آیت:
تفسیر سورۂ آل عمران
تفسیر سورۂ آل عمران
اس کی شروع کی اسی (۸۰) سے زیادہ آیات عیسائیوں سے مباحثہ، ان کے مذہب کی تردید اور انھیں سچے دین یعنی اسلام کو قبول کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔ جس طرح سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات یہود سے مناظرہ پر مشتمل ہیں۔
آیت: 1 - 6 #
{الم (1) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (2) نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (3) مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ (4) إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (5) هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (6)}.
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔ الٓمّٓ(1) اللہ، نہیں کوئی معبود سوائے اس کے، زندہ ہے، سب کو سنبھالنے والا(2) نازل کی اس نے آپ پر کتاب ساتھ حق کے، تصدیق کرنے والی ہے ان (کتابوں) کی جو اس سے پہلے تھیں اور اس نے نازل کی تورات اور انجیل(3) اس سے پہلے، ہدایت کے لیے واسطے لوگوں کےاور نازل کیا اس نے فرقان، بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ساتھ اللہ کی آیتوں کے واسطے ان کے عذاب شدید ہےاور اللہ غالب ہے بدلہ لینے والا(4) بے شک اللہ، نہیں مخفی اس پر کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں(5) وہی ہے جو صورتیں بناتا ہے تمھاری رحموں میں جس طرح چاہتا ہے، نہیں کوئی معبود مگر وہی، غالب ہے، خوب حکمت والا(6)
#
{1} {الم}؛ من الحروف التي لا يعلم معناها إلا الله.
[1] الم ۔ یہ ان حروف میں سے ہے جن کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
#
{2} فأخبر تعالى أنه {الحي}؛ كامل الحياة {القيوم}؛ القائم بنفسه المقيم لأحوال خلقه، وقد أقام أحوالهم الدينية وأحوالهم الدنيوية والقدرية، فأنزل على رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم - الكتاب بالحق الذي لا ريب فيه وهو مشتمل على الحق.
[2] اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اپنی الوہیت کے اعلان سے شروع کی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہی ایسا معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبادت صرف اسی کی، اور اسی کے لیے ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس کے سوا جس معبود کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے۔ اللہ ہی سچا معبود ہے جو الوہیت کی تمام صفات سے موصوف ہے جن سب کا تعلق حیات اور قومیت کی صفات سے ہے۔ ﴿الْحَیُّ﴾ سے مراد یہ ہے کہ اسے عظیم ترین اور کامل ترین حیات کی صفات حاصل ہیں، جو ان تمام صفات کو مستلزم ہیں جن کے بغیر صفات حیات کی تکمیل نہیں ہوتی، مثلاً سمع، بصر، قدرت، قوت، عظمت، بقا، دوام اور غلبہ ﴿ الْقَیُّوْمُ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بخود قائم ہے لہٰذا تمام مخلوقات سے بے پروا ہے۔ اور وہ سب کو قائم رکھنے والا ہے اس لیے تمام مخلوقات وجود میں آنے، تیار ہونے اور ترقی کرنے میں اس کی محتاج ہیں۔ وہی تمام مخلوقات کا مدبر اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ جسموں، روحوں اور دلوں کے تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی قیومیت اور رحمت کی بنا پر اس نے اپنے رسول محمدeپر وہ کتاب نازل کی، جو سب سے عظیم کتاب ہے، جس کی خبریں اور احکام سب حق ہیں۔ اس نے جو خبریں دی ہیں وہ سچی ہیں۔ جو اس نے حکم دیے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہیں۔ اس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ بندے اس کتاب کا علم حاصل کریں اور اپنے رب کی عبادت کریں۔
#
{3 ـ 4} {مصدقاً لما بين يديه}؛ من الكتب أي شهد بما شهدت به ووافقها وصدق من جاء بها من المرسلين. وكذلك {أنزل التوراة والإنجيل من قبل} هذا الكتاب، {هدى للناس}؛ وأكمل الرسالة وختمها بمحمد - صلى الله عليه وسلم - وكتابه العظيم الذي هدى الله به الخلق من الضلالات واستنقذهم به من الجهالات، وفرق به بين الحق والباطل والسعادة والشقاوة، والصراط المستقيم وطرق الجحيم، فالذين آمنوا به، واهتدوا حصل لهم به الخير الكثير والثواب العاجل والآجل و {الذين كفروا بآيات الله}؛ التي بينها في كتابه وعلى لسان رسوله {لهم عذاب شديد والله عزيز ذو انتقام}؛ ممن عصاه.
[4,3]﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ ﴾ ’’جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے‘‘ یعنی گزشتہ کتابوں کی تائید کرتی ہے جس مسئلہ کے حق میں قرآن فیصلہ دے وہی مقبول ہے اور جس کی یہ تردید کرے وہی ناقابل قبول ہے۔ یہ ان تمام مسائل کے مطابق ہے جن پر تمام رسولوں کا اتفاق ہے۔ ان سے اس کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اہل کتاب جب تک قرآن پر ایمان نہ رکھیں تب تک اپنی کتابوں کو سچا نہیں مان سکتے۔ کیونکہ قرآن کا انکار ان کتابوں پر ایمان کو کالعدم کردیتا ہے۔ ﴿ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ ﴾ ’’اس نے(موسیٰuپر)تورات‘‘ اور عیسیٰuپر ﴿ وَالْاِنْجِیْلَ﴾ ’’انجیل کو اتارا تھا‘‘ اس ﴿ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’قرآن کے نازل کرنے سے پہلے۔‘‘ ﴿ هُدًى لِّلنَّاسِ ﴾ لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر‘‘ ہدایت کی صفت ان تمام کے لیے ہے یعنی اللہ نے قرآن تورات اور انجیل کو لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے رہنما بنا کر نازل کیا تھا۔ جس نے اللہ کی یہ ہدایت قبول کرلی، وہ ہدایت یافتہ ہوا۔ اور جس نے قبول نہ کیا وہ گمراہ رہا۔ ﴿ وَاَنْزَلَ الْ٘فُرْقَانَ ﴾ ’’اور اس نے فرقان کو نازل کیا۔‘‘ یعنی دلائل و براہین قاطعہ، جن سے تمام مقاصد و مطالب پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے مخلوق کی ضرورت کے مطابق تفصیل و تفسیر بیان کی ہے۔ جس سے احکام و مسائل نہایت واضح ہوگئے ہیں۔ لہٰذا کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اور اس پر ایمان نہ لانے والے کسی شخص کے پاس کوئی حجت و دلیل باقی نہیں رہی، اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’جو لوگ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں‘‘ حالانکہ اللہ نے انھیں خوب واضح فرما دیا اور تمام شبہات کو دور فرما دیا ہے۔ ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ﴾ ’’ان کے لیے سخت عذاب ہے۔‘‘ جس کی شدت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں، اور جس کی حقیقت و کیفیت معلوم نہیں ہوسکتی۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ ﴾ ’’اللہ غالب ہے‘‘ اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور ﴿ ذُو انْتِقَامٍ ﴾ جو اس کی نافرمانی کرے اس سے ’’بدلہ لینے والا ہے‘‘
#
{5 ـ 6} ومن تمام قيوميته تعالى أن علمه محيط بالخلائق {لا يخفى عليه شيء في الأرض ولا في السماء}؛ حتى ما في بطون الحوامل فهو {الذي يصوركم في الأرحام كيف يشاء}؛ من ذكر وأنثى وكامل الخلق وناقصه متنقلين في أطوار خلقته وبديع حكمته، فمن هذا شأنه مع عباده واعتناؤه العظيم بأحوالهم من حين أنشأهم إلى منتهى أمورهم لا مشارك له في ذلك فيتعين أنه لا يستحق العبادة إلا هو {لا إله إلا هو العزيز}؛ الذي قهر الخلائق بقوته، واعتز عن أن يوصف بنقص، أو ينعت بذم. {الحكيم}؛ في خلقه وشرعه.
[6,5] ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ﴾ ’’یقیناً اللہ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں‘‘ یعنی اس کا علم تمام معلومات کو محیط ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ مثلاً ماؤں کے پیٹوں میں جو بچے ہیں، انھیں مخلوق کی نظریں نہیں دیکھ سکتیں، نہ لوگ ان کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بڑی باریک بینی سے انھیں سنبھالتا ہے اور ان سے متعلق ہر چیز کا صحیح اندازہ مقرر کرتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُؔكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ ﴾ ’’وہ ماں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔‘‘ یعنی کامل جسم والے یا ناقص الخلقت، خوبصورت یابدصورت، مذکر یا مونث۔ ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَؔكِیْمُ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ غالب ہے حکمت والا ہے‘‘ اس سے اللہ تعالیٰ کا معبود ہونا، ثابت و متعین ہوتاہے اور نہ صرف اسی کا معبود ہونا بلکہ اس کے سوا پوجے جانے والوں کی الوہیت کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے۔ اور اس سے نصاریٰ کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو حضرت عیسیٰuکو معبود سمجھتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی حیات کاملہ اور قیومیت تامہ کا اثبات بھی ہے، جن سے تمام صفات مقدسہ کا اثبات ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس سے بڑی بڑی شریعتوں کا ثبوت بھی ملتا ہے اور یہ بیان ہے کہ وہ لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث تھیں۔ اور یہ کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ہدایت یافتہ اور ہدایت سے محروم۔ اور ہدایت قبول نہ کرنے والے کی سزا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کی مشیئت اور حکمت کاواقع ہوکر رہنا ثابت ہوتا ہے۔
آیت: 7 - 8 #
{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (7) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (8)}.
وہی ہے جس نے نازل کی آپ پر کتاب، اس کی بعض آیتیں محکم (واضح) ہیں وہی ہیں اصل کتاب اور (کچھ) دوسری متشابہ (غیر واضح) ہیں، پس لیکن وہ لوگ کہ ان کے دلوں میں کجی ہے، تو وہ پیچھے لگتے ہیں انھی آیتوں کے جو متشابہ ہیں ان میں سے، واسطے تلاش کرنے فتنہ کے اور واسطے تلاش کرنے اس کی تاویل کے، حالانکہ نہیں جانتا ان کی تاویل (کوئی بھی) سوائے اللہ کے،اور وہ لوگ جو پختہ ہیں علم میں وہ کہتے ہیں، ہم ایمان لائے ساتھ اس کے، (یہ) سب ہمارے رب کی طرف سے ہےاور نہیں نصیحت حاصل کرتے مگر عقل مند ہی(7) اے ہمارے رب! نہ ٹیڑھا کر ہمارے دلوں کو بعد اس کے کہ ہدایت دی تونے ہمیں اور عطا کرواسطے ہمارے اپنے پاس سے رحمت، بے شک توہی ہے بڑا عطا کرنے والا(8)
#
{7} يخبر تعالى عن عظمته وكمال قيوميته أنه هو الذي تفرد بإنزال هذا الكتاب العظيم، الذي لم يوجد، ولن يوجد له نظير أو مقارب في هدايته وبلاغته وإعجازه وإصلاحه للخلق، وأن هذا الكتاب يحتوي على المحكم الواضح المعاني، البين الذي لا يشتبه بغيره، ومنه آيات متشابهات تحتمل بعض المعاني، ولا يتعين منها واحد من الاحتمالين بمجردها حتى تضم إلى المحكم، فالذين في قلوبهم مرض وزيغ وانحراف لسوء قصدهم يتبعون المتشابه منه؛ فيستدلون به على مقالاتهم الباطلة، وآرائهم الزائفة، طلباً للفتنة وتحريفاً لكتابه، وتأويلاً له على مشاربهم ومذاهبهم ليَضِلوا ويُضِلوا. وأما أهل العلم الراسخون فيه الذين وصل العلم واليقين إلى أفئدتهم، فأثمر لهم العمل والمعارف فيعلمون أن القرآن كله من عند الله وأنه كله حق محكمه ومتشابهه، وأن الحق لا يتناقض ولا يختلف، فلعلمهم أن المحكمات معناها في غاية الصراحة والبيان، يردون إليها المشتبه الذي تحصل فيه الحيرة لناقص العلم وناقص المعرفة، فيردون المتشابه إلى المحكم فيعود كله محكماً ويقولون: {آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر}؛ للأمور النافعة والعلوم الصائبة {إلا أولو الألباب}؛ أي: أهل العقول الرزينة، ففي هذا دليل على أن هذا من علامة أولي الألباب وأن اتباع المتشابه من أوصاف أهل الآراء السقيمة والعقول الواهية والقصود السيئة. وقوله: {وما يعلم تأويله إلا الله}؛ إن أريد بالتأويل معرفة عاقبة الأمور وما تنتهي وتؤول إليه تعين الوقوف على {إلا الله} حيث هو تعالى المتفرد بالتأويل بهذا المعنى، وإن أريد بالتأويل معنى التفسير ومعرفة معنى الكلام كان العطف أولى؛ فيكون هذا مدحاً للراسخين في العلم، أنهم يعلمون كيف ينزلون نصوص الكتاب والسنة محكمها ومتشابهها. ولما كان المقام مقام انقسام إلى منحرفين ومستقيمين دعوا الله تعالى أن يثبتهم على الإيمان فقالوا:
[7] قرآن مجید سب کا سب محکم (پختہ، مضبوط) ہے جیسے اللہ نے فرمایا: ﴿ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ﴾ (ہود:11؍1) ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں محکم ہیں۔ پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے‘‘ لہٰذا یہ انتہائی مضبوطی، عدل اور احسان پر مشتمل ہیں۔ ﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾ (المائدۃ: 5؍50) ’’یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہوسکتا ہے‘‘ ایک لحاظ سے قرآن سب کا سب متشابہ ہے۔ یعنی یہ حسن و بلاغت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی تصدیق کرنے کی بنا پر اور ایک دوسرے سے لفظی اور معنوی مطابقت رکھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ اس آیت میں جس محکم اور متشابہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ تو اللہ کے فرمان کے مطابق ﴿ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ﴾ یعنی واضح مفہوم کی حامل آیات ہیں۔ جن میں نہ کوئی شبہ ہے نہ اشکال۔ ﴿ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ ﴾ یعنی وہ کتاب کی اصل اور بنیادی تعلیمات ہیں۔ ہر متشابہ کو انھی کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ قرآن کا اکثر حصہ ایسی ہی محکم آیات پر مشتمل ہے۔ ﴿ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ﴾ ’’اور دوسری کچھ متشابہ آیتیں ہیں‘‘ یعنی بعض افراد کے ذہنوں میں ان کا مفہوم ملتبس ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کی دلالت مجمل ہے یابعض لوگ سرسری نظر میں وہ مفہوم سمجھ بیٹھتے ہیں جو اصل میں مراد نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات واضح ہیں جو آسانی سے ہر شخص کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ یہ بہت زیادہ ہیں۔ ان ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ کچھ آیتیں ہیں جو بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس صورت میں متشابہ کو محکم کی روشنی میں اور خفی کو جلی کی مدد سے سمجھنا ضروری ہے۔ اس طریقے سے آیات ایک دوسری کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف اور تعارض معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن لوگ دو قسموں میں منقسم ہیں: ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ زَیْغٌ ﴾ ’’پس جن کے دلوں میں کجی ہے‘‘ یعنی وہ سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کے ارادے خراب ہیں۔ گمراہی ان کا مقصود بن گئی ہے۔ ان کے دل ہدایت کی راہ سے برگشتہ ہوچکے ہیں۔ ﴿ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ﴾ ’’وہ اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں‘‘ یعنی محکم اور واضح ارشادات کو چھوڑ کر متشابہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اور معاملہ کو الٹ طریقے سے لے کر محکم کو متشابہ پر محمول کرتے ہیں۔ ﴿ ابْتِغَآءَؔ الْفِتْنَةِ ﴾ ’’فتنے کی طلب میں‘‘ یعنی ان لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جن کو یہ اپنے قول کی طرف بلاتے ہیں۔ متشابہ میں چونکہ اشتباہ موجود ہوتا ہے، اس لیے اس کے ذریعے سے فتنہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ورنہ محکم اور صریح میں فتنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو شخص حق کی پیروی کرنا چاہے اسے محکم میں واضح حق مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَابْتِغَآءَؔ تَاْوِیْلِهٖ١ؐ ۚ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ ’’اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے۔ حالانکہ اس کی حقیقی مراد کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے‘‘ اس آیت میں علماء کے دو قول ہیں۔ اکثر علمائے کرام لفظ اللہ پر وقف کرتے ہیں۔ (موجودہ ترجمہ اسی قول کے مطابق ہے) اور بعض لوگ ﴿ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ ﴾ کا عطف بھی اس پر مانتے ہیں۔ (اس صورت میں یہ ترجمہ ہوگا ’’حالانکہ اس کی تفسیر کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور پختہ علم والوں کے۔‘‘ یعنی پختہ علم والے بھی جانتے ہیں۔) یہ دونوں تشریحات درست ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اگر تاویل سے مراد کسی شے کی حقیقت اور کنہ جاننا ہو تو ﴿اِلَّا اللّٰهُ﴾ پر وقف کرنا ہی درست ہوگا۔ کیونکہ جن اشیاء کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ مثلاً اللہ کی صفات کی حقیقت و کیفیت، آخرت میں پیش آنے والے اوصاف کی حقیقت وغیرہ۔ ان کو تو اللہ کے سوا واقعی کوئی نہیں جانتا۔ اس کو معلوم کرنے کی کوشش کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ ایسی چیز کی کوشش ہے جسے جاننا ممکن ہی نہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اس آیت کا کیا مطلب ہے: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْ٘عَرْشِ اسْتَوٰى ﴾ (طہ:20؍5) ’’رحمان عرش پر مستوی ہے‘‘ سائل نے کہا: ’’کس طرح مستوی ہے؟‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: (اَلْإِسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ، وَالْکَیْفُ مَجْہُولٌ، وَالْإِیمَانُ بِہِ وَاجِبٌ، وَالسَّوَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ) ’’إِسْتَوَاءٌ (قائم ہونا) معلوم ہے (یعنی واضح لفظ ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں) اس کی کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے بارے میں یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص ان کی کیفیت دریافت کرے تو امام مالک رحمہ اللہ کی طرح کہہ دیا جائے کہ یہ صفت تو معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔ تاہم اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا (کہ یہ صفت کس طرح ہے) بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ صفات بتائی ہیں۔ ان کی کیفیت بیان نہیں فرمائی۔ لہٰذا ہمیں اپنی حد تک آکر رک جانا چاہیے۔ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ گمراہ لوگ ان متشابہ امور کے بارے میں بے فائدہ بحث کرتے ہیں، اور اس چیز کے حصول کی ناکام کوشش کرتے ہیں جنھیں معلوم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، کیونکہ انھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پختہ کار اہل علم ان پر ایمان لاتے ہیں، اور ان کی حقیقت اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس طرح (فرمان الٰہی کو) تسلیم کرکے (تکلفات اور غلطیوں سے) محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اگر تاویل کا مطلب تفسیر اور وضاحت لیا جائے تو ﴿ وَالرّٰسِخُوْنَ ﴾ کا عطف لفظ اللہ پر ہوگا۔ (اس صورت میں لفظ اللہ پر وقف نہیں ہوگا، بلکہ العلم پر وقف ہوگا) اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھ کر اس کی تفسیر کرنا اور اس کے شبہات دور کرنا یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور پختہ علم والے بھی جانتے ہیں چنانچہ وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ا ور اسے محکم کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ﴿ كُ٘لٌّ٘ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ﴾ ’’یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے‘‘ یعنی محکم اور متشابہ سب اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ اور اس کی طرف سے آنے والی چیز میں تعارض اور تناقض نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ اس سے ایک بڑے اصول کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ تو جب انھیں کسی مجمل طورپر ذکر کیے متشابہ میں اشکال پیدا ہوتا ہے۔ تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم بہرحال محکم کے مطابق ہی ہوگا، اگرچہ ہم سمجھ نہ سکے ہوں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام پر ایمان لانے اور تسلیم کرنے کی ترغیب دی ہے اور متشابہ کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا ہے اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا یَذَّكَّـرُ ﴾ یعنی اللہ کی نصیحت سے فیض یاب ہونے والے، اس کی نصیحت اور اس کی طرف سے آنے والے علم کو قبول کرنے والے ﴿ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ صرف وہ لوگ ہیں جو کامل عقلوں والے ہیں۔ وہی جوان کا مغز اور بنی آدم کا خلاصہ (اور بہترین حصہ) ہیں۔ نصیحت ان کی عقلوں تک پہنچتی ہے تو انہیں اپنے فائدے کی باتیں معلوم ہوتی ہیں تو وہ اس پر عمل کرلیتے ہیں۔ اور انھیں (اس نصیحت کے ذریعے سے) اپنے نقصان کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں تب وہ ان سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی سمجھ مغز کے بجائے چھلکے سے مشابہت رکھتی ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ ان سے کوئی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو نہ تنبیہ اور زجر و توبیخ سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، نہ سمجھانے سے کیونکہ ان کے پاس وہ عقل ہی نہیں، جس سے انھیں کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
#
{8} {ربنا لا تزغ قلوبنا}؛ أي: لا تملها عن الحق إلى الباطل {بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة} تصلح بها أحوالنا؛ {إنك أنت الوهاب}؛ أي: كثير الفضل والهبات. وهذه الآية تصلح مثالاً للطريقة التي يتعين سلوكها في المتشابهات، وذلك أن الله تعالى ذكر عن الراسخين أنهم يسألونه أن لا يزيغ قلوبهم بعد إذ هداهم؛ وقد أخبر في آيات أخر الأسباب التي بها تزيغ قلوب أهل الانحراف وأن ذلك بسبب كسبهم كقوله: {فلما زاغوا أزاغ الله قلوبهم}؛ {ثم انصرفوا صرف الله قلوبهم}؛ {ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة}؛ فالعبد إذا تولى عن ربه، ووالى عدوه، ورأى الحق فصدف عنه ورأى الباطل فاختاره ولاه الله ما تولى لنفسه، وأزاغ قلبه عقوبة له على زيغه، وما ظلمه الله ولكنه ظلم نفسه، فلا يلم إلا نفسه الأمارة بالسوء. والله أعلم.
[8] اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ ﴾ ’’پختہ کار علما‘‘ کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُ٘لُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے‘‘ یعنی ایسا نہ ہو کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے ہم حق سے روگردانی کریں۔ بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے والے، ہدایت دینے والے اور ہدایت پانے والے بنا۔ ہمیں ہدایت پر قائم رکھ، اور ہمیں ان (بداعمالیوں) سے محفوظ رکھ، جن میں گمراہ مبتلا ہوچکے ہیں۔ ﴿ وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ﴾ ’’اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما‘‘ یعنی ہمیں ایسی عظیم رحمت عطا فرما، جس کے ساتھ ہمیں نیکیوں کی توفیق اور گناہوں سے حفاظت فرمائے۔ ﴿ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ﴾ ’’یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے‘‘ یعنی تیرے انعامات و عطیات بے حد وسیع اور تیرے احسانات بے شمار ہیں۔ تیری سخاوت سے ہر مخلوق بہرہ ور ہوتی ہے۔
آیت: 9 #
{رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (9)}.
اے ہمارے رب! یقیناً تو جمع کرنے والا ہے لوگوں کو ایک دن کہ نہیں ہے شک اس میں، بلاشبہ اللہ نہیں خلاف ورزی کرتا وعدے کی(9)
#
{9} هذا من تتمة كلام الراسخين في العلم، وهو يتضمن الإقرار بالبعث والجزاء واليقين التام، وأن الله لا بد أن يوقع ما وعد به، وذلك يستلزم موجبه ومقتضاه من العمل والاستعداد لذلك اليوم، فإن الإيمان بالبعث والجزاء أصل صلاح القلوب، وأصل الرغبة في الخير والرهبة من الشر اللذين هما أساس الخيرات.
[9] ﴿رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ ’’اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘ لہٰذا وہ ان کی نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ ضرور دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے (رَاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ) کی سات صفات بیان کی ہیں۔ یہ بندے کی خوش بختی کی علامت ہیں۔ (۱) علم: یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ اس کے احکامات اور قوانین کو واضح کرتا ہے۔ (۲)رسوخ فی العلم ’’علم میں پختہ ہونا‘‘ یہ صفت محض علم سے بڑھ کرہے، اس لیے کہ راسخ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آدمی محقق و مدقق عالم ہو۔ جس کو اللہ نے ظاہری علم بھی عطا فرمایا ہو اور باطنی علم بھی۔ شریعت کے اسرار میں اس کا علم بھی پختہ ہوتا ہے، عمل بھی درست ہوتا ہے اور حال بھی کامل ہوتا ہے۔ (۳)وہ پوری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ﴿یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُ٘لٌّ٘ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ﴾ ’’کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لاچکے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے‘‘ (۴) وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اور جن غلطیوں میں گمراہ مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ ان سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ (۵) وہ اللہ کا احسان مانتے ہیں کہ اس نے انھیں ہدایت دی۔ کیونکہ کہتے ہیں۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُ٘لُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے‘‘ (۶) اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کی رحمت کا سوال کرتے ہیں۔ جس میں ہر بھلائی کا حصول اور ہر برائی سے بچاؤ شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ کے اسم مبارک اَلْوَھَّاب کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ (۷) اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ قیامت کے آنے پر ایمان اور پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس سے ڈرتے ہیں۔ یہی ایمان عمل کرنے پر آمادہ کرتا اور لغزش سے بچا کر رکھتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت: 10 - 11 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ (10) كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ (11)}.
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہرگز نہیں کام آئیں گے ان کے مال ان کے اور نہ ان کی اولاد اللہ (کے عذاب) سے کچھ بھی اور یہی لوگ ایندھن ہیں آگ کا(10) مانند عادت آل فرعون کے اور ان لوگوں کے جو ان سے پہلے تھے، جھٹلایا انھوں نے ہماری آیتوں کو، پس پکڑ لیا ان کو اللہ نے بہ سبب ان کے گناہوں کے،اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے(11)
#
{10 ـ 11} لما ذكر يوم القيامة، ذكر أن جميع من كفر بالله، وكذب رسل الله لا بد أن يدخلوا النار ويصلوها، وأن أموالهم وأولادهم لن تغني عنهم شيئاً من عذاب الله، وأنه سيجري عليهم في الدنيا من الأخْذات والعقوبات ما جرى على فرعون وسائر الأمم المكذبة بآيات الله، {أخذهم الله بذنوبهم}؛ وعجل لهم العقوبات الدنيوية متصلة بالعقوبات الأخروية {والله شديد العقاب}؛ فإياكم أن تَسْتَهْوِنوا بعقابه فيهون عليكم الإقامة على الكفر والتكذيب.
[11,10] اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے، اس کے دین اور اس کی کتاب کا انکار کرنے والے، اپنے کفر اور گناہوں کی وجہ سے سزا اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ وہاں انھیں اپنے مالوں اور اولادوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں وہ آنے والی مصیبتوں کا ان کے ذریعے سے مقابلہ کرلیا کرتے تھے۔ اور کہا کرتے تھے ﴿ نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا١ۙ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ﴾ (النساء:34؍35) ’’ہمارے مال اور ہماری اولادیں زیادہ ہیں۔ ہمیں عذاب نہیں ہوگا‘‘ قیامت کے دن انھیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی انھیں بالکل توقع نہ ہوگی۔ ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠﴾ (الزمر:39؍48) ’’ان کے کمائے ہوئے اعمال کا برا انجام ان کے سامنے آجائے گا اور انہیں وہ عذاب گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے‘‘ اللہ کے ہاں مال اور اولاد کی قدر نہیں، بلکہ بندے کو اللہ پر ایمان لانے کا اور نیک اعمال کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿وَمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُؔكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْ٘فٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا١ٞ فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِی الْ٘غُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ﴾ (سبا:34؍37) ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد وہ چیز نہیں جو تمھیں ہمارا قرب بخشتی ہیں بلکہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے انھی لوگوں کو اپنے اعمال کا دگنا بدلہ ملے گا، اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے‘‘ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ کافر جہنم کا ایندھن ہیں، یعنی ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ قانون کہ کافروں کو ان کے مالوں یا اولادوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا، گزشتہ امتوں میں بھی اللہ کا یہی قانون جاری رہاہے۔ فرعون، اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سب جابر، سرکش، مالوں اور لشکروں والے، ان سب کے ساتھ یہی ہوا کہ جب انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات تسلیم کرنے سے انکار کیا، اور ان سے دشمنی کی، اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں پکڑ لیا، یہ اس کا عدل تھا، ظلم نہیں۔ جو کوئی ایسا کام کرے جو سزا کا مستوجب ہے تو اللہ اسے سخت سزا دے دیتا ہے۔ عذاب کا یہ سبب کفر بھی ہوسکتا ہے، اور دوسرے گناہ بھی جن کی مختلف قسمیں اور بہت سے مراتب ہیں۔
آیت: 12 - 13 #
{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (12) قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ (13)}.
کہہ دیجیے واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے تم اور اکٹھے کیے جاؤ گے جہنم کی طرف، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے(12) تحقیق ہے تمھارے لیے (عظیم) نشانی ان دو گروہوں میں جو باہم (لڑائی کے لیے) ملے، ایک گروہ لڑتا تھا اللہ کی راہ میں اور دوسرا کافر تھا، وہ (مسلمان) دیکھتے تھے ان کو اپنے سے دگنا، دیکھنا (ظاہری) آنکھ سےاور اللہ قوت دیتا ہے ساتھ اپنی نصرت کے جس کو چاہتا ہے، بلاشبہ اس میں ، البتہ عبرت ہے واسطے اہل بصیرت کے(13)
#
{12 ـ 13} وهذا خبر وبشرى للمؤمنين، وتخويف للكافرين أنهم لا بد أن يغلبوا في هذه الدنيا، وقد وقع كما أخبر الله فغلبوا غلبة لم يكن لها مثيل ولا نظير، وجعل الله تعالى ما وقع في بدر من آياته الدالة على صدق رسوله، وأنه هو على الحق وأعداؤه على الباطل حيث التقت فئتان فئة المؤمنين لا يبلغون إلا ثلاثمائة وبضعة عشر رجلاً مع قلة عُددهم، وفئة الكافرين يناهزون الألف مع استعدادهم التام في السلاح وغيره، فأيد الله المؤمنين بنصره فهزموهم بإذن الله. ففي هذا عبرة لأهل البصائر، فلولا أن هذا هو الحق الذي إذا قابل الباطل أزهقه، واضمحل الباطل لكان بحسب الأسباب الحسية الأمر بالعكس.
[13,12] اس کے بعد فرمایا: ﴿قُ٘لْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَبِئْسَ الْمِهَادُ﴾’’(اے محمدe)کافروں سے کہہ دیجیے کہ تم عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے۔ اور جہنم کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔ اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ اس میں مومنوں کی مدد اور فتح کا اشارہ ہے اور کافروں کو تنبیہ ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں یعنی مشرکین، یہود اور نصاریٰ جیسے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی۔ قیامت تک وہ اپنے مومن بندوں اور لشکروں کی مدد فرماتا رہے گا۔ اس میں ایک عبرت ہے اور قرآن کی ایسی نشانی ہے جو آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ نے بتایا کہ کافر دنیا میں مغلوب ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن جمع کرکے جہنم کی طرف ہانک دیے جائیں گے جو برا ٹھکانا ہے۔ اور ان کے بد اعمال کا برا بدلہ ہے۔ ﴿قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ ﴾ ’’یقیناً تمھارے لیے نشانی تھی‘‘ یعنی عظیم عبرت تھی۔ ﴿فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا﴾ ’’ان دو جماعتوںمیں جو گتھ گئی تھیں۔ یہ غزوۂ بدر کے موقع پر ہوا۔ ﴿فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾’’ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی۔‘‘ یہ رسول اللہeاور صحابہ کرام تھے۔ ﴿وَاُخْرٰؔى كَافِرَةٌ﴾ ’’اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا۔‘‘ یعنی کفار قریش جو فخر و تکبر کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ سے روکنے کے لیے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو بدر کے میدان میں اکٹھا کردیا۔ مشرکوں کی تعداد مومنوں سے کئی گنا تھی، اس لیے فرمایا: ﴿یَّرَوْنَهُمْ مِّثْ٘لَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ﴾ ’’وہ انھیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے۔‘‘ یعنی مومن دیکھ رہے تھے کہ کافر تعداد میں ان سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ دگنے سے زیادہ تھا۔ (یعنی کفار کی تعداد تین گنا سے زائد تھی) اللہ نے مومنوں کی مدد کی تو انھوں نے کفار کو شکست دی، ان کے سرداروں کو تہ تیغ کیا اور بہت سے افراد کو قید کرلیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جو کفر کرتا ہے اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس میں آنکھوں والوں کے لیے عبرت ہے۔ یعنی جن کی بصیرت اور عقل کامل ہے، جس کی وجہ سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس جماعت کی مدد کی گئی ہے وہی اہل حق ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں۔ ورنہ محض ظاہری اسباب، سامان اور تعداد پر نظر رکھنے والا یہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس چھوٹی سی جماعت کا اتنی بڑی جماعت پر فتح پانا بالکل محال اور ناممکن ہے۔ لیکن بصارت سے نظر آنے والے ان اسباب کے پیچھے ایک عظیم تر سبب بھی ہے۔ جسے بصیرت، ایمان اور توکل علی اللہ کی نظر ہی دیکھ سکتی ہے۔ اور وہ سبب ہے اللہ کا اپنے مومن بندوں کو تقویت بخشنا اور اپنے کافر دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرنا۔
آیت: 14 - 15 #
{زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (14) قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (15)}.
مزین کر دی گئی ہے لوگوں کے لیے محبت (نفسانی) خواہشوں کی، عورتوں سے اور بیٹوں سے اور خزانے جمع کیے ہوئے سے، سونے اور چاندی کے اور گھوڑے نشان زدہ سے اور چوپائے اور کھیتی سے، یہ (سب) سامان ہے حیات دنیا کااور اللہ، اس کے پاس ہی ہے اچھا ٹھکانا(14) کہہ دیجیے، کیا خبر دوں میں تمھیں، ساتھ بہت بہتر کے ان (سب) سے؟ واسطے ان لوگوں کے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، نزدیک ان کے رب کے باغات ہیں، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں اور بیویاں ہیں پاکیزہ اور رضامندی اللہ کی طرف سےاور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اپنے بندوں کو(15)
#
{14} أخبر تعالى في هاتين الآيتين عن حالة الناس في إيثار الدنيا على الآخرة، وبين التفاوت العظيم والفرق الجسيم بين الدارين، فأخبر أن الناس زينت لهم هذه الأمور فرمقوها بالأبصار، واستحلوها بالقلوب، وعكفت على لذاتها النفوس، كل طائفة من الناس تميل إلى نوع من هذه الأنواع، قد جعلوها هي أكبر همهم ومبلغ علمهم، وهي مع هذا متاع قليل مُنْقَضٍ في مدة يسيرة، فهذا {متاع الحياة الدنيا والله عنده حسن المآب}.
[14] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کے لیے دنیوی مرغوب چیزوں کی محبت مزین کردی ہے۔ ان میں مذکورہ بالا اشیاء کو خاص طورپر ذکر کیا ہے کہ دنیا کی مرغوب چیزوں میں سے یہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ باقی سب ان کے تابع ہیں۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا﴾ (الکہف:18؍7)’’ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اسے زمین کی زینت بنایا ہے‘‘ چونکہ یہ چیزیں مزین کردی گئیں ہیں۔ اور ان میں دلوں کو مائل کرنے کا وصف ہے، اس لیے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوگئے۔ اور عملی طورپر لوگوں کی دوقسمیں ہوگئیں۔ ایک قسم کے لوگ ہیں جنھوں نے انھی مادی اشیاء کو اپنا مقصود بنالیا، ان کی سوچیں، ان کے خیالات، ان کے ظاہری اور باطنی اعمال اسی کے لیے خاص ہوکر رہ گئے۔ اسی دنیوی مال و متاع میں مشغول ہوکر وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول گئے۔ دنیا سے ان کا وہ تعلق رہا جو چرنے والے مویشیوں کا ہوتا ہے۔ وہ اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پروا نہیں کرتے کہ انھوں نے یہ کیسے حاصل کی اور کہاں خرچ کی۔ دنیا ان کے لیے مشقت و عذاب کے مقام (جہنم) کی طرف لے جانے والے سفر کا سامان بن جاتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ ہیں جنھوں نے اس کا اصل مقصود سمجھ لیا کہ اسے تو اللہ نے بندوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اپنی خواہش نفس اور دنیوی لذت پر اللہ کی اطاعت اور رضا کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے دنیا کو آخرت کے حصول کا ذریعہ بنالیا۔ وہ اس سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، لیکن اس طرح کہ وہ اسے اللہ کی رضا کے حصول میں مددگار ثابت ہو۔ ان کے بدن تو اس کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن دل اس سے دور ہوتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت وہی ہے جو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی: ﴿ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’یہ تو دنیا کی زندگی کا مال و متاع ہے‘‘ انھوں نے اسے آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھا۔ اسے ایک بازار جانا جس میں انھیں اخروی عظیم نفع کی امید ہے۔ ان کے لیے دنیا آخرت کے سفر کے لیے زاہ راہ بن گئی۔ علاوہ ازیں اس آیت میں ان ناداروں کو تسلی دی گئی ہے، جو اپنی ایسی خواہشات پوری نہیں کرسکتے جو دولت مند پوری کرسکتے ہیں اور اس کے دھوکے میں گرفتار ہوجانے والوں کو تنبیہ ہے اور روشن عقل والوں کو اس کی محبت سے روکا گیا ہے۔
#
{15} ثم أخبر عن ذلك بأن المتقين لله القائمين بعبوديته لهم خير من هذه اللذات، فلهم أصناف الخيرات والنعيم المقيم مما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر، ولهم رضوان الله الذي هو أكبر من كل شيء، ولهم الأزواجُ المطهرةُ من كل آفة ونقص، جميلاتُ الأخلاق كاملاتُ الخلائق، لأن النفي يستلزم ضده، فتطهيرها من الآفات مستلزم لوصفها بالكمالات. {والله بصير بالعباد}؛ فييسر كلًّا منهم لما خلق له، أما أهل السعادة فييسرهم للعمل لهذه الدار الباقية ويأخذون من هذه الحياة الدنيا ما يعينهم على عبادة الله وطاعته، وأما أهل الشقاوة والإعراض فيقيضهم لعمل أهل الشقاوة، ويرضون بالحياة الدنيا، ويطمئنون بها، ويتخذونها قراراً.
[15] یہ موضوع اس طرح مکمل ہوا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دارالقرار (ہمیشہ رہنے والا گھر) اور نیک متقیوں کا انجام بیان فرمایا ہے، اور بتایا ہے کہ یہ اُخروی نعمتیں ان مذکورہ (دنیوی) اشیاء سے بہتر ہیں۔ یعنی بلند و بالا درختوں کے باغات، جن میں نفیس محلات، اور اونچے اونچے بالاخانے ہیں، طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے پھل دار درخت ہیں، ان کی مرضی کے مطابق چلنے والی نہریں ہیں، ہر ظاہری و باطنی عیب و نجاست سے پاک بیویاں ہیں، اور ان تمام نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی، یہ نعمتوں کی انتہا ہے اور پھر اللہ کی خوشنودی جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ذرا اس شان دار جہان کا اس حقیر جہان سے مقابلہ و موازنہ تو کیجیے۔ پھر اپنے لیے بہتر متبادل کا انتخاب کرلیجیے۔ اپنے دل کو ان دونوں کا فرق سمجھایئے۔ ﴿وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ ’’سب بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں۔‘‘ وہ ان کے تمام اچھے اور برے اوصاف سے باخبر ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ان کے حالات کے مطابق کون سا نتیجہ ان کے لائق ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے توفیق دے دیتا ہے۔ وہ جنت جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے اور اس کی کامل صفات بیان فرمائی ہیں وہ بھی انھیں ملے گی جو اس کے مستحق ہیں، یعنی جنھوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے حکموں کی تعمیل کی اور ممنوع کاموں سے پرہیز کیا۔
آیت: 16 - 17 #
{الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (16) الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ (17)}.
وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! بے شک ہم ایمان لائے، پس بخش دے واسطے ہمارے گناہ ہمارے،اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے(16) وہ جو صبر کرنے والےاور سچ بولنے والے اور حکم بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور مغفرت طلب کرنے والے ہیں سحری کے اوقات میں(17)
#
{16} أي: هؤلاء الراسخون في العلم أهل العلم والإيمان يتوسلون إلى ربهم بإيمانهم لمغفرة ذنوبهم ووقايتهم عذاب النار، وهذا من الوسائل التي يحبها الله أن يتوسل العبد إلى ربه بما منَّ به عليه من الإيمان والأعمال الصالحة إلى تكميل نعم الله عليه بحصول الثواب الكامل واندفاع العقاب.
[16] اور اپنی دعاؤں میں کہا: ﴿رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْ٘فِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لاچکے، اس لیے ہمارے گناہ معاف فرما۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘انھوں نے اللہ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے انھیں ایمان کی توفیق دی ہے اور اس کے وسیلے سے یہ دعا کی کہ وہ ان کے گناہ معاف کردے۔ اور گناہوں کے برے اثرات و نتائج یعنی جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
#
{17} ثم وصفهم بأجمل الصفات: بالصبر الذي هو حبس النفوس على ما يحبه الله طلباً لمرضاته، يصبرون على طاعة الله ويصبرون عن معاصيه ويصبرون على أقداره المؤلمة، وبالصدق بالأقوال والأحوال وهو استواء الظاهر والباطن وصدق العزيمة على سلوك الصراط المستقيم، وبالقنوت الذي هو دوام الطاعة مع مصاحبة الخشوع والخضوع، وبالنفقات في سبل الخيرات وعلى الفقراء وأهل الحاجات، وبالاستغفار خصوصاً وقت الأسحار، فإنهم مدوا الصلاة إلى وقت السحر؛ فجلسوا يستغفرون الله تعالى.
[17] اس کے بعد تقویٰ کے اوصاف تفصیل سے بیان کیے۔ اور فرمایا: ﴿اَلصّٰؔبِرِیْنَ﴾ ’’صبر کرنے والے‘‘ جو اپنے آپ کو اللہ کے پیارے کاموں اور اس کی اطاعت کے اعمال پر قائم رکھتے ہیں، اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور اللہ کی تقدیر کے مطابق پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر بھی صبر کرتے ہیں۔ ﴿وَالصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اور سچ بولنے والے‘‘ جوا پنے ایمان میں، اقوال میں اور احوال میں راست باز اور سچے ہیں۔ ﴿وَالْ٘مُنْفِقِیْنَ﴾ ’’اور خرچ کرنے والے‘‘ جو کچھ اللہ نے انھیں دیا ہے اس میں سے مختلف انداز سے ضرورت مند افراد کو دیتے ہیں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی، ﴿وَالْ٘مُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ﴾ ’’اور پچھلی رات بخشش مانگنے والے‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی اچھی صفات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معمولی سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز نہیں سمجھتے، بلکہ خود کو گناہ گار اور کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں، اس لیے رب سے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لیے ایسا وقت منتخب کرتے ہیں جب قبولیت کی امید زیادہ ہو اور وہ صبح صادق کا وقت ہے۔ حسن فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز اتنی لمبی کرتے ہیں کہ سحر ہوجاتی ہے۔ پھر بیٹھ کر رب سے استغفار اور دعائے مغفرت کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں یہ مسائل بیان ہوئے ہیں۔ دنیا میں لوگوں کی حالت، دنیا ختم ہونے والا مال و متاع ہے۔ جنت کا بیان، اس کی نعمتیں، آخرت کا دنیا سے افضل ہونا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ آخرت کو ترجیح دینا اور آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اہل جنت یعنی متقیوں کی صفات، تقوی پر مشتمل اعمال کا تفصیلی بیان۔ ان کی روشنی میں ہر شخص اپنا فیصلہ خود کرسکتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟
آیت: 18 #
{شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (18)}.
گواہی دی ہے اللہ نے کہ بلاشبہ نہیں کوئی معبود سوائے اس کے، اور فرشتوں نے اور اہل علم نے (بھی) اس حال میں کہ وہ قائم ہے ساتھ انصاف کے، نہیں کوئی معبود مگر وہی، غالب ہے خوب حکمت والا(18)
#
{18} هذه أجل الشهادات الصادرة من الملك العظيم، ومن الملائكة، وأهل العلم على أجلِّ مشهود عليه وهو توحيد الله وقيامه بالقسط، وذلك يتضمن الشهادةَ على جميع الشرع وجميع أحكام الجزاء، فإن الشرع والدين أصله وقاعدته توحيد الله وإفراده بالعبودية والاعتراف بانفراده بصفات العظمة والكبرياء والمجد والعز والقدرة والجلال وبنعوت الجود والبر والرحمة والإحسان والجمال، وبكماله المطلق الذي لا يحصي أحد من الخلق أن يحيطوا بشيء منه أو يبلغوه أو يصلوا إلى الثناء عليه، والعبادات الشرعية والمعاملات وتوابعها والأمر والنهي كله عدل وقسط لا ظلمَ فيه ولا جورَ بوجه من الوجوه، بل هو في غاية الحكمة والإحكام، والجزاء على الأعمال الصالحة والسيئة كله قِسط وعدل، {قل أي شيء أكبر شهادة قل الله}؛ فتوحيد الله ودينه وجزاؤه قد ثبت ثبوتاً لا ريب فيه وهو أعظم الحقائق وأوضحها، وقد أقام الله على ذلك من البراهين والأدلة ما لا يمكن إحصاؤه وعده. وفي هذه الآية فضيلة العلم والعلماء لأن الله خصهم بالذكر من دون البشر، وقرن شهادتهم بشهادته وشهادة ملائكته وجعل شهادتهم من أكبر الأدلة والبراهين على توحيده ودينه وجزائه، وأنه يجب على المكلفين قبول هذه الشهادة العادلة الصادقة، وفي ضمن ذلك تعديلهم وأن الخلق تبع لهم وأنهم هم الأئمة والمتبوعون، وفي هذا من الفضل والشرف وعلو المكانة ما لا يقادر قدره.
[18] اللہ تعالیٰ نے توحید کا پختہ ترین ثبوت پیش کیا ہے، وہ ہے اللہ عزوجل کی اپنی گواہی۔ اور اس کے مخلوق میں سے معزز ترین افراد، یعنی فرشتوں اور علماء کی گواہی۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے توحید پر دلائل و براہین قاطعہ قائم فرمائے ہیں۔ آفاق و انفس کے دلائل اس عظیم اصول پر قائم ہیں۔ اللہ کا جو بندہ بھی توحید کا علم لے کر کھڑا ہوا ہے۔ اللہ نے ہمیشہ توحید کے منکروں اور مشرکوں کے خلاف اس کی مدد کی ہے۔ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔ مشکلات کو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ مخلوق کے تمام افراد عاجز ہیں جو نہ اپنے آپ کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں، نہ کسی اور کے نفع نقصان پر اختیار رکھتے ہیں۔ یہ زبردست دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا واجب ہے۔ اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا باطل ہے۔ فرشتوں کی گواہی کا علم ہمیں اللہ کے بتانے سے اور اس کے رسولوں کے بتانے سے ہوا ہے۔ اہل علم کی گواہی اس لیے معتبر ہے کہ تمام دینی امور میں انھی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ خصوصاً سب سے عظیم، سب سے زیادہ جلالت و شرف والے مسئلہ یعنی توحید کے مسئلہ میں۔ علماء کا اول سے آخر تک اس پر اتفاق ہے، انھوں نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے اور توحید تک پہنچنے کے راستے بتائے ہیں۔ لہٰذا مخلوق پر واجب ہے کہ اتنی عظیم گواہیوں والے حکم کو تسلیم کریں اور اس پر عمل کریں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ سب سے زیادہ شرف والا کام توحید کو جاننا ہے۔ لہٰذا اس کی گواہی اللہ نے خود دی ہے۔ اور اپنی مخلوق میں سے عظیم ترین افراد کو اس کا گواہ بنایا ہے۔ شہادت (گواہی) علم و یقین کی بنیاد پر ہی دی جاسکتی ہے، جو آنکھ سے مشاہدہ کے برابر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص توحید کے معاملہ میں اس مقام تک نہیں پہنچتا وہ اہل علم میں شامل نہیں۔ اس آیت میں علم کے شرف و منزلت کے بہت سے دلائل ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں میں سے انبیاء کو منتخب کرکے اس عظیم ترین مسئلہ پر شہادت دینے کے لیے مقرر کیا۔ (۲) اللہ نے ان کی گواہی کو اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا۔ اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ (۳) اللہ نے انھیں ’’علم والے‘‘ فرمایا۔ ان کی اضافت علم کی طرف کی۔ کیونکہ وہی اسے لے کر اٹھنے والے اور اس صفت سے متصف ہیں۔ (۴) اللہ تعالیٰ نے انھیں لوگوں پر شاہد اور حجت قرار دیا اور جس چیز کی انھوں نے گواہی دی تھی، لوگوں کو اس پر عمل کرنے کاحکم دیا۔ اس طرح وہ اس کا سبب بنے اور اس کے مطابق ہونے والے ہر عمل کا ثواب انھیں پہنچے گا۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے۔ (۵) اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو گواہ بنایا ہے اس سے ان کا سچا اور قابل اعتماد ہونا ثابت ہوتا ہے، اور یہ کہ اللہ نے انھیں جس چیز کا محافظ بنایا ہے، وہ اس معاملے میں دیانت دار ہیں۔ اپنی توحیدکے اثبات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا عدل ثابت فرمایا ہے۔ ارشاد ہے ﴿قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ﴾ ’’عدل کے ساتھ قائم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں، اور بندوں کے معاملات کے فیصلے کرنے میں ازل سے انصاف کے ساتھ متصف ہے۔ امرونہی میں بھی اس کا راستہ ’’صراط مستقیم‘‘ ہے خلق و تقدیر میں بھی۔ اس کے بعد پھر توحید کی تاکید فرمائی اور فرمایا: ﴿لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ ’ ’اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ بنیادی مسئلہ کہ اللہ کی توحید کو تسلیم کیا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، اس کے اتنے زیادہ نقلی اور عقلی دلائل موجود ہیں کہ صاحب بصیرت حضرات کے ہاں یہ سورج سے بھی زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ نقلی دلائل میں قرآن و حدیث کی وہ تمام نصوص شامل ہیں جن میں اس کا حکم دیا گیا ہے، اس کی تائید کی گئی ہے، اہل توحید سے محبت، اور منکرین توحید سے نفرت اور ان کی عقوبت مذکور ہے، اور شرک و اہل شرک کی مذمت ہے۔ یہ سب توحید کے نقلی دلائل ہیں۔ قرآن تقریباً تمام ہی توحید کے دلائل پر مشتمل ہے۔ عقلی دلائل جنھیں غوروفکر کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے، قرآن نے ان کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور بہت سے دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے بڑی عقلی دلیل اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ ہی خالق، رازق، تمام معاملات میں مختار کل ہے۔ وہ لازماً اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ معبود بھی اللہ ہی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں۔ چونکہ یہ واضح ترین اور عظیم ترین دلیل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کثرت کے ساتھ اس سے استدلال کیا ہے۔ صرف اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی ایک اور عقلی دلیل یہ ہے کہ نعمتیں دینے والا اور مصیبتیں دور کرنے والا صرف وہی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین ہے کہ ظاہری، باطنی، چھوٹی، بڑی، قلیل اور کثیر تمام نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اور ہر مصیبت، سختی، تکلیف اور پریشانی کو صرف وہی دور کرسکتا ہے اور مخلوق میں سے کوئی فرد کسی کے لیے تو درکنار، اپنے لیے بھی حصول نعمت اور دفع مضرت کا مالک نہیں، اسے ضرور یہ یقین ہوگا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنا سب سے بڑا باطل ہے۔ اور عبودیت اسی کا حق ہے جو اکیلا ہی نعمتیں دینے والا اور مصیبتیں ٹالنے والا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پر اس دلیل کو بہت ہی زیادہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک عقلی دلیل یہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے کہ اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے۔ وہ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں نہ کسی اور کی۔ اور فرمایا ہے کہ وہ سماعت و بصارت سے محروم ہیں۔ اور اگر فرض کرلیا جائے کہ سنتے ہیں تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ان کی دوسری صفات بھی انھیں انتہائی ناقص ثابت کرتی ہیں۔ ان کی یہ حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم صفات اور افعال جمیلہ کا ذکر فرمایا ہے اور قدرت و غلبہ وغیرہ صفات ذکر کی ہیں جو سمعی اور عقلی دلائل سے معلوم ہوتی ہیں جو اس چیز کو کماحقہ سمجھ لے گا (کہ غیر اللہ مجبور ہیں اور اللہ تعالیٰ عظیم صفات، قوت غلبہ وغیرہ کا حامل ہے) اسے معلوم ہوجائے گا کہ عبادت کے لائق صرف رب عظیم ہے، جسے ہر لحاظ سے کمال، ہر قسم کی عظمت، تمام تعریف، ہر ایک قدرت، اور تمام تر کبریائی حاصل ہے۔ وہ عبادت کے لائق نہیں جو پیدا کیے گئے ہیں، جن کے فیصلے کوئی اور کرتا ہے، جو ناقص ہیں، بہرے اور گونگے ہیں، عقل و فہم سے محروم ہیں۔ ایک اور عقلی دلیل، جو اللہ کے بندے زمانہ قدیم میں بھی اور زمانہ جدید میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ اہل توحید کی عزت افزائی اور اہل شرک کی رسوائی اور عقوبت ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ نے توحید کو دین و دنیا کی ہر بھلائی کے حصول، اور ہر سحر سے بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور شرک و کفر کو تمام دینی و دنیاوی سزاؤں کا سبب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب رسولوں کے واقعات بیان فرمائے جو انھیں اطاعت کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ پیش آئے، نافرمانوں کی سزائیں ذکر کیں، رسولوں اور ان کے پیروکاروں کی نجات کا ذکر فرمایا، تو ہر واقعہ کے بعد فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ ’’بے شک اس میں نشانی ہے‘‘ یعنی عبرت ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کرسکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ توحید ہی نجات کا باعث ہے، اور اسے چھوڑنا تباہی کا باعث ہے۔ یہ بڑے بڑے عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے یہ عظیم اصول ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بار بار مختلف انداز سے بیان کیا ہے تاکہ حق واضح ہوجائے۔ پھر جو چاہے اسے قبول کرکے نجات پالے اور جو چاہے انکار کرکے تباہی کا نشانہ بن جائے۔ وللہ الحمد۔
آیت: 19 #
{إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (19)}.
بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہےاور نہیں اختلاف کیا ان لوگوں نے جو دیے گئے کتاب مگر بعد اس کے کہ آگیا ان کے پاس (صحیح) علم، سرکشی کرتے ہوئے آپس میں، اور جو کوئی کفر کرے ساتھ اللہ کی آیات کے، تو بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے(19) پھر اگر وہ جھگڑا کریں آپ سے تو کہہ دیجیے، جھکا دیا میں نے اپنا چہرہ اللہ کے لیےاور (انھوں نے بھی) جنھوں نے اتباع کیا میرا، اور کہہ دیجیے ان لوگوں سے جو دیے گئے کتاب اور ان پڑھوں سے، کیا تم اسلام لاتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیریں تو یقینا ً آپ کے ذمے (صرف پیغام) پہنچا دیناہے،اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اپنے بندوں کو (20)
#
{19} يخبر تعالى {إن الدين عند الله}؛ أي الدين الذي لا دين لله سواه ولا مقبول غيره هو {الإسلام}؛ وهو الانقياد لله وحده ظاهراً وباطناً بما شرعه على ألسنة رسله، قال تعالى: {ومن يبتغ غير الإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين}؛ فمن دان بغير دين الإسلام فهو لم يدن لله حقيقة لأنه لم يسلك الطريق الذي شرعه على ألسنة رسله. ثم أخبر تعالى أن أهل الكتاب يعلمون ذلك وإنما اختلفوا فانحرفوا عنه عناداً وبغياً. وإلا فقد جاءهم العلم المقتضي لعدم الاختلاف الموجب للزوم الدين الحقيقي، ثم لما جاءهم محمد - صلى الله عليه وسلم - عرفوه حق المعرفة، ولكن الحسد والبغي والكفر بآيات الله هي التي صدتهم عن اتباع الحق {ومن يكفر بآيات الله فإن الله سريع الحساب}؛ أي: فلينتظروا ذلك فإنه آت وسيجزيهم الله بما كانوا يعملون.
[19] جب یہ ثابت ہوگیا کہ معبود برحق صرف اللہ ہی ہے، تب یہ بتایا کہ کس طرح عبادت کرنا، اور کس دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔ وہ دین اسلام ہے ’’اسلام‘‘ کا مطلب ’’سرتسلیم خم کرنا‘‘ ہے، یعنی اللہ کی توحید اور اطاعت جس کی دعوت اس کے رسولوں نے دی، جس کی ترغیب اس کی کتابوں نے دی۔ اس کے سوا کوئی دین قبول نہیں، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ محبت، خوف، امید، انابت اور دعا خالصتاً اس کے لیے ہو اور اس مقصد کے لیے اس کے رسول کی پیروی کی جائے۔ یہی تمام رسولوں کا دین ہے ۔ جو ان کی پیروی کرے گا، وہ ان کے راستے پر ہوگا۔
آیت: 20 #
{فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (20)}.
پھر اگر وہ جھگڑا کریں آپ سے تو کہہ دیجیے، جھکا دیا میں نے اپنا چہرہ اللہ کے لیےاور (انھوں نے بھی) جنھوں نے اتباع کیا میرا، اور کہہ دیجیے ان لوگوں سے جو دیے گئے کتاب اور ان پڑھوں سے، کیا تم اسلام لاتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیریں تو یقینا ً آپ کے ذمے (صرف پیغام) پہنچا دیناہے،اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اپنے بندوں کو (20)
#
{20} لما بين أن الدين الحقيقي عنده الإسلام، وكان أهل الكتاب قد شافهوا النبي - صلى الله عليه وسلم - بالمجادلة وقامت عليهم الحجة فعاندوها، أمره الله تعالى عند ذلك أن يقول ويعلن أنه قد أسلم وجهه أي ظاهره وباطنه لله، وأن من اتبعه كذلك قد وافقوه على هذا الإذعان الخالص، وأن يقول للناس كلهم من أهل الكتاب والأميين أي الذين ليس لهم كتاب من العرب وغيرهم إن أسلمتم فأنتم على الطريق المستقيم والهدى والحق وإن توليتم فحسابكم على الله، وأنا ليس عليَّ إلا البلاغ، وقد أبلغتكم وأقمت عليكم الحجة.
[20] اہل کتاب کو ان کی کتابیں متحد ہوکر اللہ کے دین پر عمل کرنے کا حکم دیتی تھیں۔ انھوں نے ان کتابوں کے آنے کے بعد ظلم و زیادتی کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کیا۔ ورنہ ان کے پاس اختلاف سے بچ کر حق کی راہ اختیار کرنے کا سب سے بڑا سبب موجود تھا۔ اسے پس پشت ڈال دینا ان کا کفر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ؕ وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ ’’اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے۔ اللہ اس کا جلد حساب لینے والا ہے‘‘ پھر وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ بالخصوص جس نے حق کو پہچان کر ترک کیا، یہ سخت وعید اور عذاب الیم کا مستحق ہے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسولeکو حکم دیا کہ عیسائی اور دیگر جو لوگ اسلام پر دوسرے مذاہب کو فوقیت دیتے ہیں ان سے بحث کرتے ہوئے انھیں فرما دیں کہ ﴿اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّ٘بَعَنِ﴾ ’’میں نے اور میرے تابع داروں نے اللہ کی اطاعت میں اپنا چہرہ مطیع کردیا‘‘ یعنی میں نے اور میرے پیروکاروں نے اقرار کیا ہے، گواہی دی ہے اور اپنے مالک کے سامنے سرجھکا دیے ہیں۔ ہم نے اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب کو چھوڑ دیا ہے، ہمیں ان کے باطل ہونے پر یقین حاصل ہے۔ یہ کہہ کر آپ ان لوگوں کو مایوس کردیں جن کو تمھارے بارے میں کوئی امید ہے (کہ شاید اسلام چھوڑ کر ہمارا دین اختیار کرلیں) اور شبہات پیش آنے پر اس طرح تمھارے دین کی تجدید ہوجائے گی، اور جو شبہات کا شکار ہے اس کے خلاف حجت قائم ہوجائے گی۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل علم بندوں کو توحید کی دلیل اور گواہ کے طورپر پیش کیا ہے۔ تاکہ وہ دوسروں کے خلاف حجت بن جائیں، اہل علم کے سردار، سب سے افضل اور سب سے بڑے عالم ہمارے نبی محمدeہیں۔ اس کے بعد آپ کے متبعین درجہ بدرجہ عالم ہیں۔ انھیں وہ صحیح علم او رکامل عقل حاصل ہے کہ کسی اور کو ان کے برابر تو کیا، قریب تر بھی حاصل نہیں۔ جب اللہ کی توحید اور اس کے دین کی حقانیت واضح دلیلوں سے ثابت ہوچکی ہے، مخلوقات میں سے کامل ترین او رعالم ترین شخصیت نے انھیں مانا اور پیش کیا، تو اس سے یقین حاصل ہوگیا اور ہر شک و شبہ دور ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ اس کے سوا ہر مذہب باطل ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَقُ٘لْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ﴾ ’’اہل کتاب سے (یعنی نصاریٰ اور یہود سے۔) اور ان پڑھ لوگوں سے (یعنی عرب و عجم کے مشرکین سے) کہہ دیجیے‘‘ ﴿ءَاَسْلَمْتُمْ١ؕ فَاِنْ اَسْلَمُوْا﴾ ’’کیا تم بھی اطاعت اختیار کرتے ہو پھر اگر یہ بھی تابع دار بن جائیں۔‘‘ اور تمھاری طرح ایمان لے آئیں ﴿ فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ ’’تو وہ یقیناً ہدایت پانے والے ہیں۔ جس طرح تم ہدایت یافتہ ہو۔ اس صورت میں وہ تمھارے بھائی بن جائیں گے۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو تمھیں حاصل ہیں۔ اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو تمھارے ہیں ﴿وَاِنْ تَوَلَّوْا﴾ ’’اور اگر یہ روگردانی کریں‘‘ اور اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کے مخالف مذاہب پر قائم رہیں۔ ﴿فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْ٘بَلٰ٘غُ٘﴾ ’’تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے‘‘ آپ کو آپ کا رب ضرور اجر و ثواب دے گا۔ مخالف پر حجت قائم ہوچکی۔ اس کے بعد صرف یہی چیز باقی رہ گئی ہے کہ وہ انھیں ان کے جرم کی سزا دے، اس لیے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ ’’اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
آیت: 21 - 22 #
{إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (21) أُولَئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (22)}.
بے شک وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں ساتھ اللہ کی آیتوں کے اور قتل کرتے ہیں نبیوں کو ناحق اور قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو حکم دیتے ہیں ساتھ انصاف کے لوگوں میں سے، پس خوشخبری سنا دیجیے ان کو عذاب دردناک کی (21) یہی وہ لوگ ہیں کہ برباد ہو گئے عمل ان کے دنیا اور آخرت میں اور نہیں واسطے ان کے کوئی مددگار (22)
#
{21 ـ 22} أي: الذين جمعوا بين هذه الشرور: الكفر بآيات الله، وتكذيب رسل الله، والجناية العظيمة على أعظم الخلق حقًّا على الخلق وهم الرسل وأئمة الهدى، الذين يأمرون الناس بالقسط الذي اتفقت عليه الأديان والعقول فهؤلاء قد {حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة}؛ واستحقوا العذاب الأليم، وليس لهم ناصر من عذاب الله ولا منقذ من عقوبته.
[22-21] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی خبر دی ہے، عظیم ترین جرائم کے مرتکب ہیں۔ اس سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کی ان آیات کا انکار کیا جائے جو اس حق کا قطعی ثبوت پیش کرتی ہیں، جس کا انکار کرنے والا انتہائی درجے کے کفر و عناد میں مبتلا ہے۔ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے ہیں جن کا حق اللہ کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے، جن کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا، ان کا احترام کرنا اور ان کی مدد کرنا، اللہ نے فرض قرار دیا ہے۔ لیکن انھوں نے اس کے بالکل برعکس عمل کیا۔ وہ انصاف کا حکم دینے والوں بھی قتل کرتے ہیں۔ انصاف سے مراد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے جو احسان اور خیر خواہی ہے ان لوگوں کی، جنھیں اچھی بات بتائی جاتی ہے یا بری بات سے منع کیا جاتا ہے۔ لیکن انھوں نے اس احسان اور خیر خواہی کا انتہائی برا جواب دیا کہ اپنے محسنوں کو شہید کردیا۔ ان شنیع جرائم کی وجہ سے وہ انتہائی سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ یعنی ایسا شدید اور دردناک عذاب جس کو پوری طرح بیان کرنا، اور اس کی شدت کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ جس کی تکلیف بدنوں، دلوں اور روحوں کے لیے ہے۔ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ انھیں کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، بلکہ اللہ کی دی ہوئی سزا میں کوئی ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ انھیں ہر شر اور مصیبت حاصل ہوگی۔ یہ حالت یہود کی، اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی ہے۔ اللہ ان کا برا کرے۔ یہ اللہ پر، نبیوں پر اور نیک لوگوں پر کتنے جری ہیں؟
آیت: 23 - 25 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ (23) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (24) فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (25)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ان لوگوں کی جو دیے گئے کچھ حصہ کتاب سے، وہ بلائے جاتے ہیں کتاب اللہ کی طرف تاکہ فیصلہ کرے وہ (کتاب) ان کے درمیان ، پھر منہ پھیر لیتا ہے ایک فریق ان میں سے،اور وہ اعراض کرنے والے ہیں (23) یہ بسبب اس کے کہ بے شک انھوں نے کہا، ہرگز نہیں چھوئے گی ہمیں آگ مگر چند دن گنتی کے،اور دھوکے میں ڈال دیا ان کو ان کے دین (کے بارے) میں، ان چیزوں نے جو تھے وہ گھڑتے (24) پس کیا حال ہوگا جب ہم جمع کریں گے ان کو ایسے دن میں کہ نہیں شک اس (کے وقوع) میں، اور پورا (بدلہ) دیا جائے گا ہر نفس کو اس کا جو اس نے کمایااور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے (25)
#
{23 ـ 25} أي: ألا تنظر وتعجب من هؤلاء {الذين أوتوا نصيباً من الكتاب} و {يدعون إلى كتاب الله}؛ الذي يصدق ما أنزله على رسله {ثم يتولى فريق منهم وهم معرضون}؛ عن اتباع الحق فكأنه قيل: لأي داعٍ دعاهم إلى هذا الإعراض وهم أحق بالاتباع وأعرفهم بحقيقة ما جاء به محمد - صلى الله عليه وسلم -؟ فذكر لذلك سببين: أمنهم وشهادتهم الباطلة لأنفسهم بالنجاة وأن النار لا تمسهم إلا أياماً معدودة حددوها بحسب أهوائهم الفاسدة، كأنَّ تدبير الملك راجع إليهم حيث قالوا: {لن يدخل الجنة إلا من كان هوداً أو نصارى}؛ ومن المعلوم أن هذه أمانيّ باطلة شرعاً وعقلاً. والسبب الثاني: أنهم لما كذبوا بآيات الله، وافتروا عليه زين لهم الشيطان سوء عملهم، واغتروا بذلك وتراءى لهم أنه الحق عقوبة لهم على إعراضهم عن الحق، فهؤلاء كيف يكون حالهم إذا جمعهم الله يوم القيامة، ووفّى العاملين ما عملوا وجرى عدل الله في عباده؟ فهنالك لا تسأل عما يصلون إليه من العقاب وما يفوتهم من الخير والثواب، وذلك بما كسبت أيديهم، وما ربك بظلام للعبيد.
[25-23] اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی حالت بیان فرما رہا ہے جن پر انعام کرتے ہوئے اللہ نے انھیں اپنی کتاب دی۔ ان کا فرض تھا کہ سب سے زیادہ وہ اس پر قائم رہتے، اور سب سے پہلے وہ اس کے احکام کو تسلیم کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انھیں جب کتاب کے فیصلے (کو قبول کرنے) کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے بدنوں کے ساتھ بھی منہ پھیرتے ہیں اور دلوں کے ساتھ بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔ اس میں ہمارے لیے تنبیہ ہے کہ ان جیسا کام نہ کریں، ورنہ ہم بھی اس مذمت کے مستحق ہوں گے۔ اور ہمیں بھی ان جیسی سزا مل سکتی ہے۔ بلکہ جس کو اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جائے اس کا فرض ہے کہ سنے، اطاعت کرے اور دل سے تسلیم کرے، جیسے اللہ نے فرمایا: ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾ (النور:24؍51) ’’مومنوں کو جب اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کردے، تو وہ صرف یہی کہتے ہیں: ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا‘‘ اہل کتاب کو جو دھوکا لگا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کی جراء ت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ﴿لَ٘نْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١۪ وَّغَ٘رَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ﴾ (آل عمران:3؍24) ’’ہمیں تو آگ گنے چنے چند دن کے لیے ہی جلائے گی، اور ان کی گھڑی ہوئی باتوں نے ان کو ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔‘‘ انھوں نے اپنے پاس سے ایک بات بنا کر اس کو حقیقت سمجھ لیا اور اس پر عمل کرنے لگے اور گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے دلوں نے ان کو یہ دھوکا دے رکھا ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے۔ ان کی یہ بات سراسر جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ ان کا انجام تو بہت برا اور انتہائی اندوہناک ہونے والا ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿فَكَـیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ﴾ ’’پس کیا حال ہوگا، جب ہم انھیں اس دن جمع کریں گے۔ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔‘‘ ان کا حال اتنا برا ہوگا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ دن کمائی کا پورا پورا بدلہ ملنے کا دن ہے اور یہ بدلہ انصاف کے ساتھ ملے گا، جس میں ظلم بالکل شامل نہیں ہوگا۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ یہ نتیجہ اعمال کے مطابق ہوگا اور ان کے اعمال ایسے ہیں جو انہیں شدید ترین عذاب کا مستحق ثابت کرتے ہیں۔
آیت: 26 - 27 #
{قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (26) تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (27)}.
آپ کہہ دیجیے، اے اللہ! اے مالک بادشاہی کے! توہی دیتا ہے بادشاہی جس کو چاہے،اور چھین لیتا ہے بادشاہی اس سے جس سے چاہے،اور توہی عزت دیتا ہے جس کو چاہے،اور تو ہی ذلت دیتا ہے جس کو چاہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہے سب بھلائی، یقیناً تو اوپر ہر چیز کے قادر ہے (26) تو داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں، اور نکالتا ہے تو زندہ کو مُردہ سے اور نکالتا ہے مُردہ کو زندہ سے،اور تو رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بے حساب (27)
#
{26 ـ 27} يأمر تعالى نبيه - صلى الله عليه وسلم - أصلاً وغيره تبعاً أن يقول عن ربه معلناً بتفرده بتصريف الأمور، وتدبير العالم العلوي والسفلي، واستحقاقه باختصاصه بالملك المطلق والتصريف المحكم، وأنه يؤتي الملك من يشاء، وينزع الملك ممن يشاء، ويعز من يشاء ويذل من يشاء، فليس الأمر بأماني أهل الكتاب ولا غيرهم، بل الأمر أمر الله، والتدبير له، فليس له معارض في تدبيره، ولا معاون في تقديره وأنه كما أنه المتصرف بمداولة الأيام بين الناس فهو المتصرف بنفس الزمان: يولج النهار في الليل ويولج الليل في النهار؛ أي: يدخل هذا على هذا ويحل هذا محل هذا ويزيد في هذا ما ينقص من هذا ليقيم بذلك مصالح خلقه، ويخرج الحي من الميت كما يخرج الزروع والأشجار المتنوعة من بذورها والمؤمن من الكافر والميت من الحي، كما يخرج الحبوب والنوى والزروع والأشجار والبيضة من الطائر، فهو الذي يخرج المتضادات بعضها من بعض، وقد انقادت له جميع العناصر. وقوله: {بيدك الخير}؛ أي: الخير كله منك ولا يأتي بالحسنات والخيرات إلا الله، وأما الشر فإنه لا يضاف إلى الله تعالى لا وصفاً ولا اسماً ولا فعلاً، ولكنه يدخل في مفعولاته ويندرج في قضائه وقدره، فالخير والشر كله داخل في القضاء والقدر فلا يقع في ملكه إلا ما شاءه، ولكن الشرَّ لا يضاف إلى الله، فلا يقال بيدك الخير والشر، بل يقال بيدك الخير كما قاله الله وقاله رسوله، وأما استدراك بعض المفسرين حيث قال: وكذلك الشر بيد الله فإنه وهم محض، ملحظهم حيث ظنوا أن تخصيص الخير بالذكر ينافي قضاءه وقدره العام، وجوابه ما فصلناه. وقوله: {وترزق من تشاء بغير حساب}؛ وقد ذكر الله في غير هذه الآية الأسباب التي ينال بها رزقه كقوله: {ومن يتق الله يجعل له مخرجاً ويرزقه من حيث لا يحتسب}؛ {ومن يتوكل على الله فهو حسبه}؛ فعلى العباد أن لا يطلبوا الرزق إلا من الله، ويسعوا فيه بالأسباب التي يسرها الله وأباحها.
[27-26] اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ کہہ دیجیے ﴿اللّٰهُمَّ مٰؔلِكَ الْمُلْكِ﴾ ’’اے اللہ! بادشاہی کے مالک‘‘ یعنی تو بادشاہ ہے جو تمام ملکوں کا مالک ہے۔ بادشاہ کی صفت علی الاطلاق تیرے لیے ہے۔ اور آسمان کی اور زمین کی تمام سلطنت تیری ہی ہے۔ اس میں تبدیلیاں لانا اور انتظام کرنا سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ پھر چند تبدیلیاں ذکرکی ہیں جو اکیلے باری تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ فرمایا: ﴿تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْ٘زِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ﴾ ’’تو جسے چاہے باشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایران کے کسریٰ بادشاہوں سے، اور روم کے قیصر بادشاہوں سے، اور ان کے پیروکاروں سے حکومت چھین کر محمدeکو عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ وللہ الحمد۔ لہٰذا حکومت کا مل جانا یا چھن جانا اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ یہ فرمان اللہ کی اس سنت کے خلاف نہیں جو اس نے کچھ تکوینی اور دینی اسباب قائم کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے حکومت باقی رہتی،ملتی اور ختم ہوجاتی ہے۔ یہ اسباب بھی اللہ کی مشیت کے تابع ہیں ۔کوئی سبب مستقل بالذات نہیں۔ بلکہ تمام اسباب قضاء و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بادشاہی کے حصول کے جو اسباب مقرر کیے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح بھی ہیں۔ اس مقصد کے لیے چند ضروری اعمال صالحہ یہ ہیں: مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد، جو آلات تیار کرنے اور حاصل کرنے ممکن ہوں، جمع کرنا، صبر و ثبات، باہمی تنازعات سے پرہیز۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ (النور:24؍55) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے، کہ وہ انھیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا‘‘ اللہ نے بتایا ہے کہ مذکورہ خلافت کے حصول کی شرط ایمان اور عمل صالح ہے۔ اور فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَۙ۰۰۶۲ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِهِمْ﴾ (الانفال:8؍62۔63) ’’وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی اور ان کے دلوں میں محبت ڈال دی‘‘ اور فرمایا ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۰۰ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ﴾ (الانفال:8؍45۔46) ’’اے مومنو! جب تم کسی جماعت کا سامنا کرو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ نے بتایا ہے کہ مومنوں کی باہمی محبت، ثابت قدمی اور اتفاق دشمنوں پر فتح کا باعث ہے۔ اگر آپ مسلمان ملکوں کے حالات پر غور کریں تو ان کی سلطنت ختم ہونے کا بڑا سبب دین سے دوری اور باہمی افتراق ہے جس سے دشمنوں کو حوصلہ ہوا اور ان کے درمیان لڑائی ڈال دی۔ پھر اللہ نے فرمایا: ﴿وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ﴾ ’’تو جسے چاہے (اپنی اطاعت کی وجہ سے) عزت دے‘‘ ﴿ وَتُذِلُّ٘ مَنْ تَشَآءُ ﴾ ’’اور جسے چاہے (معصیت کی وجہ سے) ذلت دے‘‘ ﴿ اِنَّكَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ کوئی چیز تیرے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کچھ تیری قدرت اور مشیت کے تحت ہے ﴿ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ ﴾ ’’توہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے، اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔‘‘ جس کی وجہ سے موسم پیدا ہوتے ہیں، روشنی، دھوپ، سایہ، سکون اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ جو اللہ کی قدرت، عظمت، حکمت اور رحمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ﴿ وَتُخْرِجُ الْ٘حَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ﴾ ’’تو نکالتا ہے جان دار کو بے جان سے۔‘‘ جیسے انڈے سے چوزہ، گٹھلی سے درخت، بیج سے کھیتی اور کافر سے مومن ۔ ﴿ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْ٘حَیِّ ﴾ ’’اور نکالتا ہے بے جان کو جان دار سے۔‘‘ جیسے پرندے سے انڈا، درخت سے گٹھلی، پودے سے دانہ اور مومن میں سے کافر۔ یہ اللہ کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام اشیا مسخر ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا متضاد اشیا کو پیدا کرنا اور ایک چیز میں سے اس سے متضاد چیز پیدا کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ سب مجبور و لاچار ہیں۔ ﴿وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’توہی جسے چاہتا ہے، بے حساب روزی دیتا ہے۔‘‘ تو جسے چاہتا ہے وہاں سے وسیع رزق دے دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور نہ اس نے کمائی کی ہوتی ہے۔ پھر فرمایا:
آیت: 28 #
{لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (28)}.
نہ بنائیں مومن کافروں کو دوست سوائے مومنوں کے،اور جو کوئی کرے گا یہ تو نہیں ہے اسے اللہ سے کوئی تعلق، مگر اس لیے کہ چاہو تم ان (کے شر) سے بچنا،اور ڈراتا ہے تمھیں اللہ اپنی ذات سے،اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (28)
#
{28} هذا نهي من الله وتحذير للمؤمنين أن يتخذوا الكافرين أولياء من دون المؤمنين، فإن المؤمنين بعضهم أولياء بعض، والله وليهم {ومن يفعل ذلك}؛ التولي، {فليس من الله في شيء}؛ أي: فهو بريء من الله، والله بريء منه كقوله تعالى: {ومن يتولهم منكم فإنه منهم}؛ وقوله: {إلا أن تتقوا منهم تقاة}؛ أي: إلا أن تخافوا على أنفسكم في إبداء العداوة للكافرين فلكم في هذه الحال الرخصة في المسالمة والمهادنة لا في التولي الذي هو محبة القلب الذي تتبعه النصرة، {ويحذركم الله نفسه}؛ أي: فخافوه واخشوه وقدموا خشيته على خشية الناس فإنه هو الذي يتولى شؤون العباد، وقد أخذ بنواصيهم وإليه يرجعون وسيصيرون إليه، فيجازي من قدم خوفه ورجاءه على غيره بالثواب الجزيل، ويعاقب الكافرين ومن تولاهم بالعذاب الوبيل.
[28] اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافروں سے دوستی لگانے سے منع فرماتا ہے کہ ان سے محبت نہ رکھیں ، ان کی مدد نہ کریں، مسلمانوں کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لیں اور جو کوئی ایسی حرکت کرے اسے تنبیہ فرماتا ہے کہ ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَ٘لَ٘یْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ ﴾ ’’جو ایسا کرے گا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ یعنی وہ اللہ سے کٹ گیا ہے، اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ کافروں سے دوستی اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ ایمان تو اللہ سے محبت اور اس کے دوستوں یعنی مومنوں سے تعاون کرکے اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے کاحکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ﴾ (التوبۃ:9؍71)’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (مددگار، محبت رکھنے والے) ہیں۔‘‘ جو شخص مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں سے دوستی لگاتا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے اولیاء کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسا شخص مومنوں کی جماعت سے نکل جاتا ہے اور کافروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّؔنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ﴾ (المائدۃ:5؍51)’’تم میں سے جو کوئی ان سے محبت رکھے گا، وہ انھی میں سے ہوگا‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں سے ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے، ان سے دوستی لگانے سے ان کی طرف میلان رکھنے سے بچنا ضروری ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ عام مسلمانوں کے فائدے کے کسی کام میں ان سے مدد نہیں لی جاسکتی۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً ﴾ ’’مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح کا بچاؤ مقصود ہو۔‘‘ یعنی اگر تمھیں ان سے جان کا خطرہ ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے زبان سے تقیہ کرسکتے ہو، اور ظاہری طورپر ایسا کام کرسکتے ہو جس سے تقیہ ہوجاتا ہے۔( تحقیق شدہ نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ aنے ’’المنہاج‘‘ میں فرمایا ہے: اللہ کا یہ فرمان: ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾ اس کے بارے میں حضرت مجاہد aنے فرمایا ہے: (لامصانعۃ) ’’ان کا ساتھ نہ دو۔‘‘ تقیہ یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بولوں اور زبان سے وہ بات کہوں جو میرے دل میں نہیں، یہ تو منافقت ہے۔ بلکہ مجھے چاہیے کہ نبیe کے ارشاد کے مطابق جو کچھ کرسکوں کروں۔ ارشاد نبویe ہے: ’’تم میں سے جو کچھ کوئی برائی دیکھے،تو اسے ہاتھ سے تبدیل (اور ختم) کردے اور اگر یہ طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے)۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت رکھے)۔‘‘ لہٰذا مومن جب کافروں اور بدکاروں میں گھر جائے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ سے جہاد کرنا فرض نہیں۔ اگر زبان سے منع کرسکے تو ضرور کرے ورنہ دل سے نفرت رکھے۔ ان تمام درجات میں وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ زبان سے وہ بات نہیں کہے گا، جو اس کے دل میں نہیں۔ وہ یا تو اپنا دین ظاہر کرے گا، یا چھپائے گا۔ لیکن کسی بھی حال میں ان کے مذہب کی تائید نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ وہ مومن آل فرعون کا، یازوجہ فرعون کا سا طرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ مومن ان کے دین کی تائید نہیں کرتا تھا، نہ جھوٹ بولتا تھا، نہ زبان سے وہ بات کہتا تھا جو اس کے دل میں نہیں، بلکہ اپنے دین کو چھپائے ہوئے تھا۔ دین کو چھپانا اور چیز ہے اور باطل دین کا اظہار بالکل دوسری چیز ہے۔ اللہ نے اس چیز کی بالکل اجازت نہیں دی۔ صرف اسے اجازت دی ہے جسے کلمۂ کفر کہنے پر زبردستی مجبور کردیا جائے…‘‘۔ الخ) ﴿وَیُحَذِّرُؔكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ تمھیں خود اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔‘‘ لہٰذا اس کی نافرمانی کرکے اس کی ناراضی مول نہ لو۔ ورنہ وہ تمھیں اس کی سزا دے گا۔ ﴿ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
آیت: 29 - 30 #
{قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (29) يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (30)}.
کہہ دیجیے، اگر چھپاؤ تم وہ بات جو تمھارے سینوں میں ہے یا ظاہر کرو اسے، جانتا ہے اس کو اللہ، اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے،اور اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے (29) جس دن پائے گا ہر نفس جو عمل کیا اس نے اچھائی سے، (اپنے سامنے) حاضر کیا ہوا،اور جو عمل کیا اس نے برائی سے (وہ بھی) ،تو وہ آرزو کرے گا، کاش کہ ہو درمیان اس کے اور درمیان اس (کی برائی) کے فاصلہ دور کا،اور ڈراتا ہےتمھیں اللہ اپنی ذات سے،اور اللہ بہت شفقت کرنے والا ہے اپنے بندوں پر (30)
#
{29 ـ 30} يخبر تعالى بإحاطة علمه بما في الصدور سواء أخفاه العباد أو أبدوه، كما أن علمه محيط بكل شيء في السماء والأرض فلا تخفى عليه خافية، ومع إحاطة علمه فهو العظيم القدير على كل شيء الذي لا يمتنع عن إرادته موجود. ولما ذكر لهم من عظمته وسعة أوصافه ما يوجب للعباد أن يراقبوه في كل أحوالهم، ذكر لهم أيضاً داعياً آخر إلى مراقبته وتقواه وهو أنهم كلهم صائرون إليه وأعمالهم حينئذ من خير وشر محضرة، فحينئذ يغتبط أهل الخير بما قدموه لأنفسهم، ويتحسر أهل الشر إذا وجدوا ما عملوه محضراً، ويودون أن بينهم وبينه أمداً بعيداً. فإذا عرف العبد أنه ساعٍ إلى ربه وكادحٌ في هذه الحياة، وأنه لا بد أن يلاقي ربه ويلاقي سعيه أوجب له أخذ الحذر والتوقي من الأعمال التي توجب الفضيحة والعقوبة، والاستعداد بالأعمال الصالحة التي توجب السعادة والمثوبة، ولهذا قال تعالى: {ويحذركم الله نفسه}؛ وذلك بما يبدي لكم من أوصاف عظمته وكمال عدله وشدَّة نكاله، ومع شدَّة عقابه فإنه رءوف رحيم، ومن رأفته ورحمته أنه خوَّف العباد، وزجرهم عن الغيِّ والفساد، كما قال تعالى لما ذكر العقوبات: {ذلك يخوِّف الله به عباده، يا عباد فاتقون}؛ فرأفته ورحمته سهلت لهم الطرق التي ينالون بها الخيرات، ورأفته ورحمته حذرتهم من الطرق التي تفضي بهم إلى المكروهات. فنسأله تعالى أن يتمم علينا إحسانه بسلوك الصراط المستقيم والسلامة من الطرق التي تفضي بسالكها إلى الجحيم.
[30,29] یعنی قیامت کے دن سب بندے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ پھر وہ تمھارے اعمال کو شمار کرے گا، ان پر محاسبہ کرے گا اور سزا و جزا دے گا۔ لہٰذا ایسے برے کام کرنے سے بچو جن کی وجہ سے تم عقوبت کے مستحق ہوجاؤ۔ بلکہ ایسے عمل کرو جن سے تمھیں اجر و ثواب ملے۔ پھر اللہ نے اپنے علم کی وسعت کے بارے میں فرمایا، وہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، بالخصوص جو کچھ دلوں میں ہے اسے بھی جانتا ہے۔ اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دلوں کو پاک رکھنا چاہیے اور ہر وقت اللہ کے علم کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں بندے کو اس بات سے شرم آئے گی کہ اس کا مالک اس کے دل کو گندے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا دیکھے۔ بلکہ وہ اپنی سوچ کو ایسے امور میں مشغول کرے گا جن سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔ مثلاً قرآن مجید کی کسی آیت یارسول اللہeکی کسی حدیث پر غوروفکر یا ایسے علم کو سمجھنے کی کوشش جس سے اسے فائدہ ہو یا اللہ کی کسی مخلوق اور نعمت کے بارے میں سوچنا یا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے کسی کام کے بارے میں سوچ بچار۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کا ذکر فرماتا ہے، تو اس میں ضمناً اعمال کی جزا و سزا بھی شامل ہوتی ہے۔ جو قیامت کے دن واقع ہوگی۔ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا و سزا ملے گی، اس لیے فرمایا: ﴿ یَوْمَ تَجِدُ كُ٘لُّ٘ نَ٘فْ٘سٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﴾ ’’جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو موجود پائے گا‘‘ یعنی اس کی نیکیاں مکمل طورپر محفوظ ہوں گی۔ ان میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئی ہوگی۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال:99؍7)’’پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا‘‘ (خیر) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کے قریب کرنے والا ہر نیک عمل شامل ہے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ جس طرح ’’سوء‘‘ ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کو ناراض کرنے والا ہر چھوٹا بڑا برا عمل شامل ہے۔ ﴿ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ١ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًا ﴾ ’’اور جو اس نے برائیاں کی ہوں گی، آرزو کرے گا، کاش اس کے اور ان (برائیوں) کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی‘‘ وہ بے انتہا افسوس اور شدید ترین غم کی وجہ سے یہ آرزو کرے گا۔ بندے کو ان گناہوں سے بچنا اور ڈرنا چاہیے جن کے نتیجے میں اسے شدید ترین غم برداشت کرنا پڑے گا۔ اب ان گناہوں کو چھوڑنا ممکن ہے، اس لیے فوراً ترک کردینا چاہیے ورنہ اس وقت وہ کہے گا ﴿یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ ﴾ (الزمر:39؍56) ’’ہائے افسوس! میں نے اللہ کی جناب میں کوتاہی کی!‘‘ ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ ﴾ (النساء:4؍42) ’’جنھوں نے کفر کیا، اور رسول کی نافرمانی کی اس دن تمنا کریں گے کاش! زمین ان کو نگل کر برابر ہوجائے‘‘ ﴿ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا﴾ (الفرقان:25؍27۔28) ’’اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، کاش! میں نے رسول(e) کی راہ اختیار کی ہوتی! ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ ﴿ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰؔلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْ٘مَشْرِقَیْنِ فَ٘بِئْسَ الْ٘قَرِیْنُ ﴾ (الزخرف:43؍38) ’’یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی، تو تو بڑا برا ساتھی ہے۔‘‘ قسم ہے اللہ کی! ہر خواہش نفس کواور لذت کو ترک کردینا، اگرچہ اس جہان میں اسے ترک کرنا نفس کو کتنا دشوار محسوس ہوتا ہو، ان عذابوں کو جھیلنے سے اور ان رسوائیوں کو برداشت کرنے سے بہت زیادہ آسان ہے۔ لیکن بندہ ظالم اور نادان ہونے کی وجہ سے صرف حاضر و موجود پرنظر رکھتا ہے۔ اگر اس کے پاس کامل عقل ہو تو ان اعمال کے انجام کو دیکھے، پھر وہ عمل کرے جس کا دونوں جہاں میں فائدہ ہو۔ اور اس کام سے اجتناب کرے جو دونوں جہان میں نقصان کا باعث ہو۔ اس کے بعد اللہ نے ہم پر شفقت و رحمت کرتے ہوئے دوبارہ اپنی ذات سے ڈرایا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت نہ ہوجائیں۔ تاکہ ترغیب بھی ہو، جس کے نتیجے میں امید اور عمل صالح حاصل ہو۔ اور ترہیب بھی ہو جس کے نتیجے میں خوف حاصل ہو اور گناہ چھوٹ جائیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَیُحَذِّرُؔكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ ’’اللہ تمھیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑاہی مہربان ہے‘‘ ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر احسان فرما کر ہمیشہ اپنے خوف سے نوازے رکھے، تاکہ ہم وہ کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔
آیت: 31 - 32 #
{قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (31) قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (32)}.
کہہ دیجیے، اگر ہو تم محبت کرتے اللہ سے تو اتباع کرو میرا، محبت کرے گا تم سے اللہ، اور بخش دے گا واسطے تمھارے گناہ تمھارے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (31) کہہ دیجیے، اطاعت کرو تم اللہ کی اور اس کے رسول کی، پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا کافروں کو (32)
#
{31 ـ 32} هذه الآية هي الميزان التي يُعرَف بها من أحب الله حقيقة ومن ادعى ذلك دعوى مجردة؛ فعلامة محبة الله اتباع محمد - صلى الله عليه وسلم - الذي جعل متابعته وجميع ما يدعو إليه طريقاً إلى محبته ورضوانه فلا تُنال محبة الله ورضوانه وثوابه إلا بتصديق ما جاء به الرسول من الكتاب والسنة وامتثال أمرهما واجتناب نهيهما، فمن فعل ذلك أحبه الله وجازاه جزاء المحبين، وغفر له ذنوبه وستر عليه عيوبه، فكأنه قيل: ومع ذلك فما حقيقة اتباع الرسول وصفتها؟ فأجاب بقوله: {قل أطيعوا الله والرسول}؛ بامتثال الأمر واجتناب النهي وتصديق الخبر {فإن تولوا}؛ عن ذلك؛ فهذا هو الكفر والله {لا يحب الكافرين}.
[32,31] اس آیت میں اللہ کی محبت کا وجوب، اس کی علامات،اس کا نتیجہ اور فوائد ذکر کیے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو‘‘ اگر تم اس اونچے مرتبے کا دعویٰ رکھتے ہو، جس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں، تو اس کے لیے صرف دعویٰ کافی نہیں، بلکہ یہ دعویٰ سچا ہونا چاہیے۔ اس کے سچا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہeکی اطاعت ہر حال میں ہو، اقوال میں بھی ہو اور افعال میں بھی، عقائد میں بھی ہو اور اعمال میں بھی، ظاہر میں بھی ہو اور باطن میں بھی۔ پس جو رسول اللہeکی اتباع کرتا ہے، اللہ کی محبت اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس پر رحمت فرماتا ہے، اسے تمام حرکات و سکنات میں راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ جس نے رسول کی اتباع نہ کی وہ اللہ سے محبت رکھنے والا نہیں، کیونکہ اللہ کی محبت کا تقاضا رسولeکی اتباع ہے۔ جب اتباع موجود نہیں، تو یہ محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس صورت میں اگر وہ رسول سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اور اگر محبت موجود بھی ہو تو اس کی شرط (اتباع) کے بغیر ایسی محبت بے کار ہے۔ سب لوگوں کو اسی آیت کی ترازو پر تولنا چاہیے۔ جتنی کسی میں اتباع رسول ہوگی، اسی قدر اس میں ایمان اور اللہ کی محبت کا حصہ ہوگا اور جس طرح اتباع میں کمی ہوگی، اسی قدر ایمان اور اللہ کی محبت میں نقص ہوگا۔ [32] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سب سے جامع حکم صادر فرمایا ہے۔ وہ ہے اس کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت۔ اس میں ایمان اور توحید بھی شامل ہے اور اس کی شاخیں یعنی ظاہری اور باطنی اقوال و افعال بھی۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے پرہیز بھی شامل ہے۔ کیونکہ گناہ سے پرہیز اللہ کے حکم کی تعمیل ہے، یعنی اس کی اطاعت میں شامل ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرنے والے ہی کامیاب ہیں۔ ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا﴾ ’’پس اگر یہ منہ پھیر لیں‘‘ یعنی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری سے اعراض کریں، تو دوسرا راستہ صرف کفر کا اور شیطان کی فرماں برداری کا ہے۔ ﴿ كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَیَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ ﴾ (الحج:22؍4)’’اس کے بارے میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا، وہ اسے گمراہ ہی کرے گا اور جہنم کے عذاب میں لے جائے گا۔‘‘ اس لیے فرمایا: ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’پس اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا‘‘بلکہ ان سے ناراض ہے، اور سخت ترین سزا دے گا۔ اس آیت مبارکہ میں اتباع رسول کی وضاحت ہے کہ اس کا طریقہ اللہ کے احکامات اور رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ یہی حقیقی اتباع اور پیروی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت: 33 - 55 #
{إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ (33) ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (34) إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (35) فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ {(36) فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَامَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (37) هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ (38) فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (39) قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (40) قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ (41) وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَامَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ (42) يَامَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (43) ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ (44) إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَامَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45) وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ (46) قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (47) وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (48) وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (49) وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (50) إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (51) فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (52) رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (53) وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (54) إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (55)}.
بے شک اللہ نے چن لیا آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو اوپر جہانوں کے (33) اولاد ہیں بعض ان کے بعض کی اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (34) جب کہا عمران کی بیوی نے اے میرے رب! بے شک میں نے نذر مانی ہے تیرے لیے اس (بچے) کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد کیا ہوا، پس تو قبول کر مجھ سے (یہ)، یقیناً تو ہی خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے (35) پھر جب اس نے جنا اس کو، تو کہا، اے میرے رب! بے شک میں نے تو جنی ہے وہ لڑکی، اور اللہ خوب جانتا تھا جو اس نے جنا تھااور نہیں تھا (وہ) لڑکا مانند (اس) لڑکی کےاور بے شک میں نے اس کا نام رکھا ہے مریم اور بے شک میں پناہ میں دیتی ہوں اس کو تیری اور اس کی اولاد کو (بھی) شیطان مردود سے (36) پس قبول کیا اس کو اس کے رب نے قبول کرنا اچھا اور پرورش کی اس کی پرورش اچھی، اور کفیل بنایا اس کا زکریا کو، جب بھی داخل ہوتے اس پر زکریا حجرے میں ،تو پاتے اس کے پاس کچھ کھانے کی چیزیں، انھوں نے کہا، اے مریم! کہاں سے آئیں تیرے لیے یہ؟ مریم نے کہا، یہ اللہ کے پاس سے (آئی) ہیں، بے شک اللہ رزق دیتا ہے، جسے چاہے، بے حساب (37) وہیں دعا کی زکریا نے اپنے رب سے، کہا، اے میرے رب! عطا کر مجھے اپنے پاس سے (بغیر اسباب ظاہری کے) اولاد پاکیزہ، بے شک تو خوب سننے والا ہے دعا کا (38) پس آواز دی اس کو فرشتوں نے جبکہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہاتھا حجرے میں، بے شک اللہ خوشخبری دیتا ہے تجھے یحییٰ کی درآنحالیکہ وہ تصدیق کرنے والا ہوگا ایک کلمے (عیسیٰ) کی جو اللہ کی طرف سے ہے،اور سردار ہوگا اور بہت ضبط کرنے والا (نفس کا) اور نبی ہوگا صالحین میں سے (39) زکریا نے کہا، اے میرے رب! کیوں کر ہوگا میرے لیے لڑکا جبکہ پہنچ چکا ہے مجھے بڑھاپااور میری بیوی بانجھ ہے؟ فرشتے نے کہا، اسی طرح اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے (40) زکریا نے کہا، اے میرے رب! بنا دے میرے لیے کوئی نشانی، اللہ نے فرمایا، نشانی تیری یہ ہے کہ نہیں کلام کر سکے گا تو لوگوں سے تین دن مگر اشارے سےاور یاد کر اپنے رب کو کثرت سے اور تسبیح کر شام اور صبح(41) اور (یاد کرو) جب کہا فرشتوں نے، اے مریم! بے شک اللہ نے چن لیا تجھے اور پاک کیا تجھے اور برگزیدہ کیا تجھے اوپر دنیا جہان کی عورتوں کے(42) اے مریم! تو فرماں برداری کر اپنے رب کی، اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے(43) یہ خبروں میں سے ہیں غیب کی، ہم وحی کرتے ہیں ان کی، آپ کی طرف اور نہیں تھے آپ ان کے پاس جب کہ وہ ڈال رہے تھے اپنے قلم کہ کون ان میں سے کفالت کرے مریم کی؟ اور نہیں تھے آپ ان کے پاس، جب کہ وہ باہم جھگڑ رہے تھے(44) جب کہا فرشتوں نے، اے مریم! بے شک اللہ خوشخبری دیتا ہے تجھ کو ایک کلمے کی اپنی طرف سے، اس کا نام ہوگا مسیح عیسیٰ ابن مریم، بڑے مرتبے والا دنیا میں اور آخرت میں، اور (اللہ کے) مقربین میں سے(45) اور وہ کلام کرے گا لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں اور ہوگا صالحین میں سے(46) مریم نے کہا، اے میرے رب! کس طرح ہوگا میرے لیے لڑکا، حالانکہ نہیں چھو ا مجھے کسی بشر نے؟ فرشتے نے کہا، اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جب وہ فیصلہ کرتا ہے کسی کام کا تو صرف یہ کہتا ہے اس کے لیے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے(47) اور وہ تعلیم دے گا اسے کتاب کی اور حکمت کی اور تورات اور انجیل کی(48) اور (بنائے گا اسے) رسول طرف بنی اسرائیل کی، (وہ کہے گا) بے شک میں آیا ہوں تمھارے پاس نشانیاں لے کر تمھارے رب سے (وہ یہ کہ) بے شک میں بناتا ہوں تمھارے لیے گارے سے مانند شکل پرندے کی، پھر پھونک مارتا ہوں اس میں تو ہو جاتا ہے وہ (واقعی) پرندہ ساتھ اللہ کے حکم کے،اور میں اچھا کر دیتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور برص والے کو اور زندہ کرتا ہوں مردوں کو ساتھ حکم اللہ کے،اور خبردیتا ہوں تمھیں اس چیز کی جو تم کھاتے ہو اور جو تم ذخیرہ کرتے ہو اپنے گھروں میں، بلاشبہ اس میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے تمھارے لیے اگر ہو تم مومن (49) اور تصدیق کرنے والا ہوں واسطے اس کے جو مجھ سے پہلے (نازل شدہ) ہے تورات، اور تاکہ حلال کر دوں میں تمھارے لیے بعض وہ چیزیں جو حرام کر دی گئی تھیں تم پر،اور آیا ہوں تمھارے پاس نشانی لے کر تمھارے رب کی طرف سے، پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری(50) بے شک اللہ ہے رب میرا اور رب تمھارا، پس تم عبادت کرو اسی کی، یہی ہے راستہ سیدھا(51) پھر جب محسو س کیا عیسیٰ نے ان میں کفر، تو کہا، کون ہے مددگار میرا اللہ کے لیے ؟ کہا حواریوں نے، ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے، ہم ایمان لائے ساتھ اللہ کے،اور تو گواہ رہ اس بات کا کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں(52) اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ساتھ اس چیز کے جو تونے نازل کی، اور اتباع کیا ہم نے رسول کا، پس لکھ لے تو ہمیں ساتھ گواہوں کے(53) اور انھوں نے تدبیر کی اور اللہ نے(بھی) تدبیر کی، اور اللہ بہتر ہے سب تدبیر کرنے والوں سے(54) (یاد کرو) جب کہا اللہ نے، اے عیسیٰ! بلاشبہ میں پورا پورا لینے والا ہوں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھے اپنی طرف، اورپاک کرنے والا ہوں تجھے ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا،اور کرنے والا ہوں ان کو جنھوں نے اتباع کیا تیرا، اوپر ان کے جنھوں نے کفر کیا، روز قیامت تک، پھر میری ہی طرف ہے لوٹ کر آنا تمھارا، پس فیصلہ کروں گا میں تمھارے درمیان ان باتوں میں کہ تھے تم ان میں اختلاف کرتے(55)
#
{33 ـ 55} لله تعالى من عباده أصفياء يصطفيهم ويختارهم ويمن عليهم بالفضائل العالية والنعوت السامية والعلوم النافعة والأعمال الصالحة والخصائص المتنوعة، فذكر هذه البيوت الكبار وما احتوت عليه من كُمَّل الرجال الذين حازوا أوصاف الكمال، وأن الفضل والخير تسلسل في ذراريهم، وشمل ذكورهم ونساءهم وهذا من أجل مننه وأفضل مواقع جوده وكرمه {والله سميع عليم}؛ يعلم من يستحق الفضل والتفضيل فيضع فضله حيث اقتضت حكمته. فلما قرر عظمة هذه البيوت ذكر قصة مريم وابنها عيسى - صلى الله عليه وسلم - وكيف تسلسلا من هذه البيوت الفاضلة، وكيف تنقلت بهما الأحوال من ابتداء أمرهما إلى آخره، وأن امرأة عمران قالت متضرعة إلى ربها متقربة إليه بهذه القربة التي يحبها، التي فيها تعظيم بيته وملازمة طاعته: {إني نذرت لك ما في بطني محرراً}؛ أي خادماً لبيت العبادة المشحون بالمتعبدين {فتقبل مني}؛ هذا العمل أي اجعله مؤسساً على الإيمان والإخلاص مثمراً للخير والثواب {إنك أنت السميع العليم. فلما وضعتها قالت رب إني وضعتها أنثى والله أعلم بما وضعت وليس الذكر كالأنثى}؛ كأن في هذا الكلام نوع تضرع منها وانكسار نفس حيث كان نذرها بناءً على أنه يكون ذكراً يحصل منه من القوة والخدمة والقيام بذلك ما يحصل من أهل القوة، والأنثى بخلاف ذلك، فجبر الله قلبها وتقبل الله نذرها، وصارت هذه الأنثى أكمل وأتم من كثير من الذكور، بل من أكثرهم، وحصل بها من المقاصد أعظم مما يحصل بالذكر، ولهذا قال: {فتقبلها ربها بقبول حسن وأنبتها نباتاً حسناً}؛ أي: ربيت تربية عجيبة دينية أخلاقية أدبية، كملت بها أحوالها، وصلحت بها أقوالها وأفعالها، ونما فيها كمالها، ويسر الله لها زكريا كافلاً، وهذا من مِنَّةِ الله على العبد أن يجعل من يتولى تربيته من الكاملين المصلحين. ثم إن الله تعالى أكرم مريم وزكريا حيث يسَّر لمريم من الرزق الحاصل بلا كدٍّ ولا تعب، وإنما هو كرامة أكرمها الله به، إذ {كلما دخل عليها زكريا المحراب}؛ وهو محل العبادة وفيه إشارة إلى كثرة صلاتها وملازمتها لمحرابها {وجد عندها رزقاً}؛ هنيئاً معدًّا قال: {أنى لك هذا قالت هو من عند الله إن الله يرزقُ من يشاء بغير حساب}؛ فلما رأى زكريا هذه الحال والبر واللطف من الله بها، ذكَّرَه أن يسأل الله تعالى حصول الولد على حين اليأس منه فقال: {رب هَب لي من لَدُنك ذرية طيبة إنك سميعُ الدُّعاء. فنادته الملائكة وهو قائم يصلي في المحراب أنَّ الله يبشرك بيحيى مصدقاً بكلمة من الله}؛ اسمه أي: الكلمة التي مِنَ الله عيسى بن مريم فكانت بشارته بهذا النبي الكريم تتضمن البشارة بعيسى بن مريم والتصديق له والشهادة له بالرسالة، فهذه الكلمة من الله كلمة شريفة اختص الله بها عيسى بن مريم، وإلا فهي من جملة كلماته التي أوجد بها المخلوقات، كما قال تعالى: {إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون}. وقوله: {وسيداً وحصوراً}؛ أي: هذا المبَشَّر به وهو يحيى سيد من فضلاء الرسل وكرامهم، والحصور قيل هو الذي لا يولد له ولا شهوة له في النساء، وقيل هو الذي عصم وحفظ من الذنوب والشهوات الضارة، وهذا أليق المعنيين، {ونبياً من الصالحين}؛ الذين بلغوا في الصلاح ذروته العالية، {قال رب أنى يكون لي غلام وقد بلغني الكبر وامرأتي عاقر}؛ فهذان مانعان فمن أي طريق يا رب يحصل لي ذلك مع ما ينافي ذلك {قال كذلك الله يفعل ما يشاء}؛ فإنه كما اقتضت حكمته جريان الأمور بأسبابها المعروفة، فإنه قد يخرق ذلك لأنه الفعَّالُ لما يريد، الذي قد انقادت الأسباب لقدرته، ونفذت فيها مشيئته وإرادته فلا يتعاصى على قدرته شيء من الأسباب ولو بلغت في القوة ما بلغت {قال رب اجعل لي آية}؛ ليحصل السرور والاستبشار وإن كنت يا رب متيقناً ما أخبرتني به ولكن النفس تفرح، ويطمئن القلب إلى مقدمات الرحمة واللطف، {قال آيتك أن لا تكلم الناس ثلاثة أيام إلا رمزاً}؛ وفي هذه المدة {اذكر ربك كثيراً وسبح بالعشي والإبكار}؛ أول النهار وآخره، فمنع من الكلام في هذه المدة، فكان في هذا مناسبة لحصول الولد من بين الشيخ الكبير والمرأة العاقر، وكونه لا يقدر على مخاطبة الآدميين ولسانه منطلق بذكر الله وتسبيحه آية أخرى، فحينئذ حصل له الفرح والاستبشار، وشكر الله، وأكثر من الذكر والتسبيح بالعشايا والإبكار. وكان هذا المولود من بركات مريم بنت عمران على زكريا، فإن ما منَّ الله به عليها من ذلك الرزق الهني الذي يحصل بغير حساب ذكَّره وهيَّجه على التضرع والسؤال، والله تعالى هو المتفضل بالسبب والمسبب ولكنه يقدر أموراً محبوبة على يد من يحبه ليرفع الله قدره ويُعْظِمَ أجره، ثم عاد تعالى إلى ذكر مريم وأنها بلغت في العبادة والكمال مبلغاً عظيماً فقال تعالى: {وإذ قالت الملائكة يا مريم إن الله اصطفاك}؛ أي: اختارك ووهب لك من الصفات الجليلة والأخلاق الجميلة {وطهرك}؛ من الأخلاق الرذيلة {واصطفاك على نساء العالمين}؛ ولهذا قال - صلى الله عليه وسلم -: «كمل من الرجال كثير، ولم يكمل من النساء إلا مريم بنت عمران وآسية بنت مزاحم وخديجة بنت خويلد، وفضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام» ، فنادتها الملائكة عن أمر الله لها بذلك لتغتبط بنعم الله وتشكر الله، وتقوم بحقوقه، وتشتغل بخدمته، ولهذا قال الملائكة: {يا مريم اقنتي لربك}؛ أي: أكثري من الطاعة والخضوع والخشوع لربك وأديمي ذلك {واركعي مع الراكعين}؛ أي: صلي مع المصلين فقامت بكل ما أمرت به وبرزت وفاقت في كمالها. ولما كانت هذه القصة وغيرها من أكبر الأدلة على رسالة محمد - صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر بها مفصلة محققة لا زيادة فيها ولا نقص، وما ذاك إلا لأنه وحي من الله العزيز الحكيم لا بتعلم من الناس قال تعالى: {ذلك من أنباء الغيب نوحيه إليك، وما كنت لديهم إذ يلقون أقلامهم أيهم يكفل مريم}؛ حيث جاءت بها أمها فاختصموا أيهم يكفلها لأنها بنت إمامهم ومقدمهم، وكلهم يريد الخير والأجر من الله حتى وصلت بهم الخصومة إلى أن اقترعوا عليها فألقوا أقلامهم مقترعين، فأصابت القرعة زكريا رحمة من الله به وبها فأنت ـ يا أيها الرسول ـ لم تحضر تلك الحالة لتعرفها فتقصها على الناس، وإنما الله نبأك بها، وهذا هو المقصود الأعظم من سياق القصص أنه يحصل بها العبرة، وأعظم العبر والاستدلال بها على التوحيد والرسالة والبعث وغيرها من الأصول الكبار {إذ قالت الملائكة يا مريم إن الله يبشرك بكلمة منه اسمه المسيح عيسى ابن مريم وجيهاً في الدنيا والآخرة ومن المقربين}؛ أي: له الوجاهة والجاه العظيم في الدنيا والآخرة عند الخلق، ومع ذلك فهو عند الله من المقربين الذين هم أقرب الخلائق إلى الله وأعلاهم درجة، وهذه بشارة لا يشبهها شيء من البشارات، ومن تمام هذه البشارة أنه {يكلم الناس في المهد}؛ فيكون تكليمه آية من آيات الله ورحمة منه بأمه وبالخلق، وكذلك يكلمهم {كهلاً}؛ أي: في حال كهولته، وهذا تكليم النبوة والدعوة والإرشاد، فكلامه في المهد فيه آيات وبراهين على صدقه ونبوته وبراءة أمِّه مما يظن بها من الظنون السيئة، وكلامه في كهولته فيه نفعه العظيم للخلق وكونه واسطة بينهم وبين ربهم في وحيه وتبليغ دينه وشرعه، ومع ذلك فهو {من الصالحين}؛ الذين أصلح الله قلوبهم بمعرفته وحبه، وألسنتهم بالثناء عليه وذكره وجوارحهم بطاعته وخدمته {قالت رب أنى يكون لي ولد ولم يمسسني بشر}؛ وهذا هو من الأمور المستغربة {قال كذلك الله يخلق ما يشاء}؛ ليعلم العباد أنه على كل شيء قدير وأنه لا ممانع لإرادته {إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون. ويعلمه الكتاب}؛ أي: جنس الكتب السابقة والحكم بين الناس ويعطيه النبوة ويجعله {رسولاً إلى بني إسرائيل}؛ ويؤيده بالآيات البينات والأدلة القاهرة حيث قال: {أني قد جئتكم بآية من ربكم}؛ تدلكم أني رسول الله حقاً، وذلك {أني أخلق لكم من الطين كهيئة الطير فأنفخ فيه فيكون طيراً بإذن الله وأبرئ الأكمه}؛ وهو ممسوح العينين الذي فقد بصره وعيناه {والأبرص وأحيي الموتى بإذن الله وأنبئكم بما تأكلون وما تدخرون في بيوتكم، إن في ذلك}؛ المذكور {لآية لكم إن كنتم مؤمنين. ومصدقاً لما بين يدي من التوراة}؛ فأيده الله بجنسين من الآيات والبراهين الخوارق المستغربة التي لا يمكن لغير الأنبياء الإتيان بها، والرسالة والدعوة والدين الذي جاء به وأنه دين التوراة ودين الأنبياء السابقين، وهذا أكبر الأدلة على صدق الصادقين، فإنه لو كان من الكاذبين لخالف ما جاءت به الرسل ولناقضهم في أصولهم وفروعهم، فعلم بذلك أنه رسول الله وأن ما جاء به حق لا ريب فيه، وأيضاً فقوله: {ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم}؛ أي: ولأخفف عنكم بعض الآصار والأغلال {فاتقوا الله وأطيعون. إن الله ربي وربكم فاعبدوه}؛ وهذا ما يدعو إليه جميع الرسل عبادة الله وحده لا شريك له وطاعتهم، وهذا هو الصراط المستقيم الذي من سلكه أوصله إلى جنات النعيم. فحينئذ اختلفت أحزاب بني إسرائيل في عيسى فمنهم من آمن به واتبعه ومنهم من كفر به وكذبه ورمى أمه بالفاحشة كاليهود {فلما أحس عيسى منهم الكفر}؛ والاتفاق على رد دعوته {قال}؛ نادباً لبني إسرائيل على مؤازرته: {من أنصاري إلى الله، قال الحواريون}؛ أي: الأنصار: {نحن أنصار الله آمنَّا بالله واشهد بأنا مسلمون}؛ وهذا من مِنَّةِ الله عليهم وعلى عيسى حيث ألهم هؤلاء الحواريين الإيمان به والانقياد لطاعته والنصرة لرسوله {ربنا آمنا بما أنزلت واتبعنا الرسول}؛ وهذا التزام تام للإيمان بكل ما أنزل الله ولطاعة رسوله {فاكتبنا مع الشاهدين}؛ لك بالوحدانية ولنبيك بالرسالة ولدينك بالحق والصدق. وأما من أحسَّ عيسى منهم الكفرَ وهم جمهور بني إسرائيل فإنهم {مكروا}؛ بعيسى {ومكر الله}؛ بهم {والله خير الماكرين}؛ فاتفقوا على قتله وصلبه، وشُبِّهَ لهم شَبَهُ عيسى فقبضوا على من شُبِّهَ لهم به وقال الله لعيسى: {إني متوفيك ورافعك إليَّ ومطهرك من الذين كفروا}؛ فرفعه الله إليه، وطهره من الذين كفروا، وصلبوا من قتلوه، ظانِّين أنه عيسى، وباؤوا بالإثم العظيم. وسينزل عيسى بن مريم في آخر هذه الأمة حكماً عدلاً يقتل الخنزير ويكسر الصليب ويتبع ما جاء به محمد - صلى الله عليه وسلم -، ويعلم الكاذبون غرورَهم وخداعَهم وأنهم مغرورون مخدوعون. وقوله: {وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة}؛ المراد بمن اتبعه الطائفة التي آمنت به ونصرهم الله على من انحرف عن دينه، ثم لما جاءت أمة محمد - صلى الله عليه وسلم - كانوا هم أتباعه حقًّا فأيدهم ونصرهم على الكفار كلهم، وأظهرهم بالدين الذي جاءهم به محمد - صلى الله عليه وسلم - {وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض}؛ الآية. ولكن حكمة الله عادلة فإنها اقتضت أن من تمسك بالدين نصره النصر المبين، وأن من ترك أمره ونهيه ونبذ شرعه وتجرأ على معاصيه أن يعاقبه ويسلط عليه الأعداء. والله عزيز حكيم. وقوله: {ثم إليَّ مرجعكم فأحكم بينكم فيما كنتم فيه تختلفون}.
[55-33] اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ اولیاء، اصفیاء اور انبیاء کے منتخب افراد ہونے کا ذکر فرماتا ہے کہ اللہ نے آدمuکا انتخاب فرمایا۔ انھیں تمام مخلوقات میں بلند مقام عطا فرمایا۔ انھیں اپنے ہاتھ سے پیدا کرکے ان میں روح ڈالی، فرشتوں کو حکم دیا کہ انھیں سجدہ کریں، انھیں جنت میں ٹھہرایا۔ انھیں ایسا علم، حلم اور شرف عطا فرمایا جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات سے افضل قرار پائے، اس لیے ان کی اولاد بھی افضل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ (بنیٓ اسرائیل:17؍70)’’یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی، اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں، اور انھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں، اور اپنی بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘ اللہ نے نوحuکو منتخب فرمایا اور انھیں اس وقت رسول بنا کر اہل زمین کی طرف بھیجا، جب بتوں کی پوجا شروع ہوگئی۔ آپ کو ہر وقت صبر، برداشت، شکر اور تبلیغ کی وہ توفیق بخشی جس کی وجہ سے وہ منتخب قرار دیے جانے کے لائق ہوگئے۔ اللہ نے آپ کی دعا کے نتیجے میں زمین کے تمام باشندوں کو غرق کردیا۔ آپ کو آپ کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے سے نجات بخشی، آپ کی نسل کو قیامت تک باقی رکھا۔ ہر زمانے میں لوگ آپ کی تعریف کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کو منتخب فرمایا۔ جن میں خود ابراہیمuبھی شامل ہیں جن کو اللہ نے خاص طورپر اپنی خلت سے نواز کر خلیل الرحمن کے لقب سے مشرف فرمایا۔ جنھوں نے اپنی ذات کو آگ کے حوالے کردیا، بیٹے کو قربانی کے لیے پیش کردیا اور مال مہمانوں کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ آپ نے رات دن، چھپ چھپ کر اور علانیہ لوگوں کو رب کی طرف بلایا۔ اللہ نے آپ کو اسوہ (نمونہ) قرار دیا کہ بعد کے سب لوگ اس کی اتباع کریں۔ نبوت اور آسمانی کتابیں آپ کی اولاد کے لیے خاص کردیں۔ آل ابراہیم میں وہ تمام انبیاء شامل ہیں جو آپ کے بعد مبعوث ہوئے، کیونکہ وہ سب آپ کی نسل سے تھے۔ اللہ نے ان حضرات کو ایسے ایسے فضائل سے نوازا کہ وہ جہانوں میں افضل ترین افراد بن گئے۔ ابراہیم ہی کی آل میں سے تمام اولاد کے سردار، ہمارے نبی جناب محمدeبھی تشریف لائے۔ جن میں اللہ نے وہ تمام خوبیاں جمع فرمادیں جو دوسرے انبیاء کرام میں انفرادی طورپر موجود تھیں۔ چنانچہ آپ گزشتہ اور آئندہ تمام انسانوں سے بلند تر ہوئے۔ آپ رسولوں کے سردار ہوئے، جنھیں آل ابراہیم میں سے منتخب فرد (مصطفی) ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران کی آل کو بھی منتخب قرار دیا۔ عمران حضرت مریمiکے والد ماجد کا نام ہے۔ حضرت موسیٰuکے والد کا نام بھی عمران تھا۔ یہ گھرانے، جن کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، یہ جہان والوں سے اس کے منتخب افراد کے گھرانے تھے۔ ان کی اولادوں کے ذریعے سے اصلاح اور توفیق کا تسلسل قائم رہا، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ ﴾ ’’یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں‘‘ ان میں باہمی مناسبت اور مشابہت تخلیق کے لحاظ سے بھی ہے اور اخلاق حسنہ کے لحاظ سے بھی۔ جس طرح اللہ نے ان خاندانوں کے دوسرے انبیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ١ۚ وَاجْتَبَیْنٰهُمْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ (الأنعام:6؍87)’’اور ان کے کچھ آباء و اجدادکو، اور کچھ اولاد کو، اور کچھ بھائیوں کو۔ اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی‘‘ ﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ سنتا جانتا ہے‘‘ یعنی کون اس قابل ہے کہ اسے چنا جائے اور کون نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے انھیں اس لیے منتخب فرمایا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جو انھیں انتخاب کے قابل بناتی ہیں۔ یہ بھی اللہ کا فضل و کرم تھا۔ ان بلند مرتبت حضرات کے واقعات ہمیں سنانے کا فائدہ اور حکمت یہ ہے کہ ہم ان سے محبت رکھیں ، ان کی اقتدا کریں، اللہ سے سوال کریں کہ جس طرح ان کو توفیق دی تھی۔ ہمیں بھی ویسے نیک اعمال کی توفیق بخشے۔ ان کے پیچھے رہ جانے اور ویسی صفات سے متصف نہ ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو حقیر سمجھتے رہیں (یعنی اپنے اعمال پر فخر نہ کریں) علاوہ ازیں اس بیان میں ان پر مہربانی ہے، اولین و آخرین میں ان کی تعریف کا اظہار ہے۔ اور ان کے شرف و عظمت کا اعلان ہے۔ اللہ کا جودوکرم کتنا عظیم ہے، اگر کوئی اور شرف نہ بھی ہوتا تو ان کے لیے یہی شرف کافی تھا کہ ان کا ذکر اور ان کی خوبیوں کا بیان دوام پا گیا ہے۔ ان معزز گھرانوں کا ذکرکرکے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰuکی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کی تربیت اور نشوونما میں کس طرح اللہ کا خاص لطف و کرم شامل تھا۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ ﴾ ’’جب عمران کی بیوی نے کہا‘‘ یعنی مریم علیہا السلام کی والدہ نے حمل قرار پاجانے پر فرمایا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا﴾ ’’اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام پر آزاد کرنے کی نذر مانی‘‘ یعنی تیری رضا کے حصول کے لیے میں نے تیرے گھر کی خدمت کے لیے آزاد کردیا۔ ﴿ فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ﴾ ’’پس تو میری طرف سے (یہ مبارک عمل) قبول فرما‘‘ ﴿ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾ ’’یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے‘‘ تو میری دعا سن رہا ہے، اور میری نیت اور ارادے سے باخبر ہے، یہ دعا انھوں نے اس وقت کی تھی جب مریم ان کے پیٹ میں تھیں، ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ ﴿ فَلَمَّؔا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَاۤ اُنْثٰى ﴾ ’’جب بچی کو جنا تو کہنے لگی: پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی‘‘ جبکہ انھیں شوق تھا کہ لڑکا پیدا ہو، جو اللہ کے گھر میں خدمت اچھے طریقے سے کرسکے۔ اس کلام سے گویا ایک قسم کی معذرت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ﴾ ’’اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی‘‘ اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسے تو اس وقت بھی علم تھا جب ان کی والدہ کو بھی علم نہیں تھا۔ ﴿ وَلَ٘یْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى١ۚ وَاِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ ﴾ ’’اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں، میں نے اس کا نام مریم رکھا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ لڑکا لڑکی سے افضل ہے۔ اور پیدائش کے وقت نام رکھنا جائز ہے۔ اور ماں اپنے بچے کا نام رکھ سکتی ہے بشرطیکہ باپ کو یہ بات ناپسند نہ ہو۔ ﴿ وَاِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ الرَّجِیْمِ ﴾ ’’اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں‘‘ انھوں نے مریم کے لیے او رمریم کی اولاد کے لیے دعا کی کہ انھیں اللہ تعالیٰ شیطان سے محفوظ رکھے۔ ﴿ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ ﴾ ’’پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا‘‘ یعنی انھیں نذر کے طورپر قبول فرمایا۔ اور انھیں اور ان کی اولاد کو شیطان سے محفوظ فرمایا۔ ﴿ وَّاَنْۢـبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا ﴾ یعنی ان کی جسمانی اور اخلاقی تربیت بہت اچھی ہوئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے زکریاuکو متعین فرمایا۔ ﴿ وَّكَفَّلَهَا زَكَرِیَّا ﴾ ’’اور ان کی خیر خبر لینے والا زکریا کو بنایا‘‘ کہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ان کی تربیت کامل ترین حال میں ہو۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کرتے کرتے ان کی عمر بڑھی، اور دوسری عورتوں سے فائق ہوگئیں۔ وہ اپنے رب کی عبادت کے لیے وقف ہوگئیں اور اپنی محراب یعنی نماز کی جگہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگیں۔ ﴿ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ١ۙ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ﴾ ’’جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے، تو ان کے پاس روزی رکھی ہوئے پاتے‘‘ جس میں ان کی محنت و مشقت شامل نہیں تھی۔ بلکہ یہ رزق انھیں اللہ نے کرامت کے طورپر عطا فرمایا۔ زکریاuنے فرمایا ﴿ اَنّٰى لَكِ هٰؔذَا ﴾ ’’یہ روزی تمھارے پاس کہاں سے آئی‘‘ ﴿ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ جواب دیتیں، یہ اللہ کے پاس سے ہے‘‘ یہ اس کا فضل و احسان ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’بے شک اللہ جسے چاہے بے شمار روزی دے‘‘ یعنی جہاں سے بندے کو گمان بھی نہ ہو اور بغیر محنت کھانے کا بندوبست فرمادے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ۰۰وَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾ (الطلاق:65؍2، 3)’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے خلاصی کی صورت بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔‘‘ علاوہ ازیں اس آیت سے اولیائے کرام کی خرق عادت کرامات کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے ثابت ہیں، اس لیے جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا موقف درست نہیں۔ جب زکریاuنے مریم [ پر اللہ کا یہ احسان ملاحظہ فرمایا، اور انھیں بغیر کوشش اور محنت کے، بہترین رزق ملنے کی کرامت دیکھی تو آپ کے دل میں بیٹے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ زکریاuنے وہیں رب سے دعا کی کہ وہ انھیں پاکیزہ اولاد عطا فرمائے، یعنی خوش اخلاق اور خوش اطوار اولاد دے، تاکہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کی نعمتوں کی تکمیل ہوجائے۔ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمالی۔ جب آپ حجرے میں کھڑے رب کی عبادت اور مناجات میں مشغول تھے، فرشتوں نے آواز دی ﴿ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہ اللہ تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کے کلمہ (یعنی عیسیٰu)کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔‘‘ ﴿ وَسَیِّدًا ﴾ ’’اور سردار‘‘ یعنی آپ کو ایسی اچھی صفات عطا فرمائے گا کہ آپ سردار بن جائیں گے۔ اور لوگ اپنے معاملات میں رہنمائی کے لیے آپ کی طرف رجوع کریں گے۔ ﴿ وَّحَصُوْرًا ﴾ ’’اور ضابط نفس‘‘یعنی عورتوں سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ رب کی خدمت و اطاعت میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ کے دل میں عورتوں کی خواہش پیدانھیں ہوگی۔ ﴿ وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور نبی نیک لوگوں میں سے‘‘ کتنی عظیم بشارت ہے۔ اس سے بڑی خوش خبری کیا ہوسکتی ہے۔ اس میں بیٹا ملنے کی خوش خبری بھی ہے، اور اس کی کامل صفات والا ہونے کی بھی، اور اس کے نبی ہونے کی بھی! زکریاuانتہائی خوشی کی حالت میں پکار اٹھے۔ ﴿ رَبِّ اَنّٰى یَكُ٘وْنُ لِیْ غُلٰ٘مٌ وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ﴾ ’’اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔‘‘ ان میں سے ایک سبب بھی ہوتا تو اولاد نہ ہوتی۔ اب تو دونوں جمع ہیں۔ اللہ نے بتایا کہ یہ پیدائش معجزانہ شان کی حامل ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ﴾ ’’اسی طرح اللہ جو چاہے کرتا ہے‘‘ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اولاد کی موجودگی کو اسباب مثلاً توالد و تناسل کے ساتھ متعلق کردیا ہے اسی طرح اگر وہ بغیر اسباب کے اولاد دینا چاہے تو دے سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں۔ زکریاuنے اس بشارت کے جلدی پورا ہونے کی امید میں اور مکمل اطمینان حاصل ہونے کی غرض سے فرمایا: ﴿ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً ﴾ ’’پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کردے‘‘ جو اس بچے کے وجود میں آجانے کی علامت ہو۔ ﴿قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰ٘ثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا ﴾ ’’فرمایا: نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو لوگوں سے بات نہ کرسکے گا، مگر اشارے سے‘‘ یعنی آپ کی زبان بغیر کسی مرض یا آفت کے کلام سے رک جائے گی، آپ صرف اشارے سے بات کرسکیں گے۔ کلام نہ کرسکنا ایک عظیم علامت ہے۔ اس میں ایک عجیب مناسبت ہے یعنی جس طرح اسباب موجود ہوتے ہوئے اللہ ان کو کام کرنے سے روک سکتا ہے۔ اسی طرح اسباب کے بغیر پیدا کرسکتا ہے۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمام اسباب اللہ کی قضاء و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ نے آپ کو اپنا شکر کرنے اور صبح شام کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا۔ حتیٰ کہ جب آپ حجرے سے باہر تشریف لائے ﴿ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُؔكْرَةً وَّعَشِیًّا ﴾ (مريم:19؍11)’’تو لوگوں کو اشارے سے فرمایا کہ صبح شام اللہ کی تسبیح کرتے رہنا۔‘‘ اللہ عزوجل حضرت مریم [ کا شرف اور بلند مقام ظاہر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فرشتوں نے انھیں براہ راست مخاطب کرکے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ ﴾ ’’اے مریم! اللہ نے تجھے برگزیدہ کرلیا‘‘ ﴿ وَطَهَّرَكِ ﴾ ’’اور تجھے (ایسی خرابیوں سے) پاک کردیا‘‘ جو تیری شان میں کمی کا باعث بن سکتی تھیں۔ ﴿ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’ا ور سارے جہاں کی عورتوں میں تیرا انتخاب کرلیا‘‘ پہلے (اِصْطَفَاء) ’’انتخاب اور برگزیدہ کرنے‘‘ کا تعلق آپ کی اچھی صفات اور نیک اعمال سے ہے۔ اور دوسرے (اِصْطَفَاء) سے مراد جہان کی عورتوں سے افضل قرار دینا ہے۔ جہان سے مراد یا تو ان کے زمانے کی ساری دنیا کی عورتوں پر فضیلت ہے یا پروردگار کی تمام عورتوں سے افضل قرار دینا مقصود ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے چند خواتین یعنی جناب خدیجہ، جناب عائشہ اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہن کا اس شرف میں شریک ہونا مریم کے اصطفاء کے منافی نہیں۔ جب فرشتوں نے آپ کو اللہ کی منتخب بندی ہونے اور پاک کرنے کی خوشخبری دی تو یہ ایک عظیم نعمت اور اللہ کا عظیم احسان تھا، جس کا شکر کرنا ضروری تھا، اس لیے فرشتوں نے کہا: ﴿ یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ ﴾ ’’اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر‘‘ قنوت سے مراد خشوع و خضوع کے ساتھ اطاعت پر مسلسل قائم رہنا ہے۔ ﴿ وَاسْجُدِیْ وَارْكَ٘عِیْ مَعَ الرّٰؔكِعِیْنَ ﴾ ’’اور سجدہ کر، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔‘‘ عبادت میں رکوع اور سجدہ کا ذکر خاص طورپر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کا مقام دوسری عبادتوں سے افضل ہے۔ اور ان سے اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار ہوتا ہے۔ مریم نے اللہ کا شکر کرتے ہوئے اطاعت کے جذبہ سے اس حکم کی تعمیل کی۔ جب اللہ نے اپنے نبی کو مریم کے بارے میں یہ باتیں بتائیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق کن حالات سے گزریں، تو یہ غیبی معاملات تھے جن کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبـَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ ﴾ ’’یہ غیب کی خبروںمیں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں۔‘‘ ﴿وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْ٘قُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْ٘فُلُ مَرْیَمَ ﴾ ’’اور آپ ان کے پاس نہ تھے، جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پالے گا۔‘‘ جب مریم کی والدہ انھیں بیت المقدس کے ذمہ دار افراد کے پاس لے گئیں تو ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوئی کہ وہ مریم کی دیکھ بھال کا شرف حاصل کرے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے انھوں نے قرعہ اندازی کی، وہ اس طرح کہ اپنے قلم دریا میں ڈال دیے کہ جس کا قلم پانی کے ساتھ نہیں بہے گا، وہی مریم کا سرپرست قرار پائے گا۔ یہ شرف حضرت زکریاuکو حاصل ہوا جو ان کے نبی اور معزز ترین فرد تھے۔ اے محمد(e)آپ ان لوگوں کو یہ واقعات بتاتے ہیں جن کے بارے میں نہ انھیں معلوم تھا، نہ ان کے آباء و اجداد کو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سچے ہیں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا ان کا فرض ہے کہ آپ کی اطاعت قبول کریں او ر آپ کے احکام کی تعمیل کریں۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْ٘غَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ (قصص:28؍44) ’’اور طور کے مغربی جانب، جبکہ ہم نے موسیٰ کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو آپ موجود تھے، اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو عظیم ترین بشارت دی، وہ اللہ کا کلمہ، اس کا بندہ، اس کا رسول، مریم کا بیٹا عیسیٰuہے۔ آپ کو اللہ کا کلمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ اللہ کے ایک کلمہ (اور خصوصی فرمان) کے ذریعے پیدا ہوئے تھے۔ اور آپ کے حالات اسباب سے خارج تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانی اور عجیب مخلوق بنایا۔ وہ اس طرح کہ اللہ نے جبریلuکو مریم علیہا السلام کے پاس بھیجا۔ انھوں نے آپ کی قمیص کے گریبان میں پھونک ماری۔ مقدس فرشتے کی یہ مقدس پھونک مریم علیہا السلام کے جسم میں داخل ہوگئی جس سے وہ پاک روح پیدا ہوگئی۔ اس وجہ سے آپ روحانی فطرت رکھتے تھے جو روحانی مادے سے پیدا ہوئے تھے، اس لیے آپ کو روح اللہ (اللہ کی روح) کہا گیا۔ ﴿ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْ٘مُقَرَّبِیْنَ۠﴾ ’’جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے‘‘ یعنی انھیں دنیا میں ایک معزز مقام حاصل ہے کہ آپ کو اللہ نے ان اولو العزم رسولوں میں شامل کیا، جو بڑی شریعتوں کے حامل تھے، اور انھیں کثیر تعداد میں متبعین نصیب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ شہرت بخشی جو مشرق اور مغرب میں پھیل گئی۔ وہ آخرت میں بھی اللہ کے ہاں، عزت والے ہوں گے۔ دوسرے انبیاء اور رسولوں کی طرح آپ بھی شفاعت کریں گے، جس سے آپ کا بلند مقام جہاں والوں کے سامنے ظاہر ہوجائے گا، اس لیے وہ اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہیں، اپنے رب سے انتہائی قریب ہیں۔ بلکہ آپ مقربین کے سرداروں میں سے ہیں۔ ﴿ وَیُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَؔكَهْلًا﴾ ’’اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا، اور ادھیڑ عمر میں بھی‘‘ یہ عام بات چیت سے ممتاز کلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے ایسی باتیں کرے گا جس میں ان کی بھلائی او رکامیابی ہے۔ اور ایسا کلام رسولوں کا ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ رسول ہوگا جو لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلائے گا۔ گہوارے میں لوگوں سے کلام کرنا اللہ کی ایک عظیم نشانی ہوگی جس سے مومنوں کو فائدہ ہوگا، اور وہ دشمنوں کے خلاف حجت ہوگی۔ جس سے ثابت ہوگا کہ وہ رب العالمین کے رسول اور اللہ کے بندے ہیں۔ یہ کلام آپ کی والدہ کے لیے بھی نعمت ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے سے ان پر لگنے والے الزام کی تردید ہوجائے گی۔ ﴿ وَّمِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا‘‘ یعنی اللہ اس پر یہ احسان بھی فرمائے گا کہ اسے نیکی عطا فرما کر نیک لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ اس میں مریم [کے لیے کئی بشارتیں ہیں اور مسیحuکے بلند مقام کا اظہار بھی ہے۔ ﴿ قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُ٘وْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ ﴾ ’’کہنے لگیں: الٰہی مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ اور اللہ کا عام قانون یہی ہے کہ مرد سے تعلق کیے بغیر اولاد نہیں ہوتی۔ یہ بات مریم [نے تعجب کے طورپر فرمائی۔ اللہ کی قدرت پر شک کرتے ہوئے نہیں فرمائی۔ ﴿ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُ٘وْنُ ﴾ ’’فرشتے نے کہا: اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔‘‘ اس نے مریم کو بتایا کہ یہ خرق عادت معاملہ ہے۔ اسے پیدا کرنے والا وہ اللہ ہے جو کسی بھی کام کو کہتا ہے ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔ جو اس چیز پر یقین کرلے اس کا تعجب ختم ہوجائے گا۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے عجیب کے بعد زیادہ عجیب واقعہ بیان فرمایا ہے۔ پہلے حضرت یحییٰuکی ولادت کا ذکر فرمایا جن کے والد انتہائی بوڑھے اور والدہ بانجھ تھیں۔ پھر زیادہ عجیب واقعہ بیان فرمایا یعنی عیسیٰuکا کسی والد کے بغیر صرف والدہ سے پیدا ہونا۔ تاکہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ اللہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہے۔ جو کچھ وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰuپر اپنے عظیم احسان کا ذکر فرمایا ﴿ وَیُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ ﴾ ’’اللہ اسے کتاب یا کتابت کا علم دے گا‘‘ اس لفظ سے کتاب کی جنس مراد ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد تورات اور انجیل کا ذکر خصوص کے طورپر کیا گیا کیونکہ یہ دونوں کتابیں اشرف وافضل ہیں۔ ان میں وہ احکام و شرائع مذکور ہیں جن کے مطابق بنی اسرائیل کے انبیاء فیصلے فرماتے تھے۔ علم دینے میں الفاظ اور معانی دونوں کا علم شامل ہے۔ ممکن ہے کہ الکتاب سے کتابت (لکھنے کا علم) مراد ہو۔ کیونکہ تحریر کا علم اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے۔ اسی لیے اللہ نے بندوں پر اپنا یہ احسان خاص طورپر ذکر فرمایا ہے کہ اس نے انھیں قلم کے ذریعے سے علم دیا، چنانچہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت میں ارشاد ہے: ﴿ اِقْ٘رَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ۰۰ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۰۰ اِقْ٘رَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ۰۰الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۰۰﴾ (العلق:96؍1۔4) ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ‘‘ اور حکمت سے مراد اسرار شریعت کا علم، اور ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنے کا علم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰuپر یہ احسانات بیان فرمائے کہ انھیں لکھنا سکھایا اور علم و حکمت سے نوازا۔ یہ انسان کی ذات سے تعلق رکھنے والا کمال ہے۔ پھر ایک اور کمال ذکر فرمایا: جو آپ کو حاصل ہونے والے دوسرے فضائل سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا‘‘ اللہ نے آپ کو اس عظیم قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو اپنے زمانے کی افضل ترین قوم تھی۔ آپ نے انھیں اللہ کی طرف بلایا۔ اور اللہ نے آپ کو وہ معجزات عطا فرمائے جن سے ثابت ہوجائے کہ وہ واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کے سچے نبی ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُ٘قُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ ﴾ ’’کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانی لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔‘‘ ﴿ فَاَنْ٘فُ٘خُ فِیْهِ فَیَكُ٘وْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔‘‘ یعنی اس میں اللہ کے حکم سے جان پڑ جاتی ہے اور وہ اڑنے لگتا ہے۔ ﴿ وَاُبْرِئُ الْاَؔكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ ﴾ ’’اور میں (اللہ کے حکم سے )مادر زاد اندھے اور ابرص کو اچھا کردیتا ہوں‘‘ ﴿ وَاُحْیِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ ﴾ ’’اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھاؤ، اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو، میں تمھیں بتا دیتا ہوں‘‘ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّـكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان دار ہو‘‘ اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ بے جان مٹی زندہ جانور بن جائے، ایسے بیمار تندرست ہوجائیں جن کا علاج کرنے سے تمام معالج عاجز تھے اور مردے زندہ ہوجائیں، اور غیبی امور کی خبریں دی جائیں۔ ان میں سے اگر کوئی نشانی اکیلی بھی ظاہر ہوتی تو بہت بڑا معجزہ ہوتی۔ تو پھر جب یہ سب نشانیاں ظاہر ہوں اور ایک دوسری کی تائید کریں تو یقیناً یقین حاصل ہوگا، اور ایمان لانا ضروری ہوگا۔ ﴿ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ ﴾ ’’اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے‘‘ یعنی میں ویسی ہی تعلیمات لے کر آیا ہوں جیسی موسیٰuلائے تھے اور جو تورات میں موجود تھیں۔ سچے آدمی کی علامت یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی باتیں دوسرے سچے افراد کے بیانات کے مطابق ہوں۔ وہ سچی خبریں دے اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرے ۔اس کی باتوں میں تناقض اور اختلاف نہ ہو۔ جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ بالخصوص جو سب سے بڑا دعویٰ یعنی نبوت کا دعویٰ کرے۔ اگر اس کا دعویٰ جھوٹ ہے تو اس کا جھوٹ ہر کسی کے سامنے ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اس کی باتوں میں تناقض ہوتا ہے۔ اس کی باتیں سچے لوگوں کی باتوں کے خلاف اور جھوٹے لوگوں کی باتوں سے مشابہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ اقوام میں یہی طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ کیونکہ نبوت کے دعویٰ میں سچے اور جھوٹے میں ہرگز اشتباہ نہیں ہوتا۔ البتہ بعض چھوٹے موٹے جزوی معاملات میں سچا اور جھوٹا ایک دوسرے سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔ نبوت پر تو مخلوق کی ہدایت و ضلالت اور نجات و ہلاکت کا دارومدار ہے۔ اس کا سچا دعویٰ کرنے والا کامل ترین انسان ہی ہوسکتا ہے اور اس کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا سب سے حقیر، سب سے بڑھ کر جھوٹا اور سب سے زیادہ ظالم ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہے کہ ان دونوں میں ایسے واضح فرق موجود ہوں جنھیں عقل رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکے۔ اس کے بعد عیسیٰuنے بتایا کہ انجیل کی شریعت میں آسانی اور نرمی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کردی گئی ہیں‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے تورات کے اکثر احکام منسوخ نہیں کیے، بلکہ ان کی تکمیل کی ہے اور انھیں برقرار رکھا ہے۔ ﴿ وَجِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’اور میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانی لایا ہوں‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں سچا ہوں اور میری پیروی واجب ہے۔ اس سے مراد وہی معجزات ہیں، جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ﴾ ’’تم اللہ سے ڈرو‘‘ اس کے احکام کی تعمیل کرو، اور اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے پرہیز کرو، اور میری اطاعت کرو۔ کیونکہ رسول کی اطاعت اصل میں اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ﴾ ’’یقین مانو، میرا اور تمھارا رب اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو۔‘‘ توحید ربوبیت (یعنی اللہ کے خالق ہونے) کا اقرار سب کو ہے۔ جناب عیسیٰuنے اس کو توحید الوہیت (یعنی صرف اللہ کے معبود برحق ہونے) کی دلیل بنایا جسے مشرکین نہیں مانتے۔ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارا خالق، رازق اور ہمیں تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں دینے والا صرف اللہ ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی ماننا چاہیے کہ ہمارا معبود صرف اللہ ہے جس سے ہم محبت رکھیں ، اس سے ڈریں، اس سے امیدیں رکھیں ، اس سے دعائیں کریں، اس سے مدد مانگیں، اور عبادت کی دوسری تمام صورتیں بھی اس کے لیے مخصوص کردیں۔ اس سے نصاریٰ کی تردید ہوتی ہے جو عیسیٰuکو معبود مانتے ہیں۔ یااللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق، اللہ کے بندے اور اللہ کی مشیت کے ماتحت ہیں۔ جیسے انھوں نے فرمایا تھا: ﴿ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا﴾ (مریم:19؍30) ’’میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّؔخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰؔنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَ٘قُ٘وْلَ مَا لَ٘یْسَ لِیْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۰۰مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ ﴾ (المائدہ:5؍116۔117) ’’اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تونے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو۔ عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں۔ مجھ کو کسی طرح زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے، اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے۔ میں نے ان سے اور کچھ نہیں کہا، مگر صرف وہی جو تونے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے۔‘‘ ﴿ هٰؔذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾ ’’یہی سیدھی راہ ہے‘‘ یعنی اللہ کی عبادت، اس کا تقویٰ اور اس کے رسول کی فرماں برداری ہی سیدھی راہ ہے جو اللہ تک اور اس کی جنت تک پہنچاتی ہے۔ اس کے سوا ہر راستہ جہنم کی طرف پہنچانے والا ہے۔ ﴿ فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰؔى مِنْهُمُ الْ٘كُ٘فْرَ ﴾ ’’جب عیسیٰuنے ان کا کفر محسوس کرلیا‘‘ دیکھا کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ انھیں جادوگر کہتے ہیں۔ آپ کو شہید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کی کوشش کررہے ہیں ﴿ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’تو کہنے لگے: اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون ہے؟‘‘ یعنی اللہ کے دین کی نصرت کے لیے میرے ساتھ کون تعاون کرے گا؟ ﴿ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ﴾ ’’حواریوں (یعنی آپ کے مددگاروں) نے کہا ہم اللہ کی راہ کے مددگار ہیں‘‘ یعنی انھوں نے آپ کا ساتھ دیا اور یہ فریضہ نبھایا۔ انھوں نے کہا: ﴿ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ﴾ ’’ہم اللہ پر ایمان لائے‘‘ ﴿فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ ﴾ ’’پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے‘‘ یعنی ایسی گواہی جو مفید ہو، اس گواہی سے مراد اللہ کی توحید کا اقرار اور نبیوں کی تصدیق اور اس کے مطابق عمل۔ جب وہ دین کی نصرت کے لیے اور شریعت کو قائم کرنے کے لیے عیسیٰuکے ساتھ ہوگئے تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا۔ اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا۔ ان دونوںمیں جنگ ہوئی تو اللہ نے مومنوں کی مدد کی۔ اور مشرکوں کو شکست ہوئی اور اہل توحید کامیاب ہوگئے، اس لیے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَكَرُوْا ﴾ ’’اور انھوں (کافروں )نے تدبیر کی‘‘ یعنی اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے اللہ کے نبی کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ﴿ وَمَكَرَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی‘‘ اور انھیں ان کے منصوبوں کی سزا دینے کا فیصلہ فرمایا۔ ﴿ وَاللّٰهُ خَیْرُ الْمٰؔكِرِیْنَ﴾ ’’اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنا دیا اور وہ خائب و خاسر ہوکر رہ گئے۔ ﴿ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَرَافِعُكَ اِلَیَّ وَمُ٘طَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰuکو اپنی طرف آسمانوں پر اٹھالیا، اور کسی اور شخص پر آپ کی مشابہت ڈال دی۔ جس آدمی کو آپ کا ہم شکل بنایا گیا تھا، دشمنوں نے اسے پکڑ کر صلیب پر چڑھایا اور قتل کردیا۔ اس طرح وہ ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کی نیت حضرت عیسیٰuکو شہید کرنے کی تھی۔ اور اپنے خیال میں وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ﴾(النساء:4؍157) ’’نہ تو انھوں نے اسے قتل کیا، نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لیے وہی صورت بنا دی گئی تھی‘‘ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے اوپر ہونا، اور عرش پر حقیقتاً مستوی ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے جنھیں اہل سنت نے تسلیم کیا ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غالب قوی اور زبردست ہے۔ جس کا ایک مظہر بنی اسرائیل کا عیسیٰuکو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلینے اور پروگرام بنالینے، اور اس میں کوئی ظاہری رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود، اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہنا ہے، جیسے اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ (المائدہ:5؍110) ’’اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا، جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان میں سے جو کافر تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کو شبہ میں رکھنے میں بھی اس کی عظیم حکمت پوشیدہ تھی۔ چنانچہ وہ شبہ میں پڑ گئے جیسے ارشاد ہے ﴿ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَ٘فِیْ شَكٍّ مِّؔنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّ٘نِّ١ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا﴾ (النساء:4؍157) ’’یقین جانو، عیسیٰuکے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انھیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے۔ اتنا یقینی ہے کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’اور تیرے تابع داروں کو کافروں کے اوپر رکھنے والا ہوں، قیامت کے دن تک‘‘ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کافروں کے خلاف ان کے مومنوں کی مدد فرمائی۔ پھر عیسیٰuسے نسبت رکھنے والے نصاریٰ یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہے، کیونکہ یہود کی نسبت عیسائی عیسیٰuکی اتباع سے قریب تر تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمدeکو مبعوث فرمایا تو مسلمان عیسیٰuکے حقیقی متبع بنے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ البتہ کسی کسی زمانے میں عیسائی وغیرہ کافر مسلمانوں پر غالب آتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اور یہ مسلمانوں کو نبیeکی اتباع سے پہلو تہی کرنے کی سزا ہے۔ ﴿ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ﴾ ’’پھر تم سب کا (یعنی تمام مخلوقات) کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔‘‘ ﴿فَاَحْكُمُ بَیْنَؔكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’پس میں ہی تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا‘‘ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے سب غلطی پر ہیں۔ یہ سب دعوے ہیں جنھیں دلیل کی ضرورت ہے۔
آیت: 56 - 57 #
{فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (56) وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (57)}.
پس لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تو میں عذاب دوں گا ان کو عذاب شدید دنیا میں اور آخرت میں، اور نہیں ہوگا ان کے لیے کوئی مدد گار(56) اور لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، تو اللہ پورے دے گا انھیں اجر ان کے، اور اللہ نہیں پسند کرتا ظالموں کو(57)
#
{56 ـ 57} وهذا الجزاء عام لكل من اتصف بهذه الأوصاف من جميع أهل الأديان السابقة. ثم لما بعث سيد المرسلين وخاتم النبيين، ونسخت رسالته الرسالات كلها، ونسخ دينه جميع الأديان صار المتمسك بغير هذا الدين من الهالكين. وقوله تعالى:
[57,56] چنانچہ اللہ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’پھر جنھوں نے انکار کیا‘‘ اللہ کے ساتھ کفر کیا، اس کی آیات کا اور رسولوں کا انکار کیا ﴿ فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا شَدِیْدًؔا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’پس میں انھیں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا‘‘ دنیا کے عذاب سے مراد ظاہر نظر آنے والی مصیبتیں، سزائیں، قتل ، ذلت وغیرہ ہیں۔ اور آخرت کا عذاب سب سے بڑی آفت اور مصیبت ہے۔ یعنی جہنم کا عذاب، اللہ کی ناراضی، اور نیکی کے ثواب سے محرومی۔ ﴿ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰ٘صِرِیْنَ ﴾ ’’اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘ جو انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ وہ بھی جنھیں وہ اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کرنے والے سمجھتے ہیں، وہ بھی نہیں، جنھیں وہ اللہ کو چھوڑ کر دوست بناتے ہیں، نہ ان کے رفیق نہ رشتے دار، نہ وہ خود اپنی کچھ مدد کرسکیں گے۔ ﴿ وَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’لیکن جو لوگ ایمان لائے‘‘ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، موت کے بعد کی زندگی پر، اور ان سب امور پرایمان لائے، جن پرایمان لانے کا انھیں حکم دیا گیا ہے۔ ﴿وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور نیک اعمال کیے‘‘ دل، زبان اور بدن سے ادا ہونے والے وہ اعمال جنھیں رسولوں نے مشروع اور مطلوب قرار دیا۔ اور ان اعمال سے ان کا مقصد رب العالمین کو خوش کرنا تھا۔ ﴿ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ﴾ ’’پس انھیں وہ (اللہ تعالیٰ) ان کا پورا ثواب دے گا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دنیا میں بھی نیکیوں کا ثواب ملے گا، یعنی عزت، احترام، مدد، پاکیزہ زندگی، البتہ مکمل ثواب قیامت کو ملے گا کہ اللہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا ثواب بھی دے گا، اور اپنے فضل و کرم سے مزید انعامات بھی دے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا‘‘ بلکہ ان سے ناراض ہے اور انھیں عذاب دیتا ہے۔
آیت: 58 #
{ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ (58)}.
یہ (واقعات) کہ پڑھتے ہیں ہم ان کو آپ پر، نشانیوں میں سے ہیں اور ذکر حکمت والا(58)
#
{58} أي: هذا القرآن العظيم الذي فيه نبأ الأولين والآخرين والأنبياء والمرسلين هو آيات الله البينات، وهو الذي يذكر العباد كل ما يحتاجونه، وهو الحكيم المحكم صادق الأخبار، حسن الأحكام.
[58] ﴿ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَؔكِیْمِ ﴾ ’’یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں، آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہے۔‘‘ یہ محمدeپر اور آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان پر یہ حکمت والا قرآن نازل کیا جو محکم اور پختہ ہے۔ تمام احکام، حلال و حرام، گزشتہ انبیائے کرام کے واقعات اور ان کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے واضح معجزات بیان کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن وہ تمام احکام و قصص بیان کرتا ہے جو ہمارے لیے مفید ہیں۔ ہمیں اس سے علم، عبرت، ثابت قدمی اور اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے جو رب کی عظیم ترین نعمت ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت: 59 - 63 #
{إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (59) الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (60) فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (61) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (62) [فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ (63)] }.
بے شک مثال عیسیٰ کی نزدیک اللہ کے مانند مثال آدم کی ہے، اللہ نے پیدا کیا اس کو مٹی سے، پھر کہا واسطے اس کے ہو جا، تو ہوگیا وہ (انسان) (59) (یہ) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، پس نہ ہوں آپ شک کرنے والوں میں سے(60)پھر جو کوئی جھگڑا کرے آپ سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں، بعد اس کے کہ آگیا آپ کے پاس (صحیح) علم سے، تو آپ کہہ دیں، آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمھاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمھاری جانوں کو، پھر ہم گڑگڑا کر دعا مانگیں ا ور کریں لعنت اللہ کی جھوٹوں پر(61) بے شک یہی ہے بیان سچا،اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے،اور بے شک اللہ ہی ہے غالب خوب حکمت والا(62) پس اگر وہ (اب بھی) روگردانی کریں، تو اللہ خوب جاننے والا ہے فساد کرنے والوں کو(63)
#
{59 ـ 62} لما ذكر قصة مريم وعيسى ونبأهما الحق، وأنه عبد أنعم الله عليه، وأن من زعم أن فيه شيئاً من الإلهية فقد كذب على الله، وكذب جميع أنبيائه وكذب عيسى - صلى الله عليه وسلم - فإن الشبهة التي عرضت لمن اتخذه إلهاً شبهة باطلة، فلو كان لها وجه صحيح لكان آدم أحق منه فإنه خلق من دون أم ولا أب، ومع ذلك فاتفق البشر كلُّهم على أنه عبد من عباد الله، فدعوى إلهية عيسى بكونه خلق من أم بلا أب دعوى من أبطل الدعاوي، وهذا هو الحق الذي لا ريب فيه أن عيسى كما قال عن نفسه: {ما قلت لهم إلا ما أمرتني به أن اعبدوا الله ربي وربكم}؛ وكان قد قدم على النبي - صلى الله عليه وسلم - وفد نصارى نجران ، وقد تصلبوا على باطلهم بعدما أقام عليهم النبي - صلى الله عليه وسلم - البراهين بأن عيسى عبد الله ورسوله حيث زعموا إلهيته، فوصلت به وبهم الحال إلى أن أمره الله تعالى أن يباهلهم فإنه قد اتضح لهم الحق ولكن العناد والتعصب منعاهم منه، فدعاهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى المباهلة بأن يحضر هو وأهله وأبناؤه، وهم يحضرون بأهلهم وأبنائهم ثم يدعون الله تعالى أن ينزل عقوبته ولعنته على الكاذبين، فتشاوروا هل يجيبونه إلى ذلك، فاتفق رأيهم أن لا يجيبوه لأنهم عرفوا أنه نبي الله حقًّا، وأنهم إن باهلوه هلكوا هم وأولادهم وأهلوهم فصالحوه وبذلوا له الجزية، وطلبوا منه الموادعة والمهادنة فأجابهم - صلى الله عليه وسلم - ولم يحرجهم لأنه حصل المقصود من وضوح الحق، وتبين عنادهم حيث صمموا على الامتناع عن المباهلة، وذلك يبرهن على أنهم كانوا ظالمين. ولهذا قال تعالى: {إن هذا لهو القصص الحق}؛ أي: الذي لا ريب فيه، {وإن الله لهو العزيز} الذي قهر بقدرته وقوته جميع الموجودات وأذعنت له سكان الأرض والسماوات، ومع ذلك فهو {الحكيم}؛ الذي يضع الأشياء مواضعها وينزلها منازلها.
[63-59] عیسائی عیسیٰuکے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے پاس اس کی کوئی قوی یا ضعیف دلیل بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ کا کوئی والد نہیں، اس لیے وہ حق رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ کا بیٹا اور شریک تسلیم کیا جائے۔ یہ بات دلیل تو درکنار، شبہ بننے کے بھی قابل نہیں۔ کیونکہ عیسیٰu کو اس طرح پیدا کرنے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی تخلیق و تدبیر کا مالک ہے، اور تمام اسباب اس کی مشیت و ارادہ کے تابع ہیں۔ چنانچہ اس سے ان کے قول کی تردید ہی ہوتی ہے تائید نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اللہ کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے شریک بننے کا مستحق نہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آدمuکو بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا کیا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی آدمuکے بارے میں بھی وہی عقیدہ رکھیں جو عیسیٰuکے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر مسیحuکو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا اور معبود قرار دیا جاسکتا ہے تو آدمuکے ماں اورباپ دونوں کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے معبود ہونے کا بالاولیٰ دعویٰ کرنا چاہیے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰؔى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُ٘وْنُ۰۰ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ یعنی ہم نے عیسیٰuکے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے حق اور اعلیٰ ترین سچائی ہے۔ کیونکہ یہ (رب) ’’پالنے والے‘‘ کی طرف سے ہے، آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے خصوصی تربیت میں اس کے بیان کردہ یہ انبیاء کرام کے واقعات بھی ہیں۔ ﴿ فَلَا تَكُ٘نْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ ﴾ ’’پس آپ شک کرنے والوںمیں سے نہ ہوں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ بتایا ہے اس میں شک نہ کیجیے گا۔ اس میں اور اس کے بعد والی آیت سے ایک اہم قاعدہ و قانون ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ عقیدہ یا عمل سے تعلق رکھنے والا جو مسئلہ دلائل سے ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف ہر قول کے بارے میں یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ باطل ہے۔ اس پر جو بھی شبہ وارد کیا جائے، وہ غلط ہے۔ خواہ بندہ اس کا جواب تلاش کرسکے یا نہ کرسکے۔ شبہ کا جواب نہ دے سکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ یقینی بات قابل تنقید ہے۔ کیونکہ حق کے خلاف ہر بات باطل ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰ٘لُ ﴾ (یونس:10؍32) ’’حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں‘‘ اس شرعی قاعدہ کی مدد سے انسان کے وہ بہت سے اشکال حل ہوجاتے ہیں جو اہل کلام اور اہل منطق کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی انسان ان کا جواب دے سکتا ہے تو وہ ایک زائد نیکی ہوگی۔ ورنہ اس کا اصل فرض یہی ہے کہ دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرے اور اس کی طرف دعوت دے۔ آیات کا مطلب یہ ہے ﴿ فَ٘مَنْ حَآجَّكَ ﴾ کہ اے محمد(e)جو شخص عیسیٰuکے بارے میں آپ سے بحث کرتا ہے اور انھیں ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلند تر ہے۔ حالانکہ ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ آپ کے پاس یقینی علم آچکا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور آپ نے ایسے شخص کے لیے دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ عیسیٰuاللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کی اتباع کرکے ایسے یقینی علم کو نہ ماننے والا عناد میں مبتلا ہے۔ لہٰذا اس سے بحث و مباحثہ کرنے میں نہ آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ اس کو۔ کیونکہ حق واضح ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کی بحث محض اللہ اور رسول کی مخالفت اور ضد کی بنا پر ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنا ہے، حق کی اتباع نہیں ۔ ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا، اس لیے اللہ نے نبیeکو حکم دیا کہ اس سے مباہلہ اور ملاعنہ کریں۔ یعنی دونوں فریق اللہ کے سامنے عجز و نیاز کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اور عذاب نازل کرے۔ اس میں فریقین خود بھی، اور ان کے سب سے پیارے افراد یعنی بیویاں اور اولاد وغیرہ بھی شریک ہوں۔ نبیeنے انھیں اس کی دعوت دی تو انھوں نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر مباہلہ کیا تو انھیں فوری سزا ملے گی اور ان کے اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ باطل ہے۔ یہ انتہائی درجے کا عناد اور فساد ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ﴾ ’’پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ ہی صحیح طورپر فسادیوں کو جاننے والا ہے‘‘ وہ انھیں سخت ترین سزا دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَهُوَ الْ٘قَ٘صَ٘صُ الْحَقُّ ﴾ ’’یقینا ًصرف یہی سچابیان ہے‘‘ یعنی جو کچھ اللہ نے بیان کیا ہے وہی حق ہے۔ اس کے خلاف ہر چیز باطل ہے۔ ﴿ وَمَا مِنْ اِلٰ٘هٍ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ ’’اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے‘‘ اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں، کوئی اور ذرہ برابر عبادت کا بھی حق نہیں رکھتا۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَؔكِیْمُ ﴾ ’’بے شک اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے‘‘ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے۔ وہ حکمت والا ہے جو ہر چیز کو صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ کافروں کے ذریعے سے مومنوں کی آزمائش میں بھی اس کی حکمت کاملہ موجود ہے۔ جن سے مومن قولی اور عملی طورپر جہاد اور قتال کرتے رہتے ہیں۔
آیت: 64 #
{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (64)}.
کہہ دیجیے، اے اہل کتاب! آؤ طرف ایسی بات کی جو برابر ہے ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان، یہ کہ نہ عبادت کریں ہم مگر اللہ ہی کی، اور نہ شریک ٹھہرائیں ہم اس کے ساتھ کسی چیز کواور نہ بنائے بعض ہمارا بعض کو رب سوائے اللہ کے، پس اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو، گواہ رہو اس بات کے کہ بے شک ہم تو (اللہ کے) فرماں بردار ہیں(64)
#
{64} هذه الآية الكريمة كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يكتب بها إلى ملوك أهل الكتاب. وكان يقرأ أحياناً في الركعة الأولى من سنة الفجر {قولوا آمنا بالله}؛ الآية؛ ويقرأ بها في الركعة الآخرة من سنة الصبح لاشتمالها على الدعوة إلى دين واحد، قد اتفقت عليه الأنبياء والمرسلون، واحتوت على توحيد الإلهية المبني على عبادة الله وحده لا شريك له، وأن يعتقد أن البشر وجميع الخلق كلهم في طور البشرية لا يستحق منهم أحد شيئاً من خصائص الربوبية ولا من نعوت الإلهية، فإن انقاد أهل الكتاب وغيرهم إلى هذا فقد اهتدوا و {إن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون}؛ كقوله تعالى: {قل يا أيها الكافرون ... }؛ إلى آخرها.
[64] اللہ تعالیٰ نبیeسے فرماتا ہے کہ آپ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجیے کہ ﴿ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَؔآءٍۭ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ ﴾ ’’ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے‘‘ یعنی ہم اس کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، اس سے مراد وہ بات ہے جس پر تمام انبیاء و رسل کا اتفاق ہے۔ جس کی مخالفت سوائے گمراہ اور ضدی لوگوں کے کسی نے نہیں کی ہے اور وہ بات فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ دونوں میں مشترک ہے۔ یہ اختلاف کے موقع پر انصاف والی بات ہے۔ پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُ٘شْ٘رِكَ بِهٖ شَیْـًٔا ﴾ ’’کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنائیں۔‘‘ اکیلے اللہ کی عبادت کریں۔ محبت، خوف اور امید کا تعلق صرف اسی سے رکھیں ۔ اس کے ساتھ نہ کسی نبی کو شریک کریں نہ ولی کو، نہ صنم کو نہ وثن کو، نہ حیوان کو نہ جمادات کو، ﴿ وَّلَا یَتَّؔخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَ٘ابً٘ا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں‘‘ بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کریں۔ ہم کسی مخلوق کی بات مان کر خالق کی نافرمانی نہ کریں۔ کیونکہ یہ کام مخلوق کو خالق کامقام دینے کے مترادف ہے۔ جب اہل کتاب یا دوسرے غیرمسلموں کو اس بات کی دعوت دی جائے اور وہ تسلیم کرلیں تو وہ دوسرے مسلمانوں کے برابر ہوجائیں گے۔ ان کے حقوق و فرائض دوسرے مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اگر وہ تسلیم نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اپنی خواہش نفس کے پیروکار اور معاند ہیں تو انھیں گواہ بنا کر کہہ دو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ اس کا فائدہ غالباً یہ ہے کہ جب تم انھیں یہ بات کہو گے اور حقیقی اہل علم تم ہی ہو، تو یہ بات ان پر مزید حجت قائم کردے گی۔ علاوہ ازیں جب تم ایمان لاکر اسلام میں داخل ہوچکے ہو تو اللہ کو دوسروں کے غیر مسلم رہنے کی پروا نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں، بلکہ ان کی فطرت ناپاک ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ قُ٘لْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ۤ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍107) ’’کہہ دیجیے! تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنھیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں ایمان والے عقیدے پر شبہات وارد ہونے سے مومن پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اپنے اسلام کا اعلان کرے۔ اور اس طرح اپنے یقین کی خبر دے اور اپنے رب کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرے۔
آیت: 65 - 68 #
{يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (65) هَاأَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (66) مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (67) إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ (68)}.
اے اہل کتاب! کیوں جھگڑتے ہو تم ابراہیم کے بارے میں؟ حالانکہ نہیں نازل کی گئی تورات اور انجیل مگر بعد اس کے، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟(65) سنو! آگاہ رہو! تم وہی لوگ تو ہو کہ جھگڑا کیا تم نے اس بات میں جس کا تمھیں کچھ علم تھا تو (اب) کیوں جھگڑتے ہو تم اس چیز کی بابت کہ نہیں ہے واسطے تمھارے اس چیز کا کوئی علم؟ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے(66) نہیں تھے ابراہیم یہودی اور نہ نصرانی لیکن تھے وہ صرف حق کے پرستار، مسلمان اور نہیں تھے وہ مشرکین میں سے(67) بے شک سب سے زیادہ قریب تمام لوگوں میں سے ابراہیم کے، البتہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اتباع کیا ان کا اور یہ نبی(محمدe) ہیں اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائےاور اللہ دوست ہے مومنوں کا(68)
#
{65 ـ 68} كانت الأديان كلها اليهود والنصارى والمشركون وكذلك المسلمون كلهم يدعون أنهم على ملة إبراهيم، فأخبر الله تعالى أن أولى الناس به محمد - صلى الله عليه وسلم - وأتباعه وأتباع الخليل قبل محمد - صلى الله عليه وسلم -، وأما اليهود والنصارى والمشركون فإبراهيم بريء منهم ومن ولايتهم لأن دينه الحنيفية السمحة التي فيها الإيمان بجميع الرسل وجميع الكتب، وهذه خصيصة المسلمين، وأما دعوى اليهود والنصارى أنهم على ملة إبراهيم فقد علم أن اليهودية والنصرانية التي هم يدعون أنهم عليها لم تؤسس إلا بعد الخليل، فكيف يحاجون في هذا الأمر الذي يعلم به كذبهم وافتراؤهم، فهب أنهم حاجوا فيما لهم به علم فكيف يحاجون في هذه الحالة، فهذا قبل أن ينظر ما احتوى عليه قولهم من البطلان يعلم فساد دعواهم، وفي هذه الآية دليل على أنه لا يحل للإنسان أن يقول أو يجادل فيما لا علم له به. وقوله: {والله ولي المؤمنين}؛ فكلما قوي إيمان العبد تولاه الله بلطفه، ويسره لليسرى وجنبه العسرى.
[68-65] یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ ابراہیمuیہودی تھے۔ اور عیسائی کہتے تھے کہ آپ عیسائی تھے۔ اس بارے میں وہ جھگڑتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و جدال کا تین طریقوں سے جواب دیا ہے۔ اولاً: ابراہیمuکے بارے میں ان کا جھگڑا، ایسے معاملے میں ہے جس کے بارے میں انھیں علم حاصل نہیں۔ لہٰذا انھیں اس موضوع پر بحث ہی نہیں کرنی چاہیے جس سے ان کا تعلق ہی نہیں۔ تورات و انجیل کے مسائل کے بارے میں تو انھوں نے بحث و مجادلہ کیا، خواہ ان کا موقف صحیح تھا یا غلط۔ لیکن ابراہیمuکے بارے میں بحث کرنے کا انھیں کوئی حق حاصل نہیں۔ ثانیاً: یہود تورات کے احکام و مسائل کی طرف منسوب ہیں اور نصاریٰ کا تعلق انجیل کے احکام و مسائل سے ہے۔ اور یہ دونوں کتابیں ابراہیمuکے دنیا سے چلے جانے کے بہت بعد نازل ہوئی ہیں۔ پھر وہ لوگ ابراہیمuکو اپنے ساتھ کیوں ملاتے ہیں حالانکہ وہ ان سے بہت پہلے تھے۔ کیا یہ معقول بات ہے؟ اس لیے فرمایا: ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے‘‘ یعنی اگر تم خود اپنی بات کو سمجھ سکتے ہوتے تو یہ بات نہ کہتے۔ ثالثاً: اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیلuکا یہود، نصاریٰ اور مشرکین سے کوئی بھی تعلق ہونے سے انکار فرمایا ہے۔ انھیں خالص مسلمان قرار دیا ہے۔ آپ سے تعلق ان کا ہے جو آپ پر ایمان لاکر آپ کی امت بنے، ان کے بعد ابراہیمuسے تعلق محمدeکا، اور آپ پر ایمان رکھنے والوں کا ہے۔ یہی اصل میں آپ کے متبع ہیں۔ لہٰذا دوسروں کی نسبت ان ہی کا تعلق ابراہیمuسے ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کا مددگار اور موید ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ابراہیمuکے دین کو پس پشت ڈال دیا، جیسے یہود، نصاریٰ اور مشرکین، ان کا ابراہیمuسے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ابراہیمuکا ان سے کوئی تعلق ہے۔ انھیں اس خالی نسبت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان آیات میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ بغیر علم کے بحث کرنا منع ہے۔ جو ایسی بات کرتا ہے، اسے اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ان میں علم تاریخ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے بہت سے غلط اقوال اور غلط عقائد کی تردید کی جاسکتی ہے، جو تاریخ کے معلوم واقعات کے مخالف ہوں۔
آیت: 69 - 74 #
{وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (69) يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (70) يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (71) وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (72) وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَى هُدَى اللَّهِ أَنْ يُؤْتَى أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (73) يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (74)}.
چاہتا ہے ایک گروہ اہل کتاب میں سے کاش کہ وہ گمراہ کر دیں تمھیں، اور نہیں گمراہ کرتے وہ مگر اپنے آپ ہی کو اور نہیں شعور رکھتے وہ(69) اے اہل کتاب! کیوں کفر کرتے ہو تم ساتھ اللہ کی آیتوں کے؟ حالانکہ تم (اس کی سچائی کی) گواہی دیتے ہو(70) اے اہل کتاب! کیوں خلط ملط کرتے ہو تم حق کو باطل کے ساتھ اور چھپاتے ہو تم حق کو حالانکہ تم جانتے ہو؟(71) اور کہا ایک گروہ نے اہل کتاب میں سے (اپنے لوگوں کو) ایمان لاؤ ساتھ اس چیز کے جو نازل کی گئی ہے اوپر ان لوگوں کے جو ایمان لائے، شروع دن میں اور کفر کرو دن کے آخری حصے میں، شاید کہ وہ (مسلمان بھی) پھر جائیں(72) اور نہ یقین کرو تم مگر اسی کا جو پیروکار ہے تمھارے دین کا، کہہ دیجیے، بلاشبہ ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے، (اور نہ یہ مانو) کہ دیا جائے کوئی مثل اس کے جو تم دیے گئے یا (یہ کہ) وہ جھگڑیں گے تم سے (اور غالب آجائیں گے) تمھارے رب کے پاس، کہہ دیجیے، بے شک فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ دیتا ہے یہ (فضل) جس کو چاہتا ہےاور اللہ وسعت والا، جاننے والا ہے(73) خاص کرتا ہے وہ ساتھ اپنی رحمت کے جس کو چاہتا ہےاور اللہ صاحب فضل عظیم ہے(74)
#
{69 ـ 74} هذا من منة الله على هذه الأمة حيث أخبرهم بمكر أعدائهم من أهل الكتاب وأنهم من حرصهم على إضلال المؤمنين ينوعون المكرات الخبيثة فقالت طائفة منهم: {آمنوا بالذي أنزل على الذين آمنوا وجه النهار}؛ أي: أوله وارجعوا عن دينهم آخر النهار فإنهم إذا رأوكم راجعين وهم يعتقدون فيكم العلم استرابوا بدينهم وقالوا لولا أنهم رأوا فيه ما لا يعجبهم ولا يوافق الكتب السابقة لم يرجعوا، هذا مكرهم والله تعالى هو الذي يهدي من يشاء وهو الذي بيده الفضل يختص به من يشاء، فخصكم يا هذه الأمة بما لم يخص به غيركم، ولم يدر هؤلاء الماكرون أن دين الله حق إذا وصلت حقيقته إلى القلوب لم يزدد صاحبه على طول المدى إلا إيماناً ويقيناً، ولم تزده الشبه إلا تمسكاً بدينه وحمداً لله وثناء عليه حيث منَّ به عليه. وقولهم: {أن يؤتى أحد مثل ما أوتيتم أو يحاجوكم عند ربكم}؛ يعني أن الذي حملهم على هذه الأعمال المنكرة الحسد والبغي وخشية الاحتجاج عليهم، كما قال تعالى: {ود كثير من أهل الكتاب لو يردونكم من بعد إيمانكم كفاراً حسداً من عند أنفسهم من بعد ما تبين لهم الحق}؛ الآية.
[74-69] اللہ تعالیٰ مومنوں کو اہل کتاب کے اس خبیث گروہ کی مکاریوں سے متنبہ فرما رہا ہے کہ ان کی خواہش یہی ہے کہ تمھیں گمراہ کردیں۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿وَدَّؔ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ﴾ (البقرۃ:2؍109) ’’اہل کتاب کے اکثر لوگ تمھیں ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بنا دینے کی خواہش رکھتے ہیں‘‘ اور جسے کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد بھی کرتا ہے۔ یہ گروہ بھی پوری کوشش کرتاہے کہ مومنوں کو مرتد کردے۔ اس مقصد کے لیے وہ لوگ ہر ممکن طریقے سے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ اللہ کا فضل ہے کہ بری تدبیریں کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’دراصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کررہے ہیں‘‘ مومنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش خود ان کی گمراہی اور عذاب میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابً٘ا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ﴾ (النحل:16؍88) ’’جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، ہم ان کے عذاب میں عذاب کا اضافہ کردیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے‘‘ ﴿ وَمَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اور سمجھتے نہیں‘‘ انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی کوشش خود انھی کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور وہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ رہے۔ ﴿ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْ٘فُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ﴾ ’’اے اہل کتاب! تم باوجود قائل ہونے کے پھر بھی اللہ کی آیات سے کیوں کفر کررہے ہو؟‘‘ یعنی تمھیں اللہ کی آیات کا انکار کرنے پر کون سی چیز مجبور کرتی ہے حالانکہ تمھیں معلوم ہے کہ جس مذہب پر تم کاربند ہو، وہ باطل ہے اور محمدeجو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے، خود تمھیں بھی اس میں شک نہیں بلکہ تم اس کی گواہی دیتے ہو اور بعض اوقات ایک دوسرے کو خفیہ طورپر یہ بات بتا بھی دیتے ہو۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس گمراہی سے روکا ہے۔ پھر دوسروں کو گمراہ کرنے پر انھیں زجروتوبیخ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ﴿ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْ٘بِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْ٘تُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اے اہل کتاب! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کرتے ہو؟ اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟‘‘ اللہ نے انھیں حق و باطل کو خلط ملط کرنے اور حق کو چھپانے پر توبیخ کی ہے۔ کیونکہ ان دو طریقوں سے وہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ جب علماء حق و باطل میں امتیاز نہ کریں، بلکہ معاملہ مبہم رہنے دیں، اور جس کو ظاہر کرنا ان کا فرض ہے، اسے چھپالیں، تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلے گا کہ حق چھپ جائے گا اور باطل عام ہوجائے گا۔ اور جو عوام حق کے متلاشی ہوں گے، انھیں ہدایت نہیں ملے گی۔ حالانکہ اہل علم سے تو یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق ظاہر کریں۔ اس کا اعلان کریں، حق کو باطل سے اور پاک کو ناپاک سے الگ کرکے واضح کردیں۔ حلال و حرام اور صحیح و غلط عقائد کو الگ الگ کردیں، تاکہ ہدایت یافتہ لوگ ہدایت پر قائم رہیں اور گمراہ حق کی طرف پلٹ آئیں او ر عناد کی وجہ سے انکار کرنے والوں پر اتمام حجت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ۠ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْ٘تُمُوْنَهٗ١ٞ فَنَبَذُوْهُ وَرَؔآءَؔ ظُهُوْرِهِمْ ﴾(آل عمران:3؍187) ’’جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنھیں کتاب دی گئی تھی کہ اسے لوگوں کے لیے بیان کریں گے، اور چھپائیں گے نہیں، تو انھوں نے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خبیث جماعت کے ارادوں، اور مومنوں کے خلاف سازش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَقَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْ٘فُ٘رُوْۤا اٰخِرَهٗ ﴾ ’’اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا: جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیاہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ‘‘ یعنی صبح کے وقت مکر اور دھوکا کرتے ہوئے ایمان کا اظہار کرو۔ اور جب شام ہو تو اسلام سے نکل جاؤ۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ ’’تاکہ یہ لوگ بھی (اپنے دین سے) پلٹ جائیں۔‘‘ پس وہ سوچیں گے اگر یہ دین صحیح ہوتا تو اہل کتاب جو اہل علم ہیں وہ اس سے نہ نکلتے۔ انھوں نے یہ چاہا، اپنے آپ کو اچھا سمجھتے اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ لوگ ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے ہر قول و عمل میں ان کی پیروی کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کرکے رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ ﴿لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَ٘بِـعَ دِیْنَكُمْ ﴾ ’’سوائے تمھارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو۔‘‘ یعنی تم صرف اپنے ہم مذہب افراد پر اعتماد کرنا، دوسروں سے اس بات کو چھپا کر رکھنا۔ اگر تم نے دوسرے مذہب والوں کو بتا دیا تو جو علم تمھیں حاصل ہے انھیں بھی حاصل ہوجائے گا، تو وہ تمھارے جیسے ہوجائیں گے یا قیامت کے دن تم سے بحث کریں گے اور رب کے پاس تمھارے خلاف گواہی دیں گے کہ تم پر حجت قائم ہوچکی تھی۔ اور تمھیں ہدایت معلوم ہوچکی تھی، لیکن تم نے اس کی اتباع نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم مومنوں کو نہیں بتائیں گے تو انھیں اس سازش کا بالکل علم نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ ان کے خیال میں علم صرف انھی کے پاس ہوسکتا ہے جس سے ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّ الْهُدٰؔى هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘ لہٰذا ہر ہدایت یافتہ کو ہدایت اللہ ہی سے ملتی ہے۔ علم میں یا تو حق کو جاننا شامل ہے یا اسے اختیار کرنا۔ علم صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول لائے ہیں اور توفیق صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل کتاب کو علم بہت کم ملا ہے۔ اور توفیق سے وہ بالکل محروم ہیں کیونکہ ان کی نیتیں اور ارادے غلط ہیں۔ اس کے برعکس اس امت کو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے علوم و معارف بھی حاصل ہوئے ہیں اور ان پر عمل کی توفیق بھی۔ اس وجہ سے وہ دوسروں سے افضل ہوگئے۔ لہٰذا وہی رہنما قرار پائے جو اللہ کے حکم کے مطابق ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ امت پر اللہ کا عظیم فضل و احسان ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا ﴿ قُ٘لْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے، فضل تو اللہ ہی كے ہاتھ میں ہے۔‘‘ وہی اپنے بندوں پر ہر قسم کا احسان فرماتا ہے۔ ﴿یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’وہ جسے چاہے اسے دے‘‘ جو اس کے اسباب اختیار کرے گا، اللہ اس کو اپنا فضل دے گا، ﴿ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اوراللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘ اس کا فضل و احسان بہت وسیع ہے۔ وہ جانتا ہے کون احسان کے قابل ہے، اسے وہ عطا فرماتا ہے اور کون اس کا مستحق نہیں، چنانچہ اسے محروم رکھتا ہے۔ ﴿ یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے‘‘ یعنی اس کی وہ مطلق رحمت جو دنیا میں ہوتی ہے اور آخرت سے متصل ہے۔ اس سے مراد دین کی نعمت اور اس کی تکمیل کرنے والی چیزیں ہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْ٘فَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘ اس کے فضل کی وسعت بیان نہیں کی جاسکتی، بلکہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ اس کا فضل و احسان وہاں تک پہنچتا ہے جہاں تک اس کا علم پہنچتا ہے۔ اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر شے کو محیط ہے۔
آیت: 75 - 76 #
{وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (76)}.
اور بعض اہل کتاب میں سے وہ ہیں کہ اگر آپ امانت رکھیں ان کے پاس ایک ڈھیر(سونے چاندی کا) تو بھی وہ ادا کر دیں گے آپ کو،اور بعض ان میں سے وہ ہیں کہ اگر آپ امانت رکھیں ان کے پاس ایک دینار، تو نہیں ادا کریں گے وہ آپ کو، مگر (یہ کہ) آپ ہمیشہ رہیں ان (کے سر) پر کھڑے، یہ بہ سبب اس کے کہ بے شک انھوں نے کہا، نہیں ہے ہم پر امیوں (عربوں) کے بارے میں کوئی گناہ اور کہتے ہیں وہ اللہ پر جھوٹ اور وہ جانتے ہیں(75) کیوں نہیں؟ جو شخص پورا کرے اپنا عہداور (اللہ سے) ڈرے، تو بلاشبہ اللہ محبت کرتا ہے متقی لوگوں سے(76)
#
{75} يخبر تعالى عن أهل الكتاب أن منهم طائفة أمناء بحيث لو أمنته على قناطير من النقود وهي المال الكثير يؤده إليك، ومنهم طائفة خونة يخونك في أقل القليل، ومع هذه الخيانة الشنيعة فإنهم يتأولون بالأعذار الباطلة فيقولون: {ليس علينا في الأميين سبيل}؛ أي: ليس علينا جناح إذا خناهم واستبحنا أموالهم، لأنهم لا حرمة لهم، قال تعالى: {ويقولون على الله الكذب وهم يعلمون}؛ أن عليهم أشد الحرج، فجمعوا بين الخيانة وبين احتقار العرب وبين الكذب على الله، وهم يعلمون ذلك ليسوا كمن فعل ذلك جهلاً وضلالاً.
[75] اللہ تعالیٰ اہل کتاب کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ مالوں میں ان کی دیانت اور بددیانتی کا کیا حال ہے۔ جب دین کے بارے میں ان کی خیانت، مکر اور حق کو چھپانے کا ذکر فرمایا تو اس کے بعد بتایا کہ ان میں سے خائن بھی ہیں اور دیانت دار بھی۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ ﴿ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ ﴾ ’’تو اگر انھیں خزانے کا (یعنی بہت زیادہ مال کا) امین بنا دے۔‘‘ ﴿ یُّؤَدِّهٖۤ ﴾ ’’تو بھی وہ تجھے واپس کردیں۔‘‘ اور اس سے کم تر تو بالاولیٰ واپس کریں گے، اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ ﴿مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ ﴾ ’’اگر تو انھیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں۔‘‘ اور بڑی رقم ادا کرنے سے تو بالاولیٰ انکار کریں گے۔ انھیں خیانت اور بے وفائی کی عادت اس لیے ہوئی کہ ان کے خیال کے مطابق ﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ﴾ ’’ان پر جاہلوں کے حق میں کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یعنی اگر وہ (الْاُمِّیّٖنَ) ’’ان پڑھ عربوں‘‘ کے مال واپس نہ کریں تو انھیں گناہ نہیں ہوگا۔ وہ اپنی فاسد رائے کی بنا پر انھیں انتہائی حقیر سمجھتے ہیں اور خود کو انتہائی عظمت والے تصور کرتے ہیں، حالانکہ اصل میں حقیر اور ذلیل وہ خود ہیں۔ پس انھوں نے (الْاُمِّیّٖنَ) کے مال کی حرمت کو نہ سمجھا اور اسے انھوں نے اپنے لیے جائز قرار دے لیا۔ اس طرح وہ دو گناہوں کے مرتکب ہوئے۔ حرام کھانا اور حرام خوری کو حلال سمجھنا۔ یہ عقیدہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جو عالم حرام اشیاء کو حلال کہتا ہے، وہ گویا لوگوں کو اللہ کا حکم سناتا ہے، اپنی بات نہیں سناتا۔ جب کہ اللہ کا یہ حکم نہیں اور اسی کو جھوٹ کہتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں‘‘ یہ گناہ بغیر جانے بوجھے اللہ کے بارے میں باتیں بتانے سے بھی بڑا گناہ ہے۔
#
{76} ثم قال تعالى: {بلى}؛ أي: ليس الأمر كما قالوا. {من أوفى بعهده واتقى}؛ أي: قام بحقوق الله وحقوق خلقه فإن هذا هو المتقي والله يحبه، أي: ومن كان بخلاف ذلك فلم يف بعهده وعقوده التي بينه وبين الخلق ولا قام بتقوى الله، فإن الله يمقته، وسيجازيه على ذلك أعظم النكال.
[76] پھر اللہ نے ان کے غلط خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ بَلٰى ﴾ یعنی حقیقت وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمھیں جاہلوں کے حق کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمھیں اس جرم کا سخت گناہ ہوگا۔ ﴿ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَاتَّ٘قٰى ﴾ ’’جو شخص اپنا قرار پورا کرے اور پرہیز گاری کرے۔‘‘ اس عہد و قرار میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں اللہ کے وہ تمام حق شامل ہیں جو اس نے بندے پر واجب کیے ہیں۔ اور وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے کا دوسرے بندوں سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر عہد و پیمان سے مراد ان گناہوں سے بچنا ہے جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے بھی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ جو شخص ان سب گناہوں سے بچتا ہے وہ متقی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے خواہ وہ (الْاُمِّیّٖنَ) (عرب ان پڑھ لوگوں) میں سے ہو یا دوسروں میں سے ہو اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں، اس نے اللہ کا وعدہ پورا نہیں کیا، اور اللہ سے نہیں ڈرا۔ لہٰذا اسے اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔ اگر ان پڑھ ایفائے عہد، تقویٰ اور مالی خیانت سے پرہیز سے متصف ہوں گے تو وہی اللہ کے پیارے ہوں گے۔ وہی متقی کہلائیں گے جن کے لیے جنت تیار کی گئی ہے۔ وہ اللہ کی مخلوق میں افضل مقام پر فائز ہوں گے۔
آیت: 77 #
{إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (77)}.
بے شک وہ لوگ جو خریدتے (لیتے) ہیں اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض قیمت تھوڑی سی، یہی وہ لوگ ہیں کہ نہیں ہے کوئی حصہ ان کے لیے آخرت میں، اور نہ کلام کرے گا ان سے اللہ اور نہ دیکھے گا ان کی طرف (نظر رحمت سے) دن قیامت کے،اور نہ پاک کرے گا ان کو،اور ان کے لیے عذاب ہے دردناک(77)
#
{77} أي: إن الذين يشترون الدنيا بالدين فيختارون الحطام القليل من الدنيا ويتوسلون إليها بالأيمان الكاذبة والعهود المنكوثة فهؤلاء {لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم}؛ أي: قد حق عليهم سخط الله ووجب عليهم عقابه، وحرموا ثوابه، ومنعوا من التزكية، وهي التطهير. بل يردون القيامة متلوثون بالجرائم، متدنسون بالذنوب العظائم.
[77] لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں کی حق تلفی کرنے سے گناہ نہیں ہوتا وہ اللہ کے اس قول میں داخل ہوتے ہیں: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں۔‘‘ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیز لیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طورپر لے لیتا ہے، وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یعنی وہاں انھیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿وَلَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘‘ یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لیے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انھوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔ ﴿ وَلَا یُزَؔكِّیْهِمْ ﴾ ’’اور نہ انھیں پاک کرے گا‘‘ اللہ تعالیٰ انھیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
آیت: 78 #
{وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (78)}.
اور بے شک ان میں سے ، البتہ ایک گروہ ایسا ہے جو مروڑتے ہیں زبانیں اپنی ساتھ (پڑھنے) کتاب کے تاکہ سمجھو تم اس کو کتاب سے، حالانکہ نہیں ہے وہ کتاب میں سے،اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی جانب سے ہے، حالانکہ نہیں ہے وہ اللہ کی جانب سے،اور کہتے ہیں وہ اللہ پر جھوٹ اور وہ جانتے ہیں(78)
#
{78} أي: وإن من أهل الكتاب فريقاً محرفون لكتاب الله {يلوون ألسنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب}؛ وهذا يشمل التحريف اللفظي والتحريف المعنوي، ثم هم مع هذا التحريف الشنيع، يوهمون أنه من الكتاب وهم كذبة في ذلك ويصرحون بالكذب على الله، وهم يعلمون حالهم وسوء مغبتهم.
[78] اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے اور اسے اس کے اصل معانی سے ہٹا دیتا ہے۔ اس میں لفظی تحریف بھی شامل ہے اور معنوی تحریف بھی۔ کتاب سے اصل مطلوب یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو یاد کیا جائے، ان میں تبدیلی نہ کی جائے، اس کے مفہوم کوسمجھا اور سمجھایا جائے۔ انھوں نے صورت حال برعکس کردی۔ اور وہ بات سمجھائی جو کتاب سے مراد نہیں۔ خواہ اشارتاً ایسا کیا ہو یا صراحتاً۔ اشارتاً کاذکر ان الفاظ میں ہے ﴿ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ ﴾ ’’تاکہ تم اسے کتاب میں سے خیال کرو۔‘‘ یعنی وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب سے یہی مسئلہ مراد ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ مراد نہیں ہوتا۔ صراحتاً کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں۔ وہ تو دانستہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ یہ علم کے بغیر اللہ کے ذمے کوئی بات لگانے سے بڑا جرم ہے۔ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس طرح دو طرح کا جرم کرتے ہیں۔ صحیح مفہوم کی نفی کرتے ہیں اور غلط مفہوم کا اثبات کرتے ہیں۔ اور جو لفظ حق معنی پر دلالت کرتا ہے اس سے باطل معنی مراد لیتے ہیں، حالانکہ وہ حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں۔
آیت: 79 - 80 #
{مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ (79) وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (80)}.
نہیں ہے لائق واسطے کسی بشر کے کہ دے اس کو اللہ کتاب اور حکم اور نبوت، پھر کہے وہ واسطے لوگوں کے کہ ہو جاؤ تم بندے میرے، اللہ کو چھوڑ کر، لیکن (وہ تو کہے گا) ہو جاؤ تم رب والے، بوجہ اس کے کہ ہو تم تعلیم دیتے کتاب کی اور بوجہ اس کے کہ ہو تم (خود بھی) پڑھتے(79) اور نہیں حکم دے گا وہ تم کو اس بات کا (بھی) کہ بنا لو تم فرشتوں کو اور نبیوں کو رب، کیا وہ حکم دے گا تمھیں کفر کا، بعد اس کے کہ تم ہو چکے مسلمان؟(80)
#
{79 ـ 80} أي: يمتنع ويستحيل كل الاستحالة لبشر منَّ الله عليه بالوحي والكتاب والنبوة وأعطاه الحكم الشرعي، أن يأمر الناس بعبادته ولا بعبادة النبيين والملائكة واتخاذهم أرباباً، لأن هذا هو الكفر، فكيف وقد بعث بالإسلام المنافي للكفر من كل وجه فكيف يأمر بضده، هذا من الممتنع لأن حاله وما هو عليه وما منَّ الله به عليه من الفضائل والخصائص تقتضي العبودية الكاملة والخضوع التام لله الواحد القهار، وهذا جواب لوفد نجران حين تمادى بهم الغرور ووصلت بهم الحال والكبر أن قالوا أتأمرنا يا محمد أن نعبدك حين أمرهم بعبادة الله وطاعته، فبين الباري انتفاء ما قالوا وأن كلامهم وكلام أمثالهم في هذا ظاهر البطلان.
[80-79] اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبیeنے کچھ اہل کتاب کو ایمان لانے اور اطاعت کرنے کی تبلیغ کی تو انھوں نے کہا: ’’محمد(e)کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ آپ کی بھی عبادت کیا کریں؟‘‘ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ فرمایا: ﴿ مَا كَانَ لِبَشَرٍ ﴾ ’’کسی انسان کو یہ لائق نہیں‘‘ یعنی جس انسان پر اللہ تعالیٰ یہ احسان کرے کہ اس پر کتاب نازل کرے، اسے علم سکھائے اور مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے، ایسے انسان کے لیے ناممکن اور محال ہے کہ ﴿ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔‘‘ ایسی بات کا کسی نبی کی زبان سے ادا ہونا سب سے بڑی محال چیز ہے۔ کیونکہ یہ مطالبہ اتنا قبیح ہے کہ اس سے قبیح کوئی اور حکم نہیں ہوسکتا۔ اور انبیاء کرام کو کمال کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ کمال کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ حکم بھی ایسے کاموں کا دیتے ہیں جو ان کے حالات سے مناسبت رکھتے ہیں۔ وہ اعلیٰ کاموں کا حکم دیتے ہیں۔ اور برے کاموں سے منع کرنے میں بھی کوئی ان سے بڑھ نہیں سکتا، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ﴾ یعنی وہ تو یہی حکم دیں گے کہ لوگ ربانی بن جائیں۔ ربانی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالم ہوں، دانا ہوں، حلم اور بردباری سے موصوف ہوں، لوگوں کو تعلیم دیں اور ان کی تربیت کریں، پہلے علم کے چھوٹے (اور آسان) مسئلے بتائیں۔ پھربڑے (اور پیچیدہ) مسائل سمجھائیں، خود بھی عمل کریں۔ چنانچہ وہ علم و عمل کا حکم دیتے ہیں۔ جس پر سعادت کا دارومدار ہے۔ جس میں کوئی چیز چھوٹ جائے تو نقص و خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ ﴾ میں ’’با‘‘ سببیہ ہے۔ یعنی تم ربانی بن جاؤ اس سبب سے کہ تم دوسروں کو تعلیم دیتے ہو۔ اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ تم خود اہل علم ہو۔ تم اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت پڑھتے ہو۔ اس کے پڑھنے پڑھانے سے علم پختہ ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے۔ ﴿ وَلَا یَ٘اْمُرَؔكُمْ اَنْ تَتَّؔخِذُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَ٘ابً٘ا ﴾ ’’اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمھیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کا حکم دے‘‘ یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ یعنی وہ تمھیں نہ اپنی ذات کی عبادت کا حکم دے گا نہ کسی بھی دوسری مخلوق کی عبادت کا حکم دے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا کوئی اور ﴿ اَیَ٘اْمُرُؔكُمْ بِالْ٘كُ٘فْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ ’’کیا وہ تمھارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کفر کا حکم دے گا؟‘‘ یہ نہیں ہوسکتا۔ جس کو نبوت کا شرف حاصل ہو، اس سے کسی ایسی بات کا تصور بھی محال ہے۔ جو شخص کسی نبی کی طرف اس قسم کی کوئی بات منسوب کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا بلکہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔
آیت: 81 - 82 #
{وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (81) فَمَنْ تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (82)}.
اور (یاد کرو) جب لیا اللہ نے عہد (تمام) نبیوں سے ، البتہ جو کچھ دوں میں تمھیں کتاب اور حکمت سے، پھر آئے تمھارے پاس کوئی رسول جو تصدیق کرنے والا ہو اس کی جو تمھارے پاس ہے، تو تم ضرور ایمان لانا ساتھ اس (رسول) کے اور ضرور مدد کرنا اس کی، اللہ نے فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہواور قبول کرتے ہو اس پر میرا عہد؟ کہا انھوں نے، اقرار کیا ہم نے، اللہ نے فرمایا تو تم گواہ رہنااور میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں(81) پس جو کوئی روگردانی کرے گا بعد اس (عہد) کے، تو وہی لوگ ہیں نافرمان(82)
#
{81 ـ 82} هذا إخبار منه تعالى أنه أخذ عهد النبيين وميثاقهم كلِّهم بسبب ما أعطاهم، ومنَّ به عليهم من الكتاب والحكمة المقتضي للقيام التام بحق الله وتوفيته، أنه إن جاءهم رسول مصدق لما معهم بُعِثَ بما بعثوا به من التوحيد والحق والقسط والأصول التي اتفقت عليها الشرائع أنهم يؤمنون به وينصرونه، فأقروا على ذلك، واعترفوا، والتزموا، وأشهدهم، وشهد عليهم، وتوعد من خالف هذا الميثاق. وهذا أمر عام بين الأنبياء أن جميعهم طريقهم واحد وأن دعوة كل واحد منهم قد اتفقوا وتعاقدوا عليها، وعموم ذلك أنه أخذ على جميعهم الميثاق بالإيمان والنصرة لمحمد - صلى الله عليه وسلم -، فمن ادعى أنه من أتباعهم فهذا دينهم الذي أخذه الله عليهم وأقروا به واعترفوا، فمن تولى عن اتباع محمد ممن يزعم أنه من أتباعهم فإنه فاسق خارج عن طاعة الله مكذب للرسول الذي يزعم أنه من أتباعه مخالف لطريقه، وفي هذا إقامة الحجة والبرهان على كل من لم يؤمن بمحمد - صلى الله عليه وسلم - من أهل الكتب والأديان، وأنه لا يمكنهم الإيمان برسلهم الذين يزعمون أنهم أتباعهم حتى يؤمنوا بإمامهم وخاتمهم - صلى الله عليه وسلم -.
[82-81] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے نبیوں سے پختہ عہد و پیمان لیا، کیونکہ انھیں کتاب دی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور حکمت دی ہے جو حق و باطل کے درمیان اور ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے والی ہے۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی رسول بھیجے جو ان کے پاس آنے والی وحی اور کتاب کو سچا مانے۔ تو تمام نبیوں کو چاہیے کہ اس پر ایمان لائیں۔ اس کی تصدیق کریں اور اپنی امتوں کو بھی اس پر ایمان و تصدیق کا حکم دیں۔ چنانچہ اللہ نے تمام انبیاء علہیم الصلوۃ والسلام پر واجب کیا ہے کہ ایک دوسرے پرایمان لائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں۔ کیونکہ ان کے پاس جو بھی احکام آئے ہیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ وہ سب ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ محمدeخاتم النبیین ہیں۔ لہٰذا تمام انبیائے کرام پر واجب ہے کہ جس نبی کو بھی آپuکا زمانہ ملے، وہ آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی پیروی کرے اور آپ کی مدد کرے۔ کیونکہ آپ ان کے امام، پیشوا اور متبوع ہیں۔ یہ آیت کریمہ نبیeکے بلند مرتبے اور عظمت شان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپeتمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور ان کے سردار ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام سے اقرار لیا ﴿ قَالُوْۤا اَ٘قْ٘رَرْنَا ﴾ ’’تو سب نے کہا: ہمیں اقرار ہے‘‘ اور اے اللہ! ہم تیرا حکم قبول کرتے اور اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ ﴿ قَالَ فَاشْهَدُوْا ﴾ اللہ نے انھیں فرمایا: اپنی ذات کی طرف سے بھی اور اپنی امتوں کی طرف سے بھی گواہ رہو۔ ﴿ وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ ﴾ ’’اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘ ﴿ فَ٘مَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’پس اس (پختہ وعدے اور عہد) کے بعد بھی (جس پر اللہ اور اس کے رسول کی گواہی ہے) جو پلٹ جائیں‘‘ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’تو وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں‘‘ لہٰذا جو شخص بھی یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ انبیائے کرام کا پیروکار ہے۔ یہودی ہو یا عیسائی یا کوئی اور۔ اگر وہ محمدeپر ایمان نہیں لایا تو وہ اس پختہ عہد کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس عہد شکنی کی سزا کے طورپر جہنم میں ہمیشہ رہنے کا مستحق ہوگیا ہے کیونکہ وہ نافرمان ہے۔
آیت: 83 - 85 #
{أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (83) قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (84) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (85)}.
کیا پس سوائے اللہ کے دین کے یہ (کو ئی اور دین) تلاش کر رہے ہیں؟ حالانکہ اسی (اللہ) کے فرماں بردار ہیں جو کوئی بھی ہے آسمانوں اور زمین میں خوشی اور ناخوشی سے اور اسی کی طرف وہ لوٹائے جائیں گے(83) کہہ دیجیے، ہم ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور ساتھ اس کے جو نازل کیا گیا ہم پر اور جو نازل کیا گیا اوپر ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اوریعقوب اور ان کی اولاد کے،اور جو دیے گئے موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے انبیاء، اپنے رب کی طرف سے، نہیں فرق کرتے ہم درمیان کسی ایک کے ان میں سے،اور ہم اسی (اللہ) کے فرماں بردار ہیں(84) اور جو کوئی تلاش کرے گا سوائے اسلام کے کوئی اور دین، تو ہرگز نہیں قبول کیا جائے گا اس سے،اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا(85)
#
{83 ـ 85} قد تقدم في سورة البقرة أن هذه الأصول التي هي أصول الإيمان التي أمر الله بها هذه الأمة قد اتفقت عليها الكتب والرسل، وأنها هي الغرض الموجه لكل أحد وأنها هي الدين والإسلام الحقيقي، وأن من ابتغى غيرها فعمله مردود وليس له دين يعول عليه، فمن زهد عنه ورغب عنه فأين يذهب؟ إلى عبادة الأشجار والأحجار والنيران، أو إلى اتخاذ الأحبار والرهبان والصلبان، أو إلى التعطيل لرب العالمين، أو إلى الأديان الباطلة التي هي من وحي الشياطين؟ وهؤلاء كلهم في الآخرة من الخاسرين.
[85-83] یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے خواہش مند اور طالب ہیں؟ یہ خواہش نہ درست ہے نہ مناسب، اس لیے کہ اللہ کے دین سے بہتر کوئی دین نہیں ﴿ وَلَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا ﴾ ’’حالانکہ تمام آسمانوں والے اور سب زمین والے اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ خوشی سے ہوں یاناخوشی سے‘‘ یعنی تمام مخلوق اس کی محکوم ہے۔ ان میں سے بعض نے اپنی خوشی سے اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے، وہ مومن ہیں جو خوشی سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کچھ مجبوراً اللہ کے فرماں بردار ہیں۔ اس میں باقی تمام مخلوقات شامل ہیں۔ حتیٰ کہ کافر بھی اللہ کی قضاء و قدر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔ تمام مخلوق اسی کے پاس واپس جائے گی، وہ ان کے درمیان فیصلے کرے گا اور انھیں جزا و سزا دے گا۔ اور تمام معاملہ، اس کے فضل کا مظہر ہوگا یا اس کے عدل کا۔ اس مفہوم کی آیت سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ اللہ نے بندوں کے لیے دین اسلام پسند کیا ہے۔ جو شخص اللہ کے اس پسندیدہ دین کے علاوہ کسی اور دین پر چلے گا، اس کا عمل ناقابل قبول ہوگا۔ کیونکہ دین اسلام میں اخلاص کے ساتھ اللہ کی اطاعت قبول کرنا اور رسولوں کی فرماں برداری کرنا شامل ہے۔ جب تک یہ کام نہ کرے، اس وقت تک اس نے اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا، اور اللہ کے ثواب کا باعث بننے والا عمل نہیں کیا۔ اور اسلام کے سوا ہر مذہب باطل ہے۔
آیت: 86 - 91 #
{كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (86) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (87) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (88) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (89) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (90) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (91)}.
کیسے ہدایت دے گا اللہ ان کو جو کافر ہوگئے بعد اپنے ایمان کے اور (بعد اس کے کہ) گواہی دی انھوں نے اس بات کی کہ بلاشبہ رسول برحق ہیں، اور آئیں ان کے پاس واضح نشانیاں، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم قوم کو(86) یہ لوگ، سزا ان کی (یہ ہے کہ) بے شک ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی(87) ہمیشہ رہیں گے وہ اس لعنت میں، نہیں ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اور نہ وہ مہلت ہی دیے جائیں گے(88) مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی بعد اس کے اور (اپنی) اصلاح کر لی، تو بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے(89) بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا بعد اپنے ایمان (لانے ) کے، پھر بڑھتے گئے وہ کفر میں، ہرگز نہیں قبول کی جائے گی ان کی توبہ، اور یہی لو گ ہیں گمراہ(90) بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور مرے وہ ایسی حالت میں کہ وہ کافر ہی تھے تو ہرگز نہیں قبول کیا جائے گا کسی ایک سے (بھی) ان میں سے، زمین بھر سونا (بھی)، اگرچہ وہ فدیے میں دے دے اسے، یہی لوگ ہیں، واسطے ان کے عذاب ہے دردناک اور نہیں ہوگا واسطے ان کے کوئی مددگار(91)
#
{86 ـ 88} يعني أنه يبعد كل البعد أن يهدي الله قوماً عرفوا الإيمان، ودخلوا فيه وشهدوا أن الرسول حق ثم ارتدوا على أعقابهم ناكصين ناكثين، لأنهم عرفوا الحق فرفضوه، ولأن من هذه الحالة وصفه فإن الله يعاقبه بالانتكاس وانقلاب القلب جزاء له إذ عرف الحق فتركه، والباطل فآثره فولاه الله ما تولى لنفسه، فهؤلاء {عليهم لعنة الله والملائكة والناس أجمعين}؛ خالدين في اللعنة والعذاب {لا يخفف عنهم العذاب ولا هم ينظرون}؛ إذا جاءهم أمر الله، لأن الله عمرهم ما يتذكر فيه ما تذكر، وجاءهم النذير.
[88-86] یہ استفہام استبعاد کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ بہت بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، جنھوں نے ایمان لاکر اور رسول کے سچا ہونے کی گواہی دینے کے بعد کفر اور گمراہی کو اختیار کرلیا۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ انھوں نے ظلم کیا، اور حق کو پہچان کر اسے ترک کیا۔ اور ظلم اور سرکشی کرتے ہوئے اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے باطل کو اختیار کرلیا، حالانکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ باطل ہے، تو انھیں ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ ہدایت کی امید اس شخص کے لیے کی جاسکتی ہے جس نے حق کو نہ پہچانا ہو، لیکن اسے حق کی تلاش ہو۔ ایسے شخص کے لیے ممکن ہے کہ اللہ اس کے لیے ہدایت کے اسباب میسر فرمادے، اور گمراہی کے اسباب سے بچالے۔ پھر ان ظالموں اور ضدی لوگوں کی دنیوی اور اخروی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ۰۰خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنْظَ٘رُوْنَ﴾ ’’ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ان کے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا، نہ انھیں مہلت دی جائے گی‘‘ یعنی ان کا عذاب نہ تو لحظہ بھر کے لیے ختم کیا جائے گا، نہ لحظہ بھر کے لیے ہلکا کیا جائے گا۔ نہ انھیں مہلت دی جائے گی، کیونکہ مہلت کا زمانہ ختم ہوگیا، اور اللہ نے ان کا عذر ختم کردیا۔ یعنی اتنی عمر دے دی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو ظاہر ہوجاتی۔ اب انھیں اگر دوبارہ دنیا میں آنے کا موقع دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے، جس سے انھیں منع کیا گیا تھا۔
#
{89 ـ 91} ثم إنه تعالى استثنى من هذا الوعيد التائبين من كفرهم وذنوبهم المصلحين لعيوبهم فإن الله يغفر لهم ما قدموه ويعفو عنهم ما أسلفوه، ولكن من كفر وأصر على كفره، ولم يزدد إلا كفراً حتى مات على كفره، فهؤلاء هم الضالون عن طريق الهدى السالكون لطريق الشقاء، وقد استحقوا بهذا العذاب الأليم، فليس لهم ناصر من عذاب الله ولو بذلوا ملء الأرض ذهباً ليفتدوا به لم ينفعهم شيئاً. فعياذًا بالله من الكفر وفروعه.
[91-89] اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کرے۔ پھر گمراہی میں آگے ہی آگے بڑھتا جائے، ہدایت کوچھوڑے رکھے، ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ یعنی اسے توبہ کی توفیق ہی نہیں ملتی جو قبول ہوسکے، اس لیے اللہ تعالیٰ انھیں ڈھیل دیتا ہے تو وہ گمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام:6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے۔ جیسے یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ (الصف:61؍5) ’’جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے‘‘ گناہوں سے گناہ پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طورپر جو شخص سیدھا راستہ چھوڑ دے اور کفر عظیم کا ارتکاب کرے، حالانکہ اس پر حجت قائم ہوچکی ہو، اور اللہ نے اس کے لیے دلائل و براہین کو واضح کردیا ہو۔ کیونکہ اس نے خود رب کی رحمت کے اسباب کو منقطع کرنے کی کوشش کی، اور اپنے لیے توبہ کا دروازہ خود ہی بند کرلیا، لہٰذا گمراہی ایسے ہی لوگوں میں محصور ہوگئی ہے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ ﴾ ’’یہی لوگ گمراہ ہیں‘‘ اس سے بڑی گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان آنکھوں سے دیکھ کر سیدھی راہ کو ترک کردے۔ یہ کافر اگر موت تک اپنے کفر پر قائم رہیں تو ان کے لیے ہلاکت اور ابدی بدنصیبی یقینی ہے، انھیں کسی چیز سے فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا شخص اگر زمین بھر سونا فدیہ دے کر اللہ کے عتاب سے بچنا چاہے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ ہمیشہ دردناک عذاب میں پڑا رہے گا۔ نہ کوئی اس کی سفارش کرے گا، نہ مدد۔ نہ کوئی اس کی فریاد سنے گا، نہ کوئی اللہ کے عذاب سے بچا سکے گا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ ان کے لیے عذاب میں ہمیشہ کے لیے رہنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اللہ ہمیں ان کے حال سے محفوظ رکھے۔
آیت: 92 #
{لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (92)}.
ہرگز نہ حاصل کر سکو گے تم نیکی، یہاں تک کہ خرچ کرو تم ان (چیزوں) سے جن کو تم پسند کرتے ہو اور جو خرچ کرو گے تم کسی چیز سے تو بلاشبہ اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے(92)
#
{92} يعني {لن تنالوا} وتدركوا {البر}، الذي هو اسم جامع للخيرات وهو: الطريق الموصل إلى الجنة {حتى تنفقوا مما تحبون} من أطيب أموالكم وأزكاها، فإن النفقة من الطيب المحبوب للنفوس من أكبر الأدلة على سماحة النفس واتصافها بمكارم الأخلاق ورحمتها ورقتها، ومن أدل الدلائل على محبة الله وتقديم محبته على محبة الأموال التي جبلت النفوس على قوة التعلق بها، فمن آثر محبة الله على محبة نفسه فقد بلغ الذروة العليا من الكمال وكذلك من أنفق الطيبات وأحسن إلى عباد الله أحسن الله إليه ووفقه أعمالاً وأخلاقاً لا تحصل بدون هذه الحالة. وأيضاً فمن قام بهذه النفقة على هذا الوجه كان قيامه ببقية الأعمال الصالحة والأخلاق الفاضلة من طريق الأولى والأحرى، ومع أن النفقة من الطيبات هي أكمل الحالات فمهما أنفق العبد من نفقة قليلة أو كثيرة من طيب أو غيره {فإن الله به عليم}، وسيجزي كل منفق بحسب عمله، سيجزيه في الدنيا بالخلف العاجل وفي الآخرة بالنعيم الآجل.
[92] اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کو ترغیب ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں خرچ کریں، چنانچہ فرمایا: ﴿لَ٘نْ تَنَالُوا الْـبِرَّ﴾ ’’تم ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے‘‘ یعنی تم کبھی ’’بر‘‘ حاصل نہیں کرسکو گے۔ ’’بر‘‘ میں ہر قسم کے نیکی اور ثواب کے کام شامل ہیں۔ جو کرنے والے کو جنت میں پہنچاتے ہیں۔ ﴿حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّؔا تُحِبُّوْنَ﴾ ’’جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) صرف نہ کرو گے۔‘‘ یعنی جب تم مال کی محبت پر اللہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہوئے اللہ کی رضامندی کے کاموں میں مال خرچ کرو گے تو اس سے ثابت ہوگا کہ تمھارا یمان سچا ہے اور تمھارے دلوں میں نیکی اور تقویٰ موجود ہے۔ اس میں عمدہ اشیاء خرچ کرنا بھی شامل ہے، اور خود ضرورت مند ہوتے ہوئے ضرورت کی چیز اللہ کی راہ میں دے دینا بھی اور صحت کی حالت میں خرچ کرنا بھی۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی نیکی کا معیار دل پسند اشیاء اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ جس قدر یہ خوبی کم ہوگی اتنا ہی اس کے نیک ہونے میں نقص ہوگا۔ چونکہ بندوں کو ہر انداز سے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے، کم ہو یا زیادہ، دل پسند چیز ہو یا نہ ہو۔ اور ﴿لَ٘نْ تَنَالُوا الْـبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّؔا تُحِبُّوْنَ﴾ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز سے دلی محبت نہ ہو اسے خرچ کرنے پر ثواب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا: ﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور جو کچھ تم خرچ کرو، اللہ اسے بخوبی جانتا ہے۔‘‘ اللہ تمھیں تنگی میں نہیں ڈالتا، بلکہ تمھاری نیت اور چیز کے فائدے کے مطابق تمھیں اس کا ثواب دے دیتا ہے۔
آیت: 93 - 94 #
{كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (93) فَمَنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (94)}.
تمام کھانا تھا حلال واسطے بنواسرائیل کے، مگر وہ جو حرام کر لیا تھا یعقوب نے اپنے نفس پر، پہلے اس سے کہ نازل کی جائے تورات، کہہ دیجیے! پس لاؤ تم تورات اور پڑھو اسے، اگر ہو تم سچے(93) پس جس نے باندھا اوپر اللہ کے جھوٹ، اس کے بعد، تو یہی لوگ ہیں ظالم(94)
#
{93 ـ 94} من جملة الأمور التي قدح فيها اليهود بنبوة عيسى ومحمد - صلى الله عليه وسلم - أنهم زعموا أن النسخ باطل، وأنه لا يمكن أن يأتي نبي يخالف النبي الذي قبله. فكذبهم الله بأمر يعرفونه، فإنهم يعترفون بأن جميع الطعام قبل نزول التوراة كان حلالاً لبني إسرائيل إلا أشياء يسيرة، حرمها إسرائيل وهو يعقوب عليه السلام على نفسه ومنعها إياه لمرض أصابه، ثم إن التوراة فيها من التحريمات التي نسخت ما كان حلاًّ قبل ذلك شيء كثير. قل لهم إن أنكروا ذلك {فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين}؛ بزعمكم أنه لا نسخ ولا تحليل ولا تحريم. وهذا من أبلغ الحجج أن يحتج على الإنسان بأمر يقوله ويعترف به ولا ينكره، فإن انقاد للحق فهو الواجب، وإن أبى ولم ينقد بعد هذا البيان تبين كذبه وافتراؤه وظلمه وبطلان ما هو عليه، وهو الواقع من اليهود.
[94,93] یہ یہودیوں کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ احکام کامنسوخ ہونا جائز نہیں، اس لیے انھوں نے حضرت عیسیٰuاور حضرت محمدeکی نبوت کا انکار کیا، کیونکہ ان دونوں حضرات نے حلال و حرام کے بعض ایسے مسائل بیان فرمائے جو تورات کے احکام کے خلاف تھے۔ بحث میں انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف خود ان کی مسلمہ کتاب تورات سے دلیل پیش کی گئی ہے کہ کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لیے حلال تھیں۔ ﴿اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ﴾ ’’سوائے اس کے جس چیز کو اسرائیل یعنی یعقوبuنے‘‘ ﴿عَلٰى نَفْسِهٖ﴾ ’’اپنے اوپر حرام کرلیا تھا‘‘ یہ چیزیں اللہ نے حرام نہیں کی تھیں، آپ کو عرق النساء کی بیماری ہوگئی تو آپ نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے شفا عطا فرمائی تو وہ سب سے پسندیدہ غذا اپنے آپ پر حرام کرلیں گے۔ اللہ نے شفا دے دی تو مشہور قول کے مطابق انھوں نے اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کا دودھ اپنے آپ پر حرام کرلیا۔ آپ کی اولاد نے بھی (آپ کے احترام میں) اس سے اجتناب کیا، یہ واقعہ تورات کے نزول سے بہت پہلے کا ہے۔ پھر تورات میں یعقوبuکی حرام کردہ اشیاء کے علاوہ بعض دوسری حلال اور پاک اشیاء کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔ جیسے اللہ نے فرمایا ہے: ﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰؔتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ﴾ (النساء:4؍160) ’’یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاک چیزیں حرام کردیں جو ان کے لیے حلال تھیں‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ اگر یہودی اس حقیقت کا انکار کریں تو تورات پیش کرنے کا حکم دیجیے۔ لیکن وہ اس کے بعد بھی ظلم و عناد کی روش پر قائم رہے، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَ٘مَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھیں، وہی ظالم ہیں‘‘ اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کو اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ عناد، تکبر اور سرکشی کی بنا پر اس سے انکار کردیتا ہے۔ یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ محمدeکی نبوت حق ہے۔ آپ کی اور آپ کو خبریں دینے والے کی سچائی پر طرح طرح کی واضح دلیلیں موجود ہیں، جس (اللہ) نے آپ کو وہ خبریں دیں، جن کا علم آپ کو اللہ کے بتائے بغیر نہیں ہوسکتا۔
آیت: 95 #
{قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (95)}.
کہہ دیجیے! سچ کہا اللہ نے، پس اتباع کرو تم ملت ابراہیم کا، جو حق پرست تھا اور نہیں تھا وہ شرک کرنے والوں میں سے(95)
#
{95} أي: قل صدق الله في كل ما قاله ومن أصدق من الله قيلاً وحديثاً؟ وقد بين في هذه الآيات من الأدلة على صحة رسالة محمد - صلى الله عليه وسلم - وبراهين دعوته وبطلان ما عليه المنحرفون من أهل الكتاب الذين كذبوا رسوله وردوا دعوته، فقد صدق الله في ذلك وأقنع عباده على ذلك ببراهين وحجج تتصدع لها الجبال وتخضع لها الرجال، فتعين عند ذلك على الناس كلهم اتباع ملة إبراهيم من توحيد الله وحده لا شريك له، وتصديق كل رسول أرسله الله، وكل كتاب أنزله والإعراض عن الأديان الباطلة المنحرفة، فإن إبراهيم كان معرضاً عن كل ما يخالف التوحيد متبرئاً من الشرك وأهله.
[95] اس لیے فرمایا: ﴿قُ٘لْ صَدَقَ اللّٰهُ﴾ ’’کہہ دیجیے اللہ سچا ہے‘‘ ان خبروں میں بھی جو اس نے بتائی ہیں اور ان احکام میں بھی جو اس نے نازل کیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے رسول کو اور اس کے رسول کے متبعین کو حکم ہے کہ زبان سے بھی کہیں ’’اللہ سچا ہے‘‘ اور ان یقینی دلائل کی بنیاد پر دل میں بھی یہ عقیدہ رکھیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سمعی اور عقلی تفصیلی دلائل کا علم زیادہ ہوتا ہے، اس کا اللہ کے سچا ہونے پر زیادہ یقین ہوتا ہے۔ پھر حکم دیا کہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیمuکے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے توحید اختیار کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔ کیونکہ سعادت و خوش نصیبی کا دارومدار توحید کو اختیار کرنے اور شرک سے پرہیز کرنے پر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہودی وغیرہ جو ابراہیمuکے طریقے پر نہیں، وہ مشرک ہیں موحد نہیں۔ جب ابراہیمuکے اس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا کہ توحید اختیار کریں اور شرک سے بچیں، تو اس کے بعد یہ حکم دیا گیا کہ ابراہیمuکے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے بیت اللہ کا بھی احترام کریں یعنی حج اور عمرہ وغیرہ ادا کریں۔ چنانچہ ارشاد ہے:
آیت: 96 - 97 #
{إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96) فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (97)}.
بلاشبہ پہلا گھر جو مقرر کیا گیا واسطے لوگوں کے، ، البتہ وہ ہے جو مکہ میں ہے، بڑی برکت والا اور ہدایت واسطے جہانوں کے(96) اس میں نشانیاں ہیں واضح، مقام ابراہیم (وغیرہ) اور جو اس میں داخل ہوا، ہو گیا وہ امن والا،اور اللہ ہی کے لیے ہے اوپر لوگوں کے حج کرنا بیت اللہ کا، جو طاقت رکھے اس کی طرف راستے کی اور جس نے کفر کیا تو بلاشبہ اللہ بے پروا ہے سارے جہانوں سے(97)
#
{96 ـ 97} يخبر تعالى بعظمة بيته الحرام، وأنه أول البيوت التي وضعها الله في الأرض لعبادته وإقامة ذكره، وأن فيه من البركات وأنواع الهدايات وتنوع المصالح والمنافع للعالمين شيء كثير وفضل غزير، وأن فيه آيات بينات تُذَكِّر بمقامات إبراهيم الخليل وتنقلاته في الحج ومن بعده تذكر بمقامات سيد الرسل وإمامهم، وفيه الأمن الذي من دخله كان آمناً قدراً مؤمناً شرعاً وديناً. فلما احتوى على هذه الأمور التي هذه مجملاتها وتكثر تفصيلاتها، أوجب الله حجّه على المكلفين المستطيعين إليه سبيلاً، وهو الذي يقدر على الوصول إليه بأي مركوب يناسبه وزاد يتزوده، ولهذا أتى بهذا اللفظ الذي يمكنه تطبيقه على جميع المركوبات الحادثة والتي ستحدث، وهذا من آيات القرآن حيث كانت أحكامه صالحة لكل زمان وكل حال ولا يمكن الصلاح التام بدونها. فمن أذعن لذلك وقام به فهو من المهتدين المؤمنين، ومن كفر فلم يلتزم حج بيته فهو خارج عن الدين، {ومن كفر فإن الله غني عن العالمين}.
[97,96] اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کا شرف بیان فرما رہا ہے کہ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اس مقصد کے لیے مقرر کیا ہے کہ وہ اس میں اپنے رب کی عبادت کریں اور ان کے گناہ معاف ہوں۔ اور انھیں وہ نیکیاں حاصل ہوں جن کی وجہ سے انھیں رب کی رضا حاصل ہو، اور وہ ثواب حاصل کرکے اللہ کے عذاب سے بچ جائیں، اس لیے فرمایا: ﴿مُبٰرَؔكًا﴾ ’’برکت والا ہے‘‘ اس میں بہت سی برکتیں، اور دینی و دنیوی فوائد موجود ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَ یَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج:22؍28) ’’تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں، اور ان مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام یاد کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں‘‘ ﴿وَّهُدًى لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور ہدایت ہے جہان والوں کے لیے‘‘ ہدایت کی دو قسمیں ہیں:علمی ہدایت اور عملی ہدایت۔ عملی ہدایت تو ظاہر ہے کہ اللہ نے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو اس مقدس گھر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ علمی ہدایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حق کا علم حاصل ہوتاہے کیونکہ اس میں آیات بینات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ﴾ ’’اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں‘‘ یعنی مختلف علوم الٰہی اور بلند مطالب پر واضح دلائل اور قطعی براہین موجود ہیں۔ مثلاً اللہ کی توحید کے دلائل، اس کی رحمت، حکمت، عظمت، جلالت، اس کے کامل علم اوربے حد و حساب جودوسخا کے دلائل، اور انبیاء و اولیاء پر ہونے والے اللہ کے احسانات کی نشانیاں۔ ان نشانیوں میں سے ایک ﴿مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ﴾ بھی ہے۔ اس سے وہ پتھربھی مراد ہوسکتا ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیمuکعبہ کی عمارت بناتے رہے تھے۔ پہلے یہ کعبہ کی دیوار سے متصل تھا۔ حضرت عمرtنے اپنے دور خلافت میں اسے موجودہ مقام پر منتقل کیا۔ اس پتھر میں نشان سے مراد ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیمuکے قدموں کے نشان ہیں کہ سخت چٹان میں نشان پڑگئے جو امت محمدیہ کے ابتدائی زمانے تک باقی رہے۔ یہ ایک خرق عادت معجزہ ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نشان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت، شرف اور احترام کے جذبات رکھ دیے ہیں۔ ’’مقام ابراہیم‘‘ کی دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے جسے ابراہیم کی طرف مضاف کیا گیا ہے، اس لیے اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جن سے آپ کا تعلق ہے یعنی وہ تمام مقامات جہاں حج کے مناسک ادا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے حج کے تمام مناسک بھی ’’آیَاتِ بَیِّنَات‘‘ میں شامل ہیں، مثلاً طواف، سعی اور ان کے مقامات، عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، رمی کرنا اور دوسرے شعائر۔ اس میں نشانی یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام نقش کردیا ہے۔ لوگ یہاں تک پہنچنے کے لیے مال و دولت خرچ کرتے اور ہر قسم کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عجیب و غریب اسرار اور اعلیٰ معنویات پوشیدہ ہیں۔ اس کے افعال میں وہ حکمتیں اورمصلحتیں ہیں کہ مخلوق ان میں سے تھوڑی سی حکمتیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہے۔ اس کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ امن عطا فرماتا ہے۔ اور اسے شرعی حکم بھی قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے پیغمبر ابراہیمuنے، پھر محمدeنے اس کے احترام کا حکم دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے، اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ اسے وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ حرمت حرم کے شکار، درختوں اور نباتات کو بھی حاصل ہے۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کوئی جرم کرلے، پھر حرم میں آجائے تو اسے بھی امن حاصل ہوگا۔ جب تک وہ اس سے باہر نہیں آتا اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ اللہ کے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق اس مقام کے امن ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں، حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کے دلوں میں بھی اس کا احترام ڈال دیا۔ مشرکین عرب انتہائی لڑاکا طبیعت والے، غیرت والے اور کسی کا طعنہ برداشت نہ کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنے باپ کا قاتل بھی حرم کی حدود میں مل جاتا تھا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کے حرم ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو اسے نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ جیسے ہاتھی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس موضوع پر میں نے ابن قیم رحمہ اللہ کا بہت اچھا بیان پڑھا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسے یہاں ذکر کردوں، کیونکہ اس کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ امام صاحب aفرماتے ہیں: فائدہ: ﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا﴾ اس آیت میں (حِجُّ الْبَیْتِ) مبتدا ہے۔ اس کی خبر اس سے پہلے دو جارو مجرور میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے۔ معنی کے لحاظ سے (عَلَى النَّاسِ) کو خبر بنانا بہتر ہے کیونکہ یہ وجوب کے لیے ہے۔ اور وجوب کے لیے (عَلَى) ہونا چاہیے۔ ممکن ہے لِلّٰہِ خبر ہو۔ کیونکہ اس میں وجوب اور استحقاق کا مفہوم ہے۔ اس قول کو اس امر سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ فائدہ کا اصل مقام خبر ہے۔ اس مقام میں اس کو لفظاً مقدم کیا گیا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے وہ موخر ہے۔ اس وجہ سے (وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ) کہنا بہتر ہوا۔ پہلے قول کی تائید میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجوب کے لیے (حِجُّ الْبَیْتِ عَلَی النَّاسِ) ’’بیت اللہ کا حج لوگوں پر واجب ہے‘‘ کا انداز زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ بہ نسبت یوں کہنے کہ ﴿حِجُّ الْبَیْتِ لِلہِ﴾ ’’بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے۔‘‘ اس تشریح کے مطابق پہلے مجرور کو مقدم کرنا، حالانکہ وہ خبر نہیں، دو فوائد کا حامل ہے: پہلا فائدہ: یہ حج کو واجب کرنے والے (اللہ) کا نام ہے۔ لہٰذا وجوب کے ذکر سے پہلے اس کا ذکر کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی آیت میں تین اشیا کا ذکر ہے جو وقوع کے لحاظ سے بالترتیب ذکر ہوئی ہیں: (۱)اس فریضہ کو واجب کرنے والا۔ اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔ (۲) واجب کو ادا کرنے والا، جس پر وہ فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ ہیں لوگ (۳) وہ حق جس کے ساتھ اللہ کا تعلق واجب کرنے کا اور بندوں کا تعلق واجب ہونے اور ادا کرنے کا ہے، وہ ہے حج۔ دوسرا فائدہ: مجرور اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہونے کی وجہ سے اہمیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا اس کے واجب کیے ہوئے فریضہ کے احترام کی عظمت کا لحاظ رکھے ہوئے، اس فریضہ کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے لیے اسے پہلے ذکر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا واجب کیا ہوا کام کسی اور کے واجب کیے ہوئے کی طرح نہیں، بلکہ زیادہ اہم اور لازم ہے۔ لفظ ’’ مَنْ ‘‘ بدل ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مصدر کا فاعل قرار دینا پسند کیا ہے گویا آیت کا مفہوم یوں ہے: أَنْ یَّحُجَّ الْبَیْتَ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِيْلًا ’’کہ جو شخص اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کا حج کرے‘‘ یہ قول کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۱)حج فرض عین ہے۔ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے حج کا فریضہ فرض کفایہ ہوتا۔ یعنی جب استطاعت والوں نے حج کرلیا تو دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہوگیا۔ اس صورت میں معنی یوں بن جاتا ہے وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتَ مُسْتَطِیعِہِمْ ’’لوگوں کے ذمے اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے استطاعت رکھنے والے کے لیے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب استطاعت رکھنے والوں نے ادا کرلیا تو استطاعت نہ رکھنے والوں پر واجب نہیں رہا۔ حالانکہ صحیح صورت حال یہ نہیں۔ بلکہ حج ہر شخص پر فرض عین ہے۔ طاقت والا حج کرے یا نہ کرے وہ اس کے ذمے ہے۔ لیکن طاقت نہ رکھنے والے کو اللہ نے معذور قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، نہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ حج کرے گا تو خود اس کا اپنا فرض ادا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ طاقت رکھنے والوں کے حج کرنے کی وجہ سے طاقت نہ رکھنے والوں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہو۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوتی ہے کہ جب کوئی کہے (وَاجِبٌ عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ النَّاحِیَۃِ أَنْ یُّجَاہِدَ مِنْہُمُ الطَّائِفَۃُ الْمُسْتَطِیعُونَ لِلْجِہَادِ) ’’اس علاقے والوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جہاد کی طاقت رکھنے والی جماعت ضرور جہاد کرے‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جب طاقت رکھنے و الے جہاد کریں تو دوسرے لوگوں سے وجوب کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر یوں کہا جائے (واجب علی الناس کلہم ان یجاہد منہم المستطیع) ’’سب لوگوں کا فرض ہے کہ ان میں سے طاقت رکھنے والا جہاد کرے‘‘ تو وجوب کا تعلق تو ہر فرد سے ہوگا، لیکن طاقت نہ رکھنے والے معذور سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا (للہ حج البیت علی المستطیعین) کے بجائے آیت مبارکہ کے انداز سے ارشاد فرمانے میں یہ نادر نکتہ ہے۔ لہٰذا اسے غور کرکے سمجھنا چاہیے۔ دوسری وجہ: جملہ میں فاعل کی موجودگی میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف کرنا مفعول کی طرف اضافت کرنے کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اس اصول سے گریز صرف کسی منقول دلیل کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ آیت مبارکہ میں اگر مَنْ کو فاعل تسلیم کیا جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ مصدر کو اس کی طرف مضاف کرکے یوں کہا جائے: وللہ علی الناس حِجُّ مَنِ اسْتَطَاعَ اسے (یُعْجِبُنِیْ ضَرْبُ زیدٍ عَمْرًا) جیسی مثال پر یا مصدر اور اس کے مضاف الیہ فاعل کے درمیان مفعول یا ظرف کے فاصلے کی صورت پر محمول کرنا گویا مکتوب پر محمول کرنا ہے جو مرجوح ہے۔ جیسے ابن عامر کی یہ قراء ت مرجوح ہے (کذلک زُیِّن لکثیر من المشرکین قَتْلُ اولادھم شرکاۂم۔) لہٰذا یہ قول درست نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ من استطاع میں ’’من‘‘ بدل بعض ہے تو ضروری ہے کہ کلام میں کوئی ضمیر موجود ہو جو ’’الناس‘‘ کی طرف راجع ہو۔ یعنی عبارت گویا یوں ہے ’’من استطاع منہم‘‘ اکثر مقامات پر اس ضمیر کا حذف کرنا بہتر نہیں ہوتا۔ البتہ یہاں اس کا حذف کرنا اچھا ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں: (۱)’’من‘‘ کا لفظ اس کے مبدل منہ کی طرح غیر عاقل پر واقع ہوا ہے، اس لیے اس سے ربط قائم ہوگیا ہے۔ (۲)یہ اسم موصول ہے جس کا صلہ اس سے اخص ہے۔ اگر صلہ اعم ہوتا تو ضمیر حذف کرنا قبیح ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ کہیں: (رأیت إخوتک من ذہب إلی السوق منہم) ’’میں نے تیرے بھائیوں کو، ان میں سے جو بازار گیا، دیکھا‘‘ تو یہ قبیح ہوگا۔ کیونکہ (ذاھب الی السوق) اعم ہے اخوۃ سے ۔اسی طرح اگر یوں کہا جائے: البس الثیاب ماحسن ’’کپڑے پہن جو اچھے ہیں‘‘ مطلب یہ ہو گا کہ (ماحسن منہا) ’’ان میں سے جو اچھے ہیں‘‘ تو ضمیر ذکر نہ کرنا زیادہ غلط ہوگا۔ کیونکہ لفظ ’’ما‘‘ میں ’’الثیاب‘‘ کی نسبت عموم پایا جاتا ہے۔ اور بدل بعض کو مبدل منہ سے زیادہ خاص ہونا چاہیے۔ اگر وہ زیاہ عام ہو، پھر اسے مبدل منہ کی طرف لوٹنے والی چیز کی طرف مضاف کردیا جائے یا اس ضمیر کے ساتھ مقید کردیا جائے تو عموم ختم ہوجائے گا اور خصوص کا مفہوم باقی رہ جائے گا۔ (۳)یہاں مضاف کو حذف کرنا اس لیے بھی بہتر ہے کہ صلہ اور موصول کے ساتھ کلام زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ لفظ لِلہِ کے مجرور کے بارے میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ وہ من سبیل کے محل میں ہو۔ گویا ہ وہ نکرہ کی صفت ہے جو نکرہ سے مقدم ہے۔ کیونکہ اگر اسے موخر کیا جاتا تو وہ سبیل کی صفت کی جگہ ہوتا۔ دوم یہ کہ ’’سبیل‘‘ کا متعلق ہو۔ اگر آپ کہیں کہ یہ اس کا متعلق کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس (سبیل) میں فعل کا معنی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں سبیل کا مفہوم ’’الموصل الی البیت‘‘ کعبہ تک پہنچانے والی چیز یعنی سامان سفر وغیرہ ہے۔ لہٰذا س میں فعل کا تھوڑا سا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہاں سبیل سے وہ راستہ مراد نہیں جس پر چلتے ہیں، اس لیے جار مجرور اس کے متعلق ہوسکتا ہے۔ اور حسن نظم اور اعجاز لفظی کے لحاظ سے جار مجرور کو مقدم کرنا بہتر تھا، اگرچہ اس کا اصل مقام موخر ہی ہے، کیونکہ یہ ضمیر ’’بیت‘‘ کی طرف راجع ہے۔ اور اصل اہمیت بیت (کعبہ) ہی کو دینا مقصود ہے۔ اور اہل عرب کلام میں اہم چیز کو مقدم کرتے ہیں۔ یہ سہیلی کے کلام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ قول بہت بعید ہے۔ بلکہ جار مجرور کے متعلق ان دونوں سے بہتر ایک قول ہے، وہی درست ہے۔ اور اس آیت سے وہی مفہوم مناسبت رکھتا ہے۔ وہ ہے ’’وجوب‘‘ جو آیت کے لفظ ’’علی الناس‘‘ سے سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (یجب للہ علی الناس الحج) ’’لوگوں پر اللہ کے لیے حج کرنا واجب ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ کا وجوبی حق ہے۔ اسے ’’سبیل‘‘ کے متعلق قرار دے کر اس کا حال بنانا بہت ہی بعید ہے۔ آیت سے یہ مفہوم بالکل ذہن میں نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں (للہ علیک الصلاۃ والزکاۃ والصیام) ’’آپ پر اللہ کے لیے نماز، زکاۃ اور روزہ ضروری ہے۔‘‘ آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ایسے کام کا ذکر کرتا ہے، جسے واجب یا حرام قرار دینا مقصود ہو، تو وہ اکثر اوقات امرونہی کے الفاظ سے مذکور ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لیے ایجاب، کتابۃ اور تحریم کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ﴿ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ ﴾ (البقرہ:2؍183) ’’تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ ﴾ (المائدۃ:5؍3) ’’تم پر مردار حرام کیا گیا ہے‘‘ ﴿ قُ٘لْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ ﴾ (الانعام:6؍151) ’’کہہ دیجیے! آؤ میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں لگائی ہیں۔‘‘ حج کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے (وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ) ’’اس سے دس انداز سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو مقدم فرمایا ہے۔ اور اس پر ’’ل‘‘ داخل کیا ہے، جس سے استحقاق اور اختصاص ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جن پر واجب ہے ان کے لیے عموم کا صیغہ استعمال کیا ہے، اور اس پر عَلٰی داخل کیا ہے، جس سے اہل استطاعت کو بدل بنایا ہے۔ پھر ’’سبیل‘‘ نکرہ ہے جو سیاق شرط میں واقع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حج ہر قسم کے سبیل میسر ہونے سے واجب ہوجاتا ہے، مثلاً خوراک اور مال۔ یعنی وجوب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جسے ’’سبیل‘‘کہا جاسکے۔ پھر اس کے بعد سب سے عظیم تہدید ذکر فرمائی اور فرمایا ﴿ وَمَنْ كَفَرَ ﴾ یعنی جس نے اس واجب پر عمل نہ کرکے اور اسے ترک کرکے کفر کا ارتکاب کیا۔ پھر اس کی عظمت شان کے لیے وعید کو موکد فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں۔ یہاں استغنا کے ذکر کا مقصد ناراضی، غصے اور بے اعتنائی کا اظہار ہے، جو بہت عظیم اور بلیغ وعید ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہاں ’’العالمین‘‘ کا عام لفظ بولا گیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا: (فان اللہ غنی عنہ) ’’اللہ اس سے مستغنی ہے‘‘ کیونکہ جب وہ تمام جہانوں سے مستغنی اور بے پروا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے اور ہر اعتبارسے کامل و مکمل استغنا حاصل ہے۔ اس طرح اس کے واجب کردہ حق کو ترک کرنے والے پر اس کی ناراضی زیادہ تاکید سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس مفہوم کو لفظ ’’ان‘‘ کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جوبذات خود تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دس وجوہ ہیں جن سے اس فرض عظیم کا ضروری اور موکد ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت مبارکہ میں ’’بدل‘‘میں پوشیدہ نکتہ پر بھی غور کیجیے۔ بدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسناد دوبارہ ذکر ہوئی ہے۔ ایک دفعہ اس کی اسناد عمومی طورپر سب لوگوں سے ہے اور دوسری بار خاص طورپر استطاعت رکھنے والوں سے۔ اور بدل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسناد کی تکرار سے معنی میں قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لیے بدل عامل کی تکرار اور دہرانے کا مفہوم رکھتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ آیت میں کس طرح ابہام کے بعد توضیح اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اور اس کی شان کی تاکید فرماتے ہوئے کلام کو دو صورتوں میں وارد کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ کس طرح وجوب کا ذکر کرنے سے پہلے کعبہ شریف کی خوبیوں اور عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے دلوں میں اس کی زیارت اور حج کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ … الخ﴾ چنانچہ کعبہ شریف کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ (۱) وہ دنیا میں عبادت کے لیے مقرر کیا جانے والا سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے۔ (۲) برکت والا ہے۔ برکت کا مطلب خیر کا دوام اور کثرت ہے۔ دنیا میں اتنی برکت والا، اس قدر کثیر اور دائمی خیر والا، اور مخلوق کے لیے اس قدر فوائد کا حامل کوئی گھر موجود نہیں۔ (۳) وہ ہدایت ہے۔ ہدایت دینے والے کے بجائے ہدایت (مصدر) کا لفظ بولنے میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا یہ خود سراپا ہدایت ہے۔ (۴) اس میں آیات بینات (واضح نشانیاں) موجود ہیں۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ (۵) اس میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔ اگر یہی صفات ذکر کردی جائیں اور اس کی زیارت کا حکم نہ دیا جاتا، تب بھی ان صفات کی وجہ سے دلوں میں اس کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوتی، خواہ کتنی دور سے آنا پڑتا۔ یہاں تو یہ صفات ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس قدر تاکیدات لائی گئی ہیں، جن سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس گھر کی بے حد اہمیت ہے۔ اور اس کے نزدیک اس کی شان و عظمت کی کوئی حد نہیں۔ اگر اس میں یہی شرف ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے (بیتی) (میرا گھر) فرمایا ہے، تو یہ نسبت ہی اتنی بڑی فضیلت اور اتنا بڑا شرف ہے کہ صرف اس کی وجہ سے جہان والوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتے، اور اس کی زیارت کے لیے دور دراز سے کھنچے آتے۔ محبت کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اس کے پاس اکٹھے ہوکر آتے ہیں، اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ جتنی زیادہ زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی محبت اور شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دور جانے سے محبت کی لو مدہم ہوتی ہے نہ وصال سے ان کی پیاس بجھتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے: میں اس کا طواف کرتا ہوں اور دل پھر بھی شوق سے بھرپور ہے کیا طواف کے بعد مزید قرب بھی ہوسکتا ہے؟ میں اس کے حجر اسود کو چومتا ہوں، اور اس طرح دل میں موج زن محبت اور پیاس کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتا ہوں قسم ہے اللہ کی! میری محبت ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل اور زیادہ دھڑکنے لگتا ہے۔ اے جنت ماویٰ! اے مقصود تمنا! اور اے میری آرزو! ہر امان سے قریب تر! غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پر اصرار کرتے ہیں تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں! میں اگر تجھ سے دور ہوا تو اس کی وجہ بے اعتنائی نہیں اس کا گواہ میری (اشک بار) آنکھیں اور (نالہ وشیون کرتی) زبان ہے۔ تجھ سے دور ہونے کے بعد میں نے صبر کو بھی آواز دی اور گریہ کو بھی گریہ نے (فوراً) لبیک کہا (اور آگیا) اور صبر نے میری بات نہ مانی (صبر نہ آیا) لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محب دور چلا جائے تو لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی محبت کمزور ہوجاتی ہے۔ اگر یہ خیال درست ہوتا، تو یقیناً ہر زمانے کے لوگوں کے لیے محبت کا علاج ہوتا ہاں ہاں محب کمزور ہوجائے گا اور محبت اسی حال میں ہوگی، اسے رات دن کے گزرنے نے کمزور نہیں کیا ہوگا۔(امام ابن قیمa کا یہ کلام ان کی کتاب ’’بدائع الفوائد‘‘ سے منقول ہے۔ اس میں یہ شعر اس طرح درج ہے: (بلیٰ انہ یبلی التصبر و الہوی...علی حالہ لم یبلہ الملوان) ’’ہاں صبر تو کمزور ہوجاتا ہے لیکن محبت اپنے حال پر رہتی ہے، وہ رات دن کے گزرنے سے کمزور نہیں ہوتی) یہ محبت کرنے والا ہے، جسے شوق اور عشق لیے جاتا ہے بغیر کسی لگام اور باگ کے جو اسے کھینچے لے جاتی ہو۔ زیارت گاہ دور ہونے کے باوجود، وہ تیرے در پر آپہنچا ہے اگر اس کی سواری کمزور ہوجاتی تو اس کے قدم ہی اسے لے آتے۔ یہاں امام ابن قیم a کا کلام ختم ہوا۔
آیت: 98 - 99 #
{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ (98) قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (99)}.
کہہ دیجیے! اے اہل کتاب! کیوں کفر کرتے ہو تم ساتھ آیتوں کے اللہ کی؟ اور اللہ گواہ ہے ان پر جو تم کرتے ہو(98) کہہ دیجیے! اے اہل کتاب! کیوں روکتے ہو تم اللہ کے راستے سے، اس کو جو ایمان لایا، ڈھونڈتے ہو تم اس (راہ) میں کجی، جب کہ تم گواہ ہو اور نہیں ہے اللہ غافل ان سے جو تم کرتے ہو(99)
#
{98 ـ 99} لمّا أقام فيما تقدم الحجج على أهل الكتاب مع أنهم قبل ذلك يعرفون النبي - صلى الله عليه وسلم -، كما يعرفون أبناءهم، وَبَّخَ المعاندين منهم بكفرهم بآيات الله وصدهم الخلق عن سبيل الله لأن عوامهم تبع لعلمائهم، والله تعالى يعلم أحوالهم وسيجازيهم على ذلك أتمَّ الجزاء وأوفاه.
[99,98] اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو زجر و توبیخ فرماتا ہے کیونکہ انھوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا، جو اس نے اپنے رسولوں پر نازل کیں، جنھیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے رحمت بنایا کہ ان کی رہنمائی میں اللہ تک پہنچ سکیں، اور ان کی مدد سے تمام اہم مقاصد اور مفید علوم حاصل کریں۔ ان کافروں نے ان کا انکار بھی کیا، ان پر ایمان لانے والوں کو روکا، ان میں تحریف کی، انھیں اصل مفہوم سے پھیرنے کی کوشش کی۔ وہ خود ان جرائم کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھیں خوب معلوم ہے کہ ان کا یہ کام بہت بڑا کفر ہے، جس کی سزا بہت سخت ہے۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابً٘ا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ﴾ (النحل:16؍88) ’’جنھوں نے کفر کیا، اور اللہ کی راہ سے روکا، ہم انھیں عذاب پر مزید عذاب دیں گے کیونکہ وہ فساد کرتے تھے‘‘ یہاں انھیں یہ فرما کر تنبیہ کی۔ ﴿ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘ بلکہ تمھارے اعمال، تمھاری نیتوں اور تمھاری بری تدبیروں سے پوری طرح باخبر ہے، وہ تمھیں ان کی بہت بری سزا دے گا۔ ان کو تنبیہ کرنے کے بعد اپنی رحمت، عطا اور احسان کا ذکر کیا، اور اپنے مومن بندوں کو ان سے متنبہ کیا، تاکہ وہ بے خبری میں ان کے مکروفریب کا نشانہ نہ بن جائیں۔
آیت: 100 - 101 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ (100) وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (101)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اطاعت کرو گے ایک فریق کی ان لوگوں میں سے جو دیے گئے کتاب، تو لوٹا (بنا) دیں گے وہ تمھیں بعد تمھارے ایمان کے کفر کرنے والے(100) اور کیسے کفر کرو گے تم جب کہ تلاوت کی جاتی ہیں تم پر آیتیں اللہ کی اور تمھارے اندر اس کا رسول (موجود) ہے؟ اور جو مضبوط پکڑ لے اللہ (کے دین) کو، تو تحقیق ہدایت دیا گیا وہ طرف سیدھے راستے کی(101)
#
{100 ـ 101} لمّا أقام الحجج على أهل الكتاب ووبَّخهم بكفرهم وعنادهم، حذر عباده المؤمنين عن الاغترار بهم، وبين لهم أن هذا الفريق منهم حريصون على إضراركم وردكم إلى الكفر بعد الإيمان، ولكن ولله الحمد أنتم يا معشر المؤمنين، بعدما منَّ الله عليكم بالدين ورأيتم آياته ومحاسنه ومناقبه وفضائله، وفيكم رسول الله الذي أرشدكم إلى جميع مصالحكم، واعتصمتم بالله وبحبله الذي هو دينه يستحيل أن يردوكم عن دينكم، لأن الدين الذي بني على هذه الأصولِ والدعائمِ الثابتة الأساس، المشرقة الأنوار تنجذب إليه الأفئدة، ويأخذ بمجامع القلوب، ويوصل العباد إلى أجل غاية وأفضل مطلوب. {ومن يعتصم بالله}؛ أي: يتوكل عليه ويحتمي بحماه {فقد هدي إلى صراط مستقيم}؛ وهذا فيه الحث على الاعتصام به وأنه السبيل إلى السلامة والهداية.
[101,100] چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْؔكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اے ایمان والو! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمھیں، تمھارے ایمان لانے کے بعد مرتد کافر بنا دیں گے۔‘‘ اس کی وجہ ان کا حسد، ظلم اور تمھیں مرتد کردینے کی شدید خواہش ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَدَّؔ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖ ۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ﴾ (البقرۃ:2؍109)’ ’اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے ، محض حسد و بغض کی بنا پر تمھیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی اپنے ایمان پر ثابت قدمی کا اور یقین میں ڈانواں ڈول نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب بیان کیا ہے اور یہ کہ ان کا ایمان سے پھر جانا انتہائی ناممکن ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَؔكَیْفَ تَكْ٘فُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَفِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ ﴾ ’’اور تم کیسے کفر کرسکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے۔‘‘ یعنی رسول تمھارے اندر موجود ہیں، وہ ہر وقت تمھیں رب کی آیتیں سناتے ہیں۔ یہ واضح آیات ہیں جو بیان کردہ مسائل پر قطعی یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔ اور یہ کہ ان سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں کسی بھی لحاظ سے شک کی گنجائش نہیں۔ خاص طورپر اس لیے بھی کہ اسے بیان کرنے والا وہ انسان(محمدe)ہے، جو تمام مخلوق میں سب سے افضل، زیادہ عالم، زیادہ فصیح، زیادہ مخلص و خیر خواہ اور مومنوں پر زیادہ شفیق، مخلوق کو ہر ممکن طریقے سے ہدایت دینے اور ان کی رہنمائی کرنے کا انتہائی شوق رکھنے والا ہے۔ اللہ کے درود و سلام نازل ہوں آپ کی ذات اقدس پر۔ آپ نے یقیناً خیر خواہی فرمائی اور پوری وضاحت سے اللہ کا دین پہنچا دیا۔ حتیٰ کہ کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہ رہی۔ اور نیکی کے کسی طلب گار کو تلاش کی ضرورت نہ رہی، آخرمیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرے، اس پرتوکل کرے، ہر برائی سے بچاؤ کے لیے اس کی قوت و رحمت کا سہارا تلاش کرے اور ہر خیرکے لیے اس سے مدد طلب کرے ﴿فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی‘‘ جو مطلوب منزل تک پہنچانے والی ہے۔ کیونکہ اس نے رسول اللہeکے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع بھی کی، اور اللہ کا سہارا بھی حاصل کیا۔
آیت: 102 - 105 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (102) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103) وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (104) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (105)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ڈرو اللہ سے جیسا کہ حق ہے اس سے ڈرنے کا اور نہ ہرگز موت آئے تمھیں مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو(102) اور مضبوطی سے پکڑ لو تم اللہ کی رسی اکٹھے اور نہ جدا جدا ہو اور یاد کرو نعمت اللہ کی (جو) تم پر ہوئی، جب تھے تم (باہم) دشمن، پس الفت ڈال دی اس نے درمیان تمھارے دلوں کے، تو ہو گئے تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی) اور تھے تم اوپر کنارے ایک گڑھے کے آگ کے، پس بچایااس نے تم کو اس سے، اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں، شاید کہ تم ہدایت پاؤ(103)اور چاہیے کہ ہو تم میں سے ایک جماعت، جو بلائے طرف خیر کی اور حکم دے ساتھ اچھے کاموں کے اور روکے برے کاموں سے،اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے(104) اور نہ ہو تم مانند ان لوگوں کے جو جدا جدا ہو گئے اور انھوں نے (باہم) اختلاف کیا بعد اس کے کہ آگئیں ان کے پاس واضح دلیلیں اور یہ لوگ، ان کے لیے ہے عذاب بہت بڑا(105)
#
{102 ـ 105} هذه الآيات فيها حث الله عباده المؤمنين أن يقوموا بشكر نعمه العظيمة بأن يتقوه حق تقواه، وأن يقوموا بطاعته وترك معصيته مخلصين له بذلك، وأن يقيموا دينهم ويستمسكوا بحبله الذي أوصله إليهم، وجعله السبب بينهم وبينه وهو دينه وكتابه، والاجتماع على ذلك وعدم التفرق، وأن يستديموا ذلك إلى الممات. وذكرهم ما هم عليه قبل هذه النعمة وهو أنهم كانوا أعداء متفرقين فجمعهم بهذا الدين وألّف بين قلوبهم وجعلهم إخواناً، وكانوا على شفا حفرة من النار فأنقذهم من الشقاء، ونهج بهم طريق السعادة؛ لذلك بين {الله لكم آياته لعلكم تهتدون}؛ إلى شكر الله والتمسك بحبله. وأمرهم بتتميم هذه الحالة، والسبب الأقوى الذي يتمكنون به من إقامة دينهم بأن يتصدى منهم طائفة يحصل فيها الكفاية {يدعون إلى الخير}؛ وهو الدين: أصوله وفروعه وشرائعه {ويأمرون بالمعروف}؛ وهو ما عرف حسنه شرعاً وعقلاً {وينهون عن المنكر}؛ وهو ما عرف قبحه شرعاً وعقلاً {وأولئك هم المفلحون}؛ المدركون لكل مطلوب الناجون من كل مرهوب، ويدخل في هذه الطائفة أهل العلم والتعليم والمتصدون للخطابة ووعظ الناس عموماً وخصوصاً والمحتسبون، الذين يقومون بإلزام الناس بإقامة الصلوات وإيتاء الزكاة والقيام بشرائع الدين، وينهونهم عن المنكرات. فكل من دعا الناس إلى خير على وجه العموم أو على وجه الخصوص، أو قام بنصيحة عامة أو خاصة فإنه داخل في هذه الآية الكريمة. ثم نهاهم عن سلوك مسلك المتفرقين الذين جاءهم الدين والبينات الموجب لقيامهم به واجتماعهم، فتفرقوا واختلفوا وصاروا شيعاً، ولم يصدر ذلك عن جهل وضلال وإنما صدر عن علم وقصد سيئ وبغي من بعضهم على بعض، ولهذا قال: {وأولئك لهم عذاب عظيم}؛ ثم بين متى يكون هذا العذاب العظيم ويمسهم هذا العذاب الأليم فقال:
[105-102] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ اس سے ایسے ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے، پھر اس تقویٰ پر قائم اور ثابت قدم رہیں۔ اور موت تک استقامت ہو۔ کیونکہ انسان جس طرح کی زندگی گزارتا ہے، اسے ویسی ہی موت نصیب ہوتی ہے۔ جو شخص صحت، نشاط اور طاقت کی حالت میں اللہ کے تقویٰ اور اس کی اطاعت پر قائم رہتا ہے، اور ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے موت کے وقت استقامت عطا فرماتا ہے اور اسے حسن خاتمہ سے نوازتا ہے۔ اللہ سے کماحقہ تقویٰ رکھنے کی وضاحت جناب عبداللہ بن مسعودtنے ان الفاظ میں کی ہے: (ھُوَ أَنْ یُّطَاعَ فَلاَ یُعصٰی، وَیُذْکَرَ فَلَا یُنْسٰی وَیُشْکَرَ فَلَا یُکْفَر) ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرماںبرداری کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، فراموش نہ کیا جائے، اس کا شکر کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔‘‘ اس آیت میں وضاحت ہے تقویٰ کے سلسلے میں اللہ کا کیا حق ہے۔ اس بارے میں بندے کا فرض کیا ہے۔ وہ اللہ کے اس فرمان میں بیان ہوا ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن:64؍16)’ ’جہاں تک تمھارا بس چلے، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ دل اور جسم کے متعلق تقویٰ کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس جس کام کا حکم دے، اسے انجام دینا اور جس جس کام سے منع کرے، اس سے باز رہنا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کام کا حکم دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ ہے متحد رہنا، اللہ کے دین پر مضبوطی سے کاربند رہنا، تمام مومنوں کا یک آواز ہونا، مل جل کر رہنا اور اختلاف نہ کرنا۔ دین پر متحد رہنے سے اور باہمی الفت و مودت سے ان کا دین بھی درست رہے گا اور دنیا بھی درست رہے گی۔ اتحاد کی وجہ سے وہ ہر کام کرسکیں گے، اور انھیں وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جن کا دارومدار اتفاق و اتحاد پر ہے۔ یہ فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں نیکی اور تقویٰ میں تعاون بھی ممکن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، باہمی رابطے ٹوٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے ذاتی فائدے کے لیے بھاگ دوڑ کرے گا، اگرچہ اس سے اجتماعی طورپر نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نعمت ذکر فرمائی اور حکم دیا کہ اسے یاد رکھیں ۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءًؔ ﴾ ’’اور اللہ کی اس وقت کی نعمت یاد کرو، جب تم (یہ نعمت حاصل ہونے سے پہلے) ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مال چھینتے تھے، قبیلوں کی قبیلوں سے دشمنی تھی، ایک ہی شہر کے رہنے والے آپس میں عداوت اور جنگ و جدل کا شکار تھے۔ غرض بہت بری حالت تھی۔ یہ وہ حالت ہے جو نبیeکی بعثت سے پہلے عرب میں عام تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتeکو مبعوث فرمایا، اور وہ لوگ ایمان لے آئے، تو وہ اسلام کی بنیاد پر اکٹھے ہوگئے، ان کے دلوںمیں ایمان کی وجہ سے محبت پیدا ہوگئی۔ وہ باہمی محبت اور مدد کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کرگئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاَلَّفَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ﴾ ’’اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَؔكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ ﴾ ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے‘‘ یعنی تم جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ صرف اتنی کسر رہ گئی تھی کہ تمھیں موت آجائے تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ ﴿فَاَنْؔقَذَكُمْ مِّنْهَا ﴾ ’’تو اس نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘ وہ اس طرح کہ تم پر یہ احسان کیا کہ تمھیں محمدeپر ایمان نصیب فرمادیا۔ ﴿كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ ﴾ ’’اللہ اسی طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے‘‘ یعنی ان کی وضاحت اور تشریح کرتا ہے، اور تمھارے لیے حق و باطل اور ہدایت و گمراہی الگ الگ کرکے واضح کردیتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم (حق کو پہچان کر اور اس پر عمل کرکے) ہدایت پاؤ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندے دلوں اور زبانوں کے ساتھ اس کی نعمت کو یاد کریں، تاکہ ان میں شکر اور اللہ کی محبت کے جذبات پروان چڑھیں ا ور اللہ تعالیٰ مزید فضل و احسانات سے نوازے۔ اللہ کی جو نعمت سب سے زیادہ ذکر کیے جانے کے قابل ہے وہ ہے اسلام کا شرف حاصل ہوجانے کی نعمت، اتباع رسول کی توفیق مل جانے کی نعمت اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی موجودگی اور اختلاف و افتراق نہ ہونے کی نعمت۔ مطلب یہ ہے کہ اے مومنو! جن پر اللہ نے ایمان لانے اور اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا ہے، تم میں سے ﴿اُمَّةٌ ﴾ ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے ﴿ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ ﴾ ’’جو بھلائی کی طرف بلائے۔‘‘ (خیر) ’’بھلائی‘‘ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ سے قریب کرنے والی، اور اس کی ناراضی سے دور کرنے والی ہو۔ ﴿ وَؔیَ٘اْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’اور وہ نیک کاموں کا حکم کرے‘‘ (معروف) اسے کہتے ہیں جس کا اچھا ہونا عقل اور شریعت کی روشنی میں معلوم ہوچکا ہو۔ ﴿ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور برے کاموں سے روکے‘‘ (منکر) اسے کہتے ہیں جس کا برا ہونا عقل اور شریعت کے ذریعے سے معلوم ہوچکا ہو۔ اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس کی راہ کی طرف بلائے، اور اس کے دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی، اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کاربند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں، اور انھیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں مثلاً ماپ تول کے پیمانوں اور باٹوں کو چیک کریں، بازار میں خریدوفروخت کرنے والوں کو دھوکا بازی سے اور لین دین کے ان معاملات سے روکیں جو شرعاً ناجائز ہیں۔ یہ سب کام فرض کفایہ ہیں۔ جیسے کہ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿ وَلْتَؔكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ ﴾ ’’تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے، یعنی تم میں ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہیے جس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ جب کسی خاص کام کا حکم دیا جائے، تو اس میں ان تمام کاموں کا حکم شامل ہوتا ہے، جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہوں۔ لہٰذا وہ تمام کام جن پر ان اشیاء کا وجود موقوف ہے، وہ سب ضروری ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جہاد کے لیے طرح طرح کے سامان تیار کرنا، جن سے دشمنوں کا قلع قمع کیا جاسکے اور اسلام کا نام بلند کیا جاسکے، وہ علم سیکھنا جن کی مدد سے نیکی کی طرف بلایا جاسکے۔ علم و رہنمائی کے لیے مدارس کی تعمیر، لوگوں میں شریعت نافذ کرنے کے لیے حکمرانوں کی قولی،عملی اور مالی امداد۔ اور ایسے دوسرے کام جن پر ان امور کادارومدار ہے۔ یہ جماعت جو نیکی کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے کمر بستہ ہے، یہ خاص مومنین ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ یعنی کامیاب ہیں جنھیں مطلوب حاصل ہوگا اور خطرناک نتائج سے محفوظ رہیں گے۔ اس کے بعد انھیں اہل کتاب کی طرح اختلاف و انتشار میں گرفتار ہونے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا ﴾ ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے تفرقہ ڈالا، اور اختلاف کیا‘‘ اور عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے اختلاف بھی کیا تو ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ ﴾ ’’روشن دلیلیں آجانے کے بعد‘‘ حالانکہ ان کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ افتراق و اختلاف نہ ہوتا۔ انھیں دین پر دوسروں کی نسبت زیادہ پابندی اختیار کرنا چاہیےتھی۔ لیکن انھوں نے بالکل الٹ کام کیا حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی مخالفت کررہے ہیں، اس لیے وہ سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے: ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور انھی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
آیت: 106 - 107 #
{يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (107)}.
جس دن کہ سفید ہوں گے کئی چہرے اور سیاہ ہوں گے کئی چہرے۔ پس لیکن وہ لوگ کہ سیاہ ہوں گے چہرے اُن کے (ان سے کہا جائے گا) کیا کفر کیا تھا تم نے بعد اپنے ایمان کے؟ تو (اب) چکھو تم عذاب بہ سبب اس کے جو تھے تم کفر کرتے(106) اور لیکن وہ لوگ کہ سفید ہوں گے چہرے ان کے، پس وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(107)
#
{106 ـ 107} يخبر تعالى بتفاوت الخلق يوم القيامة في السعادة والشقاوة، وأنه تبيض وجوه أهل السعادة، الذين آمنوا بالله، وصدقوا رسله وامتثلوا أمره واجتنبوا نهيه، وأن الله تعالى يدخلهم الجنات ويفيض عليهم أنواع الكرامات وهم فيها خالدون، وتسود وجوه أهل الشقاوة الذين كذبوا رسله وعصوا أمره وفرقوا دينهم شيعاً وأنهم يوبخون فيقال: {أكفرتم بعد إيمانكم}؛ فكيف اخترتم الكفر على الإيمان {فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون}.
[107,106] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ اس دن عدل اور فضل کی بنیاد پر ملنے والی جزا و سزا کے اثرات بیان فرمائے ہیں۔ اس بیان کا مقصد ترغیب وترہیب ہے جس کا فائدہ خوف اور امید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَّوْمَ تَ٘بْیَضُّ وُجُوْهٌ ﴾ ’’جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے‘‘ وہ خوش نصیبوں اور نیکی کرنے والوں کے چہرے ہوں گے، جنھوں نے آپس میں الفت و محبت رکھی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ﴿ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ﴾ ’’اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے‘‘ وہ بدنصیبوں اوربدکاروں کے چہرے ہوں گے، جو اختلاف و افتراق پیدا کرنے والے تھے۔ ذلت و رسوائی کی وجہ سے ان کے دلوں کی جو کیفیت ہوگی، اس کے نتیجے میں ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ اور نیک لوگوں کو نعمتیں اور خوشیاں نصیب ہوں گی، ان کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے۔ اور ان کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا﴾ (الدہر:76؍11) ’’اور انھیں تازگی اور خوشی پہنچائی‘‘ تروتازہ ہونے کا تعلق چہروں سے ہے، اور خوشی دلوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَا١ۙ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ١ۚ كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ (یونس:1؍27) ’’جنھوں نے گناہ کمائے تو ہر برائی کا بدلہ اس کے برابر ہے۔ اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ انھیں اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ یوں ہوگا گویا ان کے چہروں پر رات کے تاریک ٹکڑے اوڑھا دیے گئے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ ﴾ ’’اور جن کے چہرے سیاہ ہوں گے‘‘انھیں ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے انداز سے کہا جائے گا: ﴿ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ﴾ ’’کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا‘‘ یعنی تم نے ہدایت اور ایمان کے بجائے کفر و ضلالت کو کیوں ترجیح دی؟ تم نے ہدایت والا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ﴿ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ اب ’’اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو‘‘ تمھارے لائق صرف جہنم کا مقام ہے تم صرف ذلت و رسوائی کے مستحق ہو۔ ﴿ وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ ﴾ ’’اور جن کے چہرے سفید ہوں گے‘‘ انھیں مبارک باد دی جائے گی، اورعظیم ترین بشارت ملے گی، یعنی انھیں جنت میں داخلے کی، رب کی خوشنودی کی اور اس کی رحمت کی خوش خبری دی جائے گی۔ ﴿ فَ٘فِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’وہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ چونکہ وہ ہمیشہ رحمت میں رہیں گے اور جنت بھی اللہ کی رحمت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے جس میں دائمی نعمتیں اور سلامتی والی زندگی ہوگی۔ وہ ارحم الراحمین کے پڑوس میں ہوں گے۔
آیت: 108 - 109 #
{تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ (108) وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (109)}.
یہ آیتیں ہیں اللہ کی، پڑھتے ہیں ہم ان کو آپ پر ساتھ حق کے اور نہیں اللہ ارادہ کرتا ظلم کرنے کا جہان والوں کے لیے(108) اور اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور طرف اللہ ہی کی لوٹائے جاتے ہیں سب معاملات(109)
#
{108} يثني تعالى على ما قصه على نبيه من آياته التي حصل بها الفرقان بين الحق والباطل وبين أولياء الله وأعدائه، وما أعده لهؤلاء من الثواب وللآخرين من العقاب، وأن ذلك مقتضى فضله وعدله وحكمته، وأنه لم يظلم عباده ولم ينقصهم من أعمالهم أو يعذب أحداً بغير ذنبه أو يحمل عليه وزر غيره. ولما ذكر أن له الأمر والشرع ذكر أن له تمام الملك والتصرف والسلطان فقال:
[108] جب اللہ تعالیٰ نے احکام و اوامر بھی بتا دیے اور ان کی جزا بھی بیان فرمادی، تو اس کے بعد فرمایا: ﴿ تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’یہ اللہ کی آیتیں ہیں، جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک بیان کررہے ہیں‘‘ کیونکہ اس کے اوامر و نواہی حکمت و رحمت پر اور جزا و سزا پر مشتمل ہیں۔ اس طرح وہ حکمت و رحمت پر اور عدل پر مشتمل ہیں جن میں ظلم کا کوئی شائبہ نہیں‘‘ اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں‘‘ ظلم کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ظلم کا ارادہ بھی نہیں فرماتا۔ لہٰذا کسی کی نیکیوں میں کمی نہیں کرتا، اور ظالموں کے ظلم میں اضافہ نہیں فرماتا، بلکہ صرف ان کے کیے ہوئے اعمال کی سزا دیتا ہے۔
#
{109} {ولله ما في السموات وما في الأرض وإلى الله ترجع الأمور}؛ فيجازي المحسنين بإحسانهم والمسيئين بعصيانهم، وكثيراً ما يذكر الله أحكامه الثلاثة مجتمعة يبين لعباده أنه الحاكم المطلق فله الأحكام القدرية والأحكام الشرعية والأحكام الجزائية، فهو الحاكم بين عباده في الدنيا والآخرة، ومن سواه من المخلوقات محكوم عليها ليس لها من الأمر شيء.
[109] یعنی آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اس سب کا مالک وہی ہے۔ جس نے انھیں پیدا کیا، انھیں رزق دیا، اور اپنی قضا و قدر کے مطابق اور اپنی شریعت اور احکام کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ قیامت کے دن وہ اسی کے پاس واپس جائیں گے، پھر وہ انھیں اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔
آیت: 110 - 111 #
{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ (110) لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ (111)}.
ہو تم بہترین امت جو نکالی (بنائی) گئی ہے لوگوں کے لیے، تم حکم کرتے ہو ساتھ اچھے کاموں کے اور روکتے ہو برے کاموں سے اور ایمان رکھتے ہو تم ساتھ اللہ کےاور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو البتہ ہوتا بہت بہترین ان کے لیے، بعض ان میں سے ایمان لانے والے ہیں اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں(110) وہ ہرگز نہیں ضرر پہنچا سکیں گے تمھیں مگر ایذا تھوڑی سی اور اگر لڑیں وہ تم سے تو پھیر دیں گے تمھاری طرف پیٹھیں ، پھر نہیں مدد کیے جائیں گے وہ(111)
#
{110 ـ 111} هذا تفضيل من الله لهذه الأمة بهذه الأسباب، التي تميزوا بها وفاقوا بها سائر الأمم، وأنهم خير الناس للناس نصحاً ومحبة للخير ودعوة وتعليماً وإرشاداً وأمراً بالمعروف ونهياً عن المنكر وجمعاً بين تكميل الخلق والسعي في منافعهم بحسب الإمكان، وبين تكميل النفس بالإيمان بالله والقيام بحقوق الإيمان، وأن أهل الكتاب لو آمنوا بمثل ما آمنتم به لاهتدوا وكان خيراً لهم ولكن لم يؤمن منهم إلا القليل، وأما الكثير فهم فاسقون خارجون عن طاعة الله وطاعة رسوله محاربون للمؤمنين ساعون في إضرارهم بكل مقدورهم، ومع ذلك فلن يضروا المؤمنين إلا أذى باللسان، وإلا فلو قاتلوهم لولوا الأدبار ثم لا ينصرون. وقد وقع ما أخبر الله به، فإنهم لما قاتلوا المسلمين ولوا الأدبار ونصر الله المسلمين عليهم.
[111,110] اللہ تعالیٰ اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں، یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے۔ اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پرعمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کے لیے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں ،یعنی اس فرمان الٰہی میں: ﴿وَلْتَؔكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَؔیَ٘اْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیک کاموں کا حکم کرے، اور برے کاموں سے روکے۔‘‘ اللہ کی طرف سے اس امت کو ایک حکم دیا گیا تھا۔ اور جسے حکم دیا جائے وہ بعض اوقات حکم کی تعمیل کرتا ہے اور بعض اوقات تعمیل نہیں کرتا۔ لہٰذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس امت نے وہ کام انجام دیا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا تھا، اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ہے اور تمام امتوں سے افضل قرار پانے کی مستحق ہوگئی ہے۔ ﴿ وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَـكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ﴾ ’’اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نرم انداز اختیار کرتے ہوئے اہل کتاب کو ایمان کی دعوت دی ہے۔ لیکن ان میں سے بہت کم افراد ایمان لائے۔ زیادہ فاسق، اللہ کے نافرمان اور اللہ کے دوستوں سے طرح طرح سے دشمنی کا اظہار کرنے والے تھے۔ لیکن اللہ کا اپنے مومن بندوں پر یہ لطف و کرم ہے کہ اس نے دشمن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ اور مومنوں کو ان سے نہ دینی نقصان پہنچا، نہ جسمانی، وہ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زبان سے تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ اور یہ چیز ایسی ہے کہ اس سے کوئی بھی دشمن بچ نہیں سکتا۔ اگر وہ مومنوں سے جنگ کریں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
آیت: 112 #
{ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (112)}.
مسلط کر دی گئی ان پر ذلت، جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں مگر ساتھ پناہ کے اللہ کی اور (ساتھ) پناہ کے لوگوں کی اور لوٹے وہ ساتھ غضب کے اللہ کی طرف سےاور مسلط کر دی گئی ان پر محتاجی، یہ اس سبب سے کہ بے شک تھے وہ کفر کرتے ساتھ آیتوں کے اللہ کی اورقتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق، یہ بہ سبب اس کے کہ نافرمانی کی انھوں نے اور تھے وہ زیادتی کرتے(112)
#
{112} هذا إخبار من الله تعالى أن اليهود ضربت عليهم الذلة فهم خائفون أينما ثقفوا، ولا يؤمنهم شيء إلا معاهدة وسبب يأمنون به يرضخون لأحكام الإسلام ويعترفون بالجزية أو بحبلٍ {من الناس}؛ أي: إذا كانوا تحت ولاية غيرهم ونظارتهم كما شوهد حالهم سابقاً ولاحقاً، فإنهم لم يتمكنوا في الوقت الأخير من الملك المؤقت في فلسطين إلا بنصر الدول الكبرى وتمهيدهم لهم كل سبب {وباؤوا بغضب من الله}؛ أي: قد غضب الله عليهم وعاقبهم بالذلة والمسكنة، والسبب في ذلك كفرهم بآيات الله وقتلهم الأنبياء {بغير حق}، أي: ليس ذلك عن جهل وإنما هو بغي وعناد، تلك العقوبات المتنوعة عليهم {بما عصوا وكانوا يعتدون}؛ فالله تعالى لم يظلمهم ويعاقبهم بغير ذنب، وإنما الذي أجراه عليهم بسبب بغيهم وعدوانهم وكفرهم وتكذيبهم للرسل وجناياتهم الفظيعة.
[112] ان کی یہ ہزیمت دائمی ہوگی، اور ان کی ذلت ہمیشہ رہے گی۔ ان کی کبھی مدد نہیں کی جائے گی، اس لیے اللہ نے ان کا انجام یہ بتایا کہ باطنی طورپر وہ ذلت کا شکار ہوں گے اور ظاہری طورپر فقر و مسکنت کا۔ لہٰذا وہ کہیں اطمینان اور سکون سے نہیں رہ سکیں گے۔ ﴿ اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ﴾ ’’مگر یہ کہ اللہ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں‘‘ اس لیے یہودی یا تو مسلمانوں سے معاہدہ کرکے ان کے ماتحت (ذمی بن کر) رہیں گے، ان سے جزیہ لیا جائے گا۔ وہ ذلیل ہوں گے۔ یا نصاریٰ کے ماتحت ہوں گے۔ ﴿ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ غضب الٰہی کے مستحق ہو گئے‘‘ اور یہ سب سے بڑی سزا ہے۔ وہ اس حال کو کیوں پہنچے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْ٘فُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے‘‘ یہ لوگ ان آیتوں کا انکار کرتے تھے جنھیں اللہ نے اپنے رسول محمدeپر نازل کیا ہے، جن سے ایمان اور یقین حاصل ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے سرکشی اور عناد کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔ ﴿ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ۠ بِغَیْرِ حَقٍّ ﴾ ’’اور انبیاء کو بے وجہ قتل کرتے تھے‘‘ وہ انبیاء جو ان پر سب سے عظیم احسان کرتے تھے، وہ اس احسان کے بدلے میں بدترین سلوک کرتے تھے، یعنی انھیں شہید کردیتے تھے۔ کیا اس جسارت اور اس جرم سے بڑھ کر بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ ان سب بداعمالیوں کی وجہ ان کی نافرمانی اورظلم تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور انبیائے کرام کو شہید کرنے کی جسارت کی۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت: 113 - 115 #
{لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ (114) وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (115)}.
نہیں ہیں وہ (سب) برابر، اہل کتاب میں سے ایک جماعت ہے (حق پر) قائم، تلاوت کرتے ہیں وہ آیتیں اللہ کی رات کی گھڑیوں میں اور وہ سجدہ کرتے ہیں(113)ایمان لاتے ہیں وہ ساتھ اللہ کے اور دن آخرت کے اور حکم کرتے ہیں ساتھ اچھے کاموں کے اور روکتے ہیں وہ برے کاموں سے اور جلدی کرتے ہیں وہ بھلائیوں میں اور یہی لوگ ہیں صالحین میں سے(114) اور جو کچھ کریں گے وہ بھلائی سے، پس ہرگز نہیں محروم کیے جائیں گے وہ اس (کے ثواب) سے اور اللہ خوب جاننے والا ہے پرہیزگاروں کو(115)
#
{113 ـ 114} لما ذكر الله المنحرفين من أهل الكتاب بيَّن حالة المستقيمين منهم وأن منهم أمة مقيمون لأصول الدين وفروعه {يؤمنون بالله واليوم الآخر ويأمرون بالمعروف}؛ وهو الخير كله، وينهون عن المنكر وهو جميع الشر، كما قال تعالى: {ومن قوم موسى أمة يهدون بالحق وبه يعدلون}؛ و {يسارعون في الخيرات}؛ والمسارعة إلى الخيرات قدر زائد على مجرد فعلها، فهو وصف لهم بفعل الخيرات والمبادرة إليها وتكميلها بكل ما تتم به من واجب ومستحب.
[114,113] جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے فاسق گروہ کا ذکر کیا، ان کی بداعمالیاں اور ان کی سزائیں بیان کیں، تو ان آیات میں حق پر قائم رہنے والی جماعت کا ذکر فرمایا، ان کے نیک اعمال اور ان کا ثواب ذکر فرمایا۔ اور یہ بتایا کہ اللہ کے نزدیک یہ دونوں گروہ برابر نہیں۔ بلکہ ان کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس فاسق گروہ کا ذکر تو پہلے ہوچکا۔ باقی رہے یہ مومن ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں ﴿ اُمَّةٌ قَآىِٕمَةٌ ﴾ ایک جماعت اللہ کے دین پرقائم رہنے والی، اور اللہ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے ان پر عمل پیرا رہنے والی ہے۔ ان نیک اعمال میں نماز قائم کرنا بھی شامل ہے۔ ﴿ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُوْنَ ﴾ ’’وہ راتوں کے وقت کلام اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں‘‘ یہ رات کے اوقات میں ادا کی جانے والی ان کی نمازوں کا بیان ہے کہ وہ طویل تہجد پڑھتے ہیں، اور اپنے رب کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ کے لیے خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع اور سجدے کرتے ہیں۔ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’اللہ پر اور قیامت کے دن پرایمان بھی رکھتے ہیں‘‘ جس طرح مسلمانوں کا ایمان ان کے لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر، اور اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر ایمان رکھیں ۔ وہ بھی اس طرح کا ایمان رکھتے ہیں۔ قیامت پر ایمان کا خاص طورپر ذکر فرمایا، کیونکہ قیامت پر صحیح یقین و ایمان ہی مومن کو ان اعمال پر آمادہ کرتا ہے جو اسے اللہ سے قریب کرتے ہیں۔ اور جن کا قیامت کو ثواب ملے گا۔ اور ہر اس عمل کے ترک پر آمادہ کرتا ہے جس سے اس دن سزا ملے۔ ﴿ وَیَ٘اْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں‘‘ اس طرح ان سے یہ عمل انجام پاتا ہے۔ ایمان اور ایمان کے لوازم کے ذریعے سے اپنی تکمیل کرتے ہیں، اور دوسروں کو ہر نیکی کا حکم دے کر ہر برائی سے منع کرکے دوسروں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو اور دوسرے لوگوں کو محمدeپر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ پھر ان کی عالی ہمتی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ﴿ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ ﴾ ’’بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں‘‘ نیکی کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور جب بھی ہوسکے فوراً نیکی کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی کی شدید رغبت اور خواہش رکھتے ہیں، اور اس کے فوائد و ثمرات سے خوب واقف ہیں۔ یہ لوگ جن کی تعریف اللہ نے ان عمدہ صفات اور عظیم اعمال کے ساتھ کی ہے۔ ﴿ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’یہی نیک لوگوں میں سے ہیں‘‘ جنھیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کرے گا، انھیں اپنی بخشش کے سائے میں لے لے گا، اور انھیں اپنے فضل و احسان سے نوازے گا۔
#
{115} ثم بين تعالى أن كل ما فعلوه من خير قليل أو كثير فإن الله تعالى سيقبله حيث كان صادراً عن إيمان وإخلاص، {فلن يكفروه}؛ يعني لن ينكر ما عملوه ولن يهدر {والله عليم بالمتقين}؛ وهم الذين قاموا بالخيرات وتركوا المحرمات لقصد رضا الله وطلب ثوابه.
[115] ﴿ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ﴾ ’’اور یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں‘‘ تھوڑی ہوں یا زیادہ ﴿ فَلَ٘نْ یُّكْ٘فَرُوْهُ ﴾’’ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی‘‘ انھیں ان کے ثواب سے محروم نہیں رکھا جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں ان اعمال کا مکمل ترین ثواب دے گا۔ لیکن اعمال کے ثواب کا دارومدارعمل کرنے والے کے دل میں موجود ایمان و تقویٰ پر ہوتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ۠ ﴾ ’’اور اللہ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے‘‘ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ہے: ﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ (المائدۃ:5؍27) ’’اللہ صرف پرہیز گاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔‘‘
آیت: 116 - 117 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (116) مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (117)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہرگز نہیں کفایت کریں گے ان سے مال ان کے اور نہ اولاد ان کی اللہ (کے عذاب) سے کچھ بھی اور یہ لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(116) مثال اس کی جو خرچ کرتے ہیں وہ اس زندگانیٔ دنیا میں مانند مثال سخت ہوا کی ہے، اس میں ہو سخت سردی، پہنچی وہ کھیتی کو ایک قوم کی، جس نے ظلم کیا تھا اپنی جانوں پر اور تہس نہس کر دیا اسےاور نہیں ظلم کیا ان پر اللہ نے لیکن وہ اپنے نفسوں پر (خود ہی) ظلم کرتے تھے(117)
#
{116 ـ 117} بين تعالى أن الكفار الذين كفروا بآيات الله وكذبوا رسله أنه لا ينقذهم من عذاب الله منقذ ولا ينفعهم نافع ولا يشفع لهم عند الله شافع، وأن أموالهم وأولادهم التي كانوا يعدونها للشدائد والمكاره لا تفيدهم شيئاً وأن نفقاتهم التي أنفقوها في الدنيا لنصر باطلهم ستضمحل، وأن مثلها {كمثل}؛ حرث أصابته {ريح}؛ شديدة {فيها صر}؛ أي: برد شديد أو نار محرقة فأهلكت ذلك الحرث وذلك بظلمهم فلم يظلمهم الله، ويعاقبهم بغير ذنب، وإنما ظلموا أنفسهم. وهذه كقوله تعالى: {إن الذين كفروا ينفقون أموالهم ليصدوا عن سبيل الله فسينفقونها ثم تكون عليهم حسرة ثم يغلبون}.
[117,116] اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ کافروں کو ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، یعنی اللہ کے عذاب سے بچانے میں یا اللہ سے ثواب کے حصول میں معمولی سا بھی فائدہ نہیں دیں گی۔ جیسے فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُؔكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْ٘فٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ (سبا:34؍37) ’’یہ تمھارے مال اور تمھاری اولادیں ايسی نہیں کہ جوتمھیں ہمارا قرب بخش سکیں، لیکن جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے (اسے قرب حاصل ہوگا)‘‘ بلکہ ان کے مال و اولاد جہنم کی طرف سفر میں ان کا زاد راہ ہیں۔ اللہ کی نعمتوں میں اضافے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا شکر ادا کیا جائے، لیکن ان کے لیے یہ چیزیں شکر نہ کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف حجت ہوں گی، اس لیے ان پر شکر نہ کرنے اور ناشکری کی پاداش میں انھیں سزا دی جائے گی۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’یہ تو جہنمی ہیں، جو ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔‘‘ پھر اللہ نے کافروں کے مال خرچ کرنے کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی کہ وہ لوگ مال خرچ کرکے اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، تو یہ کوششیں ناکام رہیں گی، جیسے کوئی شخص فصل بوئے اسے اس کانتیجہ ملنے اور اس سے پیداوار حاصل ہونے کی امید ہو، اچانک کھیتی پر ایک سخت ٹھنڈی ہوا چلے جس سے کھیتی تباہ ہوجائے۔ اس کے حصے میں صرف محنت، مشقت اور حسرت و افسوس ہی آئے۔ کافروں کا بھی یہی حال ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ﴾ (الانفال:8؍36) ’’بے شک کافر اپنے مال اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائیں گے، پھر یہ مغلوب ہوجائیں گے‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔‘‘ کہ ان کے عمل ضائع کردیے۔ ﴿وَلٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‘‘ وہ اس طرح کہ انھوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کے نورکو بجھانے کی کوشش کی۔ ان بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں اور مال تباہ ہوگئے۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت: 118 - 120 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (118) هَاأَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (119) إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (120)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ تم دلی دوست سوائے اپنے (لوگوں) کے، نہیں کمی کرتے وہ تمھیں برباد کرنے میں، وہ چاہتے ہیں یہ کہ تکلیف میں پڑو تم،تحقیق ظاہر ہو چکا ہے بغض ان کے مونہوں سےاور جو چھپاتے ہیں ان کے سینے، وہ بہت بڑا ہے، تحقیق بیان کیا ہم نے تمھارے لیے نشانیوں کو اگر ہو تم عقل رکھتے(118) خبردار! تم ہی وہ لوگ ہو کہ محبت رکھتے ہو تم ان سے اور نہیں محبت رکھتے وہ تم سے اور تم ایمان رکھتے ہو سب کتابوں پراور جب وہ ملتے ہیں تم سے تو کہتے ہیں، ایمان لائے ہم اور جب تنہا ہوتے ہیں تو کاٹتے ہیں اوپر تمھارے انگلیاں (اپنی) غصے سے، کہہ دیجیے! مر جاؤ تم ساتھ اپنے غصے ہی کے، بلاشبہ اللہ خوب جاننے والا ہے سینوں کے راز (119)اگر پہنچے تمھیں کوئی بھلائی تو بری لگتی ہے ان کواور اگر پہنچے تمھیں کوئی برائی تو خوش ہوتے ہیں ساتھ اس کے اور اگر صبر کرو تم اور تقویٰ اختیار کرو تو نہیں نقصان پہنچائے گا تمھیں مکر ان کا کچھ بھی، بلاشبہ اللہ اس کو، جو وہ کرتے ہیں، گھیرنے والا ہے(120)
#
{118 ـ 119} هذا تحذير من الله لعباده عن ولاية الكفار واتخاذهم بطانة أو خصيصة وأصدقاء، يسرون إليهم ويفضون لهم بأسرار المؤمنين، فوضح لعباده المؤمنين الأمور الموجبة للبراءة من اتخاذهم بطانة، بأنهم {لا يألونكم خبالاً} أي حريصون غير مقصرين في إيصال الضرر بكم، وقد بدت البغضاء من كلامهم وفلتات ألسنتهم وما تخفيه صدورهم من البغضاء والعداوة {أكبر} مما ظهر لكم من أقوالهم وأفعالهم، فإن كانت لكم فهوم وعقول فقد وضح الله لكم أمرهم، وأيضاً فما الموجب لمحبتهم واتخاذهم أولياء وبطانة، وقد تعلمون منهم الانحراف العظيم في الدين وفي مقابلة إحسانكم؟ فأنتم مستقيمون على أديان الرسل تؤمنون بكل رسول أرسله الله وبكل كتاب أنزله الله وهم يكفرون بأجلّ الكتب وأشرف الرسل، وأنتم تبذلون لهم من الشفقة والمحبة ما لا يكافئونكم على أقل القليل منه، فكيف تحبونهم وهم لا يحبونكم وهم يداهنونكم وينافقونكم، فإذا لقوكم {قالوا آمنا وإذا خلوا} مع بني جنسهم {عضوا عليكم الأنامل} من شدة الغيظ والبغض لكم ولدينكم، قال تعالى: {قل موتوا بغيظكم}؛ أي: سترون من عز الإسلام وذل الكفر ما يسوءكم، وتموتون بغيظكم فلن تدركوا شفاء ذلك بما تقصدون {إن الله عليم بذات الصدور}؛ فلذلك بين لعباده المؤمنين ما تنطوي عليه صدور أعداء الدين من الكفار والمنافقين.
[120-118] اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس بات سے منع فرماتا ہے کہ وہ اہل کتاب کے یا دوسرے مذاہب کے منافقوں کو دلی دوست بنائیں، انھیں اپنے راز بتائیں یا بعض اسلامی ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دشمن ہیں جن کے دل بغض و عداوت سے بھرے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ عداوت ان کی زبان سے بلا ارادہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ ﴿ وَمَا تُ٘خْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَ كْبَرُ ﴾ ’’اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہوجانے والی دشمنی سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ اسی لیے ﴿ لَا یَاْلُوْنَؔكُمْ خَبَالًا ﴾ ’’وہ تمھاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے‘‘ یعنی تمھیں نقصان پہنچانے اور مشکلات پیدا کرنے میں کمی نہیں کرتے۔ وہ ایسے اسباب پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں تمھیں نقصان پہنچے اور تمھارے خلاف تمھارے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں سے فرماتا ہے: ﴿قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم نے تمھارے لیے آیتیں بیان کردی ہیں‘‘ جن میں تمھاری دینی اور دنیاوی مصلحتیں اور فوائد موجود ہیں۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’اگر تم عقل مند ہو‘‘ تو ان نشانیوں کو پہچان کر دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کرو، کیونکہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے ہم راز بنایا جائے۔عقل مند وہ ہوتا ہے جسے اگر دشمن سے میل جول رکھنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس سے میل جول صرف ظاہری معاملات میں ہو، اور اپنے اندرونی معاملات اسے نہ بتائے۔ اگرچہ دشمن کتنی ہی چاپلوسی کرے اور قسمیں کھائے کہ وہ دوست ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودی اور عیسائی منافقوں سے احتیاط کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کی شدید دشمنی کو واضح کرتا ہے۔ ارشاد ہے ﴿ هٰۤاَ نْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّ٘هٖ ﴾ ’’ہاں، تم تو انھیں چاہتے ہو، اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم پوری کتاب کو مانتے ہو‘‘ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل کی ہیں۔ حالانکہ وہ تمھاری کتاب، قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ بلکہ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو اوپر اوپر سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿ وَاِذَا لَقُوْؔكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖ ۗۚ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ﴾ ’’اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔ لیکن تنہائی میں تم پر غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں‘‘ ﴿الْاَنَامِلَ﴾ کا مطلب ’’انگلیوں کے سرے۔‘‘ ﴿ قُ٘لْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ ’’کہہ دو! اپنے غصے میں ہی مرجاؤ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے۔‘‘ اس میں مومنوں کے لیے خوش خبری ہے کہ یہ دشمن تمھیں نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔ وہ اپنے غصے کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں۔ وہ مرتے دم تک دنیا کا یہ عذاب سہتے رہیں گے اور مرنے کے بعد دنیا کے عذاب سے آخرت کے عذاب کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ ﴿ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ ﴾ ’’تمھیں اگر بھلائی ملے‘‘ مثلاً: دشمنوں پر فتح نصیب ہو یا غنیمت حاصل ہو ﴿ تَسُؤْهُمْ ﴾ ’’تو یہ ناخوش ہوتے ہیں‘‘ یعنی انھیں اس سے غم ہوتا ہے ﴿ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا١ؕ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّؔكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔـا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ﴾ ’’اور اگر تمھیں برائی پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ اور تم اگر صبر کرو اورپرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمھیں کچھ نقصان نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کا احاطہ کررکھا ہے۔‘‘ لہٰذا جب تم ان اسباب کو عملی جامہ پہناؤ جن پر اللہ نے مدد کا وعدہ کررکھا ہے، یعنی صبرا ور تقویٰ اختیار کرو، تو ان کا مکر تمھیں نقصان نہ دے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے مکر کو انھی پر الٹ دے گا۔ کیونکہ اس کا علم اور اس کی قدرت ان کو گھیرے ہوئے ہے، وہ اس کی قدرت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اور ان کی کوئی بات اللہ سے چھپی نہیں رہ سکتی۔
آیت: 121 - 127 #
{وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (121) إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (122) وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (123) إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ (124) بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ (125) وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (126) لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ (127)}.
اور جب صبح کو نکلے آپ اپنے گھر والوں (کے پاس) سے، بٹھاتے تھے آپ مومنوں کو مورچوں پر لڑائی کے لیےاور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے(121) جب ارادہ کیا دو گروہوں نے تم میں سے یہ کہ وہ بزدلی کریں اور اللہ دوست تھا ان کااور اللہ ہی پر پس چاہیے کہ توکل کریں مومن (122)اور البتہ تحقیق مدد کی تمھاری اللہ نے بدر میں جبکہ تم کمزور تھے، پس ڈرو تم اللہ سے تاکہ تم شکر کرو(123) جب کہتے تھے آپ مومنوں سے، کیا ہرگز نہ کفایت کرے گی تمھیں یہ بات کہ مدد کرے تمھاری تمھارا رب ساتھ تین ہزار فرشتوں کے، اتارے ہوئے (آسمان سے)؟ (124) کیوں نہیں (ہاں) ! اگر تم صبر کرو اور ڈرو اور وہ (دشمن) آجائے تمھارے پاس اسی دم تو مدد کرے گا تمھاری، تمھارا رب ساتھ پانچ ہزار فرشتوں کے (وہ خاص) نشان لگائے ہوں گے(125) اور نہیں کیا اس کو اللہ نے مگر خوش خبری تمھارے لیے اور تاکہ مطمئن ہو جائیں تمھارے دل ساتھ اس کےاور نہیں ہے مدد مگر اللہ ہی کی طرف سے (جو) زبردست حکمت والاہے(126)تاکہ کاٹ (ہلاک کر) دے وہ ایک گروہ کو ان میں سے جنھوں نے کفر کیا یا ذلیل کرے ان کو، پس پھریں وہ نامراد ہو کر(127)
#
{121} وذلك يوم أحد حين خرج - صلى الله عليه وسلم - بالمسلمين، حين وصل المشركون بجمعهم إلى قريب من أحد، فنزَّلهم - صلى الله عليه وسلم - منازلهم، ورتبهم في مقاعدهم، ونظمهم تنظيماً عجيباً، يدل على كمال رأيه وبراعته الكاملة في علوم السياسة، كما كان كاملاً في كل المقامات، {والله سميع عليم}؛ لا يخفى عليه شيء من أموركم.
[121] یہ آیات واقعۂ احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اس کا قصہ معروف ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے، اور اس کے درمیان میں بدر کا واقعہ لے آنے میں غالباً یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا، اور دشمن کی سازشوں سے انھیں محفوظ فرمائے گا۔ یہ ایک عام حکم اور سچا وعدہ تھا، جس کی شرائط پوری کی جاتیں تو اس کا پورا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو قصوںمیں اس کا ایک نمونہ پیش فرما دیا کہ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کی مدد اس لیے فرمائی تھی کہ انھوں نے صبر کیا اورتقویٰ اختیار کیا، اور احد میں انھیں دشمنوں کے ہاتھوں اس لیے نقصان پہنچا کہ ان میں سے بعض افراد سے ایسی غلطی ہوگئی جو تقویٰ کے منافی تھی، دونوں واقعات اکٹھے بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ اللہ کو بندوں کا یہ عمل پسند ہے کہ جب انھیں کوئی نا خوشگوار صورت حال پیش آجائے تو انھیں وہ نعمت یاد کرنی چاہیے جو انھیں پسند ہے، تو ان کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور وہ اس بڑی نعمت پر رب کا شکر کریں گے۔ جس کے مقابلے میں یہ ظاہری مصیبت، جو حقیقت میں نعمت ہی ہے، بڑی نعمت کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ﴿ اَوَلَمَّؔاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا ﴾ ’’کیابات ہے کہ جب تمھیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے۔‘‘ واقعۂ احد کا خلاصہ یہ ہے کہ جب 2ھ میں جنگ بدر کے بعد بچے کھچے مشرکین مکہ پہنچے، تو انھوں نے اپنی طاقت کے مطابق مال، افراد اور اسلحہ کے ساتھ بھرپور تیاری کی، حتیٰ کہ اتنا کچھ جمع ہوگیا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا مقصود حاصل کرنے اور اپنا غصہ نکالنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تب وہ تین ہزار جنگجو افراد کا لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ کے قریب آٹھہرے۔ نبی اکرمeنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو طے پایا کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ نبیeایک ہزار آدمی لے کر روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد عبداللہ بن ابی (منافق) اپنے جیسے تین سو افراد لے کر واپس پلٹ گیا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد میں ایک تہائی مقدار کی کمی ہوگئی۔ مومنوں کے دو گروہ بھی پلٹ جانے کا سوچنے لگے۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے قبائل تھے۔ اللہ نے انھیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب احد کے مقام پر پہنچے تو نبیeنے لشکر کو ترتیب دے کر ان کے مختلف دستے اپنے اپنے مقام پر متعین فرمائے۔ احد کا پہاڑ ان کی پشت کی طرف تھا۔ انھوں نے اپنی پیٹھیں احد کی طرف رکھیں ۔ نبیeنے پچاس صحابہ کرام کو احد کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا، اور انھیں حکم دیا کہ وہیں ٹھہرے رہیں، اور وہ جگہ نہ چھوڑیں، تاکہ پیچھے سے دشمن کے حملہ کا خطرہ نہ رہے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کے مابین جنگ ہوئی تو مشرکوں کو بری طرح شکست ہوئی، وہ اپنی لشکر گاہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرکے انھیں قتل اور قید کرنا شروع کردیا۔ جن تیر اندازوں کو نبیeنے پہاڑ پر متعین فرمایا تھا، جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی تو (انھوں نے سوچا کہ اب ہمارا فرض مکمل ہوگیا ہے، اس لیے) انھوں نے آپس میں کہا، غنیمت! غنیمت! ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جبکہ مشرکین شکست کھاچکے ہیں۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرtنے انھیں نصیحت فرمائی کہ رسول اللہeکی حکم عدولی نہ کریں۔ لیکن دوسروں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ جب انھوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں صرف چند افراد رہ گئے، تو مشرکین کا گھڑسوار دستہ اس گھاٹی سے آگیا اور مسلمانوں کے پیچھے آکر لشکر کے پچھلے دستے پر حملہ کردیا۔ تب مسلمان کچھ ادھر ادھر ہوئے، جو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ جس سے ان کے گناہ معاف ہوئے، اور تعمیل حکم میں کوتاہی کی سزا مل گئی۔ اس کے نتیجے میں جن کی قسمت میں شہادت تھی، وہ شہید ہوگئے۔ آخرکار مسلمان جبل احد کی چوٹی کی طرف جمع ہوگئے۔اللہ نے مشرکین کے ہاتھوں کو روک دیا اور وہ لوگ اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ رسول اللہeاور صحابہ کرام مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ ﴾ ’’اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ اپنے گھر سے نکلے‘‘ اس مقام پر (غدوت) کامطلب ’’مطلقاً نکلنا ہے‘‘ صبح کے وقت نکلنا نہیں۔ کیونکہ نبیeاور صحابہ کرامyجمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ ﴿ تُبَوِّئُ الْ٘مُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ﴾ ’’مومنوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے‘‘ یعنی آپ انھیں ترتیب دے رہے تھے۔ اور ہر ایک کو اس مقام پر ٹھہرا رہے تھے جو اس کے لیے مناسب تھا۔ اس میں نبیeکی عظیم تعریف ہے کہ آپ بنفس نفیس ان کو منظم فرما رہے تھے اور جنگ کے لیے مناسب مقامات پر ٹھہرا رہے تھے۔ اس کی وجہ آپ کے علم و فراست کا کمال، دور اندیشی اور بلند ہمتی تھی۔ علاوہ ازیں آپ کامل شجاعت سے بہرہ ور تھے، صلوات اللہ وسلامہ علیہ ﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے‘‘ جو ہر بات سنتا ہے۔ مومنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور منافقوں کی بھی۔ ہر ایک کی بات چیت سے اس کے دل کے جذبات، احساسات اور خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی نیتوں کو جانتا ہے، وہ ان کے مطابق انھیں مکمل بدلہ عطا فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ تمھاری حفاظت کرتاہے۔ تمھارے معاملات سنوارتا ہے۔ اور تمھیں اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰuاور ہارونuسے بھی اسی طرح فرمایا تھا: ﴿ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَاَرٰى ﴾ (طٰہٰ:20؍46) ’’میں تمھارے ساتھ ہوں، اور سنتا دیکھتا ہوں۔‘‘
#
{122} {إذ همت طائفتان منكم أن تفشلا}؛ وهم بنو سلمة وبنو حارثة لكن تولاهما الباري بلطفه ورعايته وتوفيقه، {وعلى الله فليتوكل المؤمنون}؛ فإنهم إذا توكلوا عليه كفاهم وأعانهم وعصمهم من وقوع ما يضرهم في دينهم ودنياهم. وفي هذه الآية ونحوها وجوب التوكل وأنه على حسب إيمان العبد يكون توكله، والتوكل: هو اعتماد العبد على ربه في حصول منافعه ودفع مضاره.
[122] اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر مہربانی اور احسان اس طرح بھی ہوا کہ ﴿ اِذْ هَمَّتْ طَّآىِٕفَتٰ٘نِ ﴾ جب مومنوں کی دو جماعتیں پست ہمتی کا ارادہ کرچکی تھیں، اور وہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ تھے، جیسے پہلے بیان ہوا۔ اللہ نے ان پر اور تمام مومنوں پر احسان کرتے ہوئے انھیں ثابت قدمی کی توفیق بخشی، اس لیے فرمایا : ﴿ وَاللّٰهُ وَلِیُّهُمَا﴾ ’’اللہ ان کا ولی اور مددگار ہے‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ کی خاص ولایت مراد ہے، یعنی اس کی اپنے دوستوں پر مہربانی، انھیں ایسے کاموں کی توفیق دینا جن میں ان کا فائدہ ہو، اور ایسے کاموں سے محفوظ رکھنا، جن میں ان کا نقصان ہو۔ اس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ جب انھوں نے اس گناہ کا ارادہ کیا کہ وہ پست ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ سے چلے جائیں اور نبیeکو چھوڑ کر بھاگ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس غلطی سے بچالیا، کیونکہ ان میں ایمان موجود تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰؔتِ اِلَى النُّوْرِ ﴾ (البقرۃ:2؍257) ’’اللہ مومنوں کا دوست اور مددگار ہے، انھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَؔكَّلِ الْ٘مُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ ہی کی ذات پر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے‘‘ اس میں توکل کا حکم ہے توکل کا مطلب یہ ہے کہ فائدہ مند اشیاء کے حصول کے لیے اور نقصان سے بچنے کے لیے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے دل کا سہارا اللہ پر ہو۔ بندے کو اللہ پر جتنا ایمان ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کا توکل ہوتا ہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دوسروں کی نسبت مومن اللہ پر توکل کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ بالخصوص سختی اور جہاد کے موقع پر انھیں اللہ پر توکل کرنا، اس سے مدد اور فتح طلب کرنا، اپنی طاقت پر بالکل بھروسا نہ کرنا، بلکہ اللہ کی قوت اور حفاظت پربھروسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ان کی مدد کرتا ہے اور ان کی مصیبتیں اور مشکلات دور فرماتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
#
{123} وإذ {نصركم الله ببدر وأنتم أذلة}؛ في عَددكم وعِددكم، فكانوا ثلاثمائة وبضعة عشر في قلة ظهْرٍ ورثاثة سلاح، وأعداؤهم يناهزون الألف في كمال العدة والسلاح {فاتقوا الله لعلكم تشكرون}؛ الذي أنعم عليكم بنصره.
[123] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا احسان یاد دلایا ہے، اور انھیں اپنی وہ مدد یا ددلائی ہے جو بدر کے موقع پر ہوئی۔ جب وہ کمزور تھے، ان کی تعداد بھی کم تھی، اور سامان بھی۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد اور سامان جنگ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ غزوۂ بدر ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوا۔ نبیeمدینہ منورہ سے تین سو دس سے چند افراد زیادہ کی تعداد میں اپنے صحابہyکے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ آپ قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں نکلے تھے جو شام سے آرہا تھا۔ مشرکین کو اطلاع ملی تو وہ اپنے قافلے کوبچانے کے لیے پوری طرح تیار ہوکر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ وہ تقریباً ایک ہزار جنگجو تھے جن کے پاس مکمل سامان رسد، بکثرت ہتھیار اور بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ایک چشمے کے پاس ہوا، جسے ’’بدر‘‘ کہتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم مدد فرمائی، چنانچہ انھوں نے مشرکین کے ستر بہادر سردار قتل کیے اور ستر کو جنگی قیدی بنایا اور ان کی لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا۔ جیسے سورۂ انفال میں ان شاء اللہ بیان ہوگا۔ اس کی تفصیل کا اصل مقام وہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صرف اس لیے کیا ہے کہ مسلمان اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کا شکر کریں، اس لیے فرمایا: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اللہ ہی سے ڈرو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہی اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جو تقویٰ ترک کردیتا ہے، وہ شکر گزار نہیں ہوتا۔
#
{124} {إذ تقول} مبشراً {للمؤمنين}؛ مثبتاً لجنانهم: {ألن يكفيكم أن يمدكم ربكم بثلاثة آلاف من الملائكة منزلين}.
[124] اے محمد(e)!یاد کیجیے جب بدر کے دن آپ مومنوں کو فتح کی خوش خبری دیتے ہوئے ان سے فرما رہے تھے: ﴿اَلَ٘نْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰ٘ثَةِ اٰلٰ٘فٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُنْ٘زَلِیْ٘نَ﴾ ’’کیا تمھارے لیے یہ کافی نہیں ہوگا کہ تمھارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمھاری مدد کرے؟‘‘
#
{125} {بلى إن تصبروا وتتقوا ويأتوكم من فورهم هذا}؛ أي: من حملتهم هذه بهذا الوجه. {يمددكم ربكم بخمسة آلاف من الملائكة مسومين}؛ أي: معلمين علامة الشجعان. واختلف الناس هل كان هذا الإمداد حصل فيه من الملائكة مباشرة للقتال، كما قاله بعضهم أو أن ذلك تثبيت من الله لعباده المؤمنين، وإلقاء الرعب في قلوب المشركين كما قاله كثير من المفسرين ويدل عليه قوله:
[125] ﴿ بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَ٘اْتُوْؔكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰؔذَا ﴾ ’’بلکہ اگر تم صبر اور پرہیز گاری کرو، اور وہ اپنے اس جوش سے تمھارے مقابلے میں آئیں۔‘‘ ﴿ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰؔذَا ﴾ کا مطلب ہے (من مقصدہم ھذا) ’’اپنے کسی ارادے اور عزم کے ساتھ‘‘ اس سے غزوۂ بدر مراد ہے۔ ﴿ یُمْدِدْؔكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰ٘فٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُسَوِّمِیْنَ ﴾ ’’تمھارا رب تمھاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا، جو نشان دار ہوں گے‘‘ یعنی ان پر بہادروں کا خصوصی نشان ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کی مدد کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں: صبر، تقویٰ اور مشرکین کا فوری جوش و جذبہ کے ساتھ آنا۔ یہ وعدہ مذکورہ بالا فرشتوں کے بطور امداد فوج کے نازل ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن فتح اور دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی کے لیے اللہ نے پہلی دو شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ جیسے کہ پہلے فرمان الٰہی گزرا ہے۔ ﴿ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّؔكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔـا ﴾ ’’اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کے منصوبے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے‘‘
#
{126} {وما جعله الله إلا بشرى لكم ولتطمئن قلوبكم به وما النصر إلا من عند الله العزيز الحكيم}، وفي هذا أن الأسباب لا يعتمد عليها العبد بل يعتمد على الله، وإنما الأسباب وتوفرها فيها طمأنينة للقلوب وثبات على الخير.
[126] اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْ٘رٰؔى ﴾ ’’اللہ نے اس چیز کو (یعنی فرشتے اتار کر تمھیں کمک پہنچانے کو) صرف خوش خبری بنایا ہے‘‘ تاکہ اس سے تمھیں خوشی حاصل ہو۔ ﴿ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ ﴾ ’’اور اس بشارت سے تمھارے دل مطمئن ہوجائیں‘‘ ﴿ وَمَا النَّ٘صْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے‘‘ لہٰذا اپنے اسباب پر اعتماد نہ کرو۔ بلکہ اسباب صرف تمھارے دلوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ اصل فتح، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ تو اللہ کی مشیت ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کی مدد کرنے کا ارادہ فرمالے وہی فتح یاب ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس فریق کی مدد کرے جس کے پاس اسباب ہیں، جیسے عام طورپر مخلوق میں اس کی سنت جاری ہے اور اگر چاہے تو کمزور اور معمولی فریق کی مدد کرے، تاکہ اس کے بندوں کو معلوم ہوجائے کہ سب کام اس کے ہاتھ میں ہیں اور سب معاملات کا دارومدار اسی کی مرضی پر ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا النَّ٘صْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَكِیْمِ﴾ ’’مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے‘‘ کوئی مخلوق اس کے آگے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کی تدبیر اور غلبے کے آگے کمزور اور مجبور ہیں۔ ﴿ الْحَكِیْمِ﴾ ’’حکمتوں والا ہے‘‘ جو ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ بعض اوقات کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ کفار کایہ غلبہ مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّیَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ﴾ (سورۂ محمد:47؍4)’ ’اگر اللہ چاہتا تو خود ہی بدلہ لے لیتا، لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے سے لے۔‘‘
#
{127} {ليقطع طرفا من الذين كفروا أو يكبتهم فينقلبوا خائبين}؛ أي: نصر الله لعباده المؤمنين لا يعدو أن يكون قطعاً لطرف من الكفار، أو ينقلبوا بغيظهم لم ينالوا خيراً كما أرجعهم يوم الخندق بعد ما كانوا قد أتوا على حرد قادرين أرجعهم الله بغيظهم خائبين.
[127] اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد دو مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ ۱۔ تاکہ کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ لے، یعنی وہ قتل ہوجائیں یا قید ہوجائیں۔ یا ان کے شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے یا مال غنیمت حاصل ہو۔ اس طرح مومنوں کو قوت حاصل ہو اور کافر ذلیل ہوجائیں۔ کیونکہ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسلام سے جنگ کرنے کی قوت انھیں یا افراد سے حاصل ہوتی ہے یا ہتھیاروں سے یا مال سے یا زمین سے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کا ختم ہونا یا مسلمانوں کے قبضے میں آنا، ان کی قوت میں کمی کا باعث ہے۔ ۲۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ کافر اپنی قوت و کثرت پر اعتماد کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خواہش کریں، بلکہ اس کی انتہائی شدید حرص میں مبتلا ہوکر اپنی طاقت اور اپنا مال صرف کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ جنگ میں مومنوں کی مدد کرکے انھیں ناکام کردے، وہ اپنا مقصد حاصل نہ کرسکیں۔ بلکہ خسارہ اٹھا کر غم اور حسرت لے کر واپس چلے جائیں۔ جب آپ حالات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب مومنوں کی مدد کرتا ہے تو وہ ان دو امور سے خارج نہیں ہوتی۔ یا ان پر مسلمانوں کی فتح یا کفار کی اپنی کوششوں میں ناکامی۔
آیت: 128 #
{لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ (128)}.
نہیں ہے واسطے آپ کے اس معاملے میں کچھ (اختیار) یا متوجہ ہو وہ (مہربانی سے) ان پر یا عذاب دے وہ ان کو، پس بے شک وہ ظالم ہیں(128)
#
{128} لما أصيب - صلى الله عليه وسلم - يوم أحد وكسرت رباعيته وشج رأسه جعل يقول: «كيف يفلح قوم شجوا وجه نبيهم وكسروا رباعيته »؛ فأنزل الله تعالى هذه الآية، وبيَّن أن الأمر كله لله وأن الرسول - صلى الله عليه وسلم - ليس له من الأمر شيء، لأنه عبد من عبيد الله والجميع تحت عبودية ربهم مدبَّرون لا مدبِّرون، وهؤلاء الذين دعوت عليهم أيها الرسول أو تباعدت فلاحهم وهدايتهم إن شاء الله تاب عليهم ووفقهم للدخول في الإسلام، وقد فعل، فإن أكثر أولئك هداهم الله فأسلموا، وإن شاء الله عذبهم فإنهم ظالمون مستحقون لعقوبات الله وعذابه.
[128] جب جنگ احد کے سنگین واقعات پیش آئے، اور نبیeکو سخت مصائب پیش آئے، جن کی وجہ سے اللہ نے آپ کا مقام مزید بلند فرمادیا۔ اس موقع پر آپ کا سر مبارک زخمی ہوا، اور دندان مبارک شہید ہوئے تو آپeنے فرمایا تھا: ’کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِیَّہُمْ‘ ’’وہ قوم کس طرح فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الجہاد، باب غزوۃ أحد، حديث:1791)اس موقع پر آپuنے مشرکین کے سرداروں کے حق میں بددعا بھی فرمائی۔ مثلاً ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما کر آپ کو ان کے خلاف دعا کرنے، انھیں لعنت کرنے، ان کے لیے رحمت سے دوری کی درخواست کرنے سے منع فرمادیا اور فرمایا: ﴿ لَ٘یْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ ﴾ ’’آپ کے اختیار میں کچھ نہیں‘‘ آپ کے فرائض صرف یہ ہیں کہ تبلیغ کریں، مخلوق کی رہنمائی فرمائیں، اور ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ باقی معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے تدبیر فرماتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ہدایت نصیب فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ آپ انھیں بددعائیں نہ دیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہوگا تو ان کی توبہ قبول فرماکر انھیں اسلام کی نعمت عطا فرما دے گا اور اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوا تو انھیں ہدایت سے محروم فرما کر کفر میں پڑا رہنے دے گا۔ اس صورت میں اپنے نقصان کا باعث اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے وہی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان معین افراد کو اور دوسروں کو بھی ہدایت نصیب فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا اختیار بندوں کے اختیار پر غالب ہے۔ بندے کا درجہ جتنا بھی بلند ہو، اس سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک چیز کو بہتر سمجھ کر منتخب کرے حالانکہ بہتری اور مصلحت دوسری چیز میں ہو۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسولeمعاملات میں اختیار نہیں رکھتے تھے، لہٰذا دوسرے افراد بدرجہ اولیٰ اختیار سے محروم ہوں گے۔ اس میں انبیاء و اولیاء سے حاجتیں مانگنے والوں کی سخت تردید ہے۔ اور یہ وضاحت ہے کہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا شرک فی العبادت ہے، جو ان لوگوں کی کم عقلی کو ظاہر کرتا ہے کہ جس ہستی کے ہاتھ میں سب اختیارات ہیں اسے چھوڑ کر انھیں پکارتے ہیں جو ذرہ برابر اختیار نہیں رکھتے، یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ غور کیجیے جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا تو فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ (یعنی یہ فرمایا کہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے) اس کا کوئی سبب بیان نہیں فرمایا جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ تاکہ یہ ثابت ہو کہ نعمت تو بندے پر اللہ کا خالص فضل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ بندے کی طرف سے پہلے کوئی عمل ہوا ہو جو اس نعمت کا سبب بنے نہ کسی وسیلے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب عذاب کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی ان کے ظلم کا ذکر فرمایا۔ اور فائے سببیہ کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ عذاب کا سبب ان کا ظلم ہے۔ ارشاد ہے: ﴿ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰ٘لِمُوْنَ ﴾ ’’یاان کو عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں‘‘ تاکہ اس سے اللہ کا کامل عدل اور اس کی کامل حکمت ظاہر ہوکہ اس نے سزا کو مناسب مقام پر رکھا، اور بندے پر ظلم نہیں کیا، بلکہ بندے نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔
آیت: 129 #
{وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (129)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، وہ معاف کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور عذاب دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے(129)
#
{129} يخبر تعالى أنه هو المتصرف في العالم العلوي والسفلي وأنه يتوب على من يشاء فيغفر له ويخذل من يشاء فيعذبه، {والله غفور رحيم} فمن صفته اللازمة كمال المغفرة والرحمة ووجود مقتضياتها في الخلق والأمر يغفر للتائبين ويرحم من قام بالأسباب الموجبة للرحمة، قال تعالى: {وأطيعوا الله والرسول لعلكم تُرحمون}.
[129] جب یہ واضح فرما دیا کہ رسول کے ہاتھ میں اختیار نہیں، تو اس کے بعد بیان فرمایا کہ اختیار کس کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے۔‘‘ یعنی فرشتے، انسان، جن، حیوانات، جمادات، افلاک وغیرہ اور آسمانوں میں زمین میں موجود تمام کی تمام اشیاء اللہ کی ملک اور اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی تدبیر کے تابع ہیں۔ وہ ان میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح بادشاہ اپنے ملک میں تصرف کرتا ہے۔ اس حکومت میں ان کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو وہ سب اس کی مغفرت او را س کے عذاب کے درمیان ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے اس کی مغفرت اس طرح فرماتا ہے کہ ہدایت دے کر اسلام میں داخل کردیتا ہے۔ اس طرح اس کا شرک معاف کردیتا ہے، اور اس پر یہ احسان فرماتا ہے کہ اسے گناہ ترک کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس طرح اس کے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ ﴿ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتاہے‘‘ وہ اس طرح کہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ انسان کا نفس جاہل اور ظالم ہے جو برائیوں کے ارتکاب کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے گناہ کی سزا دے دیتا ہے۔ آیت مبارکہ کو دو اسمائے مبارکہ پر ختم کیا گیا ہے جن سے اللہ کی رحمت کی وسعت، اس کی مغفرت کا لامحدود ہونا، اس کے احسان کی وسعت و عموم ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ غَ٘فُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اللہ بخشش کرنے والا مہربان ہے‘‘ اس میں بہت بڑا اشارہ ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی مغفرت اس کے مواخذہ پر غالب ہے۔ اس آیت میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ بخش دیتاہے اور کسی کو عذاب دیتاہے لیکن آیت کے آخرمیں اس طرح کے دو اسمائے مبارکہ ذکر نہیں فرمائے کہ ایک سے اس کی رحمت ظاہر ہو اور دوسرے سے اس کا انتقام۔ پس اللہ تعالیٰ رحمت و احسان والا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ایسے انداز سے رحمت فرمائے گا جو کسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا۔ نہ اس کی کیفیت معلوم ہوسکتی ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالے۔ (آمین)
آیت: 130 - 136 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (130) وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (131) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (132) وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (136)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ کھاؤ تم سود دگنا چوگنا کر کے اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پاؤ(130) اور ڈرو اس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے(131) اور اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی تاکہ تم رحم کیے جاؤ(132) اور جلدی کرو تم طرف بخشش کی، اپنے رب کی اور بہشت کی (طرف) کہ ہے عرض اس کا آسمان اور زمین، تیار کی گئی ہے وہ متقین کے لیے(133) وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور سختی میں اور پی جانے والے ہیں غصے کو اور معاف کر دینے والے ہیں لوگوں کواور اللہ پسند کرتا ہے احسان کرنے والوں کو(134) اور وہ لوگ کہ جب کر بیٹھتے ہیں کوئی برائی یا وہ ظلم کر گزرتے ہیں اپنے آپ پر تو یاد کرتے ہیں اللہ کو اور بخشش مانگتے ہیں اپنے گناہوں کی اور کون بخشتا ہے گناہوں کو سوائے اللہ کے؟ اور نہیں وہ اصرار کرتے اس پر جو انھوں نے کیا جبکہ وہ جانتے ہیں(135) یہ لوگ، بدلہ ان کا بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور باغات ہیں، چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں اور اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کا(136)
#
{130} تقدم في مقدمة هذا التفسير: أن العبدَ ينبغي له مراعاة الأوامر والنواهي في نفسه وفي غيره، وأن الله تعالى إذا أمره بأمر وجب عليه أولاً أن يعرف حدَّه وما هو الذي أُمِر به ليتمكن بذلك من امتثاله، فإذا عرف ذلك اجتهد واستعان بالله على امتثاله في نفسه وفي غيره بحسب قدرته وإمكانه. وكذلك إذا نُهِيَ عن أمر عرف حده وما يدخل فيه وما لا يدخل، ثم اجتهد واستعان بربه في تركه. وأن هذا ينبغي مراعاته في جميع الأوامر الإلهية والنواهي. وهذه الآيات الكريمات قد اشتملت على أوامر وخصال من خصال الخير، أمر الله بها وحثَّ على فعلها، وأخبر عن جزاء أهلها، وعلى نواهٍ حثَّ على تركها. ولعل الحكمةَ ـ والله أعلم ـ في إدخال هذه الآيات أثناء قصة أحد أنه قد تقدم أن اللهَ تعالى وعدَ عبادَه المؤمنين أنهم إذا صبروا واتقوا نصرهم على أعدائهم وخذلَ الأعداءَ عنهم، كما في قوله تعالى: {وإن تصبروا وتتقوا لا يضركم كيدهم شيئاً}، ثم قال: {وإن تصبروا وتتقوا ويأتوكم من فورهم هذا يمددكم ربكم ... } الآيات. فكأن النفوس اشتاقت إلى معرفة خصال التقوى التي يحصل بها النصر والفلاح والسعادة، فذكر الله في هذه الآيات أهم خصال التقوى التي إذا قام العبد بها، فقيامه بغيرها من باب أولى وأحرى. ويدل على ما قلنا أن الله ذكر لفظ التقوى في هذه الآيات ثلاث مرات، مرة مطلقة، وهي قول: {أعدت للمتقين}، ومرتين مقيدتين فقال: {واتقوا الله} {واتقوا النار}. فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا} كل ما في القرآن من قوله تعالى: يا أيها الذين آمنوا افعلوا كذا أو اتركوا كذا يدل على أن الإيمان هو السبب الداعي والموجب لامتثال ذلك الأمر واجتناب ذلك النهي، لأن الإيمان هو التصديق الكامل بما يجب التصديق به المستلزم لأعمال الجوارح، فنهاهم عن أكل الربا أضعافاً مضاعفة، وذلك هو ما اعتاده أهل الجاهلية ومن لا يبالي بالأوامر الشرعية، من أنه إذا حل الدَّين على المعسر ولم يحصل منه شيء، قالوا له إما أن تقضي ما عليك من الدين، وإما أن نزيد في المدة ونزيد ما في ذمتك فيضطر الفقير ويستدفع غريمه ويلتزم ذلك اغتناماً لراحته الحاضرة فيزداد بذلك ما في ذمته أضعافاً مضاعفة من غير نفع وانتفاع. ففي قوله: {أضعافاً مضاعفة}؛ تنبيه على شدة شناعته بكثرته وتنبيه لحكمة تحريمه، وأن تحريم الربا حكمته أن الله منع منه لما فيه من الظلم، وذلك أن الله أوجب إنظار المعسر وبقاء ما في ذمته من غير زيادة، فإلزامه بما فوق ذلك ظلم متضاعف، فيتعين على المؤمن المتقي تركه وعدم قربانه لأن تركه من موجبات التقوى، والفلاح متوقف على التقوى، فلهذا قال: {واتقوا الله لعلكم تفلحون}.
[130] اس تفسیر کے مقدمہ میں گزر چکا ہے کہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ خود اپنی ذات میں اور دوسروں میں اوامر و نواہی کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو سب سے پہلے بندۂ مومن پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حدود کو پہچانے کہ وہ کیا چیز ہے جس پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی اطاعت کر سکے۔ جب اسے اس حکم کی حدود کی معرفت حاصل ہو جائے تو اپنی طاقت اور امکان بھر اپنی ذات اور دوسروں پر اس حکم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جائے تو وہ اس کی حدود کی معرفت حاصل کرے کہ کیا چیز اس کی حدود میں داخل ہے اور کیا چیز اس سے باہر ہے پھر اس کو ترک کرنے کی کوشش کرے اور اپنے رب سے مدد طلب کرے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر اور نواہی میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ یہ آیات کریمہ بھلائی کے ان احکام اور خصائل پر مشتمل ہیں جن کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم اور ان کی ترغیب دی ہے اور ان کے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے اور ایسی منہیات پر مشتمل ہیں جن کو ترک کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے اور اُحد کے قصے کے درمیان ان آیات کو بیان کرنے کی حکمت شاید یہ ہے...واللہ اعلم...کہ گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کے دشمنوں پر فتح دے گا اور ان کے دشمنوں کی مدد چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّؔكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔـا ﴾ (آل عمران:3؍120) ’’اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔‘‘ فرمایا: ﴿ بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَ٘اْتُوْؔكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰؔذَا یُمْدِدْؔكُمْ رَبُّكُمْ ﴾ (آل عمران : 3؍125) ’’کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور کفار تم پر اچانک زور کا حملہ کر دیں تو تمھارا رب تمھاری مدد کرے گا۔‘‘ گویا نفوس انسانی تقویٰ کی خصائل کی معرفت کے مشتاق ہوئے، جن کے ذریعے سے فتح و نصرت اور فلاح و سعادت حاصل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تقویٰ کے اہم ترین خصائل کا ذکر فرمایا جن کو اگر بندۂ مومن قائم کر لے تو پھر دوسرے خصائل تقویٰ کو وہ بطریق اولیٰ اختیار کرے گا۔ ہمارے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ’’تقویٰ‘‘ کا لفظ تین بار ذکر فرمایا ہے۔ ایک دفعہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق ذکر فرمایا ﴿اُعِدَّتْ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ ’’جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘ دو دفعہ تقویٰ کا ذکر مقید طور پر کیا ﴿ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اللہ سے ڈرو‘‘ ﴿ وَاتَّقُوا النَّارَ ﴾ ’’آگ سے ڈرو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یوں آتا ہے ’’اے ایمان والو! فلاں کام کرو یا فلاں کام چھوڑ دو...‘‘ تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایمان ہی وہ سبب ہے جو اس حکم کی اطاعت کا داعی اور موجب ہے اور اس نواہی سے اجتناب کا باعث ہے، کیونکہ ایمان ان تمام امور کی تصدیق کامل کا نام ہے جن کی تصدیق واجب ہے اور اعضاء کے اعمال کو مستلزم ہے، چنانچہ انھیں کئی کئی گنا سود کھانے سے منع کیا۔ جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا وہ لوگ ہیں جو شرعی احکام کی پروا نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں سود لینے کا طریقہ یہ تھا کہ جب تنگ دست مقروض کے قرض کی ادائیگی کا وقت ہو جاتا اور اس سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہ ہوتی تو قرض خواہ اس سے کہتا کہ وہ یا تو اپنا قرض ادا کر دے یا قرض خواہ مدت بڑھا دے گا اور مقروض کے ذمہ جو رقم ہے اس میں اضافہ ہو جائے گا۔ پس تنگ دست مقروض مجبور ہو جاتا اور اپنی جان چھڑانے اور وقتی طور پر راحت کی خاطر قرض خواہ کی شرائط کا التزام کر لیتا۔ اس طرح اس کے ذمہ جو قرض ہوتا وہ، بغیر کسی فائدے کے، بڑھ کر کئی گنا ہو جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً﴾ میں سود کی برائی پر سخت تنبیہ بیان ہوئی ہے اور اس میں سود کی تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ اور سود کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بے انتہا ظلم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سود لینے سے روک دیا اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے کہ تنگ دست مقروض کومہلت دی جائے اور بغیر کسی اضافے کے اس کے ذمہ وہی قرض باقی رہنے دیا جائے جو اصل زر ہے اور اس پر اصل زر سے زیادہ رقم عائد کرنا سخت ظلم ہے۔ لہٰذا متقی مومن پر لازم ہے کہ وہ سود کو ترک کر دے اور اس کے قریب نہ جائے کیونکہ سود کو ترک کرنا موجبات تقویٰ میں سے ہے۔ فلاح تقویٰ پر موقوف ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۰۰﴾
#
{131} {واتقوا النار التي أُعدت للكافرين}، بترك ما يوجب دخولها من الكفر والمعاصي على اختلاف درجاتها، فإن المعاصي كلها وخصوصاً المعاصي الكبار تجر إلى الكفر، بل هي من خصال الكفر الذي أعد الله النار لأهله، فترك المعاصي ينجي من النار ويقي من سخط الجبار، وأفعال الخير والطاعة توجب رضا الرحمن ودخول الجنان وحصول الرحمة، ولهذا قال:
[131] ﴿وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ یعنی جہنم سے ڈرو اور ان تمام امور کو چھوڑ دو جو جہنم میں لے جاتے ہیں مثلاً کفر اور مختلف اقسام کے گناہ اور معاصی۔ کیونکہ تمام گناہ، خصوصاً کبیرہ گناہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ کبیرہ گناہ تو کفر کے خصائل ہیں جس کے حاملین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے اور گناہ اور معاصی کو ترک کرنا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے اور خدائے جبار کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ نیکی اور اطاعت کے افعال رحمٰن کی رضا، جنت میں دخول اور حصول رحمت کے موجب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
#
{132} {وأطيعوا الله والرسول}، بفعل الأوامر امتثالاً واجتناب النواهي {لعلكم تُرحمون}، فطاعة الله وطاعة رسوله من أسباب حصول الرحمة، كما قال تعالى: {ورحمتي وسعت كل شيء فسأكتبها للذين يتقون ويؤتون الزكاة ... } الآيات.
[132] ﴿ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ﴿ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت حصول رحمت کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ …﴾ (الاعراف: 7؍156) ’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں۔‘‘
#
{133} ثم أمرهم تعالى بالمسارعة إلى مغفرته وإدراك جنته التي عرضها السماوات والأرض، فكيف بطولها التي أعدها الله للمتقين؟! فهم أهلها وأعمال التقوى هي الموصلة إليها.
[133] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے۔ تب اس کی لمبائی کا کیا حال ہو گا اللہ تعالیٰ نے اس کو متقین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ متقین ہی اس جنت کے وارث ہیں اور اعمال تقویٰ ہی جنت تک پہنچاتے ہیں۔
#
{134} ثم وصف المتقين وأعمالهم فقال: {الذين ينفقون في السراء والضراء}؛ أي: في حال عسرهم ويسرهم إن أيسروا أكثروا من النفقة وإن أعسروا لم يحتقروا من المعروف شيئاً ولو قل، {والكاظمين الغيظ}: أي: إذا حصل لهم من غيرهم أذية توجب غيظهم، وهو امتلاء قلوبهم من الحنق الموجب للانتقام بالقول والفعل. هؤلاء لا يعملون بمقتضى الطباع البشرية بل يكظمون ما في القلوب من الغيظ، ويصبرون عن مقابلة المسيء إليهم. {والعافين عن الناس}، يدخل في العفو عن الناس العفو عن كل من أساء إليك بقول أو فعل، والعفو أبلغ من الكظم، لأن العفو ترك المؤاخذة مع السماحة عن المسيء، وهذا إنما يكون ممن تحلى بالأخلاق الجميلة وتخلى من الأخلاق الرذيلة، وممن تاجر مع الله وعفا عن عباد الله رحمة بهم وإحساناً إليهم، وكراهة لحصول الشر عليهم، وليعفو الله عنه ويكون أجره على ربه الكريم لا على العبد الفقير، كما قال تعالى: {فمن عفا وأصلح فأجره على الله}. ثم ذكر حالة أعم من غيرها وأحسن وأعلى وأجل، وهي الإحسان، فقال تعالى: {والله يحب المحسنين}، والإحسان نوعان: الإحسان في عبادة الخالق والإحسان إلى المخلوق. فالإحسان في عبادة الخالق فسرها النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك». وأما الإحسان إلى المخلوق فهو إيصال النفع الديني والدنيوي إليهم ودفع الشر الديني والدنيوي عنهم، فيدخل في ذلك أمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر وتعليم جاهلهم ووعظ غافلهم والنصيحة لعامتهم وخاصتهم، والسعي في جمع كلمتهم وإيصال الصدقات والنفقات الواجبة والمستحبة إليهم على اختلاف أحوالهم وتباين أوصافهم، فيدخل في ذلك بذل الندى وكف الأذى واحتمال الأذى، كما وصف الله به المتقين في هذه الآيات، فمن قام بهذه الأمور فقد قام بحق الله وحق عبيده.
[134] پھر اللہ تعالیٰ نے متقین اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّ٘رَّآءِ ﴾ یعنی وہ تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، یعنی جب وہ مال دار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کثرت سے خرچ کرتے ہیں اور جب وہ تنگدست ہوتے ہیں تو وہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ ﴿ وَالْ٘ــكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ﴾ یعنی جب ان کو دوسروں کی طرف سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو ان کے غصے کا موجب ہوتی ہے۔ یہاں (غیظ) سے مراد ان کے دلوں کا ایسے غصے سے لبریز ہونا ہے جو قول و فعل کے ذریعے سے انتقام کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ طبائع بشری کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے دلوں میں جو غصہ ہوتا ہے اسے دبا دیتے ہیں اور برا سلوک کرنے والے کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ ﴿وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ﴾ لوگوں کو معاف کر دینے میں ہر اس شخص کو معاف کردینا شامل ہے جو آپ کے ساتھ قول یا فعل کے ذریعے سے برائی سے پیش آتا ہے۔ (عفو) (کظم) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ’’عفو‘‘ برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کے ساتھ، مواخذہ ترک کرنے کا نام ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اخلاق جمیلہ سے آراستہ اور عادات رذیلہ سے پاک کر لیا ہو اور وہ ان میں سے ہو جس کی تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ جو اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان کرتے ہوئے اور اس خوف سے کہ کہیں ان کو برائی نہ پہنچے ان کو معاف کر دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے اور اس کا اجر اس کے رب کریم پر واجب ہو، نہ کہ اس بندۂ فقیر پر۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (الشوری : 42؍40) ’’جو کوئی معاف کر دے اور معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے (بندۂ مومن کے) ایسے حال کا ذکر فرمایا ہے جو دیگر احوال سے زیادہ عام، احسن و اعلیٰ اور زیادہ جلیل القدر ہے اور وہ ہے احسان۔ فرمایا ﴿وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ احسان کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں احسان۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان۔ خالق کی عبودیت میں احسان کی تفسیر رسول اللہeنے ان الفاظ میں کی ہے: ’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فِانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاَکَ‘ (صحیح البخاری، الإيمان، سؤال جبریل النبیE …..، حديث: 5، وصحیح مسلم، الإيمان، حديث: 1)’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی بندگی اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو پھر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ رہا مخلوق کے ساتھ احسان تو یہ ان کو دینی اور دنیاوی نفع پہنچانے اور ان سے دینی اور دنیاوی شر کو ہٹانے اور دور کرنے کا نام ہے، چنانچہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جاہل کو تعلیم دینا، غافل کو وعظ ونصیحت کرنا، مسلمان عوام اور خواص کی خیر خواہی کرنا اور ان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا یہ تمام امور مخلوق کے ساتھ احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیز لوگوں کے مختلف احوال اور متباین اوصاف کے مطابق ان تک واجب اور مستحب صدقات وغیرہ پہنچانا بھی احسان ہی میں شامل ہے۔ پس سخاوت کرنا، لوگوں کی تکالیف رفع کرنا خود تکالیف برداشت کرنا احسان ہے۔ جیسا کہ انھی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا وصف بیان فرمایا ہے۔ پس جس نے مذکورہ بالا امور کو قائم کیا اس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو ادا کیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس معذرت کا ذکر فرمایا جو وہ اپنے جرائم اور گناہوں کے بارے میں اپنے رب کے سامنے پیش کرتے ہیں:
#
{135} {والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم}؛ أي: صدر منهم أعمال سيئة كبيرة أو ما دون ذلك، بادروا إلى التوبة والاستغفار، وذكروا ربهم وما توعد به العاصين، ووعد به المتقين فسألوه المغفرة لذنوبهم، والستر لعيوبهم، مع إقلاعهم عنها وندمهم عليها، فلهذا قال: {ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون}.
[135] ﴿ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ یعنی جب کبھی ان سے کوئی بڑا یا چھوٹا گناہ صادر ہو جاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کرتے ہیں، اور اپنے رب اور اس کی وعید کو یاد کرتے ہیں جو اس نے نافرمانوں کو سنا رکھی ہے اور اپنے رب کے اس وعدے کو یاد کرتے ہیں جو اس نے اہل تقویٰ سے کر رکھا ہے۔ پس وہ گناہوں کو ترک کرنے اور ان پر نادم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے ان گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنے عیوب پر پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور وہ جانتے ہوئے اپنی بداعمالیوں پر اڑتے نہیں ہیں‘‘
#
{136} {أولئك}؛ الموصوفون بتلك الصفات {جزاؤهم مغفرة من ربهم} تزيل عنهم كل محذور، {وجنات تجري من تحتها الأنهار} فيها من النعيم المقيم والبهجة والسرور والبهاء والخير والسرور والقصور والمنازل الأنيقة العاليات والأشجار المثمرة البهية والأنهار الجاريات في تلك المساكن الطيبات {خالدين فيها} لا يحولون عنها ولا يبغون بها بدلاً ولا يغير ما هم فيه من النعيم {ونعم أجر العاملين} عملوا لله قليلاً فأجروا كثيراً، فعند الصباح يحمَد القومُ السَّرى وعند الجزاء يجد العامل أجره كاملاً موفراً. وهذه الآيات الكريمات من أدلة أهل السنة والجماعة، على أن الأعمال تدخل في الإيمان خلافاً للمرجئة، ووجه الدلالة إنما يتم بذكر الآية التي في سورة الحديد نظير هذه الآيات وهي قوله: {سابقوا إلى مغفرة من ربكم وجنة عرضها كعرض السماء والأرض أعدت للذين آمنوا بالله ورسله}، فلم يذكر فيها إلا لفظ الإيمان به وبرسله، وهنا قال: {أُعدت للمتقين}، ثم وصف المتقين بهذه الأعمال المالية والبدنية، فدل على أن هؤلاء المتقين هم الموصوفين بهذه الصفات هم أولئك المؤمنون. ثم قال تعالى:
[136] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿ جَزَؔآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’ان کی جزا مغفرت ہے ان کے رب کی طرف سے۔‘‘ اور یہ مغفرت ان کے ہر گناہ کو زائل کر دے گی ﴿ وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، شادمانی، خوبصورتی، رونق، بھلائی، مسرت، عالی شان محل، خوبصورت اور بلند منازل، پھلوں سے لدے ہوئے خوش کن درخت، اور ان خوبصورت مساکن و منازل میں نہریں بہہ رہی ہوں گی ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے انھیں وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ ان جنتوں کے بدلے میں کچھ اور چاہیں گے اور نہ ان نعمتوں کو، جن میں وہ رہتے ہوں گے، بدلا جائے گا۔ ﴿ وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْ٘نَ﴾ ’’اور عمل کرنے والوں کا اجر اچھا ہے‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تھوڑا عمل کیا مگر ان کو بہت زیادہ اجر عطا ہوا۔ مشقت برداشت کرنے کے بعد ہی راحت کی امید ہوتی ہے اور جزا کے وقت ہی عمل کرنے والے کو اپنے عمل کا پورا اور وافر بدلہ عطا ہوتا ہے۔ یہ آیات کریمہ مرجئہ کے برعکس اہل سنت والجماعت کے اس موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور آیت کریمہ سے استدلال کا پہلو سورۃ الحدید کی اس آیت کو ملا کر مکمل ہوتا ہے جو کہ اس آیت کی نظیر ہے ﴿ سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ١ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ٘ ﴾ (الحدید: 57؍21) ’’اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کی مانند ہے جسے ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اُعِدَّتْ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ ’’جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘ پھر متقین کے اعمال مالیہ اور اعمال بدنیہ بیان فرمائے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ متقین، جو ان صفات سے متصف ہیں، وہی مومن ہیں۔
آیت: 137 - 138 #
{قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (137) هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ (138)}.
تحقیق گزر چکے تم سے پہلے کئی واقعات، پس سیر کرو تم زمین میں اور دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا(137) یہ وضاحت ہے واسطے لوگوں کے اور ہدایت اور نصیحت ہے واسطے متقیوں کے(138)
#
{137} وهذه الآيات الكريمات، وما بعدها في قصة أحد، يعزي تعالى عباده المؤمنين، ويسليهم ويخبرهم أنه مضى قبلهم أجيال وأمم كثيرة امتحنوا، وابتلي المؤمنون منهم بقتال الكافرين، فلم يزالوا في مداولة ومجاولة حتى جعل الله العاقبة للمتقين والنصر لعباده المؤمنين، وآخر الأمر حصلت الدولة على المكذبين وخذلهم الله بنصر رسله وأتباعهم، {فسيروا في الأرض} بأبدانكم وقلوبكم {فانظروا كيف كان عاقبة المكذبين}، فإنكم لا تجدونهم إلا معذبين بأنواع العقوبات الدنيوية، قد خوت ديارهم وتبين لكل أحد خسارهم، وذهب عزهم وملكهم وزال بذخهم وفخرهم، أفليس في هذا أعظم دليل وأكبر شاهد على صدق ما جاءت به الرسل، وحكمة الله التي يمتحن بها عباده ليبلوهم ويتبين صادقهم من كاذبهم؟ ولهذا قال تعالى:
[137] یہ آیات کریمہ اور ان کے بعد آنے والی آیات ’’اُحد‘‘ کے واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں اور امتوں کو بھی امتحان میں ڈالا گیا اور اہل ایمان کفار کے ساتھ جنگ کی آزمائش میں مبتلا کیے گئے اور وہ بھی کبھی فتح سے نوازے گئے اورکبھی انھیں زک اٹھانا پڑی۔ مگراس تمام کشمکش کا انجام اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے حق میں رکھا اور اپنے مومن بندوں کو فتح و نصرت سے نوازا۔ آخرکار جھٹلانے والوں پر غلبہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو اپنی نصرت عطا کر کے جھٹلانے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ ﴿ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’زمین میں چلو پھرو‘‘ یعنی اپنے جسم اور قلوب کے ساتھ (زمین میں چلو پھرو) ﴿ فَانْ٘ظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠ ﴾ تم تکذیب کرنے والوں کو مختلف قسم کے دنیاوی عذاب اور عقوبتوں میں مبتلا پاؤ گے۔ ان کے شہر تباہ و برباد ہو گئے اور ان کا خسارہ سب پر عیاں ہوگیا۔ ان کی شان و شوکت اور اقتدار قصہ پارینہ بن گیا، ان کا تکبر اور فخر ختم ہوگیا۔ کیا یہ سب اس امر کی سب سے بڑی دلیل اور سب سے بڑا شاہد نہیں کہ جو کچھ انبیاء کرام لے کر مبعوث ہوئے وہ صداقت پر مبنی ہے؟ بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ سچوں اور جھوٹوں میں امتیاز ہو جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
#
{138} {هذا بيان للناس}؛ أي: دلالة ظاهرة تبين للناس الحق من الباطل، وأهل السعادة من أهل الشقاوة، وهو الإشارة إلى ما أوقع الله بالمكذبين، {وهدى وموعظة للمتقين}، لأنهم هم المنتفعون بالآيات، فتهديهم إلى سبيل الرشاد وتعظهم وتزجرهم عن طريق الغي، وأما باقي الناس فهي بيان لهم تقوم عليهم الحجة من الله ليهلك من هلك عن بينة، ويحتمل أن الإشارة في قوله: {هذا بيان للناس}، للقرآن العظيم والذكر الحكيم وأنه بيان للناس عموماً، وهدى وموعظة للمتقين خصوصاً، وكلا المعنيين حق.
[138] ﴿ هٰؔذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ ﴾ یعنی یہ واضح دلیل ہے جو لوگوں کے سامنے باطل میں سے حق کو واضح کر دیتی ہے۔ اہل شقاوت میں سے اہل سعادت کو ممتاز کر دیتی ہے اور یہ اس عذاب کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو مبتلا کیا۔ ﴿ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةٌ لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ۠ ﴾ اورمتقین کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے صرف یہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ آیات انھیں رشد و ہدایت کی راہ دکھاتی اور انھیں گمراہی کے راستے سے روکتی ہیں۔ رہے باقی لوگ تو یہ ان کے سامنے کھول کر بیان کر دینا ہے جس سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت قائم ہو جاتی ہے تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کو جان کر ہلاک ہو۔ نیز اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ﴿ هٰؔذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ ﴾ میں قرآن مجید اور ذکر حکیم کی طرف اشارہ ہو اور یہ کہ یہ عمومی طور پر تمام لوگوں کے لیے بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے خاص طور پر ہدایت اور نصیحت ہے۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔
آیت: 139 - 143 #
{وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (139) إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (140) وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ (141) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ (142) وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (143)}.
اور نہ ہمت ہارو تم اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر ہو تم مومن (139) اگر پہنچے تم کو کوئی زخم تو تحقیق پہنچ چکا ہے اس قوم (کافر) کو بھی زخم اس کی مثل اور یہ ایام، باری باری بدلتے رہتے ہیں ہم ان کو درمیان لوگوں کے اور تاکہ جان لے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور تاکہ بنائے تم میں سے کچھ کو شہید اور اللہ نہیں پسند کرتا ظالموں کو(140) اور تاکہ پاک صاف کر دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور مٹا دے کافروں کو(141) کیا گمان کیا تم نے یہ کہ داخل ہو جاؤ گے تم جنت میں، حالانکہ (ابھی) نہیں جانا اللہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے جہاد کیا تم میں سے اور یہ کہ جان لے وہ صبر کرنے والوں کو(142) اور البتہ تحقیق تھے تم آرزو کرتے موت کی پہلے اس کے کہ دوچار ہو تم اس سے، پس تحقیق مشاہدہ کیا تم نے اس کا جبکہ تم دیکھ رہے تھے(143)
#
{139} يقول تعالى مشجعاً لعباده المؤمنين ومقوياً لعزائمهم ومنهضاً لهممهم: {ولا تهنوا ولا تحزنوا}؛ أي: ولا تهنوا وتضعفوا في أبدانكم، ولا تحزنوا في قلوبكم عندما أصابتكم المصيبة، وابتليتم بهذه البلوى، فإن الحزن في القلوب والوهن على الأبدان زيادة مصيبة عليكم، وعون لعدوكم عليكم بل شجعوا قلوبكم وصبروها وادفعوا عنها الحزن وتصلبوا على قتال عدوكم، وذكر تعالى أنه لا ينبغي ولا يليق بهم الوهن والحزن وهم الأعلون في الإيمان ورجاء نصر الله وثوابه، فالمؤمن المبتغي ما وعده الله من الثواب الدنيوي والأخروي لا ينبغي له ذلك، ولهذا قال تعالى: {وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين}.
[139] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا حوصلہ بڑھانے، ان کے عزائم مضبوط اور ان کے ارادوں کو بلند کرنے کے لیے فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا ﴾ یعنی تم اس مصیبت کے وقت جو تم پر نازل ہوئی ہے اور اس ابتلا پر جس سے تم دوچار ہوئے ہو جسمانی کمزوری اور دلی غم کا مظاہرہ نہ کرو۔ کیونکہ دلوں کا حزن و غم اور جسموں کی کمزوری، تمھارے لیے مصیبت میں اضافے اور دشمن کی مدد کا باعث ہوں گے بلکہ دلوں کو مضبوط رکھو اور ان میں استقامت پیدا کرو۔ حزن و غم کو اپنے دلوں سے نکال دو اور اپنے دشمن کے ساتھ قتال کے لیے سخت جان ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ایمان کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت اور اس کے ثواب کے امیدوار ہیں، اس لیے کمزوری اور حزن و غم کا مظاہرہ ان کے شایان شان نہیں۔ اس قسم کے رویے کا اظہار اس مومن کے لائق نہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دنیاوی اور اخروی ثواب کا طلب گار ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے اس ہزیمت پر ان کو تسلی دی، جو انھوں نے اٹھائی تھی اور ان عظیم حکمتوں کو بیان کیا جو اس ہزیمت پر مرتب ہوئیں، چنانچہ فرمایا:
#
{140} {إن يمسسكم قرح فقد مس القوم قرح مثله}، فأنتم وهم قد تساويتم في القرح، ولكنكم ترجون من الله ما لا يرجون كما قال تعالى: {إن تكونوا تألمون فإنهم يألمون كما تألمون وترجون من الله ما لا يرجون}. ومن الحكم في ذلك أن هذه الدار يعطي الله منها المؤمن والكافر والبر والفاجر فيداول الله الأيام بين الناس: يوم لهذه الطائفة ويوم للطائفة الأخرى، لأن هذه الدارَ الدنيا منقضية فانية، وهذا بخلاف الدار الآخرة فإنها خالصة للذين آمنوا. {وليعلم الله الذين آمنوا}، هذا أيضاً من الحكم أنه يبتلي الله عباده بالهزيمة والابتلاء ليتبين المؤمن من المنافق، لأنه لو استمر النصر للمؤمنين في جميع الوقائع لدخل في الإسلام من لا يريده، فإذا حصل في بعض الوقائع بعض أنواع الابتلاء تبين المؤمن حقيقة الذي يرغب في الإسلام في الضراء والسراء واليسر والعسر ممن ليس كذلك، {ويتخذ منكم شهداء}. وهذا أيضاً من بعض الحكم، لأن الشهادة عند الله من أرفع المنازل، ولا سبيل لنيلها إلا بما يحصل من وجود أسبابها، فهذا من رحمته بعباده المؤمنين، أن قيَّض لهم من الأسباب ما تكرهه النفوس، لينيلهم ما يحبون من المنازل العالية والنعيم المقيم. {والله لا يحب الظالمين}، الذين ظلموا أنفسهم وتقاعدوا عن القتال في سبيله، وكأن في هذا تعريضاً بذم المنافقين وأنهم مبغوضون لله، ولهذا ثبطهم عن القتال في سبيله، ولو أرادوا الخروج لأعدوا له عدة، ولكن كره الله انبعاثهم فثبطهم وقيل اقعدوا مع القاعدين.
[140] ﴿اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَ٘رْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَ٘رْحٌ مِّثْلُهٗ﴾ یعنی زخم کھانے کے اعتبار سے تم اور وہ برابر ہو۔ مگر تم اللہ تعالیٰ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ﴾ (النساء:4؍104) ’’اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو انھیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمھیں پہنچتی ہے اور تم اللہ سے ایسی امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ مومن و کافر اور نیک و بد سب کو حصہ عطا کرتا ہے اور ان ایام کو لوگوں کے مابین ادلتا بدلتا رہتا ہے آج کامیابی ایک گروہ کے لیے ہے تو کل کسی اور گروہ کے لیے۔ کیونکہ یہ دنیا تو آخر کار ختم ہو جانے والی اور فانی ہے مگر اس کے برعکس آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے اور وہ صرف اہل ایمان کے لیے ہے۔ ﴿وَلِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہزیمت اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور منافق کے درمیان فرق واضح ہو جائے، کیونکہ اگر مومنوں کو تمام جنگوں میں فتح ہی حاصل ہوتی رہے تو اسلام میں ایسے لوگ بھی داخل ہو جائیں گے جو اسلام نہیں چاہتے۔ اگر بعض مواقع پر مسلمان آزمائش مومن میں مبتلا ہوں تو حقیقی مومن کا پتہ چل جاتا ہے جو مصیبت و مسرت، فراخی اور تنگی ہر حالت میں اسلام میں رغبت رکھتا ہے۔ ﴿وَیَتَّؔخِذَ مِنْؔكُمْ شُهَدَآءَؔ﴾ ’’اور تم میں سے گواہ بنائے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے، کیونکہ شہادت اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند ترین مرتبہ ہے اور اس کے اسباب کے حصول کے بغیر وہاں تک پہنچنا ناممکن ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت ہے کہ وہ ان کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے جو اگرچہ نفوس کو ناپسند ہوتے ہیں مگر ان اسباب کے ذریعے سے وہ اعلیٰ مراتب اور دائمی نعمتیں حاصل کر لیتے ہیں جو انھیں پسند ہیں۔ ﴿وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّلٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَ٘بَّطَهُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ﴾ (التوبۃ: 9؍46) ’’اگر وہ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس کے لیے سامان تیار کرتے مگر اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ آیا اور ان کو اس سے باز رکھا اور کہا گیا کہ معذور بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔‘‘
#
{141} {وليمحص الله الذين آمنوا}، وهذا أيضاً من الحكم أن الله يمحص بذلك المؤمنين من ذنوبهم وعيوبهم، يدل ذلك على أن الشهادة والقتال في سبيل الله تكفر الذنوب وتزيل العيوب ، وليمحص الله أيضاً المؤمنين من غيرهم من المنافقين فيتخلصون منهم ويعرفون المؤمن من المنافق. ومن الحكم أيضاً أنه يقدر ذلك ليمحق الكافرين، أي: ليكون سبباً لمحقهم واستئصالهم بالعقوبة، فإنهم إذا انتصروا بغوا وازدادوا طغياناً إلى طغيانهم يستحقون به المعاجلة بالعقوبة رحمة بعباده المؤمنين. ثم قال تعالى:
[141] ﴿وَلِیُمَحِّ٘صَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اور یہ کہ اللہ ایمان والوں کو خالص (مومن) بنادے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے کہ وہ ان آزمائشوں کے ذریعے سے اہل ایمان کو گناہوں اور عیبوں سے پاک کرتا ہے۔ اور اس امر کی دلیل یہ ہے کہ شہادت اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جنگ کرنا گناہوں کو مٹا دیتے اور عیوب کو زائل کر دیتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو منافقین سے پاک کرتا ہے اور وہ منافقین سے الگ ہو جاتے ہیں اور وہ منافق اور مومن کو پہچان لیتے ہیں اور اس میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے یہ سب کچھ کفار کو مٹانے کے لیے مقرر کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے (جہاد کو) سزا کے ذریعے سے کفار کے استیصال کا سبب بنایا کیونکہ جب کفار فتح یاب ہوتے ہیں تو بغاوت کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور اپنی سرکشی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں چنانچہ وہ اس دنیا ہی میں سزا کے مستحق بن جاتے ہیں اور یہ بھی مومن بندوں پر اللہ کی مہربانی ہے (کہ وہ منافقوں کو جلد ہی دنیا میں عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیتا ہے)
#
{142} {أم حسبتم أن تدخلوا الجنة ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ويعلم الصابرين}، هذا استفهام إنكاري، أي: لا تظنوا ولا يخطر ببالكم أن تدخلوا الجنة من دون مشقة واحتمال المكاره في سبيل الله، وابتغاء مرضاته، فإن الجنة أعلى المطالب وأفضل ما به يتنافس المتنافسون، وكلما عظم المطلوب عظمت وسيلته والعمل الموصل إليه، فلا يوصل إلى الراحة إلا بترك الراحة ولا يدرك النعيم إلا بترك النعيم، ولكن مكاره الدنيا التي تصيب العبد في سبيل الله، عند توطين النفس لها وتمرينها عليها ومعرفة ما تَؤول إليه تنقلب عند أرباب البصائر منحًا يسرون بها ولا يبالون بها، وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء، ثم وبخهم تعالى على عدم صبرهم بأمر كانوا يتمنونه ويودون حصوله، فقال:
[142] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّؔا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰؔبِرِیْنَ﴾ ’’کیا تمھارا خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، جبکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو بھی معلوم نہیں کیا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ نہ سمجھ لینا اور نہ تمھارے دل میں یہ خیال آئے کہ تم کسی مشقت اور اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے کوئی تکلیف اٹھائے بغیر جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ اس لیے کہ جنت بلند ترین منزل مقصود اور سب سے افضل مقام ہے جس کے حصول کے لیے مسابقت کی جاتی ہے۔ مطلوب و مقصود جتنا زیادہ بڑا ہو گا وہاں تک پہنچانے والا وسیلہ اور عمل بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔ پس راحت کو چھوڑ کر ہی دوسری راحت تک پہنچا جا سکتا ہے اور نعمت کو ترک کر کے ہی دوسری نعمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تکالیف اور مشکلات، جن کا سامنا بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرنا پڑتا ہے۔ نفس کو ان تکالیف کا عادی بنانے کے لیے ان کی مشق کروانے اور ان کی معرفت حاصل کرتے وقت اہل بصیرت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی نعمت بن جاتی ہیں جن پر وہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کرتے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسے معاملے میں جس کی وہ خود تمنا کیا کرتے تھے اور اسے حاصل کرنا چاہتے تھے، اس پر ان کے عدم صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے چنانچہ فرمایا:
#
{143} {ولقد كنتم تمنون الموت من قبل أن تلقوه}، وذلك أن كثيراً من الصحابة رضي الله عنهم ممن فاته بدر، يتمنون أن يحضرهم الله مشهداً يبذلون فيه جهدهم، قال الله تعالى لهم: {فقد رأيتموه}؛ [أي: رأيتم] ما تمنيتم بأعينكم {وأنتم تنظرون}، فما بالكم وترك الصبر؟ هذه حالة لا تليق ولا تحسن، خصوصاً لمن تمنى ذلك وحصل له ما تمنى، فإن الواجب عليه بذل الجهد واستفراغ الوسع في ذلك. وفي هذه الآية دليل على أنه لا يكره تمني الشهادة. ووجه الدلالة أن الله تعالى أقرهم على أمنيتهم، ولم ينكر عليهم، وإنما أنكر عليهم عدم العمل بمقتضاها والله أعلم. ثم قال تعالى:
[143] ﴿وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ﴾ ’’اور تم تو آرزو کرتے تھے مرنے کی اس کی ملاقات سے پہلے‘‘ اس آیت کریمہ کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ وہ صحابہ کرامyجو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے، وہ آرزو کیا کرتے تھے اگر اللہ تعالیٰ انھیں کسی معرکے میں شرکت کا موقع عطا کرے تو وہ اس میں اپنی جان لڑا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا ﴿فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ﴾ یعنی جس چیز کی تم تمنا کیا کرتے تھے تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُ٘رُوْنَ﴾ اب تمھیں کیا ہو گیا تم نے صبر کیوں چھوڑ دیا؟ یہ حالت خاص طور پر اس شخص کے لائق نہیں جو اس کی آرزو کیا کرتا تھا اور اسے وہ چیز حاصل ہو گئی ہو جس کی اسے آرزو تھی۔ اس پر تو واجب یہ ہے کہ اب وہ اس کے لیے اپنی پوری کوشش، جہد اور طاقت صرف کر دے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ شہادت کی تمنا کرنا ناجائز نہیں۔ اس میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی آرزو پر برقرار رکھا اور ان کی آرزو کا انکار نہیں کیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس تمنا کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ان کے عمل نہ کرنے پر نکیر کی ہے۔ وَاللہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔
آیت: 144 - 145 #
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ (144) وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ (145)}.
اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول ہی، تحقیق گزر چکے ہیں ان سے پہلے (بھی) رسول، کیا پس اگر وہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو پھر جاؤ گے تم اپنی ایڑیوں پر؟ اور جو پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز نہیں نقصان پہنچائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی اور عنقریب جزا دے گا اللہ شکرکرنے والوں کو(144) اور نہیں ہے (ممکن) واسطے کسی جان کے یہ کہ وہ مر جائے مگر ساتھ حکم اللہ ہی کے، (لکھا ہے اس نے) لکھنا ایک وقت مقرراور جو چاہتا ہے بدلہ دنیا کا تو دے دیتے ہیں ہم اسے کچھ اس میں سےاور جو چاہتا ہے ثواب آخرت کا تو دیں گے ہم اس کو اس میں سے اور عنقریب ہم جزا دیں گے شکرگزاروں کو(145)
#
{144} يقول تعالى: {وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل}؛ أي: ليس ببدع من الرسل، بل هو من جنس الرسل الذين قبله، وظيفتهم تبليغ رسالة ربهم وتنفيذ أوامره ليسوا بمخلدين، وليس بقاؤهم شرطاً في امتثال أوامر الله، بل الواجب على الأمم عبادة ربهم في كل وقت وبكل حال، ولهذا قال: {أفإن مات أو قُتل انقلبتم على أعقابكم}؛ بترك ما جاءكم به من إيمان أو جهاد أو غير ذلك، قال الله تعالى: {ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئاً}، إنما يضر نفسه، وإلا فالله تعالى غني عنه، وسيقيم دينه، ويعز عباده المؤمنين. فلما وبخ تعالى من انقلب على عقبيه، مدح من ثبت مع رسوله، وامتثل أمر ربه فقال: {وسيجزي الله الشاكرين}، والشكر لا يكون إلا بالقيام بعبودية الله تعالى في كل حال. وفي هذه الآية الكريمة إرشاد من الله تعالى لعباده أن يكونوا بحالة لا يزعزعهم عن إيمانهم أو عن بعض لوازمه فَقْدُ رئيس ولو عظم، وما ذاك إلا بالاستعداد في كل أمر من أمور الدين بعدة أناس من أهل الكفاءة فيه إذا فُقِدَ أحدُهم قام به غيره، وأن يكون عموم المؤمنين قصدهم إقامة دين الله والجهاد عنه بحسب الإمكان، لا يكون لهم قصد في رئيس دون رئيس، فبهذه الحال يستتب لهم أمرهم، وتستقيم أمورهم. وفي هذه الآية أيضاً أعظم دليل على فضيلة الصديق الأكبر أبي بكر وأصحابه الذين قاتلوا المرتدين بعد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأنهم هم سادات الشاكرين.
[144] ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقا اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لیے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَفَاۡؔؔىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُ٘تِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ﴾ ’’کیا پس اگر ان کو موت آ گئی یا قتل کر دیے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَ٘نْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔـا﴾ ’’اور جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے گا، تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ‘‘ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرور قائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح و ثنا بھی کی جو اس کے رسولeکے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انھوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا: ﴿وَسَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ﴾ ’’اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا‘‘ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہیے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں صدیق اکبر جناب ابوبکرtاور دیگر اصحاب کرام کی فضیلت پر بھی سب سے بڑی دلیل ہے، جنھوں نے رسول اللہeکے بعد مرتدین کے خلاف جنگ کی، کیونکہ وہ سادات اہل شکر میں شمار ہوتے ہیں۔
#
{145} ثم أخبر تعالى أن النفوس جميعها معلقة بآجالها بإذن الله وقدره وقضائه، فمن حتم عليه بالقدر أن يموت مات ولو بغير سبب، ومن أراد بقاءه فلو وقع من الأسباب كل سبب لم يضره ذلك قبل بلوغ أجله، وذلك أن الله قضاه وقدره وكتبه إلى أجل مسمى إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون عنه ساعة ولا يستقدمون. ثم أخبر تعالى أنه يعطي الناس من ثواب الدنيا والآخرة ما تعلقت به إرادتهم، فقال: {ومن يرد ثواب الدنيا نؤته منها ومن يرد ثواب الآخرة نؤته منها}، قال الله تعالى: {كلاًّ نمد هؤلاء وهؤلاء من عطاء ربك وما كان عطاء ربك محظوراً. انظر كيف فضلنا بعضهم على بعض وللآخرة أكبر درجات وأكبر تفضيلاً}. {وسنجزي الشاكرين}، ولم يذكر جزاءهم ليدل ذلك على كثرته وعظمته، وليعلم أن الجزاء على قدر الشكر قلة وكثرة وحسناً.
[145] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے اپنی اپنی اجل کے ساتھ معلق ہیں۔ پس جس کی تقدیر میں موت کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے اسے بغیر کسی سبب کے بھی موت آ کر رہتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو باقی رکھنا چاہے، تو پھر اگر موت کے تمام اسباب بھی جمع کیوں نہ ہو جائیں، یہ اسباب وقت مقررہ سے پہلے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر کے اس کو مقدر کر دیا ہے اور اس کی موت کا وقت معین اس کی تقدیر میں لکھ دیا۔ ﴿فَاِذَا جَآءَؔ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۠﴾ (الاعراف : 7؍34) ’’جب ان کا وقت معین آ جاتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ لوگوں کو دنیا و آخرت کا وہی ثواب عطاکرتا ہے جس سے ان کے ارادے متعلق ہوتے ہیں۔ فرمایا: ﴿وَمَنْ یُّرِدْ ثَـوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا١ۚ وَمَنْ یُّرِدْ ثَـوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَا﴾ ’’جو کوئی دنیا ہی میں اپنے اعمال کا بدلہ چاہتا ہے ہم اسے وہیں بدلہ دے دیتے ہیں اور جو کوئی اپنے اعمال کا بدلہ آخرت میں چاہتا ہے ہم اس کو آخرت میں اس کا بدلہ عطا کریں گے۔‘‘ فرمایا: ﴿كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَهٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا۰۰اُنْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍20۔21) ’’ہم ان سب کو تیرے رب کی عطا و بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تیرے رب کی عطا و بخشش ممنوع اور روکی ہوئی نہیں ہے۔ دیکھ ہم نے کیسے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑی اور فضیلت میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ فرمایا: ﴿وَسَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ﴾ ’’اور ہم جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے جزا کا ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس جزا کی کثرت اور عظمت پر دلیل ہو اور یہ بھی بندے کو معلوم ہو جائے کہ یہ جزا قلت و کثرت اور حسن کے اعتبار سے شکر کی مقدار پر منحصر ہے۔
آیت: 146 - 148 #
{وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا {اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (146) وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (147) فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (148)}.
اور کتنے ہی نبی تھے، لڑے ان کے ساتھ (مل کر) اللہ والے بہت سے، پس نہ سست ہوئے وہ بوجہ اس کے جو پہنچا ان کو اللہ کے راستے میں اور نہ انھوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ دبے اور اللہ پسند کرتا ہے صبر کرنے والوں کو(146) اور نہیں تھا قول ان کا مگر یہی کہ کہا انھوں نے، اے ہمارے رب! بخش دے ہمارے لیے ہمارے گناہ اور ہماری زیادتی ہمارے اپنے کام میں اور ثابت رکھ ہمارے قدموں کو اور مدد فرما ہماری اوپر کافر قوم کے(147) پس دیا انھیں اللہ نے ثواب دنیا کا بھی اور اچھا ثواب آخرت کا بھی اور اللہ پسند کرتا ہے احسان کرنے والوں کو(148)
#
{146} هذا تسلية للمؤمنين وحثٌّ على الاقتداء بهم والفعل كفعلهم، وأن هذا أمر قد كان متقدماً لم تزل سنة الله جارية بذلك، فقال: {وكأين من نبي}؛ أي: وكم من نبي {قاتل معه ربيون كثير}؛ أي: جماعات كثيرون من أتباعهم الذين قد ربتهم الأنبياء بالإيمان والأعمال الصالحة فأصابهم قتل وجراح وغير ذلك، {فما وهنوا لما أصابهم في سبيل الله وما ضعفوا وما استكانوا}؛ أي: ما ضعفت قلوبهم، ولا وهنت أبدانهم، ولا استكانوا؛ أي: ذلُّوا لعدوهم، بل صبروا وثبتوا وشجعوا أنفسهم، ولهذا قال: {والله يحب الصابرين}.
[146] یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے تسلی ہے اور ان کے فعل کی اقتدا کی ترغیب ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ (حق و باطل کی کشمکش کا) یہ معاملہ شروع ہی سے چلا آ رہا ہے اور ازل سے اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَكَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ﴾ ’’یعنی کتنے ہی نبی ہیں‘‘ ﴿قٰتَلَ١ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌ﴾ ’’جن کے ساتھ ہوکر اکثر اللہ والوں نے قتال کیا ہے۔‘‘ یعنی انبیاء کرام کے پیروکاروں کی بہت سی جماعتوں نے، جن کی انبیاءoنے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے تربیت کی، جہاد کیا، پس وہ شہید ہوئے اور انھوں نے زخم کھائے ﴿فَمَا وَهَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا﴾ یعنی ان کے دل کمزور ہوئے نہ ان کے بدن، اور نہ انھوں نے عاجزی اور فروتنی ظاہر کی۔ یعنی وہ دشمن کے سامنے جھکے نہیں۔ بلکہ انھوں نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے اور اپنا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰؔبِرِیْنَ﴾ ’’اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
#
{147} ثم ذكر قولهم واستنصارهم لربهم فقال: {وما كان قولهم}؛ أي: في تلك المواطن الصعبة {إلا أن قالوا ربنا اغفر لنا ذنوبنا وإسرافنا في أمرنا}، والإسراف هو: مجاوزة الحد إلى ما حرم، علموا أن الذنوب والإسراف من أعظم أسباب الخذلان وأن التخلي منها من أسباب النصر، فسألوا ربهم مغفرتها. ثم إنهم لم يتكلوا على ما بذلوا جهدهم به من الصبر، بل اعتمدوا على الله، وسألوه أن يثبت أقدامهم عند ملاقاة الأعداء الكافرين، وأن ينصرهم عليهم، فجمعوا بين الصبر وترك ضده، والتوبة والاستغفار والاستنصار بربهم، لا جرم أن الله نصرهم، وجعل لهم العاقبة في الدنيا والآخرة ولهذا قال:
[147] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا جس میں انھوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت طلب کی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ﴾ یعنی ان انتہائی مشکل مقامات پر ان کا یہی قول تھا۔ ﴿اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْ٘فِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمارے گناہ اور وہ زیادتیاں جو ہمارے معاملے میں ہم سے سرزد ہوئی ہیں بخش دے۔‘‘ اسراف سے مراد حد سے تجاوز کر کے حرام امور میں داخل ہونا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ گناہ اور اسراف اللہ تعالیٰ کی نصرت اور توفیق کے اٹھ جانے کا سب سے بڑا سبب ہے اور گناہ اور اسراف کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا سبب ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گناہوں کی بخشش کا سوال کیا۔ پھر انھوں نے محض اپنی جدوجہد اور اپنے صبر پر ہی بھروسہ نہیں کیا بلکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ ہونے کے وقت انھیں ثابت قدمی سے نوازے اور دشمن کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ پس اہل ایمان نے صبر کرنے، صبر کے متضاد امور کو ترک کرنے، توبہ، استغفار اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کو ایک جگہ جمع کر دیا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح و نصرت سے نوازا۔ اور دنیا و آخرت میں ان کا اچھا انجام کیا۔ اس لیے فرمایا:
#
{148} {فآتاهم الله ثواب الدنيا} من النصر والظفر والغنيمة {وحُسن ثواب الآخرة} وهو الفوز برضا ربهم والنعيم المقيم الذي قد سلم من جميع المنكدات، وما ذاك إلا أنهم أحسنوا له الأعمال فجازاهم بأحسن الجزاء، فلهذا قال: {والله يحب المحسنين} في عبادة الخالق ومعاملة الخلق، ومن الإحسان أن يفعل عند جهاد الأعداء كفعل هؤلاء المؤمنين. ثم قال تعالى:
[148] ﴿فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَـوَابَ الدُّنْیَا﴾ ’’پس دیا ان کو اللہ نے دنیا کا ثواب‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں فتح و ظفر سے نوازا اور مال غنیمت عطا کیا ﴿وَحُسْنَ ثَـوَابِ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’اور خوب آخرت کا ثواب‘‘ یعنی اپنے رب کی رضا کے حصول میں کامیابی، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا عطا ہونا جو ہر قسم کے تکدر سے محفوظ ہوں گی۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انھوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے بہترین اعمال سرانجام دیے پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو بہترین جزا سے نوازا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ یعنی خالق کی عبادت اور مخلوق کے ساتھ معاملہ میں احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت، ان مومنین کا سا کردار اختیار کرنا بھی احسان ہے۔
آیت: 149 - 151 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (149) بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (150) سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا {الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ (151)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر اطاعت کرو گے تم ان کی جنھوں نے کفر کیا تو لوٹا دیں گے وہ تمھیں اوپر تمھاری ایڑیوں کے (شرک کی طرف) پس پلٹو گے تم خسارہ پانے والے(149)بلکہ اللہ کارساز ہے تمھارا اور وہ سب سے بہترمددگار ہے(150) عنقریب ڈال دیں گے ہم دلوں میں ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، رعب بہ سبب اس کے جو شریک ٹھہرایا انھوں نے اللہ کا، ایسی چیزوں کو کہ نہیں اُتاری اس نے اس کی کوئی دلیل اور ان کا ٹھکانا آگ ہے اور برا ہے ٹھکانا ظالموں کا(151)
#
{149} وهذا نهي من اللَّهِ للمؤمنين، أن يطيعوا الكافرين من المنافقين والمشركين فإنهم إذا أطاعوهم لم يريدوا لهم إلا الشر، وهم قصدهم ردهم إلى الكفر الذي عاقبته الخيبة والخسران.
[149] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو منافقین و مشرکین کی اطاعت سے ممانعت ہے۔ کیونکہ وہ جب بھی کفار کی اطاعت کریں گے تو کفار ان کے مقابلے میں برا ارادہ ہی رکھیں گے اور ان کا قصد و ارادہ یہی ہو گا کہ وہ اہل ایمان کو کفر کی طرف لوٹا دیں جس کا انجام ناکامی اور خسارے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
#
{150} ثم أخبر أنه مولاهم وناصرهم، ففيه إخبار لهم بذلك وبشارة، بأنه يتولى أمورهم بلطفه ويعصمهم من أنواع الشرور، وفي ضمن ذلك الحث لهم على اتخاذه وحده وليًّا وناصراً من دون كل أحد.
[150] پھر اہل ایمان کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ان کا مولیٰ اور حامی و ناصر ہے اور اس میں اہل ایمان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ اپنے لطف و کرم سے ان کے امور کی سرپرستی کرتا ہے اور انھیں مختلف قسم کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ ہر ایک کو چھوڑ کر صرف اسی کو اپنا ولی اور مددگار بنائیں۔
#
{151} فمن ولايته ونصره لهم أنه وعدهم أنه سيلقي في قلوب أعدائهم من الكافرين الرعب، وهو الخوف العظيم الذي يمنعهم من كثير من مقاصدهم، وقد فعل تعالى، وذلك أن المشركين بعد ما انصرفوا من وقعة أُحد تشاوروا بينهم، وقالوا: كيف ننصرف بعد أن قتلنا منهم من قتلنا وهزمناهم ولما نستأصلهم؟ فهَمُّوا بذلك، فألقى اللَّهُ الرعبَ في قلوبهم فانصرفوا خائبين. ولا شكَّ أن هذا من أعظم النصر، لأنه قد تقدم أن نصر الله لعباده المؤمنين لا يخرج عن أحد أمرين: إما أن يقطعَ طرفاً ممن كفروا أو يكبتهم فينقلبوا خائبين. وهذا من الثاني. ثم ذكر السبب الموجب لإلقاء الرعب في قلوب الكافرين فقال: {بما أشركوا بالله ما لم ينزل به سلطاناً}؛ أي: ذلك بسبب ما اتخذوا من دونه من الأنداد والأصنام التي اتخذوها على حسب أهوائهم وإراداتهم الفاسدة من غير حجة ولا برهان، وانقطعوا من ولاية الواحد الرحمن، فمن ثَمَّ كان المشرك مرعوباً من المؤمنين لا يعتمد على ركن وثيق، وليس له ملجأ عند كل شدة وضيق، هذا حاله في الدنيا وأما في الآخرة فأشد وأعظم، ولهذا قال: {ومأواهم النار}؛ أي: مستقرهم الذي يأوون إليه وليس لهم عنها خروج {وبئس مثوى الظالمين}، بسبب ظلمهم وعدوانهم؛ صارت النارُ مثواهم.
[151] اللہ کی سرپرستی اور اس کی طرف سے مسلمانوں کی مدد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ان کے دشمن کفار کے دلوں میں رعب ڈال دے گا۔ یہاں رعب سے مراد وہ خوف عظیم ہے جو کفار کو ان کے بہت سے مقاصد سے روک دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا فرمایا وہ اس طرح کہ ’’اُحد‘‘ کے واقعہ کے بعد جب مشرکین واپس لوٹے تو (راستے میں) انھوں نے باہمی مشورہ کیا اور کہنے لگے ’’ہم کیسے واپس لوٹ سکتے ہیں۔ ہم نے ان کے بعض لوگوں کو قتل کیا اور ان کو شکست دی مگر ہم نے ان کا مکمل استیصال نہیں کیا۔‘‘ چنانچہ انھوں نے اس کا ارادہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ خائب و خاسر ہو کر لوٹ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑی فتح ہے۔ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت، دو امور سے خالی نہیں ہوتی: (۱) اللہ تعالیٰ یا تو کفار کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ (۲) یا انھیں ذلت سے دوچار کرتا ہے اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ جاتے ہیں اور یہ (رعب ڈال کر انھیں ناکام لوٹا دینا) دوسری قسم سے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جو کفار کے دلوں میں رعب ڈالنے کا موجب تھا ﴿بِمَاۤ اَشْرَؔكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا﴾ یعنی اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا لیے اور اپنی خواہشات نفس اور اپنے فاسد ارادوں کے مطابق بتوں کو رب بنا لیا۔ جس پر کوئی حجت اور برہان نہیں تھی اور اس طرح وہ اللہ واحد و رحمٰن کی سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ اسی وجہ سے مشرک اہل ایمان سے مرعوب ہو جاتا تھا اور اسے کوئی مضبوط سہارا حاصل نہیں تھا۔ کسی شدت اور تنگی کے وقت کوئی اس کی پناہ گاہ نہیں تھی۔ یہ اس کا دنیا میں حال ہے۔ آخرت کا حال اس سے زیادہ برا اور سخت ہو گا اس لیے فرمایا: ﴿وَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ﴾ یعنی ان کا ٹھکانہ جہاں یہ پناہ لیں گے، جہنم ہے، اور پھر وہاں سے نکل نہیں سکیں گے ﴿وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور برا ہے ٹھکانا ظالموں کا‘‘ ان کے ظلم اور تعدی کے سبب جہنم ان کا ٹھکانہ ہو گا۔
آیت: 152 #
{وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (152)}.
اور تحقیق سچا کر دکھایا تم سے اللہ نے اپنا وعدہ جب کاٹتے تھے تم ان کو ساتھ اس کے حکم کے، یہاں تک کہ جب تم پست ہمت ہوگئے اور باہم جھگڑا کیا تم نے حکم (رسول) میں اور نافرمانی کی تم نے بعد اس کے کہ دکھلایا اس نے تم کو وہ جسے تم پسند کرتے تھے، تم میں سے بعض وہ ہیں جو ارادہ کرتے تھے دنیا کا اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو ارادہ کرتے تھے آخرت کا۔ ، پھر پھیر دیا اللہ نے تم کو ان (کافروں) سے تاکہ آزمائے وہ تمھیں اور البتہ تحقیق معاف کر دیا اس نے تم کو اور اللہ فضل والا ہے اوپر مومنوں کے(152)
#
{152} أي: {ولقد صدقكم الله وعده} بالنصر فنصركم عليهم حتى ولوكم أكتافهم، وطفقتم فيهم قتلاً حتى صرتم سبباً لأنفسكم وعوناً لأعدائكم عليكم، فلما حصل منكم الفشل وهو الضعف والخور {وتنازعتم في الأمر} الذي فيه ترك أمر الله بالائتلاف وعدم الاختلاف، فاختلفتم؛ فمن قائل نقيم في مركزنا الذي جعلنا فيه النبي - صلى الله عليه وسلم -، ومن قائل ما مقامنا فيه وقد انهزم العدو ولم يبق محذور، فعصيتم الرسول وتركتم أمره، من بعد ما أراكم الله ما تحبون، وهو انخذال أعدائكم، لأن الواجب على من أنعم الله عليه بما أحب أعظم من غيره، فالواجب في هذه الحال خصوصاً وفي غيرها عموماً امتثال أمر الله ورسوله، {منكم من يريد الدنيا}؛ وهم الذين أوجب لهم ذلك ما أوجب، {ومنكم من يريد الآخرة}؛ وهم الذين لزموا أمر رسول الله. وثبتوا حيث أُمروا، {ثم صرفكم عنهم}؛ أي: بعد ما وجدت هذه الأمور منكم، صرف الله وجوهكم عنهم، فصار الوجه لعدوكم ابتلاء من الله لكم وامتحاناً، ليتبين المؤمن من الكافر والطائع من العاصي، وليكفِّرَ الله عنكم بهذه المصيبة ما صدر منكم فلهذا قال: {ولقد عفا عنكم والله ذو فضل على المؤمنين}؛ أي: ذو فضل عظيم عليهم، حيث مَنَّ عليهم بالإسلام، وهداهم لشرائعه، وعفا عنهم سيئاتهم، وأثابهم على مصيباتهم، ومن فضله على المؤمنين أنه لا يُقَدِّرُ عليهم خيراً ولا مصيبةً إلا كان خيراً لهم، إن أصابتهم سرَّاء فشكروا، جازاهم جزاءَ الشاكرين، وإن أصابتهم ضرَّاء فصبروا، جازاهم جزاء الصابرين.
[152] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اپنی نصرت کا وعدہ پورا کر دیا، پس تمھیں کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کی حتی کہ تمھیں ان کی گردنوں پر اختیار دے دیا تھا اور تم نے ان کی گردنیں مارنا شروع کر دیں یہاں تک کہ تم خود اپنے لیے ہزیمت کا سبب بن گئے اور تم خود اپنے مقابلے میں دشمن کی اعانت کا باعث بن گئے۔ پس جب تم بزدلی، کمزوری اور سستی کا شکار ہو گئے ﴿وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ اور تم نے جھگڑے میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو چھوڑ دیا جو اتحاد اور عدم اختلاف کے بارے میں تھا۔ پس تم اختلافات میں پڑ گئے۔ کوئی کہتا تھا کہ ہم تو اسی مقام پر ڈٹے رہیں گے جہاں رسول اللہeنے ہمیں متعین فرمایا ہے اور کسی نے کہا، اب ہمارے یہاں ٹھہرے رہنے کا کیا کام؟ جبکہ دشمن شکست کھا چکا اور کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ پس تم نے رسولeکی نافرمانی کی اور آپ کے حکم کو چھوڑ دیا ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ﴾ ’’بعد اس کے، جب اللہ نے تمھیں وہ چیز دکھا دی جو تم پسند کرتے تھے‘‘ اور وہ تھی تمھارے دشمن کی ناکامی اور شکست۔ اس لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اس چیز سے نواز دے، جو اسے پسند ہو، اس پر دوسرے کی نسبت زیادہ ضروری ہے کہ وہ نافرمانی سے بچے۔ پس خاص طور پر اس حال میں اور عام طور پر ہر حال میں اس پر اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔ ﴿مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا﴾ ’’تم میں سے بعض وہ ہیں جو دنیا چاہتے تھے‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ﴿وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ﴾ ’’اور بعض تم میں سے آخرت چاہتے تھے‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہeکے حکم کا التزام کیا اور جو ان کو حکم دیا گیا تھا اس پر ثابت قدم رہے۔ ﴿ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ﴾ ’’پھر تم کو پھیر دیا ان سے‘‘ یعنی جب یہ تمام امور تم میں پائے گئے تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے مقابلے میں پھیر کر بھگا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری آزمائش اور تمھارے امتحان کے طور پر جیت دشمن کے ہاتھ رہی۔ تاکہ مومن اور کافر، فرمانبردار اور نافرمان کے درمیان امتیاز ہو جائے۔ اور تاکہ تم سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے اس مصیبت کے ذریعے سے تمھیں معاف کردے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اس نے تمھیں معاف کر دیا اور اللہ مومنوں پر فضل کرنے والا ہے‘‘ یعنی وہ ان پر بہت زیادہ فضل کرنے والا ہے کیونکہ اس نے انھیں اسلام سے نوازا، اپنے احکام کی طرف راہنمائی کی، ان کے گناہوں کو معاف کر دیا اور ان کے مصائب پر ان کو اجر عطا کیا۔ یہ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ وہ جو بھلائی یا مصیبت ان کے لیے مقدر کرتا ہے وہ بھی ان کے لیے بھلائی ہی ہوتی ہے۔ اگر انھیں خوشحالی عطا کرتا ہے اور وہ اس پر شکر ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں شکر گزاروں کی جزا دیتا ہے۔ اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر وہ صبر کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ انھیں صبر کرنے والوں کے ثواب سے نوازتا ہے۔
آیت: 153 - 154 #
{إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (153) ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (154)}.
جب چڑھے جارہے تھے تم اور نہیں مڑ کر دیکھتے تھے کسی کو اور رسول پکار رہے تھے تمھیں تمھاری پچھلی جماعت میں (کھڑے ہوئے) پس بدلے میں دیا اس نے تم کو غم پر غم تاکہ نہ غم کھاؤ تم اس پر جو فوت ہو گیا تم سے اور نہ اس (تکلیف) پر جو پہنچی تمھیں اور اللہ خبردار ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو(153) پھر نازل کیا اس نے تم پر بعدغم کے، امن ( یعنی ) اونگھ، ڈھانپتی تھی وہ ایک جماعت کو تم میں سے اور ایک جماعت تھی کہ فکر میں ڈال دیا تھا ان کو ان کی جانوں نے، وہ گمان کرتے تھے ساتھ اللہ کے ناحق گمان جاہلیت کا، کہتے تھے کیا ہے ہمارے لیے معاملے سے کچھ؟ کہہ دیجیے! بے شک معاملہ سب کا سب اللہ ہی کے لیے ہے، وہ چھپاتے ہیں اپنے دلوں میں وہ (بات) جو نہیں ظاہر کرتے آپ کے سامنے، کہتے ہیں اگر ہوتا ہمارے لیے معاملے سے کچھ تو نہ قتل کیے جاتے ہم یہاں، کہہ دیجیے! اگر ہوتے تم اپنے گھروں میں (بھی) تو ضرور باہر نکلتے وہ لوگ کہ لکھ دیا گیا تھا ان پر قتل ہونا، طرف اپنی قتل گاہوں کی اور تاکہ آزمائے اللہ اس میں جو تمھارے سینوں میں ہے اور تاکہ صاف کر دے ان (وسوسوں) کو جو تمھارے دلوں میں ہیں اور اللہ جانتا ہے سینوں کے راز(154)
#
{153} يذكرهم تعالى حالهم في وقت انهزامهم عن القتال، ويعاتبهم على ذلك فقال: {إذ تُصعدون}؛ أي: تَجِدُّون في الهرب {ولا تلوون على أحد}؛ أي: لا يلوي أحد منكم على أحد ولا ينظر إليه، بل ليس لكم هَمٌّ إلا الفرار والنجاء عن القتال، والحال أنه ليس عليكم خطر كبير، إذ لستم آخر الناس مما يلي الأعداء ويباشر الهيجاء، بل {الرسول يدعوكم في أخراكم}؛ أي: مما يلي القوم يقول: «إليَّ عباد الله» ، فلم تلتفتوا إليه ولا عرجتم عليه، فالفرار نفسه موجب للوم، ودعوة الرسول الموجبة لتقديمه على النفس أعظم لوماً بتخلفكم عنها {فأثابكم}؛ أي: جازاكم على فعلكم {غمًّا بغم}؛ أي: غمًّا يتبعه غمٌّ، غمٌّ بفوات النصر وفوات الغنيمة، وغمٌّ بانهزامكم، وغمٌّ أنساكم كل غمٍّ وهو سماعكم أن محمداً - صلى الله عليه وسلم - قد قتل. ولكن الله بلطفه وحسن نظره لعباده جعل اجتماع هذه الأمور لعباده المؤمنين خيراً لهم فقال: {لكيلا تحزنوا على ما فاتكم}؛ من النصر والظفر، {ولا ما أصابكم}؛ من الهزيمة والقتل والجراح إذا تحققتم أن الرسول - صلى الله عليه وسلم - لم يقتل، هانت عليكم تلك المصيبات، واغتبطتم بوجوده المسلي عن كل مصيبة ومحنة، فلله ما في ضمن البلايا والمحن من الأسرار والحكم، وكل هذا صادر عن علمه وكمال خبرته بأعمالكم وظواهركم وبواطنكم، ولهذا قال: {والله خبير بما تعملون}، ويحتمل أن معنى قوله: {لكيلا تحزنوا على ما فاتكم ولا ما أصابكم}؛ يعني: أنه قدَّر ذلك الغم والمصيبة عليكم، لكي تتوطن نفوسكم وتمَرَّنُوا على الصبر على المصيبات، ويخف عليكم تحمل المشقات.
[153] اللہ تبارک و تعالیٰ جنگ سے ان کی پسپائی کے وقت ان کا حال بیان کرتے ہوئے ان پر عتاب کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿اِذْ تُصْعِدُوْنَ﴾ یعنی جب تم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے ﴿وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ جنگ سے فرار اور نجات کے سوا تمھارا کوئی ارادہ نہ تھا اور حال یہ تھا کہ تم کسی بڑے خطرے سے بھی دوچار نہ تھے کیونکہ تم سب سے آخر میں تھے اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو دشمن کے قریب تھے جو بلاواسطہ میدان جنگ میں تھے، بلکہ صورت حال یہ تھی ﴿وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْؔكُمْ فِیْۤ اُخْرٰؔىكُمْ﴾ ’’رسول تمھیں بلا رہے تھے، تمھارے پیچھے سے‘‘ یعنی رسول اللہeان لوگوں کو بلا رہے تھے جو پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے ’’اے اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ‘‘ مگر تم نے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا نہ تم ان کے پاس رکے۔ پس میدان جنگ سے فرار فی نفسہ موجب ملامت ہے اور رسول اللہeکا بلانا، جو اس امر کا موجب تھا کہ اپنی جان پر بھی آپ کی پکار کو مقدم رکھا جائے، سب سے بڑی ملامت کا مقام ہے، کیونکہ تم لوگ بلانے کے باوجود آپ سے پیچھے رہے۔ ﴿فَاَثَابَكُمْ﴾ یعنی اس نے تمھارے اس فعل پر تمھیں جزا دی ﴿غَمًّۢا بِغَمٍّ﴾ یعنی غم کے بعد غم۔ فتح حاصل نہ ہونے کا غم، مال غنیمت سے محروم ہونے کا غم، ہزیمت اٹھانے کا غم اور ایک ایسا غم جس نے تمام غموں کو بھلا دیا اور وہ تھا تمھارا اس افواہ کو سن لینا کہ محمدeکو شہید کر دیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور اپنے بندوں پر حسن نظر کی بنا پر ان تمام امور کے اجتماع کو ان کے لیے بھلائی بنا دیا۔ فرمایا: ﴿لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ﴾ یعنی جو فتح و ظفر تمھیں حاصل نہ ہو سکی۔ اس پر غمزدہ نہ ہو ﴿وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمْ﴾ ’’اور نہ اس پر جو تمھیں پہنچا‘‘ یعنی تمھیں ہزیمت ، قتل اور زخموں کا جو سامنا کرنا پڑا۔ اور جب تم نے اس بات کی تحقیق کر لی کہ رسول اللہeشہید نہیں ہوئے تو تم پر تمام مصیبتیں آسان ہو گئیں۔ تم رسول اللہeکے زندہ ہونے پر خوش ہو گئے آپ کی زندگی کی خبر نے ہر مصیبت اور سختی کو فراموش کر دیا۔ پس ابتلا اور آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے علم، تمھارے اعمال اور ظاہر و باطن کے مکمل باخبر ہونے کے ساتھ صادر ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اللہ تمھارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمْ﴾ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ غم اور مصیبت اس لیے مقدر کیے ہیں تاکہ تمھارے نفس ان مصائب کا سامنا کرنے پر آمادہ، اور ان پر صبر کرنے کے عادی ہوں اور تمھارے لیے مشقتوں کو برداشت کرنا آسان ہو جائے۔
#
{154} {ثم أنزل عليكم من بعد الغم}، الذي أصابكم، {أمنة نُعاساً يغشى طائفة منكم}، ولا شك أن هذا رحمة بهم وإحسان وتثبيت لقلوبهم وزيادة طمأنينة، لأن الخائف لا يأتيه النعاس، لما في قلبه من الخوف، فإذا زال الخوف عن القلب أمكن أن يأتيه النعاس، وهذه الطائفة التي أنعم الله عليها بالنعاس، هم المؤمنون الذين ليس لهم إلا إقامة دين الله ورضا الله ورسوله ومصلحة إخوانهم المسلمين، وأما الطائفة الأخرى الذين {قد أهمتهم أنفسهم}، فليس لهم هَمٌّ في غيرها لنفاقهم أو ضعف إيمانهم، فلهذا لم يصبهم من النعاس ما أصاب غيرهم، {يقولون هل لنا من الأمر من شيء}، وهذا استفهام إنكاري، أي: ما لنا من الأمر، أي: النصر والظهور شيء، فأساؤوا الظنَّ بربهم وبدينه وبنبيه، وظنوا أن الله لا يتم أمر رسوله، وأن هذه الهزيمة هي الفيصلة والقاضية على دين الله. قال الله في جوابهم: {قل إن الأمر كله لله}، الأمر يشمل الأمر القدري والأمر الشرعي، فجميع الأشياء بقضاء الله وقدره، وعاقبتها النصر والظفر لأوليائه وأهل طاعته وإن جرى عليهم ما جرى، {يخفون} يعني المنافقين {في أنفسهم ما لا يبدون لك}، ثم بيَّن الأمر الذي يخفونه فقال: {يقولون لو كان لنا من الأمر شيء}؛ أي: لو كان لنا في هذه الواقعة رأي ومشورة {ما قتلنا ههنا}، وهذا إنكار منهم، وتكذيب بقدر الله، وتسفيه منهم لرأي رسول الله ورأي أصحابه، وتزكية منهم لأنفسهم، فرد الله عليهم بقوله: {قل لو كنتم في بيوتكم} التي هي أبعد شيء عن مظان القتل {لبرز الذين كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم}، فالأسباب وإن عظمت إنما تنفع إذا لم يعارضها القدر والقضاء، فإذا عارضها القدر لم تنفع شيئاً، بل لا بد أن يمضي الله ما كتب في اللوح المحفوظ من الموت والحياة {وليبتلي الله ما في صدوركم}؛ أي: يختبر ما فيها من نفاق وإيمان وضعف إيمان، {وليمحص ما في قلوبكم} من وساوس الشيطان وما تأثر عنها من الصفات غير الحميدة {والله عليم بذات الصدور}؛ أي: بما فيها وما أكنته، فاقتضى علمه وحكمته أن قدر من الأسباب ما به تظهر مخبآت الصدور وسرائر الأمور. ثم قال تعالى:
[154] ﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ ﴾ ’’پھر اتارا اس نے تم پر اس غم کے بعد‘‘ یعنی وہ غم جو تمھیں پہنچا ﴿اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآىِٕفَةً مِّنْكُمْ﴾ ’’امن کو جو کہ اونگھ تھی کہ ڈھانک لیا اس نے تمھارے ایک گروہ کو‘‘ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، احسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے اور طمانیت میں اضافہ کا باعث تھا۔ کیونکہ خوف زدہ شخص کو، دل خوف سے لبریز ہونے کی وجہ سے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ جب دل سے خوف زائل ہو جاتا ہے، تب نیند آنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ گروہ جس کو اللہ تعالیٰ نے نیند اور اونگھ سے نوازا ، اہل ایمان ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے، اللہ اور اس کے رسولeکی رضا کے حصول اور مسلمانوں کے مصالح کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ رہا دوسرا گروہ جس کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَهَمَّؔتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ﴾ ’’انھیں فکر میں ڈال دیا تھا ان کی جانوں نے‘‘ تو ان کے نفاق یا ان کے ایمان کی کمزوری کی بنا پر، ان کا اپنی جان بچانے کے سوا کوئی اور ارادہ نہ تھا۔ اس لیے ان کو وہ اونگھ نہ آئی جو دوسروں کو آئی تھی ﴿یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’وہ کہتے تھے، کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ میں؟‘‘ یہ استفہام انکاری ہے یعنی فتح و نصرت میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ پس انھوں نے اپنے رب، اپنے دین اور اپنے نبی کے بارے میں بدگمانی کی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی دعوت کو پورا نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ یہ شکست اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ایک فیصلہ کن شکست ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جواب میں فرمایا ﴿قُ٘لْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ﴾ ’’کہہ دو کہ تمام معاملے کا اختیار اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔‘‘ (امر) دو امور پر مشتمل ہوتا ہے:(۱) امر قدری اور(۲) امر شرعی۔ پس تمام چیزوں کا ظہور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں، ان چیزوں کا انجام فتح وظفر ہی ہوتا ہے خواہ ان پر کچھ بھی گزر جائے۔ ﴿یُخْفُوْنَ﴾ یعنی منافقین چھپاتے ہیں ﴿ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ﴾ ’’اپنے دلوں میں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو واضح کر دیا جو وہ چھپاتے تھے، چنانچہ فرمایا ﴿یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ﴾ یعنی اگر اس واقعہ میں ہم سے رائے اور مشورہ لیا گیا ہوتا ﴿مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا﴾ ’’تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔‘‘ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا انکار اور اس کی تکذیب ہے اور یہ رسول اللہeاور آپ کے اصحاب کرام کی رائے کو بیوقوفی کی طرف منسوب کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف اور صحیح قرار دینا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قُ٘لْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ﴾ ’’کہہ دیں، اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے‘‘ گھر ایسی جگہ ہے جہاں قتل کا گمان بعید ترین چیز ہے۔ فرمایا ﴿لَـبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ﴾ ’’تب بھی وہ لوگ ضرور اپنے پڑاؤ کی طرف نکلتے جن کا مارا جانا لکھ دیا گیا تھا‘‘ پس معلوم ہوا کہ اسباب خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، وہ تب ہی فائدہ دیتے ہیں جب قضا و قدر معارض نہ ہو۔ جب قضا و قدر اسباب کے خلاف ہو تو اسباب کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کے جو فیصلے لوح محفوظ میں لکھ دیے ہیں وہ نافذ ہو کر رہتے ہیں۔ ﴿وَلِیَبْتَ٘لِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ آزمائے جو تمھارے سینوں میں (نفاق، ایمان اور ضعف ایمان) ہے۔‘‘ ﴿وَلِیُمَحِّ٘صَ مَا فِیْ قُ٘لُوْبِكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ تمھارے دلوں کو (شیطانی وسوسوں اور ان سے پیدا ہونے والی مذموم صفات سے) پاک کر دے‘‘ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام (خیالات اور ارادوں) کو جانتا ہے جو دلوں کے اندر ہیں اور ان میں چھپے ہوئے ہیں۔ پس اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے جن سے سینوں کے بھید اور معاملات کے اسرار نہاں ظاہر ہوں۔
آیت: 155 #
{إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (155)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو پھر گئے تھے تم میں سے، جس دن ملی تھیں دو جماعتیں، یقیناً پھسلا دیا تھا ان کو شیطان نے بہ سبب بعض ان (کوتاہیوں) کے جو انھوں نے کیں اور تحقیق معاف کر دیا اللہ نے ان سے، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا بڑا بردبار ہے(155)
#
{155} يخبر تعالى عن حال الذين انهزموا يوم أُحد، وما الذي أوجب لهم الفرار وأنه من تسويل الشيطان، وأنه تسلط عليهم ببعض ذنوبهم، فهم الذين أدخلوه على أنفسهم ومكنوه بما فعلوا من المعاصي لأنها مركبة ومدخلة، فلو اعتصموا بطاعة ربهم لما كان له عليهم من سلطان، قال تعالى: {إن عبادي ليس لك عليهم سلطان}، ثم أخبر أنه عفا عنهم بعد ما فعلوا ما يوجب المؤاخذة، وإلا فلو آخذهم لاستأصلهم {إن الله غفور} للمذنبين الخطائين بما يوفقهم له من التوبة والاستغفار والمصائب المكفرة {حليم} لا يعاجل من عصاه بل يستأني به ويدعوه إلى الإنابة إليه والإقبال عليه، ثم إن تاب، وأناب قبل منه، وصيره كأنه لم يجر منه ذنب، ولم يصدر عنه عيب. فلله الحمد على إحسانه.
[155] اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے احوال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جنھوں نے احد کے روز ہزیمت اٹھائی۔ اور ان عوامل کی خبر دی جو ان کے فرار کا موجب بنے۔ نیز یہ کہ شیطان نے ان کو گمراہ کیا اور وہ ان کے بعض گناہوں کے سبب سے ان پر مسلط ہوگیا۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے شیطان کو دراندازی کی اجازت دی اور اپنی نافرمانیوں پر اسے اختیار دے دیا کیونکہ معصیت شیطان کی سواری اور اس کی دراندازی کا ذریعہ ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی اطاعت کے ذریعے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے تو شیطان کو ان پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ عِبَادِیْ لَ٘یْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْ٘طٰ٘نٌ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍65) ’’بے شک میرے جو بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ان لوگوں کو معاف کر دیا جن سے یہ قابل مواخذہ فعل سرزد ہوا اور اگر وہ ان کا مواخذہ کرتا تو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ﴿اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ﴾ بے شک اللہ خطا کار گناہ گاروں کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا کر کے اور ان کو مصائب میں مبتلا کر کے بخش دیتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾ یعنی جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ وہ اسے توبہ و انابت کے لیے اپنی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے اس کی طرف لوٹ آئے تو وہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اسے ایسے کر دیتا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ اور عیب صادر ہی نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اللہ تعالیٰ ہی کی حمدو ثنا ہے۔
آیت: 156 - 158 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (156) وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (157) وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ (158)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ ہو تم مانند ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا اور کہا انھوں نے واسطے اپنے بھائیوں کے، جب سفر کیا انھوں نے زمین میں یا تھے وہ لڑنے والے، اگر ہوتے وہ ہمارے پاس تو نہ مرتے وہ اور نہ قتل کیے جاتےتاکہ کر دے اللہ اس (فاسد خیال) کو پچھتاوا ان کے دلوں میں اور اللہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اللہ ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے(156) اور البتہ اگر قتل کر دیے گئے تم اللہ کے راستے میں یا مر گئے تو البتہ بخشش اللہ کی اور رحمت، بہت بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں(157) اور البتہ اگر تم مر گئے یا قتل کر دیے گئے تو یقینا اللہ ہی کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے(158)
#
{156} ينهى تعالى عباده المؤمنين أن يشابهوا الكافرين، الذين لا يؤمنون بربهم ولا بقضائه وقدره من المنافقين وغيرهم، ينهاهم عن مشابهتهم في كل شيء وفي هذا الأمر الخاص وهم أنهم يقولون لإخوانهم في الدين أو في النسب {إذا ضربوا في الأرض}؛ أي: سافروا للتجارة {أو كانوا غزًّى}؛ أي: غزاة ثم جرى عليهم قتل أو موت يعارضون القدر ويقولون: {لو كانوا عندنا ما ماتوا وما قُتلوا} وهذا كذب منهم، فقد قال تعالى: {قل لو كنتم في بيوتكم لبرز الذين كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم}، ولكن هذا التكذيب لم يفدهم، إلا أن الله يجعل هذا القول وهذه العقيدة حسرة في قلوبهم، فتزداد مصيبتهم، وأما المؤمنون فإنهم يعلمون أن ذلك بقدر الله فيؤمنون ويسلمون فيهدي الله قلوبهم ويثبتها ويخفف بذلك عنهم المصيبة، قال الله ردًّا عليهم: {والله يحيي ويُميت}؛ أي: هو المتفرد بذلك فلا يغني حذر عن قدر، {والله بما تعملون بصير}؛ فيجازيكم بأعمالكم وتكذيبكم.
[156] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کو کفار اور منافقین وغیرہ کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اس نے ہر چیز میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے۔ خاص طور پر اس معاملے میں کہ وہ اپنے دینی یا نسبی بھائیوں سے کہتے ہیں ﴿اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ یعنی جب تجارت وغیرہ کے لیے سفر کرتے ہیں ﴿اَوْ كَانُوْا غُ٘زًّى﴾ یا وہ غزوات کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر اس دوران میں انھیں موت آ جاتی ہے یا وہ قتل ہو جاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُ٘تِلُوْا﴾ ’’اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو وہ نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے‘‘ یہ ان کا جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُ٘لْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَـبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ﴾ (آل عمران : 3؍154) ’’کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا تو وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔‘‘ مگر اس تکذیب نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول اور عقیدے کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دیا پس ان کی مصیبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ رہے اہل ایمان ، تو وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے پس وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کو مضبوط کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی مصیبت میں تخفیف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿وَاللّٰهُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ﴾ یعنی زندہ کرنے اور موت دینے کا اختیار وہ اکیلا ہی رکھتا ہے۔ اس لیے صرف احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ ﴿وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس لیے وہ تمھارے اعمال اور تمھاری تکذیب کا بدلہ ضرور دے گا۔
#
{157} ثم أخبر تعالى أن القتل في سبيله أو الموت فيه، ليس فيه نقص ولا محذور، وإنما هو مما ينبغي أن يتنافس فيه المتنافسون، لأنه سبب مفضٍ وموصل إلى مغفرة الله ورحمته، وذلك خير مما يجمع أهل الدنيا من دنياهم.
[157] پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہو جانا یا مر جانا، اس میں کوئی نقص یا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پرہیز کیا جائے بلکہ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں رغبت کے لیے لوگوں کو مسابقت کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک سبب ہے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت تک پہنچاتا ہے۔ اور یہ اس دنیاوی مال و متاع سے کہیں بہتر ہے جسے دنیا والے جمع کرتے ہیں۔
#
{158} وأن الخلق أيضاً إذا ماتوا، أو قتلوا بأي حالة كانت، فإنما مرجعهم إلى الله ومآلهم إليه، فيجازي كلاًّ بعمله، فأين الفرار إلا إلى الله، وما للخلق عاصم إلا الاعتصام بحبل الله.
[158] نیز مخلوق کو جب بھی موت آئے گی یا کسی بھی حالت میں ان کو قتل کیا جائے انھیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ اس لیے اللہ کے سوا کوئی جائے فرار نہیں اور مخلوق کو کوئی بچانے والا نہیں، سوائے اس کے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔
آیت: 159 #
{فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (159)}.
پس بہ سبب رحمت کے اللہ کی، نرم ہوگئے آپ ان کے لیےاور اگر ہوتے آپ تند خو، سخت دل تو ضرور منتشر ہو جاتے وہ آپ کے پاس سے، پس آپ معاف کر دیں انھیں اور بخشش مانگیں ان کے لیے اور مشورہ کریں ان سے (اہم) معاملے میں، پس جب پختہ ارادہ کر لیں آپ تو توکل کریں اللہ پر، بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے توکل کرنے والوں کو(159)
#
{159} أي: برحمة الله لك ولأصحابك، منَّ الله عليك أن ألنت لهم جانبك وخفضت لهم جناحك، وترققت عليهم، وحسنت لهم خلقك، فاجتمعوا عليك، وأحبوك وامتثلوا أمرك، {ولو كنت فظاً}؛ أي: سيئ الخلق {غليظ القلب}؛ أي: قاسيه، {لانفضوا من حولك} لأن هذا ينفرهم ويبغضهم لمن قام به هذا الخلق السيئ، فالأخلاق الحسنة من الرئيس في الدين تجذب الناس إلى دين الله وترغبهم فيه، مع ما لصاحبه من المدح والثواب الخاص، والأخلاق السيئة من الرئيس في الدين تنفر الناس عن الدين وتبغضهم إليه، مع ما لصاحبها من الذم والعقاب الخاص. فهذا الرسول المعصوم يقول الله له ما يقول، فكيف بغيره؟ أليس من أوجب الواجبات وأهم المهمات الاقتداء بأخلاقه الكريمة، ومعاملة الناس بما يعاملهم به - صلى الله عليه وسلم -، من اللين وحسن الخلق والتأليف؟ امتثالاً لأمر الله وجذباً لعباد الله لدين الله؟ ثم أمر الله تعالى بأن يعفو عنهم ما صدر منهم من التقصير في حقه - صلى الله عليه وسلم - ويستغفر لهم في التقصير في حق الله فيجمع بين العفو والإحسان، {وشاورهم في الأمر}؛ أي: الأمور التي تحتاج إلى استشارة ونظر وفكر، فإن في الاستشارة من الفوائد والمصالح الدينية والدنيوية ما لا يمكن حصره: منها: أن المشاورة من العبادات المتقرب بها إلى الله. ومنها: أن فيها تسميحاً لخواطرهم وإزالة لما يصير في القلوب عند الحوادث، فإنَّ مَنْ له الأمرُ على الناس إذا جمع أهل الرأي والفضل، وشاورهم في حادثة من الحوادث، اطمأنت نفوسهم وأحبوه وعلموا أنه ليس يستبد عليهم، وإنما ينظر إلى المصلحة الكلية العامة للجميع، فبذلوا جهدهم ومقدورهم في طاعته لعلمهم بسعيه في مصالح العموم، بخلاف من ليس كذلك فإنهم لا يكادون يحبونه محبة صادقة ولا يطيعونه، وإن أطاعوه فطاعة غير تامة. ومنها: أن في الاستشارة تنور الأفكار بسبب إعمالها فيما وضعت له، فصار في ذلك زيادة للعقول. ومنها: ما تنتجه الاستشارة من الرأي المصيب، فإن المشاور لا يكاد يخطئ في فعله، وإن أخطأ أو لم يتم له مطلوب فليس بملوم. فإذا كان الله يقول لرسوله - صلى الله عليه وسلم - ـ وهو أكمل الناس عقلاً وأغزرهم علماً وأفضلهم رأياً ـ: {وشاورهم في الأمر}، فكيف بغيره؟ ثم قال تعالى: {فإذا عزمت}؛ أي: على أمر من الأمور بعد الاستشارة فيه إن كان يحتاج إلى استشارة {فتوكل على الله}؛ أي: اعتمد على حول الله وقوته متبرئاً من حولك وقوتك، {إن الله يحب المتوكلين} عليه اللاجئين إليه.
[159] یعنی یہ آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ اللہ کا آپ پر احسان ہے کہ آپ ان کے لیے نہایت نرم دل ہو گئے، آپ ان سے نہایت مہربانی اور شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کا خلق بہت اچھا ہے اس لیے وہ آپ کے ارد گر جمع ہو گئے اور وہ آپ سے محبت کرتے اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا﴾ یعنی اگر آپ بداخلاق ہوتے ﴿غَلِیْظَ الْقَلْبِ﴾ یعنی سخت دل ہوتے ﴿لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ ’’تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے‘‘ کیونکہ بدخوئی اور سخت دلی لوگوں کو متنفر اور ان کے دلوں میں بغض پیدا کرتی ہے۔ پس دنیاوی سربراہ کے اچھے اخلاق لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف کھینچتے ہیں اور دین کے بارے میں لوگوں میں رغبت پیدا کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ لوگوں میں قابل تعریف اور اللہ کے ہاں اجر خاص کا مستحق ہوتا ہے اور دینی سربراہ کے برے اخلاق لوگوں کو دین سے متنفر کرتے اور دین کے بارے میں لوگوں میں بغض پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بدخو دینی سربراہ قابل مذمت اور خاص سزا کا مستحق ہے۔ یہ رسول معصوم(e)ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے تب کسی دوسرے کا کیا حال ہو گا۔ کیا یہ سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ اہم بات نہیں کہ ہم رسول اللہeکے اخلاق کی پیروی کریں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف راغب کرنے کے لیے ہم ان کے ساتھ نرمی، حسن خلق اور الفت کے ساتھ پیش آئیں جیسے رسول اللہeپیش آیا کرتے تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہeکو حکم دیا ہے کہ وہ ان کی کوتاہیاں معاف کر دیں جو آپ کے حق میں ان سے صادر ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حق میں جو کوتاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کریں اور اس طرح عفو اور احسان کو یکجا کر دیں۔ ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ یعنی ان امور میں ان سے مشورہ کریں جو مشاورت اور فکر و نظر کے محتاج ہیں۔ کیونکہ مشاورت میں بہت سے فوائد اور بے شمار دینی اور دنیاوی مصالح ہیں۔ جیسے: ۱۔ مشاورت دینی عبادات میں شمار ہوتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ۲۔ مشاورت میں لوگوں کی دل جوئی اور اس قلق کا ازالہ ہوتا ہے جو حوادث کے وقت دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کے ہاتھ میں لوگوں کے معاملات کا اختیار ہوتا ہے، جب وہ کسی حادثہ اور اہم موقع پر اہل رائے اور اہل فضیلت اصحاب کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیتا ہے تو لوگوں کے دل اس پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور وہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی رائے کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ وہ تمام لوگوں کے لیے کلی مصلحت عامہ میں غور و فکر کرتا ہے۔ تب وہ اس کی اطاعت کی پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ مصالح عامہ میں تگ و دو کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو یہ طرز عمل اختیار نہیں کرتا لوگ اس سے سچی محبت کرتے ہیں نہ اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر وہ اس کی اطاعت کرتے بھی ہیں تو یہ اطاعت کامل نہیں ہوتی۔ ۳۔ مشاورت میں افکار نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں کیونکہ ان کو ان کے اصل مقام پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی عقل و فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ۴۔ مشاورت کے نتیجے میں صحیح رائے سامنے آ جاتی ہے مشاورت سے کام لینے والا عام طور پر غلطی نہیں کرتا۔ اگر اس سے غلطی سرزد ہو بھی جائے یا مقصد پورا نہ ہو تو وہ ملامت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہeسے فرمایا ہے ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ درآں حالیکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل، سب سے زیادہ علم اور سب سے افضل رائے رکھتے ہیں… تو وہ دوسروں کو یہ حکم کیسے نہ دے گا؟ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ﴾ یعنی اگر کسی ایسے معاملے میں جس میں مشاورت کی حاجت ہو تو مشاورت کے بعد جب آپ کوئی عزم کر لیں ﴿فَتَوَؔكَّلْ عَلَى اللّٰهِ﴾ تو اپنی طاقت اور اپنی دوربینی پر بھروسہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت پر بھروسہ کریں ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْ٘نَ﴾ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے پاس پناہ لیتے ہیں۔
آیت: 160 #
{إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (160)}.
اگر مدد کرے تمھاری اللہ تو نہیں کوئی غالب آنے والا تم پر اور اگر وہ (بے مدد) چھوڑ دے تمھیں تو پس کون ہے جو مدد کرے تمھاری بعد اس کے؟ اور اللہ ہی پر پس چاہیے کہ توکل کریں مومن (160)
#
{160} أي: إن يمددكم الله بنصره ومعونته {فلا غالب لكم}، فلو اجتمع عليكم مَنْ في أقطارها وما عندهم من العَدَد والعُدَد لأن الله لا مغالب له، وقد قهر العباد وأخذ بنواصيهم، فلا تتحرك دابة إلا بإذنه، ولا تسكن إلا بإذنه، {وإن يخذلكم} ويكلكم إلى أنفسكم {فمن ذا الذي ينصركم من بعده}، فلا بد أن تنخذلوا ولو أعانكم جميع الخلق، وفي ضمن ذلك الأمر بالاستنصار بالله والاعتماد عليه والبراءة من الحول والقوة، ولهذا قال: {وعلى الله فليتوكل المؤمنون}، تقدم المعمول يؤذن بالحصر، أي: على الله توكلوا لا على غيره، لأنه قد علم أنه هو الناصر وحده، فالاعتماد عليه توحيد محصل للمقصود، والاعتماد على غيره شرك غير نافع لصاحبه بل ضار، وفي هذه الآية الأمر بالتوكل على الله وحده، وأنه بحسب إيمان العبد يكون توكله.
[160] اگر اللہ تعالیٰ اپنی فتح و نصرت اور اعانت کے ذریعے سے تمھاری مدد کرے ﴿فَلَا غَالِبَ لَكُمْ﴾ تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا، خواہ دنیا کے تمام گوشوں سے جمع ہو کر لوگ تمھارے خلاف کیوں نہ آ جائیں اور خواہ ان کے پاس کتنی ہی زیادہ تعداد اور کتنا ہی سروسامان کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ تمام بندے اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔ ان کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، پس کوئی جاندار اس کی اجازت کے بغیر حرکت کر سکتا ہے نہ اس کی اجازت کے بغیر سکون اختیار کر سکتا ہے۔ ﴿وَاِنْ یَّؔخْذُلْكُمْ﴾ ’’اور اگر وہ تمھاری مدد نہ کرے‘‘ یعنی تمھیں تمھارے نفس کے حوالے کر دے ﴿فَ٘مَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُؔكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖ﴾ ’’پس کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مدد کرے؟‘‘ اس لیے اگر تمام مخلوق بھی تمھاری اعانت پر مجتمع ہو جائے تو پھر بھی تم مدد سے محروم ہو گے۔ یہ آیت کریمہ اس حکم کو متضمن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے فتح و نصرت طلب کی جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اپنی طاقت و قدرت سے براء ت کا اظہار کیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَعَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَؔكَّلِ الْ٘مُؤْمِنُوْنَ﴾ معمول کو عامل سے قبل لانا حصر کا معنی دیتا ہے۔ یعنی تم صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرو، کسی اور پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ وہ اکیلا مدد کرنے والا ہے۔ اس لیے اس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توحید ہے اور اس سے مقصود و مطلوب حاصل ہوتا ہے اور کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا شرک ہے اور بھروسہ کرنے والے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ نقصان دہ ہے۔ اس آیت میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے اور بندۂ مومن کے ایمان کے مطابق ہی اس کا توکل ہوتا ہے۔
آیت: 161 #
{وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (161)}.
اور نہیں لائق کسی نبی کے خیانت کرنا اور جو خیانت کرے تو آئے گا وہ ساتھ اس چیز کے جس کی خیانت کی، دن قیامت کے، پھر پورا (بدلہ) دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا اور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے(161)
#
{161} الغلول: هو الكتمان من الغنيمة والخيانة في كل مالٍ يتولاه الإنسان وهو محرَّم إجماعاً، بل هو من الكبائر كما تدل عليه هذه الآية الكريمة وغيرها من النصوص، فأخبر الله تعالى أنه ما ينبغي ولا يليق بنبي أن يغل، لأن الغلول ـ كما علمت ـ من أعظم الذنوب وشر العيوب. وقد صان الله تعالى أنبياءه عن كل ما يدنسهم ويقدح فيهم، وجعلهم أفضل العالمين أخلاقاً وأطهرهم نفوساً، وأزكاهم وأطيبهم ونزههم عن كل عيب، وجعلهم محل رسالته ومعدن حكمته، {الله أعلم حيث يجعل رسالته}، فبمجرد علم العبد بالواحد منهم يجزم بسلامتهم من كل أمر يقدح فيهم، ولا يحتاج إلى دليل على ما قيل فيهم من أعدائهم، لأن معرفته بنبوتهم مستلزم لدفع ذلك، ولذلك أتى بصيغة يمتنع معها وجود الفعل منهم فقال: {وما كان لنبي أن يغل}؛ أي: يمتنع ذلك ويستحيل على من اختارهم الله لنبوته. ثم ذكر الوعيد على من غل فقال: {ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة}؛ أي: يأت به حامله على ظهره حيواناً كان أو متاعاً أو غير ذلك يعذب به يوم القيامة {ثم توفى كل نفس ما كسبت}؛ الغالُّ وغيره كلٌّ يوفَّى أجره ووزره على مقدار كسبه {وهم لا يظلمون}؛ أي: لا يزداد في سيئاتهم ولا يهضمون شيئاً من حسناتهم. وتأمل حسن هذا الاحتراز في هذه الآية الكريمة لمَّا ذكر عقوبة الغالِّ وأنه يأتي يوم القيامة بما غله، ولمَّا أراد أن يذكر توفيته وجزاءه وكان اقتصاره على الغال يوهم بالمفهوم أن غيره من أنواع العاملين قد لا يوفون، أتى بلفظ عامٍّ جامع له ولغيره.
[161] یہاں (غلول) سے مراد ہے مال غنیمت چھپانا اور اس چیز میں خیانت کرنا جس کا اسے منتظم بنایا گیا ہے۔ خیانت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے بلکہ اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ آیت کریمہ اور دیگر نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں ۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، جیسا کہ آپ کو علم ہے۔۔۔ سب سے بڑا گناہ اور بدترین عیب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو ہر عیب سے محفوظ رکھا ہے جو ان میں کسی اعتراض کا باعث بن سکتا ہے۔ اخلاق و اطوار کے لحاظ سے انھیں دنیا میں افضل ترین انسان، سب سے زیادہ پاک نفوس کے مالک اور سب سے زیادہ طیب و طاہرہستیاں بنایا ہے اور انھیں ہر عیب سے پاک کیا ہے۔ انھیں اپنی رسالت کا محل اور اپنی حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام : 6؍124) ’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا کون سا محل ہے اور وہ اپنی رسالت کسے عنایت فرمائے۔‘‘ ان میں سے کسی ایک رسول کے بارے میں بندے کا مجرد علم، تمام رسولوں کے ہر عیب سے محفوظ اور سلامت ہونے کا قطعی فیصلہ کر دیتا ہے اور انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کے دشمنوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے فاسد ہونے پر کسی دلیل کی حاجت نہیں، کیونکہ ان کی نبوت کی معرفت ان تمام اعتراضات کو دفع کرنے کو مستلزم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسلوب کے ساتھ ذکر کیا جو اس فعل کے وجود کو مانع ہے چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کے لیے چنا ہے اس کے بارے میں یہ ممتنع اور محال ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے، فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّغْلُ٘لْ یَ٘اْتِ بِمَا غَ٘لَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والا قیامت کے روز اس مال کو، خواہ وہ کوئی حیوان ہے یا مال و متاع وغیرہ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا اور اس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ تُوَفّٰى كُ٘لُّ٘ نَ٘فْ٘سٍ مَّا كَسَبَتْ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کو اس کی خیانت کی مقدار کے مطابق اس کے گناہ کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’اور ان پر ظلم نہیں ہو گا‘‘ یعنی ان کی برائیوں میں اضافہ اور ان کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی ۔اس آیت کریمہ میں آپ اس حسن احتراز (مفہوم مخالف سے بچاؤ کے احسن پیرائے) پر غور کیجیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا ذکر کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز خیانت شدہ مال کے ساتھ آئے گا اور چونکہ وہ اس غنیمت میں خیانت کرنے والے کی پوری جزا کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور اس میں صرف غنیمت میں خیانت کی سزا کے ذکر پر اقتصار کیا ہے۔ یوں اس آیت کے مفہوم مخالف سے یہ وہم لازم آتا ہے کہ دیگر عمل کرنے والوں کو ہو سکتا ہے کہ پورا پورا بدلہ نہ دیا جائے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو غنیمت میں خیانت کرنے والوں اور دیگر عمل کرنے والوں، دونوں کے لیے جامع ہے۔
آیت: 162 - 163 #
{أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (162) هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (163)}.
کیا پس جس نے پیروی کی رضائے الٰہی کی، مانند اس شخص کے ہوگا جو لوٹا ساتھ ناراضی کے اللہ کی اور ٹھکانا اس کا جہنم ہے؟ اور وہ بری ہے جگہ لوٹنے کی(162) وہ (الگ الگ) درجوں پر ہوں گے اللہ کے ہاں اور اللہ دیکھنے والا ہے ساتھ اس کے جو وہ کرتے ہیں(163)
#
{162 ـ 163} يخبر تعالى أنه لا يستوي من كان قصده رضوان رَبِّه والعمل على ما يرضيه كمن ليس كذلك ممن هو مكب على المعاصي مسخط لربه، هذان لا يستويان في حكم الله وحكمة الله وفي فِطَر عباد الله {أفمن كان مؤمناً كمن كان فاسقاً لا يستوون}؛ لهذا قال هنا: {هم درجات عند الله}؛ أي: كل هؤلاء متفاوتون في درجاتهم ومنازلهم بحسب تفاوتهم في أعمالهم. فالمتبعون لرضوان الله يسعون في نيل الدرجات العاليات والمنازل والغرفات، فيعطيهم الله من فضله وجوده على قدر أعمالهم، والمتبعون لمساخط الله يسعون في النزول في الدركات إلى أسفل سافلين كل على حسب عمله، والله بصير بأعمالهم لا يخفى عليه منها شيء، بل قد علمها وأثبتها في اللوح المحفوظ ووكل ملائكته الأمناء الكرام أن يكتبوها ويحفظوها ويضبطوها.
[163,162] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ شخص، جس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے مطابق اس کے اعمال ہوں اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جو گناہوں میں مشغول ہے اور اپنے رب کو ناراض کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم ، اس کی حکمت اور فطرت انسانی میں یہ دونوں قسم کے اشخاص مساوی نہیں ہو سکتے ﴿اَفَ٘مَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَ٘مَنْ كَانَ فَاسِقًا١ؔؕ لَا یَسْتَوٗنَ﴾ (السجدۃ : 32؍18) ’’بھلا جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو فاسق ہے؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُمْ دَرَجٰؔتٌ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’لوگوں کے مختلف درجے ہیں اللہ کے ہاں‘‘ یعنی یہ تمام لوگ اپنے اعمال میں تفاوت کی بنا پر اپنے درجات اور منزلت میں بھی متفاوت ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کرنے والے بلند درجات و منازل اور بالاخانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے مطابق اپنے فضل و کرم سے انھیں عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے سبب والے امور کی پیروی کرنے والے پست سے پست اور فروترین ٹھکانے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور ان کا کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں۔ بلکہ ان کے تمام اعمال اس کے احاطہ علم میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے اور اس کے امین و کریم فرشتے ان اعمال کو لکھ کر محفوظ رکھتے ہیں۔
آیت: 164 #
{لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (164)}.
تحقیق احسان کیا اللہ نے مومنوں پر، جب بھیجا ان میں ایک رسول انھی میں سے، وہ تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان کواور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت اور بلاشبہ تھے وہ اس سے پہلے گمراہی ظاہر میں(164)
#
{164} هذه المنَّةُ التي امتنَّ الله بها على عباده أكبر النعم بل أصلها، وهي الامتنان عليهم بهذا الرسول الكريم الذي أنقذهم الله به من الضلالة، وعصمهم به من الهلكة فقال: {لقد منَّ الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولاً من أنفسهم}؛ يعرفون نسبه وحاله ولسانه من قومهم وقبيلتهم ناصحاً لهم مشفقاً عليهم يتلو عليهم آيات الله؛ يعلمهم ألفاظها ومعانيها {ويزكيهم}؛ من الشرك والمعاصي والرذائل وسائر مساوئ الأخلاق {ويعلمهم الكتاب}؛ إما جنس الكتاب الذي هو القرآن فيكون قوله: {يتلو عليهم آياته}؛ المراد به الآيات الكونية، أو المراد بالكتاب هنا الكتابة فيكون قد امتنَّ عليهم بتعليم الكتاب والكتابة التي بها تدرك العلوم وتحفظ {والحكمة}؛ هي: السنة التي هي شقيقة القرآن، أو وضع الأشياء مواضعها ومعرفة أسرار الشريعة فجمع لهم بين تعليم الأحكام وما به تُنَفَّذ الأحكام وما به تدرك فوائدها وثمراتها ففاقوا بهذه الأمور العظيمة جميع المخلوقين، وكانوا من العلماء الربانيين {وإن كانوا من قبل}؛ بعثة هذا الرسول {لفي ضلال مبين}؛ لا يعرفون الطريق الموصل إلى ربهم، ولا ما يزكي النفوس، ويطهرها، بل ما يزين لهم جهلهم فعلوه، ولو ناقض ذلك عقول العالمين!
[164] اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ احسان جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ اصل نعمت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریمeکو مبعوث فرما کر ان پر بہت بڑا احسان کیا۔ جس کے ذریعے سے اس نے ان کو گمراہی کے گڑھے سے بچایا اور انھیں ہلاکت سے محفوظ کیا۔ پس فرمایا: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’یقینا اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا، جو بھیجا ان میں رسول، انھی میں سے‘‘ یعنی وہ اس کا حسب و نسب، اس کے احوال اور اس کی زبان جانتے ہیں۔ وہ ان کی اپنی قوم اور ان کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھتا اور ان پر بہت شفیق اور مہربان ہے۔ ﴿یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ﴾ یعنی وہ ان کو ان آیات کے الفاظ اور معانی سکھاتا ہے ﴿وَیُزَؔكِّیْهِمْ﴾ یعنی وہ ان کو شرک، گناہ، رذائل اور دیگر تمام برے اخلاق و اطوار سے پاک کرتا ہے ﴿وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور انھیں کتاب سکھاتا ہے‘‘ یا تو اس سے مراد جنس کتاب ہے جو کہ قرآن مجید ہے تب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ﴾ سے مراد آیات کونیہ ہوں گی۔ یا کتاب سے مراد ’’کتابت‘‘ ہے تب اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اور کتابت کی تعلیم دے کر ان پر بڑا احسان کیا ہے، جس کے ذریعے سے علوم حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ﴿وَالْحِكْمَةَ﴾ یہاں حکمت سے مراد سنت ہے جو کہ قرآن مجید کی مانند ہے نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور اسرار شریعت کی معرفت بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تعلیم احکام، تنفیذ احکام کے ذرائع اور ان احکام کے فوائد و ثمرات کے حصول کے ذرائع کو جمع کر دیا۔ پس وہ ان عظیم امور کی بنا پر تمام لوگوں سے آگے نکل گئے اور ان کا شمار علمائے ربانی میں ہونے لگا۔ ﴿وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ﴾ یعنی اس رسولeکی بعثت سے قبل ﴿لَ٘فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’وہ کھلی گمراہی میں تھے‘‘ اور اپنے رب تک پہنچانے والے راستے کی معرفت سے محروم تھے اور نہ انھیں اس طریق کا علم تھا جو ان کا تزکیہ نفس کر کے ان کو پاک کرے بلکہ وہ تو اس راستے پر گامزن تھے جو ان کی جہالت کو مزین کرتا تھا۔ خواہ یہ جہالت تمام جہانوں کی عقل کے متناقض ہی کیوں نہ ہو۔
آیت: 165 - 168 #
{أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (165) وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ (166) وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ (167) الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (168)}.
کیا جب (اُحد کے دن) پہنچی تمھیں مصیبت، حالانکہ پہنچا چکے تھے تم (بدر کے دن) دوگنی اس سے تو کہا تم نے، کہاں سے آئی یہ؟ کہہ دیجیے! وہ تمھاری ہی طرف سے ہے، بلاشبہ اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(165) اور جو کچھ پہنچا تمھیں جس دن ملیں دو جماعتیں، پس ساتھ حکم اللہ کے اور تاکہ جان لے وہ مومنوں کو(166)اور تاکہ جان لے وہ ان لوگوں کو جنھوں نے منافقت کی اور کہا گیا ان سے آؤ! لڑو! اللہ کے راستے میں یا (دشمن کو) دفع کرو! تو انھوں نے کہا، اگر جانتے ہم لڑائی کو تو ضرور ساتھ چلتے ہم تمھارے، وہ کفر کے اس دن زیادہ قریب تھے ان سے، بہ نسبت ایمان کے، کہتے تھے ساتھ اپنے مونہوں کے وہ جو نہیں تھا ان کے دلوں میں اور اللہ خوب جانتا ہے ساتھ اس کے جو وہ چھپاتے ہیں(167) وہ لوگ جنھوں نے کہا اپنے بھائیوں سے، جبکہ وہ خود بیٹھے رہے اگر اطاعت کرتے وہ ہماری تو نہ قتل کیے جاتے وہ، کہہ دیجیے! تو ٹال لو تم اپنے نفسوں سے موت کو، اگر ہو تم سچے(168)
#
{165} هذا تسلية من الله تعالى لعباده المؤمنين حين أصابهم ما أصابهم يوم أحد وقتل منهم نحو سبعين، فقال الله: إنكم {قد أصبتم}؛ من المشركين {مثليها} [يوم بدر]؛ فقتلتم سبعين من كبارهم وأسرتم سبعين، فَلْيَهُنِ الأمرُ ولِتَخِفَّ المصيبةُ عليكم مع أنكم لا تستوون أنتم وهم، فإن قتلاكم في الجنة وقتلاهم في النار، {قلتم أنى هذا}؛ أي: من أين أصابنا ما أصابنا وهزمنا؟ {قل هو من عند أنفسكم}؛ حين تنازعتم وعصيتم من بعد ما أراكم ما تحبون، فعودوا على أنفسكم باللوم واحذروا من الأسباب المردية {إن الله على كل شيء قدير}؛ فإياكم وسوء الظن بالله، فإنه قادر على نصركم، ولكن له أتم الحكمة في ابتلائكم ومصيبتكم ذلك، ولو شاء الله لانتصر منهم، ولكن ليبلوَ بعضكم ببعض.
[165] جب اہل ایمان کو غزوۂ احد میں بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے تقریباً ستر صحابہ نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ان مومن بندوں کے لیے تسلی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا﴾ ’’پہنچا چکے ہو تم اس سے دو چند‘‘ یعنی تمھارے ہاتھوں سے دشمنوں پر دوچند مصیبت پڑ چکی ہے۔ تم نے ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا اور ستر آدمیوں کو قیدی بنایا تھا۔ بنا بریں تمھارے لیے یہ معاملہ آسان اور تم پر یہ مصیبت ہلکی ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ تم اور وہ برابر نہیں ہو۔ تمھارے مقتول جنت میں ہیں اور ان کے مقتول جہنم میں۔ ﴿قُلْتُمْ اَنّٰى هٰؔذَا﴾ ’’تم نے کہا، یہ کہاں سے آئی؟‘‘ یعنی یہ مصیبت جو ہمیں پہنچی ہے اور یہ ہزیمت جو ہمیں اٹھانا پڑی ہے کہاں سے آ گئی؟ ﴿قُ٘لْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ﴾ یہ مصیبت تمھارے نفس ہی کی طرف سے وارد ہوئی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تمھیں وہ چیز دکھائی جسے تم پسند کرتے تھے اس کے بعد تم نے آپس میں جھگڑا کیا اور رسول کے حکم کی نافرمانی کی پس اپنے ہی نفس کو ملامت کرو اور ہلاکت کے اسباب سے بچو﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ پس اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے گمان سے بچو۔ وہ تمھاری مدد کرنے پر قادر ہے مگر تمھیں آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنے میں اس کی کامل حکمت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ذٰلِكَ١ۛؕ وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّیَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ﴾ (محمد : 47؍4) ’’یہ (حکم یاد رکھو) ’’اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا مگر وہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمھاری آزمائش کرتا ہے۔‘‘
#
{166 ـ 167} ثم أخبر أن ما أصابهم يوم التقى الجمعان: جمعُ المسلمين وجمعُ المشركين في أحد من القتل والهزيمة، أنه بإذنه وقضائه وقدره، لا مرد له ولا بد من وقوعه، والأمر القدري إذا نفذ لم يبق إلا التسليم له وأنه قدَّره لحكم عظيمة وفوائد جسيمة، وأنه ليتبين بذلك المؤمن من المنافق الذين لما أمروا بالقتال {وقيل لهم تعالوا قاتلوا في سبيل الله}؛ أي: ذبًّا عن دين الله وحماية له وطلباً لمرضاة الله، {أو ادفعوا} عن محارمكم وبلدكم إن لم يكن لكم نية صالحة، فأبوا ذلك واعتذروا بأن: {قالوا لو نعلم قتالاً لاتبعناكم}؛ أي: لو نعلم أنكم يصير بينكم وبينهم قتال لاتبعناكم، وهم كذبة في هذا، قد علموا وتيقنوا، وعلم كل أحد أن هؤلاء المشركين قد مُلئوا من الحنق والغيظ على المؤمنين بما أصابوا منهم، وأنهم قد بذلوا أموالهم وجمعوا ما يقدرون عليه من الرجال والعدد، وأقبلوا في جيش عظيم قاصدين المؤمنين في بلدهم متحرقين على قتالهم، فمن كانت هذه حالهم كيف يتصور أنه لا يصير بينهم وبين المؤمنين قتال؟ خصوصاً وقد خرج المسلمون من المدينة وبرزوا لهم، هذا من المستحيل، ولكن المنافقين ظنوا أن هذا العذر يروج على المؤمنين، قال تعالى: {هم للكفر يومئذ}؛ أي: في تلك الحال التي تركوا فيها الخروج مع المؤمنين {أقرب منهم للإيمان، يقولون بأفواههم ما ليس في قلوبهم}، وهذه خاصة المنافقين يظهرون بكلامهم وفعالهم ما يبطنون ضده في قلوبهم وسرائرهم، ومنه قولهم: {لو نعلم قتالاً لاتبعناكم}، فإنهم قد علموا وقوع القتال. ويستدل بهذه الآية على قاعدة ارتكاب أخف المفسدتين، لدفع أعلاهما وفعل أدنى المصلحتين للعجز عن أعلاهما، لأن المنافقين أُمروا أن يقاتلوا للدين، فإن لم يفعلوا فللمدافعة عن العيال والأوطان {والله أعلم بما يكتمون}، فيبديه لعباده المؤمنين، ويعاقبهم عليه.
[167,166] پھر اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ دونوں لشکروں یعنی مسلمانوں کے لشکر اور کفار کے لشکر میں مڈبھیڑ ہونے کے روز، احد میں ان کو ہزیمت اور قتل کی جو مصیبت پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے پہنچی جس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ لہٰذا اس مصیبت کا واقع ہونا ایک لابدی امر تھا اور جب امر قدری نافذ ہو جائے تب اس کے سامنے سرتسلیم خم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس امر کو عظیم حکمتوں اور بہت بڑے فوائد کے لیے مقدر کیا ہے۔ تاکہ جب مسلمانوں کو جنگ کا حکم دیا جائے تو اس امر قدری کے ذریعے سے مومن اور منافق کے مابین فرق واضح ہو جائے۔ ﴿وَقِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور ان سے کہا گیا کہ آؤ! اللہ کی راہ میں لڑو‘‘ یعنی تم دین کی مدافعت اور حمایت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اللہ کے راستے میں جنگ کرو ﴿ اَوِ ادْفَعُوْا ﴾ ’’یا دشمن کو دفع کرو‘‘ یعنی اگر تمھاری نیت صالح نہیں ہے تو پھر تم اپنے حرم اور شہر کے دفاع کی خاطر لڑو۔ مگر انھوں نے انکار کر دیا اور عذر یہ پیش کیا ﴿ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴾ یعنی اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمھارے ساتھ چلتے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹے تھے۔ وہ جانتے تھے اور انھیں یقین تھا بلکہ ہر شخص جانتا تھا کہ مشرکین کو اہل ایمان نے شکست دی ہے اس لیے مشرکین کے دل اہل ایمان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان سے انتقام لینے کے لیے مشرکین نے مال خرچ کیا۔ اہل ایمان کے خلاف لوگوں اور سامان حرب کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دی ہے اور وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اہل ایمان پر ان کے شہر میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں ان میں سخت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جب حملہ آوروں کی یہ حالت اور کیفیت ہو تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی۔ خاص طور پر جبکہ مسلمان کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے باہر نکل آئے تھے؟۔۔۔ یہ محال ہے۔ مگر منافقین کا خیال تھا کہ ان کا یہ عذر مسلمانوں کو مطمئن کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ هُمْ لِلْ٘كُ٘فْرِ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’وہ اس دن کفر کے‘‘ یعنی اس حال میں جس میں انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلنے سے انکار کیا ﴿ اَ٘قْ٘رَبُ مِنْهُمْ لِلْاِیْمَانِ١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَ٘یْسَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ایمان کے، اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں‘‘ یہ منافقین کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے کلام اور افعال سے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات اور ارادوں کی ضد ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ﴿ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴾ بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ انھیں علم تھا کہ جنگ ضرور ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں اس فقہی قاعدہ پر دلیل ملتی ہے ’’کہ بوقت ضرورت بڑی برائی کو روکنے کے لیے چھوٹی برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی طرح دو مصلحتوں میں سے اگر بڑی مصلحت پر عمل کرنے سے عاجز ہو تو اسے چھوڑ کر کم تر مصلحت پر عمل کرنا جائز ہے۔‘‘ اس لیے کہ منافقین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کے لیے جنگ کریں۔ اگر وہ دین کے لیے جنگ نہیں کرتے تو اپنے اہل و عیال اور وطن کے دفاع کے لیے ہی جنگ کریں ﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْ٘تُمُوْنَ﴾ ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں‘‘ پس وہ اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے ظاہر کرے گا اس پر ان منافقین کو سزا دے گا۔
#
{168} ثم قال تعالى: {الذين قالوا لإخوانهم وقعدوا لو أطاعونا ما قتلوا}؛ أي: جمعوا بين التخلف عن الجهاد وبين الاعتراض والتكذيب بقضاء الله وقدره، قال الله ردًّا عليهم: {قل فادرأوا}؛ أي: ادفعوا {عن أنفسكم الموت إن كنتم صادقين}، أنهم لو أطاعوكم ما قتلوا لا تقدرون على ذلك ولا تستطيعونه. وفي هذه الآيات دليل على أن العبد قد يكون فيه خصلة كفر وخصلة إيمان، وقد يكون إلى إحداهما أقرب منه إلى الأخرى.
[168] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُ٘تِلُوْا ﴾ ’’وہ لوگ جو کہتے ہیں اپنے بھائیوں سے اور آپ بیٹھے رہے، اگر وہ ہماری بات مانتے تو مارے نہ جاتے‘‘ یعنی انھوں نے دو برائیوں کو اکٹھا کر لیا تھا، جہاد سے جی چرا کر پیچھے رہنا اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض اور اس کی تکذیب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ فَادْرَءُوْا ﴾ یعنی دور ہٹا دو ﴿ عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اپنے اوپر سے موت کو، اگر تم سچے ہو‘‘ یعنی اگر تم یہ کہنے میں سچے ہو کہ اگر وہ تمھاری بات مانتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ تم اس پر قدرت نہیں رکھتے اور نہ تم ان کو قتل ہونے سے بچانے کی استطاعت رکھتے ہو۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ بندے میں کبھی کبھی کفر کی کوئی خصلت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایمان کی خصلت بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک خصلت کی نسبت دوسری خصلت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
آیت: 169 - 171 #
{وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (169) فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (170) يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ (171)}.
اور نہ ہرگز گمان کریں آپ ان لوگوں کو جو قتل کر دیے گئے اللہ کے راستے میں، مردےبلکہ (وہ) زندہ ہیں، نزدیک اپنے رب کے وہ رزق دیے جاتے ہیں(169) وہ خوش ہیں ان پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوشی محسوس کرتے ہیں وہ ساتھ ان کے جو نہیں ملے ان کو ان کے پیچھے سے، یہ کہ نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے(170) وہ خوشی محسوس کرتے ہیں ساتھ احسان کے اللہ کی طرف سے اور (ساتھ اس کے) فضل کے اور اس پر کہ بلاشبہ اللہ نہیں ضائع کرتا اجر مومنوں کا(171)
#
{169} هذه الآيات الكريمات فيها فضل الشهداء وكرامتهم، وما منَّ الله عليهم به من فضله وإحسانه، وفي ضمنها تسلية الأحياء عن قتلاهم وتعزيتهم وتنشيطهم للقتال في سبيل الله والتعرض للشهادة فقال: {ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله}؛ أي: في جهاد أعداء الدين قاصدين بذلك إعلاء كلمة الله، {أمواتاً}؛ أي: لا يخطر ببالك وحسبانك أنهم ماتوا، وفقدوا، وذهبت عنهم لذة الحياة الدنيا والتمتع بزهرتها، الذي يحذر من فواته من جبن عن القتال وزهد في الشهادة، {بل} قد حصل لهم أعظم مما يتنافس فيه المتنافسون، فهم {أحياء عند ربهم} في دار كرامته، ولفظ: عند ربهم، يقتضي علو درجتهم وقربهم من ربهم، {يرزقون} من أنواع النعيم الذي لا يعلم وصفه إلا من أنعم به عليهم.
[169] ان آیات کریمہ میں شہداء کی کرامت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جن سے شہداء کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے نوازا ہے اور اسی ضمن میں ان زندہ لوگوں کے لیے تسلی اور تعزیت ہے جن کے اقرباء نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ نیز ان کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دینا اور ان میں شوق شہادت پیدا کرنا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُ٘تِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ یعنی جو دشمنان دین کے ساتھ اس قصد کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، قتل ہو گئے ﴿ اَمْوَاتًا ﴾ ’’ان کو مردہ گمان مت کرو‘‘ یعنی ان کے بارے میں تمھارے دل میں اس خیال کا گزر بھی نہ ہو کہ وہ موت سے ہم کنار ہو کر مفقود ہو گئے اور دنیاوی زندگی کی لذات ان سے دور ہو گئیں اور وہ دنیا کی رنگینیوں سے متمتع ہونے سے محروم ہو گئے۔ جن سے محرومی کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے جہاد سے گریز کیا جاتا اور شہادت سے بچا جاتا ہے۔ ﴿ بَلْ ﴾ بلکہ وہ اس سے بھی بلند مراتب حاصل کر چکے ہیں جن کے حصول کے لیے لوگ بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں ﴿ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم کے گھر میں زندہ ہیں۔ (عِنْدَ رَبِّهِمْ) کا لفظ ان کے بلند درجات اور ان کے رب کے قرب پر دلالت کرتا ہے ﴿ یُرْزَقُ٘وْنَ﴾ یعنی ان انواع و اقسام کی نعمتوں سے رزق عطا کیا جاتا ہے جن کے اوصاف کو صرف وہی ہستی جانتی ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔
#
{170} ومع هذا {فرحين بما آتاهم الله من فضله}؛ أي: مغتبطين بذلك وقد قرت به عيونهم وفرحت به نفوسهم، وذلك لحسنه وكثرته وعظمته وكمال اللذة في الوصول إليه وعدم المنغص، فجمع الله لهم بين نعيم البدن بالرزق ونعيم القلب والروح بالفرح بما آتاهم من فضله، فتم له النعيم والسرور وجعلوا {يستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم}؛ أي: يبشر بعضهم بعضاً بوصول إخوانهم الذين لم يلحقوا بهم وأنهم سينالون ما نالوا {ألا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ أي: يستبشرون بزوال المحذور عنهم وعن إخوانهم المستلزم كمال السرور.
[170] اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ یعنی ان نعمتوں کے حصول پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور نفس خوش ہوتے ہیں۔ یہ فرحت ان نعمتوں کی خوبصورتی، ان کی کثرت و عظمت، ان نعمتوں تک پہنچنے میں کامل لذت اور ان نعمتوں کے کبھی ختم نہ ہونے کی بنا پر ہو گی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق کے ذریعے سے بدنی نعمت اور اپنے فضل و کرم پر فرحت کے ذریعے سے قلبی اور روحانی نعمت کو جمع کر دیا ہے۔ پس ان کے لیے نعمت اور مسرت کی تکمیل ہو گئی ﴿ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ ﴾ یعنی وہ ایک دوسرے کو اپنے ان بھائیوں کے پہنچنے پر جو ابھی تک نہیں پہنچے، خوشخبری دیتے ہیں نیز ان کو بھی وہی نعمتیں حاصل ہوں گی جن سے وہ بہرہ ور ہو چکے ہیں ﴿ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ یعنی ڈرانے والے امور کے ان سے اور ان کے بھائیوں سے زائل ہونے کی وجہ سے بہت خوش ہوں گے جن کا زوال کامل مسرت کو مستلزم ہے۔
#
{171} {يستبشرون بنعمة من الله وفضل} أي: يهنئ بعضهم بعضاً بأعظم مهنأ به وهو نعمة ربهم وفضله وإحسانه {وأن الله لا يضيع أجر المؤمنين}؛ بل ينميه ويشكره، ويزيده من فضله ما لا يصل إليه سعيهم. وفي هذه الآيات إثبات نعيم البرزخ، وأن الشهداء في أعلى مكان عند ربهم، وفيه تلاقي أرواح أهل الخير، وزيارة بعضهم بعضاً، وتبشير بعضهم بعضاً.
[171] ﴿یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ ﴾ وہ ایک دوسرے کو ہدیہ تبریک پیش کر رہے ہوں گے اور یہ ان کے رب کی نعمت اور اس کا فضل و کرم ہے۔ ﴿وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ اور اللہ اہل ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ اسے بڑھاتا ہے اس کی قدر کرتا ہے اپنے فضل و کرم سے اس میں اتنا اضافہ کرتا ہے کہ ان کی کوشش وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ برزخ میں بھی نعمتیں عطا ہوں گی اور برزخ میں شہداء اپنے رب کے پاس بلند ترین مقامات پر فائز ہوں گے۔ نیز نیک ارواح ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کی زیارت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو خوشخبری دیتی ہیں۔
آیت: 172 - 175 #
{الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ (172) الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (174) إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (175)}.
وہ لوگ جنھوں نے حکم مانا اللہ اور رسول کا بعد اس کے کہ پہنچا انھیں زخم، واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے احسان کیا ان میں سے اور تقویٰ اختیار کیا، اجر ہے بہت بڑا(172) وہ لوگ کہ کہا ان سے لوگوں نے، بلاشبہ لوگوں نے جمع کیا ہے (لشکر) تمھارے مقابلہ میں پس ڈرو تم ان سے تو زیادہ کر دیا ان کو (اس بات نے) ایمان میں اور کہا انھوں نے، کافی ہے ہمیں اللہ اور وہ اچھا کارساز ہے(173) پس لوٹے وہ ساتھ احسان کے اللہ سے اور فضل کے، نہیں پہنچی انھیں کوئی برائی اور پیروی کی انھوں نے رضائے الٰہی کی اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے(174) یقیناً یہ تو شیطان ہی ہے، ڈراتا ہے وہ اپنے دوستوں سے، پس نہ ڈرو تم ان سے اور ڈرو مجھ سے اگر ہو تم مومن (175)
#
{172 ـ 173} لما رجع النبي - صلى الله عليه وسلم - من أحد إلى المدينة وسمع أن أبا سفيان ومن معه من المشركين قد هموا بالرجوع إلى المدينة ندب أصحابه إلى الخروج، فخرجوا على ما بهم من الجراح استجابة لله ولرسوله وطاعة لله ولرسوله، فوصلوا إلى حمراء الأسد ، وجاءهم من جاءهم وقال لهم: {إن الناس قد جمعوا لكم}؛ وهمُّوا باستئصالكم تخويفاً لهم وترهيباً، فلم يزدهم ذلك إلا إيماناً بالله واتكالاً عليه {وقالوا حسبنا الله}؛ أي: كافينا كل ما أهمنا {ونعم الوكيل}؛ المفوض إليه تدبير عباده والقائم بمصالحهم.
[173,172] جب رسول اللہeاحد سے مدینہ کی طرف لوٹ آئے آپ نے سنا کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھ جو مشرک ہیں وہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے اپنے اصحاب کرام کو جنگ کے لیے نکلنے کو کہا۔ اس کے باوجود کہ صحابہ کرام سخت زخمی تھے، رسول اللہeکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نکل آئے۔ جب وہ ’’حمراء الاسد‘‘ پہنچے تو ایک آنے والے نے ان کے پاس آ کر کہا ﴿ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ ﴾ اس نے خوف زدہ کرنے کی غرض سے کہا کہ لوگ تمھیں مٹانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس کے اس قول نے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسے میں اور اضافہ کیا اور انھوں نے کہا۔ ﴿ حَسْبُنَا اللّٰهُ ﴾ یعنی ہماری پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہے ﴿ وَنِعْمَ الْوَؔكِیْلُ ﴾ اور وہ بہترین کارساز ہے اور بندوں کی تدبیر اسی کے سپرد ہے اور وہ ان کے مصالح کا انتظام کرتا ہے۔
#
{174} {فانقلبوا}؛ أي: رجعوا {بنعمة من الله وفضل لم يمسسهم سوء}، وجاء الخبرُ المشركين: أن الرسول وأصحابه قد خرجوا إليكم وندم من تخلف منهم، فألقى الله الرعب في قلوبهم واستمروا راجعين إلى مكة، ورجع المؤمنون بنعمة من الله وفضل حيث منَّ عليهم بالتوفيق للخروج بهذه الحالة والاتكال على ربهم، ثم إنه قد كتب لهم أجر غزاة تامة، فبسبب إحسانهم بطاعة ربهم وتقواهم عن معصيتهم لهم أجر عظيم، وهذا فضل الله عليهم.
[174] ﴿ فَانْقَلَبُوْا ﴾ یعنی مسلمان لوٹے ﴿ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ ﴾ ’’اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ، ان کو کوئی برائی نہ پہنچی‘‘ جب یہ خبر مشرکین کے پاس پہنچی کہ رسول اللہeاور آپ کے اصحاب کرام تمھارے تعاقب میں آ رہے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی اب نادم ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مکہ واپس چلے گئے اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم سے مستفید ہو کر لوٹے کیونکہ اس حالت میں بھی ان کو جنگ کے لیے نکلنے کی توفیق ہوئی اور انھوں نے اپنے رب پر بھروسہ کیا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے غازیوں کا پورا اجر لکھ دیا۔ پس اپنے رب کے لیے حسن اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
#
{175} ثم قال تعالى: {إنما ذلكم الشيطان يُخوف أولياءه}؛ أي: إن ترهيب من رهب من المشركين ـ وقال: إنهم {جمعوا لكم ... } ـ داعٍ من دعاة الشيطان يخوف بها أولياءه الذين عُدِم إيمانهم أو ضعف، {فلا تخافوهم وخافون إن كنتم مؤمنين}؛ أي: فلا تخافوا المشركين أولياء الشيطان فإن نواصيهم بيد الله لا يتصرفون إلا بقدره، بل خافوا الله الذين ينصر أولياءه الخائفين له، المستجيبين لدعوته. وفي هذه الآية وجوب الخوف من الله وحده وأنه من لوازم الإيمان، فعلى قدر إيمان العبد يكون خوفه من الله، والخوف المحمود ما حجز العبد عن محارم الله.
[175] ﴿ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ ﴾ یعنی مشرکین میں سے جس نے ڈرایا اور کہا کہ لوگ تمھارے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ وہ شیطان کے داعیوں میں سے ایک داعی ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے جو ایمان سے محروم ہیں یا جن کا ایمان کمزور ہے۔ فرمایا: ﴿ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ یعنی شیطان کے دوست مشرکین سے نہ ڈرو کیونکہ ان کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی تصرف کر سکتے ہیں۔۔۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو جو اپنے ان دوستوں کی مدد کرتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کا خوف واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کاخوف لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے۔ بندہ اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق خوف الٰہی رکھتا ہے۔ اور خوف محمود وہ ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے ارتکاب سے روک دے۔
آیت: 176 - 177 #
{وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (176) إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (177)}.
اور نہ غم میں ڈالیں آپ کو وہ لوگ جو جلدی کرتے ہیں کفر میں، بلاشبہ وہ ہرگز نہیں نقصان پہنچا سکیں گے اللہ کو کچھ بھی، ارادہ کرتا ہے اللہ یہ کہ نہ کرے ان کے لیے کوئی حصہ آخرت میں اور ان کے لیے عذاب ہے بہت بڑا(176) بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے خریدا کفر کو بدلے ایمان کے، ہرگز نہیں نقصان پہنچا سکیں گے وہ اللہ کو کچھ بھی اور ان کے لیے عذاب ہے دردناک(177)
#
{176} كان النبي - صلى الله عليه وسلم - حريصاً على الخلق مجتهداً في هدايتهم، وكان يحزن إذا لم يهتدوا، قال الله تعالى: {ولا يحزنك الذين يسارعون في الكفر} من شدة رغبتهم فيه وحرصهم عليه {إنهم لن يضروا الله شيئاً} فالله ناصر دينه ومؤيد رسوله ومنفذ أمره من دونهم، فلا تبالهم ولا تحفل بهم، إنما يضرون ويسعون في ضرر أنفسهم بفوات الإيمان في الدنيا، وحصول العذاب الأليم في الأخرى، من هوانهم على الله وسقوطهم من عينه وإرادته أن لا يجعل لهم نصيباً في الآخرة من ثوابه؛ خذلهم فلم يوفقهم لما وفق إليه أولياءه، ومن أراد به خيراً عدلاً منه وحكمة، لعلمه بأنهم غير زاكين على الهدى ولا قابلين للرشاد لفساد أخلاقهم وسوء قصدهم.
[176] رسول اللہeلوگوں کی ہدایت کے بہت آرزو مند تھے اور ان کو ہدایت کی راہ پر لانے کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ جب وہ ہدایت قبول نہ کرتے تو آپ بہت آزردہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْ٘كُ٘فْرِ ﴾ یعنی ان کی کفر میں شدید رغبت اور چاہت کی وجہ سے آپ آزردہ خاطر نہ ہوں ﴿ اِنَّهُمْ لَ٘نْ یَّضُ٘رُّوا اللّٰهَ شَیْـًٔـا ﴾ ’’وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘ پس اللہ تعالیٰ اپنے دین کا حامی و ناصر، اپنے رسول کی مدد کرنے والا اور ان کے بغیر اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے۔ اس لیے آپ ان کی پروا نہ کریں۔ یہ محض اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایمان سے محروم ہو کر اس دنیا میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حقیر ہونے، اس کی نظر سے گرنے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کی وجہ سے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو… ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ ان کی جزا یہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور انھیں اس توفیق سے نہ نوازا جو اس نے نہایت عدل و حکمت کی بنا پر اپنے اولیاء اور ان بندوں کو عطا کی جن کے ساتھ وہ بھلائی چاہتا ہے ۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ راہ ہدایت کے ذریعے سے تزکیہ نفس نہیں چاہتے اور اپنے فاسد اخلاق و اطوار اور برے مقاصد کی بنا پر رشد و ہدایت کو قبول نہیں کرتے۔
#
{177} ثم أخبر أن الذين اختاروا الكفر على الإيمان ورغبوا فيه رَغْبَةَ مَنْ بذلَ ما يحب من المال في شراء ما يحب من السلع {لن يضروا الله شيئاً}، بل ضرر فعلهم يعود على أنفسهم، ولهذا قال: {ولهم عذاب أليم}، وكيف يضرون الله شيئاً؟! وهم قد زهدوا أشد الزهد في الإيمان ورغبوا كل الرغبة بالكفر بالرحمن فالله غني عنهم، وقد قيض لدينه من عباده الأبرار الأزكياء سواهم وأعد له ممن ارتضاه لنصرته أهل البصائر والعقول، وذوي الألباب من الرجال الفحول، قال الله تعالى: {قل آمنوا به أو لا تؤمنوا إن الذين أوتوا العلم من قبله إذا يتلى عليهم يخرون للأذقان سجداً ... } الآيات.
[177] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو چن لیا پھر اس کفر میں اس شخص کی مانند رغبت کرنے لگے جو کسی محبوب مال تجارت کو خریدنے کے لیے اپنا محبوب مال خرچ کرتا ہے۔ فرمایا ﴿ لَ٘نْ یَّضُ٘رُّوا اللّٰهَ شَیْـًٔـا ﴾ ’’وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے۔‘‘ بلکہ ان کے فعل کا نقصان خود ان کی ذات کو پہنچتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ وہ اللہ تعالیٰ کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ ایمان سے دور بھاگتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر میں پوری طرح راغب رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لیے ان کفار کے سوا اپنے نیک اور پاک بندوں کو مقرر کر رکھا ہے اور اپنے دین کی مدد اور نصرت کے لیے اپنے پسندیدہ بندوں میں سے اصحاب عقل و بصیرت اور بڑے بڑے ذہین لوگوں کو تیار کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ قُ٘لْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ۤ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍107) ’’کہہ دیجیے کہ تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا جب یہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔‘‘
آیت: 178 #
{وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (178)}.
اور نہ گمان کریں کافر کہ بے شک جو ڈھیل دے رہے ہیں ہم ان کو، وہ بہتر ہے ان کی جانوں کے لیے، ہم تو صرف مہلت دیتے ہیں ان کو تاکہ زیادہ ہو جائیں وہ گناہ میں اور واسطے ان کے عذاب ہے رسوا کرنے والا(178)
#
{178} أي: ولا يظن الذين كفروا بربهم، ونابذوا دينه، وحاربوا رسوله أنَّ تركنا إياهم في هذه الحياة الدنيا وعدم استئصالنا لهم وإملائنا لهم خير لأنفسهم ومحبة منا لهم، كلا ليس الأمر كما زعموا، وإنما ذلك لشر يريده الله بهم وزيادة عذاب وعقوبة إلى عذابهم، ولهذا قال: {إنما نملي لهم ليزدادوا إثماً ولهم عذاب مهين}، فالله تعالى يملي للظالم حتى يزداد طغيانه، ويترادف كفرانه حتى إذا أخذه أخذه أخذ عزيز مقتدر، فليحذر الظالمون من الإمهال، ولا يظنوا أن يفوتوا الكبير المتعال.
[178] وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتے ہیں، اس کے دین کو دور پھینکتے ہیں اور اس کے رسولeکے خلاف جنگ کرتے ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا ان کو اس دنیا میں چھوڑ دینا، ان کا استیصال نہ کرنا اور ان کو مہلت دینا، ان کے لیے بہتر ہے اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں، معاملہ ایسا نہیں جیسا وہ سمجھتے ہیں۔ یہ مہلت دینا تو ان کے حق میں برا ہے ان کی سزا اور عذاب میں اور اضافہ ہو گا اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا نُ٘مْلِیْ لَهُمْ لِیَ٘زْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ﴾ ’’ہم تو انھیں اس لیے مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہوں میں اور ترقی کریں اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کی اس کی سرکشی بڑھ جاتی ہے اس کے رویے میں پے در پے کفر کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر وہ اس کو غالب اور مقتدر ہستی کی مانند پکڑ لیتا ہے۔ پس ظالموں کو اس مہلت سے ڈرنا چاہیے اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ اس بڑی اور بلند ہستی کی پکڑ سے رہ جائیں گے۔
آیت: 179 #
{مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (179)}.
نہیں ہے اللہ کہ چھوڑ دے مومنوں کو اس (حالت) پر کہ ہو تم اوپر اس کے، یہاں تک کہ وہ علیحدہ کر دے ناپاک کو پاک سے اور نہیں ہے اللہ کہ مطلع کرے وہ تمھیں اوپر غیب کے لیکن اللہ پسند کر لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، پس ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمھارے لیے اجر ہے بہت بڑا(179)
#
{179} أي: ما كان في حكمة الله أن يترك المؤمنين على ما أنتم عليه من الاختلاط وعدم التمييز ، حتى يميز الخبيث من الطيب والمؤمن من المنافق والصادق من الكاذب، ولم يكن في حكمته أيضاً أن يطلع عباده على الغيب الذي يعلمه من عباده، فاقتضت حكمته الباهرة أن يبتلي عباده، ويفتنهم بما به يتميز الخبيث من الطيب من أنواع الابتلاء والامتحان، فأرسل الله رسله وأمر بطاعتهم والانقياد لهم والإيمان بهم، ووعدهم على الإيمان والتقوى الأجر العظيم، فانقسم الناس بحسب اتباعهم للرسل قسمين: مطيعين وعاصين ومؤمنين ومنافقين ومسلمين وكافرين، ليرتب على ذلك الثواب والعقاب، وليظهر عدله وفضله وحكمته لخلقه.
[179] یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ وہ اہل ایمان کو پرکھے بغیر خلط ملط حالت میں چھوڑ دے۔ وہ ان کو پرکھے گا اور پاک کو ناپاک میں سے، مومن کو منافق میں سے اور سچے کو جھوٹے میں سے علیحدہ کرے گا۔ نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ اپنے بندوں کو اس غیب پر مطلع کرے جس کا علم اس نے اپنے بعض بندوں (رسولوں) کو عطا کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مختلف قسم کی آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور ان کی اطاعت، ان کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ ایمان اور تقویٰ کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس انبیاء کرام کی اتباع کے اعتبار سے لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں اطاعت گزار اور نافرمان، مومنین اور منافقین، مسلمان اور کفار۔ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ثواب و عقاب مترتب ہو۔ اور تاکہ اس کا عدل و فضل اور اس کی مخلوق پر اس کی حکمت ظاہر ہو۔
آیت: 180 #
{وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (180)}.
اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں ساتھ اس کے جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے کہ وہ بہتر ہے ان کے لیےبلکہ وہ بدتر ہے ان کے لیے، عنقریب وہ طوق پہنائے جائیں گے، اس (مال) کا کہ بخل کیا تھا انھوں نے ساتھ اس کے، دن قیامت کےاور اللہ ہی کے لیے ملکیت ہے آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خوب خبردار ہے(180)
#
{180} أي: ولا يظن الذين يبخلون؛ أي: يمنعون ما عندهم مما آتاهم الله من فضله من المال والجاه والعلم وغير ذلك، مما منحهم الله وأحسن إليهم به، وأمرهم ببذل ما لا يضرهم منه لعباده فبخلوا بذلك، وأمسكوه وضنوا به على عباد الله، وظنوا أنه خير لهم بل هو شر لهم في دينهم ودنياهم وعاجلهم وآجلهم، {سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة}؛ أي يجعل ما بخلوا به طوقاً في أعناقهم يعذبون به كما ورد في الحديث الصحيح: «إن البخيل يمثل له ماله يوم القيامة شجاعاً أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمته يقول: أنا مالك، أنا كنزك» ، وتلا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مصداق ذلك هذه الآية، فهؤلاء حسبوا أن بخلهم نافعهم ومجدٍ عليهم فانقلب عليهم الأمر، وصار من أعظم مضارهم وسبب عقابهم. {ولله ميراث السموات والأرض}؛ أي: هو تعالى مالك الملك وتردّ جميع الأملاك إلى مالكها وينقلب العباد من الدنيا ما معهم درهم ولا دينار ولا غير ذلك من المال. قال تعالى: {إنا نحن نرث الأرض ومن عليها وإلينا يرجعون}، وتأمل كيف ذكر السبب الابتدائي والسبب الغائي، الموجب كل واحد منهما أن لا يبخل العبد بما أعطاه الله. أخبر أولاً أن الذي عنده وفي يده فضل من الله ونعمة ليس ملكاً للعبد، بل لولا فضل الله عليه وإحسانه لم يصل إليه منه شيء. فمنْعُه ذلك منْعٌ لفضل الله وإحسانه، ولأن إحسانه موجب للإحسان إلى عبيده، كما قال تعالى: {وأحسن كما أحسن الله إليك}، فمن تحقق أن ما بيده فضل من الله لم يمنع الفضل الذي لا يضره بل ينفعه في قلبه وماله وزيادة إيمانه وحفظه من الآفات. ثم ذكر ثانياً أن هذا الذي بيد العباد، كلُّها ترجع إلى الله ويرثها تعالى وهو خير الوارثين، فلا معنى للبخل بشيء هو زائل عنك، منتقل إلى غيرك. ثم ذكر ثالثاً السبب الجزائي فقال: {والله بما تعملون خبير}، فإذا كان خبيراً بأعمالكم جميعها ويستلزم ذلك الجزاء الحسن على الخيرات والعقوبات على الشر لم يتخلف من في قلبه مثقال ذرة من إيمان عن الإنفاق الذي يجزي به الثواب ولا يرضى بالإمساك الذي به العقاب.
[180] یعنی جو لوگ بخل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال، جاہ، علم اور دیگر چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا ہے اور ان کو حکم دیا کہ ان چیزوں میں سے اس کے بندوں پر اتنا ضرور خرچ کریں جس سے خود ان کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر انھوں نے بخل کیا اور ان چیزوں کو بندوں پرخرچ کرنے سے روک رکھا اور سمجھتے رہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے (یہ ان کے لیے بہتر نہیں) بلکہ یہ تو ان کے دین و دنیا و آخرت کے لیے بدترین چیز ہے۔ ﴿سَیُطَوَّ٘قُ٘وْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ یعنی جس چیز کے بارے میں انھوں نے بخل کیا، اللہ تعالیٰ اسے طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دے گا اور اس سبب سے انھیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے، چنانچہ رسول اللہeنے فرمایا: ’اِنَّ الْبَخِیْلَ یُمَثَّلُ لَہُ مَالُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعاً اَقْرَعَ لَہُ زَبِیْبَتَانِ یَاخُذُ بِلِھْزِمَتَیْہِ یَقُولُ : اَنَا مَالُکَ اَنَا کَنْزُکَ‘ ’’قیامت کے روز بخیل کے مال کو ایک بڑا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے وہ بخیل کو اس کے جبڑوں سے پکڑ لے گا اور کہے گا ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘پھر رسول اللہeنے اس کے مصداق کے طور پر یہی آیت تلاوت فرمائی۔(صحیح البخاري، التفسیر، باب:﴿ولا يحسبن الذين يبخلون ...... من فضلہ﴾، حديث:4565، بلفظ: من آتاہ اللہ مالا فلم يؤد زکاتہ) یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کا بخل ان کے لیے نفع مند اور عزت کا باعث ہے مگر معاملہ الٹ نکلا اور یہی بخل ان کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اور عذاب کا باعث بن گیا۔ ﴿ وَلِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اقتدار اور بادشاہی کا مالک ہے تمام املاک اپنے مالک کی طرف لوٹتی ہیں اور بندے اس دنیا سے اس حالت میں جائیں گے کہ ان کے ساتھ درہم و دینار ہوں گے نہ کوئی مال و متاع۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ﴾ (مریم : 19؍40) ’’زمین اور جو لوگ اس کے اوپر ہیں ہم ہی ان کے وارث ہیں اور انھیں ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب ابتدائی اور سبب انتہائی کو کیسے ذکر فرمایا ہے اور یہ دونوں اس بات کے موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں میں بخل نہ کرے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ بندے کے پاس اور بندے کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ بندے کی ملکیت نہیں، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی نعمت ہے۔ اگر بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا احسان نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی چیز بھی اسے عطا نہ ہوتی۔ لہٰذا جو کوئی یہ چیزیں لوگوں کو عطا کرنے میں بخل کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو لوگوں تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ کیونکہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا احسان اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ وہ بندہ اللہ کے بندوں پر احسان کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ﴾ (القصص : 28؍77) ’’جیسی اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ ویسی ہی بھلائی کر۔‘‘ پس جسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو دوسروں تک پہنچانے سے کبھی نہیں رکے گا جس سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ فعل اس کے دل اور مال میں اسے فائدہ ہی پہنچاتا ہے اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور اسے آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ ثانیاً: اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ یہ سب کچھ جو بندے کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا وارث ہو گا اور وہ سب سے اچھا وارث ہے۔ کسی ایسی چیز میں آپ کا بخل کرنا کیا معنی رکھتا ہے جو چیز آپ کے پاس سے زائل ہو کر کسی دوسرے کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ ثالثًا: اللہ تعالیٰ نے سبب جزائی کا ذکر فرمایا چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ جب اللہ تعالیٰ تمھارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے تو یہ حقیقت اس بات کی مستلزم ہے کہ وہ اچھے اعمال پر اچھی جزا دے اور برے اعمال پر بری سزا دے۔ اب جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا جس کا بدلہ ثواب ہے۔ اور بخل پر راضی نہیں ہو سکتا، جو عذاب کا باعث ہے۔
آیت: 181 - 182 #
{لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (181) ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (182)}.
تحقیق سن لی اللہ نے بات ان لوگوں کی جنھوں نے کہا، بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار، یقینا ہم لکھتے ہیں جو کچھ انھوں نے کہا اور ان کے قتل کرنے کو (بھی) انبیاء کا ناحق اور کہیں گے ہم چکھو عذاب جلانے والا(181) یہ بہ سبب اس کے جو آگے بھیجا تمھارے ہاتھوں نے اور یہ کہ اللہ نہیں ہے ظلم کرنے والا واسطے بندوں کے(182)
#
{181} يخبر تعالى عن قول هؤلاء المتمردين الذين قالوا أقبح المقالة وأشنعَها وأسمجَها، فأخبر أنه قد سمع ما قالوه، وأنه سيكتبه ويحفظه مع أفعالهم الشنيعة وهو قتلهم الأنبياء الناصحين، وأنه سيعاقبهم على ذلك أشد العقوبة وأنه يقال لهم بدل قولهم إن الله فقير ونحن أغنياء: {ذوقوا عذاب الحريق}؛ المحرق النافذ من البدن إلى الأفئدة، وأن عذابهم ليس ظلماً من الله لهم فإنه {ليس بظلام للعبيد}؛ فإنه منزه عن ذلك.
[181] اللہ تبارک و تعالیٰ ان متکبرین کے قول سے آگاہ فرماتا ہے جنھوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں بدترین اور قبیح ترین بات کہی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ انھوں نے جو بدزبانی کی ہے اللہ تعالیٰ نے اسے سن لیا ہے۔ وہ اس بدزبانی کو لکھ کر محفوظ کر لے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ دیگر افعال قبیحہ بھی محفوظ کرے گا۔ مثلاً ان کا خیر خواہی کرنے والے انبیائے کرام کو ناحق قتل کرنا، اور وہ ان کو ان افعال پر سخت سزا دے گا، ان کی اس ہرزہ گوئی… ’’اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم دولت مند ہیں‘‘… کے بدلے میں کہا جائے گا ﴿ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْـقِ ﴾ یعنی بدن سے دل تک جلا ڈالنے والے عذاب کا مزا چکھو، ان کو دیا گیا یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ﴿ لَ٘یْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾ ’’بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔‘‘ وہ اس سے منزہ ہے۔
#
{182} وإنما {ذلك بما قدمت} أيديهم من المخازي والقبائح التي أوجبت استحقاقهم العذاب وحرمانهم الثواب. وقد ذكر المفسرون أن هذه الآية نزلت في قوم من اليهود تكلموا بذلك، وذكروا منهم فنحاص بن عازوراء من رؤساء علماء اليهود في المدينة ، وأنه لما سمع قول الله تعالى: {من ذا الذي يُقرض اللهَ قرضاً حسناً}، {وأقرضوا الله قرضاً حسناً}، قال على وجه التكبر والتجرهم هذه المقالة قبحه الله، فذكرها الله عنهم، وأخبر أنه ليس ببدعٍ من شنائعهم، بل قد سبق لهم من الشنائع ما هو نظير ذلك وهو قتلهم الأنبياء بغير حقٍّ، هذا القيد يراد به أنهم تجرؤوا على قتلهم مع علمهم بشناعته لا جهلاً وضلالاً بل تمرداً وعناداً.
[182] فرمایا ﴿ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ ﴾ یہ رسوائیاں اور قباحتیں جو انھیں عذاب کا مستحق بناتی اور ثواب سے محروم کرتی ہیں ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنھوں نے مذکورہ ہرزہ سرائی کی تھی۔ ان میں ’’فنحاص بن عازوراء‘‘ کا نام لیا جاتا ہے جو مدینہ میں علمائے یہود کا سرخیل تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب فنحاص بن عازوراء نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْ٘رِضُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا ﴾ (البقرہ: 2؍245) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَاَ٘قْ٘رَضُوا اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا ﴾ (الحدید:57؍18) سنا تو اس وقت اس نے تکبر کی بنا پر یہ بات کہنے کی جسارت کی ۔۔ قبحہ اللٰہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بدگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ ہرزہ سرائیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے قبیح کام کرتے رہے ہیں ان کی ایک نظیر یہ ہے کہ انھوں نے نبیوں کو ناحق قتل کیا… یہاں ’’ناحق‘‘ کی قید لگانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نبیوں کو لاعلمی اور ضلالت کی وجہ سے قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس جرم کی قباحت اور شناعت کو جانتے ہوئے بھی سرکشی اور عناد کی بنا پر قتل انبیاءoکے اقدام کی جرأت کرتے تھے۔
آیت: 183 - 184 #
{الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (183) فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ (184)}.
وہ لوگ جنھوں نے کہا: بلاشبہ اللہ نے عہد لیا ہے ہم سے یہ کہ نہ ایمان لائیں ہم کسی رسول پر، یہاں تک کہ لائے وہ ہمارے پاس ایسی قربانی کہ کھا جائے اسے آگ، کہہ دیجیے! تحقیق آئے تمھارے پاس کئی رسول پہلے مجھ سے ساتھ واضح دلائل کے اور ساتھ اس کے جو کہا تم نے، پھر کیوں قتل کیا تم نے ان کو اگر ہو تم سچے؟(183) پس اگر جھٹلایا ہے انھوں نے آپ کو تو تحقیق جھٹلائے گئے کئی رسول آپ سے پہلے، لائے تھے وہ واضح دلائل اور صحیفے اور کتاب روشن(184)
#
{183} يخبر تعالى عن حال هؤلاء المفترين القائلين {إن الله عهد إلينا}؛ أي: تقدم إلينا وأوصى أن لا نؤمن لرسول حتى يأتينا بقربان تأكله النار فجمعوا بين الكذب على الله وحصر آية الرسل بما قالوه من هذا الإفك المبين، وأنهم إن لم يؤمنوا برسول لم يأتهم بقربان تأكله النار فهم في ذلك مطيعون لربهم ملتزمون عهده، وقد علم أن كل رسول يرسله الله يؤيده من الآيات والبراهين ما على مثله آمن البشر، ولم يقصرها على ما قالوه، ومع هذا فقد قالوا إفكاً لم يلتزموه وباطلاً لم يعملوا به، ولهذا أمر الله رسوله أن يقول لهم: {قل قد جاءكم رسل من قبلي بالبينات} الدالات على صدقهم {وبالذي قلتم} بأن أتاكم بقربان تأكله النار {فلم قتلتموهم إن كنتم صادقين}؛ أي: في دعواكم الإيمان برسول يأتيكم بقربان تأكله النار، فقد تبين بهذا كذبهم وعنادهم وتناقضهم.
[183] اللہ تعالیٰ ان افترا پردازوں کے احوال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَیْنَاۤ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہم سے عہد لے چکا ہے اور اس نے وصیت کی ہے کہ ﴿ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰى یَاْتِیَنَا بِقُ٘رْبَ٘انٍ تَاْكُلُهُ النَّارُ ﴾ ’’ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ (آسمان سے نازل ہو کر) کھا لے۔‘‘پس انھوں نے یہ افترا پردازی کر کے اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی اور انبیاء و مرسلینoکے معجزات کو صرف اسی ایک معجزے میں محصور کر کے یکجا کر دیا نیز یہ کہ وہ کسی ایسے رسول پر ایمان نہیں لائیں گے جس نے ایسی قربانی نہ کی ہو جسے آگ نے کھایا ہو۔ اس لیے وہ رسول اللہeپر ایمان نہ لانے کے سلسلے میں اپنے رب کی اطاعت اور اس کے عہد کا التزام کر رہے ہیں۔ یہ چیز معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول مبعوث فرمائے ان سب کی معجزات و براہین کے ذریعے سے تائید کی۔ جس پر انسان مطمئن ہو جاتا ہے اور جس معجزے کا انھوں نے مطالبہ کیا انبیاءoاس سے قاصر نہیں رہے۔ اس کے باوجود انھوں نے انبیاءoکی دعوت کو بہتان و افترا کہہ کر اس کا التزام نہ کیا اور اسے باطل کہا اور اس پر عمل نہ کیا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeکو حکم دیا کہ وہ ان سے کہہ دیں ﴿ قُ٘لْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَ٘بْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’مجھ سے پہلے کئی پیغمبر تمھارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ یعنی وہ دلائل لے کر آئے جو ان کی صداقت کی تائید کرتے تھے ﴿ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ ﴾ اور وہ معجزہ لے کر بھی آئے جس کا تم نے مطالبہ کیا ہے، یعنی انھوں نے وہ قربانی بھی کی جس کو آگ نے کھایا ﴿ فَلِمَ قَ٘تَ٘لْ٘تُمُوْهُمْ۠ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اگر تم سچے ہو تو تم نے ان کو قتل کیوں کیا؟‘‘ یعنی اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ ہم تو رسول پر اس وقت ایمان لاتے ہیں جب وہ قربانی کرے اور آگ آسمان سے نازل ہو کر اسے کھا لے تو پھر تم یہ معجزہ دکھانے والے نبیوں کو قتل کیوں کرتے تھے۔ پس اس سے ان کا جھوٹ اور تناقض واضح ہو گیا۔
#
{184} ثم سَلَّى رسولَه - صلى الله عليه وسلم - فقال: {فإن كذبوك فقد كُذِّبَ رسلٌ من قبلك}؛ أي: هذه عادة الظالمين ودأبهم الكفر بالله وتكذيب رسل الله، وليس تكذيبهم لرسل الله عن قصور بما أتوا به أو عدم تبين حجة، بل قد {جاءوا بالبينات}؛ أي: الحجج العقلية والبراهين النقلية {والزبر}؛ أي: الكتب المزبورة المنزلة من السماء التي لا يمكن أن يأتي بها غير الرسل، {والكتاب المنير} للأحكام الشرعية وبيان ما اشتملت عليه من المحاسن العقلية، ومنير أيضاً للأخبار الصادقة، فإذا كان هذا عادتهم في عدم الإيمان بالرسل الذين هذا وصفهم فلا يحزنك أمرهم ولا يهمنك شأنهم، ثم قال تعالى:
[184] پھر اپنے رسولeکو ان الفاظ میں خوشخبری سنائی ہے ﴿ فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’پس اگر انھوں نے تمھاری تکذیب کی ہے تو تم سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرنا ان ظالموں کی عادت اور وتیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ معجزہ دکھانے سے قاصر رہے یا دلیل واضح نہ تھی بلکہ ﴿ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ یعنی وہ تو دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ لے کر مبعوث ہوئے ﴿ وَالزُّبُرِ ﴾ ان کے لیے آسمان سے لکھی ہوئی کتابیں نازل ہوئیں ان کتابوں کو رسول کے سوا کوئی اور نہیں لا سکتا۔ ﴿ وَالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ﴾ یعنی احکام شرعی کو روشن اور عیاں کرنے والی اور یہ احکام الٰہی جن محاسن عقلی پر مشتمل ہیں ان کو بیان کرنے والی ہیں نیز سچی خبروں کو روشن کرتی ہے۔ لہٰذا جب ان اوصاف کے حامل رسولوں پر ایمان لانا ان کی عادت نہیں تو ان کا معاملہ آپ کو غمزدہ نہ کر دے۔
آیت: 185 #
{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (185)}.
ہر نفس چکھنے والا ہے موت کو اور بلاشبہ پورے دیے جاؤ گے تم اپنے اجر دن قیامت کے، پس جو دور کر دیا گیا آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور نہیں ہے زندگانیٔ دنیا مگر سامان دھوکے کا(185)
#
{185} هذه الآية الكريمة فيها التزهيد في الدنيا بفنائها وعدم بقائها وأنها متاع الغرور، تفتن بزخرفها وتخدع بغرورها وتغر بمحاسنها، ثم هي منتقلِة ومنتقَل عنها إلى دار القرار التي توفَّى فيها النفوس ما عملت في هذه الدار من خير وشر {فمن زحزح}؛ أي: أخرج {عن النار وأدخل الجنة فقد فاز}؛ أي: حصل له الفوز العظيم بالنجاة من العذاب الأليم والوصول إلى جنات النعيم التي فيها ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر. ومفهوم الآية: أن من لم يزحزح عن النار، ويدخل الجنة فإنه لم يفز بل قد شقي الشقاء الأبدي، وابتلي بالعذاب السرمدي. وفي هذه الآية إشارة لطيفة إلى نعيم البرزخ وعذابه وأن العاملين يجزون فيه بعض الجزاء مما عملوه ويقدم لهم أنموذج مما أسلفوه، يفهم هذا من قوله: {وإنما توفون أجوركم يوم القيامة}؛ أي: توفية الأعمال التامة إنما يكون يوم القيامة، وأما ما دون ذلك فيكون في البرزخ، بل قد يكون قبل ذلك في الدنيا كقوله: {ولنذيقنهم من العذاب الأدنى دون العذاب الأكبر}.
[185] اس آیت کریمہ میں دنیا میں زہد کی ترغیب دی گئی ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور باقی نہیں رہے گی، یہ محض دھوکے کا سامان ہے یہ اپنی چکا چوند، اپنے غرور اور اپنی ظاہری خوبصورتی سے انسان کو دھوکے میں مبتلا کرتی ہے۔ پھر یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور اس میں رہنے والے آخرت کے ٹھکانے میں منتقل ہو جائیں گے جہاں ہر نفس کو اچھے یا برے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے اس دنیا میں کیے ہیں۔ ﴿ فَ٘مَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ﴾ ’’جسے آگ سے بچا کر جنت میں بھیج دیا گیا پس وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘ یعنی دردناک عذاب سے نجات حاصل کر کے اور نعمتوں سے لبریز جنتوں میں پہنچ کر اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس کسی کو جہنم کی آگ سے ہٹا کر جنت میں داخل نہ کیا گیا، وہ کامیابی سے محروم ہو گیا۔ بلکہ ابدی شقاوت اور سرمدی عذاب میں مبتلا کر دیا گیا۔ نیز اس آیت کریمہ میں برزخ کی نعمتوں کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے، لوگوں کو ان کے اعمال کا کچھ بدلہ برزخ میں بھی دیا جائے گا ان کے اعمال کے کچھ نمونے ان کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ یہ لطیف اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مستنبط ہوتا ہے ﴿ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَؔكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ یعنی اعمال کی کامل جزا تو قیامت کے روز ہی ملے گی البتہ اس سے کم تر جزا برزخ میں عطا ہو گی۔ بلکہ بسا اوقات اس سے بھی پہلے کبھی کبھی یہ جزا دنیا ہی میں عطا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ ﴾ (السجدۃ : 32؍21) ’’ہم ان کو آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ دنیا کے عذاب کا مزا بھی چکھائیں گے۔‘‘
آیت: 186 #
{لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (186)}.
البتہ ضرور آزمائے جاؤ گے تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں اور بالیقین ضرور سنو گے تم ان لوگوں سے جو دیے گئے کتاب تم سے پہلے اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ایذا (کی باتیں) بہت اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہیں(186)
#
{186} يخبر تعالى ويخاطب المؤمنين أنهم سيبتلون في أموالهم من النفقات الواجبة والمستحبة ومن التعريض لإتلافها في سبيل الله وفي أنفسهم من التكليف بأعباء التكاليف الثقيلة على كثير من الناس كالجهاد في سبيل الله والتعرض فيه للتعب والقتل والأسر والجراح وكالأمراض التي تصيبه في نفسه أو فيمن يحب، ولتسمعن من الذين أوتوا الكتاب والمشركين {أذى كثيراً} من الطعن فيكم وفي دينكم وكتابكم ورسولكم. وفي إخباره لعباده المؤمنين بذلك عدة فوائد: منها: أن حكمته تعالى تقتضي ذلك ليتميز المؤمن الصادق من غيره. ومنها: أنه تعالى يقدر عليهم هذه الأمور لما يريده بهم من الخير ليعلي درجاتهم ويكفر من سيئاتهم وليزداد بذلك إيمانهم ويتم به إيقانهم فإنه إذا أخبرهم بذلك ووقع كما أخبر، {قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله وما زادهم إلا إيماناً وتسليماً}. ومنها: أنه أخبرهم بذلك لتتوطن نفوسهم على وقوع ذلك والصبر عليه إذا وقع لأنهم قد استعدوا لوقوعه فيهون عليهم حمله وتخف عليهم مؤنته ويلجؤون إلى الصبر والتقوى، ولهذا قال: {وإن تصبروا وتتقوا}؛ أي: إن تصبروا على ما نالكم في أموالكم وأنفسكم من الابتلاء والامتحان وعلى أذية الظالمين وتتقوا الله في ذلك الصبر بأن تنووا به وجه الله والتقرب إليه ولم تتعدوا في صبركم الحد الشرعي من الصبر في موضع لا يحل لكم فيه الاحتمال بل وظيفتكم فيه الانتقام من أعداء الله. {فإن ذلك من عزم الأمور}؛ أي: من الأمور التي يعزم عليها وينافس فيها ولا يوفق لها إلا أهل العزائم والهمم العالية، كما قال تعالى: {وما يلقاها إلا الذين صبروا وما يلقاها إلا ذو حظ عظيم}.
[186] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انھیں ان کے اموال میں اللہ کی راہ میں واجب اور مستحب نفقات کے ذریعے سے آزمایا جائے گا اور خود ان کو ایسی بوجھلتکالیف میں مبتلا کیا جائے گا جو اکثر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں مثلاً جہاد فی سبیل اللہ، جہاد میں مشقت، قتل، اسیری اور زخموں سے واسطہ پڑتا ہے اور مثلاً امراض جو خود اسے یا اس کے کسی محبوب فرد کو لاحق ہو جاتے ہیں۔ ﴿ وَلَ٘تَ٘سْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًا﴾ یعنی تمھیں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے خود تمھاری ذات، تمھارے دین، تمھاری کتاب اور تمھارے رسول کے بارے میں طعنے سننے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے بارے میں اپنے مومن بندوں کو آگاہ کرنے میں متعدد فوائد ہیں۔ ۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مومن صادق اور دیگر لوگوں کے درمیان امتیاز واقع ہو جائے۔ ۲۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو وہ ان کے لیے شدائد اور تکالیف کو مقدر کر دیتا ہے تاکہ وہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیوں کو مٹا دے اور تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ فرمایا اور وہ اسی طرح واقع بھی ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ ﴿ قَالُوْا هٰؔذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ١ٞ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا﴾ (الاحزاب:33؍22) ’’تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اس سے ان کے ایمان میں اضافہ اور تسلیم و رضا زیادہ ہو گئی۔‘‘ ۳۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس کی خبر دی تاکہ ان کے نفوس اس قسم کے شدائد برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوں اور جب سختیاں آن پڑیں تو ان پر صبر کریں۔ کیونکہ جب شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے تو ان کا برداشت کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے گا اور ان کا بوجھ ہلکا لگے گا، تب وہ صبر اور تقویٰ کی پناہ لیں گے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا ﴾ یعنی تمھاری جان و مال میں تم جس ابتلا و امتحان میں پڑے ہوئے ہو اور تمھیں ظالموں کی اذیتوں کا جو سامنا کرنا پڑا ہے اگر تم اس پر صبر کرو اور اس صبر میں تقویٰ کا التزام یعنی اس صبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کی نیت رکھو اور اپنے صبر میں صبر کی شرعی حدود سے تجاوز نہ کرو یعنی ایسے مقام پر صبر نہ کرو جہاں صبر کرنا جائز نہ ہو بلکہ وہاں تمھارا کام اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے انتقام لینا ہو ﴿ فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ﴾ تو اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جس پر عزم کیا جاتا ہے اور جس میں رغبت کے لیے سبقت کی جاتی ہے اور اس کی توفیق صرف انھیں عطا ہوتی ہے جو باعزم اور بلند ہمت لوگ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا١ۚ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ (فصلت:41؍35) ’’یہ بات صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس بات سے صرف وہ لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو نصیب والے ہیں۔‘‘
آیت: 187 - 188 #
{وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ (187) لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (188)}.
اور جب لیا اللہ نے عہد ان لوگوں سے جو دیے گئے کتاب، البتہ ضرور بیان کرو گے تم اسے واسطے لوگوں کے اور نہ چھپاؤ گے اسے، پس پھینک دیا انھوں نے اسے پیچھے اپنی پیٹھوں کے اور خرید لیا اس کے بدلے مول تھوڑا، پس برا ہے وہ جو خریدتے ہیں(187) نہ گمان کریں آپ ان لوگوں کوجو خوش ہوتے ہیں ساتھ اس کے جو انھوں نے (کرتوت) کیے اور پسند کرتے ہیں وہ یہ کہ تعریف کیے جائیں ساتھ اس کے جو نہیں کیا انھوں نے، پس نہ گمان کریں آپ ان کی بابت چھوٹ جانے کا عذاب سےاور ان کے لیے عذاب ہے دردناک(188)
#
{187} الميثاق: هو العهد الثقيل المؤكد، وهذا الميثاق أخذه الله تعالى على كل من أعطاه الله الكتب، وعلَّمه العلمَ أن يبين للناس ما يحتاجون إليه مما علمه الله ولا يكتمهم ذلك ويبخل عليهم به، خصوصاً إذا سألوه أو وقع ما يوجب ذلك، فإنَّ كلَّ من عنده علم يجب عليه في تلك الحال أن يبينه ويوضح الحق من الباطل. فأما الموفقون فقاموا بهذا أتم القيام وعلَّموا الناس مما علَّمَهم الله ابتغاء مرضاة ربهم وشفقة على الخلق وخوفاً من إثم الكتمان. وأما الذين أوتوا الكتاب من اليهود والنصارى ومن شابههم فنبذوا هذه العهود والمواثيق وراء ظهورهم فلم يعبؤوا بها فكتموا الحق وأظهروا الباطل تجرؤاً على محارم الله وتهاوناً بحقوقه تعالى وحقوق الخلق واشتروا بذلك الكتمان {ثمناً قليلاً} وهو ما يحصل لهم إن حصل من بعض الرياسات والأموال الحقيرة من سفلتهم المتبعين أهواءهم المقدمين شهواتهم على الحق {فبئس ما يشترون} لأنه أخسّ العوض والذي رغبوا عنه وهو بيان الحق الذي فيه السعادة الأبدية والمصالح الدينية والدنيوية أعظمُ المطالب وأجلُّها، فَلَمْ يختاروا الدني الخسيس ويتركوا العالي النفيس إلا لسوء حظهم وهوانهم وكونهم لا يصلحون لغير ما خلقوا له. ثم قال تعالى:
[187] ﴿ مِیْثَاقَ ﴾ اس عہد کو کہتے ہیں جو بہت موکد اور بھاری ذمہ داری کا حامل ہو۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص سے لیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی اور اسے علم سے نوازا۔ اس سے یہ عہد لیا کہ لوگ اس کے علم میں سے جس چیز کے محتاج ہوں وہ ان کے سامنے بیان کرے اور ان سے کوئی چیز نہ چھپائے اور نہ علم بیان کرنے میں بخل سے کام لے خاص طور پر جب اس سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے یا کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے جو علمی راہنمائی کا متقاضی ہو۔ پس اس صورتحال میں ہر صاحب علم پر فرض ہے کہ وہ مسئلہ کو بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کر دے اور جن لوگوں کو اللہ نے توفیق سے نوازا ہے۔ وہ اس ذمہ داری کو پوری طرح نبھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو علم ان کو عطا کیا ہے وہ اسے اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں پر شفقت کی وجہ سے اور کتمان علم کے گناہ سے ڈرتے ہوئے لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کو کتاب عطا کی گئی، یعنی یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دیگر لوگ تو انھوں نے اس عہد اور میثاق کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس میثاق کی انھوں نے پروا نہیں کی۔ پس انھوں نے حق کو چھپا لیا اور باطل کو ظاہر کیا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو حقیر سمجھتے ہوئے محرمات کے ارتکاب کی جرأت کی اور اس کتمان حق کے بدلے بہت معمولی قیمت لی۔ وہ یہ تھی کہ انھیں کتمان حق کی بنا پر سرداری حاصل ہوئی اور ان کے گھٹیا پیروکاروں کی طرف سے، جو ان کی خواہشات کی پیروی کرتے تھے اور حق پر خواہشات کو مقدم رکھتے تھے، ان کو حقیر سے مال کے نذرانے پیش ہوتے تھے۔ ﴿ فَ٘بِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ ﴾ ’’پس کیا برا ہے جو وہ خریدتے (حاصل کرتے) ہیں‘‘ کیونکہ یہ خسیس ترین معاوضہ ہے جو انھوں نے حاصل کیا ہے اور جس حق کے بیان کرنے سے انھوں نے روگردانی کی، اس حق میں ان کی ابدی سعادت، دینی اور دنیاوی مصالح موجود ہیں اور یہ حق سب سے بڑا اور جلیل ترین مطلوب و مقصود ہے۔ پس انھوں نے محض اپنی بدنصیبی اور ذلت کی بنا پر عالی مرتبہ دین کو چھوڑ کر گھٹیا طریق زندگی اختیار کر لیا، نیز اس لیے بھی کہ انھوں نے وہی چیز اختیار کر لی جس کے لیے وہ پیدا ہوئے تھے۔
#
{188} {لا تحسبن الذين يفرحون بما أتوا}؛ أي: من القبائح والباطل القولي والفعلي {ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا}؛ أي: بالخير الذي لم يفعلوه والحق الذي لم يقولوه، فجمعوا بين فعل الشر وقوله والفرح بذلك ومحبة أن يحمدوا على فعل الخير الذي ما فعلوه، {فلا تحسبنهم بمفازة من العذاب}؛ أي: بمحلِّ نجوة منه وسلامة، بل قد استحقوه وسيصيرون إليه ولهذا قال: {ولهم عذاب أليم}. ويدخل في هذه الآية الكريمة أهل الكتاب الذين فرحوا بما عندهم من العلم ولم ينقادوا للرسول، وزعموا أنهم هم المحقون في حالهم ومقالهم، وكذلك كل من ابتدع بدعة قولية أو فعلية، وفرح بها، ودعا إليها، وزعم أنه محق وغيره مبطل كما هو الواقع من أهل البدع. ودلت الآية بمفهومها على أن من أحبَّ أن يحمدَ ويُثْنَى عليه بما فعله من الخير واتِّباع الحقِّ إذا لم يكن قصده بذلك الرياء والسمعة أنه غير مذموم، بل هذا من الأمور المطلوبة التي أخبر الله أنه يجزي بها المحسنين له الأعمال والأقوال، وأنه جازى بها خواص خلقه وسألوها منه كما قال إبراهيم عليه السلام: {واجعل لي لسان صدق في الآخرين}، وقال: {سلام على نوح في العالمين إنا كذلك نجزي المحسنين}، وقد قال عباد الرحمن: {واجعلنا للمتقين إماماً}، وهي من نعم الباري على عبده ومننه التي تحتاج إلى شكر.
[188] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا ﴾ ’’آپ ان کی نسبت خیال نہ کریں جو اپنے (ناپسندیدہ) کاموں سے خوش ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ جن قبیح امور اور قولی اور فعلی باطل کا ارتکاب کرتے ہیں ﴿ وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا ﴾ یعنی اس بھلائی کی وجہ سے ان کی تعریف کی جائے جو انھوں نے کبھی نہیں کی اور اس حق کی وجہ سے ان کی تعریف کی جائے جو انھوں نے کبھی نہیں بولا۔ پس انھوں نے برائی کے قول و فعل اور اس پر اظہار فرحت کو یکجا کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ بھلائی کے اس کام پر ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جائیں جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔ فرمایا: ﴿ فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ﴾ یعنی وہ یہ نہ سمجھیں کہ انھیں عذاب سے نجات اور سلامتی حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ تو عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں عنقریب انھیں عذاب میں ڈالا جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ کی وعید میں وہ اہل کتاب شامل ہیں جو اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے پاس علم ہے درآں حالیکہ انھوں نے رسولeکی اطاعت نہ کی اور وہ اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ اپنے حال و مقال میں حق پر ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی اس وعید میں شامل ہے جو کوئی قولی یا فعلی بدعت ایجاد کرتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور پھر اس بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ اس بارے میں اپنے موقف کو حق اور دوسروں کے موقف کو باطل سمجھتا ہے جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ خواہش کرتا ہے کہ نیکی کے کام اور اتباع حق پر اس کی تعریف کی جائے جبکہ اس سے اس کا مقصد ریااور شہرت نہ ہو تو یہ مذموم نہیں۔ بلکہ اس کا شمار تو ان امور میں ہوتا ہے جو مطلوب و مقصود ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ ان نیکیوں کی بنا پر نیکوکاروں کو ان کے قول و فعل کا بدلہ دیتا ہے۔ اس نے اپنے خاص بندوں کو ان نیکیوں پر جزا سے نوازا ہے اور ان خاص بندوں نے اللہ تعالیٰ سے ان نیکیوں کا سوال کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمuنے اللہ تعالیٰ سے عرض کی ﴿ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ﴾ (الشعراء:26؍84) ’’اور پچھلے لوگوں میں میرا نیک ذکر جاری کر۔‘‘ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ سَلٰ٘مٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۰۰اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ (الصافات : 37؍79، 80) ’’تمام جہان میں نوح پر سلام ہو۔ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘ رحمٰن کے بندوں نے عرض کی ﴿وَّاجْعَلْنَا لِلْ٘مُتَّقِیْنَ اِمَامًا ﴾ (الفرقان:25؍74) ’’اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا۔‘‘ یہ اپنے بندے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا فیضان ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے شکر کی ضرورت ہے۔
آیت: 189 #
{وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (189)}.
اور اللہ ہی کے لیے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(189)
#
{189} أي: هو المالك للسماوات والأرض وما فيهما من سائر أصناف الخلق المتصرف فيهم بكمال القدرة وبديع الصنعة، فلا يمتنع عليه منهم أحد، ولا يعجزه أحد.
[189] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود تمام مخلوق کا مالک ہے اور وہی اپنی قدرت کاملہ اور انوکھی ربوبیت کے ذریعے سے ان پر تصرف کرتا ہے۔ کوئی اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں اور کوئی اسے عاجز و لاچار نہیں کر سکتا۔
آیت: 190 - 194 #
{إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (192) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (193) رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (194)}.
بے شک پیدائش میں آسمانوں اور زمین کی اور بدل بدل کر آنے جانے میں رات اور دن کے، البتہ نشانیاں ہیں واسطے اہل عقل کے (190)وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اوپر اپنے پہلوؤں کےاور غور و فکر کرتے ہیں پیدائش میں آسمانوں اور زمین کی (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! نہیں پیدا کیا تونے یہ بے فائدہ پاک ہے تو! پس بچا تو ہمیں عذاب سے آگ کے (191) اے ہمارے رب! بلاشبہ جس کو داخل کرے تو آگ میں تو یقینا رسوا کر دیا تونے اسےاور نہیں واسطے ظالموں کے کوئی مددگار(192) اے ہمارے رب! بلاشبہ ہم نے سنا ایک مُنادی کو، پکارتا ہے وہ ایمان کی طرف، یہ کہ ایمان لاؤ ساتھ اپنے رب کے! پس ایمان لائے ہم، اے ہمارے رب! پس بخش دے واسطے ہمارے، ہمارے گناہ اور دور کر دے ہم سے ہماری برائیاں اور فوت کر ہمیں ساتھ نیک لوگوں کے(193) اے ہمارے رب! اور دے ہمیں جو وعدہ کیا تونے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی اور نہ رسوا کرنا ہمیں دن قیامت کے۔ بلاشبہ تو نہیں خلاف ورزی کرتا وعدے کی(194)
#
{190} يخبر تعالى: {إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب}، وفي ضمن ذلك حث العباد على التفكر فيها والتبصر بآياتها وتدبر خلقها. وأبهم قوله: {آيات}، ولم يقل على المطلب الفلاني إشارة لكثرتها وعمومها، وذلك لأن فيها من الآيات العجيبة ما يُبِهر الناظرين ويقنع المتفكرين ويجذب أفئدة الصادقين وينبه العقول النيرة على جميع المطالب الإلهية، فأما تفصيل ما اشتملت عليه فلا يمكِّن مخلوقاً أن يحصره ويحيط ببعضه، وفي الجملة فما فيها من العظمة والسعة وانتظام السير والحركة يدل على عظمة خالقها وعظمة سلطانه وشمول قدرته، وما فيها من الإحكام والإتقان وبديع الصنع ولطائف الفعل يدل على حكمة الله ووضعه الأشياء مواضعها وسعة علمه، وما فيها من المنافع للخلق يدل على سعة رحمة الله وعموم فضله وشمول بره ووجوب شكره، وكل ذلك يدل على تعلق القلب بخالقها ومبدعها وبذل الجهد في مرضاته، وأن لا يشرك به سواه ممن لا يملك لنفسه ولا لغيره مثقال ذرة في الأرض ولا في السماء، وخص الله بالآيات أولي الألباب وهم أهل العقول لأنهم هم المنتفعون بها الناظرون إليها بعقولهم لا بأبصارهم.
[190] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّ فِیْ خَلْ٘قِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر اور اس کی مخلوق میں تدبر کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد ﴿ لَاٰیٰتٍ ﴾ کو مبہم رکھا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ فلاں معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرو۔ اور یہ آیات کے عموم اور ان کی کثرت پر اشارہ ہے۔ کیونکہ اس کائنات میں عجیب و غریب نشانیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو متحیر اور غور و فکر کرنے والوں کو عاجز کر دیتی ہیں جو اہل صدق کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور عقل روشن کو تمام مطالب الہیہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ یہ آیات جن تفصیلات پر مشتمل ہیں ان کو احاطہ شمار میں لانا مخلوق کے بس میں نہیں۔ البتہ مخلوق ان میں سے بعض چیزوں کا احاطہ کر سکتی ہے۔ مجمل طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کائنات کی عظمت، وسعت، اور اس کی حرکت و رفتار کا ایک نظم کے تحت ہونا، اس کے خالق کی عظمت پر دلالت کرتا ہے نیز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا تسلط و غلبہ اور اس کی قدرت سب کو شامل ہے۔ اس کائنات کا محکم اور مضبوط انداز، اس میں نت نئی تخلیقات اور انوکھے افعال اللہ تعالی کی حکمت اور اس کے علم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں نیز اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھا ہے۔ اس کائنات میں مخلوق کے لیے جو فوائد ہیں وہ اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع، اس کا فضل عام، اس کا احسان سب کو شامل اور اس کا شکر واجب ہے۔ یہ تمام امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قلب کے اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے پوری کوشش ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ کسی ایسی ہستی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے جو خود اپنی ذات اور زمین و آسمان میں ذرہ بھر کی بھی مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ساتھ صرف عقل مندوں کو مخصوص کیا ہے کیونکہ یہی لوگ ان آیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عقل مند لوگ ہی اپنی آنکھوں کی بجائے اپنی عقل کے ذریعے سے غور و فکر کرتے ہیں۔
#
{191} ثم وصف أولي الألباب بأنهم: {يذكرون الله} في جميع أحوالهم {قياماً وقعوداً وعلى جنوبهم}، وهذا يشمل جميع أنواع الذكر بالقول والقلب، ويدخل في ذلك الصلاة قائماً، فإن لم يستطع فقاعداً، فإن لم يستطع فعلى جنب، وأنهم: {يتفكرون في خلق السموات والأرض}؛ أي: ليستدلوا بها على المقصود منها، ودل هذا على أن التفكر عبادة من صفات أولياء الله العارفين، فإذا تفكروا بها عرفوا أن الله لم يخلقها عبثاً فيقولون: {ربنا ما خلقت هذا باطلاً سبحانك} عن كل ما لا يليق بجلالك بالحق وللحق بل خلقتها مشتملة على الحق {فقنا عذاب النار}، بأن تعصمنا من السيئات وتوفقنا للأعمال الصالحات لننال بذلك النجاة من النار. ويتضمن ذلك سؤال الجنة لأنهم إذا وقاهم الله عذاب النار حصلت لهم الجنة، ولكن لما قام الخوف بقلوبهم، دعوا الله بأهم الأمور عندهم:
[191] پھر اللہ تعالیٰ نے ان عقل مندوں لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ ﴾ وہ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں ﴿قِیٰمًا وَّقُ٘عُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ ﴾ یہ قلبی و قولی ذکر اور ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے اور اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ نیز ﴿ وَیَتَفَؔكَّـرُوْنَ فِیْ خَلْ٘قِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غوروفکر کرتے یعنی ان سے ان کی تخلیق کے مقصد پر استدلال کرتے ہیں۔ نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات میں غور و فکر کرنا عبادت ہے اور عارفین اولیاء اللہ کی صفت ہے۔ جب وہ اس کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں تو انھیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عبث پیدا نہیں کیا، پس وہ پکار اٹھتے ہیں ﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰؔذَا بَ٘اطِلًا١ۚ سُبْحٰؔنَكَ ﴾ تیری ذات ہر اس وصف سے پاک ہے جو تیرے جلال کے لائق نہیں، تو نے اسے حق کے ساتھ حق کے لیے بلکہ حق پر مشتمل پیدا کیا ہے۔ ﴿ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ ’’پس تو ہمیں جہنم سے بچا‘‘ بایں طور کہ ہمیں برائیوں سے بچا اور نیک اعمال کی توفیق عطا کر، تاکہ اس کے ذریعے سے ہم جہنم کی آگ سے نجات حاصل کر سکیں۔ یہ دعا جنت کے سوال کو بھی متضمن ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ انھیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا تو انھیں جنت حاصل ہو جائے گی۔ مگر جب ان کے دلوں پر خوف چھا گیا تو انھوں نے ان امور کی دعا مانگی جو ان کے لیے زیادہ اہم تھے۔
#
{192} {ربنا إنك من تدخل النار فقد أخزيته}؛ أي: لحصوله على السخط من الله ومن ملائكته وأوليائه ووقوع الفضيحة التي لا نجاة منها ولا منقذ منها، ولهذا قال: {وما للظالمين من أنصار} ينقذونهم من عذابه، وفيه دلالة على أنهم دخلوها بظلمهم.
[192] ﴿ رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ ﴾ ’’اے ہمارے رب! جس کو تو نے دوزخ میں ڈال دیا، تو اس کو تو نے رسوا کر دیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور اس کے اولیاء کو ناراض کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو رسوا کیا اور اسے فضیحت میں مبتلا کر دیا۔ جس سے نجات کی کوئی راہ ہے نہ اس سے کوئی بچانے والا ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ﴾ ’’ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا‘‘ جو انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے ظلم کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے ہیں۔
#
{193} {ربنا إننا سمعنا منادياً ينادي للإيمان} وهو محمد - صلى الله عليه وسلم -؛ [أي]: يدعو الناس إليه ويرغبهم فيه في أصوله وفروعه {فآمنا}؛ أي: أجبناه مبادرة وسارعنا إليه. وفي هذا إخبار منهم بمنة الله عليهم وتبجح بنعمته وتوسل إليه بذلك أن يغفر ذنوبهم ويكفر سيئاتهم لأن الحسنات يذهبن السيئات. والذي مَنَّ عليهم بالإيمان سيمنُّ عليهم بالأمان التام، {وتوفنا مع الأبرار}، يتضمن هذا الدعاء التوفيق لفعل الخير وترك الشر الذي به يكون العبد من الأبرار والاستمرار عليه والثبات إلى الممات.
[193] اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقل فرمایا: ﴿ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیً٘ا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان لانے کی ندا دیتا ہے‘‘ ایمان کی منادی دینے والے محمد رسول اللہeہیں جو لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے اصول و فروع میں ان کو ترغیب دیتے ہیں ﴿فَاٰمَنَّا ﴾ پس ہم نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس آیت کریمہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کے احسان، اس کی نعمت پر اظہار فخر اور اس ایمان کو اپنے گناہوں کی بخشش اور برائیوں کو مٹانے کے لیے وسیلہ بنانے کی خبر ہے کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے انھیں ایمان سے نوازا ہے وہی انھیں کامل امان سے نوازے گی۔ ﴿ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ﴾ ’’اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے‘‘ یہ دعا اس بات کو متضمن ہے کہ نیکی کرنا اور برائی کو ترک کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے جس کی بنا پر بندہ ابرار میں شمار ہوتا ہے اور اس توفیق کی بنا پر نیکی کرنے اور برائی چھوڑنے پر اپنی موت تک ہمیشہ ثابت قدم رہتا ہے۔
#
{194} ولما ذكروا توفيق الله إياهم للإيمان وتوسلهم به إلى تمام النعمة، سألوه الثواب على ذلك، وأن ينجز لهم ما وعدهم به على ألسنة رسله من النصر والظهور في الدنيا، ومن الفوز برضوان الله وجنته في الآخرة، فإنه تعالى لا يخلف الميعاد، فأجاب الله دعاءهم وقبل تضرعهم فلهذا قال:
[194] جب انھوں نے ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تکمیل نعمت کے لیے اس ایمان کو وسیلہ بنانے کا ذکر کیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس پر اجر و ثواب کا سوال کیا اور دعا کی کہ وہ اپنی فتح و نصرت، دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت اور اپنی رضا کا وہ وعدہ پورا کر دے جو اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی زبانی کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا اور تضرع و زاری کو قبول فرما لیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
آیت: 195 #
{فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (195)}.
پس قبول کی (دعا) ان کی ان کے رب نے، یہ کہ نہیں ضائع کروں گا میں عمل کسی کرنے والے کا تم میں سے مرد ہو یا عورت، بعض تمھارا بعض سے ہے، ( یعنی تم ایک ہی ہو) پس وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور نکال دیے گئے وہ اپنے گھروں سے اور تکلیف دیے گئے میرے راستے میں اور لڑے وہ اور قتل کر دیے گئے وہ تو دور کر دوں گا ان سے ان کی برائیاں اور یقینا داخل کروں گا میں ان کو ایسے باغوں میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، بطور ثواب کے اللہ کی طرف سے اور اللہ، اسی کے پاس ہے اچھا ثواب(195)
#
{195} أي: أجاب الله دعاءهم دعاء العبادة ودعاء الطلب وقال: {إني لا أُضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى} فالجميع سيلقون ثواب أعمالهم كاملاً موفراً، أي: كلكم على حد سواء في الثواب والعقاب، {فالذين هاجروا وأُخرجوا من ديارهم وأُوذوا في سبيلي وقاتلوا وقتلوا} فجمعوا بين الإيمان والهجرة ومفارقة المحبوبات من الأوطان والأموال طلباً لمرضاة ربهم وجاهدوا في سبيل الله {لأكفرنَّ عنهم سيئاتهم ولأدخلنهم جنات تجري من تحتها الأنهار ثواباً من عند الله} الذي يعطي عبده الثواب الجزيل على العمل القليل، {والله عنده حسن الثواب}، مما لا عين رأت ولا أُذن سمعت ولا خطر على قلب بشر، فمن أراد ذلك فليطلبه من الله بطاعته والتقرب إليه بما يقدر عليه العبد.
[195] اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائے عبادت اور دعائے طلب، (دونوں دعائیں) قبول فرما لیں اور فرمایا: ﴿ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى﴾ ’’میں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، وہ مرد ہو یا عورت‘‘ پس تمام لوگ اپنے اعمال کا پورا پورا اور وافر اجر پائیں گے۔۔۔ تم میں سے تمام لوگ (خواہ مرد ہوں یا عورت) ثواب اور عقاب میں مساوی ہیں۔ ﴿ فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُ٘تِلُوْا ﴾ ’’وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیے گئے اور جنھیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنھوں نے جہاد کیا اور شہید کر دیے گئے‘‘ پس انھوں نے ایمان، ہجرت اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنے وطن اور مال و متاع جیسی محبوب چیزوں سے مفارقت کو جمع کر دیا نیز انھوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ ﴿ لَاُكَفِّ٘رَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَلَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ١ۚ ثَـوَابً٘ا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’میں بالضرور ان کی برائیاں ان سے دور کروں گا اور بالضرور انھیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، بدلہ اللہ کی طرف سے‘‘ جو اپنے بندے کو اس کے بہت تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب عطا کرتا ہے ﴿ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴾ ’’اور اللہ کے پاس ہی بہترین اجر و ثواب ہے‘‘ ایسا ثواب جو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ پس جو کوئی اس ثواب کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے وہ حسب استطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس کے تقرب کے ذریعے سے اس سے یہ ثواب طلب کرے۔
آیت: 196 - 198 #
{لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ (196) مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (197) لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِلْأَبْرَارِ (198)}.
نہ دھوکے میں ڈالے آپ کو چلنا پھرنا ان لوگوں کا، جنھوں نے کفر کیا، شہروں میں(196) (یہ) فائدہ ہے تھوڑا سا، پھر ٹھکانا ان کا جہنم ہے اور برا بچھونا ہے (وہ) (197) لیکن وہ لوگ جو ڈر گئے اپنے رب سے، ان کے لیے باغ ہیں چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں، بطور مہمان نوازی کے اللہ کے پاس سےاور جو پاس ہے اللہ کے وہ بہتر ہے واسطے نیک لوگوں کے(198)
#
{196} وهذه الآية المقصود منها التسلية عما يحصل للذين كفروا من متاع الدنيا وتنعمهم فيها، وتقلبهم في البلاد بأنواع التجارات والمكاسب واللذات وأنواع العز والغلبة في بعض الأوقات، فإن هذا كله:
[196] اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو اس بارے میں تسلی دینا مقصود ہے کہ کفار کو جو دنیا کی نعمتیں، دنیا کی متاع، شہروں پر ان کا تصرف، مختلف قسم کی تجارتیں، مکاسب، انواع و اقسام کی لذات، اقتدار کی مختلف صورتیں اور بعض اوقات اہل ایمان پر ان کا غلبہ یہ تمام چیزیں:
#
{197} {متاع قليل} ليس له ثبوت ولا بقاء، بل يتمتعون به قليلاً ويعذبون عليه طويلاً، هذه أعلى حالة تكون للكافر، وقد رأيت ما تؤول إليه.
[197] ﴿ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ﴾ ’’بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے‘‘ بے ثبات ہیں باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ اس متاع قلیل سے بہت تھوڑا فائدہ اٹھائیں گے اور اس کی وجہ سے بہت ہی طویل عذاب بھگتیں گے۔ یہ کافر کی بلند ترین حالت ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ اس کا ٹھکانا کیا ہو گا۔
#
{198} وأما المتقون لربهم المؤمنون به فمع ما يحصل لهم من عز الدنيا ونعيمها {لهم جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها}؛ فلو قدر أنهم في دار الدنيا قد حصل لهم كلُّ بؤسٍ وشدَّةٍ وعَناءٍ ومشقةٍ، لكان هذا بالنسبة إلى النعيم المقيم والعيش السليم والسرور والحبور والبهجة نزراً يسيراً ومنحة في صورة محنة، ولهذا قال تعالى: {وما عند الله خير للأبرار} وهم الذين برّت قلوبهم فبرّت أقوالهم وأفعالهم فأثابهم البَرُّ الرحيم من بِرِّه أجراً عظيماً وعطاءً جسيماً وفوزاً دائماً.
[198] اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں انھیں دنیا کی عزت اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کے ساتھ ساتھ ﴿ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اگر یہ مقدر کر لیا جائے کہ انھیں دنیا میں ہر قسم کی تکلیف، شدت، عناد اور مشقت کا سامنا کرنا پڑا تو یہ جنت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، کدورتوں سے سلامت زندگی، بے پایاں مسرت، خوشی اور تروتازگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ تو محنت کی صورت میں نوازش ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ﴾ ’’اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ابرار کے لیے بہتر ہے‘‘ اور (ابرار) وہ لوگ ہیں جن کے دل پاک اور اطاعت گزار ہوں اور ان کے اقوال و افعال بھی نیک ہوں۔ پس بھلائی کرنے والا اللہ مہربان اپنی عنایت سے انھیں اجر عظیم، بہت بڑی عطا و بخشش اور دائمی فوز و فلاح عطا کرے گا۔
آیت: 199 - 200 #
{وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (199) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (200)}.
اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے، البتہ وہ (بھی) ہے جو ایمان لاتا ہے ساتھ اللہ کے اور جو نازل کیا گیا تمھاری طرف اور جو نازل کیا گیا ان کی طرف، جھکنے والے ہیں وہ واسطے اللہ کے، نہیں خریدتے (لیتے) وہ ساتھ اللہ کی آیتوں کے مول تھوڑا، یہ لوگ، ان کے لیے اجر ہے ان کا، نزدیک ان کے رب کے، بلاشبہ اللہ جلد لینے والا ہے حساب(199) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور ڈٹے رہو اور کمر بستہ رہواور ڈرو اللہ سےتاکہ تم فلاح پاؤ(200)
#
{199} أي: {وإن من أهل الكتاب} طائفة موفقة للخير يؤمنون بالله ويؤمنون بما {أُنزل إليكم وما أُنزل إليهم}، وهذا الإيمان النافع لا كمن يؤمن ببعض الرسل والكتب ويكفر ببعض، ولهذا لما كان إيمانهم عامًّا حقيقيًّا صار نافعاً فأحدث لهم خشية الله وخضوعهم لجلاله الموجب للانقياد لأوامره ونواهيه والوقوف عند حدوده وهؤلاء أهل الكتاب والعلم على الحقيقة، كما قال تعالى: {إنما يخشى اللهَ من عباده العلماءُ}، ومن تمام خشيتهم لله أنهم {لا يشترون بآيات الله ثمناً قليلاً}، فلا يقدمون الدنيا على الدين كما فعل أهل الانحراف الذين يكتمون ما أنزل الله ويشترون به ثمناً قليلاً، وأما هؤلاء فعرفوا الأمر على الحقيقة وعلموا أن من أعظم الخسران الرضا بالدون عن الدين، والوقوف مع بعض حظوظ النفس السفلية وترك الحق الذي هو أكبر حظ وفوز في الدنيا والآخرة، فآثروا الحق وبينوه ودعوا إليه، وحذروا عن الباطل، فأثابهم الله على ذلك بأن وعدهم الأجر الجزيل والثواب الجميل، وأخبرهم بقربه وأنه {سريع الحساب} فلا يستبطئون ما وعدهم الله، لأن ما هو آت محقق حصوله فهو قريب.
[199] یعنی اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں بھلائی کی توفیق عطا کی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل کی گئی اور اس پر بھی جو ان کی طرف نازل کی گئی اور یہی وہ ایمان ہے جو نفع پہنچاتا ہے اور اس شخص کے ایمان کی مانند نہیں، جو بعض رسولوں اور کتابوں پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے۔ بنا بریں، چونکہ ان کا ایمان عام اور حقیقت پر مبنی ہے اس لیے یہ نفع پہنچانے والا ہے، یہ ایمان ان کے دلوں میں خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے سامنے خشوع و خضوع پیدا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے اور اس کی مقرر کردہ حدود پر رک جانے کا موجب ہے۔ یہی لوگ درحقیقت اہل کتاب اور اہل علم ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْ٘عُلَمٰٓؤُا ﴾ (فاطر : 35؍28) ’’اللہ تعالیٰ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ اور کامل خشیت الٰہی یہ ہے کہ ﴿ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’وہ اللہ کی آیات کو معمولی قیمت پر نہیں بیچتے، پس دین پر دنیا کو ترجیح نہیں دیتے، جیسا کہ اہل انحراف کا وتیرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے بہت معمولی قیمت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ اہل کتاب، تو انھوں نے معاملے کی حقیقت کو پہچان لیا ہے اور انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ دین سے کم تر چیز پر راضی ہونا، نفس کے بعض سفلی حظوظ کے ساتھ ٹھہرنا اور حق کو ترک کرنا جو دنیا و آخرت میں سب سے بڑا حظ اور فوز و فلاح کا ضامن ہے… سب سے بڑا خسارہ ہے، اس لیے وہ حق کو مقدم رکھتے ہیں، اس کو بیان کرتے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں اور باطل سے ڈراتے اور بچاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ بدلہ دیا ہے کہ اس نے ان کے لیے اجر عظیم اور ثواب جمیل کا وعدہ کیا ہے اور اپنے قرب کی خبر دی ہے نیز آگاہ فرمایا ہے کہ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے جو وعدہ کیا ہے اس میں دیر نہ سمجھیں یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے اور اس کا حصول متحقق ہو چکا ہے۔ پس یہ وعدہ بہت قریب ہے۔
#
{200} ثم حض المؤمنين على ما يوصلهم إلى الفلاح، وهو الفوز بالسعادة والنجاح، وأن الطريق الموصل إلى ذلك لزوم الصبر: الذي هو حبس النفس على ما تكرهه من ترك المعاصي ومن الصبر على المصائب وعلى الأوامر الثقيلة على النفوس، فأمرهم بالصبر على جميع ذلك. والمصابرة: هي الملازمة والاستمرار على ذلك على الدوام، ومقاومة الأعداء في جميع الأحوال. والمرابطة: وهو لزوم المحل الذي يُخاف من وصول العدو منه وأن يراقبوا أعداءهم ويمنعوهم من الوصول إلى مقاصدهم، لعلهم يفلحون: يفوزون بالمحبوب الديني والدنيوي والأخروي وينجون من المكروه كذلك. فعلم من هذا أنه لا سبيل إلى الفلاح بدون الصبر والمصابرة والمرابطة المذكورات، فلم يفلح مَنْ أفلح إلا بها ولم يفت أحداً الفلاحُ إلا بالإخلال بها أو ببعضها.
[200] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس چیز کی ترغیب دی ہے جو انھیں فوز و فلاح کی منزل پر پہنچاتی ہے۔ اور وہ ہے سعادت اور کامیابی۔ اس سعادت تک پہنچانے والا راستہ صبر کا التزام ہے اور صبر کیا ہے؟ نفس انسانی کو ایسی چیز پر روکے رکھنا جو اس کو ناپسند ہو، جیسے گناہ کا چھوڑ دینا، مصائب پر صبر کرنا اور نفوس کو ان پر گراں گزرنے والے اوامر پر روکے رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام امور پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مصابرہ) صبر کے دائمی اور مسلسل التزام اور تمام احوال میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا نام ہے۔ ﴿ وَرَابِطُوْا ﴾(مرابطۃ) سے مراد اس مقام پر جمے رہنا جہاں سے دشمن کے آنے کا خطرہ ہو۔ نیز یہ کہ اہل ایمان دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور ان کو اپنا مقصد حاصل نہ کرنے دیں۔۔۔۔ شاید وہ فلاح پا لیں یعنی دینی، دنیاوی اور اخروی محبوب کے حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں اور اسی طرح ناپسندیدہ چیزوں سے نجات پا لیں۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صرف صبر، صبر پر دوام اور دشمن سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہی فلاح کا راستہ ہے۔ جس کسی نے فلاح پائی تو اسی راستہ پر چل کر فلاح پائی اور جو کوئی اس فلاح سے محروم ہوا تو ان تمام امور کو یا ان میں سے بعض کو ترک کر کے محروم ہوا۔
واللہ الموفق ولا حول ولا قوۃ إلا بہ