آیت:
تفسیر سورۂ زمر
تفسیر سورۂ زمر
آیت: 1 - 3 #
{تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (1) إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (2) أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (3)}.
(یہ) نازل کردہ کتاب ہے اللہ کی طرف سے، جو بڑا غالب، بہت حکمت والا ہے (1) بے شک ہم نے نازل کیا آپ کی طرف اس کتاب کو ساتھ حق کے، پس عبادت کیجیے آپ اللہ کی، خالص کرتے ہوئے ا س کے لیے بندگی کو(2) سنو! اللہ ہی کے لیے ہے بندگی خالص، اور وہ لوگ جنھوں نے بنا لیے، اس کےسوا، اور کارساز، (کہتے ہیں) نہیں عبادت کرتے ہم ان کی مگر اس لیے کہ قریب کر دیں وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب، بے شک اللہ فیصلہ فرمائے گا درمیان ان کے ان باتوں میں کہ وہ ان میں اختلاف کرتے تھے، بلاشبہ اللہ نہیں ہدایت کرتا اس کو جو ہے جھوٹا ناشکرا(3)
#
{1} يخبر تعالى عن عظمة القرآنِ وجلالةِ مَنْ تكلَّم به ونَزَلَ منه، وأنَّه نزل {من الله العزيز الحكيم}؛ أي: الذي وصفه الألوهيَّة للخلق، وذلك لعظمتِهِ وكمالِهِ والعزَّة التي قهر بها كلَّ مخلوق، وذلَّ له كلُّ شيء والحكمة في خلقه وأمره؛ فالقرآنُ نازلٌ ممَّن هذا وصفه، والكلام وصفٌ للمتكلِّم، والوصفُ يتبعُ الموصوفَ؛ فكما أنَّ الله تعالى الكامل من كلِّ وجه الذي لا مثيل له؛ فكذلك كلامُهُ كاملٌ من كلِّ وجه لا مثيل له؛ فهذا وحدَه كافٍ في وصف القرآن دالٌّ على مرتبته.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت اور اس ہستی کے جلال کے بارے میں آگاہ کرتا ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے کلام کیا اور جس کی طرف سے یہ قرآن نازل ہوا۔ نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ مخلوق کے لیے الوہیت اس کا وصف ہے کیونکہ وہ عظمت و کمال اور عزت و غلبہ کا مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوق پر غالب اور ہر چیز اس کی مطیع اور اس کے سامنے سرافگندہ ہے۔ اس کی تخلیق و امر حکمت پر مبنی ہے۔ قرآن اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کا یہ وصف ہے، کلام متکلم کا وصف ہے اور وصف ہمیشہ اپنے موصوف کے تابع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ہے، اس کا کوئی مثیل و نظیر نہیں اسی طرح اس کا کلام بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے مثال و بے نظیر ہے۔ یہ ایک وصف ہی اللہ تعالیٰ کے مرتبہ پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔
#
{2} ولكنَّه مع هذا زاد بياناً لكماله بمن نَزَلَ عليه، وهو محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، الذي هو أشرف الخلق، فعُلِمَ أنَّه أشرف الكتب، وبما نزل به، وهو الحقُّ، فنزل بالحقِّ الذي لا مِرْيَةَ فيه لإخراج الخلق من الظُّلمات إلى النور، ونزل مشتملاً على الحقِّ في أخباره الصادقة وأحكامه العادلة؛ فكلُّ ما دلَّ عليه؛ فهو أعظم أنواع الحقِّ من جميع المطالب العلميَّة، وما بعد الحقِّ إلاَّ الضلال. ولمَّا كان نازلاً من الحقِّ مشتملاً على الحقِّ لهداية الخَلْق على أشرف الخلق؛ عَظُمَتْ فيه النعمةُ، وجلَّت، ووجب القيامُ بشكرِها، وذلك بإخلاص الدين لله؛ فلهذا قال: {فاعْبُدِ الله مخلصاً له الدين}؛ أي: أخلص لله تعالى جميعَ دينِكَ من الشرائع الظاهرة والشرائع الباطنة: الإسلام والإيمان والإحسان؛ بأنْ تُفْرِدَ الله وحدَه بها، وتقصُدَ به وَجْهَهُ، لا غير ذلك من المقاصد.
[2] مگر بایں ہمہ، اللہ تعالیٰ نے جس ہستی پر اسے نازل فرمایا ہے اس کے ذریعے سے اس کے کمال کو بیان فرمایا اور وہ ہستی حضرت محمد مصطفیe کی ذات بابرکات ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ کتاب اپنی دعوت سمیت، تمام کتابوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے اور یہ سراسر حق ہے۔ پس قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا جو اپنی سچی خبروں اور عدل و انصاف پر مبنی احکام پر مشتمل ہے، تاکہ مخلوق کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لائے اور یہ کتاب اپنی اخبار صادقہ اور اپنے احکام عادلہ کے بارے میں حق پر مشتمل نازل ہوئی۔ یہ کتاب تمام مطالب علمیہ میں سے جس چیز پر دلالت کرتی ہے، وہ سب سے بڑا حق ہے اور حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے۔ چونکہ یہ قرآن حق کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، مخلوق کی ہدایت کے لیے حق پر مشتمل ہے اور تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی پر نازل کیا گیا ہے، اس لیے یہ نعمت بہت عظیم اور جلیل القدر ہے، اس کا شکر ادا کرنا فرض ہے اور اس کا شکریہ ہے کہ دین کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا جائے۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ﴾ اپنے تمام دین یعنی ظاہری اور باطنی اعمالِ شریعت، (اسلام، ایمان اور احسان) کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیجیے۔ ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیے اور اس کے سوا آپ کا کوئی اور مقصد نہ ہو۔
#
{3} {ألا لله الدينُ الخالصُ}: هذا تقريرٌ للأمر بالإخلاص، وبيانُ أنَّه تعالى كما أنَّه له الكمال كلُّه وله التفضُّل على عباده من جميع الوجوه؛ فكذلك له الدينُ الخالصُ الصافي من جميع الشوائب؛ فهو الدين الذي ارتضاه لنفسه وارتضاه لصفوةِ خلقِهِ وأمَرَهُم به؛ لأنه متضمنٌ للتألُّه لله في حبه وخوفه ورجائِهِ والإنابةِ إليه في عبوديَّته والإنابة إليه في تحصيل مطالب عباده، وذلك الذي يُصْلِحُ القلوبَ ويزكِّيها ويطهِّرها؛ دون الشرك به في شيء من العبادة؛ فإنَّ الله بريءٌ منه، وليس لله فيه شيءٌ؛ فهو أغنى الشركاء عن الشرك، وهو مفسدٌ للقلوب والأرواح والدنيا والآخرة، مشقٍ للنفوس غاية الشقاء. فلذلك لمَّا أمر بالتوحيد والإخلاص؛ نهى عن الشرك به، وأخبر بذمِّ مَنْ أشرك به، فقال: {والذين اتَّخذوا من دونِهِ أولياءَ}؛ أي: يتولَّوْنَهم بعبادتهم ودعائهم، متعذِرين عن أنفسِهم، وقائلين: {ما نعبُدُهم إلاَّ لِيُقَرِّبونا إلى الله زُلْفَى}؛ أي: لترفعَ حوائجنا لله، وتشفعَ لنا عنده، وإلاَّ؛ فنحن نعلمُ أنَّها لا تخلُقُ ولا ترزقُ ولا تملكُ من الأمر شيئاً؛ أي: فهؤلاء قد تركوا ما أمَرَ الله به من الإخلاص، وتجرؤوا على أعظم المحرَّمات، وهو الشرك، وقاسوا الذي ليس كمثلِهِ شيءٌ الملك العظيم بالملوك، وزعموا بعقولهم الفاسدةِ ورأيِهِم السقيم أنَّ الملوك كما أنَّه لا يوصَلُ إليهم إلاَّ بوجهاء وشفعاء ووزراء يرفعون إليهم حوائج رعاياهم ويستعطِفونهم عليهم ويمهِّدونَ لهم الأمر في ذلك؛ أنَّ الله تعالى كذلك! وهذا القياس من أفسد الأقيسة، وهو يتضمَّن التسويةَ بين الخالق والمخلوق، مع ثُبوت الفرق العظيم عقلاً ونقلاً وفطرةً؛ فإنَّ الملوك إنَّما احتاجوا للوساطة بينهم وبين رعاياهم؛ لأنَّه لا يعلمون أحوالَهم، فيُحتَاجُ مَنْ يُعْلِمُهُمْ بأحوالهم، وربَّما لا يكون في قلوبهم رحمةٌ لصاحب الحاجة، فيحتاج مَنْ يُعَطِّفُهم عليه، ويسترحِمُه لهم، ويحتاجون إلى الشفعاء والوزراء، ويخافون منهم، فيقضون حوائجَ من توسَّطوا لهم مراعاةً لهم ومداراةً لخواطِرِهم، وهم أيضاً فقراءُ؛ قد يمنعون لما يخشَوْن من الفقر، وأمَّا الربُّ تعالى؛ فهو الذي أحاط علمُهُ بظواهر الأمور وبواطنها، الذي لا يحتاجُ مَنْ يخبِرُهُ بأحوال رعيَّته وعباده، وهو تعالى أرحم الراحمين، وأجود الأجودين، لا يحتاجُ إلى أحدٍ من خلقِهِ يجعله راحماً لعباده، بل هو أرحم بهم من أنفسهم ووالديهم، وهو الذي يحثُّهم ويدعوهم إلى الأسباب التي ينالون بها رحمته، وهو يريدُ من مصالِحِهم ما لا يريدونَه لأنفسِهِم، وهو الغنيُّ، الذي له الغنى التامُّ المطلقُ، الذي لو اجتمع الخلقُ من أولهم وآخرهم في صعيدٍ واحدٍ، فسألوه، فأعطى كلاًّ منهم ما سأل وتمنَّى؛ لم يَنقصوا غناه شيئاً، ولم يَنقصوا مما عنده إلاَّ كما يَنْقُصُ البحرُ إذا غُمِسَ فيه المِخْيَطُ، وجميع الشفعاء يخافونه؛ فلا يشفعُ منهم أحدٌ إلاَّ بإذنه، وله الشفاعةُ كلُّها؛ فبهذه الفروق يُعلم جهلُ المشركين به وسفهُهُم العظيمُ وشدَّةُ جراءتهم عليه، ويُعْلَم أيضاً الحكمة في كون الشرك لا يغفره الله تعالى؛ لأنَّه يَتَضَمَّن القدحَ في الله تعالى، ولهذا قال حاكماً بين الفريقين المخلِصين والمشرِكين وفي ضمنه التهديد للمشركين: {إنَّ الله يَحْكُمُ بينَهم فيما هم فيه يختلفونَ}: وقد عُلِمَ أنَّ حُكْمَهُ أنَّ المؤمنين المخلصين في جنات النعيم، ومن يشرك بالله؛ فقد حرَّم الله عليه الجنة ومأواه النار. {إنَّ الله لا يهدي}؛ أي: لا يوفِّق للهداية إلى الصراط المستقيم {من هو كاذبٌ كفَّارٌ}؛ أي: وصفه الكذبُ أو الكفر؛ بحيث تأتيه المواعظُ والآيات ولا يزول عنه ما اتَّصف به، ويُريه الله الآياتِ فيَجْحَدُها ويكفرُ بها ويكذبُ؛ فهذا أنَّى له الهدى وقد سدَّ على نفسه الباب، وعوقِبَ بأن طَبَعَ الله على قلبِهِ فهو لا يؤمنُ.
[3] ﴿اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ﴾ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اخلاص کے حکم کو متحقق کرتا ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام تر کمال کا مالک ہے اور اس نے اپنے بندوں کو ہر لحاظ سے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اسی طرح ہر قسم کے شک وشبے سے پاک دین خالص بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرمایا اور مخلوق میں سے چنے ہوئے بندوں کے لیے منتخب فرمایا اور اسی کو اختیار کرنے کا اپنے بندوں کو حکم دیا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت کے ذریعے سے بندوں کے مطالب کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو متضمن ہے۔ یہی وہ دین ہے جو قلوب کی اصلاح کر کے ان کو پاک اور ان کی تطہیر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی عبادت میں شرک کرنا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا شرک سے کوئی تعلق نہیں اور وہ شریکوں سے، سب سے زیادہ بے نیاز ہے۔ شرک قلب و روح اور دنیاوآخرت کو فاسد کرتا ہے اور نفوس کو بدبختی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے جہاں اللہ تعالیٰ نے توحید اور اخلاص کا حکم دیا ہے، وہاں شرک سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی خبر دی ہے جنھوں نے شرک کا ارتکاب کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ﴾ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں وہ انھیں اپنا والی و مددگار بناتے ہیں وہ اپنا عذر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْ٘فٰى ﴾ ’’ہم انھیں صرف ، اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری حاجتیں پیش کریں اور اس کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ ورنہ درحقیقت ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں اور نہ انھیں کسی قسم کا کچھ اختیار ہی حاصل ہے۔ یعنی ان مشرکین نے اخلاص کو چھوڑ دیا جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ سب سے بڑی چیز، یعنی شرک کاارتکاب کیا اور اس ہستی کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کیا جس کی نظر کوئی چیز نہیں، جو عظیم بادشاہ ہے۔ وہ اپنی فاسد عقل اور سقیم رائے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کی خدمت میں ان کے مقربین، سفارشیوں اور وزیروں کے بغیر حاضر نہیں ہوا جاسکتا جو رعایا کی ضروریات اور حاجتیں ان بادشاہوں تک پہنچاتے ہیں، رعایا کے لیے بادشاہوں سے رحم طلب کرتے ہیں ان بادشاہوں کے پاس رعایا کے معاملات پیش کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ بھی ان بادشاہوں کی مانند ہے۔ یہ فاسد ترین قیاس ہے کیونکہ عقل و نقل اور فطرت کے مطابق خالق اور مخلوق کے درمیان عظیم فرق ہونے کے باوجود یہ قیاس خالق اور مخلوق میں مساوات کو متضمن ہے۔ بادشاہ براہ راست رعایا کے احوال نہیں جانتے اس لیے انھیں اپنے اور رعایا کے درمیان واسطے کی ضرورت ہوتی ہے، رعایا کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بادشاہوں تک ان کے حالات پہنچائیں۔ بسااوقات ان بادشاہوں کے دلوں میں ضرورت مند کے لیے کوئی رحم نہیں ہوتا تب رعایا سفارش کرنے والوں اور وزراء وغیرہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے ہیں ۔ یہ لوگ بادشاہوں کے ہاں ان کے لیے مراعات کے حصول اور ان کی دلجوئی کے لیے واسطہ بننے والے سفارشیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بسااوقات رعایا خود محتاج اور مفلس ہوتی ہے اس لیے وہ محتاجی کے ڈر سے ان کی خاطرومدارات نہیں کر سکتی۔ جہاں تک رب تعالیٰ کا معاملہ ہے تووہ ایسی ہستی ہے جس کے علم نے تمام امور کے ظاہر اور باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، وہ کسی ایسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے اس کے بندوں اور اس کی رعایا کے احوال سے آگاہ کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا اور سب سے بڑھ کر سخی ہے، وہ مخلوق میں سے کسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے بندوں پر رحم کرنے پر آمادہ کرے بلکہ رب تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جو وہ خود اپنے آپ پر یا ان کے والدین ان پر رحم کرتے ہیں۔ وہ انھیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کریں جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کو حاصل کر لیں وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے جو وہ خود بھی اپنے لیے نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے جو کامل غنائے مطلق کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر اول سے لے کر آخر تک تمام مخلوق، ایک میدان میں اکٹھی ہو جائے اور وہ اس سے اپنی اپنی ضرورت اور تمنا کے مطابق سوال کریں تو وہ سب کو عطا کرے گی۔ وہ اس کی غنا میں سے ذرہ بھر کمی کر سکتے ہیں نہ اس کے خزانوں میں، مگر اتنی سی کہ جو سمندر میں سوئی ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے، پھر تمام سفارشی اس سے ڈرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا۔ تمام تر سفارش کا صرف وہی مالک ہے۔ اس فرق سے مشرکین کی جہالت، حماقت اور اللہ کے حضور ان کی جسارت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ شرک کے مرتکب کے لیے عدم مغفرت میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح کو متضمن ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فریقین، یعنی مخلص مومنوں اور مشرکین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا… اور اس میں مشرکین کے لیے تہدید بھی ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’بے شک جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ معلوم ہے جو یہ ہے کہ مخلص اہل ایمان، نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ راہ راست پر گامزن ہونے کی توفیق عطا نہیں کرتا ﴿مَنْ هُوَؔ كٰذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ’’اس شخص کو جو جھوٹا اور ناشکرا ہو‘‘ یعنی جس کا وصف کذب اور کفر ہے، اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور نصیحتیں آتی ہیں، مگر اس کے برے اوصاف دور نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ اسے بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے، مگر یہ ان کا انکار کر دیتا ہے ان کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ پس ان حالات میں ایسے شخص کے لیے ہدایت کیسے ہوسکتی ہے جس نے اپنے لیے ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہو اور انجام کے طورپر اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر مہر لگا دی پس وہ ایمان نہیں لائے گا۔
آیت: 4 #
{لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحَانَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (4)}.
اگر ارادہ کرتا اللہ(اس کا) کہ بنائے فرزند وہ، تو چن لیتا، ان میں سے جن کو وہ پیدا کرتا ہے، جس کو وہ چاہتا، (لیکن) وہ تو پاک ہے(ان چیزوں سے) وہ اللہ ایک ہے بڑا زبردست(4)
#
{4} أي: {لو أراد الله أن يَتَّخِذَ ولداً}: كما زعم ذلك من زَعَمَه من سفهاء الخلق {لاصطفى مما يخلقُ ما يشاء}؛ أي: لاصطفى بعض مخلوقاتِهِ التي يشاء اصطفاءه واختصَّه لنفسه، وجَعَلَه بمنزلة الولد، ولم يكنْ حاجةٌ إلى اتِّخاذ الصاحبة. {سبحانه}: عما ظنَّه به الكافرون أو نسبه إليه الملحدون. {هو الله الواحدُ القهَّارُ}؛ أي: الواحد في ذاته وفي أسمائه وفي صفاته وفي أفعاله؛ فلا شبيه له في شيء من ذلك ولا مماثل؛ فلو كان له ولدٌ؛ لاقتضى أن يكون شبيهاً له في وحدتِهِ؛ لأنَّه بعضُه وجزءٌ منه. القهارُ لجميع العالم العلويِّ والسفليِّ؛ فلو كان له ولدٌ؛ لم يكنْ مقهوراً، ولكان له إدلالٌ على أبيه ومناسبةٌ منه، ووحدتُه تعالى وقهرُهُ متلازمانِ؛ فالواحد لا يكون إلاَّ قهاراً، والقهارُ لا يكون إلاَّ واحداً، وذلك ينفي الشركة له من كلِّ وجه.
[4] ﴿لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّؔتَّؔخِذَ وَلَدًا﴾ ’’اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا‘‘ جیسا کہ بعض بے وقوف لوگوں کا خیال ہے ﴿لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ ﴾ تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن کر اپنے لیے مختص کر لیتا اور اسے اپنا بیٹا بنا لیتا اور اسے بیوی کی ضرورت نہ ہوتی۔ ﴿سُبْحٰؔنَهٗ ﴾ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور منزہ ہے جن کا یہ کفار اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمان کرتے ہیں اور ملحدین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ﴿هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں ایک ہے، لہٰذا اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شبیہ ہے نہ مثیل۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ اپنی وحدت میں اس کا شبیہ ہونے کا مقتضی ہوتا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حصہ اور اس کا جز ہوتا۔ وہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی پر غالب ہے۔ اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ مقہورومغلوب نہ ہوتا اور اپنے باپ کے خلاف جرأت اور گستاخی کر نے والا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت اور اس کا قہر لازم و ملزوم ہیں۔ صرف ایک ہستی ہی غالب اور قاہر ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ چیز ہر لحاظ سے شراکت کی نفی کرتی ہے۔
آیت: 5 - 7 #
{خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (5) خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (6) إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (7)}.
پیدا کیا اس نے آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے، وہ لپیٹتا ہے رات کو اوپر دن کے اور لپیٹتا ہے دن کو اوپر رات کے، اور کام میں لگا دیا اس نے سورج اورچاند کو، ہرایک چل رہا ہے ایک وقت مقرر تک، سنو! وہ ہے بڑا غالب بہت بخشنے والا(5) اس نے پیدا کیا تمھیں ایک ہی جان سے، پھر بنایا اس نے اس سے جوڑا اس کا اور اتارے اس نے تمھارے لیے چارپایوں میں سے آٹھ جوڑے (نر اورمادہ)، پیدا کرتا ہے وہ تم کو تمھاری ماؤ ں کے پیٹوں میں، ایک (طرح کی) پیدائش بعد دوسری پیدائش کے، اندھیروں میں تین قسم کے یہ ہے اللہ رب تمھارا، اسی کی ہے بادشاہی، نہیں کوئی معبود مگروہی، پس کہاں تم پھیرے جاتے ہو؟(6) اگر کفرکرو گے تم تو اللہ بے پروا ہے تم سے، اور نہیں پسند کرتا وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو اور اگرشکر کرو گے تم تو پسند کرتا ہے وہ اسے تمھارے لیے اور نہیں بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا بوجھ دوسرے کا ، پھر طرف اپنے پروردگار ہی کے تمھارا لوٹنا ہے، پس وہ خبر دے گا تمھیں ساتھ اس چیز کے جو تھے تم عمل کرتے، بلاشبہ وہ جانتا ہے راز سینوں کے(7)
#
{5} يخبر تعالى أنَّه {خَلَقَ السمواتِ والأرضَ}؛ أي: بالحكمة والمصلحة، وليأمرَ العبادَ وينهاهم ويثيبَهم ويعاقبَهم. {يكوِّرُ الليلَ على النهار ويكوِّرُ النهارَ على الليل}؛ أي: يدخِلُ كلاًّ منهما على الآخر، ويُحِلُّه محلَّه؛ فلا يجتمعُ هذا وهذا، بل إذا أتى أحدُهما؛ انعزلَ الآخر عن سلطانه، {وسخَّرَ الشمسَ والقمر}: بتسخير منظَّم وسيرٍ مقننٍ. {كلٌّ}: من الشمس والقمر {يجري}: متأثِّراً عن تسخيره تعالى {لأجل مسمًّى}: وهو انقضاء هذه الدار وخرابُها، فيخرب الله آلاتِها وشمسَها وقمرَها، وينشئ الخلق نشأةً جديدةً؛ ليستقرُّوا في دار القرار الجنة أو النار. {ألا هو العزيزُ}: الذي لا يُغالَبُ، القاهرُ لكلِّ شيء، الذي لا يستعصي عليه شيءٌ، الذي من عزَّتِهِ أوجَدَ هذه المخلوقاتِ العظيمةَ، وسخَّرها، تجري بأمره. {الغفارُ}: لذنوب عبادِهِ التوَّابين المؤمنين؛ كما قال تعالى: {وإنِّي لَغفارٌ لِمَن تابَ وآمَنَ وعَمِلَ صالحاً ثم اهتدى}، الغفارُ لمن أشرك به بعد ما رأى من آياتِهِ العظيمةِ ثم تاب وأناب.
[5] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ بے شک اس نے ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ زمین و آسمان کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ وہ بندوں پراپنے امرونہی کے ضابطے نافذ کرے اور ان کو ثواب و عقاب عطا کرے ﴿یُكَوِّرُ الَّیْلَ عَلَى النَّهَارِ وَیُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّیْلِ ﴾ یعنی وہ رات اور دن دونوں کو ایک دوسرے میں داخل کرتا ہے، وہ دن اور رات دونوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے، دن اور رات کبھی یکجا نہیں ہوتے بلکہ جب ان میں سے ایک آتا ہے تو دوسرا علیحدہ ہو جاتا ہے۔ ﴿وَسَخَّرَ الشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو انتہائی منظم طور پر اور ایک خاص رفتار کے ساتھ مسخر کر رکھا ہے۔ ﴿كُ٘لٌّ ﴾ یعنی چاند اور سورج ﴿یَّجْرِیْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی تسخیر کے مطابق چلتے ہیں۔ ﴿لِاَجَلٍ مُّ٘سَمًّى﴾ ’’ایک وقت مقررہ تک‘‘ یعنی ان دونوں کو ایک مدت مقررہ تک کے لیے مسخر کر رکھا ہے… یعنی اس دنیا کے خاتمے اور اس کے تباہ ہونے تک… اللہ تعالیٰ اس دنیا میں موجود ہر چیز کو، چاند اور سورج کو تباہ کر دے گا، پھر وہ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ وہ اپنے اپنے ٹھکانے یعنی جنت اور جہنم میں رہیں۔ ﴿اَلَا هُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ جو ہر چیز پر غالب اور قاہر ہے کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کر سکتی۔ جس نے اپنی قوت عالیہ سے اس عظیم کائنات کو وجود بخشا اور اس کو مسخر کیا جو اس کے حکم کے تحت چل رہی ہے۔ ﴿الْغَفَّارُ ﴾ وہ اپنے توبہ شعار بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّ٘مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰؔى ﴾ (طٰہٰ: 20؍82) ’’اور جو کوئی توبہ کرے، ایمان لاکر نیک عمل کرے اور راہ راست اختیار کرے، تو میں اسے بخش دیتا ہوں۔‘‘ میں اس شخص کو بھی بخش دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں کو دیکھنے اور شرک کرنے کے بعد ایمان لے آئے۔
#
{6} ومن عزَّتِهِ أن {خَلَقَكُم من نفس واحدةٍ}: على كثرتكم وانتشاركم في أنحاء الأرض، {ثم جَعَلَ منها زَوْجَها}: وذلك ليسكنَ إليها وتسكنَ إليه وتتمَّ بذلك النعمة، {وأنزل لكم من الأنعام}؛ أي: خلقها بقدرٍ نازلٍ منه رحمةً بكم {ثمانيةَ أزواج}: وهي التي ذكرها في سورة الأنعام: {ثمانية أزواج من الضَّأنِ اثنينِ ومن المَعْزِ اثنينِ ومن الإبِلِ اثْنينِ ومن البقرِ اثنينِ}، وخصَّها بالذِّكر مع أنَّه أنزل لمصالح عباده من البهائم غيرها؛ لكثرةِ نفعِها وعموم مصالِحِها ولشرفِها ولاختصاصِها بأشياء لا يَصْلُحُ غيرُها؛ كالأضحيَّة والهدي والعقيقةِ ووجوب الزكاة فيها واختصاصها بالدِّية. ولما ذَكَرَ خَلْقَ أبينا وأمنا؛ ذَكَرَ ابتداءَ خَلْقِنا، فقال: {يخلُقُكُم في بطونِ أمَّهاتِكُم خَلْقاً من بعدِ خَلْق}؛ أي: طوراً بعد طورٍ، وأنتم في حال لا يَدَ مخلوق تمسُّكم ولا عينَ تنظرُ إليكم، وهو قد ربَّاكُم في ذلك المكان الضيق {في ظُلُماتٍ ثلاثٍ}: ظلمة البطن، ثم ظلمة الرحم، ثم ظلمة المشيمة. {ذلِكُم}: الذي خَلَقَ السماواتِ والأرضَ وسخَّر الشمس والقمر، وخَلَقَكُم وخَلَقَ لكم الأنعامَ والنعم {اللهُ ربُّكُم}؛ أي: المألوه المعبود الذي ربَّاكم ودبَّركم؛ فكما أنَّه الواحد في خلقِهِ وتربيتِهِ لا شريك له في ذلك؛ فهو الواحد في ألوهيَّتِهِ لا شريك له، ولهذا قال: {لا إله إلاَّ هو فأنَّى تُصْرَفونَ}: بعد هذا البيان، ببيانِ استحقاقِهِ تعالى الإخلاص وحده، إلى عبادةِ الأوثان التي لا تدبِّرُ شيئاً، وليس لها من الأمر شيء!!
[6] یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہے کہ ﴿خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ ﴾ تمھاری کثرت اور زمین کے دور دراز گوشوں میں پھیل جانے کے باوجود، اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔ ﴿ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ’’پھر اس کا جوڑا بنایا۔‘‘ تاکہ وہ اس کے پاس سکون حاصل کرے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہو۔ ﴿وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’اور اسی نے تمھارے لیے چوپایوں میں سے بنائے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی تقدیر سے تخلیق فرمایا جو آسمان سے نازل ہوتی ہے، یہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ﴿ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ ﴾ ’’آٹھ جوڑے‘‘ اس سے مراد وہ مویشی ہیں جن کا سورۃ الانعام میں ذکر آیا ہے ﴿ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ١ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْ٘مَعْزِ اثْنَیْنِ ﴾ (الانعام: 6/143) ’’یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے‘‘ ﴿وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْ٘بَقَرِ اثْنَیْنِ ﴾ (الانعام: 6؍144) اور دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے۔‘‘ متذکرہ بالا مویشیوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے مصالح کے لیے بہت سے مویشی تخلیق فرمائے ہیں، مگر مذکورہ مویشوں میں فوائد کی کثرت، ان کے مصالح کی عمومیت اور ان کے شرف کی بنا پر خاص طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ یہ بعض امور کے لیے مخصوص ہیں جن کے لیے کوئی دوسرا مویشی مخصوص نہیں ہے، مثلاً: قربانی، ہدی، عقیقہ، ان میں زکاۃ کا واجب ہونا اور دیت کی ادائیگی کے لیے ان کا مختص ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جدامجد اور ہماری ماں (حضرت حوا[) کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد ہماری تخلیق کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰؔتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْ٘قٍ ﴾’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری ماؤ ں کے پیٹوں میں ایک مرحلہ کے بعد دوسرے مرحلے میں تخلیق دیتا چلا جاتا ہے‘‘ اور تمھاری یہ حالت ہوتی ہے کہ کسی مخلوق کا ہاتھ تمھیں چھو سکتا ہے نہ کوئی آنکھ تمھیں دیکھ سکتی ہے۔ اس تنگ جگہ پر اللہ تعالیٰ نے تمھاری پرورش کی ہے ﴿فِیْ ظُلُمٰؔتٍ ثَلٰثٍ ﴾ ’’تین اندھیروں میں‘‘ یعنی پیٹ کا اندھیرا، رحم کا اندھیرا اور اس جھلی کا اندھیرا جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ ﴿ذٰلِكُمُ ﴾ وہ ہستی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سورج اور چاند کو مسخر کیا، جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے مویشی اور نعمتیں پیدا کیں۔ ﴿اللّٰهُ رَبُّكُمْ ﴾ اللہ، تمھارا معبود حقیقی ہے۔ جس نے تمھاری پرورش کی اور تمھاری تدبیر کی۔ جس طرح وہ تمھیں پیدا کرنے اور تمھاری پرورش کرنے میں اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اپنی الوہیت میں بھی اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟‘‘ اس توضیح کے بعد اس استحقاق کو بیان فرمایا کہ بتوں کی عبادت کی بجائے اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کو خالص کیا جائے، جو کسی چیز کی تدبیر کرتے ہیں نہ انھیں کوئی اختیار ہے۔
#
{7} {إن تَكْفُروا فإنَّ الله غنيٌّ عنكم}: لا يضرُّه كفرُكم كما لا ينتفع بطاعتكم، ولكنْ أمرُهُ ونهيُهُ لكم محضُ فضلِهِ وإحسانِهِ عليكم. {ولا يرضى لعباده الكفر}: لكمال إحسانِهِ بهم وعلمِهِ أنَّ الكفر يُشقيهم شقاوةً لا يسعدون بعدها، ولأنَّه خَلَقَهم لعبادتِهِ؛ فهي الغاية التي خَلَقَ لها الخلق؛ فلا يرضى أن يَدَعوا ما خلقهم لأجله. {وإن تشكروا}: لله تعالى بتوحيدِهِ وإخلاص الدين له {يَرْضَهُ لكم}: لرحمته بكم ومحبَّته للإحسانِ عليكم ولِفعْلِكُم ما خَلَقَكُم لأجله، وكما أنَّه لا يَتَضَرَّر بشِرْككم ولا يَنْتَفِعُ بأعمالكم وتوحيدكم؛ كذلك كلُّ أحدٍ منكم له عملُه من خير وشرٍّ. {ولا تزِرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى ثم إلى ربِّكم مرجِعُكُم}: في يوم القيامة، {فينبِّئُكُم بما كنتُم تعملون}: إخباراً أحاط به علمُه وجرى عليه قلمُه وكتبتْه عليكم الحفظةُ الكرامُ وشهدتْ به عليكم الجوارحُ، فيجازي كلًّا منكم ما يستحقُّه. {إنَّه عليمٌ بذات الصدور}؛ أي: بنفس الصدور وما فيها من وصفِ بِرٍّ أو فجورٍ. والمقصود من هذا الإخبار بالجزاء بالعدل التامِّ.
[7] ﴿اِنْ تَكْ٘فُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْكُمْ ﴾ ’’اگر ناشکری کروگے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے۔‘‘ جس طرح تمھاری اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اسی طرح تمھارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، بلکہ تمھارے لیے اس کا امرونہی تم پر اس کا محض فضل و احسان ہے ﴿وَلَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْ٘كُفْرَ ﴾ ’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘ کیونکہ ان پر اس کا کامل احسان ہے اسے معلوم ہے کہ کفر ان کو ایسی بدبختی میں مبتلا کر دے گا کہ اس کے بعد انھیں کبھی خوش بختی نصیب نہ ہو گی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہی وہ غرض و غایت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بندے اس مخلوق کو پکاریں جس کو اس مقصد کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ﴿وَاِنْ تَشْكُرُوْا ﴾ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لیے دین میں اخلاص اختیار کر کے اس کا شکر ادا کرو تو ﴿یَرْضَهُ لَكُمْ ﴾ ’’وہ اس کو تمھارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ تم پر اس کی بے پایاں رحمت سایہ کناں ہے، وہ تم پر احسان کو پسند کرتا ہے اور تم اس فعل کو بجا لارہے ہو جس کے لیے تمھیں پیدا کیا گیا ہے۔ تمھارے شرک سے اسے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ تمھارے اعمال اور تمھاری توحید سے اسے کوئی فائدہ، تم میں سے ہر شخص کا اچھا برا عمل اسی کے لیے ہے۔ ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ ﴿ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ ﴾ ’’، پھر تم کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’ وہ تمھارے اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گا‘‘ جن کا اس کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے، جن پر اس کا قلم جاری ہو چکا ہے، جنھیں معزز محافظین نے صحیفوں میں درج کر رکھا ہے اور جن پر تمھارے جوارح تمھارے خلاف گواہی دیں گے اور وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا۔ ﴿اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ اللہ تعالیٰ سینوں کے اندر پنہاں نیکی اور برائی کے اوصاف کو خوب جانتا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مقصود کامل عدل و انصاف پر مبنی جزا و سزا کے بارے میں خبر دینا ہے۔
آیت: 8 #
{وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ (8)}.
اور جب پہنچتی ہے انسان کو کوئی تکلیف تو پکارتا ہے اپنے رب کو رجوع کرتے ہوئے اس کی طرف، پھرجب عطا کرتا ہے وہ اسے کوئی نعمت اپنی طرف سے تو بھول جاتا ہے وہ اس کو جو تھا وہ پکارتا اس کی طرف اس سے پہلے اور ٹھہراتا ہے اللہ کے لیے شریک تاکہ گمراہ کرے اس کے راستے سے، کہہ دیجیے:فائدہ اٹھا ساتھ اپنے کفر کے تھوڑا، بلاشبہ تو دوزخیوں میں سے ہے(8)
#
{8} يخبر تعالى عن كرمه بعبده وإحسانه وبرِّه وقلَّةِ شُكْرِ عبدِهِ، وأنَّه حين يمسُّه الضُّرُّ من مرض أو فقرٍ أو وقوع في كُربةِ بحرٍ أو غيره؛ أنَّه يعلم أنَّه لا يُنَجِّيهِ في هذه الحال إلاَّ الله، فيدعوه متضرِّعاً منيباً، ويستغيثُ به في كَشْفِ ما نزل به ويلحُّ في ذلك. {ثم إذا خَوَّلَه}: الله {نعمةً منه}: بأن كشف ما به من الضُّرِّ والكربةِ، {نَسِيَ ما كان يدعو إليه مِن قَبْلُ}؛ أي: نسي ذلك الضُّرَّ الذي دعا الله لأجله، ومرَّ كأنَّه ما أصابه ضرٌّ، واستمرَّ على شركه، {وجعل لله أنداداً ليضلَّ عن سبيلِهِ}؛ أي: لِيَضِلَّ بنفسِهِ ويُضِلَّ غيرَه؛ لأنَّ الإضلال فرعٌ عن الضلال، فأتى بالملزوم ليدلَّ على اللازم. {قل}: لهذا العاتي الذي بدَّلَ نعمة الله كفراً: {تمتَّعْ بكفرِكَ قليلاً إنَّك من أصحابِ النار}: فلا يغنيكَ ما تتمتَّعُ به إذا كان المآل النار، {أفرأيتَ إن متَّعْناهم سنينَ ثم جاءَهُم ما كانوا يوعدونَ. ما أغنى عنهُم ما كانوا يُمَتَّعونَ}.
[8] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے پر اپنے فضل و کرم اور اپنے احسان اور بندے کی ناشکری کا ذکر کرتا ہے، بندے کو جب مرض اور فقروفاقہ وغیرہ کی کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ سمندر وغیرہ میں گھر جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تو نہایت عاجزی اور انابت کے ساتھ اسے پکارتا ہے اور اس مصیبت کو دور کرنے میں گڑگڑا کر اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ ﴿ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّؔنْهُ ﴾ ’’ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے نعمت سے نواز دیتا ہے‘‘ اور اس سے مصیبت اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے ﴿نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ ﴾ تو وہ اس تکلیف اور مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا تھا اور اس طرح گزرتا ہے گویا اس پر کبھی کوئی مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی اور یوں اپنے شرک پر جما رہتا ہے۔ ﴿وَجَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًؔا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ٘﴾ ’’اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (لوگوں کو) اس کے راستے سے گمراہ کرے۔‘‘ یعنی خود اپنے نفس کو بھی گمراہ کرے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے کیونکہ دوسروں کو گمراہ کرنا، گمراہ ہونے ہی کا ایک شعبہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے لازم پر دلالت کرنے کے لیے ملزوم کا ذکر کیا ہے۔ ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے!‘‘ اس سرکش انسان سے جس نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا ﴿تَ٘مَتَّ٘عْ بِكُفْرِكَ قَلِیْلًا١ۖ ۗ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰؔبِ النَّارِ ﴾ ’’اپنے کفر کاتھوڑا سا فائدہ اٹھالے یقیناتو جہنمیوں میں سے ہے۔‘‘ جب تیرا انجام جہنم ہے تو یہ نعمتیں جن سے تو فائدہ اٹھا رہا ہے تیرے کسی کام نہ آئیں گی۔ ﴿اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ۰۰ ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ۰۰ مَاۤ اَغْنٰؔى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ﴾ (الشعراء :26؍205-207) ’’کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انھیں مہلت دے کر برسوں فائدہ اٹھانے دیں ، پھر ان کے پاس وہ چیز آ جائے جس سے انھیں ڈرایا جا رہا تھا تو یہ سامان زیست جو انھیں عطا کیا گیا ہے، ان کے کسی کام نہ آئے گا۔‘‘
آیت: 9 #
{أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (9)}.
کیا (یہ برابر ہو سکتا ہے اس کے) جو شخص کہ وہ عبادت کرنے والا ہو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے اور کھڑے، ڈرتا ہے آخرت سے اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی رحمت کی، کہہ دیجیے! کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں علم رکھتے؟ بلاشبہ نصیحت تو پکڑتے ہیں عقل والے ہی(9)
#
{9} هذه مقابلةٌ بين العامل بطاعة الله وغيره، وبين العالم والجاهل، وأنَّ هذا من الأمور التي تَقَرَّرَ في العقول تباينُها، وعُلِمَ علماً يقيناً تفاوتُها؛ فليس المعرِضُ عن طاعة ربِّه المتَّبِع لهواه كمن هو قانتٌ؛ أي: مطيعٌ لله بأفضل العبادات، وهي الصلاة، وأفضل الأوقات، وهي أوقات الليل، فوصَفَه بكثرة العمل وأفضله، ثم وَصَفَه بالخوف والرجاء، وذكر أنَّ متعلَّقَ الخوف عذابُ الآخرة على ما سَلَفَ من الذُّنوب، وأنَّ متعلَّقَ الرجاءِ رحمةُ الله، فوصفه بالعمل الظاهر والباطن. {قل هل يَسْتَوي الذين يعلمون}: ربَّهم ويعلمونَ دينَه الشرعيَّ ودينَه الجزائيَّ وما له في ذلك من الأسرار والحكم، {والذين لا يعلمونَ}: شيئاً من ذلك، لا يستوي هؤلاء ولا هؤلاء؛ كما لا يستوي الليل والنهار والضياء والظلام والماء والنار. {إنَّما يَتَذَكَّرُ}: إذا ذُكِّروا {أولو الألبابِ}؛ أي: أهل العقول الزكيَّة الذكيَّة؛ فهم الذين يُؤْثِرونَ الأعلى على الأدنى؛ فيؤثِرون العلمَ على الجهل، وطاعةَ اللَّه على مخالفتِهِ؛ لأنَّ لهم عقولاً ترشِدُهم للنظر في العواقب؛ بخلاف مَنْ لا لبَّ له ولا عقلَ؛ فإنَّه يتَّخِذُ إلهه هواه.
[9] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور نافرمانی کرنے والے کے درمیان اور عالم اور جاہل کے مابین مقابلہ ہے۔ نیز اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جن کا تضاد عقل انسانی میں راسخ اور ان کے درمیان تفاوت یقینی طور پر معلوم ہے۔ پس اپنے رب کی اطاعت سے روگرداں اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اس شخص کی مانند نہیں ہو سکتا ہے جو افضل اوقات یعنی رات کے اوقات میں بہترین عبادت، یعنی نماز کے ذریعے سے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین اعمال کو کثرت کے ساتھ بجالانے کے وصف سے موصوف کیا، پھر اسے خوف اور امید کی صفات سے موصوف کیا، نیز ذکر فرمایا کہ خوف ان گناہوں کے بارے میں آخرت کے عذاب سے تعلق رکھتا ہے، جو اس سے سرزد ہو چکے ہیں اور امید کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی عمل سے موصوف فرمایا۔ ﴿قُ٘لْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے کیا وہ برابر ہوسکتے ہیں جو جانتے ہیں۔‘‘ جو اپنے رب، اس کے دین شرعی، دین جزائی اور دین کے اسرار اور حکمتوں کا علم رکھتے ہیں ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ اور جو ان مذکورہ امور کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ یہ دونوں قسم کے لوگ کبھی برابر نہیں ہوتے جس طرح رات اور دن، روشنی اور اندھیرا اور آگ اور پانی برابر نہیں ہوتے۔ ﴿اِنَّمَا یَتَذَكَّـرُ ﴾ جب نصیحت کی جاتی ہے تو صرف وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں ﴿اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ جو صاف ستھری اور تیز عقل کے مالک ہیں۔ پس یہی لوگ اعلیٰ کو ادنیٰ پر مقدم رکھتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ علم کو جہالت پر اور اللہ کی اطاعت کو اس کی مخالفت پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی عقل ان کو عواقب میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس بے عقل شخص اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔
آیت: 10 #
{قُلْ يَاعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (10)}.
کہہ دیجیے :اے میرے بندو! جو ایمان لائے! ڈرو اپنے رب سے، واسطے ان لوگوں کے، جنھوں نے اچھے عمل کیے اس دنیا میں، بھلائی ہے، اور زمین اللہ کی کشادہ ہے، بلاشبہ پورا دیا جائے گا صبر کرنے والوں کو، ثواب ان کا، بے شمار (10)
#
{10} أي: قل منادياً لأشرف الخَلْق، وهم المؤمنون، آمراً لهم بأفضل الأوامر، وهي التقوى، ذاكراً لهم السبب الموجب للتقوى، وهو ربوبيَّة الله لهم وإنعامُه عليهم، المقتضي ذلك منهم أن يَتَّقوه، ومن ذلك ما منَّ الله عليهم به من الإيمان؛ فإنَّه موجبٌ للتقوى؛ كما تقولُ: أيُّها الكريم تصدَّقْ! وأيُّها الشجاع قاتل! وذكر لهم الثوابَ المنشِّطَ في الدُّنيا، فقال: {للذين أحسنوا في هذه الدُّنيا}: بعبادة ربِّهم لهم {حسنةٌ}: رزقٌ واسعٌ ونفسٌ مطمئنةٌ وقلبٌ منشرحٌ؛ كما قال تعالى: {مَنْ عَمِلَ صالحاً من ذَكَرٍ أو أنثى وهو مؤمنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حياةً طيبةً}. {وأرضُ الله واسعةٌ}: إذا مُنِعْتُم من عبادتِهِ في أرض؛ فهاجِروا إلى غيرِها تعبُدون فيها ربَّكم وتتمكَّنون من إقامة دينِكم. ولمَّا قال: {للذين أحسنوا في هذه الدُّنيا حسنةٌ}؛ كان لبعض النفوس مجالٌ في هذا الموضع، وهو أنَّ النصَّ عامٌّ؛ أنَّه كل مَنْ أحسن؛ فله في الدُّنيا حسنةٌ؛ فما بالُ مَنْ آمن في أرض يُضْطَهَدُ فيها ويُمْتَهَنُ لا يحصل له ذلك؟ دَفَعَ هذا الظنَّ بقوله: {وأرضُ الله واسعةٌ}: وهنا بشارةٌ نصَّ عليها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «لا تزال طائفةٌ من أمَّتي على الحقِّ ظاهرين لا يضرُّهم مَنْ خَذَلَهم ولا من خالَفَهم حتى يأتي أمرُ الله وهم على ذلك». تشير إليه هذه الآية وترمي إليه من قريب، وهو أنَّه تعالى أخبر أنَّ أرضَه واسعةٌ؛ فمهما مُنِعْتُم من عبادته في موضع؛ فهاجروا إلى غيرها. وهذا عامٌّ في كلِّ زمان ومكان؛ فلا بدَّ أن يكونَ لكلِّ مهاجرٍ ملجأ من المسلمين يلجأ إليه وموضعٌ يتمكَّن من إقامة دينِهِ فيه. {إنَّما يُوَفَّى الصابرون أجْرَهُم بغير حسابٍ}: وهذا عامٌّ في جميع أنواع الصبر: الصبر على أقدار الله المؤلمةِ؛ فلا يتسخَّطُها، والصبر عن معاصيه؛ فلا يرتكبها، والصبر على طاعته حتى يؤدِّيَها، فوعد الله الصابرينَ أجرهم بغير حسابٍ؛ أي: بغير حدٍّ ولا عدٍّ ولا مقدارٍ، وما ذاك إلا لفضيلة الصبر ومحلِّه عند الله، وأنَّه معينٌ على كلِّ الأمور.
[10] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اشرف المخلوقات یعنی اہل ایمان کو دینی امور میں سے سب سے بہتر چیز تقوی کا حکم دیتے ہوئے کہہ دیجیے اور ان کے سامنے اس سبب کا بھی ذکر کیجیے جو تقویٰ کا موجب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی نعمتوں کا اقرار، جو ان سے تقویٰ اختیار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو تقویٰ کا موجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کسی سخی شخص سے کہیں ’’اے سخی! صدقہ کر‘‘ اور کسی بہادر شخص سے کہیں ’’اے بہادر لڑائی کر۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا ذکر فرمایا جو دنیا میں ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا ﴾ ’’جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی‘‘ اپنے رب کی عبادت کے ذریعے سے تو ان کے لیے ﴿حَسَنَةٌ ﴾ ’’بھلائی‘‘ لامحدود رزق، نفس مطمئنہ اور انشراح قلب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ﴾ (النحل: 16؍97) ’’جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، ہم اسے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘ ﴿وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ﴾ ’’اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔‘‘ یعنی اگر تمھیں زمین کے کسی خطے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف ہجرت کر جاؤ جہاں تم اپنے رب کی عبادت کر سکو اور جہاں تمھارے لیے اقامت دین ممکن ہو۔جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ﴾ اور چونکہ یہ نص عام ہے… تو اس مقام پر بعض لوگوں کے لیے یہ کہنے کی مجال تھی کہ جو شخص بھی نیک کام کرے گا اس کے لیے دنیا میں بھلائی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہے جو کسی خطۂ زمین میں ایمان لایا بایں ہمہ وہ مظلوم اور محکوم و مجبور ہے اور وہ اس بھلائی سے محروم ہے؟ اس لیے اس گمان کا جواب ان الفاظ میں فرمایا: ﴿وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ﴾ ’’اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ حضرت نبی اکرم e نے بھی اس بشارت کو ان الفاظ میں منصوص فرمایا ’’میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کسی کا ان سے علیحدہ ہونا اور مخالفت کرنا انھیں کوئی نقصان نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے گا اور یہ گروہِ حق اسی نہج پر ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿انما قولنا لشئی اذا اردنٰہ﴾‘ ح:7460۔ وصحیح مسلم، الجہاد، باب قولہﷺ لاتزال طائفۃ من امتي…، ح: 1920۔) یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی زمین بہت کشادہ ہے اس لیے جب کبھی بھی کسی جگہ تمھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو تم کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاؤ ۔ ہر زمان و مکان میں یہ حکم عام ہے۔ تب لازم ٹھہرا کہ ہر ہجرت کرنے والے مومن کے لیے مسلمانوں کے اندر کوئی ٹھکانا ہو جہاں وہ پناہ لے سکے اور ایک جگہ ہو جہاں وہ اپنے دین کو قائم کر سکے۔ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰؔبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’جو صبر کرنے والے ہیں، انھیں بے شمار ثواب ملے گا۔‘‘ یہ آیت کریمہ صبر کی تمام انواع کے لیے عام ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر اس طرح صبر کرنا کہ اس میں ناراضی کا شائبہ نہ ہو، گناہ اور معاصی کے مقابلے میں صبر کرتے ہوئے ان کے ارتکاب سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے صبر شعار لوگوں کے لیے بے حساب اجر کا وعدہ کیا ہے، یعنی کسی حد، تعداد اور مقدار کے بغیر۔ یہ صبر کی فضیلت ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس موقع ومحل ہے اور بلاشبہ یہ ہر معاملے میں معین ہے۔
آیت: 11 - 16 #
{قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (11) وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ (12) قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (13) قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي (14) فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (15) لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ذَلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ يَاعِبَادِ فَاتَّقُونِ (16)}.
کہہ دیجیے:بے شک حکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ عبادت کرو میں اللہ کی خالص کرتے ہوئے اس کے لیے بندگی کو (11) اور حکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ ہوں میں پہلا مسلمان (12) کہہ دیجیے: بے شک میں ڈرتا ہوں، اگرنافرمانی کی میں نے اپنے رب کی، عذاب سے بڑے دن کے (13) کہہ دیجیے: اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں میں، خالص کرتے ہوئے اس کے لیے اپنی بندگی کو (14) پس عبادت کرو تم جس کی تم چاہو، اس کےسوا، کہہ دیجیے: بلاشبہ نقصان اٹھانے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں ڈالا اپنی جانوں کو اوراپنے گھر والوں کو دن قیامت کے، خبردار! یہ (جہنم کی ہمیشگی) وہی ہے خسران ظاہر (15) واسطے ان کے، ان کے اوپر سائبان ہوں گے آگ کے اور ان کے نیچے (بھی) سائبان ہوں گے، ( یہی) وہ (عذاب) ہے کہ ڈراتا ہے اللہ اس کے ساتھ اپنے بندوں کو، اے میرے بندو! پس ڈرو تم مجھی سے (16)
#
{11} أي: {قل}: يا أيُّها الرسولُ، للناس: {إنِّي أمرتُ أن أعْبُدَ اللهَ مخلصاً له الدين}: في قولِهِ في أول السورة: {فاعْبُدِ الله مخلصاً له الدين}.
[11] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! لوگوں سے کہہ دیجیے! ﴿اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ﴾ ’’بلاشبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کروں‘‘ جیسا کہ اس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں فرمایا: ﴿فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ﴾ (الزمر: 39/2) ’’پس آپ اللہ کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرو۔‘‘
#
{12} {وأُمِرْتُ لأن أكونَ أولَ المسلمينَ}: لأنِّي الدَّاعي الهادي للخلقِ إلى ربِّهم، فيقتضي أنِّي أولُ من ائتَمَرَ بما أمرَ به وأولُ مَنْ أسلمَ، وهذا الأمرُ لا بدَّ من إيقاعِهِ من محمد - صلى الله عليه وسلم - وممَّن زعم أنه من أتْباعِهِ؛ فلا بدَّ من الإسلام في الأعمال الظاهرة والإخلاص لله في الأعمال الظاهرة والباطنة.
[12] ﴿وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلمان بنو۔‘‘ کیونکہ میں مخلوق کے لیے داعی اور ان کے رب کی طرف ان کی راہنمائی کرنے والا ہوں یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے میں تمام لوگوں سے پہلے اس حکم کی تعمیل کروں اور سب سے پہلے میں اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دوں۔ اس حکم کو بجا لانا رسول اللہ e پر اور ان لوگوں پر لازم ہے جو آپ کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ظاہری اعمال میں اسلام پر عمل کرنا اور ظاہری اور باطنی اعمال میں اللہ کے لیے اخلاص کو مدنظر رکھنا واجب ہے۔
#
{13} {قل إني أخافُ إن عَصَيْتُ ربِّي}: فيما أمرني به من الإخلاص والإسلام {عذابَ يومٍ عظيمٍ}: يخلدُ فيه مَنْ أشرك ويعاقَبُ فيه من عصى.
[13] ﴿قُ٘لْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے اندیشہ ہے‘‘ یعنی اخلاص اور اسلام کے بارے میں میرے رب نے مجھے جو حکم دیا ہے ﴿عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’بڑے ان کے عذاب کا‘‘ جس نے شرک کا ارتکاب کیا وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور جس نے گناہ کیا اسے اس عذاب کے ذریعے سے سزا دی جائے گی۔
#
{14 ـ 15} {قل اللهَ أعْبُدُ مخلصاً له ديني. فاعْبُدوا ما شِئْتُم من دونِهِ}: كما قال تعالى: {قل يا أيُّها الكافرونَ. لا أعْبُدُ ما تَعْبُدونَ. ولا أنتُمْ عابِدونَ ما أعْبُدُ. ولا أنا عابِدٌ ما عَبَدْتُم. ولا أنتُم عابِدونَ ما أعْبُدُ. لكُم دينُكم ولي دينٌ}. {قُلْ إنَّ الخاسرينَ}: حقيقة هم {الذين خسروا أنفسهم}: حيث حَرَموها الثوابَ، واستحقَّتْ بسببِهِم وخيمَ العقاب، {وأهليهم يومَ القيامةِ}؛ أي: فُرِّقَ بينَهم وبينَهم، واشتدَّ عليهم الحزنُ، وعَظُمَ الخسرانُ. {ألا ذلك هو الخسرانُ المبينُ}: الذي ليس مثلَه خسرانٌ، وهو خسرانٌ مستمرٌّ لا ربح بعده، بل ولا سلامةَ.
[14، 15] ﴿قُ٘لِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْۙ۰۰فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ﴾ ’’کہہ دیجیے! میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ تم اسے چھوڑ کر جس کی چاہو عبادت کرتے رہو‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿قُ٘لْ یٰۤاَیُّهَا الْ٘كٰفِرُوْنَۙ۰۰ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ۰۰ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰؔبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُۚ۰۰ وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْۙ۰۰ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰؔبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُؕ۰۰ لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ﴾ (الکافرون: 109؍1-6) ’’کہہ دیجیے اے کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، نہ تم اس ہستی کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، نہ میں ان ہستیوں کی عبادت کر سکتا ہوں، جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس ہستی ہی کی عبادت کرتے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، تمھارا دین تمھارے لیے اور میرا دین میرے لیےہے۔‘‘ ﴿قُ٘لْ اِنَّ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ نقصان اٹھانے والے۔‘‘ درحقیقت وہ لوگ ہیں ﴿الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا‘‘ اور اپنے آپ کو ثواب سے محروم کیا اور اس سبب سے وہ بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ﴿وَاَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ان کے درمیان اور ان کے گھر والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی۔ شدید حزن و غم انھیں آگھیرے گا اور وہ بہت بڑے گھاٹے میں پڑ جائیں گے۔ ﴿اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ ’’خبردار! یہی صریح خسارہ ہے۔‘‘ اس جیسا اور کوئی خسارہ نہیں اور یہ دائمی خسارہ ہے جس کے بعد کوئی نفع نہیں، بلکہ اس کے بعد سلامتی ہی نہیں۔
#
{16} ثم ذكر شدَّةَ ما يحصُلُ لهم من الشقاء، فقال: {لهم من فوقِهِم ظُلَلٌ من النارِ}؛ أي: قطع عذاب كالسحاب العظيم، {ومن تَحْتِهِم ظللٌ، ذلك}: الوصفُ الذي وَصَفْنا به عذابَ أهل النار سوطٌ يسوقُ الله به عبادَه إلى رحمته، {يُخَوِّفُ اللهُ به عبادَه يا عبادِ فاتَّقونِ}؛ أي: جعل ما أعدَّه لأهل الشقاء من العذابِ داع يدعو عبادَه إلى التقوى وزجراً عمَّا يوجِبُ العذاب؛ فسبحانَ من رَحِمَ عبادَهُ في كل شيءٍ! وسَهَّلَ لهم الطرقَ الموصلة إليه، وحثَّهم على سلوكها، ورغَّبهم بكلِّ مرغِّب تشتاقُ له النفوسُ وتطمئنُّ له القلوب، وحذَّرَهم من العمل لغيره غايةَ التَّحذير، وذَكَرَ لهم الأسبابَ الزاجرةَ عن تركِهِ.
[16] پھر اللہ تعالیٰ نے اس بدتر بدبختی کا ذکر فرمایا جس میں یہ لوگ مبتلا ہوں گے، چنانچہ فرمایا: ﴿لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ ﴾ ’’ان کے اوپر آگ کے سائبان ہونگے۔‘‘ یعنی بادل کی مانند عذاب کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوں گے۔ ﴿وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ﴾ ’’اور ان کے نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے‘‘ ﴿ذٰلِكَ ﴾ یعنی جہنمیوں کے عذاب کا یہ وصف جو ہم نے بیان کیا ہے ایک ایسا کوڑا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی رحمت کے سائے کی طرف ہانکتا ہے۔ ﴿یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ١ؕ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ ﴾ ’’اللہ اس عذاب کے ذ ریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کے لیے جو عذاب تیار کر رکھا ہے، یہ اس کے بندوں کو تقویٰ کی طرف بلاتا ہے اور ان امور پر زجروتوبیخ ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جو ہر چیز میں اپنے بندوں پر رحم کرتی ہے، جس نے اپنے (اللہ) تک پہنچانے والے راستوں کو ان کے لیے نہایت سہل بنایا، ان پر گامزن ہونے کے لیے ان کو آمادہ کیا اور ہر ایسے طریقے سے ان کو ترغیب دی جن کے ذریعے سے نفوسِ انسانی میں شوق پیدا ہوتا ہے اور اس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا دیگر اعمال سے ڈرایا ہے اور ان کے سامنے ان اسباب کا بھی ذکر کیا ہے جو انھیں ان اعمال کو ترک کرنے سے روکتے ہیں۔
آیت: 17 - 18 #
{وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ (17) الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (18)}.
اور وہ لوگ کہ بچے وہ طاغوت سے کہ عبادت کریں اس کی اور رجوع کیا انھوں نے اللہ کی طرف، ان کے لیے خوشخبری ہے، پس خوشخبری دے دیں آپ میرے بندوں کو (17) وہ لوگ جو سنتے ہیں بات کو اورپیروی کرتے ہیں اس میں سے اچھی بات کی یہی وہ لوگ ہیں کہ ہدایت دی ان کو اللہ نے، اور یہی لوگ ہیں عقل والے (18)
#
{17} لما ذَكَرَ تعالى حال المجرمين؛ ذَكَرَ حالَ المنيبين وثوابَهم، فقال: {والذين اجْتَنَبوا الطاغوتَ أن يَعْبُدوها}: والمرادُ بالطاغوت في هذا الموضع عبادةُ غير الله؛ فاجْتَنَبوها في عبادتها، وهذا من أحسنِ الاحترازِ من الحكيم العليم؛ لأنَّ المدحَ إنَّما يتناولُ المجتَنِبَ لها في عبادتها. {وأنابوا إلى اللهِ}: بعبادتِهِ وإخلاص الدينِ له، فانصرفتْ دواعيهم من عبادةِ الأصنام إلى عبادةِ الملكِ العلاَّم، ومن الشركِ والمعاصي إلى التوحيدِ والطاعات. {لهمُ البُشرى}: التي لا يُقادِرُ قَدْرَها ولا يَعْلَمُ وصْفَها إلاَّ مَنْ أكْرَمَهم بها، وهذا شاملٌ للبُشرى في الحياة الدُّنيا بالثناء الحسن والرؤيا الصالحةِ والعنايةِ الربَّانيَّة من الله، التي يرونَ في خلالها أنَّه مريدٌ لإكرامهم في الدُّنيا والآخرة، ولَهُمُ البشرى في الآخرة عند الموت وفي القبر وفي القيامة، وخاتمةُ البُشرى ما يبشِّرُهم به الربُّ الكريم من دوام رضوانِهِ وبرِّه وإحسانِهِ وحلول أمانِهِ في الجنة.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ مجرمین کا حال بیان کرنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کا حال بیان کرتے اور ان کے لیے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُ٘وْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا ﴾ ’’اور وہ لوگ جو طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے رہے۔‘‘ اس مقام پر طاغوت سے مراد، غیراللہ کی عبادت ہے یعنی جنھوں نے غیراللہ کی عبادت سے اجتناب کیا۔ یہ حکیم و علیم کی طرف سے بہترین احتراز ہے کیونکہ مدح تو صرف اسی شخص کو پہنچتی ہے جو ان کی عبادت سے بچتا ہے ﴿وَاَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﴾ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اخلاص دین کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی فطرت کے داعیے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کر ہر چیز کا علم رکھنے والے بادشاہ کی عبادت کی طرف، شرک اور معاصی کو ترک کرکے توحید و اطاعت کی طرف رخ کر لیتے ہیں۔ ﴿لَهُمُ الْ٘بُشْ٘رٰى ﴾ ’’ان کے لیے ایسی خوشخبری ہے‘‘ جس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے اور صرف وہی لوگ اس سے واقف ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خوشخبری سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس میں، دنیا کے اندر وہ بشارت بھی شامل ہے جو بندۂ مومن کو ثنائے حسن، سچے خوابوں اور عنایت ربانی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ انھیں اس بشارت کے اندر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کا اکرام چاہتا ہے۔ ان کے لیے موت کے وقت، قبر کے اندر اور قیامت کے روز خوشخبری ہے اور ان کے لیے آخری بشارت وہ ہے جو رب کریم ان کو اپنی دائمی رضا، اپنے فضل و احسان اور جنت کے اندر امان کی صورت میں دے گا۔
#
{18} ولمَّا أخبر أنَّ لهم البُشرى؛ أمره الله ببشارَتِهِم، وذَكَرَ الوصفَ الذي استحقُّوا به البشارةَ، فقال: {فَبَشِّرْ عبادِ. الذين يستَمِعون القولَ فيتَّبِعونَ أحْسَنَهُ}: وهذا جنسٌ يشملُ كلَّ قول؛ فهم يستمعون جنس القول ليميِّزوا بين ما ينبغي إيثارُه مما ينبغي اجتنابُه؛ فلهذا كان من حزمهم وعقلهم أنَّهم يتَّبِعون أحسنَه، وأحسنُه على الإطلاق كلامُ الله وكلامُ رسوله؛ كما قال في هذه السورة: {اللهُ نَزَّلَ أحسنَ الحديثِ كتاباً متشابهاً ... } الآية. وفي هذه الآية نكتةٌ، وهي أنَّه لما أخبر عن هؤلاء الممدوحين أنَّهم يستمعون القول فيتَّبِعون أحسنَه؛ كأنَّه قيل: هل من طريقٍ إلى معرفة أحسنِهِ حتى نتَّصِفَ بصفات أولي الألباب، وحتى نعرِفَ أنَّ مَنْ آثره عَلِمْنا أنَّه من أولي الألباب؟ قيل: نعم؛ أحسنُه ما نصَّ الله عليه بقوله: {اللهُ نَزَّلَ أحسنَ الحديثِ كتاباً متشابهاً ... } الآية. أولئك {الذين يستمعونَ القولَ فيتَّبِعونَ أحسنَهُ أولئك الذين هداهُمُ اللهُ}: لأحسن الأخلاق والأعمال، {وأولئك هم أولو الألبابِ}؛ أي: العقول الزاكية، ومن لُبِّهم وحزمِهِم أنَّهم عَرَفوا الحسن من غيره، وآثروا ما ينبغي إيثارُهُ على ما سواه، وهذا علامةُ العقل، بل لا علامةَ للعقل سوى ذلك؛ فإنَّ الذي لا يميز بين الأقوال حسنِها وقبيحِها؛ ليس من أهل العقول الصحيحةِ، أو الذي يميِّزُ لكنْ غلبتْ شهوتُه عقلَه فبقي عقلُه تابعاً لشهوتِهِ فلم يؤثِرِ الأحسنَ؛ كان ناقصَ العقل.
[18] جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان مومن بندوں کے لیے خوشخبری ہے تو اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ ان کو خوشخبری دے دیں اور وہ وصف بھی ذکر کر دیا جس کی بنا پر وہ بشارت کے مستحق قرار پائے ہیں۔ ﴿فَبَشِّرْ عِبَادِۙ۰۰ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ ﴾ ’’پس میرے بندوں کو خوش خبری سنا دو، جو بات کو سنتے ہیں‘‘ یہاں (القول) ہر قسم کی بات کو شامل ہے وہ بات کو سنتے ہیں تاکہ وہ امتیاز کر سکیں کہ کس بات کو ترجیح دی جائے اور کس بات سے اجتناب کیا جائے۔ یہ ان کا حزم و احتیاط اور عقل مندی ہے کہ وہ اس میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں۔ بہترین کلام علی الاطلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (e)کا کلام ہے جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایا: ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّؔتَشَابِهًا ﴾ (الزمر: 39/23) ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ جب ان ممدوح لوگوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین قول کی اتباع کرتے ہیں، تو گویا یہ کہا گیا ہے کہ آیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے سے بہترین کلام کی معرفت حاصل ہو تاکہ ہم بھی عقل مندوں کی صفات سے متصف ہوجائیں اور جو کوئی اس صفت سے متصف ہو تو ہمیں پتہ چل جائے کہ یہ عقل مندوں میں سے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں! بہترین کلام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا: ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّؔتَشَابِهًا ﴾ (الزمر:39؍23) ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔‘‘ ﴿الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰؔىهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’وہ لوگ جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں ، پھر اس کے بہترین پہلو کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے‘‘ یعنی بہترین اخلاق و اعمال کی طرف ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ ’’اور یہی لوگ عقل مند ہیں۔‘‘ یعنی پاک عقل کے مالک ہیں۔ یہ ان کی عقل مندی اور ان کا حزم و احتیاط ہے کہ انھوں نے قول حسن اور غیر حسن کو پہچان لیا اور پھر اس قول کو ترجیح دی جس کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی اور یہ عقل مندی کی علامت ہے، بلکہ عقل مندی کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور علامت نہیں ہے کیونکہ وہ شخص جو قول حسن اور غیر حسن میں امتیاز نہیں کر سکتا، ان لوگوں کے زمرے میں نہیں آتا جو عقل صحیح کے مالک ہیں یا وہ اچھی اور بری بات کے درمیان امتیاز تو کر سکتا ہے لیکن جب شہوتِ نفس عقل پر غالب آجاتی ہے اور عقل شہوت کی محض تابع ہو جاتی ہے تو وہ بہترین کلام کی تعظیم نہیں کرتا تب وہ ناقص العقل قرار پاتا ہے۔
آیت: 19 - 20 #
{أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ (19) لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ (20)}.
کیا پس جو شخص کہ ثابت ہو گئی اس پر بات عذاب کی، کیا پس آپ چھڑا لیں گے اس کو جو آگ میں ہے؟(19) لیکن وہ لوگ جو ڈر گئے اپنے رب سے ، ان کے لیے بالاخانے ہیں، ان کے اوپر(اور )بالاخانے ہیں بنائے ہوئے، چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں(یہ ہے) وعدہ اللہ نے ، نہیں خلاف کرتا اللہ اپنے وعدے کے (20)
#
{19} أي: أفمن وجبتْ عليه كلمةُ العذاب باستمرارِهِ على غَيِّهِ وعناده وكفرِهِ؛ فإنَّه لا حيلة لك في هدايته، ولا تقدِرُ تُنْقِذُ مَنْ في النار لا محالة.
[19] یعنی وہ شخص جس کے گمراہی، عناد اور کفر پر جمے رہنے کے باعث، اس پر عذاب کا حکم واجب ہو گیا، تو اس کی ہدایت کے لیے آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی آپ اس شخص کو کسی صورت میں آگ سے بچا سکتے ہیں جو آگ میں گرچکا ہو۔
#
{20} لكنِ الغبنُ كلُ الغبن والفوزُ كلُّ الفوزِ للمتَّقين، الذين أعدَّ لهم من الكرامة وأنواع النعيم ما لا يُقادَرُ قَدْرُهُ، {لهم غُرَفٌ}؛ أي: منازل عاليةٌ مزخرفةٌ من حسنها وبهائها وصفائِها أنَّه يُرى ظاهرُها من باطنها وباطِنُها من ظاهرها، ومن علوِّها وارتفاعِها أنَّها تُرى كما يُرى الكوكبُ الغابرُ في الأفق الشرقيِّ أو الغربيِّ، ولهذا قال: {مِن فوقِها غرفٌ}؛ أي: بعضُها فوقَ بعضٍ {مبنيةٌ}: بذهب وفضة ومِلاطُها المسكُ الأذفر، {تجري من تحتها الأنهارُ}: المتدفقةُ المسقية للبساتين الزاهرة والأشجار الطاهرة، فتُغِلُّ أنواع الثمار اللذيذة والفاكهة النضيجة. {وَعْدَ اللهِ لا يُخْلِفُ الله الميعاد}: وقد وعد المتَّقين هذا الثواب؛ فلا بدَّ من الوفاء به؛ فَلْيوفوا بخصال التقوى؛ ليوفِّيَهُمْ أجورَهم.
[20] ہر قسم کی غنا اور فوزوفلاح صرف تقویٰ شعار لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے اکرام و تکریم اور مختلف اقسام کی نعمتیں تیار کی گئی ہیں جن کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ﴿لَهُمْ غُ٘رَفٌ ﴾ یعنی ان کے لیے آراستہ کیے گئے بالاخانے ہیں جن کی خوبصورتی، حسن اور صفائی کی بنا پر ان کے اندر صاف دیکھا جاسکے گا اور وہ اپنی بلندی کی وجہ سے یوں نظر آئیں گے جیسے مشرقی یا مغربی افق میں غروب ہونے والا ستارہ۔ بنابریں فرمایا: ﴿مِّنْ فَوْقِهَا غُ٘رَفٌ ﴾ یعنی یہ بالا خانے ایک دوسرے کے اوپر ﴿مَّبْنِیَّةٌ ﴾ سونے چاند کی اینٹوں سے تعمیر کیے گئے ہوں گے جن کو آپس میں جوڑنے کے لیے مشک کا گارا بنایا گیا ہوگا۔ ﴿تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔‘‘ جن کا پانی نہایت تیزی سے رواں ہو گایہ نہریں جنت کے خوبصورت باغات اور اس کے پاکیزہ درختوں کو سیراب کریں گی جن سے نہایت لذید قسم کے پھل اور پکے ہوئے میوے پیدا ہوں گے۔ ﴿وَعْدَ اللّٰهِ١ؕ لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ الْمِیْعَادَ ﴾ ’’یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا‘‘ اس نے پرہیز گار لوگوں سے اس ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔ یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا، لہٰذا انھیں چاہیے کہ وہ تقویٰ کے تمام خصائل کو پورا کریں تاکہ ان کو پورا پورا اجر عطا کیا جائے۔
آیت: 21 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (21)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ ہی نے نازل کیا آسمان سے پانی، پھر داخل کیا اس کو چشموں میں زمین کے ، پھر وہ نکالتا ہے اس کےذریعے سے کھیتی اس حال میں کہ مختلف ہیں رنگ اس کے، پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، پس دیکھتے ہیں آپ اس کو زرد شدہ ، پھر کر دیتا ہے وہ اس کو ریزہ ریزہ۔ بلاشبہ اس میں البتہ نصیحت ہے واسطے اہل عقل کے (21)
#
{21} يُذَكِّرُ تعالى أولي الألباب ما أنزلَه من السماء من الماء، وأنَّه سلكه ينابيع في الأرض؛ أي: أودعه فيها ينبوعاً يُسْتَخْرَجُ بسهولةٍ ويسرٍ. {ثم يخرِجُ به زرعاً مختلفاً ألوانُهُ}: من بُرٍّ وذرةٍ وشعيرٍ وأرزٍّ وغير ذلك، {ثم يَهيجُ}: عند استكمالِهِ أو عند حدوث آفةٍ فيه، {فتراه مصفرًّا ثم يَجْعَلُه حطاماً}: متكسِّراً. {إنَّ في ذلك لَذِكْرى لأولي الألبابِ}: يذكرون به عنايةَ ربِّهم ورحمتَه بعبادِهِ، حيث يَسَّرَ لهم هذا الماء وخَزَنَه بخزائنِ الأرض تبعاً لمصالحهم، ويذكرون به كمالَ قدرتِهِ، وأنَّه يُحيي الموتى كما أحيا الأرض بعد موتِها، ويذكُرونَ به أنَّ الفاعلَ هو المستحقُّ للعبادة. اللهم! اجْعَلْنا من أولي الألباب، الذين نَوَّهْتَ بذِكْرِهم، وهديتَهم بما أعطيتَهم من العقول وأرَيْتَهم من أسرارِ كتابِكَ وبديع آياتِكَ ما لم يصِلْ إليه غيرُهم؛ إنَّك أنت الوهابُ.
[21] اللہ تعالیٰ عقل مندوں کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے آسمان سے پانی برسایا، اس پانی کو زمین کے اندر چشموں کی صورت میں رواں دواں کیا، یعنی اس پانی کو چشموں میں محفوظ کیا جہاں سے یہ پانی نہایت آسانی اور سہولت سے نکالا جاتا ہے۔ ﴿ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّؔخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ﴾ ’’، پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے مختلف قسم کے غلہ جات نکالتا ہے‘‘ مثلاً: گیہوں، مکئی، جو اور چاول پیدا کرتا ہے۔ ﴿ثُمَّ یَهِیْجُ ﴾ ، پھر یہ کھیتیاں پوری طرح پک کر یا کسی آفت کی وجہ سے خشک ہو جاتی ہیں ﴿فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًا ﴾ ’’تو تم اسے زرد دیکھتے ہو، پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے۔‘‘ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ’’بلاشبہ عقل مندوں کے لیے البتہ اس میں نصیحت ہے۔‘‘ ان کھیتیوں کے ذریعے سے اپنے رب کی عنایات اور بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کو یاد کرتے ہیں کہ اس نے ان کے لیے اس پانی کے حصول کو آسان بنایا اور ان کے مصالح کے مطابق اس پانی کو زمین کے خزانوں میں جمع کیا۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو یاد کرتے ہیں کہ وہ مردوں کو اسی طرح زندہ کرے گا جس طرح اس نے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا ہے۔ وہ یہ بھی یاد کرتے ہیں کہ ان تمام افعال کوسرانجام دینے والی ہستی ہی درحقیقت عبادت کی مستحق ہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان عقل مندوں میں شامل فرما، جن کا تو نے نام بلند کیا ہے، انھیں عقل سے بہرہ مند کر کے راہ راست پر گامزن کیا اور ان کے سامنے اپنی عظیم کتاب کے اسرار اور اپنی آیات سے پردہ اٹھایا جن اسرار کی معرفت ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہ ہو سکی بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔
آیت: 22 #
{أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (22)}.
کیا پس جو شخص کہ کھول دیا اللہ نے سینہ اس کا واسطے اسلام کے اور وہ روشنی پر ہے اپنے رب کی طرف سے ( تنگ دل کافر کے برابرہے؟) پس ہلاکت ہے ان کے لیے کہ سخت ہیں دل ان کے اللہ کی یاد سے، یہی لوگ ہیں صریح گمراہی میں (22)
#
{22} أي: أفيستوى مَنْ شَرَحَ الله صدرَه للإسلام، فاتَّسع لتلقِّي أحكام الله والعمل بها منشرحاً قرير العين على بصيرةٍ من أمره، وهو المرادُ بقولِهِ: {فهو على نورٍ من ربِّهِ}: كمن ليس كذلك؛ بدليل قوله: {فويلٌ للقاسيةِ قلوبُهُم مِنْ ذكرِ الله}؛ أي: لا تلين لكتابه ولا تتذكَّر آياتِهِ ولا تطمئنُّ بذكرِهِ، بل هي معرِضَةٌ عن ربِّها، ملتفتةٌ إلى غيره؛ فهؤلاء لهم الويلُ الشديدُ والشرُّ الكبير. {أولئك في ضلال مبين}: وأيُّ ضلال أعظمُ من ضلال مَنْ أعْرَضَ عن وليِّه، ومَنْ كلُّ السعادة في الإقبال عليه، وقسا قلبُهُ عن ذكرِهِ، وأقبل على كلِّ ما يضرُّه؟!
[22] کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے وسعت ہو اور وہ اسلام کے معاملے میں انشراح صدر اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ بصیرت کی راہ پر گامزن ہو… اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ ’’پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہو۔‘‘ سے یہی مراد ہے… اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو ان مذکورہ اوصاف سے محروم ہے؟ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُ٘لُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’پس ہلاکت ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہورہے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے سخت دل اس کی کتاب کو سمجھنے کے لیے نرم ہوتے ہیں نہ اس کی آیات سے نصیحت پکڑتے ہیں اور نہ اس کے ذکر سے اطمینان ہی حاصل کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے رب سے روگردانی کر کے غیر کی طرف التفات کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے شدید ہلاکت اور بہت بڑی برائی ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔‘‘ اس شخص کی گمراہی سے بڑھ کر کون سی گمراہی ہے جو اپنے والی اور سرپرست سے منہ موڑتا ہے جس کی طرف التفات میں ہر قسم کی سعادت ہے، جس کا دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بارے میں پتھر کی مانند سخت ہے اور وہ اس چیز کی طرف متوجہ ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہے۔
آیت: 23 #
{اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (23)}.
اللہ نے نازل کی سب سے اچھی بات(یعنی ) کتاب، باہم ملتی جلتی، بار بار دہرائی ہوئی، کانپ اٹھتی ہیں اس سے جلدیں ان لوگوں کی جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے، پھر نرم ہو جاتی ہیں ان کی جلدیں اوران کے دل اللہ کی یاد کی طرف، یہی ہے ہدایت اللہ کی، ہدایت دیتا ہے وہ اس کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے اور جسے گمراہ کر دے اللہ، پس نہیں ہے اس کو کوئی ہدایت دینے والا (23)
#
{23} يخبر تعالى عن كتابه الذي نزَّله أنَّه أحسنُ {الحديث} على الإطلاق؛ فأحسنُ الحديث كلامُ الله، وأحسنُ الكتبِ المنزلةِ من كلام الله هذا القرآن، وإذا كان هو الأحسنَ؛ عُلِمَ أنَّ ألفاظه أفصحُ الألفاظ وأوضحُها، وأنَّ معانِيَه أجلُّ المعاني؛ لأنَّه أحسنُ الحديث في لفظه ومعناه. {متشابهاً}: في الحسن والائتلاف وعدم الاختلاف بوجهٍ من الوجوه، حتى إنه كلَّما تدبَّره المتدبِّر وتفكَّر فيه المتفكِّر؛ رأى من اتِّفاقه ـ حتى في معانيه الغامضة ـ ما يُبْهِرُ الناظرين ويجزم بأنَّه لا يصدُرُ إلاَّ من حكيم عليم، هذا المراد بالتَّشابُهِ في هذا الموضع، وأما في قوله تعالى: {هو الذي أنْزَلَ عليك الكتابَ منه آياتٌ محكماتٌ هنَّ أمُّ الكتابِ وأخَرُ متشابهاتٌ}؛ فالمرادُ بها: التي تشتبهُ على فهوم كثيرٍ من الناس، ولا يزول هذا الاشتباه إلاَّ بردِّها إلى المحكم، ولهذا قال: {منه آياتٌ محكماتٌ هنَّ أمُّ الكتاب وأخَرُ متشابهاتٌ}: فجعل التشابه لبعضِهِ، وهنا جَعَلَه كلَّه متشابهاً؛ أي: في حسنه؛ لأنه قال: {أحسنَ الحديثِ}، وهو سورٌ وآياتٌ، والجميعُ يشبِهُ بعضُه بعضاً؛ كما ذكرنا. {مثانيَ}؛ أي: تُثَنَّى فيه القصصُ والأحكامُ والوعدُ والوعيدُ وصفاتُ أهل الخير وصفاتُ أهل الشرِّ، وتُثَنَّى فيه أسماءُ الله وصفاتُه، وهذا من جلالتِهِ وحسنِهِ؛ فإنَّه تعالى لمَّا عَلِمَ احتياجَ الخلقِ إلى معانيه المزكِّية للقلوب المكمِّلة للأخلاق، وأنَّ تلك المعاني للقلوب بمنزلة الماء لسقي الأشجار؛ فكما أنَّ الأشجار كلَّما بَعُدَ عهدُها بسقي الماء؛ نقصت، بل ربَّما تَلِفَتْ، وكلَّما تكرَّر سقيُها؛ حَسُنَتْ وأثمرتْ أنواع الثمارِ النافعةِ؛ فكذلك القلبُ يحتاجُ دائماً إلى تكرُّر معاني كلام الله تعالى عليه، وأنَّه لو تكرَّر عليه المعنى مرةً واحدةً في جميع القرآن؛ لم يقعْ منه موقعاً، ولم تحصُلِ النتيجةُ منه. ولهذا سلكتُ في هذا التفسير هذا المسلكَ الكريم؛ اقتداءً بما هو تفسيرٌ له؛ فلا تجدُ فيه الحوالةَ على موضع من المواضع، بل كلُّ موضع تجدُ تفسيرَه كاملَ المعنى غيرَ مراع لما مضى مما يُشْبِهُهُ، وإنْ كان بعضُ المواضع يكون أبسطَ من بعضٍ وأكثرَ فائدة، وهكذا ينبغي للقارئ للقرآنِ المتدبِّر لمعانيه أن لا يَدَعَ التدبُّرَ في جميع المواضع منه؛ فإنَّه يحصُلُ له بسبب ذلك خيرٌ كثيرٌ ونفعٌ غزيرٌ. ولما كان القرآنُ العظيمُ بهذه الجلالة والعظمةِ؛ أثَّر في قلوب أولي الألباب المهتدين؛ فلهذا قال تعالى: {تَقْشَعِرُّ منه جلودُ الذين يَخْشَوْنَ ربَّهم}: لما فيه من التخويف والترهيب المزعج، {ثمَّ تَلينُ جلودُهم وقلوبُهم إلى ذِكْرِ اللَّهِ}؛ أي: عند ذكر الرجاء والترغيب؛ فهو تارةً يرغِّبُهم لعمل الخير، وتارةً يرهِّبُهم من عمل الشر. {ذلك}: الذي ذكره الله من تأثير القرآن فيهم {هدى الله}؛ أي: هدايةٌ منه لعباده، وهو من جملة فضله وإحسانه عليهم، {يَهْدي به}؛ أي: بسبب ذلك {مَن يشاءُ} من عبادِهِ. ويُحْتَمَلُ أنَّ المرادَ بقوله: {ذلك}؛ أي: القرآن الذي وَصَفْناه لكم {هدى الله}: الذي لا طريقَ يوصِلُ إلى الله إلاَّ منه. {يَهْدي به مَن يَشاءُ} من عبادِهِ، ممَّن حَسُنَ قصدُه؛ كما قال تعالى: {يَهْدِي بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَه سُبُلَ السلام}. {ومَن يُضْلِلِ اللهُ فما لَهُ من هادٍ}: لأنَّه لا طريق يوصِلُ إليه إلاَّ توفيقُه، والتوفيقُ للإقبال على كتابِهِ، فإذا لم يحصُلُ هذا؛ فلا سبيل إلى الهدى، وما هو إلاَّ الضلالُ المبين والشقاء.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کے بارے میں، جسے اس نے نازل فرمایا خبر دیتا ہے کہ یہ کتاب علی الاطلاق ﴿اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ﴾ ’’بہترین کلام ہے۔‘‘ پس بہتر کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے نازل کی گئی کتابوں میں بہترین کتاب یہ قرآن کریم ہے۔ جب قرآن کریم بہترین کتاب ہے تب معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ فصیح ترین اور واضح ترین، اس کے معانی جلیل ترین ہیں کیونکہ یہ اپنے الفاظ اور معانی میں بہترین کلام ہے۔ اپنے حسن تالیف اور ہر لحاظ سے عدم اختلاف کے اعتبار سے اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں حتی کہ اگر کوئی اس میں غوروفکر کرے تو اسے اس میں ایسی مہارت، اس کے معانی میں ایسی گہرائی نظر آئے گی جو دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ (بے عیب) کلام حکمت اور علم والی ہستی کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہو سکتا۔ اس مقام پر ’’تشابہ‘‘ سے یہی مراد ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ﴾ (آل عمران:3؍7) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی، اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں۔‘‘ تو اس سے مراد وہ آیات کریمہ ہیں جو بہت سے لوگوں کے فہم سے پوشیدہ اور مشتبہ ہوتی ہیں۔ یہ اشتباہ اس وقت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ ان کو آیات محکمات کی طرف نہ لوٹایا جائے۔ اس لیے فرمایا: ﴿مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ﴾ (آل عمران:3/7) ’’اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بعض آیات میں تشابہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں تمام آیات کو متشابہکہا ہے، یعنی حسن میں مشابہ ہیں، کیونکہ ارشاد فرمایا: ﴿اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ﴾ ’’نہایت اچھی باتیں‘‘ اس سے مراد تمام آیات اور سورتیں ہیں، جو ایک دوسری سے مشابہت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ﴿مَّؔثَانِیَ ﴾ ’’دہرائی جاتی ہیں۔‘‘ یعنی اس بہترین کلام میں قصص و احکام، وعد و وعید، اہل خیر کے اوصاف اور اہل شر کے اعمال کو بار بار دہرایا جاتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس کلام کا حسن و جلال ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ مخلوق اس کلام کے معانی کی محتاج ہے جو دلوں کو پاک اور اخلاق کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے اس نے ان معانی کو دلوں کے لیے وہی حیثیت دی ہے جو درختوں اور پودوں کے لیے پانی کی ہے۔ جس طرح درخت اور پودے عدم سیرابی کے باعث ناقص بلکہ بسااوقات تلف ہو جاتے ہیں اور پودوں کو جتنا زیادہ بار بار سیراب کیا جائے گا اتنے ہی وہ خوبصورت ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ وہ پھل لائیں گے… اسی طرح دل بھی کلام اللہ کے معانی کے تکرار کے ہمیشہ محتاج رہتے ہیں۔ اگر تمام قرآن میں اس کے سامنے ایک ہی معنی بیان کیا جائے تو معنی اس کی گہرائی میں جاگزیں ہو گا نہ اس سے مطلوبہ نتائج ہی حاصل ہوں گے۔ بنابریں میں اپنی تفسیر میں، قرآن مجید کے اسلوب کی اقتدا میں، اسی مسلک کریم پر گامزن ہوں۔ اس لیے آپ کسی بھی مقام پر کوئی حوالہ نہیں پائیں گے، بلکہ آپ ہر مقام پر گزشتہ صفحات میں اس سے ملتے جلتے مقام کی تفسیر کی رعایت رکھے بغیر، اس کی مکمل تفسیر پائیں گے۔ اگرچہ بعض مقامات پر نسبتاً زیادہ بسط و شرح سے کام لیا گیا اور اس میں فوائد دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور اس کے معانی میں غوروفکر کرنے والے کے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ وہ قرآن مجید کے تمام مقامات میں تدبر کو ترک نہ کرے کیونکہ اس سبب سے اسے خیرکثیر اور بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔ چونکہ قرآن عظیم اس عظمت و جلال کے ساتھ ہدایت یافتہ اور عقل مند لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کرتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿تَ٘قْ٘شَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ﴾ ’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اس (قرآن) سے ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ کیونکہ اس کے اندر بے قرار کر دینے والی تخویف و ترہیب ہے ﴿ثُمَّ تَلِیْ٘نُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہوکر) اللہ کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔‘‘ یعنی امید اور ترغیب کے ذکر کے وقت۔ یہ ذکر کبھی تو ان کو بھلائی کے عمل کی ترغیب دیتا ہے اور کبھی برائی کے عمل سے ڈراتا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘یعنی ان کے اندر تاثیر قرآن کا اللہ تعالیٰ نے جو ذکر کیا ہے ﴿هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی ہدایت ہے‘‘ یعنی اس کے بندوں کے لیے اس کی طرف سے ہدایت ہے اور ان پر یہ اس کے جملہ فضل و احسان میں سے ہے۔ ﴿یَهْدِیْ بِهٖ﴾ اس تاثیر قرآن کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے ﴿مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’جسے چاہتا ہے‘‘ اپنے بندوں میں سے۔ اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ﴿ذٰلِكَ ﴾ سے مراد قرآن ہو ، یعنی وہ قرآن جس کا وصف ہم نے تمھارے سامنے بیان کیا ہے ﴿هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی ہدایت ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے اس کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں ﴿یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے۔‘‘ یعنی جو اچھا مقصد رکھتے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ ﴾ (المائدۃ: 5؍16) ’’اللہ اس کتاب کے ذریعے سے ان لوگوں کو سلامتی کا راستہ دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں۔‘‘ ﴿وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ﴾ ’’اور جسے اللہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی توفیق کے سوا کوئی راستہ نہیں جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہو، کتاب اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کی توفیق بھی اسی سے ملتی ہے۔ پس اگر اللہ کی توفیق نصیب نہ ہو تو راہ راست پر چلنے کا کوئی طریقہ نہیں تب واضح گمراہی اور رسوا کن بدبختی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آیت: 24 - 26 #
{أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (24) كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (25) فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (26)}.
کیا پس جو شخص بچتا ہے اپنے چہرے کے ذریعے سے برے عذاب سے دن قیامت کے (وہ برابر ہے جنتی کے؟)اور کہا جائے گا ظالموں سے‘ چکھو تم (مزا ) اس کاجو تھے تم کماتے (24) جھٹلایا (تھا) ان لوگوں نے جو ان سے پہلے ہوئے‘ تو آیا ان کے پاس عذاب ایسی جگہ سے کہ نہیں وہ شعور رکھتے تھے (25) پس چکھائی ان کو اللہ نے رسوائی دنیا کی زندگی میں اور البتہ عذاب آخرت کا بہت بڑا ہے‘ کاش کہ وہ ہوتے جانتے (26)
#
{24} أي: أفيستوي هذا الذي هداه اللهُ، ووفَّقه لسلوك الطريق الموصلةِ لدارِ كرامتِهِ كمن كان في الضلال، واستمرَّ على عنادِهِ حتى قَدِمَ القيامة فجاءه العذابُ العظيم فجعلَ يتَّقي بوجهِهِ الذي هو أشرفُ الأعضاء، وأدنى شيءٍ من العذاب يؤثِّرُ فيه، فهو يتَّقي فيه سوء العذاب؛ لأنَّه قد غُلَّتْ يداه ورجلاه؟! {وقيل للظالمين}: أنفسَهم بالكفرِ والمعاصي توبيخاً وتقريعاً: {ذوقوا ما كنتُم تكسِبونَ}.
[24] کیا یہ شخص، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور اپنے اکرام و تکریم کے گھر پہنچانے والے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے بہرہ مند کیا ہے اور وہ شخص برابر ہو سکتے ہیں جو اپنی گمراہی پرجما ہوا اور دائمی عناد میں سرگرداں ہے یہاں تک کہ قیامت آ پہنچے اور بڑا عذاب اسے گھیر لے؟ اور اپنے چہرے کو اس عذاب سے بچانے کی ناکام کوشش کرے۔ چہرہ تمام اعضاء میں سب سے زیادہ شرف کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ادنیٰ سا عذاب اس پر بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔ وہ اپنے چہرے کو بہت برے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے گا لیکن اس کے ہاتھ اور پاؤ ں جھکڑے ہوئے ہوں گے۔ ﴿وَقِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ﴾ کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں سے زجروتوبیخ کے طور پر کہا جائے گا: ﴿ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ ﴾ ’’اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھو۔‘‘
#
{25} {كَذَّبَ الذين من قبلِهِم}: من الأمم كما كذَّبَ هؤلاء، {فأتاهم العذابُ من حيثُ لا يشعُرونَ}: جاءهم في غفلةٍ أولَ نهار أو هم قائلون.
[25] ﴿كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ گزشتہ قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی جس طرح ان لوگوں نے تکذیب کی ﴿فَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’تو ان پر ایسی جگہ سے عذاب آگیا کہ انھیں خبر ہی نہ تھی۔‘‘ ان پر یہ عذاب ان کی غفلت کے اوقات میں یا دن کے وقت یا اس وقت آ نازل ہوا جب وہ دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے۔
#
{26} {فأذاقَهُمُ اللهُ}: بذلك العذاب {الخزيَ في الحياة الدُّنيا}: فافْتُضِحوا عند الله وعند خلقِهِ. {ولَعَذابُ الآخرةِ أكبرُ لو كانوا يعلمونَ}: فليحذرْ هؤلاء من المُقامِ على التكذيبِ فيصيبَهم ما أصابَ أولئك من التعذيب.
[26] ﴿فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’پس اللہ نے انھیں چکھایا۔‘‘ یعنی اس عذاب کے ذریعے سے ﴿الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ دنیا ہی میں رسوائی کا مزہ چکھایا، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے ہاں رسوا ہو گئے۔ ﴿وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے کاش! وہ جان لیتے۔‘‘ اس لیے ان لوگوں کو آپ کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہیے ورنہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہو گا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔
آیت: 27 - 31 #
{وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (27) قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (28) ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (29) إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (30) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (31)}.
اور البتہ تحقیق بیان کی ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال تاکہ وہ نصیحت پکڑیں (27) قرآن عربی (زبان) میں ہے، نہیں ہے کجی والا، تاکہ وہ ڈریں (28) بیان کی اللہ نے مثال ایک آدمی کی، اس میں کئی شریک ہیں باہم اختلاف رکھنے والے، اور ایک(اور)آدمی کہ (وہ) خالص ہے ایک ہی آدمی کے لیے ، کیا برابر ہوسکتے ہیں وہ دونوں مثال میں؟ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ اکثر ان کے نہیں علم رکھتے(29) بلاشبہ آپ بھی مرنے والے ہیں اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں (30) پھر بلاشبہ تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے (31)
#
{27} يخبر تعالى أنَّه ضربَ في القرآن من جميع الأمثال؛ أمثال أهل الخير وأمثال أهل الشرِّ وأمثال التوحيد والشرك، وكلُّ مثل يقرِّبُ حقائق الأشياء والحكمة في ذلك؛ {لعلَّهم يَتَذَكَّرونَ}: عندما نوضِّحُ لهم الحقَّ، فيعلمون ويعملون.
[27] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں تمام مثالیں بیان کی ہیں۔ اہل خیر کی مثالیں، اہل شر کی مثالیں اور توحید و شرک کی مثالیں، نیز ہر وہ مثال بیان کی ہے جو اشیاء کے حقائق اور ان کی حکمتوں کو ذہن کے قریب لاتی ہے ﴿لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’تاکہ وہ نصیحت پکڑیں‘‘ جب ہم ان پر حق واضح کریں اور اس کو جان لینے کے بعد اس پر عمل کریں۔
#
{28} {قرآناً عَرَبِيًّا غير ذي عِوَجٍ}؛ أي: جعلناه قرآناً عَرَبِيًّا واضحَ الألفاظ سهلَ المعاني، خصوصاً على العرب، غير ذي عوجٍ؛ أي: ليس فيه خللٌ ولا نقصٌ بوجهٍ من الوجوه؛ لا في ألفاظه ولا في معانيه. وهذا يستلزمُ كمالَ اعتدالِهِ واستقامتِهِ؛ كما قال تعالى: {الحمدُ لله الذي أنزَلَ على عبدِهِ الكتابِ وَلَمْ يَجْعَلْ له عِوَجاً. قَيِّماً}. {لعلَّهم يتَّقونَ} الله تعالى؛ حيث سهَّلْنا عليهم طُرُقَ التقوى العلميَّة والعمليَّة بهذا القرآن العربيِّ المستقيم، الذي ضَرَبَ الله فيه من كلِّ مَثَل.
[28] ﴿قُ٘رْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ﴾ یعنی ہم نے اس قرآن عظیم کو عربی میں واضح الفاظ اور آسان معانی والا بنایا ہے، خاص طور پر اہل عرب کے لیے بہت سہل ہے ﴿غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ﴾ یعنی کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی خلل اور کوئی نقص نہیں ہے، نہ اس کے الفاظ میں اور نہ اس کے معانی میں۔ یہ وصف اس کے کمال اعتدال اور کمال استقامت کو مستلزم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا﴾ (الکہف: 18؍12) ’’ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی جس میں کوئی کجی نہ رکھی، ٹھیک ٹھیک کہنے والی کتاب۔‘‘ ﴿لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں‘‘ کیونکہ ہم نے ان کے لیے اس عربی قرآنِ مستقیم کے ذریعے سے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر مثال بیان کی ہے… علمی اور عملی تقویٰ کی راہ استوار کر دی ہے۔
#
{29} ثم ضَرَبَ مثلاً للشرك والتوحيد، فقال: {ضَرَبَ الله مَثَلاً رجُلاً}؛ أي: عبداً. {فيه شركاءُ متشاكِسونَ}: فهم كثيرون، وليسوا متَّفقينَ على أمرٍ من الأمور وحالةٍ من الحالات حتى تُمْكِنَ راحتُه، بل هم متشاكسونَ متنازِعون فيه، كلٌّ له مطلبٌ يريد تنفيذَه ويريدُ الآخرُ غيرَه؛ فما تظنُّ حال هذا الرجل مع هؤلاء الشركاء المتشاكسين؟! {ورجلاً سَلَماً لرجل}؛ أي: خالصاً له قد عَرَفَ مقصودَ سيِّدِهِ وحصلتْ له الراحةُ التامةُ. {هل يستويانِ}؛ أي: هذان الرجلان {مثلاً}؟ لا يستويانِ، كذلك المشركُ فيه شركاءُ متشاكسون، يدعو هذا ثم يدعو هذا، فتراه لا يستقرُّ له قرارٌ ولا يطمئنُّ قلبُه في موضع، والموحِّدُ مخلصٌ لربِّه، قد خلَّصه الله من الشركةِ لغيرِهِ؛ فهو في أتمِّ راحة وأكمل طمأنينةٍ. فـ {هل يستويانِ مَثَلاً الحمدُ لله}: على تبيين الحقِّ من الباطل وإرشادِ الجهَّال. {بل أكثرُهم لا يعلمونَ}.
[29] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک اور توحید کی تفہیم کے لیے مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا ﴾ ’’اللہ ایک آدمی کی مثال بیان فرماتا ہے۔‘‘ یعنی غلام کی ﴿فِیْهِ شُ٘رَؔكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ ﴾ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے بہت سے لوگ اس غلام کی ملکیت میں شریک ہیں جو کسی حالت میں کسی بھی معاملے پر متفق نہیں ہوتے کہ وہ اس کے لیے آرام کرناممکن ہوسکے بلکہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے اور جھگڑتے ہیں۔ ہر ایک شریک کا اپنا اپنا مفاد ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمھارے خیال میں، ان اختلاف کرنے والے اور جھگڑنے والے شرکاء کے مابین، اس غلام کی کیا حالت ہو گی؟ ﴿وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ﴾ اور ایک آدمی جو خالص صرف ایک شخص کی ملکیت میں ہے۔ وہ اپنے آقا کے مقاصد کو پہچانتا ہے اور اسے کامل راحت حاصل ہے ﴿هَلْ یَسْتَوِیٰنِ ﴾ ’’کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘ ﴿مَثَلًا ﴾ ’’اس حالت میں‘‘ یہ دونوں شخص کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ مشرک کی یہی حالت ہے اس میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والی بہت سی ہستیاں شریک ہیں۔ وہ کبھی اس کو پکارتا ہے اور کبھی اس کو پکارتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اسے قرار آتا ہے نہ کسی مقام پر اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس موحد اپنے رب کے لیے مخلص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو غیر کی شرکت سے پاک رکھا ہے اس لیے وہ کامل راحت اور کامل اطمینان میں ہوتا ہے۔ ﴿هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ﴾ ’’کیا دونوں کی حالت مساوی ہو سکتی ہے؟ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں‘‘ یعنی باطل میں سے حق کو واضح کرنے اور ان جہلاء کو سیدھی راہ دکھانے پر اللہ تعالیٰ کی ستائش ہے۔ ﴿بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔‘‘
#
{30} {إنَّك ميتٌ وإنَّهم ميِّتون}؛ أي: كلُّكم لا بدَّ أن يموت، {وما جَعَلْنا لبشرٍ من قبلِكَ الخُلْدَ أفإن متَّ فهم الخالدونَ}.
[30] ﴿اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ ’’(اے نبی!) بلاشبہ آپ کو مرنا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں‘‘ یعنی تم میں سے ہر ایک کو مرنا ہے۔ ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مِّؔتَّ فَهُمُ الْخٰؔلِدُوْنَ﴾ (الانبیاء:21؍34) ’’دائمی زندگی، ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے نہیں رکھی اگر آپ کو موت آ گئی تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘
#
{31} {ثمَّ إنَّكم يومَ القيامةِ عندَ ربِّكم تختصمونَ}: فيما تنازعتُم فيه، فيفصلُ بينَكم بحكمِهِ العادل، ويُجازي كلاًّ ما عَمِلَه، أحصاه الله ونَسوهُ.
[31] ﴿ثُمَّ اِنَّـكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ﴾ یعنی قیامت کے روز ان امور کے بارے میں تم اپنے رب کے پاس جھگڑو گے جو تمھارے درمیان متنازع ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل و انصاف پر مبنی حکم کے ذریعے سے تمھارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا ﴿اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَنَسُوْهُ ﴾ (المجادلة: 58؍6) ’’جسے اللہ تعالیٰ نے شمار کر رکھا ہے اور یہ لوگ اسے بھلا بیٹھے ہیں۔‘‘
آیت: 32 - 35 #
{فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35)}.
پس کون زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے جھوٹ بولا اوپر اللہ کے اور جھٹلایا سچائی کو جب آئی وہ اس کےپاس، کیا نہیں ہے جہنم میں ٹھکاناکافروں کے لیے؟ (32) اوروہ جو آیا ساتھ سچائی کے اور جس نے تصدیق کی اس کی، یہی لوگ ہیں متقی (33) ان کے لیے ہے جو وہ چاہیں گے ان کے رب کے پاس، یہی ہے بدلہ نیکی کرنے والوں کا (34) تاکہ دور کر دے اللہ ان سے برائی، وہ جو انھوں نے کی اور دے ان کواجر ان کا بدلے میں نیکی کے جوتھے وہ کرتے (35)
#
{32} يقولُ تعالى محذراً ومخبراً أنَّه لا أظلمُ وأشدُّ ظلماً {ممَّن كَذَبَ على الله}: إمَّا بنسبتِهِ إلى ما لا يليقُ بجلالِهِ، أو بادِّعاء النبوَّة، أو الإخبار بأن الله قال كذا أو أخبر بكذا أو حكم بكذا وهو كاذبٌ؛ فهذا داخلٌ في قولِهِ تعالى: {وأن تقولوا على الله ما لا تعلمون}: إن كان جاهلاً وإلاَّ فهو أشنع وأشنع، أو {كَذَّبَ [بالصدقِ] إذْ جاءَه}؛ أي: ما أظلم ممَّن جاءه الحقُّ المؤيَّد بالبيناتِ فكذَّبه، فتكذيبُهُ ظلمٌ عظيمٌ منه؛ لأنَّه ردَّ الحقَّ بعدما تبيَّن له؛ فإنْ كان جامعاً بين الكذب على الله والتكذيب بالحق؛ كان ظلماً على ظلم. {أليس في جهنَّمَ مثوىً للكافرينَ}: يحصُلُ بها الاشتفاءُ منهم وأخذُ حقِّ الله من كلِّ ظالم وكافرٍ، {إنَّ الشركَ لظلمٌ عظيمٌ}.
[32] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ﴿مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا‘‘ یا تو کسی ایسی چیز کو اس کی طرف منسوب کیا جو اس کے جلال کے لائق نہیں یا اس نے نبوت کا دعویٰ کیا یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دی کہ وہ یوں کہتا ہے یا یوں خبر دیتا ہے یا اس طرح کاحکم دیا ہے، جبکہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔اگر کسی نے جہالت کی بنا پر ایسی بات کہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتا ہے: ﴿وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ (الاعراف:7؍33) ’’(اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام ٹھہرا دیا) کہ تم اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ ورنہ یہ بدترین بات ہے۔ ﴿وَؔكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ﴾ یعنی اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جس کے پاس حق آیا، واضح دلائل جس کی تائید کرتے تھے، مگر اس نے حق کی تکذیب کی۔ اس کی تکذیب بہت بڑا ظلم ہے۔ کیونکہ حق واضح ہو جانے کے بعد اس نے حق کو رد کیا۔ اگر اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کی تکذیب کو جمع کیا تو یہ ظلم در ظلم ہے۔ ﴿اَلَ٘یْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں۔‘‘ جہنم کے عذاب میں مبتلا کرکے اس سے بدلہ لیاجائے گا اور ہر ظالم اور کافر سے اللہ تعالیٰ کا حق وصول کیا جائے گا۔ ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ﴾ (لقمٰن: 31؍13) ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
#
{33} ولما ذَكَرَ الكاذبَ المكذِّب وجنايتَهُ وعقوبتَهُ؛ ذكر الصادقَ المصدِّقَ وثوابَه، فقال: {والذي جاء بالصِّدْقِ}: في قوله وعمله، فدخل في ذلك الأنبياءُ ومَنْ قام مقامَهم ممن صَدَقَ فيما قاله عن خبرِ الله وأحكامِهِ، وفيما فَعَلَه من خصال الصدق، {وصَدَّقَ به}؛ أي: بالصدق؛ لأنَّه قد يجيء الإنسان بالصدق، ولكنْ قد لا يصدِّقُ به بسبب استكبارِهِ أو احتقارِهِ لمن قاله وأتى به؛ فلا بدَّ في المدح من الصدق والتصديق، فصدقُهُ يدلُّ على علمِهِ وعدلِهِ، وتصديقُهُ يدلُّ على تواضعه وعدم استكباره. {أولئك}؛ أي: الذين وُفِّقوا للجمع بين الأمرين {هم المتَّقونَ}: فإنَّ جميع خصال التقوى ترجِعُ إلى الصدق بالحقِّ والتصديق به.
[33] اللہ تبارک وتعالیٰ نے جھوٹے اور جھٹلانے والے کا جرم اور اس کی سزاکا ذکر کرنے کے بعد، صاحب صدق اور حق کی تصدیق کرنے والے اور اس کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْ جَآءَؔ بِالصِّدْقِ ﴾ ’’اور جو شخص سچی بات لے کر آئے۔‘‘ یعنی جو اپنے قول و عمل میں صدق کا حامل ہے۔ اس آیت کریمہ میں انبیاءo اور ان کے متبعین داخل ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبروں اور احکام کی تصدیق کی اور خصائل صدق کو اپنایا۔ ﴿وَصَدَّقَ بِهٖۤ ﴾ یعنی صدق (حق بات) کی تصدیق کی۔ انسان کبھی کبھی صاحب صدق تو ہوتا ہے، مگر وہ صدق کی تصدیق نہیں کرتا اس کا سبب کبھی تو اس کا متکبر ہونا ہوتا ہے اور کبھی اس کا سبب وہ حقارت ہوتی ہے جو وہ صدق لانے والے کے لیے اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لیے مدح میں صدق اور تصدیق دونوں لازم ہیں۔ پس اس کا صدق اس کے علم اور عدل پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تصدیق اس کے تواضع اور عدم تکبر پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جنھیں ان دونوں امور کو جمع کرنے کی توفیق سے نوازا گیا۔ ﴿هُمُ الْ٘مُتَّقُوْنَ ﴾ ’’وہی متقی ہیں۔‘‘ کیونکہ تقویٰ کے تمام خصائل و اوصاف صدق اور تصدیق حق کی طرف لوٹتے ہیں۔
#
{34} {لهم ما يشاؤون عند ربِّهم}: من الثواب مما لا عينٌ رأتْ، ولا أذنٌ سمعتْ، ولا خَطَرَ على قلبِ بشرٍ؛ فكلُّ ما تعلَّقت به إرادتُهم ومشيئتُهم من أصناف اللذَّاتِ والمشتهياتِ؛ فإنَّه حاصلٌ لهم معدٌّ مهيَّأ. {ذلك جزاء المحسنين}: الذين يعبُدون الله كأنَّهم يَرَوْنَه؛ فإنْ لم يكونوا يَرَوْنَه؛ فإنَّه يراهم، المحسنين إلى عباد الله.
[34] ﴿لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ جو چاہیں گے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ہے۔‘‘ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ایسا ثواب ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے حاشیۂ خیال میں اس کا کبھی گزر ہوا ہے۔ لذات و خواہشات میں سے جس چیز کا بھی ارادہ کریں گے وہ ان کو حاصل ہو گی اور ان کو مہیا کر دی جائے گی۔ ﴿ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں اگر ان میں یہ کیفیت نہ ہو تو انھیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں دیکھ رہا ہے۔ ﴿الْمُحْسِنِیْنَ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔
#
{35} {لِيُكَفِّرَ اللهُ عنهم أسوأ الذي عَمِلوا ويَجْزِيَهم أجْرَهُم بأحسن الذي كانوا يعملونَ}: عملُ الإنسانِ له ثلاثُ حالاتٍ: إمَّا أسوأ، أو أحسن، أو لا أسوأ ولا أحسن، والقسمُ الأخيرُ قسمُ المباحات وما لا يتعلَّق به ثوابٌ ولا عقابٌ، والأسوأ المعاصي كلُّها، والأحسنُ الطاعاتُ كلُّها. فبهذا التفصيل يتبيَّن معنى الآيةِ، وأنَّ قولَه {لِيُكَفِّرَ الله عنهم أسوأ الذي عَمِلوا}؛ أي: ذنوبهم الصغارَ والكبار بسبب إحسانِهِم وتقواهم، {ويَجْزِيَهم أجْرَهم بأحسنِ الذي كانوا يعملون}؛ أي: بحسناتِهِم كلِّها، {إنَّ الله لا يَظْلِمُ مثقالَ ذَرَّةٍ وإن تَكُ حسنةً يضاعِفْها ويُؤْتِ من لَدُنْه أجراً عظيماً}.
[35] ﴿لِیُكَ٘ـفِّ٘رَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تاکہ اللہ ان سے برائیوں کو جو انھوں نے کیں دور کرے اور نیک کاموں کا جو وہ کرتے رہے بہتر بدلہ دے۔‘‘ انسانی عمل کے تین احوال ہیں: اول: بدترین عمل ۔دوم: بہترین عمل۔ سوم: نہ برا نہ اچھا۔ یہ آخری قسم مباحات کے زمرے میں آتی ہے، جن پر کوئی ثواب وعقاب مترتب نہیں ہوتا۔ بدترین اعمال سب معاصی اور بہترین اعمال سب نیکیاں ہیں۔ اس تفصیل سے آیت کریمہ کا معنی واضح ہو جاتا ہے۔ فرمایا: ﴿لِیُكَ٘ـفِّ٘رَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ﴾ یعنی ان کے تقویٰ اور احسان کے سبب سے ان کے صغیرہ گناہوں کو مٹا دے گا۔ ﴿وَیَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ یعنی ان کی نیکیوں اور تقویٰ کے سبب سے ان کو ان کی تمام نیکیوں کا اجر ملے گا۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ١ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ (النساء:4؍40) ’’اللہ کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتااگر نیکی ہو تو وہ اسے دوگنا کر دیتا ہے اور اسے اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرتا ہے۔‘‘
آیت: 36 - 37 #
{أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37)}.
کیا نہیں ہے اللہ کافی اپنے بندے کو؟اوروہ ڈراتے ہیں آپ کو ان لوگوں سے جواس کےسوا ہیں، اور جس کو گمراہ کر دے اللہ، تو نہیں ہے اس کو کوئی ہدایت دینے والا (36) اور جس کو ہدایت دے اللہ، تو نہیں ہے اسے کوئی گمراہ کرنے والا، کیا نہیں ہے اللہ غالب انتقام لینے والا؟ (37)
#
{36 ـ 37} {أليسَ اللهُ بكافٍ عبدَه}؛ أي: أليس من كرمِهِ وجودِهِ وعنايتِهِ بعبده الذي قام بعبوديَّته وامتثل أمرَه واجتنب نهيَه، خصوصاً أكمل الخلق عبوديَّةً لربِّه، وهو محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ الله تعالى سيكفيه في أمر دينه ودُنياه ويدفعُ عنه من ناوأه بسوءٍ. {ويخوِّفونَكَ بالذين من دونِهِ}: من الأصنام والأندادِ أن تنالَكَ بسوءٍ، وهذا من غيِّهم وضلالهم. {ومن يُضْلِلِ اللهُ فما له من هادٍ. ومَن يَهْدِ اللهُ فما له من مُضِلٍّ}: لأنه تعالى الذي بيدِهِ الهدايةُ والإضلالُ، وهو الذي ما شاء كان وما لم يشأ لم يكنْ. {أليس الله بعزيزٍ}: له العزةُ الكاملةُ التي قَهَرَ بها كلَّ شيء، وبعزَّتِهِ يكفي عبده، ويدفعُ عنه مكرَهم {ذي انتقام}: ممَّنْ عصاه، فاحْذَروا موجباتِ نقمتِهِ.
[36، 37] ﴿اَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ﴾ ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘ یعنی کیا یہ اللہ کا اپنے اس بندے پر جودوکرم اور اس کی عنایت نہیں جو اس کی عبودیت پر قائم ہے، اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتا ہے۔ خاص طور پر وہ بندہ جو تمام مخلوق میں عبودیت کے کامل ترین مرتبے پر فائز ہے یعنی محمد مصطفیe۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام دینی اور دنیاوی امور میں ان کے لیے کافی ہو گا اور جو کوئی آپ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آپ کی مدافعت کرے گا۔﴿وَیُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾ یعنی وہ آپ کو بتوں اور خود ساختہ معبودوں سے ڈراتے ہیں کہ آپ پر ان کی مار پڑے گی، یہ ان کی گمراہی ہے ﴿وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ۰۰ وَمَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ ﴾ ’’اور اللہ جسے گمراہی میں مبتلا کر دے توکوئی اسے راستہ نہیں دکھا سکتا اور جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔‘‘ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے ہاتھ میں ہدایت اور گمراہی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے جو نہیں چاہتا وہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا ﴿اَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِعَزِیْزٍ ﴾ ’’کیا اللہ غالب نہیں؟‘‘ یعنی وہ کامل قہر اور غلبے کا مالک ہے جس کے ذریعے سے وہ ہر چیز پر غالب ہے اسی غلبہ و قہر کی بنا پر وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے اور اس سے ان کی سازشوں اور مکروفریب کو دور کرتا ہے ﴿ذِی انْتِقَامٍ ﴾ جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس سے انتقام لیتا ہے۔ اس لیے ان تمام امور سے بچو جو اس کی ناراضی کے موجب ہیں۔
آیت: 38 #
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38)}.
اور البتہ اگر آپ پوچھیں ان سے کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو؟ تو ضرور کہیں گے وہ: اللہ نے، کہہ دیجیے:بھلا دیکھو تو، جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا اگر ارادہ کرے میرے حق میں اللہ تکلیف کا، تو کیا وہ دور کر سکتے ہیں اس کی تکلیف کو؟ یاوہ ارادہ کرے میرے حق میں مہربانی کا تو کیا وہ روک سکتے ہیں اس کی مہربانی کو؟ کہہ دیجیے: کافی ہے مجھے اللہ، اسی پر بھروسہ کرتے ہیں بھروسہ کرنے والے (38)
#
{38} أي: ولئن سألتَ هؤلاء الضلالَ الذين يخوِّفونَكَ بالذين من دونِهِ وأقمتَ عليهم دليلاً من أنفسهم، فقلتَ: {مَن خَلَقَ السمواتِ والأرضَ}: لم يُثْبِتوا لآلهتهم من خَلْقِها شيئاً، {لَيَقولُنَّ اللهُ}: الذي خلقها الله وحده. {قل}: لهم مقرِّراً عجز آلهتهم بعدما بينت قدرة الله: {أفرأيتُم}؛ أي: أخبروني {ما تَدْعونَ من دون الله إنْ أرادَنِيَ الله بضُرٍّ}: أيَّ ضُرٍّ كان، {هل هنَّ كاشفاتُ ضُرِّهِ}: بإزالته بالكلِّية أو بتخفيفه من حال إلى حال؟ {أو أرادني برحمةٍ}: يوصل إليَّ بها منفعةً في ديني أو دنياي، {هل هنَّ ممسكاتُ رحمتِهِ}: ومانعاتُها عني؟ سيقولونَ: لا يكشفون الضُّرَّ ولا يمسِكونَ الرحمة، قل لهم بعدما تبيَّن الدليلُ القاطعُ على أنَّه وحدَه المعبودُ، وأنَّه الخالق للمخلوقات، النافعُ الضارُّ وحده، وأنَّ غيره عاجزٌ من كلِّ وجه عن الخَلْق والنفع والضرِّ، مستجلباً كفايته، مستدفعاً مَكْرَهم وكيدَهم. {قل حَسْبِيَ الله عليه يتوكَّلُ المتوكلون}؛ أي: عليه يعتمدُ المعتمدونَ في جلب مصالحهم ودفع مضارِّهم، فالذي بيدِهِ وحدَه الكفايةُ هو حسبي سيكفيني كلَّ ما أهمَّني، وما لا أهتمُّ به.
[38] یعنی اگر آپ ان گمراہ لوگوں سے پوچھیں جو آپ کو اللہ کے سوا خودساختہ معبودوں سے ڈراتے ہیں، جبکہ آپ نے ان کے خلاف انھی کے نفسوں سے دلیل قائم کی ہے، اور ان سے کہیں : ﴿مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟‘‘ تو یہ مشرکین اس بات کو ثابت کرنے سے قاصر رہیں گے کہ ان کی تخلیق میں ان کے معبودوں کا کچھ حصہ ہے۔ ﴿لَیَقُوْلُ٘نَّ اللّٰهُ ﴾ وہ ضرور کہیں گے کہ اس کائنات کو اکیلے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ ﴿قُ٘لْ ﴾ اللہ تعالیٰ کی قدرت واضح ہونے کے بعد ان کے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے ہوئے کہہ دیجیے: ﴿اَفَرَءَیْتُمْ ﴾ ’’مجھے بتاؤ ‘‘ ﴿مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰهُ بِضُرٍّ ﴾ ’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے (کسی بھی قسم کا) نقصان دینا چاہے‘‘ ﴿هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ ﴾ ’’کیا وہ اس کی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے پہنچائے ہوئے ضرر کا مکمل ازالہ یا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کر کے اس ضرر میں کوئی تخفیف کر سکتے ہیں؟ ﴿اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ ﴾ یا وہ میرے ساتھ رحمت وفضل کا معاملہ کرنا چاہے جس کے ذریعے سے وہ مجھے کوئی دینی یا دنیاوی منفعت عطا کرے، ﴿هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰؔتُ رَحْمَتِهٖ﴾ کیا وہ خود ساختہ معبود اس رحمت کو مجھ تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں؟ یقینا وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کے معبود کسی نقصان کو دور کر سکتے ہیں نہ اللہ کی رحمت کو روک سکتے ہیں۔ یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کے معبود کسی نقصان کو دور کرسکتے ہیں نہ اللہ کی ر حمت کو روک سکتے ہیں۔قطعی دلیل کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود برحق ہے وہی تمام کائنات کا خالق ہے، نفع و نقصان صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اس کے سوا دیگر معبودان باطل ہر لحاظ سے کچھ پیدا کرنے اور کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی کفایت کے حصول اور ان مشرکین کے مکروفریب سے بچنے کی دعا کرتے ہوئے کہہ دیجیے: ﴿حَسْبِیَ اللّٰهُ١ؕ عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَؔكِّلُوْنَ ﴾ یعنی اپنے مصالح کے حصول اور دفع ضررکے لیے بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ ہستی جو اکیلی کفایت کی مالک ہے، میرے لیے کافی ہے وہ میرے اہم اور غیر اہم امور میں میری کفایت کرے گی۔
آیت: 39 - 40 #
{قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40)}.
کہہ دیجیے:اے میری قوم! عمل کرو تم اپنی جگہ پر، بے شک میں (بھی) عمل کرنے والا ہوں، پس عنقریب تم جان لوگے(39) کون ہے کہ آتا ہے اس کےپاس عذاب جو رسوا کر دے اس کواور اترتا ہے اس پرعذاب ہمیشہ دائمی رہنے والا (40)
#
{39 ـ 40} أي: {قل} لهم يا أيُّها الرسولُ: {يا قوم اعْمَلوا على مكانتكم}؛ أي: على حالتكم التي رَضيتُموها لأنفسِكُم من عبادة من لا يستحقُّ من العبادة شيئاً ولا له من الأمر شيءٌ، {إنِّي عاملٌ}: على ما دعوتُكم إليه من إخلاص الدين لله تعالى وحده، {فسوف تَعْلَمونَ}: لمن العاقبةُ و {مَن يأتيه عذابٌ يُخْزيهِ}: في الدنيا، {ويَحِلُّ عليه}: في الأخرى {عذابٌ مقيمٌ}: لا يَحولُ عنه ولا يزولُ. وهذا تهديدٌ عظيمٌ لهم، وهم يعلمونَ أنَّهم المستحقُّونَ للعذابِ المقيم، ولكن الظلمَ والعنادَ حالَ بينَهم وبين الإيمانِ.
[39، 40] ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’(اے رسول! ان سے) کہہ دیجیے: ﴿یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ ﴾ ’’اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ‘‘ یعنی تم اسی حالت میں عمل کرتے رہو جس پر تم اپنے لیے راضی ہو، یعنی ان ہستیوں کی عبادت کرتے رہو جو عبادت کی مستحق نہیں ہیں نہ انھیں کسی چیز کا کوئی اختیار ہے۔ ﴿اِنِّیْ عَامِلٌ ﴾ اور میں تمھیں اکیلے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنے کی دعوت دیتا رہوں گا۔ ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا‘‘ کہ کس کا انجام اچھا ہے۔ ﴿مَنْ یَّ٘اْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ ﴾ ’’اور کس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا؟‘‘ یعنی دنیا میں ﴿وَیَحِلُّ عَلَیْهِ ﴾ ’’اور نازل ہوگا اس پر‘‘ یعنی آخرت میں ﴿عَذَابٌ مُّقِیْمٌ ﴾ ’’ہمیشہ کا عذاب۔‘‘آخرت میں اس کو ہمیشہ قائم رہنے والے عذاب میں ڈالا جائے گا، یہ عذاب اس سے ہٹایا جائے گا نہ ختم ہو گا۔ یہ مشرکین کے لیے سخت تہدید ہے۔ انھیں بھی معلوم ہے کہ وہ دائمی عذاب کے مستحق ہیں، مگر ظلم اور عناد ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہوگیا ہے ۔
آیت: 41 #
{إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اهْتَدَى فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (41)}.
بلاشبہ نازل کی ہم نے آپ پر کتاب لوگوں کے لیے ساتھ حق کے، پس جس نے ہدایت پائی، تو اپنے ہی لیے اور جو گمراہ ہوا تو وہ گمراہ ہوتا ہے اپنے ہی نقصان کو اورنہیں ہیں آپ ان پرکوئی ذمے دار(41)
#
{41} يخبر تعالى أنَّه أنزل على رسولِهِ الكتابَ المشتمل على الحقِّ في أخباره وأوامره ونواهيه، الذي هو مادَّةُ الهداية وبلاغٌ لمن أراد الوصول إلى الله وإلى دار كرامتِهِ، وأنَّه قامتْ به الحجةُ على العالمين. {فَمَنِ اهْتَدى}: بنورِهِ واتَّبع أوامِرَه؛ فإنَّ نفع ذلك يعودُ إلى نفسه {ومَن ضَلَّ}: بعدما تبيَّن له الهدى {فإنَّما يَضِلُّ عليها}: لا يضرُّ الله شيئاً. {وما أنت عليهم بوكيل}: تحفظُ عليهم أعمالَهم وتحاسِبُهم عليها وتجبِرُهم على ما تشاءُ، وإنَّما أنت مبلغٌ تؤدِّي إليهم ما أمرت به.
[41] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسولeپر کتاب نازل فرمائی جو اپنی خبر اور اپنے اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے، جو ہدایت کی اصل بنیاد اور ہر اس شخص کے لیے پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ نیز اس کتاب کے ذریعے سے تمام جہانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو گئی۔ ﴿فَ٘مَنِ اهْتَدٰؔى ﴾ پس جس نے اس کی روشنی سے راہنمائی حاصل کی اور اس کے احکامات کی پیروی کی ﴿فَلِنَفْسِهٖ﴾ تو اس کا فائدہ اسی کی طرف لوٹے گا ﴿وَمَنْ ضَلَّ ﴾ جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد بھی گمراہ ہوا ﴿فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا ﴾ ’’تو وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔‘‘ اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ﴿وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَؔكِیْلٍ ﴾ ’’اور آپ ان پر نگران نہیں ہیں‘‘ کہ آپ ان کے اعمال پر نگاہ رکھیں، ان پر ان کا محاسبہ کریں اور جس کام پر چاہیں ان کو مجبور کریں۔ آپ تو صرف پہنچا دینے والے ہیں اور آپ وہ چیز ان تک پہنچا دیتے ہیں جسے پہنچا دینے کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے۔
آیت: 42 #
{اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (42)}.
اللہ ہی قبض کرتا ہے جانوں کووقت ان کی موت کے ، اورجو نہیں مریں(انھیں بھی قبض کرتا ہے) ان کی نیند میں ، پس وہ روک لیتا ہے اس (روح) کو کہ فیصلہ کردیا اس نے اس پر موت کا اور بھیج دیتا ہے دوسری کوایک وقت مقرر تک، بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو غور و فکر کرتی ہے (42)
#
{42} يخبر تعالى أنه المتفرِّدُ بالتصرُّف بالعباد في حال يقظتهم ونومهم وفي حال حياتهم وموتهم، فقال: {الله يتوفَّى الأنفسَ حين موتِها}: وهذه الوفاةُ الكبرى وفاةُ الموت، وإخبارُه أنَّه يتوفَّى الأنفس وإضافةُ الفعل إلى نفسِهِ لا ينافي أنَّه قد وَكَّلَ بذلك مَلَكَ الموت وأعوانه؛ كما قال تعالى: {قُلْ يَتَوفَّاكم مَلَكُ الموتِ الذي وُكِّل بكم}، {حتى إذا جاء أحَدَكُمُ الموتُ توفَّتْه رُسُلُنا وهم لا يفرِّطونَ}؛ لأنَّه تعالى يضيفُ الأشياء إلى نفسه باعتبار أنَّه الخالق المدبِّرُ، ويضيفُها إلى أسبابها باعتبار أنَّ من سننِهِ تعالى وحكمتِهِ أن جعل لكلِّ أمر من الأمور سبباً. وقوله: {والتي لم تَمُتْ في منامها}: وهذه الموتةُ الصغرى؛ أي: ويمسك النفسَ التي لم تَمُتْ في منامها، {فيُمْسِكُ}: من هاتين النفسين النفسَ {التي قضى عليها الموتَ}، وهي نفسُ مَنْ كان ماتَ أو قُضِيَ أنْ يموتَ في منامه، {ويرسلُ} النفسَ {الأخرى إلى أجل مسمًّى}؛ أي: إلى استكمال رِزْقِها وأجَلِها. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يتفكَّرونَ}: على كمال اقتدارِهِ وإحيائِهِ الموتى بعد موتهم. وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّ الرُّوح والنفس جسمٌ قائمٌ بنفسِهِ، مخالفٌ جوهرُهُ جوهَرَ البدن، وأنَّها مخلوقةٌ مدبَّرةٌ يتصرَّفُ الله فيها في الوفاةِ والإمساكِ والإرسال، وأنَّ أرواحَ الأحياء والأموات تتلاقى في البرزخ فتجتمعُ فتتحادثُ، فيرسِلُ الله أرواحَ الأحياء، ويُمْسِكُ أرواح الأمواتِ.
[42] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اکیلا ہی بندوں پر، ان کی نیند اور بیداری میں، ان کی زندگی اور موت میں، تصرف کرتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْ٘فُ٘سَ حِیْنَ مَوْتِهَا ﴾ ’’اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے۔‘‘ یہ وفاتِ کبریٰ، موت ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ وفات دیتا ہے اور فعل کی اپنی طرف اضافت کرنا، اس بات کے منافی نہیں کہ اس نے اس کام کے لیے ایک فرشتہ اور اس کے کچھ اعوان و مددگار مقرر کر رکھے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّ٘لَ بِكُمْ ﴾ (السجدۃ: 32؍11) ’’کہہ دیجیے کہ وہ فرشتہ تمھیں وفات دیتا ہے جو تمھارے لیے مقرر کیا گیا ہے‘‘ نیز فرمایا: ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَؔ اَحَدَؔكُمُ الْ٘مَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍61) ’’حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبص کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمام امور کی اضافت اس اعتبار سے اپنی طرف کی ہے کہ وہی خالق اور تدبیر کرنے والا ہے اور ان امور کو اس اعتبار سے ان کے اسباب کی طرف مضاف کرتا ہے کہ اس کی سنت اور حکمت ہے کہ اس نے ہر کام کا کوئی سبب مقرر فرمایا ہے۔ ﴿وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا ﴾ ’’اور اس جان کو بھی (عارضی وفات دیتا ہے) جو اپنی نیند میں نہیں مرتی۔‘‘ اور یہ موت صغریٰ ہے یعنی وہ اس نفس کو روک رکھتا ہے جو نیند کے دوران حقیقی موت سے ہم کنار نہیں ہوتا ﴿فَیُمْسِكُ ﴾ پھر ان دو نفسوں میں سے اس نفس کو روک رکھتا ہے ﴿الَّتِیْ قَ٘ضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ ﴾ ’’جس کے بارے موت کا فیصلہ کردیتا ہے۔‘‘ اس سے مراد وہ نفس ہے جس پر حقیقی موت وارد ہوتی ہے یا نیند کے دوران اس پر موت آتی ہے۔ ﴿وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’اور دوسرے نفس کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے‘‘ یعنی ان کے رزق اور مدت کی تکمیل تک کے لیے۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّـرُوْنَ۠ ﴾ ’’اس میں ان کے لیے نشانیاں ہیں(جو اس کے کامل اقتدار، مرنے کے بعد اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت پر) غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ روح اور نفس ایک جسم ہے اور بنفسہ قائم ہے، اس کا جو ہر بدن کے جو ہر سے مختلف ہے، یہ بھی مخلوق ہے اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے، وفات دینے، روک لینے اور چھوڑ دینے میں اللہ تعالیٰ کا تصرف اس پر ہے۔ زندوں کی اور مردوں کی ارواح عالم برزخ میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں وہ اکٹھی ہو کر آپس میں باتیں کرتی ہیں، پس اللہ زندوں کی ارواح کو چھوڑ دیتا ہے اور مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے۔
آیت: 43 - 44 #
{أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ (43) قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (44)}.
کیا بنائے ہیں انھوں نے اللہ کے سواسفارشی، کہہ دیجیے:اگرچہ ہوں وہ نہ اختیار رکھتے کسی چیز کا اور نہ عقل رکھتے( ہوں) (43) کہہ دیجیے: اللہ ہی کے لیے ہے سفارش سب، اسی کے لیے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (44)
#
{43} ينكر تعالى على مَنِ اتَّخذ من دونِهِ شفعاءَ يتعلَّق بهم ويسألُهم ويعبُدُهم، {قل} لهم مبيِّناً جهلَهم وأنَّها لا تستحقُّ شيئاً من العبادة: {أوَلَوْ كانوا}؛ أي: مَنِ اتَّخَذْتُم من الشفعاء {لا يملِكونَ شيئاً}؛ أي: لا مثقال ذرة في السماواتِ ولا في الأرضِ ولا أصغرَ من ذلك ولا أكبر، بل وليس لهم عقلٌ يستحقُّون أن يُمْدَحوا به؛ لأنَّها جماداتٌ من أحجارٍ وأشجارٍ وصورٍ وأمواتٍ؛ فهل يُقالُ: إنَّ لِمَنِ اتَّخذها عقلاً، أم هو من أضلِّ الناس وأجهلهم وأعظمهم ظلماً؟!
[43] اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر سخت نکیر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کو سفارشی بناتے ہیں، ہ ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ ﴿قُ٘لْ ﴾ ان کی جہالت اور ان کے خود ساختہ معبودوں کے عبادت کے مستحق نہ ہونے کو واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے: ﴿اَوَلَوْ كَانُوْا﴾ ’’خواہ وہ۔‘‘ یعنی جن کو تم نے اپنا سفارشی بنا رکھا ہے۔ ﴿لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْـًٔؔا ﴾ زمین اور آسمان میں، چھوٹی یا بڑی، کسی ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہ ہوں، بلکہ ﴿وَ لَا یَعْقِلُوْنَ﴾ان میں عقل ہی نہیں کہ وہ مدح کے مستحق ہوں کیونکہ یہ جمادات، پتھر، درخت، بت یا مرے ہوئے لوگ ہیں۔ کیا اس شخص میں، جس نے ان کو اپنا معبود بنایا ہے، کوئی عقل ہے؟ یا وہ دنیا کا گمراہ ترین، جاہل ترین اور سب سے بڑا ظالم ہے؟
#
{44} {قل}: لهم: {لله الشفاعةُ جميعاً}: لأنَّ الأمر كلَّه لله، وكلُّ شفيع؛ فهو يخافُه، ولا يقدِرُ أن يشفعَ عنده أحدٌ إلاَّ بإذنِهِ؛ فإذا أراد رحمةَ عبدِهِ؛ أذن للشفيع الكريم عندَه أن يشفعَ رحمةً بالاثنين. ثم قرَّرَ أنَّ الشفاعة كلَّها له بقوله: {له ملكُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: جميع ما [فيهما] من الذوات والأفعال والصفات؛ فالواجب أن تُطْلَبَ الشفاعةُ ممَّنْ يملِكُها وتُخْلَصَ له العبادةُ. {ثم إليه تُرْجَعونَ}: فيجازي المخلصَ له بالثواب الجزيل، ومَنْ أشرك به بالعذابِ الوبيل.
[44] ﴿قُ٘لْ ﴾ آپ ان مشرکین سے کہہ دیجیے: ﴿لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًا ﴾ ’’سفارش تو سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ کیونکہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ ہر سفارش کرنے والا اللہ سے ڈرتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر رحم کرنا چاہتا ہے تو اچھے سفارشی کو اپنے ہاں سفارش کرنے کی اجازت عطا کر دیتا ہے۔ یہ اس کی طرف سے ان دونوں پر رحمت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے متحقق فرمایا کہ شفاعت تمام تر اسی کا اختیار ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کی حکومت اسی کے لیے ہے‘‘ یعنی ان میں ذوات، افعال اور صفات جو کچھ بھی ہیں سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں، لہٰذا واجب ہے کہ سفارش اسی سے طلب کی جائے جو اس کا مالک ہے اور اسی کے لیے عبادات کو خالص کیا جائے ﴿ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اور وہ صاحب اخلاص کو ثواب جزیل عطا کرے گا اور جس نے شرک کیا اسے دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔
آیت: 45 - 46 #
{وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (45) قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (46)}.
اور جب ذکرکیا جاتا ہے اللہ اکیلے کا تو (توحید الٰہی سے) نفرت کرتے (تنگ پڑ جاتے) ہیں دل ان کے جو نہیں ایمان رکھتے آخرت پراور جب ذکر کیاجاتا ہے ان (معبودوں) کا جو اس کے سوا ہیں تو اس وقت وہ بڑے خوش ہوتے ہیں(45) کہہ دیجیے: اے اللہ! پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے، جاننے والے چھپے اور ظاہر کے! تو ہی فیصلہ کرے گا درمیان اپنے بندوں کے ا ن باتوں میں کہ تھے وہ ان میں اختلاف کرتے (46)
#
{45 ـ 46} يذكُرُ تعالى حالةَ المشركين وما الذي اقتضاه شركُهم: أنَّهم {إذا ذُكِرَ الله} تعالى توحيداً له وأمرًا بإخلاص الدين له وتركِ ما يعبُد من دونه؛ أنهم يشمئزُّون وينفُرون ويكرهون ذلك أشدَّ الكراهة. {وإذا ذُكِرَ الذين من دونِهِ}: من الأصنام والأنداد، ودعا الداعي إلى عبادتها ومدحها؛ {إذا هم يستبشرونَ}: بذلك فرحاً بذِكْرِ معبوداتهم، ولكونِ الشرك موافقاً لأهوائهم وهذه الحال أشرُّ الحالات وأشنعها ولكن موعدَهم يومُ الجزاء؛ فهناك يؤخَذُ الحقُّ منهم ويُنْظَرُ: هل تنفعهُم آلهتُهم التي كانوا يَدْعون من دون الله شيئاً؟! ولهذا قال: {قل اللهمَّ فاطرَ السمواتِ والأرض}؛ أي: خالقهما ومدبِّرهما، {عالم الغيبِ}: الذي غاب عن أبصارِنا وعِلْمِنا {والشَّهادةِ}: الذي نشاهده، {أنت تحكُمُ بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفونَ}. وإن من أعظم الاختلاف اختلافُ الموحِّدين المخلِصين القائلين: إنَّ ما هم عليه هو الحقُّ وإنَّ لهم الحسنى في الآخرة دون غيرهم، والمشركين الذين اتَّخذوا من دونِكَ الأندادَ والأوثانَ وسَوَّوا بك مَنْ لا يَسْوَى شيئاً، وتنقَّصوك غايةَ التنقُّص، واستبشروا عند ذِكْرِ آلهتهم، واشمأزوا عند ذكرك وزعموا مع هذا أنَّهم على الحقِّ وغيرهم على الباطل وأنَّ لهم الحسنى؛ قال تعالى: {إنَّ الذين آمَنوا والذينَ هادوا والصَّابِئينَ والنَّصارى والمَجوسَ والذين أشْرَكوا إنَّ الله يَفْصِلُ بينَهم يومَ القيامةِ إنَّ الله على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}، وقد أخبرنا بالفصل بينَهم بعدَها بقوله: {هذانِ خصمانِ اختَصَموا في ربِّهم فالذين كَفَروا قُطِّعَتْ لهم ثيابٌ من نارٍ يُصَبُّ من فوقِ رؤوسهم الحميمُ يُصْهَرُ به ما في بُطونِهِم والجلودُ ولهم مقامِعُ من حديدٍ ... } إلى أن قال: {إنَّ الله يُدْخِلُ الذين آمنوا وَعَمِلُوا الصالحاتِ جناتٍ تَجْري من تحتِها الأنهارُ يُحَلَّوْنَ فيها من أساوِرَ من ذهبٍ ولُؤْلُؤاً ولباسُهُم فيها حريرٌ}، وقال تعالى: {الذين آمنوا ولم يَلْبِسوا إيمانَهم بِظُلْمٍ أولئكَ لهم الأمنُ وهم مهتدونَ}، {إنَّه مَن يُشْرِكْ بالله فقد حَرَّمَ الله عليه الجنَّةَ ومأواه النارُ}؛ ففي هذه الآية بيانُ عموم خلقِهِ تعالى وعموم علمِهِ وعموم حكمِهِ بين عباده؛ فقدرتُهُ التي نشأت عنها المخلوقات، وعلمُهُ المحيطُ بكلِّ شيء دالٌّ على حكمه بين عبادِهِ وبعثِهِم وعلمِهِ بأعمالهم خيرِها وشَرِّها وبمقاديرِ جزائها، وخلقُهُ دالٌّ على علمِهِ، ألا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ.
[45، 46] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے حال اور ان کے شرک کے تقاضے کا ذکر کرتا ہے۔ ﴿وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ ﴾ ’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے‘‘ یعنی جب اس کی توحید کا ذکر کیا جاتا ہے، دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرکے عمل کرنے اور اس کے سوا دیگر معبودوں کو چھوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، تو وہ منقبض ہو جاتے ہیں، نفرت کرتے ہیں اور شدید ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ﴾ اور جب اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں اور خود ساختہ معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور دعوت دینے والا ان کی عبادت اور ان کی مدح کی دعوت دیتا ہے۔ ﴿اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ تو وہ اپنے معبودوں کا ذکر سن کر فرحت اور خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ کیونکہ شرک ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے ، ان کی یہ حالت بدترین حالت ہے، مگر ان سے روز جزا تک کے لیے مہلت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس لیے اس دن ان سے حق وصول کیا جائے گا اور اس دن دیکھا جائے گا کہ آیا ان کے معبود ان کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں جن کی یہ لوگ عبادت کیا کرتے ہیں؟ اسی لیے فرمایا: ﴿قُ٘لِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی کہہ دیجیے: اے اللہ! زمین و آسمان کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے ﴿عٰؔلِمَ الْغَیْبِ ﴾ اور ان تمام امور کو جاننے والے جو ہماری آنکھوں اور ہمارے علم سے غائب ہیں ﴿وَالشَّهَادَةِ ﴾ اور جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ ﴿اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں، فیصلہ کرے گا۔‘‘ اور سب سے بڑا اختلاف جو موحد و مخلص بندوں، جو کہتے ہیں کہ ان کا موقف حق ہے اور آخرت میں صرف انھی کے لیے بھلائی ہے، اور مشرکین کے درمیان ہے جنھوں نے تجھے چھوڑ کر بتوں اور دوسری ہستیوں کو اپنا معبود بنا لیا اور ان ہستیوں کو تیرے برابر ٹھہرایا جو کسی طرح بھی برابر نہیں ہیں وہ تجھے انتہائی حد تک ناقص قرار دیتے ہیں، جب ان کے خود ساختہ معبودوں کا ذکر ہوتا ہے تو خوشی سے کھل اٹھتے ہیں اور جب تیرا ذکر ہوتا ہے تو وہ نہایت کراہت سے منقبض ہو جاتے ہیں بایں ہمہ ان کو زعم ہے کہ وہ حق پر ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں اور وہ آخرت میں بھلائی سے بہرہ مند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰؔبِــِٕیْنَ وَالنَّ٘صٰرٰى وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْۤا١ۖ ۗ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ﴾ (الحج: 22؍17) ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے، جو یہودی، عیسائی، صابی اور مجوسی ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ فرمایا: ﴿هٰؔذٰنِ خَ٘صْمٰنِ اخْ٘تَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١ٞ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؔءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ۰۰ یُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُؕ۰۰ وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۰۰كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا١ۗ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِؒ۰۰ اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا١ؕ وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ ﴾ (الحج: 22؍19-23) ’’یہ جھگڑے کے دو فریق ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پس ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان کو آگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے اور ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔ جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر تک کے حصے گل جائیں گے اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے، جب بھی وہ غم کے مارے جہنم سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹادیے جائیں گے (اور انھیں کہا جائے گا:) اب جلا دینے والے عذاب کا مزا چکھو، بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ انھیں اس میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْ٘بِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ (الانعام: 6؍82) ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا، وہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (مکمل) امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّهٗ مَنْ یُّ٘شْ٘رِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ﴾ (المائدۃ: 5؍72) ’’جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو بلاشبہ اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عموم تخلیق، عموم علم اور بندوں کے درمیان عموم حکم کا بیان ہے، تمام مخلوقات اس کی قدرت سے پیدا ہوئی ہے اس کا علم ہر شے کو محیط ہے اور دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور انھیں دوبارہ زندہ کرے گا، بندوں کے اچھے برے اعمال اور ان کی جزاوسزا اور اس کی تخلیق اس کے علم پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ﴾ (الملک:67؍14)’’ کیا وہ نہیں جانتا جس نے (انھیں) پیدا کیا؟‘‘
آیت: 47 - 48 #
{وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (47) وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (48)}.
اور اگر بلاشبہ ہو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا جو کچھ زمین میں ہے سب اور اس کی مثل اس کے ساتھ (اور بھی) تو وہ البتہ فدیے میں دے دیں اسے برے عذاب سے، قیامت کے دن، اور ظاہر ہو جائے گا ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ (عذاب) جس کا نہیں تھے وہ گمان کرتے (47) اورظاہر ہو جائیں گی ان کے لیے برائیاں ان (عملوں)کی جو انھوں نے کمائے ہو ں گے اور گھیر لے گا ان کو وہ (عذاب) کہ تھے وہ جس کے ساتھ ٹھٹھا کرتے (48)
#
{47} لما ذكر تعالى أنَّه الحاكم بين عباده، وذكر مقالة المشركين وشناعَتَها، كأنَّ النفوس تشوَّفَتْ إلى ما يفعل الله بهم يوم القيامةِ، فأخبر أنَّ لهم سوءَ {العذابِ}؛ أي: أشدَّه وأفظعه؛ كما قالوا أشدَّ الكفر وأشنعَه، وأنَّهم على الفرض والتقدير لو كان لهم ما في الأرض جميعاً من ذهبها وفضَّتها ولُؤْلئِها وحيواناتها وأشجارِهِا وزروعِها وجميع أوانيها وأثاثها، ومثلُهُ معه، ثم بَذَلوه {يوم القيامةِ} ليفتدوا به من العذابِ ويَنْجوا منه؛ ما قُبِلَ منهم، ولا أغنى عنهم من عذاب الله شيئاً، يوم لا ينفعُ مالٌ ولا بنونَ إلاَّ مَنْ أتى الله بقلبٍ سليم. {وبَدا لهم من اللهِ ما لم يكونوا يَحْتَسِبونَ}؛ أي: يظنُّون من السخطِ العظيم والمقتِ الكبيرِ، وقد كانوا يحكُمون لأنفسهم بغير ذلك.
[47] اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، مشرکین کے قول اور اس کی قباحت کا ذکر کیا۔ گویا نفوس اس انتظار میں ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان کے لیے ﴿سُوْٓءِ الْعَذَابِ ﴾ سخت ترین اور بدترین عذاب ہے جس طرح وہ سخت ترین اور بدترین کفر کی باتیں کیا کرتے تھے۔ فرض کیا زمین کا تمام سونا، چاندی، جواہرات، اس کے تمام حیوانات، اس کے تمام درخت اور کھیتیاں، اس کے تمام برتن اور اثاثے اور اتنا ہی سب کچھ اور ان کی ملکیت ہو اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے خرچ کریں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے کام نہیں آسکے گا ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَ٘عُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَۙ۰۰ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ (الشعراء: 26؍88، 89) ’’اس روز مال فائدہ دے گا نہ بیٹے، سوائے اس کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔‘‘
#
{48} {وبدا لهم سيئاتُ ما كَسَبوا}؛ أي: الأمور التي تسوؤُهُم بسبب صَنيعهم وكَسْبِهِم، {وحاق بهم ما كانوا به يستهزِئونَ}: من الوعيدِ والعذابِ، نزلَ بهم، وحلَّ عليهم العقابُ.
[48] ﴿وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ ﴾ ’’اور ان پر اللہ کی طرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا انھیں خیال بھی نہ تھا۔‘‘ یعنی اس بہت بڑی ناراضی کا تو انھیں گمان تک نہ تھا وہ تو اپنے بارے میں اس کے برعکس فیصلے کرتے رہے تھے۔ ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ﴾ یعنی ان کے کرتوتوں کے سبب ان پر وہ امور ظاہر ہوں گے جو ان کو بہت برے لگیں گے ﴿وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ اور وہ عذاب اور وعید جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے، وہ ان پر آنازل ہوگی۔
آیت: 49 - 52 #
{فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (49) قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (50) فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ (51) أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (52)}.
پس جب پہنچتی ہے انسان کو کوئی تکلیف تو پکارتا ہے ہمیں، پھر جب عطا کر دیتے ہیں ہم اس کو کوئی نعمت اپنی طرف سے، تو کہتا ہے بلاشبہ دیا گیا ہوں میں یہ (اپنے) علم کی بدولت (نہیں)بلکہ وہ توایک آزمائش ہے، اور لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے(49)تحقیق کہی یہی بات ان لوگوں نے جو ہوئے ان سے پہلے، پس نہ کام آیاان کے وہ جو تھے وہ کماتے (50) پس پہنچیں ان کو برائیاں ان(عملوں)کی جو انھوں نے کمائے، اور وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا ان میں سے، عنقریب پہنچیں گی ان کو برائیاں ان(عملوں)کی جو انھوں نے کمائے ہوں گے اور نہیں ہیں وہ عاجز کرنے والے (51)کیانہیں جانا انھوں نے کہ بلاشبہ اللہ ہی کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے، بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (52)
#
{49} يخبر تعالى عن حالة الإنسان وطبيعته أنَّه حين يَمَسُّه ضرٌّ من مرض أو شدَّة أو كربٍ، {دعانا}: ملحًّا في تفريج ما نَزَلَ به، {ثم إذا خَوَّلْناه نعمةً مِنَّا}: فكشفنا ضُرَّه، وأزَلْنا مَشَقَّتَه؛ عاد بربِّه كافراً ولمعروفه منكراً، و {قال إنَّما أوتيتُهُ على علم}؛ أي: علم من الله أنِّي له أهلٌ وأنِّي مستحقٌّ له؛ لأني كريم عليه، أو على علم منِّي بطُرُق تحصيله، قال تعالى: {بل هي فتنةٌ}: يبتلي اللهُ به عبادَه لينظُرَ من يَشْكُرُه ممَّن يكفُرُه. {ولكنَّ أكثرَهم لا يعلمونَ}: فلذلك يعدُّون الفتنة منحةً، ويشتبهُ عليهم الخيرُ المحضُ بما قد يكون سبباً للخير أو للشرِّ.
[49] اللہ تعالیٰ انسان کے حال اور اس کی فطرت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ جب اسے کوئی بیماری، شدت یا تکلیف پہنچتی ہے ﴿دَعَانَا ﴾ تو وہ اس نازل ہونے والی مصیبت کو دور کرنے کے لیے گڑگڑا کر ہمیں پکارتا ہے۔ ﴿ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّؔنَّا ﴾ ’’پھر جب ہم اسے اپنی نعمت عطا کر دیتے ہیں‘‘ یعنی جب ہم اس کی تکلیف کو دور اور اس کی مشقت کو زائل کر دیتے ہیں تو وہ اپنے رب کی ناسپاسی اور اس کے احسان کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور ﴿قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ ’’کہتا ہے: مجھے تو یہ سب کچھ علم کے سبب دیا گیا ہے‘‘ یعنی اللہ کی طرف سے علم کی بنا پر حاصل ہواہے اور میں اس کا اہل اور اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں اس کے ہاں بہت برگزیدہ ہوں،یا اس کا معنی یہ ہے کہ یہ سب کچھ مجھے مختلف طریقوں سے حاصل کیے گئے میرے علم کے سبب سے مجھے عطا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ ﴾ ’’بلکہ یہ ایک فتنہ ہے‘‘ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون اس کا شکر گزار ہے اور کون اس کی ناشکری کرتا ہے۔ ﴿وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے وہ فتنہ اور آزمائش کو اللہ تعالیٰ کی نوازش سمجھتے ہیں، ان کے سامنے خالص بھلائی اس چیز کے ساتھ مشتبہ ہو جاتی ہے جو بھلائی یا برائی کا سبب ہے۔
#
{50} قال تعالى: {قد قالَها الذين من قَبْلِهِم}؛ أي: قولهم: {إنَّما أوتيتُهُ على علم}؛ فما زالت متوارثةً عند المكذِّبين، لا يقرُّون بنعمةِ ربِّهم، ولا يَرَوْنَ له حقًّا، فلم يزل دأبُهم حتى أهْلِكوا، ولم يغنِ {عنهم ما كانوا يكسِبونَ}: حين جاءهم العذابُ!
[50] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ یعنی ان سے پہلے لوگ بھی یہی کہتے تھے، یعنی ان کا یہ مقولہ: ﴿اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ اہل تکذیب کے ہاں ہمیشہ سے متوارث چلا آرہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے ہیں نہ اس کا کوئی حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ لوگوں کی یہی عادت رہی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیا گیا ﴿فَمَاۤ اَغْ٘نٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ جب ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو ان کی کمائی ان کے کسی کام نہ آئی۔
#
{51} {فأصابَهم سيئاتُ ما كَسَبوا}: والسيئاتُ في هذا الموضع العقوباتُ؛ لأنَّها تَسوءُ الإنسانَ وتُحْزِنُه. {والذين ظلموا من هؤلاء سَيصيبُهم سيئاتُ ما كَسَبوا}: فليسوا خيراً من أولئك، ولم يُكْتَبْ لهم براءةٌ في الزُّبُر.
[51] ﴿فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ﴾ ’’ان پر ان کے اعمال کے وبال پڑ گئے۔‘‘ اس مقام پر (سیئات) سے مراد ’’عقوبات‘‘ ہیں کیونکہ یہ عقوبات ہی انسان کے لیے تکلیف دہ اور اس کو غم زدہ کرتی ہیں۔ ﴿وَالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیْبُهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ﴾ ’’اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں عنقریب ان پر ان کے عملوں کے وبال پڑیں گے۔‘‘ پس یہ لوگ نہ تو گزشتہ لوگوں سے بہتر ہیں اور نہ ان کو کوئی براء ت نامہ ہی لکھ کر دیا گیا ہے۔
#
{52} ولما ذكر أنهم اغترُّوا بالمال وزعموا بِجَهْلِهِم أنَّه يدلُّ على حسن حال صاحبه؛ أخبرهم تعالى أنَّ رزقَه لا يدلُّ على ذلك، وأنه {يَبْسُطُ الرزقَ لِمَن يشاءُ}: من عبادِهِ، سواء كان صالحاً أو طالحاً. {ويَقْدِرُ}: الرزق؛ أي: يضيِّقُه على مَنْ يشاء صالحاً أو طالحاً؛ فرِزْقُهُ مشتركٌ بين البريَّة، والإيمانُ والعملُ الصالح يخصُّ به خَيْرَ البريَّة {إن في ذلك لآيات لقوم يؤمنون}؛ أي: بَسْطُ الرزق وقبضُه؛ لعلمهم أنَّ مرجع ذلك عائدٌ إلى الحكمةِ والرحمةِ، وأنَّه أعلمُ بحال عبيدِهِ؛ فقد يضيِّقُ عليهم الرزقَ لطفاً بهم؛ لأنَّه لو بَسَطَه؛ لَبَغَوْا في الأرض، فيكون تعالى مراعياً في ذلك صلاح دينهم الذي هو مادةُ سعادتِهِم وفلاحِهم. والله أعلم.
[52] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایاکہ یہ لوگ اپنے مال کی وجہ سے فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ مال اپنے مالک کے حسن حال پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کا رزق اس بات پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ اپنے بندوں میں سے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے۔ ﴿وَیَقْدِرُ ﴾ اور جس کو چاہتا ہے نپاتلا دیتا ہے، یعنی وہ اپنے بندوں میں سے خواہ وہ نیک ہوں یا بد جس کا چاہے اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے، اس کا رزق تمام مخلوق میں مشترک ہے، مگر ایمان اور عمل صالح صرف ان لوگوں کے لیے مختص کرتا ہے جو مخلوق میں بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’بے شک اس میں بھی ان کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘ یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں اہل ایمان کے لیے نشانیاں ہیں۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ رزق کی تنگی اور کشادگی کا مرجع محض اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال کو خوب جانتا ہے۔ کبھی کبھی اپنے بندوں پر لطف و کرم کی وجہ سے بھی ان پر رزق تنگ کر دیتا ہے کیونکہ اگر وہ ان کا رزق کشادہ کر دے تو وہ زمین میں سرکشی کرتے ہیں۔ رزق کی اس تنگی میں اللہ تعالیٰ ان کے دین کی اصلاح کی رعایت رکھتا ہے جو ان کی سعادت اور فلاح کی بنیاد ہے۔ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔
آیت: 53 - 59 #
{قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (56) أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (58) بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (59)}.
کہہ دیجیے: اے میرے بندو! وہ جنھوں نے ظلم کیا ہے اپنی جانوں پر، نہ مایوس ہو تم اللہ کی رحمت سے، بلاشبہ اللہ معاف کر دیتا ہے گناہ سب، یقیناً وہ بڑا بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے(53)اور رجوع کرو تم اپنے رب کی طرف اورمطیع ہو جاؤ اس کے پہلے اس کےکہ آ جائے تمھارے پاس عذاب ، پھر نہ تم مدد کیے جاؤ (54) اورپیروی کرو تم اس بہترین بات کی جو نازل کی گئی تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے پہلے اس کےکہ آجائے تمھارے پاس عذاب اچانک اس حال میں کہ تم نہ شعور رکھتے ہو (55) (ایسا نہ ہو)کہ کہے کوئی نفس، ہائے افسوس اس پر جو کوتاہی کی میں نے اللہ کے حق میں اور بلاشبہ رہا میں ٹھٹھا کرنے والوں میں سے (56) یا کہے اگر بے شک اللہ ہدایت دیتا مجھے تو ضرور ہو جاتا میں پرہیز گاروں میں سے (57) یا کہے جس وقت دیکھے گا عذاب، اگر بے شک (ہو) میرے لیے دوبارہ لوٹنا تو ہو جاؤ ں گا میں نیکوکاروں میں سے (58)کیوں نہیں، تحقیق آئیں تیرے پاس میری آیتیں تو جھٹلایا تو نے ان کو اور تکبر کیا تو نے اور تھا تو کافروں میں سے(59)
#
{53} يخبر تعالى عبادَه المسرفينَ بسعةِ كرمِهِ، ويحثُّهم على الإنابة قبل أن لا يمكِنَهم ذلك، فقال: {قل} يا أيُّها الرسولُ ومَنْ قام مقامَه من الدُّعاة لدين الله مخبراً للعبادِ عن ربِّهم: {يا عبادي الذينَ أسْرَفوا على أنفِسِهم}: باتِّباع ما تَدْعوهم إليه أنفسُهُم من الذُّنوب والسعي في مساخِطِ علاَّم الغُيوب، {لا تَقْنَطوا من رحمةِ الله}؛ أي: لا تيأسوا منها، فَتُلْقوا بأيديكم إلى التَّهْلُكَه، وتقولوا: قد كَثُرَتْ ذنوبُنا وتراكَمَتْ عيوبُنا؛ فليس لها طريقٌ يزيلُها ولا سبيلٌ يصرِفها فتبقون بسبب ذلك مصرِّين على العصيان، متزوِّدين ما يغضب عليكم الرحمن، ولكن اعرفوا ربَّكم بأسمائِهِ الدالَّةِ على كرمِهِ وجودِهِ، واعلَموا أنَّه يَغْفِرُ الذُّنوبَ جميعاً من الشرك والقتل والزِّنا والربا والظلم وغير ذلك من الذنوب الكبار والصغار. {إنَّه هو الغفورُ الرحيمُ}؛ أي: وصفُه المغفرةُ والرحمةُ وصفان لازمانِ ذاتيَّانِ لا تنفكُّ ذاتُه عنهما، ولم تزلْ آثارُهُما ساريةً في الوجود، مالئةً للموجودِ، تسحُّ يداه من الخيراتِ آناءَ الليل والنهار، ويوالي النِّعم على العبادِ والفواضلَ في السرِّ والجهار، والعطاءُ أحبُّ إليه من المنع، والرحمةُ سبقتِ الغضبَ وغلبْته.
[53] اللہ تعالیٰ اپنے حد سے بڑھ جانے والے، یعنی بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے، بندوں کو آگاہ کرتا ہے کہ اس کا فضل و کرم بہت وسیع ہے نیز انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اس سے قبل کہ رجوع کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! اور جو کوئی دعوت دین میں آپ کا قائم مقام ہو! اپنے رب کی طرف سے بندوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجیے: ﴿یٰؔعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘‘ یعنی جنھوں نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اور علام الغیوب کی ناراضی کے امور میں کوشاں ہو کر اپنے آپ پر زیادتی کی ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ کہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو اور کہنے لگو کہ ہمارے گناہ بہت زیادہ اور ہمارے عیوب بہت بڑھ گئے اب ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے وہ گناہ زائل ہو جائیں ، پھر اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مصر رہو اور اس طرح رحمٰنکی ناراضی مول لیتے رہو۔ اپنے رب کو اس کے ان اسماء سے پہچانو جو اس کے جودوکرم پر دلالت کرتے ہیں اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ﴾ ’’سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ شرک، قتل، زنا ، سودخوری اور ظلم وغیرہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے ﴿اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے‘‘ یعنی مغفرت اور رحمت دونوں اللہ تعالیٰ کے لازم اور ذاتی اوصاف ہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتے اور نہ ان کے آثار ہی زائل ہوتے ہیں جو تمام کائنات میں جاری و ساری اور تمام موجودات پر سایہ کناں ہیں۔ دن رات اس کے ہاتھوں کی سخاوت جاری ہے، کھلے اور چھپے وہ اپنے بندوں کو اپنی لگاتار نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے۔ عطا کرنا اسے محروم کرنے سے زیادہ پسند ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب اور اس پر سبقت لے گئی ہے۔
#
{54} ولكنْ لمغفرتِهِ ورحمتِهِ ونَيْلِهِما أسبابٌ؛ إنْ لم يأتِ بها العبدُ؛ فقدْ أغلقَ على نفسه بابَ الرحمةِ والمغفرة، أعظمُها وأجلُّها ـ بل لا سببَ لها غيره ـ الإنابةُ إلى الله تعالى بالتوبةِ النصوح، والدُّعاءُ والتضرُّعُ والتألُّهُ والتعبُّدُ؛ فهلمَّ إلى هذا السبب الأجلِّ والطريق الأعظم، ولهذا أمَرَ تعالى بالإنابة إليه والمبادرةِ إليها، فقال: {وأنيبوا إلى ربِّكُم}: بقلوبِكم، {وأسْلِموا له}: بجوارِحِكم، إذا أُفْرِدَتِ الإنابةُ؛ دخلتْ فيها أعمالُ الجوارح، وإذا جُمِعَ بينَهما كما في هذا الموضع؛ كان المعنى ما ذكرنا. وفي قوله: {إلى ربِّكُم وأسْلِموا له}: دليلٌ على الإخلاص، وأنَّه من دون إخلاص لا تفيدُ الأعمالُ الظاهرةُ والباطنةُ شيئاً {من قبل أن يأتِيَكُمُ العذابُ}: مجيئاً لا يُدْفَع، {ثم لا تُنصَرونَ}.
[54] اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے کچھ اسباب ہیں، بندہ اگر ان اسباب کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ پر عظیم ترین اور جلیل ترین رحمت و مغفرت کا دروازہ بند کر لیتا ہے۔ بلکہ خالص توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، دعا، اس کے سامنے عاجزی و انکسار اور اظہار تعبد کے سوا کوئی سبب نہیں۔ پس اس جلیل القدر سبب اور اس عظیم راستے کی طرف بڑھو۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف انابت میں جلدی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ ﴾ ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔‘‘ یعنی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو ﴿وَاَسْلِمُوْا لَهٗ﴾ اور اپنے اپنے جوارح کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو۔ اگر ’’انابت‘‘ کو مفرد بیان کیا گیا ہو تو اس میں اعمال جوارح بھی داخل ہیں اور اگر ’’انابت‘‘ کو دوسرے امور کے ساتھ بیان کیا گیا ہو جیسا کہ اس مقام پر کیا گیا ہے تو اس کا معنیٰ وہی ہو گا جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ ﴾ اخلاص پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اخلاص کے بغیر ظاہری اور باطنی اعمال کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ ﴿مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو۔‘‘ اور اسے روکا نہ جا سکے گا ﴿ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ﴾ پھر اس عذاب کے مقابلے میں تمھاری مدد کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
#
{55} فكأنه قيل: ما هي الإنابةُ والإسلامُ، وما جزئياتُها وأعمالها؟ فأجاب تعالى بقوله: {واتَّبِعوا أحسنَ ما أُنزِلَ إليكم مِن ربِّكُم}: مما أمَرَكم من الأعمال الباطنةِ؛ كمحبَّة الله وخشيَتِهِ وخوفِهِ ورجائِهِ والنصح لعبادِهِ ومحبَّة الخير لهم وتركِ ما يضادُّ ذلك، ومن الأعمال الظاهرة؛ كالصلاة والزكاة [والصيام] والحجِّ والصدقةِ وأنواع الإحسان ونحو ذلك مما أمَرَ الله به، وهو أحسنُ ما أُنْزِلَ إلينا من ربِّنا، فالمتتبِّع لأوامر ربِّه في هذه الأمور ونحوها هو المنيبُ المسلمُ {من قَبْلِ أن يأتِيَكُمُ العذابُ بغتةً وأنتم لا تشعرُونَ}: وكلُّ هذا حثٌّ على المبادرةِ وانتهازِ الفرصة.
[55] گویا کہ پوچھا گیا کہ ’’انابت‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کیا ہیں ،ان کی جزئیات و اعمال کیا ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿وَاتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’اور پیروی کرو ان بہترین باتوں کی جو نازل کی گئیں تمھاری طرف تمھارے پروردگار کی طرف سے۔‘‘ یعنی باطنی اعمال کو بجا لاؤ جن کا تمھیں حکم دیا گیا ہے ، مثلاً: محبت الٰہی، خشیت الٰہی، خوف الٰہی، اللہ پر امید، اس کے بندوں کی خیرخواہی، ان کے لیے ہمیشہ بھلائی چاہنا اور ان امور سے متضاد امور سے اجتناب اور ظاہری اعمال بجالانا ، مثلاً: نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا، صدقہ دینا اور بھلائی کے مختلف کام کرنا جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور یہی بہترین کام ہیں جن کو ہمارے رب نے ہماری طرف نازل فرمایا ہے ، لہٰذا ان امور میں اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرنے والا ’’منیب‘‘ اور ’’مسلم‘‘ ہے۔ ﴿مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَ٘شْ٘عُرُوْنَ﴾ ’’اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ اور یہ سب کچھ جلدی کرنے اور فرصت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب ہے۔
#
{56} ثم حذَّرهم {أن} لا يستمرُّوا على غفلتِهِم حتى يأتِيَهُمْ يومٌ يندمون فيه ولا تنفعُ الندامةُ، و {تقول نفسٌ يا حسرتى على ما فَرَّطْتُ في جَنبِ الله}؛ أي: في جانِبِ حقِّه. {وإن كُنتُ}: في الدُّنيا {لَمِنَ السَّاخِرينَ}: في إتيانِ الجزاء حتى رأيتُه عياناً.
[56] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈراتے (اوران کی خیرخواہی کرتے) ہوئے فرمایا: ﴿اَنْ ﴾ کہ وہ اپنی غفلت پر نہ جمے رہیں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس دن انھیں نادم ہونا پڑے اور اس دن ندامت کسی کام نہیں آئے گی۔ اور ﴿تَقُوْلَ نَ٘فْ٘سٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ ﴾ ’’کوئی نفس کہے: اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کے حق میں کی۔‘‘ ﴿وَاِنْ كُنْتُ ﴾ ’’بے شک میں تو تھا‘‘ دنیا میں ﴿لَ٘مِنَ السّٰخِرِیْنَ﴾ ’’مذاق اڑانے والوں میں سے‘‘ یعنی میں دنیا میں جزاوسزا کا تمسخر اڑایا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے اسے عیاں (آنکھوں سے) دیکھ لیا۔
#
{57} {أو تقولَ لو أنَّ الله هداني لكنتُ من المتَّقينَ}: و {لو} في هذا الموضع للتمنِّي؛ أي: ليت أنَّ الله هداني، فأكون متقياً له، فأسلم من العقاب، وأستحقُّ الثواب، وليست {لو} هنا شرطيَّةً؛ لأنَّها لو كانت شرطيَّة؛ لكانوا محتجِّين بالقضاء والقدر على ضلالهم، وهي حجةٌ باطلةٌ، ويوم القيامةِ تضمحلُّ كل حجةٍ باطلةٍ.
[57] ﴿اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰؔىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’یا یوں کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیز گاروں میں سے ہوتا۔‘‘ اس مقام پر (لَوْ) تمنا کے معنی میں ہے۔ یعنی کاش اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت عطا کی ہوتی تو میں بھی پرہیز گار بن جاتا اور عذاب سے بچ جاتا اور ثواب کا مستحق بن جاتا۔ یہاں (لو) شرطیہ نہیں ہے اگر یہاں (لو) شرطیہ ہو تا تو ان کو اپنی گمراہی کے لیے قضاوقدر کی حجت ہاتھ آجاتی ہے اور یہ باطل حجت ہے اور قیامت کے روز ہر باطل حجت مضمحل ہو جائے گی۔
#
{58} {أو تقولَ حين تَرى العذابَ}: وتجزِمَ بورودِهِ: {لو أنَّ لي كَرَّةً}؛ أي: رجعةً إلى الدنيا: لكنت {من المحسنينَ}.
[58] ﴿اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ ﴾ ’’یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے۔‘‘ جب اسے عذاب کے وارد ہونے کا یقین ہو جائے گا تو وہ کہے گا ﴿لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً ﴾ یعنی اگر ایک بار اور مجھے دنیا میں واپس بھیجا جائے تو میں ہوجاؤں گا ﴿مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ نیک عمل کرنے والوں میں سے۔
#
{59} قال تعالى في أنَّ ذلك غير ممكنٍ ولا مفيدٍ، وأنَّ هذه أماني باطلةٌ لا حقيقةَ لها؛ إذ لا يتجدَّد للعبد لو رُدَّ بيانٌ بعد البيان الأول: {بلى قد جاءَتْك آياتي}: الدالةُ دلالةً لا يُمْتَرى فيها على الحقِّ، {فكذَّبْتَ بها واستكبرتَ}: عن اتِّباعِها، {وكنتَ من الكافرينَ}: فسؤالُ الردِّ إلى الدنيا نوعُ عبثٍ، فلو رُدُّوا؛ لعادوا لِما نُهوا عنه، وإنَّهم لَكاذِبونَ.
[59] اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کا دنیا میں دوبارہ بھیجا جانا ممکن ہے نہ مفید، یہ تو محض باطل آرزو ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ انسان کو دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا جائے گا۔ اگر اسے دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو پہلے بیان اور احکام کے بعد اب کوئی نیا بیان اور حکم نہیں آئے گا۔ ﴿بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰیٰتِیْ ﴾ ’’کیوں نہیں میری آیتیں تیرے پاس پہنچ گئی تھیں۔‘‘ جو حق پر دلالت کرتی تھیں، ایسی دلالت کہ اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا تھا۔ ﴿فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ ﴾ ’’تونے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا۔‘‘ اور تکبر کی بنا پر تو نے ان کی اتباع نہیں کی ﴿وَؔكُنْتَ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور تو کافر بن گیا۔‘‘ اس لیے دنیا کی طرف لوٹائے جانے کا مطالبہ عبث ہے۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍28) ’’اگر انھیں پھر دنیا کی زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے ان کو روکا گیا تھا اور بے شک وہ جھوٹے ہیں۔‘‘
آیت: 60 - 61 #
{وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (60) وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (61)}.
اوردن قیامت کے آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جنھوں نے جھوٹ بولا اللہ پر، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا نہیں ہے جہنم میں ٹھکانا تکبر کرنے والوں کا؟ (60) اور نجات دے گا اللہ ان لوگوں کو جنھوں نے تقوی اختیار کیا، ساتھ ان کی کامیابی کے، نہیں پہنچے گی ان کو برائی اور نہ وہ غمگین ہوں گے (61)
#
{60} يخبر تعالى عن خِزْي {الذين كَذَبوا} عليه، وأنَّ وجوهَهم يوم القيامةِ {مسودَّةٌ}: كأنَّها الليلُ البهيمُ، يعرِفُهم بذلك أهلُ الموقف، فالحقُّ أبلجُ واضحٌ كأنه الصبح؛ فكما سوَّدوا وجهَ الحقِّ بالكذبِ؛ سَوَّدَ الله وجوهَهم جزاءً من جنس عملهم؛ فلهم سوادُ الوجوهِ ولهم العذابُ الشديدُ في جهنَّم، ولهذا قال: {أليس في جَهَنَّمَ مثوىً للمتكبِّرينَ}: عن الحقِّ، وعن عبادةِ ربِّهم، المفترين عليه، بلى والله؛ إنَّ فيها لعقوبةً وخزياً وسخطاً يبلُغُ من المتكبِّرين كلَّ مبلغ، ويؤخَذُ الحقُّ منهم بهما ، والكذِبُ على الله يَشْمَلُ الكذبَ عليه باتِّخاذِ الشريك والولدِ والصاحبةِ، والإخبار عنه بما لا يليقُ بجلالِهِ، أو ادِّعاء النبوَّة، أو القول في شرعِهِ بما لم يَقُلْهُ والإخبارِ بأنَّه قاله وشَرَعَه.
[60] جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کی، اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی بیان کرتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے چہرے سیاہ تاریک رات کی مانند سیاہ ہوں گے، ان کے سیاہ چہروں کی وجہ سے اہل موقف انھیں پہچانیں گے اور روشن صبح کی مانند حق صاف واضح ہو گا۔ جس طرح انھوں نے دنیا کے اندر حق کے چہرے کو جھوٹ کے ساتھ سیاہ کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بھی سیاہ کر دیا۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس ہی سے ہے۔ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان کے لیے جہنم کا نہایت سخت عذاب ہو گا اس لیے فرمایا: ﴿اَلَ٘یْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ ﴾ کیا جو لوگ حق اور اپنے رب کی عبادت کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھتے تھے اور اس پر بہتان طرازی کرتے تھے، ان کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں اللہ کی قسم! بلاشبہ جہنم میں شدید عذاب، بے انتہا رسوائی اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہوگی۔ جہاں متکبرین کو پور ی طرح عذاب دیا جائے گا اور ان سے حق وصول کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، اس کا بیٹا اور بیوی قرار دینا، اس کی طرف سے کوئی ایسی خبر دینا جو اس کے جلال کے لائق نہ ہو، نبوت کا دعویٰ کرنا، اس کی شریعت میں ایسی بات کہنا جو اس نے نہ کہی ہو اور دعویٰ کرنا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
#
{61} ولما ذَكَرَ حالَةَ المتكبِّرين؛ ذَكَرَ حالةَ المتَّقين، فقال: {وَيُنَجِّي الله الذين اتَّقَوْا بمفازَتِهم}؛ أي: بنجاتهم، وذلك لأنَّ معهم آلةَ النجاةِ، وهو تقوى الله تعالى، التي هي العُدَّةُ عند كلِّ هول وشدَّة. {لا يَمَسُّهُم السوءُ}؛ أي: العذاب الذي يسوؤُهم، {ولا هُم يَحْزَنونَ}: فنفَى عنهم مباشرةَ العذابِ وخوفَه، وهذا غايةُ الأمان؛ فلهم الأمنُ التامُّ يصحَبُهم حتى يوصِلَهم إلى دار السلام؛ فحينئذٍ يأمَنون من كلِّ سوءٍ ومكروهٍ، وتجري عليهم نَضْرَةُ النعيم، ويقولون: الحمدُ لله الذي أذْهَبَ عنَّا الحزن، إنَّ ربَّنا لغفورٌ شكورٌ.
[61] متکبرین کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا حال بیان کیا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَیُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ ﴾ ’’اور جو پرہیز گار ہیں ان کی کامیابی کے سبب اللہ ان کو نجات دے گا۔‘‘ کیونکہ ان کے پاس آلۂ نجات یعنی تقویٰ ہو گا جو ہر شدت اور ہولناکی کے وقت بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ ﴿لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ ﴾ یعنی تکلیف دہ عذاب انھیں چھوئے گا نہیں۔ ﴿وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ ’’اوروہ غمگین نہیں ہوں گے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب اور خوف کی نفی کر دی اور یہ ا من کی انتہا ہے۔ ان کے لیے مکمل امن ہو گا اور یہ امن ان کے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ وہ سلامتی کے گھر یعنی جنت میں داخل ہو جائیں گے تب وہ ہر تکلیف اور ہر برائی سے محفوظ و مامون ہوں گے اور ان پر نعمتوں کی تازگی چھا جائے گی اور وہ پکار اٹھیں گے: ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ١ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ﴾ (فاطر: 35؍34)’’ہر قسم کی تعریف ہے اس ذات کے لیے جس نے ہم سے حزن و غم کو دور کیا بلاشبہ ہمارا رب بخشنے والا قدردان ہے۔‘‘
آیت: 62 - 63 #
{اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (62) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (63)}.
اللہ ہی خالق ہے ہر چیز کا اور وہ اوپر ہر چیز کے نگہبان ہے (62) اسی کے پاس ہیں چابیاں آسمانوں اور زمین کی اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اللہ کی آیتوں کے ساتھ، یہی لوگ ہیں نقصان اٹھانے والے (63)
#
{62} يخبرُ تعالى عن عظمتِهِ وكمالِهِ الموجبِ لخسرانِ مَنْ كَفَرَ به، فقال: {الله خالِقُ كلِّ شيءٍ}: هذه العبارة وما أشْبَهَها مما هو كثيرٌ في القرآن تدلُّ على أنَّ جميعَ الأشياءِ ـ غيرَ اللهِ ـ مخلوقةٌ؛ ففيها ردٌّ على كلِّ مَنْ قال بقدم بعض المخلوقاتِ؛ كالفلاسفة القائلين بقدم الأرضِ والسماواتِ، وكالقائلينَ بقِدَمِ الأرواح، ونحو ذلك من أقوال أهل الباطل المتضمِّنة تعطيلَ الخالق عن خَلْقِهِ، وليس كلامُ اللهِ من الأشياء المخلوقةِ؛ لأنَّ الكلام صفةُ المتكلم ـ والله تعالى بأسمائِهِ وصفاته أولٌ ليس قبلَه شيءٌ ـ؛ فأخذُ أهل الاعتزال من هذه الآية ونحوها أنَّه مخلوقٌ من أعظم الجهل؛ فإنَّه تعالى لم يَزَلْ بأسمائِهِ وصفاتِهِ، ولم يَحْدُثْ له صفةٌ من صفاتِهِ، ولم يكنْ معطَّلاً عنها بوقتٍ من الأوقات. والشاهدُ من هذا أنَّ الله تعالى أخبر عن نفسِهِ الكريمةِ أنَّه خالقٌ لجميع العالم العلويِّ والسفليِّ، وأنَّه {على كلِّ شيءٍ وكيلٌ}، والوكالةُ التامةُ لا بدَّ فيها من علم الوكيل بما كان وكيلاً عليه، وإحاطتِهِ بتفاصيلِهِ، ومن قدرةٍ تامَّةٍ على ما هو وكيلٌ عليه؛ ليتمكَّن من التصرُّف فيه، ومن حفظٍ لما هو وكيلٌ عليه، ومن حكمةٍ ومعرفةٍ بوجوه التصرُّفات ليصرِّفَها ويدبِّرَها على ما هو الأليقُ؛ فلا تتمُّ الوكالةُ إلاَّ بذلك كله؛ فما نَقَصَ من ذلك؛ فهو نقصٌ فيها. ومن المعلوم المتقرِّرِ أنَّ الله تعالى منزَّهٌ عن كل نقصٍ في صفةٍ من صفاتِهِ؛ فإخبارُهُ بأنَّه على كلِّ شيء وكيلٌ؛ يدلُّ على إحاطةِ علمِهِ بجميع الأشياء، وكمال قدرتِهِ على تدبيرِها، وكمال تدبيرِهِ، وكمال حكمتِهِ التي يَضَعُ بها الأشياءَ مواضِعَها.
[62] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظمت و کمال کے متعلق آگاہ فرماتا ہے جو اس شخص کے لیے خسارے کا باعث ہیں جس نے ان کا انکار کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ خَالِـقُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ یہ عبارت اور اس قسم کی دیگر عبارات، قرآن کریم میں بکثرت ملتی ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ (اور اس کے اسماء و صفات) کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس آیت کریمہ میں ہر اس شخص کے نظریے کا رد ہے جو مخلوق کے قدیم ہونے کا قائل ہے، مثلاً: فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ آسمان اور زمین قدیم ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے قول اور دیگر باطل نظریات کا بھی رد ہے جو روح کو قدیم مانتے ہیں۔ اہل باطل کے ان باطل نظریات کو مان لینے سے خالق کا اپنی تخلیق سے معطل ہونا لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں کیونکہ کلام متکلم کی صفت ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اسماء و صفات کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہے، اس سے پہلے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ معتزلہ نے اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسماء و صفات سمیت قدیم ہے، اس کی صفات نئی پیدا ہوئی ہیں نہ اس سے کسی صفت کا تعطل ہواہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں خود خبر دی ہے کہ اس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز پر وکیل ہے۔ اور وکالتِ کامل میں وکیل کے لیے لازم ہے کہ وہ جس چیز کی وکالت کر رہا ہے اسے اس کا پورا علم ہو اور وہ اس کی تمام تفاصیل کا احاطہ کیے ہوئے ہو، جس چیز پر وہ وکیل ہے اس میں تصرف کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہو، اس کی حفاظت کر سکتا ہو، تصرف کے تمام پہلوؤ ں کی حکمت اور معرفت رکھتا ہو تاکہ بہترین طریقے سے اس میں تصرف اور اس کی تدبیر کر سکے۔ مذکورہ بالا تمام امور کے بغیر وکالت کی تکمیل ممکن نہیں۔ ان امور میں جتنا نقص واقع ہو گا اس کی وکالت بھی اتنی ہی ناقص ہوگی۔ یہ چیز متحقق اور معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں سے ہر صفت میں ہر قسم کے نقص سے منزہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ ہر چیز پر وکیل ہے دلالت کرتا ہے کہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ ہر چیز کی تدبیر پر کامل قدرت اور کامل حکمت رکھتا ہے جس کے ذریعے سے اس نے تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔
#
{63} {له مقاليدُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: مفاتيحُها علماً وتدبيراً؛ فـ {ما يَفْتَحِ اللهُ للناس من رحمةٍ فلا مُمْسِكَ لها وما يُمْسِكْ فلا مرسلَ له من بعدِهِ وهو العزيزُ الحكيم}. فلما بَيَّنَ من عظمتِهِ ما يقتضي أنْ تمتلئ القلوبُ له إجلالاً وإكراماً؛ ذَكَرَ حالَ من عكسَ القضيةَ فلم يَقْدِرْهُ حقَّ قَدْرِهِ، فقال: {والذين كفروا بآياتِ الله}: الدالَّة على الحقِّ اليقين والصراطِ المستقيم؛ {أولئك هم الخاسرونَ}: خسروا ما به تَصْلُحُ القلوبُ من التألُّه والإخلاص لله، وما به تَصْلُحُ الألسنُ من إشغالها بذِكْرِ الله، وما تَصْلُحُ به الجوارحُ من طاعةِ الله، وتعوَّضوا عن ذلك كلَّ مفسدٍ للقلوب والأبدانِ، وخَسِروا جناتِ النعيم، وتعوَّضوا عنها بالعذابِ الأليم.
[63] ﴿لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔‘‘ یعنی علم اور تدبیر کے لحاظ سے زمین و آسمان کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اس لیے: ﴿مَا یَفْ٘تَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَمَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ﴾ (فاطر:35؍2) ’’اللہ اپنے بندوں کے لیے اپنی رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اس کے بعد اسے کوئی کھول نہیں سکتا۔ اور وہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت واضح ہو گئی جو اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اجلال و اکرام سے لبریز ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جن کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے۔ فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جنھوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا‘‘ جو حق، یقین اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے۔‘‘ یعنی اس چیز کے بارے میں خسارے میں رہے جس سے قلوب کی اصلاح ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے لیے اخلاص۔ جس سے زبانوں کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہیں اور جس سے جوارح کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے بدلے انھوں نے ہر وہ چیز لے لی جو قلوب و ابدان کو فاسد کرتی ہے، وہ نعمتوں بھری جنت سے محروم رہے اور اس کے بدلے انھوں نے دردناک عذاب لے لیا۔
آیت: 64 - 66 #
{قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (64) وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (65) بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (66)}.
کہہ دیجیے:کیا غیر اللہ کی بابت تم حکم دیتے ہو مجھے کہ میں (ان کی) عبادت کروں؟ اے جاہلو! (64) اور البتہ تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان کی طرف جو آپ سے پہلے ہوئے، کہ البتہ اگر شرک کیا آپ نے تو یقیناً ضائع ہو جائیں گے آپ کے عمل اوریقیناً ہو جائیں گے آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے (65)بلکہ اللہ ہی کی آپ عبادت کریں اورہو جائیں شکر گزاروں میں سے (66)
#
{64} {قل} يا أيُّها الرسولُ لهؤلاء الجاهلين الذين دَعَوْك إلى عبادةِ غير الله: {أفغيرَ الله تأمروني أعبدُ أيُّها الجاهلونَ}؛ أي: هذا الأمرُ صَدَرَ من جهلِكم، وإلاَّ؛ فلو كان لكم علمٌ بأنَّ الله تعالى الكاملَ من جميع الوجوه، مسدي جميع النعم هو المستحقُّ للعبادة دون مَنْ كان ناقصاً من كلِّ وجهٍ لا ينفعُ ولا يضرُّ؛ لم تأمروني بذلك، وذلك لأنَّ الشركَ بالله محبِطٌ للأعمال، مفسدٌ للأحوال.
[64] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! ان جہلاء سے، جو آپ کو غیراللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں، کہہ دیجیے: ﴿اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ ﴾ ’’اے جاہلو! کیا تم مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں۔‘‘ یہ معاملہ تمھاری جہالت کی بنا پر صادر ہوا ہے ورنہ اگر تمھیں اس بات کا علم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے کامل ہے وہی نعمتیں عطا کرتا ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے اور وہ ہستیاں عبادت کی مستحق نہیں جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں، جو نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، تب تم مجھے ان کی عبادت کا کیوں حکم دیتے ہو؟ شرک اعمال کو ساقط اور احوال کو فاسد کر دیتا ہے۔
#
{65} ولهذا قال: {ولقد أوحي إليك وإلى الذين من قبلِكَ}: من جميع الأنبياء، {لَئِنْ أشركتَ لَيَحْبَطَنَّ عملُكَ}: هذا مفردٌ مضافٌ يعمُّ كلَّ عمل، ففي نبوة جميع الأنبياءِ أنَّ الشرك محبطٌ لجميع الأعمال؛ كما قال تعالى في سورة الأنعام لما عدَّد كثيراً من أنبيائِهِ ورسلِهِ؛ قال عنهم: {ذلك هدى اللهِ يَهْدي به مَن يشاءُ من عبادِهِ ولو أشْرَكوا لَحَبِطَ عنهم ما كانوا يعملونَ}، {ولَتكونَنَّ من الخاسرينَ}: دينَك وآخرتَك؛ فبالشركِ تُحْبَطُ الأعمال، ويُسْتَحَقُّ العقابُ والنَّكال.
[65] بنابریں فرمایا: ﴿وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’(اے نبی!) آپ کی طرف اور ان کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے وحی کی گئی۔‘‘ یعنی تمام انبیائے کرام کی طرف ﴿لَىِٕنْ اَشْرَؔكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ﴾ ’’اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے سارے عمل برباد ہوجائیں گے۔‘‘ یہ مفرد مضاف ہے جو تمام اعمال کو متضمن ہے۔ سابقہ جمیع انبیائے کرام کی نبوتوں میں یہ حکم تھا کہ شرک تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے جیسا کہ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَلَوْ اَشْرَؔكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍88) ’’یہ ہے اللہ کی ہدایت، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس طرح کی ہدایت دے اور اگر یہ لوگ (انبیائے کرام) شرک کرتے تو ان کا سارا کیا دھرا ضائع ہوجاتا۔‘‘ ﴿وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ ’’اور آپ (دین اور آخرت کے بارے میں) خسارے میں پڑ جاؤ گے۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ شرک سے تمام اعمال اکارت ہو جاتے ہیں اور بندہ عذاب اور سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔
#
{66} ثم قال: {بل اللهَ فاعْبُدْ}: لما أخبر أنَّ الجاهلين يأمرونَه بالشركِ، وأخبر عن شناعتِهِ؛ أمَرَه بالإخلاص، فقال: {بل الله فاعْبُدْ}؛ أي: أخلِصْ له العبادةَ وحدَه لا شَريك له، {وكُن من الشاكرينَ}: اللهَ على توفيقِ الله تعالى؛ فكما أنَّه [تعالى] يُشْكَرُ على النعم الدنيويَّة كصحَّة الجسم وعافيتِهِ وحصول الرزقِ وغير ذلك؛ كذلك يُشْكَر ويُثنى عليه بالنعم الدينيَّة؛ كالتوفيق للإخلاص والتقوى، بل نعم الدين هي النعم على الحقيقة، وفي تدبُّر أنَّها من الله تعالى، والشكرِ لله عليها سلامةٌ من آفة العُجْبِ التي تَعْرِضُ لكثير من العاملين بسبب جهلِهِم، وإلاَّ؛ فلو عرف العبدُ حقيقة الحال؛ لم يُعْجَبْ بنعمةٍ تستحقُّ عليه زيادة الشكر.
[66] پھر فرمایا: ﴿بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ ﴾ ’’بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جب جہلاء کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ آپ کو شرک کا حکم دیتے ہیں اور یہ خبر بھی دی کہ شرک بہت قبیح جرم ہے تو نبیe کو اخلاص کاحکم دیا اور فرمایا: ﴿بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ ﴾ یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے لیے اپنی عبادت کو خالص کیجیے ﴿وَكُ٘نْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کی توفیق پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ جس طرح دنیاوی نعمتوں، مثلاً: جسمانی صحت و عافیت اور حصول رزق وغیرہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دینی نعمتوں، مثلاً: توفیقِ اخلاص اور تقویٰ وغیرہ پر بھی اس کا شکر ادا کیا جاتا اوراس کی حمدوثنا کی جاتی ہے۔ بلکہ دینی نعمتیں ہی حقیقی نعمتیں ہیں اور یہ تدبر کرنا کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ یہ انسان کو غرور اور خودپسندی کی آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ بہت سے عمل کرنے والے اپنی جہالت کے باعث، اس عجب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ورنہ اگر بندہ حقیقت حال کی معرفت حاصل کر لے تو اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت پر غرور میں مبتلا نہ ہو جو زیادہ سے زیادہ شکر کی مستحق ہے۔
آیت: 67 #
{وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (67)}.
اور نہیں قدر کی انھوں نے اللہ کی جیسا حق ہے اس کی قدر کر نے کا اور زمین سب اس کی مٹھی میں ہو گی دن قیامت کے اور آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں وہ پاک ہے اور بلند اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں (67)
#
{67} يقول تعالى: وما قَدَر هؤلاء المشركون ربَّهم {حقَّ قدرِهِ}: ولا عظَّموه حقَّ تعظيمِهِ، بل فعلوا ما يناقِضُ ذلك من إشراكِهِم به مَنْ هو ناقصٌ في أوصافِهِ وأفعالِهِ؛ فأوصافُهُ ناقصةٌ من كلِّ وجهٍ، وأفعالُهُ ليس عنده نفعٌ ولا ضرٌّ ولا عطاءٌ ولا منعٌ ولا يملِكُ من الأمر شيئاً، فسوَّوْا هذا المخلوقَ الناقصَ بالخالِق الربِّ العظيم، الذي من عظمتِهِ الباهرةِ وقدرتِهِ القاهرةِ أنَّ جميعَ الأرض يوم القيامةِ قبضةٌ للرحمن، وأنَّ السماواتِ على سَعَتِها وعظمها مطوياتٌ بيمينِهِ، فلا عَظَّمه حقَّ عظمته مَنْ سوَّى به غيرَه، ولا أظلمَ منه. {سبحانه وتعالى عما يشرِكونَ}؛ أي: تنزَّه، وتعاظم عن شركهم به.
[67] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مشرکین نے اپنے رب کی قدر اور تعظیم نہیں کی جیسا کہ اس کی قدروتعظیم کا حق ہے بلکہ اس کے برعکس انھوں نے ایسے افعال سرانجام دیے جو اس کی تعظیم سے متناقض ہیں، مثلاً: ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا جو اپنے اوصاف و افعال میں ناقص ہیں۔ ان کے اوصاف ہر لحاظ سے ناقص ہیں، اور ان کے افعال ایسے ہیں کہ وہ کسی کو نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، وہ کسی کو عطا کر سکتی ہیں نہ محروم، وہ کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ پس انھوں نے اس ناقص مخلوق کو، خالق کائنات، رب عظیم کے برابر ٹھہرا دیا جس کی عظمت باہرہ اور قدرت قاہرہ یہ ہے کہ قیامت کے روز، تمام زمین رحمٰن کی مٹھی میں ہوگی اور ساتوں آسمان اپنی وسعتوں اور عظمتوں کے باوجود اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم نہیں کی جیسا کہ اس کی تعظیم کرنے کا حق ہے جس نے دوسری ہستیوں کو اس کے مساوی ٹھہرا دیا۔ جس نے یہ کام کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی ظالم ہے؟ ﴿سُبْحٰؔنَهٗ وَتَ٘عٰ٘لٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ ﴾ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے منزہ، پاک اور بہت بلند ہے۔
آیت: 68 - 70 #
{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ (68) وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (69) وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ (70)}.
اور پھونک ماری جائے گی صور میں تو بیہوش ہو جائے گا جو ہے آسمانوں میں اور جو ہے زمین میں مگر جسے چاہے گا اللہ ، پھر پھونک ماری جائے گی اس میں دوسری مرتبہ تو یکایک وہ کھڑے(ہو کر)دیکھتے ہوں گے (68) اورچمک اٹھے گی زمین اپنے رب کے نور سے اور رکھی جائے گی کتاب اور لائے جائیں گے انبیاء اور گواہ اور فیصلہ کیا جائے گا درمیان ان کے حق کے ساتھ اور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے(69) اور پورا دیا جائے گا ہر نفس کو (بدلہ اس کا) جو اس نے کیا ہو گا اور وہ خوب جانتا ہے(اس کو)جو وہ کر رہے ہیں (70)
#
{68} لما خوَّفَهم تعالى من عظمتِهِ؛ خوَّفَهم بأحوال يوم القيامة، ورغَّبهم ورهَّبهم، فقال: {ونُفِخَ في الصُّورِ}: وهو قرنٌ عظيمٌ لا يَعْلَمُ عظمتَه إلاَّ خالقُه ومن أطلعهُ الله على علمِهِ من خلقِهِ، فينفُخُ فيه إسرافيلُ عليه السلام أحدُ الملائكة المقرَّبينَ وأحدُ حملةِ عرش الرحمن؛ {فَصَعِقَ}؛ أي: غُشِي أو ماتَ على اختلاف القولين، {مَن في السمواتِ ومَن في الأرض}؛ أي: كلُّهم، لمَّا سَمِعوا نفخةَ الصور؛ أزعجتْهم من شدَّتها وعِظَمِها، وما يعلمونَ أنَّها مقدِّمةٌ له، {إلاَّ مَن شاء الله}: ممن ثبَّته اللهُ عند النفخة، فلم يُصْعَقْ؛ كالشهداء أو بعضهم وغيرهم، وهذه النفخةُ الأولى نفخةُ الصَّعْقِ ونفخةُ الفزع، {ثم نُفِخَ فيه}: النفخة الثانية؛ نفخةُ البعثِ، {فإذا هم قيامٌ ينظرون}؛ أي: قد قاموا من قبورهم لبعثهم وحسابِهم ينظرون قد تمَّتْ منهم الخلقةُ الجسديَّة والأرواح، وشخصتْ أبصارُهم؛ {يَنْظُرونَ}: ماذا يفعلُ الله بهم؟
[68] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی عظمت کا خوف دلانے کے بعد، قیامت کے احوال کے ذریعے سے انھیں ڈرایا اور انھیں ترغیب و ترہیب دی ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَنُ٘فِخَ فِی الصُّوْرِ ﴾ ’’اور صور میں پھونکا جائے گا۔‘‘ یہ بہت بڑا سینگ ہے جس کی عظمت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شخص نہیں جانتا یا صرف اس شخص کو علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مطلع کر دیا ہو، اس صور میں اسرافیلu، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کا عرش اٹھانے والے فرشتوں میں سے ہیں، پھونک ماریں گے ﴿فَصَعِقَ ﴾ ’’تو بے ہوش ہو جائیں گے یا مر جائیں گے۔ اس بارے میں یہ دونوں قول منقول ہیں۔ ﴿مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔‘‘ یعنی زمین اور آسمانوں کی تمام مخلوق جب صور پھونکنے کی آواز سنے گی تو اس کی شدت، اور ان احوال کے بارے میں علم ہونے کے باعث گھبرا اٹھے گی، جن کا یہ آواز مقدمہ ہے۔ ﴿اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ﴾ ’’مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے سوا جن کو اللہ تعالیٰ مضبوط اور ثابت قدم رکھے، مثلاً: شہداء اور بعض دیگر لوگ، ان پر بے ہوشی طاری نہیں ہو گی۔ یہ پہلی پھونک نَفْخَۃُ الصَّعْق اور نَفْخَۃُ الْفَزَعْ ہے۔ ﴿ثُمَّ نُ٘فِخَ فِیْهِ ﴾ ’’ پھر اس میں (ایک اور) پھونک ماری جائے گی۔‘‘ یہ نَفْخَۃُ الْبَعْث ہے ﴿فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُ٘رُوْنَ ﴾ ’’پس وہ فوراً اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘ یعنی وہ حساب و کتاب کے لیے اپنی قبروں میں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ ان کی تخلیقِ اجساد اور تخلیقِ ارواح مکمل ہوچکی ہو گی۔ ان کی آنکھیں اوپر کو اٹھی ہوئی ہوں گی، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
#
{69} {وأشرقتِ الأرضُ بنورِ ربِّها}: علم من هذا أنَّ الأنوار الموجودة تذهب يوم القيامةِ وتضمحلُّ، وهو كذلك؛ فإنَّ الله أخبر أنَّ الشمس تُكَوَّرُ والقمرَ يُخْسَفُ والنُّجومَ تُنْتَثَرُ ويكون الناس في ظلمةٍ؛ فتشرِقُ عند ذلك الأرضُ بنورِ ربِّها عندما يتجلَّى وينزِلُ للفصل بينهم، وذلك اليوم يَجْعَلُ الله للخلق قوَّةً، وينشئهم نشأةً يَقْوَوْن على أن لا يحرِقَهم نورُه ويتمكَّنون أيضاً من رؤيتِهِ، وإلاَّ؛ فنوره تعالى عظيمٌ، لو كَشَفَه؛ لأحرقتْ سُبُحاتُ وجهِهِ ما انتهى إليه بصرُهُ من خلقِهِ. {ووُضِعَ الكتابُ}؛ أي: كتاب الأعمال وديوانُه، وُضِعُ ونُشِرَ ليقرأ ما فيه من الحسناتِ والسيئاتِ؛ كما قال تعالى: {ووُضِعَ الكتابُ فترى المجرمين مشفِقينَ ممَّا فيه ويقولونَ يا وَيْلَتَنا ما لِهذا الكتابِ لا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها ووَجَدوا ما عمِلوا حاضراً ولا يَظْلِمُ ربُّك أحداً}، ويقالُ للعامل من تمام العدل والإنصاف: {اقرأ كتابَكَ كفى بنفسِكَ اليوم عليك حسيباً}. {وجيء بالنَّبِيِّين}: لِيُسألوا عن التبليغ وعن أممهم ويشهدوا عليهم، {والشهداءِ}: من الملائكةِ والأعضاء والأرض، {وقُضِيَ بينَهم بالحقِّ}؛ أي: العدل التامِّ والقسطِ العظيم؛ لأنَّه حسابٌ صادرٌ ممَّن لا يظلِمُ مثقالَ ذرَّةٍ ومَنْ هو محيطٌ بكلِّ شيءٍ وكتابُه الذي هو اللوح المحفوظ محيطٌ بكلِّ ما عملوه، والحَفَظَة الكرام الذين لا يعصونَ ربَّهم قد كَتَبَتْ عليهم ما عَمِلوه، وأعدلُ الشهداء قد شَهِدوا على ذلك الحكم، فَحَكَم بذلك من يعلم مقاديرَ الأعمال ومقاديرَ استحقاقِها للثواب والعقاب، فيحصُلُ حكمٌ يُقِرُّ به الخلقُ، ويعترفون لله بالحمدِ والعدلِ، ويعرفونَ به من عظمتِهِ وعلمِهِ وحكمتِهِ ورحمتِهِ ما لم يَخْطُرْ بقلوبهم، ولا تعبِّرُ عنه ألسنتُهم.
[69] ﴿وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا ﴾ ’’اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ موجودہ تمام روشنیاں قیامت کے روز مضمحل ہو کر ختم ہو جائیں گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ (قیامت کے روز) سورج بے نور ہو جائے گا، چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی، ستارے بکھر جائیں گے اور لوگ تاریکی میں ڈوب جائیں گے، تب اس وقت زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی جب وہ تجلی فرمائے گا اور بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے نازل ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو ایسی قوت اور ایسی تخلیق عطا کرے گا جس کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو برداشت کرنے کی قوت سے سرفراز ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا نور ان کو جلا نہیں ڈالے گا، اس دن ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ممکن ہو گا، ورنہ اللہ تعالیٰ کا نور اس قدر عظیم ہے کہ اگر وہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے تو جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے اس کے چہرے کا نور تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کر ڈالے۔ ﴿وَوُضِعَ الْكِتٰبُ ﴾ ’’اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی۔‘‘ یعنی اعمال نامہ کھول کر پھیلا دیا جائے گا تاکہ بندہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو پڑھ لے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَوُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْ٘مُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف: 18؍49) ’’اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے اعمال نامے کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے ہماری ہلاکت! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس نے درج نہ کیا ہو۔ وہ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ اور عمل کرنے والے سے مکمل عدل و انصاف کے ساتھ کہا جائے گا: ﴿اِقْ٘رَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَ٘فٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا﴾ (بنی اسراء یل:17؍14) ’’اپنی کتاب (اعمال نامہ )پڑھ، آج اپنا حساب لینے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔‘‘ ﴿وَجِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ ﴾ ’’اور نبیوں کو لایا جائے گا۔‘‘ تاکہ ان سے تبلیغ اور ان کی امتوں کے رویے کے بارے میں سوال کیا جائے اور یہ ان پر گواہی دیں ﴿وَالشُّهَدَآءِ ﴾ ’’اور گواہ‘‘ یعنی فرشتے، زمین اور انسان کے اعضاء گواہی دیں گے ﴿وَقُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیاجائے گا۔‘‘ یعنی پورے عدل اور کامل انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ حساب ایسی ہستی کی طرف سے کیاجائے گا جو ذرہ بھر ظلم نہیں کرتی اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی کتاب یعنی لوح محفوظ ان کے تمام اعمال پر مشتمل ہے۔ کراماً کاتبین اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے، بندے جو عمل بھی کرتے ہیں یہ ان کے اعمال ناموں میں درج کر لیتے ہیں۔ عادل ترین گواہ اس فیصلے میں گواہی دیں گے اور فیصلہ وہ ہستی کرے گی جو اعمال کی مقدار اور ان کے ثواب و عقاب کے استحقاق کی مقدار کو خوب جانتی ہے۔ فیصلہ ہو گا اور تمام مخلوق اس کا اقرار کرے گی۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے عدل کا اعتراف کرے گی وہ اس کی عظمت، اس کے علم و حکمت، اور اس کی رحمت کا اس طرح اعتراف کریں گے کہ دل میں کبھی اس کا خیال گزرا ہوگا نہ ان کی زبانوں نے کبھی اس کی تعبیر کی ہوگی۔
#
{70} ولهذا قال: {ووُفِّيَتْ كلُّ نفسٍ ما عَمِلَتْ وهم لا يُظْلَمونَ}.
[70] اس لیے فرمایا: ﴿وَوُفِّیَتْ كُ٘لُّ نَفْ٘سٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ﴾ ’’جس شخص نے جو عمل کیا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کو سب کی خبر ہے۔‘‘
آیت: 71 - 75 #
{وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ (71) قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (72) وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (73) وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (74) وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (75)}.
اور ہانک کر لے جائے جائیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا جہنم کی طرف گروہ گروہ یہاں تک کہ جب آئیں گے وہ اس کےپاس تو کھول دیے جائیں گے دروازے اس کےاور کہیں گے ان سے داروغے اس کے، کیا نہیں آئے تھے تمھارے پاس رسول تم میں سے جو پڑھتے (تھے) تم پر آیتیں تمھارے رب کی اور ڈراتے (تھے) تم کو تمھاری اس دن کی ملاقات سے؟ وہ کہیں گے(ہاں)کیوں نہیں، اور لیکن ثابت ہو گئی بات عذاب کی اوپر کافروں کے (71) کہا جائے گا: داخل ہو جاؤ تم جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ رہو گے اس میں، پس برا ہے ٹھکانا تکبر کرنے والوں کا (72) اور لے جائے جائیں گے وہ لوگ جو ڈرتے تھے اپنے رب سے، طرف جنت کی گروہ گروہ حتی کہ جب آئیں گے وہ اس کے پاس اورکھلے ہوں گے دروازے اس کےاورکہیں گے ان سے اس کےدربان ، سلام ہو تم پر، تم پاکیزہ رہے، پس داخل ہو جاؤ تم اس میں ہمیشہ رہنے والے (73) اور وہ کہیں گے: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ جس نے سچا کیا ہم سے اپنا وعدہ اور وارث کر دیا ہمیں اس زمین کا ہم ٹھکانا بنائیں جنت میں جہاں ہم چاہیں، پس اچھا ہے اجر عمل کرنے والوں کا (74) اور دیکھیں گے آپ فرشتوں کو گھیرے ہوئے عرش کے اردگردکو، پاکیزگی بیان کرتے ہوں گے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور فیصلہ کیا جائے گا درمیان ان کے سا تھ حق کے اور کہا جائے گا سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں(75)
#
{71} لما ذَكَرَ تعالى حُكْمَه بين عبادِهِ الذين جَمَعَهم في خلقه ورزقِهِ وتدبيرِهِ واجتماعهم في موقف القيامة؛ فرَّقَهم تعالى عند جزائِهِم كما افترقوا في الدُّنيا بالإيمان والكفرِ والتقوى والفجور، فقال: {وسيقَ الذين كَفَروا إلى جَهَنَّمَ}؛ أي: سوقاً عنيفاً، يُضربون بالسياط الموجعة من الزَّبانيةِ الغلاظِ الشدادِ، إلى شرِّ محبسٍ وأفظع موضع، وهي جهنَّم، التي قد جَمَعَتْ كلَّ عذاب، وحَضَرها كلُّ شقاءٍ، وزال عنها كلُّ سرورٍ؛ كما قال تعالى: {يَوْمَ يُدَعُّونَ إلى نارِ جَهَنَّم دعًّا}؛ أي: يُدفعون إليها دفعاً، وذلك لامتناعهم من دخولِها ويُساقون إليها، {زمراً}؛ أي: فرقاً متفرِّقة، كلُّ زمرة مع الزمرةِ التي تناسب عَمَلها وتشاكِلُ سَعْيَها، يلعنُ بعضُهم بعضاً ويبرأ بعضُهم من بعضٍ، {حتى إذا جاؤوها}؛ أي: وصلوا إلى ساحتها، {فُتِحَتْ}: لهم؛ أي: لأجلهم {أبوابُها}: لقدومِهم وقرى لنزولهم، {وقال لهم خَزَنَتُها}: مهنِّين لهم بالشقاءِ الأبديِّ والعذاب السرمديِّ، وموبِّخين لهم على الأعمال التي أوصلتْهم إلى هذا المحلِّ الفظيع: {ألم يأتِكُمْ رُسُلٌ منكم}؛ أي: من جِنْسِكُم، تعرِفونهم وتعرِفون صِدْقَهم، وتتمكَّنون من التلقِّي عنهم، {يَتْلونَ عليكم آياتِ ربِّكُم}: التي أرْسَلَهم الله بها، الدالَّةُ على الحقِّ اليقين بأوضح البراهين، {ويُنذِرونَكم لقاءَ يومِكُم هذا}؛ أي: وهذا يوجِبُ عليكم اتِّباعهم والحَذر من عذابِ هذا اليوم باستعمال تَقْواه، وقد كانت حالُكم بخلافِ هذه الحال، {قالوا}: مقرِّين بذنبهم وأنَّ حُجَّةَ الله قامتْ عليهم: {بلى}: قد جاءتْنا رسُلُ ربِّنا بآياتِهِ وبيناتِهِ، وبيَّنوا لنا غايةَ التبيينِ، وحذَّرونا من هذا اليوم. {ولكنْ حَقَّتْ كلمةُ العذابِ على الكافرينَ}؛ أي: بسبب كفرِهم وَجَبَتْ عليهم كلمةُ العذابِ التي هي لكلِّ مَنْ كَفَرَ بآيات الله وجَحَدَ ما جاءتْ به المرسلونَ، فاعْتَرَفوا بذَنْبِهم وقيام الحجَّةِ عليهم.
[71] اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تخلیق، رزق اور تدبیر میں اکٹھا کیا، دنیا کے اندر وہ سب اکٹھے رہے، قیامت کے روز بھی اکٹھے ہوں گے مگر ان کی جزا کے وقت ان کے درمیان اسی طرح تفریق کر دی جائے گی جس طرح دنیا میں ایمان اور کفر، تقویٰ اور فسق و فجور کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا انھیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔‘‘ یعنی کافروں کو نہایت سختی سے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ انتہائی سخت فرشتے کوڑوں سے مارتے ہوئے، بہت برے قید خانے، بدترین جگہ یعنی جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ جہاں ہر قسم کا عذاب جمع ہو گا اور ہر قسم کی بدبختی موجود ہو گی۔ جہاں ہر سرور زائل ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا﴾ (الطور: 52؍13) ’’جس روز انھیں آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کر لے جایا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کو دھکے دے کر جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ وہ جہنم میں داخل ہونے سے مزاحمت کریں گے، ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ ﴿زُمَرًا ﴾ متفرق جماعتوں کی صورت میں ہرگروہ اس گروہ کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس کے اعمال مناسبت رکھتے ہوں گے اور جن کے کرتوت ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور ایک دوسرے سے براء ت اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا ﴾ یعنی جب جہنم کے قریب پہنچیں گے ﴿فُتِحَتْ﴾ ’’کھول دیے جائیں گے‘‘ ان کے لیے یعنی ان کی خاطر ﴿اَبْوَابُهَا ﴾ ’’اس کے دروازے۔‘‘ ان کی آمد اور مہمانی کرتے ہوئے جہنم کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ﴿وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ ﴾ جہنم کے داروغے ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی مبارک دیں گے اور ان اعمال پر، جن کے سبب سے وہ اس بدترین جگہ پر پہنچے، انھیں زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿اَلَمْ یَ٘اْتِكُمْ رُسُلٌ مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’کیا تمھارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے۔‘‘ یعنی تمھاری جنس میں سے، جنھیں تم پہچانتے اور ان کی صداقت کو خوب جانتے تھے اور تم ان سے ہدایت حاصل کر سکتے تھے؟ ﴿یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ ﴾ ’’وہ تم کو تمھارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے۔‘‘ جن آیات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا تھا جو روشن ترین دلائل و براہین کے ذریعے سے حق الیقین پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿وَیُنْذِرُوْنَكُمْ۠ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰؔذَا ﴾ ’’اور وہ تمھیں اس دن کے پیش آنے (ملاقات) سے ڈراتے تھے۔‘‘ اور یہ چیز اس دن کے ڈر کو مد نظر رکھتے ہوئے تمھارے ان رسولوں کی اتباع اور اس دن کے عذاب سے بچنے کی موجب تھی، مگر تمھارا حال اس مطلوبہ حال کے بالکل برعکس تھا۔ ﴿قَالُوْا ﴾ وہ اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہونے کا اعتراف و اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿بَلٰى ﴾ کیوں نہیں! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول واضح دلائل اور نشانیوں کے ساتھ آئے، انھوں نے ان نشانیوں کو ہمارے سامنے پوری طرح واضح کر دیا تھا اور انھوں نے ہمیں آج کے دن سے ڈرایا تھا ﴿وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’لیکن عذاب کا حکم (وعدہ) کافروں پر ثابت ہوکر رہا۔‘‘ یعنی ان کے کفر کے سبب سے ان پر عذاب واجب ہو گیا۔ یہ عذاب ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتا ہے اور اس چیزکو جھٹلاتا ہے جسے لے کر انبیاء ورسل مبعوث ہوئے۔ پس یہ کفار اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت کے قائم ہونے کا اعتراف کریں گے۔
#
{72} فقيل لهم على وجهِ الإهانة والإذلال: {ادْخُلوا أبوابَ جَهَنَّم}: كلُّ طائفةٍ تدخُلُ مع الباب الذي يناسِبُها ويوافقُ عملَها، {خالدينَ فيها}: أبداً لا يَظْعَنون عنها ولا يُفَتَّرُ عنهم العذابُ ساعةً ولا يُنْظَرونَ، {فبئس مثوى المتكبِّرينَ}؛ أي: بئس المَقَرُّ النارُ مقرُّهم، وذلك لأنَّهم تكبَّروا على الحقِّ، فجازاهم الله من جنس عملهم بالإهانة والذُّلِّ والخِزْي.
[72] ﴿قِیْلَ ﴾ انھیں ذلیل و رسوا کرتے ہوئے کہا جائے گا: ﴿ادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ ﴾ ’’دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔‘‘ ہر گروہ اس دروازے سے جہنم میں داخل ہو گا جو اس کے مناسب اور موافق حال ہو گا۔ ﴿خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ وہ وہاں ابدا لآباد تک رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی کوچ نہیں کریں گے، ایک گھڑی کے لیے ان سے عذاب دور نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ ﴿فَ٘بِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ ﴾ ’’پس تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یعنی جہنم ان کا ٹھکانا ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ یہ سب کچھ اس پاداش میں ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کی جزا ان کے عمل کی جنس سے دی ہے، اہانت، ذلت اور رسوائی ان کی سزا ہے۔
#
{73} ثم قال عن أهل الجنة: {وسيق الذين اتَّقَوا رَبَّهم}: بتوحيده والعمل بطاعتِهِ سَوْقَ إكرام وإعزازٍ يُحْشَرون وَفْداً على النجائب {إلى الجنَّةِ زُمَراً}: فرحين مستبشرينَ، كلُّ زمرةٍ مع الزمرةِ التي تناسِبُ عَمَلَها وتشاكِلُه، {حتى إذا جاؤوها}؛ أي: وصلوا لتلك الرحابِ الرحيبةِ والمنازل الأنيقةِ، وهبَّ عليهم ريحها ونسيمُها وآنَ خلودُها ونعيمُها، {وفُتِحَتْ} لهم {أبوابُها}: فَتْحَ إكرام لكرام الخَلْقِ لِيُكْرَموا فيها، {وقال لهم خَزَنَتُها}: تهنئةً لهم وترحيباً: {سلامٌ عليكم}؛ أي: سلامٌ من كلِّ آفةٍ وشرٍّ حالٌّ عليكم {طِبْتُمْ}؛ أي: طابت قلوبُكم بمعرفة الله ومحبَّتِهِ وخشيتِهِ، وألسنتُكم بذكرِهِ وجوارِحُكم بطاعتِهِ. {فـ} بسبب طِيبِكُم {ادْخُلوها خالدينَ}: لأنَّها الدارُ الطيِّبةُ، ولا يَليقُ بها إلا الطَّيِّبونَ. وقال في النار: {فُتِحَتْ أبوابُها}، وفي الجنة {وَفُتِحَتْ}: بالواو؛ إشارةً إلى أنَّ أهل النارِ بمجرَّدِ وصولهم إليها؛ فُتِحَتْ لهم أبوابُها من غير إنظارٍ ولا إمهال، وليكونَ فَتْحُها في وجوههم وعلى وصولِهِم أعظمَ لحرِّها وأشدَّ لعذابها، وأمَّا الجنةُ؛ فإنَّها الدارُ العاليةُ الغاليةُ، التي لا يوصَلُ إليها ولا ينالُها كلُّ أحدٍ إلاَّ مَنْ أتى بالوسائل الموصلةِ إليها، ومع ذلك؛ فيحتاجون لِدُخولها لشفاعةِ أكرم الشفعاءِ عليه، فلم تُفْتَحْ لهم بمجرَّد ما وصلوا إليها، بل يستشفعون إلى الله بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، حتى يشفعَ، فيشفِّعَه الله تعالى. وفي الآيات دليلٌ على أنَّ النارَ والجنةَ لهما أبوابٌ تُفْتَحُ وتُغْلَقُ، وأنَّ لكلٍّ منهما خزنة، وهما الدارانِ الخالصتانِ اللتانِ لا يَدْخُلُ فيهما إلا مَنِ استَحَقَّهما؛ بخلاف سائر الأمكنةِ والدُّورِ.
[73] پھر اہل جنت کے بارے میں فرمایا: ﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ ﴾ ’’اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے تھے انھیں لے جایا جائے گا‘‘ متقین کو اللہ تعالیٰ کی توحید، ان کے عمل اور اطاعت کے سبب سے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ وفدوں کی صورت میں ﴿اِلَى الْؔجَنَّةِ زُمَرًا ﴾ ’’جنت کی طرف گروہ در گروہ۔‘‘ وہ خوش و خرم جنت میں جائیں گے۔ ہر جماعت ایسی جماعت کی معیت میں جنت میں داخل ہو گی جس کے ساتھ وہ عمل میں مشابہت رکھتی ہوگی۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے‘‘ یعنی جب یہ لوگ کشادہ اورخوبصورت جنتوں میں پہنچیں گے، بادنسیم کے جھونکے ان کااستقبال کریں گے، یہ نعمتیں اور جنتیں ہمیشہ رہیں گی۔ ﴿وَفُتِحَتْ﴾ ’’اور کھول دیے جائیں گے‘‘ ان کے لیے ﴿ اَبْوَابُہَا ﴾’’اس کے دروازے۔‘‘ سب سے زیادہ باعزت مخلوق کے لیے، عزت و اکرام کے ساتھ جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے تاکہ جنت میں ان کی عزت و تکریم ہو ﴿وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ﴾ اور جنت کے دربان ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہیں گے ﴿سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ تم ہر آفت اوربرے حال سے سلامت اور محفوظ ہو ﴿طِبْتُمْ ﴾ تمھارے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی خشیت کے باعث، تمھاری زبانیں اس کے ذکر اور تمھارے جوارح اس کی اطاعت کے باعث اچھے رہے، لہٰذا اپنی اچھائی کے سبب سے ﴿فَادْخُلُوْهَا خٰؔلِدِیْنَ ﴾ ’’اس جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔‘‘ یہ پاک اور طیب گھر ہے اور طیبین کے سوا کسی کے لائق نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہنم کے بارے میں فرمایا: ﴿فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا ﴾ اور جنت کے بارے میں فرمایا: ﴿وَفُتِحَتْ ﴾ یعنی واؤ کے ساتھ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جہنم کے وہاں مجرد پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے، انھیں انتظار کی مہلت نہیں دی جائے گی، جہنم کے دروازے ان کے پہنچنے پر اور ان کے سامنے ، اس لیے کھلیں گے کہ اس کی حرارت بہت زیادہ اور اس کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔ رہی جنت، تو یہ بہت ہی عالی مرتبہ مقام ہے، جہاں ہر شخص نہیں پہنچ سکتا۔ صرف وہی شخص جنت تک پہنچ سکتا ہے جو ان وسائل کو اختیار کرتا ہے جو جنت تک پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ جنت میں داخل ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل تکریم ہستی کی سفارش کے محتاج ہوں گے۔ مجرد وہاں پہنچنے پر ان کے لیے جنت کے دروازے نہیں کھول دیے جائیں گے بلکہ وہ جناب نبی مصطفیٰ محمد e سے سفارش کرائیں گے، آپ اہل ایمان کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپe کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ جہنم اور جنت کے دروازے ہوں گے، جو کھولے اور بند کیے جا سکیں گے۔ اور ہر دروازے پر داروغہ مقرر ہو گا۔ یہ خالص گھر ہیں جہاں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو ان کا مستحق ہو گا بخلاف عام گھروں اور جگہوں کے، جہاں ہر کوئی داخل ہو سکتا ہے۔
#
{74} {وقالوا} عند دخولهم فيها واستقرارِهِم حامدينَ ربَّهم على ما أوْلاهم ومَنَّ عليهم وهداهم: {الحمدُ لله الذي صَدَقَنا وَعْدَه}؛ أي: وَعَدَنا الجنة على ألسنةِ رسلِهِ أنْ آمَنَّا وصَلَحْنا؛ فوفى لنا بما وَعَدَنا وأنجزَ لنا ما مَنَّانا، {وأوْرَثَنا الأرضَ}؛ أي: أرض الجنة {نَتَبَوَّأُ من الجنَّةِ حيثُ نشاءُ}؛ أي: ننزل منها أيَّ مكان شِئْنا، ونتناول منها أيَّ نعيم أرَدْنا، ليس ممنوعاً عنَّا شيءٌ نريدُه، {فنعم أجرُ العاملينَ}: الذين اجْتَهَدوا بطاعةِ ربِّهم في زمنٍ قليل منقطع، فنالوا بذلك خيراً عظيماً باقياً مستمرًّا. وهذه الدارُ التي تستحقُّ المدحَ على الحقيقة، التي يُكْرِمُ الله فيها خواصَّ خَلْقِهِ، ورضِيَها الجوادُ الكريمُ لهم نُزُلاً، وبنى أعلاها وأحَسَنها وغَرَسَها بيدِهِ وحشاها من رحمتِهِ وكرامتِهِ ما ببعضِه يفرح الحزينُ، ويزولُ الكَدَرُ، ويتمُّ الصفاءُ.
[74] ﴿وَقَالُوا ﴾ وہ جنت میں داخل ہو کر، اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے ہدایت عطا کرنے پر، اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ﴾ ’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانوں پر ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے اور نیک عمل کیے تو وہ ہمیں جنت عطا کرے گا ۔پس اس نے اپنا وعدہ ایفاء کر کے ہماری آرزو پوری کر دی ﴿وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ ﴾ ’’اور ہمیں زمین کا وارث بنایا‘‘ یعنی جنت کی زمین کا۔ ﴿نَتَبَوَّاُ مِنَ الْؔجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ ﴾ یعنی ہم جنت میں جس جگہ بھی چاہیں ٹھہر سکتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے جو چیز بھی چاہیں لے سکتے ہیں۔ ہمارے لیے کوئی چیز ممنوع نہیں جس کا ارادہ کریں ﴿فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْ٘نَ ﴾ ’’پس (نیک) عمل کرنے والوں کا بدلہ بھی کیسا خوب ہے۔‘‘ جنھوں نے ختم ہو جانے والی نہایت قلیل سی مدت میں اپنے رب کی اطاعت کے لیے کوشش کی اور اس کے بدلے انھوں نے خیرعظیم حاصل کی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ ہے وہ گھر جو حقیقی مدح کا مستحق ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو سرفراز فرمائے گا، جوادوکریم اللہ نے ان کے لیے جنت کے گھر کی مہمانی کو پسند فرمایا ہے، اللہ نے اس گھر کو نہایت بلند اور خوبصورت بنایا ہے۔ اس میں اپنے ہاتھوں سے انواع و اقسام کے درخت اور پودے لگائے ہیں۔ اسے اپنی رحمت و تکریم سے لبریز کیاہے جس کے ادنیٰ حصے سے غم زدہ کو فرحت حاصل ہو گی اور تمام تکدر ختم ہو کر صفا کی تکمیل ہو جائے گی۔
#
{75} {وترى الملائكةَ}: أيُّها الرائي ذلك اليوم العظيم {حافِّينَ من حول العرشِ}؛ أي: قد قاموا في خدمةِ ربِّهم واجتمعوا حولَ عرشِهِ خاضعين لجلالِهِ معترِفين بكمالِهِ مستغرِقين بجمالِهِ، {يسبِّحونَ بحمدِ ربِّهم}؛ أي: ينزِّهونه عن كلِّ ما لا يَليقُ بجلالِهِ مما نَسَبَ إليه المشركون وما لم يَنْسبوا. {وقُضِيَ بينَهم}؛ أي: بين الأوَّلين والآخرين من الخلق {بالحقِّ}: الذي لا اشْتِباه فيه ولا إنْكارَ ممَّنْ عليه الحقُّ. {وقيلَ الحمدُ لله ربِّ العالمينَ}: لم يَذْكُرِ القائلَ مَنْ هو؛ ليدلَّ ذلك على أنَّ جميعَ الخلق نَطَقوا بحمد ربِّهم وحكمتِهِ على ما قضى به على أهل الجنةِ وأهل النارِ، حَمْدَ فضل وإحسانٍ، وحَمْدَ عدل وحكمةٍ.
[75] ﴿وَتَرَى الْمَلٰٓىِٕكَةَ ﴾ اے دیکھنے والے! تو اس عظیم دن، فرشتوں کو دیکھے گا کہ ﴿حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْ٘عَرْشِ ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کے جلال کے سامنے سرافگندہ، اس کے جمال میں مستغرق ہو کر اور اس کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے عرش کے اردگرد اس کی خدمت میں جمع ہوں گے۔ ﴿یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ یعنی وہ اپنے رب کی ہر اس وصف سے تنزیہ و تقدیس کریں گے جو اس کے جلال کے لائق نہیں، جو مشرکین نے اس کی طرف منسوب کیے ہیں یا نہیں کیے۔ ﴿وَقُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ ﴾ یعنی اولین و آخرین تمام مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا ﴿بِالْحَقِّ ﴾ ’’ حق کے ساتھ۔‘‘ جس میں کوئی اشتباہ ہو گا نہ وہ شخص انکار کر سکے گا جس کے ذمہ یہ حق ہو گا۔ ﴿وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور کہا جائے گا: ہر طرح کی حمد و تعریف اللہ ہی کو سزاوار ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ یہاں قائل کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس بات کی دلیل ہو کہ تمام مخلوق اہل جنت اور اہل جہنم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں اس کی حکمت پر اس کی حمد بیان کرے گی یعنی فضل و احسان کی حمد اور عدل و حکمت کی حمد۔