آیت:
تفسیرسورۂ ص
تفسیرسورۂ ص
آیت: 1 - 11 #
{ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ (1) بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ (2) كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ (3) وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (4) أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (5) وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ (6) مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ (7) أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْ ذِكْرِي بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ (8) أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ (9) أَمْ لَهُمْ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ (10) جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ (11)}.
صٓ، قسم ہے قرآن نصیحت والے کی(1)بلکہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، وہ تکبر اور مخالفت میں(پڑے ہوئے) ہیں (2) کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے ان سے پہلے قومیں، پس پکارا انھوں نے (مدد کے لیے)اور نہ رہا تھا وہ وقت خلاصی کا(3) اور تعجب کیا انھوں نے اس بات پر کہ آیا ان کے پاس ایک ڈرانے والا انھی میں سے، اور کہا کافروں نے: یہ تو ایک جادو گر ہے بڑا جھوٹا(4) کیا کر دیا اس نے (متعدد) معبودوں کو ایک معبود ؟ بے شک یہ تو البتہ ایک چیز ہے بڑی عجیب(5) اورچلے سردار ان کے(یہ کہتے ہوئے) کہ چلو اور جمے رہو اوپر اپنے معبودوں کے، بے شک یہ تو البتہ کوئی چیز (غرض) ہے کہ (اس کا) ارادہ کیا جاتا ہے(6) نہیں سنی ہم نے یہ بات پچھلے دین میں، نہیں ہے یہ مگر گھڑی ہوئی بات(7) کیا نازل کی گئی ہے اوپر اسی کے نصیحت ہمارے درمیان میں سے؟ بلکہ وہ تو شک میں ہیں میری نصیحت سے، بلکہ (ابھی تک) نہیں چکھا انھوں نے میرا عذاب(8) کیا ان کے پاس خزانے ہیں آپ کے رب کی رحمت کے، جو بڑا غالب بہت دینے والا ہے؟(9) یا ان کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے؟ تو چاہیے کہ چڑھ جائیں وہ (آسمان پر) رسیوں کے ذریعے سے (10) (یہ)ایک لشکر ہے جو وہاں شکست خوردہ ہو گا، لشکروں میں سے (11)
#
{1} هذا بيانٌ من الله تعالى لحال القرآن وحال المكذِّبين به معه ومع من جاء به، فقال: {ص والقرآنِ ذي الذِّكْرِ}؛ أي: ذي القَدْر العظيم والشرف، المذكِّر للعباد كلَّ ما يحتاجون إليه من العلم بأسماء الله وصفاته وأفعاله، ومن العلم بأحكام الله الشرعية، ومن العلم بأحكام المعاد والجزاء؛ فهو مذكِّرٌ لهم في أصول دينهم وفروعه. وهنا لا يُحتاجُ إلى ذِكْرِ المقسَم عليه؛ فإنَّ حقيقة الأمر أنَّ المقسم به وعليه شيءٌ واحدٌ، وهو هذا القرآن الموصوف بهذا الوصف الجليل.
[1] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے حال اور قرآن کو جھٹلانے والوں کے حال کا بیان ہے جو انھوں نے قرآن اور قرآن لانے والے کیساتھ روا رکھا۔ فرمایا: ﴿صٓ وَالْ٘قُ٘رْاٰنِ ذِی الذِّكْرِ﴾ ’’ص، قسم ہے قرآن کی جو سراسر نصیحت ہے۔‘‘ یعنی جو قدر عظیم اور شرف کا حامل ہے جو بندوں کو ہر اس چیز کی یاد دہانی کراتا ہے جس کے وہ محتاج ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعیہ کا علم اور معاد اور جزا وسزا کا علم۔ قرآن انھیں ان کے دین کے اصول و فروع کا علم عطا کرتا ہے۔ جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے یہاں اس کو ذکر کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کی قسم کھائی گئی ہے اور جس پر قسم کھائی گئی ہے دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں اور وہ ہے قرآن، جو اس وصف جلیل سے موصوف ہے۔
#
{2} فإذا كان القرآن بهذا الوصف؛ عُلِمَ ضرورةُ العبادِ إليه فوق كلِّ ضرورةٍ، وكان الواجبُ عليهم تلقِّيه بالإيمان والتَّصديق والإقبال على استخراج ما يُتَذَكَّرُ به منه، فهدى الله مَنْ هدى لهذا، وأبى الكافرون به وبمن أنزلَه، وصار معهم عِزَّةٌ وشقاقٌ، عزَّةٌ وامتناعٌ عن الإيمان به، واستكبارٌ وشقاقٌ له؛ أي: مشاقَّة ومخاصمة في ردِّه وإبطاله وفي القَدْح بمن جاء به.
[2] جب قرآن اس وصف سے موصوف ہے تو معلوم ہوا کہ بندوں کے لیے اس کی ضرورت ہر ضرورت سے بڑھ کر ہے اور بندوں پر فرض ہے کہ وہ ایمان اور تصدیق کے ساتھ اس کو قبول کریں۔ اس سے ان امور کا استنباط کریں جن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو ہدایت سے نوازا، اس کو اس کی طرف راہ دکھادی۔ کفار نے قرآن اور اس ہستی کا انکار کر دیا جس کے ہاں قرآن نازل کیا گیا۔ اسے ان کی طرف سے ﴿عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ ﴾ ’’غرور، مخالفت‘‘ تکبر، عدم ایمان اور ضد کا سامنا کرنا پڑا، یعنی انھوں نے اس کو رد کرنے، اس کا ابطال کرنے اور اس کو لانے والے میں جرح و قدح کرنے کے لیے اس کی مخالفت اور مخاصمت پر کمر باندھ رکھی ہے۔
#
{3} فتوعَّدهم بإهلاك القرون الماضية المكذِّبة بالرسل، وأنَّهم حين جاءهم الهلاكُ؛ نادَوْا واستغاثوا في صرف العذاب عنهم، ولكنْ {لاتَ حينَ مناص}؛ أي: وليس الوقت وقتَ خلاصٍ مما وقعوا فيه ولا فرج لما أصابهم، فليحذَرْ هؤلاء أن يَدوموا على عزَّتِهِم وشقاقِهِم؛ فيصيبُهم ما أصابهم.
[3] اللہ تعالیٰ نے ان کو گزشتہ قوموں کی مانند ہلاک کرنے کی وعید سنائی ہے جنھوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی، جب ان کی ہلاکت کا وقت آن پہنچا تو چیخ و پکار کرنے اور عذاب کو ٹالنے کی التجائیں کرنے لگے لیکن ﴿لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ ﴾ ’’وہ رہائی کا وقت نہیں تھا۔‘‘ یعنی یہ وقت اس عذاب سے گلو خلاصی اور اس کو دور کرنے کا وقت نہیں ہے۔ پس ان لوگوں کو اپنے تکبر اور ضد پر جمے رہنے سے بچنا چاہیے، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہو گا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔
#
{4} {وعَجِبوا أن جاءهم منذرٌ منهم}؛ أي: عجب هؤلاء المكذِّبون في أمرٍ ليس محلَّ عجبٍ أن جاءهم منذرٌ منهم ليتمكَّنوا من التلقِّي عنه وليعرفوه حقَّ المعرفة، ولأنَّه من قومهم؛ فلا تأخُذُهم النَّخوة القوميَّة عن اتِّباعِهِ؛ فهذا مما يوجبُ الشكر عليهم وتمامَ الانقيادِ له، ولكنَّهم عكسوا القضيَّة، فتعجَّبوا تعجُّب إنكار، وقالوا من كفرهم وظلمهم: {هذا ساحرٌ كذابٌ}!
[4] ﴿وَعَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌؔ مِّؔنْهُمْ ﴾ یعنی ان جھٹلانے والوں کو ایسے معاملے پر تعجب ہے، جو مقام تعجب نہیں، کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا تاکہ وہ اس سے علم حاصل کر سکیں اور اسے پہچان لیں جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے اور چونکہ وہ ڈرانے والا انھی کی قوم میں سے ہے، اس لیے اس کی اتباع کرنے میں ان کی قومی نخوت آڑے نہیں آئے گی۔ یہ تو ایسی چیز ہے جس پر شکر کرنا اور اس ڈرانے والی ہستی کی اتباع کرنا فرض تھا۔ مگر ان کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ انھوں نے انکار کرنے والے تعجب کا اظہار کیا اور اپنے کفر و ظلم کی بنا پر کہا: ﴿هٰؔذَا سٰؔحِرٌؔ كَذَّابٌ﴾ ’’یہ جادوگر اور نہایت جھوٹا شخص ہے۔‘‘
#
{5} وذنبُهُ عندَهم أنَّه {جعل الآلهة إلهاً واحداً}؛ أي: كيف ينهى عن اتِّخاذ الشركاء والأنداد ويأمُرُ بإخلاص العبادة لله وحده؟! {إنَّ هذا}: الذي جاء به {لشيءٌ عُجابٌ}؛ أي: يقضى منه العجب لبطلانِهِ وفسادِهِ عندهم.
[5] ان کے نزدیک اس کا گناہ صرف یہ ہے کہ بلاشبہ ﴿اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ﴾ ’’اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔‘‘ یعنی یہ شخص اللہ تعالیٰ کے شریک اور ہمسر بنانے سے کیونکر روکتا ہے اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا حکم دیتا ہے۔ ﴿اِنَّ هٰؔذَا ﴾ ’’یقینا یہ‘‘ جسے وہ لے کر آیا ہے ﴿لَشَیْءٌ عُجَابٌ ﴾ ’’ البتہ بڑی عجیب چیز ہے۔‘‘ یعنی ان کے نزدیک یہ چیز اپنے بطلان اور فساد کی بنا پر تعجب کا تقاضا کرتی ہے۔
#
{6} {وانطَلَقَ الملأ منهم}: المقبولُ قولُهم، محرِّضينَ قومَهم على التمسُّك بما هم عليه من الشرك. {أنِ امْشوا واصبِروا على آلِهَتِكُم}؛ أي: استمرَّوا عليها وجاهدوا نفوسَكم في الصبر عليها وعلى عبادتها، ولا يردُّكم عنها رادٌّ، ولا يصدَّنَّكم عن عبادتها صادٌّ. {إنَّ هذا}: الذي جاء به محمدٌ من النهي عن عبادتها {لشيءٌ يُرادُ}؛ أي: يُقْصَدُ؛ أي: له قصدٌ ونيةٌ غير صالحة في ذلك، وهذه شبهةٌ لا تَروج إلاَّ على السُّفهاء؛ فإنَّ مَنْ دعا إلى قول حقٍّ أو غير حقٍّ لا يُرَدُّ قولُه بالقدح في نيَّتِهِ؛ فنيَّتُهُ وعملُه له، وإنَّما يُرَدُّ بمقابلتِهِ بما يُبْطِلُهُ ويفسِدُهُ من الحُجج والبراهين، وهم قصدُهم أنَّ محمداً ما دعاكم إلى ما دعاكم إلاَّ ليرأس فيكم ويكونَ معظَّماً عندكم متبوعاً.
[6] ﴿وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ ﴾ یعنی اشراف قوم، جن کی بات مانی جاتی تھی، اپنی قوم کو شرک پر جمے رہنے پر آمادہ کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے نکلے ﴿اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰۤى اٰلِهَتِكُمْ ﴾ یعنی اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہنے کی کوشش کرو، کوئی تمھیں ان کی عبادت سے روک نہ دے ﴿اِنَّ هٰؔذَا ﴾ یہ جو محمد e، بتوں کی عبادت سے روکتے ہیں ﴿لَشَیْءٌ یُّرَادُ ﴾ ’’یہ وہ چیز ہے جو مقصود ہے۔‘‘ یعنی اس بارے میں اس کا مقصد اور نیت درست نہیں۔ یہ شبہ احمقوں کے ذہن ہی میں جگہ پاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی حق یا باطل چیز کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کی نیت میں جرح و قدح کرتے ہوئے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا اس کی نیت اور اس کا عمل اسی کے لیے ہے اس کی دعوت کو صرف ان دلائل و براہین کے ذریعے سے رد کیا جا سکتا ہے جو اس کا فساد واضح کر کے اس کا ابطال کر سکیں اور ان کا مقصد تو صرف یہ بتانا تھا کہ محمد e صرف اس لیے دعوت دیتے ہیں کہ وہ تمھارے سردار، تمھارے بڑے اور تمارے قائد بن جائیں۔
#
{7} {ما سمعنا بهذا}: القول الذي قاله والدين الذي دعا إليه {في الملَّةِ الآخرةِ}؛ أي: في الوقت الأخير، فلا أدْرَكْنا عليه آباءنا، ولا آباؤنا أدركوا آباءهم عليه؛ فامضوا على الذي مضى عليه آباؤكم؛ فإنَّه الحقُّ، وما هذا الذي دعا إليه محمدٌ إلاَّ اختلاقٌ اخْتَلَقَهُ وكذبٌ افتراه. وهذه أيضاً شبهةٌ من جنس شبهتهم الأولى؛ حيث ردُّوا الحقَّ بما ليس بحجَّة لردِّ أدنى قول، وهو أنَّه قولٌ مخالف لما عليه آباؤهم الضالُّون؛ فأين في هذا ما يدلُّ على بطلانه؟!
[7] ﴿مَا سَمِعْنَا بِهٰؔذَا ﴾ یہ بات جو محمد e کہتے ہیں اور وہ دین، جس کی طرف یہ دعوت دیتے ہیں، اس کے بارے میں ہم نے نہیں سنا ﴿فِی الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’پچھلے مذہب میں۔‘‘ یعنی قریب کے زمانے کی کسی ملت کے بارے میں سنا ہے نہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے پایا ہے اور نہ انھوں نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ پس اسی راستے پر چلتے رہو جس پر تمھارے آباء و اجداد چلتے رہے ہیں۔ وہی حق ہے اور جس کی طرف محمد e دعوت دیتے ہیں وہ جھوٹ اور افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی اسی قسم کا شبہ ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے کیونکہ انھوں نے ایک ایسی چیز کی بنا پر حق کو ٹھکرا دیا جو ایک نہایت ادنیٰ سی بات کو ٹھکرانے کے لیے بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی، یعنی محمد مصطفیٰ e کی دعوت، ان کے گمراہ آباء و اجداد کے قول کی مخالف ہے۔ ان کے آباء واجداد کے قول میں کون سی ایسی دلیل ہے جو رسول اللہ e کی دعوت کے بطلان پر دلالت کرتی ہو۔
#
{8} {أأُنزِلَ عليه الذِّكْرُ من بيننا}؛ أي: ما الذي فضَّله علينا حتى ينزل الذِّكْر عليه من دوننا ويخصَّه الله به؟! وهذه أيضاً شبهةٌ، أين البرهانُ فيها على ردِّ ما قاله؟ وهل جميع الرسل إلاَّ بهذا الوصف؟! يمنُّ الله عليهم برسالته ويأمُرُهم بدعوة الخلق إلى الله. ولهذا؛ لما كانت هذه الأقوالُ الصادرةُ منهم لا يَصْلُحُ شيءٌ منها لردِّ ما جاء به الرسول؛ أخبر تعالى من أين صَدَرَتْ، وأنَّهم {في شكٍّ من ذِكْري}: ليس عندَهم علمٌ ولا بيِّنةٌ، فلما وقعوا في الشكِّ وارتَضَوا به وجاءهم الحقُّ الواضحُ وكانوا جازمين بإقامتهم على شكِّهم؛ قالوا ما قالوا من تلك الأقوال لدفع الحقِّ، لا عن بيِّنة من أمرهم، وإنَّما ذلك من باب الائتفاكِ منهم. ومن المعلوم أنَّ مَنْ هو بهذه الصفة يتكلَّم عن شكٍّ وعنادٍ؛ فإنَّ قولَه غيرُ مقبول ولا قادح أدنى قدحٍ في الحقِّ، وأنَّه يتوجَّه عليه الذمُّ واللوم بمجرَّد كلامه، ولهذا توعَّدهم بالعذاب، فقال: {بل لَمَّا يَذوقوا عذابِ}؛ أي: قالوا هذه الأقوالَ وتجرَّؤوا عليها؛ حيث كانوا ممتَّعين في الدُّنيا، لم يصبْهم من عذاب الله شيءٌ؛ فلو ذاقوا عذابَه؛ لم يتجرَّؤوا.
[8] ﴿ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَا ﴾ ’’کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (کتاب) اتری ہے؟‘‘ یعنی اسے ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے کہ ہمیں چھوڑ کر، اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے وحی کے لیے مختص کرتا ہے؟ یہ بھی باطل شبہ ہے، اس میں رسول اللہ e کی دعوت کو رد کرنے کے لیے کون سی دلیل ہے؟ یا کیا تمام انبیاء و رسل کے یہی اوصاف نہ تھے کہ اللہ انھیں رسالت سے سرفراز فرماتا اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا حکم دیتا تھا۔ چونکہ ان سے صادر ہونے والے یہ تمام اقوال، کسی لحاظ سے بھی رسول (e)کی لائی ہوئی دعوت کو رد کرنے کے لیے درست نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ اقوال کہاں سے صادر ہوئے ہیں اور بے شک وہ ﴿فِیْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِیْ ﴾ ’’میری نصیحت (کتاب) کے بارے شک میں ہیں۔‘‘ ان کے پاس کوئی علم اور دلیل نہیں اور جب وہ شک میں مبتلا ہو کر اس پر راضی ہو گئے، ان کے پاس واضح اور صریح حق آ گیا اور وہ اپنے شک پر قائم تھے، تب انھوں نے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق کو ٹھکرانے کے لیے یہ تمام باتیں کہیں۔ ان کی یہ تمام باتیں بہتان طرازی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کوئی ان اوصاف کا حامل ہو اور وہ شک وعناد کی بنا پر باتیں کرے تو اس کا قول قابل قبول ہے نہ حق میں ذرہ بھر قادح ہے، بلکہ وہ تو ایسا شخص ہے جو محض اپنی اس بات کے سبب سے مذمت اور ملامت کا مستحق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُ٘وْا عَذَابِ﴾ ’’انھوں نے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔‘‘ انھیں ایسی باتیں کہنے کی اس لیے جرأت ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں مزے اڑا رہے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مزا چکھا ہوتا تو وہ ایسی باتیں کہنے کی کبھی جرأت نہ کرتے۔
#
{9} {أم عِندَهُم خزائنُ رحمةِ ربِّك العزيز الوهَّاب}: فيعطون منها مَنْ شاؤوا ويمنعونَ منها مَن شاؤوا؛ حيث قالوا: {أأنزِلَ عليه الذِّكْرُ مِن بَيْنِنا}؛ أي: هذا فضلُه تعالى ورحمتُه، وليس ذلك بأيديهم حتى يتجرؤوا على الله.
[9] ﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْ٘عَزِیْزِ الْوَهَّابِ﴾ ’’کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں عطا کریں اور جس کو چاہیں اس رحمت سے محروم کر دیں؟ کیونکہ ان کا قول ہے: ﴿ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَا ﴾ ’’کیا ہم میں سے صرف یہی شخص ہے، جس پر ذکر نازل کر دیا گیا‘‘ یعنی یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت جو ان کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پرقرآن کے نزول کے معاملے میں سختی کر سکیں۔
#
{10} {أم لهم مُلْكُ السمواتِ والأرض وما بينَهما}: بحيثُ يكونون قادرين على ما يريدون، {فَلْيَرْتَقوا في الأسبابِ}: الموصلة لهم إلى السماء، فيقطعوا الرحمةَ عن رسول الله! فكيف يتكلَّمون وهم أعجزُ خلق الله وأضعفُهم بما تكلَّموا به؟!
[10] ﴿اَمْ لَهُمْ مُّؔلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا﴾ ’’یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان پر ان ہی کی حکومت ہے‘‘ کہ جو چاہیں اسے پورا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ﴿فَلْیَ٘رْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ ﴾ ’’تب وہ ان راستوں پر چڑھ دیکھیں‘‘ جو انھیں آسمان تک لے جائیں اور رسول اللہ e کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی رحمت سے محروم کر دیں۔یہ مشرکین کیسی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی کمزور ترین مخلوق ہیں؟
#
{11} أم قصدُهم التحزُّب والتجنُّد والتعاون على نصر الباطل وخذلان الحقِّ، وهو الواقعُ؛ فإنَّ هذا المقصودَ لا يتمُّ لهم، بل سعيُهم خائبٌ، وجندُهم مهزومٌ، ولهذا قال: {جندٌ ما هنالك مهزومٌ من الأحزابِ}.
[11] کیا ان کا مقصد گروہ بندی، باطل کی مدد کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا اور حق کو چھوڑنا ہے؟ فی الواقع یہی ان کا مقصود و مطلوب ہے، مگر ان کا یہ مقصد کبھی پورا نہیں ہو گا، ان کی کوششیں رائیگاں جائیں گی اور ان کے لشکر کو شکست فاش ہو گی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَ٘هْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ ﴾ ’’یہ بھی یہاں کے شکست خوردہ بڑے بڑے لشکروں میں سے ایک معمولی سا لشکر ہے۔‘‘
آیت: 12 - 15 #
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ (12) وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ أُولَئِكَ الْأَحْزَابُ (13) إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (14) وَمَا يَنْظُرُ هَؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ (15)}.
جھٹلایا ان سے پہلے قوم نوح اور عاد نے اور فرعون میخوں والے نے (12) اور قوم ثمود اور قوم لوط اوربَن والوں نے (بھی) یہ لشکر ہیں(13)نہیں ہیں ان میں سے کوئی بھی، مگرجھٹلایا اس نے رسولوں کو، پس ثابت ہو گیا (ان پر) میرا عذاب (14) نہیں انتظار کررہے ہیں یہ لوگ، مگر ایک زور کی آواز کا، نہیں ہو گا اس آوازکے لیے (درمیان میں)کوئی وقفہ (15)
#
{12 ـ 15} يحذِّرُهم تعالى أن يَفْعَلَ بهم ما فعل بالأمم من قبلهم، الذين كانوا أعظم قوَّةً منهم وتحزُّباً على الباطل. {قومُ نوح وعادٌ}: قوم هود وفرعونُ ذي الأوتادِ؛ أي: الجنود العظيمة والقوَّة الهائلة، {وثمودُ}: قوم صالح، {وقومُ لوطٍ وأصحابُ الأيْكَةِ}؛ أي: الأشجار والبساتين الملتفَّة، وهم قوم شعيب. {أولئك الأحزابُ}: الذين اجتمعوا بقوَّتهم وعَددِهِم وعُدَدِهِم على ردِّ الحقِّ، فلم تُغْنِ عنهم شيئاً {إن كُلٌّ}: من هؤلاء {إلاَّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فحقَّ}: عليهم {عقاب}: الله، وهؤلاء ما الذي يطهِّرهم ويزكِّيهم أن لا يُصيبَهم ما أصاب أولئك؟! فلينتظروا {صيحة واحدة ما لها من فَواقٍ}؛ أي: من رجوع وردٍّ، تهلِكُهم، وتستأصِلُهم إن أقاموا على ما هم عليه.
[15-12] اللہ تبارک و تعالیٰ ان مشرکین کو ڈراتا ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے ساتھ کیا گیا جو ان سے زیادہ قوت والی اور باطل پر ان سے زیادہ کمربستہ تھیں: ﴿قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ ﴾ ’’قوم نوح اور عاد‘‘ جو کہ حضرت ہودu کی قوم تھی ﴿وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ﴾ ’’اور میخوں والا فرعون‘‘یعنی جو عظیم فوج اور ہولناک قوت کا مالک تھا ﴿وَثَمُوْدُ ﴾ ’’اور ثمود‘‘ صالحu کی قوم ﴿وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰؔبُ لْــَٔیْكَةِ ﴾ ’’اور قوم لوط اور اصحاب ایکہ‘‘ یعنی گھنے درختوں اور باغات کی مالک قوم، اس سے مراد، حضرت شعیبu کی قوم ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ الْاَحْزَابُ ﴾ جنھوں نے اپنی طاقت، افرادی قوت اور دنیاوی سازوسامان کو حق کو نیچا دکھانے کے لیے جمع کیا، مگر یہ سب کچھ ان کے کسی کام نہ آیا۔ ﴿اِنْ كُ٘لٌّ ﴾ ’’نہیں تھا کوئی‘‘ گروہ ان میں سے ﴿اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ ﴾ ’’مگر انھوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ثابت ہوگیا‘‘ ان پر ﴿عِقَابِ ﴾ ’’عذاب‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا۔ وہ کون سی چیز ہے جو انھیں پاک اور طاہر رکھ سکتی ہے کہ ان پر وہ عذاب نازل نہ ہو جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا۔ پس یہ لوگ انتظار کریں ﴿صَیْحَةً وَّاحِدَةً مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ ﴾ ’’صرف ایک زور کی آواز کا جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔‘‘ یعنی اب اس عذاب کو روکنا اور اس کا واپس ہونا ممکن نہیں اگر یہ اپنے شرک اور انھی اعمال پر قائم رہے تو یہ چنگھاڑ انھیں ہلاک کر کے ان کا استیصال کر ڈالے گی۔
آیت: 16 - 0 #
{وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ (16) اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ}.
اور (کافروں نے) کہا: اے ہمارے رب! جلدی دے ہمیں ہمارا حصہ پہلے یوم حساب سے (16) صبر کیجیے ان باتوں پرجو وہ کہتے ہیں اور یاد کیجیے ہمارے بندے داؤ د صاحبِ قوت کو، بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا (17)
#
{16} أي: قال هؤلاءِ المكذِّبون من جَهْلِهِم ومعانَدَتِهِم الحقَّ مستعجلين للعذاب: {ربَّنا عَجِّلْ لنا قِطَّنا}؛ أي: قِسْطَنا وما قسم لنا من العذابِ عاجلاً {قبلَ يوم الحسابِ}: ولجُّوا في هذا القول، وزعموا أنَّك يا محمدُ إن كنتَ صادقاً؛ فعلامةُ صدقِكَ أن تأتينا بالعذاب.
[16] یہ جھٹلانے والے اپنی جہالت اور حق کے ساتھ عناد کی بنا پر عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا ﴾ یعنی ہمارے حصے کا عذاب ہمیں جلدی دے دے ﴿قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ’’حساب کے دن سے پہلے۔‘‘ وہ اپنے اس قول سے باز نہیں آتے۔ اے محمدe! یہ کفار سمجھتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو آپ کی سچائی کی علامت یہ ہے کہ آپ ان پر عذاب لے آئیں۔
#
{17} فقال لرسوله: {اصْبِرْ على ما يَقولونَ}: كما صبر مَنْ قَبْلَكَ من الرُّسل؛ فإنَّ قولَهم لا يضرُّ الحقَّ شيئاً، ولا يضرُّونك في شيءٍ، وإنَّما يضرُّون أنفسَهم.
[17] اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe سے فرمایا: ﴿اِصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے۔‘‘ جس طرح آپ سے پہلے انبیاء ومرسلین نے صبر کیا۔ ان کی باتیں حق کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ آپ کو۔ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ کو تلقین فرمائی کہ آپ اللہ وحدہ کی عبادت اور اس کے عبادت گزار بندوں کے احوال کو یاد کر کے صبر پر مدد لیں، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّ٘مْسِ وَقَبْلَ غُ٘رُوْبِهَا ﴾ (طٰہٰ:20؍130) (اے محمد!e) جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔‘‘ سب سے بڑے عبادت گزار انبیاء میں سے اللہ کے نبی حضرت داؤ دu ہیں وہ ﴿ذَا الْاَیْدِ ﴾ ’’صاحب قوت تھے‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے اپنے قلب و بدن میں عظیم طاقت رکھتے تھے ﴿اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ یعنی وہ تمام امور میں انابت، محبت، تعبد، خوف، امید، کثرتِ گریہ زاری اور کثرتِ دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اگر عبادت میں کوئی خلل واقع ہو جاتا، تو اس خلل کو دور کر کے سچی توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔
آیت: 17 - 20 #
{وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ (17) إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ (18) وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً كُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ (19) وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (20)}.
بے شک ہم نے تابع کردیا تھا پہاڑوں کو اس کےساتھ، وہ تسبیح بیان کرتے تھے شام و صبح (18) اور پرندوں کو بھی دراں حالیکہ وہ اکٹھے کر دیے جاتے تھے سب اس کےآگے رجوع کرنے والے تھے (19) اور مضبوط کر دی تھی ہم نے بادشاہی اس کی اور دی تھی ہم نے اسے حکمت اور فیصلہ کن خطاب(کی صلاحیت) (20)
#
{18 ـ 19} ومن شدة إنابته لربِّه وعبادتِهِ أن سَخَّرَ الله الجبال معه تسبِّحُ معه بحمدِ ربِّها {بالعشيِّ والإشراقِ}: أول النهار وآخره، {و} سخَّر {الطيرَ محشورةً}: معه مجموعةً. {كلٌّ}: من الجبال والطير {له} تعالى {أوابٌ}: امتثالاً لقوله تعالى: {يا جبالُ أوِّبي معه والطير}: فهذه منَّةُ الله عليه بالعبادة.
[18، 19] یہ ان کی اپنے رب کی طرف انابت اور اس کی عبادت ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو آپ کی معیت میں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے تھے ﴿بِالْ٘عَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ﴾ صبح اور شام کو ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ تابع کردیا ﴿الطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً ﴾ ’’پرندوں کو بھی وہ سمٹ کر آگئے‘‘ یعنی وہ اس کے پاس جمع کردیے گئے۔ ﴿كُ٘لٌّ ﴾ ’’سب کے سب‘‘ پہاڑ اور پرندے اللہ تعالیٰ کے لیے ﴿لَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ ’’مطیع تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ﴿یٰؔجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَالطَّیْرَ ﴾ (سبا: 34؍10) ’’اے پہاڑو! تم اس (داؤ د) کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور ہم نے پرندوں کو بھی یہی حکم دیا۔‘‘ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو عبادت کی توفیق سے نوازا۔
#
{20} ثم ذكر منَّته عليه بالملك العظيم، فقال: {وشَدَدْنا مُلْكَه}؛ أي: قوَّيْناه بما أعطيناه من الأسباب وكثرة العَدَدِ والعُدَدِ التي بها قوَّى اللهُ ملكَه. ثم ذكر مِنَّتَه عليه بالعلم، فقال: {وآتَيْناه الحكمةَ}؛ أي: النبوَّة والعلم العظيم {وفصلَ الخطابِ}؛ أي: الخصومات بين الناس.
[20] پھر اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی اس نوازش کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو عظیم مملکت اور اقتدار عطا کیا ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ﴾ ’’اور ہم نے ان کی بادشاہی کو استحکام بخشا۔‘‘ آپ کو جو اسباب، افرادی قوت اور دنیاوی سازوسامان عطا کیا اس کے ذریعے سے ہم نے ان کی مملکت کو طاقتور بنایا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو علم عطا کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ ﴾ یعنی ہم نے آپ کو نبوت اور علم عظیم سے سرفراز کیا۔ ﴿وَفَصْلَ الْخِطَابِ ﴾ ’’اور بات کا فیصلہ (سکھایا)‘‘ یعنی لوگوں کے باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کن بات کہنے کا ملکہ بخشا تھا۔
آیت: 21 - 26 #
{وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (21) إِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوا لَا تَخَفْ خَصْمَانِ بَغَى بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ الصِّرَاطِ (22) إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ (23) قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ (24) فَغَفَرْنَا لَهُ ذَلِكَ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ (25) يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (26)}.
اور کیا آئی آپ کے پاس خبر جھگڑنے والوں کی، جبکہ وہ دیوار پھاند کر آگئے کمرے میں (21) جب وہ اندر آئے داؤ د پر تو گھبرا گئے وہ ان سے، انھوں نے کہا، نہ ڈریے(ہم) دو جھگڑنے والے ہیں، زیادتی کی ہے ہمارے بعض نے بعض پر، تو آپ فیصلہ فرمائیں ہمارے درمیان ساتھ حق کے اور نہ کیجیے بے انصافی اور رہنمائی کیجیے ہماری طرف سیدھی راہ کے (22) بے شک یہ میرا بھائی ہے، اس کے لیے ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس دنبی ہے ایک ہی، پس(یہ) کہتا ہے، میرے سپرد کر دے وہ بھی، اور غالب آ جاتا ہے مجھ پر بات کرنے میں (23) آپ نے فرمایا البتہ تحقیق ظلم کیا ہے اس نے تجھ پر سوال کر کے تیری دنبی کا(تاکہ ملا لے اسے بھی) اپنی دنبیوں میں، اور بلاشبہ بہت سے شرکاء البتہ زیادتی کرتے ہیں بعض ان کے بعض پر، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، اور تھوڑے ہیں ایسے لوگ، اور گمان کیا داؤ د نے کہ بے شک ہم نے آزمایا ہے اسے، پس بخشش مانگی اس نے اپنے رب سے اور گر پڑا رکوع میں اور رجوع ہوا (24) پس بخش دی ہم نے اس کی یہ( غلطی)، اور بے شک اس کے لیے ہمارے پاس البتہ بڑا قرب ہے اور اچھا ٹھکانا ہے(25) اے داؤ د! بے شک ہم نے بنایا تجھے خلیفہ زمین میں، پس فیصلہ کر درمیان لوگوں کے ساتھ حق کے اور نہ اتباع کر خواہش نفس کی کہ وہ گمراہ کر دے تجھے اللہ کے راستے سے، بلاشبہ وہ لوگ جو گمراہ ہوتے ہیں اللہ کے راستے سے ان کے لیے ہے عذاب سخت ، بہ سبب اس کے جو بھلا دیا انھوں نے یوم حساب کو (26)
#
{21} لما ذكر تعالى أنَّه آتى نبيَّه داود الفصل في الخطاب بين الناس، وكان معروفاً بذلك مقصوداً؛ ذَكَرَ تعالى نبأ خصمينِ اختصما عنده في قضيَّةٍ جعلهما الله فتنةً لداود وموعظةً لخلل ارتَكَبَهُ، فتاب الله عليه وغَفَرَ له وقيَّضَ له هذه القضيَّة، فقال لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {وهل أتاك نبأُ الخصم}: فإنَّه نبأ عجيبٌ، {إذ تَسَوَّروا}: على داود {المحرابَ}؛ أي: محلَّ عبادتِهِ من غير إذنٍ ولا استئذانٍ، ولم يدخُلوا عليه مع باب.
[21] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے نبی حضرت داؤ دu کو فیصلہ کن خطاب کی صلاحیت سے نوازا اور وہ فیصلہ کرنے میں معروف تھے، نیز اس معاملے میں ان کی طرف لوگ قصد کرتے تھے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دو اشخاص کے بارے میں خبر دی جو ایک جھگڑا لے کر ان کے پاس حاضر ہوئے اس جھگڑے کو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu کے لیے آزمائش اور ایک ایسی لغزش سے نصیحت بنایا جو حضرت داؤ دu سے واقع ہوئی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu کی توبہ قبول کر کے بخش دیا اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے یہ قضیہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد e سے فرمایا: ﴿وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ﴾ ’’اور کیا تمھارے پاس ان جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے۔‘‘ یہ بڑی ہی تعجب انگیز خبر ہے۔ ﴿اِذْ تَسَوَّرُوا ﴾ ’’جب وہ دیوار پھاند کر آئے تھے‘‘ حضرت داؤ دu کے پاس ﴿الْمِحْرَابَ﴾ ’’محراب میں۔‘‘ یعنی اجازت طلب کیے بغیر آپ کی عبادت کرنے کی جگہ میں دروازے کے علاوہ دوسرے راستے سے داخل ہوئے۔
#
{22} فلذلك لما دَخَلوا عليه بهذه الصورةِ؛ فَزِعَ منهم وخاف، فقالوا له: نحن خصمانِ؛ فلا تخفْ، {بغى بعضُنا على بعضٍ}: بالظلم، {فاحْكُم بينَنا بالحقِّ}؛ أي: بالعدل ولا تَمِلْ مع أحدِنا، {ولا تُشْطِطْ واهْدِنا إلى سواءِ الصِّراطِ}.
[22] جب وہ اس طریقے سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ گھبرا گئے اور ان سے ڈر گئے، انھوں نے آپ سے کہا کہ ہم ﴿خَ٘صْمٰنِ ﴾ ’’دو جھگڑا کرنے والے ہیں‘‘ اس لیے ڈریے مت، ﴿بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا ہے‘‘ ظلم کرتے ہوئے ﴿فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ ﴾ لہٰذا ہمارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کیجیے اور کسی ایک طرف مائل نہ ہوں ﴿وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّ٘رَاطِ ﴾ ’’اور بے انصافی نہ کیجیے اور سیدھے راستے کی طرف ہماری راہ نمائی کیجیے۔‘‘
#
{23} والمقصود من هذا أن الخصمين قد عُرِفَ أنَّ قصدَهما الحقُّ الواضحُ الصرفُ، وإذا كان ذلك؛ فسيقصُّون عليه نبأهم بالحقِّ، فلم يشمئزَّ نبيُّ الله داود من وعِظِهما له ولم يؤنِّبْهما، فقال أحدُهما: {إنَّ هذا أخي}: نصَّ على الأخوَّة في الدين أو النسب أو الصداقة؛ لاقتضائِها عدم البغي، وأن بغيَه الصادرَ منه أعظمُ من غيره، {له تسعٌ وتسعون نعجةً}؛ أي: زوجة، وذلك خير كثيرٌ يوجِبُ عليه القناعة بما آتاه الله، {ولي نعجةٌ واحدةٌ}، فطمع فيها، {فقال أكْفِلْنيها}؛ أي: دعها لي وخَلِّها في كفالتي، {وعَزَّني في الخطاب}؛ أي: غلبني في القول، فلم يزلْ بي حتى أدركها أو كادَ.
[23] اس پورے واقعہ سے مقصود یہ ہے کہ حضرت داؤ دu کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان دو اشخاص کا مقصد واضح اور صریح حق تھا۔ جب یہ معاملہ ہے تو وہ حضرت داؤ دu کے سامنے حق کے ساتھ قصہ بیان کرتے ہیں تب اللہ کے نبی داؤدu ان کے وعظ و نصیحت سے منقبض ہوئے نہ آپ نے ان کو ملامت کی۔ ان میں سے ایک نے کہا: ﴿اِنَّ هٰؔذَاۤ اَخِیْ ﴾ ’’ بے شک یہ میرا بھائی‘‘ یعنی اس نے دین، نسب یا دوستی کی اخوت کا ذکر کیا جو تقاضا کرتی ہے کہ زیادتی نہ کی جائے۔ اس بھائی سے زیادتی کا صادر ہونا غیر کی زیادتی سے بڑھ کر تکلیف دہ ہے ﴿لَهٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً ﴾ ’’اس کی ننانوے دنبیاں ہیں‘‘ اور یہ خیر کثیر ہے اور اس چیز پر قناعت کی موجب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہے ﴿وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ ﴾ ’’اور میرے پاس ایک دنبی ہے‘‘ اور یہ اس میں بھی طمع رکھتا ہے۔ ﴿فَقَالَ اَكْفِلْنِیْهَا ﴾ اس کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میری خاطر اسے چھوڑ دے اور اسے میری کفالت میں دے دے ﴿وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ ﴾ اور اس نے بات چیت میں مجھے دبا لیا ہے حتیٰ کہ وہ میری دنبی کو حاصل کرنے ہی والا ہے۔
#
{24} فقال داود لما سمع كلامَه، ومن المعلوم من السياق السابق من كلامِهِما أنَّ هذا هو الواقع؛ فلهذا لم يحتج أن يتكلَّم الآخرُ؛ فلا وجهَ للاعتراض بقول القائل: لِمَ حَكَمَ داودُ قبل أن يسمعَ كلام الخصم الآخر؟ {لقد ظَلَمَكَ بسؤال نعجتِكَ إلى نعاجِهِ}: وهذه عادةُ الخُلَطاء والقرناءِ الكثير منهم، فقال: {وإنَّ كثيراً من الخُلَطاءِ لَيَبْغي بعضُهم على بعضٍ}: لأنَّ الظُّلم من صفة النفوس {إلاَّ الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ}: فإنَّ ما مَعَهم من الإيمان والعمل الصالح يمنعُهم من الظُّلم، {وقليلٌ ما هم}؛ كما قال تعالى: {وقليلٌ من عِبادي الشَّكُورُ}. {وظنَّ داودُ}: حين حَكَمَ بينَهما {أنَّما فَتَنَّاهُ}؛ أي: اختبرناه ودبَّرْنا عليه هذه القضيةَ ليتنبَّهَ، {فاسْتَغْفَرَ ربَّه}: لما صدر منه، {وخَرَّ راكعاً}؛ أي: ساجداً، {وأناب}: لله تعالى بالتوبة النصوح والعبادة.
[24] جب داؤ دu نے اس کی بات سنی… فریقین کی باتوں کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لیے حضرت داؤ دu نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرا فریق بات کرے ، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لیے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤ دu نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟ تو فرمایا: ﴿لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ﴾ ’’یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔‘‘ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا: ﴿وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْؔخُلَطَآءِ لَ٘یَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔‘‘ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔‘‘ کیونکہ انھیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انھیں ظلم سے باز رکھتے ہیں۔ ﴿وَقَلِیْلٌ مَّا هُمْ ﴾ ’’اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ ﴾ (سبا: 34؍13) ’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔‘‘ ﴿وَظَ٘نَّ دَاوٗدُ ﴾ جب حضرت داؤ دu نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿اَنَّمَا فَتَنّٰهُ ﴾ یعنی ہم نے حضرت داؤ دu کی آزمائش کے لیے یہ مقدمہ بنا کر ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ﴾ جب آپ سے لغزش سرزد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ’’اور جھک کر گر پڑے۔‘‘ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَّاَنَابَ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔
#
{25} {فغفرنا له ذلك}: الذي صَدَرَ منه، وأكرمه الله بأنواع الكراماتِ، فقال: {وإنَّ له عندَنا لَزُلْفى}؛ أي: منزلة عالية وقربة منَّا، {وحسنَ مآبٍ}؛ أي: مرجع. وهذا الذنبُ الذي صَدَرَ من داود عليه السلام لم يَذْكُرْهُ الله لعدم الحاجةِ إلى ذكرِهِ؛ فالتعرُّضُ له من باب التكلُّف، وإنَّما الفائدةُ ما قصَّه الله علينا من لطفِهِ به وتوبتِهِ وإنابتِهِ وأنَّه ارتفع محلُّه فكان بعد التوبةِ أحسنَ منه قبلَها.
[25] ﴿فَ٘غَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَ ﴾ ’’پس ہم نے معاف کردی یہ لغزش‘‘ جو آپ سے صادر ہوئی تھی اور مختلف انواع کی کرامات کے ذریعے سے آپ کو اکرام سے سرفراز کیا، فرمایا: ﴿وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْ٘فٰى ﴾ ’’اور بلاشبہ ہمارے ہاں اس کے لیے خاص مرتبہ ہے‘‘ یعنی بہت بلند مرتبہ، ہمارا قرب ﴿وَحُسْنَ مَاٰبٍ ﴾ ’’اور اچھا انجام ہے‘‘ حضرت داؤ دu سے جو لغزش سرزد ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اس کی کوئی حاجت نہیں اس لیے اس بارے میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایا ہے صرف اسی میں فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے لطف و کرم سے نوازا، آپ کی توبہ اور انابت کو قبول کیا، آپ کا مرتبہ بلند ہوا ، لہٰذا توبہ کے بعد آپ کو پہلے سے بہتر مرتبہ حاصل ہوا۔
#
{26} {يا داود إنَّا جَعَلْناكَ خليفةً في الأرض}: تنفِّذُ فيها القضايا الدينيَّةَ والدنيويَّةَ، {فاحْكُم بين الناسِ بالحقِّ}؛ أي: العدل، وهذا لا يتمكَّن منه إلا بعلم بالواجب وعلم بالواقع وقدرةٍ على تنفيذ الحقِّ، {ولا تَتَّبِع الهوى}: فتميل مع أحدٍ لقرابةٍ أو صداقةٍ أو محبةٍ أو بغضٍ للآخر، {فيضلَّك}: الهوى {عن سبيل الله}: ويخرِجَك عن الصراط المستقيم. {إنَّ الذين يَضِلُّون عن سبيل الله}: خصوصاً المتعمِّدين منهم {لهم عذابٌ شديدٌ بما نسوا يومَ الحسابِ}؛ فلو ذَكَروه ووقع خوفُهُ في قلوبِهِم؛ لم يَميلوا مع الهوى الفاتن.
[26] ﴿یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اے داود! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا۔‘‘ تاکہ آپ دنیا میں دینی اور دنیاوی احکام نافذ کر سکیں۔ ﴿فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ﴾ ’’پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کیجیے‘‘ یعنی عدل وانصاف کے ساتھ۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ واجب کا علم اور واقع کا علم نہ ہو اور حق کو نافذ کرنے کی قدرت نہ ہو۔ ﴿وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعِ الْهَوٰى ﴾ ’’اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کیجیے‘‘ ایسا نہ ہو کہ آپ کا دل کسی کی طرف اس کی قرابت، دوستی یا محبت یا فریق مخالف سے ناراضی کے باعث مائل ہو جائے ﴿فَیُضِلَّكَ ﴾ ’’پس وہ (خواہش نفس) آپ کو گمراہ کر دے‘‘ ﴿عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی راہ سے‘‘ اور آپ کو صراط مستقیم سے دور کر دے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں‘‘ خاص طور پر وہ لوگ جو دانستہ طور پر اس کاارتکاب کرتے ہیں۔ ﴿لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ﴾ ’’ ان کے لیے یوم جزا سے غافل رہنے کی وجہ سے سخت عذاب ہے۔‘‘ اگر وہ اسے یاد رکھتے اور ان کے دل میں اس کا خوف ہوتا تو فتنے میں مبتلا کرنے والی خواہشات نفس کبھی بھی انھیں ظلم اور ناانصافی کی طرف مائل نہ کر سکتیں۔
آیت: 27 - 29 #
{وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (27) أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (28) كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (29)}
اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، بے کار یہ تو گمان ہے ان لوگوں کا جنھوں نے کفر کیا، پس ہلاکت ہے واسطے ان کے جنھوں نے کفر کیا، دوزخ سے (27) کیا ہم کر دیں گے ان کو جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، مانند ان کی جو فساد کرنے والے ہیں زمین میں؟ یا کردیں گے ہم پرہیز گاروں کو مانند بدکاروں کی؟ (28) (یہ)ایک کتاب ہے، نازل کیا ہم نے اسے آپ کی طرف، بڑی برکت والی، تاکہ وہ غور کریں اس کی آیتوں پر اور تاکہ نصیحت پکڑیں عقل والے(29)
#
{27} يخبر تعالى عن تمام حكمتِهِ في خلقه السماواتِ والأرضَ، وأنَّه لم يخلُقْهما {باطلاً}؛ أي: عبثاً ولعباً من غير فائدةٍ ولا مصلحةٍ. {ذلك ظنُّ الذين كفروا}: بربِّهم حيث ظنُّوا ما لا يَليقُ بجلالِهِ. {فويلٌ للذين كَفَروا من النارِ}: فإنَّها التي تأخُذُ الحقَّ منهم وتَبْلُغُ منهم كلَّ مبلغ. وإنَّما خلق الله السماواتِ والأرض بالحقِّ وللحقِّ، فخلقهما لِيَعْلَمَ العبادُ كمالَ علمِهِ وقدرتِهِ وسعةَ سلطانه، وأنه تعالى وحدَه المعبودُ دون من لم يَخْلُقْ مثقال ذَرَّةٍ من السماواتِ والأرض، وأنَّ البعث حقٌّ، وسيفصِلُ الله بين أهل الخير والشرِّ، ولا يظنُّ الجاهل بحكمة الله أن يُسَوِّيَ الله بينهما في حكمه.
[27] اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی حکمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ اس نے زمین وآسمان کو باطل، یعنی بغیر کسی فائدے، مصلحت اور کھیل تماشے کے طور پر عبث پیدا نہیں کیا۔ ﴿ذٰلِكَ ظَ٘نُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے‘‘ اپنے رب کے ساتھ کہ وہ اپنے رب کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔ ﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ﴾ ’’پس کافروں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔‘‘ یہ آگ ہے جو ان سے حق حاصل کرے گی اور انھیں پوری طرح عذاب میں مبتلا کرے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ اور حق کی خاطر تخلیق فرمایا ہے، ان کو اس لیے تخلیق فرمایا تاکہ بندوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کامل علم، کامل قدرت اور لامحدود قوت کا مالک ہے اور وہی اکیلا معبود ہے اور وہ معبود نہیں ہیں جو زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی تخلیق نہیں کر سکتے۔ حیات بعدالموت حق ہے قیامت کے روز اللہ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ کوئی جاہل شخص اللہ تعالیٰ کی حکمت کے بارے میں یہ گمان نہ کرے کہ وہ اپنے فیصلے میں نیک اور بد کے ساتھ مساوی سلوک کرے گا۔
#
{28} ولهذا قال: {أم نجعلُ الذين آمنوا وعَمِلوا الصالحاتِ كالمفسدينَ في الأرض أم نَجْعَلُ المتَّقينَ كالفجَّارِ}: هذا غيرُ لائقٍ بحكمتِنا وحكمِنا.
[28] اس لیے فرمایا: ﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ١ٞ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ ﴾ ’’کیا ہم انھیں جو ایمان لائے ہیں ان کی طرح بنادیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم متقین اور بدکاروں کو یکساں کردیں؟‘‘ یعنی ایسا کرنا ہماری حکمت اور ہمارے حکم کے شایاں نہیں۔
#
{29} {كتابٌ أنزلناه إليك مبارَكٌ}: فيه خيرٌ كثيرٌ وعلمٌ غزيرٌ، فيه كلُّ هدى من ضلالة وشفاء من داء ونور يُسْتَضاء به في الظُّلمات، وكلُّ حكم يحتاج إليه المكلَّفون، وفيه من الأدلَّة القطعيَّة على كلِّ مطلوب ما كان به أجَلَّ كتاب طَرَقَ العالَمَ منذ أنشأه الله، {لِيَدَّبَّروا آياتِهِ}؛ أي: هذه الحكمة من إنزاله؛ ليتدبَّر الناسُ آياتِهِ، فيستخرِجوا علمَها، ويتأمَّلوا أسرارها وحِكَمَها؛ فإنَّه بالتدبُّر فيه والتأمُّل لمعانيه وإعادة الفكر فيها مرةً بعد مرةٍ تُدْرَكُ بركتُهُ وخيرُهُ، وهذا يدلُّ على الحثِّ على تدبُّرِ القرآن، وأنَّه من أفضل الأعمال، وأنَّ القراءة المشتملة على التدبُّرِ أفضل من سرعةِ التلاوةِ التي لا يحصُلُ بها هذا المقصودُ، {ولِيَتَذَكَّرَ أولو الألبابِ}؛ أي: أولو العقول الصحيحة، يتذكَّرون بتدبُّرهم لها كلَّ علم ومطلوب. فدَّل هذا على أنه بحسب لُبِّ الإنسان وعقله يحصُلُ له التذكُّر والانتفاعُ بهذا الكتاب.
[29] ﴿كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ ﴾ ’’یہ کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے۔‘‘ جو خیر کثیر اور علم بسیط کی حامل ہے۔ اس کے اندر ہدایت، ہر بیماری کی شفا اور نور ہے جس سے گمراہی کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے اندر ہر وہ حکم موجود ہے، جس کے مکلفین محتاج ہیں اور اس کے اندر ہر مطلوب کے لیے قطعی دلائل موجود ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا ہے اس وقت سے لے کر اس کتاب سے زیادہ کوئی جلیل القدر کتاب نہیں آئی ﴿لِّیَدَّبَّ٘رُوْۤا اٰیٰتِهٖ﴾ یعنی اس کتاب جلیل کو نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں، اس کے علم کا استنباط کریں اور اس کے اسرار و حکم میں غوروفکر کریں۔ یہ آیت کریمہ قرآن کریم میں تدبر کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم میں تدبر اور غور وفکر کرنا سب سے افضل عمل ہے، نیز یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ قراء ت جو تدبر وتفکر پر مشتمل ہو اس تلاوت سے کہیں افضل ہے جو بہت تیزی سے کی جاری ہو، مگر اس سے متذکرہ بالا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو۔ ﴿وَلِیَتَذَكَّـرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ تاکہ عقل صحیح کے حاملین، اس میں غوروفکر کر کے ہر علم اور ہر مطلوب حاصل کریں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کو اپنی عقل کے مطابق اس عظیم کتاب سے نصیحت حاصل ہوتی ہے۔
آیت: 30 - 40 #
{وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (30) إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ (31) فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ (32) رُدُّوهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ (33) وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ (34) قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (35) فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ (36) وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (37) وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (38) هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39) وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ (40)}.
اور عطا کیا ہم نے داؤ د کو سلیمان، اچھا بندہ تھا وہ، بلاشبہ وہ بہت رجوع کرنے والا تھا (30) جب پیش کیے گئے اوپر اس کےشام کے وقت(گھوڑے) اصیل تیز رَو عمدہ (31) تو اس نے کہا، بلاشبہ میں نے محبوب رکھا ہے اس مال کی محبت کو، بوجہ اپنے رب کی یاد کے، یہاں تک کہ چھپ گئے (گھوڑے)اوٹ میں (32) (کہا)واپس لاؤ ان کو میرے پاس، پس لگے وہ (ہاتھ) پھیرنے پنڈلیوں اورگردنوں پر (33) اور البتہ تحقیق آزمایا ہم نے سلیمان کو اور ڈالا ہم نے اس کی کرسی پر ایک دھڑ، پھراس نے رجوع کیا (34)کہا: اے میرے رب! بخش دے مجھے اور عطا کر مجھے ایسی بادشاہی، کہ نہ لائق ہو واسطے کسی کے میرے بعد، بلاشبہ تو ہی ہے بہت عطا کرنے والا (35) پس تابع کر دی ہم نے اس کےہوا، چلتی تھی وہ اس کےحکم سے نرمی سے، جہاں کا وہ ارادہ کرتا (36) اور(تابع کر دیے) شیا طین(بھی) معمار اور غوطہ لگانے والے کو (37) اور دوسرے جوجکڑے ہوئے تھے زنجیروں میں (38) یہ ہے ہماری بخشش پس احسان کر یا محفوظ رکھ، نہیں ہو گا کوئی حساب(39) اور بے شک اس کے لیے ہمارے پاس البتہ بڑا قرب اور اچھا ٹھکانا ہے (40)
#
{30} لما أثنى الله تعالى على داودَ وذَكَرَ ما جرى له ومنه؛ أثنى على ابنِهِ سليمانَ عليهما السلام، فقال: {ووَهَبْنا لداودَ سليمانَ}؛ أي: أنْعَمْنا به عليه وأقررْنا به عينَه. {نعم العبدُ}: سليمانُ عليه السلام، فإنَّه اتَّصف بما يوجب المدح، وهو {إنَّه أوابٌ}؛ أي: رجاعٌ إلى الله في جميع أحوالِهِ بالتألُّه والإنابة والمحبَّة والذِّكر والدُّعاء والتضرُّع والاجتهاد في مرضاة الله وتقديمها على كل شيءٍ.
[30] اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu کی مدح و ثنا بیان کرنے، ان کے ساتھ اور ان کی طرف سے جو کچھ پیش آیا اس کا ذکر کرنے کے بعد، ان کے بیٹے سلیمانu کی مدح و ثنا بیان کی ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَ٘یْمٰنَ ﴾ یعنی ہم نے داؤ دu کو سلیمانu عطا کر کے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ ﴾ ’’سلیمانu بہترین بندے تھے‘‘ کیونکہ وہ ان تمام اوصاف سے متصف تھے جو مدح و ثنا کے موجب ہیں۔ ﴿اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ﴾ یعنی وہ اپنے تمام احوال میں، تعبد، انابت، محبت، ذکر ودعا، آہ وزاری، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے اور اس کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھنے میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف نہایت کثرت سے رجوع کرنے والے تھے۔
#
{31 ـ 33} ولهذا؛ لما عُرِضَتِ [عليه] الخيل الجياد السبق {الصافناتُ}؛ أي: التي من وصفها الصُّفونُ، وهو رفع إحدى قوائِمِها عند الوقوف، وكان لها منظرٌ رائقٌ وجمالٌ معجبٌ، خصوصاً للمحتاج إليها؛ كالملوك؛ فما زالتْ تُعْرَضُ عليه حتى غابتِ الشمس في الحجاب، فألهتْه عن صلاة المساءِ وذِكْرِهِ، فقال ندماً على ما مضى منه، وتقرُّباً إلى الله بما ألهاه عن ذكرِهِ، وتقديماً لحبِّ الله على حبِّ غيره: {إنِّي أحببتُ حُبَّ الخيرِ}: وضمَّنَ أحببتُ معنى آثرتُ؛ أي: آثرتُ حبَّ الخير الذي هو المالُ عموماً وفي الموضع المرادُ الخيل {عن ذِكْرِ ربِّي حتى تَوارَتْ بالحجابِ. ردُّوها عليَّ}: فردُّوها، {فطَفِقَ}: فيها {مسحاً بالسُّوقِ والأعناقِ}؛ أي: جعل يعقِرُها بسيفِهِ في سوقِها وأعناقها.
[33-31] بنا بریں جب ان کی خدمت میں خوب تربیت یافتہ، تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے، جن کا وصف یہ تھا کہ جب وہ کھڑے ہوتے تو ایک پاؤ ں زمین سے اٹھائے رکھتے۔ ان کو پیش کیے جانے کا منظر نہایت ہی خوبصورت، خوش کن اور تعجب انگیز تھا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنھیں ان گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے ، مثلاً: بادشاہ وغیرہ۔ سلیمانu کی خدمت میں یہ گھوڑے پیش ہوتے رہے حتیٰ کہ سورج چھپ گیا اور گھوڑوں کی محبت اور ان میں مصروفیت نے آپ کو عصر کی نماز اور ذکر الٰہی سے غافل کر دیا۔ سلیمانu نے اس کوتاہی پر جو ان سے ہوئی اظہار ندامت کرتے ہوئے، جس چیز نے آپ کو ذکر الٰہی سے غافل کیا اس کی وجہ سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہوئے اور محبت الٰہی کو غیراللہ کی محبت پر مقدم کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ ﴾ یہاں (أَحْبَبْتُ،آثَرْتُ) کے معنیٰ کو متضمن ہے یعنی میں نے ’’خیر‘‘ کی محبت کو ترجیح دی ہے۔ ’’خیر‘‘ کا معنی عام طور پر مال لیا جاتا ہے۔ مگر اس مقام پر متذکرہ بالا گھوڑے مراد ہیں ﴿عَنْ ذِكْرِ رَبِّیْ١ۚ حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ﴾ ’’اپنے رب کی یاد سے حتیٰ کہ (سورج) پردے میں چھپ گیا۔‘‘ سلیمانu نے فرمایا: ﴿رُدُّوْهَا عَلَیَّ ﴾ ’’ان کو میرے پاس واپس لاؤ ۔‘‘ حضرت سلیمانu کے پاس گھوڑے واپس لائے گئے۔ ﴿فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ﴾ تو سلیمانu نے تلوار کے ساتھ ان کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹنا شروع کر دیں۔
#
{34} {ولقد فتنَّا سليمانَ}؛ أي: ابتليْناه واختبرْناه بذَهابِ ملكِهِ وانفصالِهِ عنه بسبب خلل اقتضتْه الطبيعةُ البشريةُ، {وألقَيْنا على كرسيِّه جسداً}؛ أي: شيطاناً قضى الله وقَدَّر أن يجلسَ على كرسيِّ ملكِهِ ويتصرَّفَ في الملك في مدَّةِ فتنة سليمان، {ثم أنابَ}: سليمانُ إلى الله تعالى، وتابَ.
[34] اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَ٘یْمٰنَ ﴾ یعنی ہم نے حضرت سلیمانu سے ان کا اقتدار لے کر اس خلل کے سبب سے ان کو آزمایا، جس کا طبیعت بشری تقاضا کرتی ہے۔ ﴿وَاَلْقَیْنَا عَلٰى كُرْسِیِّهٖ جَسَدًا ﴾ ’’اور ان کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے قضا وقدر کے ذریعے سے مقدر کر دیا کہ ایک شیطان سلیمانu کی کرسی پر آپ کی آزمائش کے عرصہ کے دوران بیٹھے اور آپ کی سلطنت میں تصرف کرے(فاضل مفسر رحمہ اللہ کی یہ رائے اسرائیلی روایات ہی پر مبنی ہے جن سے مفسر نے اپنی پوری تفسیر میں بجا طور پر اجتناب کیاہے۔ پتہ نہیں فاضل مؤلف نے یہاں اس پر اعتماد کرکے کیوں یہ بات لکھ دی ہے۔ یہ آزمائش کیاتھی؟ کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ اس لیے امام ابن کثیر وغیرہ کی رائے میں اس پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ (ص۔ی) ﴿ثُمَّ اَنَابَ ﴾ پھر سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور توبہ کی۔
#
{35 ـ 39} فَـ {قَالَ ربِّ اغْفِرْ لي وَهَبْ لي مُلْكاً لا ينبغي لأحدٍ من بعدي إنَّك أنت الوهابُ}: فاستجاب الله له، وغفر له، وردَّ عليه مُلْكَه، وزادَه ملكاً لم يحصُلْ لأحدٍ من بعده، وهو تسخيرُ الشياطين له يبنونَ ما يريدُ ويغوصون له في البحر يستخرِجون الدُّرَّ والحُلِيَّ، ومَنْ عصاه منهم؛ قَرَّنَه في الأصفاد وأوثقه، وقلنا له: {هذا عطاؤنا}: فَقُرَّ به عيناً، {فامنُنْ}: على من شئتَ، {أو أمْسِكْ}: مَنْ شئتَ {بغير حسابٍ}؛ أي: لا حرج عليك في ذلك ولا حسابَ؛ لعلمه تعالى بكمال عدلِهِ وحسن أحكامِهِ.
[39-35] ﴿قَالَ رَبِّ اغْ٘فِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْ٘كًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ﴾ ’’کہنے لگے اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما کر آپ کو بخش دیا اور آپ کی سلطنت آپ کو واپس کر دی اور اقتدار اور سلطنت میں مزید اضافہ کر دیا۔ آپ کے بعد اتنا زیادہ اقتدار کسی اور کو عطا نہیں کیا، شیاطین آپ کے لیے مسخر کر دیے گئے، آپ جو کچھ چاہتے وہ تعمیر کرتے تھے، وہ آپ کے حکم پر سمندر میں غوطہ خوری کرتے اور سمندر کی تہہ سے موتی نکال کر لاتے۔ ان میں جو کوئی آپ کی نافرمانی کرتا آپ اسے زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیتے۔ ہم نے سلیمانu سے کہا: ﴿هٰؔذَا عَطَآؤُنَا ﴾ ’’یہ ہمارا عطیہ ہے‘‘ اس سے آنکھیں ٹھنڈی کیجیے۔ ﴿فَامْنُ٘نْ ﴾ جسے چاہیں عطا کریں۔ ﴿اَوْ اَمْسِكْ ﴾ اور جسے چاہیں عطا نہ کریں۔ ﴿بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ اس بارے میں آپ پر کوئی حرج ہے نہ آپ سے کوئی حساب لیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ حضرت سلیمانu کے کامل عدل اور بہترین فیصلوں کے بارے میں خوب جانتا تھا۔
#
{40} ولا تحسبنَّ هذا لسليمانَ في الدُّنيا دون الآخرة، بل له في الآخرة خيرٌ عظيمٌ، ولهذا قال: {وإنَّ له عندَنا لَزُلْفى وحسنَ مآبٍ}؛ أي: هو من المقرَّبين عند اللهِ المكرَمين بأنواع الكراماتِ لله.
[40] آپ یہ نہ خیال کیجیے کہ یہ تمام نعمتیں سلیمانu کو صرف دنیا ہی میں حاصل تھیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، بلکہ آخرت میں بھی ان کو خیرکثیر سے نوازا جائے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْ٘فٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ ﴾ ’’اور بے شک ان کے لیے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ مقام ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقربین اور مکرمین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع کی کرامات سے سرفراز فرمایا۔
فوائد حضرت داؤ د اور سلیمانi کے قصے سے مندرجہ ذیل فوائد اور حکمتیں مستفاد ہوتی ہیں: ۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe کے سامنے آپ سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ آپ کی ہمت بندھاتا رہے اور آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی عبادت، ان کے صبر کی شدت اور ان کی انابت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ آپ میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا شوق اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کا جذبہ پیدا ہو۔ بنا بریں اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی اذیت رسانی، آپ کے اور آپ کی دعوت کے بارے میں ان کی بدکلامی کا ذکر کیا تو آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تلقین کی کہ آپ اس کے بندے داؤ دu کو یاد کر کے اس سے تسلی حاصل کریں۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت میں استعمال ہونے والی قوت قلب اور قوت بدن کو پسند کرتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، کیونکہ قوت کے ذریعے سے اطاعت الٰہی کے آثار، اس کی خوبی اور اس کی جو کثرت حاصل ہوتی ہے وہ کمزوری اور عدم قوت سے حاصل نہیں ہوتی۔ نیز آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اسباب قوت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور نفس کو کمزور کرنے والی بے کاری اور سستی کی طرف مائل ہونے سے بچے۔ ۳۔ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کی خاص مخلوق کا وصف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وصف کی بنا پر حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کی مدح و ثنا کی ہے۔ اقتدا کرنے والوں کو چاہیے کہ ان کی اقتدا کریں اور اہل سلوک ان کی راہ پر گامزن ہوں۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰؔىهُمُ اقْتَدِهْ ﴾ (الانعام:6؍90) ’’یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا، لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔‘‘ ۴۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤ دu کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا جس کے سبب سے ٹھوس پہاڑ اور پرندے جھوم اٹھتے تھے۔ جب آپ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تو پرندے اور پہاڑ بھی آپ کے ساتھ تسبیح بیان کرتے۔ ۵۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے علم نافع عطا کرے، اسے دانائی اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے سرفراز کرے جیسا کہ اس نے اپنے بندے حضرت داؤ دu کو ان صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ۶۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں اور اس کے انبیاء و رسل سے کوئی خلل واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں آزمائش اور ابتلا میں مبتلا کرتا ہے جس سے یہ خلل زائل ہو جاتا ہے اور وہ پہلے حال سے بھی زیادہ کامل حال کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کو آزمائش پیش آئی۔ ۷۔ انبیاء ومرسلین اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں خطا سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں کیونکہ اس وصف کے بغیر رسالت کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا لیکن کبھی کبھی طبیعت بشری کے تقاضوں کی بنا پر کسی معصیت کا ارتکاب ہو جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے فوراً اس کا تدارک کر دیتا ہے۔ ۸۔ آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت داؤ دu اپنے غالب احوال میں، اپنے رب کی عبادت کے لیے اپنے محراب میں گوشہ نشین رہتے تھے، اسی لیے دونوں جھگڑنے والے اشخاص کو دیوار پھاند کر محراب میں آنا پڑا کیونکہ حضرت داؤ دu جب اپنی محراب میں چلے جاتے تو کوئی ان کے پاس نہ جا سکتا تھا۔ آپ کے پاس لوگوں کے بکثرت مقدمات آنے کے باوجود اپنا تمام وقت لوگوں کے لیے صرف نہیں کرتے تھے بلکہ انھوں نے اپنے لیے کچھ وقت مقرر کیا ہوا تھا جس میں خلوت نشیں ہو کر اپنے رب کی عبادت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ یہ عبادت تمام امور میں اخلاص کے لیے ان کی مدد کرتی تھی۔ ۹۔ حضرت داؤ دu کے قصہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ حکاّم کے پاس حاضر ہونے میں ادب کو استعمال میں لایا جائے کیونکہ مذکورہ بالا دونوں اشخاص جب اپنا جھگڑا لے کر حضرت داؤ دu کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عام دروازے اور اس راستے سے آپ کے پاس نہیں گئے جو عام طور پر استعمال میں آتا تھا اس لیے حضرت داؤ دu ان کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہ چیز آپ پر نہایت گراں گزری، ان کے خیال میں یہ صورت حال آپ کے لائق نہ تھی۔ ۱۰۔ جھگڑے کے کسی فریق کی طرف سوئے ادبی اور اس کا ناگوار رویہ حاکم کو حق کے مطابق فیصلہ کرنے سے نہ روکے۔ ۱۱۔ ان آیات مبارکہ سے حضرت داؤ دu کے کمال حلم کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب مذکورہ بالا دونوں شخص آپ کی اجازت طلب کیے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے… حالانکہ آپ وقت کے بادشاہ تھے… تو آپ ان پر ناراض ہوئے نہ ان کو جھڑکا اور نہ ہی انھیں کوئی زجروتوبیخ کی۔ ۱۲۔ آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مظلوم کے لیے ظالم کو اس قسم کے الفاظ سے مخاطب کرنا جائز ہے۔ ’’تو نے مجھ پر ظلم کیا‘‘ ’’اے ظالم‘‘! ’’اے مجھ پر زیادتی کرنے والے! ‘‘وغیرہ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں کہا تھا ﴿خَ٘صْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ ﴾ (صٓ: 38؍22) ’’ہم مقدے کے دو فریق ہیں۔ جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی۔‘‘ ۱۳۔ کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی جلیل القدر اور صاحب علم کیوں نہ ہو، جب کوئی شخص خیرخواہی کرتے ہوئے اس کو نصیحت کرے تو اسے ناراض ہونا چاہیے نہ یہ نصیحت اس کو ناگوار گزرنی چاہیے بلکہ شکر گزاری کے ساتھ اسے قبول کر لینا چاہیے۔ کیونکہ مقدمے کے فریقین نے حضرت داؤ دu کو نصیحت کی تو آپ نے برا منایا نہ ناراض ہوئے اور نہ اس چیز نے آپ کو راہ حق سے ہٹایا بلکہ آپ نے صریح حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ ۱۴۔ اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا باہمی اختلاط، دنیاوی اور مالی تعلقات کی کثرت ان کے درمیان عداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کی موجب بنتی ہے، نیز یہ کہ اس قسم کی صورت حال سے صرف تقویٰ اور ایمان و عمل پر صبر ہی کے ذریعے سے بچا جا سکتا ہے اور یہی چیز لوگوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ ۱۵۔ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ استغفار اور عبادت، خاص طور پر نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ دu کی لغزش کی بخشش کو آپ کے استغفار اور سجود پر مترتب فرمایا۔ ۱۶۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں حضرت داؤ د اور حضرت سلیمانi کو اکرام و تکریم، اپنے قرب اور بہترین ثواب سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجہ میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر کامل لطف و کرم ہے کہ جب وہ ان کی لغزشوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے گناہوں کے اثرات کو زائل کر دیتا ہے تو ان پر مترتب ہونے والے تمام آثار کو بھی زائل کر دیتا ہے یہاں تک کہ ان اثرات کو مٹا دیتا ہے جو مخلوق کے دلوں میں واقع ہوتے ہیں کیونکہ جب مخلوق کو ان کے گناہ کا علم ہوتا ہے تو ان دلوں میں ان کا درجہ کم ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں میں اس اثر کو زائل کر دیتا ہے اور کریم و غفار کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ۱۷۔ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا ایک دینی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور خاص بندوں کو مقرر فرمایا ہے، جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے اسے حق کے ساتھ اور خواہشات نفس سے الگ ہو کر فیصلہ کرناچاہیے۔ حق کے ساتھ فیصلے کرنا امور شرعیہ کے علم، محکوم بہ مقدمے کی صورت کے علم اور اس کو حکم شرعی میں داخل کرنے کی کیفیت کے علم کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی ایک کے علم سے بے بہرہ ہے وہ فیصلہ کرنے کے منصب کا اہل نہیں۔ اسے فیصلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ۱۸۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ خواہش نفس سے بچے اور اس سے کنارہ کش رہے کیونکہ نفس خواہشات سے خالی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے تاکہ حق ہی اس کا مقصود و مطلوب ہو۔ فیصلہ کرتے وقت مقدمے کے فریقین میں سے کسی کے لیے محبت یا کسی کے لیے ناراضی دل سے نکال دے۔ ۱۹۔ حضرت سلیمانu حضرت داؤ دu کے فضائل ہی میں سے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت داؤ دu پر احسان تھا کہ اس نے آپ کو سلیمانu سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے صالح اولاد عطا کرے اور اگر اولاد عالم فاضل ہو تو یہ نور علیٰ نور ہے۔ ۲۰۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمانu کی مدح و ثنا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ١ؕ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ ’’بہت اچھا بندہ اور نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔‘‘ ۲۱۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے خیرکثیر اور ان پر احسان ہے کہ وہ انھیں صالح اعمال اور مکارم اخلاق کی توفیق سے سرفراز کرتا ہے ، پھر ان اخلاق و اعمال کی بنا پر ان کی مدح و ثنا کرتا ہے، حالانکہ وہ خود ہی عطا کرنے والا ہے۔ ۲۲۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانu اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دیتے تھے۔ ۲۳۔ ان آیات سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر کے اپنے اندر مشغول کر لے وہ مذموم اور منحوس ہے۔ بندۂ مومن چاہیے کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائے اور اس چیز کی طرف توجہ دے جو اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ ۲۴۔ ان آیات کریمہ سے یہ مشہور قاعدہ مستفاد ہوتا ہے کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیزترک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے‘‘ چنانچہ سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے، سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کو ذبح کر دیا، جو نفوس کو بہت محبوب ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عوض عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نرم رفتار ہوا کو مسخر کر دیا، جو آپ کے حکم سے اسی سمت میں جس کا آپ قصد و ارادہ کرتے، صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے شیاطین کو مسخر کر دیا جو ایسے کام کر سکتے تھے جنھیں کرنے پر انسان قادر نہ تھے۔ ۲۵۔ سلیمانu ایک بادشاہ اور نبی تھے جو اپنی من مرضی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہ کیا۔ نبیٔ عبد کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوتا ہے اس کا ہر فعل و ترک صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ e کا حال تھا اور یہ زیادہ کامل حال ہے۔
آیت: 41 - 44 #
{وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ (41) ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ (42) وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (43) وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (44)}.
اور یاد کر ہمارے بندے ایوب کو، جب پکارا اس نے اپنے رب کو کہ بلاشبہ پہنچائی مجھے شیطان نے تکلیف اور ا یذا (41) (فرمایا)تومار(زمین پر) اپنا پیریہ (پانی ) ہے غسل کرنے کو ٹھنڈا اور پینے کو (42) اورعطا کیے ہم نے اس کو اس کے گھر والے اور ان کے برابر (اور) ان کے ساتھ، اپنی رحمت سے اور نصیحت واسطے عقل مندوں کے (43) اور پکڑ اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا تنکوں کا(یعنی جھاڑو)اور مار ساتھ اس کے (اپنی بیوی کو) اور نہ توڑ قسم، بے شک پایا ہم نے اسے صابر، اچھا بندہ تھاوہ، بلاشبہ وہ بہت رجوع کرنے والا تھا (44)
#
{41} أي: {واذكر}: في هذا الكتاب ذي الذكر {عبدَنا أيُّوبَ}: بأحسن الذِّكْر، وأثْنِ عليه بأحسن الثناء؛ حين أصابه الضُّرُّ فصبر على ضُرِّه، فلم يشتكِ لغير ربِّه، ولا لجأ إلاَّ إليه. فـ {نادى ربَّه}: داعياً، وإليه لا إلى غيره شاكياً، فقال: ربِّ {إنِّي مَسَّنِيَ الشيطانُ بِنُصْبٍ وعذابٍ}؛ أي: بأمر مُشِقٍّ متعبٍ معذبٍ، وكان سُلِّطَ على جسدِهِ فنفخ فيه حتى تقرَّحَ ثم تقيَّحَ بعد ذلك، واشتدَّ به الأمر، وكذلك هلك أهلُه ومالُه.
[41] ﴿وَاذْكُرْ ﴾ ’’اور یاد کرو‘‘ یعنی نصیحت والی اس کتاب عظیم کے اندر ﴿عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَ ﴾ ’’ہمارے بندے ایوب کا‘‘ بہترین پیرائے میں ذکر کیجیے اور احسن طریقے سے ان کی مدح و ثنا کیجیے جب انھیں تکلیف اور مصیبت پہنچی تو انھوں نے اس تکلیف پر صبر کیا اور غیر کے سامنے اپنے رب کا شکوہ کیا نہ اس کے سوا کسی اور کا سہارا لیا ﴿اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ ﴾ جب ایوبu نے غیراللہ کے پاس نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرتے اور اس سے دعا کرتے ہوئے اسی کو پکارا اور عرض کیا اے میرے رب! ﴿اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ﴾ یعنی شیطان نے مجھے مشقت انگیز اور نہایت تکلیف دہ عذاب میں ڈال دیا ہے۔ شیطان کو آپ کے جسد پر تسلط حاصل ہو گیا اس نے پھونک ماری تو جسم پر پھوڑے بن گئے ، پھر ان سے پیپ بہنے لگی اور اس کے بعد معاملہ بہت سخت ہو گیا اور اسی طرح ان کا مال اور ان کے اہل و عیال بھی ہلاک ہو گئے۔
#
{42} فقيل له: {اركُضْ برِجْلِكَ}؛ أي: اضربِ الأرض بها؛ لينبعَ لك منها عينٌ تغتسلُ منها وتشربُ، فيذهب عنك الضرُّ والأذى، ففعل ذلك، فذهب عنه الضرُّ وشفاه الله تعالى.
[42] ان سے کہا گیا ﴿اُرْؔكُ٘ضْ بِرِجْلِكَ ﴾ یعنی اپنی ایڑی زمین پر ماریں آپ کے لیے ایک چشمہ زمین سے پھوٹ پڑے گا، اس چشمے کا پانی پیجیے اور اس سے غسل کیجیے۔ آپ کی بیماری اور تکلیف دور ہو جائے گی۔ آپ نے ایسا ہی کیا آپ کی بیماری دور ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا بخش دی۔
#
{43} {ووهَبْنا له أهلَه}: قيل: إنَّ الله تعالى أحياهم له {ومثلَهُم معهم}: في الدنيا، وأغناه الله وأعطاه مالاً عظيماً، {رحمةً منَّا}: بعبدنا أيوبَ حيث صَبَرَ فأثبناه من رحمتنا ثواباً عاجلاً وآجلاً. {وذِكرى لأولي الألبابِ}؛ أي: وليتذكَّر أولو العقول بحالةِ أيُّوب ويعتبِروا فيعلموا أنَّ مَنْ صَبَرَ على الضُّرِّ؛ فإنَّ الله تعالى يُثيبه ثواباً عاجلاً وآجلاً ويستجيبُ دعاءه إذا دعاه.
[43] ﴿وَوَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ﴾ ’’اور ہم نے انھیں ان کے اہل و عیال عطا کردیے۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل و عیال کو زندہ کر دیا تھا۔ ﴿وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ ﴾ اور دنیا میں اتنے ہی اور عطا کر دیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ مال سے بہرہ مند کر کے نہایت مال دار کر دیا ﴿رَحْمَةً مِّؔنَّا ﴾ یعنی ہماری طرف سے ہمارے بندے ایوب پر رحمت تھی کیونکہ انھوں نے صبر کیا اور ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ ﴾ تاکہ عقل مند لوگ حضرت ایوبu کی حالت سے نصیحت اور عبرت پکڑیں اور انھیں معلوم ہو جائے کہ جو کوئی مصیبت میں صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیاوی اور اخروی ثواب سے نوازتا ہے اور جب وہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔
#
{44} {وخُذْ بيدِكَ ضِغْثاً}؛ أي: حزمة شماريخ، {فاضْرِبْ به ولا تَحْنَثْ}: قال المفسِّرون: وكان في مرضه وضُرِّه قد غضب على زوجتِهِ في بعض الأمور، فحلف لئن شفاهُ الله ليضرِبَنَّها مائةَ جلدةٍ، فلمَّا شفاه الله، وكانت امرأتُه صالحةً محسنةً إليه؛ رحمها الله ورحمه، فأفْتاه أن يضرِبَها بِضِغْثٍ فيه مائةُ شمراخ ضربةً واحدةً فيبَرَّ في يمينه. {إنا وجَدْناه}؛ أي: أيوب {صابراً}؛ أي: ابتليناه بالضُّرِّ العظيم فصبر لوجه الله تعالى. {نعم العبدُ}: الذي كَمَّلَ مراتبَ العبوديَّة في حال السرَّاءِ والضرَّاءِ والشدَّة والرَّخاء، {إنَّه أوابٌ}؛ أي: كثير الرجوع إلى الله في مطالبه الدينيَّة والدنيويَّة، كثير الذِّكْرِ لربِّه والدعاء والمحبة والتألُّه.
[44] اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ایوبu کو حکم دیا ﴿وَخُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا ﴾ ’’اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو۔‘‘ یعنی درخت کی باریک شاخوں کا گٹھا ﴿فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْ ﴾ ’’اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ ایوبu بیماری اور تکلیف کے دوران کسی معاملے میں اپنی بیوی سے ناراض ہو گئے تھے، اس پر آپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو سو کوڑے ماریں گے۔ ان کی بیوی، انتہائی نیک اور آپ کے ساتھ بھلائی کرنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خاتون پر اور حضرت ایوبu پر رحم فرمایا اور فتویٰ دیا کہ وہ درخت کی باریک سو شاخوں کا گٹھا لے کر اس سے ایک ہی دفعہ ماریں ان کی قسم پوری ہو جائے گی۔ ﴿اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ﴾ یعنی ہم نے آپ کو بہت بڑی بیماری اور تکلیف کے ذریعے سے آزمایا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کیا۔ ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ ﴾ ’’وہ بہترین بندے تھے‘‘ جنھوں نے خوشی اور مصیبت، خوش حالی اور بدحالی میں عبودیت کے مراتب کی تکمیل کی ﴿اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی مطالب میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے، اپنے رب کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے، اس کو بہت زیادہ پکارنے والے، اس سے محبت اور اس کی عبادت کرنے والے تھے۔
آیت: 45 - 47 #
{وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ (45) إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (46) وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ (47)}.
اوریاد کیجیے! ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اصحاب قوت و بصیرت کو (45) بے شک چن لیا تھا ہم نے ان کو ایک خاص (خصلت) کے ساتھ (وہ ہے) یاد آخرت (46) اور بے شک وہ ہمارے نزدیک البتہ برگزیدہ نیک بندوں میں سے تھے (47)
#
{45} يقول تعالى: {واذْكُرْ عِبَادَنا}: الذين أخلصوا لنا العبادةَ ذكراً حسناً {إبراهيم}: الخليل {و} ابنه {إسحاقَ} وابن ابنه {يعقوب أولي الأيدي}؛ أي: القوَّة على عبادة اللَّه تعالى، {والأبصار}؛ أي: البصيرة في دين اللَّه. فوصَفَهم بالعلم النافع والعمل الصالح الكثير.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ﴾ ’’ہمارے اور بندوں کا ذکر کیجیے‘‘ جنھوں نے خالص ہماری عبادت کی اور ہمیں اچھی طرح یاد کیا ﴿اِبْرٰهِیْمَ ﴾ ’’ابراہیم‘‘ خلیل اللہ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ ان کے بیٹے ﴿اِسْحٰقَ وَ﴾ ’’اسحاق اور ان (ابراہیمu) کے پوتے ﴿یَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ ﴾ ’’یعقوب یہ سب قوت والے تھے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے قوت رکھتے تھے۔ ﴿وَالْاَبْصَارِ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کے دین میں بصیرت سے بہرہ مند تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سب کو علم نافع اور عمل صالح سے موصوف کیا۔
#
{46} {إنَّا أخْلَصْنَاهم بخالصةٍ}: عظيمة وخصيصةٍ جسيمةٍ، وهي: {ذِكْرى الدارِ}: جعلنا ذكرى الدارِ الآخرةِ في قلوبهم والعملَ لها صفوةَ وقتِهِم. والإخلاصُ والمراقبةُ لله وَصْفُهُمُ الدائمُ، وجَعَلْناهم ذكرى الدار، يتذكَّر بأحوالِهِم المتذكِّرُ ويعتبرُ بهم المعتبِرُ، ويُذْكَرونَ بأحسن الذِّكر.
[46] ﴿اِنَّـاۤ٘ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ﴾ ’’بے شک ہم نے انہیں ایک امتیازی بات کے ساتھ خاص کیا۔‘‘ یعنی بہت بڑی خالص صفت کے ساتھ جو کہ ﴿ذِكْرَى الدَّارِ﴾ ’’آخرت کی یاد ہے‘‘ یعنی ہم نے آخرت کی یاد ان کے دلوں میں جاگزیں کر دی، عمل صالح کو ان کے وقت کا مصرف، اخلاص اور مراقبہ کو ان کا دائمی وصف بنا دیا۔ ہم نے ان کو اس طرح آخرت کی یاد بنا دیا کہ نصیحت پکڑنے والا ان کے احوال سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنے والا عبرت حاصل کرتا ہے اور یہ بہترین طریقے سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔
#
{47} {وإنَّهم عندنا لَمِنَ المُصْطَفَيْنَ}: الذين اصطفاهم الله من صفوة خلقه {الأخيار}: الذين لهم كلُّ خُلُق كريم وعمل مستقيم.
[47] ﴿وَاِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَ٘مِنَ الْمُصْطَفَیْنَ ﴾ ’’اور یقینا وہ ہمارے نزدیک منتخب لوگوں میں سے ہیں‘‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین مخلوق میں سے چن لیا۔ ﴿الْاَخْیَارِ﴾ ’’بہترین لوگ ہیں‘‘ یعنی وہ لوگ اخلاق کریمہ اور عمل صالح کے حامل ہیں۔
آیت: 48 - 0 #
{وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ (48) هَذَا ذِكْرٌ}.
اوریاد کیجیے ! اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو، اور ہر ایک (ان میں سے) نیکوں میں سے تھا (48) یہ ایک نصیحت ہے اور بے شک واسطے متقیوں کے البتہ اچھا ٹھکانا ہے(49)
#
{48} أي: واذكر هؤلاء الأنبياء بأحسن الذِّكْر، وأثنِ عليهم أحسن الثناء؛ فإنَّ كلاًّ منهم من الأخيار، الذين اختارهم الله من الخلق، واختار لهم أكمل الأحوال من الأعمال والأخلاق والصفاتِ الحميدةِ والخصال السديدةِ.
[48] یعنی ان انبیائے کرام کو احسن طریقے سے یاد کیجیے اور بہترین طریقے سے ان کی مدح و ثنا کیجیے کیونکہ یہ سب بہترین لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے چن لیا، ان کو کامل ترین احوال، بہترین اعمال واخلاق، قابل تعریف اوصاف اور درست خصائل کا حامل بنایا۔
#
{49} هذا؛ أي: ذِكْرُ هؤلاء الأنبياء الصفوة، وذِكْر أوصافهم {ذِكْرٌ}: في هذا القرآن ذي الذكر، يَتَذَكَّرُ بأحوالهم المتذكِّرون، ويشتاقُ إلى الاقتداء بأوصافهم الحميدةِ المقتدونَ، ويُعَرفُ ما منَّ الله عليهم به من الأوصاف الزكيَّة، وما نَشَرَ لهم من الثناء بين البريَّة. فهذا نوعٌ من أنواع الذكر، وهو ذكر أهل الخير.
[49] ﴿هٰؔذَا ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین اور ان کے اوصاف کا تذکرہ تو ﴿ذِكْرٌ ﴾ ’’نصیحت ہے‘‘ اس نصیحت کرنے والے قرآن کریم تاکہ ان کے احوال سے نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کریں، اقتدا کرنے والے ان کے اوصاف حمیدہ کی پیروی کے مشتاق ہوں اور ان اوصاف زکیہ اور ثنائے حسن کی معرفت حاصل ہو، جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا۔ یہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے، یعنی اہل خیر کا تذکرہ، اہل خیر اور اہل شر کی جزا و سزا کا تذکرہ بھی ذکر ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَاِنَّ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ ﴾ یعنی ان تمام مومنین اور مومنات کے لیے جو اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کرتے ہیں ﴿لَحُسْنَ مَاٰبٍ﴾ بہترین ٹھکانا اور خوب ترین مرجع ہے۔
آیت: 49 - 54 #
{وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ (49) جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ (50) مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ (51) وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ (52) هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ (53) إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ (54)}
باغات ہیں ہمیشہ رہنے کے، کھولے جائیں گے ان کے لیے (ان کے) دروازے (50) تکیہ لگائے ہوں گے ان میں، منگوائیں گے وہ ان میں میوے بہت سے اور شراب (51) اور ان کے پاس ہوں گی نیچی نگاہ رکھنے والیں ہم عمر(بیویاں) (52) (انھیں کہا جائے گا)یہ ہے (وہ جزا)جس کا وعدہ دیے جاتے تھے تم واسطے یوم حساب کے (53) بے شک یہ البتہ ہمارا رزق ہے، نہیں ہے اس کے لیے ختم ہونا (54)
#
{50} ثم فسَّره وفصَّله فقال: {جناتِ عدنٍ}؛ أي: جنات إقامةٍ لا يبغي صاحبها بدلاً منها من كمالها وتمام نعيمها، وليسوا بخارجين منها ولا بمُخْرَجينَ، {مفتَّحةً لهم الأبوابُ}؛ أي: مفتحة لأجلهم أبوابُ منازِلِها ومساكِنِها، لا يحتاجونَ أن يَفْتَحوها هم، بل هم مخدومونَ، وهذا دليلٌ أيضاً على الأمان التامِّ، وأنَّه ليس في جناتِ عدنٍ ما يوجِبُ أن تُغَلَّقَ لأجلِهِ أبوابُها.
[50] پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین ٹھکانے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿جَنّٰتِ عَدْنٍ ﴾ یعنی ہمیشہ سرسبز وشاداب رہنے والے باغات، ان کے کمال اور ان کی نعمتوں کے باعث یہاں کے رہنے والے ان کو کبھی بدلنا نہیں چاہیں گے۔ وہ وہاں سے خود نکلیں گے نہ ان کو نکالا جائے گا ﴿مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ﴾ یعنی ان کی خاطر جنت کی منازل و مساکن کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے، ان کو خود دروازے کھلوانے کی حاجت نہیں ہو گی بلکہ ان کی خدمت کی جائے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں مکمل امن و امان ہو گا۔ جنت عدن میں کوئی ایسی خطرے کی بات نہ ہو گی جو دروازے بند رکھنے کی موجب ہو۔
#
{51} {متكئين فيها}: على الأرائك المزيَّنات والمجالس المزخرفات. {يَدْعون فيها}؛ أي: يأمرون خدَّامهم أن يأتوا {بفاكهةٍ كثيرةٍ وشرابٍ}: من كلِّ ما تشتهيه نفوسُهم وتلذُّه أعينُهم، وهذا يدلُّ على كمال النعيم وكمال الراحة والطُّمأنينة وتمام اللَّذَّة.
[51] ﴿مُتَّـكِـــِٕیْنَ فِیْهَا ﴾ وہ سجائی ہوئی نشست گاہوں اور آراستہ کیے ہوئے تختوں پر ٹیک لگا کر بیٹھیں گے ﴿یَدْعُوْنَ فِیْهَا ﴾ یعنی وہ اپنے خدام کو حکم دیں گے ﴿بِفَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ وَّشَرَابٍ ﴾ کہ وہ ان کی خدمت میں بکثرت پھل اور مشروبات پیش کریں، جن کو ان کے نفس پسند کریں گے اور ان کی آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہاں ان کو کامل نعمت، کامل راحت و طمانینت اور کامل لذت حاصل ہو گی۔
#
{52} {وعندَهم}: من أزواجهم الحور العين {قاصراتُ} طرفهن على أزواجهنَّ، وطَرْفِ أزواجهنَّ عليهنَّ لجمالهم كلِّهم ومحبَّة كلٍّ منهما للآخر وعدم طموحِهِ لغيره، وأنَّه لا يبغي بصاحبه بدلاً ولا عنه عِوَضاً، {أترابٌ}؛ أي: على سنٍّ واحدٍ، أعدل سنِّ الشباب وأحسنُه وألذُّه.
[52] ﴿وَعِنْدَهُمْ ﴾ ’’ان کے پاس‘‘ گوری چٹی موٹی آنکھوں والی بیویاں ہوں گی۔ ﴿قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ﴾ یعنی دونوں میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے حسن و جمال اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے باعث نظریں جھکائے ہوئے ہوں گے، وہ دونوں میاں بیوی کسی اور طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھیں گے، وہ اپنے ساتھی کو بدلنا چاہیں گے نہ اس کے عوض کچھ اور چاہیں گے ﴿اَتْرَابٌ ﴾ یعنی وہ میاں بیوی ہم عمر ہوں گے۔ وہ جوانی کے بہترین دور اور انتہائی لذت انگیز عمر میں ہوں گے۔
#
{53} {هذا ما توعَدونَ}: أيُّها المتَّقونَ {ليوم الحسابِ}: جزاء على أعمالِكُم الصالحة.
[53] ﴿هٰؔذَا مَا تُوْعَدُوْنَ ﴾ ’’(اے تقویٰ شعار لوگو!) یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا‘‘ ﴿لِیَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ’’حساب کے دن کے لیے‘‘ یہ تمھارے نیک اعمال کی جزا ہے۔
#
{54} {إنَّ هذا لرِزْقُنا}: الذين أوردناه على أهل دار النعيم {ما له من نفادٍ}؛ أي: انقطاع، بل هو دائمٌ مستقرٌّ في جميع الأوقات، متزايدٌ في جميع الآنات، وليس هذا بعظيم على الربِّ الكريم، الرءوف الرحيم، البَرِّ الجواد، الواسع الغني، الحميد اللطيف، الرحمن، الملك الديان، الجليل الجميل المنان، ذي الفضل الباهر والكرم المتواتر، الذي لا تُحصى نعمُه ولا يُحاط ببعض بِرِّه.
[54] ﴿اِنَّ هٰؔذَا لَرِزْقُنَا ﴾ ’’یقینا یہ ہمارا رزق ہے‘‘ جو ہم نے اہل جنت کو عطا کیا ہے ﴿مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ﴾ یہ رزق کبھی منقطع نہ ہو گا بلکہ وہ دائمی ہو گا اور ہر آن اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ سب کچھ رب کریم کے لیے کوئی بڑا کام نہیں ہے جو رؤ وف و رحیم، محسن و جواد، واسع و غنی، قابل تعریف، لطف عظیم کا حامل، نہایت مہربان بادشاہ، بااختیار، جلیل القدر، جمیل الشان، احسان کرنے والا، بے پناہ فضل اور متواتر کرم کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے جس کی نعمتوں کو شمار کیا جا سکتا ہے نہ اس کے کسی احسان کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
آیت: 55 - 64 #
{هَذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ (55) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ (56) هَذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ (57) وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ (58) هَذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ (59) قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا فَبِئْسَ الْقَرَارُ (60) قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ (61) وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ (62) أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ (63) إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ (64)}.
یہ ہے (معاملہ اہل خیر کا) اور بلاشبہ سرکشوں کے لیے البتہ بہت برا ٹھکانا ہے (55) (یعنی ) جہنم، داخل ہوں گے وہ اس میں، پس بری ہے آرام کرنے کی جگہ (56) یہ ہے، پس چکھیں وہ اس کو، کھولتا ہوا پانی اور پیپ (57) اور دوسرے (عذاب) ہیں، اس کی مثل ہی، کئی قسم کے (58) یہ ہے ایک گروہ جو گھسا چلا آتا ہے تمھارے ساتھ، نہ زمین کی فراخی ہو ان کے لیے، بے شک یہ داخل ہونے والے ہیں آگ میں(59) وہ کہیں گے، نہ زمین کی فراخی ہو تمھارے لیے، تم ہی آگے لائے ہو اس کو ہمارے، پس بری قرار گاہ ہے (60) وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! جو آگے لایا ہمارے یہ(عذاب) پس زیادہ کر اس کو عذاب دگنا آگ میں (61) اور وہ کہیں گے، کیا ہے ہمارے لیے، نہیں ہم دیکھتے ان آدمیوں کو کہ تھے ہم شمار کرتے ان کو برے لوگوں میں؟ (62) کیا بنائے رکھا ہم نے ان کو(دنیا میں) مذاق(غلط طور پر) یا پھر گئیں ان سے(ہماری) نگاہیں؟ (63) بلاشبہ یہ البتہ حق ہے، باہم جھگڑنا اہل دوزخ کا (64)
#
{55} {هذا} الجزاء للمتَّقين ما وصفناه، {وإنَّ للطَّاغين}؛ أي: للمتجاوزين للحدِّ في الكفر والمعاصي {لَشَرَّ مآبٍ}؛ أي: لشرَّ مرجع ومُنْقَلَبٍ.
[55] ﴿هٰؔذَا ﴾ ’’یہ‘‘ جزا جس کا ہم نے وصف بیان کیا ہے اہل تقویٰ کے لیے ہے ﴿وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ ﴾ یعنی کفرومعاصی میں حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کے لیے ﴿لَشَرَّ مَاٰبٍ﴾ بدترین ٹھکانا اور لوٹنے کی جگہ ہے۔
#
{56} ثم فَصَّلَه فقال: {جَهَنَّم}: التي جمع فيها كلَّ عذاب واشتدَّ حرُّها وانتهى قرُّها {يَصْلَوْنها}؛ أي: يعذَّبون فيها عذاباً يحيطُ بهم من كل وجهٍ، لهم من فوقهم ظلل من النار ومن تحتهم ظلل. {فبئس المِهادُ}: المعدُّ لهم مسكناً ومستقرًّا.
[56] پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿جَهَنَّمَ ﴾ ’’جہنم ہے‘‘ جس میں ہر قسم کا عذاب جمع کر دیا گیا ہے، جس کی حرارت بہت شدید اور اس کی ٹھنڈک انتہا کو پہنچی ہوئی ہو گی۔ ﴿یَصْلَوْنَهَا ﴾ جہاں ان کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہ عذاب انھیں ہر طرف سے گھیر لے گا ان کے نیچے بھی آگ ہو گی اور اوپر سے بھی آگ برسے گی۔ ﴿فَ٘بِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ بدترین مسکن اور ٹھکانا ہو گا جو ان کے لیے تیار کیا گیا ہو گا۔
#
{57} {هذا}: المهاد، هذا العذاب الشديد والخزي والفضيحة والنَّكالُ. {فَلْيَذوقوهُ حميمٌ}: ماءٌ حارٌّ قد اشتدَّ حرُّه، يشربونه فيقطِّع أمعاءهم، {وغَسَّاقٌ}: وهو أكرهُ ما يكون من الشرابِ من قيح وصديدٍ، مرِّ المذاق، كريه الرائحة.
[57] ﴿هٰؔذَا ﴾ یہ بدترین ٹھکانا، یہ سخت عذاب، یہ فضیحت و رسوائی اور یہ سزا ﴿فَلْیَذُوْقُ٘وْهُ۠ حَمِیْمٌ ﴾ پس اسے چکھو، کھولتا ہوا پانی ہو گا، جو سخت گرم ہو گا جسے جہنمی پئیں گے جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔ ﴿وَّغَسَّاقٌ﴾ یہ بدترین پینے کی چیز ہو گی جو پیپ اور خون پر مشتمل ہو گی جو بہت کڑوی اور انتہائی بدبودار ہوگی۔
#
{58} {وآخرُ من شكلِهِ}؛ أي: من نوعه {أزواجٌ}؛ أي: عدَّة أصناف من أصناف العذاب، يعذَّبون بها ويُخْزَوْنَ بها.
[58] ﴿وَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖ٘ۤ ﴾ یعنی اس کی ایک اور قسم ﴿اَزْوَاجٌ﴾ یعنی عذاب کی متعدد انواع و اقسام ہوں گی جن میں ان کو مبتلا کیا جائے گا اور اس عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کیا جائے گا۔ جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے تو ایک دوسرے کو سب و شتم کرتے ہوئے کہیں گے۔
#
{59 ـ 60} وعند توارُدِهِم على النار يشتُمُ بعضُهم بعضاً ويقول بعضُهم لبعضٍ: {هذا فوجٌ مقتحمٌ معكم}: النار {لا مرحباً بهم إنَّهم صالوا النار. قالوا}؛ أي: الفوج المقبِلُ المقتحم: {بل أنتُم لا مرحباً بكم أنتم قدَّمْتُموه}؛ أي: العذاب {لنا}: بدعوتِكُم لنا وفِتْنَتِكم وإضْلالِكُم وتسبُّبكم. {فبئس القرارُ}: قرار الجميع قرار السَّوْء والشرِّ.
[59، 60] ﴿هٰؔذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ ﴾ ’’یہ ایک فوج ہے جو تمھارے ساتھ گھسی چلی آرہی ہے‘‘ آگ میں ﴿لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْ١ؕ اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ ﴾ ’’ان کے لیے کوئی خیرمقدم نہیں ہے یہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔‘‘ ﴿قَالُوْا ﴾ وہ گھسے چلے آنے والے لوگ کہیں گے: ﴿بَلْ اَنْتُمْ١۫ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ١ؕ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ ﴾ ’’بلکہ تم ہی ہو تمھارا خیر مقدم نہ ہو تم ہی تو لائے تھے اسے‘‘ یعنی عذاب کو ﴿لَنَا ﴾ ’’ہمارے پاس‘‘ کیونکہ تم نے ہمیں دعوت دی، ہمیں فتنے میں مبتلا کر کے گمراہ کیا اور تم ہی ہمارے لیے اس عذاب کا سبب بنے ہو۔ ﴿فَ٘بِئْسَ الْ٘قَرَارُ ﴾ اب ہم سب کے لیے یہ بدترین ٹھکانا ہے۔
#
{61} ثم دعوا على المغوين لهم: {قالوا ربَّنا مَن قَدَّمَ لنا هذا فَزِدْهُ عذاباً ضِعْفاً في النارِ}. وقال في الآية الأخرى: {قال لِكُلٍّ ضعفٌ ولكن لا تعلمون}.
[61] پھر وہ ان گمراہ کنندہ لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے اور ﴿قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰؔذَا فَزِدْهُ عَذَابً٘ا ضِعْفًا فِی النَّارِ ﴾ ’’کہیں گے: اے ہمارے رب! جو اس کوہمارے سامنے لایا ہے، اسے دوزخ میں دوگنا عذاب دینا۔‘‘ ایک دوسری آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لِكُ٘لٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ﴾ (الاعراف: 7؍38) ’’سب کے لیے دوگنا عذاب ہے، مگر تم جانتے نہیں۔‘‘
#
{62} {وقالوا}: وهم في النار: {ما لَنا لا نرى رِجالاً كُنَّا نعدُّهم من الأشرارِ}؛ أي: كنَّا نزعُمُ أنَّهم من الأشرارِ المستحقِّين لعذاب النار، وهم المؤمنون، تَفَقَّدَهُم أهلُ النار قبَّحَهم الله؛ هل يَرَوْنَهم في النار؟
[62] ﴿وَقَالُوْا﴾ اور وہ جہنم کے اندر کہیں گے: ﴿مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ﴾ یعنی ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جن کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ برے لوگ ہیں اور جہنم کے عذاب کے مستحق ہیں وہ آج ہمیں نظر نہیں آرہے؟ مراد اہل ایمان ہیں، جہنمی ان کو جہنم میں تلاش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، کیا وہ ان کو جہنم میں نظر آئیں گے؟
#
{63} {أتَّخَذْناهُم سِخْرِيًّا أم زاغَتْ عنهُمُ الأبصارُ}؛ أي: عدم رؤيتنا لهم دائرٌ بين أمرينِ: إمَّا أنَّنا غالِطونَ في عدِّنا إيَّاهم من الأشرارِ، بل هم من الأخيارِ، وإنَّما كلامُنا لهم من باب السُّخرية والاستهزاء بهم، وهذا هو الواقع؛ كما قال تعالى لأهل النار: {إنَّه كان فريقٌ من عِبادي يقولون رَبَّنا آمَنَّا فاغْفِرْ لنا، وارْحَمْنا وأنت خيرُ الراحمين. فاتَّخَذْتُموهم سِخْريًّا حتى أنْسَوْكُم ذِكْري وكنتُم منهم تضحكونَ}. والأمرُ الثاني: أنَّهم لعلَّهم زاغتْ أبصارُنا عن رؤيتهم معنا في العذاب، وإلاَّ؛ فهم معنا معذَّبون، ولكن تجاوزَتْهُم أبصارُنا! فيُحتمل أنَّ هذا الذي في قلوبهم، فتكون العقائدُ التي اعتقدوها في الدُّنيا وكثرة ما حكموا لأهل الإيمان بالنار تمكَّنتْ من قلوبِهم وصارتْ صبغةً لها، فدخلوا النار وهم بهذه الحالة، فقالوا ما قالوا. ويُحتمل أنَّ كلامَهم هذا كلامُ تمويهٍ؛ كما موَّهوا في الدُّنيا موَّهوا حتى في النار، ولهذا يقول أهلُ الأعراف لأهل النار: {أهؤلاء الذين أقْسَمْتُم لا ينالُهُمُ الله برحمةٍ، ادْخُلوا الجنةَ لا خوفٌ عليكم ولا أنتم تحزنونَ}.
[63] ﴿اَتَّؔخَذْنٰهُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ ﴾ ’’کیا ہم نے ان سے مذاق کیا تھا یا ہماری آنکھیں پھر گئی ہیں۔‘‘ یعنی ان کا ہمیں نظر نہ آنا دو اسباب میں سے ایک سبب پر مبنی ہے یا تو ہم ان کو اشرار شمار کرنے میں غلطی پر تھے، حالانکہ وہ اچھے لوگ تھے۔ تب ان کے بارے میں ہماری باتیں تمسخر و استہزا کے زمرے میں آئیں گی۔ حقیقت فی الواقع یہی ہے جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌؔ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْ٘فِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ۰۰ فَاتَّؔخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰۤى اَنْسَوْؔكُمْ ذِكْرِیْ وَؔكُنْتُمْ مِّؔنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ ﴾ (المؤمنون: 23؍109-110) ’’بے شک میرے بندوں میں سے کچھ لوگ جب یہ کہتے، اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے، پس ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور تو سب سے اچھا رحم فرمانے والا ہے، تو تم نے ان کا تمسخر اڑایا اور انھیں نشانۂ تضحیک بنایا کرتے تھے۔‘‘ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوں مگر وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ ان کا اہل ایمان کے بارے میں یہ موقف، دنیا میں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ کر عقائد میں ڈھل گیا تھا، انھوں نے اہل ایمان کے بارے میں نہایت کثرت سے جہنمی ہونے کا حکم لگایا، وہ ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا اور ان کے دل اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اسی حال میں انھوں نے متذکرہ بالا الفاظ کہے۔ یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا کلام، خلاف واقعہ اور ملمّع سازی کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ وہ دنیا میں ملمع سازی کیا کرتے تھے، حتی کہ انھوں نے جہنم میں بھی ملمع سازی کی اسی لیے اہل اعراف اہل جہنم سے کہیں گے: ﴿اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَ٘قْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ١ؕ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ﴾ (الاعراف: 7؍49) ’’کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے بارے میں تم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند نہیں کرے گا۔ ان کو یوں حکم ہوگا کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ تم پر کوئی خوف ہے نہ تم غمگین ہوگے۔‘‘
#
{64} قال تعالى مؤكِّداً ما أخبر به، وهو أصدقُ القائلين: {إنَّ ذلك}: الذي ذكرتُ لكم {لَحَقٌّ}: ما فيه شكٌّ ولا مِرْيةٌ {تخاصُمُ أهل النارِ}.
[64] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی دی ہوئی خبر کی تاکید کے طور پر فرمایا اور وہ سب سے زیادہ سچ کہنے والا ہے۔ ﴿اِنَّ ذٰلِكَ ﴾ ’’بے شک یہ‘‘ جس کا میں نے تمھارے سامنے ذکر کیا ہے ﴿لَحَقٌّ ﴾ ’’حق ہے‘‘ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ﴿تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ ﴾ ’’اہل جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا اور تنازعہ ہے۔‘‘
آیت: 65 - 88 #
{قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (65) رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (66) قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ (67) أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ (68) مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ (69) إِنْ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (70) إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ (71) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (72) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (73) إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (74) قَالَ يَاإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ (75) قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (76) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (77) وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (78) قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (79) قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (80) إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (81) قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (82) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (83) قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ (84) لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (85) قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (86) إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (87) وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ (88)}.
کہہ دیجیے:بے شک میں تو صرف ایک ڈرانے والا ہوں، اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کےجو ایک ہے بڑا زبردست (65) رب آسمانوں اور زمین کا اور (ان کا) جو کچھ ان (دونوں)کے درمیان میں ہے، بڑا غالب، بہت معاف کرنے والا (66)کہہ دیجیے:وہ ایک خبر ہے بہت بڑی (67) تم اس سے اعراض کرنے والے ہو (68) نہیں تھا مجھے کوئی علم مجلس بالا کا، جب وہ تکرار کر رہے تھے(69) نہیں وحی کی جاتی میری طرف مگر یہی کہ بے شک میں تو صرف ایک ڈرانے والا ہوں کھول کر (70) جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے، بے شک میں پیدا کرنے والا ہوں ایک انسان مٹی سے (71) پس جب میں ٹھیک بنا دوں اسے اور پھونک دوں اس میں اپنی طرف سے روح، تو گر پڑنا تم اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے(72) پس سجدہ کیافرشتوں نے سب کے سب نے اکٹھے (73) سوائے ابلیس کے، اس نے تکبر کیا اور ہو گیا وہ کافروں میں سے (74)اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! کس چیز نے منع کیا تجھے سجدہ کرنے سے، اس کو جسے پیدا کیا میں نے اپنے ہاتھوں سے، کیا تکبر کیا تو نے یا تھا تو بلند درجہ لوگوں میں سے؟ (75) اس نے کہا، میں بہتر ہوں اس سے، پیدا کیا تو نے مجھے آگ سے اورپیدا کیا تو نے اسے مٹی سے (76)فرمایا: پس نکل جا تو یہاں سے، پس بے شک تو مردود ہے (77) اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے روز جزا تک (78) اس نے کہا: اے میرے رب! پس مہلت دے تو مجھے، اس دن تک کہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے(79) فرمایا، پس بلاشبہ تو مہلت دیے گئے لوگوں میں سے ہے (80) اس دن تک جس کا وقت معلوم (عند اللہ مقرر) ہے(81)اس نے کہا : قسم ہے تیری عزت کی، البتہ میں ضرور گمراہ کروں گا ان کو سب کو (82) سوائے تیرے بندوں ان میں سےخالص کیے(چنے) ہوئے (83) فرمایا، پس حق یہی ہے اور حق بات ہی میں کہتا ہوں (84) البتہ میں ضرور بھر دوں گا جہنم کو تجھ سے اوران سے جو پیروی کریں گے تیری ان میں سے ، سب سے (85) کہہ دیجیے:نہیں مانگتا میں تم سے اوپر اس کے کوئی اجر اور نہیں ہوں میں تکلف کرنے والوں میں سے (86) نہیں ہے یہ (قرآن) مگر نصیحت واسطے جہانوں کے (87) اور البتہ ضرور جان لو گے تم حال اس کا بعد کچھ مدت کے (88)
#
{65} {قل}: يا أيُّها الرسولُ لهؤلاء المكذِّبين إنْ طَلَبوا منك ما ليس لك ولا بيدِكَ: {إنَّما أنا منذرٌ}: هذا نهايةُ ما عندي، وأمَّا الأمرُ؛ فلله تعالى، ولكني آمرُكُم وأنهاكُم وأحثُّكم على الخير وأزجُرُكم عن الشرِّ؛ فمنِ اهتدى فلنفسِهِ، ومن ضلَّ فعليها. {وما مِنْ إلهٍ إلاَّ الله}؛ أي: ما أحدٌ يؤلَّه ويُعبدُ بحقِّ إلاَّ الله، {الواحدُ القهارُ}: هذا تقريرٌ لألوهيَّته بهذا البرهان القاطع، وهو وحدتُه تعالى وقهرُه لكلِّ شيء؛ فإنَّ القهر ملازمٌ للوحدة؛ فلا يكون قهّارَيْنِ متساوِيَيْنِ في قهرهما أبداً، فالذي يقهر جميع الأشياءِ هو الواحدُ الذي لا نظير له، وهو الذي يستحقُّ أن يُعْبَدَ وحدَه كما كان قاهراً وحدَه.
[65] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! اگر یہ جھٹلانے والے لوگ آپ سے ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں، تو ان سے کہہ دیجیے! ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ ﴾ ’’میں تو صرف متنبہ کرنے والا ہوں۔‘‘ میرے پاس جو کچھ ہے یہ اس کی انتہا ہے۔ رہا تمھارا مطالبہ، تو یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا ہوں، برائی سے روکتا ہوں، میں تمھیں خیر کی ترغیب دیتا ہوں اور شر سے ہٹاتا ہوں۔ پس جو کوئی ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے لیے ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے۔ ﴿وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ یعنی اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، جس کی عبادت کی جائے اور وہ عبادت کی مستحق ہو۔ ﴿الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ ’’وہ واحد و قہار ہے۔‘‘ اس قطعی دلیل و برہان کے ذریعے سے یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے کیونکہ غلبہ وحدت کو مستلزم ہے۔ پس کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ دو ہستیاں مساوی طور پر غالب ہوں۔ پس وہ ہستی جو تمام کائنات پر غالب و قاہر ہے، وہ ایک ہی ہے۔ اس کی کوئی نظیر نہیں، وہی اس بات کی مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے، جیسا کہ وہ اکیلی غالب ہے۔
#
{66} وقرَّر ذلك أيضاً بتوحيد الربوبيَّة، فقال: {ربُّ السمواتِ والأرضِ وما بينَهما}؛ أي: خالقُهما ومربِّيهما ومدبِّرُهما بجميع أنواع التدابير، {العزيزُ}: الذي له القوة التي بها خَلَقَ المخلوقاتِ العظيمة. {الغفَّارُ}: لجميع الذنوب؛ صغيرها وكبيرها، لمن تاب إليه وأقلع منها. فهذا الذي يحبُّ، ويستحقُّ أن يُعْبَدَ دونَ مَنْ لا يخلُق، ولا يرزُق ولا يضرُّ، ولا ينفعُ، ولا يملِكُ من الأمر شيئاً، وليس له قوَّةُ الاقتدار، ولا بيدِهِ مغفرةُ الذُّنوب والأوزار.
[66] پھر اللہ تعالیٰ نے توحید ربوبیت کی دلیل کے ذریعے سے اس کو متحقق کرتے ہوئے فرمایا: ﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ﴾ ’’وہ آسمانوں اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے‘‘ یعنی وہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اس کی پرورش کرنے والا اور تمام انواع تدبیر کے ذریعے سے اس کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ﴿الْ٘عَزِیْزُ ﴾ وہ ایسی قوت کا مالک ہے جس کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا۔ ﴿الْغَفَّارُ ﴾ جو کوئی توبہ کر کے گناہوں سے باز آجاتا ہے وہ اس کے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ پس یہی وہ ہستی ہے جو ہر اس ہستی کے سوا عبادت اور محبت کیے جانے کی مستحق ہے… جو پیدا کر سکتی ہے نہ رزق دے سکتی ہے، جو نقصان پہنچا سکتی ہے نہ نفع، جسے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں، جس کے پاس قوت اقتدار نہیں اور نہ اس کے قبضۂ قدرت میں گناہوں کی بخشش ہے۔
#
{67 ـ 68} {قل}: لهم مخوفاً ومحذِّراً ومنهضاً لهم ومنذراً: {هو نبأٌ عظيمٌ}؛ أي: ما أنبأتُكم به من البعث والنشور والجزاء على الأعمال خبرٌ عظيم ينبغي الاهتمام الشديد بشأنه، ولا ينبغي إغفالُه. ولكنْ {أنتُم عنه معرِضونَ}: كأنَّه ليس أمامكم حسابٌ ولا عقابٌ ولا ثوابٌ.
[67، 68] ﴿قُ٘لْ ﴾ آپ ان کو ڈراتے ہوئے کہہ دیجیے! ﴿هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ﴾ یعنی میں نے تمھیں حیات بعدالموت، حشرونشر اور اعمال کی جزا و سزا کے بارے میں جو خبر دی ہے، وہ بہت بڑی خبر ہے اور اس بات کی پوری پوری مستحق ہے کہ اس کے معاملہ کو بہت اہم سمجھا جائے اور اس بارے میں غفلت کو جگہ نہ دی جائے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ ﴿اَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُوْنَ ﴾ ’’تم اس سے اعراض کرتے ہو۔‘‘ گویا تمھیں حساب و کتاب اور ثواب و عذاب کا سامنا کرنا ہی نہیں۔
#
{69 ـ 70} فإنْ شَكَكْتُم في قولي وامْتَرَيْتُم في خبري؛ فإني أخبركم بأخبارٍ لا علم لي بها ولا دَرَسْتُها في كتاب؛ فإخباري بها على وجهها من غير زيادةٍ ولا نقصٍ أكبرُ شاهدٍ لصدقي وأدلُّ دليل على حقِّ ما جئتُكم به، ولهذا قال: {ما كان لي من علم بالملأ الأعلى}؛ أي: الملائكة؛ {إذْ يَخْتَصِمونَ}؛ لولا تعليم الله إيَّاي وإيحاؤه إليَّ، ولهذا قال: {إن يوحى إليَّ إلاَّ أنَّما أنا نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: ظاهر النذارة جليُّها؛ فلا نذير أبلغ من نذارتِهِ - صلى الله عليه وسلم -.
[69، 70] اگر تمھیں میری بات میں کوئی شک اور میری خبر میں کوئی شبہ ہے تو میں تمھیں کچھ ایسی خبریں دیتا ہوں جن کا مجھے کچھ علم تھا نہ میں نے ان کو کسی کتاب میں پڑھا۔میری خبریں کسی کمی بیشی کے بغیر صحیح ثابت ہوئی ہیں، یہ میری صداقت اور جو کچھ میں تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں، اس کی صحت پر سب سے بڑی اور سب سے واضح دلیل ہے۔ اس لیے فرمایا ﴿مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍۭ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰۤى ﴾ ’’مجھے ان بلند قدر فرشتوں (کی بات چیت) کا کچھ بھی علم نہیں۔‘‘ مراد ہے فرشتے ﴿اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ﴾ ’’جب وہ جھگڑتے تھے۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ مجھے باخبر نہ کرے اور میری طرف وحی نہ کرے تو مجھے بلند قدر فرشتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو سکتا، بنابریں فرمایا: ﴿اِنْ یُّوْحٰۤى اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں واضح طورپر نذیر ہوں۔‘‘ یعنی واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ حضرت مصطفیe سے زیادہ واضح اور بلیغ کوئی ڈرانے والا نہیں ہے۔
#
{71 ـ 72} ثم ذَكَرَ اختصام الملأ الأعلى، فقال: {إذ قال ربُّك للملائكة}: على وجه الإخبارِ، {إنِّي خالقٌ بشراً من طينٍ}؛ أي: مادَّتُه من طين، {فإذا سَوَّيْتُهُ}؛ أي: سويت جسمه وتمَّ، {ونفختُ فيه من روحي فَقَعوا له ساجدينَ}.
[71، 72] پھر بلند قدر فرشتوں کے درمیان جھگڑے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠﴾ ’’جب آپ کے رب نے فرشتوں کو (خبر دیتے ہوئے) فرمایا:‘‘ ﴿اِنِّیْ خَالِـقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ﴾ ’’میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔‘‘ یعنی اس کا مادہ مٹی سے تیار ہوا ہے۔﴿فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ﴾ جب میں اس کے جسم کو نک سک سے درست کر دوں اور وہ مکمل ہو جائے ﴿وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰؔجِدِیْنَ ﴾ ’’اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘
#
{73 ـ 74} فوطَّن الملائكةُ الكرامُ أنفسَهم على ذلك حين يتمُّ خلقُهُ ونفخُ الروح فيه امتثالاً لربِّهم وإكراماً لآدم عليه السلام، فلما تمَّ خلقُه في بدنِهِ وروحِهِ، وامتحنَ الله آدمَ والملائكةَ في العلم، وظهر فضلُه عليهم؛ أمرهم الله بالسجودِ، فسجدوا {كلُّهم أجمعون، إلاَّ إبليسَ}: لم يسجد، {استَكْبَرَ}: عن أمر ربِّه، واستكبر على آدم، {وكان من الكافرينَ}: في علم الله تعالى.
[73، 74] جب آدمu کی تخلیق کی تکمیل ہوئی اور روح پھونک دی گئی تو فرشتوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل اور آدمu کی تکریم کرتے ہوئے اپنے آپ کو آدم کے سامنے سجدہ کے لیے آمادہ کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمu کے بدن و روح کی تخلیق مکمل کر دی تو اللہ نے آدمu اور فرشتوں کا امتحان لیا اور اس طرح فرشتوں پر حضرت آدمu کی فضیلت ظاہر ہو گئی تب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدمu کو سجدہ کریں تو سجدہ کیا ﴿كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ۰۰ اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ﴾ ’’ان سب نے مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ ﴿اِسْتَكْبَرَ ﴾ اس نے نہایت غرور سے اپنے رب کا حکم ٹھکرا دیا اور حضرت آدمu کے سامنے تکبر کا اظہار کیا ﴿وَكَانَ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور وہ کافروں میں سے تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے علم میں ابلیس کافر تھا۔
#
{75} فقال اللهُ له موبِّخاً ومعاتباً: {ما مَنَعَكَ أن تسجدَ لما خلقتُ بيديَّ}؛ أي: شرَّفْتُه وكرَّمْتُه واختصصتُه بهذه الخصيصة التي اختصَّ بها عن سائر الخلق، وذلك يقتضي عدم التكبُّر عليه. {أستكبرتَ}: في امتناعِك {أم كنتَ من العالينَ}.
[75] ﴿قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے زجروتوبیخ اور عتاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾ ’’(اے ابلیس!) جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کسی چیز نے منع کیا۔‘‘ یعنی جسے میں نے شرف و تکریم سے سرفراز فرمایا اور اسے اس خصوصیت سے مختص کیا جس کی بنا پر اسے تمام مخلوق میں خصوصیت حاصل ہے۔ یہ چیز اس کے سامنے عدم تکبر کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿اَسْتَكْبَرْتَ ﴾ کیا تو نے تکبر کی بنا پر سجدہ نہ کیا ﴿اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْ٘نَ ﴾ ’’یا تو بڑے بلند درجے والوں میں سے ہے؟‘‘
#
{76} {قال} إبليسُ معارضاً لربِّه مناقضاً: {أنا خيرٌ منه خَلَقْتَني من نارٍ وخَلَقْتَهُ من طين}: وبزعمِهِ أنَّ عنصر النار خيرٌ من عنصر الطين، وهذا من القياس الفاسدِ؛ فإنَّ عنصرَ النار مادَّةُ الشرِّ والفساد والعلوِّ والطيش والخفَّة، وعنصرُ الطِّين مادَّةُ الرزانة والتواضُع وإخراج أنواع الأشجارِ والنباتات، وهو يغلِبُ النار ويطفِئُها، والنارُ تحتاج إلى مادَّةٍ تقومُ بها والطينُ قائمٌ بنفسِهِ. فهذا قياسُ شيخ القوم، الذي عارض به الأمر الشفاهيَّ من الله، قد تبيَّن غايةُ بطلانِهِ وفسادِهِ؛ فما بالُك بأقيسةِ التلاميذ الذين عارضوا الحقَّ بأقْيِسَتِهِم؛ فإنَّها كلَّها أعظمُ بطلاناً وفساداً من هذا القياس.
[76] ﴿قَالَ ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے اور نقض وارد کرتے ہوئے کہا: ﴿اَنَا خَیْرٌ مِّؔنْهُ١ؕ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ ﴾ ’’میں اس سے بہتر ہوں تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ ابلیس سمجھتا تھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ یہ فاسد قیاس ہے کیونکہ آگ کا عنصر شر، فساد، تکبر، طیش اور خفت کا مادہ ہے اور مٹی کا عنصر وقار، تواضع اور مختلف انواع کے شجرونباتات کا مادہ ہے، مٹی آگ پر غالب ہے اسے بجھا دیتی ہے۔ آگ کسی ایسے مادے کی محتاج ہے جو اس کو قائم رکھے اور مٹی بنفسہ قائم ہے۔ یہ تھا کفار کے شیخ کا قیاس جس کی بنیاد پر اس نے اللہ تعالیٰ کے بالمشافہ حکم کی خلاف ورزی کی، اس قیاس کا بطلان اور فساد بالکل واضح ہے جب ان کے استاد کے قیاس کا یہ حال ہے تب شاگردوں کا کیا حال ہو گا جو اپنے باطل قیاسات کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے قیاسات، اس قیاس کی نسبت زیادہ باطل ہیں۔
#
{77 ـ 78} فقال الله له: اخرج {منها}؛ أي: من السماء والمحلِّ الكريم، {فإنَّك رجيمٌ}؛ أي: مبعد مدحور، {وإنَّ عليك لعنتي} أي: طردي وإبعادي {إلى يوم الدين}: دائماً أبداً.
[77، 78] ﴿قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: ﴿فَاخْرُجْ مِنْهَا ﴾ یعنی عزت و تکریم کے اس مقام، آسمان سے نکل جا ﴿فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ﴾ ’’بے شک تو مردود ہے‘‘ یعنی دھتکارا ہوا ہے۔ ﴿وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ ﴾ ’’اور تجھ پر میری لعنت ہے۔‘‘ یعنی میری یہ پھٹکار اور اپنی رحمت سے تجھے دور کرنا ﴿اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’قیامت کے دن تک ہے‘‘ یعنی دائمی اور ابدالآباد تک ہے۔
#
{79} {قال ربِّ فأنظِرْني إلى يوم يبعثون}: لشدَّة عداوتِهِ لآدمَ وذرَّيَّته؛ ليتمكَّن من إغواء مَنْ قَدَّرَ الله أن يُغْوِيَه.
[79] ﴿قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ﴾ ’’اس نے کہا، میرے رب! مجھے اس روز تک کہ لوگ اٹھائے جائیں مہلت دے۔‘‘ چونکہ اسے آدمu اور ان کی اولاد سے شدید عداوت تھی ، اس لیے اس نے یہ درخواست کی تاکہ وہ ان لوگوں کو بدراہ کر سکے جن کے لیے بدراہ ہونا اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا ہے۔
#
{80 ـ 81} فـ {قال} الله مجيباً لدعوتِهِ حيث اقتضتْ حكمتُهُ ذلك: {إنَّكَ من المُنْظَرين. إلى يوم الوقتِ المعلوم}: حين تُسْتَكْمَلُ الذريَّةُ، ويتمُّ الامتحان.
[80، 81] ﴿قَالَ﴾ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَ٘رِیْنَۙ۰۰ اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْ٘مَعْلُوْمِ ﴾ ’’تجھ کو مہلت دی جاتی ہے، اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے۔‘‘ جب ذریت آدم پوری ہو جائے گی تو امتحان بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
#
{82 ـ 83} فلما علم أنه مُنْظَرٌ؛ بادى ربَّه من خبثه بشدَّة العداوةِ لربِّه ولآدم وذُرِّيَّتِهِ، فقال: {فبعزَّتِك لأغْوِيَنَّهُم أجمعينَ}: يُحتمل أنَّ الباء للقسم، وأنَّه أقسم بعزَّةِ الله ليغوينَّهم كلَّهم أجمعين {إلاَّ عبادك منهم المخلَصين}: علم أنَّ الله سيحفظُهم من كيدِهِ. ويُحتمل أنَّ الباء للاستعانة، وأنَّه لما علم أنه عاجزٌ من كل وجهٍ، وأنه لا يضلُّ أحداً إلاَّ بمشيئة الله تعالى، فاستعانَ بعزَّةِ الله على إغواءِ ذُرِّيَّةِ آدمَ. هذا وهو عدوُّ الله حقًّا، ونحن يا ربَّنا العاجزونَ المقصرونَ، المقرُّونَ لك بكل نعمةٍ، ذُرِّيَّةُ من شَرَّفْتَه وكرَّمْتَه؛ فنستعين بعزَّتك العظيمة، وقدرتك، ورحمتك الواسعة لكلِّ مخلوق، ورحمتك التي أوصلتَ إلينا بها ما أوصلتَ من النعم الدينيَّة والدنيويَّة، وصرفتَ بها ما عنَّا صرفتَ من النِّقم، أن تعينَنا على محاربتِهِ وعداوتِهِ والسلامة من شرِّه وشركِهِ، ونحسنُ الظَّنَّ بك أن تجيبَ دعاءنا، ونؤمنُ بوعدِك الذي قلت لنا: {وقال ربُّكم ادْعوني أسْتَجِبْ لكُم}؛ فقد دَعَوْناك كما أمَرْتَنا، فاستجِبْ لنا كما وَعَدْتَنا. {إنَّك لا تُخْلِفُ الميعاد}.
[82، 83] جب ابلیس کو معلوم ہو گیا کہ اسے مہلت دے دی گئی ہے تو اس نے اپنے خبث باطن کی بنا پر اپنے رب، آدم اور اولاد آدم کے ساتھ اپنی شدید عداوت کو ظاہر کر دیا اور کہنے لگا: ﴿فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ (باء) قسم کے لیے ہو یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم کھا کر اعلان کیا کہ وہ تمام اولاد آدم کو گمراہ کر کے رہے گا ﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے سوا جن کو تو نے خاص کر لیا ہے۔‘‘ ابلیس کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس کے مکرو فریب سے بچا لے گا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ (باء) استعانت کے لیے ہو۔ چونکہ ابلیس کو معلوم ہے کہ وہ ہر لحاظ سے عاجز اور بے بس ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کسی کو گمراہ نہیں کر سکتا، تو اس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عزت سے مدد چاہی۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی دشمن ہے۔ اے ہمارے رب! ہم تیرے انتہائی عاجز اور قصوروار بندے ہیں ہم تیری ہر نعمت کا اقرار کرتے ہیں، ہم اس ہستی کی اولاد ہیں جس کو تو نے عزت و شرف اور اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا۔ ہم تیری عظیم عزت و قدرت اور تمام مخلوق کے لیے تیری بے پایاں رحمت کے ذریعے سے تجھ سے مدد مانگتے ہیں، جو ہم پر بھی سایہ کناں ہے جس کے ذریعے سے تو نے ہم سے اپنی ناراضی کو دور فرمایا… شیطان کی محاربت و عداوت، اس کے شر اور شرک سے سلامت رہنے میں ہماری مدد فرما۔ اے ہمارے رب! ہم تجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں کہ تو ہماری دعا قبول فرمائے گا ہم تیرے اس وعدے پر یقین رکھتے ہیں جس میں تو نے فرمایا تھا: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ (غافر: 40؍60) ’’اور تمھارے رب نے کہا، مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘ اے ہمارے رب! ہم نے تیرے حکم کے مطابق تجھ کو پکارا ہے پس جیسا کہ تو نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے ہماری دعا کو قبول فرما۔ ﴿اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ﴾ (آل عمران: 3/194) ’’بے شک تو اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘
#
{84 ـ 85} {قال} الله تعالى: {فالحقُّ والحقَّ أقولُ}؛ أي: الحقُّ وصفي والحقُّ قولي، {لأملأنَّ جهنَّم منك ومِمَّن تَبِعَكَ منهم أجمعينَ}.
[84، 85] ﴿قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَالْحَقُّ١ٞ وَالْحَقَّ اَ٘قُوْلُ﴾ ’’سچ (ہے) اور میں بھی سچ کہتا ہوں۔‘‘ یعنی حق میرا وصف اور حق میرا قول ہے ﴿لَاَمْلَ٘ــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’کہ میں تجھ سے اور ان سے جو تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھردوں گا۔‘‘
#
{86} فلما بيَّنَ الرسول للناس الدليلَ، ووضَّح لهم السبيلَ؛ قال الله له: {قل ما أسألُكُم عليه}؛ أي: على دعائي إياكم {من أجرٍ وما أنا من المتكلِّفين}: أدَّعي أمراً ليس لي، وأقفو ما ليس لي به علمٌ، لا أتَّبِعُ إلاَّ ما يُوحى إليَّ.
[86] پس جب رسول نے لوگوں سے بیان کردیا اوران کے سامنے راہ واضح کردی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں فرمایا:﴿قُ٘لْ مَاۤ اَسْـَٔؔلُكُمْ عَلَیْهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! میں نہیں مطالبہ کرتا تم سے اس پر‘‘ یعنی تمھیں اللہ کی طرف بلانے پر ﴿مِنْ اَجْرٍ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْ٘مُتَكَلِّفِیْنَ ﴾ ’’کوئی بدلہ اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں۔‘‘ کہ میں ایسی چیز کا دعویٰ کروں جس کا مجھے اختیار نہیں اور نہ میں کسی ایسی بات کی ٹوہ ہی میں رہتا ہوں جس کا مجھے علم نہیں۔ میں تو صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔
#
{87} {إنْ هو}؛ أي: هذا الوحي والقرآن {إلاَّ ذِكْرٌ للعالَمين}: يتذكَّرون به كلَّ ما ينفعُهم من مصالح دينهم ودُنياهم، فيكون شرفاً ورفعةً للعالمين به وإقامةَ حجَّة على المعاندين. فهذه السورة العظيمة مشتملةٌ على الذِّكْر الحكيم، والنبأ العظيم، وإقامةِ الحُجَج والبراهين على مَنْ كذَّب بالقرآن، وعارَضَه، وكذَّب مَنْ جاء به، والإخبار عن عباد الله المخلَصين، وجزاء المتَّقين والطاغين؛ فلهذا أقسم في أولها بأنَّه ذو الذِّكْر، ووصفه في آخرها بأنَّه ذِكْرٌ للعالمين، وأكثَرَ التَّذْكيرَ بها فيما بين ذلك؛ كقوله: {واذْكُرْ عَبْدَنا}، {واذْكُرْ عِبَادَنا}، {رحمةً منّا وذِكْرى}، {هذا ذكرٌ}. اللهمَّ علِّمْنا منه ما جهلنا، وذكِّرْنا منه ما نَسينا نِسيانَ غفلةٍ ونسيان تركٍ.
[87] ﴿اِنْ هُوَ ﴾ یعنی یہ وحی اور یہ قرآن ﴿اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ اس سے وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں فائدہ دیتی ہے اور تب یہ قرآن تمام جہانوں کے لیے شرف اور رفعت کا حامل اور معاندین حق کے خلاف حجت ہے۔ یہ عظیم سورت حکمت سے لبریز نصیحت اور عظیم خبر پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں کے خلاف برہان اور حجت قائم کرتی ہے جو قرآن کو جھٹلا کر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور قرآن لانے والے کی تکذیب کرتے ہیں۔ یہ سورت اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے بارے میں آگاہ کرتی ہے نیز یہ سورۂ مبارکہ تقویٰ شعار بندوں اور سرکش لوگوں کی جزا و سزا کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس کی ابتدا میں قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ یاددہانی پر مشتمل ہے اور اس کے اختتام پر فرمایا کہ یہ تمام جہانوں کے لیے یاددہانی ہے، پھر اس سورت کے اندر بھی اکثر مقامات پر اس یاددہانی کا ذکر کیا ہے، مثلاً: فرمایا ﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَاۤ ﴾ ’’اور یاد کرو ہمارے بندے کو‘‘ ﴿وَاذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ﴾ ’’اور یاد کرو ہمارے بندوں کو‘‘ ﴿رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰى ﴾ ’’یہ رحمت ہے ہمارے طرف سے اور نصیحت ہے‘‘ ﴿هٰؔذَا ذِكْرُ ﴾ ’’یہ نصیحت ہے۔‘‘ وغیرہ۔ اے اللہ ہم اس میں سے جس چیز کو نہیں جانتے اس کا علم عطا کر اور ہم جس چیز کو اپنی غفلت یا ترک کرنے کے باعث بھول جائیں، تو ہمیں اس کی یاددہانی کرا۔
#
{88} {ولَتَعْلَمُنَّ نبأه}؛ أي: خبره {بعد حينٍ}: وذلك حين يقع عليهم العذابُ، وتتقطَّع عنهم الأسبابُ.
[88] ﴿وَلَ٘تَ٘عْلَ٘مُنَّ نَبَاَهٗ﴾ ’’اور تم اس کی خبر جان لو گے۔‘‘ یعنی جو اس نے خبر دی ہے ﴿بَعْدَ حِیْنٍ﴾ ’’ایک وقت کے بعد‘‘ اور یہ وہ وقت ہو گا جب ان پر عذاب واقع ہو گا اور تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔