آیت:
تفسیر سورۂ مائدۃ
تفسیر سورۂ مائدۃ
آیت: 1 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ (1)}.
اے ایمان والو! پورا کرو تم عہدوں کو، حلال کر دیے گئے ہیں تمھارے لیے چارپائے مویشی، سوائے ان کے جن کی تلاوت کی جائے گی (ابھی) تم پر، اس حال میں کہ نہ حلال جاننے والے ہو تم شکار کو جبکہ تم حالت احرام میں ہو، بے شک اللہ فیصلہ کرتا ہے جو چاہتا ہے(1)
#
{1} هذا أمر من الله تعالى لعباده المؤمنين بما يقتضيه الإيمان بالوفاء بالعقود؛ أي: بإكمالها وإتمامها وعدم نقضها ونقصها، وهذا شامل للعقود التي بين العبد وبين ربِّه من التزام عبوديته؛ والقيام بها أتم قيام، وعدم الانتقاص من حقوقها شيئاً، والتي بينه وبين الرسول بطاعته واتباعه، والتي بينه وبين الوالدين والأقارب ببرِّهم وصلتهم وعدم قطيعتهم، والتي بينه وبين أصحابه من القيام بحقوق الصحبة في الغنى والفقر واليسر والعسر، والتي بينه وبين الخلق من عقود المعاملات كالبيع والإجارة ونحوهما، وعقود التبرعات كالهبة ونحوها، بل والقيام بحقوق المسلمين التي عقدها الله بينهم في قوله: {إنما المؤمنون إخوة}، [بالتناصر] على الحقِّ والتعاون عليه والتآلف بين المسلمين وعدم التقاطع؛ فهذا الأمر شامل لأصول الدين وفروعه؛ فكلُّها داخلةٌ في العقود التي أمر الله بالقيام بها [ويستدل بهذه الآية أن الأصل في العقود والشروط الإباحة، وأنها تنعقد بما دلَّ عليها من قول أو فعل لإطلاقها]. ثم قال ممتنًّا على عباده: {أحِلَّت لكم}؛ أي: لأجلكم، رحمة بكم، {بهيمة الأنعام}: من الإبل والبقر والغنم، بل ربَّما دَخَلَ في ذلك الوحشي منها والظباء وحمر الوحش ونحوها من الصيود. واستدل بعض الصحابة بهذه الآية على إباحة الجنين الذي يموت في بطن أمِّه بعدما تذبح. {إلَّا ما يُتْلى عليكم}: تحريمُه منها في قوله: {حُرِّمَتْ عليكُم الميتةُ والدَّمُ ولحمُ الخنزير ... } إلى آخر الآية؛ فإن هذه المذكورات وإن كانت من بهيمة الأنعام؛ فإنها محرمة. ولما كانت إباحة بهيمة الأنعام عامة في جميع الأحوال والأوقات؛ استثنى منها الصيد في حال الإحرام، فقال: {غير مُحِلِّي الصيد وأنتم حُرُم}؛ أي: أحلت لكم بهيمة الأنعام في كلِّ حال؛ إلاَّ حيث كنتم متَّصفين بأنكم غير محلِّي الصيد وأنتم حرم؛ أي: متجرِّئون على قتله في حال الإحرام؛ فإنَّ ذلك لا يحل لكم إذا كان صيداً؛ كالظباء ونحوه، والصيد هو الحيوان المأكول المتوحش. {إنَّ الله يحكُم ما يريدُ}؛ أي: فمهما أراده تعالى؛ حَكَمَ به حكماً موافقاً لحكمتِهِ؛ كما أمركم بالوفاء بالعقود؛ لحصول مصالحكم ودفع المضارِّ عنكم، وأحلَّ لكم بهيمة الأنعام رحمةً بكم، وحرم عليكم ما استثنى منها من ذوات العوارض من الميتة ونحوها صوناً لكم واحتراماً، ومن صيد الإحرام احتراماً للإحرام وإعظاماً.
[1] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو اس بات کا حکم ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے۔ ان میں کمی کی جائے نہ ان کو توڑا جائے۔ یہ آیت کریمہ ان تمام معاہدوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کا التزام، اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں سے کچھ کمی نہ کرنا۔ اور یہ ان معاہدوں کو بھی شامل ہے جو بندے اور رسول اللہe کے مابین آپ کی اتباع اور اطاعت کے بارے میں ہیں ۔ اور اسی طرح اس میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو بندے اور اس کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں ۔ نیز اس آیت کریمہ کے حکم میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو فراخی اور تنگ دستی، آسانی اور تنگی میں صحبت اور دوستی کے حقوق کے بارے میں ہیں ۔ اس کے تحت وہ معاہدے بھی آتے ہیں جو معاملات، مثلاً: خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں ۔ اس میں صدقات اور ہبہ وغیرہ کے معاہدے کی پابندی، مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے جن کی پابندی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عائد کیا ہے۔ ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ (الحجرات: 49؍10) ’’تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘بلکہ حق کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے مل جل کر رہنا اور قطع تعلقات سے اجتناب وغیرہ تک شامل ہے۔ پس اس حکم میں دین کے تمام اصول و فروع شامل ہیں اور دین کے تمام اصول و فروع ان معاہدوں میں داخل ہیں جن کی پابندی کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اُحِلَّتْ لَكُمْ ﴾ ’’تمھارے لیے حلال کردیے گئے۔‘‘ یعنی تمھاری خاطر اور تم پر رحمت کی بنا پر حلال کر دیے گئے ہیں ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’چوپائے مویشی‘‘ یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ بلکہ بسا اوقات اس میں جنگلی جانور ، مثلاً: ہرن اور گورخر اور اس قسم کے دیگر شکار کیے جانے والے جانور بھی شامل ہیں ۔ بعض صحابہ کرامy اس آیت کریمہ سے اس بچے کی حلت پر بھی استدلال کرتے ہیں جو ذبح کرتے وقت مذبوحہ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور ذبح کرنے کے بعد وہ مذبوحہ کے پیٹ میں مر جاتا ہے۔( حدیث میں بھی ایسے بچے کو یہ کہہ کر حلال قرار دیا گیا ہے ذَکوٰۃُ الْجَنِیْنِ ذَکَاۃُ اُمِّہِ (سنن أبي داود، و جامع الترمذي، بحوالہ صحیح الجامع) ’’بچے کا ذبح کرنا یہی ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کر لیا جائے۔‘‘ یعنی ماں کا ذبح کر لینا‘ بچے کی حلت کیلیے کافی ہے۔ (ص ۔ ی) ﴿اِلَّا مَا یُتْ٘لٰى٘٘ ﴾ ’’سوائے ان چیزوں (کی تحریم) کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں ۔‘‘ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْ٘مَوْقُ٘وْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ۠ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَاۤ اَكَ٘لَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّـیْتُمْ ﴾ الآیۃ (المائدۃ: 5؍3) ’’تم پر حرام کر دیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو گر کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور وہ جانور جسے درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم ذبح کر لو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کیے جائیں …‘‘ مذکورہ بالا تمام جانور اگرچہ ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ ﴾ مویشیوں میں شامل ہیں تاہم یہ مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں ۔ یہ چوپائے مویشی عام طور پر تمام احوال و اوقات میں مباح ہیں البتہ احرام کی حالت میں ان کے شکار کو مستثنی قرار دیا گیا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ﴾ ’’مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں ‘‘ یعنی یہ جانور تمھارے لیے تمام احوال میں حلال ہیں سوائے اس حالت میں جبکہ تم احرام حج کی حالت میں ہو تب اس حالت میں شکار نہ کرو، یعنی احرام میں ان کو مارنے کی جرأت نہ کرو۔ کیونکہ حالت احرام میں ان کا شکار کرنا ، مثلاً: ہرن وغیرہ کو مارنا تمھارے لیے جائز نہیں ۔ شکار سے مراد وہ جنگلی جانور ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ﴾ ’’بے شک اللہ جو چاہے، فیصلہ کرتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اس امر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس طرح اس نے تمھارے مصالح کے حصول اور مضرت کو دور کرنے کے لیے تمھیں معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا اور تم پر رحمت کی بنا پر اس نے تمھارے لیے مویشیوں کو حلال قرار دیا اور بعض موانع کی وجہ سے جو جانور ان میں سے مستثنی ہیں ان کو حرام قرار دیا ، مثلاً: مردار وغیرہ اس کا مقصد تمھاری حفاظت اور احترام ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کو حرام قرار دیا اور اس کا مقصد احرام کا احترام اور تعظیم ہے۔
آیت: 2 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (2)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بے حرمتی کرو اللہ کی نشانیوں کی اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم والی قربانی کی اور نہ پٹوں (والے جانوروں ) کی اور نہ قصد کرنے والوں کی بیت الحرام کی طرف، وہ تلاش کرتے ہیں فضل اپنے رب کا اور رضامندی اور جب تم احرام کھول دو تو (اب) تم شکار کر سکتے ہو اور نہ آمادہ کرے تمھیں دشمنی کسی قوم کی اس وجہ سے کہ اس نے روک دیا تھا تم کو مسجد حرام سے، یہ کہ تم زیادتی کرو اور تم ایک دوسرے کی مدد کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور نہ ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی پر اور ڈرو اللہ سے، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے(2)
#
{2} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تُحِلُّوا شعائر الله}؛ أي: محرَّماته التي أمركم بتعظيمها وعدم فعلها؛ فالنهي يشمَل النهي عن فعلها والنهي عن اعتقاد حِلِّها؛ فهو يشمل النهي عن فعل القبيح وعن اعتقاده، ويدخل في ذلك النهي عن محرَّمات الإحرام ومحرَّمات الحرم، ويدخُل في ذلك ما نصَّ عليه بقولِهِ: {ولا الشَّهْرَ الحرام}؛ أي: لا تنتهكوه بالقتال فيه وغيره من أنواع الظلم؛ كما قال تعالى: {إنَّ عدَّة الشُّهورِ عند الله اثنا عشَرَ شهراً في كتاب الله يوم خَلَقَ السمواتِ والأرضَ منها أربعةٌ حُرُمٌ ذلك الدِّين القيم فلا تظلموا فيهن أنفسكم}. والجمهور من العلماء على أنَّ القتال في الأشهر الحُرُم منسوخٌ بقوله تعالى: {فإذا انْسَلَخَ الأشهرُ الحُرُم فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم}، وغير ذلك من العمومات التي فيها الأمرُ بقتال الكفار مطلقاً والوعيدُ في التخلُّف عن قتالهم مطلقاً، وبأنَّ النبي - صلى الله عليه وسلم - قاتل أهل الطائف في ذي القعدة، وهو من الأشهر الحرم. وقال آخرون: إن النهي عن القتال في الأشهر الحُرُم غير منسوخ لهذه الآية وغيرها مما فيه النهي عن ذلك بخصوصه، وحملوا النُّصوص المطلقة الواردة على ذلك وقالوا: المُطْلَق يُحْمَل على المقيَّد. وفصَّل بعضهم فقال: لا يجوز ابتداء القتال في الأشهر الحرم، وأمَّا استدامتُهُ وتكميلُه إذا كان أوله في غيرها؛ فإنه يجوز، وحملوا قتال النبي - صلى الله عليه وسلم - لأهل الطائف على ذلك؛ لأنَّ أول قتالهم في حنين في شوَّال. وكل هذا في القتال الذي ليس المقصود منه الدفع، فأمَّا قتال الدفع إذا ابتدأ الكفار المسلمين بالقتال؛ فإنه يجوز للمسلمين القتال دفعاً عن أنفسهم في الشهر الحرام وغيره بإجماع العلماء. وقوله: {ولا الهديَ ولا القلائد}؛ أي: ولا تُحِلُّوا الهدي الذي يُهدى إلى بيت الله في حجٍّ أو عمرة أو غيرهما من نَعَم وغيرها؛ فلا تصدُّوه عن الوصول إلى مَحِلِّه، ولا تأخذوه بسرقة أو غيرها، ولا تقصِّروا به أو تحمِّلوه مالا يطيق خوفاً من تلفه قبل وصوله إلى مَحِلِّه، بل عظِّموه وعظِّموا من جاء به. {ولا القلائد}: هذا نوع خاص من أنواع الهدي، وهو الهدي الذي يُفْتَلُ له قلائد أو عُرىً، فيجعل في أعناقه؛ إظهاراً لشعائر الله، وحملاً للناس على الاقتداء، وتعليماً لهم للسنة، وليُعْرَفَ أنه هديٌ فَيُحْتَرم، ولهذا كان تقليد الهدي من السنن والشعائر المسنونة. {ولا آمِّينَ البيتَ الحرام}؛ أي: قاصدين له، {يبتغون فضلاً من ربِّهم ورضواناً}؛ أي: من قَصَدَ هذا البيت الحرام، وقَصْدُهُ فضلُ الله بالتجارة والمكاسب المباحة، أو قصدُهُ رضوانُ الله بحجِّهِ وعمرتِهِ والطواف به والصلاة وغيرها من أنواع العبادات؛ فلا تتعرَّضوا له بسوءٍ ولا تُهينوه، بل أكرِموه وعظِّموا الوافدين الزائرين لبيت ربِّكم. ودخل في هذا الأمرِ الأمرُ بتأمين الطرق الموصلة إلى بيت الله، وجعل القاصدين له مطمئنِّين مستريحين غير خائفين على أنفسهم من القتل فما دونهَ ولا على أموالهم من المَكْس والنَّهب ونحو ذلك. وهذه الآية الكريمة مخصوصة بقوله تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا إنَّما المشرِكون نَجَسٌ فلا يَقْرَبوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}؛ فالمشرِكُ لا يمكَّنُ من الدخول إلى الحرم. والتخصيص في هذه الآية بالنهي عن التعرُّض لمن قَصَدَ البيت ابتغاء فضل الله أو رضوانه يدلُّ على أنَّ مَن قَصَدَهُ لِيُلْحِدَ فيه بالمعاصي؛ فإنَّ من تمام احترام الحرم صدَّ مَن هذه حاله عن الإفساد ببيت الله؛ كما قال تعالى: {ومَن يُرِدْ فيه بإلحادٍ بظُلمٍ نُذِقْهُ من عذابٍ أليم}. ولما نهاهم عن الصيد في حال الإحرام؛ قال: {وإذا حللتُم فاصْطادوا}؛ أي: إذا حللتم من الإحرام بالحجِّ والعمرة، [وخرجتم من الحرم]؛ حلَّ لكم الاصطياد، وزال ذلك التحريم، والأمر بعد التحريم يَرُدُّ الأشياء إلى ما كانت عليه من قبل. {ولا يَجْرِمَنَّكُم شَنآنُ قوم أن صدُّوكم عن المسجد الحرام أن تعتدوا}؛ أي: لا يحملنَّكم بغض قوم وعداوتهم واعتداؤهم عليكم حيث صدُّوكم عن المسجد على الاعتداء عليهم طلباً للاشتفاء منهم؛ فإنَّ العبد عليه أن يلتزمَ أمر الله ويسلك طريق العدل، ولو جُنِيَ عليه أو ظُلِمَ واعْتُدِيَ عليه؛ فلا يَحِلُّ له أن يكذِبَ على من كذب عليه أو يخون مَن خانه. {وتعاوَنوا على البِرِّ والتَّقوى}؛ أي: ليُعِنْ بعضكم بعضاً على البرِّ، وهو اسم جامع لكل ما يحبُّه الله ويرضاه من الأعمال الظاهرة والباطنة من حقوق الله وحقوق الآدميين، والتقوى في هذا الموضع اسم جامع لِتَرْكِ كلِّ ما يكرهه الله ورسوله من الأعمال الظاهرة والباطنة، وكل خصلة من خصال الخير المأمور بفعلها، أو خصلةٍ من خصال الشرِّ المأمور بتركها؛ فإن العبد مأمورٌ بفعلها بنفسه وبمعاونة غيره من إخوانه المؤمنين عليها بكلِّ قول يَبعث عليها وينشِّطُ لها وبكل فعل كذلك. {ولا تعاونَوا على الإثم}: وهو التَّجَرِّي على المعاصي التي يأثم صاحبُها ويُحَرَّجُ، {والعدوان}: وهو التعدِّي على الخلق في دمائهم وأموالهم وأعراضهم؛ فكلُّ معصية وظلم يجب على العبد كفُّ نفسِهِ عنه، ثم إعانة غيره على تركه. {واتقوا الله إن الله شديدُ العقاب}: على من عصاه وتجرَّأ على محارِمِه؛ فاحذروا المحارمَ؛ لئلا يحلَّ بكم عقابُه العاجل والآجل.
[2] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ ﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان محرمات کو حلال نہ ٹھہرا لو جن کی تعظیم کا اور ان کے عدم فعل کا اس نے تمھیں حکم دیا ہے۔ پس یہ ممانعت، ان کے فعل کی ممانعت اور ان کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کی ممانعت پر مشتمل ہے، یعنی یہ ممانعت فعل قبیح اور اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کو شامل ہے اس ممانعت میں محرمات احرام اور محرمات حرم بھی داخل ہیں ۔ اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آتا ہے ﴿وَلَا الشَّ٘هْرَ الْحَرَامَ ﴾ ’’اور نہ ادب کے مہینے کی۔‘‘ یعنی حرمت کے مہینے میں لڑائی اور دیگر مظالم کا ارتکاب کر کے اس کی ہتک حرمت نہ کرو۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؔ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ﴾ (التوبۃ: 9؍36) ’’بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں ، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں ۔ یہی مضبوط دین ہے۔ تم ان مہینوں میں ناحق لڑائی کر کے اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔‘‘ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿فَاِذَا انْ٘سَلَ٘خَ الْاَشْ٘هُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ﴾ (التوبۃ: 9؍5) ’’جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو۔‘‘اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو عموم پر دلالت کرتی ہیں جن میں کفار کے ساتھ مطلق قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس قتال سے پیچھے رہ جانے پر وعید سنائی ہے۔ نیز نبی اکرمe نے ذیقعد کے مہینے میں اہل طائف کے خلاف جنگ کی اور ذی قعد حرام مہینوں میں سے ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی کی ممانعت منسوخ نہیں ہے اس کی دلیل یہی مذکورہ آیت کریمہ ہے۔ جس میں خاص طور پر لڑائی کی ممانعت کی گئی ہے اور انھوں نے اس بارے میں وارد مطلق نصوص کو مقید پر محمول کیا ہے۔ اور بعض علماء نے اس میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں ، البتہ اگر جنگ پہلے سے جاری ہو جبکہ اس کی ابتدا حلال مہینوں میں ہوئی ہو تو حرمت کے مہینوں میں اس کی تکمیل جائز ہے اور انھوں نے اہل طائف کے خلاف رسول اللہe کی جنگ کو اسی پر محمول کیا ہے۔ کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کی ابتدا حنین میں ہوئی جو شوال کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یہ سب اس جنگ کے بارے میں ہے جس میں مدافعت مقصود نہ ہو۔ جہاں تک دفاعی جنگ کا معاملہ ہے جبکہ وہ کفار کی طرف سے شروع کی گئی ہو تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ لڑنا جائز ہے۔ اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿وَلَا الْهَدْیَ ﴾ ’’اور نہ قربانی کے جانوروں کی۔‘‘ یعنی تم اس ﴿الْهَدْیَ ﴾ ’’قربانی‘‘ کو جو حج یا عمرہ یا دیگر ایام میں بیت اللہ کو بھیجی جا رہی ہو، حلال نہ ٹھہرا لو۔ اس کو قربان گاہ تک پہنچنے سے مت روکو۔ نہ اسے چوری وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ نہ اس کے بارے میں کوتاہی کرو اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادو۔ مبادا کہ وہ قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہو جائے بلکہ اس ہدی کی اور اس کو لانے والے کی تعظیم کرو۔ ﴿وَلَا الْقَلَآىِٕدَ ﴾ ’’اور نہ ان جانوروں کی (جو اللہ کی راہ میں نذر کردیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں ۔‘‘ یہ ہدی کی ایک خاص قسم ہے یہ ہدی کا وہ جانور ہے جس کے لیے قلادے وغیرہ تیار کر کے صرف اس لیے اس کی گردن میں ڈالے گئے ہوں تاکہ اس سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ کے شعائر ہیں، نیز اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں اور اس سے سنت کی تعلیم بھی مقصود ہے۔ تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے ، لہٰذا حرمت کا حامل ہے۔ بنا بریں ہدی کو علامت کے طور پر قلادے وغیرہ پہنانا سنت ہے اور شعائر مسنونہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَلَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ ﴾ ’’اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جارہے ہوں ۔‘‘ یعنی جو بیت اللہ کا قصد رکھتے ہیں ﴿یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا﴾ ’’اور اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں ۔‘‘ یعنی جو بیت اللہ پہنچنے کا قصد رکھتا ہے اور وہ تجارت اور جائز ذرائع اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ہے یا وہ حج، عمرہ، طواف بیت اللہ، نماز اور مختلف انواع کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ برائی سے پیش آؤ نہ اس کی اہانت کرو بلکہ اس کی تکریم کرو اور تمھارے رب کے گھر کی زیارت کے لیے جانے والوں کی تعظیم کرو۔ اس حکم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بیت اللہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پرامن بنایا جائے تاکہ بیت اللہ کو جانے والے بڑے اطمینان سے اللہ کے گھر کو جا سکیں ، انھیں راستے میں قتل و غارت اور اپنے اموال کے بارے میں کسی چوری ڈاکے اور کسی ظلم کا خوف نہ ہو۔ اس آیت کریمہ کے عموم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کرتا ہے ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا ﴾ (التوبہ: 9؍28) ’’اے ایمان لانے والے لوگو! مشرک تو ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔ ‘‘ لہٰذا مشرک حرم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس آیت کریمہ میں بیت اللہ کی طرف جانے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کا قصد رکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اس نیت سے بیت اللہ کا قصد کرتا ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کی ہتک حرمت کا ارتکاب کرے، اس کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں فساد پھیلانے سے روکا جائے کیونکہ اسے اس فعل سے روکنا حرم کے احترام کی تکمیل ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِـاِلْحَادٍۭؔ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ (الحج: 22؍25) ’’اور جو کوئی اس میں ظلم سے کج روی کرنا چاہے ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کیا ہے اس لیے فرمایا: ﴿وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا﴾ ’’اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔‘‘ یعنی جب تم حج اور عمرہ کا احرام کھول دو تو تمھارے لیے شکار کرنا جائز ہے اور اب اس کی تحریم ختم ہو گئی ہے۔ تحریم کے بعد کا حکم محرمہ اشیاء کو ان کی اس حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے جو تحریم کے حکم سے پہلے تھی۔ ﴿وَلَا یَجْرِمَنَّـكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْؔكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ ’’اور لوگوں کی دشمنی، اس وجہ سے کہ انھوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا، تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے۔‘‘ یعنی کسی قوم کا بغض، عداوت اور تم پر ان کا ظلم و تعدی کہ انھوں نے تمھیں مسجد حرام تک جانے سے روکا تھا تمھیں ان پر ظلم و تعدی کرنے پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے بدلہ لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو۔ کیونکہ بندے پر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرنا اور عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا فرض ہے۔ خواہ اس کے خلاف جرم، ظلم یا زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ جس نے اس پر جھوٹا الزام لگایا، اس پر جھوٹا الزام لگانا اور جس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اس کے ساتھ خیانت کرنا کسی حالت میں جائز نہیں ۔ ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْـبِرِّ وَالتَّقْوٰى ﴾ ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘ یعنی تم نیکیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ یہاں ﴿ الْـبِرِّ ﴾ ’’نیکی‘‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔ اس مقام پر تقویٰ ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ترک کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کو ناپسند ہیں ۔ بھلائی کی ہر خصلت جس کے فعل کا حکم یا برائی کی ہر خصلت جسے ترک کرنے کا حکم ہے بندہ خود بھی اس کے فعل پر مامور ہے اور اسے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ، اپنے قول و فعل کے ذریعے سے جو ان کو اس بھلائی پر آمادہ کرے یا اس میں نشاط پیدا کرے، تعاون کرنے کا حکم ہے۔ ﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ ﴾ ’’اور گناہ پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو‘‘ اور یہ ان گناہوں پر جسارت ہے جن کے ارتکاب سے انسان گناہ گار اور ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے ﴿ وَالْعُدْوَانِ ﴾ ’’اور نہ زیادتی پر‘‘ یہ مخلوق کے ساتھ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و ناموس کے بارے میں ظلم اور زیادتی ہے۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ ہر گناہ اور ظلم و تعدی سے اپنے آپ کو بھی روکے اور دوسروں کے ساتھ بھی اس ظلم و تعدی کو ترک کرنے پر تعاون کرے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جو اس کی نافرمانی کرے گا اور محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے گا۔ پس ہتک محارم سے بچو مبادا (ایسا نہ ہو) کہ تم اس کی دنیاوی یا اخروی سزا کے مستحق بن جاؤ۔
آیت: 3 #
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ}.
حرام کیا گیا تم پر مردہ جانور اور خون اور گوشت سور کا اور وہ جانور کہ پکارا جائے نام غیراللہ کا اس پر اور گلا گھٹنے سے مر جانے والا اور جو مر جائے چوٹ لگنے سے اور گر کر مرنے والا اور جو کسی کے سینگ سے مر جائے اور جس کو کھا جائیں درندے مگر جس کو تم ذبح کر لو اور جو جانور ذبح کیا جائے تھانوں پراور یہ کہ قسمت معلوم کرو فال کے تیروں کے ساتھ، یہ سب گناہ (کے کام) ہیں ۔
#
{3} هذا الذي حوَّلنا الله عليه في قوله: {إلاَّ ما يُتلى عليكم}. واعلم أن الله تبارك وتعالى لا يحرِّم ما يحرِّم إلاَّ صيانةً لعباده وحمايةً لهم من الضرر الموجود في المحرَّمات، وقد يبين للعبادِ ذلك وقد لا يبين، فأخبر أنه حرَّم {الميتة}، والمراد بالميتة ما فُقدت حياته بغير ذكاة شرعيَّة؛ فإنَّها تحرُم لضررها، وهو احتقان الدم في جوفها ولحمها المضرِّ بآكلها، وكثيراً ما تموت بعلةٍ تكون سبباً لهلاكها فتضرُّ بالآكل، ويستثنى من ذلك مَيْتَةُ الجراد والسمك؛ فإنه حلال، {والدَّمُ}؛ أي: المسفوح؛ كما قُيِّدَ في الآية الأخرى، {ولحمُ الخنزير}: وذلك شامل لجميع أجزائِهِ، وإنما نصَّ الله عليه من بين سائر الخبائث من السباع؛ لأنَّ طائفة من أهل الكتاب من النصارى يزعمون أن الله أحلَّه لهم؛ أي: فلا تغترُّوا بهم، بل هو محرَّم من جملة الخبائث، {وما أُهِلَّ لغيرِ الله به}؛ أي: ذُكر عليه اسم غير الله [تعالى] من الأصنام والأولياء والكواكب وغير ذلك من المخلوقين؛ فكما أن ذِكر الله تعالى يطيِّبُ الذبيحةَ؛ فذِكْرُ اسم غيره عليها يفيدها خبثاً معنوياً؛ لأنه شركٌ بالله تعالى، {والمنخنقةُ}؛ أي: الميتة بخنق بيدٍ أو حبل أو إدخالها رأسها بشيءٍ ضيِّق فتعجز عن إخراجِهِ حتى تموت، {والموقوذةُ}؛ أي: الميتة بسبب الضَّرب بعصا أو حصى أو خشبة أو هَدْم شيءٍ عليها بقصد أو بغير قصد، {والمتردِّية}؛ أي: الساقطة من علوٍّ؛ كجبل أو جدار أو سطح ونحوه فتموت بذلك، {والنَّطيحة}: وهي التي تنطَحُها غيرُها فتموت، {وما أكل السَّبُع}: من ذئب أو أسدٍ أو نمرٍ أو من الطيور التي تفترس الصُّيود؛ فإنها إذا ماتت بسبب أكل السبع؛ فإنها لا تحلُّ. وقوله: {إلَّا ما ذَكَّيْتُم}: راجعٌ لهذه المسائل من منخنقةٍ وموقوذةٍ ومتردِّيةٍ ونطيحةٍ وأكيلة سبع إذا ذُكِّيت وفيها حياةٌ مستقرَّة لتتحقق الذَّكاة فيها. ولهذا قال الفقهاء: لو أبان السَّبُع أو غيرُه حشوتَها أو قطع حلقومها؛ كان وجود حياتها كعدمِها ؛ لعدم فائدة الذَّكاة فيها. وبعضُهم لم يعتبر فيها إلا وجود الحياة؛ فإذا ذكَّاها وفيها حياةٌ؛ حلَّت، ولو كانت مبانة الحشوةِ، وهو ظاهر الآية الكريمة. {وأن تستقسموا بالأزلام}؛ أي: وحرم عليكم الاستقسام بالأزلام، ومعنى الاستقسام طلبُ ما يُقسم لكم ويُقْدَر بها، وهي قداح ثلاثة كانت تستعمل في الجاهلية، مكتوب على أحدها افعل، وعلى الثاني لا تفعل، والثالث غُفْلٌ لا كتابة فيه؛ فإذا همَّ أحدُهم بسفر أو عرس أو نحوهما؛ أجال تلك القداح المتساويةَ في الجرم، ثم أخرج واحداً منها؛ فإن خرج المكتوب عليه افعل؛ مضى في أمره، وإن ظهر المكتوب عليه لا تفعل؛ لم يفعل ولم يمض في شأنه، وإن ظهر الآخر الذي لا شيء عليه؛ أعادها حتى يخرجَ أحدُ القدحين فيعمل به، فحرّمه الله عليهم الذي في هذه الصورة وما يشبهه، وعوَّضهم عنه بالاستخارة لربِّهم في جميع أمورهم. {ذلكم فِسْقٌ}: الإشارة لكل ما تقدَّم من المحرَّمات التي حرَّمها الله صيانةً لعباده وأنها فسقٌ؛ أي: خروج عن طاعته إلى طاعة الشيطان. ثم امتن على عباده بقوله: {الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}. واليوم المشار إليه يوم عرفة؛ إذ أتمَّ الله دينهَ ونَصَرَ عبدَه ورسولَه وانخذلَ أهل الشِّرك انخذالاً بليغاً بعدما كانوا حريصين على ردِّ المؤمنين عن دينهم طامعين في ذلك، فلما رأوا عزَّ الإسلام وانتصاره وظهوره؛ يئسوا كلَّ اليأس من المؤمنين أن يرجِعوا إلى دينهم، وصاروا يخافون منهم ويَخْشَون، ولهذا في هذه السنة التي حجَّ فيها النبي - صلى الله عليه وسلم - سنة عشر حجة الوداع لم يحج فيها مشرك ولم يطف بالبيت عريان. ولهذا قال: {فلا تَخْشَوْهم واخشونِ}؛ أي: فلا تخشوا المشركين واخشوا الله الذي نصركم عليهم وخذلهم وردَّ كيدهم في نحورهم. {اليوم أكملتُ لكم دينكم}؛ بتمام النصر وتكميل الشرائع الظاهرة والباطنة الأصول والفروع. ولهذا كان الكتاب والسُّنة كافيينِ كلَّ الكفاية في أحكام الدين وأصوله وفروعه؛ فكلُّ متكلِّف يزعم أنه لا بدَّ للناس في معرفة عقائدهم وأحكامهم إلى علوم غير علم الكتاب والسُّنة من علم الكلام وغيره؛ فهو جاهلٌ مبطلٌ في دعواه، قد زعم أنَّ الدِّين لا يكمل إلا بما قاله ودعا إليه، وهذا من أعظم الظلم والتجهيل لله ولرسوله، {وأتممتُ عليكم نعمتي}: الظاهرةَ والباطنةَ، {ورضيتُ لكم الإسلامَ ديناً}؛ أي: اخترتُه واصطفيتُه لكم ديناً كما ارتضيتُكم له؛ فقوموا به شكراً لربِّكم واحمدوا الذي منَّ عليكم بأفضل الأديان وأشرفها وأكملها، {فمن اضْطُرَّ}؛ أي: ألجأته الضرورة إلى أكل شيء من المحرمات السابقة في قوله: {حُرِّمت عليكم الميتة} {في مَخْمَصَةٍ}؛ أي: مجاعة، {غير متجانفِ}؛ أي: مائل إلى إثمٍ: بأن لا يأكل حتَّى يضطرَّ، ولا يزيد في الأكل على كفايته. {فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}؛ حيث أباح له الأكل في هذه الحال، ورحمه بما يُقيم به بُنْيَتَهُ من غير نقص يلحقه في دينه.
[3] یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد جس کا اس نے اس آیت کریمہ ﴿ اِلَّا مَا یُتْ٘لٰى٘٘ عَلَیْكُمْ ﴾ میں حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام ٹھہرائی ہے وہ اپنے بندوں کی حفاظت اور ان کو اس ضرر سے بچانے کے لیے حرام قرار دی ہے جو ان محرمات میں ہوتا ہے۔ کبھی تو اللہ تعالیٰ یہ ضرر اپنے بندوں کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور کبھی (اپنی حکمت کے تحت) اس ضرر کو بیان نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ’’مردار‘‘ کو حرام قرار دیا ہے۔ مردار سے مراد وہ مرا ہوا جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح ہوئے بغیر زندگی سے محروم ہو گیا ہو، پس اس جانور کا گوشت ضرر رساں ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ضرر ہے اس کے اندر گوشت میں خون کا رک جانا، جس کے کھانے سے نقصان پہنچتا ہے اور اکثر جانور، جو کسی بیماری کی وجہ سے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے، مر جاتے ہیں ، وہ کھانے والے کے لیے نقصان کا باعث ہیں ، البتہ مری ہوئی ٹڈی اور مچھلی اس حکم سے مستثنی ہے۔ کیونکہ ان کا کھانا حلال ہے۔( یہ استثناء حدیث سے ثابت ہے، (سنن ابن ماجہ، حدیث: 3218) اسی لیے صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کے ساتھ ہی قرآن کی تفہیم اور اس کے احکامات کی تعمیل کی تکمیل ہوتی ہے۔ (ص ۔ ی) ﴿وَالدَّمُ ﴾ ’’اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کو اس صفت سے مقید بیان کیا گیا ہے ﴿ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ ﴾ ’’اور سور کا گوشت‘‘ اس حرمت میں اس کے تمام اجزا شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ناپاک درندوں میں سے خنزیر کو خاص طور پر منصوص کیا ہے کیونکہ اہل کتاب میں سے نصاریٰ دعویٰ کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو حلال قرار دیا ہے...، یعنی نصاریٰ سے دھوکہ نہ کھانا کیونکہ یہ خنزیر بھی حرام اور من جملہ خبائث کے ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ﴾ ’’اور وہ جس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے‘‘ یعنی اس پر بتوں ، اولیاء، کواکب اور دیگر مخلوق کا نام لیا گیا ہو۔ جس طرح ذبیحہ پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا، اسے پاک کر دیتا ہے اسی طرح غیر اللہ کا نام، ذبیحہ کو معنوی طور پر ناپاک کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ شرک ہے ﴿ وَالْمُنْخَنِقَةُ ﴾ ’’جو جانور گلا گھٹ کر مرجائے۔‘‘ یہ وہ مرا ہوا جانور ہے جس کو ہاتھ سے، رسی سے یا کسی تنگ چیز میں اس کا سر داخل کر کے جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا ہو۔ ﴿ وَالْ٘مَوْقُ٘وْذَةُ ﴾ ’’جو چوٹ لگ کر مرجائے۔‘‘ اس مرے ہوئے جانور کو کہا جاتا ہے جو لاٹھی، پتھر یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے مرا ہو یا اس پر قصداً یا بغیر قصد کے دیوار وغیرہ گر گئی ہو ﴿ وَالْمُتَرَدِّیَةُ۠ ﴾ ’’جو گر کر مرجائے۔‘‘ یعنی جو بلند جگہ ، مثلاً: پہاڑ، دیوار یا چھت وغیرہ سے گر کر مر گیا ہو ﴿وَالنَّطِیْحَةُ ﴾ اس مرے ہوئے جانور کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کر دیا ہو ﴿ وَمَاۤ اَكَ٘لَ السَّبُعُ ﴾ جسے بھیڑیے، شیر، چیتے یا کسی شکاری پرندے وغیرہ نے پھاڑ کھایا ہو۔ اگر درندے کے پھاڑ کھانے سے جانور مر جائے تو یہ حلال نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اِلَّا مَا ذَكَّـیْتُمْ ﴾ ’’مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔‘‘ گلا گھٹ کر مرنے والے، چوٹ لگ کر مرنے والے، بلندی سے گر کر مرنے والے اور درندے کے پھاڑ کھانے سے مرنے والے جانور کی طرف راجع ہے۔ اگر اس جانور میں پوری طرح زندگی موجود ہو اور اسے ذبح کر لیا جائے تو یہ جانور شرعی طور پر مذبوح ہے۔ بنابریں فقہاء کہتے ہیں ’’اگر کسی درندے وغیرہ نے کسی جانور کو چیر پھاڑ کر اس کی آنتیں اور دیگر اندرونی اعضا کو باہر نکال کر علیحدہ علیحدہ کر دیا ہو یا اس کا حلقوم کاٹ دیا ہو تو اس میں زندگی کا وجود اور عدم وجود مساوی ہیں ۔ کیونکہ اب اس کو ذبح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘بعض فقہاء اس میں صرف زندگی کے وجود کا اعتبار کرتے ہیں ۔ اگر اس جانور میں بھی زندگی کا وجود ہو اور اس حالت میں اس کو ذبح کر لیا جائے تو وہ حلال ہے خواہ اس کا اندرونی حصہ بکھیر ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ آیت کریمہ کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ وَاَنْ تَ٘سْ٘تَ٘قْ٘سِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ﴾ ’’اور یہ کہ پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو۔‘‘ یعنی تمھیں تیروں کے ذریعے سے قسمت کا حال معلوم کرنے سے منع کر دیا گیا۔ استسقام کے معنی یہ ہیں کہ جو تمھارے مقسوم اور مقدر میں ہے اسے طلب کرنا۔ جاہلیت کے زمانے میں تین تیر ہوتے تھے جن کو اس کام کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن میں سے ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ ’’یہ کام کر‘‘ دوسرے پر لکھا ہوتا تھا ’’یہ کام نہ کر‘‘ اور تیسرا تیر خالی ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص کسی سفر پر روانہ ہونے لگتا یا شادی وغیرہ کرتا تو تینوں تیر کسی ڈونگی وغیرہ میں رکھ کر گھماتے پھر ان میں سے ایک تیر نکال لیتے اگر اس پر لکھا ہوتا ’’یہ کام کر‘‘ تو وہ یہ کام کر لیتا اور اگر لکھا ہوتا ’’یہ کام نہ کر‘‘ تو وہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر وہ تیر نکل آتا جس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوتا تو وہ اس عمل کا اعادہ کرتا یہاں تک کہ لکھا ہوا تیر نکل آتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اس عمل کو اس صورت میں یا اس سے مشابہ صورت میں حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض ان کو تمام امور میں اپنے رب سے استخارہ کرنے کا حکم دیا (جیسا کہ حدیث نبوی سے استخارے کی تاکید ہے۔ جامع الترمذي، حدیث: ۴۸۰) ﴿ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ﴾ ’’یہ سب گناہ (کے کام) ہیں ۔‘‘ یہ ان تمام محرمات کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ یہ تمام محرمات فسق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتا ہے: آج ناامید ہوگئے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تمھارے دین سے پس نہ ڈرو تم ان سے اور ڈرو مجھ ہی سے۔ آج مکمل کر دیا میں نے تمھارے لیے تمھارا دین اور پوری کر دی تم پر اپنی نعمت اور پسند کر لیا تمھارے لیے اسلام کو بطور دین کے۔ پس جو لاچار ہو جائے بھوک میں نہ مائل ہونے والا ہو گناہ پر تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے(3) [3] وہ دن جس کی طرف آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ عرفہ کا دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل فرمایا، اپنے بندے اور رسولe کی مدد کی اور اہل شرک پوری طرح بے یارو مددگار ہو گئے، حالانکہ وہ اس سے پہلے اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرنے کی بہت خواہش رکھتے تھے۔ جب انھوں نے اسلام کا غلبہ، اس کی فتح اور بالادستی دیکھی تو اہل ایمان کو دین سے پھیرنے سے پوری طرح مایوس ہو گئے اور اب ان کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ اہل ایمان سے خوف کھانے لگے۔ بنابریں ، اس سال یعنی ۱۰ ھ میں جب رسول اللہe نے آخری حج کیا تو اس حج میں کسی مشرک نے حج نہیں کیا اور نہ کسی نے عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ﴾ ’’تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی مشرکین سے نہ ڈرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے مشرکین کے مقابلے میں تمھاری مدد فرمائی اور ان کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کے مکرو فریب اور ان کی سازشیں ان کے سینوں ہی میں لوٹا دیں ۔ ﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَؔكُمْ ﴾ ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا‘‘ یعنی اپنی نصرت کا اتمام کر کے اور ظاہری و باطنی طور پر اور اصول و فروع میں شریعت کی تکمیل فرما کر۔ اسی لیے احکام دین، یعنی اس کے تمام اصول و فروع میں کتاب و سنت کافی ہیں ۔ اگر تکلف کا شکار کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگ عقائد اور احکام دین کی معرفت کے لیے کتاب و سنت کے علم کے علاوہ دیگر علوم ، مثلاً: علم کلام وغیرہ کے محتاج ہیں تو وہ جاہل اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے گویا وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دین کی تکمیل اس کے اقوال اور ان نظریات کے ذریعے سے ہوئی ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کو جاہل قرار دینا ہے۔ ﴿ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ ﴾ ’’میں نے تم پر اپنی (ظاہری اور باطنی) نعمت پوری کر دی ﴿ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾ ’’اور میں نے تمھارے لیے اسلام کو دین کے طورپر پسند کرلیا۔‘‘ یعنی میں نے اسلام کو تمھارے لیے دین کے طور پر اور تمھیں اسلام کے لیے چن لیا ہے۔ اب اپنے رب کی شکر گزاری کے لیے اس دین کو قائم کرو اور اس ہستی کی حمد و ستائش کرو جس نے تمھیں بہترین، عالی شان اور کامل ترین دین سے نواز کر تم پر احسان فرمایا۔ ﴿ فَ٘مَنِ اضْطُرَّ ﴾ ’’پس جو شخص ناچار ہوجائے۔‘‘ یعنی جسے ضرورت ان محرمات میں سے کچھ کھانے پر مجبور کر دے جن کا ذکر ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ﴾کے تحت گزر چکا ہے ﴿ فِیْ مَخْمَصَةٍ ﴾ ’’بھوک کی وجہ سے‘‘ یعنی اگر وہ سخت بھوکا ہو ﴿ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ﴾ ’’ گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔‘‘ بایں طور کہ وہ ان محرمات کو اس وقت تک نہ کھائے جب تک کہ وہ اضطراری حالت میں نہ ہو اور ضرورت سے بڑھ کر نہ کھائے ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ غَ٘فُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے کہ اس نے بندے کے لیے اس اضطراری حال میں محرمات کو کھانا جائز قرار دے دیا۔ اور اس کی نیت کے مطابق اور دین میں کوئی نقص لاحق کیے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرمایا۔
آیت: 4 #
{يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (4)}.
پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں ان کے لیے؟ کہہ دیجیے حلال کر دی گئی ہیں تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں اور (شکار ان کا) جو سدھائے تم نے شکاری جانور، جب سدھانے والے ہو، سکھاتے ہو تم ان کو ان میں سے جو سکھلائیں تمھیں اللہ نے، پس کھاؤ تم ان میں سے جو وہ روک رکھیں تمھاری خاطر اور ذکر کرو نام اللہ کا اس پر اور ڈرو اللہ سے، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے(4)
#
{4} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {يسألونك ماذا أُحِلَّ لهم}: من الأطعمة، {قل أُحِلَّ لكم الطَّيباتُ}: وهي كلُّ ما فيه نفعٌ أو لَذَّةٌ من غير ضررٍ بالبدن ولا بالعقل، فدخل في ذلك جميع الحبوب والثمار التي في القرى والبراري، ودخل في ذلك جميع حيوانات البحر وجميع حيوانات البرِّ؛ إلا ما استثناه الشارع كالسباع والخبائث منها. ولهذا دلَّت الآية بمفهومها على تحريم الخبائث؛ كما صرَّح به في قوله تعالى: {ويُحِلُّ لهم الطَّيِّبات ويحرِّمُ عليهم الخبائثَ}، {وما علَّمْتُم من الجوارح}؛ أي: وأُحِلَّ لكم ما عَلَّمْتُم من الجوارح ... إلى آخر الآية. دلَّت هذه الآية على أمور: أحدها: لطف الله بعبادِهِ ورحمته لهم حيثُ وسَّع عليهم طرق الحلال، وأباح لهم ما لم يُذَكُّوه مما صادته الجوارح، والمراد بالجوارح الكلاب والفهود والصقر ونحو ذلك مما يصيد بنابه أو بمخلبه. الثاني: أنه يشترط أن تكون معلَّمة بما يُعَدُّ في العرف تعليماً؛ بأن يسترسل إذا أرسل، وينزجر إذا زجر، وإذا أمسك لم يأكل، ولهذا قال: {تعلِّمونهن مما علَّمكم الله فكلوا مما أمْسَكْنَ عليكم}؛ أي: أمسكن من الصيد لأجلكم، وما أكل منه الجارح؛ فإنَّه لا يعلم أنه أمسكه على صاحبه، ولعلَّه أن يكون أمسكه على نفسه. الثالث: اشتراط أن يجرحه الكلب أو الطير ونحوهما؛ لقوله: {من الجوارح}؛ مع ما تقدم من تحريم المنخنقة؛ فلو خنقه الكلب أو غيره أو قتله بثقله؛ لم يُبَحْ، هذا بناء على أن الجوارح اللاتي يجرحن الصيد بأنيابها أو مخالبها، والمشهور أن الجوارح بمعنى الكواسب؛ أي: المحصِّلات للصيد والمدركات له، فلا يكون فيها على هذا دلالة. والله أعلم. الرابع: جواز اقتناء كلب الصيد؛ كما ورد في الحديث الصحيح ، مع أنَّ اقتناء الكلب محرَّم؛ لأن من لازم إباحة صيده وتعليمه جواز اقتنائه. الخامس: طهارة ما أصابه فمُ الكلب من الصيدِ؛ لأن الله أباحه ولم يذكر له غسلاً، فدلَّ على طهارته. السادس: فيه فضيلةُ العلم، وأنَّ الجارح المعلَّم بسبب العلم يُباح صيده والجاهل بالتعليم لا يُباح صيده. السابع: أنَّ الاشتغال بتعليم الكلب أو الطير أو نحوهما ليس مذموماً وليس من العَبَث والباطل، بل هو أمرٌ مقصودٌ؛ لأنَّه وسيلة لحِلِّ صيده والانتفاع به. الثامن: فيه حجة لمن أباح بيع كلب الصيد؛ قال: لأنه قد لا يحصُل له إلا بذلك. التاسع: فيه اشتراط التسمية عند إرسال الجارح، وأنَّه إن لم يسمِّ الله متعمداً؛ لم يُبَحْ ما قتل الجارح. العاشر: أنه يجوز أكل ما صاده الجارح، سواء قتله الجارح أم لا، وأنه إن أدركه صاحبه وفيه حياة مستقرة؛ فإنه لا يباح إلا بها. ثمَّ حثَّ تعالى على تقواه وحذَّر من إتيان الحساب في يوم القيامة، وأنَّ ذلك أمر قد دنا واقترب، فقال: {واتَّقوا الله إنَّ الله سريعُ الحساب}.
[4] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمْ﴾ ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘ یعنی ان کے لیے کون کون سے کھانے حلال ہیں۔ ﴿ قُ٘لْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰؔتُ ﴾ ’’کہہ دیجیے! تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں‘‘ ﴿الطَّیِّبٰؔتُ ﴾ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں کوئی فائدہ ہے اور بدن اور عقل میں نقصان پہنچے بغیر ان سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ پس طیبات میں وہ تمام غلہ جات اور پھل وغیرہ شامل ہیں جو بستیوں اور صحراؤں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کے مضمون میں وہ تمام حیوانات بھی شامل ہیں جو خشک زمین پر پائے جاتے ہیں سوائے ان حیوانات کے جن کو شارع نے مستثنی قرار دیا ہے، مثلاً: درندے اور ناپاک جانور اور ناپاک اشیاء وغیرہ۔ اسی لیے یہ آیت کریمہ اپنے مفہوم میں ناپاک چیزوں کی تحریم پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں صراحت کے ساتھ اس تحریم کو بیان کیا گیا ہے: ﴿وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰؔتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْؔخَبٰٓؔىِٕثَ ﴾ (الاعراف: 7؍157) ’’وہ پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو ان کے لیے حرام ٹھہراتا ہے۔‘‘ ﴿وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾ ’’اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔‘‘ یعنی جو تم شکاری جانوروں کو شکار کرنا سکھاتے ہو وہ شکار بھی تمھارے لیے حلال ہے۔ یہ آیت کریمہ شکار کے متعلق متعدد امور پر دلالت کرتی ہے۔ (۱) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لیے رزق حلال کی راہیں کشادہ کر دی ہیں اور ان کے لیے شکاری جانوروں کے شکار کیے ہوئے اس شکار کو حلال کر دیا جس کو ذبح نہیں کر سکتے… شکاری جانور سے مراد کتے، چیتے اور باز وغیرہ ہیں ، جو اپنے دانتوں سے یا پنجے سے شکار کو پکڑتے ہیں ۔ (۲) شکاری جانور کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کو شکار کے لیے سکھایا گیا ہو۔ ایسا سکھانا جس کو عرف عام میں سکھانا کہتے ہیں ، یعنی اگر اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار پر جھپٹے اور اگر اس کو روک دیا جائے تو فوراً رک جائے۔ اور جب شکار کو پکڑ لے تو اس کو نہ کھائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿تُعَلِّمُوْنَ٘هُنَّ مِمَّؔا عَلَّمَؔكُمُ اللّٰهُ١ٞ فَكُلُوْا مِمَّؔاۤ اَمْسَكْ٘نَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اور جس (طریق) سے اللہ نے تمھیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمھارے لیے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو۔‘‘ یعنی وہ شکار کو تمھارے لیے روک رکھیں اور جس شکار میں سے شکاری جانور نے کچھ کھا لیا ہو تو اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا اس نے شکار کو اپنے مالک کے لیے پکڑا ہے اور شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے شکار خود اپنے لیے پکڑا ہو۔ (۳) شکاری جانور کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ کتا ہو یا باز وغیرہ، شکار کو زخمی کرتا ہو (اس کا گلا نہ گھونٹتا ہو) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾ سے واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلا گھٹ کر مر جانے والے جانور کی حرمت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اگر کتے وغیرہ نے شکار کا گلا گھونٹ دیا ہو یا اسے اپنے بوجھ تلے دبا کر اسے ہلاک کر دیا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں ۔ یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ شکاری جانور وہ ہیں جو شکار کو اپنے دانتوں یا پنجوں سے زخمی کرتے ہیں ۔ ﴿جَوَارِحِ ﴾ ’’شکاری جانور‘‘ کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس سے مراد شکار کو حاصل کر لینے اور اس کو پا لینے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ (اس لیے ’’جوارح‘‘ کا وہی مفہوم صحیح ہے جس کی وضاحت اس سے پہلے کی جاچکی ہے) (۴) شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب اقتناء الکلب للحرث، حدیث: 2322) اس کے ساتھ ساتھ عام کتا پالنا حرام ہے ... کیونکہ کتے کے شکار اور اس کو شکار کے لیے سکھانے کے جواز سے لازم آتا ہے کہ اس کو پالنا بھی جائز ہے۔ (۵) شکار کو اگر کتے کے منہ سے نکلا ہوا لعاب وغیرہ لگ جائے تو وہ پاک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتے کے مارے ہوئے شکار کو مباح قرار دیا ہے اور شکار کو دھونے کا حکم نہیں ہے۔ یہ چیز شکار کو لگے ہوئے کتے کے لعاب کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ (۶) اس میں علم کی فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ سدھائے ہوئے شکاری جانور کا مارا یا پکڑا ہوا شکار علم کی وجہ سے ہی مباح ہوتا ہے۔ اگر اسے تعلیم نہ دی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں ہوتا۔ (۷) شکاری کتے اور شکاری پرندے وغیرہ کو سکھانے میں مشغول ہونا مذموم، عبث اور باطل نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو امر مقصود ہے کیونکہ شکاری جانور کو سکھانا اس کے مارے ہوئے شکار کی حلت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ ہے۔ (۸) اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے دلیل ہے جو کتے کی فروخت کو جائز قرار دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خریدے بغیر کتے کا حصول ممکن نہیں ۔ (۹) شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت تکبیر پڑھنا شرط ہے۔ اگر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت عمداً تکبیر نہ پڑھی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں ۔ (۱۰) شکاری جانور کے مارے ہوئے شکار کو کھانا جائز ہے خواہ شکار مر گیا ہو یا زندہ ہو۔ اگر مالک شکار کو اس حالت میں پا لے کہ ابھی وہ زندہ ہو تو ذبح کیے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور قیامت کے روز حساب سے ڈرایا ہے۔ اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ بہت قریب آن لگا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک وہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘
آیت: 5 #
{الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (5)}.
آج حلال کر دی گئیں تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا، جن کو دی گئی کتاب، حلال ہے تمھارے لیے۔ اور کھانا تمھارا حلال ہے، ان کے لیے۔ اور (حلال ہیں تمھارے لیے) پاک دامن مسلمان عورتیں اور پاک دامن عورتیں اُن کی جن کو دی گئی کتاب تم سے پہلے، جب دو تم ان کو مہر ان کے، (نیز) قید نکاح میں لانے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے اور نہ بنانے والے خفیہ آشنا۔ اور جو انکار کرے گا ایمان سے تو یقینا برباد ہوگئے اس کے عمل اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا(5)
#
{5} كرَّرَ تعالى إحلال الطيبات لبيان الامتنان، ودعوةً للعباد إلى شكره والإكثار من ذِكره؛ حيث أباح لهم ما تدعوهم الحاجةُ إليه، ويحصُل لهم الانتفاع به من الطيبات. {وطعام الذين أوتوا الكتاب حِلٌّ لكم}؛ أي: ذبائح اليهود والنَّصارى حلال لكم يا معشر المسلمين دون باقي الكفار فإنَّ ذبائحهم لا تحلُّ للمسلمين، وذلك لأنَّ أهل الكتاب ينتسِبون إلى الأنبياء والكتب، وقد اتَّفق الرسل كلُّهم على تحريم الذَّبح لغير الله؛ لأنه شركٌ؛ فاليهود والنصارى يتديَّنون بتحريم الذَّبح لغير الله؛ فلذلك أبيحت ذبائحهم دون غيرهم. والدليل على أن المراد بطعامهم ذبائحهم: أنَّ الطعام الذي ليس من الذبائح؛ كالحبوب والثمارِ، ليس لأهل الكتاب فيه خصوصيَّةٌ، بل يُباح ذلك، ولو كان من طعام غيرهم. وأيضاً؛ فإنه أضاف الطعام إليهم، فدل ذلك على أنه كان طعاماً بسبب ذبحهم، ولا يقال: إنَّ ذلك للتمليك، وإنَّ المراد الطعام الذي يملكون؛ لأنَّ هذا لا يُباح على وجه الغصب ولا من المسلمين. {وطعامكم}: أيُّها المسلمون، {حلٌّ لهم}؛ أي: يحلُّ لكم أن تطعموهم إياه. {و} أحِلَّ لكم {المحصناتُ}؛ أي: الحرائر العفيفات {من المؤمنات}؛ والحرائر العفيفات {من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم}؛ أي: من اليهود والنصارى، وهذا مخصِّص لقوله تعالى: {ولا تنكِحوا المشركاتِ حتَّى يؤمنَّ}، ومفهوم الآية أنَّ الأرقَّاء من المؤمنات لا يباح نكاحهنَّ للأحرار وهو كذلك، وأما الكتابيات فعلى كل حال لا يبحن ولا يجوز نكاحهن للأحرار مطلقاً؛ لقوله تعالى: {من فتياتِكُم المؤمنات}. وأما المسلماتُ إذا كنَّ رقيقات؛ فإنه لا يجوز للأحرار نكاحُهُنَّ إلا بشرطين: عدم الطَّوْل، وخوف العَنَت. وأما الفاجرات غير العفيفات عن الزِّنا؛ فلا يُباح نكاحهنَّ، سواء كنَّ مسلماتٍ أو كتابياتٍ حتى يَتُبْنَ؛ لقولِهِ تعالى: {الزَّاني لا يَنكِحُ إلا زانيةً أو مشركةً ... } الآية. وقوله: {إذا آتيتُموهنَّ أجورَهنَّ}؛ أي: أبحنا لكم نكاحَهُنَّ إذا أعطيتُموهن مهورهنَّ؛ فمن عَزَمَ على أن لا يؤتيها مهرها؛ فإنها لا تحلُّ له، وأمر بإيتائها إذا كانت رشيدةً تصلح للإيتاء، وإلاَّ أعطاه الزوج لوليِّها، وإضافة الأجور إليهنَّ دليلٌ على أنَّ المرأة تملك جميع مهرِها، وليس لأحدٍ منه شيءٌ؛ إلاَّ ما سمحت به لزوجها أو وليِّها أو غيرهما. {محصِنين غير مسافحين}؛ أي: حالة كونِكم أيُّها الأزواج محصنين لنسائِكم بسبب حفظكم لفروجِكم عن غيرهنَّ، {غير مسافِحين}؛ أي: زانين مع كلِّ أحدٍ، {ولا متَّخذي أخدان}: وهو الزِّنا مع العشيقات؛ لأنَّ الزُّناة في الجاهلية منهم من يزني مع من كان؛ فهذا المسافح، ومنهم من يزني مع خدنه ومحبِّه؛ فأخبر الله تعالى أن ذلك كله ينافي العفَّة، وأن شرطَ التزوُّج أن يكون الرجل عفيفاً عن الزِّنا. وقوله تعالى: {ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله}؛ أي: ومن كفر بالله تعالى وما يجب الإيمان به من كتبه ورسله أو شيء من الشرائع؛ فقد حَبِطَ عملُه؛ بشرط أن يموت على كفره؛ كما قال تعالى: {ومن يَرْتَدِدْ منكم عن دينِهِ فيَمُتْ وهو كافرٌ فأولئك حبطتْ أعمالهم في الدُّنيا والآخرة}. {وهو في الآخرة من الخاسرين}؛ أي: الذين خسروا أنفسَهم وأموالهم وأهليهم يوم القيامة، وحصلوا على الشقاوة الأبديَّة.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے طیبات کی حلت کو مکرر بیان فرمایا۔ اس میں بندوں کو اس کا شکر ادا کرنے اور کثرت سے ذکر کرنے کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ان چیزوں کو مباح فرمایا جن کے وہ سخت محتاج تھے اور وہ ان طیبات سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔ ﴿وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ٘ لَّـكُمْ ﴾ ’’اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔‘‘ یعنی اے مسلمانو! تمھارے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذبیحے حلال ہیں اور باقی کفار کے ذبیحے حلال نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب انبیائے کرام اور کتابوں سے منسوب ہیں اور تمام انبیائے کرام غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی تحریم پر متفق ہیں کیونکہ یہ شرک ہے۔ پس یہود و نصاریٰ بھی غیر اللہ کے نام پر ذبیحے کی حرمت کے قائل ہیں ۔ اس لیے دیگر کفار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے۔ اور یہاں ان کے طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ طعام جو ذبیحہ کے زمرے میں نہیں آتا ، مثلاً: غلہ اور پھل وغیرہ تو اس میں اہل کتاب کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ غلہ اور پھل تو حلال ہیں ، اگرچہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کا طعام ہوں ۔ نیز طعام کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان کا ذبیحہ ہونے کے سبب سے ’’ان کا کھانا‘‘ ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اضافت تملیک کے لیے ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہ کھانا ہے، جس کے وہ مالک ہیں ۔ کیونکہ غصب کے پہلو سے یہ بھی حلال نہیں خواہ مسلمانوں ہی کا ہو۔ ﴿ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ٘ لَّهُمْ﴾ ’’اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے۔‘‘ اے مسلمانو! اگر تم اپنا کھانا اہل کتاب کو کھلاؤ تو یہ ان کے لیے حلال ہے ۔﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ ’’آزاد اور عفت ماب مومن عورتیں (تمھارے لیے حلال ہیں )‘‘ ﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ ’’اور آزاد پاک دامن اہل کتاب کی عورتیں ۔‘‘ یعنی یہود و نصاریٰ کی آزاد عفت ماب عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں ۔ اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تخصیص کرتی ہے ﴿وَلَا تَنْكِحُوا الْ٘مُشْ٘رِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ ﴾ (البقرہ: 2؍221) ’’اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔‘‘ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ مومن لونڈیوں کا آزاد مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ۔ لیکن اہل کتاب لونڈیوں کا نکاح، آزاد مومن مردوں کے ساتھ مطلقا حرام ہے۔ اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿مِنْ فَتَیٰتِكُمُ الْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ (النساء: 4؍25) ’’اور ان لونڈیوں سے نکاح کر لو جو مومن ہیں ۔‘‘ اگر مسلمان عورتیں لونڈیاں ہوں تو آزاد مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کے لیے دو شرائط ہیں ۔ (۱) مرد آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ (۲) عدم نکاح کی صورت میں اسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو۔ رہی فاجر عورتیں ، جو زنا سے نہیں بچتیں ، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں جب تک کہ وہ حرام کاری سے تائب نہ ہو جائیں ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْ٘رِكَةً﴾ (النور: 24؍3) ’’زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانی عورت یا مشرک عورت کے ساتھ ہی۔‘‘ ﴿اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ﴾ ’’جبکہ ان کا مہر دے دو۔‘‘ یعنی جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ہم نے ان کے ساتھ تمھارا نکاح جائز قرار دے دیا ہے۔ اور جس کا یہ ارادہ ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ اگر عورت سمجھ دار ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خود اسے مہر ادا کیا جائے ورنہ شوہر اس کے سرپرست کو مہر ادا کرے۔ حق مہر کی عورتوں کی طرف اضافت دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے تمام حق مہر کی خود مالک ہوتی ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ۔ سوائے اس کے کہ عورت خود اپنے شوہر کو یا اپنے ولی (سرپرست) وغیرہ کو یہ مہر عطا کر دے۔ ﴿مُحْصِنِیْنَ ﴾ ’’اور عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔‘‘ یعنی اے شوہرو! اس حال میں کہ تم اپنی بیویوں کی عفت کی حفاظت کر کے ان کو پاک باز رکھو ﴿غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ﴾ ’’نہ کہ اس حال میں کہ تم ہر ایک کے ساتھ زنا کرتے پھرو۔‘‘ ﴿وَلَا مُتَّؔخِذِیْۤ اَخْدَانٍ﴾ اور نہ اس حالت میں کہ تم اپنی معشوقاؤں کے ساتھ بدکاری کرو (اخدان) سے مراد ہے معشوقاؤں کے ساتھ زنا کرنا۔ زمانۂ جاہلیت میں زناکاروں کی دو اقسام تھیں : (۱) کسی بھی عورت کے ساتھ زنا کرنے والے ۔ ان کو ﴿مُسٰفِحِیْنَ ﴾ کہاجاتا ہے۔ (۲) صرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والے۔ یہ ﴿اَخْدَانٍ﴾ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ دونوں صورتیں پاک دامنی کے منافی ہیں اور یہ کہ نکاح کی شرط یہ ہے کہ مرد زناکاری سے دامن بچانے والا ہو۔ ﴿وَمَنْ یَّكْ٘فُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ﴾ ’’اور جو منکر ہوا ایمان سے تو ضائع ہو گئے عمل اس کے‘‘ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان چیزوں کے ساتھ کفر کرتا ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور اس کے انبیاء و رسلo اور شریعت کے بعض امور... اور وہ اسی کفر کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ (البقرۃ: 2؍217) ’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے اور وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔‘‘ ﴿وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ یعنی ان کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو قیامت کے روز، اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہوں گے۔ اور ابدی بدبختی ان کا نصیب بنے گی۔
آیت: 6 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (6)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب اٹھو تم نماز کے لیے تو دھوؤ اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک اور مسح کرو اپنے سروں کا اور (دھوؤ) اپنے پاؤں ٹخنوں تک اور اگر ہو تم جنبی تو غسل کرو اور اگر ہو تم (شدید) بیمار یا سفر میں یا آئے کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے یا ہم بستری کی ہو تم نے عورتوں سے، پھر نہ پاؤ تم پانی تو تیمم کر لو مٹی پاک سے پس مسح کرو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا اس (مٹی) سے، نہیں ارادہ کرتا اللہ کہ کرے تم پر کوئی تنگی لیکن ارادہ کرتا ہے وہ کہ پاک کر دے تم کو اور تاکہ پوری کرے اپنی نعمت تم پر تاکہ تم شکر کرو(6)
#
{6} هذه آية عظيمة قد اشتملت على أحكام كثيرةٍ نذكر منها ما يسَّره الله وسهله: أحدها: أن هذه المذكورات فيها امتثالها والعمل بها من لوازم الإيمان الذي لا يتمُّ إلا به؛ لأنه صدَّرها بقوله: {يا أيها الذين آمنوا ... } إلى آخرها؛ أي: يا أيها الذين آمنوا، اعملوا بمقتضى إيمانِكم بما شَرَعناه لكم. الثاني: الأمر بالقيام بالصلاة؛ لقوله: {إذا قمتم إلى الصلاة}. الثالث: الأمر بالنيَّة للصلاة؛ لقوله: {إذا قمتم إلى الصلاة}؛ أي: بقصدها ونيَّتها. الرابع: اشتراط الطَّهارة لصحَّة الصلاة؛ لأنَّ الله أمر بها عند القيام إليها، والأصل في الأمر الوجوب. الخامس: أن الطَّهارة لا تجب بدخول الوقت، وإنما تجب عند إرادة الصلاة. السادس: أنَّ كلَّ ما يُطلق عليه اسم الصلاة من الفرض والنفل وفرض الكفاية وصلاة الجنازة تُشْتَرَطُ له الطهارة، حتى السُّجود المجرَّد عند كثير من العلماء؛ كسجود التلاوة والشكر. السابع: الأمر بغسل الوجه، وهو ما تحصُل به المواجهة من منابت شعر الرأس المعتاد إلى ما انحدر من اللحيين والذقن طولاً ومن الأذن إلى الأذن عرضاً، ويدخل فيه المضمضة والاستنشاق بالسنة ، ويدخل فيه الشعور التي فيه، لكن إن كانت خفيفة؛ فلا بد من إيصال الماء إلى البشرة، وإن كانت كثيفةً؛ اكتفي بظاهرها. الثامن: الأمر بغسل اليدين، وأنَّ حدَّهما إلى المرفقين، و {إلى} كما قال جمهور المفسرين بمعنى مع؛ كقوله تعالى: {ولا تأكلوا أموالهم إلى أموالكم}، ولأن الواجب لا يتمُّ إلا بغسل جميع المرفق. التاسع: الأمر بمسح الرأس. العاشر: أنه يجب مسحُ جميعه؛ لأن الباء ليست للتبعيض، وإنما هي للملاصقة، وأنه يعمُّ المسح بجميع الرأس. الحادي عشر: أنه يكفي المسح كيفما كان بيديه أو إحداهما أو خرقة أو خشبة أو نحوهما؛ لأن الله أطلق المسح، ولم يقيده بصفة، فدل ذلك على إطلاقه. الثاني عشر: أن الواجب المسح؛ فلو غسل رأسه ولم يُمِرَّ يده عليه؛ لم يكفِ؛ لأنه لم يأتِ بما أمر الله به. الثالث عشر: الأمر بغسل الرجلين إلى الكعبين، ويقال فيهما ما يقال في اليدين. الرابع عشر: فيها الردُّ على الرافضة على قراءة الجمهور بالنصب، وأنَّه لا يجوز مسحهما ما دامتا مكشوفتين. الخامس عشر: فيه الإشارة إلى مسح الخفين على قراءة الجر في {وأرجلكم}، وتكون كلٌّ من القراءتين محمولةً على معنى؛ فعلى قراءة النصب فيها غسلهما إن كانتا مكشوفتين، وعلى قراءة الجرِّ فيها مسحهما إذا كانتا مستورتين بالخفِّ. السادس عشر: الأمر بالترتيب في الوضوء؛ لأنَّ الله تعالى ذكرها مرتَّبةً؛ ولأنَّه أدخل ممسوحاً ـ وهو الرأس ـ بين مغسولين، ولا يُعلم لذلك فائدة غير الترتيب. السابع عشر: أنَّ الترتيب مخصوص بالأعضاء الأربعة المسمَّيات في هذه الآية، وأما الترتيب بين المضمضة والاستنشاق والوجه أو بين اليمنى واليسرى من اليدين والرجلين؛ فإن ذلك غير واجب، بل يستحبُّ تقديم المضمضة والاستنشاق على غسل الوجه، وتقديم اليمنى على اليسرى من اليدين والرجلين، وتقديم مسح الرأس على مسح الأذنين. الثامن عشر: الأمر بتجديد الوضوء عند كلِّ صلاة؛ لتوجد صورة المأمور. التاسع عشر: الأمر بالغسل من الجنابة. العشرون: أنَّه يجب تعميمُ الغسل للبدن؛ لأنَّ الله أضاف التطهُّر للبدن ولم يخصِّصه بشيء دون شيء. الحادي والعشرون: الأمر بغسل ظاهر الشعر وباطنِهِ في الجنابة. الثاني والعشرون: أنَّه يندرج الحدث الأصغر في الحدث الأكبر، ويكفي مَنْ هما عليه أن ينوي ثم يعمِّم بدنه؛ لأنَّ الله لم يذكر إلا التطهُّر، ولم يذكر أنه يعيد الوضوء. الثالث والعشرون: أنَّ الجنب يصدق على من أنزل المني يقظةً أو مناماً أو جامع ولو لم يُنْزِلْ. الرابع والعشرون: أن من ذكر أنه احتلم ولم يجد بللاً؛ فإنه لا غسل عليه؛ لأنه لم تتحقَّق منه الجنابة. الخامس والعشرون: ذكر مِنَّة الله تعالى على العباد بمشروعيته التيمُّم. السادس والعشرون: أن من أسباب جواز التيمم وجود المرض الذي يضره غسله بالماء فيجوز له التيمم. السابع والعشرون: أن من جملة أسباب جوازه؛ السفر والإتيان من البول والغائط إذا عدم الماء؛ فالمرض يجوِّز التيمم مع وجود الماء لحصول التضرر به، وباقيها يجوِّزه العدم للماء، ولو كان في الحضر. الثامن والعشرون: أن الخارج من السبيلين من بول وغائطٍ ينقض الوضوء. التاسع والعشرون: استدلَّ بها من قال: لا ينقضُ الوضوء إلاَّ هذان الأمران؛ فلا ينتقض بلمس الفرج ولا بغيره. الثلاثون: استحباب التكنية عما يُستقذر التلفُّظ به ؛ لقوله تعالى: {أو جاء أحدٌ منكم من الغائط}. الحادي والثلاثون: أن لمس المرأة بلذَّة وشهوةٍ ناقضٌ للوضوء. الثاني والثلاثون: اشتراط عدم الماء لصحة التيمُّم. الثالث والثلاثون: أنه مع وجود الماء ولو في الصلاة يبطل التيمُّم؛ لأنَّ الله إنَّما أباحه مع عدم الماء. الرابع والثلاثون: أنَّه إذا دخل الوقت وليس معه ماءٌ؛ فإنه يلزمه طلبه في رَحْلِه وفيما قَرُب منه؛ لأنَّه لا يُقال: لم يجد لمن لم يطلب. الخامس والثلاثون: أنَّ من وجد ماء لا يكفي بعض طهارته؛ فإنه يلزمه استعماله ثم يتيمَّم بعد ذلك. السادس والثلاثون: أن الماء المتغيِّر بالطاهرات مقدَّم على التيمُّم؛ أي: يكون طهوراً؛ لأن الماء المتغيِّر ماء، فيدخل في قوله: {فلم تجدوا ماءً}. السابع والثلاثون: أنَّه لا بدَّ من نية التيمُّم؛ لقوله: {فتيمَّموا}؛ أي: اقصدوا. الثامن والثلاثون: أنه يكفي التيمُّم بكلِّ ما تصاعد على وجه الأرض من تراب وغيره، فيكون على هذا قوله: {فامسحوا بوجوهكم وأيديكم منه}: إما من باب التغليب وأنَّ الغالب أن يكونَ له غبارٌ يمسح منه ويعلق بالوجه واليدين، وإما أن يكون إرشاداً للأفضل، وأنَّه إذا أمكن التراب الذي فيه غبار فهو أولى. التاسع والثلاثون: أنَّه لا يصح التيمُّم بالتُّراب النجس؛ لأنه لا يكون طيباً بل خبيثاً. الأربعون: أنه يُمسَح في التيمُّم الوجه واليدان فقط دون بقية الأعضاء. الحادي والأربعون: أنَّ قوله: {بوجوهكم}: شاملٌ لجميع الوجه، وأنه يعمُّه بالمسح. إلاَّ أنه معفوٌّ عن إدخال التراب في الفم والأنف وفيما تحت الشعور ولو خفيفة. الثاني والأربعون: أن اليدين تُمسحان إلى الكوعين فقط، لأن اليدين عند الإطلاق كذلك؛ فلو كان يُشترط إيصال المسح إلى الذراعين؛ لقيَّده الله بذلك؛ كما قيَّده في الوضوء. الثالث والأربعون: أنَّ الآية عامةٌ في جواز التيمُّم لجميع الأحداث كلِّها؛ الحدث الأكبر والأصغر، بل ونجاسة البدن؛ لأن الله جعلها بدلاً عن طهارة الماء، وأطلق في الآية، فلم يقيِّد. وقد يقال: إن نجاسة البدن لا تدخل في حكم التيمُّم؛ لأنَّ السِّياق في الأحداث، وهو قول جمهور العلماء. الرابع والأربعون: أنَّ محلَّ التيمُّم في الحدث الأصغر والأكبر واحدٌ، وهو الوجه واليدان. الخامس والأربعون: أنه لو نوى من عليه حدثان التيمُّم عنهما؛ فإنه يجزئ؛ أخذاً من عموم الآية وإطلاقها. السادس والأربعون: أنه يكفي المسح بأي شيء كان بيده أو غيرها؛ لأنَّ الله قال: {فامسحوا}، ولم يذكر الممسوح به، فدلَّ على جوازه بكل شيء. السابع والأربعون: اشتراط الترتيب في طهارة التيمُّم كما يشترط ذلك في الوضوء، ولأنَّ الله بدأ بمسح الوجه قبل مسح اليدين. الثامن والأربعون: أنَّ الله تعالى فيما شرعه لنا من الأحكام لم يجعل علينا في ذلك من حَرَج ولا مشقَّةٍ ولا عُسر، وإنَّما هو رحمةٌ منه بعباده ليطِّهرَهم وليتمَّ نعمتَه عليهم، وهذا هو. التاسع والأربعون: أنَّ طهارة الظاهر بالماء والتراب تكميلٌ لطهارة الباطن بالتوحيد والتوبة النصوح. الخمسون: أن طهارة التيمُّم وإن لم يكن فيها نظافة وطهارةٌ تُدْرَكُ بالحسِّ والمشاهدة؛ فإن فيها طهارةً معنويةً ناشئةً عن امتثال أمر الله تعالى. الحادي والخمسون: أنَّه ينبغي للعبد أن يتدبَّر الحِكَمَ والأسرارَ في شرائع الله في الطهارة وغيرها؛ ليزدادَ معرفةً وعلماً ويزداد شكراً لله ومحبةً له على ما شَرَعَ من الأحكام التي توصل العبد إلى المنازل العالية الرفيعة.
[6] یہ آیت عظیمہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے ان کو بیان کرنے کی جتنی آسانی عطا فرمائی ہم ان کو بیان کریں گے۔ (۱) جو کچھ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس طرح صادر ہوتا ہے ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا …﴾ یعنی اے ایمان والے لوگو! اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق ان امور پر عمل کرو جو ہم نے تمھارے لیے مشروع کیے ہیں ۔ (۲) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو۔‘‘ سے نماز کو قائم کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ (۳) اس میں نماز کے لیے نیت کے حکم کا اثبات ہے فرمایا: ﴿اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰ٘وةِ ﴾یعنی جب تم نماز کی نیت اور ارادے سے اٹھو۔ (۴) نماز کی صحت کے لیے طہارت شرط ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کے لیے اٹھتے وقت طہارت کا حکم دیا ہے اور اصولی طور پر حکم (امر) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ (۵) طہارت نماز کا وقت داخل ہونے پر واجب نہیں ہوتی بلکہ یہ تو صرف اس وقت واجب ہوتی ہے جب نماز پڑھنے کا ارادہ کیا جائے۔ (۶) ہر وہ نماز جس پر (الصلوۃ) کا اطلاق کیا جائے، مثلاً: فرض، نفل، فرض کفایہ اور نماز جنازہ وغیرہ ہر قسم کی نماز کے لیے طہارت فرض ہے حتیٰ کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک مجرد سجدہ ، مثلاً: سجدۂ تلاوت اور سجدہ شکر کے لیے بھی طہارت ضروری ہے۔ (۷) اس میں چہرے کے دھونے کا حکم ہے اور چہرے میں چہرے کا صرف سامنے کا حصہ شامل ہے یعنی سر کے بالوں کی حدود سے لے کر طول میں جبڑوں کے نیچے اور ٹھوڑی تک۔ اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک۔ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا چہرے کے دھونے میں شامل ہے۔ اور یہ سنت ہے۔ چہرے پہ اگے ہوئے بال بھی چہرے میں داخل ہیں ۔ اگر یہ زیادہ گھنے نہیں تو تمام جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر داڑھی گھنی ہو تو اوپر سے دھونا کافی ہے۔ (داڑھی کے بالوں میں خلال کرنا نبیe کے عمل سے ثابت ہے، جامع الترمذي، الطہارۃ، باب ما جاء فی تخلیل اللحیۃ، حدیث: 31، اس لیے گھنی داڑھی میں بالخصوص خلال بھی کیا جائے۔ (ص۔ی) (۸) اس میں ہاتھوں کو دھونے کا حکم ہے اور ہاتھوں کی حد کہنیوں تک ہے۔ جمہور مفسرین کے مطابق (اِلٰی) (مع) کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ﴾ (النساء: 4؍2) ’’ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ (ملا کر) نہ کھاؤ۔‘‘نیز ہاتھ دھونے کا وجوب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ کہنیوں کو پوری طرح نہ دھویا جائے۔ (۹) سر پر مسح کرنے کا حکم ہے۔ (۱۰)پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ کیونکہ (با) تَبْعِیض کے لیے نہیں بلکہ اِلْصَاق کے لیے ہے۔ اور یہ تمام تر سر کے مسح کو شامل ہے۔ (۱۱) سر کا مسح دونوں ہاتھوں سے کیا جائے یا ایک ہاتھ سے، کسی کپڑے سے کیا جائے یا لکڑی وغیرہ سے، جیسے بھی کیا جائے اکتفا کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسح کا علی الاطلاق حکم دیا ہے کسی وصف سے مقید نہیں کیا۔ پس یہ چیز مسح کے اطلاق پر دلالت کرتی ہے۔ (۱۲)وضو میں سر پر مسح کرنا فرض ہے۔ اگر ہاتھوں کے ساتھ سر پر مسح کرنے کی بجائے سر کو دھو لیا جائے۔ تو یہ کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (۱۳)(وضو میں ) دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھونے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا حکم بھی وہی ہے جو ہاتھوں کے بارے میں ہے۔ (۱۴)اس میں ، نَصَب کے ساتھ جمہور کی قراء ت کے مطابق، روافض کا رد ہے۔ اور جب تک پاؤں ننگے ہیں ، ان پر مسح کرنا جائز نہیں ۔ (۱۵)’’وَاَرْجُلِکُمْ‘‘ میں جر کے ساتھ قراء ت کے مطابق موزوں پر مسح کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں قراء توں کو اپنے اپنے معنی پر محمول کیا جائے گا۔ اگر پاؤں میں موزے نہ پہنے ہوں تو نصب کے ساتھ قراء ت کے مطابق پاؤں دھوئے جائیں ۔ اور اگر پاؤں میں موزے پہنے ہوئے ہیں تو جر کے ساتھ قراء ت کے مطابق پاؤں پر مسح کیا جائے گا۔ (۱۶) وضو کے اندر اعضا کو ترتیب کے ساتھ دھونے کا حکم ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ترتیب کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ نیز جب دو دھوئے جانے والے اعضا کے درمیان مسح والے عضو کا ذکر کیا جائے تو اس کا ترتیب کے سوا کوئی اور فائدہ نہیں ۔ (۱۷)ترتیب صرف ان چار اعضا کے ساتھ مخصوص ہے جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ رہا کلی کرنے، ناک میں پانی ڈالنے، منہ دھونے، دایاں بازو اور بایاں بازو، دایاں پاؤں اور بایاں پاؤں دھونے میں ترتیب کا اعتبار تو یہ واجب نہیں ، البتہ منہ دھونے سے پہلے کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا مستحب ہے۔ دایاں ہاتھ پہلے دھونا مستحب ہے۔ اسی طرح دایاں پاؤں پہلے دھونا مستحب ہے۔ کانوں کے مسح سے پہلے سر کا مسح کرنا مستحب ہے۔ (۱۸)ہر نماز کے وقت تجدید وضو کا حکم ہے تاکہ مامور بہ پر عمل کیا جا سکے۔(یہ بہتر صورت ہے، ورنہ ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا جائز ہے‘ بشرطیکہ وضو برقرار ہو۔فتح مکہ کے دن رسول اللہe نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور فرمایا کہ یہ میں نے عمداً کیاہے، تاکہ لوگوں کو اس کا جواز معلوم ہوجائے ،صحیح مسلم، الطہارۃ، باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد، حدیث: 277۔ (ص۔ى) (۱۹) جنابت کی حالت میں غسل کا حکم دیا گیا ہے۔ (۲۰)غسل جنابت میں تمام بدن کا دھونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طہارت حاصل کرنے کو بدن کے کسی ایک حصے کے ساتھ مخصوص کرنے کی بجائے تمام بدن کی طرف مضاف کیا ہے۔ (۲۱)جنابت کی حالت میں بالوں کو اندر اور باہر سے دھونے کا حکم ہے۔ (۲۲)طہارت کے حصول کے وقت حدث اصغر حدث اکبر کے اندر شامل ہوتا ہے۔ حدث اکبر سے طہارت کے حصول کے لیے غسل کرنے سے حدث اصغر سے بھی طہارت حاصل ہو جاتی ہے اس کے لیے اس کی نیت کر لینا کافی ہے، پھر وہ تمام بدن پر پانی بہائے کیونکہ اللہ نے صرف پاکیزگی حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے اور وضو لوٹانے کا ذکر نہیں فرمایا۔(لیکن یہ بات اس وقت صحیح ہوگی جب سنت کے مطابق غسل جنابت کیا جائے۔ اور وہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں، پھر شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے دھو کر اس ہاتھ کو مٹی یا صابن وغیرہ سے دھویا جائے۔ پھر وضو کیا جائے اور سر پر مسح کرنے کے بجائے تین بار سر پر پانی ڈالا جائے۔ پھر سارے بدن پر پانی ڈال کر غسل کیا جائے۔ پھر آخر میں جگہ بدل کر پیر دھوئے۔ اس طرح غسل جنابت کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ، بشرطیکہ دوران غسل شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگے۔ (ص۔ي) (۲۳)جنبی کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جس سے جاگتے یا سوتے منی خارج ہوئی ہو یا اس نے مجامعت کی ہو خواہ منی کا انزال نہ ہوا ہو۔ (۲۴)جسے یاد آ جائے کہ اسے احتلام ہوا ہے مگر کپڑوں پر منی کے نشانات موجود نہ ہوں تو اس پر غسل واجب نہیں کیونکہ جنابت متحقق نہیں ہوئی۔ (۲۵)اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے تیمم مشروع فرمایا۔ (۲۶)تیمم کے جواز کے اسباب میں سے ایک سبب ایسا مرض ہے جس میں پانی کے استعمال سے ضرر پہنچتا ہو۔ اس صورت میں تیمم جائز ہے۔ نیز تیمم کے جواز کے جملہ اسباب میں سفر، وضو کا ٹوٹنا اور پانی کا موجود نہ ہونا شامل ہیں ۔ پس پانی موجود ہونے کے باوجود مرض بھی تیمم کو جائز کر دیتا ہے کیونکہ وضو سے ضرر کا اندیشہ ہے... اور باقی صورتوں میں پانی کا معدوم ہونا تیمم کا جواز فراہم کرتا ہے۔ خواہ انسان اپنے گھر میں ہی ہو۔ (۲۷)پیشاب اور پاخانہ کے راستوں میں سے کوئی چیز باہر نکلے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (۲۸)وہ اہل علم جو اس بات کے قائل ہیں کہ ان دو امور کے سوا کسی چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا، وہ یہیں سے استدلال کرتے ہیں ان کے نزدیک فرج وغیرہ کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (۲۹)جس فعل کے لیے صریح لفظ برا اور نامناسب لگتا ہو اس کے لیے کنایہ استعمال کرنا مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿اَوْ جَآءَؔ اَحَدٌ مِّؔنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ ﴾ ’’یا تم میں سے کوئی بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ (۳۰) لذت اور شہوت سے عورت کے بدن کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(فاضل مفسر رحمہ اللہ نے غالباً لمس کو لغوی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں لے کر یہ بات کہی ہے، جیسا کہ لمس کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے۔ اور دوسری تفسیر لمس کی۔ جماع۔ کی گئی ہے۔ اس تفسیر کی رو سے محض عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، ہاں اگر چھونے سے مذی یا منی کا اخراج ہوگیا تو مذی کی صورت میں ذکر (آلۂ تناسل) کو دھو کر وضو کرنا اور منی کی صورت میں غسل کرنا ضروری ہوگا۔ بصورت دیگر چاہے لذت و شہوت سے چھوئے، حتیٰ کہ بوسہ بھی لے لے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ (دیکھیے، الاحادیث الضعیفۃ للالباني، رقم: 1000)(ص۔ي) (۳۱) تیمم کی صحت پانی کے عدم وجود سے مشروط ہے۔ (۳۲) پانی کے وجود کے ساتھ ہی، خواہ انسان نماز کے اندر ہی کیوں نہ ہو، تیمم باطل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کو مباح فرمایا ہے۔ (یہ بھی بعض ائمہ کی رائے ہے۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ نماز شروع کردینے کے بعد نماز کے توڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ نماز پوری پڑھ لے۔ اس لیے کہ جس وقت اس نے نماز شروع کی تھی تو وہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کرکے شروع کی تھی اور اس کا ایسا کرنا شریعت کے مطابق تھا، اس لیے اس کی نماز صحیح ہوگی۔ کیونکہ یہ تیمم نماز کے ختم ہونے تک باطل نہیں ہوگا۔ (ص۔ي) (۳۳)جب نماز کا وقت داخل ہو جائے اور انسان کے پاس پانی موجود نہ ہو تو اس پر اپنے پڑاؤ اور ارد گرد نزدیک کے علاقہ میں پانی تلاش کرنا لازم ہے۔ کیونکہ جس کسی نے پانی کو تلاش ہی نہ کیا ہو تو اس کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ’’اس نے پانی نہ پایا‘‘ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔ (۳۴) اگر تلاش کے بعد اسے اتنا پانی ملے جو پورے وضو کے لیے کافی نہ ہو تو اس پر اس پانی کا استعمال لازم ہے۔ اس کے بعد تیمم کر لے۔ (۳۵) پاک اشیا ءکی وجہ سے متغیر پانی، تیمم پر مقدم ہے، یعنی یہ پانی طاہر پانی شمار ہو گا کیونکہ متغیر پانی بھی پانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ ﴾ کے حکم میں آئے گا۔ (۳۶) تیمم میں نیت بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَتَیَمَّمُوْا ﴾ یعنی قصد کرو۔ (۳۷) تیمم کے لیے سطح زمین پر پڑی ہوئی گرد وغیرہ کافی ہوتی ہے تب اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ ﴾ یا تو تغلیب کے باب سے ہے اور غالب طور پر اس کے لیے غبار کا ہونا ضروری ہے جس سے مسح کیا جائے اور جو چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ لگ جائے یا یہ افضل کی طرف راہنمائی ہے، یعنی جب ایسی مٹی کا حصول ممکن ہو جس میں غبار شامل ہو تو وہ افضل ہے۔ (۳۸) نجس مٹی سے تیمم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ پاک نہیں بلکہ ناپاک ہے۔ (۳۹) تیمم میں تمام اعضا کی بجائے صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرنا کافی ہے۔ (۴۰) اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿بِوُجُوْهِكُمْ ﴾ تمام چہرے کو شامل ہے اور تمام چہرے کا مسح واجب ہے، البتہ اس سے منہ اور ناک کے اندر مٹی داخل کرنا اور بالوں کی جڑوں تک مسح کرنا مستثنی ہے۔ (۴۱) ہاتھوں کا مسح صرف ہاتھ اور کلائی کے جوڑ تک ہے کیونکہ ہاتھ کا اطلاق صرف گٹے تک ہے۔ اگر کہنیوں تک ہاتھوں پر مسح تیمم کے لیے شرط ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس شرط سے مقید فرما دیتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں مقید فرمایا ہے۔ (۴۲) حدث (ناپاکی) خواہ اکبر ہو یا اصغر، ہر قسم کی ناپاکی میں تیمم جائز ہے بلکہ اگر جسم پر نجاست بھی لگی ہو، تب بھی تیمم جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کے ذریعے سے طہارت کو پانی کے ذریعے سے طہارت کا بدل بنایا ہے اور آیت کریمہ کے اطلاق کو کسی چیز سے مقید نہیں فرمایا۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بدن کی نجاست، تیمم کے حکم میں داخل نہیں ۔ کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق حدث اکبر اور حدث اصغر کے بارے میں ہے اور یہ جمہور علماء کا مذہب ہے۔ (۴۳)حدث اکبر اور حدث اصغر دونوں میں تیمم کا محل ایک ہی ہے یعنی چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرنا۔ (۴۴) وہ شخص جسے حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں لاحق ہیں اگر تیمم کرتے وقت دونوں سے طہارت کی نیت کر لے تو تیمم ہو جائے گا۔ آیت کریمہ کا عموم اور اطلاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ (۴۵) تیمم میں مسح ہاتھ سے یا کسی اور چیز سے جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (فَامْسَحُوا) میں صرف مسح کا حکم دیا ہے اور یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس چیز کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اس لیے ہر چیز کے ساتھ مسح جائز ہے۔ (۴۶) تیمم میں بھی ترتیب اسی طرح شرط ہے جس طرح وضو میں شرط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھوں کے مسح سے قبل چہرے کا مسح کرنے سے ابتدا کی ہے۔ (۴۷) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لیے جو احکام مشروع فرمائے ہیں ان میں ہمارے لیے کوئی حرج، کوئی مشقت اور کوئی تنگی نہیں رکھی۔ یہ اس کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت ہے تاکہ وہ ان کو پاک کرے اور ان پر اپنی نعمت کا اتمام کرے۔ (۴۸) پانی اور مٹی کے ذریعے سے ظاہری بدن کی طہارت توحید اور خالص توبہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والی باطنی طہارت کی تکمیل ہے۔ (۴۹) تیمم کی طہارت میں اگرچہ وہ نظافت اور طہارت نہیں ہوتی جس کا حس اور مشاہدہ کے ذریعے سے ادراک ہو سکتا ہو ،تاہم اس میں معنوی طہارت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے پیدا ہوتی ہے۔ (۵۰) بندے کے لیے مناسب ہے کہ وہ طہارت اور دیگر شرعی احکام میں پوشیدہ اسرار و حکمت میں تدبر کرے تاکہ اس کے علم و معرفت میں اضافہ ہو۔ اور اس کی شکر گزاری اور محبت زیادہ ہو۔ ان احکام پر جو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر بندہ بلند مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔
آیت: 7 #
{وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (7)}
اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو (جو ہوئی) تم پر اور اس عہد کو جو معاہدہ کیا اس نے تم سے ساتھ اس کے، جب کہا تم نے، سنا ہم نے اور اطاعت کی ہم نےاور ڈرو اللہ سے، بے شک اللہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے(7)
#
{7} يأمر تعالى عباده بذكر نعمه الدينيَّة والدنيويَّة بقلوبهم وألسنتهم؛ فإن في استدامة ذكرها داعياً لشكر الله تعالى ومحبَّته وامتلاء القلب من إحسانه، وفيه زوال للعُجب من النفس بالنِّعم الدينيَّة وزيادة لفضل الله وإحسانه {وميثاقه}؛ أي: واذكروا ميثاقه {الذي واثقكم به}؛ أي: عهده الذي أخذه عليكم، وليس المراد بذلك أنهم لَفَظوا ونَطَقوا بالعهد والميثاق، وإنَّما المراد بذلك أنَّهم بإيمانهم بالله ورسوله قد التزموا طاعتهما، ولهذا قال: {إذ قُلْتُم سمعنا وأطعنا}؛ أي: سمعنا ما دعوتنا به من آياتك القرآنيَّة والكونيَّة سَمْعَ فَهْم وإذعانٍ وانقيادٍ، وأطعنا ما أمرتنا به بالامتثال وما نهيتنا عنه بالاجتناب، وهذا شاملٌ لجميع شرائع الدين الظاهرة والباطنة، وأنَّ المؤمنين يذكرونَ في ذلك عهد الله وميثاقَهُ عليهم وتكون منهم على بال، ويحرصون على أداء ما أمروا به كاملاً غير ناقص، {واتَّقوا الله}: في جميع أحوالكم، {إنَّ الله عليمٌ بذات الصُّدور}؛ أي: ما تنطوي عليه من الأفكار والأسرار والخواطر؛ فاحذروا أن يطَّلع من قلوبكم على أمر لا يرضاه أو يصدر منكم ما يكرهه، واعْمُروا قلوبكم بمعرفتِهِ ومحبَّتِهِ والنصح لعباده؛ فإنَّكم إن كنتم كذلك غفر لكم السيئات، وضاعَفَ لكم الحسناتِ لعلمه بصلاح قلوبكم.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس کی عطا کردہ دینی اور دنیاوی نعمتوں کا قلب اور زبان سے ذکر کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دائمی ذکر میں اس کے لیے شکر اور محبت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور بندے کا دل اس کے احسان کی معرفت سے لبریز ہو جاتا ہے، دینی نعمتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے بارے میں نفس کی خود پسندی زائل ہوتی ہے۔ ﴿وَمِیْثَاقَهُ ﴾ ’’(اور یاد کرو) اس عہد کو بھی۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے میثاق کو یاد کرو ﴿الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ ﴾ ’’جس کا تم سے قول لیا تھا۔‘‘ یعنی وہ عہد جو اس نے تم سے لیا۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ بندوں نے اپنے نطق زبان سے اس عہد و میثاق کا اقرار کیا تھا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اللہ اور رسول کی اطاعت کا التزام کیا ہے، بنابریں فرمایا: ﴿اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾ ’’جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے (اللہ کا حکم) سن لیا اور قبول کرلیا۔‘‘ یعنی تو نے اپنی آیات قرآنیہ اور کونیہ کے ذریعے سے ہمیں جو دعوت دی، ہم نے اسے فہم، اطاعت اور فرماں برداری کے ساتھ سنا۔ تو نے جن امور پر عمل پیرا ہونے اور جن سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہم نے اس کی اطاعت کی۔ یہ ظاہری اور باطنی تمام شرعی احکام کو شامل ہے۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے اس عہد کو یاد رکھتے ہیں اور یہ عہد ہر وقت انھیں ذہن نشیں رہتا ہے اور جس چیز کا انھیں حکم دیا گیا ہے اسے کامل طریقے سے ادا کرنے کے حریص ہیں ۔ ﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ﴾ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے۔‘‘ یعنی دل میں جو افکار، اسرار اور خیالات چھپے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جانتا ہے ، لہٰذا اس بات سے ڈرو کہ تمھارے دلوں میں موجود کسی ایسی بات کی اسے اطلاع ہو جس سے وہ راضی نہیں یا تم سے کوئی ایسا فعل صادر ہو جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی سے آباد کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمھاری نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ تمھارے دل درست ہیں ۔
آیت: 8 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (8)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ تم قائم رہنے والے (حق پر) اللہ کے لیے، گواہی دینے والے ساتھ انصاف کے اور نہ آمادہ کرے تمھیں دشمنی کسی قوم کی اس بات پر کہ نہ عدل کرو تم، عدل کرو یہی بات زیادہ قریب ہے تقویٰ کےاور ڈرو اللہ سے بے شک اللہ خبردار ہے ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو(8)
#
{8} أي: {يا أيُّها الذين آمنوا}: بما أمروا بالإيمان به، قوموا بلازم إيمانكم، بأن تكونوا {قوَّامينَ لله شهداءَ بالقِسْط}: بأن تنشط للقيام بالقِسْط حركاتكُم الظاهرة والباطنة، وأنْ يكونَ ذلك القيام لله وحدَه لا لغرض من الأغراض الدنيويَّة، وأن تكونوا قاصدين للقِسْط الذي هو العدل، لا الإفراط ولا التفريط في أقوالكم ولا أفعالكم، وقوموا بذلك على القريب والبعيد والصديق والعدو. {ولا يَجْرِمَنَّكُم}؛ أي: يحملنَّكم بغض قوم {على أن لا تَعْدِلوا}؛ كما يفعله مَن لا عدل عنده ولا قِسْط، بل كما تشهدون لوليِّكم؛ فاشهدوا عليه، وكما تشهدون على عدوِّكم؛ فاشهدوا له، ولو كان كافراً أو مبتدعاً؛ فإنَّه يجب العدل فيه وقبول ما يأتي به من الحقِّ؛ [لأنه حقٌّ]، لا لأنه قاله، ولا يُرَدُّ الحق لأجل قوله؛ فإن هذا ظلم للحقِّ. {اعدِلوا هو أقرب للتَّقوى}؛ أي: كلما حرصتم على العدل واجتهدتم في العمل به؛ كان ذلك أقرب لتقوى قلوبكم؛ فإن تمَّ العدل؛ كملت التقوى، {إنَّ الله خبيرٌ بما تعملونَ}؛ فمجازيكم بأعمالكم خيرِها وشرِّها صغيرِها وكبيرِها جزاءً عاجلاً وآجلاً.
[8] ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اے ایمان والو!‘‘یعنی اے وہ لوگو جو ان امور پر ایمان لائے ہو جن پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے ایمان کے لوازم کو قائم کرو ﴿كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَؔ بِالْقِسْطِ﴾ ’’اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ یعنی انصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی دینے کے لیے کھڑے ہونے والے بن جاؤ۔ تمھاری ظاہری اور باطنی حرکات قیام انصاف میں نشاط محسوس کریں ۔ اور یہ قیام عدل دنیاوی اغراض کی خاطر نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور صرف (قسط) یعنی عدل تمھارا مقصد ہو۔ تمھارے اقوال و افعال میں کسی قسم کی افراط و تفریط نہ ہو اور تم قریب اور بعید، دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرو۔ ﴿وَلَا یَجْرِمَنَّـكُمْ ﴾ ’’تمھیں ہرگز آمادہ نہ کرے‘‘ ﴿شَنَاٰنُ قَوْمٍ ﴾ ’’لوگوں کی دشمنی۔‘‘ یعنی کسی قوم کے ساتھ کینہ و بغض ﴿عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا﴾ ’’اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو‘‘ جیسا کہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس عدل و انصاف کا کوئی تصور نہیں ۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ جیسے تم اپنے دوست کے حق میں گواہی دیتے ہو، اس کے خلاف بھی گواہی دو اور جیسے تم اپنے دشمن کے خلاف گواہی دیتے ہو تو اس کے حق میں بھی گواہی دو۔ خواہ تمھارا دشمن کافر یا بدعتی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بارے میں عدل کرنا اور اگر وہ حق بات کہتا ہے تو اسے قبول کرنا فرض ہے اور محض اس وجہ سے اس کا قول قبول نہ کیا جائے کہ وہ دوست کا قول ہے اور نہ دشمن کے قول کو محض اس وجہ سے رد کیا جائے کہ وہ دشمن کا قول ہے کیونکہ یہ حق پر ظلم ہے۔ ﴿اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰى ﴾ ’’انصاف کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘ یعنی جب بھی تم عدل کرنے کی خواہش کرو گے اور اس خواہش پر عمل کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ چیز تمھارے دلوں کے تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ اگر عدل کی تکمیل ہو گئی تو تقویٰ بھی مکمل ہو گیا ﴿اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’یقینا اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو‘‘ اس لیے وہ تمھارے اچھے اور برے، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کی دنیا اور آخرت میں جزا دے گا۔
آیت: 9 - 10 #
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (9) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (10)}
وعدہ کیا اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، ان کے لیے مغفرت ہے اور اجر بہت بڑا(9) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، یہی لوگ ہیں دوزخی(10)
#
{9} أي: {وَعَدَ الله}؛ ـ الذي لا يُخْلِفُ الميعاد، وهو أصدق القائلين ـ المؤمنين به وبكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر، {وعمِلُوا الصالحات}: من واجباتٍ ومستحباتٍ بالمغفرة لذنوبهم بالعفو عنها وعن عواقبها وبالأجر العظيم الذي لا يعلم عِظَمَهُ إلا الله تعالى؛ {فلا تعلمُ نفسٌ ما أخْفِيَ لهم من قُرَّةِ أعينٍ جزاءً بما كانوا يعملون}.
[9] ﴿وَعَدَ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو وعدہ خلافی نہیں کرتا ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے جو اس پر، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں ﴿وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾ ’’اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘‘ جو واجبات و مستحبات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کو بخش دینے، ان کے گناہوں کی سزا کو معاف کر دینے اور ان کو اجر عظیم کے عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے جس کی بڑائی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (السجدۃ: 32؍17) ’’کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان کے اعمال کے صلہ کے طورپر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپارکھی گئی۔‘‘
#
{10} {والذين كفروا وكذبوا بآياتنا}: الدالَّة على الحقِّ المبين، فكذَّبوا بها بعدما أبانت الحقائق. {أولئك أصحابُ الجحيم}: الملازمون لها ملازمةَ الصاحب لصاحبه.
[10] ﴿وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ ﴾ ’’اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔‘‘ یعنی انھوں نے ان آیات کی تکذیب کی جو حق مبین پر دلالت کرتی ہیں حالانکہ ان آیات نے حقائق کو بیان کر دیا تھا ﴿اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’وہ جہنمی ہیں ۔‘‘ وہ جہنم کے ساتھ اس طرح لازم رہیں گے جس طرح دوست دوست کے ساتھ لازم رہتا ہے۔
آیت: 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (11)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کرو نعمت اللہ کی (جو ہوئی) تم پر، جب ارادہ کیا تھا ایک قوم نے کہ دراز کریں تمھاری طرف اپنے ہاتھ تو روک دیے اس نے ان کے ہاتھ تم سےاور ڈرو اللہ سے اور اوپر اللہ ہی کے پس چاہیے کہ توکل کریں ایمان والے(11)
#
{11} يذكِّر تعالى عباده المؤمنين بنعمه العظيمة، ويحثُّهم على تذكُّرها بالقلب واللسان، وأنَّهم كما أنَّهم يعدُّون قتلهم لأعدائهم وأخذ أموالهم وبلادهم وسبيهم نعمةً؛ فليعدُّوا أيضاً إنعامه عليهم بكفِّ أيديهم عنهم وردِّ كيدهم في نحورهم نعمةً؛ فإنَّهم الأعداء قد هَمُّوا بأمر، وظنُّوا أنهم قادرون عليه؛ فإذا لم يدركوا بالمؤمنين مقصودهم فهو نصرٌ من الله لعباده المؤمنين؛ ينبغي لهم أن يشكروا الله على ذلك ويعبدوه ويذكروه، وهذا يشمل كلَّ من همَّ بالمؤمنين بشرٍّ من كافر ومنافق وباغٍ، كفَّ الله شرَّه عن المسلمين؛ فإنه داخل في هذه الآية. ثم أمرهم بما يستعينون به على الانتصار على عدوِّهم وعلى جميع أمورهم، فقال: {وعلى الله فليتوكَّل المؤمنون}؛ أي: يعتمدوا عليه في جلب مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، ويتبرؤوا من حولهم وقوَّتهم، ويثقوا بالله تعالى في حصول ما يحبُّون، وعلى حسب إيمانِ العبد يكون توكُّله، وهو من واجبات القلب المتَّفق عليها.
[11] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتا ہے اور انھیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ بھی دل و زبان سے ان نعمتوں کا ذکر کیا کریں ۔ جس طرح وہ اپنے دشمنوں کے قتل، ان کے مال کو مال غنیمت بنانے، ان کے شہروں کو فتح کرنے اور ان کے غلام بنانے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیتے ہیں اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا بھی اعتراف کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھارے ساتھ لڑنے سے روکا اور ان کی سازشوں اور چالوں کو جو ان کے سینوں میں تھیں ، انھی پر لوٹا دیا۔ اس لیے کہ دشمنوں نے ایک سازش تیار کی اور ان کا گمان تھا کہ وہ اسے بروئے کار لانے میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن جب وہ مومنوں کے خلاف اس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی مدد ہے۔ اس لیے ان کو چاہیے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ، اس کی عبادت اور اس کا ذکر کریں ۔ کافر، منافقین اور باغیوں میں سے جن لوگوں نے بھی اہل ایمان کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا، یہ آیت کریمہ ان سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے اور دیگر تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں ، اس لیے فرمایا: ﴿وَعَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْ٘مُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔‘‘ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور اعتماد کریں ، اپنی قوت اور طاقت پر بھروسہ نہ کریں اور اپنے محبوب امور کے حصول میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور بندے کے ایمان کے مطابق ہی، اس کا اللہ پر توکل ہوتا ہے اور یہ دل کے ان واجبات میں سے ہے جن پر اتفاق ہے۔
آیت: 12 - 13 #
{وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (12) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (13)}
اور البتہ تحقیق لیا اللہ نے عہد بنی اسرائیل سے اور مقرر کیے ہم نے ان میں سے بارہ سردار اور کہا اللہ نے، بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں ، ، البتہ اگر قائم رکھو گے تم نماز اور ادا کرو گے زکاۃ اور ایمان لاؤ گے ساتھ میرے رسولوں کے اور تقویت پہنچاؤ گے ان کو اور قرض دو گے تم اللہ کو قرض حسن تو ضرور دور کر دوں گا میں تم سے تمھاری برائیاں اور ضرور داخل کروں گا تمھیں ایسے باغوں میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، پس جس نے کفر کیا بعد اس کے تم میں سے تو تحقیق بھٹک گیا وہ سیدھی راہ سے(12) پس بہ سبب ان کے توڑنے کے اپنے عہد کو، لعنت کی ہم نے ان پر اور کر دیا ہم نے ان کے دلوں کو سخت، بدل ڈالتے ہیں وہ باتوں کو ان کی جگہوں سے اور بھول گئے وہ ایک حصہ اس چیز سے کہ نصیحت کیے گئے تھے وہ ساتھ اس کے اور ہمیشہ مطلع ہوتے رہتے ہیں آپ خیانت پر ان کی مگر تھوڑے لوگ ان میں سے، پس معاف کر دیں آپ ان کو اور درگزر کریں ، بے شک اللہ پسند کرتا ہے احسان کرنے والوں کو(13)
#
{12} يخبر تعالى أنه أخذ على بني إسرائيل الميثاق الثقيل المؤكَّد، وذكر صفة الميثاق وأجرهم إن قاموا به وإثمهم إن لم يقوموا به، ثم ذَكَر أنَّهم ما قاموا به، وذكَرَ ما عاقبهم به، فقال: {ولقد أخَذَ الله ميثاق بني إسرائيل}؛ أي: عهدهم المؤكد الغليظ، {وبَعَثْنا منهم اثني عشر نقيباً}؛ أي: رئيساً وعريفاً على من تحته؛ ليكون ناظراً عليهم حاثًّا لهم على القيام بما أمروا به مطالباً يدعوهم، {وقال الله}: للنقباء الذين تحمَّلوا من الأعباء ما تحمَّلوا: {إني معكم}؛ أي: بالعون والنصر؛ فإن المعونة بقدر المؤنة. ثم ذكر ما واثقهم عليه فقال: {لئن أقمتُمُ الصلاةَ}: ظاهراً وباطناً بالإتْيان بما يلزمُ وينبغي فيها والمداومة على ذلك، {وآتيتُم الزَّكاة}: لمستحقيها، {وآمنتُم برسلي}: جميعهم، الذين أفضلهم وأكملهم محمد - صلى الله عليه وسلم -. {وعزَّرْتموهم}؛ أي: عظَّمتموهم، وأدَّيتم ما يجبُ لهم من الاحترام والطاعة، {وأقرضتُم الله قرضاً حسناً}: وهو الصدقة والإحسان الصادر عن الصِّدق والإخلاص وطيب المكسب؛ فإذا قمتم بذلك {لأكفِّرَنَّ عنكم سيِّئاتكم ولأدخِلَنَّكُم جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: فجمع لهم بين حصول المحبوب بالجنَّة وما فيها من النعيم واندفاع المكروه بتكفير السيئات ودفع ما يترتَّب عليها من العقوبات. {فمَن كَفَرَ بعد ذلك}: العهد والميثاق المؤكَّد بالأيمان والالتزامات المقرون بالترغيب بذِكْر ثوابه، {فقد ضَلَّ سواء السبيل}؛ أي: عن عمدٍ وعلم، فيستحقُّ ما يستحقُّه الضَّالُّون من حرمان الثواب وحصول العقاب.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل سے بہت موکد اور بھاری عہد لیا، پھر اس میثاق اور عہد کا وصف بیان فرمایا اور بتایا کہ اگر وہ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کو کیا اجر ملے گا اور اگر وہ اس عہد کو پورا نہیں کریں گے تو ان کو کیا سزا ملے گی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انھوں نے اس عہد کو پورا نہیں کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کو اس کی پاداش میں کیا سزا ملی۔ ﴿ وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا۔‘‘ یعنی اللہ نے بنی اسرائیل سے مضبوط اور موکد عہد لیا ﴿وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا﴾ ہم نے ان کے بارہ سردار مقرر کر دیے جو ان کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا تھا اس کی تعمیل کرنے پر انھیں آمادہ کرتے تھے۔ ﴿وَقَالَ اللّٰهُ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان نقیبوں (سرداروں ) سے فرمایا جنھوں نے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا تھا ﴿ااِنِّیْ مَعَكُمْ﴾ ’’میں تمھارے ساتھ ہوں ‘‘ یعنی میری اعانت و نصرت تمھارے ساتھ ہے۔ کیونکہ مدد ہمیشہ ذمہ داری کے بوجھ کے مطابق ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جن پر عہد لیا تھا۔ ﴿لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’اگر تم نماز پڑھتے رہو گے۔‘‘ یعنی اگر تم نماز کو اس کے ظاہری اور باطنی لوازم کے ساتھ قائم کرو اور پھر اس پر دوام اختیار کرو گے ﴿وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ ﴾ ’’اور زکاۃ دیتے رہو گے۔‘‘ یعنی مستحق لوگوں کو زکٰوۃ دو گے ﴿وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ ﴾ ’’اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے۔‘‘ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاؤ گے، جن میں سب سے افضل اور سب سے اکمل جناب محمد مصطفیe ہیں ﴿وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ ﴾ ’’اور ان کی مدد کروگے۔‘‘ یعنی اگر تم انبیاء کی تعظیم اور ان کی اطاعت اور ان کا احترام کرو گے جو تم پر واجب ہے ﴿وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا ﴾ ’’اور تم اللہ کو قرض حسن دو گے‘‘ یعنی صدقہ دو گے اور بھلائی کرو گے جس کا مصدر صدق و اخلاص اور کسب حلال ہو۔ جب تم مذکورہ بالا تمام امور قائم کر لو گے ﴿لَّاُكَفِّ٘رَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّـكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’تو میں تم سے تمھاری برائیاں دور کر دوں گا اور تمھیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت میں اپنی نعمتوں اور محبوب امور کے حصول اور گناہوں کی تکفیر اور اس پر مرتب ہونے والی سزا کو دور کر کے ناپسندیدہ امور کے دور ہٹنے کو یکجا بیان فرمایا۔ ﴿فَ٘مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’پھر جس نے اس کے بعد کفر کیا۔‘‘ یعنی جو کوئی اس عہد و میثاق کے بعد جسے ایمان اور ثواب کی ترغیب کے ذریعے سے موکد کیا گیا ہے۔ کفر کا رویہ اختیار کرتا ہے ﴿فَقَدْ ضَلَّ سَوَؔآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ ’’تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘ یعنی وہ جان بوجھ کر سیدھے راستے سے بھٹکتا ہے تو وہ اسی سزا کا مستحق ہو گا، جس کے مستحق گمراہ لوگ ہوں گے، جیسے ثواب سے محرومی اور عذاب سے دوچار ہونا۔
#
{13} فكأنه قيل: ليت شعري! ماذا فعلوا؟ وهل وفوا بما عاهدوا الله عليه أم نكثوا؟ فبيَّن أنهم نقضوا ذلك، فقال: {فبما نَقْضِهِم ميثاقَهم}؛ أي: بسببه عاقبناهم بعدَّة عقوبات: الأولى: أنّا {لَعَنَّاهم}؛ أي: طردناهم وأبعدناهم من رحمتنا، حيث أغلقوا على أنفسهم أبواب الرحمة، ولم يقوموا بالعهد الذي أخذ عليهم، الذي هو سببها الأعظم. الثانية: قوله: {وجَعَلْنا قلوبَهم قاسيةً}؛ أي: غليظة لا تُجدي فيها المواعظ ولا تنفعُها الآيات والنُّذر؛ فلا يرغِّبهم تشويقٌ ولا يزعجهم تخويفٌ، وهذا من أعظم العقوبات على العبد؛ أن يكون قلبُه بهذه الصفة التي لا يفيده الهُدى والخيرُ إلاَّ شرًّا. الثالثة: أنهم يحرِّفون الكلم من بعد مواضعِهِ؛ أي: ابتُلوا بالتغيير والتبديل، فيجعلون للكَلِم الذي أراد الله، معنىً غير ما أراده الله ولا رسوله. الرابعة: أنَّهم {نَسوا حظًّا مما ذُكِّروا به }؛ فإنَّهم ذُكِّروا بالتوراة وبما أنزل الله على موسى فنسوا حظًّا منه، وهذا شاملٌ لنسيان علمه، وأنهم نسوه وضاع عنهم ولم يوجد كثيرٌ مما أنساهم الله إياه عقوبةً منه لهم، وشاملٌ لنسيان العمل الذي هو الترك، فلم يوفَّقوا للقيام بما أمروا به. ويستدلُّ بهذا على أهل الكتاب بإنكارهم بعض الذي قد ذُكِرَ في كتابهم أو وقع في زمانهم أنه مما نسوه. الخامسة: الخيانة المستمرَّة التي {لا تزال تطَّلِع على خائنةٍ منهم}؛ أي: خيانةٍ لله ولعباده المؤمنين. ومن أعظم الخيانة منهم كتمهم عن من يَعِظُهم ويُحْسِن فيهم الظنَّ الحقَّ، وإبقاؤهم على كفرهم؛ فهذه خيانة عظيمة. وهذه الخصال الذميمة حاصلة لكلِّ من اتصف بصفاتهم، فكلُّ من لم يَقُمْ بما أمر الله به وأخذ به عليه الالتزام؛ كان له نصيبٌ من اللَّعنة، وقسوة القلب، والابتلاء بتحريف الكلم، وأنه لا يوفَّق للصواب، ونسيان حظٍّ مما ذُكِّر به، وأنَّه لا بدَّ أن يُبتلى بالخيانة، نسأل الله العافية. وسمى الله تعالى ما ذُكِّروا به حظًّا؛ لأنَّه هو أعظم الحظوظ، وما عداه؛ فإنَّما هي حظوظ دنيويَّة؛ كما قال تعالى: {فَخَرَجَ على قومه في زينتِهِ قال الذين يريدونَ الحياةَ الدُّنيا يا ليتَ لنا مثل ما أوتي قارونَ إنَّه لذو حَظٍّ عظيم}، وقال في الحظِّ النافع: {وما يُلَقَّاها إلاَّ الذين صَبَروا وما يُلَقَّاها إلا ذو حَظٍّ عظيم}. وقوله: {إلَّا قليلاً منهم}؛ أي: فإنَّهم وفوا بما عاهدوا الله عليه، فوفَّقهم وهداهُم للصِّراط المستقيم، {فاعفُ عنهم واصْفَحْ}؛ أي: لا تؤاخِذْهم بما يصدُرُ منهم من الأذى الذي يقتضي أن يُعفى عنهم، واصفحْ فإنَّ ذلك من الإحسان. {والله يحبُّ المحسنينَ}: والإحسانُ هو أن تَعْبُدَ الله كأنَّك تراه؛ فإن لم تكن تراه؛ فإنَّه يراك، وفي حقِّ المخلوقين بذل النفع الدينيّ والدنيويّ لهم.
[13] گویا یوں کہا گیا ہے کہ ’’ کاش ہمیں بھی معلوم ہو تا کہ انھوں نے کیا کیا؟ کیا انھوں نے اس عہد کو پورا کیا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا یا اس عہد کو توڑ دیا؟‘‘ پس اللہ نے واضح کر دیا کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ کیے گئے اس عہد کو توڑ دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّؔیْثَاقَهُمْ ﴾ ’’تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب۔‘‘ یعنی ان کے نقض عہد کے سبب سے ہم نے ان کو متعدد سزائیں دیں ۔ (۱) ﴿لَعَنّٰهُمْ ﴾ ’’ہم نے ان پر لعنت کی۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو دھتکار کر اپنی رحمت سے دور کر دیا کیونکہ انھوں نے اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کر لیے اور انھوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (۲) ﴿وَجَعَلْنَا قُ٘لُوْبَهُمْ قٰسِیَةً﴾ ’’اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو پتھر دل بنا دیا، پس وعظ و نصیحت ان کے کسی کام آ سکتے ہیں نہ آیات اور نہ ہی برے انجام سے ڈرانے والے انھیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ کوئی شوق انھیں ترغیب دے سکتا ہے نہ کوئی خوف ان کو یہ عہد پورا کرنے کے لیے بے قرار کر سکتا ہے۔ بندے کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ اس کے دل کی یہ کیفیت ہو جائے کہ ہدایت اور بھلائی بھی اس پر برا اثر کریں ۔ (۳) ﴿یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ﴾ ’’یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ کلام اللہ میں تغیر و تبدل کے بھی مرتکب ہوئے، چنانچہ انھوں نے کلام الٰہی کے اس معنی کو، جو اللہ تعالیٰ کی مراد تھا، بدل کر وہ معنی بنا دیا جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ تھا۔ (۴) ﴿وَنَسُوْا حَظًّا مِّؔمَّؔا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖ﴾ ’’اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے۔‘‘ انھیں تورات اور ان تعلیمات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی جو موسیٰu پر نازل کی گئی تھیں مگر انھوں نے ان کو فراموش کر دیا۔ یہ اس بات کو بھی شامل ہے کہ انھوں نے جناب موسیٰu کے علم کو فراموش کر دیا بنابریں علم ان سے ضائع ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ بہت سا علم ناپید ہو گیا۔ یہ آیت کریمہ نسیان عمل کو بھی شامل ہے جو ترک عمل کا نتیجہ ہے، پس جس چیز کا انھیں حکم دیا گیا تھا اس پر عمل کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوئی۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے بعض ان امور کا جو انکار کیا جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے یا ان کے زمانے میں واقع ہوئے، یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن کو انھوں نے فراموش کیا۔ (۵) دائمی خیانت، جس کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَا تَزَالُ تَ٘طَّ٘لِعُ عَلٰى خَآىِٕنَةٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان کی خیانت پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے بندوں کے ساتھ خیانت۔ اور ان کی سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ انھوں نے ان لوگوں سے حق کو چھپایا جو ان کو نصیحت کرتے تھے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے ۔ اور ان کو ان کے کفر پر باقی رکھنا۔ پس یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ اور جو کوئی ان صفات سے متصف ہوتا ہے اس میں یہ مذموم خصائل پائے جاتے ہیں ۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور ان کا التزام نہیں کرتا تو اس لعنت، قساوت قلبی اور کلام الٰہی کی تحریف میں وہ بھی حصہ دار ہوتا ہے۔ اس کو بھی حق اور صواب کی توفیق نہیں ملتی وہ بھی ان امور کو فراموش کرنے کا مرتکب ہوتا ہے جن کی اسے یاد دہانی کروائی گئی تھی اور ایسے شخص کا خیانت میں مبتلا ہونا بھی یقینی ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلب گار ہیں ۔ جس امر کی انھیں یاد دہانی کروائی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو﴿حَظًّا ﴾ ’’حصہ، نصیبہ‘‘ کے نام سے اس لیے موسوم کیا ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا حظ ہے اس کے علاوہ دیگر تمام حظوظ دنیاوی حظوظ ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰؔلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (القصص: 28؍79) ’’قارون بڑی سج دھج کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے طالب تھے، کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ دیا گیا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ وہ تو بہت بڑے نصیبے والا ہے۔‘‘ اور حظ نافع کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا١ۚ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (حم السجدۃ: 41؍35)’’یہ بات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس سے وہی لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو بہت بڑے نصیبے والے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’تھوڑے آدمیوں کے سوا۔‘‘ یعنی وہ لوگ بہت کم تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق سے نوازا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَ٘حْ﴾ ’’پس آپ ان کی خطائیں معاف کردیں اور ان سے درگزر فرمائیں ۔‘‘ ان کی طرف سے آپ کو جو بھی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو معاف کر دینے کے قابل ہو اسے معاف کر دیا کریں ۔ اور ان سے درگزر کیجیے کیونکہ یہ بھلائی ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ اور احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اپنے آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ تو تجھے دیکھ رہا ہے اور مخلوق کے حق میں احسان یہ ہے کہ تو انھیں دینی اور دنیاوی فائدے سے نوازے۔
آیت: 14 #
{وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (14)}
اور ان لوگوں سے جنھوں نے کہا، بے شک ہم نصاریٰ ہیں ، لیا ہم نے عہد ان سے، پس بھول گئے وہ ایک حصہ اس چیز سے کہ نصیحت کیے گئے تھے وہ ساتھ اس کے تو ڈال دی ہم نے ان کے درمیان دشمنی اور بغض روز قیامت تک اور عنقریب خبر دے گا ان کو اللہ ساتھ اس چیز کے جو تھے وہ کرتے(14)
#
{14} أي: وكما أخذنا على اليهود العهد والميثاق؛ فكذلك أخذنا على الذين قالوا: إنَّا نصارى لعيسى ابن مريم، وزَكَّوا أنفسَهم بالإيمان بالله ورسُله، وما جاؤوا به فنقضوا العهد، ونسوا حَظًّا مما ذُكِّروا به نسياناً علمياً ونسياناً عملياً، {فأغرينا بينَهم العداوةَ والبغضاء إلى يوم القيامة}؛ أي: سَلَّطْنا بعضهم على بعض، وصار بينهم من الشرور والإحن ما يقتضي بغض بعضهم بعضاً ومعاداة بعضهم بعضاً إلى يوم القيامة، وهذا أمرٌ مشاهَدٌ؛ فإن النَّصارى لم يزالوا ولا يزالون في بغض وعداوةٍ وشقاقٍ، {وسوف ينبِّئهم الله بما كانوا يصنعون}: فيعاقبهم عليه.
[14] یعنی جس طرح ہم نے یہود سے عہد لیا اسی طرح ہم نے نصاریٰ سے بھی عہد لیا ﴿وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَ٘صٰرٰۤى ﴾ ’’اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں ۔‘‘ یعنی جو کہتے ہیں کہ ہم حضرت عیسیٰu کے مددگار ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان لا کر اپنے آپ کو پاک کیا اور پھر عہد کو توڑ دیا ﴿فَنَسُوْا حَظًّا مِّؔمَّؔا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖ ﴾ ’’پھر بھول گئے وہ نفع اٹھانا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی‘‘ یعنی وہ نسیان علمی اور نسیان عملی کا شکار ہو گئے ﴿ فَاَغْ٘رَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَؔ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’پس ہم نے لگا دی آپس میں ان کی دشمنی اور کینہ، قیامت کے دن تک‘‘ یعنی ہم نے انھیں ایک دوسرے پر مسلط کر دیا، ان کے درمیان شر و فساد اور کینہ نے جنم لیا جو قیامت تک کے لیے ایک دوسرے کے خلاف بغض اور عداوت کا باعث ہے اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا مشاہدہ کیاجا سکتا ہے کیونکہ نصاریٰ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بغض، مخالفت اور عداوت رکھتے چلے آ رہے ہیں ﴿وَسَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ﴾ ’’اور عنقریب اللہ ان کو خبر دے گا، جو کچھ وہ کرتے تھے‘‘ اور انھیں ان کی کارستانیوں پر عذاب دے گا۔
آیت: 15 - 16 #
{يَاأَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (15) يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (16)}.
اے اہل کتاب! تحقیق آیا ہے تمھارے پاس ہمارا رسول، وہ بیان کرتا ہے تمھارے لیے بہ کثرت ان چیزوں سے کہ تھے تم چھپاتے کتاب میں سے اور درگزر کرتا ہے بہت سی باتوں سے۔ تحقیق آگئی تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب واضح(15) دکھاتا ہے ساتھ اس کے اللہ اس شخص کو کہ پیروی کرتا ہے وہ اس کی رضامندی کی، راہیں سلامتی کی اور نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے طرف روشنی کی اپنے حکم سے اور راہنمائی کرتا ہے ان کی، طرف سیدھی راہ کی(16)
#
{15} لما ذكر تعالى ما أخذه الله على أهل الكتاب من اليهود والنصارى، وأنهم نَقَضوا ذلك إلاَّ قليلاً منهم؛ أمرهم جميعاً أن يؤمنوا بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، واحتجَّ عليهم بآيةٍ قاطعةٍ دالةٍ على صحة نبوَّته، وهي أنَّه يبيِّن لهم كثيراً مما يخفون عن الناس، حتَّى عن العوامِّ من أهل مِلَّتِهم؛ فإذا كانوا هم المشار إليهم في العلم ولا علم عند أحد في ذلك الوقت إلاَّ ما عندهم؛ فالحريص على العلم لا سبيل له إلى إدراكه إلاَّ منهم؛ فإتيان الرسول - صلى الله عليه وسلم - بهذا القرآن العظيم الذي بيَّن به ما كانوا يتكاتمونه بينهم، وهو أميٌّ لا يقرأ ولا يكتبُ من أدلِّ الدَّلائل على القطع برسالته، وذلك مثل صفة محمدٍ في كتبهم، ووجود البشائر به في كتبهم، وبيان آية الرجم ... ونحو ذلك، {ويعفو عن كثيرٍ}؛ أي: يترك بيانَ ما لا تقتضيه الحكمة. {قد جاءكم من الله نورٌ}: وهو القرآن يُستضاء به في ظُلُمات الجهالة وعماية الضَّلالة، {وكتابٌ مبينٌ}: لكلِّ ما يحتاجُ الخلق إليه من أمور دينهم ودُنياهم؛ من العلم بالله وأسمائِهِ وصفاتِهِ وأفعاله، ومن العلم بأحكامه الشرعيَّة وأحكامه الجزائيَّة.
[15] جب اللہ تعالیٰ نے اس عہد اور میثاق کا ذکر کیا جو اس نے اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے لیا تھا مگر تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب نے اس عہد کو توڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حکم دیا کہ وہ محمد مصطفیe پر ایمان لائیں اور آپ کی نبوت پر ایک قطعی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا۔ اور وہ یہ کہ آپe ان کے سامنے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو وہ عام لوگوں سے چھپاتے ہیں حتیٰ کہ خود اپنے عوام سے بھی چھپاتے ہیں ، پس جب یہی لوگ علم کے بارے میں عوام کا مرجع تھے اور علم کے خواہش مند کے لیے ان کے بغیر علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا تو ان حالات میں رسول اللہe کا قرآن کریم کے ساتھ مبعوث ہونا اور ان تمام امورکو کھول کھول کر بیان کر دینا جو وہ چھپاتے تھے، دراں حالیکہ آپ ان پڑھ تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، آپe کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے، مثلاً: ان کی کتابوں میں جناب محمدe کی صفات اور بشارتیں موجود تھیں ۔ اسی طرح آیت رجم کو، (جسے وہ چھپاتے تھے) رسول اللہe نے بیان فرمایا۔ ﴿وَیَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ﴾ ’’اور درگزر کرتا ہے وہ بہت سی چیزوں سے‘‘ یعنی آپe نے بہت سی ایسی باتوں کو بیان نہیں فرمایا جن کو بیان کرنا حکمت کا تقاضا نہیں تھا ﴿قَدْ جَآءَؔكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌؔ ﴾ ’’تحقیق آ گیا تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور‘‘ اس نور سے مراد قرآن کریم ہے جس سے جہالت کی تاریکیوں اور گمراہی کے اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے ﴿وَّكِتٰبٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اور روشن کتاب۔‘‘ مخلوق اپنے دین و دنیا کے جن امور کی محتاج ہے اس کتاب نے ان کو واضح کر دیا ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ، اس کے اسماء و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعی اور احکام جزائی کا علم۔
#
{16} ثم ذَكَرَ مَنْ الذي يَهْتَدي بهذا القرآن، وما هو السبب الذي من العبد لحصول ذلك، فقال: {يهدي به اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضوانَه سبل السلام}؛ أي: يهدي مَن اجتهد وحرص على بلوغ مرضاة الله وصار قصده حسناً سُبُلَ السلام التي يَسْلَمُ صاحبها من العذاب وتوصِلُه إلى دار السلام، وهو العلم بالحقِّ والعمل به إجمالاً وتفصيلاً. ويخرِجُهم من ظُلمات الكفر والبدعة والمعصية والجهل والغَفْلة، إلى نور الإيمان والسُّنَّة والطاعة والعلم والذِّكر، وكل هذه من الهداية بإذن الله الذي ما شاء كان وما لم يشأ لم يكن، {ويهديهم إلى صراطٍ مستقيم}.
[16] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ کون ہے جو اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور وہ کون سا سبب ہے جو بندہ اس راہنمائی کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ ﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ﴾ ’’اللہ اس کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے، اس کو جو اس کی رضامندی کی پیروی کرتا ہے، سلامتی کے راستوں کی‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حریص ہوتا ہے اور پھر اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور اس کا قصد و ارادہ بھی صحیح ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سلامتی کے راستوں کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ جو اسے عذاب سے بچا کر سلامتی کے گھر پہنچا دیتا ہے۔ یہاں سلامتی کے گھر سے مراد حق کا اجمالی اور تفصیلی علم اور اس پر عمل کرنا ہے۔ ﴿وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ ﴾ ’’اور ان کو تاریکیوں سے نکالتا ہے‘‘ یعنی کفر، بدعت، معصیت، جہالت اور غفلت کی تاریکیوں سے ﴿اِلَى النُّوْرِ ﴾ ’’روشنی کی طرف‘‘ ایمان، سنت، اطاعت، علم اور ذکر الٰہی کی روشنی۔ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے راہ ہدایت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا ﴿وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔‘‘
آیت: 17 - 18 #
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (17) وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (18)}.
البتہ تحقیق کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا: بے شک اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے۔ کہہ دیجیے: پس کون اختیار رکھتا ہے اللہ کے آگے کچھ بھی، اگر وہ ارادہ کر لے ہلاک کرنے کا مسیح ابن مریم اور ان کی ماں کو اور ان کو جو زمین میں ہیں سارے؟ اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(17) اور کہا یہود نے اور نصاریٰ نے ہم بیٹے ہیں اللہ کے اور اس کے پیارے، کہہ دیجیے: پس کیوں عذاب کرتا ہے وہ تمھیں تمھارے گناہوں کی وجہ سےبلکہ تم بھی انسان ہی ہو ان میں سے جن کو اس نے پیدا کیا وہ بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے اور عذاب کرتا ہے جس کو چاہتا ہےاور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور اسی کی طرف ہے پھر کر جانا(18)
#
{17} لما ذكر تعالى أخذ الميثاق على أهل الكتابين وأنَّهم لم يقوموا به بل نقضوه؛ ذَكَرَ أقوالهم الشنيعة، فَذَكَرَ قولَ النَّصارى، القول الذي ما قاله أحدٌ غيرهم، بأنَّ الله هو المسيح بن مريم، ووجه شُبهتهم أنَّه ولد من غير أبٍ، فاعتقدوا فيه هذا الاعتقاد الباطل، مع أن حوَّاء نظيره، خُلِقَتْ بلا أمٍّ، وآدم أولى منه خلق بلا أبٍ ولا أمٍّ؛ فهلاَّ ادَّعوا فيهما الإلهية كما ادَّعوها في المسيح! فدلَّ على أنَّ قولهم اتباع هوى من غير برهانٍ ولا شبهةٍ، فردَّ الله عليهم بأدلةٍ عقليَّةٍ واضحةٍ، فقال: {قُل فمن يملِكُ من الله شيئاً إن أراد أن يُهْلِكَ المسيح ابن مريم وأمَّه ومن في الأرض جميعاً}؛ فإذا كان المذكورون لا امتناع عندهم يمنَعُهم لو أراد الله أن يُهْلِكَهم ولا قدرة لهم على ذلك؛ دلَّ على بطلان إلهية من لا يمتنع من الإهلاك ولا في قوَّته شيء من الفكاك. ومن الأدلَّة أنَّ {لله} وحدَه {ملكُ السموات والأرض}، يتصرَّف فيهم بحكمِهِ الكونيِّ والشرعيِّ والجزائيِّ، وهم مملوكون مدبَّرون؛ فهل يَليقُ أن يكون المملوك العبد الفقير إلهاً معبوداً غنيًّا من كلِّ وجه؟! هذا من أعظم المحال، ولا وجه لاستغرابهم لخلق المسيح عيسى بن مريم من غير أبٍ؛ فإنَّ الله {يَخْلُقُ ما يشاءُ}: إن شاء منِ أبٍ وأمٍّ كسائر بني آدم وإن شاء من أب بلا أم كحواء، وإن شاء من أمٍّ بلا أبٍ كعيسى، وإن شاء من غير أبٍ ولا أمٍّ كآدم؛ فنوَّع خليقتَهَ تعالى بمشيئتِهِ النافذة التي لا يستعصي عليها شيءٌ، ولهذا قال: {واللهُ على كلِّ شيءٍ قديرٌ}.
[17] اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے عہد لینے اور ان کے نقض عہد کا ذکر کرنے کے بعد ان کے اقوال قبیحہ کا ذکر فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے قول کا ذکر فرمایا اور یہ بات نصاریٰ سے پہلے کسی نے نہیں کہی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ اور ان کے شبہ کا سبب یہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، بنابریں یہ اعتقاد باطل ان کے اندر در آیا۔ حالانکہ جناب حوا کی تخلیق اس کی نظیر ہے جن کو بغیر ماں کے پیدا کیا گیا اور اس لحاظ سے جناب آدم تو الوہیت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔ کیا انھوں نے آدمu اور جناب حوا کے بارے میں اسی طرح الوہیت کا دعویٰ کیا ہے جس طرح انھوں نے مسیحu کے بارے میں کیا؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا حضرت مسیح کی الوہیت کا دعوی بغیر کسی برہان کے خواہش نفس کی پیروی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح عقلی دلائل سے ان کے اس قول باطل کا رد کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ فَ٘مَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْ٘مَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’فرما دیجیے، پس کس کا بس چل سکتا ہے اللہ کے آگے کچھ بھی، اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور تمام اہل زمین کو‘‘ چونکہ اگر اللہ تعالیٰ ان مذکور لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے تو ان کے پاس اپنے آپ کو بچانے کی قدرت اور طاقت نہیں۔ اس لیے یہ اس ہستی کی الوہیت کے بطلان کی دلیل ہے جو اپنے آپ کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتی اور نہ چھڑا سکتی ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے ﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا﴾ ’’ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے۔‘‘ پس وہ ان میں تکوینی ، شرعی اور جزائی احکام کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے وہ سب مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیر کرتا ہے۔ کیا مملوک اور بندۂ محتاج کے لائق ہے کہ وہ الٰہ بن جائے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہو؟.... یہ سب سے بڑا محال ہے۔ عیسیٰu کا بغیر باپ کے متولد ہونا کوئی انہونی اور تعجب خیز بات نہیں ﴿ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ﴾ ’’وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔‘‘ چاہے تو ماں اور باپ کے ذریعے سے پیدا کرے، جیسا کہ تمام بنی آدم کی تخلیق ہوئی ہے۔ چاہے تو بغیر ماں کے، صرف باپ سے پیدا کرے جیسے حضرت حوا کا معاملہ ہے۔ چاہے تو کسی کو بغیر باپ کے، ماں سے پیدا کرے، جیسے حضرت عیسیٰu کی تخلیق ہوئی اور چاہے تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کرے، جیسے حضرت آدم کی پیدائش ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت نافذہ سے اپنی مخلوق کو الگ الگ انداز سے پیدا فرمایا جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ۔ بنابریں فرمایا :﴿وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
#
{18} ومن مقالات اليهود والنصارى أنَّ كلاًّ منهما ادَّعى دعوى باطلة يزكون بها أنفسهم؛ بأن قال كل منهما: {نحنُ أبناء الله وأحِبَّاؤه}، والابن في لغتهم هو الحبيب، ولم يريدوا البُنُوَّة الحقيقيَّة؛ فإنَّ هذا ليس من مذهبهم؛ إلاَّ مذهب النصارى في المسيح. قال الله رَدًّا عليهم حيث ادَّعوا بلا برهان: {قُلْ فلم يُعَذِّبُكُم بذُنوبكم}: فلو كُنتم أحبابه؛ ما عذَّبكم؛ لكون الله لا يحبُّ إلاَّ من قام بمراضيه. {بل أنتم بشرٌ ممَّنْ خَلَقَ}: تجري عليكم أحكامُ العدل والفضل، {يَغْفرُ لَمن يشاء ويعذِّبُ من يشاء}: إذا أتوا بأسباب المغفرة أو أسباب العذاب، {ولله ملكُ السموات والأرض وما بينهما وإليه المصير}؛ أي: فأيُّ شيء خصَّكم بهذه الفضيلة وأنتم من جملة المماليك ومن جملة من يرجع إلى الله في الدار الآخرةِ فيجازيكم بأعمالكم.
[18] یہود و نصاریٰ کے دعاوی میں سے۔ جبکہ ان کے تمام دعوے باطل ہیں ۔ ایک دعویٰ یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو پاک گردانتے ہیں ﴿ نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّآؤُهٗ﴾ ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ‘‘ ان کی لغت میں بیٹے سے مراد محبوب ہے وہ اس سے حقیقی ابنیت (بیٹا ہونا) مراد نہیں لیتے۔ کیونکہ یہ ان کا مذہب نہیں ہے سوائے حضرت مسیح کے بارے میں کہ عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ چونکہ ان کا دعویٰ دلیل و برہان سے محروم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قُ٘لْ فَلِمَ یُعَذِّبُؔكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ﴾ ’’کہہ دیجیے، پھر وہ کیوں تمھیں تمھارے گناہوں کی پاداش میں عذاب دے گا؟‘‘ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے تو وہ تمھیں کبھی عذاب نہ دیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اسی کو محبوب بناتا ہے جو اس کی مرضی کو پورا کرتا ہے۔ ﴿ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ﴾ ’’بلکہ تم بھی ایک آدمی ہو، اس کی مخلوق میں سے‘‘ تم پر بھی اللہ تعالیٰ کے عدل و فضل کے تمام احکام جاری ہوتے ہیں ﴿یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے۔‘‘ یعنی جب وہ مغفرت یا عذاب کے اسباب لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ ان اسباب کے مطابق ان کو بخش دیتا ہے یا عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ﴿ وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا١ٞ وَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ﴾ ’’اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ یعنی کس چیز نے تمھارے لیے اس فضیلت کو مختص کیا ہے جبکہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے جملہ مملوکات میں شامل ہو اور تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جنھیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ وہاں وہ تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دے گا۔
آیت: 19 #
{يَاأَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (19)}.
اے اہل کتاب! تحقیق آیا تمھارے پاس ہمارا رسول، بیان کرتا ہے وہ تمھارے لیے، پیچھے موقوف ہو جانے رسولوں کے کہیں تم نہ کہو کہ نہیں آیا ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور نہ ڈرانے والا، پس تحقیق آگیا تمھارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے(19)
#
{19} يدعو تبارك وتعالى أهلَ الكتاب بسبب ما منَّ عليهم من كتابِهِ أن يؤمنوا برسولِهِ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - ويشكُروا الله تعالى الذي أرسله إليهم {على} [حين] {فترةٍ من الرُّسل} وشدَّة حاجةٍ إليه وهذا مما يدعو إلى الإيمان به وأنه يبيِّن لهم جميع المطالب الإلهية والأحكام الشرعية، وقد قطع الله بذلك حجَّتهم؛ لئلاَّ يقولوا: {ما جاءنا من بشير ولا نذير، فقد جاءكم بشير ونذير}: يبشِّر بالثواب العاجل والآجل وبالأعمال الموجبة لذلك وصفة العاملين بها، وينذر بالعقاب العاجل والآجل بالأعمال الموجبة لذلك وصفة العاملين بها. {والله على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: انقادتِ الأشياء طوعاً وإذعاناً لقدرتِهِ؛ فلا يستعصي عليه شيءٌ منها، ومن قدرتِهِ أن أرسل الرُّسل وأنزل الكتُبَ، وأنه يثيب من أطاعهم، ويعاقب من عصاهم.
[19] اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو کتاب عطا کر کے ان پر احسان فرمایا اور اس سبب سے انھیں دعوت دی کہ وہ اس کے رسول محمد مصطفیe پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ان کی طرف رسول بھیجا ﴿عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ ﴾ ’’رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ منقطع رہنے کے بعد‘‘ اور ان کی شدید احتیاج کی بنا پر۔ یہ چیز اس بات کی داعی ہے کہ آپe پر ایمان لایا جائے اور ان کے سامنے تمام مطالب الہیہ اور احکام شرعیہ بیان کیے جائیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح ان پر حجت پوری کر دی تاکہ وہ یہ نہ کہیں ﴿مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ﴾ ’’کہ ہمارے پاس کوئی خوش خبری دینے والا آیا نہ کوئی ڈرانے والا‘‘ ﴿فَقَدْ جَآءَؔكُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ﴾ ’’پس تحقیق تمھارے پاس خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا‘‘ جو دنیوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری دیتا ہے اور ان اعمال سے آگاہ کرتا ہے جو اس ثواب کے حصول کے موجب ہیں ، نیز ان اعمال کو بجا لانے والوں کی صفات بیان کرتا ہے اور دنیوی اور اخروی عذاب اور ان اعمال سے ڈراتا ہے جو اس عذاب کا باعث بنتے ہیں اور ان اعمال کا ارتکاب کرنے والوں کی صفات سے آگاہ کرتا ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ تمام اشیاء نے اس کی قدرت کاملہ کے سامنے اطاعت سے سرتسلیم خم کر رکھا ہے کسی کو اس کی نافرمانی کی مجال نہیں ۔ یہ اس کی قدرت کاملہ ہی ہے کہ اس نے رسول مبعوث فرمائے، کتابیں نازل کیں جو ان رسولوں کی اطاعت کرتا ہے، اسے ثواب عطا کرتا ہے اور جو ان کی نافرمانی کرتا ہے انھیں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔
آیت: 20 - 26 #
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ (20) يَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (21) قَالُوا يَامُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (22) قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (23) قَالُوا يَامُوسَى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (24) قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (25) قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (26)}
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے، اے میری قوم! یاد کرو نعمت اللہ کی (جو ہوئی) تم پر، جب اس نے بنائے تمھارے اندر نبی اور بنایا تم کو بادشاہ اور دیا تم کو وہ جو نہیں دیا اس نے کسی کو جہانوں میں سے(20) اے میری قوم! داخل ہو تم! زمین مقدس میں ، جو لکھ دی ہے اللہ نے تمھارے لیے اور نہ پھرو تم اپنی پیٹھوں پر، تب پلٹو گے تم نقصان اٹھانے والے بن کر(21) انھوں نے کہا: اے موسیٰ! بے شک اس میں ایک قوم ہے بڑی زور آور اور ہم ہرگز نہ جائیں گے اس میں یہاں تک کہ نکل جائیں وہ اس میں سے، پس اگر نکل جائیں وہ اس میں سے تو ہم ضرور داخل ہو جائیں گے(22) کہا دو آدمیوں نے ان میں سے جو کہ ڈرتے تھے (اللہ سے) انعام کیا تھا اللہ نے ان پر، داخل ہو جاؤ تم ان پر دروازے میں سے، پس جب داخل ہو گے تم اس میں سے تو تم ہی غالب ہو گے اور اوپر اللہ ہی کے، پس بھروسہ کرو تم، اگر ہو تم مومن(23) انھوں نے کہا: اے موسیٰ! بے شک ہم تو ہرگز نہ جائیں گے اس میں کبھی بھی جب تک وہ موجود ہیں اس میں ، پس جا تو اور تیرا رب اور لڑو تم دونوں ، تحقیق ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (24) (موسیٰ) نے کہا: اے رب! بے شک میں نہیں اختیار رکھتا مگر اپنی جان کا اور اپنے بھائی کا، پس تو تفریق کر دے ہمارے درمیان اور درمیان نافرمان قوم کے(25) فرمایا (اللہ نے) پس وہ زمین حرام کر دی گئی ہے ان پر چالیس برس تک، سرگرداں پھریں گے وہ زمین میں ، پس نہ غم کھا تو اوپر نافرمان قوم کے(26)
#
{20} لما امتنَّ الله على موسى وقومه بنجاتهم من فرعون وقومه وأسرِهم واستعبادِهم؛ ذهبوا قاصدين لأوطانِهِم ومساكنِهِم، وهي بيت المقدس وما حواليه، وقارَبوا وصولَ بيت المقدس، وكان الله قد فَرَضَ عليهم جهادَ عدوِّهم لِيُخْرِجوه من ديارهم، فوعَظَهم موسى عليه السلام وذكَّرهم ليقدموا على الجهادِ، فقال: {اذْكُروا نعمةَ الله عليكم}: بقلوبِكم وألسنتِكم؛ فإنَّ ذِكْرَها داعٍ إلى محبَّته تعالى ومنشطٌ على العبادة، {إذ جَعَلَ فيكم أنبياءَ}: يدعونكم إلى الهدى ويحذِّرونكم من الرَّدى، ويحثُّونكم على سعادتكم الأبديَّة، ويعلِّمونكم ما لم تكونوا تعلمون، {وجعلكم ملوكاً}: تملِكون أمركم بحيث إنّه زال عنكم استعبادُ عدوِّكم لكم فكنتُم تملِكون أمركم، وتتمكَّنون من إقامة دينكم، {وآتاكم}: من النِّعم الدينيَّة والدنيويَّة {ما لم يؤتِ أحداً من العالمينَ}: فإنَّهم في ذلك الزمان خيرة الخلق وأكرمهم على الله، وقد أنعم عليهم بنعم ما كانت لغيرهم، فذكَّرهم بالنعم الدينيَّة والدنيويَّة الداعي ذلك لإيمانهم وثباته، وثباتهم على الجهاد وإقدامهم عليه.
[20] اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰu اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم کی غلامی سے نجات دلا کر ان پر احسان فرمایا ،چنانچہ موسیٰu اور ان کی قوم نے اپنے وطن بیت المقدس واپس جانے کا قصد کیا اور وہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دشمن کے خلاف جہاد فرض کر دیا تاکہ وہ ان سے اپنے علاقے خالی کروائیں ۔ موسیٰu نے ان کو وعظ و تذکیر کی تاکہ وہ جہاد کے عزم پر قائم رہیں ۔ حضرت موسیٰu نے فرمایا: ﴿اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تم پر اللہ نے جو احسان کیے ہیں انھیں یاد کرو۔‘‘ یعنی اپنے دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر اس کی محبت کا باعث بنتا ہے اور عبادت کے لیے نشاط پیدا کرتا ہے ﴿اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَؔ ﴾ ’’جب پیدا کیے اس نے تمھارے اندر نبی‘‘ جو تمھیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور تمھیں ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور تمھیں ابدی سعادت کے حصول پر آمادہ کرتے ہیں اور تمھیں وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے ﴿وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا﴾ ’’اور تم کو بادشاہ بنایا‘‘ تم اپنے معاملات کے خود مالک تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں دشمن کی غلامی سے نجات دلائی اور تم اپنے معاملات کے خود مالک بن گئے اور تمھارے لیے اپنے دین کو قائم کرنا ممکن ہو گیا۔ ﴿وَّاٰتٰىكُمْ ﴾ ’’اور تم کو عنایت کیا۔‘‘ یعنی تمھیں دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کیں ﴿مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’جو اس نے جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیں ‘‘ کیونکہ وہ اس زمانے میں منتخب قوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ باعزت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں عطا کیں جو کسی اور کو عطا نہیں کیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں یاد دلائیں جو ایمان، اس کے ثبات،جہاد پر ان کی ثابت قدمی اور جہاد کے لیے آگے بڑھنے کی موجب ہیں ۔
#
{21} ولهذا قال: {يا قوم ادخُلوا الأرضَ المقدَّسة}؛ أي: المطهَّرة {التي كَتَبَ الله لكم}: فأخبرهم خبراً تطمئنُّ به أنفسُهم إن كانوا مؤمنين مصدِّقين بخبر الله، وأنه قد كَتَبَ الله لهم دخولها وانتصارَهم على عدوِّهم، {ولا ترتدُّوا}؛ أي: ترجعوا {على أدبارِكُم فتنقَلبوا خاسرين}: قد خسرتُم دُنياكم بما فاتكم من النصر على الأعداء وفتح بلادِكم، وآخرتَكم بما فاتكم من الثواب وما استحققتم بمعصيتكم من العقاب.
[21] بنابریں فرمایا: ﴿یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ ﴾ ’’اے میری قوم! ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ‘‘ یعنی سرزمین پاک میں ﴿الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ﴾ ’’جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسی خبر سے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ مومن اور اللہ تعالیٰ کی خبر کی تصدیق کرنے والے ہوتے تو یقینا ان کے دل اس خبر سے مطمئن ہو جاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس میں ان کا داخل ہونا اور اپنے دشمن پر فتح حاصل کرنا لکھ دیا ہے ﴿وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَ٘ارِكُمْ ﴾ ’’اور نہ لوٹو اپنی پیٹھوں کی طرف‘‘ یعنی واپس نہ لوٹو ﴿فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ ’’پھر جا پڑو گے نقصان میں ‘‘ یعنی اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل نہ کر سکنے اور اپنے شہروں کو فتح نہ کر سکنے کی وجہ سے تم دنیا میں بھی گھاٹے میں رہو گے اور آخرت میں بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے ثواب سے محروم اور عذاب کے مستحق ہو کر خسارے میں رہو گے۔
#
{22} فقالوا قولاً يدلُّ على ضعف قلوبهم وخَوَر نفوسِهم وعدم اهتمامهم بأمر الله ورسوله: {يا موسى إنَّ فيها قوماً جَبَّارينَ}: شديدي القوَّة والشجاعةِ؛ أي: فهذا من الموانع لنا من دخولها، {وإنَّا لن نَدْخُلَها حتَّى يخرُجوا منها فإن يخرُجوا منها فإنَّا داخلونَ}: وهذا من الجبن وقلة اليقين، وإلاَّ؛ فلو كان معهم رُشدهم؛ لعلموا أنهم كلُّهم من بني آدم، وأنَّ القويَّ مَن أعانه الله بقوَّة من عندِهِ؛ فإنه لا حول ولا قوة إلا بالله، ولعلموا أنهم سينصرون عليهم إذ وَعَدَهم الله بذلك وعداً خاصًّا.
[22] انھوں نے (اس کے جواب میں ) موسیٰu کو ایک ایسا جواب دیا جو ان کے ضعف قلب، ضعیف جسم اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بارے میں عدم اہتمام پر دلالت کرتا ہے ﴿یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ﴾ ’’اے موسیٰ! اس میں ایک زبردست قوم ہے‘‘ یعنی بہت طاقتور اور بہادر لوگ ہیں ، یعنی اس لیے وہ اس ملک میں ہمارے داخل ہونے سے موانع میں سے ہیں ﴿وَاِنَّا لَ٘نْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ﴾ ’’اور ہم اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ اس میں سے نکل جائیں ۔ پس اگر وہ اس میں سے نکل جائیں تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے‘‘ اور ان کا یہ قول ان کی بزدلی اور قلت یقین پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ اگر وہ عقلمند ہوتے تو انھیں معلوم ہوتاکہ وہ بھی سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور طاقتور وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی اعانت سے نواز دے۔ کیونکہ اللہ کی اعانت و توفیق کے بغیر کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں ۔ نیز انھیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کو ضرور فتح و نصرت سے نوازا جائے گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ فتح و نصرت کا خاص وعدہ کر رکھا ہے۔
#
{23} {قال رجلانِ من الذين يخافونَ} الله تعالى؛ مشجعَيْنِ لقومهم، منهضَيْنِ لهم على قتال عدوهم واحتلال بلادهم {أنعم الله عليهما}: بالتوفيق وكلمة الحقِّ في هذا الموطن المحتاج إلى مثل كلامهم، وأنعم عليهم بالصبر واليقين، {ادخُلوا عليهم البابَ، فإذا دَخَلْتُموه فإنَّكم غالبون}؛ أي: ليس بينكم وبين نصرِكم عليهم إلاَّ أن تجزموا عليهم وتدخلوا عليهم الباب؛ فإذا دخلتُموه عليهم؛ فإنهم سينهزمون. ثم أمراهم بعدة هي أقوى العدد، فقالا: {وعلى الله فتوكَّلوا إنْ كنتم مؤمنين}: فإنَّ في التوكُّل على الله، وخصوصاً في هذا الموطن، تيسيراً للأمر ونصراً على الأعداء. ودل هذا على وجوب التوكُّل، وعلى أنه بحسب إيمان العبد يكون توكُّله.
[23] ﴿قَالَ رَجُلٰ٘نِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ ﴾ ’’دو آدمیوں نے کہا: جو ڈرنے والوں میں سے تھے‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے انھوں نے اپنی قوم کا دل بڑھاتے ہوئے ان کو دشمن کے خلاف جنگ کرنے اور ان کے علاقوں میں اترنے پر آمادہ کرنے کے لیے کہا ﴿اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ﴾ ’’جن پر اللہ نے انعام کیا تھا‘‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق اور اس قسم کے مواقع پر کلمہ حق کہنے کی جرأت سے نوازا تھا اور انھیں صبر و یقین کی نعمت عطا کی تھی ﴿ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْ٘تُمُوْهُ فَاِنَّـكُمْ غٰ٘لِبُوْنَ﴾ ’’تم دروازے میں داخل ہو جاؤ، جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو تم غالب ہو گے‘‘ یعنی تمھارے اور تمھاری فتح کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ، سوائے اس کے کہ تم ان پر حملے کا پختہ عزم کر لو اور شہر کے دروازے میں گھس جاؤ، پس جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو وہ ہزیمت اٹھا کر بھاگ جائیں گے، پھر ان کو اس تیاری کا حکم دیا جو سب سے بڑی تیاری ہے، چنانچہ فرمایا :﴿ وَعَلَى اللّٰهِ فَتَوَؔكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ہی پر تم بھروسہ کرو، اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل میں ، خصوصاً ایسے مواقع پر، معاملے میں آسانی اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور یہ آیت کریمہ توکل کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ نیز یہ کہ توکل بندۂ مومن کے ایمان کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔
#
{24} فلم ينجع فيهم هذا الكلام، ولا نفع فيهم الملام، فقالوا قول الأذلين: {يا موسى إنَّا لن نَدْخُلَها أبدا ما داموا فيها فاذهبْ أنت وربُّك فقاتلا إنا ها هنا قاعدون}: فما أشنع هذا الكلام منهم، ومواجهتهم لنبيهم فيه في هذا المقام الحرج الضيق، الذي قد دعت الحاجة والضرورة إلى نصرة نبيِّهم وإعزاز أنفسهم! وبهذا وأمثاله يظهر التفاوت بين سائر الأمم وأمة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ حيث قال الصحابةُ لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - حين شاوَرَهم في القتال يوم بدرٍ، مع أنه لم يحتِّم عليهم: يا رسول الله! لو خضت بنا هذا البحر؛ لخضناه معك، ولو بلغت بنا بَرْك الغَمَاد ؛ ما تخلَّف عنك أحدٌ، ولا نقول كما قال قومُ موسى لموسى: {اذهبْ أنتَ وربُّك فقاتِلا إنَّا هاهنا قاعدون}، ولكن اذهب أنت وربك فقاتلا إنَّا معكُما مقاتِلون من بين يديك ومن خلفك وعن يمينك وعن يسارك.
[24] مگر ان کو کسی کلام نے فائدہ دیا نہ کسی ملامت نے اور انھوں نے ذلیل ترین لوگوں کی سی بات کہی ﴿یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَ٘نْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ﴾ ’’اے موسیٰ! جب تک وہ اس میں ہیں ، ہم کبھی اس میں داخل نہ ہوں گے، پس تو جا اور تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ‘‘ اس مشکل صورت حال میں اپنے نبی کے سامنے ان کا یہ قول کتنا قبیح ہے جبکہ ضرورت اور حاجت تو اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اپنے نبی کی مدد کرتے۔ ان کے اس قول سے اور اس جیسے دیگر اقوال سے محمد مصطفیe کی امت اور دوسری امتوں کے درمیان تفاوت واضح ہو جاتا ہے۔ بدر کے موقع پر جب رسول اکرمe نے صحابہ کرامy سے مشورہ کیا جبکہ آپe نے ابھی ان کو کوئی حتمی حکم نہیں دیا تھا۔ تو صحابہy نے عرض کی: ’’یارسول اللہ! اگر آپ ہمیں لے کر سمندر میں بھی کود جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اگر آپ ہمیں لے کر زمین کے آخری سرے تک پہنچ جائیں تو بھی کوئی پیچھے نہیں رہے گا اور ہم وہ بات بھی نہیں کہیں گے جو جناب موسیٰ کی قوم نے ان سے کہی تھی ﴿ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ﴾ ’’جایئے آپ اور آپ کا رب دونوں لڑائی کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں‘‘... بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب جائیں لڑائی کریں ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر (آپ کے دشمنوں کے خلاف) جنگ کریں گے ہم آپ کے آگے، آپ کے پیچھے، آپ کے دائیں اور آپ کے بائیں طرف سے آپ کے دفاع میں جنگ لڑیں گے۔‘‘(سیرت ابن ہشام: 2؍227)
#
{25} فلما رأى موسى عليه السلام عُتُوَّهم عليه؛ {قال ربِّ إني لا أملِكُ إلَّا نفسي وأخي}؛ أي: فلا يدان لنا بقتالهِم ولست بجبارٍ على هؤلاء، {فافْرُقْ بيننا وبين القوم الفاسقين}؛ أي: احكُم بيننا وبينَهم بأن تنزل فيهم من العقوبة ما اقتضته حكمتُك. ودلَّ ذلك على أنَّ قولهم وفعلهم من الكبائر العظيمة الموجبة للفسق.
[25] جب موسیٰu نے ان کی سرکشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ﴿ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ ﴾ ’’اے میرے رب! میرے اختیار میں تو میری جان اور میرا بھائی ہے‘‘ یعنی لڑائی کے بارے میں ہمیں ان پر کوئی اختیار نہیں ۔ اور میں ان پر کوئی جبر نہیں کر سکتا ﴿ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْ٘فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’پس جدائی کر دے ہم میں اور اس نافرمان قوم میں ‘‘ یعنی ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے بایں طور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما۔ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ان کا قول و فعل کبیرہ گناہوں میں سے تھا جو فسق کے موجب ہوتے ہیں ۔
#
{26} {قال} الله مجيباً لدعوة موسى: {فإنها محرَّمةٌ عليهم أربعين سنة يتيهون في الأرض}؛ أي: إن من عقوبتهم أن نحرِّم عليهم دخول هذه القرية التي [كتبها] الله [لهم] مدة أربعين سنةً، وتلك المدة أيضاً يتيهون في الأرض، لا يهتدون إلى طريق ولا يبقون مطمئنين. وهذه عقوبةٌ دنيويَّةٌ؛ لعل الله تعالى كفَّر بها عنهم ودفع عنهم عقوبةً أعظم منها. وفي هذا دليل على أن العقوبة على الذنب قد تكون بزوال نعمةٍ موجودةٍ أو دفع نعمةٍ قد انعقد سببُ وجودِها، أو تأخُّرها إلى وقت آخر، ولعل الحكمة في هذه المدة أن يموت أكثر هؤلاء الذين قالوا هذه المقالة الصادرة عن قلوب لا صَبْرَ فيها ولا ثباتَ، بل قد ألفت الاستعباد لعدُوِّها ولم تكن لها هممٌ ترقِّيها إلى ما فيه ارتقاؤها وعلوُّها، ولتظهر ناشئةٌ جديدةٌ تتربَّى عقولهم على طلبِ قهرِ الأعداء وعدم الاستعباد والذُّلِّ المانع من السعادة. ولما علم الله تعالى أن عبده موسى في غاية الرحمة على الخَلْق خصوصاً قومه، وأنه ربَّما رَقَّ لهم واحتملته الشفقةُ على الحزن عليهم في هذه العقوبة أو الدُّعاء لهم بزوالها، مع أن الله قد حتَّمها؛ قال: {فلا تأسَ على القوم الفاسقينَ}؛ أي: لا تأسَفْ عليهم ولا تحزَنْ؛ فإنهم قد فسقوا، وفِسْقُهم اقتضى وقوع ما نزل بهم لا ظلماً مِنَّا.
[26] ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰu کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کردیا گیا ہے اور وہ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔‘‘ یعنی ان کی سزا یہ ہے کہ اس بستی میں ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دی ہے، داخل ہونا چالیس برس تک ان پر حرام کر دیا گیا۔ نیز وہ اس مدت کے دوران زمین میں مارے مارے اور سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ وہ کسی طرف جانے کی راہ پائیں گے نہ کسی جگہ اطمینان سے ٹھہر سکیں گے۔ یہ دنیوی سزا تھی۔ شاید اس سزا کو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا اور ان سے وہ سزا دور کر دی جو اس سے بڑی سزا تھی۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گناہ کی سزا کبھی کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ موجودہ نعمت زائل ہو جاتی ہے یا کسی عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے جس کے وجود کا سبب مہیا ہو۔ یا اس کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال کی مدت مقرر کرنے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس مدت کے دوران میں یہ بات کہنے والے اکثر لوگ مر چکے ہوں گے جو صبر و ثبات سے محروم تھے بلکہ ان کے دل دشمن کی غلامی سے مالوف ہو گئے تھے بلکہ وہ ان بلند ارادوں ہی سے محروم تھے جو انھیں بلندیوں پر فائز کرتے تاکہ اس دوران میں نئی نسل کی عقل اور شعور تربیت پا لے، پھر وہ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے، غلامی سے آزاد ہونے اور اس ذلت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو سعادت سے مانع ہوتی ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا بندہ موسیٰ مخلوق پر بے حد رحیم ہے خاص طور پر اپنی قوم پر۔ بسا اوقات ان کے لیے ان کا دل بہت نرم پڑ جاتا تھا، ان کی یہ شفقت اس سزا پر ان کو مغموم کر دیتی یا اس مصیبت کے زائل ہونے کی دعا کرنے پر آمادہ کر دیتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر فرمایا: ﴿ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْ٘فٰسِقِیْنَ﴾ ’’پس تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کر۔‘‘ یعنی ان پر افسوس کر نہ ان کے بارے غمزدہ ہو۔ یقینا انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور ان کی نافرمانی اسی سزا کا تقاضا کرتی تھی جو انھیں ملی ہے۔ یہ سزا ہماری طرف سے ظلم نہیں ہے۔
آیت: 27 - 31 #
{وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (27) لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (28) إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ (29) فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ (30) فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَاوَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ (31)}
اور تلاوت کریں آپ ان پر خبرآدم کے دو بیٹوں کی ساتھ حق کے، جب دونوں نے قربانی کی (ایک) ایک قربانی تو مقبول ہوئی ان میں سے ایک کی اور نہ مقبول ہوئی دوسرے کی، اس نے کہا میں ضرور تجھے قتل کردوں گا، (پہلے نے) کہا، بس قبول کرتا ہے اللہ پرہیزگاروں ہی سے(27) ، البتہ اگر دراز کرے گا تو میری طرف اپنا ہاتھ تاکہ قتل کرے تو مجھے تو میں نہیں دراز کروں گا اپنا ہاتھ تیری طرف کہ قتل کروں میں تجھے، بے شک میں ڈرتا ہوں اللہ رب العالمین سے(28) بے شک میں ارادہ کرتا ہوں کہ لوٹے تو ساتھ میرے گناہ اور اپنے گناہ کے، پس ہو جائے تو دوزخیوں سےاور یہی بدلہ ہے ظالموں کا(29) پس آسان کر دیا اس کے لیے اس کے نفس نے قتل کرنے کو اپنے بھائی کے تو اس نے قتل کر دیا اسے اور ہوگیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے(30) پھر بھیجا اللہ نے ایک کوا، وہ کھودتا تھا زمین کوتاکہ دکھلائے وہ اسے کہ کیسے چھپائے وہ لاش اپنے بھائی کی، اس نے کہا، ہائے افسوس! کیا میں عاجز ہوں اس سے بھی کہ ہوں مثل اس کوے کی کہ چھپا دیتا لاش اپنے بھائی کی، پس ہو گیا وہ پچھتانے والوں میں سے(31)
#
{27} أي: قُصَّ على الناس وأخبرهم بالقضية التي جرت على ابني آدم بالحقِّ تلاوة يَعْتَبِر بها المعتبرون صدقاً لا كذباً وجِدًّا لا لعباً. والظاهر أن ابني آدم هما ابناه لصلبه؛ كما يدلُّ عليه ظاهر الآية والسياق، وهو قول جمهور المفسرين؛ أي: اتل عليهم نبأهما في حال تقريبهما للقربان الذي أدَّاهما إلى الحال المذكورة، {إذ قَرَّبا قُرباناً}؛ أي: أخرج كلٌّ منهما شيئاً من مالِهِ لقصد التقرُّب إلى الله، {فَتُقُبِّلَ من أحدِهما ولم يُتَقَبَّلْ من الآخر}: بأن علم ذلك بخبرٍ من السماء أو بالعادة السابقة في الأمم أنَّ علامة تقبُّل الله للقربان أن تنزِلَ نارٌ من السماء فتحرقه. {قال} الابنُ الذي لم يتقبَّل منه للآخر حسداً وبغياً: {لأقْتُلَنَّكَ} فقال له الآخر مترقِّقاً له في ذلك: {إنَّما يتقبَّلُ الله من المتَّقين}؛ فأيُّ ذنبٍ لي وجناية توجبُ لك أن تقتلني إلا أني اتَّقيت الله تعالى الذي تقواه واجبةٌ عليَّ وعليك وعلى كلِّ أحد. وأصحُّ الأقوال في تفسير {المتَّقين} هنا؛ أي: المتقين لله في ذلك العمل؛ بأن يكونَ عملُهم خالصاً لوجه الله، متَّبعين فيه لسنَّة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -.
[27] یعنی لوگوں کے سامنے قصہ بیان کر اور ان کو اس جھگڑے کے بارے میں بتا جو آدمu کے دو بیٹوں کے درمیان ہوا تھا۔ یہ اس طرح تلاوت کرے کہ اصحاب اعتبار اسے جھوٹا نہیں بلکہ سچا اور اسے کھیل تماشہ نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ واقعہ گردانیں ۔ اور ظاہر بات یہ ہے کہ آدم کے ’’دو بیٹوں ‘‘ سے مراد صلبی بیٹے ہیں جیسا کہ آیت کریمہ کا ظاہر اور اس کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ یعنی ان دونوں بیٹوں کا قصہ بیان کر جبکہ انھوں نے تقرب کے لیے قربانی کی جس نے انھیں ذکر کردہ حالت تک پہنچایا۔ ﴿ اِذْ قَ٘رَّبَ٘ا قُ٘رْبَ٘انًا ﴾ ’’جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔‘‘ یعنی دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر کچھ قربانی پیش کی ﴿ فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ﴾ ’’پس ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نامقبول‘‘ ان میں سے جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اسے آسمان سے کسی خبر کے ذریعے سے معلوم ہوا یا سابقہ امتوں میں عادت الٰہی کے مطابق قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر قربانی کو جلا ڈالتی تھی۔ ﴿ قَالَ ﴾ وہ بیٹا جس کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی حسد اور تعدی کی بنا پر دوسرے بیٹے سے بولا: ﴿ لَاَقْتُلَنَّكَ ﴾ ’’میں تجھے قتل کر کے رہوں گا۔‘‘ دوسرے بیٹے نے نہایت نرمی سے اس سے کہا: ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے‘‘ اس میں میرا کون سا گناہ اور کون سا جرم ہے جو تجھ پر میرے قتل کو واجب کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں جس سے ڈرنا مجھ پر، تجھ پر اور ہر ایک پر فرض ہے۔ اس آیت کریمہ میں ’’متقین‘‘ کی تفسیر میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد ہے عمل میں اللہ تعالیٰ کی خاطر تقویٰ اختیار کرنے والے یعنی ان کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لیے اور رسول اللہe کی اتباع میں ہو۔
#
{28} ثم قال له مخبراً أنَّه لا يريد أن يتعرَّض لقتلِهِ لا ابتداءً ولا مدافعةً، فقال: {لئن بَسَطْتَ إليَّ يَدَكَ لتقتلني ما أنا بباسطٍ يَدِيَ إليك لأقتُلَك}، وليس ذلك جُبْنًا منِّي ولا عجزاً، وإنَّما ذلك لأني {أخافُ الله ربَّ العالمين}، والخائف لله لا [يقدم] على الذُّنوب، خصوصاً الذنوب الكبار. وفي هذا تخويفٌ لمن يريد القتل، وأنَّه ينبغي لك أن تتقي الله وتخافه.
[28] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ دوسرا بیٹا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ نہ ابتدا میں اور نہ اپنی مدافعت میں ۔ اس لیے اس نے کہا ﴿ لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ ﴾ ’’اگر تو ہاتھ چلائے گا مجھ پر تاکہ تو مجھے مارے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں چلاؤں گا کہ تجھے ماروں ‘‘ اور میرا یہ رویہ میری بزدلی یا میرے عجز کی وجہ سے نہیں یہ تو صرف اس وجہ سے ہے کہ ﴿ اِنِّی ْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ ’’میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ‘‘ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا گناہ کا اقدام نہیں کر سکتا، خاص طور پر کبیرہ گناہ کا۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت تخویف ہے جو قتل کا ارادہ کرتا ہے اور تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس سے ڈرے۔
#
{29} {إنِّي أريدُ أن تبوءَ}؛ أي: ترجع {بإثمي وإثمك}؛ أي: إنه إذا دار الأمر بين أن أكون قاتلاً أو تقتلني؛ فإني أوثر أن تقتلني فتبوء بالوزرين، {فتكونَ من أصحاب النارِ وذلك جزاء الظالمين}: دلَّ هذا على أن القتلَ من كبائر الذُّنوب، وأنَّه موجبٌ لدُخول النار.
[29] ﴿ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ ﴾ ’’میں چاہتا ہوں کہ تو لوٹے۔‘‘ ﴿ بِـاِثْ٘مِیْ وَاِثْمِكَ ﴾ ’’میرے اور اپنے گناہ کے ساتھ‘‘ یعنی جب معاملے کا دار و مدار دو امور پر ہے، ایک یہ کہ میں قاتل بنوں (دوسرا یہ کہ) تو مجھے قتل کرے۔ تو میں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ تو مجھے قتل کرے تاکہ تو دونوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر واپس لوٹے ﴿ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰؔبِ النَّارِ١ۚ وَذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پھر ہو جائے تو دوزخیوں میں سے اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قتل کا ارتکاب کبیرہ گناہ ہے اور یہ جہنم میں داخل ہونے کا موجب ہے۔
#
{30} فلم يرتدِع ذلك الجاني، ولم ينزَجِر، ولم يزل يعزم نفسه ويجزمها، حتَّى طوَّعت له قتلَ أخيه الذي يقتضي الشرع والطبع احترامه، {فقتَلَه فأصبح من الخاسرين}: دنياهم وآخرتهم، وأصبح قد سنَّ هذه السُّنة لكلِّ قاتل، ومن سنَّ سنةً سيئةً؛ فعليه وِزْرها ووِزْر من عمل بها إلى يوم القيامة، ولهذا ورد في الحديث الصحيح: أنه «ما من نفس تُقتَل؛ إلا كان على ابن آدم الأول شطرٌ من دمها؛ لأنه أوَّلُ مَنْ سنَّ القتل».
[30] وہ مجرم اس جرم سے پیچھے ہٹا نہ گھبرایا اور قتل کے عزم جازم پر قائم رہا حتیٰ کہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی جس کے احترام کا تقاضا شریعت اور فطرت دونوں کرتے ہیں ﴿ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ ’’پس اس نے اسے قتل کر دیا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ یعنی وہ دنیا و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہو گیا اور اس نے ہر قاتل کے لیے ایک سنت رائج کر دی۔ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جس کسی نے کوئی بری سنت رائج کی تو اس پر اس برائی کے گناہ کا بوجھ اور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی پڑے گا جو قیامت تک اس بری سنت پر عمل کریں گے‘‘(دیکھیے: صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ… الخ، حدیث: 1017) بنابریں ایک صحیح حدیث میں وارد ہے ’’دنیا میں جو بھی قتل کرتا ہے تو اس خون کے گناہ کا کچھ حصہ آدم کے پہلے بیٹے کے حصہ میں بھی جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کے جرم کی ابتدا کی۔‘‘ (دیکھیے: جامع الترمذي، العلم، باب ماجاء أن الدال علی الخیر کفاعلہ، حدیث: 2673)
#
{31} فلما قَتَلَ أخاه؛ لم يدرِ كيف يصنعُ به؛ لأنه أول ميت مات من بني آدم، {فبَعَثَ الله غُراباً يبحثُ في الأرض}؛ أي: يثيرُها ليدفنَ غُراباً آخر ميتاً. {لِيُرِيَهُ}: بذلك {كيف يُواري سوأة أخيهِ}؛ أي: بَدَنَه؛ لأنَّ بدن الميت يكون عورةً، {فأصبح من النادمين}: وهكذا عاقبة المعاصي الندامة والخسارة.
[31] جب اس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے کیونکہ آدم کے بیٹوں میں وہ پہلا شخص تھا جو مرا تھا ﴿ فَبَعَثَ اللّٰهُ غُ٘رَابً٘ا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’تو اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدتا تھا‘‘ یعنی وہ زمین کھودتا ہے تاکہ دوسرے مردہ کوے کو دفن کرے ﴿ لِیُ٘رِیَهٗ ﴾ ’’تاکہ اسے دکھائے‘‘ یعنی وہ اس کے ذریعے سے آدم کے قاتل بیٹے کو دکھائے ﴿ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ ﴾ ’’ کہ وہ اپنے بھائی کے بدن کو کیسے چھپائے۔‘‘ کیونکہ میت کا بدن ستر ہوتا ہے ﴿ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ﴾ ’’پس وہ نادم ہونے والوں میں سے ہو گیا‘‘ اسی طرح تمام گناہوں کا انجام ندامت اور خسارہ ہے۔
آیت: 32 #
{مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (32)}.
اسی وجہ سے لکھا (فرض کر دیا) ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جو کوئی قتل کرے کسی جان کو بغیر عوض جان کے یا بغیر فساد کے زمین میں تو گویا اس نے قتل کر دیا لوگوں کو سب کو اور جو بچائے کسی ایک جان کو تو گویا اس نے بچایا لوگوں کو سب کو اور البتہ تحقیق آئے ان کے پاس ہمارے رسول ساتھ واضح دلائل کے، پھر بے شک بہت سے لوگ ان میں سے، بعد اس کے زمین میں حد سے نکل جانے والے ہیں (32)
#
{32} يقول تعالى: {من أجل ذلك}: الذي ذَكَرْناه في قصَّة ابني آدم وقتل أحدِهما أخاه وسَنِّه القتل لمن بعده وأن القتل عاقبته وخيمة وخسار في الدنيا والآخرة؛ {كتبنا على بني إسرائيل}: أهل الكتب السماويَّة {أنَّه من قَتَلَ نفساً بغير نفس أو فسادٍ في الأرض}؛ أي: بغير حقٍّ {فكأنَّما قتل الناس جميعاً}؛ لأنَّه ليس معه داعٍ يَدْعوه إلى التَّبيين وأنَّه لا يقدِم على القتل إلاَّ بحقٍّ، فلمَّا تجرَّأ على قتل النفس التي لم تستحقَّ القتل؛ علم أنه لا فرقَ عنده بين هذا المقتول وبين غيرِهِ، وإنَّما ذلك بحسب ما تدعوه إليه نفسه الأمَّارة بالسوء، فتجرُّؤه على قتله كأنَّه قتل الناس جميعاً، وكذلك من أحيا نفساً؛ أي: استبقى أحداً فلم يقتله مع دعاء نفسه له إلى قتله، فمنعه خوف الله تعالى من قتلِهِ؛ فهذا كأنه أحيا الناس جميعاً؛ لأنَّ ما معه من الخوف يمنعُهُ من قتل من لا يستحقُّ القتل. ودلَّت الآية على أن القتل يجوز بأحد أمرين: إما أن يقتل نفساً بغير حقٍّ متعمِّداً في ذلك؛ فإنَّه يحلُّ قتله إن كان مكلفاً مكافئاً ليس بوالدٍ للمقتول، وإما أن يكونَ مفسداً في الأرض بإفساده لأديان الناس أو أبدانهم أو أموالهم؛ كالكُفَّار المرتدِّين والمحاربين والدُّعاة إلى البدع الذين لا ينكفُّ شرُّهم إلاَّ بالقتل، وكذلك قطَّاع الطريق ونحوِهم ممَّن يصولُ على الناس لقتلهم أو أخذ أموالهم. {ولقد جاءَتْهُم رُسُلنا بالبيناتِ}: التي لا يبقى معها حجَّةٌ لأحدٍ، {ثم إنَّ كثيراً منهم}؛ أي: من الناس {بعد ذلك}: البيان القاطع للحُجَّة الموجب للاستقامة في الأرض {لمسرفونَ}: في العمل بالمعاصي ومخالفة الرسل الذين جاؤوا بالبيِّنات والحُجَج.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﴾ ’’اسی سبب سے‘‘ یعنی آدم کے بیٹوں کے اس واقعہ کے بعد جس کا ہم نے ذکر کیا ہے جس میں ان میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا اور اپنے مابعد قتل کا طریقہ جاری کر دیا اور یہ کہ قتل کا انجام دنیا و آخرت میں انتہائی مضر اور خسارے والا ہے ﴿ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا‘‘ یعنی ان لوگوں پر جنھیں کتب سماویہ سے نوازا گیا ﴿ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْ٘سٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جس نے کسی جان کو بغیر جان کے یا بغیر فساد کرنے کے قتل کر دیا‘‘ یعنی ناحق ﴿ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ﴾ ’’گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔‘‘ کیونکہ اس کے پاس کوئی داعیہ نہیں جو اسے تبیین پر آمادہ کرتا اور قتل ناحق کے اقدام سے روکتا۔ پس جب اس نے اس جان کو قتل کرنے کی جسارت کی جو قتل ہونے کی مستحق نہ تھی، تب معلوم ہوا کہ اس مقتول ناحق اور دیگر مقتولین کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ یہ تو نفس امارہ کے داعیے کے مطابق ہے۔ پس اس کا اس نفس کو قتل کرنے کی جسارت کرنا تمام نفوس انسانی کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جس نے کسی نفس انسانی کو زندگی بخشی، یعنی نفس امارہ کے داعیے کے باوجود کسی نفس کو باقی رکھا اور اسے قتل نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے خوف نے اسے قتل ناحق سے روک دیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ کیونکہ اس کے ہمراہ جو خوف الٰہی ہے، وہ اسے ایسے نفس کے قتل سے روکتا ہے جو قتل کا مستحق نہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ دو امور کی بنا پر قتل جائز ہے۔ (۱) اگر کسی نے جان بوجھ کر ناحق قتل کیا ہو اگر قاتل مکلف اور بدلہ لیے جانے کے قابل ہو، وہ مقتول کا باپ نہ ہو تو اسے (قصاص میں ) قتل کرنا جائز ہے۔ (۲) وہ لوگ جو لوگوں کے دین، جان اور اموال کو ہلاک کر کے زمین میں فساد برپا کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ، مثلاً: مرتدین اہل کفر، محاربین اور بدعات کی طرف دعوت دینے والے وہ لوگ جن کو قتل کیے بغیر ان کے شر و فساد کا سدباب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح وہ راہزن وغیرہ ہیں جو لوگوں کا مال لوٹنے یا ان کو قتل کرنے کے لیے شاہراہوں میں لوگوں پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جَآءَؔتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’ان کے پاس ہمارے رسول دلائل لے کر آئے‘‘ ان دلائل نے کسی کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہنے دی ﴿ ثُمَّؔ اِنَّ كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ۔‘‘ یعنی لوگوں میں سے ﴿ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’اس کے بعد‘‘ یعنی حجت کی کاٹ کرنے والے اس بیان کے بعد، جو کہ زمین میں راست روی اور استقامت کا موجب ہوتاہے ﴿ لَ٘مُسْرِفُوْنَ ﴾ ’’حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں ۔‘‘ گناہوں کے اعمال اور انبیاء و رسل کی مخالفت میں ، جو کہ واضح دلائل اور براہین کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ، حد سے بڑھنے والے ہیں ۔
آیت: 33 - 34 #
{إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (33) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (34)}
یقینا بدلہ ان لوگوں کا، جو لڑتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد کرنے کی، (یہی ہے) کہ قتل کر دیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف جانب سے یا نکال دیے جائیں اس علاقے سے، یہ ان کے لیے ذلت ہے دنیا میں اور ان کے لیے آخرت میں عذاب ہے بہت بڑا(33) مگر وہ لوگ کہ توبہ کر لی انھوں نے پہلے اس کے کہ قابو پاؤ تم ان پر تو جان لو بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(34)
#
{33} المحاربون لله ورسوله هم الذين بارزوه بالعداوة وأفسدوا في الأرض بالكُفر والقتل وأخذ الأموال وإخافة السبل، والمشهور أنَّ هذه الآية الكريمة في أحكام قُطَّاع الطريق الذين يعرضون للناس في القرى والبوادي فيغصبونهم أموالَهم ويقتُلونهم ويخيفونهم، فيمتَنِع الناسُ من سلوك الطريق التي هم بها، فتنقَطِع بذلك. فأخبر الله أنَّ جزاءهم ونَكالهم عند إقامة الحدِّ عليهم أن يُفعلَ بهم واحدٌ من هذه الأمور. واختلف المفسرون هل ذلك على التَّخيير، وأنَّ كلَّ قاطع طريقٍ يفعلُ به الإمامُ أو نائبُهُ ما رآه المصلحة من هذه الأمور المذكورة، وهذا ظاهر اللَّفظ، أو أنَّ عقوبتهم تكون بحسب جرائِمِهم؛ فكلُّ جريمة لها قسطٌ يقابِلها؛ كما تدلُّ عليه الآية بحكمتها وموافقتها لحكمة الله تعالى، وأنهم: إن قتلوا وأخذوا مالاً؛ تحتَّم قتلُهم وصلبُهم، حتى يشتهروا ويَخْتزوا ويرتدعَ غيرهم، وإن قتلوا ولم يأخذوا مالاً؛ تحتَّم قتلُهم فقط، وإن أخذوا مالاً ولم يَقْتُلوا؛ تحتَّم أن تُقْطَعَ أيديهم وأرجلهم من خلاف؛ اليد اليمنى، والرجل اليسرى، وإن أخافوا الناس، ولم يقتُلوا، ولا أخذوا مالاً؛ نُفوا من الأرض، فلا يُتْرَكون يأوون في بلد حتى تظهر توبتُهم. وهذا قول ابن عباس رضي الله عنه وكثير من الأئمة على اختلاف في بعض التفاصيل. {ذلك} النكال {لهم خزيٌ في الدُّنيا}؛ أي: فضيحة وعارٌ، {ولهم في الآخرة عذابٌ عظيم}: فدلَّ هذا أن قطع الطريق من أعظم الذنوب، موجب لفضيحة الدُّنيا وعذاب الآخرة، وأنَّ فاعله محاربٌ لله ولرسوله. وإذا كان هذا شأن عظم هذه الجريمة؛ عُلِمَ أنَّ تطهير الأرض من المفسدين وتأمين السبل والطرق عن القتل وأخذ الأموال وإخافة الناس من أعظم الحسنات وأجلِّ الطاعات، وأنَّه إصلاحٌ في الأرض؛ كما أن ضدَّه إفسادٌ في الأرض.
[33] اللہ اور اس کے رسولe کے ساتھ محاربت کے مرتکب وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ عداوت ظاہر کرتے ہیں اور قتل و غارت، کفر، لوٹ مار اور شاہراہوں کو غیر محفوظ بنانے کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ ان راہزنوں اور ڈاکوؤں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بستیوں اور دیہات میں لوگوں پر حملے کر کے ان کا مال لوٹتے ہیں ، ان کو قتل کرتے ہیں اور دہشت پھیلاتے ہیں ۔ بنابریں لوگ ان شاہراہوں پر سفر کرنا بند کر دیتے ہیں پس اس وجہ سے راستے منقطع ہو جاتے ہیں ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ حد نافذ کرتے وقت ان لوگوں کی سزا، ان سزاؤں میں سے ایک ہے جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں ۔ اصحاب تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان سزاؤں میں اختیار ہے اور امام یا اس کا نائب ہر راہزن کو اپنی صواب دید اور مصلحت کے مطابق ان مذکورہ سزاؤں میں سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ آیت کریمہ کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ یا ان کی سزا ان کے جرم کے مطابق دی جائے گی اور ہر جرم کے مقابلے میں ایک سزا ہے جیسا کہ آیت کریمہ اس پر دلالت کرتی ہے اور اس آیت کریمہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے، یعنی اگر وہ قتل اور لوٹ مار کا ارتکاب کریں تو ان کو قتل کرنے اور سولی دینے کی سزا حتمی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا سولی دیا جانا مشہور ہو جائے اور دوسرے لوگ لوٹ مار اور راہزنی سے باز آجائیں ۔ اگر وہ لوگوں کو قتل کریں اور مال نہ لوٹیں تو ان کو صرف قتل کیا جائے۔ اگر وہ صرف مال لوٹیں اور لوگوں کو قتل کرنے سے باز رہیں تو مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر صرف لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور دہشت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہوں اور انھوں نے کسی کا مال لوٹا ہو نہ کسی کو قتل کیا ہو تو ان کو جلاوطن کیا جائے گا اور ان کو کسی شہر میں پناہ نہیں لینے دی جائے گی یہاں تک کہ وہ توبہ کر لیں ۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسw کا قول ہے اور بعض تفاصیل میں اختلاف کے باوجود بہت سے ائمہ نے اس قول کو اختیا رکیا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ سزا ﴿ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا ﴾ ’’ان کے لیے دنیا میں فضیحت اور عار ہے‘‘ ﴿ وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ راہزنی بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو دنیا و آخرت کی رسوائی اور فضیحت کی موجب ہے اور راہزنی کا مرتکب اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ جب یہ جرم اتنا بڑا ہے تو معلوم ہوا کہ مفسدین سے روئے زمین کی تطہیر کرنا، شاہراہوں کو قتل و غارت، لوٹ مار اور خوف و دہشت سے محفوظ کرنا، سب سے بڑی بھلائی اور سب سے بڑی نیکی ہے۔ نیز یہ زمین کے اندر اصلاح ہے جیسا کہ اس کی ضد فساد فی الارض ہے۔
#
{34} {إلَّا الذين تابوا من قبل أن تقدِروا عليهم}؛ أي: من هؤلاء المحاربين. {فاعْلَموا أنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: فيسقطُ عنه ما كان لله من تحتُّم القتل والصَّلْب والقطع والنفي ومن حقِّ الآدميِّ أيضاً إن كان المحارب كافراً ثم أسلم؛ فإنْ كان المحارب مسلماً فإن حقَّ الآدمي لا يسقط عنه من القتل وأخذ المال، ودلَّ مفهوم الآية على أن توبة المحارب بعد القدرة عليه أنها لا تُسْقِطُ عنه شيئاً، والحكمة في ذلك ظاهرةٌ، وإذا كانت التوبةُ قبل القدرةِ عليه تمنع من إقامة الحدِّ في الحرابة؛ فغيرُها من الحدود إذا تاب من فعلِها قبل القدرة عليه من باب أولى.
[34] ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ ﴾ ’’ہاں جن لوگوں نے، اس سے پیشترکہ تمھارے قابو آجائیں توبہ کرلی۔‘‘ یعنی ان محاربین میں سے جو لوگ توبہ کر لیں پہلے اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ ﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَ٘فُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ یعنی اس سے جرم اور گناہ ساقط ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ضمن میں تھا، یعنی قتل، سولی، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور جلاوطنی وغیرہ سزائیں معاف ہو جائیں گی۔ اگر محارب کافر تھا اور اس نے گرفتار ہونے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تو آدمی کا حق بھی ساقط ہو جائے گا۔ اگر محارب مسلمان ہے تو لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ انسانی حقوق ساقط نہیں ہوں گے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ محارب پر قابو پا لینے کے بعد اس کی توبہ معتبر نہیں ، اس سے کوئی سزا ساقط نہیں ہو گی۔ اس میں جو حکمت ہے وہ واضح ہے۔ اور جب قابو پانے سے پہلے کی ہوئی توبہ محاربت کی حد کے نفاذ سے مانع ہے تو قابو پانے سے پہلے دیگر جرائم سے توبہ کا ان جرائم کی حدود کے نفاذ سے مانع ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔
آیت: 35 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (35)}
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ڈرو اللہ سے اور تلاش کرو اس کی طرف ذریعۂ قرب اور جہاد کرو اس کی راہ میں تاکہ تم فلاح پاؤ(35)
#
{35} هذا أمر من الله لعباده المؤمنين بما يقتضيه الإيمان من تقوى الله والحذر من سخطه وغضبه، وذلك بأن يجتهدَ العبد ويبذلَ غاية ما يمكنه من المقدور في اجتناب ما يَسخطه الله من معاصي القلب واللسان والجوارح الظاهرة والباطنة، ويستعين بالله على تركها لينجو بذلك من سخط الله وعذابه. {وابتغوا إليه الوسيلة}؛ أي: القُرْبَ منه والحظوة لديه والحبَّ له، وذلك بأداء فرائضه القلبية كالحبِّ له وفيه، والخوف والرجاء والإنابة والتوكل، والبدنيَّة كالزكاة والحج، والمركَّبة من ذلك كالصلاة ونحوها من أنواع القراءة والذِّكر، ومن أنواع الإحسان إلى الخَلْق بالمال والعلم والجاه والبدن والنُّصح لعباد الله؛ فكلُّ هذه الأعمال تُقرِّبُ إلى الله، ولا يزال العبدُ يتقرَّب بها إلى الله حتَّى يحبَّه؛ فإذا أحبَّه؛ كان سمعَه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، ويستجيبُ الله له الدعاء. ثم خصَّ تبارك وتعالى من العبادات المقرِّبة إليه الجهاد في سبيله، وهو بذل الجهد في قتال الكافرين بالمال والنفس والرأي واللسان والسعي في نصر دين الله بكلِّ ما يقدِرُ عليه العبد؛ لأنَّ هذا النوع من أجلِّ الطاعات وأفضل القُرُبات، ولأنَّ من قام به؛ فهو على القيام بغيرِهِ أحرى وأولى، {لعلَّكم تفلحونَ}: إذا اتَّقيتم الله بترك المعاصي، وابتغيتُم الوسيلة إلى الله بفعل الطاعات، وجاهدتُم في سبيله ابتغاء مرضاته. والفلاحُ هو الفوز والظَّفَرُ بكلِّ مطلوب مرغوب والنجاة من كل مرهوب؛ فحقيقتُهُ السعادة الأبديَّة والنعيم المقيم.
[35] اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے کے مطابق تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے غضب سے بچیں اور وہ اس طرح کہ بندۂ مومن مقدور بھر ان امور سے اجتناب کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں قلب، زبان اور جوارح کے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچے اور ان گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل کر سکے۔ ﴿و َابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ﴾ ’’اور ڈھونڈو اس کی طرف وسیلہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب، اس کے پاس مرتبہ اور اس کی محبت طلب کرو۔ یہ چیز فرائض قلبی، مثلاً: محبت الٰہی، اس کے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت اور اس پر توکل، فرائض بدنی ، مثلاً: زکٰوۃ اور حج وغیرہ اور قلب و بدن سے مرکب فرائض ، مثلاً: نماز، ذکر اور تلاوت اور لوگوں سے اپنے اخلاق، مال، علم، جاہ اور بدن کے ذریعے سے بھلائی سے پیش آنے اور ان کی خیر خواہی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس یہ تمام اعمال تقرب الٰہی کا ذریعہ ہیں ۔ بندہ اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کے کان بن جاتا ہے جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔( مطلب یہ ہے کہ اللہ کا محبوب انسان اپنے تمام اعضاء کو اس طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ پسند کرتا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا جز بن جاتا یا اللہ اس میں حلول کر جاتا ہے‘ جیسا کہ بعض مشرکین میں اس قسم کے عقیدے پائے جاتے ہیں ۔ )(ص ۔ ی) پھر اللہ کے قریب کرنے والی عبادات میں سے جہاد فی سبیل اللہ کا خصوصی طور پر بیان کیا اور یہ جہاد نام ہے، کافروں کے ساتھ لڑائی میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے کا، مال، جان، رائے، زبان کے ذریعے سے اور اللہ کے دین کی مدد میں اپنی مقدور بھر سعی و کوشش کرنے کا۔ اس لیے کہ عبادت کی یہ قسم تمام طاعات میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور قربات میں سب سے افضل ہے، نیز یہ کہ جو اس کی ادائیگی کا اہتمام کر لیتا ہے، وہ دیگر فرائض و عبادات بہ طریق اولیٰ بجا لاتا ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ اگر تم نے گناہوں کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کیا، نیکیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ تلاش کر لیا اور اس کی رضا کی خاطر اس کے راستے میں جہاد کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ تم فلاح پا لو گے۔ فلاح اپنے ہر مطلوب و مرغوب کے حصول میں کامیابی اور مرہوب سے نجات کا نام ہے۔ پس اس کی حقیقت ابدی سعادت اور دائمی نعمت ہے۔
آیت: 36 - 37 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (36) يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ (37)}
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اگر ہو ان کے لیے جو کچھ زمین میں ہے سارا اور اتنا ہی اور اس کے ساتھ تاکہ معاوضے میں دے دیں وہ اس کو عذاب کے روز قیامت کے تو نہیں قبول کیا جائے گا ان سےاور ان کے لیے عذاب ہے بہت دردناک(36) وہ ارادہ کریں گے کہ نکل جائیں آگ سے اور نہیں ہوں گے نکلنے والے اس سے اور ان کے لیے عذاب ہے ہمیشہ رہنے والا(37)
#
{36 ـ 37} يخبر تعالى عن شناعة حال الكافرين [بالله] يومَ القيامة ومآلهم الفظيع، وأنَّهم لو افتدوا من عذاب الله بملء الأرض ذهباً، ومثله معه ما تُقُبِّلَ منهم ولا أفاد؛ لأنَّ محلَّ الافتداء قد فات ولم يبق إلاَّ العذابُ الأليم الموجِع الدائم الذي لا يخرجونَ منه أبداً، بل هم ماكثون فيه سرمداً.
[37,36] قیامت کے روز کفار کا جو بدترین حال ہو گا اور وہ جس قبیح ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس روز اگر وہ زمین بھر سونا اور اتنا ہی اور، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ کے طور پر ادا کریں تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ یہ فدیہ کوئی فائدہ ہی دے گا۔ کیونکہ فدیہ دینے کا موقع تو وہ گنوا بیٹھے، اب تو دردناک دائمی عذاب کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ اس عذاب سے وہ کبھی نہ نکل سکیں گے بلکہ وہ اس عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔
آیت: 38 - 40 #
{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (38) فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (39) أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (40)}
چور مرد اور چور عورت پس کاٹ دو ہاتھ ان دونوں کے، بدلے میں اس کے جو انھوں نے کمایا، عبرت ناک سزا ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ غالب حکمت والا ہے(38) پھر جس نے توبہ کر لی بعد اپنے ظلم کے اور اصلاح کر لی تو اللہ توجہ فرماتا ہے اس پر بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(39) کیا نہیں علم ہوا آپ کو کہ اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، وہ عذاب کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور مغفرت کرتا ہے جس کی چاہتا ہےاور اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے(40)
#
{38} السارق: هو مَن أخذ مال غيره المحترم خفية بغير رضاه، وهو من كبائر الذنوب الموجبة لترتُّب العقوبة الشنيعة، وهو قطع اليد اليمنى؛ كما هو في قراءة بعض الصحابة، وحدُّ اليد عند الإطلاق من الكوع؛ فإذا سَرَقَ؛ قُطِعَتْ يدُهُ من الكوع وحُسِمَتْ في زيت لتنسدَّ العروق فيقف الدم. ولكنَّ السنَّة قيَّدت عموم هذه الآية من عدة أوجه: منها الحرز؛ فإنه لا بدَّ أن تكون السرقة من حرز، وحرز كل مال ما يُحفظ به عادة؛ فلو سَرَقَ من غير حرزٍ؛ فلا قطع عليه. ومنها: أنه لا بدَّ أن يكون المسروق نصاباً، وهو ربع دينار أو ثلاثة دراهم أو ما يساوي أحدهما؛ فلو سرق دون ذلك؛ فلا قطع عليه، ولعل هذا يؤخذ من لفظ السرقة ومعناها؛ فإنَّ لفظ السرقة أخذ الشيء على وجهٍ لا يمكن الاحترازُ منه، وذلك أن يكون المال محرزاً؛ فلو كان غير مُحْرَزٍ؛ لم يكن ذلك سرقة شرعية. ومن الحكمة أيضاً أن لا تُقطع اليد في الشيء النَّزْر التافه، فلما كان لا بدَّ من التقدير؛ كان التقدير الشرعيُّ مخصِّصاً للكتاب. والحكمة في قطع اليد في السرقة: أنَّ ذلك حفظٌ للأموال واحتياطٌ لها وليقطع العضو الذي صدرت منه الجنايةُ. فإنْ عاد السارقُ؛ قُطعت رجله اليسرى، فإن عاد؛ فقيلَ: تُقطع يده اليسرى ثم رجله اليمنى. وقيلَ: يُحبس حتى يموت. وقوله: {جزاءً بما كسبا}؛ أي: ذلك القطع جزاء للسارق بما سرقه من أموال الناس {نكالاً من الله}؛ أي: تنكيلاً وترهيباً للسارق ولغيرِهِ؛ ليرتدعَ السُّرَّاق إذا علموا أنهم سيُقْطَعون إذا سرقوا. {والله عزيزٌ حكيم}؛ أي: عزَّ وحَكَم فقطع السارقَ.
[38] چور اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے کا قابل احترام مال، اس کی رضامندی کے بغیر خفیہ طور پر ہتھیاتا ہے۔ چوری کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جو بدترین سزا کا موجب ہے یعنی دایاں ہاتھ کاٹنا۔ جیسا کہ بعض صحابہy کی قراء ت میں آتا ہے۔ ہاتھ کا اطلاق کلائی کے جوڑ تک ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے اور اس کے بعد اسے تیل میں داغ دیا جائے تاکہ رگیں مسدود ہو جائیں اور خون رک جائے۔ سنت نبوی نے اس آیت کریمہ کے عموم کو متعدد پہلوؤں سے مقید کیا ہے۔ (۱) حفاظت: چوری کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو، یہاں مال کی حفاظت سے مراد وہ حفاظت ہے جو عادتاً کی جاتی ہے۔ چور نے اگر کسی ایسے مال کی چوری کی ہو جو حفاظت میں نہ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (۲) نصاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے مال مسروقہ کا نصاب ضروری ہے۔ یہ نصاب کم از کم ایک چوتھائی دینار یا تین درہم یا ان میں سے کسی ایک کے برابر۔ مال مسروقہ اگر اس نصاب سے کم ہو تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ شاید یہ لفظ سرقہ اور اس کے معنی سے ماخوذ ہے کیونکہ لفظ ’’سرقہ‘‘ سے مراد ہے کوئی چیز اس طریقے سے لینا جس سے احتراز ممکن نہ ہو اور یہ اسی وقت ہی ہوگا کہ مال کو حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہو۔ اگر مال کو حفاظت کے ساتھ نہ رکھا گیا تو اس مال کا لینا شرعی سرقہ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ تھوڑی اور حقیر سی شے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ قطع ید کے لیے کم ترین نصاب مقرر کرنا ضروری ہے، اس لیے نصاب شرعی ہی کتاب اللہ کی تخصیص کرنے والا ہو گا۔ چوری میں ہاتھ کاٹنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے مال محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس عضو کو بھی کٹ جانا چاہیے جس سے جرم صادر ہوا ہے۔ دایاں ہاتھ کاٹ دیے جانے کے بعد اگر چور دوبارہ چوری کا ارتکاب کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر پھر چوری کرے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے اور بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اس کو قید کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مر جائے۔ ﴿ جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا ﴾ ’’یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کمایا‘‘ یعنی یہ قطع ید، چور کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے لوگوں کا مال چرایا ہے ﴿ نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے‘‘ یعنی یہ سزا چور اور دیگر لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہے کیونکہ چوروں کو جب معلوم ہو گا کہ چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ چوری سے باز آ جائیں گے ﴿ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ زبردست، صاحب حکمت ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اس لیے اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔
#
{39} {فمن تاب من بعد ظُلْمِهِ وأصلحَ فإنَّ الله يتوبُ عليه إنَّ الله غفور رحيم}: فيغفر لمن تاب، فتَرَكَ الذنوب، وأصلح الأعمال والعيوب.
[39] ﴿ فَ٘مَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَ٘فُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’پس جس نے توبہ کی اپنے ظلم کے بعد اور اصلاح کی تو اللہ قبول کرتا ہے توبہ اس کی، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ پس جو کوئی توبہ کرتا ہے، گناہوں کو ترک کر کے اپنے اعمال اور اپنے عیوب کی اصلاح کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔
#
{40} وذلك أنَّ الله له ملك السماوات والأرض؛ يتصرَّف فيهما بما شاء من التصاريف القدريَّة والشرعيَّة والمغفرة والعقوبة؛ بحسب ما اقتضتْه حكمتُهُ ورحمتُهُ الواسعة ومغفرته.
[40] اور یہ اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے زمین اور آسمان میں تکوینی اور شرعی تصرف کرتا ہے اور اپنی حکمت، بے پایاں رحمت اور مغفرت کے تقاضے کے مطابق وہ بخشتا ہے یا سزا دیتا ہے۔
آیت: 41 - 44 #
{يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (41) سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ شَيْئًا وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (42) وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (43) إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44)}
اے رسول! نہ غمگین کریں آپ کو وہ لوگ جو جلدی کرتے ہیں کفر میں ، ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ساتھ اپنے مونہوں کے اور نہیں ایمان لائے دل ان کے اور ان لوگوں میں سے جو یہودی ہوئے، وہ بہت سننے والے ہیں جھوٹ کے، بہت سننے والے ہیں واسطے دوسری قوم کے کہ نہیں آئی وہ (ابھی) آپ کے پاس، بدل ڈالتے ہیں وہ باتوں کو بعد (ثابت ہونے ان کے) ان کی جگہوں سے وہ کہتے ہیں ، اگر دیے جاؤ تم یہ (حکم) تو اسے لے لو اور اگر نہ دیے جاؤ تم یہ تو بچواور جو شخص کہ ارادہ کرے اللہ اسے گمراہ کرنے کا تو ہرگز نہیں اختیار رکھتے آپ اس کے لیے اللہ کے ہاں کچھ بھی۔ یہی لوگ ہیں کہ نہیں ارادہ کیا اللہ نے یہ کہ پاک کر دے ان کے دلوں کو، ان کے لیے ہے دنیا میں رسوائی اور ان کے لیے آخرت میں ہے عذاب عظیم(41) بہت سننے والے ہیں جھوٹ کے، بہت کھانے والے ہیں حرام کے، پس اگر آئیں وہ آپ کے پاس تو آپ فیصلہ کر دیں ان کے درمیان یا منہ پھیر لیں ان سےاور اگر منہ پھیریں گے آپ ان سے تو ہرگز نہ بگاڑ سکیں گے آپ کا کچھ بھی اور اگر فیصلہ کریں آپ تو فیصلہ کریں ان کے درمیان ساتھ انصاف کے، بے شک اللہ پسند فرماتا ہے انصاف کرنے والوں کو(42) اور کیوں کر منصف بنائیں وہ آپ کو جبکہ ان کے پاس تورات ہے، اس میں حکم ہے اللہ کا، پھر پھر جاتے ہیں وہ بعد اس کےاور نہیں ہیں وہ ایمان لانے والے(43) بے شک نازل کیا ہم نے تورات کو، اس میں ہدایت اور روشنی ہے فیصلہ کرتے تھے ساتھ اس کے پیغمبر، جو مطیع تھے (اللہ کے) واسطے ان لوگوں کے جو یہودی ہوئے اور (فیصلہ کرتے تھے) اللہ والے اور علماء ، اس لیے کہ وہ نگران بنائے گئے تھے کتاب اللہ کےاور تھے وہ اوپر اس کے گواہ پس نہ ڈرو تم لوگوں سے اور ڈرو مجھ سے اور نہ بیچو تم میری آیتوں کو مول پر تھوڑے سےاور جو نہ فیصلہ کرے ساتھ اس کے جو نازل کیا اللہ نے تو یہی لوگ ہیں کافر(44)
#
{41} كان الرسول - صلى الله عليه وسلم - من شدة حرصه على الخلق يشتد حزنه لمن يُظهر الإيمان ثم يرجع إلى الكفر، فأرشده الله تعالى إلى أنه لا يأسى ولا يحزنُ على أمثال هؤلاء؛ فإنَّ هؤلاء لا في العير ولا في النفير؛ إن حَضَروا؛ لم ينفعوا، وإن غابوا؛ لم يُفْقَدوا، ولهذا قال مبيِّناً للسبب الموجب لعدم الحزن عليهم، فقال: {من الذين قالوا آمنَّا بأفواهِهِم ولم تؤمِن قلوبُهم}؛ فإنَّ الذين يُؤسَى ويُحزَن عليهم مَن كان معدوداً من المؤمنين، وهم المؤمنون ظاهراً وباطناً، وحاشا لله أن يرجع هؤلاء عن دينهم ويرتدُّوا؛ فإنَّ الإيمان إذا خالطتْ بشاشتُه القلوبَ؛ لم يعدِلْ به صاحبُه غيرَه ولم يبغ به بدلاً. {ومن الذين هادوا}؛ أي: اليهود، {سمَّاعون للكذب سمَّاعون لقوم آخرين لم يأتوك}؛ أي: مستجيبون ومقلِّدون لرؤسائهم المبنيِّ أمرهم على الكذب والضَّلال والغيِّ. وهؤلاء الرؤساء المتبوعون {لم يأتوك}، بل أعرضوا عنك وفرِحوا بما عندهم من الباطل. وهو تحريف الكلم عن مواضعِهِ؛ أي: جلب معانٍ للألفاظ ما أرادها الله، ولا قصَدَها؛ لإضلال الخلق ولدفع الحق؛ فهؤلاء المنقادون للدُّعاة إلى الضلال المتبعين للمحال الذين يأتون بكل كذبٍ لا عقول لهم ولا همم؛ فلا تبال أيضاً إذا لم يتَّبعوك؛ لأنَّهم في غاية النقص، والناقص لا يُؤْبَه له ولا يبالَى به. {يقولون إن أوتيتم هذا فخذوه وإن لم تؤتوه فاحذروا}؛ أي: هذا قولهم عند محاكمتهم إليك، لا قصد لهم إلاَّ اتباع الهوى، يقول بعضُهم لبعض: إنْ حَكَمَ لكُم محمدٌ بهذا الحكم الذي يوافق هواكم؛ فاقبلوا حكمه، وإن لم يحكم لكم به؛ فاحذروا أن تتابِعوه على ذلك، وهذا فتنةٌ واتِّباع ما تهوى الأنفس. {ومَن يُرِدِ الله فتنتَه فلن تملك له من الله شيئاً}؛ كقوله تعالى: {إنَّك لا تهدي من أحببتَ ولكنَّ الله يهدي من يشاء}، {أولئك الذين لم يُرِدِ الله أن يطهِّر قلوبهم}؛ أي: فلذلك صدر منهم ما صدر. فدل ذلك على أنَّ مَن كان مقصودُهُ بالتَّحاكم إلى الحكم الشرعيِّ اتباعَ هواه، وأنَّه إن حُكم له رضي، وإن لم يُحْكَم له سَخِطَ؛ فإنَّ ذلك من عدم طهارة قلبه؛ كما أنَّ من حاكم وتحاكم إلى الشرع، ورضي به وافَقَ هواه أو خالفه؛ فإنه من طهارة القلب، ودلَّ على أن طهارة القلب سببٌ لكلِّ خير، وهو أكبر داعٍ إلى كلِّ قول رشيدٍ وعمل سديدٍ. {لهم في الدُّنيا خزيٌ}؛ أي: فضيحة وعار، {ولهم في الآخرة عذابٌ عظيم}: هو النار وسَخَط الجبار.
[41] رسول اللہe مخلوق پر بے حد شفقت فرماتے تھے اس لیے اگر کوئی شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹ جاتا تو آپe کو بہت دکھ پہنچتا اور آپ بہت زیادہ مغموم ہو جاتے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس قسم کے لوگوں کی کارستانیوں پر غمزدہ نہ ہوا کریں کیونکہ وہ کسی شمار میں نہیں ۔ اگر وہ موجود ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو ان کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ بنابریں ان کے بارے میں عدم حزن و غم کے موجب سبب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُ٘لُوْبُهُمْ ﴾ ’’ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے مونہوں سے اور ان کے دل مسلمان نہیں ‘‘ کیونکہ صرف ان لوگوں کے بارے میں افسوس کیا جاتا ہے اور صرف ان کے بارے میں غم کھایا جاتا ہے جو ظاہر اور باطن میں مومن شمار ہوتے ہیں ۔ حاشاللہ اہل ایمان کبھی اپنے دین سے نہیں پھرتے کیونکہ جب بشاشت ایمان دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے تو صاحب ایمان کسی چیز کو ایمان کے برابر نہیں سمجھتا اور ایمان کے بدلے کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔ ﴿ وَمِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا ﴾ ’’اور ان میں سے جو یہودی ہیں ۔‘‘ ﴿ سَمّٰؔعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰؔعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَ٘اْتُوْكَ ﴾ ’’جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لیے، وہ جاسوس ہیں دوسرے لوگوں کے جو آپ تک نہیں آئے‘‘ یعنی اپنے سرداروں کی آواز پر لبیک کہنے والے، ان کے مقلد، جن کا تمام تر معاملہ جھوٹ اور گمراہی پر مبنی ہے۔ اور یہ سردار جن کی پیروی کی جاتی ہے ﴿ لَمْ یَ٘اْتُوْكَ ﴾ ’’آپ کے پاس کبھی نہیں آئے‘‘ بلکہ وہ آپ سے روگردانی کرتے ہیں اور اسی باطل پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ﴿ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ﴾ ’’وہ بدل ڈالتے ہیں بات کو، اس کا ٹھکانا چھوڑ کر‘‘ یعنی وہ اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے اور حق کو روکنے کے لیے الفاظ کو ایسے معانی پہناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے پس لوگ گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کے پیچھے چلتے ہیں اور محال کی پیروی کرتے ہیں جو تمام تر جھوٹ ہی لے کر آتے ہیں جو عقل سے محروم اور عزم و ہمت سے تہی دست ہیں ۔ اگر وہ آپ کی اتباع نہیں کرتے تو پروا نہ کیجیے کیونکہ وہ انتہائی ناقص ہیں اور ناقص کی پروا نہیں کی جاتی ﴿ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰؔذَا فَخُذُوْهُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا ﴾ ’’کہتے ہیں اگر تم کو یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا‘‘ یعنی یہ بات وہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ فیصلہ کروانے کے لیے آپ کے پاس آتے ہیں ۔ خواہشات نفس کی پیروی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ’’اگر محمد (e) تمھاری خواہش کے مطابق فیصلہ کرے تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ تمھاری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اس فیصلے میں اس کی پیروی سے بچو۔‘‘ یہ نقطہ نظر فتنہ اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ﴿ وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَ٘نْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔـا ﴾ ’’اور جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے، آپ اس کے لیے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کر سکتے‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد اس قول کی مانند ہے ﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ (القصص: 28؍56) ’’آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت دے سکتا ہے۔‘‘﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُ٘لُوْبَهُمْ ﴾ ’’یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہیں چاہا کہ ان کے دل پاک کرے‘‘ یعنی پس ان سے جو کچھ صادر ہو رہا ہے وہ اسی وجہ سے صادر ہو رہا ہے۔ ان کا یہ رویہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی خواہش نفس کی اتباع کی خاطر شریعت کے مطابق فیصلہ کرواتا ہے اگر فیصلہ اس کے حق میں ہو تو راضی ہو جاتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہو تو ناراض ہو جاتا ہے۔ تو یہ چیز اس کے قلب کی عدم طہارت میں سے ہے۔ جیسے وہ شخص ہے جو اپنا فیصلہ شریعت کی طرف لے جاتا ہے اور اس پر راضی ہوتا ہے، چاہے وہ فیصلہ اس کی خواہش کے مطابق ہو یا مخالف تو یہ اس کی طہارت قلب میں سے ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طہارت قلب ہر بھلائی کا سبب ہے اور طہارت قلب رشد و ہدایت اور عمل سدید کا سب سے بڑا داعی ہے۔ ﴿ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾ ’’ان کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے۔‘‘ یعنی دنیا میں ان کے لیے فضیحت اور عار ہے ﴿ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اور آخرت میں عذاب عظیم ہے‘‘ عذاب عظیم سے مراد جہنم اور اللہ جبار کی ناراضی ہے۔
#
{42} {سمَّاعون للكذبِ}: والسمعُ ها هُنا سمع استجابة؛ أي: من قلَّة دينهم وعقلهم أن استجابوا لمن دعاهم إلى القول الكذب، {أكَّالون للسُّحت}؛ أي: المال الحرام بما يأخذونه على سفلتهم وعوامِهم من المعلومات والرواتب التي بغير الحق، فجمعوا بين اتباع الكذب وأكل الحرام. {فإن جاؤوك فاحْكُم بينهم أوْ أعْرِضْ عنهم}؛ فأنت مخيَّرٌ في ذلك، وليست هذه منسوخة؛ فإنه عند تحاكم هذا الصنف إليه يخيَّر بين أن يحكمَ بينهم أو يعرِضَ عن الحكم بينهم؛ بسبب أنه لا قصدَ لهم في الحكم الشرعي إلاَّ أن يكون موافقاً لأهوائهم. وعلى هذا؛ فكلُّ مستفتٍ ومتحاكم إلى عالم يَعلَمُ من حالِهِ أنَّه إن حَكَمَ عليه لم يرضَ؛ لم يَجِبِ الحكم ولا الإفتاء لهم؛ فإن حكم بينهم؛ وجب أن يحكمَ بالقِسْط. ولهذا قال: {وإن تُعْرِضْ عنهم فلن يَضُرُّوك شيئاً وإن حكمتَ فاحكُم بينَهم بالقسطِ إنَّ الله يحبُّ المقسِطين}: حتى ولو كانوا ظلمةً وأعداءً؛ فلا يَمْنَعُكَ ذلك من العدل في الحكم بينهم: وفي هذا بيان فضيلة العدل والقسط في الحكم بين الناس، وأنَّ الله تعالى يحبه.
[42] ﴿ سَمّٰؔعُوْنَ لِلْكَذِبِ ﴾ ’’جاسوسی کرنے والے ہیں جھوٹ بولنے کے لیے‘‘ یہاں سننے سے مراد اطاعت کے لیے سننا ہے یعنی وہ قلت دین اور قلت عقل کی بنا پر ہر اس شخص کی بات پر لبیک کہتے ہیں جو انھیں جھوٹ کی طرف دعوت دیتاہے ﴿ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ﴾ ’’کھانے والے ہیں حرام کے‘‘ یعنی اپنے عوام اور گھٹیا لوگوں سے ناحق وظائف لے کر حرام مال کھاتے ہیں ۔ پس انھوں نے اپنے اندر جھوٹ کی پیروی اور اکل حرام کو یکجا کر لیا ﴿ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ﴾ ’’اگر یہ آپ کے پاس (کوئی فیصلہ کرانے کو) آئیں تو آپ ان میں فیصلہ کردیں یا اعراض کریں ۔‘‘ یعنی آپ کو اس بارے میں اختیار ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کریں یا ان سے اعراض فرما لیں ۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں ، جو فیصلہ کروانے کے لیے آپe کے پاس آئیں آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں یا فیصلہ کرنے سے گریز کریں ۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ صرف اسی وقت شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے کا قصد کرتے ہیں جب فیصلہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہو۔ بنابریں فتویٰ طلب کرنے والے اور کسی عالم کے پاس فیصلہ کروانے کے لیے جانے والے کے احوال کی تحقیق کی جائے اگر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے پر راضی نہ ہو گا تو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا واجب ہے نہ فتویٰ دینا۔ تاہم اگر وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا واجب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ تُ٘عْرِضْ عَنْهُمْ فَلَ٘نْ یَّضُرُّوْكَ شَیْـًٔـا١ؕ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾ ’’اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو وہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ حتی کہ... خواہ لوگ ظالم اور دشمن ہی کیوں نہ ہوں تب بھی ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو۔ یہ آیت کریمہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔
#
{43} ثم قال متعجِّباً منهم: {وكيف يحكِّمونك وعندهم التوراةُ فيها حكم الله ثم يَتَوَلَّوْنَ من بعدِ ذلك وما أولئك بالمؤمنينَ}؛ فإنَّهم لو كانوا مؤمنينَ عاملينَ بما يقتضيه الإيمانُ ويوجِبُهُ؛ لم يصدفوا عن حكم الله الذي في التوراة التي بين أيديهم إلاَّ لعلَّهم أن يجدوا عندك ما يوافِقُ أهواءَهم، وحين حكمتَ بينهم بحُكْم الله الموافق لما عندهم أيضاً؛ لم يرضَوْا بذلك، بل أعْرَضوا عنه، فلم يَرْتَضوه أيضاً. قال تعالى: {وما أولئك}: الذين هذا صنيعهم، بمؤمنينَ؛ أي: ليس هذا دأب المؤمنين، وليسوا حَرِيِّين بالإيمان؛ لأنهم جَعَلوا آلهتهم أهواءهم، وجعلوا أحكام الإيمانِ تابعةً لأهوائِهِم.
[43] پھر ان پر تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَؔكَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ … بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور وہ کس طرح آپ کو منصف بنائیں گے، جبکہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم ہے، پھر اس کے بعد وہ پھر جاتے ہیں اور وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ‘‘ اس لیے کہ اگر وہ مومن ہوتے اور ایمان کے تقاضے اور اس کے موجبات پر عمل کرتے تو اللہ کے اس حکم سے اعراض نہ کرتے جو تورات میں موجود ہے اور جو ان کے سامنے ہے۔ (لیکن اس سے اعراض کر کے جو آپ کے پاس آئے ہیں تو اس امید پر کہ) شاید جو کچھ آپ کے پاس ہے ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ اور جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق فیصلہ کر دیا جو ان کے پاس ہے۔ تو وہ نہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے روگردانی کی اور اس کو ناپسند کیا۔ ﴿ وَمَاۤ اُولٰٓىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جن کے یہ اعمال ہیں وہ مومن نہیں ، یعنی یہ اہل ایمان کا رویہ نہیں اور نہ یہ لوگ مومن کہلانے کے مستحق ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور احکام ایمان کو اپنی خواہشات کے تابع کر رکھا ہے۔
#
{44} {إنَّا أنْزَلنا التوراةَ}: على موسى بن عمران عليه الصلاة والسلام {فيها هدىً}: يهدي إلى الإيمان والحقِّ ويَعْصِمُ من الضَّلالة، {ونورٌ} يُسْتَضاء به في ظُلَم الجهل والحيرة والشكوك والشُّبهات والشَّهوات؛ كما قال تعالى: {ولقد آتينا موسى وهارون الفرقان وضياءً وذكرى للمتقين}، {يحكُمُ بها} ـ بين الذين هادوا؛ أي: اليهود، في القضايا والفتاوى ـ {النبيُّون الذين أسلموا} لله وانقادوا لأوامره، الذين إسلامهم أعظم من إسلام غيرهم، وهم صفوة الله من العباد؛ فإذا كان هؤلاء النبيُّون الكرام والسادة للأنام، قد اقتدوا بها، وائتَمُّوا، ومشوا خلفها؛ فما الذي مَنَعَ هؤلاء الأراذل من اليهود من الاقتداء بها؟! وما الذي أوجب لهم أن ينبذوا أشرف ما فيها من الإيمان بمحمد - صلى الله عليه وسلم - الذي لا يُقبل عمل ظاهر وباطنٌ إلا بتلك العقيدة؟! هل لهم إمام في ذلك؟! نعم؛ لهم أئمة دأبهم التحريف وإقامة رياستهم ومناصبهم بين الناس والتأكُّل بكتمان الحقِّ وإظهار الباطل، أولئك أئمة الضَّلال الذين يدعون إلى النار. وقوله: {والرَّبَّانيُّون والأحبار}؛ أي: وكذلك يحكم بالتوراة للذين هادوا أئمة الدين من الربانيين؛ أي: العلماء العاملين المعلِّمين، الذين يربون الناس بأحسن تربية، ويسلكون معهم مسلك الأنبياء المشفقين، والأحبار؛ أي: العلماء الكبار الذين يُقتدَى بأقوالهم وتُرمَق آثارُهم ولهم لسانُ الصدق بين أممهم. وذلك الحكم الصادر منهم الموافق للحق {بما استُحْفِظوا من كتاب الله وكانوا عليه شهداء}؛ أي: بسبب أنَّ الله استحفظهم على كتابه، وجعلهم أمناء عليه، وهو أمانة عندهم، أوجب عليهم حفظه من الزيادة والنقصان والكتمان وتعليمه لمن لا يعلمه، وهم شهداء عليه بحيث إنّهم المرجوع إليهم فيه وفيما اشتبه على الناس منه؛ فالله تعالى قد حمَّل أهل العلم ما لم يحمِّله الجُهَّال، فيجب عليهم القيام بأعباء ما حُمِّلوا، وأن لا يقتدوا بالجُهَّال بالإخلادِ إلى البطالة والكسل، وأن لا يقتصِروا على مجرَّد العبادات القاصرة من أنواع الذِّكْر والصلاة والزَّكاة والحجِّ والصوم ونحو ذلك من الأمور التي إذا قام بها غير أهل العلم؛ سلموا ونجوا، وأما أهل العلم؛ فكما أنهم مطالبون بالقيام بما عليهم أنفسهم فإنهم مطالبون أن يعلِّموا الناس، وينبِّهوهم على ما يحتاجون إليه من أمور دينهم، خصوصاً الأمور الأصولية، والتي يكثر وقوعها، وأن لا يخشوا الناس، بل يخشون ربَّهم، ولهذا قال: {فلا تَخْشَوُا الناس واخْشَوْنِ ولا تَشْتَروا بآياتي ثمناً قليلاً}؛ فتكتموا الحقَّ، وتُظْهِروا الباطل لأجل متاع الدُّنيا القليل. وهذه الآفات إذا سلم منها العالم؛ فهو من توفيقه وسعادته؛ بأن يكون همه الاجتهاد في العلم والتعليم، ويعلم أنَّ الله قد استحفظه بما أودعه من العلم واستشهده عليه، وأن يكون خائفاً من ربِّه، ولا يمنعه خوف الناس وخشيتُهم من القيام بما هو لازمٌ له، وأن لا يُؤْثِرَ الدُّنيا على الدين؛ كما أنَّ علامة شقاوة العالم أن يكون مخلداً للبطالة، غير قائم بما أمر به، ولا مبالٍ بما استُحفظ عليه، قد أهمله وأضاعه، قد باع الدين بالدنيا، قد ارتشى في أحكامه، وأخذ المال على فتاويه، ولم يُعَلِّم عباد الله إلا بأجرة وجعالة؛ فهذا قد مَنَّ الله عليه بِمِنَّةٍ عظيمة كَفَرها، ودَفَعَ حَظًّا جسيماً محروماً منه غيره، فنسألك اللهمَّ علماً نافعاً وعملاً متقبّلاً، وأن ترزُقَنا العفو والعافية من كلِّ بلاء يا كريم. {ومَن لم يَحْكُمْ بما أنزل الله}: من الحقِّ المُبين، وحكمَ بالباطل الذي يعلمُهُ لغرض من أغراضِهِ الفاسدة؛ {فأولئك هم الكافرون}: فالحكم بغير ما أنزل الله، من أعمال أهل الكفر، وقد يكون كفراً ينقُل عن المِلَّة، وذلك إذا اعتقد حِلَّه وجوازه، وقد يكون كبيرةً من كبائر الذُّنوب، ومن أعمال الكفر؛ قد استحقَّ من فَعَلَه العذابَ الشديدَ.
[44] ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ ﴾ ’’بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی۔‘‘ یعنی ہم نے موسیٰ بن عمرانu پر تورات نازل کی ﴿ فِیْهَا هُدًى ﴾ ’’جس میں ہدایت ہے۔‘‘ یعنی تورات ایمان اور حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے ﴿ وَّنُوْرٌ ﴾ ’’اور روشنی ہے۔‘‘ یعنی ظلم و جہالت، شک و حیرت اور شبہات و شہوات کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ الْ٘فُرْقَانَ وَضِیَآءً وَّذِكْرًا لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (الانبیاء: 21؍48) ’’اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں فرق کرنے والی، روشنی عطا کرنے والی اور اہل تقویٰ کو نصیحت کرنے والی کتاب عطا کی۔‘‘ ﴿یَحْكُمُ بِهَا ﴾ ’’فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ‘‘ یعنی یہودیوں کے جھگڑوں اور ان کے فتاویٰ میں ﴿ النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ﴾ ’’پیغمبر جو فرماں بردار تھے‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کیا، اس کے احکامات کی اطاعت کی اور ان کا اسلام دیگر لوگوں کے اسلام سے زیادہ عظیم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے تھے۔ جب یہ انبیائے کرام جو مخلوق کے سردار ہیں تورات کو اپنا امام بناتے ہیں ، اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں تو یہودیوں کے ان رذیل لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور ان پر کس چیز نے واجب کیا ہے کہ وہ تورات کے بہترین حصے کو نظر انداز کر دیں جس میں حضرت محمد مصطفیe پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس عقیدے کو قبول کیے بغیر کوئی ظاہری اور باطنی عمل قابل قبول نہیں ۔ کیا اس بارے میں ان کے پاس کوئی راہنمائی ہے؟ ہاں ! ان کی راہنمائی کرنے والے راہنما موجود ہیں جو تحریف کرنے، لوگوں کے درمیان اپنی سرداری اور مناصب قائم رکھنے، کتمان حق کے ذریعے سے حرام مال کھانے اور اظہار باطل کے عادی ہیں ۔ یہ لوگ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ ﴿ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ﴾ ’’درویش اور عالم‘‘ یعنی اسی طرح یہودیوں کے ائمہ دین میں ربانی تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ (رَبَّانِیُّون) سے مراد باعمل علماء ہیں جو لوگوں کی بہترین تربیت کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا وہی مشفقانہ رویہ تھا جو انبیاء کرام کا ہوتا ہے (اَحْبَار) سے مراد وہ علمائے کبار ہیں جن کے قول کی اتباع کی جاتی ہے اور جن کے آثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کی طرف سے صادر ہونے والا یہ فیصلہ حق کے مطابق ہے ﴿ بِمَا اسْتُحْفِظُ٘وْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَؔكَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَؔ ﴾ ’’اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور وہ اس کی خبر گیری پر مقرر تھے‘‘ یعنی اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی، ان کو اپنی کتاب کا امین بنایا تھا اور یہ کتاب ان کے پاس امانت تھی اور اس میں کمی بیشی اور کتمان سے اس کی حفاظت کو اور بے علم لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کو ان پر واجب قرار دیا تھا... وہ اس کتاب پر گواہ ہیں کیونکہ وہی اس کتاب میں مندرج احکام کے بارے میں اور اس کی بابت لوگوں کے درمیان مشتبہ امور میں ان کے لیے مرجع ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل علم پر وہ ذمہ داری ڈالی ہے جو جہلا پر نہیں ڈالی اس لیے جس ذمہ داری کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے، احسن طریقے سے اس کو نبھانا ان پر واجب ہے اور یہ کہ بیکاری اور کسل مندی کو عادت بناتے ہوئے جہال کی پیروی نہ کریں ۔ نیز وہ مختلف انواع کے اذکار، نماز، زکٰوۃ ، حج ، روزہ وغیرہ مجرد عبادات ہی پر اقتصار نہ کریں جن کو قائم کر کے غیر اہل علم نجات پاتے ہیں ۔ اہل علم سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور انھیں ان دینی امور سے آگاہ کریں جن کے وہ محتاج ہیں ۔ خاص طور پر اصولی امور اور ایسے معاملات جو کثرت سے واقع ہوتے ہیں نیز یہ کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ صرف اپنے رب سے ڈریں ۔ بنابریں فرمایا ﴿ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو! اور میری آیات کے بدلے تھوڑا سا فائدہ حاصل نہ کرو‘‘ یعنی دنیا کی متاع قلیل کی خاطر حق کو چھپا کر باطل کا اظہار نہ کرو۔ اگر صاحب علم ان آفات سے محفوظ ہو جاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی سعادت اس امر میں ہے کہ علم و تعلیم میں جدوجہد اس کا مقصد رہے۔ یہ چیز ہمیشہ اس کے علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی امانت اس کے سپرد کر کے اس کی حفاظت اس کے ذمہ عائد کی ہے اور اس کو اس علم پر گواہ بنایا ہے۔ وہ صرف اپنے رب سے ڈرے، لوگوں کا ڈر اور خوف اسے لوازم علم کو قائم کرنے سے مانع نہ ہو۔ دین پر دنیا کو ترجیح نہ دے۔ اسی طرح کسی عالم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بے کاری کو اپنی عادت بنا لے اور جن چیزوں کا اسے حکم دیا گیا ہے ان کو قائم نہ کرے اور جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے اسے پورا نہ کرے۔ ایسے شخص نے علم کو بے کار اور ضائع کر دیا، دنیا کے بدلے دین کو فروخت کر ڈالا، اس کے فیصلوں میں رشوت لی اس کے فتووں میں مال سمیٹا اور اللہ کے بندوں کو اجرت لے کر علم سکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا جس کی اس نے ناشکری کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک عظیم نعمت عطا کی تھی، اس نے اس نعمت سے دوسروں کو محروم کر دیا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں ۔ اے الٰہ کریم ہمیں ہر مصیبت سے عفو اور عافیت عطا کر۔ ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے۔‘‘ یعنی جو کوئی واضح حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اپنی فاسد اغراض کی خاطر جان بوجھ کر باطل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اہل کفر کا شیوہ ہے۔ اور بسا اوقات یہ ایسا کفر بن جاتا ہے جو اپنے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا جائز اور صحیح سمجھتا ہے۔
آیت: 45 #
{وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (45)}
اور لکھا ہم نے اوپر ان کے اس (تورات) میں کہ جان بدلے جان کے ہے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور زخموں کا قصاص ہے پس جو شخص معاف کر دے اس زخم کو تو وہ کفارہ ہوگا اس کے لیے اور جو نہ فیصلہ کرے ساتھ اس کے جو نازل کیا اللہ نے تو یہی لوگ ہیں ظالم(45)
#
{45} هذه الأحكام من جملة الأحكام التي في التوراة، يحكُم بها النبيُّون الذين أسلموا للذين هادوا والربَّانيون والأحبار؛ فإنَّ الله أوجب عليهم أنَّ النفسَ إذا قَتلت تُقتلُ بالنفسِ بشرط العمد والمكافأة، والعينَ تُقلع بالعينِ، والأذنَ تُؤخذُ بالأذنِ، والسنَّ يُنزعُ بالسنِّ، ومثل هذه ما أشبهها من الأطراف التي يمكن الاقتصاص منها بدون حيف. {والجروح قصاص}: والاقتصاص أن يُفعَل به كما فعل؛ فمن جرح غيره عمداً؛ اقتصَّ من الجارح جرحاً مثل جرحه للمجروح حَدًّا وموضعاً وطولاً وعرضاً وعمقاً. وليُعْلَم أنَّ شرع من قبلنا شرعٌ لنا ما لم يَرِدْ شرعُنا بخلافه، {فمن تصدَّق به}؛ أي: بالقصاص في النفس وما دونها من الأطراف والجروح؛ بأن عفا عمَّن جنى وثبت له الحقُّ قِبَلَه، {فهو كفارةٌ له}؛ أي: كفارة للجاني؛ لأن الآدميَّ عفا عن حقِّه، والله تعالى أحقُّ وأولى بالعفو عن حقِّه، وكفارة أيضاً عن العافي؛ فإنه كما عفا عمَّن جنى عليه أو على من يتعلَّق به؛ فإن الله يعفو عن زلاَّته وجناياته. {ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون}: قال ابن عباس: كفرٌ دون كفرٍ، وظلمٌ دون ظلمٍ، وفسقٌ دون فسقٍ؛ فهو ظلم أكبر عند استحلالِهِ، وعظيمةٌ كبيرةٌ عند فعله غير مستحلٍّ له.
[45] یہ احکام تورات کے اندر موجود ان جملہ احکام میں شمار ہوتے ہیں جن کے مطابق انبیائے کرام، ربانیون اور علمائے یہود، یہودیوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض قرار دیا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر کسی کو قتل کرے تو اس کو قصاص میں قتل کر دیا جائے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑ دی جائے، کان کے بدلے کان کاٹ دیا جائے اور دانت کے بدلے دانت نکال دیا جائے۔ اسی طرح بغیر کسی ظلم کے جن اعضا کا قصاص لیا جاسکتا ہے ان کا قصاص لیا جائے۔ ﴿ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ﴾ ’’اور زخموں کا بدلہ، ان کے برابر ہے‘‘ اور قصاص سے مراد ہے کہ فاعل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے کیا تھا جو کوئی کسی کو جان بوجھ کر زخمی کرتا ہے۔ تو جارح سے زخموں کا قصاص لیا جائے گا اور اسے حد، مقام، زخم کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کے مطابق اتنا ہی زخم لگایا جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم سے پہلے کی شریعت کی پیروی ہمارے لیے بھی اس وقت تک لازم ہے جب تک کہ ہماری شریعت میں کوئی ایسی چیز وارد نہ ہو جو اس شریعت کے خلاف ہو۔ ﴿ فَ٘مَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ ﴾ ’’پھر جس نے معاف کر دیا‘‘ یعنی جو کوئی جان، اعضا اور زخموں کے قصاص میں مجرم کو معاف کر دیتا ہے۔ دراں حالیکہ قصاص کا حق ثابت تھا ﴿ فَهُوَؔ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ﴾ ’’تو یہ اس کے لیے کفارہ ہے‘‘ یعنی مجرم کے لیے کفارہ ہے کیونکہ آدمی نے تو اس کو اپنا حق معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ تو اپنے حق کو زیادہ معاف کر دینے والا ہے۔ نیز یہ معاف کر دینے والے کے حق میں بھی کفارہ ہے۔ کیونکہ جس طرح اس نے اپنے حق میں جرم کا ارتکاب کرنے والے کو معاف یا اس کو معاف کر دیا جو اس سے متعلق ہے اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی لغزشوں اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’اور جو کوئی اس کے مطابق حکم نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تو یہی لوگ ظالم ہیں ‘‘ حضرت عبداللہ بن عباسw فرماتے ہیں ’’کفر سے کم تر کفر، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم تر فسق ہوتا ہے‘‘.... پس اگر اس فعل کو حلال سمجھتے ہوئے اس کو کیا جائے تو یہ سب سے بڑا ظلم ہے اور اگر اس کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کیا جائے تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔
آیت: 46 - 47 #
{وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (46) وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (47)}
اور پیچھے بھیجا ہم نے ان کے قدم بہ قدم عیسیٰ ابن مریم کو، تصدیق کرنے والا اس کی جو اس سے پہلے تھی تورات اور دی ہم نے اس کو انجیل، اس میں ہدایت اور روشنی تھی اور تصدیق کرنے والی اس کی جو اس سے پہلے تھی تورات اور ہدایت اور نصیحت متقیوں کے لیے(46) اور چاہیے کہ فیصلہ کریں اہل انجیل ساتھ اس کے جو نازل کیا اللہ نے اس میں اور جو نہ فیصلہ کرے ساتھ اس کے جو نازل کیا اللہ نے تو یہی لوگ ہیں فاسق(47)
#
{46} أي: وأتْبَعْنا هؤلاء الأنبياء والمرسَلين الذين يحكُمون بالتوراة بعبدنا ورسولنا عيسى بن مريم، روحِ الله وكلمته التي ألقاها إلى مريم، بعثه الله مصدِّقاً لما بين يديه من التوراة؛ فهو شاهدٌ لموسى ولما جاء به من التَّوراة بالحقِّ والصدق، ومؤيِّد لدعوته، وحاكم بشريعته، وموافق له في أكثر الأمور الشرعيَّة، وقد يكون عيسى عليه السلام أخفَّ في بعض الأحكام؛ كما قال تعالى عنه: أنَّه قال لبني إسرائيل: {ولأحِلَّ لَكُم بعضَ الذي حُرِّمَ عَليْكُم}، {وآتيناهُ الإنجيل}: الكتاب العظيم المتمِّم للتوراة، {فيه هدىً ونورٌ}: يهدي إلى الصراط المستقيم، ويبين الحقَّ من الباطل، {ومصدِّقاً لما بين يديه من التَّوراة}: بتثبيتها والشهادة لها والموافقة. {وهدىً وموعظةً للمتَّقين}: فإنَّهم الذين ينتفعون بالهدى ويتَّعظون بالمواعظ ويرتَدِعون عمَّا لا يَليقُ.
[46] یعنی ان انبیا و مرسلین کے پیچھے جو تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، ہم نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم، روح اللہ اور اللہ کے کلمہ کو جو اس نے حضرت مریم[ کی طرف ڈالا، مبعوث کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان سے پہلے گزری ہوئی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا نبی بنا کر بھیجا، وہ موسیٰu اور تورات کی حق و صداقت کے ساتھ گواہی دینے والے، ان کی دعوت کی تائید کرنے والے اور ان کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے تھے اور اکثر امور شرعیہ میں موسیٰu کی موافقت کرتے تھے۔ بسااوقات عیسیٰu بعض احکام میں تخفیف فرما دیتے تھے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کا قول نقل فرمایا کہ انھوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا: ﴿ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ ﴾ (ال عمران: 3؍50) ’’تاکہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو حلال ٹھہراؤں ۔‘‘﴿ وَاٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں کتاب عظیم عطا کی جو تورات کی تکمیل کرتی ہے ﴿ فِیْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ ﴾ ’’اس میں ہدایت اور روشنی ہے‘‘ یہ کتاب صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور باطل میں سے حق کو واضح کرتی ہے ﴿ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ ﴾ ’’اور تورات کی جو اس سے پہلے (کتاب) ہے تصدیق کرتی ہے۔‘‘ یعنی تورات کی صداقت کو ثابت کر کے، اس کی شہادت دے کر اور اس کی موافقت کر کے اس کی تصدیق کرتی ہے ﴿وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ۠ ﴾ ’’اور متقین کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے‘‘ کیونکہ اہل تقویٰ ہی ہیں جو ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، مواعظ سے نصیحت پکڑتے ہیں اور غیر مناسب امور سے باز رہتے ہیں ۔
#
{47} {ولْيَحْكُم أهل الإنجيل بما أنزل الله فيه}؛ أي: يلزمهم التقيُّد بكتابهم، ولا يجوزُ لهم العدول عنه، {ومن لم يَحْكُم بما أنزل اللهُ فأولئك هم الفاسقون}.
[47] ﴿ وَلْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِیْهِ ﴾ ’’اور چاہیے کہ اہل انجیل اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا۔‘‘ یعنی ان پر اپنی کتاب کا التزام کرنا لازم ہے، اس کتاب سے روگردانی کرنا ان کے لیے جائز نہیں ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے پس یہی لوگ فاسق ہیں ۔‘‘
آیت: 48 - 50 #
{وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (48) وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ (49) أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (50)}
اور نازل کی ہم نے طرف آپ کی کتاب ساتھ حق کے، تصدیق کرنے والی اس کی جو اس سے پہلے تھی کتاب اور نگہبان اوپر اس کے، پس آپ فیصلہ کریں ان کے درمیان ساتھ اس کے جو نازل کیا اللہ نے اور نہ اتباع کریں ان کی خواہشات کی، نظر انداز کرکے اس کو جو آیا آپ کے پاس حق، ہر ایک کے لیے کیا ہم نے تم میں سے ایک دستور اور طریقہ اور اگر چاہتا اللہ تو البتہ کر دیتا تم کو امت ایک لیکن تاکہ آزمائے تمھیں اس (کتاب) میں جو دی اس نے تمھیں ، پس سبقت کرو تم نیکیوں میں ، طرف اللہ ہی کی لوٹنا ہے تم سب کا، پھر وہ خبر دے گا تمھیں اس کی بابت کہ تھے تم اس میں اختلاف کرتے(48) اور یہ کہ فیصلہ کریں آپ ان کے درمیان ساتھ اس چیز کے جو نازل کی اللہ نےاور نہ اتباع کریں ان کی خواہشات کی اور ڈریں ان سے کہ وہ بہکانہ دیں آپ کو کسی ایسی بات سے جو نازل کی اللہ نے آپ کی طرف۔ پس اگر وہ روگردانی کریں تو جان لیں کہ بے شک اللہ یہی ارادہ کرتا ہے کہ پہنچائے ان کو سزا بہ سبب ان کے بعض گناہوں کے اور بے شک اکثر لوگوں میں سے ، البتہ نافرمان ہیں (49) کیا پس جاہلیت کا فیصلہ وہ چاہتے ہیں ؟ اور کون زیادہ اچھا ہے اللہ سے فیصلہ کرنے میں ، اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے(50)
#
{48} يقول تعالى: {وأنزلنا إليكَ الكتابَ}: الذي هو القرآنُ العظيم، أفضلُ الكتب وأجلها، {بالحقِّ}؛ أي: إنزالاً بالحقِّ ومشتملاً على الحقِّ في أخباره وأوامره ونواهيه، {مصدِّقاً لما بين يديه من الكتاب}: لأنَّه شهد لها، ووافَقَها، وطابقت أخبارُه أخبارَها، وشرائعُه الكبار شرائعَها، وأخبرت به، فصار [وجوده] مصداقاً لخبرها، {ومهيمناً عليه}؛ أي: مشتملاً على ما اشتملت عليه الكتب السابقة، وزيادة في المطالب الإلهية والأخلاق النفسية؛ فهو الكتاب الذي تَتَبَّعَ كلَّ حقٍّ، جاءت به الكتب فأمر به، وحثَّ عليه، وأكثر من الطُّرق الموصلة إليه، وهو الكتاب الذي فيه نبأ السابقين واللاحقين، وهو الكتاب الذي فيه الحكم والحكمة والأحكام، الذي عُرِضت عليه الكتب السابقة؛ فما شهد [له] بالصدق؛ فهو المقبول، وما شهد له بالردِّ؛ فهو مردود قد دخله التحريف والتبديل، وإلاَّ؛ فلو كان من عند الله لم يخالفه. {فاحكُم بينهم بما أنزل الله}: من الحكم الشرعيِّ الذي أنزله الله عليك، {ولا تتَّبع أهواءهم عمَّا جاءك من الحقِّ}؛ أي: لا تجعل اتِّباع أهوائهم الفاسدة المعارضة للحقِّ بدلاً عما جاءك من الحقِّ، فتستبدل الذي هو أدنى بالذي هو خير. لكلٍّ منكم أيُّها الأمم جعلنا: {شِرْعَةً ومنهاجاً}؛ أي: سبيلاً وسنة، وهذه الشرائع التي تختلف باختلاف الأمم، هي التي تتغيَّر بحسب تغيُّر الأزمنة والأحوال، وكلُّها ترجع إلى العدل في وقت شِرعتها، وأما الأصول الكبار التي هي مصلحةٌ وحكمةٌ في كلِّ زمانٍ؛ فإنها لا تختلف، فتُشَرَّع في جميع الشرائع، {ولو شاء الله لَجَعَلَكُم أمةً واحدةً}: تبعاً لشريعة واحدة، لا يختلف متأخِّرها ولا متقدِّمها. {ولكن لِيَبْلُوَكَم فيما آتاكم}: فيختبِرُكم وينظُرُ كيف تعملون، ويبتلي كلَّ أمةٍ بحسب ما تقتضيه حكمتُه، ويؤتي كلَّ أحدٍ ما يليق به، وليحصل التنافس بين الأمم؛ فكلُّ أمةٍ تحرص على سبق غيرها. ولهذا قال: {فاستبقوا الخيرات}؛ أي: بادروا إليها وأكملوها؛ فإنَّ الخيرات الشاملة لكلِّ فرضٍ ومستحبٍّ من حقوق الله وحقوق عبادِهِ لا يصير فاعلها سابقاً لغيره مستولياً على الأمر إلا بأمرين: المبادرة إليها، وانتهاز الفرصة حين يجيء وقتها ويعرِضُ عارضها، والاجتهاد في أدائها كاملة على الوجه المأمور به. ويستدلُّ بهذه الآية على المبادرة لأداء الصلاة وغيرها في أول وقتها، وعلى أنه ينبغي أن لا يقتصر العبد على مجرد ما يجزي في الصلاة وغيرها من العبادات من الأمور الواجبة، بل ينبغي أن يأتي بالمستحبَّات التي يقدر عليها لتتمَّ وتكْمُل ويحصل بها السبق. {إلى الله مرجعكم جميعاً}: الأمم السابقة واللاحقة، كلهم سيجمعهم الله ليوم لا ريب فيه، {فينبِّئكم بما كنتم فيه تختلفون}: من الشرائع والأعمال، فيثيب أهلَ الحقِّ والعمل الصالح، ويعاقبُ أهل الباطل والعمل السيئ.
[48] ﴿ وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب‘‘ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے ﴿ بِالْحَقِّ ﴾ ’’حق کے ساتھ‘‘ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامر و نواہی میں حق پر مشتمل ہے ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے‘‘ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق، اس کے بڑے بڑے قوانین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے ﴿ وَمُهَیْمِنًا عَلَیْهِ ﴾ ’’اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے‘‘ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں ۔ نیز مطالب الہٰیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں ۔ یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آ چکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہے اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت ، دانائی اور احکام ہیں جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردود ہے کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہو چکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔ ﴿ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپe پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کیجیے ﴿ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔهُمْ عَمَّؔا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ ﴾ ’’اور آپ کے پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ‘‘ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپe کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنیٰ کو لیں گے۔ ﴿ لِكُ٘لٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ ﴾ ’’تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے‘‘ یعنی اے قومو! ﴿ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ﴾ ’’ایک دستور اور راہ‘‘ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں ، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے تشریع کے وقت عدل کی طرف راجع ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زمان و مکان میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا‘‘ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخر امت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ﴿ وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَؔكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ ’’لیکن وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیے ہوئے حکموں میں ‘‘ پس وہ تمھیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہش مند ہوتی ہے اس لیے فرمایا: ﴿ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ﴾ ’’نیک کاموں میں جلدی کرو۔‘‘ یعنی نیکیوں کے حصول کے لیے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو۔ کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہوتی ہیں ، ان کا فاعل ان دو امور کو مدنظر رکھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (۱) جب نیکی کرنے کا وقت آ جائے اور اس کا سبب ظاہر ہو جائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔ (۲) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحبات پر بھی عمل کرے تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔ ﴿ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا ﴾ ’’تم سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے‘‘ تمام امم سابقہ ولاحقہ نے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ﴾ ’’پس وہ تمھیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے‘‘ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمھارے درمیان اختلاف تھا، چنانچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔
#
{49} {وأن احكم بينهم بما أنزل الله}: هذه الآية هي التي قيل: إنها ناسخةٌ لقولِهِ: {فاحكم بينَهم أو أعرِضْ عنهم}، والصحيح أنها ليست بناسخةٍ، وأن تلك الآية تدلُّ على أنه - صلى الله عليه وسلم - مخيَّرٌ بين الحكم بينهم وبين عدمه، وذلك لعدم قصدهم بالتحاكم للحقِّ. وهذه الآية تدلُّ على أنه إذا حكم؛ فإنه يحكم بينهم بما أنزل الله من الكتاب والسنة، وهو القِسْط الذي تقدَّم أنَّ الله قال: {وإن حكمت فاحكُم بينهم بالقسط}. ودلَّ هذا على بيان القسط، وأن مادَّته هو ما شرعه الله من الأحكام؛ فإنها المشتملة على غاية العدل والقسط، وما خالف ذلك فهو جَوْر وظلم، {ولا تتَّبع أهواءهم}: كرَّر النهي عن اتِّباع أهوائهم لشدَّة التحذير منها، ولأن ذلك في مقام الحكم والفتوى، وهو أوسع، وهذا في مقام الحكم وحده، وكلاهما يلزم فيه أن لا يتَّبع أهواءهم المخالفة للحقِّ. ولهذا قال: {واحْذَرْهم أن يَفْتِنوك عن بعض ما أنزل الله إليك}؛ أي: إياك والاغترار بهم وأن يفتنوك فيصدُّوك عن بعض ما أنزل الله إليك، فصار اتباع أهوائهم سبباً موصلاً إلى ترك الحق الواجب، والغرض اتباعه، {فإن تَوَلَّوا}: عن اتِّباعك واتِّباع الحق، {فاعلمْ}: أنَّ ذلك عقوبة عليهم، وأنّ الله يريد أن يُصيبَهم ببعض ذنوبهم، فإنَّ للذُّنوب عقوباتٍ عاجلة وآجلة، ومن أعظم العقوبات أن يُبتلى العبد ويُزيَّن له ترك اتباع الرسول، وذلك لفسقه، {وإنَّ كثيراً من الناس لفاسقونَ}؛ أي: طبيعتُهم الفسقُ والخروج عن طاعة الله واتِّباع رسوله.
[49] ﴿ وَاَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ’’ان کے درمیان فیصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں ‘‘ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہe کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فیصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے۔ اور یہ (دوسری) آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپe ان کے درمیان فیصلہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں ۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ﴾ ’’اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ ‘‘ یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبیین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔ ﴿ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔهُمْ ﴾ ’’اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ ‘‘ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپe کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ﴾ ’’اور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکا نہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا‘‘ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے، نیز ان سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپe کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔ ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا ﴾ ’’پس اگر وہ نہ مانیں ‘‘ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں ﴿ فَاعْلَمْ ﴾ ’’تو جان لیجیے‘‘ کہ یہ روگردانی ان کے لیے سزا ہے ﴿ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ﴾ ’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے‘‘ کیونکہ گناہوں کے لیے دنیا و آخرت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لیے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے ﴿ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ﴾ ’’اور اکثر لوگ نافرمان ہیں ‘‘ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسولe کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔
#
{50} {أفحكم الجاهلية يبغون}؛ أي: أفيطلبون بتولِّيهم وإعراضهم عنك حكم الجاهلية؟ وهو كلُّ حكم خالف ما أنزل الله على رسوله؛ فلا ثمَّ إلاَّ حكم الله ورسوله أو حكم الجاهلية؛ فمن أعرض عن الأول؛ ابتُلي بالثاني المبني على الجهل والظلم والغي، ولهذا أضافه الله للجاهلية، وأما حكم الله تعالى؛ فمبنيٌّ على العلم والعدل والقسط والنور والهدى. {ومن أحسنُ من الله حكماً لقوم يوقنونَ}: فالموقنُ هو الذي يعرِف الفرقَ بين الحكمين ويميز بإيقانه ما في حكم الله من الحسن والبهاء، وأنَّه يتعيَّن عقلاً وشرعاً اتِّباعه، واليقين هو العلم التامُّ الموجب للعمل.
[50] ﴿ اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ﴾ ’’اب کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں ‘‘ یعنی کیا وہ کفار کی دوستی طلب کر کے اور آپ سے اعراض کر کے جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں ؟ ہر وہ فیصلہ جو اس چیز کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ تب اس طرح صرف دو قسم کے فیصلے ہیں ۔ (۱) اللہ اور اس کے رسولe کا فیصلہ۔ (۲) جاہلیت کا فیصلہ۔ پس جو کوئی اللہ اور رسولe کے فیصلوں سے منہ موڑتا ہے تو وہ دوسری قسم کے فیصلوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو جہالت، ظلم اور گمراہی پر مبنی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان فیصلوں کو جاہلیت کی طرف مضاف کیا ہے۔ رہے اللہ تعالیٰ کے فیصلے تو وہ علم، عدل و انصاف، نور اور ہدایت پر مبنی ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾ ’’اور اللہ سے بہتر کون ہے حکم کرنے والا، اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے‘‘ صاحب ایقان وہ ہے جو اپنے یقین کی بنیاد پر دونوں قسم کے فیصلوں کے درمیان فرق کو پہچانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں موجود حسن اور خوبصورتی میں امتیاز کر سکتا ہو اور عقلاً اور شرعاً ان کی اتباع کو لازم قرار دیتا ہو اور یقین سے مراد وہ علم کامل و تام ہے جو عمل کا موجب ہوتا ہے۔
آیت: 51 - 53 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51) فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ (52) وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ (53)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست، بعض ان کے دوست ہیں بعض کے اور جو کوئی دوستی رکھے گا ان سے تم میں سے تو بے شک وہ انھی میں سے ہے، بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم لوگوں کو(51) پس آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے، دوڑ کر جاتے ہیں ان میں ، کہتے ہیں وہ ہم ڈرتے ہیں اس سے کہ پہنچے ہمیں کوئی مصیبت، سو قریب ہے اللہ یہ کہ (جلد ہی) لے آئے فتح یا کوئی اور حکم اپنی طرف سے، پس ہو جائیں وہ اس پر، جو چھپاتے تھے وہ اپنے نفسوں میں ، پچھتانے والے(52) اور کہیں گے وہ لوگ جو ایمان لائے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے قسمیں کھائی تھیں اللہ کی بڑی تاکید سے کہ بے شک وہ تمھارے ساتھ ہیں ، برباد ہوگئے عمل ان کے اور ہو گئے وہ خسارہ اٹھانے والے(53)
#
{51} يرشد تعالى عباده المؤمنين حين بيَّن لهم أحوال اليهود والنصارى وصفاتهم غير الحسنة أن لا يتَّخذوهم أولياء؛ فإنَّ بعضَهم {أولياء بعض}: يتناصرونَ فيما بينَهم، ويكونون يداً على مَن سواهم؛ فأنتم لا تتَّخذوهم أولياء؛ فإنهم الأعداء على الحقيقة، ولا يبالون بضرِّكم، بل لا يدَّخرون من مجهودهم شيئاً على إضلالكم؛ فلا يتولاَّهم إلا من هو مثلهم. ولهذا قال: {ومن يتولَّهم منكم فإنَّه منهم}؛ لأنَّ التَّولِّي التامَّ يوجِب الانتقال إلى دينهم، والتولِّي القليل يدعو إلى الكثير، ثم يتدرَّج شيئاً فشيئاً، حتى يكون العبد منهم. {إنَّ الله لا يهدي القوم الظالمين}؛ أي: الذين وَصْفُهم الظُّلم، وإليه يُرجعون، وعليه يعوِّلون؛ فلو جئتَهم بكلِّ آية؛ ما تبعوك، ولا انقادوا لك.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے احوال اور غیر مستحسن صفات بیان کرتے ہوئے اپنے مومن بندوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ انھیں اپنا دوست نہ بنائیں ﴿بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ﴾ ’’کیونکہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ‘‘ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں ۔ پس تم ان کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ درحقیقت تمھارے دشمن ہیں ۔ انھیں تمھارے نقصان کی کوئی پروا نہیں بلکہ وہ تمھیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ انھیں وہی شخص دوست بنائے گا جو ان جیسا ہو۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّؔنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ ’’اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرے گا، وہ انھی میں سے ہے‘‘ کیونکہ کامل دوستی ان کے دین میں منتقل ہونے کی موجب بنتی ہے۔ تھوڑی دوستی زیادہ دوستی کی طرف دعوت دیتی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ بندہ انھی میں سے ہو جاتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ظلم ہے۔ ظلم ان کا مرجع اور ظلم ہی پر ان کا اعتماد ہے۔ اس لیے آپ ان کے پاس کوئی بھی آیت اور معجزہ لے کر آئیں ، وہ کبھی آپ کی اطاعت نہیں کریں گے۔
#
{52} ولما نهى الله المؤمنين عن تولِّيهم؛ أخبرَ أنَّ ممَّن يدَّعي الإيمان طائفة تواليهم فقال: {فترى الذين في قلوبهم مرضٌ}؛ أي: شكٌّ ونفاقٌ وضعفُ إيمان يقولون: إنَّ تولِّينا إيَّاهم للحاجة؛ فإننا {نخشى أن تصيبنا دائرة}؛ أي: تكون الدائرة لليهود والنصارى؛ فإذا كانت الدائرة لهم؛ فإذاً لنا معهم يدٌ يكافِئونا عنها، وهذا سوء ظنِّ منهم بالإسلام. قال تعالى رادًّا لظنِّهم السيئ: {فعسى الله أن يأتي بالفتح}: الذي يُعِزُّ الله به الإسلام على اليهود والنصارى، ويقهرهم المسلمون، {أو أمرٍ من عندِهِ}: ييأسُ به المنافقون من ظَفَرِ الكافرين من اليهود وغيرهم، {فيصبِحوا على ما أسرُّوا}؛ أي: أضمروا {في أنفسِهِم نادمين}: على ما كان منهم، وضَرَّهم بلا نفع حَصَلَ لهم، فحصل الفتحُ الذي نصر الله به الإسلام والمسلمين، وأذلَّ به الكفر والكافرين، فندموا وحصل لهم من الغمِّ ما الله به عليم.
[52] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو اہل کتاب سے دوستی رکھنے سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں سے ایک گروہ ان کے ساتھ دوستی رکھتا ہے۔ ﴿ فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ’’پس آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں روگ ہے‘‘ یعنی ان کے دلوں میں شک، نفاق اور ضعف ایمان ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ضرورت کے تحت ان کو دوست بنایا ہے اس لیے کہ ﴿ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآىِٕرَةٌ﴾ ’’ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے‘‘ یعنی ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گردش ایام یہود و نصاریٰ کے حق میں نہ ہو جائے اور اگر زمانے کی گردش ان کے حق میں ہو تو ہمارا ان پر یہ احسان انھیں اس بدلے میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر آمادہ کرے گا۔ یہ اسلام کے بارے میں ان کی انتہائی بدظنی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی بدظنی کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْ٘فَ٘تْحِ ﴾ ’’ہو سکتا ہے اللہ فتح عطا کرے‘‘ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ پر غالب کر دے ﴿ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ ﴾ ’’یا کوئی حکم اپنے پاس سے‘‘ جس سے منافقین، یہود وغیرہ کفار کے کامیاب ہونے سے مایوس ہو جائیں ۔ ﴿ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا ﴾ ’’پس ہوجائیں وہ اس پر جو کچھ وہ چھپاتے ہیں ‘‘ ﴿ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَ﴾ ’’اپنے نفسوں میں نادم ہوں ‘‘ یعنی اس رویے پر جس کا اظہار ان کی طرف سے ہوا اور جس نے انھیں نقصان پہنچایا اور کوئی نفع انھیں حاصل نہ ہوا۔ پس مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو نصرت سے نوازا اور کفر اور کفار کو ذلیل کیا۔ پس ان کو ندامت اٹھانی پڑی اور انھیں ایسے غم کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
#
{53} {ويقول الذين آمنوا} متعجِّبين من حال هؤلاء الذين في قلوبهم مرضٌ: {أهؤلاء الذين أقسموا بالله جهدَ أيمانِهِم إنهم لمعكم}؛ أي: حلفوا، وأكَّدوا حلفهم، وغلَّظوه بأنواع التأكيدات، إنَّهم لمعكم في الإيمان وما يلزمه من النُّصرة والمحبَّة والموالاة؛ ظهر ما أضمروه، وتبيَّن ما أسرُّوه، وصار كيدُهم الذي كادوه، وظنُّهم الذي ظنُّوه بالإسلام وأهله باطلاً، فبطل كيدهم، وبَطُلَت {أعمالهم}: في الدنيا، {فأصبحوا خاسرينَ}: حيث فاتهم مقصودُهم، وحضرهم الشقاءُ والعذاب.
[53] ﴿ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ﴾ ’’اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے‘‘ یعنی جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے ان کے حال پر اہل ایمان تعجب کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿ اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَ٘قْ٘سَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ﴾ ’’کیا یہ وہی لوگ ہیں جو بڑی تاکید سے اللہ کی قسمیں کھاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ‘‘ یعنی انھوں نے نہایت تاکید کے ساتھ حلف اٹھایا اور مختلف انواع کی تاکیدات کے ذریعے سے پکا کر کے کہا کہ وہ ایمان لانے میں ، نیز ایمان کے لوازم یعنی نصرت، محبت اور موالات میں ان کے ساتھ ہیں ۔ مگر جو کچھ وہ چھپاتے رہے ہیں وہ ظاہر ہو گیا ، ان کے تمام بھید عیاں ہو گئے۔ ان کی سازشوں کے وہ تمام تانے بانے جو وہ بنا کرتے تھے اور ان کے وہ تمام ظن و گمان جو وہ اسلام کے بارے میں رکھا کرتے تھے، باطل ہو گئے اور ان کی سب چالیں ناکام ہو گئیں ﴿ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ﴾ ’’پس (دنیا میں ) ان کے تمام اعمال اکارت گئے‘‘ ﴿ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ ’’اور وہ خائب و خاسر ہو کر رہ گئے‘‘ کیونکہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بدبختی اور عذاب نے انھیں گھیر لیا۔
آیت: 54 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (54)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جو پھر جائے تم میں سے اپنے دین سے تو عنقریب لائے گا اللہ ایسے لوگ کہ محبت کرتا ہوگا وہ ان سے اور وہ محبت کرتے ہوں گے اس سے، نرم ہوں گے مومنوں پر، سختی کرنے والے کافروں پر وہ جہاد کریں گے اللہ کی راہ میں اور نہ ڈریں گے وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے، یہ فضل ہے اللہ کا دیتا ہے وہ یہ جسے چاہتا ہے اور اللہ کشائش والا خوب جاننے والا ہے(54)
#
{54} يخبر تعالى أنَّه الغني عن العالمين، وأنه من يرتدَّ عن دِينِه؛ فلن يضرَّ الله شيئاً، وإنما يضرُّ نفسه، وأنَّ لله عباداً مخلصين ورجالاً صادقين قد تكفَّل الرحمن الرحيم بهدايتهم ووعد بالإتيان بهم، وأنهم أكمل الخلق أوصافاً وأقواهم نفوساً وأحسنُهم أخلاقاً: أجلُّ صفاتهم أنَّ الله {يحبُّهم ويحبُّونه}؛ فإنَّ محبَّة الله للعبد هي أجلُّ نعمة أنعم بها عليه وأفضل فضيلة تفضَّل الله بها عليه، وإذا أحبَّ الله عبداً؛ يسَّرَ له الأسباب، وهوَّن عليه كلَّ عسيرٍ، ووفَّقه لفعل الخيرات وترك المنكرات، وأقبل بقلوب عبادِهِ إليه بالمحبَّة والوداد. ومن لوازم محبَّة العبد لربه أنَّه لا بدَّ أن يتَّصف بمتابعة الرسول - صلى الله عليه وسلم - ظاهراً وباطناً في أقواله وأعماله وجميع أحواله؛ كما قال تعالى: {قُلْ إن كُنتم تحبُّونَ الله فاتَّبعوني يُحْبِبْكُمُ الله}، كما أنَّ من لوازم محبَّة الله للعبد أن يكثر العبد من التقرُّب إلى الله بالفرائض والنوافل؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - في الحديث الصحيح عن الله: «وما تقرَّبَ إليَّ عبدي بشيءٍ أحبَّ إليَّ مما افترضت عليه، ولا يزال عبدي يتقرَّب إليَّ بالنوافل حتى أحبَّه؛ فإذا أحببتُهُ؛ كنتُ سمعه الذي يسمعُ به، وبصرَه الذي يبصِرُ به، ويَدَهُ التي يبطِش بها. ورجلَه التي يمشي بها، ولئن سألني؛ لأعطينَّه، ولئن استعاذني؛ لأعيذنَّه». ومن لوازم محبة الله معرفتُه تعالى والإكثار من ذكره؛ فإن المحبة بدون معرفة بالله ناقصة جدًّا، بل غير موجودة، وإن وجدت دعواها، ومن أحبَّ اللهَ؛ أكثر من ذكرِهِ، وإذا أحبَّ اللهُ عبداً؛ قبل منه اليسير من العمل، وغفر له الكثير من الزلل. ومن صفاتهم أنهم: {أذلَّةٍ على المؤمنين أعزَّةٍ على الكافرين}؛ فهم للمؤمنين أذلَّة من محبتهم لهم ونُصحهم لهم ولينهم ورِفْقهم ورأفَتِهم ورحْمَتِهم بهم وسهولة جانبهم وقرب الشيء الذي يُطلب منهم، وعلى الكافرين بالله المعاندين لآياته المكذِّبين لرسُلِهِ أعزَّة، قد اجتمعت هممهم وعزائمهم على معاداتهم، وبذلوا جهدهم في كل سبب يحصل به الانتصار عليهم: قال تعالى: {وأعِدُّوا لهم ما استطعتُم من قُوَّةٍ ومن رِباط الخيل تُرهبونَ به عدَّو الله وعدوَّكم}. وقال تعالى: {أشدَّاء على الكفار رحماءُ بينَهم}؛ فالغِلْظة الشديدة على أعداء الله مما يقرِّب العبد إلى الله ويوافِقُ العبد ربّه في سخطه عليهم، ولا تمنع الغِلْظة عليهم والشدة دعوتَهم إلى الدين الإسلامي بالتي هي أحسن، فتجتمع الغلظة عليهم واللين في دعوتهم، وكلا الأمرين من مصلحتهم، ونفعه عائدٌ إليهم. {يجاهدون في سبيل الله}: بأموالهم وأنفسهم بأقوالهم، وأفعالهم. {ولا يخافونَ لومة لائم}: بل يقدِّمون رضا ربِّهم والخوف من لومه على لوم المخلوقين، وهذا يدل على قوة هممهم وعزائمهم؛ فإن ضعيف القلب، ضعيف الهمة، تنتقض عزيمته عند لوم اللائمين، وتفْتُر قوتُه عند عذل العاذلين، وفي قلوبهم تعبُّدٌ لغير الله، بحسب ما فيها من مراعاة الخلق، وتقديم رضاهم ولومهم على أمر الله؛ فلا يسلم القلبُ من التعبُّد لغير الله، حتى لا يخاف في الله لومة لائم. ولما مدحهم تعالى بما منَّ به عليهم من الصفات الجميلة والمناقب العالية المستلزمة لما لم يذكر من أفعال الخير؛ أخبر أنَّ هذا من فضله عليهم وإحسانه؛ لئلا يُعجَبوا بأنفسهم، وليشكروا الذي منَّ عليهم بذلك؛ ليزيدهم من فضله، وليعلم غيرهم أنَّ فضل الله تعالى ليس عليه حجاب، فقال: {ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله واسع عليم}؛ أي: واسع الفضل والإحسان، جزيل المنن، قد عمَّت رحمته كلَّ شيء، ويوسِّع على أوليائه من فضله ما لا يكون لغيرهم، ولكنه عليمٌ بمن يستحقُّ الفضل فيعطيه؛ فالله أعلم حيث يجعل رسالته أصلاً وفرعاً.
[54] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے جو کوئی اس کے دین سے پھرجاتا ہے وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر سکتا بلکہ وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ مخلص اور سچے بندے ہیں اللہ رحمان و رحیم ان کی ہدایت کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اپنے اوصاف میں سب سے کامل، اپنے جسم میں سب سے طاقتور اور اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے ﴿ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗۤ﴾ ’’اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت جلیل ترین نعمت ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے بندے کو نوازا ہے اور سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے اللہ نے اپنے بندے کو مشرف فرمایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے لیے تمام اسباب مہیا کر دیتا ہے، ہر قسم کی مشکل اس پر آسان کر دیتا ہے، نیک کام کرنے اور برائیوں کو ترک کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور بندوں کے دلوں کو محبت اور مودت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ بندے کی محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اقوال و افعال اور تمام احوال میں ظاہری اور باطنی طور پر رسول اللہe کی متابعت کی صفت سے متصف ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ قُ٘لْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ۠ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ﴾ (آل عمران: 3؍31) ’’کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ جیسے بندے کے ساتھ رب کی محبت کے لوازم میں سے یہ ہے کہ بندہ کثرت سے فرائض اور نوافل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرمe نے ایک صحیح حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نقل فرمایا ہے: ’’میرا بندہ جس چیز کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان میں فرائض سے بڑھ کر کوئی چیز مجھے محبوب نہیں ۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث: 6502) اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لوازم میں سے اس کی معرفت اور کثرت کے ساتھ اس کا ذکر کرنا بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بغیر اس کے ساتھ محبت ناقص ہے بلکہ اس محبت کا وجود ہی نہیں اگرچہ اس کا دعویٰ کیا جائے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ کثرت سے اس کا ذکر کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے تھوڑے سے عمل کو قبول فرما لیتا ہے اور اس کی بہت سی لغزشوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے ﴿ اَذِلَّةٍ عَلَى الْ٘مُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ﴾ ’’نرم ہیں مومنوں پر، سخت ہیں کافروں پر‘‘ پس وہ اہل ایمان کے ساتھ محبت، ان کے لیے خیر خواہی، ان کے لیے نرمی اور مہربانی، ان کے لیے رحمت و رافت اور ان کے ساتھ شفقت بھرے رویے کی بنا پر ان کے لیے نرم خو ہوتے ہیں ۔ نیز کسی ایسی چیز کے قرب کی بنا پر جو اس سے مطلوب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں ، اس کی آیت سے عناد رکھنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کے لیے بہت سخت ہوتے ہیں ۔ ان کی عداوت پر ان کی ہمت اور عزائم مجتمع ہوتے ہیں اور وہ ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے ہر سبب میں پوری کوشش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُ٘وَّ٘ةٍ وَّمِنْ رِّبَ٘اطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّؔكُمْ ﴾ (الانفال: 8؍60) ’’جہاں تک ہو سکے قوت و طاقت کے ساتھ اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو، اس کے ذریعے سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ﴾ (الفتح: 48؍29) ’’وہ کافروں کے لیے نہایت سخت اور آپس میں بہت مہربان ہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے بارے میں سخت رویہ رکھنا، ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جس سے بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے اور ان کے ساتھ سختی اور ناراضی میں بندہ اپنے رب کی موافقت کرتا ہے اور ان کے بارے میں سخت رویہ ان کو دین اسلام کی طرف ایسے طریقے سے دعوت دینے سے مانع نہیں جو بہتر ہو۔ ان کے بارے میں سخت رویہ اور دعوت دین میں نرمی دونوں یکجا ہوں ۔ دونوں امور میں ان کے لیے مصلحت ہے جس کا فائدہ انھی کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ (اپنی جان، مال، اقوال اور افعال کے ذریعے سے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ‘‘ ﴿ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ﴾ ’’وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے‘‘ بلکہ وہ اپنے رب کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور مخلوق کی ملامت کی بجائے اپنے رب کی ملامت سے ڈرتے ہیں ۔ اور یہ رویہ ان کے ارادوں اور عزائم کی پختگی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کمزور دل والا، ارادے کا بھی کمزور ہوتا ہے۔ ملامت گروں کی ملامت پر اس کی عزیمت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور نکتہ چینوں کی نکتہ چینی پر اس کی قوت کمزور ہو جاتی ہے۔ مخلوق کی رعایت، ان کی رضا اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر ترجیح کے مطابق بندوں کے دلوں میں غیر اللہ کا تعبد جنم لیتا ہے۔ قلب، غیر اللہ کی عبادت سے اس وقت تک محفوظ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرنا چھوڑ نہ دے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان صفات جمیلہ اور مناقب عالیہ سے نواز کر ان کی مدح کی ہے جو ایسے افعال خیر کو مستلزم ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ ان پر محض اس کا فضل و احسان ہے۔ تاکہ وہ خود پسندی کا شکار نہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جس نے ان پر احسان کیا تاکہ وہ ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ نوازے اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم محجوب نہیں ۔ بنابریں فرمایا ﴿ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے‘‘ یعنی وہ وسیع فضل و کرم اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا ءکو وسیع فضل و کرم سے نوازتا ہے جس سے وہ اوروں کو نہیں نوازتا۔ مگر وہ علم رکھتا ہے کہ کون اس کے فضل کا مستحق ہے پس وہ اسی کو عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اصولی اور فروعی طور پر رسالت سے کسے نوازنا ہے۔
آیت: 55 - 56 #
{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (55) وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (56)}.
تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، جو قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکاۃ اور وہ رکوع کرنے والے ہیں (55) اور جو کوئی دوستی رکھے گا اللہ اور اس کے رسول سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے تو یقینا گروہ اللہ کا، وہی ہے غالب آنے والا(56)
#
{55} لما نهى عن ولاية الكفار من اليهود والنصارى وغيرهم، وذكر مآل تولِّيهم أنه الخسران المبين؛ أخبر تعالى من يجب ويتعين تولِّيه، وذكر فائدة ذلك ومصلحته، فقال: {إنَّما وليُّكُم الله ورسولُه}؛ فولاية الله تُدْرَكُ بالإيمان والتقوى؛ فكلُّ من كان مؤمناً تقيًّا؛ كان لله وليًّا، ومن كان لله وليًّا ؛ فهو وليٌّ لرسوله، ومن تولَّى الله ورسوله؛ كان تمام ذلك تولِّي من تولاَّه، وهم المؤمنون الذين قاموا بالإيمان ظاهراً وباطناً، وأخلصوا للمعبود بإقامتهم الصلاة بشروطها وفروضها ومكمِّلاتها، وأحسنوا للخَلْق، وبذلوا الزَّكاة من أموالهم لمستحقِّيها منهم. وقوله: {وهم راكعونَ}؛ أي: خاضعون لله ذليلون. فأداة الحَصْر في قوله: {إنَّما وَلِيُّكم الله ورسولُه والذين آمنوا}: تدلُّ على أنه يجب قصر الولاية على المذكورين والتبرِّي من ولاية غيرهم.
[55] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار کی دوستی سے روکا اور ذکر فرمایا کہ ان کی دوستی کا انجام واضح خسارہ ہے۔ جس کی دوستی متعین اور واجب ہے، اب اس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اس کے فائدے اور مصلحت کا ذکر کیا ہے ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ﴾ ’’تمھارا دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کی ولایت (دوستی) ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ جو کوئی صاحب ایمان اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی یعنی دوست ہے اور جو اللہ کا دوست ہے وہ اس کے رسولe کا دوست ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کو دوست بناتا ہے تو اس دوستی کی تکمیل یہ ہے کہ اللہ جن کو دوست بناتا ہے یہ بھی انھی کو دوست بنائے۔ اور وہ ہیں اہل ایمان جو ایمان کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور معبود کے لیے دین کو خالص کرتے ہیں یعنی نماز کو اس کی تمام شرائط و فرائض اور اس کو مکمل کرنے والے امور کے ساتھ قائم کرتے ہیں ، مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں اور اپنے اموال میں سے اپنے میں سے مستحق لوگوں کو زکٰوۃ دیتے ہیں ۔ ﴿ وَهُمْ رٰؔكِعُوْنَ﴾ ’’اور (اللہ کے آگے) جھکتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع اور تذلل اختیار کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا ﴾ میں حصر کا اسلوب دلالت کرتا ہے کہ ان مذکور لوگوں کی دوستی پر اقتصار کرنااور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے براء ت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔
#
{56} ثم ذكر فائدة هذه الولاية، فقال: {ومن يتولَّ الله ورسوله والذين آمنوا فإنَّ حزب الله هم الغالبون}؛ أي: فإنه من الحزب المضافين إلى الله إضافة عبوديَّة وولاية، وحزبه هم الغالبون، الذين لهم العاقبة في الدُّنيا والآخرة؛ كما قال تعالى: {وإنَّ جُنْدَنا لهم الغالبونَ}، وهذه بشارةٌ عظيمةٌ لمن قام بأمر الله وصار من حزبِهِ وجندِهِ أنَّ له الغلبة، وإن أديل عليه في بعض الأحيان لحكمةٍ يريدُها الله تعالى؛ فآخر أمره الغلبة والانتصار، ومن أصدق من الله قيلاً.
[56] پھر اللہ تعالیٰ نے اس دوستی کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ٘ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ ’’اور جو اللہ سے، اس کے رسول سے اور ایمان والوں سے دوستی رکھتا ہے تو بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے‘‘ یعنی وہ اس گروہ میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عبودیت اور ولایت کی اضافت رکھتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کا حزب غالب ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا انجام دنیا و آخرت میں اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (الصافات: 36؍173) ’’بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔‘‘ یہ اس شخص کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کر کے اس کے گروہ اور لشکر میں شامل ہو جاتا ہے کہ غلبہ اسی کے لیے ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت وہ مغلوب بھی ہو جاتا ہے مگر انجام کار فتح و غلبہ سے وہی بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہے۔
آیت: 57 - 58 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (57) وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ (58)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ تم ان لوگوں کو، جنھوں نے بنا لیا تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل، ان لوگوں میں سے کہ دیے گئے وہ کتاب پہلے تم سےاور نہ کافروں کو، (اپنا) دوست۔ اور ڈرو اللہ سے اگر ہو تم مومن(57) اور جب تم پکارتے ہو طرف نماز کی تو بنا لیتے ہیں وہ اسے ہنسی اور کھیل یہ اس سبب سے کہ ہیں وہ لوگ نہیں عقل رکھتے(58)
#
{57 ـ 58} ينهى عباده المؤمنين عن اتِّخاذ أهل الكتاب من اليهود والنصارى ومن سائر الكفار أولياء، يحبُّونهم ويتولَّوْنهم، ويُبدون لهم أسرار المؤمنين، ويعاوِنونهم على بعض أمورِهم التي تضرُّ الإسلام والمسلمين، وأن ما معهم من الإيمان يوجِبُ عليهم تَرْكَ موالاتهم، ويحثُّهم على معاداتهم، وكذلك التزامهم لتقوى الله التي هي امتثال أوامره واجتنابُ زواجرِهِ ممَّا تدعوهم إلى معاداتِهِم، وكذلك ما كان عليه المشركون والكفَّار المخالفون للمسلمين من قَدْحِهِم في دين المسلمين، واتِّخاذهم إيَّاه هُزواً ولعباً واحتقاره واستصغاره، خصوصاً الصلاة التي هي أظهر شعائر المسلمين وأجلُّ عباداتهم، إنهم إذا نادوا إليها؛ اتَّخذوها هُزُواً ولعباً، وذلك لعدم عقلهم ولجهلهم العظيم، وإلاَّ؛ فلو كان لهم عقول، لخضعوا لها، ولعلموا أنها أكبر من جميع الفضائل التي تتَّصف بها النفوس؛ فإذا علمتم أيُّها المؤمنون حال الكفار وشدَّة معاداتهم لكم ولدينكم؛ فمَنْ لم يعادِهم بعد هذا؛ دل على أن الإسلام عنده رخيصٌ، وأنه لا يبالي بمن قَدَحَ فيه أو قَدَحَ بالكفر والضلال، وأنه ليس عنده من المروءة والإنسانية شيءٌ؛ فكيف تدَّعي لنفسك ديناً قيماً وأنه الدين الحقُّ وما سواه باطل وترضى بموالاة من اتَّخذه هزواً ولعباً وسَخِرَ به وبأهله من أهل الجهل والحمق؟! وهذا فيه من التهييج على عداوتهم ما هو معلوم لكلِّ من له أدنى مفهوم.
[58,57] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ اور دیگر تمام کفار کے ساتھ موالات رکھنے سے منع کرتا ہے۔ وہ ان سے محبت نہ کریں ان کو دوست نہ بنائیں ، ان پر اہل ایمان کے بھید نہ کھولیں اور بعض ایسے امور پر ان کی معاونت نہ کریں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ ان کا ایمان کفار کے ساتھ ترک موالات کا موجب ہے اور ان کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح ان کا تقویٰ کا التزام ... جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کا .... کفار کے ساتھ عداوت کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح مشرکین، کفار اور مسلمانوں کے دیگر مخالفین کا رویہ بھی اسی بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان ان سے دوستی کی بجائے دشمنی رکھیں ۔ یہ لوگ دین اسلام میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں ۔ اسلام کے ساتھ استہزا کرتے اور تمسخر اڑاتے ہیں اور دین کی تحقیر کرتے ہیں خصوصاً نماز کے بارے میں جو کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا شعار اور سب سے بڑی عبادت ہے۔ جب مسلمان نماز کے لیے اذان دیتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا سبب ان کی کم عقلی اور جہالت ہے۔ ورنہ اگر ان میں عقل ہوتی تو وہ نماز کی افادیت کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے اور انھیں معلوم ہو جاتا کہ نماز ہی ان فضائل میں سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے نفوس انسانی متصف ہوتے ہیں ۔ پس اے مومنو! جب تمھیں کفار کا حال معلوم ہے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تمھارے اور تمھارے دین کے ساتھ کتنی شدید عداوت رکھتے ہیں جو کوئی اس صورتحال کے بعد بھی انھیں اپنا دشمن نہیں سمجھتا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اسلام اس کے نزدیک بہت سستی چیز ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کوئی اس میں طعن و تشنیع کرتا ہے یا اسے کفر اور ضلالت قرار دیتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص کے اندر مروت اور انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ آپ اپنے لیے دین قیم کا کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دین حق ہے اور اس کے سوا تمام ادیان باطل ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ آپ ان جاہل اور احمق لوگوں کی موالات پر راضی ہیں جو آپ کے دین کے ساتھ استہزا کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں ؟ اس آیت کریمہ میں کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ بات ہر اس شخص کو معلوم ہے جو ادنیٰ سا بھی فہم رکھتا ہے۔
آیت: 59 - 63 #
{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ (59) قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (60) وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ (61) وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (62) لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (63)}.
کہہ دیجیے! اے اہل کتاب! نہیں کد (ضد) رکھتے تم ہم سے مگر اس وجہ سے کہ ایمان لائے ہم ساتھ اللہ کے اور (ساتھ) اس چیز کے جو نازل کی گئی ہماری طرف اور جو نازل کی گئی اس سے پہلےاور یہ کہ اکثر تم میں فاسق ہیں (59) کہہ دیجیے! کیا خبر دوں میں تم کو بدتر کی اس سے، جزا کے اعتبار سے، نزدیک اللہ کے؟ وہ شخص کہ لعنت کی اس پر اللہ نے اور غصے ہوا اوپر اس کے اور کیے ان میں سے بندر اور سور اور پوجا کی اس نے شیطان کی، وہی لوگ ہیں بدتر درجے میں اور زیادہ گمراہ ہیں سیدھی راہ سے(60) اور جب آتے ہیں وہ تمھارے پاس تو کہتے ہیں ، ہم ایمان لائے اور حال یہ ہے کہ وہ داخل ہوئے تھے ساتھ کفر کے اور نکل گئے ساتھ اسی کے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے اس چیز کو کہ تھے وہ چھپاتے(61)اور آپ دیکھیں گے بہتوں کو ان میں سے، جلدی کرتے ہیں گناہ میں اور زیادتی میں اور اپنے حرام کھانے میں ، البتہ بہت برا ہے وہ جو کچھ کہ تھے وہ کرتے(62) کیوں نہیں روکتے ان کو رب والے اور علماء ان کے گناہ کی بات کہنے سے اور ان کے حرام کھانے سے، البتہ برا ہے وہ جو کچھ کہ تھے وہ کرتے(63)
#
{59} أي: {قل} يا أيُّها الرسول: {يا أهل الكتاب}؛ ملزماً لهم: إن دين الإسلام هو الدين الحق، وإن قدحهم فيه قدحٌ بأمر ينبغي المدح عليه، {هل تَنقِمونَ منَّا إلَّا أن آمنَّا بالله وما أُنزِلَ إلينا وما أُنزِلَ من قبلُ وأنَّ أكثركم فاسقونَ}؛ أي: هل لنا من العيب إلاَّ إيماننا بالله وبكتبه السابقة واللاحقة وبأنبيائه المتقدِّمين والمتأخِّرين؟! وبأننا نجزم أنَّ من لم يؤمن كهذا الإيمان؛ فإنه كافر فاسق؛ فهل تنقِمون منَّا بهذا الذي هو أوجب الواجبات على جميع المكلفين؟! ومع هذا؛ فأكثركم {فاسقونَ}؛ أي: خارجون عن طاعة الله متجرِّئون على معاصيه؛ فأولى لكم أيُّها الفاسقون السكوت؛ فلو كان عيبكم وأنتم سالمون من الفسق وهيهات ذلك؛ لكان الشرُّ أخف من قدحكم فينا مع فسقكم.
[59] ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسول کہہ دیجیے ﴿ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اے اہل کتاب!‘‘ یعنی ان پر حجت لازم کرتے ہوئے۔ بلاشبہ دین اسلام دین حق ہے اور اس میں طعن و تشنیع ایک ایسے معاملے میں طعن و تشنیع ہے جو درحقیقت مدح کے لائق ہے۔ ﴿ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَاَنَّ اَكْثَ٘رَؔكُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ’’تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں ) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر فاسق ہیں ۔‘‘ یعنی اس کے سوا ہم میں اور کیا عیب ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں ، اس کی گزشتہ کتابوں اور انبیائے متقدمین و متاخرین پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ہم نہایت جزم کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کوئی اس ایمان جیسا ایمان نہیں رکھتا وہ کافر اور فاسق ہے۔ کیا تم صرف اس امر کی بنا پر ہمیں طعن و تشنیع کرتے ہو جو تمام مکلفین پر سب سے زیادہ فرض ہے۔ اور بایں ہمہ کہ ان میں سے اکثر فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر اور اس کی نافرمانی کی جسارت کرنے والے ہیں تو اے فاسقو! تمھارے لیے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ پس اگر تم میں یہی عیب ہوتا جبکہ تم فسق سے پاک ہوتے، حالانکہ یہ بہت بعید ہے... تو یہ برائی تمھارے فسق کی معیت میں تمھارے ہماری بابت طعن و تشنیع سے خفیف تر ہوتی۔
#
{60} ولما كان قدحهم في المؤمنين يقتضي أنهم يعتقدون أنهم على شرٍّ؛ قال تعالى: {قل} لهم مخبراً عن شناعة ما كانوا عليه: {هل أنبِّئُكم بشرٍّ من ذلك}: الذي نقمتُم فيه علينا مع التنزُّل معكم، {مَن لَعَنَهُ الله}؛ أي: أبعده عن رحمته، {وغضِبَ عليه}: وعاقبه في الدُّنيا والآخرة، {وجعل منهم القِردةَ والخنازير و} [مَنْ] {عَبَدَ الطاغوت}: وهو الشيطانُ، وكلُّ ما عُبِدَ من دون الله فهو طاغوت. {أولئك} المذكورون بهذه الخصال القبيحة {شرٌّ مكاناً}: من المؤمنين الذين رحمة الله قريبٌ منهم، ورضي الله عنهم، وأثابهم في الدُّنيا والآخرة؛ لأنهم أخلصوا له الدين، وهذا النوع من باب استعمال أفعل التفضيل في غير بابه، وكذلك قوله: {وأضلُّ عن سواءِ السبيل}؛ أي: وأبعد عن قصد السبيل.
[60] اہل ایمان پر ان کا طعن و تشنیع کرنا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل ایمان میں برائی ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿قُ٘لْ﴾ یعنی ان کی برائی اور قباحت کے بارے میں ان کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ ﴾ ’’کیا میں تمھیں خبر دوں اس سے بھی بری بات کی‘‘ جس کے بارے میں تم ہمیں طعن و تشنیع کرتے ہو اس کو صحیح فرض کرتے ہوئے ﴿ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ ﴾ ’’جس پر اللہ نے لعنت کی۔‘‘ یعنی اس کو اپنی رحمت سے دور کر دیا ﴿ وَغَضِبَ عَلَیْهِ ﴾ ’’اس پر غضب نازل کیا‘‘ یعنی اسے دنیا و آخرت کے عذاب میں مبتلا کیا ﴿ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْ٘قِرَدَةَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُ٘وْتَ﴾ ’’اور ان میں سے بعضوں کو بندر اور سور بنا دیا اور جنھوں نے طاغوت کی بندگی کی‘‘ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے، وہ طاغوت ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا ان قبیح خصائل کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے ﴿ شَرٌّ مَّكَانًا ﴾ ’’ان کا ٹھکانا (اہل ایمان سے) برا ہے۔‘‘ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ان کی نسبت زیادہ قریب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اس نے ان کو دنیا و آخرت میں ثواب سے نواز دیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیا۔ یہ (اَفْعَلْ التَّفْضِیل) کو ایک دوسرے اسلوب میں استعمال کرنے کی نوع ہے۔ اور اسی طرح یہ قول ہے۔ ﴿ وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَؔآءِ السَّبِیْلِ﴾ ’’اور بہت بہکے ہوئے ہیں سیدھی راہ سے‘‘ یعنی وہ اعتدال کی راہ سے بہت دور ہیں ۔
#
{61} {وإذا جاؤوكم قالوا آمنَّا}: نفاقاً ومكراً، {و} هم {قد دخلوا} مشتملينَ على الكفرِ {وهم قد خرجوا به}؛ فمدخلُهم ومخرجُهم بالكفر، وهم يزعُمون أنهم مؤمنون؛ فهل أشرُّ من هؤلاء وأقبحُ حالاً منهم؟! {والله أعلم بما كانوا يكتُمون}: فيُجازيهم بأعمالهم خيرِها وشرِّها.
[61] ﴿ وَاِذَا جَآءُوْؔكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا ﴾ ’’اور جب وہ تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے‘‘ یعنی وہ مکرو فریب اور نفاق کی بنا پر کہتے ہیں ﴿ وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْ٘كُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ﴾ ’’حالانکہ وہ کفر لے کر آتے ہیں اور اسی کو لے کر جاتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اس حال میں داخل ہوئے کہ وہ کفر میں گھرے ہوئے تھے اور اسی کے ساتھ وہ نکلے۔ پس ان کا داخل ہونا اور ان کا نکلنا کفر کے ساتھ ہے۔ بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں ۔ ان سے زیادہ برا اور ان سے زیادہ بدحال کوئی اور ہو سکتا ہے؟ ﴿وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘تُمُوْنَ﴾ ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں ‘‘ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اچھے، برے اعمال کا بدلہ دے گا۔
#
{62} ثم استمرَّ تعالى يعدِّد معايِبَهم انتصاراً لِقَدْحِهِم في عباده المؤمنين، فقال: {وترى كثيراً منهم}؛ أي: من اليهود، {يُسارِعون في الإثم والعُدوان}؛ أي: يحرصون ويبادرون المعاصي المتعلِّقة في حقِّ الخالق والعدوان على المخلوقين. {وأكلهم السُّحْتَ}: الذي هو الحرام، فلم يكتفِ بمجرَّد الإخبار أنهم يفعلون ذلك، حتى أخبر أنهم يُسارعون، وهذا يدلُّ على خبثهم وشرِّهم وأنَّ أنفسهم مجبولةٌ على حبِّ المعاصي والظُّلم، هذا وهم يدَّعون لأنفسهم المقامات العالية، {لبئس ما كانوا يعملون}: وهذا في غاية الذمِّ لهم والقدح فيهم.
[62] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی مدد اور تائید کی خاطر بتکرار ان یہود و کفار کے معایب بیان کرتا ہے ﴿ وَتَرٰؔى كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور تو ان میں سے اکثر کو دیکھے گا‘‘ یعنی یہودیوں میں سے ﴿ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ ’’وہ گناہ اور زیادتی میں دوڑ کر حصہ لیتے ہیں ‘‘ یعنی وہ ان گناہوں کی طرف سبقت کرتے ہیں جو خالق کے حقوق سے متعلق ہیں اور مخلوق پر ظلم اور تعدی کے زمرے میں آتے ہیں ﴿ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ’’اور ان کے حرام کھانے پر‘‘ جو کہ حرام ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صرف یہ خبر دینے پر اکتفا نہیں کیا کہ وہ ان افعال کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ یہ بھی خبر دی کہ وہ ان افعال بد میں سبقت کرتے ہیں اور یہ چیز ان کی خباثت اور برائی پر دلالت کرتی ہے۔ گناہ اور ظلم ان کے نفس کی فطرت کا حصہ بن گئے۔ یہ ہے ان کا حال اور وہ ہیں کہ اپنے لیے مقامات بلند کا دعویٰ کرتے ہیں ﴿ لَ٘بِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’بہت برے کام ہیں جو وہ کر رہے ہیں ‘‘ یہ ان کی مذمت اور ان کی تشنیع کی انتہا ہے۔
#
{63} {لولا ينهاهم الربَّانيُّونَ والأحبار عن قولهم الإثم وأكْلِهِم السُّحْتَ}؛ أي: هلاَّ ينهاهم العلماء المتصدون لنفع الناس الذين منَّ الله عليهم بالعلم والحكمة عن المعاصي، التي تصدر منهم، ليزول ما عندهم من الجهل، وتقوم حجة الله عليهم، فإن العلماء عليهم أمر الناس ونهيهم، وأن يبيِّنُوا لهم الطريق الشرعي، ويرغبوهم في الخير، ويرهبوهم من الشر. {لبئس ما كانوا يصنعون}.
[63] ﴿ لَوْلَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ’’کیوں نہیں روکتے ان کو درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے‘‘ یعنی علماء جو عوام الناس کے نفع کے درپے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و دانش سے نوازا ہے، انھوں نے لوگوں کو ان گناہوں سے کیوں نہ روکا جو ان سے صادر ہوتے ہیں تاکہ ان سے جہالت دور ہو جاتی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جاتی۔ کیونکہ یہ علماء ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں اور ان کے سامنے دین کا راستہ واضح کریں ، انھیں بھلائیوں کی ترغیب دیں اور برائیوں کے انجام سے ڈرائیں ﴿لَ٘بِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ﴾ ’’بلاشبہ وہ بہت برا کرتے ہیں ۔‘‘
آیت: 64 - 66 #
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (64) وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ (65) وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ (66)}.
اور کہا یہود نے، ہاتھ اللہ کے بندھے ہوئے ہیں ۔ بند ہو جائیں ہاتھ انھی کے اور لعنت کیے جائیں بسبب ان کے قول کےبلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں ، وہ خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے اور یقینا زیادہ کرے گا بہتوں کو ان میں سے (وہ قرآن) جو اُتارا گیا آپ کی جانب، طرف سے آپ کے رب کی، سرکشی اور کفر میں ۔ اور ڈال دی ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت کے دن تک جب کبھی جلاتے ہیں وہ آگ لڑائی کے لیے تو بجھا دیتا ہے اسے اللہ اور دوڑتے پھرتے ہیں وہ زمین میں فساد کرنے کو اور اللہ نہیں پسند کرتا فسادیوں کو(64) اور اگر بے شک اہل کتاب ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کر لیں تو یقینا دور کر دیں گے ہم ان سے ان کی برائیاں اور ضرور داخل کریں گے ان کو نعمت والے باغوں میں (65) اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا ہے ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے تو یقینا کھاتے وہ اپنے اوپر سے اور اپنے پیروں کے نیچے سے ان میں سے ایک گروہ ہے درمیانی راہ چلنے والااور زیادہ لوگ ان میں سے، برا ہے جو وہ کررہے ہیں (66)
#
{64} يخبر تعالى عن مقالة اليهود الشنيعة وعقيدتهم الفظيعة، فقال: {وقالت اليهود يدُ الله مغلولةٌ}؛ أي: عن الخير والإحسان والبرِّ! {غُلَّتْ أيديهم ولُعِنوا بما قالوا}: وهذا دعاء عليهم بجنس مقالتهم؛ فإن كلامهم متضمن لوصف الله الكريم بالبخل وعدم الإحسان، فجازاهم بأن كان هذا الوصف منطبقاً عليهم؛ فكانوا أبخل الناس وأقلَّهم إحساناً وأسوأهم ظنًّا بالله وأبعدَهم عن رحمته التي وَسِعَتْ كلَّ شيءٍ وملأت أقطار العالم العلويِّ والسفليِّ، ولهذا قال: {بل يداه مبسوطتانِ يُنفِقُ كيفَ يشاءُ}: لا حَجْر عليه ولا مانعَ يمنعُه مما أراد؛ فإنَّه تعالى قد بَسَطَ فضله وإحسانه الدينيَّ والدنيويَّ، وأمر العباد أن يتعرَّضوا لنفحات جودِهِ، وأن لا يسدُّوا على أنفسهم أبواب إحسانِهِ بمعاصيهم، فيدُهُ سحَّاءُ الليل والنهار، وخيرُهُ في جميع الأوقات مدرارٌ؛ يفرِّج كرباً، ويزيل غمًّا، ويغني فقيراً، ويفكُّ أسيراً، ويجبرُ كسيراً، ويجيب سائلاً، ويعطي فقيراً عائلاً، ويُجيب المضطرِّين، ويستجيب للسائلين، وينعِم على مَن لم يسأله، ويعافي من طلب العافية، ولا يحرم من خيره عاصياً، بل خيره يرتع فيه البَرُّ والفاجر ويجود على أوليائِهِ بالتوفيق لصالح الأعمال ثم يحمدُهم عليها ويضيفُها إليهم وهي من جوده ويُثيبهم عليها من الثواب العاجل والآجل ما لا يدركُهُ الوصفُ ولا يخطُر على بال العبد، ويلطُف بهم في جميع أمورهم، ويوصِلُ إليهم من الإحسان، ويدفع عنهم من النقم ما لا يشعرونَ بكثيرٍ منه؛ فسبحانَ مَن كلُّ النِّعم التي بالعباد فمنه وإليه يجأرون في دفع المكاره، وتبارك من لا يُحْصي أحدٌ ثناءً عليه، بل هو كما أثنى على نفسه، وتعالى من لا يخلو العباد من كرمِهِ طرفة عين، بل ولا وجود لهم ولا بقاء إلا بجوده، وقبَّح الله من استغنى بجهلِهِ عن ربِّه ونسبه إلى ما لا يليق بجلاله، بل لو عامل اللهُ اليهود القائلين تلك المقالة ونحوَهم ممَّن حاله كحالهم ببعض قولِهِم؛ لهلكوا وشقوا في دنياهم، ولكنهم يقولون تلك الأقوال، وهو تعالى يحلم عنهم، ويصفح، ويمهلهم، لا يهملهم. وقوله: {وليزيدنَّ كثيراً منهم ما أُنزِلَ إليكَ مِن ربِّكَ طغياناً وكفراً}: وهذا أعظم العقوبات على العبد: أن يكون الذِّكر الذي أنزله الله على رسوله، الذي فيه حياة القلب والروح وسعادة الدُّنيا والآخرة وفلاح الدَّارين، الذي هو أكبر مِنَّةٍ امتنَّ الله بها على عباده، توجب عليهم المبادرة إلى قبولها والاستسلام لله بها وشكراً لله عليها، أن تكون لمثل هذا زيادةُ غيٍّ إلى غيِّه وطغيانٍ إلى طغيانه وكفر إلى كفره، وذلك بسبب إعراضه عنها وردِّه لها ومعاندته إياها ومعارضته لها بالشبه الباطلة. {وألقينا بينهم العداوة والبغضاء إلى يوم القيامة}: فلا يتآلفون ولا يتناصرون ولا يتَّفقون على حالةٍ فيها مصلحتهم، بل لم يزالوا متباغضين في قلوبهم متعادين بأفعالهم إلى يوم القيامة، {كلَّما أوقدوا ناراً للحرب}: ليكيدوا بها الإسلام وأهله وأبْدُوا وأعادوا وأجلبوا بخيلهم ورجلهم، {أطفأها الله}: بخِذلانهم وتفرُّق جنودِهم وانتصار المسلمين عليهم، {ويسعَوْن في الأرض فساداً}؛ أي: يجتهدون ويجدِّون ولكن بالفساد في الأرض؛ بعمل المعاصي والدعوة إلى دينهم الباطل والتعويق عن الدُّخول في الإسلام، {والله لا يحبُّ المفسدين}: بل يبغِضُهم أشدَّ البغض، وسيجازيهم على ذلك.
[64] اللہ تبارک و تعالیٰ یہود کے انتہائی خبیث قول اور ان کے قبیح ترین عقیدے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَقَالَتِ الْ٘یَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ﴾ ’’یہود نے کہا، اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا ہے‘‘ یعنی بھلائی احسان اور نیکی سے ﴿ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا﴾ ’’انھی کے ہاتھ بند ہو جائیں اور لعنت ہے ان کے اس کہنے پر‘‘ یہ انھی کی گفتگو کی جنس کے ساتھ ان کے لیے بددعا ہے چونکہ ان کی یہ بدگوئی اللہ کریم کو بخل اور عدم احسان کی صفات سے متصف کرنے کی متضمن ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی وصف کو منطبق کرکے ان کو اس بدگوئی کا بدلہ دیا ہے۔ پس یہود بخیل ترین، نیکی کے اعتبار سے قلیل ترین، اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظنی میں بدترین اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے بعید ترین لوگ ہیں جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس سے تمام عالم علوی اور سفلی لبریز ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ١ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ﴾ ’’بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے‘‘ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں جو اسے اپنے ارادے سے روک سکے۔ اس کا فضل و کرم اور دینی اور دنیاوی احسان بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جود و کرم کے جھونکوں سے مستفید ہوں ۔ وہ اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے اپنے آپ پر اس کے فضل و احسان کے دروازے بند نہ کریں ۔ اس کی داد و دہش دن رات جاری ہے، اس کی عطا و بخشش ہر وقت موسلا دھار بارش کی مانند ہے۔ وہ دکھوں کو دور کرتا ہے، غموں کا ازالہ کرتا ہے، محتاج کو بے نیاز کرتا ہے، قیدی کو آزاد کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ محتاج کو عطا کرتا ہے، مجبوروں کو ان کی پکار کا جواب دیتا ہے، سوال کرنے والوں کے سوال کو پورا کرتا ہے۔ جو اس سے سوال نہیں کرتا اسے بھی نعمتیں عطا کرتا ہے، جو اس سے عافیت طلب کرتا ہے اسے عافیت عطا کرتا ہے، وہ کسی نافرمان کو اپنی بھلائی سے محروم نہیں کرتا بلکہ نیک اور بد سب اس کی بھلائی سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے اولیا کو نیک اعمال کی توفیق سے نوازتا ہے جو اس کا جود و کرم ہے، پھر وہ ان اعمال پر ان کی تعریف کرتا اور ان کی اضافت ان کی طرف کرتا ہے اور یہ بھی اس کے جودوکرم کا نتیجہ ہے اور ان کو دنیا و آخرت میں ایسا ثواب عطا کرتا ہے کہ زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اور بندے کے طائر خیال کی اس تک رسائی ممکن نہیں ۔ وہ تمام امور میں ان کو لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ اپنا احسان ان تک پہنچاتا رہتا ہے۔ وہ اپنے طور پر ہی ان سے بہت سی مصیبتیں دور کر دیتا ہے کہ ان کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا۔ پاک ہے وہ ذات کہ بندوں کے پاس جو نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور تکالیف کو دور کرنے کے لیے اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہیں اور برکت والی ہے وہ ذات جس کی مدح و ثنا کو کوئی شمار نہیں کر سکتا، بس وہ ایسے ہے جیسے اس نے خود اپنی مدح و ثنا بیان کی۔ بالا و بلند ہے وہ ہستی کہ بندے ایک لمحے کے لیے بھی اس کے فضل و کرم سے علیحدہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا وجود اور ان کی بقا اسی کے جود و کرم کی مرہون ہے۔ اللہ تعالیٰ برا کرے ان لوگوں کا جو اپنی جہالت کی بنا پر اپنے آپ کو اپنے رب سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور اس کی طرف ایسے امور منسوب کرتے ہیں جو اس کی جلالت کے لائق نہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ ان یہود کے ساتھ، جنھوں نے یہ بدگوئی کی ہے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ ان کے کسی قول پر معاملہ کرتا تو وہ ہلاک ہو جاتے اور دنیا میں بدبختی کا شکار ہو جاتے۔ مگر وہ اس قسم کی گستاخانہ باتیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بردباری سے پیش آتا ہے اور ان سے درگزر فرماتا ہے، ان کو ڈھیل دیتا ہے مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿ وَلَیَ٘زِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّكُفْرًا﴾ ’’اور یقینا ان میں سے بہتوں کو، وہ کلام جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، سرکشی اور کفر میں ہی بڑھائے گا‘‘ یہ بندے کے لیے سب سے بڑی سزا ہے کہ وہ ذکر، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe پر نازل کیا ہے جس میں قلب و روح کی زندگی، دنیا و آخرت کی سعادت اور فلاح ہے جو اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے ذریعے سے اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے جو ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اسے قبول کرنے کے لیے آگے بڑھیں ، اس کے سبب سے اللہ کے سامنے سر جھکا دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ... وہی ذکر اس کی گمراہی، سرکشی اور کفر میں اضافے کا باعث بن جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اس سے روگردانی کی اور اسے ٹھکرا دیا اس سے عناد رکھا اور شبہات باطلہ کی بنا پر اس کی مخالفت کی۔ ﴿ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَؔ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور ہم نے ڈال دی ہے ان کے درمیان دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک‘‘ پس وہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کریں گے، ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے اور وہ کسی ایسی بات پر متفق نہیں ہوں گے جس میں ان کی کوئی مصلحت ہو۔ بلکہ وہ ہمیشہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور بغض رکھیں گے اور قیامت تک ایک دوسرے پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے رہیں گے۔ ﴿ كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ ﴾ ’’جب کبھی آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے لیے‘‘ تاکہ اس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں ، ان کے خلاف چالیں چلیں اور ان پر سوار اور پیادے چڑھا لائیں ﴿ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ﴾ ’’اللہ اس کو بجھا دیتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر، ان کے لشکروں کو منتشر کر کے، ان کے خلاف مسلمانوں کی نصرت فرما کر اس آگ کو بجھا دیتا ہے۔ ﴿ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا﴾ ’’اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں ۔‘‘ یعنی زمین میں فساد پھیلانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اپنے باطل دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ ’’اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ بلکہ ان کے ساتھ سخت ناراض ہوتا ہے وہ عنقریب انھیں اس کی سزا دے گا۔
#
{65} ثم قال تعالى: {ولو أن أهل الكتاب آمنوا واتَّقَوا لكفَّرنا عنهم سيئاتِهِم ولأدخلناهُم جناتِ النعيم}: وهذا من كرمِهِ وجودِهِ؛ حيث ذكر قبائح أهل الكتاب ومعايبهم وأقوالهم الباطلة؛ دعاهم إلى التوبة، وأنهم لو آمنوا بالله وملائكته وجميع كتبه وجميع رسله واتَّقوا المعاصي؛ لكفَّر عنهم سيئاتهم، ولو كانت ما كانت، ولأدخلهم جنات النعيم التي فيها ما تشتهيه الأنفس، وتلذُّ الأعين.
[65] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَ٘ـفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ۠ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ﴾ ’’اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کر دیتے اور ان کو نعمت والے باغوں میں داخل کرتے‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا جود و کرم ہے کہ جہاں اس نے اہل کتاب کی برائیوں اور ان کے معایب اور ان کے اقوال باطلہ کا ذکر فرمایا ہے، وہاں ان کو توبہ کی طرف بھی بلایا ہے اور یہ کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں ، اس کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئیں اور گناہوں سے پرہیز کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام برائیاں ، خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں ، مٹا دے گا اور ان کو نعمتوں سے بھری ہوئی جنت میں داخل کرے گا جس میں وہ کچھ ہے کہ نفس اس کی چاہت رکھتے ہیں اور آنکھیں اس سے لذت اٹھاتی ہیں ۔
#
{66} {ولو أنَّهم أقاموا التوراة والإنجيل وما أُنزِلَ إليهم من ربِّهم}؛ أي: قاموا بأوامرهما [ونواهيهما] كما ندبهم الله وحثهم، ومن إقامتهما الإيمان بما دعيا إليه من الإيمان بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - وبالقرآن؛ فلو قاموا بهذه النعمة العظيمة التي أنزلها ربُّهم إليهم؛ أي: لأجلهم وللاعتناء بهم؛ {لأكلوا من فوقِهم ومن تحتِ أرجلِهم}؛ أي: لأدرَّ الله عليهم الرزقَ ولأمطر عليهم السماء وأنبتَ لهم الأرضَ؛ كما قال تعالى: {ولو أن أهل القرى آمنوا واتَّقَوا لَفَتَحْنا عليهم بَرَكاتٍ من السَّماء والأرض}. {منهم}؛ أي: من أهل الكتاب {أمةٌ مقتصدةٌ}؛ أي: عاملة بالتوراة والإنجيل عملاً غير قويٍّ ولا نشيط. {وكثيرٌ منهم ساء ما يعملونَ}؛ أي: والمسيء منهم الكثير، وأما السابقون منهم؛ فقليل ما هم.
[66] ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’اگر وہ قائم کرتے تورات، انجیل اور اس کو جو نازل کیا گیا ان پر، ان کے رب کی طرف سے‘‘ یعنی اگر وہ تورات و انجیل کے احکام کو قائم کرتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توجہ دلائی اور ان کو ترغیب دی ہے۔ تورات و انجیل کو قائم کرنے سے مراد ان امور پر ایمان لانا ہے جن کی طرف یہ دونوں کتابیں دعوت دیتی ہیں ، یعنی محمد مصطفیe اور قرآن پر ایمان لانا۔ اگر وہ اس عظیم نعمت کو قائم کرتے جس کو ان کے رب نے ان کی طرف نازل فرمایا ہے یعنی ان کی خاطر اور ان کے ساتھ اعتنا کی بنا پر اس نعمت کو ان کی طرف نازل کیا ہے ﴿ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ﴾ ’’تو وہ کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر رزق کے دروازے کھول دیتا، آسمان سے ان پر بارش برساتا اور زمین ان کے لیے فصلیں اگاتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْ٘قُ٘رٰۤى اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَؔكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ﴾ (الاعراف: 7؍96) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔‘‘ ﴿ مِنْهُمْ ﴾ ’’ان میں سے‘‘ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ﴾ ’’ایک گروہ ہے سیدھی راہ پر‘‘ یعنی ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تورات و انجیل پر عامل ہے مگر اس کا عمل قوی اور نشاط انگیز نہیں ہے ﴿ وَؔكَثِیْرٌ مِّؔنْهُمْ سَآءَؔ مَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں ۔‘‘ یعنی ان میں برائیوں کا ارتکاب کرنے والے بہت زیادہ ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے بہت کم ہیں ۔
آیت: 67 #
{يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (67)}
اے رسول! پہنچا دیجیے جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو نہیں پہنچایا آپ نے اس کا پیغام اور اللہ حفاظت کرے گا آپ کی لوگوں سے۔ بے شک اللہ نہیں ہدایت کرتا کافر لوگوں کو(67)
#
{67} هذا أمر من الله لرسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - بأعظم الأوامر وأجلِّها، وهو التبليغ لما أنزل الله إليه، ويدخل في هذا كل أمر تلقَّته الأمة عنه - صلى الله عليه وسلم - من العقائد والأعمال والأقوال والأحكام الشرعيَّة والمطالب الإلهيَّة، فبلَّغ - صلى الله عليه وسلم - أكمل تبليغ، ودعا وأنذر وبشَّر ويسَّر، وعلَّم الجهَّال الأميِّين حتى صاروا من العلماء الربانيِّين، وبلَّغ بقوله وفعله وكتبه ورسله، فلم يبقَ خيرٌ إلاَّ دلَّ أمته عليه، ولا شرٌّ إلاَّ حَذَّرها عنه، وشهد له بالتبليغ أفاضلُ الأمة من الصحابة فمن بعدهم من أئمة الدين ورجال المسلمين. {وإن لم تفعلْ}؛ أي: لم تبلِّغْ ما أُنزل إليك من ربك، {فما بلَّغْت رسالته}؛ أي: فما امتثلت أمره، {والله يعصِمُك من الناس}: هذه حماية وعصمة من الله لرسوله من الناس، وأنه ينبغي أن يكون حرصُك على التعليم والتبليغ، ولا يثنيك عنه خوف من المخلوقين؛ فإن نواصيهم بيد الله، وقد تكفَّل بعصمتك، فأنت إنما عليك البلاغ المبين؛ فمن اهتدى فلنفسه، وأما الكافرون الذين لا قصد لهم إلا اتِّباعُ أهوائهم؛ فإن الله لا يهديهم، ولا يوفِّقهم للخير بسبب كفرهم.
[67] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول محمد مصطفیe کو حکم ہے اور یہ سب سے بڑا اور جلیل ترین حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے اسے اس کے بندوں تک پہنچایا جائے ... اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جو امت نے آپ سے حاصل کیے ، مثلاً: عقائد، اعمال، اقوال، احکام شرعیہ اور مطالب الہٰیہ وغیرہ۔ رسول اللہe نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح پہنچا دیا، آپe نے لوگوں کو دعوت دی، ان کو برے انجام سے ڈرایا، ان کو ایمان لانے پر اچھے انجام کی خوشخبری سنائی ، ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں ، ان پڑھ جاہلوں کو علم سکھایا حتیٰ کہ وہ علمائے ربانی بن گئے۔ آپe نے اپنے قول و فعل، اپنے مراسلات اور ایلچیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کو پہنچا دیا۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف آپ نے امت کی راہنمائی نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے آپ نے امت کو ڈرایا نہ ہو۔ آپ کی اس تبلیغ کی گواہی افاضل امت یعنی صحابہ کرام y نے دی اور ان کے بعد ائمہ دین اور مسلمانوں نے دی۔ ﴿ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ ﴾ ’’اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔‘‘ یعنی جو چیز آپe کے رب کی طرف سے آپ پر اتاری گئی ہے اگر آپ نے اسے لوگوں تک نہ پہنچایا ﴿ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ﴾ ’’تو نہیں پہنچایا آپ نے اس کا پیغام‘‘ یعنی آپe نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرماں برداری نہیں کی ﴿ وَاللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ ’’اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولe کی حمایت اور لوگوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ ہے۔ آپ کے لیے مناسب یہی ہے کہ آپ تعلیم و تبلیغ پر توجہ مرکوز رکھیں ، مخلوق کا خوف آپ کو اس مقصد سے نہ ہٹا دے۔ کیونکہ مخلوق کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اس نے آپ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ اور آپ کی ذمہ داری پہنچا دینا ہے جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے لیے ہے۔ رہے کفار جن کا خواہشات نفس کی پیروی کے سوا کوئی مقصد نہیں تو ان کے کفر کے سبب سے اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے گا، نہ انھیں بھلائی کی توفیق عطا کرے گا۔
آیت: 68 #
{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (68)}
کہہ دیجیے! اے اہل کتاب! نہیں ہو تم اوپر کسی چیز کے، یہاں تک کہ قائم کرو تم تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سےاور یقینا زیادہ کرے گا بہتوں کو ان میں سے (وہ قرآن) جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے، سرکشی اور کفر میں ۔ پس نہ غم کھائیں آپ کافر لوگوں پر(68)
#
{68} أي: قل لأهل الكتاب منادياً على ضلالهم ومعلناً بباطلهم: {لستُم على شيء}: من الأمور الدينيَّة؛ فإنَّكم لا بالقرآن ومحمد آمنتم، ولا بنبيِّكم وكتابكم صدَّقتم، ولا بحقٍّ تمسَّكتم، ولا على أصل اعتمدتم. {حتَّى تُقيموا التوراة والإنجيل}؛ أي: تجعلوهما قائِمَيْن بالإيمان بهما واتِّباعهما والتمسُّك بكلِّ ما يَدْعُوان إليه، {و} تقيموا {ما أُنزِلَ إليكم من ربِّكم}، الذي ربَّاكم، وأنعم عليكم، وجَعَلَ أجَلَّ إنعامِهِ إنزال الكُتُب إليكم؛ فالواجب عليكم أن تقوموا بشكر الله، وتلتزِموا أحكام الله، وتقوموا بما حُمِّلِتُم من أمانة الله وعهده، {وليزيدنَّ كثيراً منهم ما أُنزل إليك من ربِّك طغياناً وكفراً فلا تأسَ على القوم الكافرين}.
[68] یعنی اہل کتاب کی گمراہی کی منادی اور ان کے باطل کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ ﴾ ’’تم کسی چیز پر نہیں ہو‘‘ یعنی تم کسی بھی دینی اصول پر قائم نہیں ہو۔ تم قرآن اور محمدe پر ایمان لائے ہو نہ تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کی تصدیق کی ہے، تم نے حق کو تھاما ہے نہ کسی اصول پر تمھارا اعتماد ہے ﴿ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ ﴾ ’’جب تک تم تورات اور انجیل کو قائم نہ رکھو گے۔‘‘ یعنی جب تک کہ تم تورات اور انجیل پر ایمان لا کر ان کو قائم نہ کرو، ان کی اتباع نہ کرو اور جن امور کی طرف یہ دعوت دیتی ہیں ان میں سے ہر چیز کو مضبوطی سے تھام نہ لو۔ اور جب تک کہ تم اس چیز کو قائم نہ کرو ﴿ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’جو تم پر تمھارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے‘‘ جس نے تمھاری تربیت کی اور تمھیں نعمتوں سے نوازا۔ تم پر اس کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ تمھاری طرف کتابیں نازل فرمائیں ۔ پس تم پر فرض ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو، اس کے احکام کا التزام کرو اور اللہ تعالیٰ کی امانت اور اس کے عہد کی جو ذمہ داری، تم پر ڈالی گئی ہے، اسے پورا کرو۔ ﴿ وَلَیَ٘زِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّكُفْرًا١ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اس سے ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہو گا اس لیے آپ کافروں کے گروہ پر متاسف نہ ہوں ۔‘‘
آیت: 69 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (69)}
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ (ان میں سے) جو بھی ایمان لائے ساتھی اللہ کے اور دن آخرت کےاور عمل کرے نیک تو نہیں خوف ہوگا اوپر ان کے اور نہ وہ غمگین ہوں گے(69)
#
{69} يخبر تعالى عن أهل الكتاب من أهل القرآن والتوراة والإنجيل أنَّ سعادتهم ونجاتهم في طريق واحد وأصل واحدٍ، وهو الإيمان بالله واليوم الآخر والعمل الصالح؛ فمن آمَنَ منهم بالله واليوم الآخر وعَمِلَ صالحاً؛ فله النجاة ولا خوفٌ عليهم فيما يستقبِلونه من الأمور المخوفة ولا هم يحزنونَ على ما خلفوا منها. وهذا الحكم المذكور يشمَلُ سائر الأزمنة.
[69] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل قرآن، اہل تورات اور اہل انجیل کے بارے میں بیان فرماتا ہے کہ ان سب کی سعادت اور نجات ایک ہی طریقے اور ایک ہی اصول میں ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا..، لہٰذا ان میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اسی کے لیے نجات ہے ان کو کوئی خوف نہ ہو گا، انھیں خوف زدہ کرنے والے امور کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور وہ امور جو وہ پیچھے چھوڑ چکے ہیں ان کے بارے میں غمگین نہ ہوں گے... یہ حکم مذکور تمام زمانوں کو شامل ہے۔
آیت: 70 - 71 #
{لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ (70) وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِنْهُمْ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (71)}.
البتہ تحقیق لیا تھا ہم نے عہد بنی اسرائیل سے اور بھیجے ہم نے ان کی طرف کئی رسول، جب آیا ان کے پاس رسول، ساتھ ایسی چیز کے کہ نہیں چاہتے تھے ان کے نفس تو کچھ کو انھوں نے جھٹلایا اور کچھ کو وہ قتل ہی کر ڈالتے(70) اور گمان کیا انھوں نے کہ نہ ہوگی کوئی آزمائش ، پس وہ اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے، پھر متوجہ ہوا اللہ اوپر ان کے، پھر اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے زیادہ لوگ ان میں سےاور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں (71)
#
{70} يقول تعالى: {لقد أخَذْنا ميثاق بني إسرائيل}؛ أي: عهدهم الثقيل بالإيمان بالله والقيام بواجباته التي تقدَّم الكلام عليها في قوله: {ولقد أخذ الله ميثاقَ بني إسرائيل وبَعَثْنا منهم اثني عشر نقيباً ... } إلى آخر الآيات، {وأرسلنا إليهم رسلاً}: يتوالَوْن عليهم بالدَّعوة ويتعاهدونهم بالإرشاد، ولكن ذلك لم ينجع فيهم ولم يفد. {كلما جاءهم رسول بما لا تهوى أنفسهم} من الحق كذبوه وعاندوه، وعاملوه أقبح المعاملة، {فريقاً كذَّبوا وفريقاً يقتُلون}.
[70] ﴿ لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے واجبات کو قائم کرنے کے بارے میں ان سے بھاری عہد لیا جن کے بارے میں گزشتہ صفحات میں ﴿ وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا…الآیۃ﴾ (المائدۃ: 5؍12) کی تفسیر کے ضمن میں بحث گزر چکی ہے۔ ﴿ وَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًا﴾ ’’اور ان کی طرف رسول بھیجے‘‘ جو پے در پے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان کو رشد و ہدایت کی طرف بلاتے رہتے تھے مگر یہ چیز ان کے کسی کام آئی نہ اس نے کوئی فائدہ دیا ﴿ كُلَّمَا جَآءَؔهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْ﴾ ’’جب لایا کوئی رسول وہ حکم جس کو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے‘‘ یعنی حق کو ان کے نفس پسند نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے حق کو جھٹلایا، اس سے عناد رکھا اور اس کے ساتھ بدترین معاملہ کیا ﴿ فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَ﴾ ’’انھوں نے رسولوں کے ایک گروہ کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کیا۔‘‘
#
{71} {وحَسِبوا أن لا تكون فتنةٌ}؛ أي: ظنوا أنَّ معصيتهم وتكذيبهم لا يجرُّ عليهم عذاباً ولا عقوبة، واستمرُّوا على باطلهم، وعَموا {وصَمُّوا}: عن الحق. {ثم}: نعشهم ، و {تاب عليهم} حين تابوا إليه وأنابوا. {ثم} لم يستمرُّوا على ذلك حتى انقلب أكثرهم إلى الحال القبيحة؛ فـ {عَمُوا وصَمُّوا كثيرٌ منهم}: بهذا الوصف، والقليل استمرُّوا على توبتهم وإيمانهم. {والله بصيرٌ بما يعملون}: فيجازي كلَّ عامل بعمله إن خيراً فخيرٌ وإن شرًّا فشرٌّ.
[71] ﴿ وَحَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ﴾ ’’اور یہ خیال کرتے تھے کہ کوئی آفت نہیں آنے کی۔‘‘ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نافرمانی اور ان کی تکذیب کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آئے گا۔ نہ ان کو سزا دی جائے گی اور وہ اپنے باطل پر ہمیشہ قائم رہیں گے ﴿ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ﴾ ’’پس وہ (حق دیکھنے سے) اندھے اور (حق بولنے سے) گونگے ہو گئے‘‘ ﴿ ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی‘‘ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے ان لغزشوں کو نظر انداز کر دیا جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی ﴿ ثُمَّ ﴾ پھر انھوں نے اس توبہ پر دوام نہ کیا یہاں تک کہ ان کے اکثر لوگ بدترین احوال کی طرف پلٹ گئے ﴿ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّؔنْهُمْ﴾ ’’ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔‘‘ یعنی انھی اوصاف کے ساتھ وہ پھر اندھے اور گونگے ہو گئے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اپنی توبہ اور ایمان پر قائم رہے ﴿ وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ، وہ جو کچھ کرتے ہیں ، اس کو دیکھتا ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوا تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برا عمل ہوا تو بری جزاہو گی۔
آیت: 72 - 75 #
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (72) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (73) أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (74) مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (75)}.
البتہ تحقیق کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا، بے شک اللہ وہی مسیح ابن مریم ہے۔ اور کہا مسیح نے اے بنی اسرائیل! عبادت کرو تم اللہ کی، میرے رب اور اپنے رب کی۔ تحقیق جو شریک ٹھہراتا ہے ساتھ اللہ کے تو یقینا حرام کر دی اللہ نے اوپر اس کے جنت اور اس کا ٹھکانا آگ ہےاور نہیں ہے ظالموں کے لیے کوئی مددگار(72) البتہ تحقیق کافر ہوئے وہ لوگ جنھوں نے کہا، بے شک اللہ تیسرا ہے تین میں سے اور نہیں کوئی معبود مگر معبود ایک۔ اور اگر وہ باز نہ آئے اس سے جو کہتے ہیں تو ضرور پہنچے گا، ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ان میں سے، عذاب دردناک(73) کیا پس نہیں توبہ کرتے طرف اللہ کی اور بخشش مانگتے اس سےاور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(74) نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر ایک رسول ہی، گزر چکے ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول اور ان کی ماں صدیقہ تھی، تھے وہ دونوں کھاتے کھانا۔ دیکھیے! کیسے ہم بیان کرتے ہیں ان کے لیے نشانیاں ، پھر دیکھیے! کہاں پھیرے جاتے ہیں وہ؟(75)
#
{72} يخبر تعالى عن كفر النصارى بقولهم: {إنَّ الله هو المسيح ابن مريم}: بشبهةِ أنه خرج من أمٍّ بلا أبٍ وخالف المعهود من الخلقة الإلهية، والحال أنه عليه الصلاة والسلام قد كذَّبهم في هذه الدعوى وقال لهم: {يا بني إسرائيل اعبدوا الله ربِّي وربَّكم}: فأثبت لنفسه العبوديَّة التامَّة ولربِّه الربوبيَّة الشاملة لكل مخلوق. {إنه مَن يشرِك بالله}: أحداً من المخلوقين لا عيسى ولا غيره، {فقد حرَّم الله عليه الجنة ومأواه النار}: وذلك لأنه سوَّى الخَلْق بالخالق، وصَرَفَ ما خلقه الله له، وهو العبادة الخالصة لغير من هي له، فاستحقَّ أن يخلد في النار. {وما للظَّالمين من أنصار}: ينقذونهم من عذاب الله، أو يدفعون عنهم بعضَ ما نزل بهم.
[72] اللہ تبارک و تعالیٰ نصاریٰ کے کفر کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ان کے اس قول کو نقل فرماتا ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْ٘مَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ﴾ ’’بے شک اللہ، وہی مسیح ابن مریم ہے‘‘ اس شبہہ کی وجہ سے کہ ان کو ان کی ماں نے بغیر باپ کے جنم دیا اور وہ تخلیق میں عادت الٰہی کے خلاف متولد ہوئے... دراں حالیکہ عیسیٰu نے خود ان کے اس دعوے کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ﴾ ’’اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا رب ہے‘‘ مسیحu نے اپنے لیے کامل عبودیت اور اپنے رب کے لیے کامل ربوبیت کا اثبات کیا ہے جو تمام مخلوق کو شامل ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّ٘شْ٘رِكْ بِاللّٰهِ ﴾ ’’جو کوئی مخلوق میں سے کسی کو بھی، (خواہ وہ عیسیٰu ہوں یا کوئی اور...) اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔‘‘﴿ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾ ’’تحقیق اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘ کیونکہ اس نے مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرا دیا اور اس چیز کو جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے تخلیق فرمایا۔۔، یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت.... اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھیر کر غیر اللہ کی طرف کر دیا... اس لیے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ ہمیشہ جہنم میں رہے ﴿ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ﴾ ’’اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہو گا‘‘ جو انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکیں یا ان سے اس مصیبت کو دور کر سکیں جو ان پر نازل ہوئی ہے۔
#
{73} {لقد كَفَرَ الذين قالوا إنَّ الله ثالث ثلاثة}: وهذا من أقوال النصارى المنصورة عندهم، زعموا أنَّ الله ثالث ثلاثة؛ الله، وعيسى، ومريم! تعالى الله عن قولهم علوًّا كبيراً، وهذا أكبر دليل على قلة عقول النصارى؛ كيف قَبِلوا هذه المقالة الشنعاء والعقيدة القبيحة؟! كيف اشتبه عليهم الخالق بالمخلوق؟! كيف خفي عليهم ربُّ العالمين؟! قال تعالى رادًّا عليهم وعلى أشباههم: {وما من إله إلَّا إلهٌ واحدٌ}: متصف بكل صفة كمال، منزَّه عن كل نقص، منفرد بالخلق والتدبير، ما بالخلق من نعمة إلاَّ منه؛ فكيف يُجْعَلُ معه إله غيره، تعالى الله عما يقولُ الظالمون علوًّا كبيراً. ثم توعدهم بقوله: {وإن لم يَنتَهُوا عمَّا يقولونَ لَيَمَسَّنَّ الذين كفروا منهم عذابٌ أليم}.
[73] ﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰ٘ثَةٍ﴾ ’’یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے‘‘ یہ نصاریٰ کا قول ہے جو ان کے ہاں متفق علیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے یعنی اللہ تعالیٰ، عیسیٰ اور مریم... اللہ ان کے قول باطل سے بالا و بلند تر ہے ... یہ نصاریٰ کی کم عقلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انھوں نے اس بدترین قول اور قبیح ترین عقیدے کو کیسے قبول کر لیا؟ ان پر خالق اور مخلوق کیسے مشتبہ ہو گئے؟ جہانوں کا رب ان پر کیسے مخفی رہ گیا؟ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان جیسے دیگر لوگوں کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ﴾ ’’اور نہیں ہے کوئی معبود مگر ایک ہی معبود‘‘ جو ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک ہے، وہ تخلیق و تدبیر کائنات میں متفرد ہے۔ مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔ پس اس کے ساتھ غیر اللہ کو کیسے معبود بنایا جا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّؔا یَقُوْلُوْنَ لَ٘یَ٘مَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ ’’اگر وہ اپنے اس عقیدے سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں انھیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا‘‘
#
{74} ثم دعاهم إلى التوبة عما صدر منهم، وبيَّن أنه يقبل التوبة عن عباده، فقال: {أفلا يتوبون إلى الله}؛ أي: يرجعون إلى ما يحبُّه ويرضاه من الإقرار لله بالتوحيد، وبأن عيسى عبد الله ورسوله، وعما كانوا يقولونه {ويَسْتَغْفِرونَه} عن ما صدر منهم، {والله غفورٌ رحيم}؛ أي: يغفر ذنوب التائبين، ولو بلغت عنان السماء، ويرحمهم بقبول توبتهم وتبديل سيئاتهم حسنات، وصدَّر دعوتهم إلى التوبة بالعرض الذي هو في غاية اللطف واللين في قوله: {أفلا يتوبونَ إلى الله}.
[74] پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں اس گناہ سے توبہ کرنے کی دعوت دی جو ان سے صادر ہوا اور بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ فرمایا: ﴿ اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’کیا پس وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے‘‘ یعنی وہ اپنی بات کو چھوڑ کر اس چیز کی طرف کیوں نہیں لوٹتے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور اس حقیقت کا اعتراف کہ عیسیٰu اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ ﴿ وَیَسْتَغْفِرُوْنَهٗ﴾ اور ان گناہوں کی بخشش کیوں نہیں مانگتے جو ان سے صادر ہوئے ہیں ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ تو بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کے گناہ بخش دیتا ہے خواہ وہ آسمان کی بلندیوں تک کیوں نہ پہنچے ہوئے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر کے ان پر رحم فرماتا ہے۔ ان کو توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے صادر ہوتی ہے جو لطف و کرم اور مہربانی کی انتہا ہے ﴿اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’کیا پس وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے۔‘‘
#
{75} ثم ذَكَرَ حقيقة المسيح وأمِّه الذي هو الحق، فقال: {ما المسيحُ ابن مريم إلَّا رسولٌ قد خَلَتْ من قَبْلِهِ الرُّسل}؛ أي: هذا غايته ومنتهى أمره؛ أنَّه من عباد الله المرسلين، الذين ليس لهم من الأمر ولا من التشريع إلا ما أرسلهم به الله، وهو من جنس الرسل قبله، لا مزية له عليهم تخرِجُه عن البشرية إلى مرتبة الرُّبوبية. {وأمُّه} مريم {صدِّيقةٌ}؛ أي: هذا أيضاً غايتُها أنْ كانت من الصِّدِّيقين الذين هم أعلى الخلق رتبةً بعد الأنبياء، والصديقيَّة هي العلم النافع المثمر لليقين والعمل الصالح، وهذا دليلٌ على أنَّ مريم لم تكن نبيَّةً، بل أعلى أحوالها الصِّديقيَّة، وكفى بذلك فضلاً وشرفاً، وكذلك سائر النساء، لم يكن منهنَّ نبيَّة؛ لأن الله تعالى جعل النبوَّة في أكمل الصنفين؛ في الرجال؛ كما قال تعالى: {وما أرسلنا مِن قَبْلِكَ إلاَّ رجالاً نُوحي إليهم}؛ فإذا كان عيسى عليه السلام من جنس الأنبياء والرسل من قبله، وأمه صدِّيقةٌ؛ فلأيِّ شيءٍ اتَّخذهما النَّصارى إلهين مع الله. وقوله: {كانا يأكلان الطعام}: دليلٌ ظاهر على أنهما عبدان فقيران محتاجان كما يحتاج بنو آدم إلى الطعام والشراب؛ فلو كانا إلهين؛ لاستَغْنَيا عن الطعام والشراب، ولم يحتاجا إلى شيءٍ؛ فإن الإله هو الغني الحميد. ولما بيَّن تعالى البرهان؛ قال: {انظرْ كيفَ نبيِّنُ لهم الآياتِ} الموضحةَ للحقِّ الكاشفة لليقين، ومع هذا لا تفيدُ فيهم شيئاً، بل لا يزالون على إفكهم وكَذِبِهم وافترائهم، وذلك ظلمٌ وعنادٌ منهم.
[75] پھر اللہ تعالیٰ نے جناب مسیحu اور ان کی والدہ ماجدہ کی حقیقت بیان فرمائی جو کہ حق ہے۔ فرمایا: ﴿ مَا الْ٘مَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ ’’نہیں ہیں مسیح بن مریم مگر ایک رسول ہی، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزرے‘‘ یعنی جناب مسیح کے معاملے کی غایت و انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں اور رسولوں میں سے ایک ہیں جن کو کسی معاملے میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ تشریع کا کوئی اختیار رکھتے ہیں سوائے اس چیز کے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو مبعوث فرمایا ہے۔ جناب مسیح بھی ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو دوسرے رسولوں پر کوئی ایسی فضیلت حاصل نہیں جو انھیں بشریت سے نکال کر ربوبیت کے مرتبے پر فائز کر دے ﴿ وَاُمُّهٗ ﴾ ’’اور ان کی ماں ‘‘ یعنی مریم[ ﴿ صِدِّیْقَةٌ﴾ ’’صدیقہ ہیں۔‘‘ یعنی جناب مریم[ کی بھی غایت و انتہا یہ ہے کہ صدیقین میں ان کا شمار ہوتا ہے جو انبیا و مرسلین کے بعد مخلوق میں سب سے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ۔ صدیقیت وہ علم نافع ہے جس کا ثمرہ یقین اور عمل صالح ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب مریم نبی نہ تھیں ۔ ان کا بلند ترین حال صدیقیت ہے اور فضیلت اور شرف کے لیے یہی کافی ہے۔ اسی طرح عورتوں میں سے کوئی عورت نبی مبعوث نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کامل تر صنف یعنی مردوں ہی میں رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ ﴾ (یوسف:12؍109) ’’اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘ جب حضرت عیسیٰu انبیا و مرسلین کی جنس میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ صدیقہ تھیں تو نصاریٰ نے کس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان دونوں کو بھی الٰہ قرار دے دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ كَانَا یَ٘اْكُ٘لٰ٘نِ الطَّعَامَ﴾ ’’وہ دونوں کھانا کھاتے تھے‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے فقیر اور محتاج بندے تھے جیسا کہ انسان کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں ۔ پس اگر جناب عیسیٰ اور مریمi الٰہ ہوتے تو وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوتے اور کسی چیز کے بھی محتاج نہ ہوتے۔ کیونکہ معبود بے نیاز اور قابل تعریف ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل اور برہان واضح کر دی تو فرمایا: ﴿اُنْ٘ظُ٘رْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’دیکھو ہم کیسے ان کے لیے آیات بیان کرتے ہیں ‘‘ جو حق کو واضح کرتی ہیں اور یقین کو منکشف کرتی ہیں بایں ہمہ انھیں کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی بلکہ وہ اپنی بہتان طرازیوں ، جھوٹ اور افترا پردازی پر بضد ہیں اور یہ ان کا ظلم اور عناد ہے۔
آیت: 76 #
{قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (76)}.
کہہ دیجیے! کیا تم عبادت کرتے ہو، اللہ کو چھوڑ کر، ایسی چیز کی جو نہیں اختیار رکھتی تمھارے لیے نقصان کا اور نہ نفع کااور اللہ وہی ہے خوب سننے والا خوب جاننے والا(76)
#
{76} أي: {قل} لهم أيُّها الرسول، {أتعبُدون من دونِ الله}: من المخلوقين الفقراء المحتاجين، مَنْ {لا يملِكُ لكم ضَرًّا ولا نفعاً}: وتَدَعون مَن انفردَ بالضُّرِّ والنفع والعطاء والمنع، {والله هو السميع}: لجميع الأصوات باختلاف اللغات على تفنُّن الحاجات، {العليم}: بالظَّواهر والبواطن والغيب والشهادة والأمور الماضية والمستقبلة؛ فالكامل تعالى الذي هذه أوصافه هو الذي يستحقُّ أن يُفْرَدَ بجميع أنواع العبادة، ويُخْلَصَ له الدِّين.
[76] ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسولe ان سے کہہ دیجیے ﴿ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ کیا تم اللہ کے سوا مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو محتاج اور فقیر ہیں ﴿ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا﴾ ’’جو تمھارے لیے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے‘‘ اور تم اس ہستی کو چھوڑ دیتے ہو جس اکیلی کے قبضۂ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور صرف وہی ہستی ہے جو عطا کرتی اور محروم کرتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ ﴾ ’’اور اللہ، وہی سننے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ مخلوق کے اختلافات زبان اور تنوع حاجات کے باوجود سب آوازیں سنتا ہے ﴿ الْعَلِیْمُ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ وہ ظاہر و باطن، غیب و شہادت اور ماضی اور مستقبل کے امور کو جانتا ہے۔ پس صاحب کمال ہستی جو ان اوصاف کی مالک ہے، وہی عبادت کی تمام انواع اور خالص اطاعت کی مستحق ہے۔
آیت: 77 - 81 #
{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (77) لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (78) كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (79) تَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (81)}.
کہہ دیجیے! اے اہل کتاب! نہ غلو کرو تم اپنے دین میں ناحق اور نہ پیروی کرو ان لوگوں کی خواہشات کی جو گمراہ ہو چکے اس سے پہلے اور گمراہ کیا انھوں نے بہت سوں کو اور بہک گئے وہ سیدھی راہ سے(77) لعنت کیے گئے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں سے، بہ زبان داود اور عیسیٰ ابن مریم کے یہ بہ سبب اس کے جو نافرمانی کی انھوں نے اور تھے وہ حد سے گزر جاتے(78) نہیں تھے وہ ایک دوسرے کو منع کرتے برے کام سے کہ کیا ہوتا انھوں نے وہ ، البتہ برا تھا جو تھے وہ کرتے(79) آپ دیکھیں گے بہتوں کو ان میں سے، وہ دوستی کرتے ہیں ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا۔ البتہ برا ہے جو آگے بھیجا ان کے لیے ان کے نفسوں نے، یہ کہ ناراض ہوا اللہ اوپر ان کے اور عذاب میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں (80)اور اگر ہوتے وہ ایمان لاتے اللہ پر اور نبی پر اور (اس پر) جو نازل کیا گیا اس کی طرف تو نہ بناتے ان (کافروں )کو دوست لیکن زیادہ لوگ ان میں سے فاسق ہیں (81)
#
{77} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {قل يا أهل الكتاب لا تَغْلوا في دينِكُم غير الحقِّ}؛ أي: لا تتجاوزوا، وتتعدُّوا، الحق إلى الباطل، وذلك كقولهم في المسيح ما تقدَّم حكايتُهُ عنهم، وكغلوِّهم في بعض المشايخ اتباعاً لأهواء {قوم قد ضَلُّوا من قبل}؛ أي: تقدم ضلالهم، {وأضلُّوا كثيراً}: من الناس بدعوتهم إيَّاهم إلى الدين الذي هم عليه، {وضلُّوا عن سواء السبيل}؛ أي: قصد الطريق، فجمعوا بين الضلال والإضلال، وهؤلاء هم أئمَّة الضَّلال الذين حَذَّرَ الله عنهم وعن اتِّباع أهوائهم المُرْدِيَة وآرائهم المضلَّة.
[77] اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیe سے فرمایا ہے ﴿ قُ٘لْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ ﴾ ’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو‘‘ یعنی حق سے تجاوز کر کے باطل میں نہ پڑو۔ ان کا یہ قول حضرت مسیح کے بارے میں ان کے اس قول کی مانند ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ یہ غلو بعض مشائخ کے بارے میں ان کے غلو کی مانند ہے۔ ایسا انھوں نے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے کیا، جن کی بابت کہا گیا تھا ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَؔآءَؔ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) گمراہ ہوئے اس سے پہلے۔‘‘ یعنی ان کی گمراہی سامنے آچکی ہے۔ ﴿وَاَضَلُّوْا كَثِیْرًا ﴾ ’’اور (دوسرے) بہت سوں کو گمراہ کیا۔‘‘ یعنی جس دین پر یہ کاربند ہیں اس کی طرف دعوت دے کر بہت سے لوگوں کو گمراہ کر چکے ہیں ﴿وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ﴾ ’’اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔‘‘ یعنی راہ اعتدال سے بھٹک گئے پس گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے، دونوں برائیوں کو انھوں نے جمع کر لیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ائمہ ضلالت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے اور ان کی مہلک خواہشات اور گمراہ کن آراء سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
#
{78} ثم قال تعالى: {لُعِنَ الذينَ كفروا من بني إسرائيل}؛ أي: طُردوا وأبعدوا عن رحمة الله، {على لسان داود وعيسى ابن مريم}؛ أي: بشهادتهما وإقرارهما بأن الحجَّة قد قامت عليهم وعاندوها. {ذلك}: الكفر واللعن {بما عَصَوا وكانوا يعتدون}؛ أي: بعصيانهم لله وظُلمهم لعباد الله صار سبباً لكفرِهم وبعدِهم عن رحمة الله؛ فإنَّ للذُّنوب والظُّلم عقوبات.
[78] ﴿ لُ٘عِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی گئی‘‘ یعنی ان کو دھتکار دیا گیا اور اللہ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ﴿ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ﴾ ’’داؤد اورعیسیٰ ابن مریم کی زبان پر‘‘ یعنی ان دونوں کی گواہی اور ان کے اقرار پر، بایں طور پر کہ ان پر حجت قائم ہو گئی اور انھوں نے اس حجت و دلیل سے عناد رکھا ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ کفر اور لعنت ﴿ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾ ’’اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘ یعنی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم کرتے تھے۔ یہ چیز ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب بن گئی کیونکہ گناہوں اور ظلم کی سزا ملتی ہے۔
#
{79} ومن معاصيهم التي أحَلَّت بهم المَثُلات وأوقعت بهم العقوبات أنَّهم {كانوا لا يَتَناهَوْنَ عن مُنكرٍ فعلوهُ}؛ أي: كانوا يفعلون المنكر ولا ينهى بعضُهم بعضاً، فيشترك بذلك المباشر وغيره، الذي سكت عن النهي عن المنكر مع قدرتِهِ على ذلك، وذلك يدلُّ على تهاوُنِهم بأمر الله، وأنَّ معصيتَه خفيفة عليهم؛ فلو كان لديهم تعظيمٌ لربِّهم؛ لغاروا لمحارمه، ولغضبوا لغضبه. وإنَّما كان السكوت عن المنكَرِ مع القدرة موجباً للعقوبة لما فيه من المفاسد العظيمة: منها: أنَّ مجرَّد السكوت فعلُ معصيةٍ، وإنْ لم يباشِرْها الساكتُ؛ فإنَّه كما يجب اجتناب المعصية؛ فإنَّه يجب الإنكار على مَنْ فَعَلَ المعصية. ومنها: ما تقدَّم أنه يدلُّ على التهاون بالمعاصي وقلة الاكتراث بها. ومنها: أنَّ ذلك يجرِّئ العصاة والفسقة على الإكثار من المعاصي إذا لم يردعوا عنها، فيزداد الشرُّ وتعظُم المصيبة الدينيَّة والدنيويَّة، ويكون لهم الشوكة والظهور، ثم بعد ذلك يضعُفُ أهل الخير عن مقاومة أهل الشرِّ، حتى لا يقدرون على ما كانوا يقدرون عليه أولاً. ومنها: أن في ترك الإنكار للمنكر يندرِسُ العلم ويكثُرُ الجهل؛ فإنَّ المعصية مع تكرُّرها وصدورها من كثير من الأشخاص وعدم إنكار أهل الدين والعلم لها يُظَنُّ أنها ليست بمعصية، وربما ظنَّ الجاهل أنها عبادة مستحسنة، وأيُّ مفسدةٍ أعظم من اعتقاد ما حرَّم الله حلالاً وانقلاب الحقائق على النفوس ورؤية الباطل حقًّا؟! ومنها: أنَّ السُّكوتَ على معصية العاصين ربَّما تزيَّنت المعصية في صدور الناس، واقتدى بعضُهم ببعضٍ؛ فالإنسان مولعٌ بالاقتداء بأضرابِهِ وبني جنسه ... ومنها ومنها ... فلما كان السكوت عن الإنكار بهذه المثابة؛ نصَّ الله تعالى أن بني إسرائيل الكفار منهم لَعَنَهم بمعاصيهم واعتدائهم، وخصَّ من ذلك هذا المنكر العظيم: {لبئس ما كانوا يَفْعَلونَ}.
[79] ان کے وہ گناہ جن کی وجہ سے ان پر سزا ضروری ٹھہری اور جن کی بنا پر ان پر عقوبات واقع ہوئیں ، یہ تھے کہ وہ ﴿ كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْؔكَرٍ فَعَلُوْهُ﴾ ’’برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔‘‘ یعنی وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور برائیوں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ پس وہ لوگ جو برائی کرتے تھے اور وہ جو برائی نہیں کرتے تھے مگر قدرت رکھنے کے باوجود برائی سے روکتے نہیں تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اسی مشترک سزا کے مستحق قرار پائے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو حقیر سمجھتے تھے اور گناہ کا ارتکاب ان کے لیے بہت معمولی بات تھی۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرتے تو اس کے محارم کی ہتک پر انھیں غیرت آتی اور اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے پر وہ بھی ناراض ہوتے۔ اور قدرت ہونے کے باوجود برائی پر خاموش رہنا اور اس پر نکیر نہ کرنا، سزا کا موجب ہے کیونکہ اس میں بہت بڑے مفاسد پنہاں ہیں : ، مثلاً: (۱) برائی پر سکوت اختیار کرنا بذات خود برائی ہے خواہ سکوت اختیار کرنے والا خود برائی میں ملوث نہ ہو۔ اس لیے کہ جس طرح معصیت سے اجتناب فرض ہے اسی طرح برائی کے مرتکب پر نکیر کرنا ضروری ہے۔ (۲) جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ یہ چیز گناہوں کو معمولی سمجھنے اور ان کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ (۳) اس طرح فساق و فجار میں کثرت سے گناہ کرنے کی جرأ ت بڑھ جاتی ہے۔ جب ان کو گناہوں سے روکا نہ جائے تو شر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دینی اور دنیاوی مصائب بڑھ جاتے ہیں اور شوکت و غلبہ شریر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اہل خیر کمزور پڑ جاتے ہیں اور وہ اہل شر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ انھیں اتنی سی قدرت بھی حاصل نہیں رہتی جتنی ابتدا میں تھی۔ (۴) منکر پر نکیر ترک کرنے سے علم مٹ جاتا ہے اور جہالت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جب معصیت بہت سے لوگوں سے بتکرار صادر ہوتی ہے اور اس پر اہل علم اور اہل دین لوگوں کی طرف سے نکیر نہیں ہوتی تو اس کے بارے میں گمان گزرتا ہے کہ یہ معصیت نہیں ، بسا اوقات جاہل لوگ اسے مستحسن عبادت سمجھ لیتے ہیں ۔ اس سے بڑی کونسی برائی ہو سکتی ہے کہ کسی ایسی چیز کو حلال قرار دے دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ نفوس پر حقائق بدل جائیں اور انھیں باطل حق نظر آنے لگے۔ (۵) نافرمان لوگوں کی معصیت پر سکوت سے بسا اوقات معصیت لوگوں کے دلوں میں مزین ہو جاتی ہے اور برائی میں لوگ ایک دوسرے کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ انسان اپنے گروہ اور ابنائے جنس کی پیروی کا شیفتہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ برائیوں پر سکوت کی جزا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے منصوص فرمایا کہ کفار بنی اسرائیل انھی لوگوں میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی اور تعدی کی بنا پر ان پر لعنت کی اور ان برائیوں میں سے اس برائی کو مخصوص کیا ﴿ لَ٘بِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’البتہ برا ہے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
#
{80} {ترى كثيراً منهم يَتَوَلَّوْنَ الذين كفروا}: بالمحبَّة والموالاة والنصرة، {لبئس ما قدَّمَتْ لهم أنفسُهم}: [هذه] البضاعة الكاسدة والصفقة الخاسرة، وهي سَخَط الله الذي يسخط لِسَخَطِهِ كلُّ شيء والخلود الدائم في العذاب العظيم؛ فقد ظلمتهم أنفسهم حيث قدمت لهم هذا النزل غير الكريم، وقد ظلموا أنفسهم إذ فوَّتوها النعيم المقيم.
[80] ﴿ تَرٰى كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر کافروں کو دوست رکھتے ہیں ‘‘ یعنی ان کے ساتھ محبت اور موالات رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں ﴿ لَ٘بِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ ﴾ ’’برا ہے وہ جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا‘‘ یعنی انھوں نے گھٹیا مال پیش کیا اور خسارے کا سودا کیا... اور یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضی جس کے ناراض ہونے سے کائنات کی ہر چیز ناراض ہو جاتی ہے اور جس کی ناراضی کا نتیجہ عذاب عظیم میں خلود اور دوام ہے۔ پس ان کے نفسوں نے ان پر ظلم کیا کہ انھوں نے یہ بری مہمانی آگے بھیجی اور انھوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انھوں نے انھیں ہمیشہ رہنے والی نعمت سے محروم کر دیا۔
#
{81} {ولو كانوا يؤمنون باللهِ والنبيِّ وما أُنزِلَ إليه ما اتَّخذوهم أولياءَ}؛ فإنَّ الإيمان بالله وبالنبيِّ وما أُنزِلَ إليه يوجب على العبد موالاة ربِّه وموالاة أوليائه ومعاداة من كفر به وعاداه وأوضع في معاصيه؛ فشرط ولاية الله والإيمان به أن لا يَتَّخِذَ أعداء الله أولياء، وهؤلاء لم يوجَدْ منهم الشرطُ، فدلَّ على انتفاء المشروط. {ولكن كثيراً منهم فاسقون}؛ أي: خارجون عن طاعة الله والإيمان به وبالنبيِّ، ومن فسقهم موالاة أعداء الله.
[81] ﴿ وَلَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِیِّ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّؔخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ ﴾ ’’اگر وہ اللہ پر، پیغمبر پر اور اس کتاب پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے، ایمان رکھتے تو ان کو دوست نہ بناتے۔‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ، نبیe اور کتاب اللہ پر ایمان بندے پر واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اپنے رب اور اس کے اولیا کے ساتھ موالات رکھے اور ان لوگوں سے عداوت رکھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اور اس سے عداوت رکھی اور اس کی نافرمانیوں میں پڑ گئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور موالات اور اس پر ایمان کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو دوست نہ بنایا جائے۔ چونکہ ان میں مطلوبہ شرط موجود نہیں اس لیے یہ چیز مشروط کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا ﴿ وَلٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ’’لیکن ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اس پر اور اس کے نبیe پر ایمان کے دائرے سے خارج ہیں اور ان کے فسق میں سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے موالات رکھتے ہیں ۔
آیت: 82 - 86 #
ثم قال تعالى: {لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (82) وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (83) وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ (84) فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (85) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (86)}.
یقینا پائیں گے آپ سخت ترین سب لوگوں سے، عداوت میں ، واسطے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، یہود کو اور ان کو جنھوں نے شرک کیا اور یقینا پائیں گے آپ قریب ترین ان (سب) سے دوستی میں ، واسطے ان کے جو ایمان لائے، ان کو جنھوں نے کہا، بے شک ہم نصاریٰ ہیں یہ اس سبب سے کہ بے شک ان میں کچھ پڑھے ہوئے ہیں اور کچھ زاہد اور یہ کہ وہ نہیں تکبر کرتے(82) اور جب سنا انھوں نے جو نازل کیا گیا رسول کی طرف تو دیکھتے ہیں آپ ان کی آنکھوں کو، بہتی ہیں آنسوؤں سے، اس وجہ سے کہ پہچان لیا انھوں نے حق کو، کہتے ہیں وہ، اے ہمارے رب! ایمان لائے ہم، پس لکھ لے تو ہمیں ساتھ شہادت دینے والوں کے(83) اور کیا ہے ہمیں کہ نہ ایمان لائیں ہم اللہ پراور (اس پر) جو آیا ہمارے پاس حق؟ اور ہم توقع رکھتے ہیں یہ کہ داخل کرے گا ہمیں ہمارا رب ساتھ قوم صالحین کے(84) پس بدلے میں دے گا ان کو اللہ بوجہ اس کے جو انھوں نے کہا، ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں اور یہ جزا ہے نیکی کرنے والوں کی(85) اور جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، یہ لوگ ہیں دوزخ والے(86)
#
{82} يقول تعالى في بيان أقرب الطائفتين إلى المسلمين وإلى ولايتهم ومحبَّتهم وأبعدهم من ذلك: {لتجدنَّ أشدَّ الناس عداوةً للذين آمنوا اليهود والذين أشركوا}: فهؤلاء الطائفتان على الإطلاق أعظم الناس معاداةً للإسلام والمسلمين وأكثرهم سعياً في إيصال الضَّرر إليهم، وذلك لشدة بغضهم لهم بغياً وحسداً وعناداً وكفراً. {ولتجدنَّ أقربهم مودَّة للذين آمنوا الذين قالوا إنا نصارى}: وذكر تعالى لذلك عدة أسباب: منها: أنَّ فيهم {قِسِّيسين ورُهباناً}؛ أي: علماء متزهِّدين وعباداً في الصوامع متعبِّدين، والعلم مع الزُّهد وكذلك العبادة مما يلطف القلب، ويرقِّقه، ويُزيل عنه ما فيه من الجفاء والغِلظة؛ فلذلك لا يوجد فيهم غلظة اليهود وشدة المشركين. ومنها: {أنهم لا يستكبرون}؛ أي: ليس فيهم تكبُّرٌ ولا عتوٌّ عن الانقياد للحقِّ، وذلك موجبٌ لقربهم من المسلمين ومن محبَّتهم؛ فإنَّ المتواضع أقرب إلى الخير من المستكبر.
[82] اللہ تعالیٰ اس گروہ کے بارے میں بیان فرماتا ہے جو محبت اور موالات میں مسلمانوں کے زیادہ قریب ہے اور دوسرا محبت اور موالات میں ان سے زیادہ دور ہے ﴿ لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْ٘یَهُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا﴾ ’’آپ پائیں گے سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا، یہودیوں کو اور مشرکوں کو‘‘ یہ دو گروہ علی الاطلاق اسلام اور مسلمانوں سے سب سے زیادہ عداوت اور ان کو نقصان پہنچانے کے لیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف شدید بغض و حسد اور سخت کفر و عناد رکھتے ہیں ۔ ﴿ وَلَتَجِدَنَّ اَ٘قْ٘رَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَ٘صٰرٰى﴾ ’’اور آپ پائیں گے سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے، ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مودت و محبت کے متعدد اسباب ذکر فرمائے ہیں : (۱)﴿ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًا ﴾ ’’یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی۔‘‘ یعنی ان کے اندر علماء، زہاد اور گرجاؤں میں عبادت کرنے والے عباد ہیں ۔ کیونکہ زہد کے ساتھ علم اور اسی طرح عبادت کے ساتھ علم یہ ایسی چیز ہے جو قلب کو لطیف اور رقیق بنا دیتی ہے اور اس کے اندر موجود سختی اور جفا کشی کو زائل کر دیتی ہے۔ بنابریں ان کے اندر یہود کی سختی اور مشرکین کی سی شدت نہیں پائی جاتی۔ (۲) ﴿ وَّاَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ ’’اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ان کے اندر اتباع حق کے بارے میں تکبر اور سرکشی نہیں پائی جاتی۔ اور یہ چیز مسلمانوں سے ان کی قربت اور محبت کا باعث ہے کیونکہ متواضع اور منکسر المزاج شخص، متکبر کی نسبت بھلائی کے زیادہ قریب ہے۔
#
{83} ومنها: أنهم {إذا سمعوا ما أنزِل} على محمد - صلى الله عليه وسلم -؛ أثَّر ذلك في قلوبهم وخشعوا له وفاضت أعينُهم بحسب ما سمِعوا من الحقِّ الذي تيقَّنوه؛ فلذلك آمنوا وأقرُّوا به، فقالوا: {ربَّنا آمنَّا فاكتُبْنا مع الشَّاهدين}: وهم أمة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ يشهدونَ لله بالتوحيد، ولرسله بالرسالة وصحَّة ما جاؤوا به، ويشهدون على الأمم السابقة بالتصديق والتكذيب، وهم عدولٌ، شهادتهم مقبولةٌ؛ كما قال تعالى: {وكذلك جعلناكم أمَّةً وسطاً لتكونوا شهداء على النَّاس ويكونَ الرسول عليكم شهيداً}.
[83] اس کا ایک سبب یہ بھی ہے ﴿ وَاِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ ﴾ ’’جب وہ اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو محمد رسول اللہe پر نازل کی گئی‘‘ تو یہ کتاب ان کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور وہ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے اس حق کے سننے کے مطابق جس پر وہ یقین لائے ہیں ، آنسو جاری ہو جاتے ہیں ، پس اسی لیے وہ ایمان لے آئے اور اس کا اقرار کیا اور کہا: ﴿ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، پس تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے۔‘‘اور یہ محمدe کی امت کے لوگ ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسولوں کی رسالت اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں ، اس کی صحت کی گواہی دیتے ہیں ۔ نیز تصدیق و تکذیب کے ذریعے سے گزشتہ امتوں کی گواہی دیتے ہیں ۔ وہ عادل ہیں اور ان کی گواہی مقبول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰؔكُمْ اُمَّؔةً وَّسَطًا لِّتَكُ٘وْ٘نُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُ٘وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا﴾ (البقرۃ: 2؍143) ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔‘‘
#
{84} فكأنَّهم ليموا على إيمانِهِم ومسارعَتِهِم فيه، فقالوا: {وما لنا لا نؤمنُ بالله وما جاءنا من الحقِّ ونطمعُ أن يُدْخِلَنا ربُّنا مع القوم الصالحينَ}؛ أي: وما الذي يمنعُنا من الإيمان بالله؛ والحالُ أنَّه قد جاءنا الحقُّ من ربِّنا الذي لا يقبلُ الشكَّ والريب، ونحن إذا آمنَّا واتَّبعنا الحقَّ طَمِعنا أن يُدْخِلَنا اللهُ الجنَّة مع القوم الصالحين؛ فأيُّ مانعٍ يمنعنا؟! أليس ذلك موجباً للمسارعة والانقياد للإيمان وعدم التخلف عنه؟!
[84] گویا انھیں جب ان کے ایمان لانے اور ایمان میں ان کی سبقت پر ملامت کی گئی تو انھوں نے اس کے جواب میں کہا: ﴿ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَا جَآءَؔنَا مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَنَ٘طْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اور ہمیں کیا ہے کہ اللہ پر اور حق بات پر جو ہمارے پاس آئی ہے ایمان نہ لائیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ پروردگار ہم کو نیک بندوں کے ساتھ (بہشت میں ) داخل کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے ہمیں کون سی چیز مانع ہے۔ دراں حالیکہ ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے حق آ گیا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ جب ہم ایمان لے آئیں گے اور حق کی اتباع کریں گے، تب ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں کے زمرے میں شامل کرے گا۔ تب کونسی چیز ہمیں ایمان لانے سے روک سکتی ہے۔ کیا یہ چیز ایمان لانے میں جلدی کرنے اور ایمان لانے سے پیچھے نہ رہنے کی موجب نہیں ؟
#
{85} قال الله تعالى: {فأثابهم اللهُ بما قالوا}؛ أي: بما تفوَّهوا به من الإيمان ونَطَقوا به من التصديق بالحقِّ {جناتٍ تجري من تحتها الأنهارُ خالدين فيها، وذلك جزاء المحسنينَ}. وهذه الآيات نزلت في النصارى الذين آمنوا بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - كالنجاشيِّ وغيره ممَّن آمن منهم، وكذلك لا يزال يوجد فيهم من يختارُ دينَ الإسلام، ويتبيَّن له بطلان ما كانوا عليه وهم أقربُ من اليهود والمشركين إلى دين الإسلام.
[85] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا ﴾ ’’پس اللہ نے ان کو ان کے کہنے پر بدلہ دیا‘‘ یعنی انھوں نے ایمان لانے کی بات کی، نطق زبان سے ایمان کا اقرار کیا اور حق کی تصدیق کی ﴿ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’باغات کا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے نیکو کاروں کا۔‘‘یہ آیات کریمہ ان عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو حضرت محمد مصطفیe پر ایمان لے آئے تھے۔ ، مثلاً: نجاشی اور دیگر ایمان لانے والے عیسائی۔ اسی طرح ان کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے رہیں گے جو دین اسلام کو اختیار کریں گے اور ان پر اپنے دین کا بطلان واضح ہوتا رہے گا۔ یہ لوگ یہودیوں اور مشرکین سے اسلام کے زیادہ قریب ہیں ۔
#
{86} ولما ذكر ثواب المحسنين؛ ذكر عقاب المسيئين، قال: {والذين كفروا وكذَّبوا بآياتنا أولئك أصحابُ الجحيم}؛ لأنَّهم كفروا بالله وكذَّبوا بآياته المبيِّنة للحقِّ.
[86] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں کے لیے ثواب کا ذکر فرمایا تو برائی کرنے والوں کے لیے عذاب کا ذکر کیا۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، یہی لوگ جہنمی ہیں ‘‘ کیونکہ انھوں نے کفر کیا اور حق کو واضح کرنے والی آیات کی تکذیب کی۔
آیت: 87 - 88 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (87) وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ (88)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت حرام ٹھہراؤ وہ پاکیزہ چیزیں جن کو حلال کیا اللہ نے تمھارے لیےاور نہ حد سے گزرو یقینا اللہ نہیں پسند کرتا حد سے گزرنے والوں کو(87) اور کھاؤ اس میں سے جو رزق دیا تمھیں اللہ نے حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے، جس پر تم ایمان رکھتے ہو(88)
#
{87} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تحرِّموا طيبِّات ما أحلَّ الله لكم}: من المطاعم والمشارب؛ فإنَّها نِعَمٌ أنعم الله بها عليكم؛ فاحْمَدوه إذ أحلَّها لكم واشكُروه، ولا تَرُدُّوا نعمته بكفرها، أو عدم قبولها، أو اعتقاد تحريمها، فتجمعون بذلك بين القولِ على اللهِ الكذبَ وكفر النعمة، واعتقاد الحلال الطيِّب حراماً خبيثاً؛ فإنَّ هذا من الاعتداء، والله قد نهى عن الاعتداء، فقال: {ولا تعتدوا إنَّ الله لا يحبُّ المعتدينَ}، بل يُبْغِضُهم ويمقُتُهم، ويعاقِبُهم على ذلك.
[87] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰؔتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ ’’اے ایمان والو! جن پاکیزہ چیزوں کو اللہ نے تمھارے لیے حلال کیا ہے، تم انھیں حرام مت کرو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ماکولات و مشروبات میں جو چیزیں حلال ٹھہرا رکھی ہیں ، انھیں حرام نہ ٹھہراؤ۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو اس نے تمھیں عطا کی ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو کیونکہ اس نے تمھارے لیے ان نعمتوں کو حلال ٹھہرایا اور اس کا شکر ادا کرو۔ کفران نعمت، عدم قبول اور ان کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے ان نعمتوں کو نہ ٹھکراؤ۔ ورنہ تم اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی، کفران نعمت اور حلال کو حرام اور ناپاک قرار دینے کے مرتکب ٹھہرو گے… اور یہ حد سے تجاوز ہے اور اللہ تعالیٰ نے حد سے بڑھنے سے منع فرمایا ہے ﴿ وَلَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ ’’اور حد سے نہ بڑھو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ بلکہ ان سے ناراض ہو تا ہے اور اس پر ان کو سزا دے گا۔
#
{88} ثم أمر بضدِّ ما عليه المشركون الذين يحرِّمون ما أحلَّ الله فقال: {وكُلوا مما رَزَقَكُمُ الله حلالاً طيِّباً}؛ أي: كُلوا من رزقِهِ الذي ساقه إليكم بما يسَّره من الأسباب إذا كان حلالاً لا سرقةً ولا غصباً ولا غير ذلك من أنواع الأموال التي تؤخذ بغير حقٍّ، وكان أيضاً طيباً، وهو الذي لا خبث فيه، فخرج بذلك الخبيث من السباع والخبائث. {واتقوا الله}: في امتثال أوامره واجتناب نواهيه، {الذي أنتم به مؤمنونَ}؛ فإنَّ إيمانكم بالله يوجِبُ عليكُم تقواه ومراعاة حقِّه؛ فإنَّه لا يتمُّ إلاَّ بذلك. ودلَّت الآية الكريمة على أنه إذا حَرَّمَ حلالاً عليه من طعام وشرابٍ وسريةٍ وأمةٍ ونحو ذلك؛ فإنَّه لا يكون حراماً بتحريمه، لكن لو فعله؛ فعليه كفَّارة يمين؛ كما قال تعالى: {يا أيُّها النبيُّ لم تحرِّمُ ما أحلَّ الله لك ... } الآية؛ إلاَّ أنَّ تحريم الزوجة فيه كفارة ظهار، ويدخل في هذه الآية أنه لا ينبغي للإنسان أن يتجنَّب الطيِّبات ويحرمَها نفسه، بل يتناولها مستعيناً بها على طاعة ربِّه.
[88] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کے طریقے کے برعکس جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا، حکم دیا ﴿ وَؔكُلُوْا مِمَّؔا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰ٘لًا﴾ ’’اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تمھیں دی ہے اسے کھاؤ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس رزق میں سے کھاؤ جو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے تمھاری طرف بھیجا ہے جو تمھیں میسر ہیں ۔ بشرطیکہ یہ رزق حلال ہو اور چوری یا غصب شدہ وغیرہ مال میں سے نہ ہو جو ناحق حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ نیز وہ پاک بھی ہو، یعنی اس میں کوئی ناپاکی نہ ہو۔ اس طرح درندے اور دیگر ناپاک چیزیں اس دائرے سے نکل جاتی ہیں ۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی منہیات کے اجتناب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’وہ اللہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان تم پر تقویٰ اور حقوق اللہ کی رعایت و حفاظت واجب کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال چیز ، مثلاً: ماکولات، مشروبات یا لونڈی وغیرہ کو حرام ٹھہرا لیتا ہے تو یہ چیز اس کے حرام ٹھہرا لینے سے حرام نہیں ہو جاتی، البتہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو قسم کا کفارہ واجب ہو جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ (التحریم: 66؍1) ’’اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے۔‘‘مگر بیوی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے سے ظہار کا کفارہ لازم آئے گا۔( اس مسئلے میں کافی اختلاف ہے‘ ایک رائے یہ بھی ہے جس کا اظہارفاضل مفسر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے‘ دوسری رائے یہ ہے کہ اس میں کفارۂ یمین ہے (اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے‘ واللہ اعلم) اور تیسری رائے ہے کہ اس میں سرے سے کوئی کفارہ ہی نہیں ہے۔ امام ابن قیم اور امام ابن کثیر کا رجحان دوسری رائے کی طرف اور امام شوکانی کا تیسری رائے کی طرف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے تفسیر فتح القدیر‘ آیت زیر بحث۔ زاد المعاد، ج : 5؍ 302۔312، فتح الباري، کتاب الطلاق، والروضۃ الندیۃ، ج : 2، کتاب الطلاق وغیرھا من الکتب ( ص ۔ ی) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ پاک چیزوں سے اجتناب کرے اور انھیں اپنے آپ پر حرام ٹھہرا لے بلکہ وہ انھیں استعمال کرے اور اس طرح اطاعت الٰہی پر ان سے مدد لے۔
آیت: 89 #
{لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (89)}.
نہیں مؤاخذہ کرے گا تمھارا اللہ تمھاری لغو قسموں پر لیکن وہ مؤاخذہ کرے گا تمھارا ان پر جو مضبوط باندھیں تم نے قسمیں ، پس کفارہ اس کا، کھانا کھلانا ہے دس مسکینوں کو اوسط درجے کا، جو کھلاتے ہو تم اپنے اہل و عیال کو یا کپڑے پہنانا ہے انھیں یا آزاد کرنا ایک گردن کا، پس جو نہ پائے تو روزے رکھنے ہیں تین دن کے۔ یہ کفارہ ہے تمھاری قسموں کا، جب قسم کھا بیٹھو تم اور حفاظت کرو تم اپنی قسموں کی۔ اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں تاکہ تم شکر کرو(89)
#
{89} أي: في أيمانكم التي صدرت على وجه اللغو، وهي الأيمان التي حلف بها المقسم من غير نيَّة ولا قصدٍ، أو عقدها يظنُّ صدقَ نفسه، فبان بخلاف ذلك، {ولكن يؤاخذكم بما عقَّدتم الأيمان}؛ أي: بما عزمتم عليه وعقدت عليه قلوبكم؛ كما قال في الآية الأخرى: {ولكن يؤاخِذُكُم بما كَسَبَتْ قلوبُكم}، {فكفَّارتُهُ}؛ أي: كفارة اليمين الذي عقدتموها بقصدكم: {إطعام عشرة مساكين}، وذلك الإطعام {من أوسط ما تُطْعِمون أهليكم أو كسوتهم}؛ أي: كسوة عشرة مساكين، والكسوة هي التي تجزي في الصلاة، {أو تحرير رقبة}؛ [أي: عتق رقبة] مؤمنةٍ؛ كما قُيِّدت في غير هذا الموضع؛ فمتى فعل واحداً من هذه الثلاثة؛ فقد انحلَّت يمينه. {فمن لم يجِدْ} واحداً من هذه الثلاثة، {فصيام ثلاثة أيَّام ذلك}: المذكور {كفارة أيمانكم إذا حلفتم}: تكفِّرها وتمحوها وتمنع من الإثم، {واحفظوا أيمانَكم}: عن الحلف بالله كاذباً وعن كثرة الأيمان، واحفظوها إذا حلفتم عن الحِنْث فيها؛ إلا إذا كان الحِنْث خيراً؛ فتمام الحفظ أن يفعل الخير، ولا يكون يمينه عرضةً لذلك الخير. {كذلك يبيِّن الله لكم آياتِهِ}: المبيِّنة للحلال من الحرام، الموضِّحة للأحكام. {لعلَّكم تشكرون}: الله؛ حيث علَّمكم ما لم تكونوا تعلمون؛ فعلى العبد شكر الله تعالى على ما مَنَّ به عليه من معرفة الأحكام الشرعيَّة وتبيينها.
[89] یعنی تمھاری ان قسموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمھارا مواخذہ نہیں کرے گا جو تم سے لغو صادر ہوتی ہیں ۔ اس سے مراد وہ قسمیں ہیں جو انسان بغیر کسی نیت اور ارادے کے کھا لیتا ہے یا یہ سمجھتے ہوئے اٹھاتا ہے کہ وہ سچا ہے مگر معاملہ اس کے برعکس نکلتا ہے ﴿ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ﴾ ’’لیکن پکڑتا ہے ان قسموں پر جن کو تم نے مضبوط باندھا‘‘ یعنی جس کا تم عزم کر لیتے ہو اور تمھارے دل جس پر جم جاتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ﴾ (البقرۃ: 2؍225) ’’مگر وہ قسمیں جو تم دلی ارادے سے کھاتے ہو، ان پر تمھارا مواخذہ کرے گا۔‘‘ ﴿ فَؔكَـفَّارَتُهٗۤ ﴾ ’’تو اس کا کفارہ‘‘ یعنی ان قسموں کا کفارہ جو تم قصد اور ارادے سے کھاتے ہو ﴿ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ ﴾ ’’دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے‘‘ اور یہ کھانا ﴿ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ ﴾ ’’اوسط درجے کا کھانا جو تم کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو‘‘ ﴿ اَوْ كِسْوَتُهُمْ ﴾ ’’یا ان دس مسکینوں کو لباس پہنانا ہے‘‘ اور یہاں لباس سے مراد کم از کم اتنا لباس ہے جس سے نماز ہو جاتی ہے ﴿ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ﴾ ’’یا ایک گردن آزاد کرنی ہے‘‘ یعنی مومن غلام جیسا کہ بعض دیگر مقام پر اسے ایمان کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ جب ان مذکورہ تینوں صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کر لے تو اس کی قسم کا کفارہ ادا ہو جائے گا ﴿ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾ ’’اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔‘‘ یعنی جب کوئی ان تینوں صورتوں میں سے کسی پر بھی عمل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿ فَصِیَامُ ثَلٰ٘ثَةِ اَیَّامٍ﴾ ’’تو تین دن کے روزے رکھنے ہیں ‘‘ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ مذکورہ صورت ﴿ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ﴾ ’’تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو۔‘‘ یہ ان کو مٹا دیتا ہے اور گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔ ﴿ وَاحْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ﴾ ’’اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹے اور کثرت سے حلف اٹھانے سے اپنی قسموں کی حفاظت کرو اور جب تم حلف اٹھا ہی لو پھر ٹوٹنے سے اس کو بچاؤ۔ سوائے اس کے کہ قسم توڑنے میں کوئی بھلائی ہو۔ پس قسم کی کامل حفاظت یہ ہے کہ انسان بھلائی پر عمل کرے اور اس کی قسم بھلائی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ ﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیات‘‘ جو حلال و حرام کو بیان کرنے والی اور احکام کو واضح کرنے والی ہیں ﴿ لَعَلَّـكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ ’’شاید تم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو‘‘ کہ اس نے تمھیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔ پس بندۂ مومن پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے احکام شریعت کی معرفت اور ان کی توضیحات سے نوازا۔
آیت: 90 - 91 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90) إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (91)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یقینا شراب اور جوا اور بت اور فال نکالنے کے تیر ناپاک ہیں عمل سے ہیں شیطان کے، پس بچو تم اس سے تاکہ تم فلاح پاؤ(90) یقینا چاہتا ہے شیطان کہ ڈال دے تمھارے درمیان عداوت اور بغض شراب اور جوئے کے ذریعے سےاور روک دے تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے، پس کیا تم باز آتے ہو (ان شیطانی کاموں سے)؟ (91)
#
{90 ـ 91} يذمُّ تعالى هذه الأشياء القبيحة، ويخبر أنها من عمل الشيطان، وأنها رجس؛ {فاجتنبوه}؛ أي: اتركوه، {لعلَّكم تفلحون}؛ فإنَّ الفلاح لا يتمُّ إلاَّ بترك ما حرَّم الله، خصوصاً هذه الفواحش المذكورة، وهي الخمر، وهو كلُّ ما خامر العقل؛ أي: غطاه بسكره، والميسر، وهو جميع المغالَبات التي فيها عوض من الجانبين؛ كالمراهنة ونحوها، والأنصاب، وهي الأصنام والأنداد ونحوها مما يُنصب ويُعبد من دون الله، والأزلام التي [يستقسمون] بها. فهذه الأربعة نهى الله عنها، وزجر، وأخبر عن مفاسدها الداعية إلى تركها واجتنابها: فمنها: أنها رجسٌ؛ أي: نجس خبث معنى، وإن لم تكن نجسة حِسًّا، والأمور الخبيثة مما ينبغي اجتنابها وعدم التدنُّس بأوضارها. ومنها: أنها من عمل الشيطان الذي هو أعدى الأعداء للإنسان، ومن المعلوم أن العدوَّ يُحذر منه وتُحذر مصايده وأعماله، خصوصاً الأعمال التي يعملها ليوقع فيها عدوه؛ فإنها فيها هلاكه؛ فالحزم كلُّ الحزم البعد عن عمل العدوِّ المبين، والحذر منها، والخوف من الوقوع فيها. ومنها: أنه لا يمكن الفلاح للعبد إلاَّ باجتنابها؛ فإنَّ الفلاح هو الفوز بالمطلوب المحبوب والنجاة من المرهوب، وهذه الأمور مانعةٌ من الفلاح ومعوقةٌ له. ومنها: أنَّ هذه موجبة للعداوة والبغضاء بين الناس، والشيطانُ حريصٌ على بثِّها، خصوصاً الخمر والميسر؛ ليوقع بين المؤمنين العداوة والبغضاء فإنَّ في الخمر من انقلاب العقل وذهاب حجاه ما يدعو إلى البغضاء بينه وبين إخوانه المؤمنين، خصوصاً إذا اقترن بذلك من [السباب] ما هو من لوازم شارب الخمر؛ فإنه ربما أوصل إلى القتل، وما في الميسر من غلبة أحدهما للآخر وأخذ ماله الكثير في غير مقابلة ما هو من أكبر الأسباب للعداوة والبغضاء. ومنها: أنَّ هذه الأشياء تصدُّ القلب ويَتْبَعُه البدن عن ذكر الله وعن الصلاة اللذين خُلِقَ لهما العبد وبهما سعادتُهُ؛ فالخمرُ والميسر يصدَّانه عن ذلك أعظم صدٍّ، ويشتغل قلبه ويذهل لبُّه في الاشتغال بهما، حتى يمضيَ عليه مدة طويلة وهو لا يدري أين هو؛ فأيُّ معصية أعظم وأقبح من معصيةٍ تدنِّسُ صاحبَها، وتجعلُه من أهل الخبث، وتوقِعُه في أعمال الشيطان وشباكِهِ فينقاد له كما تنقادُ البهيمة الذَّليلة لراعيها، وتحول بين العبد وبين فلاحه، وتوقع العداوة والبغضاء بين المؤمنينَ، وتصدُّ عن ذِكْرِ الله وعن الصَّلاة؛ فهل فوق هذه المفاسد شيء أكبر منها؟! ولهذا عرض تعالى على العقول السليمة النهي عنها عرضاً بقوله: {فهل أنتم منتهون}؛ لأنَّ العاقل إذا نَظَرَ إلى بعض تلك المفاسد؛ انزجر عنها، وكفَّت نفسُه، ولم يحتج إلى وعظٍ كثيرٍ ولا زجرٍ بليغ.
[91,90] اللہ تبارک و تعالیٰ ان مذکورہ قبیح اشیا کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ یہ شیطانی اور گندے کام ہیں ۔ ﴿ فَاجْتَنِبُوْهُ ﴾ ’’پس بچو ان سے‘‘ یعنی ان گندے کاموں کو چھوڑ دو ﴿ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘ کیونکہ فلاح اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان چیزوں سے اجتناب نہ کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ خاص طور پر مذکورہ فواحش : (الف) خمر : ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل کو ڈھانپ لے، یعنی عقل پر نشے کا پردہ ڈال دے۔ (ب) جوا : وہ تمام مقابلے جن میں جانبین کی طرف سے جیتنے والے کے لیے عوض مقرر کیا گیا ہو ، مثلاً: گھوڑ دوڑ وغیرہ کی شرط۔ (ج) انصاب : اس سے مراد وہ بت وغیرہ ہیں جن کو نصب کر دیا جاتا ہے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جاتی ہے۔ (د) پانسے : جن کے ذریعے سے لوگ اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں ۔ یہ وہ چار چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور ان کے ارتکاب پر زجر و توبیخ کی ہے اور ان کے مفاسد سے آگاہ فرمایا جو ان کو ترک کرنے اور ان سے اجتناب کے داعی ہیں ۔ (۱) یہ تمام امور (رجس) یعنی ناپاک ہیں ۔ اگرچہ حسی طور پر یہ ناپاک نہیں مگر معنوی طور پر ناپاک ہیں اور ناپاک امور سے بچنا اور ان کی گندگی میں ملوث ہونے سے اجتناب کرنا ہی مناسب ہے۔ (۲) یہ تمام امور شیطانی اعمال ہیں اور شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دشمن سے ہمیشہ دور رہا جاتا ہے اور اس کی گھاتوں اور سازشوں سے بچا جاتا ہے، خاص طور پر ان اعمال سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں دشمن ملوث کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور سب سے بڑی احتیاط یہ ہے کہ اپنے کھلے دشمن کے اعمال سے دور رہ کر اس سے بچنا چاہیے اور ان اعمال میں پڑنے سے ڈرنا چاہیے۔ (۳) ان مذکورہ امور سے اجتناب کیے بغیر بندے کی فلاح ممکن نہیں ۔ فلاح، امر مطلوب کے حصول میں کامیابی اور امر مرہوب سے نجات کا نام ہے اور یہ تمام امور فلاح سے مانع اور اس کے لیے رکاوٹ ہیں ۔ (۴) یہ مذکورہ اعمال لوگوں کے درمیان بغض اور عداوت کے موجب ہیں ۔ شیطان ان اعمال کو لوگوں کے درمیان پھیلانے کا بڑا حریص ہے، خاص طور پر شراب اور جوا۔ تاکہ وہ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بو سکے۔ کیونکہ شراب پینا، عقل میں فتور آنے کا، ہوش و حواس کے چلے جانے کا اور مومن بھائیوں کے درمیان بغض اور عداوت کا سبب بنتا ہے خاص طور پر جبکہ اس کے ساتھ وہ اسباب بھی مقرون ہوں جو شراب پینے والے کے لوازم میں شمار ہوتے ہیں ۔ تب یہ شراب نوشی بسا اوقات قتل کے اقدام تک پہنچا دیتی ہے۔ جوئے میں ایک شخص کو جو دوسرے شخص پر جیت حاصل ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی مقابلہ کے بہت سا مال حاصل کر لیتا ہے تو یہ چیز بغض اور عداوت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (۵) یہ مذکورہ اعمال قلب کو ذکر الٰہی سے روکتے ہیں اور بدن کو ذکر اور نماز سے دور کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے لیے بندے کو تخلیق کیا گیا ہے اور انھی دو امور میں بندے کی سعادت ہے۔ شراب اور جوا تو ذکر الٰہی اور نماز کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قلب مشغول ہو جاتا ہے اور ذہن شراب اور جوئے میں مشغول ہو کر غافل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ طویل مدت اس پر گزر جاتی ہے اور انسان کو ہوش تک نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے۔ پس کون سا گناہ اس گناہ سے بڑھ کر قبیح ہے جو انسان کو ناپاک کر کے ناپاک لوگوں میں شامل کر دے اور وہ اسے شیطان کے اعمال، اس کے مکر و فریب کے جال میں پھنسا دے ۔اور وہ شیطان کا اس طرح مطیع ہو جائے جس طرح مویشی چرواہے کے مطیع ہوتے ہیں ۔ شیطان بندے اور اس کی فلاح کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بوتا ہے اور انھیں ذکر الٰہی اور نماز سے روکتا ہے۔ (کیا یہ مفاسد جو مذکور ہوئے، کم ہیں ) اور کیا ان مفاسد سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے جو ان سے بڑی ہو؟ بنابریں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم کو ان چیزوں سے روکتے ہوئے فرمایا ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ﴾ ’’کیا تم باز آتے ہو؟‘‘ کیونکہ ایک عقل مند شخص جب ان مفاسد میں سے کسی ایک پر نظر ڈالتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور اپنے آپ کو ان برائیوں کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ اسے کسی لمبے چوڑے وعظ اور بہت زیادہ زجر و توبیخ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
آیت: 92 #
{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (92)}.
اور اطاعت کرو تم اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ڈرو تم، پس اگر پھر جاؤ تم تو جان لو کہ ہمارے رسول پر تو صرف پہنچا دینا ہے کھول کر(92)
#
{92} طاعةُ الله وطاعةُ رسوله واحدة؛ فمن أطاع الله؛ فقد أطاع الرسول، ومن أطاع الرسول؛ فقد أطاع الله، وذلك شامل للقيام بما أمر الله به ورسوله من الأعمال والأقوال الظَّاهرة والباطنة، الواجبة والمستحبَّة، المتعلقة بحقوق الله وحقوق خلقه، والانتهاء عما نهى الله ورسوله عنه كذلك، وهذا الأمر أعمُّ الأوامر؛ فإنه كما ترى يدخُلُ فيه كلُّ أمرٍ ونهيٍ ظاهرٍ وباطنٍ. وقوله: {واحْذَروا}؛ أي: من معصية الله ومعصية رسوله؛ فإنَّ في ذلك الشر والخسران المبين. {فإنْ تَوَلَّيْتُم}: عما أمرتم به ونهيتم عنه، {فاعلموا أنَّما على رسولِنا البلاغُ المُبين}: وقد أدَّى ذلك؛ فإن اهتديتم؛ فلأنفسكم، وإن أسأتُم؛ فعليها، والله هو الذي يحاسبُكم، والرسولُ قد أدَّى ما عليه، وما حُمِّل به.
[92] اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسولe کی اطاعت ایک ہی چیز کا نام ہے جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ رسولe کی اطاعت کرتا ہے اور جو کوئی رسولe کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ یہ اطاعت اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کے احکام کی تعمیل کی جائے، یعنی ظاہری و باطنی اعمال و اقوال، حقوق اللہ اور حقوق مخلوق سے متعلق واجب اور مستحب اعمال بجا لائے جائیں ۔ اور اس امر کو متضمن ہے کہ ان امور سے اجتناب کیا جائے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسولe کی اطاعت کا حکم ایک عام حکم ہے جو تمام احکام کو شامل ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس میں تمام اوامر و نواہی اور ظاہر و باطن شامل ہیں ۔ فرمایا: ﴿ وَاحْذَرُوْا﴾ ’’اور ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی نافرمانی سے بچو کیونکہ یہ نافرمانی شر اور واضح خسارے کی موجب ہے ﴿ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ﴾ ’’پس اگر تم اعراض کرو‘‘ یعنی جس چیز کا تمھیں حکم دیا گیا اور جس چیز سے تمھیں روکا گیا ہے اگر تم اس کی تعمیل کرنے سے گریز کرو ﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ﴾ ’’تو جان لو کہ ہمارے رسول(e) کے ذمہ تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے‘‘ اور اس نے یہ فریضہ ادا کر دیا ہے۔ اگر تم راہ راست اختیار کرتے ہو تو اس کا فائدہ تمھارے لیے ہے اور اگر تم برائیوں کا ارتکاب کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمھارا محاسبہ کرے گا۔ رسولe کے ذمہ جو کچھ تھا وہ انھوں نے پہنچا دیا۔
آیت: 93 #
{لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (93)}.
نہیں ہے اوپر ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، کوئی گناہ اس چیز میں جو کھا چکے وہ، جب ڈر جائیں وہ اور ایمان لے آئیں اور عمل کریں نیک ، پھر تقویٰ اختیار کریں وہ اور ایمان لائیں ، پھر تقویٰ اختیار کریں وہ اور نیکی کریں اور اللہ محبت کرتا ہے نیکی کرنے والوں سے(93)
#
{93} لما نزل تحريم الخمر والنهي الأكيد والتشديد فيه؛ تمنَّى أناس من المؤمنين أن يعلموا حال إخوانهم الذين ماتوا على الإسلام قبل تحريم الخمر وهم يشربونها، فأنزل الله هذه الآية، وأخبر تعالى أنه {ليس على الذينَ آمنوا وعَمِلوا الصالحات جُناحٌ}؛ أي: حرج وإثم {فيما طَعِموا}: من الخمر والميسر قبل تحريمهما. ولما كان نفي الجُناح يشمل المذكورات وغيرها؛ قُيِّد ذلك بقوله: {إذا ما اتَّقَوا وآمنوا وعملوا الصالحات}؛ أي: بشرط أنَّهم تاركون للمعاصي مؤمنون بالله إيماناً صحيحاً موجباً لهم عمل الصالحات، ثم استمرُّوا على ذلك، وإلاَّ؛ فقد يتَّصف العبد بذلك في وقت دون آخر، فلا يكفي حتى يكون كذلك، حتى يأتيه أجله ويدوم على إحسانه؛ فإن الله يحبُّ المحسنين في عبادة الخالق المحسنين في نفع العبيد. ويدخل في هذه الآية الكريمة مَنْ طَعِمَ المحرَّم أو فعل غيره بعد التحريم ثم اعترف بذنبه، وتاب إلى الله، واتَّقى، وآمن وعمل صالحاً؛ فإنَّ الله يغفر له، ويرتفع عنه الإثم في ذلك.
[93] جب شراب کی تحریم، ممانعت کی تاکید اور اس کی بابت سخت حکم نازل ہوا تو بہت سے اہل ایمان کی خواہش تھی کہ انھیں اپنے ان مومن بھائیوں کے بارے میں معلوم ہو جو حالت اسلام میں فوت ہوئے اور شراب کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿لَ٘یْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ جُنَاحٌ ﴾ ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں ۔‘‘ یعنی ان پر گناہ اور حرج نہیں ہے ﴿ فِیْمَا طَعِمُوْۤا﴾ ’’اس میں جو کچھ پہلے کھا چکے‘‘ یعنی شراب اور جوئے کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے۔ چونکہ نفی حرج مذکورہ اشیا وغیرہ کو شامل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کو مقید فرمایا ﴿ اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’جبکہ وہ آئندہ کو ڈر گئے اور ایمان لائے اور نیک عمل کیے‘‘ یعنی اس شرط کے ساتھ کہ وہ گناہوں کو ترک کریں اللہ تعالیٰ پر ایسا صحیح ایمان رکھیں جو عمل صالح کا موجب ہوتا ہے، پھر اس پر ہمیشہ قائم رہیں .... ورنہ بندہ کبھی اس صفت سے متصف ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ یہ ایمان اس وقت تک کافی نہیں جب تک کہ اس پر دوام نہ ہو اور اسی حالت میں اس کو موت نہ آئے۔ نیز نیک اعمال پر اس کا دوام ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اچھے طریقے سے اپنے خالق کی عبادت کرنے والے نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے اور وہ بندوں کو نفع پہنچانے کو پسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ شخص بھی شامل ہے جو تحریم کے نازل ہونے کے بعد کوئی حرام کردہ چیز کھاتا ہے یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کرلیتا، تقویٰ اختیار کرلیتا ہے اور نیک کام کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور اس بارے میں اس کے گناہ کا بوجھ ہٹا دے گا۔
آیت: 94 - 96 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (94) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ (95) أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (96)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ، البتہ ضرور آزمائے گا تمھیں اللہ کچھ شکار سے کہ پہنچ سکتے ہیں اس تک تمھارے ہاتھ اور تمھارے نیزے تاکہ معلوم کر لے اللہ کہ کون ڈرتا ہے اس سے بن دیکھے؟ پس جو حد سے گزرے بعد اس کے، سو اس کے لیے عذاب ہے بہت دردناک(94) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ مارو تم شکار کو جبکہ تم احرام میں ہو اور جو کوئی مارے گا تم میں سے اس کو جان بوجھ کر تو بدلہ ہے (اس پر) مثل اس کے جو مارا اس نے، چوپاؤں سے، فیصلہ کریں گے اس کا دو انصاف والے تم میں سے، بطور قربانی کے پہنچنے والی کعبہ میں یا کفارہ ہے کھانا کھلانا کچھ مسکینوں کو یا برابر اس کے روزے رکھنے ہیں تاکہ چکھے وہ سزا اپنے کام کی۔ معاف کیا اللہ نے اس سے جو گزر چکااور جو کوئی پھر کرے تو انتقام لے گا اللہ اس سےاور اللہ غالب ہے انتقام لینے والا(95) حلال کیا گیا ہے تمھارے لیے شکار سمندر کا اور کھانا اس کا فائدے کے لیے تمھارے اور مسافروں کےاور حرام کیا گیا ہے تم پر شکار خشکی کا جب تک ہو تم احرام میں اور ڈرو تم اللہ سے، وہ جس کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے(96)
#
{94} هذا من مِنَنِ الله على عباده أن أخبرهم بما سيفعل قضاءً وقدراً ليطيعوه ويقدموا على بصيرة ويهلك من هلك عن بيِّنة ويحيا من حيَّ عن بيِّنة، فقال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}: لا بدَّ أن يَختبر الله إيمانكم، {لَيَبْلُوَنَّكم الله بشيءٍ من الصيد}؛ أي: شيء غير كثير، فتكون محنةً يسيرةً؛ تخفيفاً منه تعالى ولطفاً، وذلك الصيد الذي يبتليكم الله به {تنالُهُ أيديكم ورِماحُكم}؛ أي: تتمكَّنون من صيده؛ ليتمَّ بذلك الابتلاء؛ لا غير مقدور عليه بيد ولا رمح فلا يبقى للابتلاء فائدةٌ. ثم ذكر الحكمة في ذلك الابتلاء، فقال: {ليعلمَ اللهُ}: علماً ظاهراً للخَلْق يترتَّب عليه الثواب والعقاب، {مَن يخافُه بالغيب}: فيكفُّ عمَّا نهى الله عنه، مع قدرتِهِ عليه وتمكُّنه، فيثيبه الثواب الجزيل، ممَّن لا يخافه بالغيب، فلا يرتدع عن معصيةٍ تعرِض له، فيصطاد ما تمكَّن منه. {فمن اعتدى}: منكم بعد هذا البيان الذي قطع الحجج وأوضح السبيل، {فله عذابٌ أليمٌ}؛ أي: مؤلم موجع، لا يقدر على وصفه إلا الله؛ لأنه لا عذر لذلك المعتدي، والاعتبار بمن يخافه بالغيب وعدم حضور الناس عنده، وأما إظهار مخافة الله عند الناس؛ فقد يكون ذلك لأجل مخافة الناس، فلا يُثاب على ذلك.
[94] اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ان کو خبر دی ہے کہ وہ قضا و قدر کے اعتبار سے یہ فعل سرانجام دے گا۔ تاکہ وہ اس کی اطاعت کریں اور بصیرت کے ساتھ آگے آئیں اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اے ایمان والو!‘‘ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان کا امتحان لے ﴿ لَیَبْلُوَنَّـــكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ ﴾ ’’البتہ ضرور آزمائے گا تم کو اللہ ایک بات سے ایک شکار میں ‘‘ یعنی کسی زیادہ بڑی چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں نہیں آزمائے گا بلکہ اپنے لطف و کرم کی بنا پر تخفیف کرتے ہوئے بہت معمولی سی چیز کے ذریعے سے تمھارا امتحان لے گا۔ یہ شکار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمھیں آزمائے گا ﴿ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ ﴾ ’’جس پر پہنچتے ہیں تمھارے ہاتھ اور تمھارے نیزے‘‘ یعنی تم اس کے شکار پر متمکن ہوتے ہو تاکہ اس طرح آزمائش مکمل ہو جائے اگر ہاتھ یا نیزے کے ذریعے سے شکار قدرت و اختیار میں نہ ہو تو آزمائش کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آزمائش کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لِیَعْلَمَ اللّٰهُ ﴾ ’’تاکہ جان لے اللہ‘‘ یعنی ایسا جاننا جو مخلوق پر ظاہر ہو اور اس پر ثواب و عذاب مترتب ہوتا ہو ﴿مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ ﴾ ’’کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے۔‘‘ پس جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اس پر قدرت و اختیار ہونے کے باوجود وہ اس سے رک جاتا ہے تو وہ اسے بہت زیادہ اجر عطا فرماتا ہے، اس کے برعکس وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے غائبانہ طور پر ڈرتا نہیں اور اس کی نافرمانی سے باز نہیں آتا، اس کے سامنے شکار آجاتا ہے، اگر اس پر قابو پا سکتا ہے تو اس کو شکار کر لیتا ہے۔۔۔۔ ﴿فَ٘مَنِ اعْتَدٰؔى ﴾ ’’تو جو زیادتی کرے۔‘‘ یعنی تم میں سے جو کوئی حد سے تجاوز کرے گا ﴿ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’اس کے بعد‘‘ یعنی اس بیان کے بعد جس نے ہر قسم کی حجت کو باطل کر کے راستے کو واضح کر دیا ہے ﴿ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’پس اس کے لیے انتہائی دردناک عذاب ہے‘‘ جس کا وصف اللہ کے سوا کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے والے اس شخص کے لیے کوئی عذر نہیں ۔ اعتبار اس شخص کا ہے جو لوگوں کی عدم موجودگی میں غائبانہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ رہا لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خوف کا اظہار کرنا تو یہ کبھی کبھی لوگوں کے خوف کی وجہ سے بھی ہوتا ہے تب اس پر کوئی ثواب نہیں ۔
#
{95} ثم صَرَّحَ بالنهي عن قتل الصيد في حال الإحرام، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تقتلوا الصيد وأنتم حُرُم}؛ أي: محرمون في الحجِّ والعمرة، والنهي عن قتله يشمل النهي عن مقدِّمات القتل وعن المشاركة في القتل والدلالة عليه والإعانة على قتله، حتى أنَّ من تمام ذلك أنَّه ينهى المحرم عن أكل ما قُتِلَ أو صِيدَ لأجله، وهذا كلُّه تعظيم لهذا النُّسك العظيم؛ أنَّه يحرم على المحرم قتل وصيد ما كان حلالاً له قبل الإحرام. وقوله: {ومَن قَتَلَهُ منكم متعمِّداً}؛ أي: قتل صيداً عمداً، {فـ} عليه {جزاءٌ مثلُ ما قَتَلَ من النَّعم}؛ أي: الإبل أو البقر أو الغنم، فينظُرُ ما يشبهه شيئاً من ذلك، فيجب عليه مثله، يذبحهُ ويتصدقُ به، والاعتبار بالمماثلة، {يحكمُ به ذوا عدل منكم}؛ أي: عدلان يعرفان الحكم ووجه الشبه؛ كما فعل الصحابة رضي الله عنهم؛ حيث قضوا بالحمامة شاة، وفي النعامة بدنة، وفي بقر الوحش على اختلاف أنواعه بقرة، وهكذا كلُّ ما يشبه شيئاً من النَّعم؛ ففيه مثله، فإن لم يشبه شيئاً؛ ففيه قيمته كما هو القاعدة في المتلفات، وذلك الهدي لا بدَّ أن يكون {هدياً بالغَ الكعبةِ}؛ أي: يُذبح في الحرم، {أو كفارةٌ طعام مساكينَ}؛ أي: كفارة ذلك الجزائي طعام مساكين؛ أي: يجعل مقابلة المثل من النَّعم طعام يُطعم المساكين. قال كثيرٌ من العلماء: يُقَوَّمُ الجزاء، فيُشترى بقيمته طعامٌ، فيُطعم كلَّ مسكين مُدَّ بُرٍّ أو نصف صاع من غيره، {أو عدل ذلك} الطعام {صياماً}؛ أي: يصوم عن إطعام كلِّ مسكين يوماً، {ليذوقَ} بإيجاب الجزاء المذكور عليه وبالَ أمرِهِ، ومن عاد بعد ذلك فينتَقِمُ الله منه. والله عزيزٌ ذو انتقام. وإنما نصَّ الله على المتعمِّد لقتل الصيد، مع أن الجزاء يلزم المتعمِّد والمخطئ كما هو القاعدة الشرعية: أنَّ المتلِفَ للنُّفوس والأموال المحترمة؛ فإنَّه يضمنُها على أيِّ حال كان إذا كان إتلافُهُ بغير حقٍّ؛ لأنَّ الله رتَّب عليه الجزاء والعقوبة والانتقام، وهذا للمتعمِّد، وأما المخطئ؛ فليس عليه عقوبة، إنما عليه الجزاء. (هذا قول جمهور العلماء، والصحيح ما صرَّحت به الآية: أنَّه لا جزاء على غير المتعمِّد؛ كما لا إثم عليه).
[95] پھر اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کر کے شکار کرنے کو حرام قرار دے دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌؔ ﴾ ’’اے ایمان دارو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔‘‘ یعنی جب تم نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا ہوا ہو۔ شکار مارنے کی ممانعت، شکار مارنے کے مقدمات کی ممانعت کو بھی شامل ہے۔ جیسے شکار مارنے میں اشتراک، شکار کی نشاندہی کرنا اور شکار کرنے میں اعانت کرنا، احرام کی حالت میں سب ممنوع ہے۔ حتی کہ محرم کو وہ شکار کھانا بھی ممنوع ہے جو اس کی خاطر شکار کیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ اس عظیم عبادت کی تعظیم کے لیے ہے کہ محرم کے لیے اس شکار کو مارنا حرام ہے جو احرام باندھنے سے پہلے تک اس کے لیے حلال تھا۔ ﴿ وَمَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا ﴾ ’’اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے۔‘‘ یعنی اس نے جان بوجھ کر شکار مارا ﴿ فَجَزَآءٌ مِّثْ٘لُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ ﴾ ’’تو اس پر بدلہ ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے‘‘ یعنی اس پر لازم ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری کا فدیہ دے۔ شکار کے بارے میں دیکھا جائے گا کہ وہ کس سے مشابہت رکھتا ہے تو اس جیسا مویشی ذبح کر کے صدقہ کیا جائے گا۔ اور مماثلت کی تعیین میں کس کا فیصلہ معتبر ہو گا؟ ﴿ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’تم میں سے دو عادل شخص اس کا فیصلہ کریں گے‘‘ یعنی دو عادل اشخاص جو فیصلہ کرنا جانتے ہوں اور وجہ مشابہت کی بھی معرفت رکھتے ہوں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا۔ انھوں نے کبوتر کا شکار کرنے پر بکری، شتر مرغ کا شکار کرنے پر اونٹنی اور نیل گائے کی تمام اقسام پر گائے ذبح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح تمام جنگلی جانور جو مویشیوں میں کسی کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں تو فدیہ کے لیے وہی اس کے مماثل ہیں ۔ اگر کوئی مشابہت نہ ہو تو اس میں قیمت ہے۔ جیسا کہ تلف شدہ چیزوں میں قاعدہ ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ یہ ہدی بیت اللہ پہنچے ﴿ هَدْیً٘ۢا٘ بٰ٘لِغَ الْكَعْبَةِ ﴾ ’’وہ جانور بطور قربانی پہنچایا جائے کعبے تک‘‘ یعنی اس کو حرم کے اندر ذبح کیا جائے ﴿ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ ﴾ ’’یا اس جزا کا کفارہ چند مساکین کو کھانا کھلانا ہے‘‘ یعنی مویشیوں میں سے مماثل کے مقابلے میں مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ جزا یوں پوری ہو گی کہ مماثل مویشی کی قیمت کے برابر غلہ وغیرہ خریدا جائے اور ہر مسکین کو ایک مد گیہوں یا گیہوں کے علاوہ کسی دوسری جنس میں سے نصف صاع دیا جائے ﴿ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ ﴾ ’’یا اس کھانے کے بدل میں ‘‘ ﴿ صِیَامًا ﴾ ’’روزے رکھے۔‘‘ یعنی ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے بدلے میں ایک روزہ رکھے ﴿ لِّیَذُوْقَ ﴾ ’’تاکہ چکھے وہ‘‘ اس مذکورہ جزا کے وجوب کے ذریعے سے ﴿ وَبَ٘الَ اَمْرِهٖ ﴾ ’’سزا اپنے کام کی‘‘ ﴿وَمَنْ عَادَ ﴾ ’’اور پھر جو کرے گا‘‘ یعنی اس کے بعد ﴿ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ ﴾ ’’تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا اور اللہ تعالیٰ غالب اور انتقام لینے والا ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جان بوجھ کر شکار مارنے پر اس کی سزا کی صراحت کی ہے باوجود اس بات کے کہ بدلہ تو ہر غلطی کا ضروری ہوتا ہے، چاہے اس کا مرتکب جان بوجھ کر کرے یا غلطی سے۔ جیسا کہ شرعی قاعدہ ہے کہ جان اور مال کو تلف کرنے والے پر ضمان لازم ہے خواہ کسی بھی حال میں اس سے یہ اتلاف صادر ہوا ہو۔ جبکہ یہ اتلاف ناحق ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بدلہ اور انتقام مترتب کیا ہے اور یہ سب جان بوجھ کر کرنے والے کے لیے ہے۔ لیکن غلطی سے کرنے والے کے لیے سزا نہیں ہے، صرف بدلہ ہے۔ یہی جمہور علماء کی رائے ہے مگر صحیح وہی ہے جس کی آیت کریمہ نے تصریح کی ہے کہ جس طرح بغیر جانے بوجھے اور بغیر ارادے کے شکار مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں اسی طرح اس پر جزا بھی لازم نہیں ہے۔
#
{96} ولما كان الصيد يَشْمَلُ الصيد البريَّ والبحريَّ؛ استثنى تعالى الصيد البحريَّ، فقال: {أحِلَّ لكم صيدُ البحرِ وطعامُهُ}؛ أي: أحلَّ لكم في حال إحرامكم {صيدُ البحرِ}: وهو الحيُّ من حيواناته، {وطعامُهُ}: وهو الميت منها، فدلَّ ذلك على حِلِّ ميتة البحر، {متاعاً لكم وللسيَّارةِ}؛ أي: الفائدة في إباحته لكم أنه لأجل انتفاعِكم وانتفاع رفقتكم الذين يسيرون معكم، {وحُرِّم عليكم صيدُ البَرِّ ما دُمتم حُرُماً}: ويؤخذ من لفظ الصيد أنَّه لا بدَّ أن يكون وحشياً؛ لأنَّ الإنسيَّ ليس بصيدٍ، ومأكولاً؛ فإنَّ غير المأكول لا يُصاد ولا يُطلق عليه اسم الصيد. {واتَّقوا الله الذي إليه تُحْشَرونَ}؛ أي: اتَّقوه بفعل ما أمر به وتركِ ما نهى عنه، واستعينوا على تقواه بعلمِكم أنَّكم إليه تُحشرون، فيجازيكم؛ هل قُمتم بتقواه فيثيبُكُم الثواب الجزيل، أم لم تقوموا [بها] فيعاقبكم؟
[96] چونکہ شکار کا اطلاق بری اور بحری دونوں قسم کے شکار پر ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ ﴾ ’’احرام کی حالت میں تمھارے لیے سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال ہے‘‘ اور ’’سمندر کے شکار‘‘ سے مراد سمندر کے زندہ جانور ہیں اور (طعام) ’’اس کے کھانے‘‘ سے مراد سمندر میں مرنے والے سمندری جانور ہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرے ہوئے بحری جانور بھی حلال ہیں ۔ ﴿ مَتَاعًا لَّـكُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ ﴾ ’’تمھارے فائدے کے لیے اور مسافروں کے لیے‘‘ یعنی اس کی اباحت میں تمھارے لیے فائدہ ہے تاکہ تم اور تمھارے وہ ساتھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں جو تمھارے ساتھ سفر کرتے ہیں ﴿ وَحُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْـبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ﴾ ’’اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر خشکی (جنگل) کا شکار حرام ہے‘‘ یہاں لفظ ’’شکار‘‘ سے یہ مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ شکار کیا ہوا جانور جنگلی ہو۔ کیونکہ پالتو اور گھریلو جانور پر شکار کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیز یہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھایا جاتا ہو کیونکہ جس جانور کا گوشت کھایا نہ جاتا ہو اس کو شکار نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر ’’شکار‘‘ کا اطلاق ہی کیا جاتا ہے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾ ’’اور اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس پر عمل کر کے اور جس چیز سے روکا ہے اس کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کرو۔ اور اپنے اس علم سے حصول تقویٰ میں مدد لو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا اور وہ تمھیں اس بات کی جزا دے گا کہ آیا تم نے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا تھا۔ تب وہ تمھیں بہت زیادہ ثواب سے نوازے گا یا اگر تقویٰ کو اختیار نہیں کیا تب اس صورت میں وہ تمھیں سخت سزا دے گا۔
آیت: 97 - 99 #
{جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ذَلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (97) اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (98) مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ (99)}
بنایا ہے اللہ نے کعبے کو، جو گھر ہے حرمت والا، قیام کا سبب لوگوں کے لیے اور حرمت والے مہینوں کواور حرم والی قربانی کو اور پٹوں (والے جانوروں ) کو یہ اس لیے تاکہ تم جان لو کہ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے(97) جان لو! بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہےاور بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(98) نہیں ہے رسول پر مگر پہنچا دینااور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو(99)
#
{97} يخبر تعالى أنه جعل {الكعبةَ البيتَ الحرامَ قِياماً للناس}: يقوم بالقيام بتعظيمِهِ دينهم ودُنياهم؛ فبذلك يتمُّ إسلامهم، وبه تحطُّ أوزارهم، وتحصُل لهم بقصدِهِ العطايا الجزيلة والإحسان الكثير، وبسببه تُنفق الأموال وتُقتحم من أجله الأهوال، ويجتمع فيه من كل فجٍّ عميق جميع أجناس المسلمين، فيتعارفونَ، ويستعين بعضهم ببعض، ويتشاورون على المصالح العامة، وتنعقد بينهم الروابط في مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة؛ قال تعالى: {لِيَشْهَدوا منافِعَ لهم ويَذْكُروا اسمَ الله على ما رَزَقَهُم من بهيمةِ الأنعام}: ومن أجل كون البيتِ قياماً للنَّاس قال من قال من العلماء: إن حجَّ بيت الله فرضُ كفايةٍ في كلِّ سنة؛ فلو ترك الناس حَجَّهُ؛ لأثم كلُّ قادرٍ، بل لو ترك الناسُ حَجَّه؛ لزال ما به قِوامهم وقامت القيامة. وقوله: {والهديَ والقلائدَ}؛ أي: وكذلك جعل الهَدْيَ والقلائدَ التي هي أشرف أنواع الهَدْي قياماً للناس ينتفِعون بهما، ويُثابون عليهما. {ذلك لتعلموا أنَّ الله يَعْلَمُ ما في السمواتِ وما في الأرض وأنَّ الله بكلِّ شيءٍ عليم}: فمن علمِهِ أن جَعَلَ لكم هذا البيت الحرام لما يَعْلمُهُ من مصالحكم الدينيَّة والدنيويَّة.
[97] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ﴿ جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ ﴾ ’’اس نے کعبہ، یعنی محترم گھر کو لوگوں کے لیے قیام کا باعث بنایا۔‘‘ یعنی اس کی تعظیم کے قیام کے ساتھ ان کا دین اور دنیا قائم ہیں ۔ کعبہ کے ساتھ ان کے اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔ ان کے بوجھ ہلکے ہوتے ہیں ۔ اس گھر کا قصد کرنے سے بہت زیادہ نوازشیں اور بہت زیادہ احسانات حاصل ہوتے ہیں ۔ اسی کعبہ کے سبب سے اموال خرچ کیے جاتے ہیں اور اسی کی خاطر بڑے بڑے اہوال میں گھسا جاتا ہے۔ اس محترم گھر میں دور دور سے مختلف رنگ و نسل کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں ، ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے مدد لیتے ہیں ، مصالح عامہ میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں ، ان کے درمیان ان کے دینی اور دنیاوی مفادات کے ضمن میں روابط استوار ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَ یَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 22؍28) ’’تاکہ وہ اپنے فائدے کے کاموں میں حاضر ہوں اور قربانی کے چند معلوم دنوں میں ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیے ہیں ‘‘۔ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس محترم گھر کو لوگوں کے لیے اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا، بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر سال بیت اللہ کا حج کرنا فرض کفایہ ہے اگر تمام لوگ حج چھوڑ دیں تو تمام وہ لوگ گناہ گار ٹھہریں گے جو حج کرنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ اگر تمام لوگ حج چھوڑ دیں تو ان کی اجتماعی زندگی کا سہارا ختم ہو جائے گا اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ ﴿ وَالْهَدْیَ وَالْقَلَآىِٕدَ ﴾ ’’اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں ۔‘‘ یعنی اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جانوروں اور پٹے والے جانوروں کو جو کہ قربانی کی بہترین قسم ہے، لوگوں کے گزارے کا ذریعہ بنایا۔ لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں ۔ ﴿ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’یہ اس لیے تاکہ تم جان لو کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کہ آسمان و زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے‘‘ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے یہ محترم گھر بنایا کیونکہ وہ تمھارے دینی اور دنیاوی مصالح کا علم رکھتا ہے۔
#
{98} {اعلموا أنَّ الله شديدُ العقاب وأنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: ليكن هذان العِلْمَان موجودين في قلوبِكُم على وجه الجزم واليقين؛ تعلمون أنه شديدُ العقاب العاجل والآجل على من عصاه، وأنه غفورٌ رحيمٌ لمن تاب إليه وأطاعه، فيُثْمِرُ لكم هذا العلمُ الخوفَ من عقابِهِ والرجاءَ لمغفرتِهِ وثوابِهِ، وتعملون على ما يقتضيه الخوف والرَّجاء.
[98] ﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰهَ غَ٘فُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ﴾ ’’جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ یعنی ان دونوں امور کے بارے میں جزم و یقین کے ساتھ تمھارے دلوں میں علم موجود ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ تمھیں معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو دنیا میں اور آخرت میں سخت عذاب دینے والا ہے اور وہ ان لوگوں کو بخش دینے والا اور ان پر بہت رحم کرنے والا ہے جو توبہ کر کے اس کی اطاعت کرتے ہیں ۔ پس اس کے عذاب کا خوف اور اس کی بخشش اور ثواب کی امید اس علم کے ثمرات ہیں اور تم خوف اور امید کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہو۔
#
{99} ثم قال تعالى: {ما على الرَّسول إلَّا البلاغُ}: وقد بَلَّغَ كما أمر وقام بوظيفتِهِ وما سوى ذلك؛ فليس له من الأمر شيءٌ. {واللهُ يعلمُ ما تُبدون وما تكتُمون}: فيُجازيكم بما يعلمُهُ تعالى منكم.
[99] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْ٘بَلٰ٘غُ٘﴾ ’’رسول کے ذمے صرف پہنچا دینا ہے‘‘ اور آپe کو جیسے حکم دیا گیا، آپ نے پہنچا دیا۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور اس کے سوا دیگر معاملات میں آپ کو کوئی اختیار نہیں ﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْ٘تُمُوْنَ﴾ ’’اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو‘‘ اور اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال کی اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔
آیت: 100 #
{قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (100)}
کہہ دیجیے! نہیں برابر ہو سکتے ناپاک اور پاک اگرچہ تعجب میں ڈالے آپ کو کثرت ناپاک کی، پس ڈرو تم اللہ سے اے عقل والو! تاکہ تم فلاح پاؤ(100)
#
{100} أي: {قُلْ} للناس محذِّراً عن الشرِّ ومرغِّباً في الخير: {لا يستوي الخبيثُ والطيبُ}: من كلِّ شيء؛ فلا يستوي الإيمان والكفر، ولا الطاعة والمعصية، ولا أهل الجنة وأهل النار، ولا الأعمال الخبيثة والأعمال الطيبة، ولا المال الحرام بالمال الحلال، {ولو أعْجَبَكَ كَثْرَةُ الخبيث}: فإنَّه لا ينفعُ صاحبَه شيئاً، بل يضرُّه في دينه ودنياه، {فاتَّقوا الله يا أولي الألباب لعلَّكم تفلحون}: فأمر أولي الألباب؛ أي: أهل العقول الوافية والآراء الكاملة؛ فإنَّ الله تعالى يوجِّه إليهم الخطاب، وهم الذين يُؤْبَهُ لهم ويُرْجى أن يكونَ فيهم خيرٌ، ثم أخبر أنَّ الفلاح متوقِّف على التَّقوى التي هي موافقة الله في أمره ونهيه؛ فمن اتَّقاه؛ أفلح كل الفلاح، ومَن تَرَكَ تقواه؛ حصل له الخُسران، وفاتته الأرباح.
[100] ﴿ قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے‘‘ یعنی لوگوں کو شر سے ڈراتے ہوئے اور ان کو بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ ﴾ ’’ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں ۔‘‘ یعنی ہر چیز میں اچھے اور برے برابر نہیں ہو سکتے۔ ایمان اور کفر، اطاعت اور معصیت، اہل جنت اور اہل جہنم، اعمال خبیثہ اور اعمال صالحہ برابر نہیں ہو سکتے، اسی طرح حرام مال اور حلال مال کے درمیان کوئی مساوات نہیں ۔ ﴿ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْ٘رَةُ الْخَبِیْثِ﴾ ’’اگرچہ ناپاک کی کثرت آپ کو بھلی لگے‘‘ کیونکہ ناپاک چیز کی کثرت اپنے مالک کو کوئی فائدہ نہیں دیتی بلکہ دین و دنیا میں اسے نقصان دیتی ہے ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’پس اے عقل مندو! اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے عقل مندوں ، یعنی پوری عقل اور کامل رائے کے حامل لوگوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ انھی لوگوں کی طرف ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی پروا کی جاتی ہے اور انھی میں خیر کی امید ہوتی ہے اور ان کو آگاہ فرمایا ہے کہ فلاح تقویٰ پر موقوف ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی میں اس کی موافقت کا نام ہے۔ پس جس نے تقویٰ اختیار کیا، اس نے پوری فلاح پا لی۔ جس نے تقویٰ کو ترک کر دیا، اس کے نصیب میں خسارہ آیا اور نفع سے محروم رہ گیا۔
آیت: 101 - 102 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (101) قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ (102)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ سوال کرو ایسی چیزوں کی بابت کہ اگر ظاہر کر دی جائیں وہ تمھارے لیے تو ناگوار گزریں تمھیں اور اگر پوچھو گے تم ان کی بابت جبکہ اتارا جا رہا ہے قرآن تو ظاہر کر دی جائیں گی وہ تم پر، درگزر کیا اللہ نے ان سےاور اللہ بہت بخشنے والا نہایت بردبار ہے(101) تحقیق پوچھا تھا ان کی بابت ایک قوم نے تم سے پہلے، پھر ہو گئے وہ ان کے ساتھ کفر کرنے والے(102)
#
{101} ينهى عباده المؤمنين عن سؤال الأشياء التي إذا بُيِّنَتْ لهم ساءتهم وأحزنتهم، وذلك كسؤال بعض المسلمين لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن آبائهم وعن حالهم في الجنة أو النار ، فهذا ربَّما أنَّه لو بُيِّنَ للسائل؛ لم يكن له فيه خير، وكسؤالهم للأمور غير الواقعة، وكالسؤال الذي يترتَّب عليه تشديدات في الشرع ربَّما أحرجت الأمة، وكالسؤال عما لا يعني؛ فهذه الأسئلة وما أشبهها هي المنهيُّ عنها، وأما السؤال الذي لا يترتَّب عليه شيء من ذلك؛ فهو مأمورٌ به؛ كما قال تعالى: {فاسألوا أهل الذِّكْرِ إن كُنتُم لا تعلمونَ}. {وإن تَسْألوا عنها حينَ ينزَّلُ القرآن تُبْدَ لكم}؛ أي: وإذا وافق سؤالكم مَحلَّه، فسألتم عنها حين يُنَزَّلُ عليكم القرآن، فتسألون عن آيةٍ أشكلت أو حكم خفي وجهُهُ عليكم في وقتٍ يمكِنُ فيه نزول الوحي من السماء، {تُبْدَ لكم}؛ أي: تُبيَّن لكم وتُظهر، وإلاَّ؛ فاسكتوا عما سكت الله عنه. {عفا الله عنها}؛ أي: سكت معافياً لعباده منها؛ فكلُّ ما سكت الله عنه؛ فهو مما أباحه وعفا عنه. {والله غفور حليم}؛ أي: لم يزل بالمغفرة موصوفاً وبالِحْلم والإحسان معروفاً، فتعرَّضوا لمغفرته وإحسانه، واطلبوه من رحمته ورضوانه.
[101] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع کرتا ہے جن کو اگر ان کے سامنے بیان کر دیا جائے تو ان کو بری لگیں گی اور ان کو غمزدہ کر دیں گی ، مثلاً: بعض مسلمانوں نے اپنے آباء و اجداد کے بارے میں سوال کیا تھا کہ آیا وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں ۔ اگر اس قسم کے سوال پر سائل کو واضح جواب دیا جائے تو بسا اوقات اس میں بھلائی نہیں ہوتی ، مثلاً: غیر واقع امور کے بارے میں ان کا سوال کرنا۔ یا ایسا سوال کرنا جس کی بنا پر کوئی شرعی شدت مترتب ہو اور بسا اوقات اس سوال کی وجہ سے امت حرج میں مبتلا ہو جاتی ہے یا کوئی اور لایعنی سوال کرنا۔ یہ سوالات اور اس قسم کے دیگر سوالات ممنوع ہیں ۔ رہا وہ سوال جس کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں کا تعلق نہ ہو۔ تو وہ مامور بہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 16؍43) ’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔‘‘ ﴿وَاِنْ تَسْـَٔلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْ٘قُ٘رْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ﴾ ’’اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ، ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی‘‘ یعنی جب تمھارا سوال اس کے محلِ نظر سے موافقت کرے اور تم اس وقت سوال کرو جب تم پر قرآن نازل کیاجا رہا ہو اور تم کسی آیت میں اشکال کے بارے میں سوال کرو یا کسی ایسے حکم کے بارے میں سوال کرو جو تم پر مخفی رہ گیا ہو اور یہ سوال کسی ایسے وقت پر ہو جب آسمان سے وحی کے نزول کا امکان ہو تو تم پر ظاہر کر دیا جائے گا، یعنی اس کو تمھارے سامنے واضح کر دیا جائے گا ورنہ جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے تم بھی خاموش رہو۔ ﴿عَفَا اللّٰهُ عَنْہَا﴾ ’’اللہ نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معاف کرتے ہوئے سکوت سے کام لیا۔ پس ہر وہ معاملہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکوت اختیار کیا ہو وہ معاف ہے اور مباحات کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ غَ٘فُوْرٌ حَلِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت کی صفت سے موصوف، حلم اور احسان میں معروف ہے۔ پس اس سے اس کی مغفرت اور احسان کا سوال کرو اور اس سے اس کی رحمت اور رضا طلب کرو۔
#
{102} وهذه المسائل التي نُهيتم عنها، {قد سألها قومٌ من قبلِكُم}؛ أي: جنسها وشبهها سؤال تعنُّت لا استرشاد، فلما بُيِّنَتْ لهم وجاءتهم، {أصبحوا بها كافرين}؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - في الحديث الصحيح: «ما نهيتكم عنه؛ فاجتنبوه، وما أمرتكم به؛ فأتوا منه ما استطعتم؛ فإنما أهلك مَن كان قبلكم كثرةُ مسائلهم واختلافُهم على أنبيائهم».
[102] یہ سوالات جن سے تمھیں منع کیا گیا ہے ﴿ قَدْ سَاَلَ٘هَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ﴾ ’’تحقیق پوچھ چکی ہے یہ باتیں ایک جماعت تم سے پہلے‘‘ یعنی اس جنس کے اور اسی قسم کے سوالات تھے۔ ان کا سوال طلب رشد کے لیے نہ تھا بلکہ تلبیس کی خاطر تھا۔ جب ان کے سوال کا جواب واضح ہو کر ان کے سامنے آ گیا ﴿ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’تو وہ ان کے ساتھ کفر کرنے والے ہو گئے‘‘ جیسا کہ رسول اللہe نے صحیح حدیث میں فرمایا ’’جب میں تمھیں کسی چیز سے روک دوں تو اس سے اجتناب کرو اور جب کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرو کیونکہ تم سے پہلے قومیں کثرت سوال اور اپنے نبیوں سے اختلاف کرنے کی بنا پر ہلاک ہوئیں ‘‘(صحیح مسلم، الحج ، حدیث: 1337)
آیت: 103 - 104 #
{مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (103) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (104)}
نہیں مقرر کیا اللہ نے کوئی بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ اور اکثر ان کے نہیں عقل رکھتے(103) اور جب کہا جاتا ہے ان سے آؤ تم اس چیز کی طرف جو نازل کی اللہ نے اور (آؤ) رسول کی طرف تو کہتے ہیں کافی ہے ہمیں وہ کہ پایا ہم نے اسی پر اپنے آباؤ اجداد کو، کیا اگرچہ ہوں آباؤ اجداد ان کے نہ جانتے ہوں کچھ اور نہ ہوں وہ ہدایت یافتہ(104)
#
{103} هذا ذمٌّ للمشركين الذين شرعوا في الدين ما لم يأذنْ به الله وحرَّموا ما أحلَّه الله، فجعلوا بآرائهم الفاسدة شيئاً من مواشيهم محرَّماً على حسب اصطلاحاتهم التي عارضت ما أنزل الله، فقال: {ما جَعَلَ الله مِن بَحيرةٍ}: وهي ناقةٌ يشقُّون أذُنها ثم يحرِّمون ركوبها ويرونها محترمة، {ولا سائبةٍ}: وهي ناقة أو بقرةٌ أو شاةٌ إذا بلغت شيئاً اصطلحوا عليه؛ سيَّبوها فلا تُركب ولا يُحمل عليها ولا تُؤكل، وبعضهم ينذرُ شيئاً من ماله يجعلُه سائبةً، {ولا حام}؛ أي: جمل يُحمى ظهره عن الرُّكوب والحمل إذا وصل إلى حالة معروفة بينهم؛ فكلُّ هذه مما جعلها المشركون محرَّمةً بغير دليل ولا بُرهان، وإنَّما ذلك افتراءٌ على الله وصادرةٌ من جهلهم وعدم عقلهم. ولهذا قال: {ولكن الذين كفروا يفترونَ على الله الكذبَ وأكثرُهم لا يعقلونَ}: فلا نَقْلَ فيها ولا عَقْل.
[103] یہ مشرکین کی مذمت ہے جنھوں نے دین میں ایسی چیزیں گھڑ لی تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور وہ چیزیں حرام قرار دے لی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنی فاسد آراء کی بنا پر اپنی ان اصطلاحات کے مطابق کچھ مویشی حرام قرار دے دیے جو کتاب اللہ کے مخالف تھیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ ﴾ ’’نہیں مقرر کیا اللہ نے بحیرہ‘‘ (بَحِیرَہ) اس اونٹنی کو کہا جاتا تھا جس کے کان پھاڑ دیا کرتے، اس پر سواری کرنے کو حرام کر لیتے اور اس کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ﴿وَّلَا سَآىِٕبَةٍ ﴾ ’’اور نہ سائبہ‘‘ اونٹنی، گائے یا بکری جب سن رسیدہ ہو جاتی تو اسے سائبہ کہا جاتا تھا اور اسے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اس پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر بوجھ لادا جاتا تھا۔ اور نہ اس کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ بعض لوگ اپنے مال میں سے کچھ نذر مان کر اس کو ’’سائبہ‘‘ بنا کر چھوڑ دیتے تھے۔ ﴿ وَّلَا حَامٍ ﴾ ’’اور نہ حام‘‘ یعنی اونٹ جب ایک خاص حالت کو پہنچ جاتا جو ان کے ہاں معروف تھی تو اس اونٹ پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر سامان لادا جاتا تھا۔ ان تمام چیزوں کو مشرکین نے بغیر کسی دلیل اور برہان کے حرام قرار دے رکھا تھا یہ اللہ تعالیٰ پر افترا اور بہتان تھا جو ان کی جہالت اور بے عقلی سے صادر ہوا تھا۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَاَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ﴾ ’’لیکن کافر اللہ پر افترا باندھتے تھے اور ان کے اکثر عقل نہیں رکھتے تھے‘‘ ان مذکورہ امور میں کوئی نقلی دلیل تھی نہ عقلی۔
#
{104} ومع هذا؛ فقد أُعْجِبُوا بآرائِهِم التي بُنيت على الجهالة والظُّلم؛ فإذا دُعوا {إلى ما أنزل الله وإلى الرسول }: أعرضوا فلم يقبلوا، و {قالوا حَسْبُنا ما وَجَدْنا عليه آباءَنا}: من الدِّين، ولو كان غير سديدٍ ولا ديناً ينجي من عذاب الله، ولو كان في آبائهم كفايةٌ ومعرفةٌ ودرايةٌ؛ لهان الأمر، ولكن آباءهم لا يعقِلون شيئاً؛ أي: ليس عندهم من المعقول شيءٌ ولا من العلم والهدى شيءٌ؛ فتبًّا لمن قلَّد مَن لا علم عنده صحيح ولا عقل رجيح، وترك اتِّباع ما أنزل الله واتِّباع رسله الذي يملأ القلوب علماً وإيماناً وهدىً وإيقاناً.
[104] بایں ہمہ انھیں اپنی آراء بہت پسند تھیں جو ظلم اور جہالت پر مبنی تھیں ۔ جب انھیں دعوت دی جاتی ﴿ اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ ﴾ ’’اس کی طرف جو اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف‘‘ تو اس سے روگردانی کرتے اور اسے قبول نہ کرتے ﴿ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰ بَآءَنَا﴾ ’’اور کہتے کہ جس دین پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے‘‘ اگرچہ یہ دین نادرست ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ دین اللہ کے عذاب سے نجات نہ دلا سکتا ہو۔ اگر ان کے آبا و اجداد کافی ہوتے، ان میں معرفت اور درایت ہوتی تو معاملہ آسان ہوتا۔ مگر ان کے آبا و اجداد میں تو کچھ بھی عقل نہ تھی۔ ان کے پاس کوئی معقول شے تھی، نہ علم و ہدایت کا کوئی حصہ۔ ہلاکت ہے اس کے لیے جو کسی ایسے شخص کی تقلید کرتا ہے جس کے پاس علم صحیح ہے نہ عقل راجح اور وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کے انبیا و مرسلین کی اتباع کو چھوڑ دیتا ہے جو قلب کو علم وایمان اور ہدایت و ایقان سے لبریز کرتی ہے۔
آیت: 105 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (105)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لازم ہے تم پر فکر اپنی جانوں کی، نہیں نقصان پہنچا سکے گا تمھیں جو گمراہ ہوگا جبکہ تم خود ہدایت پر ہو اللہ ہی کی طرف واپسی ہے تمھاری سب کی، پھر وہ خبر دے گا تمھیں جو تھے تم عمل کرتے(105)
#
{105} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا عليكم أنفُسَكم}؛ أي: اجتهِدوا في إصلاحها وكمالها وإلزامها سلوكَ الصِّراط المستقيم؛ فإنَّكم إذا صَلَحْتُم؛ لا يضرُّكم من ضَلَّ عن الصِّراط المستقيم ولم يهتدِ إلى الدين القويم، وإنما يضرُّ نفسَه. ولا يدل هذا [على] أنَّ الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لا يضرُّ العبدَ تركهما وإهمالهما؛ فإنَّه لا يتمُّ هداه إلا بالإتيان بما يجب عليه من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، نعم؛ إذا كان عاجزاً عن إنكار المنكر بيده ولسانه وأنكره بقلبه؛ فإنه لا يضرُّه ضلال غيره. وقوله: {إلى الله مَرْجِعُكم جميعاً}؛ أي: مآلُكم يوم القيامة واجتماعُكم بين يدي الله تعالى، {فينِّبئُكم بما كُنتم تعملونَ}: من خيرٍ وشرٍّ.
[105] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ﴾ ’’اے ایمان والو، تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا‘‘ یعنی اپنے نفوس کی اصلاح، ان کو منزل کمال تک پہنچانے اور ان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر تم نے اپنی اصلاح کر لی تو وہ شخص تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو راہ راست سے بھٹک گیا ہے اور دین قیم کے راستے کو اختیار نہیں کرتا۔ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دینے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ کیونکہ خود بندے کی ہدایت بھی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے ادا نہیں کرتا۔ ہاں ! اگر وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے برائی کا انکار کرنے پر قادر نہیں تو اپنے دل میں اس برائی کو برا سمجھے۔ تب کسی دوسرے کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ﴿اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا ﴾ ’’تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ یعنی قیامت کے دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے اور اس کے سامنے اکٹھے ہو گے ﴿ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’وہ تم کو تمھارے سب کاموں سے آگاہ کرے گا۔‘‘ یعنی اچھے اور برے جو عمل بھی کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے بارے میں آگاہ کرے گا۔
آیت: 106 - 108 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ (106) فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (107) ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (108)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شہادت ہونی چاہیے تمھارے درمیان جب آپہنچے کسی کو تم میں سے موت، وقت وصیت کے دو عادل شخصوں کی تم میں سے یا دو اور ہوں تم مسلمانوں کے سوا، اگر تم سفر کر رہے ہو زمین میں ، پھر پہنچے تمھیں مصیبت موت کی، روک لو ان دونوں کو بعد نماز کے، پس قسمیں کھائیں وہ اللہ کی اگر تم شک کرو (وہ کہیں ) ہم نہیں لیتے اس (قسم) کے بدلے کوئی قیمت، اگرچہ ہو وہ رشتے داراور نہیں چھپاتے ہم گواہی اللہ کی، یقینا ہم اس وقت گناہ گاروں میں سے ہوں گے(106) پھر اگر اطلاع ہو جائے اس پر کہ وہ دونوں مرتکب ہوئے ہیں گناہ کے تو دو اور گواہ کھڑے ہوں ان کی جگہ ان لوگوں میں سے جن کی حق تلفی ہوئی ہے، قریب تر (میت کے) ، پھر قسمیں کھائیں دونوں اللہ کی کہ ہماری شہادت زیادہ سچی ہے ان کی شہادت سے اور نہیں زیادتی کی ہم نے، بے شک ہم اس وقت ظالموں میں سے ہوں گے(107) یہ (طریقہ) قریب تر ہے اس کے کہ دیں وہ شہادت ٹھیک طریقے پر یا ڈریں اس سے کہ رد کر دی جائیں گی قسمیں (ان کی) بعد ان (ورثاء) کی قسموں کےاور ڈرو تم اللہ سے اور سنواور اللہ نہیں ہدایت دیتا فاسق لوگوں کو(108)
#
{106} يخبر تعالى خبراً متضمناً للأمر بإشهاد اثنين على الوصيَّة إذا حضر الإنسانَ مقدماتُ الموت وعلائمه، فينبغي له أن يكتبَ وصيَّته، ويُشْهِدَ عليها اثنين ذَوَيْ عدل ممَّن يعتبر شهادتهما، {أو آخرانِ من غيركم}؛ أي: من غير أهل دينكم من اليهود أو النصارى أو غيرهم، وذلك عند الحاجة والضَّرورة وعدم غيرهما من المسلمين {إن أنتم ضَرَبْتُم في الأرض}؛ أي: سافرتم فيها، {فأصابَتْكُم مصيبةُ الموت}؛ أي: فأشْهِدوهما، ولم يأمر بإشهادِهِما إلاَّ لأنَّ قولَهما في تلك الحال مقبولٌ، ويؤكَّد عليهما بأن يُحْبَسا {من بعد الصلاة}: التي يعظِّمونها، {فيُقْسِمانِ بالله}: أنهما صَدَقا وما غيَّرا ولا بدَّلا هذا، {إنِ ارْتَبْتُم}: في شهادتهما؛ فإن صدَّقْتُموها ؛ فلا حاجة إلى القسم بذلك. ويقولان: {لا نشتري به}؛ أي: بأيماننا {ثمناً}: بأن نكذب فيها لأجل عَرَض من الدُّنيا، {ولو كان ذا قُربى}: فلا نراعيه لأجل قُربه منَّا، {ولا نكتُمُ شهادةَ الله}: بل نؤدِّيها على ما سمعناها، {إنَّا إذاً}؛ أي: إن كتمناها {لَمِنَ الآثمِين}.
[106] اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے جو کہ اس حکم کو متضمن ہے کہ جب انسان کی موت کی علامات اور اس کے مقدمات سامنے آ جائیں تو اپنی وصیت پر دو گواہ بنا لے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی وصیت کو تحریر کروائے اور اس پر دو عادل اور معتبر گواہوں کی گواہی ثبت کروائے۔ ﴿ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ ﴾ ’’یا دوسرے دو گواہ تمھارے سوا‘‘ یعنی مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ یہ سخت ضرورت اور حاجت کے وقت ہے جب یہود و نصاریٰ کے سوا مسلمانوں میں سے گواہ موجود نہ ہوں ﴿اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جب تم زمین میں سفر کر رہے ہو‘‘ ﴿ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ﴾ ’’اور پہنچے تمھیں مصیبت موت کی‘‘ یعنی تم ان دونوں کو گواہ بنا لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گواہ بنانے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس صورتحال میں ان کی گواہی مقبول ہے اور ان کے بارے میں مزید تاکید فرمائی کہ ان کو روک لیا جائے ﴿مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’نماز کے بعد‘‘ جس نماز کی یہ تعظیم کرتے ہیں ﴿فَ٘یُ٘قْ٘سِمٰنِ بِاللّٰهِ ﴾ ’’پس وہ اللہ کی قسم اٹھائیں ‘‘ کہ انھوں نے سچ کہا ہے اور انھوں نے کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا ﴿ اِنِ ارْتَبْتُمْ ﴾ ’’اگر تمھیں (ان کی گواہی میں ) شک ہو‘‘ اور اگر تم انھیں سچا سمجھتے ہو تو پھر ان سے قسم اٹھوانے کی ضرورت نہیں اور وہ قسم اٹھاتے وقت یہ الفاظ ادا کریں ﴿ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ﴾ ’’نہیں حاصل کرتے ہم اس کے بدلے‘‘ یعنی اپنی قسموں کے بدلے ﴿ ثَمَنًا ﴾ ’’کوئی مال‘‘ یعنی دنیاوی فائدے کی خاطر ہم جھوٹی قسم نہیں اٹھائیں گے ﴿ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُ٘رْبٰى ﴾ ’’اگرچہ ہم کو کسی سے قرابت بھی ہو‘‘ یعنی اس کے ساتھ اپنی قرابت داری کی وجہ سے اس سے کوئی رعایت نہیں کریں گے ﴿وَلَا نَؔكْتُمُ شَهَادَةَ اللّٰهِ﴾ ’’اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے‘‘ بلکہ ہم اسی طرح شہادت کو ادا کریں گے جس طرح ہم نے سنی ہے ﴿ اِنَّـاۤ٘ اِذًا ﴾ ’’بے شک تب ہم‘‘ یعنی اگر ہم گواہی کو چھپائیں ﴿لَّ٘مِنَ الْاٰثِمِیْنَ ﴾ ’’تو یقینا گناہ گاروں میں سے ہوں گے‘‘۔
#
{107} {فإنْ عُثِرَ على أنَّهما}؛ أي: الشاهدين {استحقّا إثماً}: بأن وُجِدَ من القرائن ما يدلُّ على كذبهما وأنَّهما خانا، {فآخرانِ يقومانِ مَقامَهما من الذينَ استحقَّ عَليهمُ الأوليانِ}؛ أي: فليقمْ رجلان من أولياء الميت، وليكونا من أقرب الأولياء إليه، {فيُقْسِمان بالله لشهادَتُنا أحقُّ من شهادِتهما}؛ أي: أنَّهما كذبا وغيَّرا وخانا. {وما اعْتَدَيْنا إنَّا إذاً لَمِنَ الظَّالمينَ}؛ أي: إن ظلمنا، واعتدينا، وشهِدْنا بغير الحقِّ.
[107] ﴿ فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤى اَنَّهُمَا ﴾ ’’پھر اگر خبر ہوجائے کہ یہ دونوں ‘‘ یعنی دونوں گواہ ﴿ اسْتَحَقَّـاۤ٘ اِثْمًا ﴾ ’’حق بات دبا گئے ہیں ‘‘ یعنی اگر ایسے قرائن پائے جائیں جو ان کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں اور جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ انھوں نے خیانت کی ہے تو جن لوگوں کا انھوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ دو اور گواہ کھڑے ہوں جو میت کے زیادہ قریبی ہوں ، یعنی میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور وہ دونوں میت کے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ ﴿ فَ٘یُ٘قْ٘سِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا ﴾’’پس وہ دونوں قسم کھائیں اللہ کی، کہ ہماری گواہی زیادہ صحیح ہے پہلوں کی گواہی سے‘‘ یعنی انھوں نے جھوٹ بولا ہے اور وہ وصیت میں تغیر و تبدل کر کے خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ﴿ وَمَا اعْتَدَیْنَاۤ١ۖٞ اِنَّـاۤ٘ اِذًا لَّ٘مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہم نے زیادتی نہیں کی، نہیں تو بے شک ہم ظالموں میں سے ہوں گے‘‘ یعنی اگر ہم نے ظلم اور زیادتی کی اور ناحق گواہی دی۔
#
{108} قال الله تعالى في بيان حكمة تلك الشهادة وتأكيدها وردِّها على أولياء الميِّت حين تظهر من الشاهدين الخيانة: {ذلك أدنى}؛ أي: أقرب {أن يأتوا بالشَّهادة على وجهها}: حين تؤكَّد عليهما تلك التأكيدات {أو يخافوا أن تُرَدَّ أيمانٌ بعد أيْمانِهِم}؛ أي: أن لا تُقبل أيمانُهم ثم تردَّ على أولياء الميت {والله لا يهدي القومَ الفاسقين}: أي: الذين وَصْفُهم الفسقُ؛ فلا يريدون الهدى والقصد إلى الصراط المستقيم. وحاصل هذا أنَّ الميِّت إذا حضره الموت في سفر ونحوه مما هو مَظِنَّة قلة الشهود المعتبرين: أنه ينبغي أن يوصِيَ شاهدَيْن مسلمَيْن عدلين؛ فإن لم يجد إلا شاهدين كافرين؛ جاز أن يوصي إليهما، ولكن لأجل كفرهما؛ فإن الأولياء إذا ارتابوا بهما؛ فإنهم يحلِّفونهما بعد الصلاة أنَّهما ما خانا ولا كذبا ولا غيَّرا ولا بدَّلا، فيبرآن بذلك من حقٍّ يتوجَّه إليهما؛ فإن لم يصدِّقوهما ووجدوا قرينةً تدلُّ على كذب الشاهدين؛ فإن شاء أولياءُ الميِّت؛ فليقم منهم اثنان، فيقسِمان بالله لشهادَتُهُما أحقُّ من شهادة الشاهدين الأولين، وأنَّهما خانا وكذَبا، فيستحقون منهما ما يدَّعون. وهذه الآيات الكريمة نزلت في قصة تميم الداريِّ وعديِّ بن بداء المشهورة ، حين أوصى لهما العدويُّ. والله أعلم. ويُستدلُّ بالآيات الكريمات على عدة أحكام: منها: أن الوصية مشروعةً، وأنه ينبغي لمن حَضَرَه الموت أن يوصي. ومنها: أنها معتبرةٌ ولو كان الإنسان وَصَلَ إلى مقدِّمات الموت وعلامته ما دام عقله ثابتاً. ومنها: أن شهادة الوصية لا بدَّ فيها من اثنين عدلين. ومنها: أن شهادة الكافرين في هذه الوصية ونحوها مقبولةٌ لوجود الضَّرورة. وهذا مذهب الإمام أحمد. وزعم كثير من أهل العلم أن هذا الحكم منسوخ، وهذه دعوى لا دليل عليها. ومنها: أنه ربَّما استُفيد من تلميح الحكم ومعناه، أنَّ شهادة الكفار عند عدم غيرهم حتى في غير هذه المسألة مقبولةٌ؛ كما ذهب إلى ذلك شيخ الإسلام ابن تيمية. ومنها: جواز سفر المسلم مع الكافر إذا لم يكن محذورٌ. ومنها: جواز السفر للتجارة. ومنها: أن الشاهدين إذا ارتيب منهما، ولم تبدُ قرينةٌ تدلُّ على خيانتهما، وأراد الأولياء أن يؤكِّدوا عليهم اليمين، ويحبِسوهما من بعد الصلاة، فيقسمان بصفة ما ذكر الله تعالى. ومنها: أنه إذا لم تحصل تهمةٌ ولا ريبٌ؛ لم يكن حاجةٌ إلى حبسهما وتأكيد اليمين عليهما. ومنها: تعظيم أمر الشهادة؛ حيث أضافها تعالى إلى نفسه، وأنه يجب الاعتناء بها والقيام بها بالقسط. ومنها: أنَّه يجوز امتحان الشاهدين عند الرِّيبة منهما وتفريقهما لينظرعن شهادتهما. ومنها: أنه إذا وُجدت القرائن الدَّالة على كذب الوصيين في هذه المسألة؛ قام اثنان من أولياء الميت، فأقسما بالله أن أيماننا أصدق من أيمانهما ولقد خانا وكذبا، ثم يُدفع إليهما ما ادَّعياه، وتكون القرينة مع أيمانهما قائمة مقام البيِّنة.
[108] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گواہی، اس کی تاکید اور دونوں گواہوں سے خیانت ظاہر ہونے پر گواہی کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹانے کی حکمت بیان کی ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى ﴾ ’’اس طریق سے بہت قریب ہے۔‘‘ یعنی یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے ﴿ اَنْ یَّ٘اْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ ﴾ ’’کہ وہ ادا کریں گواہی کو ٹھیک طریقے پر‘‘ یعنی جب ان گواہوں کو مذکورہ تاکیدات کے ذریعے سے تاکید کی جائے گی ﴿ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ ﴾ ’’اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی۔‘‘ یعنی ان کو خوف ہو گا کہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان قسموں کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹا دیا جائے گا ﴿وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْ٘فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ یعنی وہ لوگ جن کا وصف فسق ہے جو ہدایت چاہتے ہیں، نہ راہ راست پر چلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ سفر وغیرہ میں جب میت کی موت کا وقت آ جائے اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں گمان یہ ہو کہ معتبر گواہ بہت کم ہوں گے تو میت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ دو مسلمان عادل گواہوں کے سامنے وصیت کرے اور اگر صرف دو کافر گواہ مہیا ہو سکیں تو ان کے پاس بھی وصیت کرنا جائز ہے۔ اگر ان گواہوں کے کفر کی وجہ سے میت کے اولیاء ان کے بارے میں شک کریں تو نماز کے بعد ان سے حلف لیں کہ انھوں نے خیانت کا ارتکاب کیا ہے نہ جھوٹ بولا ہے اور نہ انھوں نے وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے۔ اس طرح وہ اس حق کی ذمہ داری سے بری ہو جائیں گے جو ان پر ڈال دی گئی تھی۔ اگر میت کے اولیاء ان کی گواہی کو تسلیم نہ کریں اور وہ کوئی ایسا قرینہ پائیں جو گواہوں کے جھوٹ پر دلالت کرتا ہو۔ پس اگر میت کے اولیاء میں سے دو گواہ کھڑے ہو کر قسم اٹھائیں کہ ان کی گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے صحیح ہے اور یہ کہ پہلے گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے جھوٹ بولا ہے تو وہ ان پہلے گواہوں کے مقابلے میں اپنے دعوے میں مستحق قرار پائیں گے۔ یہ آیات کریمہ تمیم داریt اور عدی بن بداء کے قصہ میں نازل ہوئی ہیں جو بہت مشہور ہے اور قصہ یوں ہے کہ عدوی(مفسر موصوف سے سہوہوا ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک عدوی کی جگہ سہمی وارد ہوا ہے یعنی بنو سہم کا ایک آدمی) نے ان دونوں حضرات کے پاس وصیت کی تھی۔ واللہ اعلم(یہ قصہ اصل میں اس طرح ہے کہ حضرت تمیم داری (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور عدی بن بداء، یہ دونوں نصرانی تھے اور تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان بدیل بن ابی مریم بھی وہاں گئے ہوئے تھے، وہاں بدیل سخت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور اپنا سامان بھی ان کے سپرد کردیا کہ وہ اسے ان کے گھر پہنچادیں ۔ ان دونوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک پیالہ نکال کر بیچ دیا اور اس کی رقم آپس میں بانٹ لی۔ بعد میں ورثاء کو اس کا علم ہوا، تو رسول اللہe نے ان سے حلف اٹھوایا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2780۔ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3059) (ص۔ی) ان آیات کریمہ سے متعدد احکام پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (۱) وصیت کرنا مشروع ہے جس کی موت کا وقت قریب آ جائے تو اسے چاہیے کہ وصیت کرے۔ (۲) جب موت کے مقدمات و آثار نمودار ہو جائیں تو مرنے والے کی وصیت اس وقت تک معتبر ہے جب تک اس کے ہوش و حواس قائم ہیں ۔ (۳) وصیت میں دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ (۴) وصیت اور اس قسم کے دیگر مواقع پر، بوقت ضرورت کفار کی گواہی مقبول ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ بہت سے اہل علم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مگر نسخ کے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ۔ (۵) اس حکم کے اشارہ اور اس کے معنی سے مستفاد ہوتا ہے کہ مسلمان گواہوں کی عدم موجودگی میں وصیت کے علاوہ دیگر مسائل میں بھی کفار کی گواہی قابل قبول ہے۔ جیسا کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ (۶) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوف کی بات نہ ہو تو کفار کی معیت میں سفر جائز ہے۔ (۷) تجارت کے لیے سفرکرنا جائز ہے۔ (۸) اگر دونوں گواہوں کی گواہی کے بارے میں شک ہو مگر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتا ہو اور وصیت کرنے والے کے اولیاء ان گواہوں سے قسم لینا چاہتے ہوں تو وہ انھیں نماز کے بعد روک لیں اور ان سے اس طریقے سے قسم لیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ (۹) اگر ان دونوں کی گواہی میں کوئی شک اور تہمت نہ ہو تو ان کو روکنے اور ان سے قسم لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (۱۰) یہ آیت کریمہ شہادت کے معاملے کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے، نیز یہ کہ اس کو درخور اعتنا سمجھنا اور انصاف کے مطابق اس کو قائم کرنا واجب ہے۔ (۱۱) گواہوں کے بارے میں اگر شک ہو تو گواہوں کا امتحان اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے گواہی لینا جائز ہے۔ تاکہ سچ اور جھوٹ کے اعتبار سے گواہی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ (۱۲) جب ایسے قرائن پائے جائیں جو اس مسئلہ میں دونوں وصیّوں (گواہوں ) کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں تو میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری قسم ان کی قسم سے زیادہ سچی ہے۔ انھوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹ کہا ہے پھر جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے حوالے کر دی جائے گی۔ ان کی قسموں کے ساتھ، قرینہ، ثبوت کے قائم مقام ہے۔
آیت: 109 - 110 #
{يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (109) إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (110)}.
جس دن جمع کرے گا اللہ رسولوں کو، پس کہے گا کیا جواب دیے گئے تھے تم؟ وہ کہیں گے نہیں علم ہمیں ، بے شک تو ہی خوب جاننے والا ہے غیبوں کا(109)جس وقت کہے گا اللہ، اے عیسیٰ ابن مریم! یاد کر تو میری نعمت (جو ہوئی) تجھ پر اور تیری والدہ پر، جب قوت دی میں نے تجھے ساتھ روح القدس کے، کلام کرتا تھا تو لوگوں سے گود میں اور پختہ عمر میں اور جب تعلیم دی میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی اور جب بناتا تھا تو گارے سے مانند شکل پرندے کی میرے حکم سے، پھر پھونک مارتا اس میں تو ہو جاتا وہ پرندہ، میرے حکم سےاور تندرست کرتا تھا تو پیدائشی نابینے کو اور برص والے کو میرے حکم سےاور جب (زندہ) نکالتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب لایا تھا تو ان کے پاس واضح دلیلیں تو کہا تھا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ان میں سے، نہیں ہے یہ مگر جادو ظاہر(110)
#
{109} يخبر تعالى عن يوم القيامة وما فيه من الأهوال العظام، وأن الله يجمعُ به جميع الرُّسل، فيسألهم: {ماذا أُجِبْتُم}؛ أي: ماذا أجابتكم به أمَمُكم، فقالوا: {لا علمَ لنا}: وإنما العلمُ لك يا ربَّنا؛ فأنت أعلم منا. {إنَّك أنت علاَّمُ الغُيوبِ}؛ أي: تعلمُ الأمورَ الغائبة والحاضرة.
[109] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن اور اس کی ہولناکیوں کے بارے میں خبر دیتا ہے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا ﴿مَاذَاۤ اُجِبْتُمْ ﴾ ’’تمھیں کیا جواب ملا تھا۔‘‘ یعنی اس بارے میں تمھاری امتوں نے کیا جواب دیا ﴿ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ﴾ ’’وہ جواب دیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں ۔‘‘ تجھے ہی علم ہے۔ اے ہمارے رب! تو ہم سے زیادہ جانتا ہے ﴿ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ﴾ ’’تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔‘‘ یعنی تو حاضر و غائب تمام امور کو جانتا ہے۔
#
{110} {إذ قالَ الله يا عيسى ابنَ مريم اذْكُرْ نعمتي عليك وعلى والِدَتِكَ}؛ أي: اذْكُرْها بقلبِك ولسانِك، وقُم بواجِبِها شكراً لربِّك، حيثُ أنعم عليك نِعَماً ما أنعم بها على غيرك، {إذ أيَّدتُك بروح القُدُس}؛ أي: إذ قوَّيْتك بالرُّوح والوحي الذي طهَّرَكَ وزكَّاك وصار لك قوة على القيام بأمر الله والدعوةِ إلى سبيله. وقيل: إنَّ المراد بروح القُدُس جبريلُ عليه السلام، وأنَّ الله أعانه به وبملازمتِهِ له وتثبيتِهِ في المواطن المُشِقَّة، {تكلِّمُ الناس في المهد وكهلاً}: المراد بالتَّكليم هنا غير التكليم المعهود الذي هو مجرد الكلام، وإنما المراد بذلك التكليم الذي ينتفع به المتكلِّم والمخاطب، وهو الدعوة إلى الله، ولعيسى عليه السلام من ذلك ما لإخوانه من أولي العزم من المرسلين من التكليم في حال الكهولة بالرسالة والدعوة إلى الخير والنهي عن الشرِّ، وامتازَ عنهم بأنَّه كلَّم الناس في المهد، فقال: {إنِّي عبدُ اللهِ آتانِيَ الكِتابَ وجَعَلني نبياً، وَجَعَلَني مباركاً أين ما كنتُ وأوصاني بالصَّلاة والزَّكاةِ ما دمتُ حيًّا ... } الآية. {وإذْ علَّمْتُك الكتابَ والحكمةَ}؛ فالكتابُ: يشمل الكتب السابقة، وخصوصاً التوراة؛ فإنه من أعلم أنبياء بني إسرائيل بعد موسى بها، ويشمل الإنجيل الذي أنزله الله عليه. والحكمة: هي معرفة أسرار الشرع وفوائده وحكمه وحسن الدعوة والتعليم ومراعاة ما ينبغي على الوجه الذي ينبغي. {وإذ تَخْلُقُ من الطينِ كهيئة الطَّيْرِ}؛ أي: طيراً مصوّراً لا روح فيه، {فتَنفُخُ} فيه فيكون {طيراً} بإذنِ اللهِ {وتُبْرِئُ الأكمهَ}: الذي لا بَصَرَ له ولا عينَ، {والأبرصَ بإذني وإذْ تُخْرِجُ الموتى بإذني}: فهذه آيات بيناتٌ ومعجزاتٌ باهرات يعجَزُ عنها الأطباء وغيرُهم أيَّد الله بها عيسى وقوَّى بها دعوته. {وإذ كففتُ بني إسرائيل عنك إذ جئتَهم بالبيناتِ فقال الذين كفروا منهم} ـ لما جاءهم الحقُّ مؤيَّداً بالبيناتِ الموجبة للإيمان به ـ: {إن هذا إلا سحرٌ مبينٌ}: وهمُّوا بعيسى أن يقتُلوه وسَعَوا في ذلك فكفَّ الله أيديَهم عنه، وحفظه منهم، وعصمه. فهذه مننٌ امتنَّ الله بها على عبده ورسوله عيسى ابن مريم ودعاه إلى شكرها والقيام بها، فقام بها عليه الصلاة (والسلام) ، أتمَّ القيام، وصَبَرَ كما صَبَرَ إخوانهُ من أولي العزم.
[110] ﴿ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَعَلٰى وَالِدَتِكَ ﴾ ’’جبکہ ا اللہ نے، اے عیسیٰ بن مریم! یاد کر میری نعمت جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوئی‘‘ یعنی اپنے دل اور زبان سے یاد کیجیے اور اس کے واجبات کو ادا کر کے اپنے رب کا شکر کیجیے۔ کیونکہ اس نے آپ کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیں ۔ ﴿ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ﴾ ’’جب میں نے روح القدس سے تیری مدد کی۔‘‘ یعنی جب ہم نے تجھ کو روح اور وحی کے ذریعے سے تقویت دی، جس نے تجھ کو پاک کیا اور تجھ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی طرف دعوت دینے کی قوت حاصل ہوئی اور بعض نے کہا کہ روح القدس سے مراد جبریل ہیں ۔ بڑے بڑے سخت مقامات پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی ملازمت (ساتھ رہنے) اور ان کے ذریعے سے ثبات عطا کر کے جناب عیسیٰu کی مدد فرمائی۔ ﴿ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَؔكَهْلًا ﴾ ’’تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں ‘‘ یہاں کلام کرنے سے مراد مجرد کلام کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ کلام ہے جس سے متکلم اور مخاطب دونوں مستفید ہوں ۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا۔ جناب عیسیٰ کو اس عمر میں رسالت، بھلائیوں کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری عطا کر دی گئی اور دیگر اولو العزم انبیا و مرسلین کو بڑی عمر میں یہ ذمہ داری عطا کی گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ تمام انبیائے کرام میں اس بنا پر ممتاز ہیں کہ انھوں نے پنگھوڑے میں کلام فرمایا ﴿ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ۰۰وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَؔكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا﴾ (مریم: 19؍30،31) ’’میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی اور مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا۔ جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکٰوۃ کی وصیت فرمائی‘‘۔ ﴿وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ’’اور جب سکھلائی میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت‘‘ یہ کتاب تمام کتب سابقہ خصوصاً تورات کو شامل ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰu جناب موسیٰ کے بعد تورات کے سب سے بڑے عالم تھے۔۔۔ اور انجیل کو بھی شامل ہے جو ان پر نازل کی گئی.... حکمت سے اسرار شریعت، اس کے فوائد اور اس کی حکمتوں کی معرفت، دعوت و تعلیم کی خوبی اور تمام امور کا ان کی اہمیت اور مناسبت کے مطابق خیال رکھنا مراد ہے۔ ﴿وَاِذْ تَخْلُ٘قُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ ﴾ ’’اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی سی صورت‘‘ یعنی پرندوں کی تصویر جس میں روح نہیں ہوتی ﴿بِـاِذْنِیْ فَ٘تَ٘نْ٘فُ٘خُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الْاَكْمَهَ ﴾ ’’پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا اور اچھا کرتا تھا تو مادر زاد اندھے کو‘‘ (اَ لْاَکْمَہَ) اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بینائی ہو نہ آنکھ ﴿وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِیْ١ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِیْ ﴾ ’’اور کوڑھی کو، میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے‘‘ یہ واضح نشانیاں اور نمایاں معجزات ہیں جن سے بڑے بڑے اطباء وغیرہ بھی عاجز ہیں ۔ ان معجزات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰu کی مدد فرمائی اور اس کے ذریعے سے ان کی دعوت کو تقویت بخشی۔ ﴿وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ ﴾ ’’اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تو لے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو کہا ان لوگوں نے جو ان میں سے کافر تھے‘‘ یعنی جب ان کے پاس حق آ گیا جس کی ایسے دلائل کے ساتھ تائید کی گئی تھی جن پر ایمان لانا واجب ہے تو انھوں نے کہا ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلا جادو ہے‘‘ اور انھوں نے جناب عیسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ روک دیے اور حضرت عیسیٰ کی ان سے حفاظت کی اور ان کو ان کے شر سے بچا لیا۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات جن سے اس نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم کو نوازا اور ان کو ان احسانات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور ان کو قائم کرنے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ نے ان احسانات کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کیا اور اس راہ کی سختیوں پر اسی طرح صبر کیا جس طرح دیگر اولو العزم انبیا و رسل نے صبر کیا تھا۔
آیت: 111 - 120 #
{وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (111) إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (112) قَالُوا نُرِيدُ أَنْ نَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ (113) قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (114) قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ (115) وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (116) مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (117) إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (118) قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (119) لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (120)}
اور جب الہام کیا میں نے حواریوں کو یہ کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر تو کہا انھوں نے: ایمان لائے ہم اور گواہ رہ تو کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں (111) جب کہا حواریوں نے، اے عیسیٰ ابن مریم! کیا طاقت رکھتا ہے تیرا رب یہ کہ نازل کرے ہم پر دسترخوان آسماں سے؟ کہا اس (عیسیٰ) نے ڈرو تم اللہ سے اگر ہو تم مومن(112) کہا انھوں نے چاہتے ہیں ہم یہ کہ کھائیں ہم اس میں سے اور مطمئن ہو جائیں ہمارے دل اور جان لیں ہم یہ کہ سچ کہا تونے ہم سےاور ہو جائیں ہم اس پر شہادت دینے والوں میں سے(113) کہا عیسیٰ ابن مریم نے، اے اللہ! اے ہمارے رب! نازل فرما ہم پر دسترخوان آسمان سے، کہ بن جائے وہ عید ہمارے پہلوں اور ہمارے بعد والوں کے لیےاور نشانی تیری طرف سےاور رزق دے ہمیں اور تو بہترین رزق دینے والا ہے(114) فرمایا اللہ نے: بے شک میں نازل کروں گا وہ تم پر، پھر جو شخص کفر کرے گا بعد اس کے تم میں سے تو بالضرور میں عذاب دوں گا اس کو ایسا کہ نہیں عذاب دوں گا میں ویسا کسی اور کو، جہانوں میں سے (115)اور جب کہے گا اللہ: اے عیسیٰ ابن مریم! کیا کہا تھا تونے لوگوں کو کہ بنا لو مجھے اور میری ماں کو دو معبود سوائے اللہ کے؟ تو کہے گا وہ (عیسیٰ) پاک ہے تو، نہیں لائق تھا میرے کہ کہوں میں وہ بات جس کا نہیں مجھے حق۔ اگر ہوں میں کہ کہی ہے میں نے یہ بات تو یقینا جانتا ہے تو اس کو تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور نہیں جانتا میں جو تیرے دل میں ہے۔ بلاشبہ توہی خوب جاننے والا ہے غیبوں کا(116) نہیں کہا تھا میں نے ان سے مگر وہی کہ حکم دیا تھا تونے مجھے اس کا، یہ کہ عبادت کرو تم اللہ کی، میرے رب اور اپنے رب کی اور تھا میں ان پر نگران جب تک رہا میں ان میں ، پھر جب اٹھا لیا تونے مجھے تو تھا تو ہی نگہبان ان پراور تو ہر ایک چیز پر مطلع ہے(117) اگر عذاب دے تو ان کو تو بے شک وہ بندے ہیں تیرےاور اگر بخش دے ان کو تو بلاشبہ توہی ہے غالب حکمت والا(118) فرمائے گا اللہ! یہ دن ہے کہ نفع دے گا سچوں کو ان کا سچ، ان کے لیے ایسے باغات ہیں کہ بہتی ہیں ان کے لیے نہریں ، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں ابد تک، راضی ہوا اللہ ان سے اور راضی ہوئے وہ اس سے، یہی ہے کامیابی بڑی (119)اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ ان میں ہےاور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے(120)
#
{111 ـ 120} أي: واذْكُرْ نعمتي عليك إذ يسرتُ لك أتباعاً وأعواناً، فأوحيتُ إلى الحواريين؛ أي: ألهمتُهم وأوزعتُ قلوبَهم الإيمان بي وبرسولي، أو أوحيت إليهم على لسانك؛ أي: أمرتُهم بالوحي الذي جاءك من عند الله، فأجابوا لذلك وانقادوا وقالوا: {آمنَّا واشهدْ بأنَّنا مسلمونَ}، فجمعوا بين الإسلام الظاهر والانقياد بالأعمال الصالحة والإيمان الباطن المخرِج لصاحبِهِ من النفاق ومن ضَعْف الإيمان. والحواريون هم الأنصارُ؛ كما قال تعالى. كما قال عيسى ابن مريم للحواريين: {مَنْ أنصاري إلى الله قال الحواريونَ نحن أنصار الله}. {إذ قال الحواريونَ يا عيسى ابن مريم هل يستطيعُ ربُّك أن ينزِّلَ علينا مائدةً من السماء}؛ أي: مائدة فيها طعامٌ، وهذا ليس منهم عن شكٍّ في قدرةِ الله واستطاعتِهِ على ذلك وإنما ذلك من باب العرض والأدب منهم، ولما كان سؤالُ آياتِ الاقتراح منافياً للانقياد للحقِّ وكان هذا الكلام الصادرُ من الحواريين ربَّما أوْهَمَ ذلك؛ وعَظَهم عيسى عليه السلام فقال: {اتَّقوا الله إن كُنتُم مؤمنين}؛ فإن المؤمن يحمله ما معه من الإيمان على ملازمةِ التقوى، وأن ينقادَ لأمر الله، ولا يطلُبَ من آيات الاقتراح التي لا يدري ما يكون بعدها شيئاً. فأخبر الحواريون أنَّهم ليس مقصودُهُم هذا المعنى، وإنما لهم مقاصد صالحة ولأجل الحاجة إلى ذلك، فقالوا: {نريدُ أن نأكُلَ منها}: وهذا دليل على أنهم محتاجونَ لها، {وتطمئنَّ قلوبُنا}: بالإيمان حين نرى الآياتِ العيانيَّة، حتى يكون الإيمان عينَ اليقين؛ [كما كانَ قبل ذلك علم اليقين]؛ كما سأل الخليل عليه الصلاة والسلام ربَّه أن يُرِيَهُ كيف يحيي الموتى، {قال أوَلَمْ تُؤمن قال بلى ولكن ليطمئنَّ قَلْبي}: فالعبد محتاجٌ إلى زيادة العلم واليقين والإيمان كلَّ وقت، ولهذا قال: {ونعلمَ أن قد صَدَقْتَنا}؛ أي: نعلم صدقَ ما جئتَ به أنه حقٌّ وصدقٌ، {ونكونَ عليها من الشاهدينَ}: فتكون مصلحةً لمن بعدَنا، نشهدُها لك، فتقومُ الحجة، ويحصلُ زيادة البرهان بذلك. فلما سمع عيسى عليه الصلاة والسلام ذلك وعَلِمَ مقصودَهم؛ أجابهم إلى طلبهم في ذلك ، فقال: {اللهمَّ ربَّنا أنزِلْ علينا مائدةً من السماء تكون لنا عيداً لأوَّلنا وآخرِنا وآية منك}؛ أي: يكون وقتُ نزولها عيداً وموسماً يُتَذَكَّرُ به هذه الآية العظيمة، فتُحْفَظ ولا تُنسى على مرور الأوقات وتكرُّر السنين؛ كما جعل الله تعالى أعياد المسلمين ومناسكهم مذكراً لآياتِهِ، ومنبهاً على سنن المرسلين وطرقهم القويمة وفضله وإحسانه عليهم، {وارزقنا وأنتَ خيرُ الرازقينَ}؛ أي: اجْعَلْها لنا رِزْقاً. فسأل عيسى عليه السلام نزولها وأن تكونَ لهاتين المصلحتين: مصلحة الدين بأن تكون آيةً باقيةً، ومصلحة الدُّنيا، وهي أن تكون رزقاً. {قال الله إني مُنزِّلها عليكم، فمَن يَكْفُرْ بعدُ منكم فإني أعذِّبه عذاباً لا أُعذِّبُه أحداً من العالمين}: لأنَّه شاهدَ الآية الباهرة وكَفَرَ عناداً وظُلماً، فاستحقَّ العذاب الأليم والعقاب الشديد. واعلم أنَّ الله تعالى وَعَدَ أنه سينزلها، وتوعَّدهم إن كفروا بهذا الوعيد، ولم يذكر أنَّه أنزلها: فيُحتمل أنه لم يُنْزِلْها بسبب أنهم لم يختاروا ذلك، ويدلُّ على ذلك أنه لم يذكر في الإنجيل الذي بأيدي النصارى ولا له وجود. ويُحتمل أنها نزلت كما وعد الله، وأنه لا يُخْلِفُ الميعاد، ويكون عدم ذِكْرها في الأناجيل التي بأيديهم من الحظِّ الذي ذُكِّروا به فنسوه، أو أنه لم يُذْكَرْ في الإنجيل أصلاً، وإنَّما ذلك كان متوارثاً بينهم، ينقله الخلف عن السلف، فاكتفى الله بذلك عن ذكرِهِ في الإنجيل، ويدل على هذا المعنى قوله: {ونكونَ عليها من الشاهدين}. والله أعلم بحقيقة الحال. {وإذ قال الله يا عيسى ابن مريم أأنتَ قلتَ للنَّاسِ اتَّخِذوني وأمِّيَ إلهين من دونِ اللهِ}: وهذا توبيخٌ للنصارى الذين قالوا: إنَّ الله ثالثُ ثلاثةٍ! فيقول الله هذا الكلام لعيسى، فيتبرَّأ منه عيسى، ويقول: {سبحانَك}: عن هذا الكلام القبيح وعمَّا لا يَليقُ بك، {ما يكونُ لي أن أقولَ ما ليس لي بحقٍّ}؛ أي: ما ينبغي لي ولا يَليقُ أن أقول شيئاً ليس من أوصافي ولا من حقوقي؛ فإنَّه ليس أحدٌ من المخلوقين لا الملائكة المقرَّبون ولا الأنبياء المرسلون ولا غيرهم له حقٌّ ولا استحقاقٌ لمقام الإلهية، وإنما الجميع عبادٌ مدبَّرونَ وخلقٌ مسخَّرونَ وفقراء عاجزون. {إن كنتُ قلتُه فقد عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ ما في نفسي ولا أعلمُ ما في نفسِكَ}: فأنت أعلم بما صَدَرَ مني وأنت علاَّمُ الغُيوب، وهذا من كمال أدب المسيح عليه الصلاة والسلام في خطابِهِ لربِّه، فلم يَقُلْ عليه السلام: لم أقلْ شيئاً من ذلك، وإنما أخبر بكلام ينفي عن نفسِهِ أن يقولَ كلَّ مقالةٍ تُنافي منصِبَهُ الشريف، وأن هذا من الأمور المحالة، ونزَّه ربَّه عن ذلك أتمَّ تنزيه، وردَّ العلم إلى عالم الغيب والشهادة. ثم صرَّح بذِكْرِ ما أمر به بني إسرائيل، فقال: {ما قلتُ لهم إلَّا ما أمَرْتَني به}: فأنا عبدٌ متَّبِعٌ لأمرِك لا متجرئٌ على عظمتك، {أنِ اعبُدوا الله ربِّي وربَّكم}؛ أي: ما أمرتهم إلاَّ بعبادةِ الله وحدَه وإخلاص الدين له المتضمِّن للنهي عن اتِّخاذي وأمي إلهين من دون الله وبيان أني عبد مربوب؛ فكما أنه ربُّكم فهو ربِّي، {وكنتُ عليهم شهيداً ما دمتُ فيهم}: أشهدُ على من قام بهذا الأمر ممَّن لم يقم به. {فلما توفَّيْتَني كنتَ أنت الرقيبَ عليهم}؛ أي: المطَّلع على سرائِرِهم وضمائِرِهم، {وأنت على كلِّ شيءٍ شهيد}: علماً وسمعاً وبصراً؛ فعلمُك قد أحاط بالمعلومات وسمعُك بالمسموعات وبصرُك بالمبصَرات؛ فأنت الذي تجازي عبادكَ بما تعلمُه فيهم من خيرٍ وشرٍّ. {إن تعذِّبْهم فإنَّهم عبادُكَ}: وأنت أرحمُ بهم من أنفسِهم وأعلمُ بأحوالهم؛ فلولا أنهم عبادٌ متمرِّدون؛ لم تعذبْهم، {وإن تَغْفِرْ لهم فإنَّك أنت العزيز الحكيم}؛ أي: فمغفرتُك صادرة عن تمام عزَّةٍ وقدرةٍ، لا كمن يغفر ويعفو عن عجزٍ وعدم قدرةٍ، {الحكيم}: حيث كان من مقتضى حكمتِكَ أن تغفرَ لمن أتى بأسباب المغفرة. {قال الله} مبيِّناً لحال عبادِهِ يوم القيامة ومَن الفائزُ منهم ومَن الهالكُ ومن الشقيُّ ومن السعيدُ: {هذا يومُ ينفعُ الصادقينَ صدقُهم}: والصادقونَ هم الذين استقامت أعمالُهم وأقوالُهم ونياتهم على الصراط المستقيم والهَدْي القويم؛ فيوم القيامة يجدون ثَمَرَةَ ذلك الصدق إذا أحلَّهم الله في مقعد صدقٍ عند مليكٍ مقتدرٍ. ولهذا قال: {لهم جناتٌ تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها أبداً رضي الله عنهم ورضوا عنه ذلك الفوزُ العظيم}، والكاذبون بضدِّهم سيجِدون ضررَ كَذِبهم وافترائهم وثمرةَ أعمالهم الفاسدة. {لله ملك السموات والأرض}: لأنَّه الخالق لهما والمدبِّر لذلك بحكمِهِ القدريِّ وحكمه الشرعيِّ وحكمه الجزائيِّ. ولهذا قال: {وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فلا يُعْجِزُهُ شيءٌ بل جميعُ الأشياء منقادةٌ لمشيئتِهِ ومسخَّرة بأمرِهِ.
[120-111] یعنی میری اس نعمت کو یاد رکھیے جس سے میں نے تجھ کو نوازا اور تجھ کو انصار و اعوان اور متبعین مہیا کیے۔ پس میں نے حواریوں کی طرف وحی کی، یعنی ان کو الہام کیا اور میں نے ان کے دلوں میں القاء کیا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں یا تیری زبان پر میں نے ان کی طرف وحی کی یعنی میں نے ان کو اس وحی کے ذریعے سے حکم دیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے پاس آئی۔ انھوں نے اس وحی پر لبیک کہا، اس کی اطاعت کی اور کہا ’’ہم ایمان لائے، گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں ‘‘ پس انھوں نے ظاہری اسلام، اعمال صالحہ اور باطنی ایمان کو جو مومن کو نفاق اور ضعف ایمان کے دائرے سے خارج کرتا ہے، جمع کیا۔ حواریوں سے مراد انصار ہیں جیسا کہ جناب مسیح نے حواریوں سے فرمایا تھا ﴿ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ﴾ (آل عمران: 3؍52) ’’اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے‘‘ حواریوں نے عرض کیا ’’ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔‘‘ ﴿اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’جب حواریوں نے کہا، اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تیرا رب طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتارے؟‘‘ یعنی ایسا دستر خوان جس پر کھانا لگا ہوا ہو۔۔۔ یہ مطالبہ اس بنا پر نہیں تھا کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت میں کوئی شک تھا۔ بلکہ یہ درخواست تھی جو عرض اور ادب کے پیرائے میں تھی۔ چونکہ من مانے معجزات کا مطالبہ اطاعت حق کے منافی ہوتا ہے اور یہ کلام حواریوں سے صادر ہوا تھا۔ اور یہ چیز ان کو وہم میں ڈال سکتی تھی اس لیے حضرت عیسیٰu نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ مومن کا سرمایۂ ایمان اسے تقویٰ کے التزام اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور وہ بغیر جانے بوجھے معجزات کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ حواریوں نے عرض کیا کہ ان کا مطالبہ اس معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ تو نیک مقاصد رکھتے ہیں ، ان کا یہ مطالبہ ضرورت کے تحت ہے ﴿ قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُ٘لَ مِنْهَا ﴾ ’’ہم اس سے کھانا چاہتے ہیں ‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کھانے کے محتاج تھے ﴿ وَتَطْمَىِٕنَّ قُ٘لُوْبُنَا ﴾ ’’اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں ‘‘ جب ہم عیاں طور پر معجزات کا مشاہدہ کریں گے تو دل ایمان پر مطمئن ہوں گے حتیٰ کہ ایمان عین الیقین کے درجہ پر پہنچ جائے گا۔ جیسا کہ جناب خلیلu نے اپنے رب سے عرض کیا کہ وہ انھیں اس امر کا مشاہدہ کروائے کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ﴿ قَالَ اَوَ لَمْ تُ٘ـؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ ﴾ (البقرۃ: 2؍260) ’’فرمایا : کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کیا کیوں نہیں ۔ یہ عرض تو محض اس لیے کہ کہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔‘‘پس بندہ ہمیشہ اپنے علم، ایمان اور یقین میں اضافے کا محتاج اور متمنی رہتا ہے ﴿ وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا ﴾ ’’اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے۔‘‘ یعنی جو چیز آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ہم اس کی صداقت کو جان لیں کہ یہ حق اور سچ ہے ﴿ وَنَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ ﴾ ’’اور ہم اس پر گواہوں میں سے ہو جائیں ‘‘ اور یہ چیز ہمارے بعد آنے والوں کے لیے مصلحت کی حامل ہو گی۔ ہم آپ کے حق میں گواہی دیں گے، تب حجت قائم ہو جائے گی اور دلیل و برہان کی قوت میں اضافہ ہو گا۔ جب عیسیٰu نے ان کی یہ بات سنی اور ان کا مقصود انھیں معلوم ہو گیا تو انھوں نے ان کی درخواست قبول فرما کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ﴿ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّؔنْكَ ﴾ ’’اے اللہ! ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتار، یہ ہمارے پہلے اور پچھلے لوگوں کے لیے خوشی کا باعث اور تیری طرف سے نشانی ہو‘‘ یعنی اس کھانے کے نازل ہونے کا وقت ہمارے لیے عید اور یادگار بن جائے تاکہ اس عظیم معجزے کو یاد رکھا جائے اور مرور ایام کے ساتھ اس کی حفاظت کی جائے اور ہم اس کو بھول نہ جائیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عیدیں اور عبادت کے دن مقرر فرمائے ہیں جو اس کی آیات کی یاد دلاتے ہیں اور انبیا و مرسلین کی سنن اور ان کی سیدھی راہ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں ﴿وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ﴾ ’’اور ہمیں روزی دے اور تو ہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘ یعنی اسے ہمارے لیے رزق بنا۔ پس حضرت عیسیٰu نے ان دو مصلحتوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے دسترخوان کے اترنے کی دعا کی تھی۔ دینی مصلحت، یعنی یہ نشانی کے طور پر باقی رہے اور دنیاوی مصلحت، یعنی یہ رزق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَ٘مَنْ یَّكْ٘فُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابً٘ا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’بے شک میں اسے تم پر اتاروں گا، پس اس کے بعد تم میں سے جو کفر کرے گا تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دوں گا‘‘ کیونکہ اس نے واضح معجزے کا مشاہدہ کر کے ظلم اور عناد کی بنا پر اس کا انکار کر دیا اور یوں وہ دردناک عذاب اور سخت سزا کا مستحق ٹھہرا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ وہ دستر خوان نازل کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو ان کے کفر کی صورت میں مذکورہ بالا وعید بھی سنائی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے نازل کرنے کا ذکر نہیں فرمایا۔ احتمال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے اسے نازل نہیں فرمایا ہو گا کہ انھوں نے اس کو اختیار نہیں کیا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کا ذکر انجیل کے اس نسخے میں نہیں ہے جو اس وقت عیسائیوں کے پاس ہے۔ اس میں اس امر کا بھی احتمال ہے کہ دستر خوان نازل ہوا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اور انجیل میں اس کا ذکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ اسے بھول گئے ہوں گے جس کو یاد رکھنے کے لیے ان کو کہا گیا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واقعہ سرے سے انجیل میں موجود ہی نہ ہو اور نسل در نسل زبانی منتقل ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے انجیل میں اس کا ذکر کیے بغیر اس کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَنَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ ﴾ ’’اور ہم اس پر گواہ رہیں ۔‘‘ بھی اس معنی پر دلالت کرتا ہے۔ حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے۔ ﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّؔخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جب اللہ کہے گا، اے عیسیٰ بن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو معبود بنا لینا، اللہ کے سوا۔‘‘یہ نصاریٰ کے لیے زجر و توبیخ ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ خطاب حضرت عیسیٰ کے لیے ہے۔ جناب عیسیٰu اس سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے فرمائیں گے ﴿ قَالَ سُبْحٰؔنَكَ ﴾ ’’پاک ہے تو‘‘ یعنی میں اس قبیح کلام اور جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہ ہو، اس سے اللہ کی پاکی اور تنزیہ بیان کرتا ہوں ﴿ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَ٘قُ٘وْلَ مَا لَ٘یْسَ لِیْ١ۗ بِحَقٍّ ﴾ ’’مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں ۔‘‘ یعنی میرے لیے مناسب نہیں ہے اور نہ میری شان کے لائق ہے کہ میں ایسی کوئی بات کہوں جو میرے اوصاف میں شامل ہے نہ میرے حقوق میں ۔ کیونکہ مخلوق میں سے کسی کو بھی یہ حق نہیں ، اللہ کے مقرب فرشتوں ، انبیا و مرسلین اور دیگر مخلوق میں سے کوئی بھی مقام الوہیت کا حق اور استحقاق نہیں رکھتا۔ یہ تمام ہستیاں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی تدبیر کے تحت ہیں ، اللہ تعالیٰ کی مسخر کی ہوئی مخلوق، عاجز اور محتاج ہیں ۔ ﴿ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ ﴾ ’’اگر میں نے یہ کہا ہو گا تو تجھ کو ضرور معلوم ہو گا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے‘‘ یعنی جو کچھ مجھ سے صادر ہو چکا ہے تو اسے زیادہ جانتا ہے ﴿ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ﴾ ’’بے شک تو علام الغیوب ہے۔‘‘ یہ عیسیٰu کی طرف سے اپنے رب سے مخاطب ہوتے وقت کمال ادب کا مظاہرہ ہے، چنانچہ آپ نے یہ نہیں کہا (لَمْ أَقُلْ شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ) ’’میں نے تو اس میں سے کچھ بھی نہیں کہا‘‘ بلکہ آپ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپ کی طرف سے ہر ایسی بات کہی جانے کی نفی کرتی ہے جو آپ کے منصب شریف کے منافی ہو نیز یہ کہ ایسا کہنا امر محال ہے۔ آپ نے اپنے رب کی تنزیہ بیان فرمائی اور علم کو غائب اور موجود کے جاننے والے اللہ کی طرف لوٹا دیا۔ پھر مسیحu نے تصریح فرمائی کہ انھوں نے بنی اسرائیل کے سامنے صرف وہی چیز بیان کی تھی کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا ﴿مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ ﴾ ’’میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تونے مجھے حکم د یا۔‘‘ پس میں تو تیرا تابع بندہ ہوں مجھے تیری عظمت کے سامنے دم مارنے کی جراء ت نہیں ﴿اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ ﴾ ’’یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا رب ہے۔‘‘ میں نے تو صرف الٰہ واحد کی عبادت اور اخلاص دین کا حکم دیا تھا جو کہ اس بات کا متضمن ہے کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنانے سے باز رہیں اور اس بیان کا متضمن ہے کہ میں تو اپنے رب کی ربوبیت کا محتاج ہوں۔ وہ جیسے تمھارا رب ہے ویسے ہی میرا بھی رب ہے۔ ﴿ وَؔكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ ﴾ ’’اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا‘‘ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کون اس بات پر قائم رہا اور کون اس پر قائم نہ رہ سکا ﴿فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’پس جب تو نے مجھ کو (آسمان پر) اٹھا لیا تو تو ہی ان کی خبر رکھنے والا تھا‘‘ یعنی ان کے بھیدوں اور ضمائر کو جاننے والا ﴿ وَاَنْتَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ﴾ ’’اور تو ہر چیز سے خبردار ہے‘‘ یعنی تو چونکہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اس لیے تو ہر چیز پر شاہد ہے۔ تیرا علم تمام معلومات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تیری سماعت مسموعات کو سن رہی ہے اور تیری بصر تمام مرئیات کو دیکھ رہی ہے۔ پس تو ہی اپنے بندوں کو اپنے علم کے مطابق خیر و شر کی جزا دے گا۔ ﴿ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ﴾ ’’اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں ‘‘ یعنی تو اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جس قدر وہ اپنے آپ پر رحم کر سکتے ہیں ۔ تو ان کے احوال زیادہ جانتا ہے اگر وہ متکبر اور سرکش بندے نہ ہوتے تو تو انھیں کبھی عذاب نہ دیتا ﴿وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ﴾ ’’اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے‘‘ تیری مغفرت تیری کامل قدرت اور غلبہ سے صادر ہوتی ہے۔ تیری مغفرت اور تیرا معاف کر دینا اس شخص کی مانند نہیں جو عاجزی اور عدم قدرت کی بنا پر معاف کر دیتا ہے تو حکمت والا ہے جہاں کہیں تیری حکمت تقاضا کرتی ہے تو اس شخص کو بخش دیتا ہے جو تیری مغفرت کے اسباب لے کر تیری خدمت میں آتا ہے۔ ﴿ قَالَ اللّٰهُ ﴾ قیامت کے روز بندوں کا جو حال ہو گا اللہ تعالیٰ اسے بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ کہ قیامت کے روز کون کامیابی سے بہرہ ور ہو گا اور کون ہلاک ہو گا، کسے سعادت نصیب ہو گی اور کس کے حصے میں بدبختی آئے گی ﴿ هٰؔذَا یَوْمُ یَنْ٘فَ٘عُ الصّٰؔدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ ﴾ ’’یہ دن ہے کہ کام آئے گا سچوں کے ان کا سچ‘‘ اصحاب صدق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اعمال، اقوال اور نیات درست، صراط مستقیم پر قائم اور صحیح نہج پر ہیں ۔ قیامت کے روز وہ اپنے صدق کا پھل پائیں گے جب اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں پاک مقام میں ہر طرح کی کامل قدرت رکھنے والے بادشاہ کے پاس ٹھہرائے گا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ ہے کامیابی بڑی۔‘‘جھوٹوں کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ ہو گا۔ ان کو ان کے جھوٹ اور بہتان سے ضرر پہنچے گا اور وہ اپنے فاسد اعمال کا پھل چکھیں گے۔ ﴿ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِیْهِنَّ﴾ ’’اللہ ہی کے لیے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہی اپنے حکم کونی و قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کے ذریعے سے ان کی تدبیر کر رہا ہے اس لیے فرمایا: ﴿ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘پس کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی بلکہ تمام اشیا اس کی مشیت کی مطیع اور اس کے حکم کے سامنے مسخر ہیں ۔