آیت:
تفسیر سورۂ سجدہ
تفسیر سورۂ سجدہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{الم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (3)}
الٓمّٓ (1) اتارنا کتاب کا، درآں حالیکہ نہیں کوئی شک اس میں، رب العالمین کی طرف سے ہے(2)کیا وہ کہتے ہیں کہ خود گھڑ لیا ہے اس (پیغمبر) نے اسے (نہیں)بلکہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے تاکہ آپ ڈرائیں ان لوگوں کو کہ نہیں آیا ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آپ سے پہلے، شاید کہ وہ راہ پائیں(3)
#
{2} يخبر تعالى أنَّ هذا الكتاب الكريم تنزيلٌ نزل من ربِّ العالمين، الذي ربَّاهم بنعمتِهِ، ومن أعظم ما ربَّاهم به هذا الكتاب، الذي فيه كلُّ ما يُصْلِحُ أحوالَهم ويتمِّم أخلاقَهم، وأنَّه لا ريبَ فيه ولا شكَّ ولا امتراءَ.
[2] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب کریم رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے جس نے اپنی نعمت کے ذریعے سے ان کی تربیت کی ہے۔ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی ربوبیت کا فیضان کیا ہے، یہی کتاب کریم ہے۔ اس میں ہر وہ چیز موجود ہے، جو ان کے احوال کو درست اور ان کے اخلاق کی تکمیل کرتی ہے۔ اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں، بایں ہمہ رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے ظالم کہتے ہیں کہ اس کتاب کو محمد(e) نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے انکار کی سب سے بڑی جسارت اور محمد مصطفیe پر سب سے بڑے جھوٹ کا بہتان لگانا ہے، نیز یہ بہتان لگانا ہے کہ مخلوق بھی خالق کے کلام جیسا کلام تخلیق کرنے پر قادر ہے۔
#
{3} ومع ذلك؛ قالَ المكذِّبون للرسول الظالمونَ في ذلك: افتراه محمدٌ واختلَقَه من عند نفسه! وهذا من أكبر الجراءة على إنكارِ كلام اللَّه، ورَمْي محمدٍ بأعظم الكذِبِ، وقدرة الخَلْق على كلام مثل كلام الخالق، وكلُّ واحد من هذه، من الأمور العظائم، قال الله رادًّا على من قال: افتراه: {بل هو الحقُّ}: الذي لا يأتيه الباطلُ من بين يديه ولا من خلفِهِ تنزيلٌ من حكيم حميدٍ {من ربِّكَ}: أنزله رحمةً للعباد، {لِتُنذِرَ قوماً ما أتاهم من نذيرٍ من قبلِكَ}؛ أي: هم في حال ضرورة وفاقةٍ لإرسال الرسول وإنزال الكتاب لعدم النذير، بل هم في جهلهم يَعْمَهون، وفي ظُلمة ضلالهم يتردَّدون، فأنزلنا الكتاب عليك، {لعلَّهم يهتدونَ}: من ضلالهم، فيعرفون الحقَّ ويؤثِرونَه. وهذه الأشياء التي ذَكَرها الله كلُّها مناقضةٌ لتكذيبهم له، وإنَّها تقتضي منهم الإيمان والتصديق التامَّ به، وهو كونُه من ربِّ العالَمين، وأنَّه حقٌّ، والحق مقبولٌ على كلِّ حال، وأنه لا ريبَ فيه بوجه من الوجوه؛ فليس فيه ما يوجب الريبة؛ لا بخبر غير مطابق للواقع ، ولا بخفاء واشتباه معانيه، وأنهم في ضرورة وحاجة إلى الرسالة، وأن فيه الهداية لكلِّ خير وإحسان.
[3] مذکورہ بالا باتوں میں سے ہر ایک بات بہت بڑا جرم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قول ’’اس کو محمد (e)نے گھڑا ہے۔‘‘ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿بَلْ هُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’بلکہ یہ حق ہے‘‘ جس کے سامنے سے باطل آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ کتاب کریم قابل تعریف اور دانا ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے ﴿مِنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’آپ کے رب کی طرف سے۔‘‘ جس نے اسے اپنے بندوں پر رحمت کے طور پر نازل کیا ہے ﴿لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ﴾ ’’تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے ڈرانے (متنبہ کرنے) والا نہیں آیا۔‘‘ یعنی رسول کے بھیجے جانے اور کتاب کے نازل کیے جانے کی انھیں سخت ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا… بلکہ یہ لوگ اپنی جہالت میں سرگرداں اور اپنی گمراہی کے اندھیروں میں مارے مارے پھرتے ہیں، لہٰذا ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ﴿لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ ﴾ شاید کہ یہ گمراہی کو چھوڑ کر راہ راست پر گامزن ہوں اور اس طرح حق کو پہچان کر اس کو ترجیح دیں۔ یہ تمام امور جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، ان کی تکذیب کے متناقض ہیں۔ یہ تمام امور ان سے ایمان اور تصدیق کامل کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ﴿مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’رب کائنات کی طرف سے ہے‘‘ اور یقینا یہ ﴿الْحَقُّ ﴾ ’’حق ہے‘‘اور حق ہر حال میں قابل قبول ہوتا ہے۔ ﴿لَا رَیْبَ فِیْهِ ﴾ ’’اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں‘‘ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو شک و ریب کی موجب ہو۔ یہ کتاب کریم کوئی ایسی خبر بیان نہیں کرتی جو واقع کے غیر مطابق ہو اور نہ اس میں کوئی ایسی چیز ہی ہے جس کے معانی میں کوئی اشتباہ ہو یا وہ مخفی ہوں… نیز وہ رسالت کے سخت ضرورت مند تھے اور اس کتاب کریم میں ہر قسم کی بھلائی اور نیکی کا راستہ دکھایا گیا ہے۔
آیت: 4 - 9 #
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (4) يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (5) ذَلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (6) الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (7) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (8) ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (9)}
اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں، پھر وہ مستوی ہو گیا عرش پر نہیں ہے تمھارے لیے اس کے سوا کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی، کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟(4) وہ تدبیر کرتا ہے (سارے) معاملے کی آسمان سے زمین تک، پھر چڑھتا (لوٹتا) ہے وہ (معاملہ) اس کی طرف، ایک دن میں کہ ہے اس کی مقدار ایک ہزار سال، اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو(5) وہ (مدبر ہی) ہے جاننے والا پوشیدہ اورظاہر کا، نہایت غالب خوب رحم کرنے والا(6) وہ جس نے اچھے طریقے سے بنایا ہر چیز کو جسے پیدا کیا اس نے اور شروع کی پیدائش انسان کی گارے سے(7) پھربنایا اس نے اس کی نسل کو خلاصے (نطفے) سے ایک حقیر پانی کے(8) پھر اس نے درست کیا اس (کے اعضاء) کو اور پھونکا اس میں اپنی روح سے، اور بنائے اس نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل، (مگر) تھوڑا ہی ہے جو تم شکر کرتے ہو(9)
#
{4} يخبر تعالى عن كمال قدرته بخلقه السماوات والأرض في ستة أيام، أولها يوم الأحد، وآخرها الجمعة، مع قدرته على خلقها بلحظة، ولكنَّه تعالى رفيقٌ حكيمٌ، {ثم استوى على العرش}: الذي هو سقفُ المخلوقات استواءً يليقُ بجلالِهِ، {ما لكم من دونِهِ من وليٍّ}: يتولاَّكم في أمورِكم فينفَعُكم {ولا شفيع}: يشفعُ لكم إنْ توجَّه عليكم العقاب. {أفلا تتذكَّرونَ}: فتعلمون أنَّ خالق الأرض والسماواتِ، المستوي على العرش العظيم، الذي انفرد بتدبيركم وتولِّيكم، وله الشفاعةُ كلُّها، هو المستحقُّ لجميع أنواع العبادة!
[4] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ﴾ ’’وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے مابین چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا۔‘‘ ان میں سے پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ تھا، حالانکہ وہ ان آسمانوں اور زمین کو ایک لمحہ میں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ بہت مہربانی کرنے والا اور حکمت والا ہے۔ ﴿ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ جو کہ تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ یہ عرش پہ مستوی ہونے کی کیفیت ایسی ہے جو اس کے جلال کے لائق ہے۔ ﴿مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ ﴾ ’’اس کے سوا تمھارا کوئی دوست نہیں‘‘ جو تمھارے معاملات میں تمھاری سرپرستی کرے ﴿وَّلَا شَ٘فِیْعٍ ﴾ ’’اور نہ سفارش کرنے والا۔‘‘ یعنی اگرتمھیں سزا ملے تو وہ تمھاری سفارش کرے۔ ﴿اَفَلَا تَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے‘‘ کہ تمھیں علم ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا، جو عرش عظیم پر مستوی ہے، جو تمھاری تدبیر اور تمھاری سرپرستی میں یکتا ہے اور تمام تر شفاعت کا وہی مالک ہے، اس لیے عبادت کی تمام انواع کا وہی مستحق ہے۔
#
{5} {يدبِّرُ الأمرَ}: القدريَّ والأمر الشرعيَّ، الجميع هو المنفرد بتدبيره، نازلةٌ تلك التدابير من عند الملك القدير، {من السماء إلى الأرض}: فيُسْعِدُ بها ويشقي، ويُغني ويُفقر، ويعزُّ ويذلُّ ويكرِم ويُهين، ويرفع أقواماً ويضع آخرينَ، وينزِّل الأرزاق، {ثم يَعْرُجُ إليه}؛ أي: الأمر ينزِلُ من عنده، ويعرُجُ إليه {في يوم كان مقدارُهُ ألفَ سنةٍ ممَّا تعدُّونَ}: وهو يعرُجُ إليه، ويصِلُه في لحظة.
[5] ﴿یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ﴾ امر کونی و قدری اور امر دینی و شرعی کی تمام تدابیر وہ اکیلا ہی کرتا ہے اور تمام تدابیر قادر مطلق بادشاہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں ﴿مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ﴾ ’’آسمان سے زمین کی طرف‘‘ پس وہ ان تدابیر کے ذریعے سے کسی کو سعادت مند بناتا ہے اور کسی کو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے، کسی کو دولت مند بنا دیتا ہے اور کسی کے نصیب میں فقروفاقہ لکھ دیتا ہے، کسی کو عزت سے نوازتا ہے اور کسی کو ذلت دیتا ہے، کسی کو اکرام و تکریم سے بہرہ مند کرتا ہے اور کسی کے دامن میں رسوائی ڈال دیتا ہے، کچھ قوموں کو رفعت اور عروج سے سرفراز کرتا ہے اور کچھ قوموں کو زوال کی پستیوں میں گرا دیتا ہے اور وہی آسمانوں سے رزق نازل کرتا ہے۔ ﴿ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْهِ ﴾ ’’ پھر وہ اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔‘‘ یعنی امر اس کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ﴿فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ﴾ ’’ایک روز میں جس کا اندازہ تمھارے شمار کے مطابق ہزار برس ہوگا۔‘‘ یعنی یہ امرعروج کر کے، ایک لمحہ میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
#
{6} {ذلك}: الذي خلق تلك المخلوقات العظيمة، الذي استوى على العرش العظيم، وانفرد بالتدابير في المملكة، {عالمُ الغيب والشهادة العزيزُ الرحيم}: فبسعة علمِهِ وكمال عزَّتِهِ وعموم رحمتِهِ أوجَدَها، وأوْدَعَ فيها من المنافع ما أوْدَعَ، ولم يعسُرْ عليه تدبيرُها.
[6] ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’وہ‘‘ یعنی جس نے بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا، جو عرش عظیم پر مستوی ہے اور اکیلا ہی اپنی مملکت کی تدبیر کرتا ہے ﴿عٰؔلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْ٘عَزِیْزُ الرَّحِیْمُ﴾ ’’پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا، غالب، رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پس اس نے اپنی وسعت علم، اپنے کامل غلبے اور اپنی بے پایاں رحمت کی بنا پر ان مخلوقات کو وجود بخشا اور ان میں بے شمار فائدے ودیعت کیے اور ان کی تدبیر کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔
#
{7} {الذي أحسنَ كلَّ شيءٍ خَلَقَه}؛ أي: كلّ مخلوقٍ خلقَهُ الله؛ فإنَّ الله أحسن خلقَه، وخَلَقَهُ خلقاً يليقُ به ويوافِقُه؛ فهذا عامٌّ، ثم خصَّ الآدميَّ لشرفِهِ وفضلِهِ، فقال: {وبدأ خَلْقَ الإنسانِ من طينٍ}: وذلك بخلق آدم عليه السلام أبي البشر.
[7] ﴿الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ ﴾ تمام مخلوق کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیا، اسے بہترین تخلیق عطا کی۔ اس نے ہر مخلوق کو ایسی تخلیق عطا کی جو اس کے لائق اور اس کے ماحول کے موافق ہے اور یہ عام ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے فضل و شرف کی بنا پر اس کی تخلیق کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَبَدَاَ خَلْ٘قَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ﴾ ’’اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔‘‘ یہ ابتدا ابوالبشرحضرت آدمu کی تخلیق سے ہوئی۔
#
{8} {ثم جعل نَسْلَه}؛ أي: ذريَّة آدم ناشئة {من ماء مَهين}: وهو النطفةُ المستقذرةُ الضعيفة.
[8] ﴿ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ﴾ ’’ پھر کیا اس کی نسل کو‘‘ یعنی ذریت آدم کی پیدائش کو ﴿مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍ﴾ گندے اور کمزور نطفہ سے۔
#
{9} {ثم سوَّاه} بلحمِهِ وأعضائِهِ وأعصابه وعروقِهِ، وأحسن خِلْقَتَه، ووضع كلَّ عضو منه بالمحلِّ الذي لا يليقُ به غيره، {ونفخ فيه من روحِهِ}: بأن أرسل إليه المَلَكَ؛ فينفخ فيه الروحَ، فيعود بإذن الله حيواناً بعد أن كان جماداً، {وجَعَلَ لكم السمعَ والأبصارَ}؛ أي: ما زال يعطيكم من المنافع شيئاً فشيئاً حتى أعطاكم السمع والأبصار {والأفئدة قليلاً ما تشكُرون}: الذي خلقكم، وصوَّركم.
[9] ﴿ثُمَّ سَوّٰىهُ ﴾ پھر اس کا گوشت پوست، اس کے اعضاء، اس کے اعصاب اور اس کی شریانوں کے نظام کو درست طور پر بنایا، اسے بہترین تخلیق وہیئت سے سرفراز کیا اس کے ہر ہر عضو کو ایسے مقام پر رکھا جس کے سوا کوئی اور مقام اس کے لائق نہ تھا۔ ﴿وَنَ٘فَ٘خَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ﴾ ’’اور اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے تب وہ جمادات کی شکل سے نکل کر، زندگی سے بہرہ ور انسان بن جاتا ہے۔ ﴿وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ﴾ اور وہ تمھیں آہستہ آہستہ تمام منفعتیں عطا کرتا رہا حتیٰ کہ تمھیں سماعت و بصارت کی مکمل صلاحیتوں سے نواز دیا ﴿وَالْاَفْـِٕدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اور دل (بنائے) مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘ اس ہستی کا جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھاری صورت گری کی۔
آیت: 10 - 11 #
{وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ (10) قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (11)}
اور انھوں نے کہا: کیا جب ہم گم ہو جائیں گے زمین میں تو کیا ہم بے شک البتہ نئی پیدائش میں (ظاہر) ہوں گے؟ (نہیں)بلکہ وہ تو ملاقات ہی سے، اپنے رب کی، انکار کرنے والے ہیں (10) کہہ دیجیے: فوت کرتا ہے تم کو فرشتہ موت کا، وہ جو مقرر کیا گیا ہے تم پر، پھر اپنے رب ہی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (11)
#
{10} أي: قال المكذِّبون بالبعثِ على وجه الاستبعاد: {أإذا ضلَلْنا في الأرض}؛ أي: بَلينا وتمزَّقْنا وتفرَّقْنا في المواضع التي لا تعلم، {أإنَّا لَفي خلقٍ جديدٍ}؛ أي: لمبعوثون بعثاً جديداً؛ بزعمهم أن هذا من أبعد الأشياء! وذلك بقياسهم قدرة الخالق على قُدَرِهِم ، وكلامهم هذا ليس لطلب الحقيقة، وإنَّما هو ظلمٌ وعنادٌ وكفرٌ بلقاء ربهم وجحدٌ، ولهذا قال: {بل هم بلقاءِ ربِّهم كافرونَ}: فكلامُهم عُلِمَ مصدرُهُ وغايتُهُ، وإلاَّ؛ فلو كان قصدُهم بيان الحق لبُيِّنَ لهم من الأدلَّة القاطعة على ذلك ما يجعله مشاهداً للبصيرة بمنزلة الشمس للبصر، ويكفيهم أنهم عندهم علمٌ أنهم قد ابتُدِئوا من العدم؛ فالإعادةُ أسهلُ من الابتداء، وكذلك الأرضُ الميتة ينزِلُ الله عليها المطرَ فتحيا بعد موتها، وينبتُ به متفرِّقُ بذورها.
[10] قیامت کو بعید سمجھتے ہوئے اس کی تکذیب کرنے والوں نے کہا: ﴿ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ﴾ جب ہم بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو کر ایسی ایسی جگہوں میں بکھر جائیں گے جن کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو گا۔ ﴿ءَاِنَّا لَ٘فِیْ خَلْ٘قٍ جَدِیْدٍ ﴾ تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا۔ ان کے خیال میں یہ بعید ترین چیز ہے اور ایسا خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالق کائنات کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں اور ان کا یہ کلام تلاش حقیقت کی خاطر نہیں، بلکہ یہ تو ظلم، عناد، اپنے رب کی ملاقات سے انکار اور کفر پر مبنی ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿بَلْ هُمْ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ ان کے کلام ہی سے ان کی غرض و غایت معلوم ہو جاتی ہے ورنہ اگر ان کا مقصد بیان حق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے ایسے قطعی دلائل بیان کرتا جو بصیرت کے لیے اتنے ہی نمایاں ہوتے جتنا بصارت کے لیے سورج۔ ان کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ ان کو عدم سے وجود میں لایا گیا۔ ابتدا کی نسبت اس کا اعادہ آسان تر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین پر بارش برساتا ہے، زمین اپنی موت کے بعد جی اٹھتی ہے اور اپنے اندر بکھرے ہوئے بیجوں کو اگاتی ہے۔
#
{11} {قل يتوفَّاكم مَلَكُ الموت الذي وُكِّلَ بكم}؛ أي: جعله الله وكيلاً على قبض الأرواح، وله أعوان، {ثمَّ إلى ربِّكُم تُرجعونَ}: فيجازيكم بأعمالكم، وقد أنكرتُم البعث؛ فانظُروا ماذا يفعلُ الله بكم.
[11] ﴿قُ٘لْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّ٘لَ بِكُمْ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمھاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔‘‘ یعنی ارواح کا قبض کرنا جس کے سپرد کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مددگار فرشتے بھی ہیں۔ ﴿ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ پس وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔ تم نے قیامت کا انکار کیا ہے اس لیے دیکھو اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ کیا کرتا ہے۔
آیت: 12 - 14 #
{وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (12) وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (13) فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (14)}
اور اگر آپ دیکھیں، جب مجرم لوگ جھکائے ہوئے ہوں گے سر اپنے نزدیک اپنے رب کے (تو کہیں گے:) اے ہمارے رب! دیکھ لیا ہم نے اور سن لیا ہم نے، پس واپس بھیج ہمیں، کریں ہم نیک عمل، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں (12) اور اگر ہم چاہتے تو دے دیتے ہم ہر نفس کو ہدایت اس کی، لیکن ثابت ہو گیا قول (وعدہ) میری طرف سے کہ البتہ میں ضرور بھروں گا جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے (13) پس چکھو تم (عذاب) بوجہ اس کےجوبھلائے رکھا تم نے ملاقات کو اپنے اس دن کی، بے شک (آج) بھلا دیا ہم نے تم کو اور چکھو تم عذاب ہمیشہ کا، بسبب اس کے جو تھے تم عمل کرتے (14)
#
{12} لما ذكر تعالى رجوعَهم إليه يوم القيامةِ؛ ذكر حالَهم في مقامهم بين يديه، فقال: {ولو ترى إذِ المجرِمونَ}: الذين أصرُّوا على الذنوبِ العظيمة، {ناكِسوا رؤوسِهِم عند ربِّهم}: خاشعين خاضعين، أذلاَّء مقرِّين [بجرمهم] ، سائلين الرجعة قائلين: {ربَّنا أبْصَرْنا وسَمِعْنا}؛ أي: بان لنا الأمرُ ورأيناه عياناً، فصار عينَ يقينٍ، {فارْجِعْنا نعملْ صالحاً إنَّا موقِنونَ}؛ أي: صار عندَنا الآن يقينٌ بما كنا نكذِّب به؛ أي: لرأيت أمراً فظيعاً وحالاً مزعجة وأقواماً خاسرين وسؤالاً غير مجابٍ؛ لأنَّه قد مضى وقتُ الإمهال.
[12] اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے روز ان کے اپنی طرف لوٹنے کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد، اپنے حضور ان کی حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’اور اگر آپ دیکھیں، جبکہ گناہ گار‘‘ جنھوں نے بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کیا ﴿نَاكِسُوْا رُءُ٘وْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ خشوع و خضوع کے ساتھ سرنگوں ہو کر، اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہوئے، واپس لوٹائے جانے کی درخواست کر کے عرض کریں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔‘‘ یعنی تمام معاملہ ہمارے سامنے واضح ہو گیا ہم نے اسے عیاں طور پر دیکھ لیا اور ہمارے لیے عین الیقین بن گیا۔ ﴿فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ﴾ ’’پس ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں بلاشبہ ہم یقین کرنے والے ہیں۔‘‘ یعنی جن حقائق کو ہم جھٹلایا کرتے تھے اب ہمیں ان کا یقین آ گیا ہے۔ تو آپ بہت برا معاملہ، ہولناک حالات، خائب و خاسر لوگ اور نامقبول دعائیں دیکھیں گے، کیونکہ مہلت کا وقت تو گزر چکا۔
#
{13} وكلُّ هذا بقضاءِ الله وقدرِهِ؛ حيث خلَّى بينَهم وبين الكفر والمعاصي؛ فلهذا قال: {ولو شِئْنا لآتَيْنا كلَّ نفس هُداها}؛ أي: لهدينا الناس كلَّهم وجَمَعْناهم على الهدى، فمشيئتُنا صالحةٌ لذلك، ولكنَّ الحكمة تأبى أن يكونوا كلُّهم على الهدى، ولهذا قال: {ولكنْ حقَّ القولُ مني}؛ أي: وجب وثبت ثبوتاً لا تغيُّر فيه، {لأملأنَّ جهنَّم من الجِنَّةِ والناس أجمعينَ}: فهذا الوعدُ لا بدَّ منه ولا محيدَ عنه؛ فلابدَّ من تقرير أسبابه من الكفرِ والمعاصي.
[13] اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ ان کے اور کفرومعاصی کے درمیان سے نکل گیا۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا كُ٘لَّ نَفْ٘سٍ هُدٰؔىهَا ﴾ ’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘ یعنی ہم تمام لوگوں کو ہدایت سے نواز کر ہدایت پر جمع کر دیتے۔ ہماری مشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر ہماری حکمت یہ نہیں چاہتی کہ تمام لوگ ہدایت پر جمع ہوں، اسی لیے فرمایا: ﴿وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ ﴾ ’’لیکن میری یہ بات بالک حق ہوچکی ہے۔‘‘ یعنی میرا حکم واجب ہو گیا اور اس طرح ثابت ہو گیا کہ اس میں تغیر کا کوئی گزر نہیں ﴿لَاَمْلَ٘ــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا۔‘‘ یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا جس سے کوئی مفر نہیں۔ اس کے اسباب، یعنی کفر ومعاصی ضرور متحقق ہوں گے۔
#
{14} {فذوقوا بما نَسيتُم لقاء يومِكُم هذا}؛ أي: يقال للمجرمين الذين ملكهم الذلُّ، وسألوا الرجعة إلى الدُّنيا؛ ليستدركوا ما فاتهم: قد فات وقت الرجوع، ولم يبق إلاَّ العذابُ، فذوقوا العذابَ الأليم بما نسيتُم لقاء يومِكُم هذا، وهذا النسيانُ نسيانُ ترك؛ أي: بما أعرضتُم عنه، وتركتُم العمل له، وكأنّكم غير قادمين عليه ولا ملاقيه. {إنَّا نَسيناكُم}؛ أي: تركناكم بالعذاب جزاءً من جنس عملِكُم؛ فكما نَسيتم نُسيتم، {وذوقوا عذابَ الخُلْدِ}؛ أي: العذاب غير المنقطع؛ فإنَّ العذاب إذا كان له أجلٌ وغايةٌ؛ كان فيه بعضُ التنفيس والتخفيف، وأمَّا عذابُ جهنَّم ـ أعاذنا الله منه ـ؛ فليس فيه روحُ راحةٍ ولا انقطاع لعذابهم فيها؛ {بما كنتُم تعملون}: من الكفر والفسوقِ والمعاصي.
[14] ﴿فَذُوْقُ٘وْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰؔذَا ﴾ ’’پس چکھو تم (عذاب) اس دن کی ملاقات کو بھول جانے کی وجہ سے۔‘‘ یعنی ان مجرموں سے کہا جائے گا، جن پر ذلت طاری ہو چکی ہو گی اور دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی درخواست کر رہے ہوں گے تاکہ اپنے اعمال کی تلافی کر سکیں، واپس لوٹنے کا وقت چلا گیا، اب عذاب کے سوا کچھ باقی نہیں، لہٰذا اب تم دردناک عذاب کا مزا چکھو، اس پاداش میں کہ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا تھا۔ نسیان کی یہ قسم نسیان ترک ہے، یعنی تم نے اللہ تعالیٰ سے منہ پھیرا اور اس کی خاطر عمل کو ترک کر دیا گویا کہ تم سمجھتے تھے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے نہ اس سے ملاقات کرنی ہے۔ ﴿اِنَّا نَسِیْنٰكُمْ ﴾ ’’بے شک ہم نے بھی تمھیں بھلا دیا۔‘‘ یعنی ہم نے تمھیں عذاب میں چھوڑ دیا۔ یہ جزا تمھارے عمل کی جنس میں سے ہے۔ جس طرح تم نے بھلائے رکھا اس طرح تمھیں بھی بھلا دیا گیا۔ ﴿وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ ﴾ کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب کا مزا چکھو کیونکہ جب عذاب کی مدت اور انتہا مقرر ہو تو اس میں کسی حد تک تخفیف کا پہلو پایا جاتا ہے، رہا جہنم کا عذاب... اللہ تعالیٰ اس عذاب سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے... تو اس عذاب میں کوئی راحت ہو گی نہ ان پر یہ عذاب کبھی منقطع ہو گا۔ ﴿بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تمھارے اعمال کی وجہ سے۔‘‘ یعنی کفر، فسق اور معاصی کی پاداش میں۔
آیت: 15 - 17 #
{إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (15) تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (16) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (17)}
بے شک ایمان لاتے ہیں ہماری آیتوں پر صرف وہی لوگ کہ جب نصیحت کیے جاتے ہیں وہ ان کی تو گر پڑتے ہیں وہ سجدہ کرتے ہوئے اور وہ تسبیح کرتے ہیں حمد کے ساتھ اپنے رب کی اور وہ نہیں تکبر کرتے (15) علیحدہ رہتے ہیں ان کے پہلو خواب گاہوں سے، وہ پکارتے ہیں اپنے رب کو خوف سے اور امید کرتے ہوئے اور کچھ اس میں سے جو ہم نے انھیں رزق دیا، وہ خرچ کرتے ہیں (16) پس نہیں جانتا کوئی نفس وہ جو چھپا رکھی گئی ہے ان کے لیے ٹھنڈک آنکھوں کی، بدلہ (دینے کے لیے) ان کا جو تھے وہ عمل کرتے (17)
#
{15} لما ذَكَرَ الكافرين بآياته وما أعدَّ لهم من العذاب؛ ذَكَرَ المؤمنين بها ووَصْفَهم وما أعدَّ لهم من الثواب، فقال: {إنَّما يؤمنُ بآياتنا}؛ أي: إيماناً حقيقيًّا مَنْ يوجد منه شواهدُ الإيمان، وهم {الذين إذا ذُكِّروا} بآياتِ ربِّهم، فتُلِيَتْ عليهم آيات القرآن، وأتتهم النصائحُ على أيدي رسل الله، ودُعوا إلى التذكُّر؛ سمعوها فقبلوها وانقادوا و {خرُّوا سُجَّداً}؛ أي: خاضعين لها خضوعَ ذِكْرٍ لله وفرح بمعرفتِهِ، {وسبَّحوا بحمدِ ربِّهم وهم لا يستكْبِرونَ}: لا بقلوبِهِم ولا بأبدانِهِم فيمتنعون من الانقيادِ لها، بل متواضعون لها، قد تَلَقَّوْها بالقَبول والتسليم وقابَلوها بالانشراح والتسليم، وتوصَّلوا بها إلى مرضاة الربِّ الرحيم، واهتَدَوا بها إلى الصراط المستقيم.
[15] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عذاب کا ذکر کرنے کے بعد، جو اس نے اپنی آیتوں کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، اہل ایمان کا ذکر فرمایا اور ان کے ثواب کا وصف بیان کیا، جو ان کے لیے تیار کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا ﴾ یعنی جو ہماری آیتوں پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں اور جن میں ایمان کے شواہد پائے جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں ﴿الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّ٘رُوْا بِهَا ﴾ جن کے سامنے جب قرآن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، رسولوں کے توسط سے ان کے پاس نصیحتیں آتی ہیں، انھیں یاددہانی کرائی جاتی ہے تو وہ اسے غور سے سنتے ہیں، ان کو قبول کر کے ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ﴿خَرُّوْا سُجَّدًا ﴾ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے، ذکر الٰہی کے خضوع اور اس کی معرفت کی فرحت کے ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ﴿وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ ’’اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے دلوں میں تکبر رکھتے ہیں نہ بدن سے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل نہ کریں بلکہ اس کے برعکس وہ آیات الٰہی کے سامنے سرافگندہ ہو جاتے ہیں، ان کو انشراح صدر اور تسلیم و رضا کے ساتھ قبول کرتے ہیں، ان کے ذریعے سے رب رحیم کی رضا حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔
#
{16} {تتجافى جُنوبهم عن المضاجِع}؛ أي: ترتفع جنوبُهم وتنزعجُ عن مضاجِعِها اللذيذِة إلى ما هو ألذُّ عندهم منه وأحبُّ إليهم، وهو الصلاة في الليل ومناجاة الله تعالى، ولهذا قال: {يَدْعون ربَّهم}؛ أي: في جلب مصالِحِهم الدينيَّة والدنيويَّة ودفع مضارِّهما {خوفاً وطمعاً}؛ أي: جامعين بين الوصفينِ؛ خوفاً أن تُرَدَّ أعمالُهم، وطمعاً في قبولها؛ خوفاً من عذاب الله، وطمعاً في ثوابه، {وممَّا رزَقْناهم}: من الرزق قليلاً أو كثيراً، {يُنفِقونَ}: ولم يذكُر قيد النفقة، ولا المنفَق عليه؛ ليدلَّ على العموم؛ فإنَّه يدخُلُ فيه النفقة الواجبة؛ كالزكوات والكفارات ونفقة الزوجات والأقارب، والنفقة المستحبَّة في وجوه الخير، والنفقة والإحسان المالي خيرٌ مطلقاً؛ سواء وافق فقيراً أو غنيًّا ، قريباً أو بعيداً، ولكن الأجر يتفاوت بتفاوتِ النفع، فهذا عملهم.
[16] ﴿تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ ﴾ ان کے پہلو نہایت بے قراری سے ان کے آرام دہ بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ ایسی چیز میں مصروف رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ان آرام دہ بستروں سے زیادہ لذیذ اور زیادہ محبوب ہے۔ اس سے مراد رات کے وقت نماز اور اللہ سے مناجات ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ ﴾ دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول اور دینی اور دنیاوی نقصانات کو روکنے کے لیے اپنے رب کو پکارتے ہیں ﴿خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾ خوف اور امید دونوں اوصاف کو یکجا کر کے، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں ان کے اعمال ٹھکرا نہ دیے جائیں اور اس امید کے ساتھ کہ ان کے اعمال کو شرف قبولیت حاصل ہو جائے گا۔ نیز اس خوف سے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں نہ آ جائیں اور اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ انھیں ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔ ﴿وَّمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ ﴾ ’’اور اس میں سے جو ہم نے انھیں دیا ہے‘‘ خواہ وہ تھوڑا رزق ہو یا زیادہ ﴿یُنْفِقُوْنَ ﴾ ’’وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کو کسی قید سے مقید نہیں کیا اور نہ اس شخص پر کوئی قید لگائی ہے، جس پر خرچ کیا جائے تاکہ آیت کریمہ عموم پر دلالت کرے... تب اس میں تمام نفقات واجبہ ، مثلاً: زکاۃ، کفارات، اہل و عیال اور اقارب وغیرہ پر خرچ کرنا، نفقات مستحبہ کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا، مالی طورپر احسان کرنا مطلقاً نیکی ہے خواہ کسی محتاج کے ساتھ یہ احسان کیا جائے یا کسی مال دار کے ساتھ، اقارب کے ساتھ کیا جائے یا اجنبیوں کے ساتھ، مگر اس احسان کے افادے میں تفاوت کے مطابق اجر میں تفاوت ہوتا ہے۔ یہ تو ہے ان کا عمل۔
آیت: 18 - 20 #
{أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ (18) أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (19) وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (20)}
[17] رہی اس کی جزا، تو فرمایا: ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ یہاں سیاق نفی میں نکرہ کا استعمال ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تمام مخلوق کے نفوس شامل ہیں یعنی کوئی نہیں جانتا ﴿مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ ﴾ ’’کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔‘‘ یعنی خیر کثیر، بے شمار نعمتیں، فرحت و سرور اور لذتیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول e کی زبان پر فرمایا: ’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اس کا خیال آیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، باب قولہ: ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ…﴾ (السجدۃ:32؍17) حدیث:4779 و صحیح مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمہا وأہلہا، باب صفۃ الجنۃ، حدیث:2824) جس طرح وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے، انھوں نے اپنے عمل کو چھپایا پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے عمل ہی کی جنس سے جزا عطا کی ہے اس لیے ان کے اجر کو چھپا دیا، اسی لیے فرمایا: ﴿جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’یہ اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘
#
{18} ينبِّه تعالى العقول على ما تقرَّرَ فيها من عدم تساوي المتفاوتَيْنِ المتبايِنَيْن، وأن حكمته تقتضي عدم تساويهما، فقال: {أفمن كان مؤمناً}: قد عَمَرَ قلبَه بالإيمان، وانقادتْ جوارِحُه لشرائعه، واقتضى إيمانُه آثاره وموجباتِه من ترك مساخِطِ الله التي يضرُّ وجودها بالإيمان، {كمن كان فاسقاً}: قد خرب قلبُه وتعطَّل من الإيمان، فلم يكن فيه وازعٌ دينيٌّ، فأسرعتْ جوارحُه بموجبات الجهل والظلم في كلِّ إثم ومعصيةٍ، وخرج بفسقِهِ عن طاعة ربِّه، أفيستوي هذان الشخصان؟! {لا يستوونَ}: عقلاً وشرعاً؛ كما لا يستوي الليل والنهار والضياء والظلمة، وكذلك لا يستوي ثوابُهما في الآخرة.
کیا پس وہ شخص جو ہے مومن، مانند اس شخص کی ہے جو ہے فاسق؟ نہیں وہ برابر ہو سکتے (18) لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک تو ان کے لیے ہیں باغات رہنے کے، بطور مہمانی بدلہ (میں) ان کے جوتھے وہ کرتے (19) اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے فسق کیا، تو ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب بھی ارادہ کریں گے وہ یہ کہ نکلیں وہ اس سے تو لوٹا دیے جائیں گے اسی میں اور کہا جائے گا ان سے: چکھو تم عذاب آگ کا، وہ جو تھے تم اسے جھٹلاتے(20)
#
{19} {أمَّا الذين آمنوا وعَمِلوا الصالحاتِ}: من فروض ونوافلَ، {فلهم جناتُ} {المأوى}؛ أي: الجنات التي هي مأوى اللذَّات، ومعدنُ الخيرات، ومحلُّ الأفراح، ونعيمُ القلوب والنفوس والأرواح، ومحلُّ الخلود، وجوار الملك المعبود، والتمتُّع بقربه والنظر إلى وجهه وسماع خطابه، {نُزُلاً}: لهم؛ أي: ضيافةً وقِرىً؛ {بما كانوا يعملونَ}: فأعمالُهم التي تَفَضَّلَ الله بها عليهم هي التي أوصلَتْهم لتلك المنازل الغالية العالية، التي لا يمكن التوصُّل إليها ببذل الأموال، ولا بالجنود والخدم، ولا بالأولاد، بل ولا بالنفوس والأرواح، ولا يتقرَّب إليها بشيء أصلاً سوى الإيمان والعمل الصالح.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ، دو متفاوت اور متباین چیزوں کے درمیان عدم مساوات کے بارے میں عقل انسانی کو متنبہ کرتا ہے، جن کے درمیان عدم مساوات متحقق ہے۔ نیز آگاہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان عدم مساوات اس کی حکمت کا تقاضا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَفَ٘مَنْ كَانَ مُؤْمِنًا ﴾ ’’کیا وہ جو مؤمن ہو‘‘ یعنی جس کا قلب نور ایمان سے منور اور اس کے جوارح شریعت کے تابع ہیں، نیز اس کا ایمان اپنے آثار اور ان امور کو ترک کرنے کے موجب کا تقاضا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہیں جن کا وجود ایمان کے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿كَ٘مَنْ كَانَ فَاسِقًا ﴾ ’’اس کی مثل ہے جو فاسق ہے‘‘ جس کا قلب غیر آباد اور ایمان سے خالی ہے اس کے اندر کوئی دینی داعیہ موجود نہیں۔ اس لیے اس کے جوارح جلدی سے ظلم اور جہالت کے موجبات کی وجہ سے ہر قسم کے گناہ اور معصیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے فسق کے سبب سے اپنے رب کی اطاعت سے نکل جاتا ہے۔ کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں؟ ﴿لَا یَسْتَوٗنَ ﴾ عقلاً اور شرعاً کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ جس طرح دن اور رات، روشنی اور تاریکی برابر نہیں ہوتے اسی طرح قیامت کے روز مومن اور فاسق کا ثواب بھی برابر نہیں ہو گا۔
#
{20} {وأمَّا الذين فَسَقوا فمأواهُمُ النارُ}؛ أي: مقرُّهم ومحلُّ خلودهم النارُ، التي جمعت كلَّ عذابٍ وشقاءٍ، ولا يُفَتَّرُ عنهم العقابُ ساعة، {كلَّما أرادوا أن يَخْرُجوا منها أُعيدوا فيها}: فكلَّما حدَّثتهم إرادتُهم بالخروج لبلوغ العذابِ منهم كلَّ مبلغ؛ رُدُّوا إليها، فذهب عنهم روح ذلك الفرج، واشتدَّ عليهم الكرب، {وقيل لهم ذوقوا عذابَ النارِ الذي كنتُم به تكذِّبون}.
[19] ﴿اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔‘‘ یعنی جو فرائض اور نوافل ادا کرتے ہیں ﴿فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى ﴾ ’’تو ان کے رہنے کے لیے باغ ہیں۔‘‘ یعنی وہ جنتیں جو لذتوں کا ٹھکانا، خوبصورت چیزوں کا گھر، مسرتوں کا مقام، نفوس اور قلب و روح کے لیے نعمت، ہمیشہ رہنے کی جگہ، بادشاہ معبود کے جوار رحمت، اس کے قرب سے متمتع ہونے، اس کے چہرے کا دیدار کرنے اور اس کا خطاب سننے کا مقام ہیں ﴿نُزُلًۢا﴾ یہ سب نعمتیں ان کی ضیافت اور مہمانی کے لیے ہوں گی ﴿بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’ان اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ کرتے رہے۔‘‘ پس وہ اعمال جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز کیا، انھی اعمال نے ان کو ان عالی شان منزلوں تک پہنچایا ہے، جہاں مال و دولت، لشکر، خدام اور اولاد کے ذریعے سے تو کیا جان وروح کو کھپا کر بھی نہیں پہنچا جا سکتا اور نہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر کسی دوسری چیز کے ذریعے سے ان منزلوں کے قریب ہی پہنچا جاسکتا ہے۔
[20] ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ﴾ ’’اور رہے وہ لوگ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کے رہنے کے لیے دوزخ ہے۔‘‘ یعنی ان کا دائمی مستقر اور ٹھکانا جہنم ہو گا جہاں ہر نوع کا عذاب اور ہر قسم کی بدبختی جمع ہو گی اور وہ ان سے ایک گھڑی کے لیے بھی علیحدہ نہ ہو گا۔ ﴿كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِیْدُوْا فِیْهَا﴾ عذاب کی انتہائی شدت کی وجہ سے جب کبھی وہ نکلنے کا ارادہ کریں گے، انھیں دوبارہ جہنم میں دھکیل دیا جائے گا، ان سے آرام اور چین رخصت ہو جائے گا اور غم اور رنج و ملال ان پر شدت اختیار کرجائے گا۔ ﴿وَقِیْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ ﴾ ’’اور ان سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو۔‘‘ یہ جہنم کا عذاب ہے جہاں ان کا ٹھکانا ہوگا، رہا وہ عذاب جو اس سے پہلے اور اس کا مقدمہ تھا، یعنی عذاب برزخ تو اس کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے:
آیت: 21 #
{وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (21)}
اور البتہ ہم ضرور چکھائیں گے ان کو عذابِ ادنیٰ پہلے عذابِ اکبر سے، تاکہ وہ (ہماری طرف) لوٹیں(21)
#
{21} أي: ولنذيقنَّ الفاسقين المكذِّبين نموذجاً من العذاب الأدنى، وهو عذاب البرزخ، فنذيقهم طرفاً منه قبل أن يموتوا: إما بعذابٍ بالقتل ونحوه كما جرى لأهل بدر من المشركين، وإمَّا عند الموت؛ كما في قوله تعالى: {ولو ترى إذِ الظالمونَ في غَمَراتِ الموتِ والملائكةُ باسطوا أيديهم أخرِجوا أنفُسَكُم اليومَ تُجْزَوْنَ عذابَ الهُونِ}، ثم يكمل لهم العذابُ الأدنى في برزَخِهم. وهذه الآيةُ من الأدلة على إثبات عذاب القبر، ودلالتُها ظاهرةٌ؛ فإنَّه قال: {وَلَنُذيقَنَّهم من العذاب الأدنى}؛ أي: بعض وجزء منه، فدلَّ على أن ثَمَّ عذاباً أدنى قبل العذاب الأكبر، وهو عذاب النار، ولما كانت الإذاقة من العذابِ الأدنى في الدنيا قد لا يَتَّصلُ بها الموت، فأخبر تعالى أنَّه يذيقُهم ذلك؛ لعلَّهم يرجِعون إليه، ويتوبون من ذنوبهم؛ كما قال تعالى: {ظَهَرَ الفسادُ في البرِّ والبحرِ بما كَسَبَتْ أيدي الناس لِيُذيقَهم بعضَ الذي عَمِلوا لعلَّهم يرجِعونَ}.
[21] ہم رسول کی تکذیب کرنے والے فاسقوں کو نمونے کے طور پر کم تر عذاب کا مزا چکھائیں گے اور وہ برزخ کا عذاب ہے۔ پس ہم برزخ کے عذاب کا کچھ مزا ان کے مرنے سے پہلے انھیں چکھائیں گے اس سے مراد قتل وغیرہ کا عذاب ہے، جیسے غزوہ بدر میں مشرکین کو قتل کیا گیا… یا اس سے مراد موت کے وقت کا عذاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اس کا ذکر آتا ہے: ﴿وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَ٘مَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَ٘اسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ ﴾ (الانعام:6؍93) ’’اور کاش آپ دیکھتے، جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے عذاب کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، (اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی۔‘‘ پھر برزخ میں ان کا یہ کم تر عذاب مکمل ہو جائے گا۔ یہ آیت کریمہ عذاب قبر کے واضح دلائل میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى ﴾ اور ہم انھیں قریب کے کم تر عذاب میں سے چکھائیں گے یعنی اس عذاب کا کچھ حصہ، پس یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ’’عذاب اکبر‘‘ یعنی جہنم کے عذاب سے پہلے بھی ان کو عذاب ادنیٰ میں مبتلا کیا جائے گا۔ چونکہ عذاب ادنیٰ کا مزا جو انھیں دنیا میں چکھایا جائے گا، بسا اوقات اس سے موت واقع نہیں ہوتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ انھیں عذاب ادنیٰ کا مزا اس لیے چکھاتا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ (الروم:30؍41) ’’بحروبر میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے، تاکہ وہ ان کو مزا چکھائے ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
آیت: 22 #
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ (22)}
اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے کہ نصیحت کیا گیا وہ ساتھ آیات کے اپنے رب کی، پھر اس نے اعراض کیا ان سے بلاشبہ ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں(22)
#
{22} أي: لا أحد أظلمُ وأزيدُ تعدِّياً ممَّنْ ذُكِّرَ بآيات ربِّه، التي أوصلها إليه ربُّه، الذي يريد تربيتَه وتكميلَ نعمتِهِ عليه على يدِ رسلِهِ، تأمره وتذكِّره مصالحه الدينيَّة والدنيويَّة، وتنهاه عن مضارِّه الدينيَّة والدنيويَّة، التي تقتضي أنْ يقابِلَها بالإيمان والتسليم والانقياد والشكر، فقابلها هذا الظالمُ بضدِّ ما ينبغي، فلم يؤمنْ بها ولا اتَّبَعها، بل أعرض عنها وتركها وراء ظهرِهِ؛ فهذا من أكبر المجرمين، الذين يستحقُّون شديد النقمة، ولهذا قال: {إنَّا من المجرِمين منتَقِمون}.
[22] یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور زیادتی کرنے والا کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی ہو جنھیں اس کے رب نے اس کے پاس پہنچایا ہو اور وہ اپنے رسولوں کے ہاتھوں پر اپنی ربوبیت کا فیضان اور اپنی نعمت کی تکمیل کرنا چاہتا ہو۔ وہ آیات اسے اس کے دینی اور دنیاوی مصالح کے بارے میں نصیحت کرتی اور حکم دیتی ہیں، اسے دینی اور دنیاوی ضرر رساں امور سے روکتی ہیں، وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو ایمان و تسلیم اور شکرو اطاعت کے ساتھ قبول کیا جائے، مگر اس ظالم نے ایسے طریقے سے ان آیات کا استقبال کیا جو ان کے لائق نہ تھا۔ یہ ظالم ان پر ایمان لایا نہ ان کی پیروی کی بلکہ ان سے اعراض کرتے ہوئے ان کو چھوڑ دیا اور ان کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا یہ ان مجرموں میں سب سے بڑا مجرم ہے جو سخت سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا: ﴿اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ ﴾’’بے شک ہم گناہ گاروں سے بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘
آیت: 23 - 25 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (23) وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (24) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (25)}
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب ، پس نہ ہوں آپ شک میں اس (موسیٰ) کی ملاقات سے، اور کیا ہم نے اس (تورات) کو ہدایت (کا ذریعہ) واسطے بنی اسرائیل کے(23) اور بنائے ہم نے کچھ ان میں سے پیشوا، وہ رہنمائی کرتے تھے ہمارے حکم سے، جب انھوں نے صبر کیا اور تھے وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے (24) بلاشبہ آپ کا رب، وہ (ہی) فیصلہ کرے گا درمیان ان کے دن قیامت کے اس (معاملے) میں کہ تھے وہ اس میں اختلاف کرتے(25)
#
{23} لما ذكر تعالى آياتِهِ التي ذَكَّرَ بها عباده، وهو القرآن الذي أنزله على محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، ذكر أنه ليس ببدع من الكتب، ولا من جاء به بغريب من الرسل، فقد آتى اللَّه {موسى الكتابَ}: الذي هو التوراة المصدِّقَةُ للقرآن، التي قد صَدَّقَها القرآنُ، فتطابق حقُّهما، وثبت برهانُهما. {فلا تكن في مريةٍ من لقائِهِ}: لأنَّه قد تواردتْ أدلَّة الحق وبيناتُه، فلم يبق للشكِّ والمريةِ محلٌّ، {وجعلناه}؛ أي: الكتاب الذي آتيناه موسى {هدىً لبني إسرائيلَ}: يهتدونَ به في أصول دينهم، وفروعهم، وشرائعه موافقةٌ لذلك الزمان في بني إسرائيل، وأما هذا القرآن الكريم؛ فجعله الله هدايةً للناس كلِّهم؛ لأنَّه هدايةٌ للخلق في أمر دينهم ودُنياهم إلى يوم القيامة، وذلك لكمالِهِ وعلوِّه، {وإنَّه في أمِّ الكتاب لَدَيْنا لَعَلِيٌّ حكيمٌ}.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اپنی ان آیات کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کو نصیحت کی، اور وہ قرآن مجید ہے جو اس نے نبی مصطفی حضرت محمد e پر نازل فرمایا، تو اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ یہ قرآن کوئی انوکھی کتاب ہے نہ اس کتاب کو لانے والا رسول کوئی انوکھا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو کتاب دی تھی جو کہ تورات ہے وہ قرآن کی تصدیق کرتی ہے اور قرآن نے اس کی تصدیق کی ہے، دونوں کا حق ایک دوسرے کے مطابق اور موافق ہے اور دونوں کی دلیل ثابت ہے ﴿فَلَا تَكُ٘نْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآىِٕهٖ﴾ ’’پس آپ اس کے ملنے سے شک میں نہ پڑنا۔‘‘ کیونکہ حق کے دلائل و براہین ثابت ہو چکے ہیں اس لیے شک و شبہے کا کوئی مقام نہیں۔ ﴿وَجَعَلْنٰهُ ﴾ ’’اور ہم نے اس کو بنایا۔‘‘ یعنی اس کتاب کو جو ہم نے موسیٰ کو عطا کی ﴿هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْ﴾ ’’بنی اسرائیل کے لیے ہدایت۔‘‘ یعنی وہ اپنے دین کے اصول و فروع میں اس کتاب سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کی شریعت اور قوانین صرف اسرائیلیوں کے لیے اور اس زمانے کے مطابق تھے... رہا یہ قرآن کریم تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت بنایا ہے کیونکہ یہ اپنے کامل اور عالی شان ہونے کی بنا پر قیامت تک کے لیے تمام مخلوق اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں راہنمائی عطا کرتا ہے۔ ﴿وَاِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَ٘عَلِیٌّ حَكِیْمٌ﴾ (الزخرف:43؍4) ’’اور بے شک یہ لوح محفوظ میں درج ہے جو ہمارے ہاں بہت عالی مرتبہ، حکمت والی کتاب ہے۔‘‘
#
{24} {وجَعَلْنا منهم}؛ أي: من بني إسرائيل، {أئمة يهدونَ بأمرِنا}؛ أي: علماء بالشرع وطرق الهداية مهتدين في أنفسهم يهدون غيرهم بذلك الهدى؛ فالكتاب الذي أُنْزِل إليهم هدى، والمؤمنون به منهم على قسمين: أئمَّة يهدون بأمرِ الله، وأتباعٌ مهتدون بهم، والقسمُ الأول أرفع الدرجات بعد درجة النبوَّة والرسالة، وهي درجة الصديقين، وإنما نالوا هذه الدرجة العالية، {لما صبروا}: على التعلُّم والتعليم والدَّعوة إلى الله والأذى في سبيله، وكفُّوا نفوسَهم عن جِماحها في المعاصي واسترسالِها في الشهوات. {وكانوا بآياتِنا يوقِنونَ}؛ أي: وصلوا في الإيمان بآيات الله إلى درجة اليقين، وهو العلم التامُّ الموجب للعمل، وإنَّما وصلوا إلى درجة اليقين؛ لأنَّهم تعلَّموا تعلُّما صحيحاً، وأخذوا المسائل عن أدلتها المفيدة لليقين، فما زالوا يتعلَّمون المسائل، ويستدلُّون عليها بكثرة الدَّلائل، حتى وصلوا لذاك؛ فبالصبر واليقين تُنال الإمامة في الدين.
[24] ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ﴾ ’’اور ہم نے ان میں سے بنائے‘‘ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ﴾ ایسے علماء جو شریعت اور ہدایت کے راستوں کا علم رکھتے تھے۔ وہ خود ہدایت یافتہ تھے اور اس ہدایت کے ذریعے سے دوسروں کی راہنمائی کرتے تھے۔ جو کتاب ان کی طرف نازل کی گئی وہ سراسر ہدایت تھی اور اس پر ایمان رکھنے والے دو اقسام میں منقسم تھے: (۱) ائمہ، جو اللہ کے حکم سے راہنمائی کرتے تھے۔ (۲) جو ان ائمہ سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگ انبیاء و رسل کے بعد سب سے بلند درجے پر فائز ہیں اور یہ صدیقین کا درجہ ہے اور یہ بلند درجہ انھیں اس لیے حاصل ہوا کہ انھوں نے تعلیم و تعلم، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت اور اس کے راستے میں پیش آنے والی اذیتوں پر صبر کیا اور نفوس کو معاصی اور شہوات سے روکا۔ ﴿وَكَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ﴾ اور وہ آیات الٰہی پر ایمان میں درجۂ یقین پر پہنچ چکے تھے۔ یقین سے مراد وہ علم تام ہے جو عمل کا موجب ہے۔ وہ درجۂ یقین پر اس لیے پہنچے کہ انھوں نے صحیح طریقے سے علم حاصل کیا اور ان دلائل کے ذریعے سے مسائل کو اخذ کیا جو یقین کا فائدہ دیتے ہیں۔ وہ مسائل سیکھتے رہے اور کثرت دلائل سے ان پر استدلال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ درجۂ یقین پر پہنچ گئے۔ پس صبر اور یقین کے ذریعے سے دین میں امامت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
#
{25} وثمَّ مسائلُ اختلف فيها بنو إسرائيل، منهم من أصاب فيها الحقَّ، ومنهم من أخطأه خطأ أو عمداً، والله تعالى {يَفْصِلُ بينَهم يوم القيامةِ فيما كانوا فيه يختلفونَ}: وهذا القرآن يقصُّ على بني إسرائيل بعض الذي يختلفون فيه؛ فكلُّ خلاف وقع بينهم، ووُجِدَ في القرآن تصديقٌ لأحد القولين؛ فهو الحقُّ، وما عداه مما خالفه باطلٌ.
[25] کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں بنی اسرائیل میں اختلاف واقع ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ صحیح راہ پر تھے اور کچھ عمداً یا غیر ارادی طور پر راہ صواب سے محروم تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’وہ ان کے درمیان ان باتوں میں جن کے متعلق وہ اختلاف کرتے تھے قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔‘‘ اور یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے کچھ مسائل کا ذکر کرتا ہے جن کی تصدیق قرآن کریم میں موجود ہے، وہی حق ہے، اس کے علاوہ وہ تمام اقوال جو اس کے خلاف ہیں، باطل ہیں۔
آیت: 26 - 27 #
{أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ أَفَلَا يَسْمَعُونَ (26) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ (27)}
کیا نہیں واضح ہوا ان کے لیے کہ کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے ان سے پہلے امتیں، چلتے (پھرتے) ہیں وہ ان کے گھروں میں، بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں، کیا پس وہ نہیں سنتے؟(26)کیا نہیں دیکھا انھوں نے، بے شک ہم ہانک لے جاتے ہیں پانی طرف چٹیل زمین کی، پس نکالتے ہیں ہم اس کے ذریعے سے کھیتی، کھاتے ہیں اس سے چوپائے ان کے اور وہ خود بھی، کیا پس وہ نہیں دیکھتے؟(27)
#
{26} يعني: أولم يتبيَّن لهؤلاء المكذِّبين للرسول ويهديهم إلى الصواب كم أهْلَكْنا قبلهم من القرون الذين سَلَكوا مسلَكَهم، {يمشون في مساكنهم}: فيشاهِدونها عياناً؛ كقوم هود وصالح وقوم لوط. {إنَّ في ذلك لآياتٍ}: يستدلُّ بها على صدق الرسل التي جاءتهم، وبطلان ما هم عليه من الشرك والشرِّ، وعلى أنَّ مَنْ فعل مثل فعلهم؛ فُعِلَ بهم كما فُعِلَ بأشياعه من قبل، وعلى أنَّ الله تعالى مجازي العباد وباعثهم للحشر والتناد. {أفلا يسمعونَ}: آيات الله، فيعونَها، فينتفِعون بها؛ فلو كان لهم سمعٌ صحيحٌ وعقلٌ رجيحٌ؛ لم يقيموا على حالةٍ يجزم بها بالهلاك.
[26] کیا رسول (e)کی تکذیب کرنے والے ان کفار پر واضح نہیں ہوا اور انھیں راہ صواب نہیں ملی کہ ﴿كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْ٘قُ٘رُوْنِ ﴾ ’’ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا۔‘‘ جو ان کی گمراہی کے مسلک پر گامزن تھے۔ ﴿یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْ ﴾ ’’ان کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں‘‘ اور وہ عیاں طور پر ان کے مساکن کا مشاہدہ کرتے ہیں، مثلاً: قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط کے مساکن۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ ﴾ ’’بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں‘‘ جن کے ذریعے سے وہ رسولوں کی صداقت اور شرک اور شر پر مبنی اپنے موقف کے بطلان پر استدلال کر سکتے ہیں نیز جو ان جیسے کرتوت کرے گا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا جو ان لوگوں کے ساتھ ہوا تھا۔ نیز وہ اس پر بھی استدلال کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور حشر کے لیے ان کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ﴿اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ کیا وہ آیات الٰہی کو سن کر یاد نہیں رکھتے کہ ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ان کی سماعت صحیح ہوتی اور وہ عقل راجح سے بہرہ مند ہوتے تو اس حالت پر کبھی بھی قائم نہ رہتے جس میں ہلاکت یقینی ہے۔
#
{27} {أولم يَرَوْا}: بأبصارهم نعمتنا وكمال حكمتنا، {أنَّا نسوقُ الماء إلى الأرض الجرز}: التي لا نبات فيها، فيسوق الله المطر الذي لم يكنْ قبلُ موجوداً فيها، فيفرِغُه فيها من السحاب أو من الأنهار؛ {فنخرِجُ به زرعاً}؛ أي: نباتاً مختلف الأنواع، {تأكُلُ منه أنعامُهم}: وهو نباتُ البهائم {وأنفسُهُم}: وهو طعام الآدميين. {أفلا يبصِرونَ}: تلك المنَّة التي أحيا الله بها البلاد والعباد، فيستبصِرون فيهتدون بذلك البصر وتلك البصيرة إلى الصراط المستقيم؟ ولكن غلب عليهم العمى، واستولتْ عليهم الغفلة، فلم يبصِروا في ذلك بصر الرجال، وإنَّما نظروا إلى ذلك نظر الغفلة ومجرَّد العادة، فلم يوفَّقوا للخير.
[27] ﴿اَوَلَمْ یَرَوْا ﴾ کیا انھوں نے اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ ہماری نعمت اور ہماری حکمت کاملہ کا مشاہدہ نہیں کیا؟ ﴿اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ﴾ ’’ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اس زمین کی طرف جو بے آب و گیاہ ہے اللہ تعالیٰ بارش کو لاتا ہے جو اس سے قبل موجود نہ تھی وہ اس زمین پر بادل برساتا ہے یا دریاؤ ں سے سیراب کرتا ہے۔ ﴿فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا ﴾ پس ہم اس پانی کے ذریعے سے مختلف انواع کی نباتات اگاتے ہیں ﴿تَاْكُ٘لُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ ﴾ ’’جس میں سے ان کے چوپائے کھاتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد مویشیوں کا چارہ ہے ﴿وَاَنْفُسُهُمْ ﴾ ’’اور وہ خود بھی‘‘ اس سے مراد آدمیوں کا کھانا ہے۔ ﴿اَفَلَا یُبْصِرُوْنَ ﴾ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھتے نہیں جس کے ذریعے سے اس نے زمین اور بندوں کو زندگی بخشی؟ اگر وہ دیکھتے تو انھیں صاف نظر آتا اور اس بصارت اور بصیرت کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کرتے، مگر ان پر اندھا پن غالب اور غفلت چھائی ہوئی ہے، لہٰذا انھوں نے اس بارے میں مردوں کی طرح نہیں دیکھا۔ بس انھوں نے اس کو غفلت کی نظر سے اور محض عادت کے طور پر دیکھا، اس لیے انھیں بھلائی کی توفیق نہیں ملی۔
آیت: 28 - 30 #
{وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (28) قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (29) فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ (30)}
اور وہ کہتے ہیں: کب ہو گا یہ فیصلہ، اگر ہو تم سچے؟(28) کہہ دیجیے: دن فیصلے کے نہیں نفع دے گا ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ایمان لانا ان کا اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے(29) پس آپ منہ پھیر لیں ان سے اور انتظار کریں، بلاشبہ وہ بھی منتظر ہیں (30)
#
{28} أي: يستعجلُ المجرمون بالعذاب الذي وُعِدوا به على التكذيب جهلاً منهم ومعاندةً، {ويقولونَ متى هذا الفتحُ}: الذي يفتحُ بيننا وبينكم بتعذيبنا على زعمكم {إن كنتُم} [أيها الرسلُ] {صادقينَ}: في دعواكم.
[28] یعنی مجرم جہالت اور عناد کی بنا پر عذاب میں جلدی مچاتے ہیں جس کا ان کے ساتھ ان کے جھٹلانے کی پاداش میں وعدہ کیا گیا ہے۔ ﴿وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰؔذَا الْ٘فَ٘تْحُ ﴾ ’’اور کہتے ہیں: یہ فیصلہ کب ہوگا؟‘‘ جو ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کر دے اور تمھارے زعم کے مطابق ہمیں عذاب میں مبتلا کر دے ﴿اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ اے رسول! اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو۔
#
{29} {قُلْ يومَ الفتح}: الذي يحصُلُ به عقابُكم لا تستفيدون به شيئاً؛ فلو كان إذا حَصَلَ؛ حَصَلَ إمهالُكم لتستدركوا ما فاتكم حين صار الأمر عندكم يقيناً؛ لكان لذلك وجه، ولكن إذا جاء يومُ الفتح؛ انقضى الأمرُ، ولم يبق للمحنةِ والابتلاء محلٌّ، فلا {ينفعُ الذين كفروا إيمانُهم}: لأنَّه صار إيمانَ ضرورةٍ، {ولا هم يُنظَرون}؛ أي: يُمْهَلون، فيؤخَّرُ عنهم العذاب، فيستدركون أمرهم.
[29] ﴿قُ٘لْ یَوْمَ الْ٘فَ٘تْحِ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ فیصلے کے دن‘‘ یعنی جس روز تمھیں عذاب دیا جائے گا تم اس روز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکو گے۔ اگر تمھیں ایمان حاصل ہو جائے تو تمھیں مہلت کا ملناممکن ہے تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے نکل چکی ہے تم اس کی تلافی کر لو کیونکہ یقینی طورپر معاملہ ابھی تک تمھارے ہاتھ میں ہے۔ مگر جب فیصلے کا دن آئے گا تو تمام معاملہ ختم ہو جائے گا اور امتحان و ابتلا کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا، اس وقت ﴿لَا یَنْفَ٘عُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِیْمَانُهُمْ ﴾ ’’کافروں کو ان کاایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ کیونکہ اس ایمان کی حیثیت اضطراری ایمان کی سی ہو گی۔ ﴿وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ﴾ اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائے گی کہ عذاب کو مؤخر کر دیا جائے اور یہ اپنے معاملے کو سدھار لیں۔
#
{30} {فأعرض عنهم}: لما وصل خطابهم لك وظلمهم إلى حالة الجَهْل واستعجال العذاب. {وانتظر}: الأمر الذي يَحِلُّ بهم؛ فإنَّه لا بدَّ منه، ولكن له أجلٌ إذا جاء لا يتقدَّم ولا يتأخَّر، {إنَّهم منتظرونَ}: بك رَيْبَ المنون، ومتربِّصون بكم دوائرَ السوء، والعاقبة للتقوى.
[30] ﴿فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ ﴾ ’’پس آپ ان سے اعراض کریں۔‘‘ جب ان کا خطاب جہالت کی حدود کو چھونے لگے اور وہ عذاب کے لیے جلدی مچانے لگیں ﴿وَانْتَظِرْ ﴾اور اس عذاب کا انتظار کیجیے جو ان پر نازل ہونے والا ہے کیونکہ یہ عذاب ضرور نازل ہو گا، مگر اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آ جائے گا تو وہ آگے پیچھے نہیں ہو گا۔ ﴿اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ ﴾ وہ بھی آپ کے بارے میں شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور برے وقت کے منتظر ہیں حالانکہ اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔