(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{الم (1) تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (2) هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ (3) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5)}
الٓمٓ
(1) یہ آیتیں ہیں حکمت والی کتاب کی
(2) ہدایت اور رحمت ہے نیکی کرنے والوں کے لیے
(3) وہ لوگ جوقائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکاۃ اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں
(4) یہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے رب
(کی طرف) سے، اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
(5)
#
{2} يشيرُ تعالى إشارةً دالَّةً على التعظيم إلى {آيات الكتاب الحكيم}؛ أي: آياتُهُ محكمةٌ صدرتْ من حكيم خبير.
ومن إحكامها أنَّها جاءت بأجلِّ الألفاظ وأفصحها وأبينها، الدالَّة على أجلِّ المعاني وأحسنها.
ومن إحكامها أنها محفوظةٌ من التغييرِ والتبديل والزيادة والنقص والتحريف.
ومن إحكامها أنَّ جميعَ ما فيها من الأخبار السابقةِ واللاحقة والأمور الغيبيَّة كلِّها مطابقةٌ للواقع، مطابقٌ لها الواقع، لم يخالِفْها كتابٌ من الكتب الإلهية، ولم يخبر بخلافها نبيٌّ من الأنبياء، ولم يأتِ ولن يأتيَ علم محسوسٌ ولا معقولٌ صحيحٌ يناقِضُ ما دلَّتْ عليه.
ومن إحكامها أنها ما أَمَرَتْ بشيء إلاَّ وهو خالصُ المصلحة أو راجِحُها، ولا نَهَتْ عن شيء إلاَّ وهو خالصُ المفسدة أو راجِحُها، وكثيراً ما يجمع بين الأمر بالشيء مع ذكر حكمتِهِ وفائدتِهِ، والنهي عن الشيء مع ذكرِ مضرَّتِهِ.
ومن إحكامها أنَّها جمعت بين الترغيب والترهيب والوعظ البليغ الذي تعتدل به النفوس الخيِّرة، وتحتكمُ فتعملُ بالحزم.
ومن إحكامها: أنَّك تَجِدُ آياتها المتكرِّرة كالقصص والأحكام ونحوها قد اتَّفقت كلُّها وتواطأت، فليس فيها تناقضٌ ولا اختلافٌ؛ فكلَّما ازدادَ بها البصير تدبُّراً وأعمل فيها العقل تفكُّراً؛ انبهر عقلُه وذهلَ لبُّه من التوافُق والتواطُؤ، وجزم جزماً لا يُمْتَرى فيه أنه تنزيلٌ من حكيم حميدٍ.
[2] اللہ تعالیٰ ان
﴿اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ﴾ ’’حکمت والی کتاب کی آیات‘‘ کی تعظیم کے لیے ان کی طرف،
اشارہ کرتا ہے یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی محکم آیات ہیں جو ایک حکمت والی اور باخبر ہستی سے صادر ہوئی ہیں۔ان آیات کے محکم ہونے سے مندرجہ ذیل امور مراد ہیں:
(۱) یہ آیات نہایت واضح، جلیل ترین اور فصیح ترین الفاظ میں آئی ہیں جو نہایت جلیل القدر اور بہترین معانی پر دلالت کرتے ہیں۔
(۲) یہ آیات تغیر و تبدل، کمی بیشی اور تحریف سے محفوظ ہیں۔
(۳) ان آیات میں گزشتہ زمانے اور آنے والے زمانے کے واقعات اور امور غیبیہ کے بارے میں خبریں دی گئی ہیں۔ وہ واقعات کے مطابق اور واقعات ان کے مطابق ہیں۔ کتب الٰہیہ میں سے کسی کتاب اور گزشتہ انبیاء میں سے کسی نبی نے ان اخبار کی مخالفت نہیں کی۔ اب تک کوئی علمی، حسی یا عقلی تحقیق ان امور کے متناقض نہیں، جن پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں۔
(۴) ان آیات نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے وہ خالص یا راجح مصلحت پر مبنی ہوتی ہے اور جن امور سے روکا ہے وہ واضح یا راجح مفاسد پر مبنی ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی حکمت اور ان کے فوائد کا بھی ذکر کیا ہے اسی طرح کسی چیز سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ضرر اور مفاسد سے آگاہ کیا ہے۔
(۵) قرآن کریم کی آیات میں ترغیب و ترہیب اور مواعظ بلیغہ اس انداز میں جمع ہیں کہ نیک نفس لوگ، اس کے ذریعے سے اعتدال اختیار کرتے ہیں، اس کو اپنا فیصل بناتے ہیں اور نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
(۶) آپ دیکھیں گے کہ اس کی آیات، اس کے قصص اور احکامات وغیرہ میں تکرار پایا جاتا ہے، مگر ان کے مضامین میں اتفاق ہے اور ان میں کوئی تناقض اور کوئی اختلاف نہیں۔ صاحب بصیرت جتنا زیادہ اس کے اندر تدبر اور غوروفکر کرتا ہے اس کی آیات و احکام میں توافق و تطابق کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے، اس کو یقین ہو جاتا ہے، جس میں شک وریب کا کوئی شائبہ نہیں، کہ یہ قرآن حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے ہے۔
#
{3} ولكن مع أنه حكيمٌ يدعو إلى كلِّ خُلُق كريم وينهى عن كلِّ خُلُقٍ لئيم، أكثرُ الناس محرومون من الاهتداءِ به، معرِضون عن الإيمان والعمل به؛ إلاَّ مَنْ وفَّقَه الله تعالى وعَصَمَه، وهم المحسنون في عبادة ربِّهم، والمحسِنون إلى الخلق؛ فإنَّه {هدىً}: لهم يهديهم إلى الصراط المستقيم، ويحذِّرهم من طرق الجحيم. {ورحمةً}: لهم تحصُلُ لهم به السعادةُ في الدنيا والآخرة والخيرُ الكثيرُ والثوابُ الجزيلُ والفرح والسرور، ويندفِعُ عنهم الضَّلال والشقاءُ.
[3] وہ حکمت سے لبریز ہے، وہ تمام اخلاق کریمہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور برے اخلاق سے روکتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی راہنمائی سے محروم ہیں اس پر ایمان لانے اور عمل کرنے سے روگردانی کرتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ روگردانی نہیں کرتے جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق سے سرفراز کر کے روگردانی سے بچایا وہ اپنے رب کی عبادت میں احسان سے کام لیتے ہیں اور اس کے بندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔
پس یہ قرآن انھی کے لیے
﴿هُدًى ﴾ ’’ہدایت ہے‘‘ راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور جہنم کے راستوں سے انھیں بچاتا ہے
﴿وَّرَحْمَةً﴾اور محسنین کے لیے رحمت ہے۔ اس کے ذریعے سے انھیں دنیا و آخرت کی سعادت، خیر کثیر، ثواب جزیل اور فرحت حاصل ہوتی ہے اور گمراہی و بدبختی ان سے دور ہو جاتی ہے۔
#
{4} ثم وَصَفَ المحسنين بالعلم التامِّ، وهو اليقين الموجب للعمل والخوف من عقاب الله، فيتركون معاصيه، ووصَفَهم بالعمل، وخصَّ من العمل عملين فاضلينِ: {الصلاة} المشتمِلَة على الإخلاص، ومناجاة الله تعالى، والتعبُّد العامِّ للقلب واللسان والجوارح المعينة على سائر الأعمال. {والزَّكاة}: التي تُزَكِّي صاحبها من الصفات الرذيلة، وتنفعُ أخاه المسلمَ وتسدُّ حاجته، ويَبينُ بها أنَّ العبدَ يُؤْثِرُ محبَّةَ الله على محبَّتِهِ للمال، فيخرِجُ محبوبَه من المال لما هو أحبُّ إليه، وهو طلب مرضاة الله.
[4] پھر اللہ تعالیٰ نے ان ’’محسنین‘‘ کا وصف بیان فرمایا کہ وہ علم کامل یعنی یقین محکم رکھتے ہیں جو عمل اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف کا موجب ہے اس لیے وہ اس کی نافرمانیوں کو ترک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عمل سے موصوف کیا ہے اور عمل کے ضمن میں دو بہترین اعمال کا ذکر فرمایا: وہ نماز کی پابندی کرتے ہیں جو اخلاص، اللہ تعالیٰ سے مناجات، قلب و زبان اور جوارح کے تعبُّد عام کو شامل ہے اور باقی اعمال میں معاون ہے۔ نیز زکاۃ کا بھی تذکرہ فرمایا کہ اسے ادا کرنے والا تمام صفات رذیلہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ وہ زکاۃ کے ذریعے سے اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچاتا ہے، اس کی ضرورت پوری کرتا ہے، زکاۃ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی محبت کو مال کی محبت پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ اپنے محبوب مال کو اس کی خاطر خرچ کرتا ہے جو اسے اپنے مال سے کہیں زیادہ محبوب ہے... اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا۔
#
{5} فَـ {أولئك}: المحسنون الجامعون بين العلم التامِّ والعمل {على هدىً}؛ أي: عظيم كما يفيدُه التنكيرُ، وذلك الهدى حاصلٌ لهم وواصلٌ إليهم {من ربِّهم}: الذي لم يَزَلْ يربِّيهم بالنعم ويدفَعُ عنهم النِّقَمَ، وهذا الهدى الذي أوصله إليهم من تربيتِهِ الخاصَّة بأوليائه، وهو أفضلُ أنواع التربية. {وأولئك هم المفلحونَ}: الذين أدركوا رضا ربِّهم وثوابَه الدنيوي والأخروي، وسلموا من سَخَطِهِ وعقابه، وذلك لسلوكهم طريقَ الفلاح، الذي لا طريقَ له غيرها.
[5] ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یہ نیکوکار لوگ جو علم کامل اور عمل کے جامع ہیں
﴿عَلٰى هُدًى ﴾ ’’ہدایت پر ہیں‘‘ جو بہت عظیم ہے جیسا کہ ’’ہدایت‘‘ کو نکرہ استعمال کرنے سے مستفاد ہوتا ہے۔
﴿مِّنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’اپنے رب کی طرف سے۔‘‘ جو اپنی نعمتوں کے ذریعے سے ان پر اپنی ربوبیت کا فیضان کرتا اور ان سے تکلیف دہ امور کو دور کرتا رہتا ہے۔ یہ ہدایت، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا ہے، اس خاص ربوبیت سے ہے جو اس نے اپنے اولیاء پر کی ہے اور یہ ربوبیت کی بہترین قسم ہے۔
﴿وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’اور یہی لوگ فلاح سے بہرہ ور ہیں‘‘ جنھوں نے اپنے رب کی رضا، اس کے دنیاوی اور اخروی ثواب کو پا لیا اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچ گئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلاح کے راستے پر گامزن ہوئے، جس کے سوا فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سعادت مند لوگوں کا ذکر کیا جنھوں نے قرآن مجید کے ذریعے سے ہدایت حاصل کی، تو اس کے بعد، ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جو قرآن سے روگردانی کرتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، ان کو اس کی سخت سزا دی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کے بدلے ہر باطل قول اختیار کر کے، بہترین قول اور احسن الحدیث کو چھوڑ دیا اور اس کے بدلے قبیح ترین اور انتہائی گھٹیا اقوال کو اختیار کیا، اسی لیے فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (6) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (7) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ (8) خَالِدِينَ فِيهَا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (9)}.
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہیں جو خریدتے ہیں غافل کرنے والی باتیں تاکہ وہ گمراہ کریں اللہ کی راہ سے بغیر علم کے، اور
(تاکہ) بنائیں اس
(راہ ہدایت) کو مذاق، یہی لوگ ہیں، ان کے لیے ہے عذاب ذلیل کرنے والا
(6) اور جب تلاوت کی جاتی ہیں اس پر ہماری آیتیں، وہ پھر جاتا ہے تکبر کرتے ہوئے گویا کہ اس نے وہ سنی ہی نہیں، گویا کہ اس کےدونوں کانوں میں ڈاٹ
(کارک) ہے، پس خوشخبری دے دیجیے اسے عذاب درد ناک کی
(7) بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، ان کے لیے ہیں باغ ہائے نعمت
(8) وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں
(یہ) وعدہ ہے اللہ کا سچا اور وہ غالب ہے، حکمت والا
(9)
#
{6} أي: {ومن الناس من}: هو محرومٌ مخذولٌ {يشتري}؛ أي: يختارُ ويرغب رغبة من يبذُلُ الثمن في الشيء، {لهو الحديث}؛ أي: الأحاديث الملهية للقلوب، الصادَّة لها عن أجلِّ مطلوب، فدخل في هذا كلُّ كلام محرَّم وكلُّ لغوٍ وباطل وهَذَيان؛ من الأقوال المرغِّبة في الكفر والفسوق والعصيان، ومن أقوال الرادِّين على الحقِّ المجادلين بالباطل لِيُدْحِضوا به الحقَّ، ومن غيبةٍ ونميمةٍ وكذبٍ وشتم وسبٍّ، ومن غناء ومزامير شيطان. ومن الماجرياتِ الملهيةِ التي لا نفع فيها في دين ولا دُنيا؛ فهذا الصنف من الناس {يشتري لهو الحديث} عن هدي الحديث {ليضلَّ} الناس {بغير علم}؛ أي: بعد ما ضلَّ في فعله أضلَّ غيرَه؛ لأنَّ الإضلال ناشئٌ عن الضَّلال، وإضلالُه في هذا الحديث صدُّه عن الحديث النافع والعمل النافع والحقِّ المُبين والصراطِ المستقيم، ولا يتمُّ له هذا حتى يقدحَ في الهدى والحقِّ، ويتَّخذ آيات الله هُزواً، يَسْخَرُ بها وبِمَنْ جاء بها؛ فإذا جمع بين مدح الباطل والترغيب فيه والقدح في الحقِّ والاستهزاء به وبأهله؛ أضلَّ مَنْ لا علم عندَه، وخَدَعَه بما يوحيه إليه من القول الذي لا يميِّزه ذلك الضالُّ، ولا يعرف حقيقته، {أولئك لهم عذابٌ (مهينٌ)}: بما ضلُّوا، وأضلُّوا، واستهزؤوا بآيات الله، وكذَّبوا الحقَّ الواضح.
[6] ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ ﴾ ’’اور لوگوں میں سے جو‘‘ اللہ تعالیٰ کی تائید سے محروم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے
﴿یَّشْتَرِیْ ﴾ ’’خریدتا ہے‘‘ یعنی جو اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے
﴿لَهْوَ الْحَدِیْثِ ﴾ ’’لغو باتیں‘‘ یعنی دلوں کو غافل کرنے اور ان کو جلیل القدر مقاصد سے روکنے والے قصے کہانیاں۔ اس آیت کریمہ میں ہر محرم کلام، ہر قسم کی لغویات، ہر قسم کے باطل ہذیانی اقوال جو کفر و فسوق اور عصیان کی ترغیب دیتے ہیں، ان لوگوں کے نظریات جو حق کو ٹھکراتے ہیں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ، سب و شتم، شیطانی گانا بجانا، غفلت میں مبتلا کرنے والے قصے کہانیاں، جن کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں، داخل ہیں۔ لوگوں کی یہ صنف ہدایت کی باتوں کو چھوڑ کر کھیل تماشوں پر مشتمل قصے کہانیاں خریدتی ہے۔
﴿لِیُضِلَّ ﴾ تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے
﴿عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ ’’بغیر علم کے اللہ کی راہ سے‘‘ یعنی اپنے فعل میں خود گمراہی کا راستہ اختیار کر کے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس کا گمراہ کرنے کا عمل خود اس کی اپنی گمراہی سے جنم لیتا ہے، اس کا اس لہو الحدیث سے گمراہ کرنے سے مراد اس کا فائدہ مند بات، عمل نافع، حق مبین اور صراط مستقیم سے روکنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک اس کے لیے تکمیل نہیں پاتا جب تک کہ وہ ہدایت اور حق میں
(جسے اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آئی ہیں) جرح و قدح نہیں کرتا اور اللہ کی آیات کا مذاق نہیں اڑاتا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور ان کو لانے والے کا تمسخر اڑاتا ہے۔
جب ایسے شخص میں باطل کی مدح، اس کی ترغیب، حق میں جرح و قدح، حق اور اہل حق کے ساتھ استہزا وتمسخراکٹھے ہو جاتے ہیں تو وہ بے علم آدمی کو گمراہ کرتا ہے اور اسے ایسی بات بیان کرکے دھوکا دیتا ہے، جس میں گمراہ شخص امتیاز کر سکتا ہے نہ اس کی حقیقت معلوم کر سکتا ہے۔
﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ﴾ ’’ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے‘‘ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے، انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ استہزا کیا اور واضح حق کی تکذیب کی۔
#
{7} ولهذا قال: {وإذا تُتلى عليه آياتُنا}: ليؤمنَ بها وينقادَ لها، {ولَّى مستكبراً}؛ أي: أدبر إدبار مستكبرٍ عنها رادٍّ لها ولم تدخُلْ قلبَه ولا أثَّرتْ فيه بل أدبر عنها {كأن لم يَسْمَعْها}، بل: {كأنَّ في أذُنَيْه وقراً}؛ أي: صمماً لا تصلُ إليها الأصوات؛ فهذا لا حيلة في هدايتِهِ. {فبشِّرْه}: بشارةً تؤثِّر في قلبه الحزنَ والغمَّ، وفي بشرتِهِ السوء والظُّلمة والغبرة، {بعذابٍ أليم}: مؤلم لقلبِهِ ولبدنِهِ، لا يقادَرُ قدرُهُ، ولا يُدرى بعظيم أمره؛ فهذه بشارةُ أهل الشرِّ؛ فلا نعمتِ البشارةُ.
[7] اس لیے فرمایا:
﴿وَاِذَا تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا ﴾ ’’جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں‘‘ تاکہ وہ ان پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے
﴿وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا ﴾ تو وہ اس طرح پیٹھ پھیر جاتا ہے جیسے ان آیات سے تکبر کرنے اور ان کو ٹھکرانے والا پیٹھ پھیرتا ہے۔ یہ آیات اس کے دل میں داخل ہوتی ہیں نہ اس پر کچھ اثر کرتی ہیں بلکہ وہ ان کو پیٹھ کر کے چل دیتا ہے۔
﴿كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا ﴾ ’’جیسے اس نے ان کو سنا ہی نہ ہو‘‘ بلکہ
﴿كَاَنَّ فِیْۤ اُذُنَیْهِ وَقْ٘رًا ﴾ ’’گویا اس کے کانوں میں گرانی ہو‘‘ اور آواز اس کے کانوں تک پہنچ ہی نہ سکتی ہو، لہٰذا اس کے لیے ہدایت کی کوئی راہ نہیں۔
﴿فَبَشِّرْهُ ﴾ ’’پس اس کو بشارت دے دیجیے۔‘‘ یعنی اسے ایسی بشارت دیں جو اس کے قلب کو حزن و غم سے لبریز کر دے اور اس کے چہرے پر بدحالی، اندھیرا اور گردوغبار چھا جائیں۔
﴿بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’دردناک عذاب کی۔‘‘ جو قلب و بدن کے لیے بہت درد ناک ہے جس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کو جانا جا سکتا ہے۔یہ تو تھی اہل شر کی بشارت اور کتنی بری تھی یہ بشارت۔
#
{8 ـ 9} وأما بشارةُ أهل الخير؛ فقال: {إنَّ الذين آمنوا وعَمِلوا الصالحاتِ}: جمعوا بينَ عبادة الباطن بالإيمان والظاهر بالإسلام والعمل الصالح، {لهم جناتُ النعيم}: بشارةً لهم بما قدَّموه وقِرىً لهم بما أسلفوه {خالدين فيها}؛ أي: في جنات النعيم نعيم القلب والروح والبدن. {وعد الله حقًّا}: لا يمكن أن يُخْلَفَ ولا يغيَّر ولا يتبدَّل. {وهو العزيزُ الحكيم}: كامل العزَّة، كامل الحكمة، من عزَّته وحكمتِهِ، وَفَّق من وَفَّق، وخَذَل بحسب ما اقتضاه علمُه فيهم وحكمتُه.
[8، 9] رہی اہل خیر کی بشارت تو اس کے بارے میں فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾ ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔‘‘ یعنی جنھوں نے عبادت باطن کو ایمان کے ساتھ اور عبادت ظاہر کو اسلام اور عمل صالح کے ساتھ جمع کیا
﴿لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ﴾ ’’ان کے لیے نعمت کے باغ ہیں۔‘‘ انھوں نے جو نیک اعمال پیش کیے ان پر خوش خبری اور جو نیک اعمال پیچھے چھوڑے ان پر مہمان نوازی کے طور پر۔
﴿خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ وہ ان نعمتوں بھری جنتوں میں، جو جسد و روح کے لیے نعمت ہیں، ہمیشہ رہیں گے۔
﴿وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا ﴾ ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ جس کی خلاف ورزی اور جس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں
﴿وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ﴾ وہ کامل غلبہ اور کامل حکمت کا مالک ہے۔ یہ اس کا غلبہ اور حکمت ہے کہ اس نے جسے توفیق سے نوازنا چاہا نواز دیا، جسے اس کے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہونا چاہا الگ ہو گیا اور یہ سب کچھ ان کے بارے میں اس کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے۔
{خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (10) هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (11)}
اس
(اللہ) نے پیدا کیے آسمان بغیر
(ایسے) ستونوں کے کہ دیکھتے ہو تم ان کو اور اس نے گاڑ دیے زمین میں مضبوط
(پہاڑ) تاکہ
(نہ) جھک پڑے وہ تمھیں لے کروہ اور اس نے پھیلائے اس میں ہر قسم کے چوپائے اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی، پھر اگائی ہم نے اس میں
(غلوں کی) ہر قسم عمدہ
(10) یہ مخلوق ہے اللہ کی، پس دکھاؤ تم مجھے کیا ہے وہ جو پیدا کیا ہے ان
(معبودوں) نے جو اس کے سوا ہیں؟بلکہ ظالم ہی صریح گمراہی میں ہیں
(11)
#
{10} يتلو تعالى على عبادِهِ آثاراً من آثار قدرته وبدائعَ من بدائع حكمتِهِ ونعماً من آثار رحمتِهِ، فقال: {خلقَ السمواتِ}: السبع على عظمها وسَعَتها وكثافتها وارتفاعها الهائل {بغير عَمَدٍ تَرَوْنَها}؛ أي: ليس لها عمدٌ، ولو كان لها عَمَدٌ؛ لرؤيتْ، وإنَّما استقرَّتْ، واستمسَكَتْ بقدرة الله تعالى، {وألقى في الأرضِ رواسِيَ}؛ أي: جبالاً عظيمة ركزها في أرجائها وأنحائها لئلاَّ {تميدَ بكم}؛ فلولا الجبالُ الراسياتُ؛ لمادتِ الأرض ولما استقرَّتْ بساكنيها، {وبثَّ فيها من كلِّ دابَّةٍ}؛ أي: نشر في الأرض الواسعة من جميع أصناف الدوابِّ التي هي مسخَّرة لبني آدم ولمصالحهم ومنافعهم، ولمَّا بثَّها في الأرض؛ علم تعالى أنه لا بدَّ لها من رزقٍ تعيشُ به، فأنزل من السماء ماء مباركاً، {فأنبتْنا فيها من كلِّ زوج كريم}: المنظر، نافع، مبارك، فرتعت فيه الدوابُّ المنبثَّة، وسكن إليه كلُّ حيوان.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنی قدرت کے کچھ آثار،
اپنی حکمت کی کچھ انوکھی چیزیں اور اپنی رحمت کے آثار میں سے کچھ نعمتوں کے بارے میں بیان فرماتا ہے: ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ﴾ اس نے ساتوں آسمانوں کو ان کی عظمت، ان کی وسعت، ان کی کثافت اور ان کی ہولناک بلندیوں کے ساتھ پیدا کیا
﴿بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ﴾ ان کو سہارا دینے کے لیے کوئی ستون نہیں۔ اگر کوئی ستون ہوتا تو ضرور نظر آتا۔ آسمان صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔
﴿وَاَلْ٘قٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ ﴾ ’’اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے۔‘‘ یعنی بڑے بڑے پہاڑ، جن کو زمین کے کناروں اور گوشوں میں گاڑ دیا تاکہ زمین
﴿تَمِیْدَ بِكُمْ ﴾ ’’تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔‘‘ اگر یہ مضبوطی سے گاڑے ہوئے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین ڈھلک جاتی اور اپنے بسنے والوں کے ساتھ استقرار نہ پکڑتی۔
﴿وَبَثَّ فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ دَآبَّةٍ ﴾ اس وسیع زمین میں تمام اصناف کے حیوانات پھیلائے جو انسانوں کے مصالح و منافع کے لیے مسخر ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر حیوانات پھیلائے تو اسے معلوم تھا کہ ان حیوانات کے زندہ رہنے کے لیے رزق بہت ضروری ہے اس لیے اس نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا۔
﴿فَاَنْۢبـَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ ﴾ ’’اور زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگادیے۔‘‘یعنی خوش منظر، نفع مند نباتات جن میں زمین کے اندر پھیلے ہوئے حیوانات چرتے ہیں اور ان کے نیچے تمام حیوانات سکون حاصل کرتے ہیں۔
#
{11} {هذا}؛ أي: خَلْقُ العالم العلويِّ والسفليِّ من جماد وحيوانٍ وسوق أرزاق الخلق إليهم، {خَلْقُ الله}: وحدَه لا شريكَ له، كلٌّ مقرٌّ بذلك، حتى أنتم يا معشر المشركين، {فأروني ماذا خَلَقَ الذين من دونِهِ}؛ أي: الذين جَعَلْتُموهم له شركاءَ تدعونهم وتعبدونهم، يلزم على هذا أن يكون لهم خَلْقٌ كخلقِهِ ورزقٌ كرزقِهِ؛ فإنْ كان لهم شيء من ذلك؛ فأرونيه؛ ليصحَّ ما ادَّعيتم فيهم من استحقاق العبادة. ومن المعلوم أنَّهم لا يقدرونَ أن يُروه شيئاً من الخلق لها؛ لأنَّ جميع المذكورات قد أقرُّوا أنَّها خلق الله وحده، ولا ثَمَّ شيءٌ يعلم غيرها، فثبت عجزُهم عن إثبات شيء لها تستحقُّ به أن تُعبد، ولكن عبادتُهم إيَّاها عن غير علم وبصيرةٍ، بل عن جهل وضلال، ولهذا قال: {بل الظالمون في ضلال مبينٍ}؛ أي: جليٍّ واضح؛ حيث عَبَدوا من لا يملكُ نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، وتركوا الإخلاص للخالقِ الرازق المالك لكلِّ الأمور.
[11] ﴿هٰؔذَا ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوق، جمادات و حیوانات اور تمام مخلوقات کے لیے رزق رسانی
﴿خَلْ٘قُ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی تخلیق ہے۔‘‘ جو وحدہ لاشریک ہے، جس کا سب اقرار کرتے ہیں حتیٰ کہ اے مشرکو! تم بھی اقرار کرتے ہو۔
﴿فَاَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾ ’’پس مجھے دکھاؤ کہ اللہ کے سوا جو لوگ ہیں انھوں نے کیا پیدا کیا ہے؟‘‘ یعنی جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے، جن کو تم اپنی حاجتوں میں پکارتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی بھی کوئی تخلیق ہو جیسی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، ان کے یہ خود ساختہ معبود بھی رزق عطا کرتے ہوں جیسے اللہ تعالیٰ رزق رسانی کرتا ہے۔ اگر تمھارے خود ساختہ معبودوں نے ان میں سے کوئی کام کیا ہے تو مجھے بھی دکھاؤ تاکہ تمھارا ان کے بارے میں یہ دعویٰ ثابت ہو کہ وہ عبادت کے مستحق ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں دکھا سکتے جو ان باطل معبودوں کی تخلیق ہو کیونکہ مذکورہ تمام اشیاء کے بارے میں وہ اقرارکر چکے ہیں کہ وہ اللہ وحدہ کی تخلیق کردہ ہیں اور ان اشیاء کے علاوہ وہاں کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ لہٰذا وہ کسی ایسی چیز کو ثابت کرنے سے عاجز ہیں جو عبادت کی مستحق ہو۔ ان کا ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنا کسی علم اور بصیرت پر مبنی نہیں بلکہ جہالت اور گمراہی کی بنا پر ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’بلکہ یہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں۔‘‘ یعنی جو بالکل صاف، ظاہر اور واضح ہے کیونکہ وہ ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی نفع کی مالک ہیں نہ نقصان کی، جن کے قبضۂ قدرت میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں... اور ان لوگوں نے اپنے خالق اور رازق کے لیے اخلاص کو چھوڑ دیا جو تمام امور کا مالک ہے۔
{وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (12) وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (13) وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (14) وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (15) يَابُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (16) يَابُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (17) وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (18) وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (19)}.
اور البتہ تحقیق دی تھی ہم نے لقمان کو حکمت یہ کہ شکر کر تو اللہ کااور جو کوئی شکر کرتا ہے تو یقیناً وہ شکر کرتا ہے اپنی ہی ذات کے لیے، اور جس نے ناشکری کی تو بلاشبہ اللہ بہت بے پروا، قابل تعریف ہے
(12) اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے کو ،جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا، اے میرے بیٹے! نہ شریک ٹھہرا تو ساتھ اللہ کے، بلاشبہ شرک البتہ ظلم ہے بہت بڑا
(13) اور وصیت کی ہم نے انسان کو ساتھ اپنے والدین کے
(نیک سلوک کرنے کی)، اٹھائے رکھا اسے اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کے
(باوجود) اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو سال میں
(اور ) یہ کہ شکر کر تو میرا اور اپنے والدین کا اور میری ہی طرف ہے لوٹنا
(14) اور اگر وہ دونوں مجبور کریں تجھے اس بات پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ اس چیز کو کہ نہیں ہے تجھے اس کا کوئی علم، تو نہ اطاعت کرنا تو ان دونوں کی، اور اچھا سلوک کر تو ان دونوں سے دنیا میں معروف طریقے سے، اور اتباع کر تو اس شخص کے راستے کا جو رجوع کرتا ہے میری طرف، پھر میری ہی طرف واپسی ہے تمھاری پس خبر دوں گا میں تمھیں ا س کی جو تھے تم عمل کرتے
(15) اے میرے بیٹے! بلاشبہ اگر ہو وہ
(عمل) برابر ایک دانے رائی کے ، پھر ہو وہ کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین میں تو لے آئے گا اسے اللہ، بلاشبہ اللہ نہایت باریک بیں، خوب باخبر ہے
(16) اے میرے
(پیارے) بیٹے! قائم کر تو نماز اور حکم کر توساتھ نیکی کے، اور روک تو برے کاموں سے، اور صبر کر تو اوپر اس
(تکلیف) کے جو پہنچے تجھے، بلاشبہ یہ ہے ہمت کے کاموں میں سے
(17) اور نہ تو پھیر اپنا رخ لوگوں سے اور نہ تو چل زمین میں اکڑ کر ، بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا ہرمتکبر، شیخی خور ے کو
(18) اورمیانہ روی اختیار کر تو اپنی چال میں اور پست رکھ تو اپنی آواز بلاشبہ بدترین آوازوں میں سے البتہ آواز ہے گدھے کی
(19)
#
{12} يخبرُ تعالى عن امتنانِهِ على عبدِهِ الفاضل لقمان بالحكمة، وهي العلم بالحقِّ على وجهه وحكمته؛ فهي العلم بالأحكام، ومعرفةُ ما فيها من الأسرار والأحكام؛ فقد يكون الإنسانُ عالماً ولا يكون حكيماً، وأما الحكمة؛ فهي مستلزمةٌ للعلم، بل وللعمل، ولهذا فُسِّرت الحكمةُ بالعلم النافع والعمل الصالح. ولمَّا أعطاه اللَّه هذه المنَّة العظيمة؛ أمره أن يشكره على ما أعطاه؛ ليباركَ له فيه، وليزيدَه من فضله، وأخبره أنَّ شكر الشاكرين يعودُ نفعُه عليهم، وأنَّ من كفر فلم يشكُر اللَّه؛ عاد وبالُ ذلك عليه، والله غنيٌّ عنه حميدٌ فيما يقدِّره ويقضيه على مَنْ خالف أمره؛ فغناه تعالى من لوازم ذاته، وكونُه حميداً في صفات كماله حميداً في جميل صنعه من لوازم ذاته، وكلُّ واحد من الوصفين صفة كمال، واجتماع أحدهما إلى الآخر زيادة كمال إلى كمال.
واختلف المفسرون هل كان لقمانُ نبيًّا أو عبداً صالحاً ، والله تعالى لم يذكُر عنه إلاَّ أنه آتاه الحكمة، وذكر بعضَ ما يدلُّ على حكمته في وعظه لابنه، فذكر أصول الحكمة وقواعدها الكبار، فقال:
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے صاحب فضیلت بندے لقمان پر اپنے احسان و عنایت کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اسے حکمت سے نوازا اور وہ حق اور اس
(اللہ) کی حکمت کا علم ہے۔ یہ احکام کے علم ، ان کے اسرار نہاں اور ان کے اندر موجود دانائی کی معرفت کا نام ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان صاحب علم ہوتا ہے، مگر حکمت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ رہی حکمت، تو یہ علم کو مستلزم ہے بلکہ عمل کو بھی مستلزم ہے بنا بریں حکمت کی علم نافع اور عمل صالح سے تفسیر کی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان پر اپنی بڑی نوازش کی تو ان کو اپنی عطاو بخشش پر شکر کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو برکت دے اور ان کے لیے اپنے فضل و کرم میں اضافہ کرے، نیز آگاہ فرمایا کہ شکر کی منفعت شکر کرنے والوں ہی کی طرف لوٹتی ہے اور جو کوئی شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے، جو کوئی اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے، اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اس کی ذات کا لازمہ ہے، اس کا اپنی صفات کمال اور اپنے خوبصورت کاموں میں قابل ستائش ہونا اس کی ذات کا لازمہ ہے، اس کے ان دونوں اوصاف میں سے ہر وصف،
صفت کمال ہے اور دونوں اوصاف کا مجتمع ہونا گویا کمال کے اندر کمال کا اضافہ ہے۔
اس بارے میں اصحاب تفسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا جناب لقمان نبی تھے یا اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی ان میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر فرمایا جو ان کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ انھوں نے حکمت کے بڑے بڑے قواعد اور اصولوں کا ذکر کیا:
#
{13} {وإذ قال لقمانُ لابنِهِ وهو يَعِظُهُ}؛ أو: قال له قولاً به يعظه، والوعظُ: الأمرُ والنهيُ المقرون بالترغيب والترهيب؛ فأمَرَهُ بالإخلاص ونهاه عن الشرك وبيَّن له السبب في ذلك، فقال: {إنَّ الشركَ لظلمٌ عظيمٌ}: ووجه كونه عظيماً أنَّه لا أفظع وأبشع ممَّن سوَّى المخلوق من تراب بمالك الرقاب، وسوَّى الذي لا يملك من الأمر شيئاً بمالك الأمرِ كلِّه، وسوَّى الناقص الفقير من جميع الوجوه بالربِّ الكامل الغنيِّ من جميع الوجوه، وسوَّى مَن لم يُنْعِمْ بمثقال ذرَّةٍ من النعم، بالذي ما بالخلق من نعمةٍ في دينهم ودنياهم وأخراهم وقلوبهم وأبدانهم إلاَّ منه، ولا يصرف السوء إلاَّ هو؛ فهل أعظم من هذا الظلم شيءٌ؟! وهل أعظمُ ظلماً ممَّن خلقه الله لعبادته وتوحيدِهِ، فذهب بنفسه الشريفة، فجعلها في أخسِّ المراتب، جعلها عابدةً لمن لا يسوى شيئاً، فظلم نفسه ظلماً كبيراً؟!
[13] ﴿وَاِذْ قَالَ لُ٘قْ٘مٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ یَعِظُهٗ﴾ ’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا‘‘ یا انھوں نے اپنے بیٹے کو ایک بات کہی جس کے ذریعے سے انھوں نے اسے امرونہی کی نصیحت کی جو ترغیب و ترہیب سے مقرون تھی۔ پس انھوں نے اپنے بیٹے کو اخلاص کا حکم دیا، اسے شرک سے منع کیا اور ممانعت کا سبب بیان کیا ،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’یقینا شرک ظلم عظیم ہے‘‘ اور اس کے ظلم عظیم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی برا نہیں جو مٹی سے بنی ہوئی مخلوق کو کائنات کے مالک کے مساوی قرار دیتا ہے، وہ اس ناچیز کو جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی اس ہستی کے برابر سمجھتا ہے جو تمام اختیارات کی مالک ہے۔ جو ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہستی کو رب کامل کے برابر مانتا ہے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہے، وہ ایسی ہستی کو جس کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی کسی کو نعمت عطا کر سکے ایسی ہستی کے مساوی قرار دیتا ہے کہ مخلوق کے دین و دنیا، آخرت اور ان کے قلب و بدن میں جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور اس ہستی کے سوا کوئی تکلیف دور نہیں کر سکتا۔ کیا اس سے بھی بڑا کوئی ظلم ہے؟
کیا اس سے بڑا کوئی ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی عبادت اور توحید کے لیے پیدا کیا وہ اپنے شرف کے حامل نفس کو خسیس ترین مرتبے تک گرا دیتا ہے اور اس سے ایسی چیز کی عبادت کراتا ہے جو کچھ بھی نہیں؟ پس وہ اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے۔
#
{14} ولما أمر بالقيام بحقِّه بترك الشرك الذي من لوازمه القيام بالتوحيد؛ أمر بالقيام بحقِّ الوالدين، فقال: {ووصَّيْنا الإنسان}؛ أي: عهدنا إليه وجعلناه وصيةً عنده سنسأله عن القيام بها وهل حَفِظَها أم لا؟ فوصيناه {بوالديه}، وقلنا له: {اشكُرْ لي}: بالقيام بعبوديَّتي وأداء حقوقي وأنْ لا تستعينَ بنعمي على معصيتي {ولوالديك}: بالإحسان إليهما بالقول الليِّن والكلام اللطيف والفعل الجميل والتواضع لهما وإكرامهما وإجلالهما والقيام بمؤونتهما واجتناب الإساءة إليهما من كلِّ وجه بالقول والفعل، فوصيناه بهذه الوصية وأخبرناه أنَّ {إليَّ المصيرُ}؛ أي: سترجع أيُّها الإنسان إلى من وصَّاك وكلَّفك بهذه الحقوق، فيسألك: هل قمتَ بها فيثيبك الثواب الجزيل، أم ضيَّعْتها فيعاقبك العقاب الوبيل؟! ثمَّ ذَكَرَ السببَ الموجبَ لبرِّ الوالدين في الأم، فقال: {حَمَلَتْه أمُّه وهناً على وهنٍ}؛ أي: مشقة على مشقة؛ فلا تزال تلاقي المشاقَّ من حين يكون نطفةً من الوحم والمرض والضعف والثقل وتغير الحال، ثم وجع الولادة ذلك الوجع الشديد، ثم {فصالُهُ في عامينِ}: وهو ملازمٌ لحضانة أمِّه وكفالتها ورضاعها. أفما يحسُنُ بمن تحمَّل على ولده هذه الشدائد مع شدة الحب أن يؤكِّد على ولده، ويوصي إليه بتمام الإحسان إليه؟
[14] جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو قائم کرنے یعنی شرک کو ترک کرنے کا حکم دیا جس کا لازمہ قیام توحید ہے، تو پھر والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ ﴾ ’’اور ہم نے انسان کو تاکید کی ہے۔‘‘ یعنی ہم نے اس سے عہد لیا اور اس عہد کو وصیت بنا دیا کہ ہم عنقریب اس سے پوچھیں گے کہ آیا اس نے اس وصیت کو پورا کیا؟ اور کیا اس نے اس وصیت کی حفاظت کی ہے یا نہیں؟
ہم نے اسے
﴿بِوَالِدَیْهِ ﴾ ’’اس کے والدین کے بارے میں‘‘ وصیت کی اور اس سے کہا:
﴿اشْكُرْ لِیْ ﴾ میری عبودیت کے قیام اور میرے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے سے میرا شکر ادا کر اور میری نعمتوں کو میری نافرمانی میں استعمال نہ کر۔
﴿وَلِوَالِدَیْكَ ﴾ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک، یعنی نرم و لطیف قول، فعل جمیل، ان کے سامنے تواضع و انکسار، ان کے اکرام و اجلال، ان کی ذمہ داریوں کو اٹھانے، ان کے ساتھ قول و فعل اور ہر لحاظ سے برے سلوک سے اجتناب کرنے کے ذریعے سے ان کا شکر ادا کر۔ ہم نے اسے یہ وصیت کرنے کے بعد آگاہ کیا
﴿اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ﴾ کہ اے انسان! عنقریب تجھے اس ہستی کی طرف لوٹنا ہے جس نے تجھے وصیت کر کے ان حقوق کی ادائیگی کا مکلف بنایا ہے۔ وہ ہستی تجھ سے پوچھے گی: ’’کیا تو نے اس وصیت کو پورا کیا کہ وہ تجھے اس پر ثواب عطا کرے یا تو نے اس وصیت کو ضائع کر دیا تاکہ تجھے بدترین سزا دے؟‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بعد اس سبب کا ذکر فرمایا جو ماں کے ساتھ حسن سلوک کا موجب ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ ﴾ ’’اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف برداشت کرکے اسے
(پیٹ میں) اٹھائے رکھا۔‘‘ یعنی نہایت مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھا۔ وہ استقرار نطفہ ہی سے مشقتوں کا سامنا کرتی رہتی ہے،
مثلاً: بعض چیزوں کے کھانے کو جی چاہنا، بیماری، کمزوری، حمل کا بوجھ، حالت میں تغیر اور پھر وضع حمل کے وقت سخت تکلیف کا سامنا کرنا
﴿وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ ﴾ ’’اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا۔‘‘ یعنی وہ اپنی ماں کی پرورش، کفالت اور رضاعت کا محتاج ہوتا ہے۔ کیا اس ہستی کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا جائے جو شدید محبت کے ساتھ اپنے بچے کی خاطر یہ سختیاں برداشت کرتی ہے اور اس کے بیٹے کو اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور وصیت نہ کی جائے؟
#
{15} {وإن جاهداك}؛ أي: اجتهد والداك {على أن تشرِكَ بي ما ليس لك به علمٌ فلا تُطِعْهُما}: ولا تظنَّ أنَّ هذا داخل في الإحسان إليهما؛ لأنَّ حق الله مقدَّم على حقِّ كل أحدٍ، ولا طاعة لمخلوقٍ في معصية الخالق، ولم يقلْ: وإنْ جاهداك على أن تُشْرِكَ بي ما ليس لك به علمٌ؛ فعقَّهما، بل قال: {فلا تُطِعْهُما}؛ أي: في الشرك ، وأمَّا برُّهما؛ فاستمرَّ عليه، ولهذا قال: {وصاحِبْهُما في الدُّنيا معروفاً}؛ أي: صحبة إحسان إليهما بالمعروف، وأما اتِّباعُهما وهما بحالة الكفر والمعاصي؛ فلا تتَّبِعْهما، {واتَّبِعْ سبيلَ مَنْ أناب إليَّ}: وهم المؤمنون بالله وملائكته وكتبه ورسله، المستسلمون لربِّهم، المنيبون إليه، واتِّباع سبيلهم أن يَسْلُكَ مسلَكَهم في الإنابة إلى الله، التي هي انجذابُ دواعي القلب وإراداته إلى الله، ثم يتبَعُها سعي البدن فيما يرضي الله ويقرِّبُ منه، {ثمَّ إليَّ مرجِعُكم}: الطائع والعاصي والمنيب وغيره، {فأنِبِّئُكُم بما كنتُم تعملونَ}: فلا يخفى على اللَّه من أعمالهم خافيةٌ.
[15] ﴿وَاِنْ جَاهَدٰؔكَ ﴾ اگر تیرے والدین کوشش کریں
﴿عَلٰۤى اَنْ تُ٘شْرِكَ بِیْ مَا لَ٘یْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا ﴾ ’’اس چیز کی کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر۔‘‘ تو یہ نہ سمجھ کہ شرک کے بارے میں ان کی اطاعت کرنا بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہر ایک کے حقوق پر مقدم ہے۔ رسول e نے فرمایا: ’لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ، ’’خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني: 170/18، ح: 381، و شرح السنة للبغوي: 44/10)
یہاں
(ایک قابل غور نکتہ ہے ) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:
(وَإِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی أَنْ تُشْرِکَ بِي مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَعُقَّھُمَا) ’’اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی کر‘‘ بلکہ فرمایا:
﴿فَلَا تُطِعْهُمَا ﴾ یعنی تو شرک میں ان کی اطاعت نہ کر۔ باقی رہا ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا تو اس پر قائم رہ،
اس لیے فرمایا: ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ﴾ ’’اور دنیا
(کے معاملات) میں ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ رہ۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آ اور اگر وہ حالت کفر و عصیان پرہیں تو پھر ان کی پیروی نہ کر۔
﴿وَّاتَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ﴾ ’’اور اس شخص کی راہ کی اتباع کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اوراس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ان کے راستے کی پیروی یہ ہے کہ انابت الی اللہ میں ان کے مسلک پر چلا جائے۔ انابت سے مراد یہ ہے کہ قلب کے داعیوں اور ارادوں کا اللہ تعالیٰ کی مرضی کی طرف مائل ہونا اور اس کے قریب ہونا، پھر ان کا ارادوں کی پیروی کرنا۔
﴿ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ﴾ ’’پھر میری طرف تمھارا لوٹنا ہے۔‘‘ اطاعت گزار، نافرمان اور صاحب انابت سب میری طرف لوٹیں گے
﴿فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تو تم جو کام کرتے ہو میں ان کے بارے میں تمھیں آگاہ کروں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں۔
#
{16} {يا بنيَّ إنَّها إن تَكُ مثقالَ حبةٍ من خردلٍ}: التي هي أصغرُ الأشياء وأحقرُها {فتكن في صخرةٍ}؛ أي: في وسطها، {أو في السمواتِ أو في الأرض}: في أيِّ جهة من جهاتهما؛ {يأتِ بها اللهُ}: لسعةِ علمِهِ وتمامِ خبرتِهِ وكمال قدرتِهِ، ولهذا قال: {إنَّ الله لطيفٌ خبيرٌ}؛ أي: لطف في علمه وخبرته، حتى اطَّلع على البواطن والأسرار وخفايا القفار والبحار. والمقصودُ من هذا الحثُّ على مراقبة الله والعمل بطاعته مهما أمكن، والترهيبُ من عمل القبيح قلَّ أو كَثُرَ.
[16] ﴿یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ﴾ ’’اے میرے بیٹے! بلاشبہ اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو‘‘ جو سب سے چھوٹی اور حقیر ترین چیز ہے
﴿فَتَكُ٘نْ فِیْ صَخْرَةٍ ﴾ ’’اور وہ کسی پتھر کے اندر ہو۔‘‘ یعنی چٹان کے درمیان
﴿اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’یا آسمان یا زمین کے اندر ہو‘‘ یعنی زمین وآسمان کی کسی بھی جہت میں ہو
﴿یَ٘اْتِ بِهَا اللّٰهُ ﴾ اللہ تعالیٰ اپنے علم وسیع، خبر تام اور قدرت کامل کے ذریعے سے اسے لے آئے گا،
اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے علم اور اپنی خبر میں بہت باریک بین ہے حتیٰ کہ وہ باطنی امور اور اسرار نہاں، بیابانوں اور سمندروں میں چھپی ہوئی چیزوں کی بھی خبر رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے جہاں تک ممکن ہو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے اور اس کی اطاعت کرنے کی ترغیب اور قبیح امور سے، خواہ کم ہوں یا زیادہ، ترہیب مقصود ہے۔
#
{17} {يا بنيَّ أقِمِ الصَّلاة}: حثَّه عليها وخصَّها لأنَّها أكبرُ العبادات البدنيَّة، {وأمُرْ بالمعروفِ وانْهَ عن المنكرِ}: وذلك يستلزم العلم بالمعروف؛ ليأمر به، والعلم بالمنكر؛ لينهى عنه، والأمر بما لا يتمُّ الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر إلاَّ به، من الرفق والصبر، وقد صرَّح به في قوله: {واصْبِرْ على ما أصابك}: ومن كونه فاعلاً لما يأمر به، كافًّا لما يُنهى عنه، فتضمَّن هذا تكميلَ نفسه بفعل الخير وترك الشر، وتكميلَ غيره بذلك بأمره ونهيه. ولمَّا عُلِمَ أنَّه لا بدَّ أن يُبتلى إذا أمر ونهى وأنَّ في الأمر والنهي مشقَّة على النفوس؛ أمره بالصبر على ذلك، فقال: {واصبِرْ على ما أصابَكَ إنَّ ذلك}: الذي وَعَظَ به لقمانُ ابنَه {من عزم الأمورِ}؛ أي: من الأمور التي يُعْزَمُ عليها، ويهتمُّ بها، ولا يوفَّق لها إلا أهلُ العزائم.
[17] ﴿یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ﴾ ’’اے بیٹے! نماز کی پابندی کر‘‘ آپ نے اسے نماز کی ترغیب دی اور نماز کو اس لیے مختص کیا کہ یہ سب سے بڑی بدنی عبادت ہے۔
﴿وَاْمُرْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور نیک کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کر۔‘‘ یہ حکم اوامر و نواہی کی معرفت کو مستلزم ہے تاکہ معروف کا حکم دیا جائے اور نواہی سے روکا جائے، نیز یہ ایسے امر کا حکم ہے جس کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل ممکن نہیں،
مثلاً: نرمی اور صبر وغیرہ۔ اگلے جملے میں صراحت کے ساتھ فرمایا:
﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ ﴾ ’’اور اس تکلیف پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔‘‘
یہ آیات کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نیکی پر عمل کر کے اور برائی کو ترک کر کے خود اپنی ذات کی تکمیل کی جائے ، پھر نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے روک کر دوسروں کی تکمیل کی جائے۔ چونکہ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ جب بندہ نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا تو لامحالہ اسے آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا نیز اس راستے میں نفس کو مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے اس لیے اس کو اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا، بے شک یہ بات‘‘ جس کی لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ہے
﴿مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ ایسے امور میں سے ہے جن کا عزم کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے اور صرف اولوالعزم لوگوں کو اس کی توفیق عطا ہوتی ہے۔
#
{18} {ولا تُصَعِّرْ خدَّك للناس}؛ أي: لا تُمِلْهُ وتعبسْ بوجهك للناس تكبُّراً عليهم وتعاظماً، {ولا تَمْشِ في الأرض مَرَحاً}؛ أي: بَطِراً فخراً بالنعم ناسياً المنعِم معجباً بنفسك. {إنَّ الله لا يحبُّ كلَّ مختالٍ}: في نفسه وهيئته وتعاظُمه {فخورٍ}: بقوله.
[18] ﴿وَلَا تُ٘صَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ﴾ اور تو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے تکبر کے ساتھ، لوگوں سے منہ نہ پھیر
﴿وَلَا تَ٘مْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ﴾ اور انعام کرنے والی ہستی کو فراموش کر کے، اس کی نعمتوں پر فخر کرتے ہوئے خود پسندی کے ساتھ اتراتا ہوا زمین پر مت چل
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُ٘لَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾ ’’یقینا اللہ کسی خود پسند سے محبت نہیں کرتا‘‘ جو اپنے آپ میں، اپنی ہیئت میں تکبر کرتا ہے۔
﴿فَخُوْرٍ ﴾ یعنی جو اپنی باتوں میں فخر کا اظہار کرتا ہے۔
#
{19} {واقصِدْ في مشيِكَ}؛ أي: امش متواضعاً مستكيناً لا مشي البطر والتكبُّر ولا مشي التماوت، {واغْضُضْ من صوتِكَ}: أدباً مع الناس ومع الله، {إنَّ أنكر الأصواتِ}؛ أي: أفظعها وأبشعها {لصوتُ الحميرِ}: فلو كان في رفع الصوت البليغ فائدةٌ ومصلحةٌ؛ لما اختصَّ بذلك الحمار الذي قد عُلِمْتَ خسَّتَه وبلادَتَه.
[19] ﴿وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ ﴾ ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر۔‘‘ تکبر اور اتراہٹ کی چال چل نہ بناوٹ کی، بلکہ تواضع اور انکسار کے ساتھ چل۔
﴿وَاغْ٘ضُ٘ضْ مِنْ صَوْتِكَ ﴾ اللہ تعالیٰ کے حضور لوگوں کے ساتھ ادب کے طور پر اپنی آواز کو دھیما رکھ۔
﴿اِنَّ اَنْؔكَرَ الْاَصْوَاتِ ﴾ یعنی بدترین اور قبیح ترین آواز
﴿لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ﴾ ’’گدھوں کی آواز ہے۔‘‘ اگر بہت زیادہ بلند آواز میں کوئی مصلحت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو گدھے کے ساتھ مختص نہ کرتا جس کی خساست اور کم عقلی مسلّم ہے۔
یہ وصیتیں، جو جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کی ہیں، حکمت کی بڑی بڑی باتوں کی جامع ہیں اور ان باتوں کو بھی مستلزم ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ ہر وصیت کے ساتھ ایک داعیہ مقرون ہے جو امر کی صورت میں اس پر عمل کی دعوت دیتا ہے اور اگر معاملہ نہی کا ہے تو اس پر عمل سے روکتا ہے اور یہ چیز ہماری اس تفسیر پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ’’حکمت‘‘ کے ضمن میں بیان کی ہے کہ یہ احکام، ان کی حکمتوں اور ان کی مناسبات کا نام ہے۔
لقمان نے اپنے بیٹے کو دین کی بنیاد یعنی توحید کا حکم دیا اور شرک سے منع کیا اور ترک شرک کے موجبات کو بیان کیا۔ جناب لقمان نے ا پنے بیٹے کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے موجبات کو بھی واضح کیا ، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر گزار ہو۔ پھر واضح کیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حکم کی اطاعت کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہیں دیتے۔ بایں ہمہ ان کے ساتھ مخالفت اور عدم شفقت کا رویہ نہ رکھے، بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جب وہ اسے شرک پر مجبور کریں تو وہ ان کی اطاعت نہ کرے مگر اس صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کو ترک نہ کرے۔
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے مراقبے کا حکم دیا اور اسے خوف دلایا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی نیکی اور بدی اس کے حضور پیش ہو گی۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر سے روکا، اسے تواضع اور انکسار کا حکم دیا، اسے خوشی میں اترانے اور اکڑنے سے منع کیا، اسے اپنی حرکات اور آواز میں سکون اور دھیما پن اختیارکرنے کا حکم دیا اور اس کے متضاد رویے سے روکا، اسے ترغیب دی کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے نیز نماز قائم کرنے اور صبر کرنے کا حکم دیا، جن کی مدد سے ہر کام آسان ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰ٘وةِ ﴾ (البقرۃ:2؍45) ’’اور صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔‘‘
جس شخص نے ان باتوں کی وصیت کی ہو وہ اس امر کا حق دار ہے کہ وہ حکمت و دانائی کے لیے مخصوص اور مشہور ہو، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ اس نے ان کے سامنے اس کی حکمت کا ذکر کیا جو ان کے لیے اچھا نمونہ بن سکے۔
{أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (20) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ (21)}
کیا نہیں دیکھا تم نے کہ بے شک اللہ نے کام میں لگا دیا ہے تمھارے لیے
(ان سب کو) جو کچھ ہے آسمانوں میں اورجو کچھ ہے زمین میں اورپوری کر دیں اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اورچھپی اور بعض لوگ وہ ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی کتاب روشن کے
(20) اور جب کہا جاتا ہے ان سے،
تم پیروی کرو اس کی جسے نازل کیا اللہ نے تو وہ کہتے ہیں: ہم تو پیروی کریں گے اسی
(راستے) کی کہ پایا ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو، کیا
(پیروی کر یں گے انھی کی) اگرچہ تھا شیطان بلاتا رہا ان کو طرف عذاب جہنم کی؟
(21)
#
{20 ـ 21} يمتنُّ تعالى على عباده بنعمِهِ، ويدعوهم إلى شكرها ورؤيتها وعدم الغفلة عنها، فقال: {ألم تروا}؛ أي: تشاهدوا وتُبصروا بأبصاركم وقلوبكم، {أنَّ الله سخَّر لكم ما في السمواتِ}: من الشمس والقمر والنُّجوم كلِّها مسخرات لنفع العباد، {وما في الأرض}: من الحيوانات والأشجار والزُّروع والأنهار والمعادن ونحوها؛ كما قال تعالى: {هو الذي خَلَقَ لكم ما في الأرض جميعاً}، {وأسبغَ عليكم}؛ أي: عمَّكم وغمركم نعمَه الظاهرةَ والباطنةَ؛ التي نعلم بها والتي تخفى علينا؛ نعم الدنيا ونعم الدين، حصول المنافع ودفع المضار؛ فوظيفتُكم أن تقوموا بشكرِ هذه النعم بمحبَّة المنعم والخضوع له وصرفها في الاستعانة على طاعتِهِ وأنْ لا يُستعان بشيء منها على معصيته. {و} لكن مع توالي هذه النعم {مِنَ الناس مَن}: لم يَشْكُرْها، بل كَفَرها، وكفر بمنْ أنعم بها، وجحدَ الحقَّ الذي أنزل به كتبه، وأرسل به رسله، فجعل {يجادِلُ في الله}؛ أي: يجادل عن الباطل ليدحضَ به الحقَّ، ويدفع به ما جاء به الرسول من الأمر بعبادةِ الله وحده، وهذا المجادلُ على غير بصيرة؛ فليس جدالُه عن علم؛ فيترك وشأنه، ويسمح له في الكلام. {ولا هدىً}: يقتدي به بالمهتدين {ولا كتابٍ منيرٍ}؛ أي: نيِّر مبين للحق؛ فلا معقول ولا منقول ولا اقتداء بالمهتدين، وإنما جداله في الله مبنيٌّ على تقليد آباءٍ غير مهتدين، بل ضالِّين مضلِّين، ولهذا قال: {وإذا قيلَ لهم اتَّبِعوا ما أنزلَ الله}: على أيدي رسله؛ فإنَّه الحقُّ، وبُيِّنَتْ لهم أدلتُه الظاهرة، {قالوا} معارضينَ ذلك: {بل نتَّبِعُ ما وَجَدْنا عليه آباءنا}: فلا نترك ما وجدنا عليه آباءنا لقول أحدٍ كائناً مَن كان. قال تعالى في الردِّ عليهم وعلى آبائهم: {أوَلَوْ كان الشيطانُ يدعوهم إلى عذابِ السعير}؛ أي: فاستجاب له آباؤهم، ومشوا خلفه، وصاروا من تلاميذ الشيطان، واستولت عليهم الحيرة؛ فهل هذا موجب لاتِّباعهم لهم ومشيهم على طريقتهم؟! أم ذلك يرهِبُهم من سلوك سبيلهم، وينادي على ضلالهم وضلال من تبعهم؟! وليس دعوة الشيطان لآبائهم ولهم محبة لهم ومودة، وإنَّما ذلك عداوةٌ لهم ومكرٌ لهم، وبالحقيقة أتباعه من أعدائِهِ الذين تمكَّن منهم، وظَفِرَ بهم، وقرَّتْ عينُه باستحقاقهم عذابَ السعير بقَبول دعوته.
[20، 21] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور انھیں ان نعمتوں پر شکر کرنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان سے عدم غفلت کا حکم دیتا ہے ،
چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَمْ تَرَوْا ﴾ کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا؟ کیا تم نے اپنی ظاہری اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی؟
﴿اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ ﴾ کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے
(سورج، چاند اور ستاروں میں سے) جو کچھ آسمان میں ہے، اسے تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے۔‘‘ یہ سب بندوں کے فائدے کے لیے مسخر ہیں۔
﴿وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘ یعنی تمام حیوانات، درخت، کھیتیاں،
دریا اور معدنیات وغیرہ کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ﴾ (البقرۃ:2؍29) ’’وہی تو ہے جس نے زمین کی سب چیزیں تمھارے لیے پیدا کیں۔‘‘
﴿وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ ﴾ اور جس نے تمھیں دین و دنیا کی نعمتوں، بہت سی منفعتوں کے حصول اور مضرتوں سے دور ہونے جیسی وافر، ظاہری اور باطنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا ہے۔ ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں جانتے۔
تمھارا وظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ تم منعم کی محبت کے ساتھ اور اس کے سامنے سرافگندہ ہو کر ان نعمتوں پر شکر کا اظہار کرو، ان نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرو اور ان نعمتوں سے ان کی نافرمانی پر مدد نہ لو۔
﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ ان نعمتوں کے پے درپے عطا ہونے کے باوجود
﴿مِنَ النَّاسِ مَنْ ﴾ ’’لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہے جو‘‘ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں پر ناشکری کرتا ہے۔ اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے اسے ان نعمتوں سے نوازا اور اس نے اس کے اس حق کو تسلیم نہ کیا جس کے لیے اس نے کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے۔
﴿یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ ﴾ اور اس نے باطل دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جھگڑنا شروع کیا تاکہ حق کو نیچا دکھائے اور اس دعوت کو جسے رسول لے کر آیا ہے، یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت کو ٹھکرا دے اور یہ جھگڑنے والا شخص
﴿بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ کسی علم اور کسی بصیرت کے بغیر جھگڑتا ہے۔ پس اس کا جھگڑا کسی علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ بات چیت میں نرمی کی جائے
﴿وَّلَا هُدًى ﴾ اور نہ کسی ہدایت پر مبنی ہے، جس کی بنا پر ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے
﴿وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ﴾ اور نہ اس کا مجادلہ کسی روشن اور حق کو واضح کرنے والی کسی کتاب پر مبنی ہے۔ پس اس کا مجادلہ کسی معقول یا منقول دلیل پر مبنی ہے نہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اقتدا پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کی بحث و جدال تو صرف اپنے ان آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو کسی طرح بھی راہ راست پر نہ تھے، بلکہ خود گمراہ اور گمراہ کنندہ تھے۔
﴿وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی اتباع کرو۔‘‘ یعنی جو کچھ اس نے رسولوں کے ذریعے سے نازل فرمایا ہے کیونکہ یہی حق ہے اور ان کے سامنے اس کے ظاہری دلائل بیان کیے ہیں
﴿قَالُوْا ﴾ تو وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
﴿بَلْ نَ٘تَّ٘بِـعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا ﴾ ’’بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔‘‘ یعنی ہم کسی کی خاطر، خواہ وہ کوئی بھی ہو،
ان عقائد و نظریات کو نہیں چھوڑ سکتے جن پر ہمارے باپ دادا عمل پیرا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان کے باپ دادا کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَوَلَوْ كَانَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ یَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ ﴾ ’’خواہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔‘‘ یعنی ان کے آباء و اجداد نے شیطان کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے پیچھے چل پڑے اور یوں وہ شیطان کے چیلوں میں شامل ہو گئے اور ان پر حیرت و تردد نے غلبہ پا لیا۔ کیا یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ ان کی پیروی کی جائے اور ان کے طریقے پر چلا جائے یا یہ چیز ان کو ان کے آباء و اجداد کے مسلک پر چلنے سے ڈراتی ہے اور ان کی اور ان کے پیروکاروں کی گمراہی کا اعلان کرتی ہے؟ ان کے آباء واجداد کے لیے شیطان کی دعوت کسی محبت اور مودت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ تو ان کے ساتھ عداوت اور فریب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیروکار اس کے دشمن ہیں جن پر قابو پانے میں وہ کامیاب ہوا ہے۔ جب لوگ اس کی دعوت کو قبول کر کے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے مستحق بنتے ہیں تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
{وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22) وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (23) نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ (24)}
اور جو جھکا دے اپنا چہرہ طرف اللہ کی، جبکہ وہ نیکوکار ہو تو تحقیق پکڑ لیا اس نے کڑا مضبوط، اور اللہ ہی کی طرف ہے انجام سب کاموں کا
(22) اور جس نے کفر کیا تو نہ غم میں ڈالے آپ کو کفر اس کا، ہماری ہی طرف ہے ان کا لوٹ کر آنا، پس ہم خبر دیں گے ان کو
(اس کی) جو کچھ انھوں نے کیا ہوگا، بے شک اللہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے
(23) فائدہ دیتے ہیں ہم ان کو تھوڑا سا ، پھر دھکیل دیں گے ہم ان کو طرف سخت عذاب کی
(24)
#
{22} {ومَن يسلمْ وجهَه إلى الله}؛ أي: يخضعُ له وينقادُ له بفعل الشرائع مخلصاً له دينَه، {وهو محسنٌ}: في ذلك الإسلام؛ بأن كان عملُه مشروعاً، قد اتَّبع فيه الرسولَ صلّى الله عليه وسلّم، أو: ومن يسلمْ وجهَه إلى الله بفعل جميع العباداتِ وهو محسنٌ فيها؛ بأن يعبدَ الله كأنَّه يراه؛ فإنْ لم يكنْ يراه؛ فإنَّه يراه. أو: ومَنْ يسلمْ وجهَه إلى الله بالقيام بحقوقه، وهو محسن إلى عباد الله، قائم بحقوقهم، والمعاني متلازمةٌ، لا فرق بينها إلاَّ من جهة اختلاف مورد اللفظتين، وإلاَّ؛ فكلُّها متفقة على القيام بجميع شرائع الدين على وجه تُقبل به وتَكْمل؛ فمن فعل ذلك؛ {فقد استمسكَ بالعروةِ الوُثقى}؛ أي: بالعروة التي مَنْ تمسَّكَ بها؛ توثَّق ونجا وسلم من الهلاك وفاز بكلِّ خير، ومَنْ لم يُسلم وجهه لله، أو: لم يحسِنْ؛ لم يستمسك بالعروة الوثقى، وإذا لم يستمسكْ [بالعروة الوثقى]؛ لم يكنْ ثَمَّ إلاَّ الهلاك والبوار. {وإلى الله عاقبةُ الأمور}؛ أي: رجوعُها وموئلُها ومنتهاها، فيحكم في عباده ويجازيهم بما آلتْ إليه أعمالُهم، ووصلت إليه عواقِبُهم، فليستعدُّوا لذلك الأمر.
[22] ﴿وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے
﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ ﴾ تو وہ اسلام میں محسن ہے کیونکہ اس کا عمل شرعی ہے اور وہ اس میں رسول eکی اتباع کرتا ہے، یا اس کا معنی یہ ہے کہ جو کوئی عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور وہ اپنی عبادات کو احسان کے درجہ تک لے جاتا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تو وہ اس طرح عبادت کرتا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حقوق قائم کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے… تینوں معانی میں تلازم پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے اس پہلو سے کہ دونوں لفظوں کے مورد میں اختلاف ہے ورنہ قبول کرنے اور تکمیل کے لحاظ سے، تمام معانی، دین کے تمام قوانین اور اصولوں کو قائم کرنے پر متفق ہیں۔
جو کوئی ان امور پر عمل پیرا ہوا تو
﴿اسْتَمْسَكَ بِالْ٘عُرْوَةِ الْوُثْ٘قٰى ﴾ ’’اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا۔‘‘ یعنی جس نے وہ سہارا تھام لیا جو بھروسے کے قابل تھا، وہ نجات پاگیا اور ہلاکت سے بچ گیا اور ہر بھلائی سے بہرہ ور ہوا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا یا اس نے ’’احسان‘‘ سے کام نہ لیا تو اس نے بھروسے کے قابل سہارے کو نہ تھاما اور جب اس نے اس قابل اعتماد سہارے کو نہ تھاما تو وہاں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
﴿وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ﴾ اورتمام معاملات کا مرجع و منتہا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا وہ ان کے اعمال کے تقاضوں اور ان کے انجام کے مطابق ان کو جزا وسزا دے گا، لہٰذا اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
#
{23} {ومَن كَفَرَ فلا يَحْزُنكَ كفرُه}: لأنَّك أدَّيت ما عليك من الدَّعوة والبلاغ؛ فإذا لم يهتدِ ؛ فقد وجب أجرُك على الله، ولم يبقَ للحزن موضعٌ على عدم اهتدائِهِ؛ لأنَّه لو كان فيه خيرٌ؛ لهداه الله، ولا تحزنْ أيضاً على كونهم تجرؤوا عليك بالعداوة، ونابذوك المحاربة، واستمرُّوا على غيِّهم وكفرِهم، ولا تتحرَّقْ عليهم بسبب أنَّهم ما بودروا بالعذاب، إنَّ {إلينا مرجِعُهم فننبِّئُهم بما عملوا}: من كفرِهم وعداوتِهم وسعيِهم في إطفاءِ نورِ الله وأذى رسله. إنه {عليمٌ بذات الصُّدور}: التي ما نطق بها الناطقون؛ فكيف بما ظهر وكان شهادة؟!
[23] ﴿وَمَنْ كَفَرَ فَلَا یَحْزُنْكَ كُفْرُهٗ﴾ ’’اور جو کفر کرے تو اس کا کفر تمھیں غمگین نہ کردے‘‘ کیونکہ آپ کے ذمہ دعوت توحید اور تبلیغ کا جو فرض تھا وہ آپ نے ادا کر دیا اگر کوئی راہ راست اختیار نہیں کرتا،
(تو نہ سہی) اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ اجر کے مستحق ہو گئے ، لہٰذا ان کے راہ راست اختیار نہ کرنے پر، آپ کے لیے حزن و غم کا کوئی مقام نہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت سے نواز دیتا۔ آپ اس بات پر بھی غم زدہ نہ ہوں کہ انھوں نے آپ کے ساتھ عداوت کی جسارت کی اور آپ کے خلاف اعلان جنگ کیا، وہ اپنی گمراہی اور کفر پر جمے رہے نیز آپ کو اس بارے میں بھی غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان پر اس دنیا ہی میں عذاب بھیج دیا گیا۔
﴿اِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ﴾ ’’ان کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر جو کام وہ کیا کرتے تھے ہم ان کو بتا دیں گے۔‘‘ ہم انھیں ان کے کفر، عداوت، اللہ کی روشنی کو بجھانے کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کرنے اور اس کے رسولوں کو اذیت پہنچانے کے بارے میں آگاہ کریں گے۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ سینے کے اسرار نہاں کو بھی جانتا ہے‘‘ جن کے بارے میں کبھی کسی نے بات نہیں کی تب ان معاملات کو کیسے نہیں جانے گاجو ظاہر اور سب کے سامنے ہیں؟
#
{24} {نمتِّعُهم قليلاً}: في الدنيا؛ ليزداد إثمهُم ويتوفَّر عذابُهم. {ثم نضطرُّهم}؛ أي: نلجِئُهم {إلى عذابٍ غليظٍ}؛ أي: انتهى في عظمِهِ وكبرِهِ وفظاعتِهِ وألمه وشدَّته.
[24] ﴿نُمَتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ﴾ ’’ہم انھیں تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کی مہلت دیتے ہیں‘‘ اس دنیا میں تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور یوں ان کے عذاب میں اضافہ ہو جائے۔
﴿ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ ﴾ ’’ پھر ہم انھیں جبراً کھینچ لائیں گے‘‘
﴿اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ ﴾ ’’ایک سخت عذاب کی طرف۔‘‘ یعنی وہ عذاب جو اپنی سختی، بہت بڑا ہونے، اپنی قباحت، اپنی الم ناکی اور اپنی شدت میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (25) لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (26) وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (27) مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (28)}
اور البتہ اگرپوچھیں آپ ان سے، کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو؟
تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے ،
کہہ دیجیے: سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ اکثر ان کے نہیں جانتے
(25) اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بے شک اللہ، وہ بے نیاز ہے تعریف کے لائق
(26) اور اگر بے شک جو کچھ زمین میں ہیں درختوں سے
(وہ) قلمیں ہو جائیں اور سمندر
(سیاہی) زیادہ کریں اس
(سیاہی) کو اس کےبعد سات سمندر
(اور) تو بھی نہ ختم ہوں کلمات اللہ کے، بے شک اللہ نہایت غالب، خوب حکمت والا ہے
(27) نہیں ہے پیدا کرنا تمھارا اور نہ دوبارہ اٹھانا تمھارا، مگر مانند ایک جان کے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے
(28)
#
{25} أي: {ولئن} سألتَ هؤلاء المشركين المكذِّبين بالحقِّ: {مَنْ خَلَقَ السمواتِ والأرضَ}: لعلموا أنَّ أصنامهم ما خلقتْ شيئاً من ذلك، ولبادروا بقولهم: {اللهُ}: الذي خلقهما وحدَه، فَـ {قُلْ} لهم ملزماً لهم ومحتجًّا عليهم بما أقرُّوا به على ما أنكروا: {الحمدُ لله}: الذي بيَّن النور وأظهر الاستدلال عليكم من أنفسكم؛ فلو كانوا يعلمون؛ لجزموا أنَّ المنفرد بالخَلْق والتدبير هو الذي يُفْرَدُ بالعبادة والتوحيد، ولكن {أكثرَهم لا يعلمونَ}: فلذلك أشركوا به غيره، ورَضُوا بتناقُض ما ذهبوا إليه على وجه الحيرة والشكِّ لا على وجهِ البصيرةِ.
[25] اگر آپ حق کو جھٹلانے والے ان مشرکین سے پوچھیں:
﴿مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟‘‘ تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ ان کے بتوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور وہ بول اٹھتے کہ اللہ اکیلے نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے
﴿قُ٘لِ ﴾ ان کو الزامی جواب دیتے اور ان کے اس اقرار کو ان کے انکار کے خلاف حجت بناتے ہوئے کہہ دیجیے!
﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ ﴾ ’’ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے‘‘ جس نے نور کو واضح کر دیا اور خود تمھاری ہی طرف سے دلیل کو ظاہر کر دیا۔ اگر وہ جانتے ہوتے تو انھیں یقین ہوتا کہ وہ ہستی جو کائنات کی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے وہ استحقاق عبادت اور توحید میں بھی متفرد ہے لیکن
﴿اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ان میں اکثر نہیں جانتے۔‘‘ اسی لیے انھوں نے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرایا، بصیرت کی بنا پر نہیں بلکہ حیرت اور شک کی بنا پر وہ اپنے مذہب کے تناقض پر راضی ہو گئے۔
#
{26} ثم ذكر في هاتين الآيتين نموذجاً من سعة أوصافه؛ ليدعو عباده إلى معرفته ومحبَّته وإخلاص الدين له، فذكر عموم ملكه، وأنَّ جميع ما في السماواتِ والأرض، وهذا شاملٌ لجميع العالم العلويِّ والسفليِّ؛ أنَّه ملكه، يتصرَّف فيهم بأحكام المُلك القدريَّة وأحكامه الأمريَّة وأحكامه الجزائيَّة؛ فكلُّهم عبيدٌ مماليكُ مدبَّرون مسخَّرون، ليس لهم من الملك شيءٌ، وأنَّه واسع الغنى؛ فلا يحتاجُ إلى ما يحتاجُ إليه أحدٌ من الخلق، {ما أريدُ منهم من رزقٍ وما أريد أن يُطْعِمونِ}، وأنَّ أعمال النبيِّين والصدِّيقين والشهداء والصالحين لا تنفعُ اللهَ شيئاً، وإنما تنفع عامليها، والله غنيٌّ عنهم وعن أعمالهم، ومن غناه أنْ أغناهم وأقناهم في دنياهم وأخراهم.
ثم أخبر تعالى عن سَعَةِ حمدِهِ، وأنَّ حمدَه من لوازم ذاتِهِ؛ فلا يكون إلاَّ حميداً من جميع الوجوه؛ فهو حميدٌ في ذاته، وهو حميدٌ في صفاته؛ فكلُّ صفة من صفاته يستحقُّ عليها أكملَ حمدٍ وأتمَّه؛ لكونها صفاتِ عظمةٍ وكمال، وجميع ما فَعَلَه وخَلَقَه يُحمد عليه، وجميع ما أمر به ونهى عنه يُحمد عليه، وجميع ما حكم به في العباد وبين العباد في الدُّنيا والآخرة يُحمد عليه.
[26] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت اوصاف کے نمونے کے طور پر ان دو آیتوں کا ذکر فرمایا تاکہ وہ اپنے بندوں کو اپنی معرفت، محبت اور دین میں اخلاص کی دعوت دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی عمومی ملکیت کا ذکر کیا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے... یہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی کو شامل ہے... سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ وہ احکام کونی و قدری، احکام دینی و امری اور احکام جزائی کے ذریعے سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ پس تمام مخلوق اس کی مملوک ہے جو اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے اور وہ کسی چیز کی مالک نہیں۔ وہ بے حد بے نیاز ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے۔
﴿مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ﴾ (الذّٰریٰت:51؍57) ’’میں ان سے رزق طلب نہیں کرتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔‘‘ نیز انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے اعمال اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ ان کے اعمال کا فائدہ صرف انھی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے اور ان کے اعمال سے بے نیاز ہے۔ یہ اس کی بے نیازی ہے کہ اس نے انھیں ان کی دنیا و آخرت میں بے نیاز بنا دیا اور ان کے لیے وہ کافی ہوگیا۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت حمد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ اس کی حمد و ثنا اس کی ذات کا لازمہ ہے وہ ہر لحاظ ہی سے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں قابل تعریف ہے۔ اس کی صفات میں سے ہر صفت کامل ترین حمد وثنا کی مستحق ہے کیونکہ یہ عظمت وکمال پر مبنی صفات ہیں۔ اس کے تمام افعال اور اس کی تمام تخلیقات قابل تعریف اور اس کے تمام اوامر و نواہی قابل ستائش ہیں۔ وہ تمام فیصلے اور احکام جو اس نے دنیا وآخرت میں اپنے بندوں پر اور بندوں کے درمیان نافذ کیے ہیں، ان پر وہ قابل حمدوستائش ہے۔
#
{27} ثم أخبر عن سعة كلامِهِ وعظمةِ قوله بشرح يبلغُ من القلوبِ كلَّ مبلغ، وتنبهِرُ له العقول وتحير فيه الأفئدة وتسيح في معرفتِهِ أولو الألباب والبصائر، فقال: {ولو أنَّ ما في الأرض من شجرةٍ أقلامٌ}: يُكتب بها، {والبحرُ يَمُدُّه من بعدِهِ سبعةُ أبحرٍ}: مداداً يستمدُّ بها؛ لتكسَّرت تلك الأقلام، ولفني ذلك المداد، ولم تنفد {كلماتُ الله}: وهذا ليس مبالغةً لا حقيقةَ له، بل لمَّا علم تبارك وتعالى أنَّ العقول تتقاصر عن الإحاطة ببعض صفاته، وعلم تعالى أنَّ معرفته لعباده أفضل نعمةٍ أنعم بها عليهم وأجلُّ منقبةٍ حصَّلوها، وهي لا تمكِنُ على وجهها، ولكن ما لا يُدْرَكُ كلُّه لا يُتْرَكُ كلُّه، فنبَّههم تعالى على بعضها تنبيهاً تستنير به قلوبُهم، وتنشرحُ له صدورُهم، ويستدلُّون بما وصلوا إليه إلى ما لم يصلوا إليه، ويقولون كما قال أفضلُهم، وأعلمُهم بربِّه: «لا نُحْصي ثناءً عليك، أنت كما أثْنَيْتَ على نفسِك »، وإلاَّ؛ فالأمر أجلُّ من ذلك وأعظم.
وهذا التمثيلُ من باب تقريب المعنى الذي لا يُطاق الوصول إليه إلى الأفهام والأذهان، وإلاَّ؛ فالأشجار وإنْ تضاعَفَتْ على ما ذُكِرَ أضعافاً كثيرةً، والبحور لو امتدَّت بأضعاف مضاعفةٍ؛ فإنَّه يُتَصَوَّر نفادها وانقضاؤها؛ لكونها مخلوقةً، وأمَّا كلام الله تعالى؛ فلا يُتَصَوَّرُ نفادُه، بل دلَّنا الدليلُ الشرعيُّ والعقليُّ على أنَّه لا نفاد له ولا منتهى؛ فكل شيء ينتهي إلاَّ الباري وصفاته، {وأنَّ إلى ربِّك المنتهى}، وإذا تصوَّر العقلُ حقيقة أوَّليَّته تعالى وآخريَّته، وأنَّ كلَّ ما فرضه الذهنُ من الأزمان السابقة مهما تسلسل الفرضُ والتقدير؛ فهو تعالى قبل ذلك إلى غير نهاية، وأنَّه مهما فرض الذهنُ والعقل من الأزمان المتأخرة وتسلسلَ الفرضُ والتقديرُ وساعد على ذلك مَنْ ساعد بقلبِهِ ولسانِهِ؛ فالله تعالى بعد ذلك إلى غير غايةٍ ولا نهاية، والله في جميع الأوقات يحكُم ويتكلَّم ويقولُ ويفعل كيف أرادَ، وإذا أراد، لا مانعَ له من شيء من أقواله وأفعاله؛ فإذا تصوَّر العقلُ ذلك؛ عرف أن المثل الذي ضربه الله لكلامه لِيُدْرِكَ العبادُ شيئاً منه، وإلاَّ؛ فالأمرُ أعظم وأجلُّ.
ثم ذكر جلالة عزَّته وكمال حكمتِهِ، فقال: {إنَّ الله عزيزٌ حكيمٌ}؛ أي: له العزَّة جميعاً الذي ما في العالم العلويِّ والسفليِّ من القوَّة إلاَّ منه، هو الذي أعطاها للخلق؛ فلا حول ولا قوَّةَ إلاَّ به، وبعزَّته قهر الخلق كلَّهم، وتصرَّف فيهم ودبَّرهم، وبحكمته خَلَقَ الخلق، وابتدأه بالحكمة، وجعل غايتَه والمقصودَ منه الحكمة، وكذلك الأمرُ والنهي وُجِدَ بالحكمة، وكانت غايتُه المقصودةُ الحكمةَ؛ فهو الحكيم في خلقه وأمره.
[27] اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی وسعت اور اپنے قول کی عظمت کو ایسی شرح کے ساتھ بیان کیا جو دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے، جس سے عقل و خرد حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور عقل مند اور اصحاب بصیرت اس کی معرفت میں سیاحت کرتے ہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌؔ﴾ ’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں
(سب کے سب) قلم ہوں۔‘‘ جن کے ساتھ لکھا جائے
﴿وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ ﴾ ’’اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اور‘‘ روشنائی بن جائیں جن سے لکھنے میں مدد لی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور یہ روشنائی ختم ہو جائے گی لیکن
﴿كَلِمٰتُ اللّٰهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی باتیں لکھنے سے کبھی ختم نہ ہوں گی۔
یہ مبالغہ نہیں ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ عقل انسانی اللہ کی بعض صفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے اس کی معرفت سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے انھیں سرفراز کیا ہے اور سب سے بڑی منقبت ہے جو انھیں حاصل ہوئی ہے جس کا کامل طور پر ادراک ممکن نہیں، مگر جس چیز کا کامل ادراک ممکن نہ ہو اس کو کامل طور پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے بعض صفات کی طرف اس طرح توجہ دلائی ہے جس سے ان کے قلب منور ہوتے ہیں اور انھیں شرح صدر حاصل ہوتی ہے وہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس پر وہ نہیں پہنچے،
اس چیز سے راہ نمائی لیتے ہیں جس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ اور وہ اسی طرح کہتے ہیں جیسے ان میں سے بہترین انسان اور اپنے رب کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی ہستی نے کہا: ’لَا نُحْصِي ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ،
(اصل لفظ (لَا اُحْصِي) ہے اور یہ مؤلفa کی سبقت قلم ہے) ’’ہم تیری ثنا بیان نہیں کر سکتے، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی ثنا بیان کی۔‘‘
(صحیح مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع والسجود؟، ح: 486) ورنہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے جلیل تر اور عظیم تر ہے۔
یہ تمثیل ان معانی کو قریب کرنے کے باب میں سے ہے جہاں تک پہنچنے کی ذہن اور فہم طاقت نہیں رکھتا۔ ورنہ اگر درختوں کو کئی گنا کر لیا جائے اور سمندروں کو بھی کئی گنا کر کے ان کی روشنائی بنا لی جائے تب بھی ان کے ختم ہونے کا تو تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مخلوق ہیں... رہا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام، تو اس کے ختم ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ عقلی اور نقلی دلیل دلالت کرتی ہے کہ اس کا کلام ختم ہوتا ہے نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا باقی ہر چیز کی انتہا ہے۔
﴿وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْ٘مُنْ٘تَهٰى ﴾ (النجم:53؍42) ’’اور تیرے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔‘‘
جب عقل اللہ تعالیٰ کی ’’اولیت‘‘ اور ’’آخریت‘‘ کا تصور کرے تو، ذہن گزرے ہوئے زمانوں کو فرض کرے۔ وہ ازمان گزشتہ کا جتنا بھی اندازہ لگائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی پہلے ہے جس کا کوئی منتہیٰ نہیں۔ اسی طرح عقل وذہن میں آنے والے زمانوں کے بارے میں خواہ کتنا ہی اندازہ کر لیں اور قلب و زبان کے ذریعے سے اس کی مدد بھی لے لیں، اللہ تعالیٰ ان کے ان اندازوں سے بھی زیادہ متأخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تمام اوقات میں فیصلہ کرتا ہے، کلام کرتا ہے،
وہ جیسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنا قول و فعل صادر کرتا ہے اسے اپنے اقوال و افعال سے کوئی چیز مانع نہیں۔ جب عقل نے اس حقیقت کا تصور کر لیا تو معلوم ہوا کہ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ضمن میں بیان کی ہے صرف اس لیے ہے کہ بندوں کو اس کا تھوڑا سا ادراک ہو جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے عظیم تر اور جلیل تر ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عزت کے جلال اور کمال حکمت کا ذکر کیا فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی تمام عزت و غلبے کا وہی مالک ہے تمام عالم علوی اور عالم سفلی میں جو بھی قوت پائی جاتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے، وہی ہے جس کی توفیق کے بغیر گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے۔ وہ اپنے غلبے کے ذریعے سے تمام مخلوق پر غالب ہے، ان میں تصرف اور ان کی تدبیرکرتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ اس تخلیق سے اس کی غرض و غایت اور مقصد بھی حکمت ہی ہے اسی طرح امرونہی بھی اس کی حکمت ہی سے وجود میں آئے ہیں، اور ان کو وجود میں لانے کی غایت مقصود بھی حکمت ہی ہے۔ پس وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔
#
{28} ثم ذكر عظمةَ قدرتِهِ وكمالها، وأنَّه لا يمكن أن يتصوَّرها العقلُ، فقال: {ما خَلْقُكم ولا بعْثُكم إلاَّ كنفسٍ واحدةٍ}: وهذا شيءٌ يحير العقول: أنَّ خَلْقَ جميع الخَلْق على كثرتِهِم وبعثهم بعد موتِهِم بعد تفرُّقهم في لمحة واحدةٍ كخلقِهِ نفساً واحدةً؛ فلا وجه لاستبعادِ البعث والنُّشور والجزاء على الأعمال؛ إلاَّ الجهل بعظمة الله وقوَّة قدرتِهِ. ثم ذَكَرَ عموم سمعِهِ لجميع المسموعات وبصرِهِ لجميع المبصَرات، فقال: {إنَّ الله سميعٌ بصيرٌ}.
[28] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عظیم اور کامل قدرت کا ذکر فرمایا جس کا عقل تصور تک نہیں کر سکتی۔ پس فرمایا:
﴿مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَ٘نَ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ ﴾ ’’تم سب کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ اٹھانا تو بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو
(پیدا کرنا اور اٹھانا)‘‘ اور یہ ایسی چیز ہے جو عقل کو حیران کر دیتی ہے۔ تمام مخلوق کی تخلیق... ان کی کثرت کے باوجود اور ان کی موت کے بعد ان کے بکھر جانے کے باوجود ان کو ایک لمحہ میں دوبارہ زندہ کرنا… ایسے ہی ہے جیسے اس نے صرف ایک نفس کو پیدا کیا ہو۔ اس لیے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور پھر اعمال کی جزا دینے کو بعید سمجھنا اللہ تعالیٰ کی عظمت، قوت اور قدرت کے بارے میں جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسموعات کو سنتا اور تمام مرئیات کو دیکھتا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (29) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (30)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے، بے شک اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور اس نے کام میں لگا دیا ہے سورج اور چاند کو، ہر ایک چل رہا ہے ایک وقت مقرر تک اور
(یہ کہ) بے شک اللہ، ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے
(29) یہ اس سبب سے کہ بے شک اللہ، وہی ہے حق، اور
(یہ کہ) بے شک جس کو وہ پکارتے ہیں اس کے سوا، باطل ہے اور یہ کہ بلاشبہ اللہ، وہی ہے بلند بہت بڑا
(30)
#
{29} وهذا فيه أيضاً انفرادُه بالتصرُّف والتدبير، وسعةِ تصرُّفه بإيلاج الليل في النهار وإيلاج النهارِ في الليل؛ أي: إدخال أحدِهِما على الآخر؛ فإذا دخل أحدُهما؛ ذهب الآخر، وتسخيره للشمس والقمر يجريان بتدبيرٍ ونظامٍ لم يختلَّ منذ خَلَقَهما؛ ليقيم بذلك من مصالح العباد ومنافِعِهم في دينهم ودُنياهم ما به يعتبِرون وينتَفِعون، و {كلٌّ} منهما {يجري إلى أجل مسمّى}: إذا جاء ذلك الأجل؛ انقطعَ جريانُهُما وتعطَّل سلطانُهما، وذلك في يوم القيامةِ حين تكوَّرُ الشمس، ويُخْسَفُ القمر، وتنتهي دار الدُّنيا، وتبتدئ الدار الآخرة. {وأنَّ الله بما تعملونَ}: من خيرٍ وشرٍّ. {خبيرٌ}: لا يخفى عليه شيء من ذلك، وسيجازيكم على تلك الأعمال بالثواب للمطيعين والعقاب للعاصين.
[29] اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے تصرف و تدبیر میں متفرد ہونے، رات کو دن میں داخل کرنے اور دن کو رات میں داخل کرنے میں اپنی قدرت و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب دن اور رات میں سے کوئی داخل ہوتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ وہ سورج اور چاند کو مسخر کرنے میں بھی متفرد ہے۔ سورج اور چاند اس کی تدبیر اور نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے، ان میں خلل واقع نہیں ہوا... تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ دین و دنیا سے متعلق اپنے بندوں کے مصالح و منافع کو پورا کرے، جس سے اس کے بندے عبرت حاصل کرتے اور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
﴿كُ٘لٌّ ﴾ ’’ہر ایک‘‘ یعنی سورج اور چاند دونوں
﴿یَّجْرِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ایک مدت مقرر تک چلے جا رہے ہیں۔ جب یہ مدت پوری ہو جائے گی تو ان کی گردش ختم اور ان کی قوت معطل ہو جائے گی اور یہ قیامت کا دن ہو گا جب سورج اور چاند سیاہ اور بے نور کر دیے جائیں گے۔ دنیا کے گھر کی انتہا اور آخرت کے گھر کی ابتدا ہو جائے گی۔
﴿وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ اور تم جو نیکی اور بدی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے
﴿خَبِیْرٌ ﴾ ’’باخبر ہے۔‘‘ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ عنقریب تمھیں ان اعمال پر جزا وسزا دے گا۔ اطاعت کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔
#
{30} {ذلك}: الذي بيَّن لكم من عظمتِهِ وصفاتِهِ ما بيَّن {بأنَّ الله هو الحقُّ}: في ذاته وفي صفاته، ودينُهُ حقٌّ، ورسله حقٌّ، ووعدُه حقٌّ، ووعيده حقٌّ، وعبادتُه هي الحق. {وأنَّ ما يدعونَ من دونِهِ الباطلُ}: في ذاته وصفاته؛ فلولا إيجادُ الله له؛ لما وُجِدَ، ولولا إمدادُه؛ لما بقي؛ فإذا كان باطلاً؛ كانت عبادتُه أبطل وأبطل. {وأنَّ الله هو العليُّ}: بذاته فوق جميع مخلوقاته الذي علت صفاته أن يقاس بها صفات [أحدٍ من الخلق]، وعلا على الخلق؛ فقهرهم {الكبير}: الذي له الكبرياءُ في ذاته وصفاته، وله الكبرياءُ في قلوب أهل السماء والأرض.
[30] ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے سامنے اپنی عظمت اور اپنی صفات کو بیان کیا ہے
﴿بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات میں حق ہے، اس کا دین حق ہے، اس کے رسول حق ہیں، اس کا وعدہ حق ہے، اس کی وعید حق ہے اور اس کی عبادت حق ہے۔
﴿وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ ﴾ اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، سب اپنی ذات و صفات میں باطل ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو وجود میں نہ لاتا تو کبھی وجود میں نہ آ سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی امداد نہ کرے تو ان کی بقا ممکن نہیں۔ جب یہ خود باطل ہیں تو ان کی عبادت سب سے بڑا باطل ہے۔
﴿وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْ٘عَلِیُّ ﴾ ’’اور بے شک اللہ تعالیٰ
(بذاتہ) بلند ہے‘‘ وہ تمام مخلوقات سے اوپر ہے۔ اس کی صفات اس سے بلندتر ہیں کہ ان پر مخلوق کی صفات کو قیاس کیا جائے وہ مخلوق کے اوپر اور ان پر غالب ہے۔
﴿الْكَبِیْرُ ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں کبریائی کا مالک ہے اور زمین اور آسمان کی تمام مخلوق کے دل اس کی کبریائی سے لبریز ہیں۔
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (31) وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ (32)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے بے شک کشتی چلتی ہے سمندر میں ساتھ فضل اللہ کے، تاکہ دکھائے وہ تمھیں اپنی کچھ نشانیاں، بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ہر بڑے صابر شاکر کے لیے
(31) اور جب ڈھانپ لیتی ہے انھیں کوئی
(بڑی) موج، مانند سائبانوں کے، تو پکارتے ہیں وہ اللہ کو، خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین
(پکار) کو ، پھر جب وہ نجات دے دیتا ہے ان کو خشکی کی طرف تو کوئی ہی ان میں سے عہد پر قائم رہنے والا ہوتا ہے، اور نہیں انکارکرتا ہماری آیتوں کا مگر ہر عہد توڑنے والا ناشکرا ہی
(32)
#
{31} أي: ألم تَرَ من آثار قدرتِهِ ورحمتِهِ وعنايتِهِ بعباده أنْ سَخَّرَ البحر تجري فيه الفُلْك بأمره القدريِّ ولطفِهِ وإحسانِهِ؛ {لِيُرِيَكُم من آياتِهِ}: ففيها الانتفاعُ والاعتبار. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لكلِّ صبارٍ شكورٍ} فهم المنتفعون بالآيات {صبَّارٍ} على الضراء. {شكورٍ} على السَّراء، صبَّارٍ على طاعة الله وعن معصيته وعلى أقدارِهِ، شكورٍ لله على نِعَمِهِ الدينيَّة والدنيويَّة.
[31] کیا تو نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی رحمت اوراپنے بندوں پر اس کی عنایت کے آثار نہیں دیکھے؟ اس نے سمندر کو مسخر کیا جس میں اس کے حکم قدری اور اس کے لطف و احسان سے کشتیاں چلتی ہیں۔
﴿لِیُ٘ـرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِهٖ﴾ ’’تاکہ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے۔‘‘ ان نشانیوں میں نفع اور عبرت ہے۔
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ﴾ ’’بے شک اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکرکرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ پس یہ وہ لوگ ہیں جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ ہر تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور خوشی پر شکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر اس کی اطاعت پر صبر کرتے ہیں، اس کی قضا و قدر پر صبر کرتے اور اس کی دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اس کا شکر کرتے ہیں۔
#
{32} وذكر تعالى حال الناس عند ركوبِهِم البحر وغشيان الأمواج كالظُّلل فوقهم أنَّهم يخلِصون الدُّعاء لله والعبادة، {فلما نجَّاهم إلى البرِّ}: انقسموا فريقينِ: فرقة مقتصدة؛ أي: لم تقم بشكر الله على وجه الكمال، بل هم مذنبون ظالمون لأنفسهم، وفرقة كافرة لنعمة الله جاحدة لها، ولهذا قال: {وما يَجْحَدُ بآياتِنا إلاَّ كلُّ خَتَّارٍ}؛ أي: غدَّار، ومن غدرِهِ أنَّه عاهد ربَّه لئن أنجيتَنا من البحرِ وشدَّتِهِ لنكوننَّ من الشاكرين. فغدر، ولم يفِ بذلك. {كفورٍ}: لنعم الله؛ فهل يَليقُ بِمَنْ نجَّاهم الله من هذه الشدَّة إلاَّ القيام التامُّ بشكر نعم الله؟!
[32] اللہ تعالیٰ لوگوں کا حال بیان کرتا ہے کہ جب لوگ سمندر میں سفر کرتے ہیں اور سمندر کی موجیں چھتری کی مانند ان پر چھا جاتی ہیں تب وہ اللہ کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے صرف اسی کو پکارتے ہیں۔
﴿فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْـبَرِّ ﴾ ’’ پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے۔‘‘ تو وہ دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں: ان میں سے ایک گروہ کے لوگ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں،
یعنی کامل طریقے سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ وہ گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور ایک گروہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کر کے اس کی نعمت کا انکار کرتا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا كُ٘لُّ خَتَّارٍ ﴾ ’’اور ہماری آیتوں کا وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن ہیں۔‘‘ ان کی بدعہدی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے سمندر اور اس کی سختیوں سے انھیں نجات دی تو وہ اس کے شکر گزار بندے بنیں گے۔ پس اس فریق نے بد عہدی کی اپنے عہد کو پورا نہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ
﴿كَفُوْرٍ ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سخت ناشکرے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ان سختیوں سے نجات دی ہو کیا اس کے لیے اس کا شکر ادا کرنے کے سوا کچھ اور لائق ہے؟
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (33)}.
اے لوگو! تقوی اختیارکرو اپنے رب کا اور ڈرواس دن سے کہ نہیں کام آئے گا کوئی باپ اپنی اولاد کے اور نہ کوئی اولاد ہی کام آنے والی ہو گی اپنے باپ کے کچھ بھی، بے شک وعدہ اللہ کا سچا ہے، پس نہ دھوکے میں ڈال دے تمھیں زندگانیٔ دنیا، اور نہ دھوکے میں ڈالے تمھیں اللہ کے متعلق بڑا دھوکے باز
(شیطان) (33)
#
{33} يأمر تعالى الناس بتقواه، التي هي امتثال أوامرِهِ وتركُ زواجرِهِ، ويستلِفتُهم لخشية يوم القيامة، اليوم الشديدِ الذي فيه كلُّ أحدٍ لا يهمُّه إلاَّ نفسُهُ. و {لا يجزي والدٌ عن ولدِهِ ولا مولودٌ} عن والدِهِ شيئاً: لا يزيدُ في حسناتِهِ ولا ينقصُ من سيئاتِهِ، قد تمَّ على كلِّ عبدٍ عملُه، وتحقَّق عليه جزاؤه. فلفْتُ النظرِ لهذا اليوم المَهيل مما يقوِّي العبدَ ويسهِّل عليه تقوى الله، وهذا من رحمة الله بالعباد؛ يأمُرُهم بتقواه التي فيها سعادتُهم، ويَعِدُهم عليها الثواب، ويحذِّرُهم من العقاب، ويزعجهُم إليه بالمواعظِ والمخوفات، فلك الحمدُ يا ربَّ العالمين. {إنَّ وعدَ الله حقٌّ}: فلا تمتروا فيه، ولا تعملوا عملَ غير المصدِّقِ؛ فلهذا قال: {فلا تغرَّنَّكُمُ الحياةُ الدُّنيا}: بزينتها وزخارفها وما فيها من الفتنِ والمحنِ. {ولا يَغُرَّنَّكُم بالله الغَرورُ}: الذي هو الشيطان، الذي ما زال يخدعُ الإنسان، ولا يغفل عنه في جميع الأوقات؛ فإنَّ لله على عباده حقًّا، وقد وعدهم موعداً يجازيهم فيه بأعمالهم وهل وَفوا حقَّه أم قصَّروا فيه؟ وهذا أمرٌ يجب الاهتمامُ به، وأنْ يجعَلَه العبدُ نُصبَ عينيه ورأسَ مال تجارتِهِ التي يسعى إليه، ومن أعظم العوائق عنه والقواطع دونَه الدُّنيا الفتَّانةُ والشيطانُ الموسْوِسُ المسوِّلُ، فنهى تعالى عبادَه أن تَغُرَّهم الدُّنيا أو يَغُرَّهم بالله الغَرور، {يَعِدُهُم ويُمَنِّيهم وما يَعِدُهُم الشيطانُ إلاَّ غُروراً}.
[33] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تقویٰ کا حکم دیتا ہے۔ تقویٰ سے مراد اس کے حکم کی تعمیل کرنا اور منہیات کو ترک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے سخت دن کے خوف کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ جس روز ہر شخص کو اپنے سوا کسی کا ہوش نہیں ہو گا پس
﴿لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ١ٞ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکے گا۔‘‘ یعنی وہ اس کی نیکیوں میں اضافہ کر سکے گا نہ اس کے گناہوں میں کوئی کمی کر سکے گا۔ ہر بندے کا عمل پورا ہو چکا ہوگا اور اس پر اس کی جزا وسزا بھی متحقق ہو چکی ہوگی۔ تو اس ہولناک دن کی طرف دیکھ، جو بندے کو قوت عطا کر کے اس کے لیے تقویٰ کو آسان کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ وہ انھیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے جس کے اندر ان کی سعادت ہے اور اس پر ان کے ساتھ ثواب کا وعدہ کرتا ہے، انھیں عذاب سے ڈراتا ہے، انھیں مواعظ اور
(قیامت کے) خوفناک مقامات سے ڈرا کر، برائیوں سے روکتا ہے... اے جہانوں کے رب! تیری ہی ستائش ہے۔
﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ’’بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ پس اللہ کے وعدے میں شک نہ کرو اور ایسے کام نہ کرو جو اس وعدے کو سچا نہ ماننے والوں کے ہوتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا:
﴿فَلَا تَغُرَّنَّـكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ﴾ یعنی دنیا کی زیب و زینت، اس کی چکا چوند اور اس کے فتنے تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دیں
﴿وَلَا یَغُرَّنَّـكُمْ بِاللّٰهِ الْ٘غَرُوْرُ ﴾ ’’اور فریب دینے والا تمھیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب نہ دے‘‘ یعنی شیطان ہر وقت انسان کو فریب میں مبتلا رکھتا ہے اور کسی وقت بھی اس سے غافل نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ اور اس نے ان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دے گا، نیز کیا انھوں نے اس کا حق پورا کیا ہے یا اس بارے میں انھوں نے کوتاہی کی ہے؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا اہتمام واجب ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اسے اپنا نصب العین اور زندگی کا سرمایہ بنائے رکھے جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس راستے کی سب سے بڑی آفت فتنہ میں مبتلا کرنے والی دنیا ہے اور سب سے بڑا راہزن شیطان ہے جو وسوسے ڈالتا اور گمراہ کرتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہونے سے روکا ہے۔
﴿یَعِدُهُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ١ؕ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اِلَّا غُ٘رُوْرًا﴾ (النساء:4؍120) ’’شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے، ان کو آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان کا وعدہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
{إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (34)}.
بے شک اللہ، اسی کے پاس ہے علم قیامت کا اوروہی نازل کرتا ہے بارش اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں
(ماؤ ں کے پیٹوں) میں ہے اور نہیں جانتا کوئی نفس کہ کیا کام کرے گا وہ کل کو اور نہیں جانتا کوئی نفس کہ کس زمین میں وہ مرے گا، بے شک اللہ خوب جاننے والا، خوب خبردار ہے
(34)
#
{34} قد تقرَّر أنَّ الله تعالى أحاطَ علمُه بالغيب والشهادة والظواهِرِ والبواطِن، وقد يُطْلِعُ الله عبادَه على كثيرٍ من الأمور الغيبيَّة، وهذه الأمور الخمسة من الأمور التي طَوَى علمها عن جميع الخَلْق؛ فلا يعلمُها نبيٌّ مرسلٌ ولا ملكٌ مقرَّبٌ، فضلاً عن غيرهما، فقال: {إنَّ الله عندَه علم الساعةِ}؛ أي: يعلم متى مُرساها؛ كما قال تعالى: {يَسْألونَكَ عن الساعةِ أيَّانَ مُرساها. قُل إنَّما علمُها عند ربِّي لا يُجَلِّيها لوقتِها إلاَّ هو لا تأتيكم إلاَّ بَغْتَةً ... } الآية، {ويُنَزِّلُ الغيثَ}؛ أي: هو المنفرد بإنزاله، وعلمِ وقتِ نزولِهِ، {ويعلمُ ما في الأرحام}: فهو الذي أنشأ ما فيها، وعلم ما هو؛ هل هو ذكرٌ أم أنثى؟
ولهذا يسأل الملك الموكل بالأرحام ربَّه: هل هو ذَكَرٌ أم أنثى؟ فيقضي الله ما يشاء. {وما تَدْري نفسٌ ماذا تكسِبُ غداً}: من كَسْبِ دينها ودُنياها، {وما تدري نفسٌ بأيِّ أرضٍ تموتُ}: بل الله تعالى هو المختصُّ بعلم ذلك جميعه. ولمَّا خصَّص [اللَّه] هذه الأشياء؛ عمَّم علمَه بجميع الأشياء، فقال: {إنَّ الله عليمٌ خبيرٌ}: محيطٌ بالظواهر والبواطن والخفايا والخبايا والسرائر، ومن حكمتِهِ التامَّة أنْ أخفى علمَ هذه الخمسة عن العبادِ؛ لأنَّ في ذلك من المصالح ما لا يخفى على من تدبر ذلك.
[34] یہ امر متحقق ہے کہ علم الٰہی نے غیب و شاہد اور ظاہر و باطن ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اور کبھی کبھی بہت سے امور غیبیہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مطلع کر دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں مذکور پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کا علم کسی کو بھی نہیں دیا گیا، عام لوگ تو کیا ان امور کو کوئی نبی مرسل جانتا ہے نہ کوئی مقرب فرشتہ،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّ٘انَ مُرْسٰؔىهَا١ؕ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ١ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔ ۘ ؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً﴾ (الأعراف:7؍187) ’’وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کی گھڑی کب آئے گی، کہہ دیجیے اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا، آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا اور وہ تم پر اچانک ہی آ جائے گی۔‘‘
﴿وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ﴾ وہ اکیلا ہی ہے جو بارش برساتا ہے اور وہی اس کے برسنے کا وقت جانتا ہے۔
﴿وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ﴾ پس رحموں کے اندر جو کچھ ہے اس نے تخلیق کیا ہے اور اس کے متعلق وہی جانتا ہے کہ آیا وہ نر ہے یا مادہ، اس لیے اس پر مقرر کردہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے لڑکا یا لڑکی؟ پس اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔
﴿وَمَا تَدْرِیْ نَ٘فْ٘سٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ﴾ ’’اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔‘‘ یعنی دین اور دنیا کی کمائی میں سے
﴿وَمَا تَدْرِیْ نَ٘فْ٘سٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ﴾ ’’اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اسے موت آئے گی۔‘‘ بلکہ یہ تمام علم صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مختص ہے۔ ان مذکورہ چیزوں کا علم مخصوص کرنے کے بعد بیان فرمایا کہ اس کاعلم تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظاہری و باطنی امور، تمام چھپی ہوئی اور تمام اسرار نہاں سے باخبر اور ان کو جانتا ہے۔ یہ اس کی حکمت کاملہ ہے کہ اس نے پانچ چیزوں کا علم بندوں سے چھپا رکھا ہے کیونکہ اس کے اندر ان کے مصالح پنہاں ہیں۔ صاحب تدبر پر یہ چیز مخفی نہیں۔