِّه وصار من أتباع إبليس وحزبه مستقرهم النار، {ولا يجدون عنها محيصاً}؛ أي: مَخْلصاً ولا ملجأ، بل هم خالدون فيها أبد الآباد.
[121] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ﴾ ’’ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ یعنی جس نے شیطان کی اطاعت کی اور اپنے رب سے روگردانی کی وہ شیطان کے پیروکاروں اور اس کے گروہ میں شامل ہو گیا، ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿ وَلَا یَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِیْصًا ﴾ ’’اور وہاں سے بھاگنے اور گلوخلاصی کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔‘‘ بلکہ وہ جہنم میں ابد الآباد تک رہیں گے۔
بدبخت لوگوں یعنی اولیائے شیطان کا انجام کار بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوش بخت لوگوں یعنی اولیائے رحمان کے انجام کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا:
آیت: 122 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا (122)}.
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک عنقریب ہم داخل کریں گے ان کو ایسے باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے ان میں ابد تک، وعدہ ہے اللہ کا سچااور کون زیادہ سچا ہے اللہ سے قول (و قرار) میں؟(122)
#
{122} أي: {آمنوا} بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقَدَر خيرِه وشرِّه على الوجه الذي أمروا به علماً وتصديقاً وإقراراً. {وعملوا الصالحات}: الناشئة عن الإيمان، وهذا يشمل سائر المأمورات من واجبٍ ومستحبٍّ؛ الذي على القلب، والذي على اللسان، والذي على بقيَّة الجوارح؛ كل له من الثواب المرتَّب على ذلك بحسب حاله ومقامه وتكميله للإيمان والعمل الصالح، ويَفُوتُه ما رُتِّب على ذلك بحسب ما أخلَّ به من الإيمان والعمل، وذلك بحسب ما علم من حكمة الله ورحمته، وكذلك وعده الصادق الذي يُعرَف من تتبُّع كتاب الله وسنة رسوله، ولهذا ذكر الثواب المرتَّب على ذلك بقوله: {سَنُدْخِلُهم جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: فيها ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر؛ من أنواع المآكل والمشارب اللذيذة، والمناظر العجيبة، والأزواج الحسنة، والقصور والغرف المزخرفة، والأشجار المتدلِّية، والفواكه المستغربة، والأصوات الشجيَّة، والنعم السابغة، وتزاور الإخوان وتذكُّرهم ما كان منهم في رياض الجنان، وأعلى من ذلك [كُلِّه] وأجلُّ؛ رضوان الله عليهم وتمتُّع الأرواح بقربه والعيون برؤيته والأسماع بخطابه الذي يُنسيهم كلَّ نعيم وسرور، ولولا الثباتُ من الله لهم؛ لطاروا وماتوا من الفرح والحبور؛ فلله ما أحلى ذلك النعيم! وما أعلى ما أنالهم الربُّ الكريم! وما حصل لهم من كل خير وبهجة لا يصفه الواصفون! وتمام ذلك وكماله الخلودُ الدائم في تلك المنازل العاليات. ولهذا قال: {خالدين فيها أبداً وَعْدَ الله حقًّا ومن أصدق من الله قيلاً}: فصدق الله العظيم الذي بلغ قوله وحديثه في الصدق أعلى ما يكون، ولهذا لما كان كلامه صدقاً، وخبره صدقاً ؛ كان ما يدلُّ عليه مطابقةً وتضمناً وملازمةً؛ كل ذلك مرادٌ من كلامه، وكذلك كلام رسوله - صلى الله عليه وسلم -؛ لكونه لا يخبر إلاَّ بأمرِهِ ولا ينطق إلاَّ عن وحيه.
[122] یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، روز آخرت اور اچھی بری تقدیر پر علم، تصدیق اور اقرار کے ساتھ اس طرح ایمان لائیں جس طرح ان کو حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور نیک کام کرتے رہے۔‘‘ یعنی وہ اعمال جو ایمان سے جنم لیتے ہیں اور یہ تمام مامورات کو شامل ہے، چاہے وہ فرض ہوں یا مستحب، ان کا تعلق اعمال قلب سے ہو، اعمال لسان سے ہو اور بقیہ اعمال جوارح سے۔ ہر شخص کے لیے اس کے حال و مقام، اس کے ایمان اور عمل صالح کی تکمیل کے مطابق ثواب مرتب ہوتا ہے۔ ایمان و عمل میں جو کوتاہی واقع ہوتی ہے اس پر مترتب ہونے والا ثواب اس کی تلافی کر دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولeکے تتبع سے معلوم کیا جاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس پر مترتب ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’ہم انھیں ان باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں‘‘ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کس بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ جنت میں مختلف انواع کے ماکولات، لذیذ قسم کے مشروبات، دلکش نظارے، حسین و جمیل بیویاں ، خوبصورت محل، آراستہ کیے ہوئے بالا خانے، پھل سے لدے ہوئے درخت، عجیب و غریب میوے، مسحور کن آوازیں، وافر نعمتیں، دوستوں کی مجلسیں اور جنت کے باغات میں اپنی یادوں کے تذکرے اور سب کچھ ہو گا۔ ان سب سے اعلیٰ اور جلیل ترین نعمت جو جنت میں عطا ہو گی وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا، روح کا اس کے قرب سے فیض یاب ہونا، آنکھوں سے اس کا دیدار کرنا اور کانوں سے اس کے خطاب کو سننا۔ یہ نعمت بندے کو ہر نعمت و مسرت فراموش کرا دے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثبات و استقامت عطا نہ کی گئی ہو تو بندے خوشی سے اڑ جائیں اور فرحت و مسرت سے مر جائیں۔ اللہ اللہ! کتنی شیریں ہو گی یہ نعمت اورکتنے بلند مرتبہ ہوں گے وہ انعامات جو رب کریم ان کو عطا کرے گا اور وہ بھلائی اور مسرت جو انھیں حاصل ہو گی۔ کوئی شخص ان کا وصف بیان نہیں کر سکتا اور ان تمام نعمتوں کا اتمام اور ان کی تکمیل یہ ہے کہ وہ ان عالی شان منازل میں ہمیشہ رہیں گے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا١ؕ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا ﴾ ’’اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا ہے‘‘ اللہ عظیم نے سچ فرمایا ہے، اس کا قول اور اس کی بات سچائی کے بلند ترین مرتبے پر پہنچی ہوئی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام سچا ہے اور اس کی خبر سچی ہے، اس لیے اس کا کلام جس چیز پر دلالت کرتا ہے وہ بھی اس کے مطابق اور سچائی کو متضمن ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کلام سے مراد ہے۔ اسی طرح رسول اللہeکا کلام سچا ہے اور سچائی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رسول اللہeصرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے خبر دیتے ہیں اور آپ صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے سے ہی کلام کرتے ہیں۔
آیت: 123 - 124 #
{لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (123) وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا (124)}.
نہیں ہے (مدار) تمھاری خواہشات پر اور نہ خواہشات پر اہل کتاب کی(بلکہ) جو کوئی عمل کرے گا برا، بدلہ دیا جائے گا ساتھ اس کے اور نہیں پائے گا وہ سوائے اللہ کے کوئی دوست اور نہ کوئی مددگار(123) اور جو کوئی عمل کرے گا نیک مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو، پس یہ لوگ داخل ہوں گے جنت میں اور نہ ظلم کیے جائیں گے وہ تل برابر (بھی) (124)
#
{123} أي: {ليس} الأمر والنجاة والتزكية {بأمانيِّكم ولا أمانيِّ أهل الكتاب}، والأمانيُّ أحاديث النفس المجرَّدة عن العمل المقترِن بها دعوى مجرَّدة، لو عُورضت بمثلها؛ لكانت من جنسها، وهذا عامٌّ في كلِّ أمر؛ فكيف بأمر الإيمان والسعادة الأبديَّة؛ فإنَّ أماني أهل الكتاب قد أخبر الله بها أنهم {قالوا لن يدخُلَ الجنَّة إلاَّ من كان هوداً أو نصارى تلك أمانيُّهم}، وغيرهم ممَّن ليس ينتسب لكتاب ولا رسول من باب أولى وأحرى، وكذلك أدخل الله في ذلك من ينتسب إلى الإسلام لكمال العدل والإنصاف؛ فإنَّ مجرد الانتساب إلى أيِّ دينٍ كان لا يفيد شيئاً إن لم يأت الإنسان ببرهانٍ على صحة دعواه؛ فالأعمال تُصَدِّقُ الدعوى أو تكذِّبها. ولهذا قال تعالى: {من يَعْمَلْ سوءاً يُجْزَ به}: وهذا شامل لجميع العاملين؛ لأنَّ السوء شاملٌ لأيِّ ذنب كان من صغائر الذُّنوب وكبائِرِها، وشاملٌ أيضاً لكل جزاء؛ قليل أو كثير، دنيويٍّ أو أخرويٍّ، والناس في هذا المقام درجاتٌ لا يعلمها إلا الله؛ فمستقلٌّ ومستكثرٌ؛ فمن كان عمله كلُّه سوءاً، وذلك لا يكون إلا كافراً؛ فإذا مات من دون توبةٍ؛ جوزِيَ بالخلود في العذاب الأليم، ومن كان عمله صالحاً وهو مستقيمٌ في غالب أحواله، وإنَّما يصدُر منه أحياناً بعض الذُّنوب الصغار فما يصيبه من الهمِّ والغمِّ والأذى وبعض الآلام في بدنه، أو قلبه، أو حبيبه، أو ماله ونحو ذلك؛ فإنها مكفِّرات للذُّنوب؛ وهي مما يجزى به على عمله، قيضها الله لطفاً بعباده. وبين هذين الحالين مراتبُ كثيرة، وهذا الجزاء على عمل السوء العام مخصوصٌ في غير التائبين؛ فإنَّ التائب من الذنب كمن لا ذنبَ له؛ كما دلَّت على ذلك النصوص. وقوله: {ولا يَجِدْ له من دون الله وليًّا ولا نصيراً}: لإزالة بعض ما لعلَّه يتوهم أن من استحقَّ المجازاة على عمله قد يكون له وليٌّ أو ناصر أو شافعٌ يدفعُ عنه ما استحقَّه، فأخبر تعالى بانتفاء ذلك، فليس له وليٌّ يحصِّل له المطلوبَ ولا نصيرٌ يدفع عنه المرهوبَ؛ إلاَّ ربَّه ومليكه.
[123] یعنی معاملہ، نجات اور تزکیہ تمھاری اور اہل کتاب کی خواہشات پر مبنی نہیں۔ (اَلْاَمَانِيِّ) سے مراد ایسی خواہشات اور تمنائیں ہیں جو عمل سے عاری اور محض دعویٰ ہوں۔ اگر ان تمناؤں کا مقابلہ ان جیسی دیگر تمناؤں سے کیا جائے تو یہ ان کی جنس میں شمار ہوں گی۔ ہر امر میں تمنا اور آرزو کا یہی معاملہ ہے۔ تب ایمان اور ابدی سعادت محض خواہشات اور آرزوؤں سے کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اہل کتاب کی جھوٹی خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ کر چکا ہے، وہ کہا کرتے تھے۔ ﴿ وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ﴾ (البقرۃ : 2؍111) ’’یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔‘‘ یہ تو تھے اہل کتاب، اور دیگر لوگ جو کسی کتاب اور کسی رسول کی طرف منسوب نہیں۔ ان کی آرزوئیں تو بدرجہ اولیٰ باطل ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کامل عدل و انصاف کی بنا پر ان لوگوں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا ہے جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں۔ اگر انسان اپنے دعویٰ کی صحت پر دلیل و برہان فراہم نہ کرے تو کسی بھی دین کی طرف مجرد انتساب کسی کام نہیں آتا۔ اعمال دعوے کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًؔا یُّجْزَ بِهٖ ﴾ ’’جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ اصول تمام عاملین کو شامل ہے کیونکہ (سوء) ’’برائی‘‘ کا اطلاق چھوٹے یا بڑے ہر قسم کے گناہ پر ہوتا ہے اسی طرح ’’جزا‘‘ میں تھوڑی یا زیادہ، دنیاوی یا اخروی ہر قسم کی جزا شامل ہے۔ اس مقام پر لوگ بے شمار درجات میں منقسم ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت کم ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت زیادہ ہوں گے۔ پس جن کے اعمال سارے کے سارے برائی پر مشتمل ہوں گے اور ایسے لوگ صرف کافر ہی ہوں گے جب ان میں سے کوئی توبہ کیے بغیر مر جائے تو اس کی جزا یہ ہو گی کہ وہ دردناک عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور جس کے اعمال نیک ہوں گے اور وہ اپنے غالب احوال میں درست طرز عمل اپنانے والا ہو گا، البتہ کبھی کبھار اس سے چھوٹے موٹے گناہ صادر ہو جاتے رہے ہوں گے تو اس کو اپنے بدن، قلب، اپنے محبوب شخص یا مال و منال میں جو رنج و غم اور اذیت و الم پہنچتے ہیں تو یہ تکالیف بھی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ان دو حالتوں کے درمیان بہت سے مراتب ہیں۔ عام برے عمل کی یہ جزا صرف ان لوگوں سے مخصوص ہے جو توبہ نہیں کرتے، کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ جیسا کہ نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَلَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ﴾ ’’اور نہیں پائے گا وہ اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار‘‘ یہ اس وہم کے ازالہ کے لیے ہے کہ شاید وہ شخص جو اپنے (برے) عمل پر بدلے کا مستحق ہے، یہ زعم رکھتا ہو کہ کبھی اس کا کوئی حمایتی یا مددگار یا کوئی سفارشی اس سے عذاب کو دور کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی نفی کی ہے، اس کا کوئی حمایتی نہیں ہو گا جو اس کے لیے اس کا مطلوب حاصل کر سکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا جو اس کا ڈر دور کر سکے سوائے اس کے رب اور مالک کے۔
#
{124} {ومن يعملْ من الصالحاتِ}: دخل في ذلك سائر الأعمال القلبيَّة والبدنيَّة، ودخل أيضاً كلُّ عامل؛ من إنس أو جنٍّ، صغير أو كبير، ذكر أو أنثى. ولهذا قال: {من ذكرٍ أو أنثى وهو مؤمنٌ}: وهذا شرطٌ لجميع الأعمال، لا تكون صالحةً ولا تُقبل ولا يترتَّب عليها الثوابُ ولا يندفع بها العقابُ إلاَّ بالإيمان؛ فالأعمال بدون الإيمان كأغصان شجرةٍ قُطع أصلُها، وكبناءٍ بني على موج الماء؛ فالإيمان هو الأصل والأساس والقاعدة التي يُبْنَى عليه كل شيء، وهذا القيد ينبغي التفطُّن له في كلِّ عمل مطلقٍ ؛ فإنه مقيَّدٌ به. {فأولئك}؛ أي: الذين جمعوا بين الإيمان والعمل الصالح، {يدخُلون الجنةَ}: المشتملة على ما تشتهي الأنفس وتلذُّ الأعين، {ولا يُظلمون نقيراً}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيراً مما عمِلوه من الخير، بل يجدونَه كاملاً موفَّراً مضاعفاً أضعافاً كثيرة.
[124] ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’جونیک اعمال کرے‘‘ اس میں تمام اعمال قلب اور اعمال بدن شامل ہیں۔ اور عمل کرنے والوں میں جن و انس، چھوٹا بڑا اور مرد و عورت سب داخل ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ ’’مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو‘‘ ایمان تمام اعمال کی قبولیت کے لیے اولین شرط ہے۔ کوئی عمل اس وقت تک نیک ہو سکتا ہے نہ قبول اور نہ اس پر ثواب مترتب اور نہ وہ کسی عذاب سے بچا سکتا ہے جب تک کہ عمل کرنے والا مومن نہ ہو۔ ایمان کے بغیر اعمال اس درخت کی شاخوں کی مانند ہیں جس کی جڑ کاٹ دی گئی ہو اور اس عمارت کی مانند ہیں جسے پانی کی موج پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ایمان درحقیقت وہ اصل، اساس اور قاعدہ ہے جس پر ہر چیز کی بنیاد ہے اس قید کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ہر عمل جو مطلقا بیان کیا گیا ہو وہ ایمان کی قید سے مقید ہے۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’تو ایسے لوگ‘‘ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں ﴿ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ ﴾ ’’جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ ایسی جنت میں داخل ہوں گے جو ان نعمتوں پر مشتمل ہو گی جنھیں نفس چاہتے ہیں اور آنکھیں جن سے لذت حاصل کرتی ہیں ﴿ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا ﴾ ’’اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔‘‘ ان کے اعمال خیر میں ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہو گی۔ بلکہ وہ ان اعمال کا پورا پورا، وافر اور کئی گنا اجر پائیں گے۔
آیت: 125 #
{وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا (125)}.
اور کون زیادہ اچھا ہے دین میں اس شخص سے جس نے جھکا دیا، اپنا چہرہ اللہ کے لیےاور وہ نیکی کرنے والا (بھی) ہو اور پیروی کرے وہ ملت ابراہیم کی جو صرف حق کا پرستار تھا۔ اور بنا لیا اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست(125)
#
{125} أي: لا أحد أحسنُ من دين مَن جمع بين الإخلاص للمعبود، وهو إسلامُ الوجه لله الدالُّ على استسلام القلب، وتوجُّهه وإنابته وإخلاصه وتوجُّه الوجه وسائر الأعضاء لله. {وهو}: مع هذا الإخلاص والاستسلام {محسنٌ}؛ أي: متَّبع لشريعة الله التي أرسل الله بها رسله وأنزل كتبه وجعلها طريقاً لخواصِّ خلقه وأتباعهم، {واتَّبع مِلَّةَ إبراهيم}؛ أي: دينه وشرعه {حنيفاً}؛ أي: مائلاً عن الشرك إلى التوحيد وعن التوجُّه للخلق إلى الإقبال على الخالق، {واتَّخذَ الله إبراهيم خليلاً}: والخُلَّةُ أعلى أنواع المحبة، وهذه المرتبة حصلت للخليلين محمد وإبراهيم عليهما الصلاة والسلام، وأما المحبَّة من الله؛ فهي لعموم المؤمنين، وإنَّما اتَّخذ الله إبراهيم خليلاً؛ لأنَّه وفَّى بما أمر به، وقام بما ابتُلِيَ به، فجعله الله إماماً للناس، واتَّخذه خليلاً، ونوَّه بذكرِهِ في العالمين.
[125] یعنی اس شخص کے دین سے بہتر کسی کا دین نہیں جس نے اخلاص اور اللہ کی طرف تمام اعضاء کی توجہ کو جمع کر لیا ہے۔ یہاں اخلاص سے مراد ہے چہرے کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا جو قلب کے خشوع، اس کی توجہ، اس کی انابت اور اس کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اس اخلاص اور فرماں برداری کے ساتھ ساتھ ﴿ وَهُوَ مُحْسِنٌ ﴾ ’’اور وہ نیکوکار بھی ہے۔‘‘ وہ اس شریعت کا متبع ہو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا، اپنی کتابیں نازل کیں اور اسے اپنے خاص بندوں اور ان کے متبعین کے لیے لائحہ عمل قرار دیا۔ ﴿ وَّاتَّ٘بَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ ﴾ ’’اور ابراہیم(u)کے دین کا پیرو ہے۔‘‘ یعنی اس نے حضرت ابراہیم کے دین اور شریعت کی اتباع کی ﴿ حَنِیْفًا ﴾ ’’یکسو ہوکر‘‘ یعنی شرک کو چھوڑ کر توحید کو اپنایا، مخلوق سے توجہ ہٹا کر خالق کی طرف توجہ کی ﴿وَاتَّؔخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا ﴾ ’’اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا‘‘ (خُلّتْ) محبت کی بلند ترین نوع ہے اور محبت کا یہ اعلیٰ ترین مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دو خلیلوں کو حاصل ہوا ہے۔ یعنی جناب محمد مصطفیٰeاور جناب ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو۔ اور رہی اللہ تعالیٰ کی محبت عامہ تو یہ عام اہل ایمان کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیمuکو خلیل اس لیے بنایا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو پورا کیا اور ہر آزمائش میں پورے اترے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام لوگوں کا امام ٹھہرایا اور اپنا خلیل بنا لیا اور تمام جہانوں میں ان کے ذکر کو بلند کیا۔
آیت: 126 #
{وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطًا (126)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہےاور ہے اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا(126)
#
{126} وهذه الآية الكريمة فيها بيانُ إحاطة الله تعالى بجميع الأشياء، فأخبر أنَّه له {ما في السموات وما في الأرض}؛ أي: الجميع ملكُه وعبيدُه؛ فهم المملوكون وهو المالك المتفرِّد بتدبيرهم، وقد أحاط علمُهُ بجميع المعلومات، وبصرُهُ بجميع المبصَرات وسمعُهُ بجميع المسموعات ونفذتْ مشيئتُه وقدرتُه بجميع الموجودات ووَسِعَتْ رحمتُهُ أهل الأرض والسماوات، وقهر بعزِّه وقهرِهِ كلَّ مخلوقٍ، ودانت له جميعُ الأشياء.
[126] اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس نے خبر دی ہے کہ ﴿ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے (سب اسی کا ہے)۔‘‘ یعنی ہر چیز اس کی ملکیت اور تمام لوگ اس کے غلام ہیں۔ پس تمام لوگ غلام اور وہ اکیلا ان کا مالک اور ان کے تمام معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ اس کے علم نے تمام معلومات، اس کی بصر نے تمام مبصرات اور اس کی سماعت نے تمام مسموعات کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اس کی مشیت اور قدرت تمام موجودات پر نافذ اور اس کی رحمت زمین و آسمان کی تمام مخلوق پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے قہر اور غلبہ کی بنا پر تمام مخلوق پر غالب ہے اور تمام موجودات اس کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔
آیت: 127 #
{وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا (127)}.
اور فتویٰ پوچھتے ہیں آپ سے عورتوں کے بارے میں کہہ دیجیے! اللہ فتویٰ دیتا ہے تمھیں ان کی بابت اور (وہ بھی) جو پڑھا جاتا ہے تم پر کتاب میں، (ان) یتیم عورتوں کے متعلق کہ نہیں دیتے تم ان کو جو مقرر کیا گیا ہے ان کے لیےاور رغبت کرتے ہو تم یہ کہ نکاح کرو ان سےاور کمزور بچوں (کے بارے) میں اور یہ کہ قائم رہو تم یتیموں کے لیے انصاف پر اور جو کرو تم کوئی اچھائی، پس تحقیق اللہ ہے اس کو خوب جاننے والا(127)
#
{127} الاستفتاء طلبُ السائل من المسؤول بيان الحكم الشرعيِّ في ذلك المسؤول عنه، فأخبر عن المؤمنين أنَّهم يستفتون الرسول - صلى الله عليه وسلم - في حكم النساء المتعلِّق بهم، فتولَّى الله هذه الفتوى بنفسه، فقال: {قل الله يُفتيكم فيهنَّ}؛ فاعملوا على ما أفتاكم به في جميع شؤون النساء من القيام بحقوقهنَّ وترك ظلمهنَّ عموماً وخصوصاً، وهذا أمرٌ عام يشمل جميع ما شرع الله أمراً ونهياً في حقِّ النساء الزوجات وغيرهنَّ الصغار والكبار، ثم خصَّ بعد التعميم الوصيةَ بالضِّعاف من اليتامى والولدان اهتماماً بهم وزجراً عن التفريط في حقوقهم، فقال: {وما يُتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء}؛ أي: ويُفتيكم أيضاً بما يتلى عليكم في الكتاب في شأن اليتامى من النساء، {اللاَّتي لا تؤتونهنَّ ما كُتِبَ لهنَّ}: وهذا إخبار عن الحالة الموجودة الواقعة في ذلك الوقت؛ فإنَّ اليتيمة إذا كانت تحت ولاية الرجل؛ بَخَسَها حقَّها، وظلمها إمَّا بأكل مالها الذي لها، أو بعضِهِ، أو مَنْعِها من التزوُّج؛ لينتفع بمالها خوفاً من استخراجه من يدِهِ إن زوَّجها، أو يأخذَ من صهرها الذي تتزوَّج به بشرطٍ أو غيره، هذا إذا كان راغباً عنها، أو يرغب فيها وهي ذات جمال ومال ولا يُقْسِطُ في مهرها، بل يعطيها دون ما تستحقُّ؛ فكلُّ هذا ظلمٌ يدخل تحت هذا النصِّ، ولهذا قال: {وترغبون أن تنكِحوهنَّ}؛ أي: ترغبون عن نكاحهنَّ أو في نكاحهنَّ كما ذكرنا تمثيلَه. {والمستضعفينَ من الوِلدانِ}؛ أي: ويُفتيكم في المستضعفين من الولدان الصغارِ أن تُعطوهم حقَّهم من الميراث وغيرِهِ، وأن لا تستولوا على أموالهم على وجه الظُّلم والاستبداد، {وأن تقوموا لليتامى بالقِسْط}؛ أي: بالعدل التامِّ، وهذا يشمَلُ القيامَ عليهم بإلزامِهم أمرَ الله وما أوجبه على عبادِهِ، فيكونُ الأولياءُ مكلَّفين بذلك يلزمونهم بما أوجبه الله، ويشملُ القيام عليهم في مصالحهم الدنيويَّة بتنمية أموالهم وطلبِ الأحظِّ لهم فيها وأن لا يقربوها إلا بالتي هي أحسن، وكذلك لا يُحابون فيهم صديقاً ولا غيره في تزوُّج وغيره على وجه الهضم لحقوقهم، وهذا من رحمته تعالى بعبادِهِ؛ حيث حثَّ غاية الحثِّ على القيام بمصالح مَن لا يقومُ بمصلحةِ نفسه لضعفِهِ وفقد أبيه. ثم حثَّ على الإحسان عموماً، فقال: {وما تفعلوا من خيرٍ}: لليتامى ولغيرهم، سواء كان الخير متعدياً أو لازماً، {فإنَّ الله كان به عليماً}؛ أي: قد أحاط علمُهُ بعمل العاملين للخير، قلَّةً وكثرةً، حسناً وضدّه، فيجازي كلًّا بحسب عمله.
[127] (اِسْتِفْتَاء) سے مراد ہے سائل کا مسؤل (مفتی یاعالم) سے اپنے مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کا بیان طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے بارے میں خبر دی ہے کہ انھوں نے عورتوں کے بارے میں رسول اللہeسے استفتاء کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس استفتاء کا جواب دیا ﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں تمھیں حکم دے رہا ہے‘‘ پس عورتوں کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو فتویٰ دیا ہے اس پر عمل کرو۔ عام طور پر اور خاص طور پر ان کے حقوق کو ادا کرو اور ان پر ظلم کرنا چھوڑ دو۔ یہ حکم عام ہے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں خواہ وہ بیویاں ہوں یا کوئی اور، چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں۔ امر و نہی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مشروع کیا ہے، سب کو شامل ہے۔ اس عموم کے بیان کرنے کے بعد ، اللہ تعالیٰ نے کمزور بچوں اور یتیموں کے معاملے میں اہتمام اور ان کے حقوق میں کوتاہی پر زجر و توبیخ کے طور پر، خصوصی وصیت فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَا یُ٘تْ٘لٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ ﴾ یتیم عورتوں کے معاملے میں کتاب اللہ کے اندر جو کچھ تم پر تلاوت کیا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ تمھیں اسی کا فتویٰ دیتا ہے۔)‘‘ ﴿ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَ٘هُنَّ مَا كُتِبَ لَ٘هُنَّ ﴾ ’’وہ جن کو تم نہیں دیتے، جو ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے‘‘ یہ اس وقت کی موجود حالت کے بارے میں خبر ہے۔ کیونکہ یتیم لڑکی جب کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی تو وہ اس کی حق تلفی کرتا اور اس پر ظلم کا ارتکاب کرتا تھا یا تو اس کا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ کھا جاتا یا اس کو نکاح کرنے سے روکتا تاکہ اس کے مال سے فائدہ اٹھاتا رہے اور اس خوف سے کہ اگر اس نے اس کا نکاح کر دیا تو مال ہاتھ سے نکل جائے گا اور اگر وہ اس عورت میں رغبت نہیں رکھتا تو جس شخص سے یہ نکاح کرتی، اس پر شرائط وغیرہ عائد کرتا۔ یا اگر وہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اس کے ساتھ خود نکاح کرنے کی خواہش رکھتا تو اس کے مہر کو ساقط تو نہیں کرتا مگر وہ اسے اتنا حق مہر بھی ادا نہیں کرتا جتنے مہر کی وہ مستحق ہوتی۔ یہ تمام صورتیں ظلم کی تھیں، جو اس نص کے تحت آتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ ﴾ ’’تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو۔‘‘ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے گریز کرتے ہویا نکاح کرنے میں رغبت رکھتے ہو۔ جیسا کہ ہم نے اس کی مثال بیان کی ہے ﴿ وَالْ٘مُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ﴾ ’’اور بے کس بچوں کے بارے میں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کمزور اور چھوٹے بچوں کے بارے میں تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم وراثت میں ان کا حق ادا کرو اور ظلم و استبداد سے ان کے مال پر قبضہ نہ جما لو۔ ﴿ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْ٘یَ٘تٰمٰى بِالْقِسْطِ ﴾ ’’اور یہ (بھی حکم دیتاہے)کہ یتیموں کے بارے میں پورے عدل و انصاف سے کام لو‘‘ اس حکم میں ان کے معاملات کی دیکھ بھال، ان سے ان احکام کا التزام کروانا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیے ہیں سب شامل ہیں اس بارے میں یتیموں کے سرپرست مکلف ٹھہرائے گئے کہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کے واجبات کا التزام کروائیں۔ اس حکم میں ان کے دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال، ان کے مال میں اضافہ کرنا اور ان کے لیے بہتری طلب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نیز یہ کہ اس کے سرپرست احسن طریقے سے ان کے مال کے قریب جائیں۔ اسی طرح ان کے نکاح وغیرہ میں ان کی حق تلفی کرتے ہوئے کسی دوست وغیرہ کی محبت کو ترجیح نہ دیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور انتہائی درجے کی ترغیب ہے کہ ان لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کی جائے جو اپنی کمزوری اور اپنے باپ سے محروم ہونے کی بنا پر خود اپنے مفادات کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ پھر علی العموم بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ ﴾ ’’اور تم جو بھلائی کروگے۔‘‘ یعنی تم یتیموں یا دوسروں کے ساتھ جو بھلائی کرو گے خواہ یہ بھلائی متعدی ہو یا صرف تمھیں تک محدود ہو ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا ﴾ ’’اللہ اس کو جانتا ہے۔‘‘ یعنی نیک عمل کرنے والوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے اعمال خواہ کم ہوں یا زیادہ، اچھے ہوں یا برے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔
آیت: 128 #
{وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (128)}.
اور اگر کوئی عورت اندیشہ کرے اپنے خاوند سے ظلم و زیادتی کا یا اعراض کا تو نہیں گناہ ان دونوں پر کہ صلح کر لیں وہ آپس میں (کسی طرح ) صلح کرنااور صلح بہت بہتر ہے اور حاضر کیے گئے ہیں نفس بخل کواور اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بلاشبہ ہے اللہ، ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خبردار(128)
#
{128} أي: إذا خافت المرأة نشوزَ زوجِها؛ أي: ترفُّعه عنها وعدم رغبته فيها وإعراضه عنها؛ فالأحسن في هذه الحالة أن يُصلحا بينهما صلحاً؛ بأن تسمح المرأة عن بعض حقوقها اللاَّزمة لزوجِها على وجهٍ تبقى مع زوجِها إمّا أن ترضى بأقلَّ من الواجب لها من النفقة أو الكسوة أو المسكن أو القَسْم؛ بأن تُسْقِطَ حقَّها منه أو تَهَبَ يومَها وليلتها لزوجها أو لضرَّتها؛ فإذا اتَّفقا على هذه الحالة؛ فلا جناح ولا بأس عليهما فيها، لا عليها ولا على الزوج، فيجوز حينئذٍ لزوجها البقاء معها على هذه الحال، وهي خير من الفرقة، ولهذا قال: {والصُّلْحُ خيرٌ}. ويؤخذُ من عموم هذا اللفظ والمعنى أنَّ الصُّلح بين من بينَهما حقٌّ أو منازعة في جميع الأشياء أنه خيرٌ من استقصاء كلٍّ منهما على كلِّ حقِّه لما فيها من الإصلاح وبقاء الألفة والاتِّصاف بصفة السماح، وهو جائزٌ في جميع الأشياء؛ إلاَّ إذا أحلَّ حراماً أو حرَّم حلالاً؛ فإنه لا يكون صلحاً، وإنَّما يكون جوراً، واعلم أنَّ كلَّ حكم من الأحكام لا يتمُّ ولا يكملُ إلا بوجود مقتضيه وانتفاء موانعه؛ فمن ذلك هذا الحكم الكبير الذي هو الصلح، فذكر تعالى المقتضي لذلك، ونبَّه على أنه خيرٌ، والخير كلُّ عاقل يطلُبه ويرغبُ فيه؛ فإنْ كان مع ذلك قد أمر الله به وحثَّ عليه؛ ازداد المؤمن طلباً له ورغبةً فيه، وذكر المانع بقوله: {وأحضِرَتِ الأنفس الشُّحَّ}؛ أي: جُبلت النفوس على الشحِّ، وهو عدم الرغبة في بذل ما على الإنسان، والحرص على الحق الذي له؛ فالنفوس مجبولة على ذلك طبعاً؛ أي: فينبغي لكم أن تحرصوا على قلع هذا الخُلُق الدنيء من نفوسكم، وتستبدلوا به ضدَّه، وهو السماحة، وهو بذل الحقِّ الذي عليك، والاقتناعُ ببعض الحقِّ الذي لك؛ فمتى وُفِّق الإنسان لهذا الخلق الحسن؛ سهل حينئذٍ عليه الصلحُ بينه وبين خصمه ومعامله، وتسهَّلت الطريق للوصول إلى المطلوب؛ بخلاف من لم يجتهدْ في إزالة الشُّحِّ من نفسه؛ فإنه يعسر عليه الصلح والموافقة؛ لأنه لا يرضيه إلاَّ جميع مَا لَهُ، ولا يرضى أن يؤدِّي ما عليه؛ فإن كان خصمُهُ مثله، اشتدَّ الأمر. ثم قال: {وإن تحسنوا وتتَّقوا}؛ أي: تحسنوا في عبادة الخالق؛ بأن يعبدَ العبدُ ربَّه كأنه يراه؛ فإن لم يكن يراه؛ فإنَّه يراه، وتحسِنوا إلى المخلوقين بجميع طرق الإحسان من نفع بمال أو علم أو جاهٍ أو غير ذلك، وتتَّقوا الله بفعل جميع المأمورات وترك جميع المحظورات ، أو تحسِنوا بفعل المأمور وتتَّقوا بترك المحظور؛ {فإنَّ الله كان بما تعملون خبيراً}: قد أحاطَ به علماً وخبراً بظاهرِهِ وباطنِهِ فيحفظه لكم ويجازيكم عليه أتمَّ الجزاء.
[128] یعنی جب عورت اپنے شوہر کے سخت رویے اور ظلم سے ڈرے یعنی خاوند اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے اور اس میں عدم رغبت کی وجہ سے اعراض کرے تو اس حالت میں بہتر صورت یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں مصالحت کر لیں۔ اور وہ اس طرح کہ بیوی اپنے بعض ان حقوق کو، جو شوہر پر لازم ہیں اس طرح نظر انداز کر دے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہ سکے۔ یا تو وہ نان و نفقہ لباس، مکان وغیرہ میں سے قلیل ترین واجب پر راضی ہو جائے۔ یا اپنی باری میں سے اپنا حق ساقط کر دے یا اپنی باری کے شب و روز اپنی سوکن کو ہبہ کر دے اگر میاں بیوی اس صورت حال پر راضی ہو جائیں تو اس میں دونوں کے لیے کوئی حرج نہیں، اس میں میاں بیوی دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ تب اس صورت حال میں اپنی بیوی کے ساتھ باقی رہنا جائز ہے اور یہ علیحدگی سے بہتر ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَالصُّلْ٘حُ خَیْرٌ ﴾ ’’صلح بہتر ہے۔‘‘ اس لفظ اور معنی کے عموم سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ فریقین کے درمیان کسی حق یا تمام اشیاء میں نزاع ہو تو صلح اس سے بہتر ہے کہ وہ تمام اشیاء میں پورا پورا حق وصول کرنے کا مطالبہ کریں۔ کیونکہ اس صلح میں اصلاح، دونوں کے مابین الفت کی بقا اور سماحت (درگزر کرنے) کی صفت سے متصف ہونا ہے۔ یہ صلح تمام اشیاء میں جائز ہے سوائے اس صورت کے جس میں کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو۔ تب یہ صلح نہیں بلکہ ظلم و جور ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی حکم اس کے مقتضی کے وجود اور موانع کی نفی کے بغیر مکمل اور پورا نہیں ہوتا اس کی مثال یہی بڑا حکم ہے یعنی فریقین کے درمیان صلح، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تقاضا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھلائی ہے اور عمل کرنے والا ہر شخص بھلائی کا طالب اور بھلائی میں رغبت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بھلائی کا حکم دیا ہو اور اس کی طرف رغبت دلائی ہو تو اس میں مومن کی طلب اور رغبت اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْ٘فُ٘سُ الشُّ٘حَّ ﴾ ’’طمع ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے‘‘ یعنی بخل انسان کی جبلت ہے یہاں (الشُّ٘حَّ) ’’بخل‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان پر خرچ کرنا واجب ہے اسے خرچ کرنے میں راغب نہ ہو۔ اور اپنا حق حاصل کرنے کا بڑا حریص ہو۔ تمام نفوس طبعی طور پر اسی جبلت پر پیدا کیے گئے ہیں۔ یعنی تمھارے لیے مناسب یہ ہے کہ تم اپنے نفس سے اس گھٹیا خلق کا قلع قمع کرنے اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو جو تمھارے ذمہ ہے اور اپنے حق کے بارے میں اس کے کچھ حصے پر قناعت کرو۔ جب کبھی انسان کو اس خلق حسن کو اپنانے کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کے لیے اپنے اور اپنے مخالف کے درمیان صلح آسان ہو جاتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ سہل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی طبیعت سے بخل کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے لیے صلح اور موافقت بہت مشکل کام ہے کیونکہ وہ اپنا پورا حق لیے بغیر راضی نہیں ہوتا اور اس پر جو حق واجب ہے اسے ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اگر دوسرے فریق کا رویہ بھی ایسا ہی ہو تو معاملہ اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا ﴾ ’’اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو‘‘ یعنی اگر تم خالق کی عبادت میں احسان سے کام لو یعنی بندہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اگر ایسی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تو یہ تصور پیدا کرے کہ وہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اور تم احسان کے تمام طریقوں سے یعنی مال، اور جاہ وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں سے بھلائی کرو ﴿ وَتَتَّقُوْا ﴾ ’’پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘ یعنی تمام مامورات پر عمل کرتے ہوئے اور تمام محظورات سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو۔ یا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مامورات پر عمل کرنے میں احسان سے کام لو اور محظورات کو ترک کر کے اللہ سے ڈرو۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ﴾ ’’اللہ تمھارے سب کاموں سے باخبر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ بندے کے ظاہر و باطن کا اپنے علم و خبر کے ذریعے سے احاطہ کیے ہوئے ہے پس وہ تمھارے اعمال کو محفوظ کر رہا ہے وہ تمھیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
آیت: 129 #
{وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (129)}.
اور ہرگز نہیں طاقت رکھو گے تم یہ کہ عدل کر سکو درمیان عورتوں کے اگرچہ حرص کرو تم، پس نہ جھک جاؤ تم مکمل جھک جانا (ایک طرف) کہ چھوڑ دو تم اس (دوسری) کو مانند (درمیان میں) لٹکی ہوئی کےاور اگر صلح کرو تم اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ بخشنے والا مہربان(129)
#
{129} يخبر تعالى أن الأزواج لا يستطيعون وليس في قُدرتهم العدل التامُّ بين النساء، وذلك لأن العدل يستلزم وجود المحبَّة على السَّواء، والداعي على السواء، والميل في القلب إليهنَّ على السواء، ثم العمل بمقتضى ذلك، وهذا متعذِّر غير ممكن؛ فلذلك عفا الله عمّا لا يستطاع ونهى عما هو ممكنٌ بقوله: {فلا تميلوا كلَّ الميل فتذروها كالمعلَّقة}؛ أي: لا تميلوا ميلاً كثيراً بحيث لا تؤدُّون حقوقَهن الواجبة، بل افعلوا ما هو باستطاعتكم من العدل؛ فالنفقة والكسوة والقَسْم ونحوها عليكم أن تعدِلوا بينهنَّ فيها؛ بخلاف الحبِّ والوطء ونحو ذلك؛ فإنَّ الزوجة إذا ترك زوجها ما يجب لها؛ صارت كالمعلقة التي لا زوج لها فتستريح وتستعدُّ للتزوج، ولا ذات زوج يقوم بحقوقها. {وإن تُصْلِحوا} ما بينكم وبين زوجاتِكم بإجبار أنفسكم على فعل ما لا تهواه النفس احتساباً وقياماً بحقِّ الزوجة، وتصلحوا أيضاً فيما بينكم وبين الناس، وتصلحوا أيضاً بين الناس فيما تنازعوا فيه، وهذا يستلزم الحثَّ على كلِّ طريق يوصل إلى الصُّلح مطلقاً كما تقدم. {وتَتَّقوا}: الله بفعل المأمور وترك المحظور والصَّبر على المقدور، {فإنَّ الله كان غفوراً رحيماً}: يَغْفِرُ ما صَدَرَ منكم من الذُّنوب والتقصير في الحقِّ الواجب، ويرحمكم كما عطفتم على أزواجكم ورحمتموهنَّ.
[129] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ شوہر اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر سکتے اور پورا پورا عدل و انصاف کرنا ان کے بس میں بھی نہیں۔ کیونکہ عدل اس بات کو مستلزم ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ یکساں محبت ہو، محبت کا داعیہ سب کے لیے برابر ہو اور دل کا میلان ان سب کے لیے مساوی ہو۔ پھر اس کے تقاضے کے مطابق عمل ہو۔ چونکہ یہ ناقابل عمل اور ناممکن ہے اس لیے جو چیز انسان کے بس میں نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا ہے اور اس چیز سے منع کر دیا جو انسان کے بس میں ہے چنانچہ فرمایا ﴿ فَلَا تَمِیْلُوْا كُ٘لَّ٘ الْ٘مَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ۠ ﴾ ’’ایک ہی کی طرف مائل نہ ہوجانا کہ دوسروں کو ایسی حالت میں چھوڑدو کہ گویا وہ لٹک رہی ہے۔‘‘ یعنی تم ایک طرف بہت زیادہ نہ جھک جاؤ کہ تم ان کے وہ حقوق بھی ادا نہ کر سکو جو واجب ہیں۔ بلکہ اپنی استطاعت بھر عدل و انصاف سے کام لو۔ پس نان و نفقہ، لباس اور شب باشی کی تقسیم وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں عدل کرنا تم پر فرض ہے، اس کے برعکس محبت اور مجامعت وغیرہ میں عدل و انصاف ممکن نہیں۔ پس جب شوہر بیوی کے وہ حقوق ترک کر دیتا ہے جنھیں ادا کرنا واجب ہے تو بیوی اس معلق عورت کی مانند ہو جاتی ہے جس کا خاوند نہیں ہوتا کہ جس سے وہ راحت حاصل کرے اور حقوق زوجیت ادا کرنے کی تیاری کرے اور نہ وہ خاوند والی ہوتی ہے جو اس کے حقوق کی دیکھ بھال کرے۔ ﴿ وَاِنْ تُصْلِحُوْا ﴾ ’’اور اگر آپس میں موافقت کرلو۔‘‘ یعنی اگر تم اپنے اور اپنی بیویوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کر لو۔ یعنی بیوی کے حقوق ادا کرتے ہوئے احتساب کے ساتھ اپنے نفس کو اس فعل پر مجبور کرو جس کو بجا لانے پر وہ آمادہ نہیں اور ان معاملات کی بھی اصلاح کر لو جو تمھارے اور لوگوں کے درمیان ہیں اور لوگوں کے تنازعات میں ان کے مابین صلح کرواؤ۔ یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ صلح کے لیے علی الاطلاق ہر طریقہ بروئے کار لایا جائے۔ ﴿ وَتَتَّقُوْا ﴾ ’’اور پرہیز گاری کرو۔‘‘ مامورات پر عمل اور محظورات کو ترک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مقدور بھر صبر کرو ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَ٘فُوْرًؔا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ تمھارے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا جو تم سے صادر ہوتے ہیں اور ان کوتاہیوں کو نظر انداز کر دے گا اور جیسے تم اپنی بیویوں کے ساتھ شفقت و مودت کا رویہ رکھتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم پر رحم کرے گا۔
آیت: 130 #
{وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا (130)}.
اور اگر وہ دونوں الگ ہو جائیں تو بے نیاز کر دے گا اللہ ہر ایک کو اپنے فضل سےاور ہے اللہ وسعت والا حکمت والا(130)
#
{130} هذه الحالة الثالثةُ بين الزوجين إذا تعذَّر الاتِّفاق؛ فإنه لا بأس بالفراق، فقال: {وإن يتفرَّقا}؛ أي: بطلاق أو فسخ أو خلع أو غير ذلك، {يُغْنِ الله كلاًّ}: من الزوجين {من سَعَتِهِ}؛ أي: من فضله وإحسانه الواسع الشامل، فيغني الزوج بزوجة خيرٍ له منها، ويغنيها من فضله، وإن انقطع نصيبها من زوجها؛ فإن رزقها على المتكفِّل بأرزاق جميع الخَلْق، القائم بمصالحهم، ولعلَّ الله يرزُقها زوجاً خيراً منه. {وكان الله واسعاً}؛ أي: كثير الفضل واسع الرحمة، وصلتْ رحمتُه وإحسانُه إلى حيث وصل إليه علمُه، ولكنَّه مع ذلك {حكيماً}؛ أي: يعطي بحكمته ويمنع لحكمتِهِ؛ فإذا اقتضتْ حكمتُهُ منع بعض عبادِهِ من إحسانه بسبب من العبد لا يستحقُّ معه الإحسان؛ حَرَمَهُ عدلاً وحكمة.
[130] میاں بیوی کے درمیان تیسری حالت یہ ہے کہ جب اتفاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں کے درمیان علیحدگی میں کوئی حرج نہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا ﴾ ’’اگر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔‘‘ یعنی اگر دونوں طلاق، فسخ یا خلع کے ذریعے سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں ﴿یُ٘غْ٘نِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ دونوں میاں بیوی کو اپنے فضل و کرم اور لامحدود احسان کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا‘‘ شوہر کو کسی دوسری بیوی کے ذریعے سے پہلی بیوی سے اور بیوی کو اپنے فضل و کرم سے مستغنی کر دے گا۔ اگر بیوی کا اپنے شوہر کے رزق میں سے حصہ ختم ہو گیا ہے تو اس کا رزق اس ہستی کے ذمے ہے جو تمام مخلوق کو رزق عطا کرتی ہے اور ان کے مصالح کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر شوہر عطا کر دے۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَؔكِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ بڑی کشائش والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل و کرم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے۔ جہاں جہاں اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے، وہاں تک اس کی رحمت سایہ کناں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ حَؔكِیْمًا ﴾ ’’وہ حکمت والا ہے‘‘ اگر کسی کو عطا کرتا ہے تو حکمت کی بنیاد پر اور محروم کرتا ہے تو حکمت ہی کی بنیاد پر۔ جب اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ کسی بندے کو کسی سبب کی بنا پر اپنے فضل و احسان سے محروم کرے جس کا وہ مستحق نہیں، تو اپنے عدل و حکمت سے اسے محروم کر دیتا ہے۔
آیت: 131 - 132 #
{وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا (131) وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (132)}.
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہےاور البتہ تحقیق وصیت کی ہم نے ان لوگوں کو جو دیے گئے کتاب تم سے پہلے اور خود تمھیں بھی یہ کہ ڈرو تم اللہ سےاور اگر کفر کرو گے تم تو تحقیق اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہےاور ہے اللہ بے پروا قابل تعریف(131) اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہےاور کافی ہے اللہ کارساز(132)
#
{131 ـ 132} يخبر تعالى عن عموم ملكه العظيم الواسع المستلزم تدبيره بجميع أنواع التَّدبير وتصرُّفه بأنواع التصريف قدراً وشرعاً؛ فتصرُّفه الشرعي أن وصَّى الأوَّلين والآخرين أهل الكتب السابقة واللاَّحقة بالتَّقوى المتضمِّنة للأمر والنَّهي وتشريع الأحكام والمجازاة لمن قام بهذه الوصيَّة بالثواب والمعاقبة لمن أهملها وضيَّعها بأليم العذاب، ولهذا قال: {وإن تَكْفُروا}: بأن تتركوا تقوى الله وتشركوا بالله ما لم ينزِّل به عليكم سلطاناً؛ فإنكم لا تضرُّون بذلك إلا أنفسكم، ولا تضرُّون الله شيئاً، ولا تنقصون ملكَه، وله عبيدٌ خير منكم وأعظم وأكثر، مطيعون له خاضعون لأمره، ولهذا رتَّب على ذلك قوله: {وإن تَكْفُروا فإنَّ لله ما في السموات وما في الأرض وكان الله غنيًّا حميداً}: له الجود الكامل والإحسان الشامل الصادر من خزائن رحمته التي لا يَنْقُصُها الإنفاق ولا يَغيضها نفقةٌ، سحاء الليل والنهار، لو اجتمع أهل السماوات وأهل الأرض أولهم وآخرهم، فسأل كلُّ واحد منهم ما بلغت أمانيه، ما نَقَصَ من ملكه شيئاً، ذلك بأنه جوادٌ واجدٌ ماجدٌ، عطاؤه كلامٌ، وعذابه كلامٌ، إنما أمره لشيء إذا أراد أن يقولَ له كُن فيكون، ومن تمام غِناه أنَّه كامل الأوصاف؛ إذ لو كان فيه نقصٌ بوجه من الوجوه؛ لكان فيه نوعُ افتقارٍ إلى ذلك الكمال، بل له كلُّ صفة كمال، ومن تلك الصفة كمالها. ومن تمام غِناه أنَّه لم يتَّخذ صاحبةً ولا ولداً ولا شريكاً في ملكه ولا ظهيراً ولا معاوناً له على شيء من تدابير ملكِهِ، ومن كمال غناه افتقار العالم العلويِّ والسفليِّ في جميع أحوالهم وشؤونهم إليه وسؤالهم إيّاه جميع حوائجهم الدقيقة والجليلة، فقام تعالى بتلك المطالب والأسئلة، وأغناهم وأقناهم ومنَّ عليهم بلطفه وهداهم. وأما الحميدُ؛ فهو من أسماء الله تعالى الجليلة، الدال على أنه هو المستحقُّ لكلِّ حمدٍ ومحبةٍ وثناء وإكرام، وذلك لما اتَّصف به من صفات الحمد التي هي صفة الجمال والجلال، ولما أنعم به على خلقه من النعم الجزال؛ فهو المحمود على كلِّ حال. وما أحسن اقتران هذين الاسمين الكريمين: الغنيّ الحميد؛ فإنه غنيٌّ محمودٌ؛ فله كمالٌ من غناه وكمالٌ من حمده وكمالٌ من اقتران أحدهما بالآخر، ثم كرَّر إحاطة ملكه لما في السماوات و [ما في] الأرض، وأنَّه على كلِّ شيء وكيل؛ أي: عالم قائم بتدبير الأشياء على وجه الحكمة؛ فإنَّ ذلك من تمام الوكالة؛ فإنَّ الوكالة تستلزم العلم بما هو وكيلٌ عليه، والقوَّة والقدرة على تنفيذه وتدبيره، وكون ذلك التدبير على وجه الحكمة والمصلحة؛ فما نقص من ذلك؛ فهو لنقص الوكيل، والله تعالى منزَّه عن كلِّ نقص.
[132,131] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسیع اور عظیم اقتدار کے عموم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ شرعاً اور قدراً مختلف طریقوں سے کائنات کی تدبیر کرے اور گوناگوں تصرفات کے ذریعے سے اس میں تصرف کرے۔ اس کا تصرف شرعی یہ ہے کہ اس نے سابقین و اولین اور کتب سابقہ اور بعد میں نازل ہونے والی کتابوں کے ماننے والوں کو تقویٰ کی وصیت کی ہے جو امر و نہی، تشریح احکام اور اس شخص کے لیے ثواب کو متضمن ہے جو اس وصیت پر عمل کرتا ہے اور اس شخص کے لیے دردناک عذاب کی وعید کو متضمن ہے جو اس وصیت کو ضائع کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ تَكْ٘فُ٘رُوْا ﴾ ’’اور اگر کفر کروگے۔‘‘ یعنی اگر تم تقویٰ ترک کر دو اور کفر اختیار کر لو اور ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لو جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اس طرح تم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے، اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں ذرہ بھر کمی نہیں کر سکتے۔ اس کے اور بھی بندے ہیں جو تم سے بہتر اور تم سے زیادہ اطاعت گزار اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَاِنْ تَكْ٘فُ٘رُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ کامل جود و کرم اور احسان کا مالک ہے جو کچھ اس کی رحمت کے خزانوں سے صادر ہوتا ہے وہ خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خزانے اگر دن رات خرچ ہوتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر زمین و آسمان کے رہنے والے اول سے لے کر آخر تک تمام لوگ اپنی اپنی آرزوؤں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سوال کریں تو اس کی ملکیت میں ذرہ بھر کمی نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ جواد ہے، ہر چیز کو وجود بخشنے والا اور بزرگی کا مالک ہے۔ وہ اپنے کلام سے عطا کرتا ہے اور اپنے کلام سے عذاب دیتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس کی تمام تر بے نیازی یہ ہے کہ وہ کامل اوصاف کا مالک ہے کیونکہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کمال کے لیے محتاج ہوتا۔ بلکہ اس کے لیے کمال کی ہر صفت ہے اور انھی میں سے ایک صفت کمال ہے اور یہ اس کی بے نیازی ہی ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور کوئی اولاد نہیں۔ اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار اور اس کے اپنے اقتدار کی تدبیر میں اس کا کسی قسم کا کوئی معاون نہیں۔ یہ اس کا کامل غنا اور اس کی بے نیازی ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی اپنے تمام احوال اور تمام معاملات میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اسی سے سوال کرتے ہیں..... اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے مطلوب اور سوال کو پورا کرتا ہے، ان کو غنی اور مال دار کر دیتا ہے ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے اور انھیں راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ رہا اسم گرامی (حمید) تو یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کی حمد و ثنا، محبت اور اکرام کا مستحق ہے۔ اس لیے وہ صفات حمد سے متصف ہے جو کہ جمال و جلال کی صفات ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس لیے وہ ہر حال میں ’’محمود‘‘ ہے۔ ان دو اسمائے گرامی یعنی (اَلْغَنِیُّ) (اَلْحَمِیْدُ) کا یک جا ہونا کتنا خوبصورت ہے۔ یقینا وہ بے نیاز اور قابل تعریف ہے، اسے کمال بے نیازی بھی حاصل ہے اور کمال حمد بھی اور ان دونوں کے حسن امتزاج کا کمال بھی۔ پھر اس نے مکرر فرمایا ہے کہ زمین اور آسمانوں میں اقتدار اسی کا ہے اور ہر چیز کو کفایت کرنے والا وہی ہے۔ یعنی وہ علم رکھنے والا اور اپنی حکمت کے مطابق تمام اشیاء کی تدبیر کرتا ہے اور یہی کامل کفایت اور وکالت ہے کیونکہ وکالت اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ جس چیز کا وکیل ہے اسے اس کا پورا پورا علم ہو۔ پھر اس کو نافذ کرنے اور تدبیر کرنے میں پوری قوت اور قدرت رکھتا ہو۔ اور یہ تدبیر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہو۔ اگر ان امور میں کوئی کمی ہے تو وہ وکیل میں نقص کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر نقص سے منزہ ہے۔
آیت: 133 - 134 #
{إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ قَدِيرًا (133) مَنْ كَانَ يُرِيدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (134)}.
اگر چاہے وہ تو لے جائے تمھیں اے لوگو! اور لے آئے دوسروں کواور ہے اللہ اوپر اس کے خوب قدرت رکھنے والا(133) جو کوئی ارادہ کرتا ہے ثواب (صلے) کا دنیا میں تو اللہ کے ہاں ثواب ہے دنیا کا اور آخرت کا اور ہے اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا(134)
#
{133} أي: هو الغنيُّ الحميد الذي له القدرة الكاملة والمشيئة النافذة فيكم. {إن يشأ يُذْهِبْكم أيُّها الناس ويأت بآخرين}: غيرِكم هم أطوع لله منكم وخيرٌ منكم. وفي هذا تهديدٌ للناس على إقامتهم على كفرهم وإعراضِهم عن ربِّهم؛ فإنَّ الله لا يعبأ بهم شيئاً إن لم يطيعوه، ولكنَّه يُمْهِلُ ويملي ولا يُهْمِلُ.
[133] یعنی وہ (غَنِيٌّ حَمِیْدٌ) ہے اور وہ قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ کا مالک ہے۔ ﴿ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَیَ٘اْتِ بِاٰخَرِیْنَ ﴾ ’’اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کردے اور (تمھاری جگہ) اور لوگوں کو پیدا کردے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے علاوہ اور لوگوں کو لے آئے گا وہ تم سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ یہ آیت کریمہ لوگوں کے لیے ان کے اپنے کفر پر قائم رہنے اور اپنے رب سے روگردانی کرنے پر تہدید ہے۔ اگر وہ اطاعت نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کو ان کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں۔ مگر وہ ان کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے تاہم ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا۔ (یعنی حساب ضرور لے گا)
#
{134} ثم أخبر أنَّ مَن كانت هِمَّتُه وإرادتُه دنيَّة غير متجاوزة ثواب الدُّنيا، وليس له إرادةٌ في الآخرة؛ فإنه قد قَصَرَ سعيه ونظره، ومع ذلك؛ فلا يحصلُ له من ثواب الدُّنيا سوى ما كتب الله له منها؛ فإنه تعالى هو المالك لكل شيء، الذي عنده ثواب الدُّنيا والآخرة، فَلْيُطْلَبا منه ويُستعان به عليهما؛ فإنَّه لا يُنال ما عنده إلاَّ بطاعتِهِ، ولا تُدرك الأمور الدينيَّة والدنيويَّة إلاَّ بالاستعانة به والافتقار إليه على الدوام، وله الحكمة تعالى في توفيق من يوفِّقه وخِذلان مَن يخذلُه وفي عطائه ومنعه، ولهذا قال: {وكان الله سميعاً بصيراً}.
[134] پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جس کسی کی ہمت اور ارادہ گھٹیا ہے اور دنیا کے ثواب سے آگے نہیں بڑھتا۔ اور وہ آخرت کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتا، پس اس کی نظر اور اس کی کوشش کوتاہ ہے۔ بایں ہمہ اسے دنیا کا ثواب بھی صرف اتنا ہی ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے دنیا و آخرت کا ثواب اسی کے پاس ہے، پس دنیا و آخرت اسی سے طلب کی جائے اور ان کے حصول کے لیے اسی سے مدد مانگی جائے۔ کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور تمام دینی اور دنیاوی امور کا حصول اسی سے مدد طلب کرنے اور ہمیشہ صرف اسی کا محتاج ہونے سے ممکن ہے وہ جس کسی کو اپنی توفیق سے نوازتا ہے یا اسے توفیق سے محروم کر کے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اس میں اس کی حکمت پنہاں ہے اس کا کسی کو عطا کرنا اور محروم کرنا اس کی حکمت ہی پر مبنی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا﴾ ’’اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘
آیت: 135 #
ثم قال تعالى: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135)}.
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ تم قائم رہنے والے انصاف پر، گواہی دینے والے اللہ کے لیے اگرچہ ہو وہ خلاف تمھاری اپنی جانوں کے یا والدین کے یا قرابت داروں کے۔ اگر ہو (وہ شخص) مال دار یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے، بہ نسبت ان دونوں کے، پس نہ پیروی کرو تم خواہش کی (کہ گریز کرو تم) انصاف کرنے سے اور اگر موڑو تم زبان کو یا اعراض کرو تم، پس تحقیق اللہ ہے، ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خبردار(135)
#
{135} يأمر تعالى عبادَه المؤمنين أن يكونوا {قوَّامين بالقسطِ شهداء لله}، والقوَّام صيغةُ مبالغةٍ؛ أي: كونوا في كلِّ أحوالكم قائمين بالقسطِ الذي هو العدل في حقوق الله وحقوق عباده؛ فالقِسْطُ في حقوق الله أن لا يُستعان بنعمه على معصيتِهِ، بل تُصرف في طاعته، والقِسْط في حقوق الآدميِّين أن تُؤدِّيَ جميع الحقوق التي عليك كما تَطْلُبُ حقوقك، فتؤدِّي النفقات الواجبة والدُّيون وتعامل الناس بما تحبُّ أن يعاملوك به من الأخلاق والمكافأة وغير ذلك. ومن أعظم أنواع القِسْط القِسْط في المقالات والقائلين؛ فلا يحكم لأحدِ القولين أو أحد المتنازِعَين لانتسابه أو ميله لأحدهما، بل يَجعل وجهته العدل بينهما، ومن القسط أداء الشهادة التي عندك على أيِّ وجه كان، حتى على الأحباب، بل على النفس، ولهذا قال: {شهداء لله ولو على أنفسكم أو الوالدين والأقربين، إن يكنْ غنيًّا أو فقيراً فالله أولى بهما}؛ أي: فلا تُراعوا الغنيَّ لغناه ولا الفقير بزعمكم رحمة له، بل اشهدوا بالحقِّ على مَن كان. والقيام بالقسط من أعظم الأمور وأدل على دين القائم به وورعِهِ ومقامِهِ في الإسلام، فيتعيَّن على مَن نصح نفسه وأراد نجاتَها أن يهتمَّ له غاية الاهتمام، وأن يَجْعَلَهُ نصبَ عينيه ومحلَّ إرادته، وأن يزيل عن نفسِهِ كلَّ مانع وعائق يَعوقه عن إرادة القِسْط أو العمل به، وأعظم عائق لذلك اتِّباع الهوى، ولهذا نبَّه تعالى على إزالة هذا المانع بقوله: {فلا تتَّبِعوا الهوى أن تعدِلوا}؛ أي: فلا تتَّبعوا شهوات أنفسكم المعارضة للحقِّ؛ فإنكم إن اتَّبعتموها؛ عدلتُم عن الصواب ولم توفَّقوا للعدل؛ فإنَّ الهوى إمَّا أن يُعْمِيَ بصيرة صاحبه حتى يرى الحقَّ باطلاً والباطلَ حقًّا، وإما أن يعرفَ الحقَّ ويتركَه لأجل هواه؛ فمن سلم من هوى نفسه؛ وفِّق للحق وهُدِيَ إلى الصراط المستقيم. ولما بيَّن أنَّ الواجب القيام بالقِسط؛ نهى عن ما يضادُّ ذلك، وهو لَيُّ اللسان عن الحقِّ في الشهادات وغيرها، وتحريف النُّطق عن الصواب المقصود من كلِّ وجه أو من بعض الوجوه، ويدخل في ذلك تحريف الشهادة وعدم تكميلها أو تأويلُ الشاهد على أمرٍ آخر؛ فإنَّ هذا من اللَّيِّ؛ لأنَّه الانحراف عن الحقِّ. {أو تعرِضوا}؛ أي: تتركوا القِسْط المَنوط بكم كترك الشاهد لشهادته وترك الحاكم لحكمه الذي يَجِبُ عليه القيام به. {فإنَّ الله كان بما تعملون خبيراً}؛ أي: محيط بما فعلتم، يعلم أعمالَكم خفيَّها وجليَّها، وفي هذا تهديدٌ شديدٌ للذي يلوي أو يعرض، ومن باب أولى وأحرى الذي يحكم بالباطل أو يشهد بالزُّور؛ لأنه أعظم جرماً؛ لأن الأوَّلَيْنِ تركا الحقَّ، وهذا ترك الحقَّ، وقام بالباطل.
[135] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی دینے والے بن جائیں۔ (اَلْقَوَّام) مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی اپنے تمام احوال میں عدل پر قائم رہو (قِسْطٌ) سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں عدل و انصاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حقوق میں انصاف یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کیا جائے بلکہ ان کو اس کی اطاعت و فرماں برداری میں صرف کیا جائے اور حقوق العباد میں عدل و انصاف یہ ہے کہ بندوں کے وہ تمام حقوق ادا کیے جائیں جو تجھ پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح تیرے حقوق ان پر واجب ہیں اور تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے پس تو نفقات واجبہ اور قرض وغیرہ ادا کر اور تو لوگوں سے اسی اخلاق و حسن صلہ کے ساتھ معاملہ کر، جو تو اپنے بارے میں ان سے چاہتا ہے۔ سب سے بڑا انصاف، باتوں اور بات کہنے والوں کے بارے میں ہے۔ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کے حق میں یا کسی تنازع کے فریقین میں کسی فریق کے حق میں محض اس وجہ سے فیصلہ نہ کرے کہ اسے اس بات سے یا فریق سے کوئی نسبت ہے یا اس کی طرف میلان ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان عدل کو مقدم رکھے۔ عدل و انصاف کی ایک قسم یہ ہے کہ تو اس شہادت کو ادا کر جو تیرے ذمہ عائد ہے خواہ وہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں خواہ یہ شہادت تیرے محبوب لوگوں کے خلاف بلکہ خود تیری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ شُهَدَآءَؔ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْ٘رَبِیْنَ١ۚ اِنْ یَّكُ٘نْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا ﴾ ’’اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے اگرچہ وہ تمھارے اپنے خلاف ہو یا والدین کے یا رشتہ داروں کے وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے بہ نسبت ان دونوں کے۔‘‘ یعنی کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے رعایت کرو نہ کسی محتاج پر بزعم خویش ترس کھاتے ہوئے اس کی رعایت کرو، بلکہ صحیح صحیح شہادت دو، خواہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف قائم کرنا عظیم ترین امور میں شمار ہوتا ہے نیز یہ چیز عدل قائم کرنے والے کے دین، ورع اور اسلام میں اس کے مقام پر دلالت کرتی ہے۔ پس یہ بات متعین ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کی نجات چاہتا ہے، تو وہ عدل کا پورا پورا اہتمام کرے، اس کو مدنظر رکھے اور اپنے ارادے کا مرکز بنائے رکھے اور نفس سے ہر اس داعیے کو دور کر دے جو عدل کے ارادے سے مانع اور اس پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا ﴾ ’’تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔‘‘ یعنی تم حق کی مخالفت میں اپنے نفس کی اتباع نہ کرو۔ اگر تم نے اپنے نفس کی پیروی کی تو راہ صواب سے ہٹ جاؤ گے اور تم عدل و انصاف کی توفیق سے محروم ہو جاؤ گے۔ کیونکہ خواہش نفس یا تو انسان کی بصیرت کو اندھا کر دیتی ہے اور اسے حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ یا وہ حق کو پہچان لیتا ہے مگر اپنی خواہش نفس کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص خواہش نفس سے محفوظ رہا اسے حق کی توفیق عطا ہوتی ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے نوازا جاتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا واجب ہے، تو اس نے ہر اس چیز سے بھی روک دیا جو عدل کی ضد ہے۔ یعنی شہادت وغیرہ میں زبان کو حق سے ہٹا دینا اور ہر لحاظ سے یا کسی ایک پہلو سے نطق زبان کو صواب مقصود سے پھیر دینا اور اسی میں، شہادت میں تحریف کرنا، اس کی عدم تکمیل اور شاہد کا شہادت کی تاویل کرتے ہوئے اس کا رخ کسی اور طرف پھیر دینا، بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی (لَيّ) زبان کی کجی میں سے ہے، کیونکہ یہ حق سے انحراف ہے۔ ﴿ اَوْ تُ٘عْرِضُوْا ﴾ ’’یا تم اعراض کرو۔‘‘ یعنی اگر تم اس عدل و انصاف کو ترک کر دو جس کا دار و مدار تم پر ہے جیسے شاہد کا شہادت کو ترک کر دینا یا حاکم کا اپنے فیصلے کو ترک کر دینا جو کہ اس پر واجب تھا ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ﴾ ’’تو (جان رکھو) اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ یعنی وہ تمھارے افعال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمھارے ظاہر و باطن تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت تہدید ہے جو زبان سے کجی اختیار کرتا یا حق سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص اس تہدید کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے جو باطل فیصلہ کرتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا جرم سب سے بڑا ہے۔ کیونکہ پہلے دو اشخاص نے حق کو ترک کیا اور اس نے باطل کو قائم کیا۔
آیت: 136 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (136)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے اور (ساتھ) اس کتاب کے جو نازل کی اس نے اپنے رسول پر اور (ساتھ) اس کتاب کے جو نازل کی اس نے پہلےاور جو کوئی کفر کرے ساتھ اللہ کے اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور دن آخرت کے، پس تحقیق گمراہ ہو گیا وہ گمراہ ہونا دور کا(136)
#
{136} اعلم أن الأمر إمّا أن يوجَّه إلى من لم يدخل في الشيء ولم يتَّصف بشيء منه؛ فهذا يكون أمراً له في الدُّخول فيه، وذلك كأمر من ليس بمؤمن بالإيمان؛ كقوله تعالى: {يا أيُّها الذين أوتوا الكتابَ آمِنوا بما نَزَّلْنا مصدِّقاً لما معكم ... } الآية، وإمّا أن يوجَّه إلى من دخل في الشيء؛ فهذا يكون أمره ليصحِّح ما وُجِدَ منه ويحصِّل ما لم يوجد، ومنه ما ذكره الله في هذه الآية من أمر المؤمنين بالإيمان؛ فإنَّ ذلك يقتضي أمرهم بما يصحِّح إيمانهم من الإخلاص والصدق وتجنُّب المفسدات والتوبة من جميع المنقصات، ويقتضي أيضاً الأمر بما لم يوجد من المؤمن من علوم الإيمان وأعماله؛ فإنَّه كلَّما وصل إليه نصٌّ وفهم معناه واعتقدَه؛ فإنَّ ذلك من الإيمان المأمور به، وكذلك سائر الأعمال الظاهرة والباطنة، كلُّها من الإيمان؛ كما دلَّت على ذلك النصوص الكثيرة وأجمع عليه سلف الأمة، ثم الاستمرار على ذلك والثَّبات عليه إلى الممات؛ كما قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا اتَّقوا الله حقَّ تُقاتِهِ ولا تموتنَّ إلاَّ وأنتُم مسلمونَ}، وأمر هنا بالإيمان به وبرسله وبالقرآن وبالكتب المتقدِّمة؛ فهذا كلُّه من الإيمان الواجب الذي لا يكون العبد مؤمناً إلاَّ به، إجمالاً فيما لم يصل إليه تفصيلُه، وتفصيلاً فيما عُلِمَ من ذلك بالتفصيل؛ فمن آمن هذا الإيمان المأمور به؛ فقد اهتدى وأنجح. ومن كفر {بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر فقد ضلَّ ضلالاً بعيداً}: وأيُّ ضلال أبعد من ضلال من تَرَكَ طريق الهدى المستقيم وسَلَكَ الطريق الموصلةَ له إلى العذاب الأليم؟! واعلم أنَّ الكفر بشيء من هذه الأمور المذكورة كالكُفر بجميعها؛ لتلازُمِها وامتناع وجود الإيمان ببعضِها دون بعض.
[136] معلوم ہونا چاہیے کہ امر یعنی حکم کا رخ یا تو اس شخص کی طرف ہوتا ہے جو اس شے میں داخل نہیں اور اس سے کچھ بھی متصف نہیں، تب اس کے لیے یہ حکم اس چیز میں داخل ہونے کا ہے۔ مثلاً اس شخص کے لیے ایمان لانے کا حکم جو مومن نہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ ﴾ (النساء : 4؍47) ’’اے وہ لوگو جن کو کتاب عطا کی گئی ہے اس کتاب پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کی ہے اور اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمھارے ساتھ ہے۔‘‘ یا اس حکم کا رخ اس شخص کی طرف ہوتا ہے جو اس چیز میں داخل ہو چکا ہے، تب یہ حکم اس لیے ہوتا ہے تاکہ اس چیز کی تصحیح کر لے جسے وہ پا چکا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو اس نے ابھی تک نہیں پائی۔ اور اس کی مثال یہی آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ یہ ان سے اس چیز کے حکم کا تقاضا کرتی ہے جو ان کے ایمان یعنی صدق و اخلاص کی تصحیح کرتی ہے اور مفسدات سے اجتناب اور نقص میں ڈالنے والی ہر چیز سے توبہ کا تقاضا کرتی ہے۔ نیز یہ اس چیز کے حکم کا بھی تقاضا کرتی ہے جو ابھی مومن میں موجود نہیں یعنی علوم ایمان و عمل وغیرہ۔ کیونکہ جب کبھی اس کے پاس کوئی نص پہنچے گی، تو وہ اس کا معنی سمجھے گا اور اسے اپنے اعتقاد کا حصہ بنائے گا اور اسی چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا یہی معاملہ ہے تمام اعمال ایمان ہی کے دائرے میں آتے ہیں جیسا کہ بہت سی نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں اور امت کا اس پر اجماع ہے۔ پھر اس پر استمرار اور موت تک اس پر ثابت قدمی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُ٘نَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ (آل عمران : 3؍102) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔‘‘ یہاں ہمیں اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسولوں پر، قرآن کریم پر اور سابقہ کتب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ تمام تر، ایمان واجب میں سے ہیں جس کے بغیر کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا۔ جس چیز کے بارے میں تفصیل نہیں پہنچی اس پر اجمالاً ایمان لانا فرض ہے اور جہاں تفصیل معلوم ہے وہاں تفصیلاً ایمان لانا فرض ہے۔ جو کوئی اس مامور طریقے پر ایمان لاتا ہے وہی ہدایت پا کر فوزیاب ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّكْ٘فُ٘رْ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَؔكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰ٘لًۢا بَعِیْدًا ﴾ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے، تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا‘‘ یعنی ان لوگوں سے بھی کوئی بڑھ کر گمراہ ہو سکتا ہے جو ہدایت کی راہ راست کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس راستے پر چل نکلتے ہیں جو دردناک عذاب میں لے جاتا ہے؟ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان تمام امور میں سے کسی ایک کے ساتھ کفر گویا ان تمام امور کے ساتھ کفر ہے کیونکہ یہ تمام امور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر ایمان لانے سے بھی ایمان کا وجود ممتنع ہے۔
آیت: 137 #
ثم قال: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (137)}.
بے شک جو لوگ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا، پھر وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا، پھر زیادہ ہوگئے وہ کفر میں نہیں ہے اللہ کہ بخشے ان کو اور نہیں ہے کہ ہدایت دے ان کو راستے کی(137)
#
{137} أي: من تكرَّر منه الكفر بعد الإيمان؛ فاهتدى ثم ضلَّ، وأبصر ثم عمي، وآمن ثم كفر، واستمرَّ على كفره وازداد منه؛ فإنه بعيد من التوفيق والهداية لأقوم الطريق، وبعيدٌ من المغفرة لكونه أتى بأعظم مانع يمنعه من حصولها؛ فإنَّ كفره يكون عقوبةً وطبعاً لا يزول؛ كما قال تعالى: {فلما زاغوا أزاغ الله قلوبَهم}، {ونقلِّب أفئِدَتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمنوا به أوَّلَ مرةٍ}. ودلَّت الآية أنَّهم إن لم يزدادوا كفراً بل رجعوا إلى الإيمان، وتركوا ما هم عليه من الكفران؛ فإن الله يغفر لهم، ولو تكرَّرت منهم الردَّة، وإذا كان هذا الحكم في الكفر؛ فغيرُهُ من المعاصي التي [دونه] من باب أولى؛ أنَّ العبد لو تكررت منه ثم عاد إلى التوبة؛ عاد الله له بالمغفرة.
[137] یعنی جو کوئی ایمان لانے کے بعد بتکرار کفر کرتا رہا، ہدایت کا راستہ اختیار کیا، پھر گمراہ ہو گیا پھر ایمان لایا۔ پھر اندھا ہو گیا پھر ایمان لے آیا پھر کفر کیا اور اپنے کفر پر قائم رہا بلکہ اپنے کفر میں بڑھتا رہا۔ تو وہ توفیق اور راہ راست سے بہت دور اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے بہت بعید ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا جو مغفرت کے لیے سب سے بڑا مانع ہے۔ اس لیے کہ اس کا کفر اس کے لیے سزا اور اس کی طبیعت بن جاتا ہے جو کبھی زائل نہیں ہوتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ (الصف : 61؍5) ’’جب وہ کج رو ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام : 6؍110) ’’ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے اور جس طرح وہ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر ایمان نہ لائیں گے)۔‘‘ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ اپنے کفر میں بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ وہ ایمان کی طرف لوٹ آئیں اور کفر کے رویے کو ترک کر دیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا خواہ بار بار ان سے ارتداد کا ارتکاب ہوا ہو اور جب کفر کے مقابلے میں یہ حکم ہے تو دیگر گناہ جو کفر سے کم تر ہیں وہ بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ اگر بندے سے ان گناہوں کا تکرار ہو اور وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ ان کے یہ گناہ بخش دے۔
آیت: 138 - 139 #
{بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (138) الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (139)}.
بشارت دے دیجیے منافقین کو اس بات کی کہ تحقیق ان کے لیے عذاب ہے بہت دردناک(138) جو لوگ بناتے ہیں کافروں کو دوست سوائے مومنوں کے، کیا تلاش کرتے ہیں وہ ان کے پاس عزت؟ پس بے شک عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے ساری(139)
#
{138} البشارة تستعمل في الخير، وتستعمل في الشر بقيدٍ؛ كما في هذه الآية. يقول تعالى: {بشِّر المنافقين}؛ أي: الذين أظهروا الإسلام وأبطنوا الكفر بأقبح بشارةٍ وأسوئها، وهو العذاب الأليم، وذلك بسبب محبَّتهم الكفار وموالاتهم ونصرتهم وتركهم لموالاة المؤمنين؛ فأيُّ شيءٍ حملهم على ذلك؟! أيبتغون عندهم العِزَّة؟! وهذا هو الواقع من أحوال المنافقين، ساء ظنُّهم بالله، وضَعُفَ يقينُهم بنصر الله لعبادِهِ المؤمنين، ولحظوا بعض الأسباب التي عند الكافرين، وقصر نظرُهم عما وراء ذلك، فاتَّخذوا الكافرين أولياء يتعزَّزون بهم ويستنصِرون، والحال أنَّ العزَّة لله جميعاً؛ فإنَّ نواصي العباد بيدِهِ ومشيئته نافذةٌ فيهم، وقد تكفَّل بنصر دينِهِ وعبادِهِ المؤمنين، ولو تخلَّل ذلك بعض الامتحان لعباده المؤمنين وإدالة العدوِّ عليهم إدالةً غير مستمرة؛ فإن العاقبة والاستقرار للمؤمنين. وفي هذه الآية الترهيب العظيم من موالاة الكافرين وترك موالاة المؤمنين، وأنَّ ذلك من صفات المنافقين، وأنَّ الإيمان يقتضي محبَّة المؤمنين وموالاتهم وبُغض الكافرين وعداوَتِهم.
[139,138] ’’بشارت‘‘ کا لفظ خیر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور شر کے معنوں میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کسی قید سے مقید ہو۔ جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے۔ ﴿ بَشِّ٘رِ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’منافقوں کو بشارت سنادو۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اسلام ظاہر کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں کفر کو چھپائے ہوئے ہیں انھیں بدترین بشارت سنا دیجیے۔ اور وہ ہے دردناک عذاب کی بشارت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ کفار سے محبت کرتے ہیں، ان سے موالات رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اہل ایمان سے ترک موالات کرتے ہیں۔ کس چیز نے انھیں اس رویے پر آمادہ کیا؟ کیا یہ ان کے پاس عزت کے متلاشی ہیں؟ یہ منافقین کے احوال تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی کا شکار تھے۔ ان کا یقین اس بارے میں بہت کمزور تھا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد فرمائے گا وہ بعض ان اسباب کو دیکھ رہے تھے جو کفار کو میسر تھے اور اس سے آگے دیکھنے سے ان کی نظر قاصر تھی۔ پس انھوں نے کفار کو اپنا دوست اور ولی و مددگار بنا لیا جن سے یہ مدد طلب کرتے ہیں اور جن کے پاس یہ عزت ڈھونڈتے ہیں۔ حالانکہ تمام تر عزت کا مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ بندوں کی پیشانیاں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور ان میں اسی کی مشیت نافذ ہے۔ وہ اپنے دین اور اپنے مومن بندوں کی مدد کا ضامن ہے۔ اگرچہ وہ کبھی کبھی اہل ایمان کا امتحان لینے کے لیے یہ مدد چھوڑ دیتا ہے اور دشمن کو ان پر غلبہ دے دیتا ہے۔ مگر دشمن کی فتح اور کامیابی دائمی اور مستقل نہیں ہوتی۔ انجام کار، فتح اور کامیابی اہل ایمان ہی کی ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں کفار کے ساتھ موالات رکھنے اور اہل ایمان کے ساتھ موالات ترک کرنے پر زبردست ترہیب ہے۔ نیز بتایا گیا ہے کہ یہ منافقین کی صفات ہیں۔ ایمان تو اہل ایمان کے ساتھ محبت اور موالات اور کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔
آیت: 140 - 141 #
{وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا (140) الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ وَإِنْ كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا (141)}.
اور تحقیق نازل کیا ہے اس نے تم پر کتاب میں یہ کہ جب سنو تم آیتیں اللہ کی، کہ کفر کیا جارہا ہو ساتھ ان کے اور استہزاء کیا جارہا ہو ساتھ ان کے تو نہ بیٹھو تم ان کے ساتھ، یہاں تک کہ مشغول ہو جائیں وہ کسی اور بات میں اس کے علاوہ۔ بلاشبہ تم اس وقت ان جیسے ہی ہو گے تحقیق اللہ جمع کرنے والا ہے منافقوں اور کافروں کو جہنم میں سب کو(140) جو (منافق) انتظار کرتے ہیں تمھاری بابت، پھر اگر ہو تمھارے لیے فتح اللہ کی طرف سے تو کہتے ہیں کیا نہ تھے ہم تمھارے ساتھ؟ اور اگر ہو واسطے کافروں کے حصہ (غلبہ) تو کہتے ہیں کیا نہ غالب آنے لگے تھے ہم تم پراور (کیا نہ) بچایا تھا ہم نے تمھیں مسلمانوں سے؟ پس اللہ فیصلہ کرے گا تمھارے درمیان دن قیامت کےاور ہرگز نہیں کرے گا اللہ کافروں کے لیے اوپر مومنوں کے کوئی راہ (غلبے کی) (141)
#
{140} أي: وقد بيَّن الله لكم فيما أنزل عليكم حكمه الشرعيَّ عند حضور مجالس الكفر والمعاصي، {أن إذا سمعتُم آياتِ الله يُكْفَرُ بها ويستهزَأ بها}؛ أي: يُستهان بها، وذلك أن الواجب على كل مكلَّف في آيات الله الإيمانُ بها وتعظيمُها وإجلالها وتفخيمها، وهذا المقصود بإنزالها، وهو الذي خَلَقَ الله الخَلْق لأجله؛ فضدُّ الإيمان الكفر بها، وضدُّ تعظيمها الاستهزاء بها واحتقارها، ويدخل في ذلك مجادلة الكفار والمنافقين لإبطال آيات الله ونصر كفرهم، وكذلك المبتدعون على اختلاف أنواعهم؛ فإن احتجاجَهم على باطلهم يتضمَّن الاستهانة بآيات الله؛ لأنها لا تدل إلاَّ على الحقِّ ولا تستلزمُ إلاَّ صدقاً، بل وكذلك يدخل فيه حضور مجالس المعاصي والفسوق التي يُستهان فيها بأوامر الله ونواهيه، وتقتحم حدودُه التي حدَّها لعباده. ومنتهى هذا النهي عن القعود معهم {حتى يخوضوا في حديثٍ غيره}؛ أي: غير الكفر بآيات الله والاستهزاء بها. {إنَّكم إذاً}؛ أي: إن قعدتُم معهم في الحال المذكور {مثلُهم}: لأنكم رضيتُم بكفرِهم واستهزائِهِم، والراضي بالمعصية كالفاعل لها، والحاصل أنَّ مَن حَضَرَ مجلساً يُعصى الله به؛ فإنه يتعيَّن عليه الإنكار عليهم مع القدرة أو القيام مع عدمها. {إنَّ الله جامع المنافقين والكافرين في جهنَّم جميعاً}؛ كما اجتمعوا على الكفر والموالاة، ولا ينفع المنافقين مجرَّد كونِهم في الظاهر مع المؤمنين؛ كما قال تعالى: {يوم يقولُ المنافقون والمنافقاتُ للَّذين آمنوا انظُرونا نَقْتَبِسْ من نورِكم ... } إلى آخر الآيات.
[140] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب میں کفر اور معاصی کی مجالس میں موجود ہونے کی صورت میں اپنا شرعی حکم واضح کر دیا ہے۔ ﴿ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْ٘فَرُ بِهَا وَیُسْتَهْزَاُ بِهَا﴾ ’’کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جارہی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کی اہانت کی جا رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں ہر مکلف شخص پر فرض ہے کہ وہ ان پر ایمان لائے اور ان کی تعظیم و تکریم کرے۔ ان کو نازل کرنے کا یہی مقصد ہے اور اسی کی خاطر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام کائنات تخلیق کی ہے۔ پس ان پر ایمان لانے کی ضد ان کے ساتھ کفر کرنا، اور ان کی تعظیم و تکریم کی ضد ان کے ساتھ استہزاء اور ان کی تحقیر کرنا ہے۔ نیز اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ابطال کے لیے کفار و منافقین کا مجادلہ اور ان کی اپنے کفر کی تائید کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح ہر قسم کے بدعتی بھی داخل ہیں کیونکہ ان کا اپنے باطل نظریات کے لیے استدلال کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کی اہانت کو متضمن ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات حق کے سوا کسی چیز پر دلالت نہیں کرتیں اور صدق کے سوا کسی چیز کو مستلزم نہیں۔ اسی طرح اس حکم میں ان مجالس کی حاضری بھی شامل ہے جن میں فسق و فجور اور معصیت کے کام ہوتے ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی اہانت ہوتی ہے اور اس کی حدود توڑی جاتی ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت کا منتہی ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﴾ ’’حتی کہ وہ اور باتیں کرنے لگیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزاء کے سوا کوئی اور بات کرنے لگیں ﴿اِنَّـكُمْ اِذًا﴾ ’’ورنہ تم بھی (ان ہی جیسے) ہوجاؤ گے۔‘‘ یعنی اگر تم آیت کریمہ میں مذکور حالت میں ان کے ساتھ بیٹھو گے ﴿ مِّؔثْلُهُمْ ﴾ ’’تو ان جیسے شمار ہو گے‘‘ کیونکہ تم ان کے کفر و استہزاء پر راضی تھے۔ کسی معصیت کے فعل پر راضی ہونا اس فعل کے ارتکاب کی مانند ہے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسی مجلس میں موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جا رہی ہو تو قدرت رکھتے ہوئے اس نافرمانی پر نکیر کرنا اور اس سے روکنا واجب ہے۔ اگر روکنے کی قدرت نہ ہو تو اس مجلس سے اٹھ کر چلا جانا ضروری ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ وَالْ٘كٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِيْعًا﴾ ’’یقینا اللہ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‘‘ جیسے وہ اس دنیا میں کفر و موالات پر مجتمع ہیں۔ منافقین کو، ان کا ظاہری طور پر اہل ایمان کے ساتھ ہونا، کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ یَوْمَ یَقُوْلُ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْ٘ظُ٘رُوْنَا نَ٘قْ٘تَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ١ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَؔكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًؔا١ؕ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَ٘ابٌؔ١ؕ بَ٘اطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُؕ۰۰ یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَؔكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَ٘رَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّؔكُمْ بِاللّٰهِ الْ٘غَرُوْرُ۰۰فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ١ؕ هِیَ مَوْلٰىكُمْ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ (الحدید : 57؍13۔15) ’’اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے، ٹھہرو! ہم بھی تمھارے نور سے روشنی حاصل کر لیں! ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا جس کے اندرونی جانب رحمت ہو گی اور بیرونی جانب عذاب، منافق پکار پکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں تم ہمارے ساتھ تو تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم حوادث زمانہ کے منتظر رہے، تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا، جھوٹی آرزوؤں نے تمھیں دھوکے میں مبتلا کیے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا اور تمھیں شیطان دھوکے باز دھوکہ دیتا رہا۔ آج تم سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا۔ تمھارا ٹھکانا جہنم ہے اور وہی تمھارا دوست ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
#
{141} ثم ذكر تحقيق موالاة المنافقين للكافرين ومعاداتهم للمؤمنين، فقال: {الذين يتربَّصون بكم}؛ أي: ينتظِرون الحالة التي تصيرون عليها، وتنتهون إليها من خيرٍ أو شرٍّ، قد أعدُّوا لكلِّ حالةٍ جواباً بحسب نفاقهم؛ {فإن كان لكم فتحٌ من الله قالوا ألم نكن معَكُم}؛ فيظهرون أنَّهم مع المؤمنين ظاهراً وباطناً؛ لِيَسْلَموا من القَدْح والطَّعْنِ عليهم ولِيُشْرِكوهم في الغنيمة والفيء ولينْتَصرُوا بهم. {وإن كان للكافرين نصيبٌ}: ولم يقلْ: فتحٌ؛ لأنه لا يحصل لهم فتحٌ يكون مبدأ لنصرتهم المستمرة، بل غايةُ ما يكون أن يكون لهم نصيبٌ غير مستقرٍّ حكمة من الله؛ فإذا كان ذلك؛ {قالوا ألم نستَحوِذْ عليكم}؛ أي: نستولي عليكم {ونمنَعْكم من المؤمنين}؛ أي: يتصنَّعون عندهم بكفِّ أيديهم عنهم مع القدرة، ومنعهم من المؤمنين بجميع وجوه المنع من تفنيدهم وتزهيدهم في القتال ومظاهرة الأعداء عليهم وغير ذلك مما هو معروفٌ منهم. {فاللهُ يحكمُ بينكم يوم القيامة}: فيجازي المؤمنين ظاهراً وباطناً بالجنة، ويعذِّب المنافقين والمنافقات والمشركين والمشركات. {ولَن يَجْعَلَ الله للكافرين على المؤمنين سبيلاً}؛ أي: تسلُّطاً واستيلاءً عليهم، بل لا تزال طائفة من المؤمنين على الحق منصورة، لا يضرهم من خذلهم ولا مَن خالفهم، ولا يزال الله يحدِثُ من أسباب النصر للمؤمنين ودفع تسليط الكافرين ما هو مشهودٌ بالعيان، حتى أنَّ بعض المسلمين الذين تحكمهم الطوائف الكافرة قد بقوا محترمين، لا يتعرَّضون لأديانهم ولا يكونون مستصغَرين عندهم، بل لهم العزُّ التامُّ من الله، فلله الحمد أولاً وآخراً وظاهراً وباطناً.
[141] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ منافقین کی کفار کے ساتھ موالات اور اہل ایمان کے ساتھ عداوت متحقق ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ﴾ ’’جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔‘‘ یعنی مستقبل میں تمھارے اچھے یا برے حالات کے منتظر ہیں انھوں نے اپنے نفاق کے مطابق ہر حالت کے بارے میں جواب تیار کر رکھا ہے ﴿ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَ٘تْ٘حٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَؔكُ٘نْ مَّعَكُمْ ﴾ ’’پھر اگر اللہ تمھیں فتح دے تو یہ کہتے ہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہیں تھے؟‘‘ وہ ظاہر کریں گے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ تھے تاکہ طعن و تشنیع سے بچ سکیں نیز فے اور مال غنیمت میں سے حصہ وصول کر سکیں اور ان کے ساتھ مل کر وہ محفوظ رہیں۔ ﴿ وَاِنْ كَانَ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ ﴾ ’’اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر کافروں کی فتح ہو کیونکہ ان کو ایسی فتح حاصل نہیں ہوتی جو ان کی دائمی نصرت کی ابتدا ہو۔ اگر ان کے لیے کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی انتہا یہ ہے کہ وہ عارضی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ چنانچہ جب یہ صورت حال ہوتی ہے ﴿ قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے‘‘ ﴿ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور تم کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا نہیں؟‘‘ یعنی وہ کفار کے پاس بناوٹ اور تصنع سے کام لے کر ان سے کہتے تھے کہ قدرت اور طاقت کے باوجود انھوں نے ان سے لڑائی نہیں کی اور ان کو مسلمانوں سے بچائے رکھا اور وہ ہر لحاظ سے جنگ کے لیے گھر سے نکلنے سے رکے رہے، لڑائی سے گریز کرتے رہے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے۔ اور ان کے بارے میں یہ تمام امور معروف ہیں۔ ﴿ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ کرے گا‘‘ اور اہل ایمان کو، ظاہری اور باطنی طور پر، بدلے میں جنت عطا کرے گا اور منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ﴿ وَلَ٘نْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَلَى الْ٘مُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾ ’’اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔‘‘ یعنی اللہ کفار کو اہل ایمان پر کبھی تسلط اور غلبہ عطا نہیں کرے گا، بلکہ اہل ایمان کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ اللہ اس جماعت کی مدد کرے گا، جو ان سے علیحدہ ہو گا اور ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکے گا۔ اہل ایمان کی فتح و نصرت کے اسباب پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ اور کفار کا تسلط ختم ہوتا چلا جائے گا اور اس کا واضح طور پر مشاہدہ ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان، جن پر کفار حکومت کرتے ہیں وہ ان کے ہاں قابل احترام ہیں وہ ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کرتے وہ ان کے ہاں کمزور اور ماتحت بن کر نہیں رہتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پوری عزت عطا کی گئی ہے۔ اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے۔
آیت: 142 - 143 #
{إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا (142) مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (143)}.
بلاشبہ منافق فریب دیتے ہیں اللہ کو اور وہ (بھی) فریب دینے والا ہے ان کواور جب کھڑے ہوتے ہیں طرف نماز کی تو کھڑے ہوتے ہیں کاہلی سے، دکھلاتے ہیں لوگوں کو اور نہیں یاد کرتے اللہ کو مگر بہت تھوڑا(142) متردد ہیں درمیان اس (کفرو ایمان) کے، نہ ان کی طرف اور نہ ان کی طرف اور جس کو گمراہ کرے اللہ، پس ہرگز نہیں پائیں گے آپ اس کے لیے کوئی راہ(143)
#
{142} يخبر تعالى عن المنافقين بما كانوا عليه من قبيح الصفات وشنائع السمات، وأن طريقَتَهم مخادعة الله تعالى؛ أي: بما أظهروه من الإيمان، وأبطنوه من الكفران؛ ظنُّوا أنه يروجُ على الله ولا يعلمه ولا يُبديه لعباده، والحال أنَّ الله خادِعُهم؛ فمجرَّد وجود هذه الحال منهم ومشيهم عليها خداعٌ لأنفسهم، وأيُّ خداع أعظمُ ممَّن يسعى سعياً يعود عليه بالهوانِ والذُّلِّ والحرمانِ، ويدلُّ بمجرَّده على نقص عقل صاحبه؛ حيث جمع بين المعصية ورآها حسنةً وظنَّها من العقل والمكر؟! فلله ما يصنع الجهلُ والخِذلانُ بصاحبه! ومن خداعه لهم يوم القيامة ما ذَكَرَهُ الله في قوله: {يوم يقول المنافقون والمنافقات للذين آمنوا انظُرونا نَقْتَبِسْ من نورِكُم قيلَ ارجِعوا وراءكم فالْتَمِسوا نوراً فضُرِبَ بينَهم بسورٍ له بابٌ باطِنُهُ فيه الرحمةُ وظاهرهُ من قِبَلِهِ العذابُ ينادونهم ألم نكن معكم ... } إلى آخر الآيات. ومن صفاتِهم أنَّهم {إذا قاموا إلى الصلاة} إن قاموا، التي هي أكبر الطاعات العملية {قاموا كسالى}: متثاقلين لها متبَرِّمين من فعلها، والكسل لا يكون إلاَّ مِن فَقْدِ الرغبة من قلوبهم؛ فلولا أنَّ قلوبهم فارغةٌ من الرغبة إلى الله وإلى ما عنده عادمةٌ للإيمان؛ لم يصدر منهم الكسل. {يراؤون الناس}؛ أي: هذا الذي انطوت عليه سرائرُهُم، وهذا مصدرُ أعمالهم، مراءاة الناس، يقصِدون رؤية الناس وتعظيمَهم، واحترامَهم، ولا يُخلصِون لله؛ فلهذا {لا يذكرونَ الله إلا قليلاً}؛ لامتلاء قلوبِهِم من الرِّياء؛ فإنَّ ذكر الله تعالى وملازمته لا يكون إلاَّ من مؤمن ممتلئٍ قلبُه بمحبَّة الله وعظمته.
[142] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی قبیح صفات اور مکروہ علامات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ ان کا طریق اللہ کو فریب دینا ہے یعنی بظاہر وہ مومن ہیں مگر باطن میں کافر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے دیں گے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کرتوتوں کا علم نہیں اور وہ ان کا دھوکا اپنے بندوں پر ظاہر نہیں کرے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ خود ان کو دھوکے میں مبتلا کر رہا ہے۔ ان کا مجرد یہ حال ہونا اور اس راستے پر گامزن رہنا ان کا اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے بھلا اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص پوری دوڑ دھوپ کرے مگر اس کا ماحصل رسوائی، ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہ چیز اس شخص کی کم عقلی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے نیکی خیال کرتا ہے اور اسے بڑی عقل مندی اور چال بازی سمجھتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جہالت اور خذلان اسے کس انجام پر پہنچائیں گے۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دھوکہ یہ ہو گا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے ﴿ یَوْمَ یَقُوْلُ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْ٘ظُ٘رُوْنَا نَ٘قْ٘تَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ١ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَؔكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًؔا١ؕ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَ٘ابٌؔ١ؕ بَ٘اطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُؕ۰۰ یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَؔكُنْ مَّعَكُمْ …﴾ (الحدید : 57؍13) ’’اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے ٹھہرو ہم بھی تمھارے نور سے روشنی حاصل کر لیں، ان سے کہا جائے گا پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا جس کے اندرونی جانب رحمت ہو گی اور بیرونی جانب عذاب۔ منافق پکار پکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے؟‘‘ ان منافقین کی صفات یہ ہیں ﴿ وَاِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ نماز جو کہ سب سے بڑی عملی نیکی ہے۔ اگر وہ نماز کے لیے کھڑے ہو ہی جاتے ہیں ﴿ قَامُوْا كُسَالٰى ﴾ ’’تو سست ہوکر۔‘‘ یعنی بوجھل پن کے ساتھ تنگ دل اور زچ ہو کر اٹھتے ہیں۔ ’’کاہلی‘‘ کا اطلاق ان پر تب ہوتا ہے جب ان کے دلوں میں رغبت کا فقدان ہو، اگر انکے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب کی طرف رغبت سے خالی نہ ہوتے اور ان میں ایمان معدوم نہ ہوتا تو ان سے سستی اور کسل مندی کبھی صادر نہ ہوتی۔ ﴿ یُرَؔآءُوْنَ النَّاسَ ﴾ ’’لوگوں کے دکھانے کو۔‘‘ یعنی یہ ان کی فطرت ہے اور یہی ان کے اعمال کا مصدر ہے۔ ان کے اعمال لوگوں کے دکھاوے کے لیے ہیں انکا مقصد محض ریاکاری اور لوگوں سے تعظیم اور احترام حاصل کرنا ہے۔ اپنے اعمال کو اللہ کے لیے خالص نہیں کرتے۔ لہٰذا فرمایا: ﴿ وَلَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم۔‘‘ کیونکہ ان کے دل ریا سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا التزام صرف مومن ہی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت سے لبریز ہے۔
#
{143} {مذبذبين بين ذلك لا إلى هؤلاء ولا إلى هؤلاء}؛ أي: متردِّدين بين فريق المؤمنين وفريق الكافرين، فلا من المؤمنين ظاهراً وباطناً ولا من الكافرين ظاهراً وباطناً، أعطوا باطِنَهم للكافرين وظاهِرَهم للمؤمنين، وهذا أعظم ضلال يُقدَّر، ولهذا قال: {ومن يُضْلِل الله فلن تجد له سبيلاً}؛ أي: لن تجد طريقاً لهدايته ولا وسيلةً لترك غوايتِهِ؛ لأنَّه انغلق عنه بابُ الرحمة، وصار بَدَله كل نقمةٍ؛ فهذه الأوصاف المذمومة تدلُّ بتنبيهها على أنَّ المؤمنين متَّصفون بضدِّها من الصدق ظاهراً وباطناً والإخلاص، وأنَّهم لا يُجْهَلُ ما عندهم، ونشاطهم في صلاتهم وعباداتهم وكَثْرَةُ ذِكْرِهم لله تعالى، وأنَّهم قد هداهم الله ووفَّقهم للصراط المستقيم، فليعرِض العاقل نفسَه على هذين الأمرين، وليخترْ أيَّهما أولى به، والله المستعان.
[143] ﴿ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَلَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ ﴾ ’’بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ ان کی طرف (ہوتے ہیں) نہ ان کی طرف۔‘‘ یعنی وہ اہل ایمان اور کفار کے گروہوں کے درمیان متذبذب اور متردد ہیں۔ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ ہیں نہ کفار کے ساتھ۔ انھوں نے اپنا باطن کفار کو عطا کر رکھا ہے اور ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ اور یہ سب سے بڑی گمراہی ہے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَ٘نْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا ﴾ ’’اور جس کو اللہ بھٹکائے تو آپ اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہیں پائیں گے۔‘‘ یعنی آپ اس کی ہدایت کا کوئی راستہ اور اس کو گمراہی سے بچانے کے لیے کوئی وسیلہ نہیں پائیں گے کیونکہ اس پر رحمت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اس کی رحمت کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب و انتقام اس کا نصیب بن چکا ہے۔ یہ تمام مذموم اوصاف اشارتاً دلالت کرتے ہیں کہ اہل ایمان ان کی متضاد صفات سے متصف ہیں اور وہ ہیں ظاہر و باطن میں صدق اور اخلاص۔ انھیں اپنی نمازوں، عبادات اور کثرت ذکر الٰہی میں جو نشاط حاصل ہوتا ہے وہ سب معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت عطا کی اور صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ پس ایک عقل مند شخص کو چاہیے کہ وہ ان دو امور پر غور کرے اور جو اس کے لیے بہتر ہے اسے اختیار کر لے۔ واللہ المستعان۔
آیت: 144 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا (144)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ تم کافروں کو دوست سوائے مومنوں کے، کیا چاہتے ہو تم یہ کہ (ثابت) کرو اللہ کے لیے اپنے خلاف حجت ظاہر؟(144)
#
{144} لما ذكر أنَّ من صفات المنافقين اتِّخاذ الكافرين أولياء من دون المؤمنين؛ نهى عبادَهُ المؤمنين أن يتَّصفوا بهذه الحالة القبيحة، وأن يُشابهوا المنافقين؛ فإنَّ ذلك موجب لأن {تجعلوا لله عليكم سلطاناً مبيناً}؛ أي: حجة واضحةً على عقوبتكم؛ فإنه قد أنذرنا وحذَّرنا منها، وأخبرنا بما فيها من المفاسد؛ فسلوكها بعد هذا موجب للعقاب. و [في] هذه الآية دليل على كمال عدل الله، وأنَّ الله لا يعذِّب أحداً قبل قيام الحجة عليه. وفيها التحذير من المعاصي؛ فإنَّ فاعِلَها يجعل لله عليه سلطاناً مبيناً.
[144] چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے منافقین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو دوست بناتے ہیں۔ اس لیے اس نے اپنے مومن بندوں کو اس قبیح حالت سے متصف ہونے سے روکا ہے۔ نیز انھیں منافقین کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ تمھارا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو حجت فراہم کرے گا فرمایا: ﴿ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّؔبِیْنًا ﴾ ’’یہ کہ تم اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو۔‘‘ یعنی تمھیں عذاب دینے کے لیے یہ واضح دلیل ہو گی۔ کیونکہ ہم تمھیں اس رویے سے ڈرا چکے ہیں اور تمھیں اس سے بچنے کی تلقین کر چکے ہیں اور اس میں جو مفاسد پنہاں ہیں ان سے آگاہ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسی راہ پر چلنا عذاب کا موجب ہو گا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل پر دلالت کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قانون پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت قائم کرنے سے پہلے کسی کو سزا نہیں دے گا اور اس میں گناہوں سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کو واضح دلیل فراہم کرتا ہے۔
آیت: 145 - 147 #
{إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (145) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (146) مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (147)}.
بلاشبہ منافقین سب سے نچلے درجے میں ہوں گے آگ کے اور ہرگز نہیں پائیں گے آپ ان کے لیے کوئی مددگار(145) سوائے ان کے جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور مضبوط پکڑا اللہ (کے دین) کو اور خالص کر لیا اپنا دین اللہ کے لیے، پس یہ لوگ ساتھ ہوں گے مومنوں کےاور عنقریب دے گا اللہ مومنوں کو اجر بہت بڑا(146) کیا کرے گا اللہ تمھیں عذاب دے کر اگر شکر کرو تم اور ایمان لے آؤ تم؟ اور ہے اللہ قدر دان خوب جاننے والا(147)
#
{145} يخبرُ تعالى عن مآل المنافقين أنَّهم في أسفل الدَّرَكات من العذاب وأشرِّ الحالات من العقاب؛ فهم تحت سائر الكفار؛ لأنَّهم شاركوهم بالكفرِ بالله ومعاداة رسله، وزادوا عليهم المكرَ والخديعةَ والتمكُّن من كثير من أنواع العداوة للمؤمنين على وجه لا يُشْعَرُ به ولا يحسُّ، ورتَّبوا على ذلك جريان أحكام الإسلام عليهم واستحقاق ما لا يستحقُّونه؛ فبذلك ونحوه استحقُّوا أشدَّ العذاب، وليس لهم منقذ من عذابه ولا ناصرٌ يدفع عنهم بعض عقابه.
[145] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے انجام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ وہ تمام کفار کے نیچے ہوں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے اور رسول اللہeکی عداوت میں کفار کے ساتھ شریک تھے مزید برآں وہ مکر و فریب اور اہل ایمان کے ساتھ مختلف اقسام کی عداوت رکھتے تھے اور یہ عداوت اس طرح رکھتے تھے کہ وہ محسوس نہیں ہوتی تھی بنابریں ان پر اسلام کے احکام جاری ہوتے تھے اور اس بنیاد پر وہ اپنا استحقاق ظاہر کرتے تھے حالانکہ وہ اس کے مستحق نہ تھے۔ پس اس قسم کے مکرو فریب اور ہتھکنڈوں کی بنا پر سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ کوئی ہستی ان کو اس عذاب سے بچا سکے گی نہ کوئی مددگار اس عذاب کو ان سے دور کر سکے گا۔
#
{146} وهذا عامٌّ لكل منافق؛ إلاَّ مَن مَنَّ الله عليهم بالتوبة من السيئات. {وأصلحوا}: له الظواهر والبواطن. واعتصموا به والتجؤوا إليه في جلب منافعهم ودفع المضار عنهم، {وأخلصوا دينهم}: الذي هو الإسلامُ والإيمان والإحسان {لله}: فقصدوا وجهَ الله بأعمالهم الظاهرة والباطنة، وسلِموا من الرياء والنفاق؛ فمن اتَّصف بهذه الصفات {فأولئك مع المؤمنين}؛ أي: في الدُّنيا والبرزخ ويوم القيامة، {وسوف يؤت الله المؤمنينَ أجراً عظيماً}: لا يعلمُ كُنْهَهُ إلا الله، مما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر. وتأمَّل كيف خصَّ الاعتصام والإخلاص بالذِّكر مع دخولهما في قوله: {وأصلحوا}؛ لأنَّ الاعتصام والإخلاص من جملة الإصلاح؛ لشدَّة الحاجة إليهما، خصوصاً في هذا المقام الحرج، الذي تمكَّن من القلوبِ النفاقُ، فلا يزيله إلاَّ شدة الاعتصام بالله ودوام اللجأ والافتقار إليه في دفعه، وكون الإخلاص منافٍ كل المنافاة للنفاق، فذكرهما لفضلِهما وتوقُّف الأعمال الظاهرة والباطنة عليهما ولشدَّة الحاجة في هذا المقام إليهما. وتأمَّل كيف لما ذكر أنَّ هؤلاء مع المؤمنين؛ لم يقل: وسوف يؤتيهم أجراً عظيماً، مع أن السياق فيهم، بل قال: {وسوف يؤتي الله المؤمنين أجراً عظيماً}؛ لأنَّ هذه القاعدة الشريفة لم يزل الله يبدئ فيها ويعيد إذا كان السياق في بعض الجزئيات، وأراد أن يترتب عليه ثواباً أو عقاباً، وكان ذلك مشتركاً بينه وبين الجنس الداخل فيه؛ رتَّب الثواب في مقابلة الحكم العام الذي تندرج تحته تلك القضية وغيرها، ولئلاَّ يُتَوَهَّم اختصاصُ الحكم بالأمرِ الجزئيِّ؛ فهذا من أسرار القرآن البديعة؛ فالتائبُ من المنافقين مع المؤمنين وله ثوابُهم.
[146] یہ عذاب ہر منافق کے لیے عام ہے سوائے ان کے جن کو اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کی توفیق سے نواز دے ﴿ وَاَصْلَحُوْا ﴾ ’’اور وہ (اپنے ظاہر و باطن کی) اصلاح کر لیں۔‘‘ ﴿ وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ (کی رسی) کو مضبوط پکڑلیں۔‘‘ اپنے منافع کے حصول اور ضرر کے دفعیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیں ﴿ وَاَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ ﴾ ’’اور اپنے دین کو خالص کر لیں‘‘ یہاں دین سے مراد اسلام، ایمان اور احسان ہے ﴿ لِلّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے لیے‘‘ یعنی ظاہری اور باطنی اعمال میں ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو نیز ریا اور نفاق سے بچے ہوئے ہوں۔ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ﴾ وہی دنیا، برزخ اور آخرت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوں گے ﴿ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ عنقریب مومنوں کو بڑا ثواب دے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ عنقریب اہل ایمان کو ایسے اجر سے نوازے گا جس کی حقیقت و ماہیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ غور کیجیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’اعتصام باللہ‘‘ اور ’’اخلاص‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے حالانکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وَاَصْلَحُوْا) میں داخل ہیں کیونکہ ’’اِعْتِصَام بِاللہِ‘‘ اور ’’اِخْلَاص‘‘ اصلاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح میں ان دو امور کی سخت ضرورت ہے۔ خاص طورپر یہ مقام حرج جہاں دلوں میں نفاق جڑ پکڑ لیتا ہے.... اور نفاق کو صرف اعتصام باللہ، اللہ کے پاس پناہ لینے، اور اس کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجت پیش کر کے ہی زائل کیا جا سکتا ہے اخلاص ہر لحاظ سے پوری طرح نفاق کے منافی ہے۔ اخلاص اور اعتصام کی فضیلت کی بنا پر ان کا تذکرہ کیا ہے، تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا دار و مدار انھی دو امور پر ہے کیونکہ اس مقام پر ان دونوں امور کی سخت حاجت ہوتی ہے۔ اس امر پر بھی غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان کا ذکر کیا تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے یہ نہیں فرمایا (وَسَوْفَ یُؤْتِیْھِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا) بلکہ فرمایا ﴿ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدۂ شریف ہے جس کا وہ ہمیشہ اعادہ کرتا رہا ہے کہ جب کلام کا سیاق بعض جزئیات کے بارے میں ہو اور اللہ تعالیٰ ان جزئیات پر ثواب یا عقاب مرتب کرنا چاہتا ہو اور جس جنس میں یہ جزئیات داخل ہیں عذاب یا عقاب ان میں مشترک ہو۔ تو وہ عام حکم کے مقابلہ میں، جس کے تحت یہ قضیہ مندرج ہے ثواب مرتب کرتا ہے تاکہ اس جزوی امر کے ساتھ حکم کا اختصاص متوہم نہ ہو یہ قرآن کریم کے اسرار و بدائع ہیں۔ پس منافقین میں سے اپنے نفاق سے توبہ کرنے والا شخص اہل ایمان کے ساتھ ہو گا اور اسے بھی اہل ایمان والا ثواب ملے گا۔
#
{147} ثم أخبر تعالى عن كمال غِناه وسَعَةِ حلمه ورحمته وإحسانه، فقال: {ما يفعلُ الله بعذابِكُم إن شَكَرْتُم وآمنتم}: والحالُ أنَّ الله شاكرٌ عليمٌ، يعطي المتحمِّلين لأجلِهِ الأثقال، الدَّائبين في الأعمال، جزيل الثواب وواسعَ الإحسان، ومن تَرَكَ شيئاً لله؛ أعطاه الله خيراً منه، ومع هذا يعلم ظاهِرَكم وباطِنَكم وأعمالكم وما تصدُرُ عنه من إخلاص وصدقٍ وضدِّ ذلك، وهو يريد منكم التوبة والإنابة والرجوع إليه؛ فإذا أنبتُم إليه؛ فأيُّ شيءٍ يفعل بعذابكم؛ فإنَّه لا يتشفَّى بعذابكم ولا ينتفع بعقابِكم، بل العاصي لا يضرُّ إلاَّ نفسه؛ كما أنَّ عمل المطيع لنفسِهِ، والشكر هو خضوعُ القلب، واعترافُه بنعمة الله، وثناءِ اللسان على المشكور، وعمل الجوارح بطاعتِهِ، وأن لا يستعينَ بنعمه على معاصيه.
[147] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال غنا، وسعت حلم و رحمت اور احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ﴾ ’’اگر تم (اللہ کے) شکر گزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔‘‘ اور حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قدر شناس اور علم رکھنے والا ہے۔ وہ اپنے راستے میں بوجھ اٹھانے والوں اور اعمال میں مشقت برداشت کرنے والوں کو بہت زیادہ ثواب اور بے پایاں احسان سے نوازے گا۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ وہ ظاہر و باطن اور تمھارے اعمال کو جانتا ہے۔ وہ ان اعمال کا بھی علم رکھتا ہے جو صدق و اخلاص سے صادر ہوتے ہیں اور ان اعمال کا بھی علم رکھتا ہے جو ان کی ضد ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم توبہ اور انابت کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرو۔ اور جب تم اس کی طرف رجوع کرو گے تو وہ تمھیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ وہ تشفی حاصل کرنے کے لیے تمھیں عذاب اور کسی فائدے کے حصول کی خاطر تمھیں عقاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ معاصی کا ارتکاب کرنے والا اپنے آپ ہی کو نقصان دیتا ہے جیسے اطاعت کرنے والے کا عمل صرف اس کی ذات کے لیے ہے۔ شکر دل کے خضوع، اس کے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرنے اور زبان سے مشکور کی مدح و ثنا بیان کرنے کا نام ہے۔ نیز شکر یہ ہے کہ جوارح مشکور کی اطاعت کے اعمال میں مصروف ہوں اور وہ منعم و مشکور کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔
آیت: 148 - 149 #
{لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا (148) إِنْ تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا (149)}.
نہیں پسند کرتا اللہ اونچی آواز سے برائی کی بات کرنے کو مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور ہے اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا(148) اگر تم علانیہ کرو کوئی بھلائی یا خفیہ کرو اسے یا معاف کر دو برائی کو تو اللہ (بھی) ہے بہت معاف کرنے والا بڑی قدرت والا(149)
#
{148} يخبر تعالى أنه لا يحبُّ الجهر بالسوء من القول؛ أي: يبغض ذلك ويمقُتُه ويعاقبُ عليه، ويشمل ذلك جميع الأقوال السيئة التي تسوء وتحزن؛ كالشتم والقذف والسَّبِّ ونحو ذلك؛ فإن ذلك كلَّه من المنهيِّ عنه الذي يبغضُه الله، ويدلُّ مفهومها أنه يحبُّ الحسن من القول؛ كالذِّكر والكلام الطيب الليِّن. وقوله: {إلَّا من ظُلم}؛ أي: فإنه يجوز له أن يَدْعُوَ على من ظَلَمَهُ ويشتكي منه ويجهر بالسُّوء لمن جَهَرَ له به من غير أن يكذِبَ عليه ولا يزيدُ على مظلمتِهِ ولا يتعدَّى بشتمه غير ظالمه، ومع ذلك؛ فعفوُهُ وعدم مقابلته أولى؛ كما قال تعالى: {فمن عفا وأصْلَحَ فأجرُهُ على الله}، {وكان الله سميعاً عليماً}. ولما كانت الآية قد اشتملت على الكلام السيئ والحسن والمباح؛ أخبر تعالى أنه سميع، فيسمع أقوالكم؛ فاحذروا أن تتكلَّموا بما يغضب ربَّكم فيعاقبكم [على ذلك]، وفيه أيضاً ترغيب على القول الحسن. عليمٌ بنيَّاتكم ومصدر أقوالكم.
[148] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اعلانیہ بری بات کہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض ہوتا ہے اور اس پر سزا دیتا ہے۔ اس میں وہ تمام برے اقوال شامل ہیں جو تکلیف دہ اور صدمہ پہنچاتے ہیں ، مثلاً: گالی گلوچ، قذف اور سب و شتم کرنا۔ اس لیے کہ ایسے تمام اقوال سے منع کیا گیا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اچھی بات کو پسند کرتا ہے ، مثلاً: ذکر الٰہی، اچھا اور نرم پاکیزہ کلام، وغیرہ۔ ﴿ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ﴾ ’’مگر وہ جو مظلوم ہو۔‘‘ یعنی جس شخص پر ظلم کیا گیا ہو وہ ظلم کرنے والے کے لیے بد دعا کر سکتا ہے، شکایت کر سکتا ہے اور اس شخص کو اعلانیہ بری بات کہہ سکتا ہے جس نے اعلانیہ بری بات کہی ہے، البتہ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس پر بہتان لگائے یا اس کے ظلم سے بڑھ کر زیادتی کرے یا ظالم کے علاوہ کسی اور کو گالی وغیرہ دے۔ بایں ہمہ معاف کر دینا اور ظلم و زیادتی میں مقابلہ نہ کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (الشوری: 42؍40) ’’پس جس کسی نے معاف کر دیا اور اصلاح کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا﴾ ’’اور اللہ (سب کچھ) سنتا، جانتا ہے۔‘‘ چونکہ آیت کریمہ برے، اچھے اور مباح کلام کے احکام پر مشتمل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ وہ سننے والا ہے، تمھارے اقوال سنتا ہے اس لیے ایسی بات کہنے سے بچو جو تمھارے رب کی ناراضی کا باعث بنے اور وہ تمھیں سزا دے۔ اس آیت کریمہ میں اچھی بات کہنے کی بھی ترغیب ہے ﴿ عَلِیْمًا ﴾ وہ تمھاری نیتوں اور تمھارے اقوال کے مصدر کو جانتا ہے۔
#
{149} ثم قال تعالى: {إن تُبْدوا خيراً أو تُخْفوه}: وهذا يشمل كلَّ خير قوليٍّ وفعليٍّ ظاهر وباطن من واجب ومستحب، {أو تعفوا عن سوءٍ}؛ أي: عمَّن ساءكم في أبدانكم وأموالِكم وأعراضِكم فتسمَحوا عنه؛ فإنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فمن عفا لله؛ عفا الله عنه. ومن أحسن؛ أحسن الله إليه؛ فلهذا قال: {فإنَّ الله كان عفوًّا قديراً}؛ أي: يعفو عن زَلاَّت عباده وذنوبهم العظيمة، فيسدِلُ عليهم سِتْرَه، ثم يعاملهم بعفوِهِ التامِّ الصادر عن قدرته. وفي هذه الآية إرشادٌ إلى التفقه في معاني أسماء الله وصفاته، وأنَّ الخلق والأمر صادرٌ عنها، وهي مقتضية له ولهذا يعلل الأحكام بالأسماء الحسنى كما في هذه الآية، لما ذكر عمل الخير والعفو عن المسيء، رتَّب على ذلك بأن أحالنا على معرفة أسمائِهِ، وأنَّ ذلك يُغنينا عن ذِكْرِ ثوابها الخاص.
[149] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ ﴾ ’’اگر تم بھلائی کھلم کھلا کرو گے یا چھپا کر۔‘‘ یہ قولی و فعلی، ظاہری و باطنی ، واجب و مستحب ہر بھلائی کو شامل ہے۔ ﴿اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ ﴾ ’’یا برائی سے درگزر کروگے۔‘‘ یعنی وہ شخص جو تمھارے بدن، تمھارے اموال اور تمھاری عزت و ناموس کے معاملے میں تمھارے ساتھ برا سلوک کرے تم اسے معاف کر دو کیونکہ عمل کی جزا عمل کی جنس ہی سے ہوتی ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے جو کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا ﴾ ’’تو اللہ بھی معاف کرنے والا صاحب قدرت ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے بندوں کی لغزشوں اور ان کے بڑے بڑے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ان کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کامل عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے ان سے معاملہ کرتا ہے۔ جو اس کی قدرت کاملہ سے صادر ہوتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معانی میں تدبر و تفکر کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ خلق و امر ان اسماء و صفات سے صادر ہوتے ہیں اور یہ اسماء و صفات خلق و امر کا تقاضا کرتے ہیں ۔ بنابریں اسمائے حسنی کو احکام کی علت بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عمل اور برا سلوک کرنے والے کو معاف کر دینے کا ذکر کیا ہے اس لیے اس نے اس پر یہ امر مرتب فرمایا کہ اس نے اپنے اسماء کی معرفت کو ہمارا مدار بنا دیا اور یہ چیز ہمیں ان اسماء حسنی کے ثواب خاص کے ذکر سے مستغنی کرتی ہے۔
آیت: 150 - 152 #
{إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (151) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (152)}.
بے شک جو کفر کرتے ہیں ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے اور چاہتے ہیں وہ کہ تفریق کریں درمیان اللہ اور اس کے رسولوں کے اور کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں ساتھ بعض کے اور کفر کرتے ہیں ساتھ بعض کے اور وہ چاہتے ہیں کہ اختیار کریں درمیان اس کے کوئی راہ(150) یہ لوگ، وہی ہیں کافر اصل اور ہم نے تیار کیا ہے واسطے کافروں کے عذاب رسواکن(151) اور جو لوگ ایمان لائے ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے اور نہیں تفریق کی انھوں نے درمیان کسی ایک کے ان میں سے یہ لوگ ہیں جلد دے گا ان کو (اللہ) اجر ان کے اور ہے اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان(152)
#
{150} هنا قِسْمان قد وَضَحا لكلِّ أحد: مؤمن بالله وبرسله كلِّهم وكتبه، وكافرٌ بذلك كلِّه. وبقي قسم ثالثٌ: وهو الذي يزعم أنه يؤمن ببعض الرسل دون بعض، وأنَّ هذا سبيلٌ ينجيه من عذاب الله، إن هذا إلاَّ مجرَّد أماني؛ فإنَّ هؤلاء يريدون التفريق بين الله وبين رسله؛ فإنَّ من تولَّى الله حقيقة؛ تولَّى جميع رسله؛ لأن ذلك من تمام تولِّيه، ومن عادى أحداً من رسله؛ فقد عادى الله وعادى جميع رسله؛ كما قال تعالى: {مَن كان عَدُوًّا لله ... } الآيات، وكذلك من كفر برسول؛ فقد كفر بجميع الرسل، بل بالرسول الذي يزعم أنه به مؤمن.
[150] یہاں تک لوگوں کی دو اقسام ہیں جن کو ہر ایک کے لیے واضح کر دیا گیا ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے والے لوگ (۲) اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والے لوگ۔ رہ گئی تیسری قسم تو یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دے گا مگر یہ ان کی مجرد آرزوئیں ہیں ۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جو کوئی حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی اور دوست بناتا ہے وہ تمام انبیاء و رسل کو دوست بناتا ہے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کی دوستی کی تکمیل ہے اور جو کوئی انبیاء و رسل میں سے کسی ایک کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ اور تمام رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ (البقرۃ: 2؍98) ’’جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں ، اس کے رسولوں ، جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔‘‘ اسی طرح جو کوئی کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ اس رسول کا بھی انکار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا ہے۔
#
{151 ـ 152} ولهذا قال: {أولئك هم الكافرون حقًّا}، وذلك لئلاَّ يُتَوهَّم أنَّ مرتَبَتَهم متوسطةٌ بين الإيمان والكفر. ووجه كونهم كافرين حتَّى بما زَعَموا الإيمان به؛ أنَّ كلَّ دليل دلَّهم على الإيمان بمن آمنوا به موجودٌ هو أو مثله أو ما فوقه للنبيِّ الذي كفروا به، وكلَّ شبهةٍ يزعُمون أنهم يقدحون بها في النبيِّ الذي كفروا به موجودٌ مثلها أو أعظم منها فيمن آمنوا به، فلم يبق بعد ذلك إلا التشهِّي والهوى ومجرَّد الدَّعوى التي يمكن كلُّ أحدٍ أنْ يقابلَها بمثلها. ولما ذكر أن هؤلاء هم الكافرون حَقًّا؛ ذكر عقاباً شاملاً لهم ولكل كافر، فقال: {وأعْتَدْنا للكافرين عذاباً مُهيناً}؛ كما تكبَّروا عن الإيمان بالله؛ أهانَهم بالعذاب الأليم المُخْزي. {والذين آمنوا بالله ورسلِهِ}: وهذا يتضمَّن الإيمان بكلِّ ما أخبر الله به عن نفسه وبكلِّ ما جاءت به الرسلُ من الأخبار والأحكام. ولم يفرِّقوا بين أحدٍ من رسله، بل آمنوا بهم كلِّهم؛ فهذا الإيمان الحقيقيُّ واليقين المبنيُّ على البرهان. {أولئك سوف يؤتيهم أجورَهم}؛ أي: جزاءَ إيمانِهِم وما ترتَّب عليه من عمل صالح وقول حسن وخُلُق جميل؛ كلٌّ على حَسَبِ حاله، ولعلَّ هذا هو السرُّ في إضافة الأجور إليهم. {وكان الله غفوراً رحيماً}: يغِفرُ السيِّئات، ويتقبَّل الحسنات.
[152,151] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ ’’وہ بلاشبہ کافر ہیں پکے۔‘‘ اور (حقا) کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے تاکہ کوئی اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ ان کا مرتبہ ایمان اور کفر کے درمیان ہے۔ اور ان کے کافر ہونے کی… یہاں تک کہ اس رسول کے ساتھ بھی کفر کرنے کی، جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں … وجہ یہ ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس نبی پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، وہی دلیل یا اس جیسی یا اس سے بڑھ کر دلیل موجود ہے جو اس نبی کی نبوت پر دلالت کرتی ہے جس کا وہ انکار کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ہر وہ شبہ جس کی بنیاد پر وہ اس نبی پر اعتراض کرتے ہیں جس کے ساتھ انھوں نے کفر کیا ہے، وہی شبہ یا اس جیسا یا اس سے بھی بڑا شبہ اس نبی کی نبوت میں بھی موجود ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں .... تب اس کے بعد سوائے خواہشات نفس اور مجرد دعویٰ کے کچھ باقی نہیں ۔ جس کے مقابلہ میں اس جیسا دعویٰ کرنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہی لوگ حقیقی (پکے) کافر ہیں تو اس عذاب کا ذکر بھی فرما دیا جو ان کو اور دیگر کفار کو دیا جائے گا۔ ﴿وَاَعْتَدْنَا لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا﴾ ’’اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘ جس طرح انھوں نے تکبر کی بنا پر ایمان لانے سے انکار کر دیا اسی طرح اللہ تعالیٰ رسوا کن اور درد ناک عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کرے گا۔ ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ﴾ ’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘ یہ آیت کریمہ ہر اس خبر پر ایمان لانے کو متضمن ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں دی ہے اور ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لانے کو بھی جنھیں لے کر انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔ ﴿وَلَمْ یُفَرِّؔقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور انھوں نے ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا۔‘‘ بلکہ وہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائے اور یہی وہ حقیقی اور یقینی ایمان ہے جو دلیل اور برہان پر مبنی ہے ﴿اُولٰٓىِٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ﴾ ’’اور ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں ) کے صلے عطا فرمائے گا۔‘‘ یعنی ان کے ایمان اور ایمان پر مبنی عمل صالح، قول حسن اور خلق جمیل کی جزا دی جائے گی اور یہ جزا ہر ایک کو اس کے حسب حال عطا ہو گی۔ شاید ان کے اجر میں اضافے کا یہی سرنہاں ہے ﴿وَؔكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًؔا رَّحِیْمًا﴾ ’’اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور نیکیوں کو قبول فرماتا ہے۔
آیت: 153 - 161 #
{يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَى أَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِكَ وَآتَيْنَا مُوسَى سُلْطَانًا مُبِينًا (153) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (154) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا (155) وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (156) وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (158) وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا (160) وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (161)}.
سوال کرتے ہیں آپ سے اہل کتاب کہ اتار لائیں آپ ان پر ایک کتاب (بیک بار) آسمان سے، سو سوال کیا انھوں نے موسیٰ سے بڑی چیز کا اس سے بھی اور کہا، دکھا ہم کو اللہ بالکل سامنے پکڑ لیا ان کو بجلی نے ان کے ظلم کی وجہ سے، پھر بنا لیا انھوں نے بچھڑے کو (معبود) بعد اس کے کہ آچکی تھیں ان کے پاس واضح دلیلیں ، پھر معاف کر دیا ہم نے یہ بھی اور دیا ہم نے موسیٰ کو غلبہ واضح(153) اور بلند کیا ہم نے اوپر ان کے طور پہاڑ ان سے اقرار لینے کے لیے اور ہم نے کہا ان سے داخل ہو جاؤ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور ہم نے کہا ان سے نہ زیادتی کرو ہفتے کے دن میں اور لیا ہم نے ان سے عہد مضبوط(154)پس (لعنت کی ہم نے ان پر) بہ سبب ان کے توڑنے کے اپنے عہد کو اور ان کے کفر کرنے کے ساتھ آیتوں کے اللہ کی اور ان کے قتل کرنے کے انبیاء کو ناحق اور (بہ سبب) ان کے کہنے کے کہ ہمارے دل پردوں میں ہیں بلکہ مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پربہ سبب ان کے کفر کے، سو وہ نہیں ایمان لاتے مگر تھوڑے ہی(155) اور بہ سبب ان کے کفر کے اور ان کے باندھنے کے مریم پر بہتان بہت بڑا(156) اور بہ سبب ان کے کہنے کے کہ یقینا ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول کو حالانکہ انھوں نے نہ قتل کیا ان کو اور نہ سولی پر چڑھایا ان کو لیکن شبہے میں ڈال دیا گیا ان کو اور بے شک جنھوں نے اختلاف کیا عیسیٰ کے بارے میں ، شک میں ہیں ان کی بابت۔ نہیں ہے ان کے پاس ان کی بابت کوئی علم سوائے پیروی کے ظن کی اور نہیں قتل کیا انھوں نے ان کو یقینی طور پر(157)بلکہ اٹھا لیا ان کو اللہ نے اپنی طرف اور ہے اللہ بڑا زبردست حکمت والا(158) اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر وہ ضرور ایمان لائے گا عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے اور دن قیامت کے دو ہوں گے ان پر گواہ(159) پس بہ سبب ظلم کرنے ان لوگوں کے جو یہودی ہوئے، ہم نے حرام کر دیں ان پر کچھ پاک چیزیں جو حلال تھیں ان کے لیے اور بہ سبب ان کے روکنے کے اللہ کی راہ سے بہتوں کو(160) اور بہ سبب ان کے لینے کے سود، حالانکہ روکے گئے تھے وہ اس سے اور ان کے کھانے کے سبب مال لوگوں کے ناحق اور ہم نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے ان میں سے عذاب بہت دردناک(161)
#
{153 ـ 158} هذا السؤال الصادر من أهل الكتاب للرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - على وجه العناد والاقتراح وجَعْلِهم هذا السؤال يتوقَّف عليه تصديقُهم أو تكذيبُهم، وهو أنَّهم سألوه أن ينزِلَ عليهم القرآن جملةً واحدةً كما نزلتِ التوراة والإنجيل، وهذا غاية الظُّلم منهم [والجهل]؛ فإن الرسول بشرٌ عبدٌ مدبَّرٌ ليس في يده من الأمر شيءٌ، بل الأمر كلُّه لله، وهو الذي يرسل وينزل ما يشاء على عباده؛ كما قال تعالى عن الرسول لما ذَكَرَ الآيات التي فيها اقتراح المشركين على محمد: {قُلْ سبحان ربِّي هل كنتُ إلا بشراً رسولاً}؛ وكذلك جعلهم الفارق بين الحقِّ والباطل مجرَّد إنزال الكتاب جملةً أو مفرقاً مجرَّد دعوى لا دليل عليها، ولا مناسبة بل ولا شُبهة؛ فمن أين يوجد في نبوَّة أحد من الأنبياء أنَّ الرسول الذي يأتيكم بكتابٍ نزل مفرَّقاً؛ فلا تؤمنوا به ولا تصدِّقوه؟! بل نزول هذا القرآن مفرَّقاً بحسب الأحوال مما يَدُلُّ على عظمتِهِ واعتناء الله بمن أُنْزِل عليه؛ كما قال تعالى: {وقال الذين كفروا لولا نُزِّلَ عليه القرآن جملةً واحدةً كذلك لِنُثَبِّتَ به فؤادك ورتَّلْناه ترتيلاً. ولا يأتونَكَ بَمَثل إلاَّ جئناك بالحقِّ وأحسنَ تفسيراً}. فلمَّا ذكر اعتراضهم الفاسد؛ أخبر أنه ليس بغريب من أمرهم، بل سبق لهم من المقدِّمات القبيحة ما هو أعظم مما سلكوا مع الرسول الذي يزعمون أنهم آمنوا به؛ من سؤالهم له رؤية الله عياناً، واتِّخاذهم العجلَ إلهاً يعبُدونه من بعدما رأوا من الآيات بأبصارهم ما لم يَرَه غيرهم، ومن امتناعهم من قبول أحكام كتابهم، وهو التوراة حتى رفع الطُّور من فوق رؤوسهم، وهُدِّدوا أنهم إن لم يؤمنوا أسقط عليهم فقبلوا ذلك على وجه الإغماض والإيمان الشبيه بالإيمان الضروريِّ، ومن امتناعهم من دخول أبواب القرية التي أمروا بدخولها سجَّداً مستغفرين فخالفوا القول والفعل، ومن اعتداء من اعتدى منهم في السبت فعاقبهم الله تلك العقوبة الشنيعة، وبأخذ الميثاق الغليظ عليهم فنبذوه وراء ظهورِهم وكفروا بآيات الله وقتلوا رسلَه بغير حقٍّ، ومن قولهم: إنَّهم قتلوا المسيح عيسى وصلبوه، والحالُ أنَّهم ما قتلوه وما صلبوه بل شُبِّه لهم غيره. فقتلوا غيره وصَلَبوه، وادِّعائهم أنَّ قلوبهم غلفٌ لا تفقه ما تقول لهم ولا تفهمه، وبصدِّهم الناس عن سبيل الله فصدُّوهم عن الحقِّ، ودعَوْهم إلى ما هم عليه من الضلال والغيِّ، وبأخذِهم السُّحت والرِّبا مع نهي الله لهم عنه والتشديد فيه؛ فالذين فعلوا هذه الأفاعيل لا يُستنكر عليهم أن يسألوا الرسول محمداً أن ينزِّل عليهم كتاباً من السماء. وهذه الطريقة من أحسن الطُّرق لمحاجَّة الخصم المبطل، وهو أنَّه إذا صدر منه من الاعتراض الباطل ما جعله شبهةً له ولغيره في ردِّ الحق أن يبيَّن من حاله الخبيثة وأفعاله الشنيعة ما هو من أقبح ما صدر منه؛ ليعلم كلُّ أحدٍ أنَّ هذا الاعتراض من ذلك الوادي الخسيس، وأنَّ له مقدماتٍ يجعل هذا معها. وكذلك كل اعتراض يعترضون به على نبوَّة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - يمكنُ أن يقابَلَ بمثلِهِ أو ما هو أقوى منه في نبوَّة من يدَّعون إيمانهم به؛ ليكتفي بذلك شرّهم وينقمع باطلهم، وكل حجَّة سلكوها في تقريرهم لنبوَّة من آمنوا به؛ فإنها ونظيرها وما هو أقوى منها دالَّة ومقرِّرة لنبوَّة محمد - صلى الله عليه وسلم -. ولما كان المراد من تعديد ما عدَّد الله من قبائحهم هذه المقابلة؛ لم يبسطْها في هذا الموضع، بل أشار إليها وأحال على مواضعها، وقد بسطها في غير هذا الموضع في المحلِّ اللائق ببسطها.
[158-153] اہل کتاب نے رسول اللہe سے یہ سوال مطالبہ اور عناد کی بناپر کیا تھا۔ اور اسی پر انھوں نے اپنی تصدیق و تکذیب کو موقوف قرار دیا تھا اور ان کا سوال یہ تھا کہ ان پر تمام قرآن ایک ہی بار نازل ہو جائے جیسے تورات اور انجیل ایک ہی بار نازل ہوئی تھیں ۔ یہ ان کی طرف سے انتہائی ظالمانہ مطالبہ تھا کیونکہ رسولe تو ایک بشر اور بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے تحت ہیں ، رسول اللہe کے ہاتھ میں تو کوئی اختیار نہیں ۔ تمام اختیار اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہی ہے جو اپنے بندوں پر جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کی طرف سے اس وقت فرمایا جب مشرکین نے اسی قسم کے مطالبے کیے تھے۔ ﴿قُ٘لْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (بني إسرائیل: 17؍93) ’’کہہ دیجیے پاک ہے میرا رب میں تو ایک بشر ہوں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول۔‘‘ اسی طرح مجرد کتاب کے ایک مرتبہ یا متفرق طور پر نازل کرنے کو، ان کی طرف سے حق و باطل کے درمیان فارق (فرق کرنے والا) بنانا بھی، مجرد دعویٰ ہے، جس کی کوئی دلیل اور کوئی مناسبت نہیں اور نہ کوئی شبہ ہے۔ انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی نبوت میں کہاں آیا ہے کہ وہ رسول جو تمھارے پاس کتاب لے کر آئے اور اگر یہ کتاب ٹکڑوں میں نازل کی گئی ہو تو تم اس پر ایمان لانا نہ اس کی تصدیق کرنا؟ بلکہ قرآن مجید کا حسب احوال تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونا اس کی عظمت اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس پیغمبر پر، جس پر وہ نازل ہوا، اللہ کی خاص عنایت اور توجہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْ٘قُ٘رْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۰۰وَلَا یَ٘اْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۰۰﴾ (الفرقان: 25؍32۔33) ’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں کیا گیا، اسی طرح آہستہ آہستہ اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ تمھارے دل کو قائم رکھیں اور ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ لوگ تمھارے پاس جو اعتراض بھی لے کر آئیں ہم تمھارے پاس حق اور اس کی بہترین تفسیر لے کر آتے ہیں ۔‘‘ جب اللہ نے ان کے اس فاسد اعتراض کا ذکر کیا تو یہ بھی بتلایا کہ ان کے معاملے میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پہلے ان کی اس سے بھی بری باتیں گزر چکی ہیں جو انھوں نے اس نبی کے ساتھ اختیار کیں ، جس کی بابت ان کا گمان ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے تھے۔ مثلاً: ظاہری آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ عبادت کے لیے بچھڑے کو معبود بنانا وغیرہ، حالانکہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ کچھ دیکھ چکے تھے جو کسی اور نے نہیں دیکھا۔ اپنی کتاب تورات کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کرنا، یہاں تک کہ کوہ طور کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا اور ان کو دھمکایا گیا کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پہاڑ کو ان پر گرا دیا جائے گا تو اغماض برتتے ہوئے اور اس ایمان کے ساتھ اسے قبول کر لیا جو ایمان ضروری کے مشابہ تھا۔ بستی کے دروازوں سے اس طریقے سے داخل ہونے سے انکار کرنا جس طریقے سے انھیں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا، یعنی سجدہ کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے۔ (اس موقع پر) انھوں نے قول و فعل دونوں طرح سے مخالفت کی۔ ہفتے کے روز ان کا حد سے تجاوز کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس گناہ کی پاداش میں ان کو سخت سزا دی۔ ان سے پکا عہد لیا۔ مگر انھوں نے اس میثاق کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کو ناحق قتل کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام) کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ حالانکہ انھوں نے انھیں قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو کسی اور کے ساتھ اشتباہ میں ڈال دیا گیا تھا، جسے انھوں نے قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔ ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ ان کے دلوں پر غلاف ہیں آپe جو کچھ ان سے کہتے ہیں وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ان کا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور جس ضلالت اور گمراہی میں خود مبتلا ہیں لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینا۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو حق سے روک دیا۔ ان کا سود اور حرام کھانا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سود خوری سے نہایت سختی سے روکا تھا۔ پس جن لوگوں کے یہ کرتوت ہوں تو ان کے بارے میں یہ کوئی ان ہونی بات نہیں کہ انھوں نے رسول اللہe سے یہ مطالبہ کیا ہو کہ وہ آسمان سے ان پر کتاب اتار دے۔ باطل پرست مخالف فریق کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ میں دلیل دینے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ جب فریق مخالف کی طرف سے کوئی باطل اعتراض وارد ہو جس نے حق ٹھکرانے میں اس کو یا کسی اور کو شبہ میں مبتلا کر رکھا ہو… تو وہ اس مخالف کے ان خبیث احوال اور قبیح افعال کو بیان کرے جو اس سے صادر ہوئے اور وہ بدترین اعمال ہیں ۔ تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ اعتراضات بھی اسی خسیس نوع کے ہیں اور اس کے کچھ مقدمات بد ہیں اور یہ اعتراض بھی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ اعتراض جو وہ نبوت محمدی (e) پر عائد کرتے ہیں اس کا مقابلہ بھی اسی قسم کے یا اس سے بھی قوی اعتراض سے اس نبوت کی بابت کر کے کیا جا سکتا ہے جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اس طرح ان کے شر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے باطل کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔اور ہر وہ دلیل جس کووہ اس نبی کی نبوت کے ثبوت اور تحقق کے لیے پیش کرتے ہیں جس پر یہ ایمان لائے ہوئے ہیں تو یہی دلیل اور اس جیسے دیگر دلائل اور ان سے بھی زیادہ قوی دلائل محمدe کی نبوت کو ثابت اور متحقق کرتے ہیں ۔چونکہ ان کے اعتراض کے مقابلہ میں ان کی برائیوں اور قباحتوں کو صرف شمار کرنا مقصود ہے اس لیے اس مقام پر تفصیل بیان نہیں کی بلکہ ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے مقامات کا حوالہ دے دیا ہے اور اس مقام کے علاوہ دیگر مناسب مقام پر ان کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے۔
#
{159} وقوله: {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته}: يحتمل أن الضمير هنا في قوله قبل موته يعودُ إلى أهل الكتاب، فيكون على هذا كلُّ كتابي يحضُرُه الموت ويعاين الأمر حقيقة؛ فإنه يؤمن بعيسى عليه السلام، ولكنه إيمان لا ينفع؛ إيمان اضطرار، فيكون مضمون هذا التهديد لهم والوعيد أن لا يستمرُّوا على هذه الحال التي سيندمون عليها قبل مماتهم؛ فكيف يكون حالهم يوم حشرهم وقيامهم؟! ويحتمل أن الضمير في قوله: {قبل موته}: راجعٌ إلى عيسى عليه السلام، فيكون المعنى: وما من أحدٍ من أهل الكتاب إلا ليؤمننَّ بالمسيح عليه السلام قبل موت المسيح، وذلك يكون عند اقتراب السَّاعة وظهور علاماتها الكبار؛ فإنها تكاثرت الأحاديث الصحيحة في نزوله عليه السلام في آخر هذه الأمة؛ يقتُلُ الدجَّال، ويضعُ الجِزْية، ويؤمنُ به أهل الكتاب مع المؤمنين {ويوم القيامة}: يكون عيسى عليهم شهيداً يشهد عليهم بأعمالهم وهل هي موافقةٌ لشرع الله أم لا؟ وحينئذٍ لا يشهد إلاَّ ببطلان كلِّ ما هم عليه مما هو مخالف لشريعة القرآن، ولما دعاهم إليه محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - عَلِمْنا بذلك لعِلْمنا بكمال عدالة المسيح عليه السلام وصدقِهِ، وأنَّه لا يشهدُ إلاَّ بالحقِّ، إلاَّ أنَّ ما جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - هو الحقُّ وما عداه فهو ضلالٌ وباطلٌ.
[159] ﴿وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَ٘نَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ﴾ ’’اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا۔‘‘ ﴿ قَبْلَ مَوْتِهٖ﴾ میں اس بات کا احتمال ہے کہ ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہو۔ تب اس احتمال کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص اپنی موت کے وقت اس امر کی حقیقت کا معائنہ کر لے گا۔ پس وہ اس وقت جناب عیسیٰu پر ایمان لے آئے گا مگر یہ وہ ایمان ہے جو کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ یہ اضطراری ایمان ہے۔ پس یہ مضمون ان کے لیے تہدید و وعید کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس حال پر قائم نہ رہیں جس پر انھیں موت سے قبل نادم ہونا پڑتا ہے۔ جب وہ یہاں نادم ہوتے ہیں تو حشر کے روز جب وہ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے ان کا کیا حال ہو گا؟ اور آیت میں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ ﴿ قَبْلَ مَوْتِهٖ﴾میں ضمیر کا مرجع جناب عیسیٰu ہوں ۔ تب معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص جناب مسیحu کی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئے گا۔ جناب مسیحu قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے۔ حضرت عیسیٰu کی دوبارہ آمد ظہور قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بکثرت احادیث میں وارد ہے کہ اس امت کے آخری زمانے میں حضرت عیسیٰu کا نزول ہو گا، وہ دجال کو قتل کریں گے، جزیہ ساقط کر دیں گے اور اہل ایمان کے ساتھ اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰu پر ایمان لے آئیں گے۔ قیامت کے روز حضرت عیسیٰu ان کے اعمال پر گواہی دیں گے کہ آیا یہ اعمال شریعت کے مطابق تھے یا نہیں ؟ اس روز وہ ان کے ہر اس عمل کے بطلان کی گواہی دیں گے جو شریعت قرآن کے مخالف ہو گا۔چونکہ محمد رسول اللہe نے اہل کتاب کو اس کی طرف دعوت دی ہے اس لیے ہمیں اس بات کا علم ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہمیں حضرت عیسیٰu کے کامل طور پر عادل اور صاحب صدق ہونے کا علم ہے اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عیسیٰu صرف حق کی گواہی دیں گے اور اس بات کی گواہی دیں گے کہ جناب محمد مصطفیe جو لے کر آئے، وہ حق ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے، باطل اور گمراہی ہے۔
#
{160 ـ 161} ثم أخبر تعالى أنه حرَّم على أهل الكتاب كثيراً من الطيِّبات التي كانت حلالاً عليهم، وهذا تحريم عقوبة، بسبب ظلمهم واعتدائهم وصدِّهم الناس عن سبيل الله ومنعهم إيَّاهم من الهدى وبأخذهم الرِّبا وقد نُهوا عنه، فمنعوا المحتاجين ممَّن يبايعونه عن العدل، فعاقبهم الله من جنس فعلهم، فمنعهم من كثير من الطيِّبات التي كانوا بصدد حلِّها لكونها طيبة. وأما التحريم الذي على هذه الأمة؛ فإنه تحريم تنزيهٍ لهم عن الخبائث التي تضرُّهم في دينهم ودنياهم.
[161,160] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اہل کتاب پر بہت سی پاک چیزیں حرام ٹھہرا دی تھیں جو ان پر حلال تھیں ۔ یہ تحریم ان کے ظلم و تعدی، اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنے، لوگوں کو ہدایت کی راہ سے باز رکھنے اور منع کرنے کے باوجود ان کے سود کھانے کی وجہ سے سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی۔ وہ محتاج لوگوں کو اپنی خرید و فروخت میں سود کے ذریعے سے انصاف کی راہ سے ہٹاتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود ان کے فعل کی جنس ہی سے ان کو سزا دی اور بہت سی طیبات کو ان پر حرام کر دیا، جن کو حلال کرنے کے وہ خواہش مند تھے کیونکہ فی نفسہ وہ حلال تھیں ۔ رہی اس امت پر بعض چیزوں کی تحریم تو یہ تحریم ان کو ان خبائث سے بچانے کی خاطر ہے جو ان کے دین و دنیا میں نقصان دہ ہیں ۔
آیت: 162 #
{لَكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا (162)}.
لیکن جو پکے ہیں علم میں ان میں سےاور مومن، وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور قائم کرنے والے ہیں نماز اور ادا کرنے والے ہیں زکاۃ اور ایمان رکھنے والے ہیں ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے، یہ لوگ ہیں ، عنقریب دیں گے ہم ان کو اجر بہت بڑا(162)
#
{162} لما ذَكَرَ معايب أهل الكتاب؛ ذَكَرَ الممدوحين منهم، فقال: {لكِن الراسخون في العلم}؛ أي: الذين ثَبَتَ العلم في قلوبهم ورَسَخَ الإيقان في أفئدتهم، فأثمر لهم الإيمان التامَّ العامَّ، {بما أُنزِلَ إليك وما أُنزِلَ من قبلك}: وأثمر لهم الأعمال الصالحة من إقامة الصَّلاة وإيتاء الزَّكاة اللَّذين هما أفضل الأعمال، وقد اشتملتا على الإخلاص للمعبود والإحسان إلى العبيد، وآمنوا باليوم الآخر، فخافوا الوعيد ورَجَوا الوعد، {أولئك سنؤتيهم أجراً عظيماً}؛ لأنَّهم جمعوا بين العلم والإيمان والعمل الصالح والإيمان بالكتب والرسل السابقة واللاحقة.
[162] جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے معایب بیان کیے تو اب ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو ان میں سے قابل تعریف ہیں ۔ ﴿لٰكِنِ الرّٰؔسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’مگر جو لوگ ان میں سے علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں ‘‘ یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں علم مضبوط اور ایقان راسخ ہے اور اس کے ثمرہ میں انھیں ایمان کامل حاصل ہوتا ہے ﴿ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو آپe پر اتاری گئی اور ان کتابوں پر جو آپ سے پہلے اتاری گئیں ۔‘‘ یہ ایمان انھیں اعمال صالحہ کا پھل عطا کرتا ہے ، مثلاً: نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ ادا کرنا، یہ دونوں سب سے افضل اعمال ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے احسان پر مشتمل ہیں ۔ وہ لوگ روز قیامت پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ بنابریں وہ اللہ تعالیٰ کی وعید سے ڈرتے ہیں اور اس کے وعدے پر امید رکھتے ہیں ۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ ’’ہم عنقریب انھیں اجر عظیم سے نوازیں گے‘‘ کیونکہ انھوں نے علم و ایمان، عمل صالح، گزشتہ اور آئندہ آنے والے انبیاء و مرسلین اور تمام کتب الہیہ پر ایمان کو جمع کر دیا۔
آیت: 163 - 165 #
{إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (163) وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا (164) رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (165)}.
بلاشبہ وحی کی ہم نے آپ کی طرف جیسے وحی کی ہم نے نوح اور (دوسرے) نبیوں کی طرف اس کے بعد اور وحی کی ہم نے طرف ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی اور دی ہم نے داود کو زبور(163) اور (بھیجے ہم نے) کئی رسول، تحقیق بیان کیا ہم نے ان کا حال آپ پر اس سے پہلے اور کئی رسول ایسے کہ نہیں بیان کیا ان کا حال آپ پر اور کلام کیا اللہ نے موسیٰ سے (خاص طور پر) کلام(164) (بھیجے) رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تاکہ (باقی) نہ رہے لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی الزام، بعد رسولوں کے اور ہے اللہ زبردست حکمت والا(165)
#
{163} يخبر تعالى أنَّه أوحى إلى عبده ورسوله من الشرع العظيم والأخبار الصادقة ما أوحى إلى هؤلاء الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، وفي هذا عدة فوائد: منها: أنَّ محمداً - صلى الله عليه وسلم - ليس ببدع من الرسل، بل أرسل الله قبله من المرسلين العدد الكثير والجمَّ الغفير؛ فاستغراب رسالته لا وجه له إلاَّ الجهل أو العناد. ومنها: أنَّه أوحى إليه كما أوحى إليهم من الأصول والعدل الذي اتَّفقوا عليه، وأنَّ بعضهم يصدِّق بعضاً، ويوافق بعضهم بعضاً. ومنها: أنَّه من جنس هؤلاء الرسل؛ فليعتبِرْه المعتبر بإخوانه المرسلين؛ فدعوتُه دعوتُهم، وأخلاقُهم متَّفقة، ومصدَرُهم واحدٌ، وغايتُهم واحدةٌ، فلم يقرنْه بالمجهولين ولا بالكذَّابين ولا بالملوك الظَّالمين. ومنها: أنَّ في ذِكْرِ هؤلاء الرسل وتعدادهم من التنويه بهم والثناء الصادق عليهم وشرح أحوالهم مما يزداد به المؤمنُ إيماناً بهم ومحبَّة لهم واقتداءً بهديهم واستناناً بسنَّتهم ومعرفةً بحقوقِهم، ويكون ذلك مصداقاً لقوله: {سلامٌ على نوح في العالمين} {سلامٌ على إبراهيم} {سلامٌ على موسى وهارون} {سلامٌ على إلياسينَ. إنَّا كذلك نَجْزي المحسنينَ}؛ فكل محسن له من الثَّناء الحسن بين الأنام بحسبِ إحسانِهِ، والرسلُ خصوصاً هؤلاء المسمَّون في المرتبة العلياء من الإحسان. ولمّا ذكر اشتراكهم بوحيه؛ ذَكَرَ تخصيص بعضِهم، فذَكَرَ أنَّه آتى داود الزَّبور، وهو الكتاب المعروف المزبور، الذي خَصَّ الله به داود عليه السلام لفضلِهِ وشرفِهِ، وأنَّه كلَّم موسى تكليماً؛ أي: مشافهةً منه إليه لا بواسطة، حتى اشتهر بهذا عند العالمين، فيقال: موسى كليم الرحمن.
[163] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفیe پر اسی طرح عظیم شریعت اور سچی خبریں وحی کی ہیں جس طرح اس نے ان انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر وحی کی تھیں ۔ اس میں متعدد فوائد ہیں : (۱) نبی اکرمe کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپe سے پہلے بھی بے شمار رسول بھیجے ہیں اس لیے آپe کی رسالت کو انوکھا اور نادر سمجھنا جہالت اور عناد کے سوا کچھ نہیں ۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیe کی طرف اصول اور عدل کے ضابطے وحی کیے ہیں جس طرح انبیائے سابقین کی طرف وحی فرمائے تھے جن پر عمل کر کے وہ تقویٰ اختیار کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور ایک دوسرے کی موافقت کرتے تھے۔ (۳) محمد مصطفیe انھی انبیاء و رسل کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں ، لہٰذا آپ کو دیگر انبیاء و رسل کے زمرے میں رکھ کر آپ کا اعتبار کرنا چاہیے۔ آپ کی دعوت وہی ہے جو ان رسولوں کی دعوت تھی، آپ کے اخلاق ان کے اخلاق سے متفق، آپ کی اور ان کی تعلیمات کا مصدر ایک اور آپ کے اور ان سب کے مقاصد یکساں ہیں ... پس اللہ تعالیٰ نے آپe کا مجہول اور کذاب لوگوں اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ (۴) (قرآن مجید میں ) ان انبیاء و رسل کے تذکرے اور ان کی تعداد بیان کرنے میں ان کی ایسی مدح و ثنا اور تعریف و تعظیم ہے اور ان کے احوال کی اس طرح تشریح ہے جس سے ان کے بارے میں مومن کے ایمان اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے طریقے اور سنت کو اپنانے کا جذبہ بڑھتا ہے اور ان کے حقوق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا مصداق ہے۔ ﴿سَلٰ٘مٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ (الصافات:37؍79) سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ (الصافات: 37؍109) سَلٰ٘مٌ عَلٰى مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ (الصافات: 37؍120) سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِلْ یَ٘اسِیْنَ (الصافات: 37؍130) اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (الصافات: 37؍131) پس بھلائی اور احسان کرنے والے ہر شخص کو اس کے احسان کے مطابق مخلوق کے اندر ثنائے حسن نصیب ہوتی ہے۔ تمام انبیاء و رسل خصوصاً وہ انبیائے کرام جن کے اسمائے گرامی گزشتہ سطور میں ذکر کیے گئے ہیں احسان کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے وحی میں ان کے اشتراک کا ذکر فرمایا، وہاں اس نے بعض انبیاء کے اختصاص کا بھی ذکر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے جناب داودu کو زبور عطا کی اور یہ وہ معروف اور لکھی ہوئی کتاب ہے جو داودu کے فضل و شرف کی بنا پر ان کے لیے مخصوص کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰu کے ساتھ کلام فرمایا، یعنی بغیر کسی واسطہ کے بالمشافہ کلام فرمایا۔ حتیٰ کہ یہ بات تمام دنیا میں مشہور ہوگئی اور جناب موسیٰu کو ’’کلیم الرحمن‘‘ کہا جانے لگا۔
#
{164} وذكر أن الرُّسل منهم من قصَّه الله على رسوله، ومنهم من لم يَقْصُصْه عليه، وهذا يدلُّ على كثرتِهِم.
[164] نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان انبیاء و رسل میں سے بعض کا قصہ رسول اللہe پر بیان فرمایا اور بعض انبیاء کا قصہ بیان نہیں فرمایا۔ اور یہ امر انبیائے کرام کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔
#
{165} وأنَّ الله أرسلهم مبشِّرين لمن أطاع الله واتَّبعهم بالسعادة الدُّنيويَّة والأخرويَّة، ومنذرين مَن عصى الله وخالفهم بشقاوة الدَّارين؛ {لئلاَّ يكونَ للناس على الله حجَّةٌ بعد الرسل}، فيقولوا ما جاءنا من بشيرٍ ولا نذيرٍ، قل: قد جاءكم بشير ونذيرٌ، فلم يبق للخلق على الله حجة؛ لإرساله الرسل تترى؛ يبيِّنون لهم أمر دينهم ومراضي ربهم ومساخِطَه وطرقَ الجنة وطرق النار؛ فمن كَفَرَ منهم بعد ذلك، فلا يلومنَّ إلا نفسه، وهذا من كمال عزَّته تعالى وحكمتِهِ؛ أن أرسل إليهم الرسل وأنزل عليهم الكتب، وذلك أيضاً من فضله وإحسانه؛ حيث كان الناس مضطرِّين إلى الأنبياء أعظم ضرورةٍ تقدَّر، فأزال هذا الاضطرار؛ فله الحمد والشكر، ونسأله كما ابتدأ علينا نعمته بإرسالهم أن يتمَّها بالتوفيق لسلوك طريقهم؛ إنَّه جوادٌ كريمٌ.
[165] اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لیے دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے بنا کر مبعوث فرمایا جو ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے دونوں جہانوں کی بدبختی سے ڈرانے والے بنا کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ان رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں ... تاکہ انبیاء و رسل مبعوث کرنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہیں کہ: ﴿مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ١ٞ فَقَدْ جَآءَؔكُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ﴾ (المآئدہ: 5؍19) ’’ہمارے پاس کوئی خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ پس تحقیق تمھارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا آ گیا ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مسلسل رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہی یہ رسول لوگوں کے سامنے ان کا دین بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی کے اسباب اور جنت و جہنم کے راستے واضح کرتے ہیں .... تب جو کوئی ان انبیاء و رسل کا انکار کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے کامل غلبہ اور کامل حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے لوگوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان بھی ہے کیونکہ لوگ انبیاء و رسل کی بعثت کے سخت ضرورت مند تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اضطرار کا ازالہ فرمایا۔ پس وہی حمد و ثنا اور شکر کا مستحق ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جس طرح اپنے رسول بھیج کر ہم پر اپنی نعمت کی ابتدا کی، اسی طرح وہ ہمیں ان کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے نواز کر اس نعمت کا اتمام کرے، بے شک وہ جواد اور کریم ہے۔
آیت: 166 #
{لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (166)}.
لیکن اللہ گواہی دیتا ہے اس کی جو نازل کیا اس نے طرف آپ کی کہ نازل کیا ہے اس کو اپنے علم کے ساتھ اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور کافی ہے اللہ گواہ(166)
#
{166} لما ذُكِر أن الله أوحى إلى رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - كما أوحى إلى إخوانِهِ من المرسَلين؛ أخبر هنا بشهادتِهِ تعالى على رسالته وصحَّة ما جاء به. وأنه {أنزله بعلمه}: يُحتمل أن يكون المرادُ: أنْزَلَهُ مشتملاً على علمه؛ أي: فيه من العلوم الإلهية والأحكام الشرعيَّة والأخبار الغيبيَّة ما هو من علم الله تعالى الذي علَّم به عباده، ويُحتمل أن يكون المرادُ: أنْزَلَهُ صادراً عن علمه، ويكون في ذلك إشارةٌ وتنبيهٌ على وجه شهادتِهِ، وأنَّ المعنى إذا كان تعالى أنزل هذا القرآن المشتمل على الأوامر والنواهي، وهو يعلم ذلك، ويعلم حالة الذي أنزله عليه، وأنه دعا الناس إليه؛ فمن أجابه وصدَّقه؛ كان وليه، ومن كذَّبه وعاداه؛ كان عدوه، واستباح ماله ودمه، والله تعالى يمكِّنه ويوالي نصره ويجيب دعواته ويخذُل أعداءه وينصر أولياءه؛ فهل توجد شهادةٌ أعظم من هذه الشهادة وأكبر؟! ولا يمكن القدح في هذه الشهادة إلاَّ بعد القدح بعلم الله وقدرتِهِ وحكمتِهِ. وإخباره تعالى بشهادة الملائكة على ما أنزل على رسوله؛ لكمال إيمانهم ولجلالة هذا المشهود عليه؛ فإن الأمور العظيمة لا يستشهد عليها إلاَّ الخواصُّ؛ كما قال تعالى في الشهادة على التوحيد: {شَهِدَ الله أنَّه لا إله إلاَّ هو والملائكةُ وأولو العلم قائماً بالقِسْطِ لا إله إلاَّ هو العزيزُ الحكيم}، {وكفى بالله شهيداً}.
[166] اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا کہ اس نے محمد مصطفیe کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح دیگر انبیاء کی طرف، وہاں یہ خبر بھی دی ہے کہ اس نے آپe کی رسالت کی اور جو تعلیمات لے کر آپ مبعوث ہوئے، ان کی صحت کی گواہی دی ہے۔فرمایا: ﴿اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ﴾ ’’اس نے اپنے علم سے اسے نازل کیا ہے۔‘‘ اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اس نے قرآن کو اس طرح نازل فرمایا کہ وہ اس (اللہ) کے علم پر مشتمل ہے، یعنی اس کے اندر تمام علوم الہیہ، احکام شرعیہ اور اخبار غیبیہ موجود ہیں ۔ یہ تمام اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو اس نے اپنے بندوں کو سکھایا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ہو کہ اس نے اس قرآن کو اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تب اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی شہادت کے پہلو کی طرف اشارہ اور تنبیہ ہے اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے اس طرح نازل فرمایا ہے کہ وہ اوامر و نواہی پر مشتمل ہے اور یہ سب کچھ جانتا ہے۔ اور وہ اس کے احوال کو بھی جانتا ہے جس پر یہ نازل کیا گیا اور اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے۔ پس جس کسی نے اس کی دعوت پر لبیک کہی اور اس کی تصدیق کی وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے اور جس کسی نے اس کو جھٹلایا اور اس کے ساتھ عداوت رکھی وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا مال اور خون مباح کر دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دوست کو قدرت عطا کرتا ہے اور پے در پے اس کی مدد کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے، اس کے دشمنوں سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کے دوستوں کی مدد کرتا ہے۔ کیا کوئی ایسی شہادت ہے جو اس شہادت سے بڑی ہو؟ اللہ تعالیٰ کے علم، اس کی قدرت اور اس کی حکمت میں عیب لگائے بغیر نیز فرشتوں کے ایمان کامل اور مشہود علیہ کی جلالت شان کی بنا پر اس چیز پر ان کی شہادت کے بارے میں جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے عیب چینی کیے بغیر اس شہادت میں جرح و قدح ممکن نہیں ۔ اس قسم کے عظیم الشان امور پر خواص ہی سے شہادت طلب کی جاتی ہے جیسا کہ توحید پر شہادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ (ال عمران: 3؍18) ’’اس نے شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں ،فرشتوں اور اہل علم نے بھی شہادت دی ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے،اس کے سوا کوئی الہ نہیں وہی زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔‘‘
آیت: 167 - 169 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا (167) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقًا (168) إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (169)}.
بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور روکا (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے، یقینا وہ گمراہ ہوگئے گمراہ بہت دور کے(167) بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ظلم کیا، نہیں ہے اللہ کہ بخش دے ان کو اور نہ ایسا کہ دکھلائے ان کو راہ(168) مگر راہ جہنم کی، ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں ابد تک اور ہے یہ اللہ پر بہت آسان(169)
#
{167} لما أخبر عن رسالة الرُّسل صلوات الله وسلامه عليهم، وأخبر برسالة خاتمهم محمدٍ، وشَهِدَ بها وشَهِدَتْ ملائكته؛ لَزِمَ من ذلك ثبوت الأمر المقرَّر والمشهود به، فوجب تصديقُهم والإيمان بهم واتِّباعهم، ثم توعَّد من كفر بهم، فقال: {إنَّ الذين كفروا وصَدُّوا عن سبيل الله}؛ أي: جمعوا بين الكفر بأنفسهم وصدِّهم الناس عن سبيل الله، وهؤلاء [هم] أئمة الكفر ودُعاة الضَّلال، {قد ضَلُّوا ضلالاً بعيداً}، وأي ضلال أعظم من ضلال من ضَلَّ بنفسه وأضلَّ غيره؛ فباء بالإثمين ورجع بالخسارتين وفاتته الهدايتان؟!
[167] اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و رسل صلوات اللہ وسلامہ علیہم کی رسالت اور خاتم الانبیاء محمد مصطفیe کی رسالت کے بارے میں خبر دی ہے۔ اس رسالت پر خود بھی گواہی دی اور اس کے فرشتوں نے بھی گواہی دی اور اس سے مشہود بہ اور امر متحقق کا ثابت ہونا لازم آتا ہے۔ پس اس طرح انبیاء کی تصدیق، ان پر ایمان لانا اور ان کی اتباع کرنا واجب ہے، پھر جن لوگوں نے انبیائے کرامo کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا۔‘‘ یعنی انھوں نے خود اپنے کفر کرنے کو اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کو جمع کر دیا۔ یہ لوگ ائمہ کفر اور گمراہی کے داعی ہیں ﴿قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰ٘لًۢا بَعِیْدًا﴾ ’’وہ راستے سے بھٹک کر دور جاپڑے۔‘‘ جو شخص خود بھی گمراہ ہو اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کر دیا ہو اس سے بڑی گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس نے دو گناہ سمیٹے اور وہ دو خسارے لے کر لوٹا اور دو ہدایتوں سے محروم ہو گیا۔
#
{168 ـ 169} ولهذا قال: {إنَّ الذين كفروا وظلموا}: وهذا الظلم هو زيادة على كفرهم، وإلاَّ؛ فالكفر عند إطلاق الظُّلم يدخل فيه، والمراد بالظلم هنا: أعمال الكفر والاستغراق فيه؛ فهؤلاء بعيدون من المغفرة والهداية للصراط المستقيم، ولهذا قال: {لم يكنِ الله ليغفرَ لهم ولا ليهدِيَهم طريقاً إلَّا طريقَ جهنَّم}، وإنَّما تعذَّرت المغفرة لهم والهداية لأنَّهم استمرُّوا في طُغيانهم وازدادوا في كفرِهم فطُبِعَ على قلوبهم وانسدَّت عليهم طرقُ الهداية بما كسبوا وما ربُّك بظلاَّم للعبيد. {وكان ذلك على الله يسيراً}؛ أي: لا يُبالي الله بهم ولا يعبأ؛ لأنَّهم لا يَصْلُحون للخير، ولا يَليق بهم إلاَّ الحالة التي اختاروها لأنفسهم.
[169,168] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَظَلَمُوْا ﴾ ’’جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم کرتے رہے۔‘‘ اور یہ ظلم ان کے کفر پر اضافہ ہے ورنہ جب ظلم کا اطلاق کیا جاتا ہے تو کفر اس کے اندر شامل ہوتا ہے۔ یہاں ظلم سے مراد اعمال کفر اور اس کے اندر استغراق ہے۔ پس یہ لوگ مغفرت اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے بہت دور ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَمْ یَكُ٘نِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیْقًاۙ۰۰ اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ ﴾ ’’اللہ ان کو بخشنے والا نہیں اور نہ انھیں راستہ ہی دکھائے گا، ہاں دوزخ کا راستہ۔‘‘ ان کے لیے مغفرت اور ہدایت کی نفی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی سرکشی پر قائم اور اپنے کفر میں بڑھتے جارہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر ہدایت کی راہ مسدود ہو گئی ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ ﴿وَؔكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا﴾ ’’اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے اور وہ اسی حال کے لائق ہیں جس کو انھوں نے اپنے لیے منتخب کیا۔
آیت: 170 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (170)}.
اے لوگو! تحقیق آگیا تمھارے پاس یہ رسول حق لے کر تمھارے رب کی طرف سے، پس ایمان لاؤ تم، (ہوگا یہ) بہتر تمھارے لیے اور اگر تم کفر کرو گے تو اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور ہے اللہ خوب جاننے والا حکمت والا(170)
#
{170} يأمر تعالى جميعَ الناس أن يؤمِنوا بعبدِهِ ورسوله محمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وذكر السبب الموجب للإيمان به والفائدة من الإيمان به. والمضرَّة من عدم الإيمان به. فالسَّبب الموجب هو إخباره بأنَّه جاءهم بالحقِّ؛ أي: فمجيئُهُ نفسُه حقٌّ وما جاء به من الشرع حقٌّ؛ فإنَّ العاقل يعرِفُ أن بقاء الخلق في جهلهم يعمهون وفي كفرِهم يتردَّدون والرسالة قد انقطعت عنهم غيرُ لائق بحكمةِ الله ورحمته؛ فمن حكمتِهِ ورحمته العظيمة نفس إرسال الرسول إليهم ليعرِّفهم الهدى من الضلال والغي من الرشد؛ فمجرَّد النظر في رسالتِهِ دليلٌ قاطعٌ على صحَّة نبوَّته، وكذلك النظر إلى ما جاء به من الشرع العظيم والصِّراط المستقيم؛ فإنَّ فيه من الإخبار بالغيوب الماضية والمستقبلة والخبر عن الله وعن اليوم الآخرِ ما لا يعرفه إلاَّ بالوحي والرسالة وما فيه من الأمر بكلِّ خير وصلاح ورشدٍ وعدل وإحسان وصدق وبرٍّ وصلةٍ وحسن خُلق، ومن النهي عن الشرِّ والفساد والبغي والظُّلم وسوء الخُلُق والكذب والعقوق، مما يقطع به أنَّه من عند الله، وكلَّما ازداد به العبد بصيرةً؛ ازداد إيمانُه ويقينُه؛ فهذا السبب الداعي للإيمان. وأما الفائدة في الإيمان؛ فأخبر أنه خيرٌ {لكم}، والخير ضدُّ الشرِّ؛ فالإيمان خير للمؤمنين في أبدانهم وقلوبهم وأرواحهم ودُنياهم وأخراهم، وذلك لما يترتَّب عليه من المصالح والفوائد؛ فكلُّ ثواب عاجل وآجل فمن ثمرات الإيمان؛ فالنصر والهدى والعلم والعمل الصالح والسرور والأفراح والجنَّة وما اشتملت عليه من النعيم كلُّ ذلك سبب عن الإيمان؛ كما أن الشقاء الدُّنيويَّ والأخرويَّ من عدم الإيمان أو نقصه. وأما مضرَّة عدم الإيمان به - صلى الله عليه وسلم -؛ فيُعْرَفُ بضدِّ ما يترتَّب على الإيمان به وأن العبد لا يضرُّ إلاَّ نفسه، والله تعالى غنيٌّ عنه لا تضرُّه معصية العاصين، ولهذا قال: {فإنَّ لله ما في السموات والأرضِ}؛ أي: الجميع خَلْقُه وملكُه وتحت تدبيره وتصريفه. {وكان الله عليماً}: بكلِّ شيءٍ {حكيماً}: في خلقِهِ وأمره؛ فهو العليم بمن يستحقُّ الهداية والغواية، الحكيم في وضع الهداية والغواية موضعهما.
[170] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے اور رسول محمد مصطفیe پر ایمان لائیں ۔ اس نے اس سبب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ایمان کا موجب ہے اور ایمان کے اندر جو فوائد اور عدم ایمان کے اندر جو نقصانات ہیں ان سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ایمان کا موجب سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دینا ہے کہ رسول اللہe حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ۔ آپ کی تشریف آوری فی نفسہ حق اور جو شریعت آپ لائے ہیں وہ بھی حق ہے۔ عقلمند شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ مخلوق کا اپنی جہالت میں سرگرداں رہنا اور اپنے کفر میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنا جبکہ رسالت منقطع ہو چکی ہو .... اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت کے لائق نہیں ۔ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کو گمراہی اور ضلالت میں سے رشد و ہدایت کی پہچان کروائیں ۔ آپe کی رسالت میں مجرد غور و فکر ہی آپ کی نبوت کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ اسی طرح اس عظیم شریعت اور صراط مستقیم میں غور و فکر، جس کے ساتھ آپ تشریف لائے ہیں ۔ آپe کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں گزشتہ زمانوں اور آئندہ آنے والے زمانوں کے امور غیبیہ نیز اللہ تعالیٰ اور روز آخرت کے بارے میں ایسی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ کوئی شخص وحی اور رسالت کے بغیر ان کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا اور اس میں ہر قسم کی خیر و صلاح، رشد و ہدایت، عدل و احسان، صدق، نیکی، صلہ رحمی اور حسن اخلاق کا حکم دیا گیا ہے اور ہر قسم کے شر، فساد، بغاوت، ظلم، بدخلقی، جھوٹ اور والدین کی نافرمانی سے روکا گیا ہے جن کے بارے میں قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کی بصیرت میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے پس یہ ہے وہ سبب جو بندے کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ رہی ایمان میں فائدے کی بات تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ﴿خَیْرًا لَّـكُمْ ﴾ ’’تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ خیر، شر کی ضد ہے۔ پس ایمان اہل ایمان کے ابدان، ان کے دلوں ، ان کی ارواح اور ان کی دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہتر ہے۔ کیونکہ ایمان پر مصالح اور فوائد مترتب ہوتے ہیں ، چنانچہ ہر قسم کا ثواب، خواہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو یا آخرت میں ، ایمان ہی کا ثمرہ ہے اور فتح و نصرت، ہدایت، علم، عمل صالح، مسرتیں ، فرحتیں ، جنت اور جنت کی تمام نعمتیں ، ان سب کا سبب ایمان ہے۔ جیسے دنیاوی اور اخروی بدبختی عدم ایمان یا نقص ایمان کے باعث ہے۔ رہا رسول اللہe پر عدم ایمان کا ضرر تو اسے ان فوائد کی ضد سے معلوم کیا جا سکتا ہے جو ایمان کے باعث حاصل ہوتے ہیں اور بندہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تمام گناہ گاروں کا گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔‘‘ یعنی زمین و آسمان میں ہر چیز اس کی مخلوق، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر اور تصرف کے تحت ہے ﴿وَؔكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ ﴿حَكِیْمًا ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت کا مالک ہے۔ پس وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت اور کون گمراہی کا مستحق ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں وہ حکمت سے کام لیتا ہے۔
آیت: 171 #
{يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (171)}.
اے اہل کتاب!نہ غلو (زیادتی) کرو اپنے دین میں اور نہ کہو اللہ کے بارے میں مگر حق بات، بس مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی ہے جس کو اس نے ڈالا مریم کی طرف اور ایک روح ہے اس کی طرف سے، پس ایمان لاؤ تم اللہ اور اس کے رسولوں پر اور نہ کہو کہ (الٰہ) تین ہیں ۔ باز آجاؤ (اس سے، ہوگا) بہتر تمھارے لیے بس اللہ ہی معبود ہے اکیلا، وہ پاک ہے اس سے کہ ہو اس کی کوئی اولاد، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کارساز(171)
#
{171} ينهى تعالى أهل الكتاب عن الغلوِّ في الدِّين، وهو مجاوزة الحدِّ والقدر المشروع إلى ما ليس بمشروع، وذلك كقول النصارى في غلوُّهم بعيسى عليه السلام ورفعِهِ عن مقام النبوَّة والرِّسالة إلى مقام الرُّبوبيَّة الذي لا يليقُ بغير الله؛ فكما أن التَّقصير والتفريطَ من المنهيَّات؛ فالغلوُّ كذلك، ولهذا قال: {ولا تقولوا على اللهِ إلَّا الحقَّ}، وهذا الكلام يتضمَّن ثلاثة أشياء: أمرين منهيّ عنهما، وهما قول الكذب على الله والقول بلا علم في أسمائه وصفاته وأفعاله وشرعه ورسله. والثالث: مأمورٌ [به]، وهو قول الحقِّ في هذه الأمور. ولما كانت هذه قاعدةً عامَّةً كليَّةً، وكان السياق في شأن عيسى عليه السلام نصَّ على قول الحقِّ فيه المخالف لطريقة اليهوديَّة والنصرانيَّة، فقال: {إنَّما المسيح عيسى بن مريم رسولُ الله}؛ أي: غاية المسيح عليه السلام ومنتهى ما يصل إليه من مراتب الكمال أعلى حالة تكون للمخلوقين، وهي درجة الرسالة، التي هي أعلى الدَّرجات وأجلّ المثوبات، وأنه {كَلِمَتُهُ ألقاها إلى مريم}؛ أي: كلمة تكلَّم الله بها، فكان بها عيسى، ولم يكن تلك الكلمة، وإنما كان بها، وهذا من باب إضافة التشريف والتكريم، وكذلك قولُه: {وروحٌ منه}؛ أي: من الأرواح التي خلقها وكمَّلها بالصِّفات الفاضلة والأخلاق الكاملة، أرسل الله رُوحه جبريلَ عليه السلام، فنفَخَ في فرج مريم عليها السلام، فحملت بإذن الله بعيسى عليه السلام، فلمَّا بيَّن حقيقة عيسى عليه السلام؛ أمر أهل الكتاب بالإيمان به وبرسله، ونهاهم أن يجعلوا الله ثالث ثلاثةٍ؛ أحدهم عيسى والثاني مريم؛ فهذه مقالة النصارى قبَّحهم الله، فأمرهم أن ينتهوا، وأخبر أن ذلك خيرٌ لهم؛ لأنه الذي يتعيَّن أنه سبيل النجاة وما سواه فهو طرق الهلاك. ثم نزَّه نفسه عن الشريك والولد، فقال: {إنَّما الله إلهٌ واحدٌ}؛ أي: هو المنفردُ بالألوهيَّة الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له. {سبحانَه}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس، {أن يكونَ له ولدٌ}: لأنَّ {له ما في السموات وما في الأرض}؛ فالكلُّ مملوكون له مفتقِرون إليه؛ فمحالٌ أن يكون له شريكٌ منهم أو ولدٌ. ولما أخبر أنه المالك للعالم العلويِّ والسفليِّ أخبر أنه قائمٌ بمصالحهم الدنيويَّة والأخرويَّة، وحافظها [ومجازيهم] عليها تعالى:
[171] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب کو دین میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے۔ اور غلو سے مراد ہے حد سے تجاوز کرنا اور حدود مشروع سے نکل کر غیر مشروع کی طرف جانا۔ جیسے نصاریٰ جناب عیسیٰu کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور انھیں نبوت اور رسالت کے مقام سے اٹھا کر ربوبیت کے مقام پر بٹھا دیتے ہیں جو اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی کے لائق نہیں ۔ پس جس طرح تقصیر اور تفریط (کمی) منہیات میں سے ہے، غلو بھی اسی طرح ممنوع ہے۔ اسی لیے فرمایا ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ﴾ ’’اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔‘‘ یہ کلام اقدس تین امور کو متضمن ہے۔ ان میں سے پہلے دو امور ممنوع ہیں۔ اول: اللہ تبارک و تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ ثانی: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اس کے افعال، اس کی شریعت اور اس کے رسولوں کے بارے میں بلاعلم بات کرنا۔ ثالث: اور تیسری چیز وہ ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے ان تمام امور میں قول حق۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ کلیہ ہے اور سیاق کلام جناب عیسیٰu کے بارے میں نص اور قول حق ہے اور یہودیت اور نصرانیت کے طریقے کے خلاف ہے اس لیے فرمایا :﴿اِنَّمَا الْ٘مَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﴾ ’’مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (u) اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ یعنی جناب مسیحu کی غایت اور مراتب کمال کی انتہاء وہ اعلیٰ ترین حالت ہے جو کسی مخلوق کے لیے ہو سکتی ہے اور وہ مرتبۂ رسالت ہے، جو بلند ترین درجہ اور جلیل ترین مقام ہے۔ ﴿وَؔكَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ ﴾ ’’اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا۔‘‘ اور وہ ایک کلمہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور اس کلمہ کے ذریعے سے حضرت عیسیٰu نے تخلیق پائی۔ خود حضرت عیسیٰu وہ کلمہ نہ تھے بلکہ وہ اس کلمہ کے ذریعے سے وجود میں آئے اور یہ شرف و تکریم کی اضافت ہے۔ اسی طرح فرمایا: ﴿وَرُوْحٌ مِّؔنْهُ ﴾ ’’اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔‘‘ یعنی ان ارواح میں سے ایک روح ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا اور صفات فاضلہ اور اخلاق کاملہ کے ساتھ اس کی تکمیل کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ روح جبریلu کو دے کر جناب مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور انھوں نے جناب مریم علیہا السلام کی فرج میں روح کو پھونک دیا، پس اللہ کے حکم سے ان کو حمل ٹھہر گیا جس سے حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰu کی حقیقت واضح کر دی تو اس نے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ان کو تین خدا بنانے سے منع کیا، یعنی اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہا السلام۔ ان کا برا ہو یہ نصاریٰ کا قول باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تثلیث سے باز آ جائیں اور انھیں آگاہ فرمایا کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے کیونکہ یہ امر متعین ہے کہ یہی نجات کی راہ ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو شریک اور اولاد سے منزہ قرار دیا ہے۔ فرمایا: ﴿اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ ﴾ ’’اللہ ہی معبود واحد ہے۔‘‘ یعنی وہ الوہیت میں منفرد (یکتا) ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں ﴿سُبْحٰؔنَهٗۤ ﴾ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے ﴿اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ﴾ ’’کہ اس کا کوئی بیٹا ہو‘‘ کیونکہ ﴿لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی کے لیے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے‘‘ پس تمام اس کے مملوک اور اس کے محتاج ہیں ۔ اس لیے یہ محال ہے کہ ان میں سے اس کا کوئی شریک یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمام عالم علوی اور سفلی کا مالک ہے تو وہ یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہی تمام دنیوی اور اخروی مصالح کا بھی انتظام فرماتا ہے، ان مصالح کی حفاظت کرتاہے اور ان کی جزا دیتا ہے۔
آیت: 172 - 173 #
{لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ يَسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا (172) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنْكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (173)}.
ہرگز نہیں عار کریں گے مسیح اس سے کہ ہوں وہ بندے اللہ کے اور نہ فرشتے مقرب اور جو کوئی عار کرے اللہ کی عبادت سے اور تکبر کرے تو یقینا وہ جمع کرے گا ان کو اپنی طرف سب کو(172) پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک تو پورا دے گا وہ ان کو اجر ان کا اور زیادہ دے گا ان کو اپنے فضل سے اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے عار کیا اور تکبر کیا تو عذاب دے گا وہ ان کو عذاب بہت دردناک اور نہیں پائیں گے وہ اپنے لیے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ مددگار(173)
#
{172} لما ذكر تعالى غلوَّ النصارى في عيسى عليه السلام، وذَكَرَ أنَّه عبده ورسوله؛ ذَكَرَ هنا أنه لا يستنكِف عن عبادتِهِ ربَّه ؛ أي: لا يمتنع عنها رغبةً عنها، لا هو {ولا الملائكة المقربون}، فنزَّههم عن الاستنكاف، وتنزيههم عن الاستكبار من باب أولى، ونفي الشيء فيه إثباتُ ضدِّه؛ أي: فعيسى والملائكة المقربون قد رغبوا في عبادِة ربِّهم وأحبُّوها وسَعَوْا فيها بما يَليق بأحوالهم، فأوجب لهم ذلك الشرف العظيم والفوز العظيم، فلم يستنكِفوا أن يكونوا عبيداً لربوبيَّته ولا لإلهيَّته، بل يَرَوْنَ افتقارهم لذلك فوق كلِّ افتقار. ولا يُظَنُّ أنَّ رفع عيسى أو غيره من الخلق فوق مرتبته التي أنزله الله فيها وترفُّعه عن العبادة كمالاً، بل هو النقص بعينه، وهو محلُّ الذَّمِّ والعقاب، ولهذا قال: {ومن يَسْتَنكِفْ عن عبادتِهِ ويَسْتَكْبِرْ فسيحشُرهم إليه جميعاً}؛ أي: فسيحشر الخلق كلَّهم إليه المستنكِفين والمستكبِرين وعباده المؤمنين، فيحكم بينهم بحكمه العدل وجزائه الفصل.
[172] اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰu کے بارے میں نصاریٰ کے غلو کا ذکر فرمایا اور بیان فرمایا کہ جناب عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں تو اب یہاں یہ بھی واضح کر دیا کہ حضرت عیسیٰu اپنے رب کی عبادت میں عار نہیں سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی نہیں کرتے تھے ﴿وَلَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ الْ٘مُقَ٘رَّبُوْنَ۠ ﴾ ’’اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے‘‘ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس چیز سے پاک رکھا ہے کہ وہ اس کی عبادت کو عار سمجھیں اور تکبر و استکبار سے پاک ہونا تو بدرجہ اولیٰ ان کی صفت ہے۔ کسی چیز کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے… یعنی عیسیٰu اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے تو اپنے رب کی عبادت میں رغبت رکھتے ہیں ، اس کی عبادت کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اپنے حسب احوال اس کی عبادت میں سعی کرتے ہیں ۔ ان کی یہ عبادت ان کے لیے بہت بڑے شرف اور فوز عظیم کی موجب ہے۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں اپنے آپ کو بندے سمجھنے میں عار محسوس نہیں کی بلکہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا محتاج سمجھتے ہیں ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ عیسیٰu یا کسی اور کو اس مرتبے سے بڑھانا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، ان کے لیے کوئی کمال ہے بلکہ یہ تو عین نقص اور مذمت و عذاب کا محل و مقام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَیَسْتَؔكْبِرْ فَسَیَحْشُ٘رُهُمْ۠ اِلَیْهِ جَمِیْعًا ﴾ ’’اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کو عار سمجھنے والوں ، متکبروں اور اپنے مومن بندوں ، سب کو عنقریب جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اور اپنی جزا سے نوازے گا۔
#
{173} ثم فصَّل حكمهَ فيهم، فقال: {فأمَّا الذين آمنوا وعملوا الصالحات}؛ أي: جمعوا بين الإيمان المأمور به وعمل الصالحات من واجبات ومستحبَّات من حقوق الله وحقوق عباده، {فيوفِّيهم أجورَهم}؛ أي: الأجور التي رتَّبها على الأعمال كل بحسب إيمانه وعمله، {ويزيدُهم من فضله}: من الثَّواب الذي لم تَنَلْهُ أعمالُهم ولم تَصِلْ إليه أفعالُهم ولم يخطُرْ على قلوبِهِم، ودَخَلَ في ذلك كلُّ ما في الجنَّة من المآكل والمشارب والمناكح والمناظر والسُّرور ونعيم القلب والرُّوح ونعيم البدن، بل يدخل في ذلك كلُّ خير دينيٍّ ودنيويٍّ رُتِّب على الإيمان والعمل الصالح. {وأمّا الذين اسْتَنكَفوا واسْتَكْبَروا}؛ أي: عن عبادة الله تعالى، {فيعذِّبُهم عذاباً أليماً}، وهو سخط الله وغضبه والنار الموقَدة التي تطَّلع على الأفئدة، {ولا يَجِدون لهم مِن دون الله وليًّا ولا نصيراً}؛ أي: لا يجدون أحداً من الخلق يتولاَّهم فيحصِّل لهم المطلوبَ، ولا من ينصُرُهم فيدفعُ عنهم المرهوبَ، بل قد تَخَلَّى عنهم أرحم الراحمين وتَرَكَهم في عذابِهم خالدين، وما حكم به تعالى؛ فلا رادَّ لحكمِهِ ولا مغيِّرَ لقضائِهِ.
[173] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذکورہ افراد کی بابت اپنے الگ الگ فیصلے کی بابت فرمایا: ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے‘‘ یعنی انھوں نے ایمان مامور کے ساتھ اعمال صالحہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں واجبات و مستحبات کو جمع کیا ﴿فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ ﴾ ’’وہ ان کو ان کا پورا بدلہ دے گا۔‘‘ یعنی وہ اجر، جس کو اللہ تعالیٰ نے اعمال پر مترتب فرمایا ہے۔ ہر شخص کو اس کے ایمان اور عمل کے مطابق ملے گا ﴿وَیَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ﴾ ’’اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ثواب میں اتنا اضافہ کرے گا کہ ان کے اعمال یہ ثواب حاصل نہیں کر سکتے، ان کے افعال اس ثواب تک نہیں پہنچ سکتے اور اس ثواب کا تصور بھی ان کے دل میں نہیں آ سکتا۔ اس ثواب میں ہر وہ چیز شامل ہے جو جنت میں موجود ہے ، مثلاً: ماکولات، مشروبات، بیویاں ، خوبصورت مناظر، فرحت و سرور، قلب و روح اور بدن کی نعمتیں ۔ بلکہ اس میں ہر دینی اور دنیاوی بھلائی شامل ہے جو ایمان اور عمل صالح پر مترتب ہوتی ہے۔ ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَاسْتَؔكْبَرُوْا ﴾ ’’لیکن وہ لوگ جنھوں نے عار کی اور تکبر کیا‘‘ یعنی وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو عار سمجھتے ہیں ﴿فَیُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا ﴾ ’’ان کو وہ تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔‘‘ یہ عذاب الیم اللہ تعالیٰ کی ناراضی، اس کے غضب اور بھڑکتی ہوئی آگ پر مشتمل ہے جو دلوں کے ساتھ لپٹ جائے گی۔ ﴿وَّلَا یَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ﴾ ’’تو اور یہ لوگ اللہ کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے۔‘‘ یعنی وہ مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو ان کا ولی و مددگار بن سکے اور وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کر سکیں ۔ اور نہ ان کا کوئی حامی و ناصر ہو گا جو ان سے اس چیز کو دور کر سکے جس سے یہ ڈرتے ہیں ۔ بلکہ صورت حال یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ بھی ان سے الگ ہو جائے گا اور ان کو دائمی عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ کرتا ہے اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کر سکتا اور نہ اس کی قضا کو کوئی بدل سکتا ہے۔
آیت: 174 - 175 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (174) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (175)}.
اے لوگو! تحقیق آگئی تمھارے پاس ایک دلیل تمھارے رب کی طرف سےاور نازل کیا ہم نے تمھاری طرف ایک نور واضح(174) پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور مضبوط پکڑا اس کو تو وہ ضرور داخل کرے گا ان کو اپنی رحمت اور فضل میں اور بتلا دے گا ان کو اپنے تک (پہنچنے کے لیے) راہ سیدھی(175)
#
{174} يمتنُّ تعالى على سائر الناس بما أوصل إليهم من البراهين القاطعة والأنوار السَّاطعة، ويقيمُ عليهم الحجَّة، ويوضِّح لهم المحجَّة، فقال: {يا أيُّها الناس قد جاءكم برهانٌ من ربِّكم}؛ أي: حججٌ قاطعةٌ على الحقِّ تبيِّنه وتوضِّحه وتبيِّن ضدَّه، وهذا يشمل الأدلَّة العقليَّة والنقليَّة، والآيات الأفقيَّة والنفسيَّة، {سَنُريهم آياتِنا في الآفاق وفي أنْفُسِهِم حتَّى يتبيَّنَ لهم أنه الحقُّ}، وفي قوله: {مِن ربِّكم}: ما يدلُّ على شرف هذا البرهان وعظمتِهِ؛ حيث كان من ربِّكم الذي ربَّاكم التربية الدينيَّة والدنيويَّة؛ فمن تربيته لكم التي يُحمد عليها، ويُشكر أن أوصل إليكم البيِّنات ليهدِيَكم بها إلى الصِّراط المستقيم والوصول إلى جنَّات النعيم. وأنزل {إليكم نُوراً مبيناً}، وهو هذا القرآن العظيم، الذي قد اشتمل على علوم الأوَّلين والآخِرين والأخبار الصَّادقة النافعة والأمر بكلِّ عدل وإحسانٍ وخيرٍ والنهي عن كلِّ ظلم وشرٍّ؛ فالناسُ في ظلمةٍ إنْ لم يستَضيئوا بأنوارِهِ، وفي شقاءٍ عظيم إن لم يقتَبِسوا من خيرِهِ.
[174] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں پر احسان جتلاتا ہے کہ اس نے ان تک براہین قاطعہ اور واضح روشنی پہنچائی، ان پر حجت قائم کرتا ہے اور ان کے سامنے ہدایت کی راہ واضح کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌؔ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس دلیل آچکی ہے۔‘‘ یعنی تمھارے پاس حق کی تائید میں قطعی دلائل آچکے ہیں جو حق کو واضح کرتے ہیں اور اس کی ضد کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ براہین دلائل عقلیہ، دلائل نقلیہ، آیات افقی اور آیات نفسی پر مشتمل ہیں ، فرمایا: ﴿سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ﴾ (حم السجدہ: 41؍53) ’’ہم عنقریب ان کو آفاق میں اور خود ان کی ذات میں نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ حق ان پر واضح ہو جائے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے۔‘‘ اس برہان و دلیل کی عظمت و شرف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ تمھارے رب کی طرف سے ہے جس نے تمھاری دینی اور دنیوی تربیت کی ہے۔ یہ اس کی تربیت ہی ہے جس پر اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے تمھیں دلائل عطا کیے تاکہ وہ صراط مستقیم کی طرف تمھاری راہنمائی کرے اور تمھیں نعمتوں سے بھری ہوئی جنتوں تک پہنچائے۔ ﴿وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًؔا مُّبِیْنًا ﴾ ’’اور اتارا ہم نے تمھاری طرف واضح نور‘‘ وہ یہی قرآن عظیم ہے جو اولین و آخرین کے علوم، سچی خبروں ، عدل و احسان اور بھلائی کے احکام اور ہر قسم کے ظلم اور شر سے ممانعت پر مشتمل ہے۔ لوگ اگر قرآن سے روشنی حاصل کر کے اپنی راہوں کو روشن نہیں کریں گے تو اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ اگر انھوں نے قرآن سے بھلائی کو حاصل نہ کیا تو بہت بڑی بدبختی میں پڑے رہیں گے۔
#
{175} ولكن انقسم الناسُ بحسب الإيمان بالقرآن والانتفاع به قسمين: {فأمَّا الذين آمنوا بالله}؛ أي: اعترفوا بوجودِهِ واتِّصافه بكلِّ وصفٍ كامل وتنزيهه من كلِّ نقص وعيبٍ، {واعتَصَموا به}؛ أي: لجؤوا إلى الله واعتمدوا عليه وتبرَّؤوا من حَوْلِهم وقوَّتهم واستعانوا بربِّهم، {فسيُدْخِلُهم في رحمةٍ منه وفضل}؛ أي: فسيتغمَّدهم بالرحمة الخاصَّة فيوفِّقهم للخيرات ويجزِلُ لهم المثوبات ويدفعُ عنهم البليَّات والمكروهات. {ويهديهم إليه صراطاً مستقيماً}؛ أي: يوفِّقهم للعلم والعمل؛ معرفة الحقِّ والعمل به؛ أي: ومن لم يؤمن بالله، ويعتَصِمْ به، ويتمسَّك بكتابِهِ؛ منعهم من رحمتِهِ، وحرمهم من فضلِهِ، وخلَّى بينهم وبين أنفسِهِم، فلم يَهْتَدوا، بل ضلُّوا ضلالاً مبيناً؛ عقوبةً لهم على تركِهِم الإيمان، فحصلتْ لهم الخيبةُ والحرمانُ. نسأله تعالى العفو والعافية والمعافاة.
[175] تاہم قرآن عظیم پر ایمان لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں : (۱) ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ ﴾ ’’پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے۔‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتراف کیا اور یہ تسلیم کیا کہ وہ تمام اوصاف کاملہ سے متصف اور ہر نقص اور ہر عیب سے منزہ ہے۔ ﴿وَاعْتَصَمُوْا بِهٖ ﴾ ’’اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے۔‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے ہاں پناہ لی اور اپنی قوت اور طاقت سے بری ہو کر اپنے رب سے مدد کے طلب گار ہوئے۔ ﴿فَسَیُدْخِلُهُمْ۠ فِیْ رَحْمَةٍ مِّؔنْهُ وَفَضْلٍ﴾ ’’ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل (کی بہشتوں ) میں داخل کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص رحمت سے ڈھانپ لے گا، انھیں نیکیوں کی توفیق عنایت کرے گا، انھیں بے پایاں ثواب عطا کرے گا اور ان سے بلائیں دور کرے گا ﴿وَّیَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا﴾ ’’اور اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا راستہ دکھائے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ انھیں علم و عمل کی توفیق اور انھیں حق اور اس پر عمل کی معرفت عطا کرے گا۔ (۲) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے، اللہ کے پاس پناہ نہ لی اور اس کی کتاب کو مضبوطی سے نہ پکڑا تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کر دے گا ان کو ان کے نفس کے حوالے کر دے گا۔ انھوں نے ہدایت کی راہ کو اختیار نہ کیا بلکہ وہ واضح طور پر گمراہی میں جا پڑے۔ ایمان ترک کرنے پر یہ ان کی سزا ہے، پس ناکامی اور محرومی ان کا نصیب بن گئی ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے عفو، عافیت اور معافی کا سوال کرتے ہیں ۔
آیت: 176 #
{يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (176)}.
فتویٰ پوچھتے ہیں وہ آپ سے، کہہ دیجیے! اللہ فتویٰ دیتا ہے تمھیں کلالہ کے بارے میں کہ اگر کوئی مرد مر جائے، نہ ہو اس کی کوئی اولاد اوراس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اس (مال) کا جو وہ چھوڑ گیا اور وہ وارث ہوگا اس بہن کااگر نہ ہو اس بہن کی اولاد ، پھر اگر ہوں وہ دو بہنیں تو ان کے لیے ہے دو تہائی اس میں سے جو وہ چھوڑ گیا اور اگر (وارث) ہوں کئی بھائی (بہن)، مرد اور عورتیں تو واسطے مرد کے ہے مثل حصے دو عورتوں کے۔ وضاحت کرتا ہے اللہ تمھارے لیے تاکہ نہ گمراہ ہو تم اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے(176)
#
{176} أخبر تعالى أنَّ الناس استفتوا رسوله - صلى الله عليه وسلم - ؛ أي: في الكلالة؛ بدليل قوله: {قل الله يُفتيكم في الكلالة}، وهي الميت يموتُ وليس له ولد صُلْبٍ ولا ولد ابنٍ ولا أب ولا جَدٌّ، ولهذا قال: {إن امرؤ هلك ليس له ولد}، أي: لا ذكر ولا أنثى، لا ولد صُلْبٍ ولا ولد ابنٍ، وكذلك ليس له والدٌ؛ بدليل أنَّه ورَّثَ فيه الإخوة، والأخوات بالإجماع لا يرثون مع الوالد؛ فإذا هَلَكَ وليس له ولدٌ ولا والدٌ. {وله أختٌ}؛ أي: شقيقةٌ أو لأبٍ لا لأمٍّ؛ فإنه قد تقدَّم حكمُها. {فلها نصفُ ما ترك}؛ أي: نصف متروكات أخيها من نقودٍ وعقارٍ وأثاثٍ وغير ذلك، وذلك من بعد الدَّين والوصيَّة؛ كما تقدم. {وهو}؛ أي: أخوها الشقيق أو الذي للأب، {يَرِثُها إن لم يكن لها ولد}، ولم يُقَدِّر له إرثاً لأنه عاصبٌ فيأخذ مالها كلَّه إن لم يكن صاحبُ فرض ولا عاصب يشارِكه أو ما أبقت الفروض. {فإن كانتا}؛ أي: الأختان، {اثنتين}؛ أي: فما فوق {فلهما الثُّلثانِ مما تَرَكَ، وإن كانوا إخوةً رجالاً ونساءً}؛ أي: اجتمع الذُّكور من الإخوة لغير أمٍّ مع الإناث، {فللذَّكر مثلُ حظِّ الأنثيين}: فيسقُط فرض الإناث ويُعَصِّبُهنَّ إخوتُهن. {يبيِّنُ الله لكم أن تَضِلُّوا}؛ أي: يبيِّن لكم أحكامه التي تحتاجونها ويوضِّحها ويشرحُها لكم فضلاً منه وإحساناً لكي تهتدوا ببيانه [وتعملوا] بأحكامه، ولئلاَّ تضِلوا عن الصِّراط المستقيم بسبب جهلكم وعدم علمِكم. {والله بكلِّ شيءٍ عليمٌ}؛ أي: عالم بالغيب والشهادةِ والأمور الماضية والمستقبلَةَ، ويعلم حاجَتَكم إلى بيانِهِ وتعليمِهِ، فيعلِّمكم من علمِهِ الذي ينفعُكم على الدَّوام في جميع الأزمنة والأمكنة. آخر تفسير سورة النساء. فلله الحمد والشكر.
[176] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہe سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ طلب کیا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿قُ٘لِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰ٘لَةِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ تعالیٰ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے‘‘ (کَلَالَہ) سے مراد وہ میت ہے جس کی صلب سے کوئی اولاد ہو، نہ کوئی پوتا پوتی، نہ باپ ہو نہ دادا۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَ٘یْسَ لَهٗ وَلَدٌ ﴾ ’’اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو۔‘‘ یعنی اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہو، نہ صلبی بیٹا ہو اور نہ بیٹے کا بیٹا ہو… اور اسی طرح نہ اس کا باپ ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بھائی اور بہنیں اس کے وارث بنیں گے کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ بہن بھائی باپ کی معیت میں وارث نہیں بنیں گے۔ پس جب ایسا شخص فوت ہو جائے گا جس کی اولاد ہے نہ باپ ﴿وَّلَهٗۤ اُخْتٌ ﴾ البتہ اس کی حقیقی یا باپ شریک بہن ہے، نہ کہ ماں شریک کیونکہ اس کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ ﴿فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ﴾ ’’اس (بہن) کے کے لیے ترکے میں سے آدھا حصہ ہے۔‘‘ یعنی بہن کو کلالہ بھائی کے ترکہ، یعنی نقدی، جائداد اور دیگر اثاثوں میں سے نصف ملے گا۔ یہ حصہ میت کی وصیت پوری کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دیا جائے گا۔ جیسا کہ اس کے بارے میں احکام گزشتہ اوراق میں گزر چکے ہیں ۔ ﴿وَهُوَ ﴾ ’’اور وہ‘‘ یعنی میت کا حقیقی بھائی یا باپ کی طرف سے بھائی ﴿یَرِثُ٘هَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُ٘نْ لَّهَا وَلَدٌ﴾ ’’اس بہن کا وارث ہو گا، اگر اس کی اولاد نہیں ہو گی‘‘ اور اس کے لیے حصۂ میراث مقرر نہ ہو کیونکہ وہ تو عصبہ ہے اگر اصحاب فروض یا عصبہ میں شریک کوئی فرد نہ ہو تو وہ تمام ترکہ لے گا یا اصحاب فروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے گا وہ اس کو ملے گا۔ ﴿فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ ﴾ ’’اور اگر دو بہنیں ہوں ۔‘‘ یعنی دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں ﴿فَلَهُمَا الثُّلُ٘ـثٰ٘نِ مِمَّؔا تَرَكَ﴾ ’’تو ان کو ترکے میں سے دو تہائی ملے گا‘‘ ﴿وَاِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً ﴾ ’’اور اگر بھائی اور بہن، یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں ۔‘‘ یعنی اگر باپ کی طرف سے بھائی اور بہنیں وارث ہوں ﴿فَلِلذَّكَرِ مِثْ٘لُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ ’’تو مرد کے لیے، دو عورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘ پس عورتوں کا مقررہ حصہ (دو تہائی) ساقط ہو جائے گا اور ان عورتوں کو ان کے بھائی عصبہ بنا دیں گے۔ (گویا اس میں عصبات کا حکم بیان کیا گیا ہے) عورتوں کا حصہ ساقط ہو جائے گا اور ان کے بھائی ان کے عصبہ بنیں گے۔ ﴿یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ﴾ ’’اللہ تم سے اس لیے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ان احکام کو واضح کرتا ہے اور ان کی تشریح کرتا ہے جن کے تم محتاج ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و احسان ہے تاکہ تم راہ ہدایت پا لو۔ اور تم اس کے احکام پر عمل کرو اور تاکہ تم اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک نہ جاؤ۔ ﴿وَاللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ غائب اور موجود، ماضی اور مستقبل کے تمام امور کو جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم اس کی وضاحت اور تعلیم کے محتاج ہو، وہ اپنے علم میں سے تمھیں علم سکھاتاہے جو تمھیں ہر زمان و مکان میں ہمیشہ فائدہ دے گا۔