آیت:
تفسیر سورۂ روم
تفسیر سورۂ روم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 7 #
{الم (1) غُلِبَتِ الرُّومُ (2) فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (3) فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (5) وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (6) يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (7)}.
الٓمّٓ(1)مغلوب ہو گئے رومی(2) قریب ترین زمین (شام وغیرہ) میں، اور وہ بعد اپنے مغلوب ہونے کے عنقریب غالب ہوں گے(3) چند سالوں میں، اللہ ہی کے لیے ہے اختیار پہلے بھی اور بعد میں بھی، اور اس (غلبے کے) دن خوش ہوں گے مومن(4) اللہ کی مدد سے، وہ مدد دیتاہے جسے چاہتا ہے، اور وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا(5) وعدہ ہے اللہ کا،نہیں خلاف کرتا اللہ اپنے وعدے کے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(6) وہ جانتے ہیں ظاہر کو زندگانی دنیا سے، اور وہ آخرت سے وہ غافل ہیں(7)
#
{1 ـ 5} كانت الفرس والروم في ذلك الوقت من أقوى دول الأرض، وكان يكون بينهما من الحروب والقتال ما يكون بين الدول المتوازنة، وكانتِ الفرسُ مشركينَ يعبُدون النار، وكانت الرومُ أهلَ كتابٍ ينتسبون إلى التوراة والإنجيل، وهم أقربُ إلى المسلمين من الفرس، [فكان المؤمنون] يحبُّون غَلَبَتَهم وظهورَهم على الفرس، وكان المشركون لاشتراكِهِم والفرسُ في الشرك يحبُّون ظهورَ الفرس على الروم، فظهر الفرسُ على الروم وغلبوهم غُلباً لم يُحِطْ بِمُلْكِهِم بل بأدنى أرضهم، ففرح بذلك مشركو مكة وحزن المسلمون، فأخبرهم الله، ووعدَهم أنَّ الروم ستغلب الفرس {في بِضْعِ سنينَ}: تسع أو ثمان ونحو ذلك مما لا يزيدُ على العشر ولا ينقُصُ عن الثلاث، وأنَّ غلبةَ الفرس للروم ثم غلبةَ الروم للفرس كلُّ ذلك بمشيئتِهِ وقَدَرِهِ، ولهذا قال: {لله الأمرُ من قبلُ ومن بعدُ}: فليس الغلبةُ والنصر لمجرَّد وجود الأسباب، وإنَّما هي لا بدَّ أن يقترن بها القضاء والقدر. {ويومئذٍ}؛ أي: يوم يغلب الرومُ الفرس ويقهرونهم، {يفرحُ المؤمنون. بنصر الله ينصُرُ مَنْ يشاءُ}؛ أي: يفرحون بانتصارهم على الفرس، وإنْ كان الجميع كفاراً، ولكنَّ بعضُ الشرِّ أهونُ من بعض، ويحزنُ يومئذٍ المشركون. {وهو العزيزُ}: الذي له العزَّةُ التي قهر بها الخلائق أجمعين، يؤتي المُلْكَ مَنْ يشاء، وينزِعُ الملك ممَّن يشاء، ويعزُّ من يشاء ويذلُّ من يشاء. {الرحيمُ}: بعباده المؤمنين؛ حيث قيَّضَ لهم من الأسباب التي تسعِدُهم وتنصُرُهم ما لا يدخُل في الحساب.
[5-1] اس زمانے میں ایران اور روم دنیا کی سب سے بڑی سلطنتیں تھیں ان دونوں کے درمیان اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں جیسا کہ ہم پلہ سلطنتوں کے مابین اس قسم کی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایرانی مشرک تھے اور آگ کی پوجا کرتے تھے۔ رومی اہل کتاب تھے اور اپنے آپ کو تورات اور انجیل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اہل فارس کی نسبت رومی مسلمانوں کے زیادہ قریب تھے اس لیے مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ایرانیوں پر فتح حاصل کریں چونکہ مشرکین مکہ اور اہل فارس شرک میں مشترک تھے اس لیے مشرکین مکہ رومیوں پر اہل فارس کی فتح چاہتے تھے۔ ایرانیوں کو رومیوں کے خلاف جنگی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن انھیں مکمل فتح حاصل نہ ہوئی بلکہ ایران سے ملحق بعض رومی علاقے ایرانیوں کے قبضہ میں آ گئے اس پر مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمان اس فتح پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا بلکہ ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ عنقریب رومی اہل فارس پر فتح حاصل کریں گے۔ ﴿فِیْ بِضْ٘عِ سِنِیْنَ ﴾’’چند سالوں میں۔‘‘ تقریباً آٹھ نو سال کی مدت میں جو دس سال سے زیادہ اور تین سال سے کم نہ ہو گی۔ یہ رومیوں پر ایرانیوں کی فتح اور پھر ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قضاوقدر پر مبنی ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ ﴾ ’’اس (شکست) سے پہلے بھی اللہ ہی کا حکم چلتا تھا اور بعد میں بھی اسی کا چلے گا۔‘‘ یعنی غلبہ اور فتح و نصرت مجرد و جود اسباب پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے قضاوقدر کا مقرون ہونا ضروری ہے۔ ﴿وَیَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’اور اس روز‘‘ یعنی جس روز رومیوں کو ایرانیوں کے خلاف فتح حاصل ہو گی اور ان پر غالب آئیں گے ﴿یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللّٰهِ١ؕ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔‘‘ یعنی اہل ایمان ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح پر خوش ہو رہے ہوں گے... اگرچہ دونوں قومیں کافر تھیں تاہم کچھ برائیاں بعض دیگر برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں... اور اس روز مشرکین سوگ منا رہے ہوں گے۔ ﴿وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’اور وہ غالب ہے۔‘‘ یعنی اللہ وہ ہستی ہے جو عزت و غلبہ کی مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ ﴿الرَّحِیْمُ﴾ اپنے مومن بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے ان کے لیے بے حدو حساب اسباب فراہم کیے جو ان کو سعادت مند بناتے اور فتح و نصرت سے ہم کنار کرتے ہیں۔
#
{6} {وعدَ اللهِ لا يُخْلِفُ الله وعدَه}: فتيقَّنُوا ذلك، واجْزِمُوا به، واعْلَمُوا أنَّه لا بدَّ من وقوعه. فلمَّا نزلت هذه الآيات التي فيها هذا الوعدُ؛ صدَّق بها المسلمون، وكفر بها المشركون، حتى تراهن بعضُ المسلمين وبعضُ المشركين على مدَّة سنين عيَّنوها، فلما جاء الأجل الذي ضربه الله. انتصر الروم على الفرس، وأجْلَوْهم من بلادهم التي أخذوها منهم، وتحقَّق وعد الله. وهذا من الأمور الغيبيَّة التي أخبر بها الله قبل وقوعها ووجدت في زمان مَنْ أخبرهم الله بها من المسلمين والمشركين. {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمونَ}: أنَّ ما وَعَدَ اللهُ به حقٌّ؛ فلذلك يوجد فريقٌ منهم يكذِّبون بوعده، ويكذِّبون آياته.
[6] ﴿وَعْدَ اللّٰهِ١ؕ لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ﴾ ’’یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘ پس تم اس وعدے پر یقین رکھو، اسے حتمی سمجھو اور جان لو کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا۔ جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں، جن میں اس وعدہ کا ذکر ہے، تو اس وعدے کی مسلمانوں نے تصدیق کی مگر مشرکین نے اس کو نہ مانا حتیٰ کہ بعض مسلمانوں اور بعض کفار نے اس پر شرط لگا لی اور کچھ سالوں کی مدت مقر کر لی۔ جب وہ مدت آئی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی تھی تو رومیوں کو ایرانیوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونے لگیں۔ رومیوں نے ایرانی افواج کو ان تمام علاقوں سے نکال باہر کیا جو انھوں نے رومیوں سے چھینے تھے اور یوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو گیا۔ اس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے جن کے متعلق ان کے وقوع سے قبل اللہ تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر آگاہ فرما دیا تھا اور یہ پیش گوئی انھی مسلمانوں اور کافروں کے دور میں وقوع پذیر ہوئی جن کے دور میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا وعدہ حق ہے۔ بنابریں ان میں ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو اللہ کے وعدے کو سچ نہیں مانتا اور اس کی آیتوں کو جھٹلاتا ہے۔
#
{7} وهؤلاء الذين لا يعلمون؛ أي: لا يعلمون بواطن الأشياء وعواقِبَها، وإنَّما {يعلمونَ ظاهراً من الحياة الدُّنيا}: فينظرون إلى الأسباب، ويجزمون بوقوع الأمر الذي في رأيهم انعقدتْ أسباب وجودِهِ، ويتيقَّنون عدم الأمر الذي لم يشاهِدوا له من الأسباب المقتضية لوجودِهِ شيئاً؛ فهم واقفون مع الأسباب، غيرُ ناظرين إلى مسبِّبها المتصرف فيها. {وهم عن الآخرةِ هم غافلونَ}: قد توجَّهت قلوبُهم وأهواؤهم وإراداتهم إلى الدنيا وشهواتِها وحطامِها؛ فعملتْ لها وسعتْ وأقبلتْ بها وأدبرتْ، وغفلت عن الآخرة؛ فلا الجنة تشتاقُ إليها، ولا النار تخافها وتخشاها، ولا المقام بين يدي الله ولقائه يروِّعُها ويزعِجُها، وهذا علامة الشقاء، وعنوانه الغفلة عن الآخرة. ومن العجبِ أنَّ هذا القسم من الناس قد بلغتْ بكثيرٍ منهم الفطنةُ والذكاءُ في ظاهر الدُّنيا إلى أمرٍ يحيِّر العقول ويدهش الألباب، وأظهروا من العجائِب الذَّرِّيَّةِ والكهربائيةِ والمراكب البريَّة والبحريَّة والهوائيَّة ما فاقوا به، وبرَّزوا وأعجبوا بعقولهم، ورأوا غيرهم عاجزاً عما أقدرهم اللهُ عليه، فنظروا إليهم بعين الاحتقار والازدراء، وهم مع ذلك أبلد الناس في أمرِ دينهم، وأشدُّهم غفلةً عن آخرتهم، وأقلُّهم معرفة بالعواقب. قد رآهم أهل البصائرِ النافذةِ في جهلهم يتخبَّطون، وفي ضلالهم يَعْمَهون، وفي باطِلِهم يتردَّدون، نسوا الله فأنساهم أنفسهم، أولئك هم الفاسقون، ثم نظروا إلى ما أعطاهم الله وأقدرهم عليه من الأفكار الدقيقة في الدنيا وظاهرها، وحرموا من العقل العالي، فعرفوا أنَّ الأمر لله والحكم له في عبادِهِ، إنْ هو إلا توفيقُه أو خذلانُه، فخافوا ربهم وسألوه أن يتمَّ لهم ما وهبهم من نور العقول والإيمان حتى يصلوا إليه ويحلُّوا بساحته. وهذه الأمور لو قارنها الإيمان وبُنِيَتْ عليه؛ لأثمرت الرقيَّ العالي والحياة الطيبة، ولكنها لما بُني كثيرٌ منها على الإلحاد؛ لم تثمر إلا هبوط الأخلاق وأسباب الفناء والتدمير.
[7] یہ وہ لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے یعنی جو اشیاء کے اسرار نہاں اور ان کے عواقب کو نہیں جانتے۔﴿یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰؔوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ لوگ صرف اسباب پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر حتمی یقین رکھتے ہیں جن کے اسباب ان کی رائے کے مطابق پورے ہوچکے ہوں اور اگر انھوں نے ان اسباب کا مشاہدہ نہ کیا ہو جوان واقعات کے وقوع کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ ان کے عدم وقوع پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پس یہ لوگ اسباب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی نظر مسبب الاسباب پر نہیں جو ان اسباب میں تصرف کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔‘‘ ان کے دل، ان کی خواہشات اور ان کے ارادے، دنیا اور دنیا کی شہوات اور اس کے چند ٹکڑوں پر مرتکز ہیں۔ ان کے ارادے اور خواہشات اس دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، اسی کے لیے کوشاں ،اسی کی طرف متوجہ اور آخرت سے غافل ہیں۔ ان کے سامنے کوئی جنت نہیں جس کا انھیں اشتیاق ہو، ان کے سامنے کوئی جہنم نہیں جس کا انھیں خوف ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑے ہونے کا تصور ہے، جس سے یہ ڈر کر کانپ اٹھتے ہوں۔ یہ بدبختی کی علامت اور آخرت سے غفلت کا عنوان ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس گروہ کے لوگ اس ظاہری دنیا میں ذہانت اور فطانت کے اس درجے تک پہنچے ہوئے ہیں جس سے عقل حیران اور دہشت زدہ ہو جاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں برقی اور جوہری عجائبات ظاہر ہوئے، انھوں نے بری، بحری اورفضائی سواریاں ایجاد کیں، وہ اپنی عقل کی مدد سے سب پر فوقیت لے گئے اور اپنی عقل کے ذریعے سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ قدرت عطا کی جس کے سامنے دیگر لوگ عاجز تھے۔ پس انھوں نے دوسروں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا حالانکہ وہ خود اپنے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ کند ذہن، اپنی آخرت کے بارے میں سب سے زیاہ غافل اور اپنی عاقبت کے بارے میں سب سے کم علم رکھتے ہیں۔ اہل بصیرت کی رائے ہے کہ وہ اپنی جہالت میں پاگل، اپنی گمراہی میں سرگرداں اور اپنے باطل میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کر دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھلا دیا۔ درحقیقت یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں پر غور کریں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ ور کیا ہے اور اس ظاہری دنیا میں انھیں دقیق افکار سے نوازا، پھر غور کریں کہ انھوں نے اپنے آپ کو عقل عالی سے محروم کیا، تو انھیں معلوم ہو جائے گا کہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اس کے بندوں میں اسی کا حکم جاری ہے اور یہ سب اس کی توفیق یا عدم توفیق کا معاملہ ہے تو وہ اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ ان کی عقل اور ایمان کی تکمیل کرے جو اس نے ان کو عطا کی ہے حتیٰ کہ وہ اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے جوار میں نازل ہوجائیں۔ اگر یہ صلاحیتیں ایمان کے ساتھ مقرون ہوتیں اور ان کی بنیاد ایمان پر اٹھائی گئی ہوتی تو ترقی کے ساتھ ساتھ پاک صاف زندگی اس کا ثمرہ ہوتی مگر چونکہ ان کی بہت سی صلاحیتیں الحاد پر مبنی ہیں اس لیے ان کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
آیت: 8 - 10 #
{أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ (8) أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (9) ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ (10)}.
کیا نہیں غورو فکر کیا انھوں نے اپنے دلوں میں کہ نہیں پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے مگر ساتھ حق کے اور ایک وقت مقرر کے لیے؟ اور بلاشبہ بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے البتہ کافر (منکر) ہیں(8) کیا نہیں سیر کی انھوں نے زمین میں، پس دیکھتے وہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو پہلے تھے ان سے؟ تھے وہ زیادہ ان سے قوت میں، اور پھاڑا تھا انھوں نے زمین کو اور آباد کیا تھا انھوں نے اسے بہت زیادہ اس سے جو انھوں نے آباد کیا ہے اسے اور آئے تھے ان کے پاس ان کے رسول ساتھ واضح دلائل کے پس نہیں تھا اللہ کہ وہ ظلم کرتا ان پر اور لیکن تھے وہ (خود ہی) اپنے آپ پر ظلم کرتے(9) پھر ہوا انجام ان لوگوں کا، جنھوں نے برا کیا تھا، برا ہی اس لیے کہ جھٹلایا انھوں نے اللہ کی آیتوں کو، اور تھے وہ ان کا مذاق اڑاتے(10)
#
{8} أي: أفلم يتفكَّر هؤلاء المكذِّبون لرسل الله ولقائه {في أنفسهم}؛ فإنَّ في أنفسهم آيات يَعْرِفُون بها أن الذي أوجدهم من العدم سيعيدُهم بعد ذلك، وأن الذي نقلهم أطواراً من نطفةٍ إلى علقةٍ إلى مضغةٍ إلى آدميٍّ قد نفخ فيه الروح إلى طفل إلى شاب إلى شيخ إلى هرم غيرُ لائقٍ أن يتركَهم سدى مهملين. لا يُنهون، ولا يُؤمرون، ولا يثابون، ولا يعاقبون. {ما خلق اللهُ السمواتِ والأرضَ وما بينهما إلاَّ بالحق}؛ أي: ليبلوكم أيكم أحسن عملاً، {وأجلٍ مسمًّى}؛ أي: مؤقَّت بقاؤهما إلى أجل تنقضي به الدنيا وتجيء القيامة، وتبدَّل الأرض غير الأرض والسماواتُ. {وإنَّ كثيراً من الناس بلقاءِ ربِّهم لكافرونَ}: فلذلك لم يستعدُّوا للقائه، ولم يصدِّقوا رسلَه التي أخبرت به.
[8] کیا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والوں نے کبھی غور نہیں کیا ﴿فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’اپنے آپ پر؟‘‘ کیونکہ خود ان کی ذات میں نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ اس حقیقت کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ ہستی جو انھیں عدم سے وجود میں لائی وہ عنقریب اس کا اعادہ کرے گی، وہ ہستی جس نے انھیں نطفہ، جمے ہوئے خون اور گوشت کی بوٹی کے مراحل سے گزار کر آدمی بنایا، پھر اس میں روح پھونکی، پھر اسے بچہ بنایا، اس بچے سے اسے جوان بنایا، پھر اسے بڑھاپے میں منتقل کیا اور پھر اسے انتہائی بڑھاپے کی طرف لے گیا۔ اس ہستی کے شایان شان نہیں کہ وہ ان کو مہمل اور بے کار چھوڑ دے کہ انھیں کسی چیز کا حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے اور انھیں نیکی پر ثواب دیا جائے نہ بدی پر سزا دی جائے۔ ﴿مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ’’اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔‘‘ تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ﴿وَاَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’اور وقت مقرر تک۔‘‘ یعنی زمین و آسمان کی مدت اس وقت تک ہے جب تک کہ دنیا کی مدت ختم ہو کر قیامت قائم نہیں ہو جاتی، تب یہ زمین و آسمان بدل کر کوئی اور ہی آسمان و زمین بن جائیں گے۔ ﴿وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور بلاشبہ بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔‘‘ اسی لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری نہیں کی اور نہ انھوں نے ان رسولوں کی تصدیق کی جنھوں نے قیامت کے قائم ہونے کی خبر دی تھی۔
#
{9} وهذا الكفر عن غير دليل، بل الأدلَّة القاطعة دلَّت على البعث والجزاء، ولهذا نبَّههم على السير في الأرض والنظر في عاقبة الذين كذَّبوا رسلَهم وخالفوا أمرهم ممَّن هم أشدُّ من هؤلاء قوَّة وأكثر آثاراً في الأرض من بناء قصورٍ ومصانع ومن غرس أشجارٍ ومن زرع وإجراء أنهارٍ، فلم تُغْنِ عنهم قوَّتُهم، ولا نفعتْهم آثارُهم حين كذَّبوا رسلَهم الذين جاؤوهم بالبينات الدالات على الحقِّ وصحة ما جاؤوهم به؛ فإنَّهم حين ينظُرون في آثار أولئك؛ لم يجِدوا إلاَّ أمماً بائدةً، وخلقاً مهلَكين، ومنازل بعدهم موحشة. وذمٌّ من الخلق عليهم متتابعٌ، وهذا جزاءٌ معجَّل نموذج للجزاء الأخروي ومبتدأ له؛ وكلُّ هذه الأمم المهلَكة لم يظلِمْهُمُ الله بذلك الإهلاك، وإنما ظلموا أنفسهم وتسبَّبوا في هلاكها.
[9] ان کے اس کفر پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برعکس قطعی دلائل قیامت اور جزا و سزا کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبیہ کی کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں اور ان لوگوں کے انجام پر غور کریں جنھوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کے حکم کی مخالفت کی۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے، مثلاً: انھوں نے محلات اور کارخانے بنائے، باغات اور کھیتیاں اگائیں اور نہریں کھودیں۔ مگر جب انھوں نے اپنے رسولوں کی، جو حق پر اور اپنی دعوت کی صحت پر واضح دلائل لے کر آئے تھے، تکذیب کی تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ ان آثار نے انھیں کوئی فائدہ دیا... کیونکہ جب وہ ان کے آثار دیکھیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ وہ قومیں ہلاک ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں ان کے مسکن غیر آباد پڑے ہیں اور وہ مسلسل مخلوق کی مذمت کا نشانہ ہیں۔ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے جو اخروی عذاب کی تمہید ہے۔ ان ہلاک شدہ قوموں کو ہلاک کر کے اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا اور اپنی ہلاکت کے اسباب مہیا کیے۔
#
{10} {ثم كان عاقبةُ الذين أساؤوا}؛ أي: المسيئين {السوأى}؛ أي: الحالة السيئة الشنيعة، وصار ذلك داعياً لهم لأن {كذَّبوا بآيات الله وكانوا بها يستهزئون}: فهذا عقوبةٌ لسوئهم وذنوبهم، ثم ذلك الاستهزاء والتكذيب يكونُ سبباً لأعظم العقوبات وأعضل المثلات.
[10] ﴿ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓاٰۤى ﴾ ’’ پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا۔‘‘ یعنی بہت قبیح اور بری حالت ہوئی اور یہ چیز ان کے لیے عذاب کی داعی بن گئی کہ ﴿كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَكَانُوْا بِهَا یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’انھوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔‘‘ یہ ان کی برائیوں اور گناہوں کی سزا ہے، پھر یہ تمسخر اور تکذیب ان کے لیے سب سے بڑی سزا کا سبب بنے گی۔
آیت: 11 - 16 #
{اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (11) وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ (12) وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ مِنْ شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ (13) وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ (14) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ (15) وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ (16)}.
اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو ، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا اسے ، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تم(11) اور جس دن قائم ہو گی قیامت مایوس ہوجائیں گے مجرم(12) اور نہیں ہوں گے ان کے لیے ان کے شریکوں میں سے کوئی سفارشی، اور ہو جائیں گے وہ (خود بھی) اپنے شریکوں (معبودوں) کا انکار کرنے والے(13) اور جس دن قائم ہو گی قیامت، اس دن وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہو جائیں گے(14) پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک تو وہ باغ (بہشت) میں خوش حال کیے جائیں گے(15)اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور انھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو، پس یہی لوگ عذاب میں حاضر (داخل) کیے جائیں گے(16)
#
{11 ـ 13} يخبر تعالى أنَّه المتفرِّدُ بإبداء المخلوقات، ثم يعيدُهم. ثم إليه يُرجعون بعد إعادتهم ليجازيهم بأعمالهم. ولهذا ذكر جزاء أهل الشرِّ ثم جزاء أهل الخير، فقال: {ويوم تقومُ الساعةُ}: ويقوم الناس لربِّ العالمين، [ويرون] القيامة عياناً، يومئذٍ {يُبْلِسُ المجرمون}؛ أي: ييأسون من كلِّ خير، وذلك أنهم ما قَدَّمُوا لذلك اليوم إلاَّ الإجرام، وهي الذنوب من كفرٍ وشركٍ ومعاصٍ، فلما قدَّموا أسباب العقاب، ولم يخلِطوها بشيءٍ من أسباب الثواب؛ أيسوا، وأبلسوا، وأفلسوا، وضلَّ عنهم ما كانوا يفترونه من نفع شركائهم وأنهم يشفعون لهم، ولهذا قال: {ولم يكن لهم من شركائِهِم}: التي عَبَدوها مع الله {شفعاءُ وكانوا بشركائِهِم كافرينَ}: تبرَّأ المشركون ممَّن أشركوهم مع الله، وتبرَّأ المعبودون وقالوا: تبرَّأنا إليك، ما كانوا إيَّانا يعبدونَ، والتعنوا وابتعدوا.
[13-11] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ مخلوقات کی ابتدا کرنے میں تنہا ہے اور وہی ان کی تخلیق کا اعادہ کرے گا۔ پھر اس اعادۂ تخلیق کے بعد تمام مخلوقات اسی کی طرف لوٹیں گی تاکہ وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے۔ اسی لیے اس نے پہلے بدکاروں کی بدی کی سزا کا ذکر کیا ، پھر نیکوکاروں کی نیکی کی جزا کا ذکر فرمایا: ﴿وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ ﴾ ’’اور جس دن قیامت برپا ہوگی‘‘ اور لوگ رب العالمین کے حضور حاضر ہوں گے اور قیامت کو عیاں طور پر دیکھ لیں گے تو اس روز ﴿یُ٘بْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’گناہ گار ناامید ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ان لوگوں نے اس روز کے لیے جرائم کے سوا کچھ آگے نہیں بھیجا ہوگا۔ جرائم سے مراد کفر، شرک اور دیگر بڑے بڑے گناہ ہیں۔ چونکہ انھوں نے ایسے اعمال آگے روانہ کیے تھے جو عذاب کے موجب تھے اور ان کے پاس کوئی بھی ایسا عمل نہ تھا جو ثواب کا موجب ہوتا اس لیے وہ اعمال خیر کے اعتبار سے مفلس ہوں گے اور سخت مایوس ہوں گے۔ ان کی تمام افترا پردازیاں گم ہو جائیں گی، ان کے خود ساختہ معبود ان کو کوئی فائدہ دے سکیں گے نہ ان کی کوئی سفارش کر سکے گا۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَلَمْ یَكُ٘نْ لَّهُمْ مِّنْ شُ٘رَؔكَآىِٕهِمْ ﴾ ’’اور نہیں ہوگا ان کے لیے ان کے شریکوں میں سے کوئی بھی‘‘ جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کیا کرتے تھے۔ ﴿شُفَعٰٓؤُا وَؔكَانُوْا بِشُ٘رَؔكَآىِٕهِمْ كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’سفارشی اور وہ اپنے شریکوں کا انکارکردیں گے۔‘‘ یعنی مشرکین اپنے ان خود ساختہ معبودوں سے بے زاری کا اظہار کریں گے جن کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا اور معبود اپنے پجاریوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ١ٞ مَا كَانُوْۤا اِیَّ٘انَا یَعْبُدُوْنَ ﴾ (القصص:28؍63) ’’(اے اللہ!) ہم تیرے سامنے براء ت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہماری عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ وہ اپنے آپ پر لعنت بھیجیں گے اور اللہ کی رحمت سے دور ہو جائیں گے۔
#
{14 ـ 16} وفي ذلك اليوم يفترق أهل الخير والشرِّ كما افترقتْ أعمالهم في الدنيا. {فأمَّا الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ}: آمنوا بقلوبِهِم وصدَّقوا ذلك بالأعمال الصالحة {فهم في روضةٍ}: فيها سائرُ أنواع النبات وأصنافِ المشتَهَياتِ {يُحْبَرونَ}؛ أي: يُسَرَّون، وينعَّمون بالمآكل اللذيذة والأشربة والحور الحسان والخدم والوِلْدان والأصوات المطربات والسماع المشجي والمناظر العجيبة والروائح الطيبة والفرح والسرور واللَّذَّة والحبور، مما لا يقدِرُ أحدٌ أن يصفه. {وأما الذين كفروا}: وجَحَدوا نعمه، وقابلوها بالكفر، {وكذَّبوا بآياتنا}: التي جاءتهم بها رسُلُنا {فأولئكَ في العذاب مُحْضَرونَ}: فيه، قد أحاطتْ بهم جهنَّم من جميع جهاتهم، واطَّلع العذابُ الأليمُ على أفئدتهم، وشوى الحميمُ وجوهَهم، وقطَّع أمعاءَهم؛ فأين الفرق بين الفريقين؟! وأين التساوي بين المنعمين والمعذبين؟!
[16-14] اس روز اہل خیر اور اہل شر علیحدہ علیحدہ کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں ان کے اعمال علیحدہ علیحدہ تھے۔﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ یعنی جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کی ﴿فَهُمْ فِیْ رَوْضَةٍ ﴾ ’’تو وہ باغ میں‘‘ جس میں ہر قسم کے درخت، پودے اور تمام دل پسند چیزیں ہوں گی ﴿یُّحْبَرُوْنَ ﴾ ’’خوش ہوں گے۔‘‘ یعنی ان کو خوش رکھا جائے گا اور نعمتوں سے نوازا جائے گا ، مثلاً: نہایت لذیذ ماکولات و مشروبات، خوبصورت حوریں، خدام، خدمت گار لڑکے، طرب انگیز آوازیں، سرور انگیز نغمے، خوبصورت و خوش کن مناظر، بہترین خوشبوئیں، فرحت و سرور اور لذت و نعمت وغیرہ جن کے اوصاف بیان کرنے کی کوئی شخص قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا، ان کے مقابلے میں کفر کیا ﴿وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ﴾ ’’اور ہماری (ان) آیتوں کو جھٹلایا‘‘ جنھیں ہمارے رسول لے کر آئے تھے ﴿فَاُولٰٓىِٕكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ ﴾ ’’تو وہ لوگ عذاب میں ڈالے جائیں گے۔‘‘ جہنم ان کو ہر طرف سے گھیر لے گی، دردناک عذاب ان کے دلوں تک پہنچ جائے گا، ابلتا ہوا پانی ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ دونوں گروہوں کے درمیان کتنا فرق ہے؟ نعمتوں سے سرفراز اور عذاب میں مبتلا دونوں گروہوں کے مابین کہاں برابری ہے؟
آیت: 17 - 19 #
{فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ (17) وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ (18) يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ (19)}.
پس تسبیح کرو اللہ کی جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو(17) اور اسی کے لیے ہیں تمام تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اور سہ پہر کو اور جب تم ظہر کرو(18) وہ نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور وہی نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے، اور وہی زندہ (آباد) کرتا ہے زمین کو بعداس کی موت (ویرانی) کے، اور اسی طرح نکالے جاؤ گے تم بھی(19)
#
{17 ـ 18} هذا إخبارٌ عن تنزُّهه عن السوء والنقص وتقدُّسه عن أن يماثِلَه أحدٌ من الخلق، وأمرٌ للعباد أن يسبِّحوه حين يُمسون، وحين يُصبحون، ووقت العشي ووقت الظهيرة؛ فهذه الأوقات الخمسةُ أوقاتُ الصلوات الخمس، أمر الله عبادَه بالتسبيح فيها والحمدِ، ويدخُلُ في ذلك الواجب منه؛ كالمشتملة عليه الصلوات الخمس، والمستحبُّ؛ كأذكار الصباح والمساء وأدبار الصلوات وما يقترنُ بها من النوافل؛ لأنَّ هذه الأوقات التي اختارها الله لأوقات المفروضات هي أفضلُ الأوقات؛ فالتسبيحُ والتحميدُ فيها والعبادة فيها أفضلُ من غيرها، بل العبادةُ وإنْ لم تشتملْ على قول: سبحان الله؛ فإنَّ الإخلاص فيها تنزيهٌ لله بالفعل أنْ يكون له شريكٌ في العبادة، أو أن يستحقَّ أحدٌ من الخلق ما يستحقُّه من الإخلاص والإنابة.
[17، 18] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس حقیقت کی خبر ہے کہ وہ ہر برائی اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے نیز وہ اس سے بھی منزہ اور پاک ہے کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا مثیل ہو۔ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام، عشاء اور ظہر کے وقت اس کی تسبیح بیان کریں۔ یہ پانچ اوقات، پانچ نمازوں کے اوقات ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں اس کی حمد و تسبیح بیان کریں۔ اس میں فرائض و واجبات بھی داخل ہیں جیسے نماز پنجگانہ اور مستحبات بھی شامل ہیں جیسے صبح و شام اور فرض نمازوں کے بعد اذکار و تسبیحات اور فرض نمازوں کے ساتھ والے نوافل (سنن موکدہ وغیرہ) کیونکہ یہ اوقات، جن کو اللہ تعالیٰ نے فرائض کی ادائیگی کے طور پر اپنے بندوں کے لیے منتخب کیا ہے، افضل ترین اوقات ہیں، اس لیے ان اوقات میں تسبیح و تحمید اور عبادات، دیگر اوقات کی نسبت زیادہ فضیلت کی حامل ہیں بلکہ ان اوقات میں عبادات، اگرچہ وہ ’’سبحان اللہ‘‘ پر مشتمل نہ بھی ہوں (وہ تسبیح و تحمید کے زمرے میں آئیں گی) کیونکہ عبادت کے اندر اخلاص عملی طورپر اللہ تعالیٰ کی اس بات سے تنزیہ ہے کہ عبادت میں اس کا کوئی شریک ہو یا جس اخلاص اور انابت کا اللہ تعالیٰ مستحق ہے اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی مستحق ہو۔
#
{19} {يُخْرِجُ الحيَّ من الميِّتِ}: كما يُخرج النباتَ من الأرض الميتة، والسنبلة من الحبة، والشجرة من النواة، والفرخ من البيضة، والمؤمن من الكافر ... ونحو ذلك. {ويخرِجُ الميِّتَ من الحيِّ}: بعكس المذكور، {ويُحيي الأرضَ بعدَ موتِها}: فينزل عليها المطر وهي ميتة هامدةٌ؛ فإذا أنزل عليها الماء؛ اهتزَّتْ، ورَبَتْ، وأنبتَتْ من كلِّ زوج بهيج. {وكذلك تُخْرَجونَ}: من قبورِكم. فهذا دليلٌ قاطعٌ وبرهانٌ ساطعٌ أنَّ الذي أحيا الأرض بعد موتها فإنه يحيي الأموات؛ فلا فرقَ في نظر العقل بين الأمرين، ولا موجب لاستبعاد أحدهما مع مشاهدة الآخر.
[19] ﴿یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ﴾ ’’وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے۔‘‘ جیسے زندہ نباتات مردہ زمین سے، خوشہ بیج کے دانے سے، درخت گٹھلی سے، چوزہ انڈے سے اور مومن کافر سے نکلتا ہے۔ ﴿وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ﴾ ’’اور وہی مردہ کو زندہ سے نکالتا۔‘‘ متذکرہ بالا چیزوں کے برعکس ﴿وَیُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ اللہ تعالیٰ زمین پر بارش برساتا ہے جبکہ زمین خشک اور مردہ پڑی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے تو وہ لہلہا اٹھتی، پھول جاتی اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگاتی ہے۔ ﴿وَؔكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ﴾ ’’اور اسی طرح تمھیں بھی نکالا جائے گا‘‘ تمھاری قبروں سے۔ یہ قطعی اور بہت بڑی دلیل و برہان ہے کہ وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندگی عطا کی، وہ مردوں کو زندہ کرے گی۔ عقل کے لحاظ سے دونوں امور کے مابین کوئی فرق نہیں، ایک چیز کے مشاہدے کے بعد دوسرے کے بعید ہونے کا کوئی موجب نہیں۔
آیت: 20 - 21 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ (20) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (21)}.
اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے پیدا کیا تمھیں مٹی سے، پھر ناگہاں تم انسان ہو، تم پھیل رہے ہو(زمین میں) (20) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ کہ اس نے پیدا کیں (بنائیں) تمھارے لیے، تمھارے نفسوں (تمھاری جنس) سے بیویاں تاکہ تم سکون حاصل کرو ان سے، اور پیدا کر دی ا س نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی ، بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں(21)
#
{20} هذا شروعٌ في تعداد آياتِهِ الدَّالَّة على انفراده بالإلهيَّة وكمال عظمته ونفوذ مشيئتِهِ وقوَّة اقتدارِهِ وجميل صنعِهِ وسعة رحمتِهِ وإحسانه، فقال: {ومن آياتِهِ أنْ خَلَقَكُم من ترابٍ}: وذلك بخلق أصل النسل آدم عليه السلام، {ثم إذا أنتُم بشرٌ تنتَشِرون}؛ [أي: الذي خلقكم من أصلٍ وَاحدٍ وَمَادَّةٍ وَاحدةٍ]، وبثَّكم في أقطار الأرض وأرجائها. ففي ذلك آيات على أنَّ الذي أنشأكم من هذا الأصل، وبثَّكم في أقطار الأرض هو الربُّ المعبود الملكُ المحمود والرحيمُ الودود، الذي سيعيدُكم بالبعث بعد الموت.
[20] یہاں سے وہ متعدد آیات شروع ہوتی ہیں جو الوہیت میں اللہ تعالیٰ کے یکتا ہونے، اس کی عظمت کے کمال، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کی قوت و اقتدار، اس کی صنعت کے جمال اور اس کی بے پایاں رحمت و احسان پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿وَمِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ﴾ ’’اور اسی کے نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ یہ تھی نسل انسانی کے جدامجد، حضرت آدم u کی تخلیق ﴿ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ ﴾ ’’پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو۔‘‘ اور اس نے تمھیں زمین کے تمام گوشوں اور کناروں تک پھیلایا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس ہستی نے تمھیں اس اصل سے تخلیق کیااور پھر تمھیں زمین کے کناروں تک پھیلایا، وہی ہستی رب معبود، قابل ستائش بادشاہ کائنات، نہایت مہربان اور محبت کرنے والا پروردگار ہے جو تمھیں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے گا۔
#
{21} {ومن آياتِهِ}: الدالَّة على رحمتِهِ وعنايتِهِ بعباده وحكمتِهِ العظيمة وعلمِهِ المحيط، {أنْ خَلَقَ لكم من أنفسِكم أزواجاً}: تناسِبُكم، وتناسبونهنَّ، وتشاكِلُكم، وتشاكلونهن؛ {لِتَسْكُنوا إليها وجعل بينكم مودَّةً ورحمةً}: بما رتَّب على الزواج من الأسباب الجالبة للمودَّة والرحمة، فحصل بالزوجة الاستمتاع واللَّذَّة والمنفعةُ بوجود الأولاد وتربيتهم والسكون إليها؛ فلا تجد بين أحد في الغالب مثل ما بين الزوجين من المودَّة والرحمة. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقومٍ يتفكَّرونَ}: يُعْمِلون أفكارَهم، ويتدبَّرون آياتِ الله، وينتَقِلون من شيء إلى شيء.
[21] ﴿وَمِنْ اٰیٰتِهٖۤ ﴾ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی، جو اس کے بندوں پر اس کی رحمت، اس کی عنایت، اس کی عظیم حکمت اور اس کے علم محیط پر دلالت کرتی ہے، یہ ہے ﴿اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ﴾ ’’کہ اس نے تمھاری جنس ہی سے تمھارے جوڑے بنائے‘‘ جو تم سے مشابہت رکھتے ہیں اور تم ان سے مشابہت رکھتے ہو۔ ﴿لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ﴾ ’’تاکہ ان کی طرف آرام حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کردی‘‘ نکاح و ازدواج پر مترتب ہونے والے اسباب کے ذریعے سے جو محبت و مودت کے موجب ہیں۔ بیوی سے لذت تمتع، وجود اولاد کی منفعت، اولاد کی تربیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور مودت ہوتی ہے غالب حالات میں آپ کبھی دو افراد کے درمیان اتنی محبت اور مودت نہیں پائیں گے ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّـرُوْنَ۠ ﴾ ’’بے شک جو لوگ غوروفکر کرتے ہیں ان کے لیے ان باتوں میں نشانیاں ہیں۔‘‘ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی آیات میں غوروفکر کرتے ہیں اور وہ استدلال کے ذریعے سے ایک چیز سے دوسری چیز تک پہنچ جاتے ہیں۔
آیت: 22 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ (22)}.
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے پیدا کرنا (بنانا) آسمانوں اور زمین کا، اور اختلاف تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانیاں ہیں علم والوں کے لیے(22)
#
{22} والعالمون: هم أهلُ العلم الذين يفهمون العِبَرَ ويتدبَّرون الآيات، والآياتُ في ذلك كثيرة: فمن آياتِ خَلْقِ {السمواتِ والأرضِ}: وما فيهما؛ أنَّ ذلك دالٌّ على عظمة سلطان الله وكمال اقتدارِهِ، الذي أوجد هذه المخلوقات العظيمة، وكمال حكمتِهِ؛ لما فيها من الإتقان، وسعة علمه؛ لأنَّ الخالق لا بدَّ أن يعلم ما خلقه؛ {ألا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ}، وعموم رحمته وفضله؛ لما في ذلك من المنافع الجليلة، وأنه المريد الذي يختارُ ما يشاءُ؛ لما فيها من التخصيصات والمزايا، وأنَّه وحده الذي يستحقُّ أن يُعبد ويوحَّد؛ لأنه المنفرد بالخلق؛ فيجب أن يُفْرَدَ بالعبادة. فكل هذه أدلَّة عقليَّة نبَّه الله العقول إليها، وأمرها بالتفكُّر واستخراج العبرة منها، {و} كذلك في {اختلاف ألسنتكم وألوانكم}: على كَثْرَتِكُم وتبايُنِكُم مع أنَّ الأصل واحدٌ ومخارج الحروف واحدةٌ، ومع ذلك؛ لا تجدُ صوتين متَّفقين من كل وجه، ولا لونين متشابهين من كلِّ وجه؛ إلاَّ وتجد من الفرق بين ذلك ما به يحصُلُ التمييز. وهذا دالٌّ على كمال قدرتِهِ ونفوذِ مشيئتِهِ وعنايته بعبادِهِ ورحمتِهِ بهم، أنْ قدَّرَ ذلك الاختلاف؛ لئلاَّ يقع التشابه، فيحصل الاضطراب، ويفوت كثير من المقاصد والمطالب.
[22] اہل علم وہ لوگ ہیں جو مقام عبرت کو سمجھتے ہیں اور آیات الٰہی میں تدبر کرتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں۔ اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر موجود ہے اسے پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عظمت سلطان اور اس کے کامل اقتدار پر دلالت کرتی ہے جو ان بڑی بڑی مخلوقات کو وجود میں لایا نیز یہ تخلیق اللہ کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان مخلوقات کی تخلیق میں کمال درجے کی مہارت اور وسعت علم پائی جاتی ہے کیونکہ خالق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں پورا علم رکھتا ہو۔ ﴿اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ (الملک:67؍14) ’’بھلا جس نے پیدا کیا ہے وہ بے علم ہوسکتا ہے؟‘‘ نیز یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت اور اس کے فضل و کرم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان کی تخلیق میں منافع جلیلہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارادے کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے خصوصیات کی بنا پر اس کو منتخب کر لیتا ہے۔ وہ اکیلا اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ایک مانا جائے۔ چونکہ وہ تخلیق میں یکتا ہے اس لیے وہ مستحق ہے کہ وہ عبادت میں بھی یکتا ہو۔ یہ تمام عقلی دلائل ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل انسانی کو ان کی طرف توجہ دلائی ہے اور انھیں ان میں غوروفکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ اسی طرح ﴿اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ﴾ ’’ تمھاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا‘‘بھی نشانی ہے جو تمھاری کثرت اور ایک دوسرے سے جدا ہونے کی بنا پر ہے حالانکہ تمھاری اصل ایک اور حروف کے مخارج ایک ہیں۔ بایں ہمہ آپ دو آوازیں بھی ایسی نہیں پائیں گے جو ہر لحاظ سے ایک جیسی ہوں نہ دو رنگ ایسے پائیں گے جو ہر لحاظ سے مشابہت رکھتے ہوں آپ دونوں کے درمیان ضرور فرق پائیں گے جس کے ذریعے سے ان کے مابین امتیاز کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت اور رحمت ہے کہ اس نے ان کے درمیان زبانوں اور رنگوں کا اختلاف پیدا کیا تاکہ ان میں تشابہ واقع نہ ہو جس کی بنا پر اضطراب پیدا ہو جائے اور بہت سے مقاصد و مطالب فوت ہو جائیں۔
آیت: 23 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (23)}
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے سونا تمھارا رات اور دن میں اور تلاش کرنا تمھارا اس کے فضل کو، بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں(23)
#
{23} أي: سماع تدبُّر وتعقُّل للمعاني والآيات في ذلك؛ إنَّ ذلك دليلٌ على رحمة الله تعالى؛ كما قال: {ومن رحمتِهِ جَعَلَ لكم الليلَ والنهارَ لِتَسْكُنوا فيه ولِتَبْتَغوا من فضلِهِ ولعلَّكم تشكرونَ}، وعلى تمام حكمتِهِ؛ إذْ حكمتُه اقتضتْ سكون الخلق في وقت ليستريحوا [به] ويجموا، وانتشارهم في وقت لمصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، ولا يتمُّ ذلك إلا بتعاقُب الليل والنهار عليهم، والمنفردُ بذلك هو المستحق للعبادة.
[23] یعنی آیات و معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے تدبر و تفکر کے ساتھ سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ یہ آیت کریمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (القصص:28؍73) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات کے وقت سکون حاصل کرو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘ نیز یہ آیت کریمہ اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ کسی وقت سکون حاصل کریں تاکہ وہ آرام کر سکیں اور کسی وقت اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لیے زمین پر پھیل جائیں اور یہ مصالح اس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک کہ رات اور دن ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے نہ آئیں۔ جس اکیلی ہستی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگایا ہے وہی اکیلی ہستی عبادت کی مستحق ہے۔
آیت: 24 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (24)}.
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ دکھاتا ہے تمھیں بجلی ڈر اور امیدکے لیے، اور وہی نازل کرتا ہے آسمان سے پانی، پس وہ زندہ کرتا ہے اس کے ذریعے سے زمین کو بعد اس کی موت کے، بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں(24)
#
{24} أي: ومن آياتِهِ أن يُنَزِّلَ عليكم المطر الذي تحيا به البلادُ والعباد، ويريكم قبلَ نزوله مقدِّماتِهِ من الرعد والبرق الذي يُخاف ويُطمع فيه. {إنَّ في ذلك لآياتٍ}: دالَّة على عموم إحسانِهِ وسَعةِ علمِهِ وكمال إتْقانِهِ وعظيم حكمتِهِ، وأنَّه يُحيي الموتى، كما أحيا الأرض بعد موتها، {لقوم يعقلونَ}؛ أي: لهم عقولٌ تعقِلُ بها ما تسمعُه وتراه وتحفظُه، وتستدلُّ به على ما جعل دليلاً عليه.
[24] یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ وہ تم پر بارش برساتا ہے جس سے زمین اور بندوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بارش برسانے سے قبل وہ تمھیں اس کے مقدمات کا مشاہدہ کراتا ہے، مثلاً: بجلی کی چمک اور بجلی کی کڑک، جس سے امید وابستہ ہوتی ہے اور اس سے خوف بھی آتا ہے۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ ﴾ ’’بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں‘‘ جو اس کے بے پایاں احسان، لا محدود علم، کامل مہارت اور عظیم حکمت پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا جس طرح اس نے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندگی بخشی ﴿لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ وہ جو کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اس عقل کے ذریعے سے اسے سمجھنے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر اس عقل کے ذریعے سے ان امور پر استدلال کرتے ہیں جن پر ان نشانیوں کو دلیل بنایا ہے۔
آیت: 25 - 27 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ (25) وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (26) وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (27)}.
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ کہ قائم ہیں آسمان اور زمین اس کے حکم سے، پھر جب وہ پکارے گا تمھیں ایک بار پکارنا، زمین میں سےتو ناگہاں تم (باہر) نکل آؤ گے(25) اور اسی کے لیے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کے فرماں بردار ہیں (26) اور وہی ہے (اللہ) جو پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو ، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا اسے، اور وہ زیادہ آسان ہے اس پر، اور اسی کے لیے ہے مثال اعلیٰ آسمانوں اور زمین میں، اور وہ بڑا زبردست خوب حکمت والا ہے(27)
#
{25} أي: ومن آياته العظيمة أنْ قامت السماواتُ والأرضُ واستقرَّتا وثبتتا لأمرِهِ، فلم يتزلزلا، ولم تسقطِ السماءُ على الأرض؛ فقدرتُه العظيمةُ التي بها أمسك السماواتِ والأرضَ أن تزولا؛ يقدِرُ بها على أنَّه إذا دعا الخلق دعوةً من الأرض؛ إذا هم يَخْرُجونَ. {لَخَلْقُ السمواتِ والأرض أكبرُ من خَلْق الناس}.
[25] اس کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم، ثابت اور ٹھہرے ہوئے ہیں وہ دونوں متزلزل ہوتے ہیں نہ آسمان زمین پر گرتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو گرنے سے روک رکھا ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ جب وہ مخلوق کو پکارے تو تمام مخلوق زمین سے نکل کھڑی ہو۔ ﴿لَخَلْ٘قُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْ٘قِ النَّاسِ ﴾ (المؤمن:40؍57) ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے یقیناً زیادہ بڑا کام ہے۔‘‘
#
{26} {وله مَن في السمواتِ والأرض}: الكلُّ خلقُه ومماليكه والمتصرِّف فيهم من غير منازعٍ ولا معاونٍ ولا معارضٍ، وكلُّهم قانتون لجلالِهِ، خاضعون لكماله.
[26] ﴿وَلَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔‘‘ ہر چیز اس کی مخلوق اور مملوک ہے، وہ اپنی مخلوق میں کسی کی منازعت و معارضت اور کسی کے تعاون کے بغیر تصرف کرتا ہے، تمام مخلوق اس کے جلال کے سامنے فروتن اور اس کے کمال کے سامنے سرافگندہ ہے۔
#
{27} {وهو الذي يبدأ الخَلْقَ ثم يعيدُه وهو}؛ أي: إعادةُ الخلق بعد موتهم، {أهونُ عليه}: من ابتداء خَلْقِهم، وهذا بالنسبة إلى الأذهان والعقول؛ فإذا كان قادراً على الابتداء الذي تقرُّون به؛ كان قدرتُه على الإعادة التي هي أهون أولى وأولى. ولمَّا ذكر من الآيات العظيمةِ ما به يعتبر المعتبرونَ، ويتذكَّر المؤمنون، ويستبصِرُ المهتدون؛ ذكر الأمر العظيم والمطلب الكبير، فقال: {وله المَثَلُ الأعلى في السمواتِ والأرضِ}: وهو كلُّ صفةِ كمال، والكمال من تلك الصفة، والمحبة والإنابة التامة الكاملة في قلوب عباده المخلصين والذكر الجليل والعبادة منهم؛ فالمَثَلُ الأعلى هو وصفُه الأعلى وما ترتَّب عليه، ولهذا كان أهلُ العلم يستعمِلون في حقِّ الباري قياس الأولى، فيقولون: كلُّ صفة كمال في المخلوقاتِ؛ فخالِقُها أحق بالاتِّصاف بها على وجه لا يشارِكُه فيها أحدٌ، وكلُّ نقص في المخلوق يُنَزَّهُ عنه؛ فتنزيهُ الخالق عنه من باب أولى وأحرى. {وهو العزيزُ الحكيمُ}؛ أي: له العزَّة الكاملة والحكمة الواسعة، فعزَّتُه أوجدَ بها المخلوقاتِ وأظهرَ المأموراتِ، وحكمتُه أتقنَ بها ما صَنَعَه وأحسنَ فيها ما شَرَعَه.
[27] ﴿وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ ﴾ ’’اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ‘‘ یعنی تمام مخلوق کی موت کے بعد ان کی تخلیق کا اعادہ کرنا۔ ﴿اَهْوَنُ عَلَیْهِ﴾ ’’اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘ انھیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے۔ یہ ذہن اور عقل کی نسبت سے ہے کہ جب وہ تخلیق کی ابتدا کرنے پر قادر ہے، جس کا تمھیں خود بھی اقرار ہے، تو تخلیق کے اعادہ پر قدرت آسان تر اور زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد، جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں، اہل ایمان نصیحت پکڑتے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگ اس سے بصیرت حاصل کرتے ہیں… بہت عظیم معاملے اور بہت بڑے مقصد کا تذکرہ کیا: ﴿وَلَهُ الْ٘مَثَلُ الْاَعْلٰى فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے۔‘‘ اس سے مراد ہر صفت کمال ہے اور اس کمال سے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے دلوں میں محبت، انابت کامل، ذکر جلیل اور ان کی عبادت میں کمال مراد ہے۔ یہاں (الْ٘مَثَلُ الْاَعْلٰى) سے مراد اس کے بلند ترین وصف اور اس پر مترتب ہونے والے آثار ہیں۔ اس لیے اہل علم اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں قیاس اولیٰ استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ مخلوقات کی ہر صفت کمال سے، ان کو پیدا کرنے والا اللہ متصف ہونے کا زیادہ مستحق ہے، مگر اس طرح کہ کوئی اس کا شریک نہیں ہوتا۔ ہر وہ نقص، جس سے مخلوق اپنے آپ کو بچاتی ہے خالق کا اس وصف سے منزہ ہونا اولیٰ و احریٰ ہے۔ ﴿وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ﴾ وہ غلبۂ کامل اور بے پایاں حکمت کا مالک ہے اس نے اپنے غلبے کی بنا پر مخلوقات کو وجود بخشا اور مامورات کو ظاہر کیا اور اپنی حکمت کی بنا پر اپنی بنائی چیزوں کو مہارت سے بنایا، ان کے اندر اپنی شرع کو بہترین طریقے سے مشروع کیا۔
آیت: 28 - 29 #
{ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (28) بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَنْ يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (29)}.
بیان کی اس (اللہ) نے تمھارے لیے ایک مثال تمھارے نفسوں ہی میں سے، کیا ہیں تمھارے لیے ان میں سے جن کے مالک ہیں دائیں ہاتھ تمھارے، کوئی شریک اس میں جو رزق دیا ہے ہم نے تمھیں کہ تم اس میں برابر ہو جاؤ ؟(کیا) تم ڈرتے ہو ان سے جس طرح ڈرتے ہو تم اپنے نفسوں (لوگوں) سے؟ اسی طرح ہم مفصل بیان کرتے ہیں آیتیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں(28)بلکہ اتباع کیاان لوگوں نے جنھوں نے ظلم کیا، اپنی خواہشوں کا بغیر علم کے، پس کون ہدایت دے سکتا ہے اسے جس کو گمراہ کر دیا اللہ نے؟ اور نہیں ہے ان کے لیے کوئی مددگار(29)
#
{28} هذا مثلٌ ضربَه الله لِقُبح الشرك وتهجينه، مثلاً من أنفسكم لا يحتاجُ إلى حلٍّ وترحال وإعمال الجِمال. {هل لكم ممَّا ملكتْ أيمانُكم من شُرَكاء فيما رَزَقْناكم}؛ أي: هل أحدٌ من عبيدكم وإمائِكم الأرقاءِ يشارِكُكم في رزقكم، وتَرَوْنَ أنَّكم وهم فيه على حدٍّ سواء. {تخافونَهم كخيفَتِكم أنفسَكُم}؛ أي: كالأحرار الشركاء في الحقيقة، الذين يُخاف من قسمه واختصاص كل شيء بحاله؟! ليس الأمر كذلك؛ فإنَّه ليس أحدٌ مما ملكت أيمانُكم شريكاً لكم فيما رَزَقَكم الله تعالى، هذا؛ ولستُم الذين خَلَقْتُموهم ورزَقْتُموهم، وهم أيضاً مماليكُ مثلُكم؛ فكيفَ تَرْضَوْنَ أن تجعلوا لله شريكاً من خلقه، وتجعلونَه بمنزلتِهِ وعديلاً له في العبادة، وأنتُم لا تَرْضَوْنَ مساواة مماليككم لكم؟! هذا من أعجب الأشياء، ومن أدلِّ شيءٍ على سَفَهِ من اتَّخذ شريكاً مع الله، وأنَّ ما اتَّخذه باطل مضمحلٌّ، ليس مساوياً لله ولا له من العبادة شيء. {كذلك نفصِّلُ الآيات}: بتوضيحها بأمثلتها {لقوم يَعْقِلونَ}: الحقائقَ ويعرِفون. وأمَّا مَنْ لا يعقِلُ؛ فلو فُصلت له الآياتُ وبينتْ له البيِّناتُ؛ لم يكن له عقلٌ يبصِرُ به ما تبيَّن، ولا لبٌّ يعقِل به ما توضَّح؛ فأهلُ العقول والألباب هم الذين يُساق إليهم الكلام، ويوجَّه الخطاب.
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک کی قباحت اور برائی واضح کرنے کے لیے تمھارے اپنے نفوس سے مثال دی ہے جس کو سمجھنے کے لیے سفر کرنے اور سواریاں کسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿هَلْ لَّـكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُ٘رَؔكَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ ﴾ ’’کیا تمھارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے تم اپنے رزق میں شریک کر سکو‘‘ جن کے بارے میں تمھارا خیال ہو کہ وہ تمھارے برابر ہیں ﴿تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ ﴾ ’’تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو؟‘‘ یعنی جس طرح حقیقی آزاد شریک اور اس کی تقسیم سے خوف آتا ہے کہ کہیں وہ تمام مال اپنے لیے مختص نہ کر لے۔ معاملہ ایسے نہیں کیونکہ تمھارے غلاموں میں سے کوئی غلام تمھارے اس رزق میں شریک نہیں بن سکتا جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا کیا ہے... حالانکہ تم نے ان کو پیدا نہیں کیا ہے نہ تم ان کو رزق دیتے ہو، نیز وہ بھی تمھاری طرح مملوک ہیں… پھر کیونکر تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا شریک بنانے پر راضی ہوتے ہو اور اس کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ہم مرتبہ اور اس کے برابر قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر قرار دینے پر راضی نہیں ہو۔ یہ سب سے زیادہ عجیب چیز ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے اس کی سفاہت و حماقت پر سب سے بڑی دلیل ہے، نیز اس نے جس چیز کو معبود بنایا ہے وہ باطل اور کمزور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں ہو سکتی اور نہ وہ کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔ ﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔‘‘ یعنی مثالوں کے ذریعے سے ان آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ﴿لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ جو حقائق میں غور کر کے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ رہا وہ شخص جو عقل سے کام نہیں لیتا اگر اس کے سامنے آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیا جائے اور دلائل کو واضح کر دیا جائے تو اس کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے بات کی توضیح و تبیین کو سمجھ سکے... عقل مند لوگوں ہی کے سامنے کلام پیش کیا جاتا ہے اور انھیں خطاب کیا جاتا ہے۔
#
{29} وإذا عُلِمَ من هذا المثال أنَّ من اتَّخذ من دون الله شريكاً يعبُدُه ويتوكَّل عليه في أموره؛ فإنه ليس معه من الحقِّ شيءٌ؛ فما الذي أوجبَ لهم الإقدامَ على أمرٍ باطل توضَّح بطلانُه وظهر برهانُه؟ أوجب لهم ذلك اتِّباع الهوى، فلهذا قال: {بل اتَّبَعَ الذين ظَلَموا أهواءَهم بغيرِ علم}: هويت أنفسُهم الناقصةُ التي ظهر من نقصها ما تعلَّق به هواها أمراً يجزِمُ العقل بفسادِهِ والفِطَرُ بردِّه بغير علم دلَّهم عليه ولا برهان قادَهُم إليه، {فمن يهدي مَن أضلَّ الله}؛ أي: لا تعجبوا من عدم هدايتهم؛ فإنَّ الله تعالى أضلَّهم بظلمهم، ولا طريقَ لهداية من أضلَّ الله؛ لأنَّه ليس أحدٌ معارضاً لله أو منازعاً له في ملكه، {ومالهم من ناصِرينَ}: ينصُرونَهم حين تحقُّ عليهم كلمةُ العذاب، وتنقطِعُ بهم الوصل والأسباب.
[29] جب اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے، پھر اس کی عبادت کرتا ہے اور اپنے معاملات میں اس پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ حق پر نہیں تو وہ کون سی چیز ہے جو انھیں ایک امر باطل پر اقدام کے لیے آمادہ کرتی ہے جس کا بطلان اس کے لیے واضح اور اس کی دلیل ظاہر ہوچکی ہے؟ یقینا ان کی خواہشات نفس ان کے اس اقدام کی موجب ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿بَلِ اتَّ٘بَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَهْوَآءَؔهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ ’’مگر جو ظالم ہیں وہ بے سمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں۔‘‘ ان کے ناقص نفس، جس کا نقص ان امور میں ظاہر ہوچکا ہے جن کا تعلق خواہشات نفس سے ہے، ایسی بات چاہتے ہیں جس کو عقل اور فطرت نے فاسد قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل و برہان نہیں جو اس کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہو۔ ﴿فَ٘مَنْ یَّهْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ﴾ ’’پس جسے اللہ گمراہ کردے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟‘‘ یعنی ان کی عدم ہدایت پر تعجب نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کی پاداش میں گمراہ کر دیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اس کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں کوئی اس کا مدمقابل ہے نہ کوئی مخالف۔ ﴿وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰ٘صِرِیْنَ ﴾ جب وہ عذاب کے مستحق قرار دے دیے جائیں گے تو کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا جو ان کی مدد کر سکے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔
آیت: 30 - 32 #
{فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (30) مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (32)}.
پس سیدھا کریں آپ چہرہ (رخ) اپنا دین کی طرف یک سو ہو کر (اختیار کرو) اللہ کی اس فطرت کو وہ جو پیدا کیا اس نے لوگوں کو اس پر،نہ تبدیل کرو اللہ کی پیدائش (فطرت) کو یہی ہے دین سیدھا، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(30) رجوع کرتے ہوئے اسی کی طرف، اور ڈرو تم اسی سے، اور قائم کرو تم نماز، اور نہ ہو تم مشرکوں میں سے(31) (یعنی )ان لوگوں میں سے جنھوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیااپنے دین کواور ہو گئے وہ کئی گروہ، ہر گروہ اس چیز پرجو اس کے پاس ہے خوش ہے(32)
#
{30} يأمرُ تعالى بالإخلاص له في جميع الأحوال وإقامةِ دينِهِ، فقال: {فأقم وجهَكَ}؛ أي: انصبْه ووجِّهْه {للدين}: الذي هو الإسلامُ والإيمانُ والإحسان، بأن تتوجَّه بقلبك وقصدِك وبَدَنِكَ إلى إقامة شرائع الدين الظاهرة كالصلاة والزكاة والصوم والحج ونحوها، وشرائعه الباطنة كالمحبَّة والخوف والرجاء والإنابة، والإحسان في الشرائع الظاهرة والباطنة؛ بأن تعبدَ الله فيها كأنَّك تراه؛ فإنْ لم تكنْ تراه؛ فإنَّه يراك. وخص الله إقامة الوجه؛ لأنَّ إقبال الوجه تَبَعٌ لإقبال القلب، ويترتَّب على الأمرين سعيُ البدن، ولهذا قال: {حَنيفاً}؛ أي: مقبلاً على الله في ذلك معرضاً عمَّا سواه، وهذا الأمر الذي أمرناك به هو {فطرةَ الله التي فَطَرَ الناس عليها}: ووضع في عقولهم حُسْنَها واستقباحَ غيرها؛ فإنَّ جميع أحكام الشرع الظاهرة والباطنة قد وَضَعَ اللهُ في قلوب الخلق كلِّهم الميلَ إليها، فوضع في قلوبهم محبَّة الحقِّ وإيثار الحقِّ، وهذا حقيقة الفطرة. ومَنْ خَرَجَ عن هذا الأصل؛ فلعارض عرض لفطرته أفسدها؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «كلُّ مولودٍ يولَدُ على الفطرةِ؛ فأبواه يهوِّدانِهِ أو ينصِّرانِهِ أو يمجِّسانِهِ». {لا تبديلَ لِخَلْقِ اللهِ}؛ أي: لا أحد يبدِّلُ خلق الله فيجعلُ المخلوقَ على غير الوضع الذي وَضَعَهُ الله. {ذلك}: الذي أمَرْناك به {الدِّينُ القيِّمُ}؛ أي: الطريق المستقيم الموصل إلى الله وإلى كرامتِهِ؛ فإنَّ مَن أقام وجهه للدين حنيفًا؛ فإنَّه سالك الصراط المستقيم في جميع شرائعِهِ وطرقِهِ، {ولكنَّ أكثرَ الناسِ لا يعلمون}: فلا يتعرَّفون الدِّين القيِّم، وإنْ عرفوه؛ لم يَسْلُكوه.
[30] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام احوال میں اخلاص اور اقامت دین کا حکم دیتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ ﴾ اپنے آپ کو دین کی طرف متوجہ رکھیے اور اس سے مراد ہے اسلام، ایمان اور احسان ہے، یعنی اپنے قلب و قصد اور بدن کے ساتھ ظاہری شرائع کو قائم کیجیے، مثلاً: نماز، زکاۃ، روزہ اور حج وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی شرائع پر عمل کیجیے، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کی طرف انابت وغیرہ۔ ظاہری اور باطنی شرائع میں احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو اس طرح اس کی عبادت کرے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’چہرے کو قائم رکھنے‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ قلب کی توجہ، چہرے کی توجہ کی پیروی کرتی ہے اور ان دونوں امور پر بدن کی سعی مترتب ہوتی ہے اس لیے فرمایا: ﴿حَنِیْفًا ﴾ یعنی ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے وہ ﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ﴾ ’’ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عقول میں فطرت کے محاسن اور غیر فطرت کے قبائح ودیعت کر دیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی احکام کی طرف تمام مخلوق کے دلوں میں میلان رکھ دیا ہے۔ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں حق کی محبت اور حق کو ترجیح دینے کو ودیعت کر دیا اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔ جو کوئی اس اصول سے باہر ہے تو اس کا سبب کوئی عارضہ ہے جو اس کی فطرت کو لاحق ہے جس نے اسے فاسد کر کے رکھ دیا ہے جیسا کہ نبی اکرم e نے فرمایا: ’کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوَّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ‘ (صحیح البخاري، التفسیر، باب قولہ: ﴿فلا تعلم نفس....﴾ (السجدۃ: 32؍17، ح: 4779) ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پس اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔‘‘ ﴿لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْ٘قِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔‘‘ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کر سکے اور اس کو ایسی وضع پر تبدیل کر دے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وضع سے مختلف ہے ﴿ذٰلِكَ الدِّیْنُ ﴾ ’’یہ‘‘ جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے ﴿الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﴾ ’’سیدھا دین ہے‘‘ یعنی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے ۔جوکوئی ہر طرف سے توجہ ہٹا کر دین میں یکسو ہوتا ہے وہ اپنے تمام شرائع اور تمام طریقوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے وہ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اگر انھیں دین کی معرفت حاصل ہو ہی جائے تو اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
#
{31} {منيبينَ إليه واتَّقوه}: وهذا تفسيرٌ لإقامة الوجه للدين؛ فإنَّ الإنابةَ إنابةُ القلب وانجذابُ دواعيه لمراضي الله تعالى، ويلزم من ذلك عملُ البدن بمقتضى ما في القلب، فشمل ذلك العبادات الظاهرة والباطنة، ولا يتمُّ ذلك إلا بترك المعاصي الظاهرة والباطنة؛ فلذلك قال: {واتَّقوه}؛ فهذا يشملُ فعلَ المأمورات وتركَ المنهيات، وخصَّ من المأمورات الصلاةَ لكونها تدعو إلى الإنابة والتقوى لقوله تعالى: {وأقم الصلاةَ إنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عن الفحشاءِ والمنكرِ}: فهذا إعانتها على التقوى، ثم قال: {وَلَذِكْرُ الله أكبرُ}: فهذا حثُّها على الإنابةِ. وخصَّ من المنهيَّات أصلَها، والذي لا يُقبل معه عملٌ، وهو الشركُ، فقال: {ولا تكونوا من المشركين}: لكونِ الشرك مضادًّا للإنابة التي رُوحها الإخلاصُ من كلِّ وجه.
[31] ﴿مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَّقُوْهُ ﴾ ’’اسی کی طرف رجوع کیے رہو اور اس سے ڈرتے رہو۔‘‘ یہ جملہ ’’دین کی طرف توجہ رکھنے‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ (اِنَابَت) ’’رجوع کرنا‘‘ سے مراد، قلب کا رجوع کرنا اور اس کے تمام داعیوں کا اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف کھنچنا ہے۔ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ بدن قلب کے تقاضوں کے مطابق کام کرتا ہے اور یہ چیز ظاہری اور باطنی عبادت کو شامل ہے اور اس کی اس وقت تک تکمیل نہیں ہوتی جب تک ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک نہ کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَاتَّقُوْهُ ﴾ ’’اس سے ڈرتے رہو۔‘‘ یہ تمام مامورات کی تعمیل اور تمام منہیات سے اجتناب کو شامل ہے۔ مامورات میں نماز کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ نماز انابت اور تقویٰ کی طرف بلاتی ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰ٘وةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰ٘وةَ تَ٘نْ٘هٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْؔكَرِ ﴾ (العنکبوت:29؍45) ’’نماز قائم کر، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ گویا یہ تقویٰ پر اعانت ہے ، پھر فرمایا: ﴿وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ﴾ (العنکبوت:29؍45) ’’اور اللہ کا ذکر اس سے بڑھ کر ہے۔‘‘ اور یہ انابت کی ترغیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منہیات میں سے ایسی برائی کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جس کے ہوتے ہوئے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور وہ ہے شرک، فرمایا: ﴿وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ ’’اور مشرکوں میں نہ ہونا۔‘‘ کیونکہ شرک، انابت کی ضد ہے اور انابت کی روح ہر لحاظ سے اخلاص ہے۔
#
{32} ثم ذَكَرَ حالة المشركين مهجِّناً لها ومقبِّحاً، فقال: {من الذين فَرَّقوا دينَهم}: مع أنَّ الدين واحدٌ، وهو إخلاصُ العبادة لله وحدَه، وهؤلاء المشركون فرَّقوه: منهم من يعبدُ الأوثان والأصنام، ومنهم من يعبدُ الشمس والقمر، ومنهم من يعبدُ الأولياء والصالحين، ومنهم يهودٌ، ومنهم نصارى، ولهذا قال: {وكانوا شِيَعاً}؛ أي: كلُّ فرقةٍ من فرق الشرك تاهتْ وتعصَّبتْ على نصرِ ما معها من الباطل ومنابذةِ غيرِهِم ومحاربتِهم. {كلُّ حزبٍ بما لديهم}: من العلوم المخالفة لعلوم الرسل {فرِحونَ}: به يحكُمون لأنفسِهم بأنَّه الحقُّ وأنَّ غيرهم على باطل. وفي هذا تحذيرٌ للمسلمين من تشتُّتهم وتفرُّقهم فرقاً، كلُّ فريق يتعصَّبُ لما معه من حقٍّ وباطلٍ، فيكونون مشابهين بذلك للمشركين في التفرُّق، بل الدين واحدٌ، والرسول واحدٌ، والإله واحدٌ، وأكثر الأمور الدينيَّة وقع فيها الإجماع بين العلماء والأئمَّة، والأخوَّة الإيمانيَّة قد عقدها الله وربَطَها أتمَّ ربط؛ فما بالُ ذلك كلِّه يُلغى ويُبنى التفرُّقُ والشقاقُ بين المسلمين على مسائل خفيَّةٍ أو فروع خلافيَّةٍ يضلِّلُ بها بعضُهم بعضاً ويتميَّز بها بعضُهم عن بعضٍ؟! فهل هذا إلاَّ من أكبر نزغات الشيطانِ وأعظم مقاصدِهِ التي كاد بها المسلمين؟! وهل السعي في جمع كلمتهم وإزالةِ ما بينَهم من الشقاق المبنيِّ على ذلك الأصل الباطل إلاَّ من أفضل الجهادِ في سبيل الله وأفضلِ الأعمال المقرِّبة إلى الله؟! ولما أمر تعالى بالإنابة إليه، وكان المأمور بها هي الإنابة الاختيارية، التي تكون في حالِ العسر واليسر والسَّعة والضيق؛ ذكر الإنابة الاضطراريَّة التي لا تكون مع الإنسان إلاَّ عند ضيقِهِ وكربِهِ؛ فإذا زال عنه الضيق؛ نَبَذَها وراء ظهرِهِ، وهذه غيرُ نافعةٍ، فقال:
[32] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کی حالت کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُ٘وْا دِیْنَهُمْ ﴾ ’’جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا‘‘ حالانکہ دین ایک ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنا اور ان مشرکین نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ان میں سے کچھ پتھروں اور بتوں کی عبادت کرنے لگے کچھ سورج اور چاند کو پوجنے لگے، ان میں سے کچھ نے اولیاء و صالحین کی عبادت کو وتیرہ بنا لیا اوران میں سے کچھ یہودی اور کچھ نصرانی ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَكَانُوْا شِیَعًا ﴾ ’’اور وہ فرقے فرقے ہوگئے۔‘‘ یعنی ہر فرقے نے اپنے باطل نظریات کی نصرت و تائید کے لیے تعصب پر مبنی اپنا الگ گروہ بنا لیا اور دوسروں سے دشمنی اور محاربت شروع کر دی۔ ﴿كُ٘لُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ ﴾ ’’سب فرقے اس سے جوان کے پاس ہے‘‘ انبیاء و مرسلین کے علوم کی مخالفت کرنے والے علوم میں سے وہ ﴿فَرِحُوْنَ ﴾ ان پر بہت خوش ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ باطل پر ہیں۔ یہ آیت کریمہ تشتت اور تفرقہ بازی کے ضمن میں مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے کہ ہر فریق جو اپنے حق اور باطل نظریات کے بارے میں تعصب رکھتا ہے وہ تفرقہ بازی میں مشرکین سے مشابہت رکھتا ہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دین ایک ہے، رسول ایک ہے اور معبود ایک ہے اور اکثر دینی امور کے بارے میں اہل علم اور ائمہ کرام کا اجماع واقع ہو چکا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت مربوط طریقے سے اخوت ایمان قائم کر دی ہے تب کیا بات ہے کہ ان تمام متفقہ اصولوں اور اخوت ایمانی کو باطل قرار دے کر انتہائی خفیف فروعی اور اختلافی مسائل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان افتراق اور دشمنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ سمجھتے ہیں۔ کیا یہ صورت حال شیطان کی طرف سے بڑا فساد اور اس کا سب سے بڑا مقصد نہیں جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو اپنے فریب میں مبتلا کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنا، ان کے درمیان ان اختلافات کا خاتمہ کرنا جو باطل اصولوں پر مبنی ہیں، اللہ کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور افضل ترین عمل نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انابت کا حکم دیا ہے، اور انابت، انابت اختیاری ہے جو عسرت و خوش حالی، فراخی اور تنگی ہر حال میں اختیار کی جاتی ہے ، پھر انابت اضطراری کا ذکر کیا جو انسان میں صرف اس وقت ہوتی ہے جب وہ تنگی اور تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب تنگی زائل ہو جاتی ہے تو وہ انابت کو بھی پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے، لہٰذا اس قسم کی انابت فائدہ مند نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
آیت: 33 - 35 #
{وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (33) لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (34) أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ (35)}.
اور جب پہنچتی ہے لوگوں کو کوئی تکلیف تو وہ پکارتے ہیں اپنے رب کو رجوع کرتے ہوئے اسی کی طرف، پھر جب وہ چکھاتا ہے انھیں اپنی طرف سے رحمت تو ناگہاں کچھ لوگ ان میں سے اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں(33) تاکہ وہ انکار کریں اس (نعمت) کا جو ہم نے انھیں دی، سو فائدہ اٹھا لو تم، پس عنقریب جان لو گے تم(34)کیا نازل کی ہے ہم نے ان پر کوئی (ایسی) دلیل کہ وہ بتلاتی ہے (ان کو )وہ چیز کہ ہیں وہ ساتھ اس کے شریک ٹھہراتے؟ (35)
#
{33 ـ 34} {وإذا مَسَّ الناسَ ضُرٌّ}: مرضٌ أو خوفٌ من هلاك ونحوه، {دَعَوْا ربَّهم منيبين إليه}: ونسوا ما كانوا به يشرِكون في تلك الحال؛ لعلمِهم أنَّه لا يكشفُ الضُّرَّ إلاَّ الله، فَـ {إذَا أذاقَهُم منه رحمةً}: شفاهم من مرضهم وآمَنَهم من خوفهم، {إذا فريقٌ منهم}: ينقُضون تلك الإنابةَ التي صدرت منهم، ويشرِكون به مَنْ لا دَفَعَ عنهم ولا أغنى ولا أفقر ولا أغنى، وكلُّ هذا كفرٌ بما آتاهم اللَّه ومنَّ به عليهم حيثُ أنجاهم وأنقَذَهم من الشدَّة وأزال عنهم المشقَّة؛ فهلاَّ قابلوا هذه النعمة الجليلة بالشُّكر والدوام على الإخلاص له في جميع الأحوال؟!
[33، 34] ﴿وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ ﴾ ’’اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ یعنی مرض یا ہلاکت کا خوف وغیرہ ﴿دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ ﴾ ’’تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔‘‘ اور اس حال میں وہ اپنے اس شرک کو فراموش کر دیتے ہیں جو وہ کیا کرتے تھے کیونکہ انھیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو ان کی تکلیف کو دور کر سکے۔ ﴿ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُمْ مِّؔنْهُ رَحْمَةً ﴾ ’’ پھر جب وہ ان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے۔‘‘ یعنی ان کو ان کی بیماری سے شفایاب اور ہلاکت کے خوف سے نجات دیتا ہے ﴿اِذَا فَرِیْقٌ مِّؔنْهُمْ ﴾ تو ان میں سے ایک فریق اس انابت کو ترک کرتے ہوئے جو اس سے صادر ہوئی تھی، ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتا ہے جو ان کی خوش بختی اور بدبختی، ان کے فقر اور غنا پر کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ یہ سب کچھ ان احسانات و عنایات کی ناشکری ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا، شدت اور تکلیف سے ان کو بچایا اور مشقت کو ان سے دور کیا۔ تب انھوں نے اس نعمت جلیلہ کو اپنے تمام احوال میں شکر اور دائمی اخلاص کے ساتھ کیوں قبول نہ کیا؟
#
{35} {أم أنزَلْنا عليهم سلطاناً}؛ أي: حجَّة ظاهرةً، {فهو}؛ أي: ذلك السلطان {يتكلَّمُ بما كانوا به يشرِكون}: ويقول لهم: اثْبُتوا على شِرْكِكُم واستمرُّوا على شكِّكُم؛ فإنَّ ما أنتم عليه هو الحقُّ، وما دعتكم الرسلُ إليه باطل؛ فهل ذلك السلطان موجودٌ عندهم حتى يوجِبَ لهم شدَّة التمسُّك بالشرك؟ أم البراهين العقليَّة والسمعيَّة والكتب السماويَّة والرسل الكرام وسادات الأنام قد نَهَوْا أشدَّ النهي عن ذلك، وحذَّروا من سلوك طرقه الموصلة إليه، وحكموا بفساد عقل ودين من ارتكبه؟! فشركُ هؤلاء بغير حجَّة ولا برهانٍ، وإنَّما هو أهواء النُّفوس ونَزَغات الشيطانِ.
[35] ﴿اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا ﴾ ’’کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے‘‘یعنی کوئی ظاہری دلیل ﴿فَهُوَ ﴾ ’’کہ وہ‘‘ دلیل ﴿یَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ یُشْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’’ ان کو اللہ کے ساتھ شرک کرنا بتاتی ہے۔‘‘ اور انھیں کہتی ہے کہ اپنے شرک پر قائم رہو، اپنے شک پر جمے رہو، تمھارا موقف حق ہے اور جس چیز کی طرف تمھیں انبیاء و مرسلین دعوت دیتے ہیں وہ باطل ہے۔ کیا کوئی ایسی دلیل تمھارے پاس موجود ہے جو شرک کو سختی کے ساتھ پکڑے رکھنے کی موجب ہے؟ یا اس کے برعکس تمام عقلی و نقلی دلائل، تمام کتب الٰہیہ، تمام انبیاء ومرسلین اور بڑے بڑے لوگ شرک سے نہایت شدت سے روکتے ہیں اور ان تمام راستوں پر چلنے سے باز رکھتے ہیں جن کی منزل شرک ہے اور ایسے شخص کی عقل و دین کے فساد کا حکم لگاتے ہیں جو شرک کا ارتکاب کرتا ہے؟ پس ان مشرکین کا شرک، جس پر کوئی دلیل اور برہان نہیں، محض خواہشات نفس کی پیروی اور شیطانی وسوسے ہیں۔
آیت: 36 - 37 #
{وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ (36) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (37)}.
اور جب ہم چکھاتے ہیں لوگوں کو رحمت تو وہ خوش ہوتے ہیں اس سےاوراگر پہنچے انھیں کوئی مصیبت بوجہ اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے تو ناگہاں وہ ناامید ہو جاتے ہیں (36) کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک اللہ کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے وہ چاہتا ہے، اور وہی تنگ کرتا ہے، بلاشبہ اس (فراخی اور تنگی) میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (37)
#
{36 ـ 37} يخبر تعالى عن طبيعة أكثر الناس في حال الرخاء والشدَّة أنَّهم إذا أذاقهم الله منه رحمةً من صحَّةٍ وغنى ونصرٍ ونحو ذلك؛ فرحوا بذلك فرحَ بَطَرٍ لا فرح شُكْرٍ وتبجُّح بنعمة الله. {وإنْ تُصِبْهم سيئةٌ}؛ أي: حالٌ تسوؤهم، وذلك {بما قدَّمت أيديهم}: من المعاصي، {إذا هم يَقْنَطون}: ييأسون من زوال ذلك الفقر والمرض ونحوه، وهذا جهلٌ منهم وعدم معرفة. {أوَلَمْ يرَوْا أنَّ الله يبسطُ الرزقَ لمن يشاء وَيَقْدِرُ}: فالقنوط بعدما علم أن الخير والشرَّ من الله والرزق سعته وضيقه من تقديره ضائعٌ ليس له محلٌّ؛ فلا تنظر أيُّها العاقل لمجرَّد الأسباب، بل اجعلْ نَظَرَكَ لمسبِّبها، ولهذا قال: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يؤمنون}: فهم الذين يعتبِرونَ ببسطِ الله لِمَنْ يشاءُ وقَبْضِهِ، ويعرفون بذلك حكمة الله ورحْمته وجوده وجذب القلوب لسؤالِهِ في جميع مطالب الرزق.
[36، 37] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ نرمی اور سختی کے حالات میں اکثر لوگوں کی فطرت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ صحت، فراخی اور نصرت وغیرہ کے ذریعے سے انھیں اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے فرحت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے خوش ہوتے ہیں ﴿وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ ﴾ ’’اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچے‘‘ یعنی اگر ان کا حال ایسا ہوتا ہے جس سے ان کو تکلیف پہنچتی ہو ﴿بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے‘‘ یعنی اپنے کرتوتوں کے باعث ﴿اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ ﴾ ’’تو ناامید ہوجاتے ہیں۔‘‘ یعنی فقر اور بیماری وغیرہ کے دور ہونے کے بارے میں مایوس ہو جاتے ہیں یہ مایوسی ان کی جہالت اور عدم معرفت کے باعث ہے۔ ﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے؟‘‘ یہ جان لینے کے بعد کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، رزق میں تنگی اور فراخی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے، مایوسی کا کوئی مقام نہیں۔ اے عقل مند شخص! مجرد اسباب پر نظر نہ رکھ بلکہ مسبب الاسباب کی طرف دیکھ، اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں نشانیاں ہیں۔‘‘ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو رزق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مشیت کے مطابق عطا کردہ کشادگی اور تنگی سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے انھیں اللہ تعالیٰ کی حکمت، اس کی رحمت، اس کے جودوکرم اور رزق کی تمام ضروریات میں دل کے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کی طرف میلان کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
آیت: 38 - 39 #
{فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (38) وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (39)}.
پس دیں آپ قرابت داروں کو حق ان کا اور مسکین اور مسافر کو بھی ، یہ بہت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو چاہتے ہیں چہرہ اللہ کا (یعنی اس کی رضا مندی) اور یہی لوگ، ہیں فلاح پانے والے (38) اور جو کچھ دو تم سود سے تاکہ وہ بڑھتا رہے لوگوں کے مالوں سے، تو وہ نہیں بڑھتا اللہ کے ہاں اور جو کچھ تم دو زکاۃ سے کہ چاہتے ہو تم رضا مندی اللہ کی، تو یہی لوگ ہیں(کئی گنا ) بڑھانے والے (39)
#
{38} أي: فأعطِ القريب منك ـ على حسب قربِهِ وحاجتِهِ ـ حقَّه الذي أوجبه الشارع أو حضَّ عليه من النفقةِ الواجبة والصدقةِ والهديَّة والبرِّ والسلام والإكرام والعفوِ عن زلَّته والمسامحة عن هفوتِهِ، وكذلك آتِ المسكين الذي أسْكَنَهُ الفقرُ والحاجةُ ما تُزيل به حاجَتَه وتدفعُ به ضرورتَه من إطعامه وسقيه وكسوتِهِ. {وابنَ السبيل}: الغريب المنقطع به في غير بلدِهِ، الذي في مظنَّة شدَّة الحاجة، وأنَّه لا مال معه ولا كسب قد دَبّر نفسَه به في سفره؛ بخلاف الذي في بلده؛ فإنَّه وإن لم يكن له مالٌ، لكن لا بدَّ في الغالب أن يكونَ في حرفةٍ أو صناعةٍ ونحوها تسدُّ حاجته، ولهذا جعل الله في الزَّكاة حصةً للمسكين وابن السبيل. {ذلك}؛ أي: إيتاء ذي القربى والمسكين وابن السبيل: {خيرٌ للذين يريدون}: بذلك العمل {وَجْهَ الله}؛ أي: خير غزيرٌ وثوابٌ كثيرٌ؛ لأنَّه من أفضل الأعمال الصالحة، والنفعُ المتعدِّي الذي وافق محلَّه المَقْرونُ به الإخلاص؛ فإن لم يُرَدْ به وجهُ الله؛ لم يكن خيراً للمعطي، وإن كان خيراً ونفعاً للمعطى؛ كما قال تعالى: {لا خيرَ في كثير مِن نَجْواهم إلاَّ مَنْ أمر بصدقةٍ أو معروفٍ أو إصلاح بينَ الناس}: مفهومُها أنَّ هذه المستثنيات خيرٌ؛ لنفعها المتعدِّي، ولكن مَنْ يفعلُ ذلك ابتغاء مرضاة الله؛ فسوف نؤتيه أجراً عظيماً، وقوله: {وأولئك}: الذين عملوا هذه الأعمالَ وغيرَها لوجه الله، {هم المفلحون}: الفائزونَ بثواب الله الناجون من عقابه.
[38] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قرابت دار کو اس کی قرابت اور ضرورت کے مطابق اس کا حق ادا کرو جو شارع نے واجب قرار دیا ہے یا اس کی ترغیب دی ہے ، مثلاً: نفقات واجبہ اور صدقات کی ادائیگی کرنا، ہدیہ دینا، نیک سلوک کرنا، سلام کرنا، عزت و تکریم کرنا، دوسرے کی لغزش کو معاف کرنا اور اس کی بدکلامی پر رواداری سے کام لینا۔ اسی طرح مسکین کو، جسے فقر و فاقہ نے لاچار کر دیا ہو، اتنا عطا کرنا جس سے اس کے کھانے پینے اور لباس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ ﴿وَابْنَ السَّبِیْلِ ﴾ وہ غریب الوطن مسافر جس کا زادِ راہ ختم ہو گیا ہو، اپنے شہر سے دور ہو جس کے بارے میں شدید گمان ہو کہ وہ انتہائی ضرورت مند ہو گا اس کے پاس مال ہے نہ ہاتھ میں کوئی کسب جس کے ذریعے سے وہ دوران سفر اپنی ضروریات کا انتظام کر سکتا ہو۔ برعکس اس شخص کے جو اپنے شہر میں رہتا ہے اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غالب حالات میں اس کے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی صنعت و حرفت کا کام کرتا ہو گا جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہو گی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے زکاۃ میں مسکین اور مسافر کا (الگ الگ) حصہ رکھا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کو عطا کرنا ﴿خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں‘‘ اس عمل کے ذریعے سے ﴿وَجْهَ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کا چہرہ‘‘ یعنی بے شمار بھلائی اور ثواب کثیر کیونکہ یہ بہترین اعمال ہیں، ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے بشرطیکہ موقع و محل کے مطابق اور اخلاص سے مقرون ہوں۔ اگر اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو عطا کرنے والے کے لیے کوئی بھلائی نہیں خواہ اس شخص کو اس سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچا ہو جسے عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ ﴾ (النساء:4؍114) ’’ان لوگوں کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں، سوائے اس کے کہ صدقہ کا حکم دیا ہو یا نیکی کا یا لوگوں کے درمیان صلح کروائی ہو۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کاموں میں بھلائی ہے کیونکہ اس کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے، مگر جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔ فرمایا: ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ اعمال بجا لاتے ہیں ﴿هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے فیض یاب اور اس کے عذاب سے نجات یافتہ ہیں۔
#
{39} ولمَّا ذكر العمل الذي يُقْصَدُ به وجهُه من النفقات؛ ذكر العمل الذي يُقْصَدُ به مَقْصِدٌ دنيويٌّ، فقال: {وما آتيتُم من ربا لِيَرْبُوا في أموال الناس}؛ أي: ما أعطيتم من أموالكم الزائدة عن حوائجكم، وقصدُكم بذلك أن يَرْبُوَ؛ أي: يزيد في أموالكم؛ بأن تُعطوها لمن تطمعون أن يعاوِضكم عنها بأكثر منها؛ فهذا العمل لا يربو أجرُهُ عند الله؛ لكونه معدومُ الشرط الذي هو الإخلاص. ومثل ذلك العملُ الذي يُراد به الزيادة في الجاه والرياء عند الناس؛ فهذا كلُّه لا يربو عند الله. {وما آتيتُم من زكاةٍ}؛ أي: مال يطهِّرِكم من الأخلاق الرَّذيلة، ويطهِّر أموالكم من البُخل بها، ويزيدُ في دفع حاجة المعطى؛ {تريدونَ}: بذلك {وجهَ الله فأولئك هم المُضْعِفونَ}؛ أي: المضاعَف لهم الأجر، الذين تربو نفقاتُهم عند الله، ويُربيها اللهُ لهم، حتى تكونَ شيئاً كثيراً، ودلَّ قولُه: {وما آتَيْتُم من زكاةٍ}: أنَّ الصدقة مع اضطرارِ من يَتَعَلَّق بالمنفق أو مع دَيْنٍ عليه لم يَقْضِهِ ويقدِّمُ عليه الصدقَة؛ أنَّ ذلك ليس بزكاةٍ يؤجَر عليه العبد، ويُرَدُّ تصرُّفُه شرعاً؛ كما قال تعالى في الذي يُمْدَحُ: {الذي يؤتي ماله يتزكَّى}؛ فليس مجردُ إيتاءِ المال خيراً، حتى يكون بهذه الصفة، وهو أن يكونَ على وجهٍ يَتَزَكَّى به المؤتي.
[39] اللہ تبارک و تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ، ان اعمال کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے ، پھر ان اعمال کا ذکر کیا جو دنیاوی مقاصد کے تحت کیے جاتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ ﴾ ’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مالوں میں افزائش ہو۔‘‘ یعنی اپنی ضروریات سے زائد مال، جو تم عطا کرتے ہو اور اس سے تمھارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمھارے مال میں اضافہ ہو جائے۔ تم انھی لوگوں کو مال عطاکرتے ہو جن سے تمھیں عطا کردہ مال سے زیادہ معاوضے کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اخلاص کی شرط معدوم ہے۔ اس قسم کے اعمال کے زمرے میں وہ اعمال آتے ہیں جو لوگوں کے ہاں عزت و جاہ اور ریا کے لیے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ﴿وَمَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَؔكٰوةٍ ﴾ ’’اور جو کچھ تم زکاۃ دیتے ہو۔‘‘ وہ مال تمھیں اخلاق رذیلہ سے پاک کرتا ہے اور زکاۃ کے ذریعے سے تمھارے مال کو بخل سے پاک کرتا ہے اور حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کی بنا پر اس میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿تُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’تم چاہتے ہو‘‘ زکاۃ کی ادائیگی سے ﴿وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘مُضْعِفُوْنَ ﴾ ’’اللہ کا چہرہ، تو وہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کررہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا خرچ کیا ہوا مال کئی گنا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مال کو ان کے لیے بڑھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَمَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَؔكٰوةٍ ﴾ دلالت کرتا ہے کو وہ صدقہ جس کا دینے والا اضطرار سے دو چار ہو، یا صدقہ دینے والے کے ذمہ قرض ہو جو اس نے ادا نہیں کیا اور اس کی بجائے صدقے کو مقدم رکھا تو اس زکاۃ پر بندے کو اجر نہیں ملے گا اور اس کا یہ تصرف شرعاً مردود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَؔكّٰى ﴾ (اللیل:92؍18) ’’جو پاک ہونے کے لیے اللہ کے راستے میں اپنا مال عطا کرتا ہے۔‘‘ مجرد مال عطاکرنا بھلائی نہیں جب تک کہ وہ وصف مذکور کے ساتھ نہ ہو یعنی عطا کرنے والے کا مقصد پاک ہونا ہو۔
آیت: 40 #
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (40)}.
اللہ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا تمھیں، پھر اس نے رزق دیا تمھیں ، پھر وہ مارے گا تمھیں، پھر وہ (دوبارہ) زندہ کرے گا تمھیں، کیا ہے کوئی تمھارے شریکوں میں سے وہ جو کر سکے ان (کاموں) میں سے کچھ بھی؟ وہ ( اللہ) پاک اور برتر ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں (40)
#
{40} يخبر تعالى أنَّه وحده المنفرد بخلقكم ورزقكم وإماتتكم وإحيائكم، وأنه ليس أحدٌ من الشركاء التي يدعوها المشركون مَنْ يشارِكُ الله في شيءٍ من هذه الأشياء؛ فكيف يشرِكون بِمَنِ انفردَ بهذه الأمور من ليس له تصرُّفٌ فيها بوجهٍ من الوجوه؟ فسبحانَه وتعالى، وتقدَّس، وتنزَّه، وعلا عن شِرْكِهِم؛ فلا يضرُّه ذلك، وإنَّما وبالُه عليهم.
[40] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ تمھاری تخلیق، تمھیں رزق عطا کرنے، تمھیں مارنے اور تمھیں زندہ کرنے میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور یہ خود ساختہ الٰہ، جن کو مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دے رکھا ہے ان افعال میں کچھ بھی شریک نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ، جو ان امور میں یکتا ہے، ایسی ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں، جو کسی طرح بھی ان امور میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے شرک سے بالاتر، پاک اور منزہ ہے اور ان کے شرک سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اس کا وبال انھی پر ہے۔
آیت: 41 #
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (41)}
ظاہر ہو گیا فساد خشکی اور سمندر (تری) میں بوجہ اس کے جو کمایا ہے لوگوں کے ہاتھوں نے، تاکہ وہ (اللہ) چکھائے انھیں (مزہ) بعض اس کا جو انھوں نے عمل کیے شاید کہ وہ رجوع کریں (41)
#
{41} أي: استعلن {الفسادُ في البرِّ والبحرِ}؛ أي: فساد معايشهم ونقصها وحلول الآفات بها وفي أنفسهم من الأمراض والوباء وغير ذلك، وذلك بسبب ما قدَّمَتْ أيديهم من الأعمال الفاسدةِ المفسدةِ بطبعها. هذه المذكورة، {لِيُذيقَهم بعضَ الذي عملوا}؛ أي: ليعلموا أنَّه المجازي على الأعمال، فعجَّل لهم نموذجاً من جزاء أعمالهم في الدنيا؛ {لعلَّهم يرجِعونَ}: عن أعمالهم التي أثَّرت لهم من الفساد ما أثَّرت، فتَصْلُحُ أحوالُهم، ويستقيمُ أمرُهم؛ فسبحان من أنعم ببلائِهِ، وتفضَّلَ بعقوبتِهِ، وإلاَّ؛ فلو أذاقهم جميعَ ما كسبوا؛ ما ترك على ظهرِها من دابَّةٍ.
[41] بحروبر میں فساد برپا ہو گیا، یعنی ان کی معیشت میں فساد اور اس میں کمی، ان کی معیشت پر آفات کا نزول اور خود ان کے اندر امراض اور وباؤ ں کا پھیلنا، یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی پاداش اور فطری طورپر فاسد اور فساد برپا کرنے والے اعمال کے سبب سے ہے۔ یہ مذکورہ عذاب اس لیے ہے ﴿لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ﴾ ’’تاکہ وہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔‘‘ یعنی وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اعمال کی جزا دینے والا ہے۔ اس نے انھیں دنیا ہی میں ان کے اعمال کی جزا کا ایک نمونہ دکھا دیا۔ ﴿لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ ’’شاید کہ وہ (اپنے ان اعمال سے) باز آ جائیں‘‘ جن کی وجہ سے فساد برپا ہوا ہے، اس طرح ان کے احوال درست اور ان کے معاملات سیدھے ہو جائیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی آزمائش کے ذریعے سے انعام کیا اور اپنے عذاب کے ذریعے سے احسان کیا ورنہ اگر وہ ان کے تمام کرتوتوں کی سزا کا مزہ چکھاتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار نہ چھوڑتا۔
آیت: 42 #
{قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَ (42)}
کہہ دیجیے: سیر کرو تم زمین میں، پھر دیکھو تم کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو (ان سے) پہلے تھے؟ تھے اکثر ان کے مشرک ہی (42)
#
{42} والأمر بالسير في الأرض يدخُلُ فيه السير بالأبدان والسيرُ في القلوب للنظر والتأمُّل بعواقب المتقدِّمين، {كان أكثرُهُم مشركينَ}: تجِدون عاقِبَتَهم شرَّ العواقب، ومآلهم شرَّ مآلٍ: عذابٌ استأصلهم، وذمٌّ، ولعنٌ من خَلْق الله يتبعهم، وخزيٌ متواصلٌ؛ فاحذروا أن تفعلوا أفعالهم؛ يُحذى بكم حَذْوَهم؛ فإنَّ عدل الله وحكمته في كل زمان ومكان.
[42] زمین میں چلنے پھرنے کے حکم میں، بدنی سیر اور قلبی سیر دونوں شامل ہیں۔ قلبی سیر کا مقصد گزرے ہوئے لوگوں کے انجام پر غور و فکر ہے۔ ﴿كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْ٘رِكِیْنَ ﴾ ’’ان میں زیادہ تر مشرک ہی تھے۔‘‘ تم ان کے انجام کو بدترین انجام پاؤ گے۔ عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طرف سے مذمت، لعنت اور لگاتار رسوائی ان کا پیچھا کرتی رہی۔ پس تم بھی ان جیسے اعمال سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے جو ان پر نازل ہوا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عدل اور اس کی حکمت ہر زمان و مکان میں جاری ہے۔
آیت: 43 - 45 #
{فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ (43) مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ (44) لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (45)}
پس سیدھا کریں آپ چہرہ (رخ) اپنا سیدھے دین کی طرف پہلے اس سے کہ آجائے وہ دن کہ نہیں ہے ٹلنا اس کا اللہ کی طرف سے، اس دن وہ (لوگ) جدا جدا ہوں گے (43) جس شخص نے کفر کیاتو اسی پر ہے کفر اس کا اور جس نے عمل کیے صالح تو وہ اپنے ہی لیے راستہ سنوارتے ہیں (44) تاکہ وہ (اللہ) جزا دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، اپنے فضل سے۔ بلاشبہ وہ نہیں پسند کرتا کافروں کو (45)
#
{43} أي: أقبل بقلبك وتوجَّه بوجهِك، واسْعَ ببدنِك لإقامة الدين القيِّم المستقيم، فنفِّذْ أوامره ونواهيه بجدٍّ واجتهاد، وقمْ بوظائفِهِ الظاهرة والباطنة، وبادِرْ زمانك وحياتك وشبابك، {من قبلِ أن يأتيَ يومٌ لا مردَّ له من الله}: وهو يوم القيامةِ، الذي إذا جاء؛ لا يمكنُ ردُّه، ولا يُرجأ العاملون ليستأنفوا العمل، بل فُرِغَ من الأعمال، ولم يبقَ إلاَّ جزاءُ العمال. {يومئذٍ يَصَّدَّعون}؛ أي: يتفرَّقون عن ذلك اليوم، ويصدُرون أشتاتاً متفاوتين؛ لِيُرَوْا أعمالهم.
[43] اپنے دل، چہرے اور بدن کو سیدھے اور مستقیم دین کو قائم رکھنے پر متوجہ رکھیے۔ کوشش اور جدوجہد سے اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کو نافذ کیجیے اور دین کے ظاہری اور باطنی تمام وظائف ادا کیجیے۔ اپنے زمانے، اپنی زندگی اور اپنے شباب میں جلدی سے نیک عمل کر لیجیے ﴿مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّ٘اْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ ﴾ ’’اس دن سے پہلے جو اللہ کی طرف سے آکر رہے گا اور رک نہیں سکے گا۔‘‘ اس سے مراد روز قیامت ہے اور جب وہ دن آ جائے گا تو اسے روکنا ممکن نہ ہو گا۔ عمل کرنے والوں کو مہلت نہ دی جائے گی کہ اپنے عمل کو نئے سرے سے انجام دیں بلکہ وہ اعمال سے فارغ ہو چکے اب تو عمل کرنے والوں کی جزا کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ ﴿یَوْمَىِٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ ﴾ یعنی اس دن لوگ بکھر جائیں گے اور الگ الگ حاضر ہوں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔
#
{44 ـ 45} فَـ {مَنْ كفر}: منهم، {فعليه كفرُهُ}: ويعاقَب هو بنفسِهِ، لا تزِرُ وازرةٌ وزرَ أخرى، {ومن عَمِلَ صالحاً}: من الحقوق التي لله والتي للعباد الواجبة والمستحبَّة {فلأنفسِهِم}: لا لغيرهم؛ {يَمْهَدونَ}؛ أي: يهيِّئون، ولأنفسهم يعمرون آخرتهم، ويستعدُّون للفوز بمنازلها وغرفاتها، ومع ذلك جزاؤهم ليس مقصوراً على أعمالهم، بل يجزيهم الله من فضلِهِ الممدود وكرمِهِ غير المحدود ما لا تبلغُهُ أعمالُهم، وذلك لأنَّه أحبَّهم، وإذا أحبَّ الله عبداً؛ صبَّ عليه الإحسان صبًّا، وأجزل له العطايا الفاخرةَ، وأنعم عليه بالنعم الظاهرة والباطنة، وهذا بخلاف الكافرين؛ فإنَّ الله لمَّا أبغضَهم ومقَتَهم؛ عاقَبَهم وعذَّبهم، ولم يَزِدْهم كما زاد من قبلهم؛ فلهذا قال: {إنَّه لا يحبُّ الكافرين}.
[44، 45] ﴿مَنْ كَفَرَ ﴾ ’’جس نے کفر کیا‘‘ ان میں سے ﴿فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗ﴾ ’’تو اس کے کفر کا ضرر اسی کو ہے۔‘‘ یعنی اس کی سزا صرف اسی کی ذات کو ملے گی اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ﴿وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا ﴾ ’’اور جس نے نیک عمل کیے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ ادا کرتا ہے۔ ﴿فَلِاَنْفُسِهِمْ۠﴾ ’’تو وہ اپنے ہی لیے ‘‘ نہ کہ کسی دوسرے کے لیے ﴿یَمْهَدُوْنَ ﴾ یہ اعمال صالحہ تیار کر رہے ہیں، اپنی ہی آخرت کو آباد کر رہے ہیں، جنت کے بالاخانوں اور منازل کے حصول کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔ بایں ہمہ ان کی جزا ان کے اعمال پر منحصر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل اور لامحدود کرم کی بنا پر ان کو اتنی جزا دے گا جہاں تک ان کے اعمال کی رسائی ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور جب وہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے اپنے بے پایاں احسانات، عنایات فاخرہ، ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے۔ اس کے برعکس، چونکہ اللہ کفار سے ناراض ہے اس لیے وہ ان کو سزا دیتا ہے اور عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی عنایت نہیں کرے گا جیسے اس نے اپنے محبوب بندوں پر کی، اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
آیت: 46 #
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (46)}
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ کہ وہ بھیجتا ہے ہوائیں خوشخبری دینے والی، اور تاکہ وہ چکھائے تمھیں کچھ رحمت اپنی اور تاکہ چلیں کشتیاں اس کے حکم سے اور تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل اور تاکہ تم شکر کرو (46)
#
{46} أي: ومن الأدلَّة الدالَّة على رحمته وبعثِهِ الموتى وأنَّه الإله المعبود والملك المحمود، أن أرسل {الرياحَ}: أمام المطر {مبشراتٍ}: بإثارتها للسحاب ثم جمعِها، فتبشر بذلك النفوس قبل نزوله، {ولِيذيقَكم من رحمتِهِ}: فَيُنْزِلَ عليكم مطراً تحيا به البلادُ والعبادُ وتذوقون من رحمتِهِ ما تعرِفون أنَّ رحمته هي المنقذة للعباد الجالبة لأرزاقهم، فتشتاقون إلى الإكثار من الأعمال الصالحة الفاتحة لخزائن الرحمة، {ولِتَجْرِيَ الفلكُ}: في البحر {بأمرِهِ}: القدريِّ، {ولِتَبْتَغوا من فضلِهِ}: بالتصرُّفِ في معايشكم ومصالحكم. {ولعلَّكُم تشكُرونَ}: مَنْ سخَّر لكم الأسباب، ويَسَّرَ لكم الأمور؛ فهذا المقصود من النعم أنْ تقابَلَ بشكر الله تعالى؛ ليزيدَكم الله منها، ويبقيَها عليكم، وأمَّا مقابلة النعم بالكفرِ والمعاصي؛ فهذه حالُ من بدَّل نعمة الله كفراً، ونعمته محنةً، وهو معرَّضٌ لها للزوال والانتقال منه إلى غيره.
[46] یہ ان دلائل کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی الٰہ معبود اور بادشاہ محمود ہے۔ ان دلائل میں سے ایک ﴿اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَ٘احَ ﴾ بارش سے پہلے اس کا ہواؤں کو بھیجنا ہے۔ ﴿مُبَشِّرٰتٍ ﴾ جو بادلوں کو اٹھا کر خوشخبری دیتی ہیں ، پھر بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں اور بارش کے برسنے سے پہلے نفس خوش ہوتے ہیں۔ ﴿وَّلِیُذِیْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ ﴾ ’’اور تاکہ وہ تمھیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے۔‘‘ وہ تم پر بارش برساتا ہے، جس سے زمین اور بندوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ تم اس کی رحمت کا مزا چکھتے ہو اور تمھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی بندوں کو ان کا رزق فراہم کرتی ہے، لہٰذا تم ان اعمال صالحہ کی کثرت کے مشتاق ہو جاؤ جو اس کی رحمت کے خزانے کھول دیں۔ ﴿وَلِتَجْرِیَ الْفُلْكُ﴾ ’’اور تاکہ کشتیاں چلیں۔‘‘ سمندر کے اندر ﴿بِاَمْرِهٖ ﴾ اس کے حکم قدری سے ﴿وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘﴾ اور اپنی معاش اور مصالح میں تصرف کے ذریعے سے اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اور شاید کہ تم شکر ادا کرو‘‘ اس ہستی کا جس نے تمھارے لیے یہ اسباب مہیا کیے اور تمھارے لیے رزق کے ذرائع پیدا کیے۔نعمتوں سے مقصود یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ تمھیں اور زیادہ نعمتوں سے سرفراز کرے اور ان نعمتوں کو تمھارے پاس باقی رکھے۔ رہا نعمتوں کے مقابلے میں کفر اور معاصی کا ارتکاب کرنا تو یہ اس شخص کا حال ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو کفر سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عنایات کے بدلے ناشکری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے نعمتیں اس شخص سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔
آیت: 47 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (47)}.
اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول ان کی قوم کی طرف پس آئے وہ ان کے پاس ساتھ واضح دلیلوں کے، (پھر بھی قوم نے جھٹلایا ) پس انتقام لیا ہم نے ان لوگوں سے جنھوں نے جرم کیے، اور ہے حق ہم پر مدد کرنا مومنوں کی (47)
#
{47} أي: {ولقد أرْسَلْنا من قبلِكَ}: في الأمم السالفين {رسلاً إلى قومهم}: حين جَحَدوا توحيدَ الله وكذَّبوا بالحقِّ، فجاءتهم رسلُهم يدعونَهم إلى التوحيد والإخلاص والتصديق بالحقِّ وبطلان ما هم عليه من الكفر والضَّلال، وجاؤوهم بالبينات والأدلَّة على ذلك، فلم يؤمِنوا ولم يزولوا عن غيهم، {فانتَقَمْنا من الذين أجْرَموا}: ونصرنا المؤمنينَ أتباع الرسل، {وكان حقًّا علينا نصرُ المؤمنين}؛ أي: أوجَبْنا ذلك على أنفسنا، وجعلْناه من جملةِ الحقوقِ المتعيِّنة، ووعدناهم به؛ فلا بدَّ من وقوعِهِ، فأنتُم أيُّها المكذِّبون لمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - إنْ بقيتُم على تكذيبكم؛ حلَّتْ بكم العقوبةُ، ونصرناه عليكم.
[47] ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھیجے‘‘ یعنی گزشتہ امتوں میں ﴿رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ ﴾ ’’رسول ان کی قوم کی طرف۔‘‘ یعنی جب ان قوموں نے توحید کا انکار کیا اور حق کی تکذیب کی تو ان کے رسول ان کے پاس آئے جو ان کو توحید اور اخلاص کی دعوت دیتے تھے، حق کی تصدیق اور ان کے کفر اور ضلالت کا ابطلال کرتے تھے۔ وہ اپنے اس موقف پر واضح دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایمان لائے نہ انھوں نے اپنی گمراہی کو ترک کیا ﴿فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا ﴾ ’’پس ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنھوں نے جرم کا ارتکاب کیا‘‘ اور انبیاء کی پیروی کرنے والے اہل ایمان کی مدد کی ﴿وَؔكَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی۔‘‘ یعنی اہل ایمان کی نصرت ہم نے خود اپنے آپ پر واجب کی، اہل ایمان کی نصرت کو جملہ متعین حقوق میں شامل کیا اور ان کے ساتھ اس نصرت کا وعدہ کیا۔ پس اس کا واقع ہونا ضروری ہے۔ محمد مصطفی e کی تکذیب کرنے والو! اگر تم تکذیب کی روش پر قائم رہے تو تم پر عذاب نازل ہو گا اور ہم تمھارے خلاف محمد e کو فتح و نصرت سے سرفراز کریں گے۔
آیت: 48 - 50 #
{اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (48) وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ (49) فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (50)}.
اللہ وہ ذات ہے جو بھیجتا ہے ہوائیں، پس وہ اٹھاتی ہیں بادل، پھر پھیلاتا ہے اللہ اس کو آسمان میں جس طرح وہ چاہتا ہے، اور وہ کر دیتا ہے اس کو ٹکڑے ٹکڑے، پھر دیکھتے ہیں آپ بارش کو وہ نکلتی ہے اس کے درمیان سے، پس جب وہ پہنچاتا (برساتا) ہے اسے جس پر چاہتاہے اپنے بندوں میں سے تو اس وقت وہ خوش ہو جاتے ہیں (48) اور بلاشبہ تھے وہ ، پیشتر اس کے کہ وہ نازل ہو ان پر اس سے پہلے، البتہ ناامید (49) پس دیکھیں آپ اللہ کی رحمت کے آثار کی طرف، کیسے وہ زندہ (آباد) کرتا ہے زمین کو بعد اس کی موت (ویرانی) کے، بلاشبہ وہی البتہ زندہ کرنے والا ہے مردوں کو، اور وہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے (50)
#
{48 ـ 49} يخبر تعالى عن كمال قدرته وتمام نعمته أنَّه {يرسلُ الرياح فتثير سحاباً}: من الأرض، {فيَبْسُطُه في السماء}؛ أي: يمدُّه ويوسِّعه {كيف يشاءُ}؛ أي: على أيِّ حالة أرادها من ذلك، {ثم يجعلُه}؛ أي: ذلك السحاب الواسع {كِسَفاً}؛ أي: سحاباً ثخيناً قد طبَّق بعضَه فوق بعض. {فترى الوَدْقَ يخرُجُ من خلالِهِ}؛ أي: السحاب؛ نقطاً صغاراً متفرِّقة، لا تنزل جميعاً فتُفْسِدُ ما أتت عليه، {فإذا أصابَ}؛ أي: بذلك المطر مَنْ {يشاءُ من عبادِهِ إذا هم يستبشرون}: يبشِّر بعضهم بعضاً بنزوله، وذلك لشدَّة حاجتهم وضرورتهم إليه؛ فلهذا قال: {وإن كانوا مِن قبلِ أن يُنَزَّلَ عليهم من قبلِهِ لَمُبْلِسينَ}؛ أي: آيِسين قانطين لتأخُّر وقت مجيئه؛ أي: فلما نزل في تلك الحال؛ صار له موقعٌ عظيم عندهم وفرحٌ واستبشارٌ.
[48، 49] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور نعمت تامہ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ﴿یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابً٘ا ﴾ ’’وہ ہواؤ ں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں‘‘ زمین سے ﴿فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَآءِ ﴾ پھر اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔ ﴿كَیْفَ یَشَآءُ ﴾ جس حالت میں چاہتا ہے ﴿وَیَجْعَلُهٗ﴾ ’’اور اس کو کردیتا ہے‘‘ یعنی اس لمبے چوڑے بادل کو ﴿كِسَفًا ﴾ ایک گہرا بادل بنا دیتا ہے جو ایک دوسرے کے اوپر جما ہوا ہوتا ہے۔ ﴿فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ﴾ پھر تم اس بادل میں سے چھوٹے چھوٹے قطرے گرتے دیکھتے ہو۔ بارش کے یہ قطرے بیک وقت نہیں گرتے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ قطرے جس پر گریں اسے خراب کر دیں۔ ﴿فَاِذَاۤ اَصَابَ بِهٖ﴾ ’’ پھر جب اسے برسا دیتا ہے‘‘ یعنی یہ بارش ﴿مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠﴾ ’’اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے، تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘ وہ بارش برسنے پر ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں کیونکہ وہ بارش کے سخت ضرورت مند تھے۔﴿وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ٘ لَمُبْلِسِیْنَ ﴾ وہ اس سے پہلے بارش میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سخت مایوس تھے۔ جب اس حالت میں بارش برستی ہے تو یہ ان کے لیے انتہائی خوشی کا موقع بن جاتا ہے۔
#
{50} {فانظر إلى آثارِ رحمةِ الله كيف يُحيي الأرضَ بعد موتها}: فاهتزَّتْ ورَبَتْ وأنبتتْ من كلِّ زوج كريم. {إنَّ ذلك}: الذي أحيا الأرض بعد موتها {لَمُحْيي الموتى وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فقدرتُه تعالى لا يتعاصى عليها شيءٌ، وإن تعاصى على قَدْرِ خَلْقِهِ، ودقَّ عن أفهامهم، وحارت فيه عقولهم.
[50] ﴿فَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰۤى اٰثٰ٘رِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ ’’پس اب اللہ کی اس رحمت کے نتائج پر غور کیجیے کہ وہ کیسے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔‘‘ زمین لہلہانے لگتی ہے اور وہ قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگاتی ہے۔ ﴿اِنَّ ذٰلِكَ ﴾ وہ ہستی جو زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے زندہ کرتی ہے ﴿لَمُحْیِ الْمَوْتٰى١ۚ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’مردوں کو زندہ کرنے والی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کبھی کسی چیز سے قاصر نہیں رہی اگرچہ اس کی قدرت مخلوق کی عقل و فہم سے باریک تر ہوتی ہے۔ ان کی عقل اس کی قدرت کے کرشموں سے حیران ہو جاتی ہے۔
آیت: 51 - 53 #
{وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَظَلُّوا مِنْ بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ (51) فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52) وَمَا أَنْتَ بِهَادِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (53)}
اور البتہ اگر بھیجیں ہم ایسی ہوا کہ وہ دیکھیں اس (کھیتی) کو زرد پڑنے والی ،تو البتہ وہ ہوجائیں بعد اس کے ناشکری کرنے والے (51) پس بلاشبہ آپ نہیں سنا سکتے مُردوں کو اور نہیں سنا سکتے آپ بہروں کو (اپنی) پکار جب وہ لوٹ جائیں پیٹھ پھیر کر (52) اور نہیں آپ ہدایت کرنے والے اندھوں کو ان کی گمراہی سے، نہیں سنا سکتے آ پ مگر انھی (لو گوں)کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیتوں پر، پس وہی ہیں فرماں بردار (53)
#
{51} يخبر تعالى عن حالة الخَلْق وأنَّهم مع هذه النعم عليهم بإحياء الأرض بعد موتها ونشرِ رحمةِ الله تعالى: لو أرسَلْنا على هذا النبات الناشئ عن المطرِ وعلى زُروعهم ريحاً مضرَّةً متلفةً أو منقصةً، {فرأوْهُ مُصفرًّا}: قد تداعى إلى التلف، {لَظَلُّوا من بعدِهِ يكفُرون}: فينسَوْن النعم الماضية، ويبادِرون إلى الكفر! وهؤلاء لا ينفع فيهم وعظٌ ولا زجرٌ.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق کا حال بیان کرتا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کے سایہ کناں ہونے، زمین کے مر جانے کے بعد اس کے زندہ ہونے پر بہت خوش ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اس بارش کے بعد اگنے والی نباتات اور ان کی کھیتیوں پر نقصان دہ اور انھیں تلف کر دینے والی ہوا بھیج دے۔ ﴿فَرَاَوْهُ مُصْفَرًّا ﴾ ’’لہٰذا وہ اس (کھیتی) کو زرد پڑتا دیکھیں‘‘ جو تلف ہونے کی حالت کو پہنچ چکی ہے ﴿لَّظَ٘لُّوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ یَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ ’’تو وہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے لگ جائیں گے‘‘ اور اس کی گزشتہ نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت اور زجروتوبیخ کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
#
{52} {فإنَّك لا تُسْمِعُ الموتى ولا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاء}: وبالأولى: {إذا وَلَّوْا مُدْبِرينَ}: فإنَّ الموانع قد توفَّرت فيهم عن الانقياد والسماع النافع كتوفُّر هذه الموانع المذكورة عن سماع الصوتِ الحسيِّ.
[52] ﴿فَاِنَّكَ لَا تُ٘سْ٘مِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُ٘سْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ﴾ ’’بلاشبہ آپ مردوں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں نہ بہروں کو‘‘ خاص طور پر اس وقت ﴿اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ ’’جب یہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں‘‘ تب تو آپ ان کو بدرجہ اولیٰ نہیں سنا سکتے کیونکہ ان کے اندر اطاعت اور نفع بخش سماعت کے موانع بہت زیادہ ہیں جس طرح آوازِ حسی کے سننے سے بہت سے موانع ہوتے ہیں۔
#
{53} {وما أنت بهادِ العُمْيِ عن ضلالَتِهِم}: لأنَّهم لا يقبلون الإبصارَ بسبب عَماهم؛ فليس فيهم قابليَّةٌ له. {إن تُسْمِعُ إلاَّ مَن يؤمنُ بآياتنا فهم مسلمونَ}: فهؤلاء الذين ينفعُ فيهم إسماعُ الهدى، المؤمنون بآياتنا بقلوبهم، المنقادون لأوامرنا، المسلمون لنا؛ لأنَّ معهم الداعي القويَّ لقَبول النصائح والمواعظ، وهو استعدادُهم للإيمان بكلِّ آيةٍ من آيات الله، واستعدادُهم لتنفيذ ما يقدِرون عليه من أوامرِ الله ونواهيه.
[53] ﴿وَمَاۤ اَنْتَ بِهٰؔدِ الْ٘عُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ﴾ ’’اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں‘‘ کیونکہ اندھے اپنے اندھے پن کے باعث دیکھ سکتے ہیں نہ ان میں دیکھنے کی صلاحیت ہی ہے ﴿اِنْ تُ٘سْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ ’’آپ صرف انھیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ سرتسلیم خم کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہدایت کا سنوانا صرف انھی لوگوں کو فائدہ دے سکتا ہے جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے، ہمارے احکام کی تعمیل کرتے اور ہمارے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں کیونکہ ان کے اندر وعظ و نصیحت کو قبول کرنے کا قوی داعیہ موجود ہے اور وہ ہے ہر آیت پر ایمان لانے اور مقدور بھر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے مستعد رہنا۔
آیت: 54 #
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (54)}
اللہ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا تمھیں کمزوری (کی حالت) سے ، پھر کر دی اس نے بعد کمزوری کے قوت ، پھر کر دی اس نے بعد قوت کے کمزوری اوربڑھاپا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، اور وہ خوب جاننے والا، بڑا قدرت والا ہے (54)
#
{54} يخبر تعالى عن سعةِ علمِهِ وعظيم اقتدارِهِ وكمال حكمتِهِ؛ أنَّه ابتدأ خَلْقَ الآدميين من ضَعْفٍ، وهو الأطوارُ الأولى من خلقِهِ من نطفةٍ إلى علقةٍ إلى مضغةٍ إلى أنْ صار حيواناً في الأرحام إلى أن وُلِدَ وهو في سنِّ الطُّفولية، وهو إذْ ذاك في غاية الضعفِ وعدم القوَّة والقدرة، ثمَّ ما زال الله يزيدُ في قوَّته شيئاً فشيئاً، حتى بلغ سنَّ الشبابَ، واستوتْ قوَّتُه، وكملتْ قواه الظاهرةُ والباطنةُ، ثم انتقل من هذا الطورِ ورجع إلى الضعف والشيبةِ والهرم. {يَخْلُقُ ما يشاءُ}: بحسب حكمتِهِ، ومن حكمتِهِ أن يُريَ العبدَ ضعفَه، وأنَّ قوَّتَه محفوفةٌ بضعفين، وأنَّه ليس له من نفسه إلا النقصُ، ولولا تقويةُ الله له؛ لما وصل إلى قوَّة وقدرة، ولو استمرَّتْ قوتُه في الزيادة؛ لطغى وبغى وعتا، وليعلم العبادُ كمالَ قدرةِ الله، التي لا تزال مستمرَّةً؛ يخلق بها الأشياء، ويدبِّر بها الأمورَ، ولا يلحقُها إعياءٌ ولا ضعفٌ ولا نقصٌ بوجه من الوجوه.
[54] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسعت علم، عظمت اقتدار اور کمال حکمت کو بیان کرتا ہے کہ اس نے انسان کو کمزوری سے پیدا کیا اور وہ اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل ہیں یعنی اسے نطفہ سے جما ہوا خون بنایا ، پھر گوشت کا لوتھڑا بنایا اور پھر رحم کے اندر زندہ انسان بنایا ، پھر اس کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا۔ جب وہ سن طفولیت میں ہوتا ہے تو انتہائی ضعیف اور اس میں قوت و قدرت معدوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی قوت میں اضافہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اس کی قوت اور اس کے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہو جاتے ہیں۔ پھر اس مرحلے سے کمزوری اور بڑھاپے کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ ﴾ وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بندہ اپنے ضعف کا مشاہدہ کرے۔ اس کی قوت دو قسم کی کمزوریوں سے گھری ہوئی ہے اور فی نفسہ اس کے پاس نقص کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے طاقت عطا نہ کرے تو اسے طاقت حاصل ہو سکتی ہے نہ قدرت اور اگر اس کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے تو وہ بغاوت اور سرکشی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ بندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت دائمی ہے وہ اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے، اپنی قدرت سے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، اسے تھکن لاحق ہوتی ہے نہ کمزوری اور نہ کسی طرح اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔
آیت: 55 - 57 #
{وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ (55) وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (56) فَيَوْمَئِذٍ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (57)}
اور جس دن قائم ہو گی قیامت قسمیں کھائیں گے مجرم کہ نہیں ٹھہرے وہ سوائے گھڑی بھر کے، اسی طرح تھے وہ (دنیا میں) پھیرے جاتے (حق سے) (55) اور کہیں گے وہ لوگ جو دیے گئے علم اور ایمان البتہ تحقیق ٹھہرے تھے تم اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں دوبارہ اٹھنے کے دن (قیامت) تک، سو یہی ہے دن دوبارہ اٹھنے کا اور لیکن تھے تم نہیں جانتے (56)پس اس دن نہیں فائدہ دے گی ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا معذرت ان کی، اور نہ ان سے توبہ طلب کی جائے گی (57)
#
{55} يخبر تعالى عن يوم القيامةِ وسرعةِ مجيئه، وأنَّه إذا قامت الساعةُ؛ أقسم {المجرمونَ}: بالله أنهم {ما لَبِثوا}: في الدُّنيا {إلاَّ ساعةً}، وذلك اعتذارٌ منهم؛ لعلَّه ينفعُهم العذر، واستقصارٌ لمدَّة الدنيا. ولمَّا كان قولُهم كذباً لا حقيقةَ له؛ قال تعالى: {كذلك كانوا يُؤْفَكون}؛ أي: ما زالوا وهم في الدنيا يؤفَكون عن الحقائق ويأتَفِكون الكذبَ؛ ففي الدُّنيا كذَّبوا الحقَّ الذي جاءت به المرسلون، وفي الآخرة أنكَروا الأمرَ المحسوس، وهو اللبثُ الطويلُ في الدنيا؛ فهذا خُلُقهم القبيح، والعبدُ يُبْعَثُ على ما مات عليه.
[55] اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ بہت جلد آنے والا ہے اور جب قیامت قائم ہو گی تو ﴿یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’مجرم اللہ کی قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے‘‘ کہ بلاشبہ وہ ﴿مَا لَبِثُوْا ﴾ ’’نہیں رہے تھے‘‘ دنیا میں ﴿غَیْرَ سَاعَةٍ ﴾ ’’سوائے ایک گھڑی کے‘‘ وہ یہ عذر اس لیے پیش کریں گے کہ شاید دنیا کی مدت کو کم کہنا انھیں کوئی فائدہ دے۔ چونکہ ان کی یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ﴿كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ ﴾ ’’وہ اسی طرح غلط انداز ے لگایا کرتے تھے۔‘‘ یعنی وہ دنیا کے اندر بھی ہمیشہ حقائق کو چھوڑ کر کذب بیانی کرتے رہے اور جھوٹ گھڑتے رہے، دنیا کے اندر انھوں نے حق کی تکذیب کی جسے انبیائے کرام لے کر آئے تھے اور آخرت میں وہ امرمحسوس، یعنی دنیا کے اندر طویل مدت تک رہنے کا انکار کریں گے۔ یہ ان کا بدترین خلق ہے اور بندہ اسی عادت اور ہیئت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ مرے گا۔
#
{56} {وقال الذين أوتوا العلم والإيمانَ}؛ أي: منَّ اللهُ عليهم بهما، وصارا وصفاً لهم، العلم بالحق والإيمان المستلزمُ إيثار الحقِّ، وإذا كانوا عالمينَ بالحقِّ، مؤثرين له؛ لزمَ أن يكونَ قولُهم مطابقاً للواقع مناسباً لأحوالهم؛ فلهذا قالوا الحقَّ: {لقدْ لَبِثْتُم في كتاب الله}؛ أي: في قضائِهِ وقدرِهِ الذي كتبه الله عليكم وفي حكمه {إلى يوم البعثِ}؛ أي: عُمرتم عمراً يتذكَّر فيه المتذكِّر، ويتدبَّر فيه المتدبِّر ويعتبر فيه المعتبر، حتى صار البعثُ، ووصلتُم إلى هذه الحال. {فهذا يوم البعثِ ولكنَّكم كنتُم لا تعلمون}: فلذلك أنكرتُموه في الدُّنيا، وأنكرتُم إقامتكم في الدُّنيا وقتاً تتمكَّنون فيه من الإنابةِ والتوبةِ، فلم يزل الجهلُ شعاركم، وآثاره من التكذيبِ والخسارِ دِثاركم.
[56] ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ ﴾ ’’اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے۔‘‘ یعنی جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے ان دو چیزوں کے ساتھ احسان کیا اور حق کا علم اور وہ ایمان جو حق کی ترجیح کو مستلزم ہے ان کا وصف بن گیا۔ جب انھوں نے حق کو جان لیا اور حق کو ترجیح دی تو لازم ہے کہ ان کا قول واقع اور ان کے احوال کے مطابق ہو، بنا بریں وہ حق بات کہیں گے: ﴿لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ ’’تم اللہ کی کتاب کے مطابق رہے ہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضاوقدر کے مطابق، جو اس نے اپنے حکم میں تمھارے لیے مقرر کر دی تھی ﴿اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ ﴾ ’’قیامت تک‘‘ یعنی تمھیں اس قدر عمر دی گئی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا، تدبر کرنے والا اس میں تدبر کرسکتا تھا اور عبرت پکڑنے والا اس میں عبرت پکڑسکتا تھا حتی کہ قیامت آگئی اور تم اس حال کو پہنچ گئے۔ ﴿فَهٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’پس یہ یوم قیامت ہے، لیکن تم (اسے حق) نہیں جانتے تھے۔‘‘ اس لیے تم نے اس کا انکار کیا، تم نے دنیا میں ایک مدت تک کے لیے اپنے قیام کا انکار کیا جس میں توبہ اور انابت تمھارے بس میں تھی، مگر جہالت اور اس کے آثار، یعنی تکذیب تمھارا شعار اور خسارہ تمھارا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
#
{57} {فيومئذٍ لا ينفعُ الذين ظَلَموا معذِرَتُهم}: فإن كذَّبوا، وزعموا أنَّهم ما قامت عليهم الحجَّة، أو ما تمكَّنوا من الإيمان؛ ظهر كَذِبُهم بشهادة أهل العلم والإيمان وشهادة جلودِهِم وأيديهم وأرجلهم، وإنْ طلبوا الإعذارَ، وأنَّهم يردُّون، ولا يعودون لِما نُهوا عنه؛ لم يمكَّنوا؛ فإنَّه فات وقتُ الإعذار، فلا تُقبل معذرتُهم. {ولا هم يُسْتَعْتَبونَ}؛ أي: يُزَالُ عتبُهم والعتابُ عنهم.
[57] ﴿فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَ٘عُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ ﴾ ’’یقیناً اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہیں دے گی‘‘ یعنی اگر وہ جھوٹ بولتے ہوئے یہ سمجھیں کہ ان پر حجت قائم نہیں ہوئی یا ایمان لانا ان کے بس میں نہ تھا تو اہل علم و ایمان کی گواہی بلکہ خود ان کی اپنی کھالوں، ان کے ہاتھوں اور پاؤ ں کی گواہی سے ان کو جھٹلا دیا جائے گا۔ اگر وہ معذرت کی اجازت چاہیں کہ ان کو اب واپس لوٹا دیا جائے تو وہ ایسا کام ہرگز نہیں کریں گے جس سے انھیں روکا گیا ہے... تو ان کی معذرت قبول نہ کی جائے گی۔ ﴿وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۠ ﴾ ’’اور نہ ان سے توبہ قبول کی جائے گی‘‘ یعنی وہ ہمیشہ زیر عتاب رہیں گے۔
آیت: 58 - 60 #
{وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَلَئِنْ جِئْتَهُمْ بِآيَةٍ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ (58) كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (59) فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ (60)}
اور البتہ تحقیق بیان کر دی ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر ایک مثال اور البتہ اگرلے آئیں آپ ان کے پاس کوئی نشانی (معجزہ) تو البتہ ضرور کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، نہیں ہو تم مگر باطل پرست (58) اسی طرح مہرلگاتا ہے اللہ دلوں پر ان لوگوں کے جو نہیں جانتے (59) پس آپ صبر کیجیے، بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور نہ ہلکا (بے وزن) بنا دیں آپ کو وہ لوگ جو نہیں یقین رکھتے (60)
#
{58 ـ 59} أي: {ولقد ضَرَبْنا}: لأجل عنايتنا ورحْمَتِنا ولطفنا وحسنِ تعليمنا {للناس في هذا القرآنِ من كلِّ مثلٍ}: تتَّضِح به الحقائقُ وتُعرف به الأمور وتنقطعُ به الحجَّةُ، وهذا عامٌّ في الأمثال التي يضرِبُها الله في تقريب الأمور المعقولة بالمحسوسة، وفي الإخبار بما سيكون وجلاءِ حقيقتِهِ حتى كأنَّه وَقَعَ، ومنه في هذا الموضع ذكرُ الله تعالى ما يكون يوم القيامةِ، وحالةَ المجرمين فيه، وشدَّةَ أسَفِهم، وأنَّه لا يقبلُ منهم عذرٌ ولا عتابٌ، ولكن أبى الظالمون الكافرون إلاَّ معاندة الحقِّ الواضح، ولهذا قال: {ولئن جِئْتَهم بآيةٍ}؛ أي: أيَّ آية تدلُّ على صحة ما جئتَ به، {لَيقولَنَّ الذين كَفَروا إنْ أنتُم إلاَّ مبطلونَ}؛ أي: قالوا للحقِّ: إنَّه باطل! وهذا من كفرهم وجراءتهم وطَبْعِ الله على قلوبهم وجَهْلهم المفرطِ، ولهذا قال: {كذلك يَطْبَعُ الله على قلوبِ الذين لا يعلمونَ}: فلا يَدْخُلُها خيرٌ، ولا تدركُ الأشياءَ على حقيقتها، بل ترى الحقَّ باطلاً والباطل حقًّا.
[58، 59] ﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا ﴾ ’’اور ہم نے بیان کی‘‘ اپنی عنایت، رحمت، لطف و کرم اور حسن تعلیم کی بنا پر ﴿لِلنَّاسِ فِیْ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ مِنْ كُ٘لِّ مَثَلٍ ﴾ ’’لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال‘‘ جس سے حقائق واضح ہوتے ہیں، تمام امور کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حجت تمام ہوتی ہے۔ یہ اصول ان تمام مثالوں میں عام ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے امور معقولہ کو امور محسوسہ کے قریب لانے کے لیے بیان کیا ہے۔ ان امور کے بارے میں جو ابھی واقع ہوں گے خبر دینے اور ان کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ضرب الامثال کا اسلوب بہت اہم ہے حتیٰ کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ خبر واقع ہو چکی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے روز مجرموں کی حالت کیا ہو گی۔ وہ شدت غم میں مبتلا ہوں گے اور ان سے کسی قسم کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ ظالم کفار واضح حق کے بارے میں عناد رکھنے سے باز نہ آئے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَىِٕنْ جِئْتَهُمْ بِاٰیَةٍ ﴾ ’’اور اگر آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آئیں‘‘ جو آپ کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی ہو ﴿لَّیَ٘قُوْلَ٘نَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ ﴾ ’’تو کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم تو جعل سازی کرتے ہو۔‘‘ یعنی وہ حق کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ باطل ہے۔ یہ ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت کے باعث تھا نیز اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ اپنی جہالت میں بہت دور تک نکل گئے۔ ﴿كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پرمہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔‘‘ اس لیے ان کے دلوں میں کوئی بھلائی داخل ہو سکتی ہے نہ وہ اشیاء کی حقیقت کا ادراک کر سکتے ہیں بلکہ اس کے برعکس انھیں حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔
#
{60} {فاصبرْ}: على ما أمرتَ به وعلى دعوتِهِم إلى اللَّه ولو رأيتَ منهم إعراضاً؛ فلا يصدَّنَّك ذلك. {إنَّ وعدَ الله حقٌّ}؛ أي: لا شكَّ فيه، وهذا مما يُعين على الصبر؛ فإنَّ العبد إذا علم أنَّ عمله غير ضائع، بل سيجدُه كاملاً؛ هانَ عليه ما يلقاه من المكاره، وتيسَّر عليه كلُّ عسيرٍ، واستقلَّ من عملِهِ كلَّ كثير. {ولا يَسْتَخِفَّنَّكَ الذين لا يوقنونَ}؛ أي: قد ضعف إيمانُهم وقلَّ يقينُهم فخفَّت لذلك أحلامُهم، وقلَّ صبرُهم؛ فإيَّاكَ أن يستخِفَّكَ هؤلاء؛ فإنَّك إنْ لم تجعلْهم منكَ على بالٍ، وتحذَرْ منهم، وإلاَّ؛ استخُّفوك وحملوك على عدم الثبات على الأوامر والنواهي، والنفسُ تساعِدُهم على هذا، وتطلُبُ التشبُّه والموافقة ، وهذا مما يدلُّ على أنَّ كلَّ مؤمن موقن رزين العقل؛ يَسْهُلُ عليه الصبر، وكلّ ضعيف اليقين؛ ضعيف العقل خفيفُه؛ فالأول بمنزلة اللُّبِّ، والآخر بمنزلة القشور. فالله المستعان.
[60] ﴿فَاصْبِرْ ﴾ ’’پس صبر کیجیے!‘‘ اپنی دعوت الیٰ اللہ اور جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر ثابت قدم رہیے اگر آپ ان کے اندر روگردانی اور اعراض دیکھتے ہیں تو یہ چیز آپ کو اپنی دعوت سے نہ روک دے۔ ﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ’’یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے‘‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ چیز صبر میں مدد دیتی ہے کیونکہ جب بندے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا عمل رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اس کا اجر اسے کامل طور پر مل جائے گا، تو اسے اس راستے میں جو تکالیف اور مصائب پہنچتے ہیں وہ انھیں معمولی نظر آتے ہیں، اس کے لیے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے اور اسے ہر بڑا اور زیادہ عمل کم نظر آتا ہے۔
﴿وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّكَ۠ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ ﴾ یعنی وہ لوگ آپ کو ہرگز ہلکا نہ پائیں جن کا ایمان کمزور اور یقین بہت کم ہے بنابریں ان کی عقل بہت خفیف اور ان میں صبر بہت کم ہے۔ پس یہ لوگ آپ کو ہرگز کمزور نہ پائیں آپ ان سے بچتے رہیں اور ان کی پروا نہ کریں ورنہ وہ آپ کو بہت کمزور اور ہلکا سمجھیں گے اور آپ کو اوامرونواہی میں عدم ثبات پر محمول کریں گے۔ اس بارے میں نفس ان کی معاونت کرتا ہے اور مشابہت اور موافقت تلاش کرتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن جو صاحب یقین ہو اور پختہ عقل رکھتا ہو اس کے لیے صبر کرنا بہت آسان ہے اور ہر کمزور یقین اور کمزور عقل شخص کم صبر والا ہوتا ہے۔ پہلی صورت گویا مغز کی مانند ہے اور دوسری صورت چھلکے کی سی ہے۔ واللہ المستعان۔