{الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5)}.
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
الم
(1) یہ کتاب ہے، نہیں کوئی شک اس میں،ہدایت ہے متقیوں کے لیے
(2) وہ جو ایمان لاتے ہیں ساتھ غیب کے اور قائم کرتے ہیں نماز اور کچھ اس میں سے جوہم نے ان کو دیا، وہ
(اللہ کی راہ میں)خرچ کرتے ہیں
(3) اوروہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں
(4) یہ لوگ اوپر ہدایت کے ہیں اپنے رب کی طرف سے اور یہی فلاح پانے والے ہیں
(5)
بسم اللہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
#
{1} وأما الحروف المقطَّعة في أوائل السورة ؛ فالأسلم فيها السكوت عن التعرُّض لمعناها من غير مستند شرعي، مع الجزم بأن الله تعالى لم ينزلها عبثاً، بل لحكمة لا نعلمها.
[1] بعض سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کے بارے میں محتاط اور محفوظ مسلک یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے ان کے معانی معلوم کرنے کے لیے تعرض نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات کو بے فائدہ نازل نہیں فرمایا بلکہ ان کے نازل کرنے میں کوئی حکمت پنہاں ہے جو ہمارے علم کی دسترس سے باہر ہے۔
#
{2} وقوله: {ذلك الكتاب}؛ أي: هذا الكتاب العظيم، الذي هو الكتاب على الحقيقة، المشتمل على ما لم تشتمل عليه كتب المتقدمين والمتأخرين من العلم العظيم والحقِّ المبين؛ {لا ريب فيه} فلا ريب فيه ولا شكَّ بوجه من الوجوه، ونفي الرَّيب عنه يستلزم ضده إذ ضد الريب والشك اليقين، فهذا الكتاب مشتمل على علم اليقين المزيل للشك والريب.
وهذه قاعدة مفيدة أن النفي المقصود به المدح لا بد أن يكون متضمناً لضده وهو الكمال؛ لأن النفي عدم، والعدم المحض لا مدح فيه، فلما اشتمل على اليقين وكانت الهداية لا تحصل إلا باليقين؛ قال: {هدىً للمتقين}، والهدى ما تحصل به الهداية من الضلالة والشُّبَه، وما به الهداية إلى سلوك الطرق النافعة.
وقال: {هدى} وحذف المعمولَ، فلم يقل: هدى للمصلحة الفلانية ولا للشيء الفلاني؛ لإرادة العموم وأنه هدى لجميع مصالح الدارين، فهو مرشدٌ للعباد في المسائل الأصولية والفروعية، ومبين للحق من الباطل والصحيح من الضعيف، ومبين لهم كيف يسلكون الطرق النافعة لهم في دنياهم وأخراهم. وقال في موضع آخر: {هدى للناس} فعمَّم، وفي هذا الموضع وغيره: {هدى للمتقين} لأنه في نفسه هدى لجميع الناس ، فالأشقياء لم يرفعوا به رأساً ولم يقبلوا هدى الله، فقامت عليهم به الحجة، ولم ينتفعوا به لشقائهم.
وأما المتقون الذين أتوا بالسبب الأكبر لحصول الهداية وهو التقوى التي حقيقتها: اتخاذ ما يقي سخط الله وعذابه بامتثال أوامره، واجتناب النواهي، فاهتدوا به، وانتفعوا غاية الانتفاع، قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً} فالمتقون هم المنتفعون بالآيات القرآنية والآيات الكونية.
ولأن الهداية نوعان: هداية البيان، وهداية التوفيق، فالمتقون حصلت لهم الهدايتان وغيرهم لم تحصل لهم هداية التوفيق، وهداية البيان بدون توفيق للعمل بها ليست هداية حقيقية تامة.
[2] ﴿ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔
﴿ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتابِ عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے،
جبکہ شک و شبہ کی ضد یقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس کی ضد کومتضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتابِ عظیم یقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿ھُدًی لِّلْمُتِّقِیْنَ﴾ ’’متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
(اَلْہُدٰی) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہ نمائی کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے لفظ
﴿ھُدًی﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کر دیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہ نمائی
(ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی ہے۔ لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند راستوں پر انھیں کیسے چلنا چاہیے۔ ایک دوسرے مقام پر
﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ: 2؍185) ’’تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے‘‘ فرما کر اس کو عام کر دیا۔
اس مقام پر اوربعض دیگر مقامات پر فرمایا:
﴿ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ کیونکہ یہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے،
اس لیے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہو گئی ہے کہ انھوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انھوں نے حصول ہدایت کے لیے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّـكُمْ فُ٘رْقَانًا ﴾ (الانفال 8؍29) ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھارے لیے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ
(احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ
(قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس لیے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں:
(۱) ہدایت بیان
(۲) ہدایت توفیق۔
متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سےمحروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ کے عقائد، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ کا بیان فرمایا ہےکیونکہ تقویٰ ان امور کو متضمن ہے۔ فرمایا:
#
{3} {الذين يؤمنون بالغيب} حقيقة الإيمان هو التصديق التام بما أخبرت به الرسل، المتضمن لانقياد الجوارح، وليس الشأن في الإيمان بالأشياء المشاهدة بالحسِّ، فإنه لا يتميز بها المسلم من الكافر، إنما الشأنُ في الإيمان بالغيب الذي لم نره ولم نشاهده، وإنما نؤمن به لخبر الله وخبر رسوله.
فهذا الإيمان الذي يميز به المسلم من الكافر؛ لأنه تصديق مجرد لله ورسله، فالمؤمن يؤمن بكل ما أخبر الله به، أو أخبر به رسوله سواء شاهده أو لم يشاهده، وسواء فهمه وعقله، أو لم يهتدِ إليه عقله وفهمه، بخلاف الزنادقة المكذبين بالأمور الغيبية لأن عقولهم القاصرة المقصرة لم تهتدِ إليها فكذبوا بما لم يحيطوا بعلمه؛ ففسدت عقولهم، ومرجت أحلامهم؛ وزكت عقول المؤمنين المصدقين المهتدين بهدى الله.
ويدخل في الإيمان بالغيب الإيمان بجميع ما أخبر الله به من الغيوب الماضية والمستقبلة وأحوال الآخرة وحقائق أوصاف الله وكيفيتها وما أخبرت به الرسل من ذلك، فيؤمنون بصفات الله ووجودها، ويتيقنونها وإن لم يفهموا كيفيتها.
ثم قال: {ويقيمون الصلاة} لم يقل: يفعلون الصلاة؛ أو يأتون بالصلاة لأنه لا يكفي فيها مجرد الإتيان بصورتها الظاهرة، فإقامة الصلاة، إقامتها ظاهراً، بإتمام أركانها وواجباتها وشروطها، وإقامتها باطناً ، بإقامة روحها وهو حضور القلب فيها وتدبر ما يقول ويفعله منها، فهذه الصلاة هي التي قال الله فيها: {إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر} وهي التي يترتب عليها الثواب، فلا ثواب للعبد من صلاته إلا ما عقل منها، ويدخل في الصلاة فرائضها ونوافلها.
ثم قال: {ومما رزقناهم ينفقون} يدخل فيه النفقات الواجبة؛ كالزكاة، والنفقة على الزوجات والأقارب والمماليك ونحو ذلك، والنفقات المستحبة بجميع طرق الخير، ولم يذكر المنفَق عليه لكثرة أسبابه وتنوع أهله، ولأن النفقة من حيث هي قربة إلى الله، وأتى «بِمِن» الدالة على التبعيض؛ لينبههم أنه لم يرد منهم إلا جزءاً يسيراً من أموالهم غير ضار لهم، ولا مثقل بل ينتفعون هم بإنفاقه، وينتفع به إخوانهم، وفي قوله: {رزقناهم} إشارة إلى أن هذه الأموال التي بين أيديكم ليست حاصلة بقوتكم وملككم، وإنما هي رزق الله الذي خوّلكم وأنعم به عليكم، فكما أنعم عليكم وفضلكم على كثير من عباده فاشكروه بإخراج بعض ما أنعم به عليكم، وواسوا إخوانكم المعدمين.
وكثيراً ما يجمع تعالى بين الصلاة والزكاة في القرآن؛ لأن الصلاة متضمنة للإخلاص للمعبود، والزكاة والنفقة متضمنة للإحسان على عبيده؛ فعنوان سعادة العبد إخلاصه للمعبود وسعيه في نفع الخلق، كما أن عنوان شقاوة العبد عدم هذين الأمرين منه فلا إخلاص ولا إحسان.
[3] ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ ’’وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں‘‘ حقیقت ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جوارح کی اطاعت کومتضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں۔محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی ہو۔
زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انھوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا۔ اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہ نما بنا لیا۔
ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی،مستقبل، احوال آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔
﴿وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ﴾ ’’وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔‘‘ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت و ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ،
یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اس قول و فعل میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت 29؍45) ’’بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔‘‘ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندۂ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔
﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ ’’اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں‘‘ اس میں تمام نفقات واجبہ، مثلاً زکاۃ ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہیے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں۔ خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔
﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں
(من) تبعیض کے لیے ہے اور یہ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لیے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس انفاق سے خود انھیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمھارے قبضے میں ہے تمھیں تمھاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمھیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نےتمھیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکاۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاصکو متضمن ہے اور زکاۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندۂ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لیے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔
#
{4} ثم قال: {والذين يؤمنون بما أنزل إليك} وهو: القرآن والسنة، قال تعالى: {وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة} فالمتقون يؤمنون بجميع ما جاء به الرسول ولا يفرقون بين بعض ما أنزل إليه، فيؤمنون ببعضه، ولا يؤمنون ببعضه، إما بجحده، أو تأويله على غير مراد الله ورسوله، كما يفعل ذلك من يفعله من المبتدعة الذين يؤولون النصوص الدالة على خلاف قولهم بما حاصله عدم التصديق بمعناها وإن صدقوا بلفظها، فلم يؤمنوا بها إيماناً حقيقيًّا. وقوله: {وما أنزل من قبلك} يشمل الإيمان بجميع الكتب السابقة، ويتضمن الإيمانُ بالكتب الإيمان بالرسل وبما اشتملت عليه خصوصاً التوراة والإنجيل والزبور، وهذه خاصية المؤمنين يؤمنون بالكتب السماوية كلها وبجميع الرسل فلا يفرقون بين أحد منهم.
ثم قال: {وبالآخرة هم يوقنون} والآخرة: اسم لما يكون بعد الموت، وخصه بالذكر بعد العموم؛ لأن الإيمان باليوم الآخر أحد أركان الإيمان؛ ولأنه أعظم باعث على الرغبة والرهبة والعمل، واليقين هو: العلم التام، الذي ليس فيه أدنى شك، الموجب للعمل.
[4] ﴿وَالَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْکَ﴾ ’’اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا‘‘ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ (النساء4؍113) ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت
(یعنی سنت) نازل کی۔‘‘ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنھیں رسول اللہeلے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکار یا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔
﴿وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ﴾ ’’اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا‘‘ یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔
﴿وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور
(یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔
#
{5} {أولئك}؛ أي: الموصوفون بتلك الصفات الحميدة {على هدى من ربهم}؛ أي: على هدى عظيم؛ لأن التنكير للتعظيم، وأيُّ هداية أعظم من تلك الصفات المذكورة المتضمنة للعقيدة الصحيحة والأعمال المستقيمة؟! وهل الهداية في الحقيقة إلا هدايتهم وما سواها مما خالفها فهي ضلالة؟! وأتى بعلى في هذا الموضع الدالة على الاستعلاء، وفي الضلالة يأتي بفي كما في قوله: {وإنا أو إياكم لعلى هدى أو في ضلال مبين}؛ لأن صاحب الهدى مستعلٍ بالهدى مرتفع به، وصاحب الضلال منغمس فيه محتقر.
ثم قال: {وأولئك هم المفلحون} والفلاح هو الفوز بالمطلوب والنجاة من المرهوب، حصر الفلاح فيهم؛ لأنه لا سبيل إلى الفلاح إلا بسلوك سبيلهم، وما عدا تلك السبيل فهي سبل الشقاء والهلاك والخسار التي تفضي بسالكها إلى الهلاك؛ فلهذا لما ذكر صفات المؤمنين حقًّا ذكر صفات الكفار المظهرين لكفرهم المعاندين للرسول فقال:
[5] ﴿اُوْلٰٓئِکَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں
﴿عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ﴾ اپنے رب کی طرف سے عظیم ہدایت پر ہیں۔ کیونکہ یہاں
﴿ھُدًی﴾ کا نکرہ استعمال ہونا اس کی تعظیم کی بنا پر ہے اور کون سی ہدایت ایسی ہے جو صفات مذکورہ سے عظیم تر ہو جو صحیح عقیدے اور درست اعمال کو متضمن ہیں؟ ہدایت تو درحقیقت وہی ہے جس پر اہل ایمان عمل پیرا ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام مخالف راستے گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقام پر
(عَلٰی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جو بلندی اور غلبے پر دلالت کرتا ہے اور ’’ضلالت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے
(فِی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے۔
﴿وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾ (سبا:34؍24) ’’ہم یا تم یا تو سیدھے راستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں‘‘ کیونکہ صاحب ہدایت بر بنائے ہدایت بلند اور غالب ہوتا ہے اور صاحب ضلالت اپنی گمراہی میں ڈوبا ہوا اور نہایت حقیر ہے۔
﴿وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے‘‘
(فلاح) اپنے مطلوب کے حصول میں کامیابی اور خوف سے نجات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کو اہل ایمان میں محصور اور محدود کر دیا کیونکہ اہل ایمان کے راستے پر گامزن ہوئے بغیر فلاح کی منزل کو نہیں پایا جا سکتا۔ اس راستے کے سوا دیگر راستے بدبختی، ہلاکت اور خسارے کے راستے ہیں جو اپنے چلنے والوں کو ہلاکت کے گڑھوں میں جاگراتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے جہاں اہل ایمان کی حقیقی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں رسول اللہeسے عناد رکھنے والے کھلے کافروں کی صفات کا ذکر بھی کر دیا۔
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، برابر ہے ان پر، آیا آپ ڈرائیں انھیں یا نہ ڈرائیں انھیں، نہیں ایمان لائیں گے وہ
(6) مہر لگا دی ہے اللہ نے اوپر ان کے دلوں کے اور اوپر ان کے کانوں کےاور اُوپر ان کی آنکھوں کے پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب ہے بہت بڑا
(7)
#
{6} يخبر تعالى {إن الذين كفروا}، أي: اتصفوا بالكفر وانصبغوا به، وصار وصفاً لهم لازماً لا يردعهم عنه رادع، ولا ينجع فيهم وعظ أنهم مستمرون على كفرهم، فسواء عليهم {أأنذرتهم أم لم تنذرهم لا يؤمنون}. وحقيقة الكفر هو الجحود لما جاء به الرسول أو جحد بعضه، فهؤلاء الكفار لا تفيدهم الدعوة إلا إقامة الحجة عليهم، وكأن في هذا قطعاً لطمع الرسول - صلى الله عليه وسلم - في إيمانهم وأنك لا تأس عليهم، ولا تذهب نفسك عليهم حسرات.
[6] اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جنھوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا یعنی کفر کی صفات سے متصف ہوئے اور کفر کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ کفر ان کا وصف لازم بن گیا جس سے کوئی ہٹانے والا ان کو ہٹا نہیں سکتا اور نہ کوئی نصیحت ان پر کارگر ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے کفر میں راسخ اور اس پر جمے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے لیے برابر ہے تم انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔
حقیقت میں کفر اس تعلیم یا اس کے بعض حصے کا انکار کرنے کا نام ہے جسے رسول اللہeلے کر آئے۔ پس ان کفار کو کوئی دعوت فائدہ نہیں دیتی البتہ اس دعوت سے ان پر حجت ضرور قائم ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں گویا رسول اللہeکی اس امید کو ختم کر دیا گیا جو آپ کو ان کے ایمان لانے کی تھی اور فرما دیا گیا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اور ان کفار کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور حسرت کے مارے آپ ہلکان نہ ہوں۔
پھر ان موانع کا ذکر کیا ہے جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہیں۔
#
{7} {ختم الله على قلوبهم وعلى سمعهم}؛ أي: طبع عليها بطابع لا يدخلها الإيمان ولا ينفذ فيها؛ فلا يعون ما ينفعهم ولا يسمعون ما يفيدهم {وعلى أبصارهم غشاوة}؛ أي: غشاءً وغطاءً وأكنَّة تمنعها عن النظر الذي ينفعهم، وهذه طرق العلم والخير قد سدت عليهم، فلا مطمع فيهم ولا خير يرجى عندهم، وإنما منعوا ذلك وسدت عنهم أبواب الإيمان بسبب كفرهم وجحودهم ومعاندتهم بعد ما تبين لهم الحق، كما قال تعالى: {ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة} وهذا عقاب عاجل، ثم ذكر العقاب الآجل فقال: {ولهم عذابٌ عظيم} وهو عذاب النار، وسخط الجبار المستمر الدائم.
[7] ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کر سکتے ہیں، نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔
﴿ وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انھیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کر دیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جا سکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لیے بند کر دیے گئے کہ انھوں نے حق کے عیاں ہو جانے کے بعد بھی کفر،
انکار اور عناد کا رویہ اختیار کیے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے
(وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے) جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہ لائے۔‘‘
یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا:
﴿وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (8) يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9) فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)}.
اور بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں، ایمان لائے ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر، حالانکہ نہیں ہیں وہ ایمان لانے والے
(8) وہ دھوکا دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے،اور نہیں دھوکا دیتے وہ مگر اپنے آپ ہی کو اور وہ نہیں شعور رکھتے
(9) ان کے دلوں میں بیماری ہے،سو بڑھا دیا ان کو اللہ نے بیماری میں، اور ان کے لیے عذاب ہے بڑا دردناک، بہ سبب اس کے
(کہ )تھے وہ جھوٹ بولتے
(10)
#
{8 ـ 9} واعلم أن النفاق هو إظهار الخير وإبطان الشر، ويدخل في هذا التعريف النفاق الاعتقادي والنفاق العملي؛ فالنفاق العملي؛ كالذي ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - في قوله: «آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان»؛ وفي رواية «وإذا خاصم فجر».
وأما النفاق الاعتقادي المخرج عن دائرة الإسلام؛ فهو الذي وصف الله به المنافقين في هذه السورة وغيرها، ولم يكن النفاق موجوداً قبل هجرة النبي - صلى الله عليه وسلم - من مكة إلى المدينة ولا بعد الهجرة، حتى كانت وقعة بدر وأظهر الله المؤمنين وأعزهم؛ فذل من في المدينة ممن لم يسلم، فأظهر الإسلامَ بعضُهم خوفاً ومخادعة؛ ولتحقن دماؤهم وتسلم أموالهم، فكانوا بين أظهر المسلمين في الظاهر أنهم منهم، وفي الحقيقة ليسوا منهم.
فمن لطف الله بالمؤمنين أن جَلا أحوالهم، ووصفهم بأوصاف يتميزون بها لئلا يغتر بهم المؤمنون، ولينقمعوا أيضاً عن كثير من فجورهم، قال تعالى: {يحذر المنافقون أن تنزل عليهم سورة تنبئهم بما في قلوبهم}؛ فوصفهم الله بأصل النفاق فقال: {وَمِنَ النَّاسِ مَن يقُولُ آمنَّا باللَّهِ وبِاليومِ الآخِرِ وَمَا هُم بمؤمنين}؛ فإنهم يقولون بألسنتهم ما ليس في قلوبهم فأكذبهم الله بقوله: {وما هُم بمؤمنين}؛ لأن الإيمان الحقيقي ما تواطأ عليه القلب واللسان، وإنما هذا مخادعة لله ولعباده المؤمنين، والمخادعة: أن يظهر المخادع لمن يخادعه شيئاً، ويبطن خلافه لكي يتمكن من مقصوده ممن يخادع، فهؤلاء المنافقون سلكوا مع الله وعباده هذا المسلك؛ فعاد خداعهم على أنفسهم، وهذا من العجائب ؛ لأن المخادع إما أن ينتج خداعه ويحصل له مقصوده أو يسلم لا له ولا عليه، وهؤلاء عاد خداعهم على أنفسهم ، فكأنهم يعملون ما يعملون من المكر لإهلاك أنفسهم وإضرارها وكيدها؛ لأن الله لا يتضرر بخداعهم شيئاً، وعباده المؤمنين لا يضرهم كيدهم شيئاً، فلا يضر المؤمنين أن أظهر المنافقون الإيمان؛ فسلمت بذلك أموالهم، وحقنت دماؤهم، وصار كيدهم في نحورهم، وحصل لهم بذلك الخزي والفضيحة في الدنيا، والحزن المستمر بسبب ما يحصل للمؤمنين من القوة والنصرة، ثم في الآخرة لهم العذاب الأليم الموجع المفجع بسبب كذبهم وكفرهم وفجورهم، والحال أنهم من جهلهم وحماقتهم لا يشعرون بذلك.
[9 - 8] معلوم ہونا چاہیے کہ نفاق بھلائی کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبیeنے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا: ’آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ،
اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ‘’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘
(صحیح البخاری، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث:33) ایک اور روایت میں آتا ہے ’وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ‘’’جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔‘‘
(حوالہ سابق،حديث:34)
رہا نفاق اعتقادی جو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے والا ہے۔ تو یہ وہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہeکی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآنحالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔
اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کر دیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں،
نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿یَحْذَرُ الْمُنَافِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ﴾ (التوبہ9؍64) ’’منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کر دی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا :
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے
﴿ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ کہہ کر انھیں جھوٹا قرار دیا، اس لیے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہارِ ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔
(اَلْمُخَادَعَۃُ) ’’دھوکہ‘‘ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل میں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کر سکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔
پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انھی کی طرف لوٹ آیا
(یعنی اس کا سارا وبال انھی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے اور اسے اپنا مقصد حاصل ہو جاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف۔ مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لیے کر رہے تھے، اس لیے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انھوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا اور ان کا مکر و فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔
#
{10} وقوله: {في قلوبهم مرض}؛ المراد بالمرض هنا: مرض الشك، والشبهات، والنفاق، وذلك أن القلب يعرض له مرضان يخرجانه عن صحته واعتداله: مرض الشبهات الباطلة، ومرض الشهوات المُرْدِيَة. فالكفر والنفاق والشكوك والبِدَع كلها من مرض الشبهات، والزِنا ومحبة الفواحش والمعاصي وفعلها من مرض الشهوات؛ كما قال تعالى: {فيطمع الذي في قلبه مرض}؛ وهو شهوة الزنا، والمعافى من عوفي من هذين المرضين، فحصل له اليقين والإيمان والصبر عن كل معصية، فرفل في أثواب العافية.
وفي قوله عن المنافقين:
{في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضاً}؛ بيان لحكمته تعالى في تقدير المعاصي، على العاصين وأنه بسبب ذنوبهم السابقة؛ يبتليهم بالمعاصي اللاحقة الموجبة لعقوباتها، كما قال تعالى: {ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة}، وقال تعالى: {فلما زاغوا أزاغ الله قلوبهم}، وقال تعالى: {وأما الذين في قلوبهم مرضٌ فزادتهم رجساً إلى رجسهم} فعقوبة المعصية المعصية بعدها، كما أن من ثواب الحسنة الحسنة بعدها؛ قال تعالى: {ويزيد الله الذين اهتدوا هدى}.
[10] اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ﴾ ’’ان کے دلوں میں روگ ہے‘‘ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کا مرض ہے۔ قلب کو دو قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں جو اسے صحت و اعتدال سے محروم کر دیتے ہیں:
۱۔ شبہات باطلہ کا مرض ۲ ۔ ہلاکت میں ڈالنے والی شہوات کا مرض۔
پس کفر و نفاق اور شکوک و بدعات یہ سب شبہات کے امراض ہیں۔ زنا،
فواحش و معاصی سے محبت اور ان کا ارتکاب یہ سب شہوات کے امراض ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘یَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ (الاحزاب33؍32) ’’پس وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا‘‘ اس مرض سے مراد شہوت زنا ہے۔ برائی سے صرف وہی بچے گا جو ان دو امراض سے محفوظ ہو گا۔ پس اس کو ایمان و یقین حاصل ہوتا ہے اور معاصی کے مقابلے میں صبر کی ڈھال عطا کر دی جاتی ہے اور وہ عافیت کا لباس زیب تن کر کے ناز و ادا سے چلتا ہے۔
منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ فِیْ قُ٘لُ٘وْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا﴾ میں گناہ گاروں کے گناہوں کی تقدیر کی بابت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ روگ نفاق ان کے سابقہ گناہوں کا نتیجہ ہے،
نیز اللہ تعالیٰ انھیں اس کے سبب سے مزید گناہوں میں مبتلا کر دیتا ہے جو ان کے لیے مزید سزا کے موجب بنتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے
(وہ اس قرآن پر اسی طرح ایمان نہ لائیں گے) جس طرح وہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے۔‘‘ اور فرمایا:
﴿فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ﴾ (الصف 61؍5) ’’جب وہ ٹیٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیٹرھا کر دیا۔‘‘ اور فرمایا :
﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِھِمْ﴾ (التوبہ : 9؍125) ’’اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کر دیا۔‘‘ پس گناہ کی سزا گناہ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ جیسے نیکی کی جزا یہ ہے کہ اس کے بعد اسے مزید نیکی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَیَزِیْدُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا ھُدًی﴾ (مریم : 19؍76) ’’اور وہ لوگ جو ہدایت یاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔‘‘
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (12)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے نہ فساد کرو زمین میں،
(تو) کہتے ہی یقیناًہم تو اصلاح کرنے والے ہی ہیں
(11) خبردار! بلاشبہ وہی فساد کرنے والے ہیں لیکن وہ نہیں شعور رکھتے
(12)
#
{11} أي: إذا نُهِيَ هؤلاء المنافقون عن الإفساد في الأرض، وهو العمل بالكفر والمعاصي، ومنه إظهار سرائر المؤمنين لعدوهم وموالاتهم للكافرين: {قالوا إنما نحن مصلحون}؛ فجمعوا بين العمل بالفساد في الأرض وإظهار أنه ليس بإفساد، بل هو إصلاح قلباً للحقائق، وجمعاً بين فعل الباطل واعتقاده حقًّا، وهؤلاء أعظم جناية ممن يعمل بالمعاصي مع اعتقاد تحريمها ، فهذا أقرب للسلامة وأرجى لرجوعه، ولما كان في قولهم: {إنما نحن مصلحون}؛ حصر للإصلاح في جانبهم ـ وفي ضمنه أن المؤمنين ليسوا من أهل الإصلاح ـ قلب الله عليهم دعواهم بقوله:
[11] جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انھوں نے دو باتوں کو اکٹھا کر دیا۔
(۱) فساد فی الارض کا ارتکاب۔
(۲) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انھوں نے حقائق کو بدل دیا
(فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کر دیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آ جانے کی زیادہ امید ہے۔
چونکہ ان کے قول
﴿اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾ ’’بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انھی پر پلٹ دیا۔
#
{12} {ألا إنهم هم المفسدون} فإنه لا أعظم إفساداً ممن كفر بآيات الله، وصد عن سبيل الله، وخادع الله وأولياءه، ووالى المحاربين لله ورسوله، وزعم مع هذا أن هذا إصلاح، فهل بعد هذا الفساد فساد؟! ولكن لا يعلمون علماً ينفعهم وإن كانوا قد علموا بذلك علماً تقوم به عليهم حجة الله، وإنما كان العمل [بالمعاصي] في الأرض إفساداً؛ لأنه سبب لفساد ما على وجه الأرض من الحبوب والثمار والأشجار والنبات لما يحصل فيها من الآفات التي سببها المعاصي، ولأن الإصلاح في الأرض أن تُعمَر بطاعة الله والإيمان به، لهذا خلق الله الخلق وأسكنهم [في] الأرض وأدرَّ عليهم الأرزاق؛ ليستعينوا بها على طاعته وعبادته، فإذا عُمِل فيها بضده كان سعياً فيها بالفساد وإخراباً لها عمَّا خُلِقت له.
[12] فرمایا:
﴿اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ﴾ ’’خبردار، بے شک یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے کفر، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء کو دھوکہ دینے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے بڑا کوئی فساد نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا اس فساد کے بعد بھی کوئی اور فساد رہ جاتا ہے؟ لیکن وہ اپنے فساد کے بارے میں ایسا علم نہیں رکھتے جو انھیں فائدہ پہنچا سکے اگرچہ وہ اس کے بارے میں ایسا علم ضرور رکھتے ہیں جو ان کے خلاف حجت قائم کرے گا اور صرف ان کے اعمال ہی زمین کے اندر فساد کا باعث تھے کیونکہ برے اعمال اور گناہوں کے سبب سے روئے زمین پر آفتیں اور مصائب نازل ہوتے ہیں جو غلے، پھلوں، درختوں اور نباتات کو بھی خراب کر دیتے ہیں۔
زمین کے اندر اصلاح یہ ہے کہ اسے ایمان اور اطاعت الٰہی سے معمور رکھا جائے۔ اسی اطاعت و ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اس کو زمین پر آباد کیا اور ان پر رزق کے دروازے کھول دیے تاکہ وہ اس رزق کی مدد سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرے۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے خلاف عمل کیا جائے گا تو یہ عمل گویا زمین میں فساد برپا کرنا اور اس کو اجاڑنا ہوگا۔
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (13)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے، ایمان لاؤ،
جیسے ایمان لائے لوگ تو کہتے ہیں:کیا ایمان لائیں ہم جیسے ایمان لائے بے وقوف؟ خبردار! بلاشبہ وہی ہیں بے وقوف لیکن وہ نہیں جانتے
(13)
#
{13} أي: إذا قيل للمنافقين آمنوا كما آمن الناس، أي: كإيمان الصحابة رضي الله عنهم وهو: الإيمان بالقلب واللسان، قالوا بزعمهم الباطل: أنؤمن كما آمن السفهاء؟ يعنون ـ قبحهم الله ـ الصحابة رضي الله عنهم؛ لزعمهم أن سفههم أوجب لهم الإيمان، وترك الأوطان، ومعاداة الكفار، والعقل عندهم يقتضي ضد ذلك، فنسبوهم إلى السَفَه، وفي ضمن ذلك أنهم هم العقلاء أرباب الحجى والنُهى؛ فرد الله ذلك عليهم وأخبر أنهم هم السفهاء على الحقيقة؛ لأن حقيقة السفه جهل الإنسان بمصالح نفسه، وسعيه فيما يضرها، وهذه الصفة منطبقة عليهم، [وصادقة عليهم] كما أن العقل والحجى معرفة الإنسان بمصالح نفسه والسعي فيما ينفعه وفي دفع ما يضره، وهذه الصفة منطبقة على الصحابة والمؤمنين؛ فالعبرة بالأوصاف والبرهان، لا بالدعاوي المجردة والأقوال الفارغة.
[13] یعنی جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی جیسے صحابہ کرامyایمان لائے ہیں جو کہ قلب و زبان کا ایمان ہے تو یہ اپنے زعم باطل میں جواب دیتے ہیں ’’کیا ہم ویسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟‘‘ ان کا برا ہو۔ بیوقوف لوگوں سے ان کی مراد صحابہ کرامyہیں، کیونکہ ان کے زعم باطل کے مطابق صحابہ کرامyکی بیوقوفی اور حماقت ہی ان کے ایمان، ترک وطن اور کفار سے دشمنی مول لینے کی موجب ہے۔ ان کے نزدیک عقل اس کے متضاد اور برعکس رویے کا تقاضا کرتی ہے۔ بنا بریں انھوں نے صحابہ کرامyکو سفاہت و حماقت سے منسوب کیا۔ ضمنی طور پر اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ صرف وہی عقل مند اور اصحاب دانش و بینش ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے خبر دی کہ درحقیقت وہی بیوقوف اور احمق ہیں۔ کیونکہ بیوقوفی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مصالح سے بے خبر اور ایسے کاموں میں سرگرم ہو جو اس کے لیے ضرر رساں ہوں اور یہ صفت ان منافقین ہی پر منطبق ہوتی ہے۔ اور عقل اور دانش و بینش یہ ہے کہ انسان کو اپنے مصالح کی معرفت حاصل ہو اور وہ فائدہ مند امور کے حصول اور ضرر رساں امور کو روکنے کے لیے کاوش کرے۔ یہ صفت صحابہ کرامyاور اہل ایمان پر منطبق ہوتی ہے۔
پس
(کسی چیز کا) اعتبار مجرد دعوے اور خالی خولی باتوں سے نہیں ہوتا بلکہ اوصاف اور دلائل کی بنا پر ہوتا ہے۔
{وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (15)}.
اور جب ملتے ہیں وہ ایمان والوں سے تو کہتے ہیں، ایمان لے آئے ہم اور جب تنہا ہوتے ہیں وہ اپنے سرداروں کی طرف تو کہتے ہیں، بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، بلاشبہ ہم تو صرف استہزا کرنے والے ہیں
(14) اللہ استہزا کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں، وہ بھٹکتے پھرتے ہیں
(15)
#
{14} هذا من قولهم بألسنتهم ما ليس في قلوبهم، وذلك أنهم إذا اجتمعوا بالمؤمنين أظهروا أنهم على طريقتهم، وأنهم معهم، فإذا خلوا إلى شياطينهم ـ أي كبرائهم ورؤسائهم بالشر ـ قالوا: إنا معكم في الحقيقة وإنما نحن مستهزئون بالمؤمنين بإظهارنا لهم أننا على طريقتهم، فهذه حالهم الباطنة والظاهرة، ولا يحيق المكر السيئ إلا بأهله.
[14] یہ قول ان کی ان باتوں میں سے ہے جس کا اظہار وہ اپنی زبانوں سے کرتے تھے درآں حالیکہ ان کے دل میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جب یہ منافقین اہل ایمان کے پاس جاتے ہیں تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان کے طریقے پر گامزن ہیں اور ان کے ساتھ ہیں اور جب وہ اپنے شیطان سرداروں یعنی شریر رؤسا سے تنہائی میں ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ’’ہم تو درحقیقت تمھارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمھارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔‘‘ یہ ہیں ان کے ظاہری اور باطنی احوال۔ بری چال کا وبال اسی پر پڑتا ہے جو یہ چال چلتا ہے۔
#
{15} قال تعالى: {الله يستهزئُ بهم ويمدهم في طغيانهم يعمهون}؛ وهذا جزاء لهم على استهزائهم بعباده، فمن استهزائه بهم أن زين لهم ما كانوا فيه من الشقاء، والأحوال الخبيثة حتى ظنوا أنهم مع المؤمنين لَمَّا لم يسلطْ الله المؤمنين عليهم، ومن استهزائه بهم يوم القيامة: أنه يعطيهم مع المؤمنين نوراً ظاهراً، فإذا مشى المؤمنون بنورهم طفئ نور المنافقين وبقُوا في الظلمة بعد النور متحيرين، فما أعظم اليأس بعد الطمع {ينادونهم ألم نكن معكم، قالوا بلى ولكنكم فتنتم أنفسكم وتربصتم وارتبتم ... } الآية.
قوله: {ويمدهم}؛ أي: يزيدهم {في طغيانهم}؛ أي: فجورهم وكفرهم {يعمهون}؛ أي: حائرون مترددون، وهذا من استهزائه تعالى بهم.
[15] ﴿اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ٘ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَؔ﴾ ’’اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں
(اور) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا یہ استہزا ان کے اس استہزا کی جزا ہے جو وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا یہ ہے کہ وہ ان کے بدبختی کے اعمال اور خبیث احوال کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کر دیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان پر مسلط نہیں کیا اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا یہ ہوگا کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انھیں ظاہری روشنی عطا کرے گا۔ جب اہل ایمان اس روشنی میں چلیں گے تو منافقین کی روشنی بجھ جائے گی۔ وہ روشنی کے بجھ جانے کے بعد تاریکی میں متحیر کھڑے رہ جائیں گے۔ پس امید کے بعد مایوسی کتنی بری چیز ہے۔
﴿یُنَادُوْنَھُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ (الحدید:57؍14) ’’وہ منافق اہل ایمان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے، اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہ تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم ہمارے بارے میں کسی برے وقت کے منتظر رہے اور تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا۔‘‘
﴿وَیَمُدُّھُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرتا ہے
﴿فِیْ طُغْیَانِھِمْ﴾ یعنی ان کے فسق و فجور اور کفر میں
﴿یَعْمَھُوْنَ﴾ یعنی وہ حیران و سرگرداں ہیں، یہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت احوال کو منکشف کرتے ہوئے فرمایا:
{أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (16)}
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نےخرید لی گمراہی بدلے ہدایت کے، پس نہ نفع بخش ہوئی ان کی تجارت اور نہ ہوئے وہ ہدایت پانے والے
(16)
#
{16} أولئك؛ أي: المنافقون الموصوفون بتلك الصفات {الذين اشتروا الضلالة بالهدى}؛ أي: رغبوا في الضلالة رغبة المشتري في السلعة ، التي ـ من رغبته فيها ـ يبذل فيها الأموال النفيسة، وهذا من أحسن الأمثلة، فإنه جعل الضلالة التي هي غاية الشر كالسلعة، وجعل الهدى الذي هو غاية الصلاح بمنزلة الثمن، فبذلوا الهدى رغبة عنه في الضلالة رغبة فيها، فهذه تجارتهم؛ فبئس التجارة، وهذه صفقتهم؛ فبئست الصفقة.
وإذا كان من يبذل ديناراً في مقابلة درهم خاسراً فكيف من بذل جوهرة وأخذ عنها درهماً، فكيف من بذل الهدى في مقابلة الضلالة، واختار الشقاء على السعادة، ورغب في سافل الأمور وترك عاليها ، فما ربحت تجارته بل خسر فيها أعظم خسارة، أولئك الذين خسروا أنفسهم وأهليهم يوم القيامة ألا ذلك هو الخسران المبين. وقوله: {وما كانوا مهتدين}؛ تحقيق لضلالهم وأنهم لم يحصل لهم من الهداية شيء، فهذه أوصافهم القبيحة، ثم ذكر مثلهم [الكاشف لها غاية الكشف]، فقال:
[16] یعنی وہ گمراہی میں اس طرح راغب ہوئے جیسے خریدار کسی ایسے سامان تجارت کو خریدنے کی طرف مائل ہو جسے خریدنے کی اسے سخت چاہت ہو، چنانچہ وہ اس رغبت کی وجہ سے اس میں اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہے اور یہ بہترین مثال ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو، جو کہ برائی کی انتہا ہے، سامان تجارت سے تشبیہ دی ہے اور ہدایت کو جو کہ بھلائی کی انتہا ہے، اس سامان تجارت کی قیمت سے تشبیہ دی۔ پس انھوں نے ہدایت کو، اس میں بے رغبتی کی وجہ سے اور گمراہی میں رغبت اور چاہت کی وجہ سے، گمراہی کے بدلے میں خرچ کر دیا۔۔۔ پس یہ تھی ان کی تجارت، کتنی بری تجارت تھی اور یہ تھا ان کا سامان بیع اور کتنا برا سامان بیع تھا۔
جب کوئی شخص ایک درہم کے مقابلے میں ایک دینار خرچ کرتا ہے تو خائب و خاسر کہلاتا ہے، تب اس شخص کے خسارے کا کیا حال ہوگا جو جواہر خرچ کر کے اس کے بدلے میں ایک درہم حاصل کرتا ہے اور پھر اس شخص کا خسارہ کتنا بڑا ہوگا جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے، خوش بختی کو چھوڑ کر بدبختی اختیار کرتا ہے اور بلند مقاصد کو ترک کر کے گھٹیا امور کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اس کی تجارت نے اسے کوئی نفع نہ دیا بلکہ وہ سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔
﴿ قُ٘لْ اِنَّ الْخٰؔسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ (الزمر : 39؍15) ’’
(اے نبی) فرما دیجیے کہ بے شک خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہو کہ یہی صریح خسارہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ﴾ ’’اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے‘‘ ان کی گمراہی کو متحقق کرنے کے لیے ہے، نیز یہ کہ ہدایت سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ پس یہ ان منافقین کے بدترین اوصاف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کو واضح کرنے کے لیے ایک تمثیل بیان کی،
فرمایا:
{مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (17) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18) أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (19) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (20)}.
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے جلائی آگ، پھر جب روشن کر دیا اس
( آگ) نے اس کے اردگرد کو، لے گیا اللہ روشنی ان کی اور چھوڑ دیا ان کو اندھیروںمیں، وہ نہیں دیکھتے
(17) (وہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں لوٹتے
(18) یا
(ان کی مثال) زور دار بارش کی سی ہے جو آسمان سے
( آتی) ہے، اس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے، ٹھونستے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں، بوجہ کڑکوں کے، موت کے ڈر سے اور اللہ گھیرنے والا ہے کافروں کو
(19) ( قریب ہے )بجلی کہ اچک لے آنکھیں ان کی، جب چمکتی ہے ان پر تو وہ چلنے لگتے ہیں اس
(کی روشنی) میں اور جب اندھیرا ہوتا ہے ان پر تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر چاہے اللہ تو لے جائے کان ان کے اور آنکھیں ان کی، بے شک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے
(20)
#
{17} أي: مثلهم المطابق لما كانوا عليه كمثل الذي استوقد ناراً أي: كان في ظلمة عظيمة، وحاجة إلى النار شديدة فاستوقدها من غيره، ولم تكن عنده معدة بل هي خارجة عنه، فلما أضاءت النار ما حوله، ونظر المحل الذي هو فيه وما فيه من المخاوف، وأمنها وانتفع بتلك النار، وقرت بها عينه، وظن أنه قادر عليها، فبينما هو كذلك، إذ ذهب الله بنوره؛ فزال عنه النور وذهب معه السرور، وبقي في الظلمة العظيمة والنار المحرقة؛ فذهب ما فيها من الإشراق وبقي ما فيها من الإحراق، فبقي في ظلمات متعددة: ظلمة الليل، وظلمة السحاب، وظلمة المطر، والظلمة الحاصلة بعد النور، فكيف يكون حال هذا الموصوف؟ فكذلك هؤلاء المنافقون استوقدوا نار الإيمان من المؤمنين ولم تكن صفة لهم، فاستضاؤوا بها مؤقتاً وانتفعوا؛ فحقنت بذلك دماؤهم، وسلمت أموالهم، وحصل لهم نوع من الأمن في الدنيا، فبينما هم كذلك إذ هجم عليهم الموت؛ فسلبهم الانتفاع بذلك النور، وحصل لهم كل هم وغم وعذاب، وحصل لهم ظلمة القبر، وظلمة الكفر، وظلمة النفاق، وظلمة المعاصي على اختلاف أنواعها، وبعد ذلك ظلمة النار وبئس القرار؛ فلهذا قال تعالى عنهم:
[17] یعنی ان کی مثال، جو ان کے احوال کی آئینہ دار ہے، اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو...... یعنی یہ شخص اندھیرے میں تھا، آگ کی اسے سخت ضرورت تھی اس نے کسی اور سے لے کر آگ روشن کی۔ یہ آگ اس کے پاس تیار اور موجود نہ تھی۔ جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کر دیا اور اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا، ان خطرات کو دیکھا جنھوں نے اسے گھیر رکھا تھا اور اس امن کو دیکھا
(جو اسے اس روشنی کے باعث حاصل ہوا تھا) اس نے اس آگ سے فائدہ اٹھایا اور اس آگ سے اسے اطمینان حاصل ہوا وہ سمجھتا تھا کہ اس آگ پر اسے پوری قدرت حاصل ہے اور اسی خیال میں غلطاں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روشنی لے کر زائل کر دی، اس کے ساتھ اس کی مسرت بھی چلی گئی اور وہ سخت تاریکی میں کھڑا رہ گیا۔ آگ کی روشنی چلی گئی مگر اس کی جلا دینے والی حرارت باقی رہ گئی۔ پس وہ متعدد تاریکیوں میں گھرا ہوا رہ گیا، رات کی تاریکی، بادلوں کا اندھیرا، بارش کا اندھیرا اور ایک وہ اندھیرا جو روشنی کے بجھنے کے فوراً بعد محسوس ہوتا ہے تب اس بیان کردہ شخص کی کیا حالت ہوگی؟ یہی حال ان منافقین کا ہے۔ انھوں نے اہل ایمان سے ایمان کی آگ لے کر آگ روشن کی کیونکہ وہ ایمان کی روشنی سے بہرہ ور نہ تھے، انھوں نے وقتی طور پر اس آگ سے روشنی حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھا یا، اس طرح انھوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا اور دنیا میں ان کو ایک قسم کا امن حاصل ہوگیا وہ اسی حالت میں تھے کہ اچانک ان پر موت حملہ آور ہوئی اور اس روشنی سے حاصل ہونے والے تمام فوائد اس سے چھین لے گئی، ہر قسم کا عذاب اور غم ان پر مسلط ہوگیا، کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا، اس کے بعد انھیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا جو بدترین ٹھکانا ہے۔
#
{18} {صمٌّ}؛ أي: عن سماع الخير {بكمٌ}، أي: عن النطق به {عميٌ} عن رؤية الحق {فهم لا يرجعون}؛ لأنهم تركوا الحق بعد أن عرفوه؛ فلا يرجعون إليه، بخلاف من ترك الحق عن جهل وضلال؛ فإنه لا يعقل، وهو أقرب رجوعاً منهم.
[18] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿صُمٌّ ﴾ وہ بھلائی کی بات سننے سے بہرے ہیں
﴿بُكْمٌ﴾ وہ بھلائی کی بات کہنے سے گونگے ہیں
﴿عُمْیٌ ﴾ حق کے دیکھنے سے اندھے ہیں
﴿فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ﴾ چونکہ انھوں نے حق کو پہچان کر ترک کیا ہے اس لیے اب یہ واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان کی حالت اس شخص کی حالت کے برعکس ہے جو محض جہالت اور گمراہی کی بنا پر حق کو ترک کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا نہیں۔ ان کی نسبت اس شخص کے بارے میں زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کرے۔
#
{19} ثم قال تعالى: {أو كصيب من السماء}؛ أي: كصاحب صيب وهو: المطر الذي يصوب؛ أي: ينزل بكثرة {فيه ظلمات}؛ ظلمة الليل، وظلمة السحاب، وظلمة المطر، وفيه {رعد}؛ وهو: الصوت الذي يسمع من السحاب وفيه {برق}؛ وهو الضوء اللامع المشاهد من السحاب.
[19] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ﴾ یا
(ان کی مثال) اس شخص کی مانند ہے جس پر موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔
(صَیِّبٍ) سے مراد وہ بارش ہے جو موسلا دھار برستی ہے۔
﴿فِیْهِ ظُلُمَاتٌ﴾ ’’اس میں اندھیرے ہیں۔‘‘ اس سے مراد ہے، رات کا اندھیرا، بادل کا اندھیرا اور بارش کی تاریکیاں۔
﴿وَرَعْدٌ﴾ ’’اور کڑک کی آواز ہے۔‘‘ جو کہ بادل سے سنائی دیتی ہے۔
﴿وَبَرْقٌ﴾ اوربجلی کی وہ چمک ہے جو بادلوں میں دکھائی دیتی ہے۔
#
{20} {كلما أضاء لهم}؛ البرق في تلك الظلمات {مشوا فيه وإذا أظلم عليهم قاموا}؛ أي: وقفوا، فهكذا حالة المنافقين إذا سمعوا القرآن، وأوامره ونواهيه، ووعده ووعيده؛ جعلوا أصابعهم في آذانهم، وأعرضوا عن أمره ونهيه، ووعده ووعيده؛ فيروعهم وعيده، وتزعجهم وعوده، فهم يعرضون عنها غاية ما يمكنهم ويكرهونها كراهة صاحب الصيب الذي يسمع الرعد فيجعل أصابعه في أذنيه خشية الموت، فهذا ربما حصلت له السلامة ، وأما المنافقون فأنى لهم السلامة وهو تعالى محيط بهم قدرة وعلماً فلا يفوتونه ولا يعجزونه، بل يحفظ عليهم أعمالهم ويجازيهم عليها أتم الجزاء.
ولما كانوا مبتلين بالصمم والبكم والعمى المعنوي ومسدودة عليهم طُرُقُ الإيمان قال تعالى: {ولو شاء الله لذهب بسمعهم وأبصارهم}؛ أي الحسية، ففيه تخويف لهم وتحذير من العقوبة الدنيوية؛ ليحذروا فيرتدعوا عن بعض شرهم ونفاقهم {إن الله على كل شيء قدير}؛ فلا يعجزه شيء، ومن قدرته أنه إذا شاء شيئاً فعله من غير ممانع ولا معارض.
وفي هذه الآية وما أشبهها ردٌّ على القدرية القائلين بأن أفعالَهم غير داخلة في قدرة الله تعالى؛ لأن أفعالهم من جملة الأشياء الداخلة في قوله: {إن الله على كل شيء قدير}.
[20] ﴿کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ﴾ یعنی اس بجلی کی چمک جب اندھیرے میں روشنی کرتی ہے۔
﴿مَشَوْا فِیْهِ وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا﴾ ’’تو چلتے ہیں اس میں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ یعنی وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔
پس اسی قسم کی حالت منافقین کی ہے جب وہ قرآن مجید، اس کے اوامر و نواہی اور اس کے وعد و وعید سنتے ہیں تو اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ اس کے اوامر و نواہی اور وعد و وعید سے اعراض کرتے ہیں وعید ان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور اس کے وعدے ان کو پریشان کر دیتے ہیں۔ وہ حتیٰ الامکان ان سے اعراض کرتے ہیں اور اس شخص کی مانند اسے سخت ناپسند کرتے ہیں جو سخت بارش میں گھرا ہوا بجلی کی کڑک سنتا ہے اور موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے اس شخص کو تو بسا اوقات سلامتی اور امن مل جاتا ہے۔ مگر منافقین کے لیے کہاں سے سلامتی آئے گی؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے اور نہ وہ اس کو عاجز کر سکتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اعمال ناموں میں محفوظ کر دیتا ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ چونکہ وہ معنوی بہرے پن،
گونگے پن اور اندھے پن میں مبتلا ہیں اور ان پر ایمان کی تمام راہیں مسدود ہیں اس لیے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہے تو لے جائے ان کے کان اور ان کی آنکھیں‘‘ یعنی ان کی حس سماعت اور حس بصارت سلب کر لے۔ اس آیت کریمہ میں ان کو دنیاوی سزا سے ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ڈر کر اپنے شر اور نفاق سے باز آجائیں۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اس لیے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا اور اس کی مخالفت کرنے والا نہیں۔
اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات میں قدریہ کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ انسانوں کے افعال بھی من جملہ ان اشیاء کے ہیں جو
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ کے تحت، اس کی قدرت میں داخل ہیں۔
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (22)}.
اے لوگو! عبادت کرو تم اپنے رب کی، وہ جس نے پیدا کیا تمھیں اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ
(21) وہ جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت، اور نازل کیااس نے آسمان سے پانی، پھر نکالا ساتھ اس کے پھلوں سے رزق تمھارے لیے، پس نہ ٹھہراؤ تم اللہ کا شریک، حالانکہ تم جانتے ہو
(22)
#
{21} هذا أمر عام لجميع الناس بأمر عام وهو العبادة الجامعة لامتثال أوامر الله واجتناب نواهيه وتصديق خبره، فأمرهم تعالى بما خلقهم له، قال تعالى: {وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون}؛ ثم استدل على وجوب عبادته وحده بأنه ربكم الذي رباكم بأصناف النعم، فخلقكم بعد العدم، وخلق الذين من قبلكم.
[21] یہ تمام لوگوں کے لیے امر عام ہے۔ اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت،
اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لیے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْ٘سَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات : 51؍56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمھارا رب ہے اس نے تمھیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمھاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمھیں عدم سے وجود میں لایا۔ اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے۔
#
{22} وأنعم عليكم بالنعم الظاهرة والباطنة، فجعل لكم الأرض فراشاً تستقرون عليها، وتنتفعون بالأبنية والزراعة والحراثة والسلوك من محل إلى محل، وغير ذلك من وجوه الانتفاع بها، وجعل السماء بناء لمسكنكم وأودع فيها من المنافع ما هو من ضروراتكم وحاجاتكم كالشمس والقمر والنجوم {وأنزل من السماء ماء}؛ والسماء هو: كل ما علا فوقك فهو سماء، ولهذا قال المفسرون: المراد بالسماء ههنا السحاب، فأنزل منه تعالى ماء {فأخرج به من الثمرات}؛ كالحبوب والثمار من نخيل وفواكه وزروع وغيرها {رزقاً لكم}؛ به ترتزقون وتتقوتون وتعيشون وتفكهون ، {فلا تجعلوا لله أنداداً}؛ أي: أشباهاً ونظراء من المخلوقين؛ فتعبدونهم كما تعبدون الله، وتحبونهم كما تحبونه ، وهم مِثْلكم مخلوقون مرزوقون مُدبَّرون، لا يملكون مثقال ذرة في الأرض، ولا في السماء ، ولا ينفعونكم ولا يضرون {وأنتم تعلمون}؛ أن الله ليس له شريك، ولا نظير لا في الخلق والرزق والتدبير، ولا في الألوهية والكمال ، فكيف تعبدون معه آلهة أخرى مع علمكم بذلك؟ هذا من أعجب العجب وأسفه السفه.
وهذه الآية جمعت بين الأمر بعبادة الله وحده، والنهي عن عبادة ما سواه، وبيان الدليل الباهر على وجوب عبادته وبطلان عبادة ما سواه، وهو ذكر توحيد الربوبية المتضمن انفراده بالخلق والرزق والتدبير، فإذا كان كل أحد مقرًّا بأنه ليس له شريك بذلك فكذلك؛ فليكن الإقرار بأن الله ليس له شريك في عبادته ، وهذا أوضح دليل عقلي على وحدانية الباري تعالى وبطلان الشرك.
وقوله: {لعلكم تتقون}؛ يحتمل أن المعنى أنكم إذا عبدتم الله وحده اتقيتم بذلك سخطه وعذابه؛ لأنكم أتيتم بالسبب الدافع لذلك، ويحتمل أن يكون المعنى أنكم إذا عبدتم الله صرتم من المتقين الموصوفين بالتقوى، وكلا المعنيين صحيح، وهما متلازمان، فمن أتى بالعبادة كاملة؛ كان من المتقين، ومن كان من المتقين؛ حصلت له النجاة من عذاب الله، وسخطه.
[22] اس نے تمھیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں۔ اس نے زمین کو تمھارے لیے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو۔ جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمھارے اس مسکن کے لیے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمھاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں، مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کیے۔
﴿وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً﴾ ’’اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔‘‘ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر، اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا
﴿فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّ٘مَرٰتِ﴾ اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں
﴿رِزْقًا لَّکُمْ﴾ تمھارے رزق کے طور پر، جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔
﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمھاری مانندمخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔
﴿وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ حالانکہ تم جانتے ہو کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیت اور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔
یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کےحکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہیے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔
﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘ اس آیت کریمہ میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے۔ کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔
{وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (23) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (24)}.
اور اگر ہو تم شک میں اس
(قرآن) سے جو نازل کیا ہم نے اپنے بندے پر، تو لے آؤ تم ایک سورت اس جیسی اور بلا لو تم اپنے مددگاروں کو سوائے اللہ کے، اگر ہو تم سچے
(23) پس اگر نہ کر سکو تم
(یہ کام) اور ہرگز نہیں کر سکو گے تم، تو بچو اس آگ سے کہ ایندھن اس کا ہیں آدمی اور پتھر، تیار کی گئی ہے
(وہ) کافروں کے لیے
(24)
#
{23} وهذا دليل عقلي على صدق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وصحة ما جاء به فقال: وإن كنتم ـ يا معشر المعاندين للرسول الرادين دعوته الزاعمين كذبه ـ في شك، واشتباه مما نزلنا على عبدنا، هل هو حق أو غيره؟ فههنا أمر نَصَفٌ فيه الفيصلة بينكم وبينه، وهو: أنه بشر مثلكم ليس من جنس آخر ، وأنتم تعرفونه منذ نشأ بينكم لا يكتب ولا يقرأ، فأتاكم بكتاب زعم أنه من عند الله، وقلتم أنتم إنه تقوَّله وافتراه، فإن كان الأمر كما تقولون؛ فأتوا بسورة من مثله، واستعينوا بمن تقدرون عليه من أعوانكم وشهدائكم، فإن هذا أمر يسير عليكم، خصوصاً وأنتم أهل الفصاحة والخطابة والعداوة العظيمة للرسول، فإن جئتم بسورة من مثله؛ فهو كما زعمتم، وإن لم تأتوا بسورة من مثله وعجزتم غاية العجز [ولن تأتوا بسورة من مثله، ولكنّ هذا التقييم على وجه الإنصاف والتنزل معكم]؛ فهذا آية كبيرة ودليل واضح جلي على صدقه وصدق ما جاء به؛ فيتعين عليكم اتباعه، واتقاء النار التي بلغت في الحرارة العظيمة والشدة، أن كان وقودها الناس والحجارة، ليست كنار الدنيا التي إنما تُتَّقَد بالحطب، وهذه النار الموصوفة مُعَدة ومُهَيأة للكافرين بالله ورسله؛ فاحذروا الكفر برسوله بعدما تبين لكم أنه رسول الله.
[23] یہ رسول اللہeکی صداقت اور وحی الٰہی کی صحت کی عقلی دلیل ہے۔ گویا فرمایا: ’’اے رسول کے ساتھ عناد رکھنے والو! اس کی دعوت کو رد کرنے والو! اور اسے جھوٹا سمجھنے والو! اگر تم اس وحی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کہ آیا یہ حق ہے یا نہیں تو یہاں ایک ایسا معاملہ موجود ہے جسے ہم تمھارے اور اس کے درمیان فیصلہ کن انداز میں بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ بھی تمھاری طرح بشر ہے کسی اور جنس سے نہیں، جب سے وہ پیدا ہوا ہے اس وقت سے تم اسے جانتے ہو وہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ اس نے تمھارے سامنے ایک کتاب پیش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس نے اسے خود گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اپنے جن اعوان و انصار اور حمائتیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو بلا لو! تمھارے لیے یہ کام بہت آسان اور معمولی ہے خاص طور پر جبکہ تم فصاحت و خطابت کے میدان کے شاہسوار ہو اور اس رسول کی عداوت میں بھی بہت آگے ہو۔ اگر تم نے اس کتاب جیسی ایک سورت بھی پیش کر دی تو تم اس کتاب کو جھوٹ، بہتان کہنے میں حق بجانب ہو اور اگر تم اس جیسی ایک بھی سورت پیش نہ کر سکے اور اسے پیش کرنے سے مکمل طور پر عاجز آگئے تو تمھارا یہ عجز اور بے بسی رسول اور وحی الٰہی کی صداقت کی بڑی نشانی اور واضح دلیل ہے۔ پھر تم پر لازم ہو جاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور اس آگ سے بچو جس کی گرمی اور حرارت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، دنیاوی آگ کی مانند نہیں جسے
(لکڑی کے) ایندھن سے بھڑکایا جاتا ہے۔ یہ بیان کردہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس لیے جب تمھیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ رسول برحق ہے تو اس کا انکار کرنے سے ڈرو۔
#
{24} وهذه الآية ونحوها يسمونها: آية التحدي، وهو: تعجيز الخلق عن أن يأتوا بمثل هذا القرآن أو يعارضوه بوجه، قال تعالى: {قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيراً}؛ وكيف يقدر المخلوق من تراب أن يكون كلامه ككلام رب الأرباب، أم كيف يقدر الفقير الناقص من جميع الوجوه أن يأتي بكلام ككلام الكامل، الذي له الكمال المطلق، والغنى الواسع من جميع الوجوه ؟ هذا ليس في الإمكان ولا في قدرة الإنسان، وكل من له أدنى ذوق ومعرفة بأنواع الكلام ، إذا وزن هذا القرآن [العظيم] بغيره من كلام البلغاء، ظهر له الفرق العظيم.
وفي قوله: {وإن كنتم في ريب}؛ إلى آخره، دليل على أن الذي يرجى له الهداية من الضلالة هو الشاك الحائر، الذي لم يعرف الحق من الضلالة، فهذا الذي إذا بين له الحق حري باتباعه إن كان صادقاً في طلب الحق، وأما المعاند الذي يعرف الحق ويتركه، فهذا لا يمكن رجوعه؛ لأنه ترك الحق بعد ما تبين له، لم يتركه عن جهل فلا حيلة فيه، وكذلك الشاكُّ الذي ليس بصادق في طلب الحق بل هو معرض غير مجتهد بطلبه؛ فهذا في الغالب لا يوفق.
وفي وصف الرسول بالعبودية في هذا المقام العظيم دليل على أن أعظم أوصافه - صلى الله عليه وسلم - قيامه بالعبودية التي لا يلحقه فيها أحد من الأولين والآخرين، كما وصفه بالعبودية في مقام الإسراء فقال: {سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً}؛ وفي مقام الإنزال فقال: {تبارك الذي نزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيراً}.
وفي قوله: {أعدت للكافرين}؛ ونحوها من الآيات دليل لمذهب أهل السنة والجماعة أن الجنة والنار مخلوقتان، خلافاً للمعتزلة.
وفيها أيضاً: أن الموحدين وإن ارتكبوا بعض الكبائر لا يخلدون في النار لأنه قال: {أعدت للكافرين}؛ فلو كان عصاة الموحدين يخلدون فيها لم تكن معدة للكافرين وحدهم، خلافاً للخوارج والمعتزلة وفيها: دلالة على أن العذاب مُستَحَق بأسبابه وهو الكفر وأنواع المعاصي على اختلافها.
[24] اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی
(مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ’’تحدی‘‘ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کر دینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿ قُ٘لْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْ٘سُ وَالْ٘جِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْ٘لِ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ لَا یَ٘اْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ٘ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍88) ’’کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہو سکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کر سکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔
ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ﴾ ’’اگر تم شک میں مبتلا ہو۔‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لیے ہدایت کی توقع کی جا سکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لیے حق واضح ہو جانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔
وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کر دیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہو جانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔
اس مقام عظیم پر رسول اللہeکے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿سُبْحٰؔنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰؔى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍1) ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔‘‘
قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا:
﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْ٘فُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْ٘عٰلَمِیْنَ نَذِيْرًا﴾ (الفرقان : 25؍1) ’’نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ ’’جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات سے اہل سنت کے اس مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں پیدا کی ہوئی ہیں۔ جبکہ معتزلہ اس بات کے قائل نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل سنت کے اس عقیدے کی بھی تائید ہوتی ہے کہ گناہ گار اور کبائر کے مرتکب موحدین ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جہنم کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ خوارج اور معتزلہ کے عقیدے کے مطابق اگر موحدین کے لیے جہنم میں دوام اور خلود ہوتا تو یہ صرف کفار کے لیے تیار نہ کی گئی ہو تی۔ نیز اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عذاب اپنے اسباب یعنی کفر اور مختلف گناہوں کے ارتکاب سے ثابت ہوتا ہے۔
{وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (25)}.
اور خوشخبری دیجیے! ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے اچھے، یقیناً ان کے لیے باغات ہیں،
بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں جب بھی دیے جائیں گے وہ ان میں سے کوئی پھل بطور رزق کے تو کہیں گے:یہ تو وہی ہے جو دیے گئے تھے ہم اس سے پہلےاور دیے جائیں گے
(رزق) ملتا جلتا،اور ان کے لیے ان میں بیویاں ہیں پاکیزہ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے
(25)
#
{25} لمَّا ذكر جزاء الكافرين ذكر جزاء المؤمنين أهل الأعمال الصالحات كما هي طريقته تعالى في كتابه يجمع بين الترغيب والترهيب؛ ليكون العبد راغباً راهباً خائفاً راجياً فقال: {وبشّر}؛ أي: أيها الرسول ، ومن قام مقامك {الذين آمنوا}؛ بقلوبهم {وعملوا الصالحات}؛ بجوارحهم؛ فصدقوا إيمانهم بأعمالهم الصالحة، ووُصِفت أعمال الخير بالصالحات؛ لأن بها تصلح أحوال العبد، وأمور دينه ودنياه، وحياته الدنيوية والأخروية، ويزول بها عنه فساد الأحوال؛ فيكون بذلك من الصالحين الذين يصلحون لمجاورة الرحمن في جنته فبشرهم {أن لهم جنات}؛ أي: بساتين جامعة للأشجار العجيبة والثمار الأنيقة والظل المديد والأغصان والأفنان، وبذلك صارت جنة يجتن بها داخلها وينعم فيها ساكنها {تجري من تحتها الأنهار}؛ أي: أنهار الماء واللبن والعسل والخمر يفجرونها كيف شاؤوا، ويصرفونها أين أرادوا، وتُسقَى منها تلك الأشجار؛ فتنبت أصناف الثمار {كلما رزقوا منها من ثمرة رزقاً قالوا هذا الذي رزقنا من قبل}؛ أي: هذا من جنسه وعلى وصفه، كلها متشابهة في الحسن واللذة ليس فيها ثمرة خاسَّةٌ، وليس لهم وقت خالٍ من اللَّذة؛ فهم دائماً متلذذون بأُكُلِها، وقوله: {وأتوا به متشابهاً}؛ قيل: متشابهاً في الاسم مختلفاً في الطعم ، وقيل: متشابهاً في اللون مختلف في الاسم، وقيل: يشبه بعضه بعضاً في الحسن واللذة والفكاهة، ولعل هذا أحسن.
ثم لما ذكر مسكنهم، وأقواتهم من الطعام والشراب، وفواكههم ذكر أزواجهم؛ فوصفهنَّ بأكمل وصف وأوجزه وأوضحه؛ فقال: {ولهُم فيها أزواجٌ مُطهرةٌ}؛ فلم يقل مطهرةٌ من العيب الفلاني؛ ليشمل جميع أنواع التطهير، فهنَّ مطهرات الأخلاق، مطهرات الخلق، مطهرات اللسان، مطهرات الأبصار، فأخلاقهن أنهن عُرُبٌ متحببات إلى أزواجهن بالخلق الحسن وحسن التبعل والأدب القولي والفعلي، ومطهرٌ خَلْقُهن من الحيض والنفاس والمني والبول والغائط والمخاط والبصاق والرائحة الكريهة، ومُطَهرات الخَلْق أيضاً بكمال الجمال؛ فليس فيهن عيب ولا دمامة خَلْق، بل هن خيرات حسان، مطهرات اللسان والطرف، قاصرات طرفهن على أزواجهن، وقاصرات ألسنتهن عن كل كلام قبيح.
ففي هذه الآية الكريمة ذكر المبشِّر والمُبشَّر والمُبَشَّر به والسبب الموصل لهذه البشارة؛ فالمبشر هو: الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومن قام مقامه من أمته، والمبشَّر هم: المؤمنون العاملون الصالحات، والمبشر به هي: الجنات الموصوفات بتلك الصفات، والسبب الموصل لذلك، هو: الإيمان والعمل الصالح، فلا سبيل إلى الوصول إلى هذه البشارة إلا بهما، وهذا أعظم بشارة حاصلة على يد أفضل الخلق بأفضل الأسباب، وفيه استحباب بشارة المؤمنين وتنشيطهم على الأعمال بذكر جزائها وثمراتها؛ فإنها بذلك تخف وتسهل، وأعظم بشرى حاصلة للإنسان توفيقه للإيمان والعمل الصالح، فذلك أول البشارة وأصلها، ومن بعده البشرى عند الموت، ومن بعده الوصول إلى هذا النعيم المقيم. نسأل الله من فضله.
[25] جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے تاکہ بندۂ مومن اللہ کی رحمت میں رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔
﴿ وَبَشِّرْ﴾ یعنی اے رسول! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے
﴿وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾ اور انھوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیے۔ پس انھوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو ’’الصالحات‘‘ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہو جاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
پس ان کو خوشخبری سنا دیجیے
﴿اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ﴾ کہ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے، اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔
﴿تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ﴾ یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انھیں جاری کر لیں گے اور جہاں چاہیں گے انھیں پھیر لیں گے۔ انھی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔
﴿کُلَّمَارُزِقُوْا مِنْھَامِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَامِنْ قَبْلُ﴾ ’’جب بھی ان کو اس میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا‘‘ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بدذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔
﴿وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِھًا﴾ ’’اور دیے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے‘‘ کہا جاتا ہے کہ
(جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔
﴿وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ﴾ ’’ان کے واسطے اس میں بیویاں ہوں گی پاک‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی۔ کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبنی ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی،
نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی۔ وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ اور پاک ہوں گی۔
اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے:
(۱)خوشخبری دینے والا۔
(۲) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔
(۳) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔
(۴) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہeکی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے
(ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپور دائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہو گی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (26) الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)}
بلاشبہ اللہ نہیں شرماتا اس بات سے کہ بیان کرے مثال کوئی سی بھی، مچھر کی یا اس چیز کی جو
(عظمت یا حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو، پس لیکن ایمان والے تو وہ جانتے ہیں کہ بلاشبہ وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے،اورلیکن جو لوگ کافر ہوئے تووہ کہتے ہیں کیا ارادہ کیا اللہ نے اس مثال سے؟ گمراہ کرتا ہے اللہ اس سےبہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس سے بہتوں کو اور نہیں گمراہ کرتا اس سے مگر فاسقوں ہی کو
(26) وہ جو توڑتے ہیں عہد اللہ کا بعد اس کے پختہ کر لینے کے اور کاٹتے ہیں اس چیز کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے اس کی بابت یہ کہ ملایا جائے
(اس کو) اور فساد کرتے ہیں زمین میں، یہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے
(27)
#
{26} يقول تعالى: {إن الله لا يستحيي أن يضرب مثلاً ما}؛ أيْ: أيُّ مثل كان {بعوضة فما فوقها}؛ لاشتمال الأمثال على الحكمة وإيضاح الحق، والله لا يستحيي من الحق، وكأنّ في هذا جواباً لمن أنكر ضرب الأمثال في الأشياء الحقيرة، واعترض على الله في ذلك؛ فليس في ذلك محل اعتراض، بل هو من تعليم الله لعباده ورحمته بهم، فيجب أن تتلقى بالقبول والشكر، ولهذا قال: {فأما الذين آمنوا فيعلمون أنه الحق من ربهم}؛ فيفهمونها ويتفكرون فيها، فإن علموا ما اشتملت عليه على وجه التفصيل ازداد بذلك علمهم وإيمانهم، وإلا علموا أنها حق، وما اشتملت عليه حق، وإن خفي عليهم وجه الحق فيها، لعلمهم بأن الله لم يضربها عبثاً بل لحكمة بالغة ونعمة سابغة، {وأما الذين كفروا فيقولون ماذا أراد الله بهذا مثلاً}؛ فيعترضون ويتحيرون فيزدادون كفراً إلى كفرهم كما ازداد المؤمنون إيماناً على إيمانهم؛ ولهذا قال: {يضل به كثيراً ويهدي به كثيراً}؛ فهذه حال المؤمنين والكافرين عند نزول الآيات القرآنية، قال تعالى: {وإذا ما أنزلت سورة فمنهم من يقول أيكم زادته هذه إيماناً، فأما الذين آمنوا فزادتهم إيماناً وهم يستبشرون. وأما الذين في قلوبهم مرض فزادتهم رجساً إلى رجسهم وماتوا وهم كافرون}؛ فلا أعظم نعمة على العباد من نزول الآيات القرآنية، ومع هذا تكون لقوم محنة وحيرة وضلالة وزيادة شر إلى شرهم، ولقوم منحة ورحمة وزيادة خير إلى خيرهم، فسبحان من فاوت بين عباده، وانفرد بالهداية والإضلال.
ثم ذكر حكمته وعدله في إضلاله من يضل ؛ فقال: {وما يضل به إلا الفاسقين}؛ أي: الخارجين عن طاعة الله المعاندين لرسل الله الذين صار الفسق وصفهم؛ فلا يبغون به بدلاً، فاقتضت حكمته تعالى إضلالهم؛ لعدم صلاحيتهم للهدى، كما اقتضى فضله وحكمته هداية من اتصف بالإيمان وتحلى بالأعمال الصالحة.
والفسق نوعان: نوع مخرج من الدين وهو الفسق المقتضي للخروج من الإيمان كالمذكور في هذه الآية ونحوها، ونوع غير مخرج من الإيمان كما في قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ... }؛ الآية.
[26] ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا ﴾’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی بھی مثال بیان کرے‘‘ خواہ وہ کسی قسم کی مثال ہو
﴿بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا﴾ ’’مچھر کی ہو یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہو‘‘ کیونکہ مثال حکمت اور ایضاح حق پر مبنی ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ اس آیت کریمہ میں گویا اس شخص کو جواب دیا گیا ہے جو معمولی اور حقیر اشیاء کی مثال دینے کا منکر ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے، پس یہ اعتراض کا مقام نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو تعلیم دینا اور ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنا ہے،
لہٰذا ضروری ہے کہ اسے شکر کرتے ہوئے قبول کیا جائے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’پس وہ لوگ جو ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے‘‘ پس وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ پس اگر انھیں اس کے مشمولات کا تفصیلی علم حاصل ہو جاتا ہے تو ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورنہ انھیں معلوم ہے کہ یہ حق ہے اور حق باتوں پر ہی مشتمل ہے اور اگر اس میں حق کا پہلو ان پر مخفی رہے تب بھی انھیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے فائدہ بیان نہیں فرمایا، بلکہ اس میں یقینا کوئی حکمت بالغہ اور نعمت کاملہ مضمر ہے۔
﴿ وَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰؔذَا مَثَلًا﴾ ’’لیکن کافر لوگ، تو وہ کہتے ہیں، اللہ نے اس مثال سے کیا چاہا ہے؟
‘‘ یعنی کافر حیران ہو کر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے کفر میں اور اضافہ کر لیتے ہیں جیسے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاوَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا﴾ ’’وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے‘‘ پس آیات قرآن کے نزول کے وقت یہ اہل ایمان اور کفار کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے:
﴿ وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰؔذِهٖۤ اِیْمَانًا١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠۰۰ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ﴾ (التوبہ : 9؍125،124) ’’جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض تمسخر کے طور پر کہتے ہیں اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے؟ جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان تو اس سورت نے زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کر دیا اور وہ کفر کی حالت ہی میں مر گئے۔‘‘ پس بندوں پر قرآنی آیات کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔
اس کے باوجود یہ قرآنی آیات کچھ لوگوں کے لیے آزمائش، حیرت اور گمراہی اور ان کے شر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے انعام، رحمت اور ان کی بھلائیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت قائم کیا۔ صرف وہی ہے جو ہدایت سے نوازتا ہے اور وہی ہے جو گمراہ کرتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس عدل و حکمت کا ذکر کیا ہے جو اس شخص کی گمراہی میں کارفرما ہوتی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے۔
﴿ وَمَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْ٘فٰسِقِیْنَ﴾ یعنی وہ صرف ان ہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے عناد رکھتے ہیں،
فسق و فجور ان کا وصف بن گیا ہے اور وہ اس وصف کو بدلنا نہیں چاہتے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے فضل کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ ان کو گمراہی میں مبتلا کرے کیونکہ ان میں ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جیسے اس کی حکمت اور اس کا فضل اس شخص کی ہدایت کا تقاضا کرتے ہیں جو ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ سے مزین ہو۔
فسق کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام ہی سے خارج کر دیتی ہے۔ فسق کی یہ قسم ایمان سے خارج ہونے کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ اس آیت میں اور اس قسم کی دیگر آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔
فسق کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دائرہ ایمان سے خارج نہیں کرتی جیسا کہ اس آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا﴾ (الحجرات : 49؍6) ’’اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا۔
#
{27} {الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه}؛ وهذا يعم العهد الذي بينهم وبين ربهم ، والذي بينهم وبين الخلق ، الذي أكده عليهم بالمواثيق الثقيلة والإلزامات، فلا يبالون بتلك المواثيق، بل ينقضونها، ويتركون أوامره، ويرتكبون نواهيه، وينقضون العهود التي بينهم وبين الخلق {ويقطعون ما أمر الله به أن يوصل}؛ وهذا يدخل فيه أشياء كثيرة، فإن الله أمرنا أن نصل ما بيننا وبينه بالإيمان به والقيام بعبوديته، وما بيننا وبين رسوله بالإيمان به ومحبته وتعزيره والقيام بحقوقه، وما بيننا وبين الوالدين والأقارب والأصحاب وسائر الخلق بالقيام بحقوقهم التي أمر الله أن نصلها، فأما المؤمنون فوصلوا ما أمر الله به أن يوصل من هذه الحقوق، وقاموا بها أتم القيام؛ وأما الفاسقون فقطعوها ونبذوها وراء ظهورهم معتاضين عنها بالفسق والقطيعة والعمل بالمعاصي وهو الإفساد في الأرض، {فأولئك}؛ أي: من هذه صفته {هم الخاسرون}؛ في الدنيا والآخرة، فحصر الخسارة فيهم؛ لأن خسرانهم عام في كل أحوالهم ليس لهم نوع من الربح، لأن كل عمل صالح شرطه الإيمان، فمن لا إيمان له؛ لا عمل له، وهذا الخسار هو: خسار الكفر، وأما الخسار الذي قد يكون كفراً وقد يكون معصية وقد يكون تفريطاً في ترك مستحب، المذكور في قوله تعالى: {إن الإنسان لفي خسر}؛ فهذا عام لكل مخلوق إلا من اتصف بالإيمان والعمل الصالح والتواصي بالحق والتواصي بالصبر، وحقيقته فوات الخير الذي كان العبد بصدد تحصيله وهو تحت إمكانه.
[27] فرمایا :
﴿ الَّذِیْنَ یَنْقُ٘ضُ٘وْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ﴾ ’’وہ جو اللہ کے عہد کو اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں‘‘ عہد کا لفظ عام ہے، اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور اس کا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے عہد کے پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ کافر ان عہدوں کی پروا نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو توڑتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرتے ہیں اور اس کے نواہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ان معاہدوں کا بھی پاس نہیں کرتے جو ان کے درمیان آپس میں ہوتے ہیں۔
﴿ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ﴾ ’’اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے‘‘ اس میں بہت سی چیزیں داخل ہیں:
اوّلاً : اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس تعلق کو جوڑیں جو ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے
(اس کی صورت یہ ہے کہ ہم) اللہ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں۔
ثانیاً : ہمارے اور اس کے رسول کے درمیان جو تعلق ہے، اسے قائم کریں، یعنی اس پر ایمان لائیں، اس سے محبت رکھیں، اس کی مدد کریں اور اس کے تمام حقوق ادا کریں
(رسول کی مکمل اطاعت کریں۔)
ثالثاً : وہ تعلق ہے جو ہمارے اور ہمارے والدین، عزیز و اقارب اور دوست احباب اور تمام مخلوق کے درمیان ہے، ان سب کے حقوق کی ادائیگی بھی اس تعلق کے جوڑنے میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
اہل ایمان ان تمام رشتوں، حقوق اور تعلقات کو جوڑے رکھتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان حقوق کو بہترین طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ رہے اہل فسق تو وہ ان رشتوں کو توڑتے ہیں اور ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک کر
(ان کے تقدس کا پاس نہیں کرتے) اس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، قطع رحمی سے کام لیتے ہیں اور گناہوں کے کام کرتے ہیں اور یہی زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔
﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ یعنی یہی لوگ جو اس صفت سے متصف ہیں
﴿ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ خسارے کو ان فاسقین میں اس لیے محصور و محدود رکھا کیونکہ ان کا خسارہ ان کے تمام احوال میں عام ہے۔ ان کے نصیب میں کسی قسم کا کوئی نفع نہیں، کیونکہ ہر نیک کام کے مقبول ہونے کے لیے ایمان شرط ہے۔ پس جو ایمان سے محروم ہے، اس کے عمل کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں، یہ خسارہ کفر کا خسارہ ہے۔
رہا وہ خسارہ جو کبھی کفر ہوتا ہے، کبھی گناہ اور معصیت کے زمرے میں اور کبھی مستحب امور کو ترک کرنے کی کوتاہی کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے
﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ﴾ (العصر : 103؍2) ’’بے شک انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔‘‘ اس خسارے میں تمام انسان داخل ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کی صفات، ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی خوبیوں سے متصف ہیں، نیز بھلائی سے محرومی کی حقیقت سے بھی وہ آشنا ہوتے ہیں، جس کو بندہ حاصل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور اس کا حصول اس کے امکان میں ہوتا ہے۔
{كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (28)}.
کیسے کفر کرتے ہو تم ساتھ اللہ کے؟حالانکہ تھے تم مردے، پس زندہ کیا اس نے تمھیں، پھر وہی موت دے گا تمھیں، پھر وہی زندہ کرے گا تمھیں، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
(28)
#
{28} هذا استفهام بمعنى التعجب والتوبيخ والإنكار؛ أي: كيف يحصل منكم الكفر بالله الذي خلقكم من العدم، وأنعم عليكم بأصناف النعم، ثم يميتكم عند استكمال آجالكم، ويجازيكم في القبور، ثم يحييكم بعد البعث والنشور، ثم إليه ترجعون فيجازيكم الجزاء الأوفى، فإذا كنتم في تصرفه وتدبيره وبره وتحت أوامره الدينية، وبعد ذلك تحت دينه الجزائي أَفَيَليق بكم أن تكفروا به؟ وهل هذا إلا جهل عظيم وسفه كبير ؟ بل الذي يليق بكم أن تتقوه وتشكروه، وتؤمنوا به ، وتخافوا عذابه، وترجوا ثوابه.
[28] اس آیت میں استفہام تعجب، زجر و توبیخ اور انکار کے معنی میں ہے۔ یعنی تم کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو جو تمھیں عدم میں سے وجود میں لایا اور اس نے تمھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا پھر وہ تمھارا وقت پورا ہونے پر تمھیں موت دے گا اور قبروں کے اندر تمھیں جزا دے گا پھر قیامت کے برپا ہونے پر تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہو، اس کی تدبیر اور اس کے احسان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہو، اور تم
(پہلے) اس کے احکام دینیہ اور اس کے بعد
(آخرت میں) اس کے قانونِ جزا و سزا کے تحت آتے ہو۔ تب کیا تمھیں یہ لائق ہے کہ تم اس کا انکار کرو؟ کیا تمھارا یہ رویہ ایک بڑی جہالت اور ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ اور ہے؟ اس کے برعکس تمھارے لیے مناسب تو یہ تھا کہ تم اس سے ڈرتے، اس کا شکر ادا کرتے، اس پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے۔
{هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا}.
وہی ہے
(اللہ) جس نے پیدا کیا تمھارے لیے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب، پھر متوجہ ہوا طرف آسمان کی،پس ٹھیک کرکے بنا دیا ان کو سات آسمان اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والے ہے
(29)
#
{29} أي: خلق لكم برًّا بكم ورحمة جميع ما على الأرض للانتفاع والاستمتاع والاعتبار.
وفي هذه الآية الكريمة دليل على أن الأصل في الأشياء الإباحة والطهارة؛ لأنها سيقت في معرض الامتنان، يخرج بذلك الخبائث فإن تحريمها أيضاً يؤخذ من فحوى الآية، وبيان المقصود منها، وأنه خلقها لنفعنا، فما فيه ضرر؛ فهو خارج من ذلك، ومن تمام نعمته منعنا من الخبائث تنزيهاً لنا؛ وقوله:
{ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (29)}.
«استوى»: ترد في القرآن على ثلاثة معانٍ: فتارة لا تُعدَّى بالحرف فيكون معناها: الكمال والتمام، كما في قوله عن موسى: {ولما بلغ أشده واستوى}؛ وتارة تكون بمعنى علا وارتفع، وذلك إذا عديت «بعلى» كقوله تعالى: {الرحمن على العرش استوى} ؛ {لتستووا على ظهوره}؛ وتارة تكون بمعنى قصد كما إذا عُدِيت «بإلى» كما في هذه الآية، أي: لما خلق تعالى الأرض قصد إلى خلق السماوات فسواهن سبع سماوات فخلقها وأحكمها وأتقنها وهو بكل شيء عليم، فيعلم ما يلج في الأرض وما يخرج منها، وما ينزل من السماء وما يعرج فيها، ويعلم ما تسرون وما تعلنون، يعلم السر وأخفى.
وكثيراً ما يقرن بين خلقه وإثبات علمه كما في هذه الآية وكما في قوله تعالى: {ألا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير}؛ لأن خلقه للمخلوقات أدل دليل على علمه وحكمته وقدرته.
[29] ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تمھارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب‘‘ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمھارے فائدے، تمھارے تمتع اور تمھاری عبرت کے لیے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔
(یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہ یہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لیے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔
﴿ ثُمَّ اسْتَوٰۤؔؔى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان،
اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘
کلمہ ’’اِسْتَوٰی‘‘ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(۱)کبھی یہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ’’کمال‘‘ اور ’’اتمام‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰuکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰی﴾ (القصص : 28؍14) ’’جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔‘‘
(۲)کبھی یہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ’’عَلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَلَرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ : 20؍5) ’’رحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ اور ارشاد ہے:
﴿لِتَسْتَوُوْا عَلَی ظُھُوْرِہٖ﴾ (الزخرف:43؍13) ’’تاکہ تم ان کی پیٹھ پر قرار پکڑو۔‘‘
(۳) اور کبھی یہ ’’قصد کرنے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ’’اِلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا
﴿ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ﴾ ’’پھر اس نے انھیں ٹھیک سات آسمان بنا دیا‘‘ یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔
﴿ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی
﴿ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْ٘زِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا ﴾ (الحدید: 57؍4) ’’جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے۔‘‘ اور
﴿یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ﴾ (النحل: 16؍19) ’’جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے۔‘‘ اور
﴿یَعْلَمُ السِّرَّوَاَخْفٰی﴾ (طٰہ20؍7) ’’وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرتِ تخلیق اور اپنے لیے اثباتِ علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے:
﴿اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الملک : 67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
{وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (31) قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (32) قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (34)}.
اور
(یاد کرو!) جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے، یقیناً میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ،
انھوں نے کہا: کیا بناتا ہے تو اس
(زمین) میں اس کو جو فساد کرے گا اس میں اور بہائے گا خون؟
اور ہم تسبیح کرتے ہیں ساتھ تیری تعریف کے اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری۔ کہا اللہ نے :بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
(30)اور سکھلائےاس نے آدم کو نام سب کے سب،
پھر پیش کیا ان کواوپر فرشتوں کےاور کہا: خبر دو مجھے ان
(چیزوں) کے ناموں کی، اگر ہو تم سچے
(31) انھوں نے کہا: پاک ہے تو، نہیں ہے علم ہم کو مگر وہی جو سکھلایا تونے ہم کو،بے شک تو ہی ہے جاننے والا حکمت والا
(32)اللہ نے کہا: اے آدم! بتا دے تو ان کو نا م ان چیزوں کے، پس جب بتا دیے اس نے ان کو نام ان کے،
تو کہا اللہ نے: کیا نہیں کہا تھا میں نےتم سےکہ بلاشبہ میں جانتا ہوں چھپی باتیں آسمانوں اور زمین کی اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے اور جوتھے تم چھپاتے
(33) اور جب کہاہم نے فرشتوں سے، سجدہ کروتم آدم کو! تو سجدہ کیا سب نے سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا اورتکبر کیااور تھا وہ کافروں میں سے
(34)
#
{30} هذا شروع في ابتداء خلق آدم عليه السلام أبي البشر وفضلهِ، وأن الله تعالى حين أراد خلقه أخبر الملائكة بذلك، وأن الله مستخلفه في الأرض، فقالت الملائكة عليهم السلام: أتجعل فيها من يفسد فيها بالمعاصي ويسفك الدماء، وهذا تخصيص بعد تعميم؛ لبيان شدة مفسدة القتل، وهذا بحسب ظنهم أن الخليفةَ المَجْعُول في الأرض سيحْدُثُ منه ذلك، فنزهوا الباري عن ذلك وعظموه، وأخبروا أنهم قائمون بعبادة الله على وجه خالٍ من المفسدة فقالوا: {ونحن نسبح بحمدك}؛ أي: ننزهك التنزيه اللائق بحمدك وجلالك {ونقدس لك}؛ يحتمل أن معناها ونقدسك؛ فتكون اللام مفيدة للتخصيص والإخلاص، ويحتمل أن يكون: ونقدس لك أنفسنا؛ أي: نطهرها بالأخلاق الجميلة؛ كمحبة الله، وخشيته، وتعظيمه، ونطهرها من الأخلاق الرذيلة {قال}؛ الله للملائكة: {إني أعلم}؛ من هذا الخليفة {ما لا تعلمون}؛ لأن كلامكم بحسب ما ظننتم، وأنا عالم بالظواهر والسرائر، وأعلم أن الخير الحاصل بخلق هذا الخليفة أضعاف أضعاف ما في ضمن ذلك من الشر، فلو لم يكن في ذلك، إلا أن الله تعالى أراد أن يجتبي منهم الأنبياء والصديقين والشهداء والصالحين، ولتظهر آياته للخلق ، ويحصل من العبوديات التي لم تكن تحصل بدون خلق هذا الخليفة كالجهاد وغيره، وليظهر ما كمن في غرائز المكلفين من الخير والشر بالامتحان، وليتبين عدوه من وليه وحزبه من حربه، وليظهر ما كَمُن في نفس إبليس من الشر الذي انطوى عليه واتصف به، فهذه حكم عظيمة يكفي بعضها في ذلك.
[30] ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ ’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا،
میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا‘‘ یہ ابوالبشر حضرت آدمuکی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا: ﴿اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا﴾ ’’کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا‘‘ یعنی گناہوں کا ارتکاب کر کے زمین پر فساد برپا کرے گا
﴿وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ﴾ ’’اور خون بہائے گا‘‘ یہ عموم کے بعدتخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے۔ اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہو گا،
چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ وَنَحْنُ نُ٘سَبِّحُ بِحَمْدِكَ﴾ ’’اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ‘‘ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔
﴿وَنُقَدِّسُ لَکَ﴾ اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں یعنی
(نُقَدِّسُکَ) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔
(وَنُقَدِّسُ لَکَ اَنْفُسَنَا) ’’ہم اپنے آپ کو تیرے لیے پاک کرتے ہیں‘‘ یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الٰہی،
خشیت الٰہی اور تعظیم الٰہی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: ﴿ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ﴾ یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ کون ہے۔
﴿مَالَا تَعْلَمُوْنَ﴾ جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمھارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہو گی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میں یہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کی وہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہو سکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیروشر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور دوستوں اور اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو۔ اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدمuکی تخلیق میں یہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لیے کافی ہیں۔
پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انھیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کر دے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔
#
{31} فَعَلَّمَ {آدم الأسماء كلَّها}؛ أي: أسماء الأشياء ومن هو مسمى بها، فعلمه الاسم والمُسمَّى؛ أي: الألفاظ والمعاني حتى المصغر من الأسماء والمكبر؛ كالقصعة والقُصيْعَة {ثم عرضهم}؛ أي: عرض المسمَّيَات {على الملائكة}؛ امتحاناً لهم هل يعرفونها أم لا {فقال أنبئوني بأسماء هؤلاء إن كنتم صادقين}؛ في قولكم وظنكم أنكم أفضل من هذا الخليفة.
[31] پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَؔ كُلَّهَا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدمuکو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کر دیا۔ پس اس نے اسے اسم اور مسمی دونوں کی تعلیم دی، یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کر دیا، مثلاً ’’قَصْعَۃٌ‘‘
(پیالہ) اور ’’قُصَیْعَۃٌ‘‘
(چھوٹا سا پیالہ)
﴿ثُمَّ عَرَضَھُمْ﴾ یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا
﴿عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ﴾ ’’فرشتوں پر‘‘ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لیے کہ آیا یہ ان مسمیات کو پہچانتے ہیں یا نہیں اور فرمایا:
﴿ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
#
{32} {قالوا سبحانك}؛ أي ننزهك من الاعتراض منَّا عليك، ومخالفة أمرك {لا علم لنا}؛ بوجه من الوجوه، {إلا ما علمتنا}؛ إياه فضلاً منك وجوداً {إنك أنت العليم الحكيم}؛ العليم الذي أحاط علماً بكل شيء، فلا يغيب عنه ولا يعزب مثقال ذرة في السماوات والأرض ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، الحكيم: من له الحكمة التامة التي لا يخرج عنها مخلوق ولا يشذ عنها مأمور، فما خلق شيئاً إلا لحكمة، ولا أمر بشيء إلا لحكمة، والحكمة وضع الشيء في موضعه اللائق به.
فأقروا واعترفوا بعلم الله وحكمته وقصورهم عن معرفة أدنى شيء، واعترافهم بفضل الله عليهم وتعليمه إياهم ما لا يعلمون.
[32] ﴿قَالُوْا سُبْحٰنَکَ﴾ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں
﴿لاَ عِلْمَ لَنَا﴾ یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں
﴿اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا﴾ سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔
﴿اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ (العلیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑی یا اس سے چھوٹی کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔
(الحکیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالی نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنی سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انھوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انھیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔
#
{33} فحينئذ قال الله: {يا آدم أنبئهم بأسمائهم}؛ أي: أسماء المسميات التي عرضها الله على الملائكة؛ فعجزوا عنها {فلما أنبأهم بأسمائهم}؛ تبين للملائكة فضل آدم عليهم، وحكمة الباري وعلمه في استخلاف هذا الخليفة {قال ألم أقل لكم إني أعلم غيب السموات والأرض} وهو ما غاب عنا فلم نشاهده، فإذا كان عالماً بالغيب، فالشهادة من باب أولى {وأعلم ما تبدون}؛ أي: تظهرون {وما كنتم تكتمون}.
[33] پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ﴾ ’’اے آدم، ان کو ان کے ناموں کی خبر دو‘‘ یعنی ان تمام مسمیات کے اسماء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے
﴿ فَلَمَّاۤ اَنْۢبـَاَ٘هُمْ ﴾ جب آدمuنے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہو گیا
﴿ قَالَ اَلَمْ اَ٘قُ٘لْ لَّـكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو جانتا ہوں۔‘‘ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہو اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے
﴿وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ﴾ یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو
﴿ وَمَا كُنْتُمْ تَكْ٘تُ٘مُوْنَ ﴾ اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
#
{34} ثم أمرهم تعالى بالسجود لآدم إكراماً له وتعظيماً وعبودية لله تعالى؛ فامتثلوا أمر الله، وبادروا كلهم بالسجود، {إلا إبليس أبى} امتنع عن السجود، واستكبر عن أمر الله، وعلى آدم قال: {أأسجد لمن خلقت طيناً} وهذا الإباء منه، والاستكبار نتيجة الكفر الذي هو منطوٍ عليه، فتبينت حينئذ عداوته لله ولآدم وكفره واستكباره.
وفي هذه الآيات من العِبَر والآيات إثبات الكلام لله تعالى، وأنه لم يزل متكلماً يقول ما شاء، ويتكلم بما شاء وأنه عليم حكيم، وفيه أن العبد إذا خفيت عليه حكمة الله في بعض المخلوقات، والمأمورات؛ فالواجب عليه التسليم واتهامُ عقله والإقرار لله بالحكمة؛ وفيه اعتناء الله بشأن الملائكة وإحسانه بهم بتعليمهم ما جهلوا، وتنبيههم على ما لم يعلموه.
وفيه فضيلة العلم من وجوه:
منها: أن الله تعرف لملائكته بعلمه وحكمته.
ومنها: أن الله عرفهم فضل آدم بالعلم، وأنه أفضل صفة تكون في العبد.
ومنها: أن الله أمرهم بالسجود لآدم إكراماً له لمَّا بانَ فضل علمه.
ومنها: أن الامتحان للغير إذا عجزوا عما امتحنوا به ثم عرفه صاحب الفضيلة فهو أكمل مما عرفه ابتداء.
ومنها: الاعتبار بحال أبوي الإنس والجن وبيان فضل آدم وأفضال الله عليه وعداوة إبليس له، إلى غير ذلك من العبر.
[34] پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالی کی عبودیت کے اظہار کے لیے آدمuکے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انھوں نے اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے
﴿اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ اَبٰی﴾ سوائے ابلیس کے،
اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدمuسے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا: ﴿ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍61) ’’کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدمuسے اس کی عداوت ظاہر ہو گئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہو گیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کے لیے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔
(۲)بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سرتسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اوراللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔
(۳) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انھیں تعلیم دی اور جس کا انھیں علم نہ تھا اس پر انھیں متنبہ فرمایا۔
ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
(الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔
(ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدمuکو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔
(ج) جب آدمuکے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تکریم کے لیے اسے سجدہ کریں۔
(د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں۔ پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔
(ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدمuکی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔
{وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (35) فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (36)}.
اور کہا ہم نے: اے آدم! ٹھہر تواور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم دونوں اس میں سے بافراغت جہاں سے چاہو تم، اور مت قریب جانا تم دونوں اس درخت کے،پس تم دونوں ہو جاؤ گے ظالموں سے
(35) پس پھسلا دیاان دونوں کو شیطان نے اس سے اور نکلوا دیا اس نے ان کو اُس
(آرام و راحت) سے کہ تھے وہ اس میں،
اور کہا ہم نے: اترو!
(یہاں سے) بعض تمھارا بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکا نا ہےاورفائدہ اٹھانا ہے ایک وقت تک
(36)
#
{35} لما خلق الله آدم وفضَّله، أتمَّ نعمته عليه بأن خلق منه زوجة؛ ليسكن إليها ويستأنس بها، وأمرهما بسكنى الجنة والأكل منها رغداً؛ أي: واسعاً هنيئاً {حيث شئتما}؛ أي: من أصناف الثمار والفواكه، وقال الله له: {إن لك أن لا تجوع فيها ولا تعرى، وأنك لا تظمأ فيها ولا تضحى}، {ولا تقربا هذه الشجرة}؛ نوع من أنواع شجر الجنة الله أعلم بها، وإنما نهاهما عنها امتحاناً وابتلاء أو لحكمة غير معلومة لنا، {فتكونا من الظالمين}؛ دل على أن النهي للتحريم؛ لأنه رتب الظلم عليه ؛ فلم يزل عدوهما يوسوس لهما ويزين لهما تناول ما نُهيا عنه حتى أزلهما أي حملهما على الزلل بتزيينه {وقاسمهما}؛ بالله {إني لكما لمن الناصحين}.
[35] ﴿وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُ٘نْ٘ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَؔكُلَا مِنْهَا رَغَدًا ﴾ ’’ہم نے کہا، اے آدم! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم اس سے خوب سیر ہوکر۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے آدمuکو تخلیق کیا، اس کو فضیلت عطا کی، تو خود اسی میں سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے اس پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس سکون، راحت اور انس حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ جنت میں رہیں اور جنت میں مزے سے بے روک ٹوک کھائیں پئیں۔
﴿ حَیْثُ شِئْتُمَا﴾ یعنی جہاں سے چاہو،
مختلف اصناف کے پھل اور میوے کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَلَا تَعْرٰىۙ۰۰وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَلَا تَضْحٰؔى ﴾ (طٰہ : 20؍118۔119) ’’یہاں تجھے یہ آسانی حاصل ہو گی کہ تو اس میں بھوکا رہے گا نہ عریاں ہو گا۔ نہ تو اس میں پیاسا ہو گا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔‘‘
﴿وَلَا تَقْرَبَا ھَذِہٖ الشَّجَرَۃَ﴾ ’’اور دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا‘‘ یہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ واللہ اعلم۔ آدم اور اس کی بیوی کو صرف ان کی آزمائش اور امتحان کے لیے یا کسی ایسی حکمت کے تحت اس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا جو ہمارے علم میں نہیں۔
﴿فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’پس تم بے انصافوں میں سے ہو جاؤ گے‘‘ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں نہی تحریم کے لیے ہے۔ کیونکہ اس ممانعت پرعمل نہ کرنے کو ظلم کہا ہے۔ ان کا دشمن
(ابلیس) ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا اور اس درخت کے پھل کو تناول کرنے کی خوبیوں کو مزین کر کے انھیں اس پھل کو کھا لینے کی ترغیب دیتا رہا حتیٰ کہ وہ انھیں پھسلانے میں کامیاب ہو گیا۔ ابلیس کی تزئین نے ان کو اس لغزش پر آمادہ کیا۔
﴿وَقَاسَمَھُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ﴾ (الاعراف : 7؍21) ’’اس نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمھارا خیر خواہ ہوں۔‘‘
#
{36} فاغترا به وأطاعاه؛ فأخرجهما مما كانا فيه من النعيم، والرغد، وأُهْبِطوا إلى دار التعب والنصب والمجاهدة {بعضكم لبعض عدو}؛ أي: آدم وذريته أعداء لإبليس وذريته.
ومن المعلوم أن العدو يَجِدُّ ويجتهد في ضرر عدوه وإيصال الشر إليه بكل طريق وحرمانه الخير بكل طريق، ففي ضمن هذا تحذير بني آدم من الشيطان كما قال تعالى: {إنّ الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدواً إنما يدعو حزبه ليكونوا من أصحاب السعير} {أفتتخذونه وذريته أولياء من دوني وهم لكم عدو بئس للظالمين بدلاً} ثم ذكر منتهى الإهباط فقال: {ولكم في الأرض مستقر}؛ أي: مسكن وقرار {ومتاعٌ إلى حين}؛ انقضاء آجالكم ثم تنتقلون منها للدار التي خُلقتم لها وخلقت لكم، ففيها أن مدة هذه الحياة مؤقتة عارضة ليست مسكناً حقيقياً، وإنما هي معبر يُتزوَّد منها لتلك الدار، ولا تُعمَّر للاستقرار.
[36] چنانچہ وہ دونوں اس کی باتوں میں آ کر دھوکا کھا گئے اور اس کے پیچھے لگ گئے اور اس نے ان دونوں کو نعمتوں اور آسائشوں کے گھر سے نکال باہر کیا اور ان کو دکھوں، تکلیفوں اور مجاہدے کی سرزمین پر اتار دیا گیا۔
﴿بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ﴾ ’’تمھارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔‘‘ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت،
آدم اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّ الشَّ٘یْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّؔخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر:35؍6) ’’بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔‘‘
﴿اَفَتَتَّؔخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ١ؕ بِئْ٘سَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا﴾ (الکہف : 18؍50) ’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں؟
اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔‘‘
پھر انھیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّؔ﴾ یعنی زمین کے اندر تمھارا مسکن اور ٹھکانا ہو گا۔
﴿وَمَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ﴾ تمھارا وقت پورا ہونے تک
(تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمھیں اور جسے تمھارے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لیے زاد راہ حاصل کیا جاتا ہے
(دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔
[{فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (37)}].
پس سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمے، پس متوجہ ہوا
(اللہ مہربانی کے ساتھ) اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا،رحم کرنے والا
(37)
#
{37} {فتلقّى آدم}؛ أي: تلقف وتلقن وألهمه الله {من ربه كلمات}؛ وهي قوله: {ربنا ظلمنا أنفسنا ... }؛ الآية؛ فاعترف بذنبه، وسأل الله مغفرته {فتاب}؛ الله، {عليه}؛ ورحمه {إنه هو التواب}؛ لمن تاب إليه وأناب.
وتوبته نوعان: توفيقه أولاً. ثم قبوله للتوبة إذا اجتمعت شروطها ثانياً.
{الرحيم}؛ بعباده، ومن رحمته بهم أن وفقهم للتوبة وعفا عنهم وصفح.
[37] آدمuنے
(کچھ کلمات) سیکھ لیے اور یاد کر لیے، اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات آدم کو الہام کیے تھے۔ وہ کلمات یہ تھے
﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 7؍23) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ آدمuنے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا سوال کیا۔
﴿ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آدمuکی توبہ قبول کر لی اور اس پر رحم فرمایا۔ جو کوئی توبہ کرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں:
(۱) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔
(۲) پھر جب توبہ کی تمام شرائط پوری ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کر لیتا ہے۔
﴿الرَّحِیْمُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ ان پر اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے انھیں توبہ کی توفیق سے نوازا اور ان کو معاف کر کے ان سے درگزر فرمایا۔
{قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (38) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)}.
ہم نے کہا:اترو!
(یہاں سے) تم سب، پھر اگر آئے تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت، تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی، پس نہ کوئی خوف ہو گاان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے
(38) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، یہ لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(39)
#
{38} كرر الإهباط؛ ليرتب عليه ما ذكر، وهو قوله: {فإما يأتينكم مني هدى}؛ أي: أيُّ وقت وزمان جاءكم مني يا معشرَ الثقلين هدى؛ أي: رسول وكتاب يهديكم لما يقربكم مني، ويدنيكم من رضائي فمن تبع هداي منكم، بأن آمن برسلي، وكتبي واهتدى بهم، وذلك بتصديق جميع أخبار الرسل والكتب والامتثال للأمر والاجتناب للنهي، {فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ وفي الآية الأخرى، {فمن اتبع هداي فلا يضل ولا يشقى}.
فرتب على اتباع هداه أربعة أشياء:
نفي الخوف والحزن والفرق بينهما: أن المكروه إن كان قد مضى أحدث الحزن وإن كان منتظراً أحدث الخوف، فنفاهما عمن اتبع الهدى وإذا انتفيا حصل ضدهما وهو الأمن التام.
[38] ﴿قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا﴾ ’’ہم نے کہا اترو اس سے اکٹھے۔‘‘ زمین پر اتارے جانے کا مکرر ذکر کیا تاکہ اس پر وہ حکم مرتب کیا جائے جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔
﴿ فَاِمَّا یَ٘اْتِیَنَّـكُمْ مِّؔنِّیْ هُدًى ﴾ یعنی اے جن و انس! اگر تمھارے پاس میری طرف سے کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہدایت پہنچے، یعنی کوئی رسول اور کوئی کتاب آئے جو اس راستے کی طرف تمھاری راہ نمائی کرے جوتمھیں میرا تقرب عطا کرے، میرے اور میری رضا کے قریب کرے۔ پس جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے میرے رسولوں اور میری کتابوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں کو راہنما بنائے۔۔۔ اور اس سے مراد ہے کہ وہ تمام انبیاء و مرسلین اور کتب وحی کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرے۔ اللہ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔ تب اس صورت میں
﴿فَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنُ﴾ ’’ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے۔
﴿فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی﴾(طہ : 20؍123) ’’جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہو گا نہ بدبختی میں پڑے گا۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔
بندے سے حزن و خوف کی نفی ۔ حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہو گئی تو ان کی ضد ثابت ہو گئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت۔
#
{39} وكذلك: نفي الضلال والشقاء عمن اتبع هداه، وإذا انتفيا ثبت ضدهما، وهو الهدى والسعادة، فمن اتبع هداه حصل له الأمن والسعادة الدنيوية والأخروية والهدى وانتفى عنه كل مكروه من الخوف والحزن والضلال والشقاء؛ فحصل له المرغوب واندفع عنه المرهوب، وهذا عكس من لم يتبع هداه فكفر به وكذب بآياته؛ فأولئك أصحاب النار، أي: الملازمون لها ملازمة الصاحب لصاحبه، والغريم لغريمه {هم فيها خالدون} لا يخرجون منها ولا يفتر عنهم العذاب ولا هم ينصرون.
وفي هذه الآيات، وما أشبهها انقسام الخلق من الجن والإنس إلى أهل السعادة، وأهل الشقاوة، وفيها صفات الفريقين والأعمال الموجبة لذلك، وأن الجن كالإنس في الثواب والعقاب، كما أنهم مثلهم في الأمر والنهي.
[39] لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیز یعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کر دی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کر دی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہو گا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔
﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ﴾ یہی لوگ جہنمی ہیں یعنی جہنم ان کے لیے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔
﴿ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہو گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔
ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’جن‘‘ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امر و نہی کے مکلف ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا، فرمایا:
{يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (40) وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (41) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (42) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (43)}.
اے بنواسرائیل! یاد کرو تم میری نعمت، وہ جوانعام کی میں نے تم پر،اور پورا کرو تم میرا عہد، میں پورا کروں گا تمھارے
(ساتھ کیا ہوا) عہد اور مجھ ہی سے ڈرو
(40) اور ایمان لاؤ اس پر جومیں نے نازل کیا، جب کہ وہ تصدیق کرنے والا ہےاس
(کتاب) کی جو تمھارے پاس ہے اورنہ ہو تم پہلے کفر کرنے والے، ساتھ اس کے اور نہ بیچو تم میری آیتوں کو قیمت تھوڑی میں، اورمجھ ہی سے ڈرو
(41) اور نہ خلط ملط کرو حق کو ساتھ باطل کے اور مت چھپاؤحق کو درآں حالیکہ تم جانتے ہو
(42) اور قائم کرو نماز اور دو زکاۃ اور رکوع کرو ساتھ رکوع کرنے والوں کے
(43)
#
{40} {يا بني إسرائيل}؛ المراد بإسرائيل: يعقوب عليه السلام، والخطاب مع فِرَق بني إسرائيل، الذين بالمدينة وما حولها ويدخل فيهم من أتى بعدهم، فأمرهم بأمر عام فقال: {اذكروا نعمتي التي أنعمت عليكم}؛ وهو يشمل سائر النعم التي سيذكر في هذه السورة بعضها، والمراد بذكرها بالقلب اعترافاً، وباللسان ثناءً، وبالجوارح باستعمالها فيما يحبه ويرضيه {وأوفوا بعهدي}؛ وهو ما عهده إليهم من الإيمان به، وبرسله، وإقامة شرعه {أوف بعهدكم}؛ وهو المجازاة على ذلك، والمراد بذلك ما ذكره الله في قوله: {ولقد أخذ الله ميثاق بني إسرائيل وبعثنا منهم اثني عشر نقيباً وقال الله إني معكم لئن أقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وآمنتم برسلي}؛ إلى قوله: {فقد ضل سواء السبيل}؛ ثم أمرهم بالسبب الحامل لهم على الوفاء بعهده، وهو الرهبة منه تعالى، وخشيته وحده، فإن من خشيه أوجبت له خشيته امتثال أمره، واجتناب نهيه، ثم أمرهم بالأمر الخاص الذي لا يتم إيمانهم ولا يصح إلا به فقال:
[40] یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبuہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ﴾ ’’میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں‘‘ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
﴿ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ ﴾ یعنی اس عہد کو پورا کرو جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔
﴿ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ﴾ ’’میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا‘‘ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔
اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالی نے اس آیت میں ذکر کیا ہے:
﴿ وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا١ؕ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ١ؕ لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّ٘رَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّـكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ١ۚ فَ٘مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَؔآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ (المائدہ : 5؍12) ’’اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کر دیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکاۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے۔ میں تم سے تمھارے گناہ دور کر دوں گا اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیں یعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا۔ کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص امر کا حکم دیا ہے جس کے بغیر ان کا ایمان مکمل ہوتا ہے نہ اس کے بغیر ایمان صحیح۔
#
{41} {وآمنوا بما أنزلت}؛ وهو: القرآن الذي أنزله على عبده ورسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، فأمرهم بالإيمان به واتباعه، ويستلزم ذلك، الإيمان بمن أنزل عليه، وذكر الداعي لإيمانهم، فقال: {مصدقاً لما معكم}؛ أي: موافقاً له لا مخالفاً ولا مناقضاً، فإذا كان موافقاً لما معكم من الكتب غير مخالف لها فلا مانع لكم من الإيمان به؛ لأنه جاء بما جاءت به المرسلون، فأنتم أولى من آمن به وصدق به؛ لكونكم أهل الكتب والعلم.
وأيضاً فإن في قوله: {مصدقاً لما معكم}؛ إشارة إلى أنكم إن لم تؤمنوا به عاد ذلك عليكم بتكذيب ما معكم؛ لأن ما جاء به هو الذي جاء به موسى وعيسى وغيرهما من الأنبياء، فتكذيبكم له تكذيب لما معكم.
وأيضاً فإن في الكتب التي بأيديكم صفة هذا النبي الذي جاء بهذا القرآن، والبشارة به، فإن لم تؤمنوا به؛ كذبتم ببعض ما أنزل إليكم، ومن كذب ببعض ما أنزل إليه؛ فقد كذب بجميعه، كما أن من كفر برسولٍ؛ فقد كذب الرسل جميعهم، فلما أمرهم بالإيمان به نهاهم، وحذرهم عن ضده وهو الكفر به فقال: {ولا تكونوا أول كافر به}؛ أي: بالرسول والقرآن، وفي قوله: {أول كافر به}؛ أبلغ من قوله ولا تكفروا به؛ لأنهم إذا كانوا أول كافر به كان فيه مبادرتهم إلى الكفر [به] عكس ما ينبغي منهم، وصار عليهم إثمهم وإثم من اقتدى بهم من بعدهم.
ثم ذكر المانع لهم من الإيمان وهو اختيار العرض الأدنى على السعادة الأبدية فقال: {ولا تشتروا بآياتي ثمناً قليلاً}؛ وهو ما يحصل لهم من المناصب والمآكل التي يتوهمون انقطاعها إن آمنوا بالله ورسوله، فاشتروها بآيات الله واستحبوها وآثروها {وإياي}؛ أي: لا غيري، {فاتقون}؛ فإنكم إذا اتقيتم الله وحده أوجبت لكم تقواه تقديم الإيمان بآياته على الثمن القليل، كما أنكم إذا اخترتم الثمن القليل؛ فهو دليل على ترحل التقوى من قلوبكم، ثم قال:
[41] فرمایا:
﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ ﴾ ’’اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔‘‘ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمدeپر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ محمدeپر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔
پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انھیں ایمان کی طرف بلاتا ہے،
فرمایا: ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ ’’تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمھارے پاس ہیں‘‘ یعنی یہ
(قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیں یہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمھارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمدeوہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے۔ لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمھاری طرف لوٹے گی یعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمھارے پاس ہیں، اس لیے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ اور دیگر انبیاءoلے کر آئے، لہٰذا تمھارا محمدeکی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمھارے پاس ہیں۔ نیز اس لیے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمھارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے، اس لیے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمھارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا،
تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا: ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ ’’اس کے اولین انکار کرنے والے‘‘
(وَلَا تَکْفُرُوْا بِہٖ) ’’اس کا انکار نہ کرو‘‘ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں، اس رویہ کے برعکس جو ان کے لیے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی،
بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنھوں نے ان کی پیروی کی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنی فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’میری آیات
(میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو‘‘ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ پس انھوں نے ان ادنی چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنی چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔
﴿ وَاِیَّ٘ایَ فَاتَّقُوْنِ ﴾ ’’مجھ ہی سے ڈرو‘‘ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقوی اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہو گی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کر لیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمھارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔
#
{42} {ولا تلبسوا}؛ أي: تخلطوا {الحق بالباطل وتكتموا الحق}؛ فنهاهم عن شيئين، عن خلط الحق بالباطل وكتمان الحق؛ لأن المقصود من أهل الكتب والعلم تمييز الحق [من الباطل] وإظهار الحق، ليهتدي بذلك المهتدون، ويرجع الضالون وتقوم الحجة على المعاندين؛ لأن الله فصل آياته وأوضح بيناته؛ ليميز الحق من الباطل، ولتستبين سبيل المهتدين من سبيل المجرمين، فمن عمل بهذا من أهل العلم؛ فهو من خلفاء الرسل وهداة الأمم، ومن لَبَّس الحق بالباطل فلم يميز هذا من هذا مع علمه بذلك، وكتم الحق الذي يعلمه وأُمِرَ بإظهاره؛ فهو من دعاة جهنم؛ لأن الناس لا يقتدون في أمر دينهم بغير علمائهم، فاختاروا لأنفسكم إحدى الحالتين.
[42] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَا تَلْ٘بِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْ٘تُمُوا الْحَقَّ﴾ ’’اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم حق کو‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزوں سے منع کیا ہے۔
(۱) حق کو باطل میں خلط ملط کرنے سے۔
(۲) کتمان حق سے۔ اس لیے کہ اہل کتاب اور اہل علم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حق کو ممیز کر کے اس کو ظاہر کریں تاکہ ہدایت کے متلاشی حق کے ذریعے سے راہ پائیں اور گم گشتہ راہ لوگ سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عناد پر حجت قائم ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اور اپنے دلائل واضح کر دیے تاکہ حق، باطل سے بالکل الگ اور ممیز ہو جائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے۔ پس اہل علم میں سے جو کوئی حق پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ انبیاء و مرسلین کا جانشین اور قوموں کا راہ نما بن جاتا ہے اور جو حق کو باطل میں گڈ مڈ کر دیتا ہے، حق کا علم رکھنے کے باوجود حق کو باطل سے ممیز نہیں کرتا، اور اس حق کو وہ چھپاتا ہے جسے وہ جانتا ہے اور جس کے اظہار کا اسے حکم دیا گیا ہے تو ایسا شخص جہنم کے داعیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ دین کے معاملے میں اپنے علماء کے سوا کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ پس تم ان دو چیزوں میں سے اپنے لیے جو چاہو چن لو۔
#
{43} ثم قال: {وأقيموا الصلاة}؛ أي: ظاهراً وباطناً {وآتوا الزكاة}؛ مستحقيها، {واركعوا مع الراكعين}؛ أي: صلوا مع المصلين، فإنكم إذا فعلتم ذلك مع الإيمان برسل الله وآيات الله، فقد جمعتم بين الأعمال الظاهرة والباطنة، وبين الإخلاص للمعبود والإحسان إلى عبيده، وبين العبادات القلبية والبدنية والمالية، وقوله: {واركعوا مع الراكعين}؛ أي: صلوا مع المصلين، ففيه، الأمر بالجماعة للصلاة، ووجوبها، وفيه، أن الركوع ركن من أركان الصلاة، لأنه عبر عن الصلاة بالركوع، والتعبير عن العبادة بجزئها يدل على فرضيته فيها.
[43] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یعنی
(ظاہری اور باطنی طور پر) نماز قائم کرو۔
﴿وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ﴾ یعنی
(مستحقین کو) زکو ۃ دو۔
﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ’’اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘ یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہوئے ان افعال کو سرانجام دیا تو یقیناً تم نے اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو، معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو اور عبادات قلبیہ اور عبادات بدنیہ اور مالیہ کو جمع کر لیا۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿وَاْرکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو، کے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ پس اس آیت کریمہ میں باجماعت نماز کا حکم اور جماعت کے وجوب کا اثبات ہے اور یہ کہ رکوع نماز کا رکن ہے کیونکہ یہاں نماز کو رکوع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور عبادت کو اس کے کسی جزو سے تعبیر کرنا عبادت میں اس جزو کی فرضیت کی دلیل ہے۔
[{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (44)}].
کیا حکم دیتے ہو تم لوگوں کو نیکی کا اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو، حالانکہ تم پڑھتے ہو کتاب،کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟
(44)
#
{44} {أتأمرون الناس بالبر}؛ أي: بالإيمان والخير، {وتنسون أنفسكم}؛ أي: تتركونها عن أمرها بذلك والحال، {وأنتم تتلون الكتاب أفلا تعقلون}؛ وسُمِّي العقل عقلاً؛ لأنه يعقل به ما ينفعه من الخير، وينعقل به عما يضره، وذلك أن العقل يحث صاحبه أن يكون أول فاعل لما يأمر به، وأول تارك لما ينهى عنه، فمن أمر غيره بالخير ولم يفعله أو نهاه عن الشر فلم يتركه دل على عدم عقله وجهله، خصوصاً إذا كان عالماً بذلك، قد قامت عليه الحجة، وهذه الآية وإن كانت نزلت في سبب بني إسرائيل، فهي عامة لكل أحد لقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون كبر مقتاً عند الله أن تقولوا ما لا تفعلون}؛ وليس في الآية أن الإنسان إذا لم يقم بما أُمِر به أنه يترك الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر؛ لأنها دلت على التوبيخ بالنسبة إلى الواجبَيْنِ، وإلا فمن المعلوم أن على الإنسان واجبين: أمر غيره ونهيه، وأمر نفسه ونهيها، فترك أحدهما لا يكون رخصة في ترك الآخر، فإن الكمال أن يقوم الإنسان بالواجبَيْنِ، والنقص الكامل أن يتركهما، وأما قيامه بأحدهما دون الآخر فليس في رتبة الأول وهو دون الأخير، وأيضاً فإن النفوس مجبولة على عدم الانقياد لمن يخالف قولَه فعلُه، فاقتداؤهم بالأفعال أبلغ من اقتدائهم بالأقوال المجردة.
[44] ﴿ اَتَاْمُرُوْنَؔ النَّاسَ بِالْـبِرِّ﴾ ’’تم لوگوں کو نیکی
(یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو‘‘
﴿وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ ’’اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو‘‘ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔
﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ﴾ اور تمھارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لیے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضرر رساں ہے اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔
پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہر چند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملے میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لیے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۰۰كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف : 61؍2۔3) ’’اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔‘‘
آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہ یہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔
(۱)کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
(۲) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔
ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔
{وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (46) يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (47) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (48)}.
اور مدد طلب کرو تم صبر اور نماز کے ذریعے سے اور بلاشبہ وہ بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر
(نہیں) (45) وہ جو یقین رکھتے ہیں اس بات کا کہ وہ ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں
(46) اے بنو اسرائیل!یا د کرو تم میری نعمت،وہ جو انعام کی میں نے تم پر اور یہ کہ فضیلت دی میں نے تم کو جہانوں پر
(47) اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں فائدہ دے گی کوئی جان کسی جان کوکچھ اور نہ قبول کی جائے گی اس سے کوئی سفارش اور نہ لیا جائے گا اس سے کوئی بدلہ اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے
(48)
#
{45} أمرهم الله أن يستعينوا في أمورهم كلها بالصبر بجميع أنواعه، وهو الصبر على طاعة الله حتى يؤديها، والصبر عن معصية الله حتى يتركها، والصبر على أقدار الله المؤلمة فلا يتسخطها، فبالصبر وحبس النفس على ما أمر الله بالصبر عليه معونة عظيمة على كل أمر من الأمور، ومن يتصبر يصبره الله، وكذلك الصلاة التي هي ميزان الإيمان، وتنهى عن الفحشاء والمنكر يستعان بها على كل أمر من الأمور، {وإنها}؛ أي: الصلاة، {لكبيرة}؛ أي: شاقة {إلا على الخاشعين}؛ فإنها سهلة عليهم خفيفة؛ لأن الخشوع وخشيةَ الله ورجاءَ ما عنده يوجب له فعلها منشرحاً صدره لترقبه للثواب وخشيته من العقاب، بخلاف من لم يكن كذلك، فإنه لا داعي له يدعوه إليها، وإذا فعلها صارت من أثقل الأشياء عليه.
والخشوع: هو خضوع القلب وطمأنينته وسكونه لله تعالى وانكساره بين يديه ذلًّا وافتقاراً وإيماناً به وبلقائه، ولهذا قال:
[45] ﴿ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰ٘وةِ﴾ ’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام امور میں صبر کی تمام اقسام سے مدد لیں۔ صبر کی اقسام یہ ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنے نفس کو پابند کرنا۔
(۲) اس کی نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا یہاں تک کہ اسے ترک کر دے۔
(۳)اس کی تقدیر پر صبر کرنا، اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ ہر معاملے میں صبر کے ذریعے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کرنے کی توفیق سے نواز دیتا ہے۔
اسی طرح نماز ہے جو کہ ایمان کی میزان ہے اور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ ہر معاملہ میں نماز سے مدد لی جاتی ہے۔
﴿وَاِنَّھَا﴾ یعنی نماز
﴿لَکَبِیْرَۃٌ﴾ بہت شاق گزرتی ہے
﴿اِلَّا عَلَی الْخَاشِعِیْنَ﴾ سوائے ڈرنے والوں کے، اس لیے کہ یہ نماز ان پر بہت آسان اور ہلکی ہے کیونکہ خشوع، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امید ان کے لیے شرح صدر کے ساتھ نماز کے قیام کی موجب ہوتی ہے کیونکہ وہ ثواب کی امید کرتے اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ثواب کی امید نہیں رکھتا اورعذاب سے نہیں ڈرتا اس کے اندر کوئی ایسا داعیہ موجود نہیں ہوتا جو اسے نماز کی طرف بلائے۔ جب ایسا شخص نماز پڑھتا ہے تو نماز اس کے لیے سب سے بوجھل چیز ہوتی ہے۔ خشوع سے مراد ہے قلب کا اللہ تعالی کے حضور عاجزی کے ساتھ سرفگندہ ہونا۔ اس کا اللہ تعالی کے پاس پرسکون اور مطمئن ہونا اور اس کے سامنے ذلت و فقر کے ساتھ اس کی ملاقات کی امید پر انکسار کا اظہار کرنا۔
#
{46} {الذين يظنون}؛ أي يستيقنون {أنهم ملاقو ربهم}؛ فيجازيهم بأعمالهم، {وأنهم إليه راجعون}؛ فهذا الذي خفف عليهم العبادات وأوجب لهم التسلي في المصيبات ونفس عنهم الكربات وزجرهم عن فعل السيئات، فهؤلاء لهم النعيمُ المقيمُ في الغرفاتِ العالياتِ، وأما من لم يؤمن بلقاء ربه كانت الصلاة وغيرها من العبادات من أشق شيء عليه.
[46] بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الَّذِیْنَؔ یَظُنُّوْنَ﴾ یعنی جو یقین کرتے ہیں
﴿ؔ اَنَّهُمْ مُّلٰ٘قُوْا رَبِّهِمْ ﴾ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا
﴿ وَاَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰؔؔجِعُوْنَ﴾ ’’اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹیں گے‘‘ اس یقین نے ان کے لیے عبادات کو آسان کر دیا ہے۔ یہی یقین مصائب میں ان کے لیے تسلی کا موجب ہوتا ہے، تکالیف کو ان سے دور کرتا ہے اور برے کاموں سے انھیں روکتا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بلند بالا خانوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان نہیں رکھتا اس کے لیے نماز اور دیگر عبادات سب سے زیادہ شاق گزرنے والی چیزیں ہیں۔
#
{47} ثم: كرر على بني إسرائيل التذكير بنعمته وعظاً لهم وتحذيراً وحثًّا.
[47] پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نصیحت کی خاطر اور ان کو برائیوں سے بچانے، نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لیے ان پر اپنی نعمتوں کی مکرر یا دوہانی کرائی ہے۔
#
{48} وخوفهم بيوم القيامة الذي: {لا تجزي}؛ فيه أي لا تغني {نفس}؛ ولو كانت من الأنفس الكريمة كالأنبياء والصالحين، {عن نفس}؛ ولو كانت من العشيرة الأقربين، {شيئاً}؛ لا كبيراً ولا صغيراً وإنما ينفع الإنسانَ عملُه الذي قدمه {ولا يقبل منها}؛ أي: النفس، {شفاعة}؛ لأحد بدون إذن الله ورضاه عن المشفوع له، ولا يرضى من العمل إلا ما أُريد به وجهه وكان على السبيل والسنة، {ولا يؤخذ منها عدل}؛ أي فداء ولو أن لكل نفس ظلمت ما في الأرض جميعاً ومثله معه لافتدوا به من عذاب الله ولا يقبل منهم ذلك، {ولا هم ينصرون}؛ أي: يدفع عنهم المكروه، فنفى الانتفاعَ من الخلق بوجه من الوجوه، فقوله: {لا تَجْزِي نفس عن نفس شيئاً} هذا في تحصيل المنافع، {ولا هم ينصرون} هذا في دفع المضار، فهذا النفي للأمر المستقبل به النافع، {ولا يقبل منها شفاعة ولا يؤخذ منها عدل} هذا نفي للنفع الذي يطلب ممن يملكه بعوض، كالعدل أو بغيره كالشفاعة؛ فهذا يوجب للعبد أن ينقطع قلبه من التعلق بالمخلوقين لعلمه أنهم لا يملكون له مثقال ذرة من النفع، وأن يعلقه بالله الذي يجلب المنافع ويدفع المضار فيعبده وحده لا شريك له، ويستعينه على عبادته.
[48] اور انھیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ
﴿ لَّا تَجْزِیْ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں
﴿ عَنْ نَّ٘فْ٘سٍ ﴾ اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
﴿ شَیْـًٔؔا﴾ ’’کچھ بھی‘‘ یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آ سکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے
﴿ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ ﴾ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہو گی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور جس کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی، اس کو بھی وہ پسند کرتا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسی عمل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لیے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہو گا
(گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہو گا نہ ہر کسی کے لیے شفاعت ہی کی جا سکے گی) ۔
﴿ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ﴾ یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ ﴾(الزمر : 39؍47) ’’اگر ان لوگوں کے پاس جنھوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو اور وہ برے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں دیں۔‘‘
(تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا) ﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے‘‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کر دی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿لاَ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا﴾ حصول منافع کے بارے میں ہے اور
﴿وَلاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ نفی مستقبل میں کسی امر نافع کے بارے میں ہے۔
﴿وَلاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ﴾یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا جاتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھی تو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں۔ اور اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے،
چنانچہ فرمایا:
{وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (49) وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (50) وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (51) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (52) وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (53) وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (54) وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (55) ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (56) وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (57)}.
اور جب نجات دی ہم نے تم کو آل فرعون سے، وہ دیتے تھے تمھیں سخت عذاب، ذبح کرتے تھے تمھارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمھاری بیٹیوں کو اوراس میں آزمائش تھی تمھارے رب کی طرف سے بڑی
(49) اور جب پھاڑا ہم نے تمھاری وجہ سے سمندر کو، پھر نجات دی ہم نے تمھیں اورغرق کر دیا ہم نے آل فرعون کو اور تم دیکھ رہے تھے
(50) اور جب وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا، پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو
(معبود) موسیٰ کے
(طور پر جانے کے) بعد اور تم ظالم تھے
(51) پھر معاف کر دیا ہم نے تم کو بعد اس کے، شاید کہ تم شکر کرو
(52) اور جب دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور
(حق و باطل کے درمیان) فرق کرنے والی چیز، شاید کہ تم ہدایت پاؤ
(53) اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے،اے میری قوم! بے شک تم نے ظلم کیا اپنے آپ پر بوجہ بنا لینے تمھارے بچھڑے کو
(معبود) پس توبہ کرو تم طرف اپنے پیدا کرنے والے کی اور قتل کرو تم اپنے آپ کو، یہ بہتر ہے تمھارے لیے نزدیک تمھارے پیدا کرنے والے کے ، پھر اللہ متوجہ ہوا تم پر، بلاشبہ وہی ہے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا
(54) اور جب کہا تم نے، اے موسیٰ! ہم ہرگز نہیں ایمان لائیں گے تجھ پر یہاں تک کہ دیکھ لیں ہم اللہ کو علانیہ
(سامنے) پس پکڑ لیا تم کو بجلی
(کے عذاب) نےاور تم دیکھ رہے تھے
(55)، پھر زندہ کیا ہم نے تم کو، بعد تمھاری موت کے، شاید کہ تم شکر کرو
(56) اور سایہ کیا ہم نےتم پربادلوں کا اور نازل کیا ہم نے تم پر من اور سلویٰ، کھاؤ تم
(ان)پاکیزہ چیزوں سے، جو دیں ہم نے تمھیں اور نہیں ظلم کیا انھوں نے ہم پر لیکن تھے وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے
(57)
#
{49 ـ 54} هذا: شروع في تعداد نعمه على بني إسرائيل على وجه التفصيل فقال: {وإذ نجيناكم من آل فرعون}؛ أي: من فرعون وملئه وجنوده وكانوا قبل ذلك، {يسومونكم}؛ أي: يولونهم ويستعملونهم {سوء العذاب}؛ أي: أشده بأن كانوا، {يذبحون أبناءكم}؛ خشية نموكم، {ويستحيون نساءكم}؛ أي: فلا يقتلونهن فأنتم بين قتيل ومُذلَّل بالأعمال الشاقة مستحيَى على وجه المنة عليه والاستعلاء عليه فهذا غاية الإهانة، فَمَنَّ الله عليهم بالنجاة التامة، وإغراق عدوهم، وهم ينظرون لتَقَرَّ أعينهم {وفي ذلكم}؛ أي: الإنجاء {بلاء}؛ أي: إحسان {من ربكم عظيم}؛ فهذا مما يوجب عليكم الشكر والقيام بأوامره.
ثم ذكر منته عليهم بوعده لموسى أربعين ليلة؛ لينزل عليهم التوراة المتضمنة للنعم العظيمة والمصالح العميمة، ثم إنهم لم يصبروا قبل استكمال الميعاد حتى عبدوا العجل من بعده؛ أي ذهابه {وأنتم ظالمون}؛ عالمون بظلمكم، قد قامت عليكم الحجة، فهو أعظم جرماً، وأكبر إثماً.
ثم إنه أمركم بالتوبة على لسان نبيه موسى بأن يقتل بعضكم بعضاً؛ فعفا الله عنكم بسبب ذلك {لعلكم تشكرون}؛ الله.
[54-49] ﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَؔ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انھیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے
﴿یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِ﴾ وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب ۔یعنی ایذا پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے
﴿یُذَبِّحُوْن اَبْنَآءَ کُمْ﴾ اور وہ یہ کہ تمھارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمھاری تعداد بڑھ نہ جائے
﴿وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ﴾ ’’اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے‘‘ یعنی وہ تمھاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمھاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمھیں قتل کر دیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمھیں ذلیل کیا جاتا تھا۔ اور تمھیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لیے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا۔ تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔
﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾ ’’اور اس میں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں
﴿بَلَآءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑا احسان ہے۔‘‘ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ
(u)کے ساتھ چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل کرے گا جو عظیم نعمتوں اور مصالح عامہ کو متضمن ہو گی۔ پھر وہ اس میعاد کے مکمل ہونے تک صبر نہ کر سکے چنانچہ انھوں نے حضرت موسیٰuکے چلے جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کر دی
﴿وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ﴾ ’’اور تم ظالم تھے‘‘ یعنی اپنے ظلم کو جاننے والے۔ تم پر حجت قائم ہو گئی۔ پس یہ سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے۔ پھر اس نے اپنے نبی موسیٰ
(u)کی زبان پر تمھیں توبہ کرنے کا حکم دیا۔ اور اس توبہ کی صورت یہ تھی کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے تمھیں معاف کر دیا
﴿لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔
#
{55} {وإذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة}؛ وهذا غاية الجرأة على الله وعلى رسوله، {فأخذتكم الصاعقة}؛ إما الموت أو الغشية العظيمة {وأنتم تنظرون}؛ وقوع ذلك كل ينظر إلى صاحبه.
[55] ﴿وَاِذْ قُلْتُمْ یَامُوْسٰی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً﴾ ’’اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ، ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں‘‘ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمھاری جرأت کی انتہا تھی
﴿ فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰؔعِقَةُ ﴾ پس تمھیں بے ہوشی نے آ لیا
(اس بے ہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بے ہوشی ہے
﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ﴾ تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے، ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا
#
{56} {ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون}؛ ثم ذكر نعمته عليهم في التِيه والبرية الخالية من الظلال وسعة الأرزاق فقال:
[56] ﴿ ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّـكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ پھر تمھارے مرنے کے بعد ہم نے تمھیں دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے اس نے بنی اسرائیل کو اس بیابان و صحرا میں نوازا جو سائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی سے خالی تھا۔
#
{57} {وظللنا عليكم الغمام وأنزلنا عليكم المنّ}؛ وهو: اسم جامع لكل رزق [حسن] يحصل بلا تعب، ومنه الزنجبيل والكمأة، والخبز، وغير ذلك، {والسلوى}؛ طائر صغير يقال له: السماني طيب اللحم؛ فكان ينزل عليهم من المنِّ والسلوى ما يكفيهم ويقيتهم {كلوا من طيبات ما رزقناكم}؛ أي: رزقاً لا يحصل نظيره لأهل المدن المترفهين، فلم يشكروا هذه النعمة ، واستمروا على قساوة القلوب وكثرة الذنوب {وما ظلمونا}؛ يعني بتلك الأفعال المخالفة لأوامرنا، لأن الله لا تضره معصية العاصين كما لا تنفعه طاعات الطائعين {ولكن كانوا أنفسهم يظلمون}؛ فيعود ضرره عليهم.
[57] فرمایا:
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْ٘مَنَّ ﴾ ’’پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر مَنّ نازل کیا۔‘‘
﴿اَلْمَنَّ﴾ ہر قسم کے اس رزق کے لیے ایک جامع نام ہے جو بغیر کسی جدوجہد کے حاصل ہوتا ہو، مثلاً سونٹھ، کھمبی اور خبنر
(روٹی) (ایک قسم کی نباتات) وغیرہ
﴿وَالسَّلْوٰی﴾ ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جسے ’’سمانی‘‘
(ایک قسم کی بٹیر) کہا جاتا ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ پس یہ من اور سلویٰ اس مقدار میں ان پر اترتے کہ ان کی خوراک کے لیے کافی ہوتے
﴿ كُلُ٘وْا مِنْ طَیِّبٰؔتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ’’ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں دیں۔‘‘ یعنی ہم نے تمھیں ایسا رزق عطا کیا ہے کہ اس جیسا رزق آسودہ حال شہروں کے باشندوں کو بھی حاصل نہیں۔ مگر انھوں نے اس نعمت کا شکر ادا نہ کیا اور ان کے دلوں کی سختی اور گناہوں کی کثرت بدستور قائم رہی۔
﴿وَمَا ظَلَمُوْنَا﴾ یعنی انھوں نے ہمارے احکام کے برعکس مخالف افعال کا ارتکاب کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اہل معاصی کی معصیت اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جیسے اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔
﴿ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْ٘لِمُوْنَ﴾ ’’لیکن وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے تھے‘‘ یعنی اس کا نقصان انھی کی طرف لوٹے گا۔
{وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (58) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (59)}.
اور جب کہا ہم نے، داخل ہو تم اس بستی میں اور کھاؤاس میں سے جہاں سےچاہو تم فراغت سے اور داخل ہو تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو بخش دے ہمیں، تو معاف کر دیں گے ہم تمھاری خطائیں اور عنقریب زیادہ دیں گے ہم احسان کرنے والوں کو
(58) پس بدل دیا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہی گئی تھی ان سے، تو نازل کیا ہم نے اوپران لوگوں کے جنھوں نےظلم کیا، عذاب آسمان سے، اس وجہ سے کہ تھے وہ نافرمانی کرتے
(59)
#
{58} وهذا أيضاً من نعمته عليهم بعد معصيتهم إياه، فأمرهم بدخول قرية تكون لهم عزًّا ووطناً ومسكناً، ويحصل لهم فيها الرزقُ الرغدُ، وأن يكون دخولهم على وجه خاضعين لله فيه بالفعل، وهو دخول الباب سجداً، أي: خاضعين ذليلين، وبالقول وهو أن يقولوا: {حطة}؛ أي: أن يحط عنهم خطاياهم بسؤالهم إياه مغفرته، {نغفر لكم خطاياكم}؛ بسؤالكم المغفرة {وسنزيد المحسنين}؛ بأعمالهم أي: جزاء عاجلاً وآجلاً.
[58] یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی تھی کہ ان کی نافرمانی کے بعد بھی اس نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک بستی میں داخل ہو جائیں یہ بستی ان کے لیے باعثِ عزت، ان کا وطن اور ان کا مسکن ہو گی اور اس بستی میں ان کو وافر اور بے روک ٹوک رزق ملے گا۔ بستی میں ان کا داخلہ بالفعل خضوع کی حالت میں ہو یعنی وہ بستی کے دروازے میں
﴿سُجَّدًا﴾ ’’سجدے کی حالت میں‘‘ گزریں یعنی وہ اس حالت میں دروازے میں داخل ہوں کہ ان پر خشوع و خضوع طاری ہو اور بالقول وہ
﴿حِطَّۃٌ﴾ ’’بخش دے‘‘ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں یعنی ان کے مغفرت کے سوال پر ان کی خطائیں معاف کر دی جائیں۔
﴿نَّ٘غْفِرْ لَـكُمْ خَطٰیٰؔكُمْ﴾ تمھارے مغفرت کے سوال کرنے پر وہ تمھاری خطائیں معاف کر دے گا
﴿وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ یعنی بھلائی کا کام کرنے والوں کو ہم دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کی جزا زیادہ دیں گے۔
#
{59} {فبدل الذين ظلموا}؛ منهم، ولم يقل فبدلوا؛ لأنهم لم يكونوا كلهم بدلوا {قولاً غير الذي قيل لهم}؛ فقالوا: بدل حطة، حبة في حنطة، استهانة بأمر الله، واستهزاء وإذا بدلوا القول مع خفته فتبديلهم للفعل من باب أولى وأحرى، ولهذا دخلوا يزحفون على أدبارهم، ولما كان هذا الطغيان أكبر سببٍ لوقوع عقوبة الله بهم قال: {فأنزلنا على الذين ظلموا}؛ منهم {رجزاً}؛ أي: عذاباً {من السماء}؛ بسبب فسقهم وبغيهم.
[59] ﴿فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ یعنی ان لوگوں نے اس قول کو بدل دیا تھا جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے
(فَبَدَّلُوْا) ’’ان سب نے بدل دیا‘‘ نہیں فرمایا کیونکہ سب لوگ قول کو بدلنے والے نہ تھے
﴿قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ﴾ ’’بات، سوائے اس بات کے جو ان سے کہی گئی تھی‘‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی توہین اور اس سے استہزا کرتے ہوئے حِطَّۃٌ کی بجائے
(حَبَّۃٌ فِیْ حِنْطَۃٍ) کا لفظ کہا۔ جب ’’قول‘‘ کو باوجود اس کے کہ وہ آسان تھا، انھوں نے اسے بدل دیا تو ’’فعل‘‘ کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جا سکتی ہے، اس لیے وہ
(اللہ تعالیٰ کے حکم کے برعکس) اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ چونکہ یہ سرکشی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے واقع ہونے کا سب سے بڑا سبب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا﴾ یعنی ان میں سے ظالموں پر عذاب نازل کیا۔
﴿مِنَ السَّمَآءِ﴾ یعنی ان کی نافرمانی اور ان کے بغاوت کے رویہ کے سبب سے
(آسمان سے یہ عذاب نازل ہوا۔)
{وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (60)}.
اور جب پانی مانگا موسیٰ نےاپنی قوم کے لیے تو ہم نے کہا، مار تو اپنا عصا پتھر کو، پس بہہ نکلے اس
(پتھر) سے بارہ چشمے،تحقیق پہچان لیا ہر قوم نے گھاٹ اپنا اپنا، کھاؤ اور پیو اللہ کے رزق سے اور نہ پھرو تم زمین میں فساد کرتے ہوئے
(60)
#
{60} {استسقى}؛ أي: طلب لهم ماء يشربون منه {فقلنا اضرب بعصاك الحجر}؛ إما حجر مخصوص معلوم عنده، وإما اسم جنس؛ {فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً}؛ وقبائل بني إسرائيل اثنتا عشرة قبيلة، {قد علم كل أناس}؛ منهم {مشربهم}؛ أي: محلهم الذي يشربون عليه من هذه الأعين، فلا يزاحم بعضهم بعضاً بل يشربونه متهنئين لا متكدرين، ولهذا قال: {كلوا واشربوا من رزق الله}؛ أي: الذي آتاكم من غير سعي ولا تعب {ولا تعثوا في الأرض}؛ أي: تخربوا على وجه الإفساد.
[60] یعنی جب حضرت موسیٰuنے بنی اسرائیل کے لیے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لیے استعمال کر سکیں
﴿فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ﴾ ’’تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔‘‘ یہاں ’’الْحَجَرَ‘‘ کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰuجانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔
﴿فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ’’پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے‘‘ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔
﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کر لی جہاں انھوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ﴾ یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ
﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔
{وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (61)}.
اور جب کہا تم نے اے موسیٰ! ہر گز نہیں صبر کریں گے ہم ایک کھانے پر، پس دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے کہ وہ نکالے ہمارے لیے وہ چیزیں کہ اگاتی ہے زمین،
(یعنی ) اپنی ترکاری اور ککڑی اور گندم اور مسور اور پیاز،
موسیٰ نے کہا: کیا بدلے میں لینا چاہتے ہو تم اس چیز کو جو ادنیٰ ہے بجائے اس چیز کے جو بہتر ہے؟ اُترو! کسی شہر میں، پس بے شک تمھارے لیے وہی ہے جس کا سوال کیا تم نے،اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور پھرے وہ ساتھ اللہ کے غضب کے، یہ ، اس لیے ہوا کہ بے شک تھے وہ کفر کرتے ساتھ اللہ کی آیتوں کے اور قتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق، یہ اس سبب سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور تھے وہ حد سے تجاوز کرتے
(61)
#
{61} أي: واذكروا {إذ قلتم} لموسى على وجه التملل لنعم الله، والاحتقار لها {لن نصبر على طعام واحد}؛ أي: جنس من الطعام وإن كان كما تقدم أنواعاً لكنها لا تتغير {فادع لنا ربك يخرج لنا مما تنبت الأرض من بقلها}؛ أي: نباتها الذي ليس بشجر يقوم على ساقه {وقثائها}؛ وهو الخيار {وفومها}؛ أي: ثومها والعدس والبصل معروف، قال لهم موسى: {أتستبدلون الذي هو أدنى}؛ وهو الأطعمة المذكورة {بالذي هو خير}؛ وهو المن والسلوى، فهذا غير لائق بكم، فإن هذه الأطعمة التي طلبتم، أي مِصْرٍ هبطتموه وجدتموها، وأما طعامكم الذي منَّ الله به عليكم فهو خير الأطعمة وأشرفها فكيف تطلبون به بدلاً؟
ولما كان الذي جرى منهم فيه أكبر دليل على قلة صبرهم، واحتقارهم لأوامر الله ونعمه جازاهم من جنس عملهم فقال: {وضربت عليهم الذلة}؛ التي تُشاهدَ على ظاهر أبدانهم {والمسكنة}؛ بقلوبهم فلم تكن أنفسهم عزيزة، ولا لهم همم عالية بل أنفسهم أنفس مهينة، وهممهم أردأ الهمم {وباؤوا بغضب من الله}؛ أي: لم تكن غنيمتهم التي رجعوا بها، وفازوا إلا أن رجعوا بسخطه عليهم؛ فبئس الغنيمة غنيمتهم، وبئس الحالة حالتهم {ذلك}؛ الذي استحقوا به غضبه {بأنهم كانوا يكفرون بآيات الله}؛ الدالات على الحق الموضحة لهم، فلما كفروا بها عاقبهم بغضبه عليهم وبما كانوا {يقتلون النبيين بغير الحق}؛ وقوله: {بغير الحق} زيادة شناعة، وإلا فمن المعلوم أن قتل النبيين لا يكون بحق، لكن لئلا يظن جهلهم وعدم علمهم {ذلك بما عصوا}؛ بأن ارتكبوا معاصي الله {وكانوا يعتدون}؛ على عباد الله؛ فإن المعاصي يجر بعضها بعضاً، فالغفلة ينشأ عنها الذنب الصغير، ثم ينشأ عنه الذنب الكبير، ثم ينشأ عنها أنواع البدع والكفر وغير ذلك، فنسأل الله العافية من كل بلاء.
واعلم أن الخطاب في هذه الآيات لأمة بني إسرائيل الذين كانوا موجودين وقت نزول القرآن، وهذه الأفعال المذكورة خوطبوا بها وهي فعل أسلافهم، ونسبت لهم لفوائد عديدة.
منها: أنهم كانوا يتمدحون، ويزكون أنفسهم، ويزعمون فضلهم على محمد ومن آمن به؛ فبين الله من أحوال سلفهم التي قد تقررت عندهم ما يبين به لكل واحد منهم أنهم ليسوا من أهل الصبر، ومكارم الأخلاق، ومعالي الأعمال، فإذا كانت هذه حالة سلفهم ـ مع أن المظنة أنهم أولى وأرفع حالة ممن بعدهم ـ فكيف الظن بالمخاطبين!
ومنها: أن نعمة الله على المتقدمين منهم نعمة واصلة إلى المتأخرين، والنعمة على الآباء نعمة على الأبناء، فخوطبوا بها، لأنها نعم تشملهم وتعمهم.
ومنها: أن الخطاب لهم بأفعال غيرهم مما يدل على أن الأمة المجتمعة على دين تتكافل وتتساعد على مصالحها، حتى كأنَّ متقدمهم ومتأخرهم في وقت واحد، وكأن الحادثَ من بعضهم حادثٌ من الجميع؛ لأن ما يعمله بعضهم من الخير يعود بمصلحة الجميع، وما يعمله من الشر يعود بضرر الجميع.
ومنها: أن أفعالهم أكثرها لم ينكروها، والراضي بالمعصية شريك للعاصي، إلى غير ذلك من الحكم التي لا يعلمها إلا الله.
[61] تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کو حقیر جانتے ہوئے کہا تھا:
﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَّاحِدٍ﴾ یعنی ہم ایک ہی جنس کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ ان کا کھانا جیسا کہ
(گزشتہ سطور میں) گزر چکا ہے اگرچہ متعدد انواع کا تھا۔ مگر ان میں تبدیلی نہ ہوتی تھی۔
﴿فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّؔا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا﴾ ’’پس تو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ نکالے ہمارے لیے وہ جو اگتا ہے زمین سے، سبزی‘‘ یعنی زمین کی نباتات، جن کا شمار تن آور درختوں میں نہیں ہوتا
﴿ وَقِثَّآىِٕهَا ﴾ یعنی ککڑی
﴿وَفُوْ مِھَا﴾ یعنی لہسن
﴿وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَا﴾ یعنی مسور اور پیاز جو کہ معروف ہیں۔ تب حضرت موسیٰuنے ان سے فرمایا:
﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی﴾ ’’کیا لینا چاہتے ہو تم وہ چیز جو ادنی ہے‘‘ یعنی یہ تمام کھانے کی چیزیں جن کا ذکر ہو چکا ہے
﴿بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ﴾ ’’اس کے بدلے میں جو بہتر ہے‘‘ اس سے مراد ’’من و سلوی‘‘ ہے یعنی ایسا کہنا تمھارے لائق نہ تھا، اس لیے کہ کھانے کی یہ تمام انواع جن کا تم نے مطالبہ کیا ہے، تم جس کسی شہر میں بھی جاؤ گے وہاں تم کو مل جائیں گی۔ رہا وہ کھانا جس سے تمھیں اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا وہ تمام کھانوں سے افضل اور ان سے بہتر ہے۔ پھر تم کیسے ان کھانوں کے بدلے دوسرے
(ادنی) کھانوں کا مطالبہ کرتے ہو؟
چونکہ جو کچھ ان کی طرف سے واقع ہوا وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صبر ان میں بہت ہی قلیل تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی نعمتوں کو حقیر خیال کرتے تھے،
لہٰذا اللہ تعالی نے ان کو ایسا بدلہ دیا جو ان کے اعمال ہی کی جنس میں سے تھا۔ فرمایا: ﴿وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ﴾ ’’اور ان پر ذلت مسلط کر دی گئی‘‘ یعنی وہ ذلت جس کا ظاہری طور پر ان کے جسموں پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے
﴿وَالْمَسْکَنَۃُ﴾ یعنی مسکینی جو ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی۔ پس ان کی عزت نفس باقی رہی نہ بلند ہمتی بلکہ ان کے نفس ذلیل و خوار اور ان کی ہمتیں پست ترین ہو گئیں۔
﴿ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے‘‘ یعنی وہ غنیمت جسے لے کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے تھے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ لوٹے تھے۔ ان کی غنیمت کتنی بری غنیمت تھی اور ان کی حالت کتنی بری حالت تھی۔
﴿ ذٰلِكَ ﴾ وہ رویہ، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے
﴿ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰه﴾ ’’یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے‘‘ جو حق پر دلالت اور اس کو واضح کرتی تھیں چونکہ انھوں نے ان آیات کا انکار کر دیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان پر اپنا غضب مسلط کر دیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ
﴿ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ فعل کی برائی میں اضافہ کے اظہار کے لیے ہے ورنہ یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل انبیاء کسی بھی صورت میں حق نہیں ہوتا
(بنا بریں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے) کہ کہیں وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ لیں۔
﴿ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا ﴾ یعنی یہ مذکورہ سزا کی وجہ ان کا گناہوں کا ارتکاب تھا
﴿ وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کے مرتکب ہوا کرتے تھے کیونکہ گناہ اور معاصی ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ پس غفلت سے گناہ صغیرہ جنم لیتے ہیں ،پھر ان گناہوں سے گناہ کبیرہ جنم لیتے ہیں،
پھر کبیرہ گناہوں سے مختلف قسم کی بدعات اور کفر کے رویئے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ان آیات کریمہ میں خطاب بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ افعال جن کا ذکر اس خطاب میں کیا گیا ہے ان کا ارتکاب ان کے اسلاف نے کیا تھا۔ ان افعال کی نسبت نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی طرف متعدد وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ مثلاً:
(۱)یہودی اپنے آپ کو پاک سمجھتے تھے اور اپنی تعریف کیا کرتے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ محمد رسول اللہeاور اہل ایمان سے افضل ہیں۔ ان کے اسلاف کے ان احوال کے ذریعے سے جو ان کے ہاں بھی مسلمہ تھے اللہ تعالی نے ان سب پر واضح کر دیا کہ وہ صبر، مکارم اخلاق اور بلند پایہ اعمال کے مالک نہیں تھے۔ جب ان کے اسلاف کی حالت یہ تھی۔ اس گمان کے باوجود کہ ان کی حالت بعد میں آنے والوں سے بہتر ہو گی تو ان یہودیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتاہے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے۔
(۲)للہ تعالیٰ کی جو نعمت متقدمین کو عطا ہوتی ہے وہ متأخرین کو بھی پہنچتی ہے جو نعمت آباء و اجداد کو عطا ہوتی ہے وہ نعمت درحقیقت اولاد کو عطا ہوتی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت موجود یہودی بھی ان نعمتوں میں شامل تھے، اس لیے ان کو خطاب کیا گیا۔
(۳)دوسروں کے افعال کی وجہ سے ان کو مخاطب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کی امت ایک ایسے دین پر متفق تھی جس میں وہ ایک دوسرے کے ضامن اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ گویا کہ ان کے متقدمین اور متأخرین ایک ہی زمانے کے لوگ ہوں۔ ان میں سے کسی ایک سے کام کا ظاہر ہونا سب کی طرف سے ہے کیونکہ ان میں سے جو کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے تو اس بھلائی کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اور ان میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی سب کو اٹھانا پڑتا ہے۔
(۴)متقدمین کے اکثر افعال کا متأخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا اور معصیت پر رضامندی کا اظہار کرنے والا معصیت کے مرتکب کے گناہ میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حکمتیں بھی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین
(ان میں سے) جو بھی ایمان لایا اللہ اور یوم آخرت پر اور عمل کیا نیک، تو ان کے لیے اجر ہے ان کا، پاس ان کے، رب کےاور نہ کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے
(62)
#
{62} وهذا الحكم على أهل الكتاب خاصة، لأن الصابئين الصحيح: أنهم من جملة فرق النصارى، فأخبر الله أن المؤمنين من هذه الأمة واليهود والنصارى والصابئين من آمن بالله [منهم] واليوم الآخر وصدقوا رسلهم، فإن لهم الأجر العظيم، والأمن، ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون، وأما من كفر منهم بالله ورسله واليوم الآخر، فهو بضد هذه الحال؛ فعليه الخوف والحزن.
والصحيح: أن هذا الحكم بين هذه الطوائف من حيث هم لا بالنسبة إلى الإيمان بمحمد، فإن هذا إخبار عنهم قبل بعثة محمد، وإن هذا مضمون أحوالهم، وهذه طريقة القرآن إذا وقع في بعض النفوس ـ عند سياق الآيات ـ بعض الأوهام، فلا بد أن تجد ما يزيل ذلك الوهم؛ لأنه تنزيل من يعلم الأشياء قبل وجودها، ومن رحمته وسعت كل شيء، وذلك ـ والله أعلم ـ أنه لما ذكر بني إسرائيل وذمهم وذكر معاصيَهم وقبائحهم ربما وقع في بعض النفوس أنهم كلهم يشملهم الذم، فأراد الباري تعالى أن يبين من لا يلحقه الذم منهم بوصفه، ولما كان أيضاً ذكر بني إسرائيل خاصة يوهم الاختصاص بهم، ذكر تعالى حكماً عامًّا يشمل الطوائف كلها؛ ليتضح الحق ويزول التوهم والإشكال، فسبحان من أودع في كتابه ما يبهر عقول العالمين.
[62] پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لیے ہے کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان ، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لیے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہو گا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔
(مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابین یہ محاکمہ رسول اللہeپر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ یہ تو نبی اکرمeکی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس وہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے ..واللہ تعالیٰ أعلم.. چونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے اور بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں، اس لیے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کر دیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیں صرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کر دیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہو جائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کر دیتی ہیں۔
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (63) ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (64)}
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے اور بلند کیا ہم نے تم پر طور پہاڑ کو
(اور کہا) پکڑو تم اس کو جو دیا ہم نے تمھیں، قوت سے اور یاد رکھو تم جو کچھ اس میں ہے، شاید کہ تم متقی بن جاؤ
(63) پھر پھر گئے تم بعد اس کے، پس اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور رحمت اس کی، تو ضرور ہو جاتے تم خسارہ پانے والوں میں سے
(64)
#
{63} أي: واذكروا، {إذ أخذنا ميثاقكم}؛ وهو العهد الثقيل المؤكد بالتخويف لهم برفع الطور فوقهم وقيل لهم، {خذوا ما آتيناكم}؛ من التوراة {بقوة}؛ أي بجد واجتهاد، وصبر على أوامر الله {واذكروا ما فيه}؛ أي: ما في كتابكم بأن تتلوه وتتعلموه {لعلكم تتقون}؛ عذاب الله وسخطه، أو لتكونوا من أهل التقوى.
[63] اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اسلاف کے افعال کی وجہ سے ان پر زجر و توبیخ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرمایا:
﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ ﴾ یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا۔
(مِیثَاق) سے مراد ایسا پکا عہد ہے جو طور کو ان کے اوپر معلق کر کے ڈر اور دباؤ کے ذریعے سے موکد کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا
﴿خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ﴾ یعنی تورات کو پکڑے رہو
﴿ بِقُوَّةٍ ﴾ یعنی تورات کو محنت، کوشش اور اللہ تعالیٰ کے اوامر پر صبر و استقامت کے ساتھ پکڑے رہو۔
﴿ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ﴾ یعنی جو کچھ تمھاری کتاب میں ہے اسے سیکھو اور اس کی تلاوت کرو۔
﴿لَعَلَّـكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم اللہ تعالی کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچو ‘‘ یا ’’تاکہ تم اہل تقویٰ میں شمار ہو۔‘‘
#
{64} فبعد هذا التأكيد البليغ {توليتم}؛ وأعرضتم وكان ذلك موجباً لأن يحل بكم أعظم العقوبات ولكن {لولا فضل الله عليكم ورحمته لكنتم من الخاسرين}.
[64] پھر اس نہایت بلیغ تاکید کے بعد فرمایا:
﴿ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ ﴾ یعنی پھر تم نے اس سے اعراض کیا اور یہ روگردانی تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کے سخت ترین عذاب کا باعث بنی
﴿فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْ٘خٰؔسِرِیْنَ﴾ ’’لیکن اگر تم پر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً خسارے میں پڑ جاتے۔‘‘
{وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (65) فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (66)}.
اور البتہ تحقیق جان لیا تم نے ان لوگوں کو جنھوں نے زیادتی کی تم میں سے ہفتے
(کے دن) میں، تو کہا ہم نے ان سے ہو جاؤ تم بندر ذلیل
(65) پس کیا ہم نے اس
(واقعے) کو عبرت ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے
(موجود) تھے اور جو اس کے پیچھے
(آنے والے) تھےاور
(کیا) نصیحت متقی لوگوں کے لیے
(66)
#
{65} أي: ولقد تقرر عندكم حالةُ، {الذين اعتدوا منكم في السبت}؛ وهم الذين ذكر الله قصتهم مبسوطة في سورة الأعراف في قوله: {واسألهم عن القرية التي كانت حاضرة البحر إذ يعدون في السبت ... } الآيات؛ فأوجب لهم هذا الذنب العظيم أن غضب الله عليهم، وجعلهم {قردة خاسئين}؛ حقيرين ذليلين، وجعل الله هذه العقوبة:
[65] یعنی تمھارے نزدیک ان لوگوں کی حالت ثابت ہو گئی ہے
﴿الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ﴾ جنھوں نے تم میں سے ہفتے کے روز زیادتی سے کام لیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا مبسوط اور مفصل قصہ اللہ تعالی نے سورۂ اعراف میں بیان کیا ہے:
﴿وَسْـَٔؔلْهُمْ عَنِ الْ٘قَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُ٘رَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۰۰وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّؔنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْ مَا اِ۟ ١ۙ اللّٰهُ مُهْلِكُ٘هُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا شَدِیْدًؔا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۰۰فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ﴾ (الاعراف: 7؍163 -165)
’’اور آپ ان لوگوں سے، اس بستی والوں کا جو کہ دریائے
(شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھیے! جبکہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جبکہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہوہوکر ان کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ تمھارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب سے پکڑلیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔‘‘
اس گناہ عظیم نے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب واجب کر دیا۔
﴿ قِرَدَةً خٰسِـِٕیْنَ﴾ اور ان کو حقیر اور ذلیل بندر بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو ان قوموں کے لیے۔
#
{66} {نكالاً لما بين يديها}؛ أي: لمن حضرها من الأمم، وبلغه خبرها ممن هو في وقتهم {وما خلفها}؛ أي: من بعدها فتقوم على العباد حجة الله، وليرتدعوا عن معاصيه، ولكنها لا تكون موعظة نافعة إلا للمتقين، وأما من عداهم فلا ينتفعون بالآيات.
[66] ﴿ نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا﴾ عبرت بنا دیا جو اس وقت وہاں موجود تھیں اور اس زمانے کی وہ قومیں جن تک یہ خبر پہنچی
﴿ وَمَا خَلْفَهَا ﴾ اور ان قوموں کے لیے جو ان کے بعد آئیں، تاکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو اور وہ گناہوں سے باز آ جائیں مگر یہ نصیحت صرف اہل تقویٰ کے کام آتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (67) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ (68) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (69) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ (70) قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ (71) وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (72) فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِ اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (73) ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (74)}.
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے، بے شک اللہ حکم دیتا ہے تمھیں یہ کہ ذبح کرو تم ایک گائے، انھوں نے کہا، کیا بناتا ہے تو ہمیں ہنسی مذاق؟ موسیٰ نے کہا، پناہ میں آتا ہوں میں اللہ کی، اس بات سے کہ ہو جاؤں میں جاہلوں سے
(67) انھوں نے کہا، دعا کر تو ہمارے لیے اپنے رب سے، وہ بیان کرے ہمارے لیے کیسی ہے وہ گائے؟ کہا موسیٰ نے، بلاشبہ اللہ کہتا ہے کہ بے شک وہ ایک گائے ہے، نہ بوڑھی اور نہ بچی، اوسط عمر کی ہے درمیان اس کے، پس کرو وہ جو تم حکم دیے جاتے ہو
(68) انھوں نے کہا، دعا کر تو ہمارے لیے اپنے رب سے، بیان کرے وہ ہمارے لیے کیسا ہے رنگ اس کا؟ کہا موسیٰ نے، اللہ فرماتا ہے بلاشبہ وہ ایک گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو انھوں نے کہا، دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے، بیان کرے وہ ہمارے لیے، کس قسم کی ہے وہ گائے؟ بے شک وہ گائے مشتبہ ہوگئی ہے ہم پر
(69)اور یقیناً ہم، اگر چاہا اللہ نے، تو ضرور راہ پا لیں گے
(70) (موسیٰ نے) کہا، بے شک اللہ فرماتا ہے کہ بلاشبہ وہ ایک گائے ہے، نہیں ہے محنت کرنے والی کہ
(بذریعہ ہل) پھاڑتی ہو زمین کو اور نہیں سیراب کرتی کھیتی کو، بے عیب ہے، نہیں ہے کوئی داغ دھبہ اس میں، انھوں نے کہا، اب لایا ہے تو حق، پس ذبح کیا انھوں نے اس کو اور نہ قریب تھے وہ کہ
(ذبح) کرتے
(71) اور جب قتل کیا تم نے ایک نفس کو، پھر جھگڑا کیا تم نے اس کی بابت اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس کو جسے تھے تم چھپاتے
(72)پس کہا ہم نے، مارو تم اس مردے کو ایک ٹکڑا اس
(گائے) کا، اس طرح زندہ کرے گا اللہ مردوں کواور وہ دکھاتا ہے تمھیں نشانیاں اپنی
(قدرت کی) تاکہ تم سمجھو
(73) پھر سخت ہو گئے دل تمھارے بعد اس کے، پس ہیں وہ مانند پتھروں کے یا
(ان سے بھی) زیادہ سخت ،اور تحقیق کچھ پتھر البتہ وہ ہیں کہ پھوٹتی ہیں ان سے نہریں اور بلاشبہ کچھ ان میں سے البتہ وہ ہیں کہ پھٹ پڑتے ہیں، پس نکلتا ہے ان سے پانی ،اورتحقیق کچھ ان میں سے البتہ وہ ہیں کہ گر پڑتے ہیں اللہ کے ڈر سےاور نہیں اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(74)
#
{67} أي: واذكروا ما جرى لكم مع موسى حين قتلتم قتيلاً؛ فادّارَأْتم فيه، أي: تدافعتم واختلفتم في قاتله حتى تفاقم الأمر بينكم، وكاد ـ لولا تبيين الله لكم ـ يحدث بينكم شر كبير، فقال لكم موسى في تبيين القاتل: اذبحوا بقرة، وكان من الواجب المبادرة إلى امتثال أمره وعدم الاعتراض عليه، ولكنهم أبوا إلا الاعتراض فقالوا: {أتتخذنا هزواً}؛ فقال نبي الله: {أعوذ بالله أن أكون من الجاهلين}؛ فإن الجاهل هو الذي يتكلم بالكلام الذي لا فائدة فيه وهو الذي يستهزئ بالناس، وأما العاقل فيرى أن من أكبر العيوب المزرية بالدين والعقل استهزاءه بمن هو آدمي مثله. وإن كان قد فضل عليه فتفضيله يقتضي منه الشكر لربه والرحمة لعباده: فلما قال لهم موسى ذلك علموا أن ذلك صدق، فقالوا:
[67] ان واقعات کو یاد کرو جو تمھارے اور موسیٰuکے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا اور اس کے قاتل کے بارے میں آپس میں اختلاف کرنا اور قتل کو ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردیا حتیٰ کہ تم نے معاملے کو بہت بڑھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی توضیح نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تم ایک بڑے شر اور فساد میں مبتلا ہو جاتے۔ حضرت موسیٰuنے قاتل کو تلاش کرنے کے لیے تمھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تم پر فرض تھا کہ تم فوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرتے مگر ہوا یہ کہ تم نے حضرت موسیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے
﴿اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا﴾ ’’کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔‘‘ اللہ کے نبی نے فرمایا:
﴿ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ﴾ ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔‘‘ کیونکہ جاہل ہی ایسی بات کیا کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہی لوگوں کا تمسخر اڑایا کرتا ہے۔ عقلمند شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے جیسے کسی آدمی کا مذاق اڑانا عقل و دین کا سب سے بڑا عیب ہے۔ اگرچہ اسے اس آدمی پر فضیلت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ فضیلت تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔
جب حضرت موسیٰuنے ان سے یہ کہا تو انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ سچ ہے۔
#
{68} {ادع لنا ربك يبين لنا ما هي}؛ أي ما سنُّها {قال إنه يقول إنها بقرة لا فارض}؛ أي: كبيرة، {ولا بكر}؛ أي: صغيرة، {عوان بين ذلك فافعلوا ما تؤمرون}؛ واتركوا التشديد والتعنت.
[68] کہنے لگے
﴿ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ﴾ ’’اپنے رب سے دعا کر کہ وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے؟‘‘ یعنی اس گائے کی عمر وغیرہ کیا ہے
﴿ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ﴾ ’’موسیٰ نے کہا، اللہ کہتا ہے وہ ایسی گائے ہے جو بوڑھی نہ ہو‘‘
﴿فَارِضٌ﴾ یعنی بڑی
﴿ وَّلَا بِكْرٌ﴾ یعنی نہ ہی زیادہ چھوٹی
﴿ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ فَافْعَلُوْا مَا تُ٘ـؤْمَرُوْنَ﴾ ان مذکورہ دو عمروں کے درمیان متوسط عمر کی ہو۔ پس وہ کام کرو جس کا تمھیں حکم دیا جاتا ہے اور تشدد اور تکلف کو چھوڑ دو۔
#
{69} {قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما لونها قال إنه يقول إنها بقرة صفراء فاقع لونها}؛ أي: شديد، {تسر الناظرين}؛ من حسنها.
[69] ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ١ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا﴾ ’’انھوں نے کہا، اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ اس کا رنگ بیان کرے۔ موسیٰ نے کہا، اللہ کہتا ہے، وہ گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا‘‘ یعنی خالص زرد رنگ۔
﴿ تَ٘سُرُّ النّٰ٘ظِرِیْنَ﴾ یعنی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دیکھنے والوں کو بھلی لگے۔
#
{70} {قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي إن البقر تشابه علينا}؛ فلم نهتد إلى ما تريد، {وإنا إن شاء الله لمهتدون}.
[70] ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْ٘بَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا﴾ ’’انھوں نے کہا، اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے کیونکہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔‘‘ یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کونسی گائے چاہتے ہیں
﴿ وَاِنَّـاۤ٘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ﴾ ’’اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔‘‘
#
{71} {قال إنه يقول إنها بقرة لا ذلول}؛ أي: مذللة بالعمل {تثير الأرض}؛ بالحراثة {ولا تسقي الحرث}؛ أي: ليست بسانية، {مسلمة}؛ من العيوب أو من العمل {لا شية فيها}؛ أي: لا لون فيها غير لونها الموصوف المتقدم، {قالوا الآن جئت بالحق}؛ أي: بالبيان الواضح، وهذا من جهلهم، وإلا فقد جاءهم بالحق أول مرة، فلو أنهم اعترضوا أيَّ بقرة لحصل المقصود، ولكنهم شددوا بكثرة الأسئلة؛ فشدد الله عليهم، ولو لم يقولوا إن شاء الله لم يهتدوا أيضاً إليها، {فذبحوها}؛ أي: البقرة التي وصفت بتلك الصفات، {وما كادوا يفعلون}؛ بسبب التعنت الذي جرى منهم.
[71] ﴿قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ ﴾ ’’آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی نہ ہو۔‘‘ یعنی وہ
(کھیتی باڑی کے کاموں میں جت کر) کمزور اور مطیع نہ ہو
﴿ تُثِیْرُ الْاَرْضَ﴾ ’’جو تتی ہو وہ زمین کو‘‘ یعنی اس سے زمین میں ہل نہ چلایا جاتا ہو
﴿ وَ لَا تَ٘سْقِی الْحَرْثَ﴾ ’’نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو‘‘ یعنی نہ وہ رہٹ میں جتنے والی ہو۔
﴿ مُسَلَّمَةٌ﴾ ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اور اس سے کسی قسم کا کام نہ لیا جاتا ہو
﴿ لَّا شِیَةَ فِیْهَا﴾ ’’اس میں کوئی داغ نہ ہو‘‘ یعنی جس رنگ کا گزشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی دوسرے رنگ کا کوئی نشان نہ ہو۔
﴿ قَالُوا الْ٘ـٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ﴾ ’’انھوں نے کہا، اب لایا تو ٹھیک بات‘‘ یعنی اب تو نے گائے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ان کی جہالت تھی ورنہ حضرت موسیٰuنے ان کے سامنے پہلی ہی مرتبہ حق بیان کر دیا تھا۔ اگر وہ کوئی بھی گائے پیش کر دیتے تو مقصد حاصل ہو جاتا مگر انھوں نے کثرت سوال کے ذریعے سے تشدد اور تکلف کی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ نیز اگر انھوں نے ’’اِنْ شَاءَ اللہ‘‘ نہ کہا ہوتا تب بھی وہ مطلوبہ گائے تک نہ پہنچ سکتے۔
﴿ فَذَبَحُوْهَا﴾ یعنی انھوں نے اس گائے کو ذبح کر ہی ڈالا جس کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔
﴿ وَمَا كَادُوْا یَ٘فْعَلُوْنَ﴾ ان کے تشدد اور تکلف کی وجہ سے جس کا وہ اظہار کر رہے تھے، نظر نہیں آتا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں گے۔
#
{72 ـ 73} فلما ذبحوها قلنا لهم اضربوا القتيل ببعضها، أي: بعضو منها إما بعضو معين أو أي عضو منها فليس في تعيينه فائدة؛ فضربوه ببعضها؛ فأحياه الله، وأخرج ما كانوا يكتمون؛ فأخبر بقاتله، وكان في إحيائه ـ وهم يشاهدون ـ ما يدل على إحياء الله الموتى، لعلكم تعقلون؛ فتنزجرون عن ما يضركم.
[73-72] جب انھوں نے گائے ذبح کر ڈالی تو ہم نے ان سے کہا کہ گائے کا ایک عضو اس مقتول کو لگاؤ۔ اس سے مراد کوئی معین عضو ہے یا کوئی سا بھی عضو؟ اس کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ بس انھوں نے گائے کے کسی حصے کو مقتول کے ساتھ لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو ظاہر کر دیا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں باخبر کر دیا کہ قاتل کون ہے۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا اس مقتول کو دوبارہ زندہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے مردوں کو زندہ کرے گا۔
﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؔ﴾ شاید کہ تم عقل سے کام لو اور ان کاموں سے رک جاؤ جو تمھارے لیے نقصان دہ ہیں۔
#
{74} {ثم قست قلوبكم}؛ أي: اشتدت وغلظت فلم تؤثر فيها الموعظة {من بعد ذلك}؛ أي: من بعد ما أنعم الله عليكم بالنعم العظيمة وأراكم الآيات، ولم يكن ينبغي أن تقسو قلوبكم لأن ما شاهدتم مما يوجب رقة القلب وانقياده، ثم وصف قسوتها بأنها {كالحجارة} التي هي أشد قسوة من الحديد، لأن الحديد؛ والرصاص إذا أذيب في النار ذاب بخلاف الأحجار، وقوله: {أو أشد قسوة}؛ أي: أنها لا تقصر عن قساوة الأحجار، وليست «أو» بمعنى بل.
ثم ذكر فضيلة الأحجار على قلوبهم فقال: {وإن من الحجارة لما يتفجر منه الأنهار وإن منها لما يشقق فيخرج منه الماء وإن منها لما يهبط من خشية الله}، فبهذه الأمور فَضَلَتْ قلوبَكم. ثم توعدهم تعالى أشد الوعيد فقال: {وما الله بغافل عمَّا تعملون}، بل هو عالم بها حافظ لصغيرها وكبيرها، وسيجازيكم على ذلك أتم الجزاء وأوفاه.
واعلم أن كثيراً من المفسرين رحمهم الله قد أكثروا في حشو تفاسيرهم من قصص بني إسرائيل، ونزَّلوا عليها الآيات القرآنية، وجعلوها تفسيراً لكتاب الله، محتجين بقوله - صلى الله عليه وسلم -: «حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج».
والذي أرى أنه وإن جاز نقل أحاديثهم على وجه تكون مفردة غير مقرونة ولا منزلة على كتاب الله، فإنه لا يجوز جعلها تفسيراً لكتاب الله قطعاً إذا لم تصح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وذلك أن مرتبتها كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم» ، فإذا كانت مرتبتها أن تكون مشكوكاً فيها، وكان من المعلوم بالضرورة من دين الإسلام أن القرآن يجب الإيمان به والقطع بألفاظه ومعانيه، فلا يجوز أن تجعل تلك القصص المنقولة بالروايات المجهولة التي يغلب على الظن كذبها، أو كذب أكثرها معاني لكتاب الله مقطوعاً بها، ولا يستريب بهذا أحد، ولكن بسبب الغفلة عن هذا حصل ما حصل، والله الموفق.
[74] ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُ٘لُ٘وْبُكُمْ ﴾ یعنی پھر تمھارے دل بہت سخت ہو گئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی
﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ﴾ یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمھیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمھارے دلوں کا سخت ہو جانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دلوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ كَالْحِجَارَةِ﴾ یعنی وہ سختی میں
(پتھر کی مانند ہیں) جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا
﴿ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً﴾ ’’یا اس سے بھی زیادہ سخت‘‘ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں کی سختی سے کم نہیں۔ یہاں
(او) (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَاِنَّ مِنَ الْؔحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْ٘هٰرُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَ٘شَّ٘قَّ٘قُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ﴾ کیونکہ ’’بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمھارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا:
﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا٘ تَعْمَلُ٘وْنَ﴾ یعنی وہ تمھارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمھارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے وہ تمھارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمھیں تمھارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے مفسرین
(s) نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہeکے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں ’حَدِّثُوْا عَنْ بَنِی اِسْرَائِیْلَ وَلاَ حَرَجَ‘
(سنن أبی داود، العلم، باب الحديث عن بنی اسرائیل، حديث:3662)’’بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون
(قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جبکہ وہ رسول اللہeسے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہeکے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ’لَا تُصَدِّقُوْا اَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُم‘
(صحیح بخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا، حديث:4485) ’’تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔‘‘ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے۔ لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں۔ یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔
{أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (76) أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77) وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (78)}.
کیا پس تم
(اے مسلمانو!) طمع رکھتے ہو کہ وہ ایمان لے آئیں گے تمھارے لیے، حالانکہ تھا ایک فریق ان میں سے، وہ سنتے تھے کلام اللہ کا ، پھر وہ تحریف کر دیتے تھے اس میں بعد اس کے کہ وہ سمجھ لیتے تھے اس
(کلام) کو اور وہ جانتے تھے
(75) اور جب وہ ملتے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے تو کہتے ہیں، ایمان لائے ہیں ہم بھی اور جب علیحدہ ہوتا ہے بعض ان کا بعض کی طرف تو کہتے ہیں کیا تم بیان کرتے ہو ان سے، جو کھولا اللہ نے تم پر تاکہ وہ غالب آجائیں تم پر اس کے ساتھ نزدیک تمھارے رب کے؟ کیا نہیں تم سمجھتے؟
(76) کیا وہ نہیں جانتے کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں؟
(77) اور کچھ ان میں سے ان پڑھ ہیں نہیں جانتے وہ کتاب کو سوائے آرزوؤں کےاور نہیں ہیں وہ مگر صرف گمان کرتے
(78)
#
{75} هذا قطع لأطماع المؤمنين من إيمان أهل الكتاب؛ أي فلا تطمعوا في إيمانهم، وأخلاقهم لا تقتضي الطمع فيهم؛ فإنهم كانوا يحرفون كلام الله من بعد ما عقلوه وعلموه، فيضعون له معانيَ ما أرادها الله؛ ليوهموا الناس أنها من عند الله، وما هي من عند الله، فإذا كانت حالهم في كتابهم الذي يرونه شرفهم ودينهم يصدون به الناس عن سبيل الله، فكيف يرجى منهم إيمان لكم؟! فهذا من أبعد الأشياء.
[75] یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کر دیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لیے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لیے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکر یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔
#
{76} ثم ذكر حال منافقي أهل الكتاب، فقال: {وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا}، فأظهروا لهم الإيمان قولاً بألسنتهم ما ليس في قلوبهم، {وإذا خلا بعضهم إلى بعض}؛ فلم يكن عندهم أحد من غير أهل دينهم قال بعضهم لبعض: {أتحدثونهم بما فتح الله عليكم}؛ أي: أتظهرون لهم الإيمان وتخبرونهم أنكم مثلهم؟ فيكون ذلك حجة لهم عليكم، يقولون إنهم قد أقروا بأن ما نحن عليه حق وما هم عليه باطل، فيحتجون عليكم بذلك عند ربكم {أفلا تعقلون}؛ أي: أفلا يكون لكم عقل فتتركون ما هو حجة عليكم؟
[76] پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا﴾ ’’جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
﴿ وَاِذَا خَلَا بَعْضُهُؔمْ اِلٰى بَعْضٍ﴾ یعنی جب وہ خلوت میں ہوتے ہیں اور ان کے ہم مذہبوں کے سوا ان کے پاس کوئی اور نہیں ہوتا تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں:
﴿ اَتُحَدِّثُ٘وْنَهُمْ بِمَا فَ٘تَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’کیا تم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں۔‘‘ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو اور انھیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو؟ پس یہ چیز ان کے لیے تمھارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ
(یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انھوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمھارے خلاف دلیل دیں گے
﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’کیا پس تم سمجھتے نہیں؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمھارے خلاف حجت ہو گی۔
#
{77} هذا يقوله بعضهم لبعض: {أو لا يعلمون أن الله يعلم ما يسرون وما يعلنون}، فهم وإن أسروا ما يعتقدونه فيما بينهم، وزعموا أنهم بإسرارهم لا يتطرق عليهم حجة للمؤمنين؛ فإن هذا غلط منهم وجهل كبير؛ فإن الله يعلم سرهم وعلنهم؛ فيظهر لعباده ما هم عليه.
[77] ﴿ اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ’’کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ ہر چند کہ وہ اپنے ان عقائد کو چھپاتے ہیں جو ان کے مابین معروف ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے ان عقائد کو چھپایا ہوا ہے تاکہ یہ چیز اہل ایمان کے لیے ان کے خلاف دلیل نہ بنے تاہم وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں اور بہت بڑی جہالت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے۔ اس کے بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دے گا۔
#
{78} {ومنهم}؛ أي: من أهل الكتاب {أميون}؛ أي: عوام، وليسوا من أهل العلم {لا يعلمون الكتاب إلا أماني}؛ أي: ليس لهم حظ من كتاب الله إلا التلاوة فقط، وليس عندهم خبر بما عند الأولين الذين يعلمون حق المعرفة حالهم، وهؤلاء إنما معهم ظنون وتقاليد لأهل العلم منهم.
فذكر في هذه الآيات علماءهم وعوامهم ومنافقيهم ومن لم ينافق منهم، فالعلماء منهم متمسكون بما هم عليه من الضلال، والعوام مقلدون لهم، لا بصيرة عندهم؛ فلا مطمع لكم في الطائفتين.
[78] ﴿ وَمِنْهُمْ﴾ ’’اور کچھ ان میں سے‘‘ یعنی اہل کتاب میں سے
﴿ اُمِّیُّوْنَ﴾ ان پڑھ عوام بھی ہیں جو اہل علم میں شمار نہیں
﴿ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ﴾ سوائے تلاوت کے، اللہ کی کتاب میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کے پاس اس چیز کی خبر بھی نہیں جو پہلوں کے پاس تھی جن کے حالات یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے پاس محض ظن اور گمان اور اہل علم کی تقلید کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اہل کتاب کے علماء، عوام اور منافقین اور وہ جنھوں نے نفاق اختیار نہیں کیا، سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ان کے علماء اپنی گمراہی کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور عوام بصیرت سے محروم ہیں اور ان علماء کی تقلید کرتے ہیں۔ پس ان دونوں گروہوں کے بارے میں تمھیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
{فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79)}.
پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے ، پھر کہتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ لیں اس کے بدلے میں مول تھوڑا سا، پس ہلاکت ہے ان کے لیے بوجہ اس کے جو لکھا ان کے ہاتھوں نے،اور ہلاکت ہے ان کے لیے بہ سبب اس کے جو وہ کماتے ہیں
(79)
#
{79} توعد تعالى المحرفين للكتاب الذين يقولون لتحريفهم وما يكتبون {هذا من عند الله}، وهذا فيه إظهار الباطل وكتم الحق، وإنما فعلوا ذلك مع علمهم، {ليشتروا به ثمناً قليلاً}، والدنيا كلها من أولها إلى آخرها ثمن قليل، فجعلوا باطلهم شَرَكاً يصطادون به ما في أيدي الناس.
فظلموهم من وجهين: من جهة تلبيس دينهم عليهم، ومن جهة أخذ أموالهم بغير حق بل بأبطل الباطل، [وذلك] أعظم ممن يأخذها غصباً وسرقة ونحوهما، ولهذا توعدهم بهذين الأمرين، فقال: {فويل لهم مما كتبت أيديهم}؛ أي من التحريف والباطل {وويل لهم مما يكسبون}؛ من الأموال، والويل شدة العذاب والحسرة، وفي ضمنها الوعيد الشديد.
قال شيخ الإسلام لما ذكر هذه الآيات من قوله: أفتطمعون إلى يكسبون: «فإن الله ذم الذين يحرفون الكلم عن مواضعه، وهو متناول لمن حمل الكتاب والسنة على ما أصَّلَه من البدع الباطلة، وذم الذين لا يعلمون الكتاب إلا أماني وهو متناول لمن ترك تدبر القرآن ولم يعلم إلا مجرد تلاوة حروفه، ومتناول لمن كتب كتاباً بيده مخالفاً لكتاب الله لينال به دنيا وقال: إنه من عند الله، مثل أن يقول: هذا هو الشرع والدين، وهذا معنى الكتاب والسنة، وهذا [معقول] السلف والأئمة، وهذا هو أصول الدين الذي يجب اعتقاده على الأعيان أو الكفاية، ومتناول لمن كتم ما عنده من الكتاب والسنة، لئلا يَحْتَجَّ به مخالفه في الحق الذي يقوله، وهذه الأمور كثيرة جداً في أهل الأهواء جملة، كالرافضة [والجهمية ونحوهم من أهل الأهواء والكلام، وفي أهل الأهواء] وتفصيلاً مثل كثير من المنتسبين إلى الفقهاء ... » انتهى.
[79] اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر اور اپنی تحریف کے بارے میں کہتے ہیں:
﴿هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ﴾ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اظہار باطل اور کتمان حق ہے۔ اور انھوں نے علم رکھنے کے باوجود یہ کیا
﴿ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی قیمت حاصل کریں‘‘ اور تمام دنیا اول سے لے کر آخر تک کتاب اللہ کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہے۔ پس انھوں نے اپنے باطل کو ایک جال بنا رکھا ہے جس میں لوگوں کو پھانس کر ان کا مال ہتھیاتے ہیں۔ پس وہ لوگوں پر دو پہلوؤں سے ظلم کرتے ہیں۔
(۱) ایک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں پر ان کے دین کو چھپاتے ہیں۔
(۲) اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق بلکہ باطل ترین طریقے سے ہڑپ کرتے ہیں اور اس کی برائی چوری اور غصب کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ پس ان دو امور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ہے۔
﴿ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ﴾ ’’پس ہلاکت ہے ان کے لیے اس سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔‘‘ یعنی جو تحریف کی اور باطل تحریریں لکھیں۔
﴿ وَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّؔا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ یعنی وہ مال جو وہ باطل طریقے سے کماتے ہیں۔
(ویل) عذاب کی شدت اور حسرت کو کہا جاتا ہے اسی کے ضمن میں سخت وعید بھی آ جاتی ہے۔
شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے
﴿اَفَتَطْمَعُوْنَ﴾سے لے کر
﴿یَكْسِبُوْنَ﴾ تک آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کر کے ان کو اصل مفہوم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کتاب و سنت کو اپنی بدعات باطلہ پر محمول کرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی مذمت فرمائی ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے اپنی خواہشات اور آرزوؤں کے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تدبر قرآن کے سر نہاں کو ترک کر دیتے ہیں اور اس کے حروف کی مجرد تلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ وعید اس شخص کے لیے بھی ہے جو محض دنیا کمانے کے لیے کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ یہ شریعت اور دین ہے یہ کتاب و سنت کامعنی ہے یہ سلف امت اور ائمہ کرام کی تعبیرات ہیں اور یہ دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اعتقاد رکھنا فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے علم کو محض اس وجہ سے چھپاتے ہیں کہ کہیں ان کے مخالفین اس کو اپنے حق میں ان کے خلاف دلیل نہ بنا لیں۔ اہل اھواء و بدعات میں بالجملہ یہ امور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مثلاً روافض وغیرہ اور تفصیلاً یہ امور بہت سے ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ائمہ فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘
{وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (80) بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (81) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (82)}.
اور کہا انھوں نے، ہر گز نہیں چھوئے گی ہمیں آگ مگر چند دن گنتی کے، کہہ دیجیے! کیا لیا ہے تم نے اللہ سے کوئی عہد؟ پھر تو ہرگز نہیں خلاف کرے گا اللہ اپنے عہد کے یا کہتے ہو تم اللہ پر وہ بات جو تم نہیں جانتے؟
(80)کیوں نہیں! جس نے کمائی کوئی برائی اور گھیر لیا اس کو اس کی برائی نے، پس وہی لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(81) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، یہی لوگ ہیں جنتی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(82)
#
{80} ذكر أفعالهم القبيحة، ثم ذكر ـ مع هذا ـ أنهم يزكون أنفسهم، ويشهدون لها بالنجاة من عذاب الله والفوز بثوابه، وأنهم لن تمسهم النار إلا أياماً معدودة؛ أي قليلة تعد بالأصابع، فجمعوا بين الإساءة والأمن، ولما كان هذا مجرد دعوى رد تعالى عليهم؛ فقال: {قل}؛ لهم يا أيها الرسول، {أتخذتم عند الله عهداً}؛ أي: بالإيمان به وبرسله وبطاعته، فهذا الوعد الموجب لنجاة صاحبه الذي لا يتغير ولا يتبدل {أم تقولون على الله مالا تعلمون}؛ فأخبر تعالى أن صدق دعواهم متوقفة على أحد هذين الأمرين اللذين لا ثالث لهما.
إما أن يكونوا قد اتخذوا عند الله عهداً؛ فتكون دعواهم صحيحة.
وإما أن يكونوا متقولين عليه؛ فتكون كاذبة فيكون أبلغ لخزيهم وعذابهم، وقد عُلِم من حالهم أنهم لم يتخذوا عند الله عهداً لتكذيبهم كثيراً من الأنبياء حتى وصلت بهم الحال إلى أن قتلوا طائفة منهم، ولنكولهم عن طاعة الله ونقضهم المواثيق، فتعين بذلك أنهم متقولون مختلقون قائلون عليه ما لا يعلمون، والقول عليه بلا علم من أعظم المحرمات وأشنع القبيحات.
[80] اللہ تعالیٰ نے ان کے افعال بد کا ذکر کیا پھر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاک
(یعنی تزکیہ شدہ) قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات یافتہ اور اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے اور یہ کہ وہ جہنم میں اگر گئے بھی تو جہنم کی آگ انھیں چند دن کے سوا ہرگز نہیں چھوئے گی۔ یعنی بہت ہی کم دنوں کے لیے جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پس وہ بدی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا
﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسول ان سے کہہ دو!
﴿اَ٘تَّؔخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا﴾ یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و رسل پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت کر کے اللہ تعالیٰ سے عہد لے رکھا ہے۔ پس یہ وعدہ تو یقیناً صاحب وعدہ کی نجات کا موجب ہے جس میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔
﴿ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’یا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کا تمھیں علم ہی نہیں۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے دعوے کی صداقت ان دو امور میں سے ایک پر موقوف ہے۔ تیسری کوئی چیز نہیں۔
(۱)یا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے نجات کا کوئی عہد لیا ہو گا تب ان کا دعویٰ صحیح ہے۔
(۲)یا یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں۔ تب ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ بس یہ بہتان ان کی رسوائی اور عذاب کے لیے کافی ہے۔
ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد عطا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ انھوں نے بے شمار انبیاء کی تکذیب کی تھی حتیٰ کہ ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انبیاء کا ایک گروہ ان کے ہاتھوں قتل ہوا، نیز انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہدوں کو توڑا۔ پس اس سے اس بات کا تعین ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے اور اس کی بابت ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کو وہ خود نہیں جانتے اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی بات لگانا، سب سے بڑا حرام اور سب سے بڑی برائی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے ایک عام حکم بیان کیا ہے جس میں بنی اسرائیل اور دیگر تمام لوگ داخل ہیں وہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ ان کی آرزوئیں اور دعوے، جووہ ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کی بابت کرتے ہیں۔
#
{81} {من كسب سيئة}؛ وهو نكرة في سياق الشرط؛ فيعم الشرك فما دونه، والمراد به الشرك، هنا بدليل قوله: {وأحاطت به خطيئته}؛ أي: أحاطت بعاملها فلم تدع له منفذاً، وهذا لا يكون إلا الشرك، فإن من معه الإيمان لا تحيط به خطيئته، {فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}؛ وقد احتج بها الخوارج على كفر صاحب المعصية، وهي حجة عليهم كما ترى، فإنها ظاهرة في الشرك، وهكذا كل مُبْطِل يحتَجُّ بآية أو حديث صحيح على قوله الباطل؛ فلا بد أن يكون فيما احتج به حجة عليه.
[81] پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ بَلٰی ﴾ یعنی معاملہ یوں نہیں جس طرح تم نے بیان کیا ہے کیونکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ
﴿ مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً﴾ ’’جس نے کوئی برائی کمائی‘‘ یہاں
﴿سَیِّئَۃً﴾ برائی شرط کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوئی ہے لہٰذا اس کے عموم میں شرک اور اس سے کمتر تمام برائیاں داخل ہیں۔ لیکن یہاں اس سے مراد شرک ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے
﴿ وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓ٘ـــَٔتُهٗ ﴾ ’’یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کو اس کی برائی نے گھیر لیا‘‘ اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور یہ شرک کے علاوہ کوئی اور برائی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جو ایمان سے بہرہ ور ہے برائی اسے گھیر نہیں سکتی۔
﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’پس وہ آگ کے مستحق ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ اس آیت کریمہ سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے حالانکہ یہ تو ان کے خلاف دلیل ہے کیونکہ یہ تو ظاہری طور پر شرک کے بارے میں ہے۔ اس طرح ہر باطل پسند جو قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے اپنے باطل نظریئے پر استدلال کرتا ہے تو استدلال خود اس کے خلاف ایک قوی دلیل ہوتا ہے۔
#
{82} {والذين آمنوا}؛ بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر {وعملوا الصالحات}؛ ولا تكون الأعمال صالحة إلا بشرطين: أن تكون خالصة لوجه الله، متبعاً بها سنة رسوله.
فحاصل هاتين الآيتين أن أهل النجاة والفوز أهل الإيمان والعمل الصالح، والهالكون أهل النار المشركون بالله الكافرون به.
[82] ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔
﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾ اور اعمال صالحہ کیے اور اعمال مندرجہ ذیل دو شرائط کے بغیر اعمال صالحہ کے زمرے میں نہیں آتے۔
(۱) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں۔
(۲) رسول اللہeکی سنت کے مطابق ہوں۔
ان دو آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ نجات اور فوز و فلاح کے مستحق صرف نیک کام کرنے والے اہل ایمان ہیں اور ہلاک ہونے والے جہنمی، وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (83)}.
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ بنو اسرائیل سے کہ نہ عبادت کرو تم مگر اللہ کی، اور ماں باپ سے نیک سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے،اور کہو تم لوگوں سے
(بات) اچھی، اور قائم کرو تم نماز اور دو تم زکاۃ، پھر پھر گئے تم مگر تھوڑے تم میں سے،اور تم اعراض کرنے والے ہو
(83)
#
{83} فهذه الشرائع من أصول الدين التي أمر الله بها في كل شريعة لاشتمالها على المصالح العامة في كل زمان ومكان؛ فلا يدخلها نسخ، كأصل الدين، ولهذا أمرنا الله بها في قوله: {واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً}؛ إلى آخر الآية.
فقوله: {وإذ أخذنا ميثاق بني إسرائيل}؛ هذا من قسوتهم أن كل أمر أمروا به استعصوا، فلا يقبلونه إلا بالأيمان الغليظة والعهود الموَثَّقة {لا تعبدون إلا الله}؛ هذا أمر بعبادة الله وحده ونهي عن الشرك به، وهذا أصل الدين فلا تقبل الأعمال كلها إن لم يكن هذا أساسها، فهذا حق الله تعالى على عباده، ثم قال: {وبالوالدين إحساناً}؛ أي أحسنوا بالوالدين إحساناً، وهذا يعم كل إحسان قولي وفعلي مما هو إحسان إليهم، وفيه النهي عن الإساءة إلى الوالدين أو عدم الإحسان والإساءة؛ لأن الواجب الإحسان، والأمر بالشيء نهي عن ضده، وللإحسان ضدان: الإساءة وهي أعظم جرماً، وترك الإحسان بدون إساءة وهذا محرم لكن لا يجب أن يلحق بالأول.
وكذا يقال في صلة الأقارب واليتامى والمساكين، وتفاصيل الإحسان لا تنحصر بالعد بل تكون بالحد كما تقدم. ثم أمر بالإحسان إلى الناس عموماً فقال: {وقولوا للناس حسناً}؛ ومن القول الحسن أمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر وتعليمهم العلم وبذل السلام والبشاشة وغير ذلك من كل كلام طيب، ولما كان الإنسان لا يسع الناس بماله أُمر بأمر يقدر به على الإحسان إلى كل مخلوق وهو الإحسان بالقول، فيكون في ضمن ذلك النهي عن الكلام القبيح للناس حتى للكفار، ولهذا قال تعالى: {ولا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن}؛ ومن أدب الإنسان الذي أدب الله به عباده أن يكون الإنسان نزيهاً في أقواله وأفعاله، غير فاحش ولا بذيء ولا شاتم ولا مخاصم، بل يكون حسن الخلق واسع الحلم، مجاملاً لكلِّ أحد، صبوراً على ما يناله من أذى الخلق امتثالاً لأمر الله ورجاءً لثوابه.
ثم أمرهم بإقامة الصلاة وإيتاء الزكاة لما تقدم أن الصلاة متضمنة للإخلاص للمعبود، والزكاة متضمنة للإحسان إلى العبيد، ثم بعد هذا الأمر لكم بهذه الأوامر الحسنة التي إذا نظر إليها البصير العاقل، عرف أن من إحسان الله على عباده أن أمرهم بها وتفضل بها، عليهم وأخذ المواثيق عليكم {توليتم}؛ على وجه الإعراض؛ لأن المتولي قد يتولى وله نية رجوع إلى ما تولى عنه، وهؤلاء ليس لهم رغبة ولا رجوع في هذه الأوامر، فنعوذ بالله من الخذلان. وقوله: {إلا قليلاً منكم}؛ هذا استثناء؛ لئلا يوهم أنهم تولوا كلهم، فأخبر أن قليلاً منهم عصمهم الله وثبتهم.
[83] پس یہ احکام ان اصول دین میں سے ہیں، جن پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں دیا،
کیونکہ یہ احکام ہر زمان و مکان میں مصالح عامہ پر مشتمل ہیں۔ دین میں ان کی حیثیت بنیاد کی سی ہے جو منسوخ نہیں ہو سکتی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کا حکم اپنے اس فرمان میں دیا ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُ٘شْ٘رِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔـا ﴾ (النساء : 4؍36) ’’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔‘‘
﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’اس وقت کو یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔‘‘ یہ ان کی سنگدلی ہی تھی کہ جب بھی انھیں کسی بات کا حکم دیا جاتا تو وہ نافرمانی کرتے، اس لیے وہ پختہ قسموں اور مضبوط عہدوں کے بغیر کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
﴿ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ﴾ یہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد نہ ہو تو کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ پھر فرمایا:
﴿ وَبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا﴾ یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس میں ہر قسم کا حسن سلوک شامل ہے۔ اس زمرے میں قولی و فعلی اور ہر وہ رویہ شامل ہے جس پر حسن سلوک کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ برے سلوک یا عدم حسن سلوک کی ممانعت ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور کسی چیز کی فرضیت کے حکم سے لازم آتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہو۔ اور دو چیزیں حسن سلوک کے مخالف ہیں۔
(۱)برا سلوک کرنا، یہ سب سے بڑا جرم ہے۔
(۲) بغیر برائی کیے، حسن سلوک نہ کرنا۔ اگرچہ والدین کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھی حرام ہے مگر اس رویئے کو اول الذکر رویئے سے ملحق کرنا ضروری نہیں۔
رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ سلوک میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے حسن سلوک
(احسان) کی تفصیلات دائرہ شمار سے باہر ہیں البتہ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اس کی کچھ حدود ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے چنانچہ فرمایا:
﴿ وَقُ٘وْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ’’یعنی لوگوں سے اچھی بات کہنا۔‘‘ مندرجہ ذیل چیزیں ’’قول حسن‘‘
(یعنی اچھی بات) کے زمرے میں آتی ہیں۔
(۱)لوگوں کو نیکی کا حکم دینا۔
(۲) ان کو بری باتوں سے روکنا۔
(۳) ان کو علم سکھانا۔
(۴) ان میں سلام پھیلانا۔
(۵) خندہ پیشانی اور بشاشت کا اظہار کرنا۔
(۶) ان کے علاوہ دیگر اچھی باتیں۔
چونکہ ہر انسان اپنے مال کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے اسے ایک ایسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہے ’’قول حسن‘‘ اسی کے ضمن میں لوگوں کے ساتھ بری گفتگو کرنے کی ممانعت آ جاتی ہے،
حتی کہ کفار کے ساتھ بھی کلام قبیح کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ (العنکبوت: 29؍46) ’’اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔‘‘
انسانی آداب میں سے، جن کی تعلیم اللہ نے اپنے بندوں کو دی ہے، یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اقوال اور افعال میں پاکیزہ رہے، فحش گوئی اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرے، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن خلق، بے پایاں حلم، ہر ایک کے ساتھ اچھے سلوک اور مخلوق کی ایذا رسانی پرصبر کا مظاہرہ کرے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور ثواب کی امید میں کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جاچکا ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاص کو اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔
﴿ ثُمَّ﴾ ’’پھر‘‘ اللہ تعالیٰ کا تمھیں ان اچھے کاموں کا حکم دینے کے بعد، جن کو ایک دانش مند دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا بندوں پر ایک احسان ہے کہ اس نے ان باتوں کا انھیں حکم دیا اور اس طرح انھیں اپنے فضل و کرم سے نوازا، اور ان سے عہدومیثاق لیا۔
﴿ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی تم نے ان احکام سے روگردانی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لی، اس لیے کہ پیٹھ پھیر کر جانے والا کبھی کبھی واپس لوٹنے کی نیت سے بھی پیٹھ پھیر کر جاتا ہے، مگر یہ لوگ تو احکام الٰہی میں سرے سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے اور نہ ان کی طرف لوٹنے کا کوئی ارادہ ہی رکھتے ہیں۔ فَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخَذْلَانِ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْكُمْ﴾ ’’مگر تھوڑے لوگ تم میں سے‘‘ ایک استثناء ہے تاکہ اس وہم کا ازالہ ہو جائے کہ تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور ان کو استقامت اور ثابت قدمی عطا کی۔
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (84) ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (86)}.
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے کہ نہ بہاؤ تم خون اپنے
(آپس میں) اور نہ نکالو تم اپنے آپ کو اپنے گھروں سے، پھر اقرار کیا تم نے اور تم شاہد ہو
(84) پھر تم ہی وہ ہو کہ
(اس کے بعد بھی) قتل کرتے ہو اپنے آپ
(اپنوں) کو اور نکال دیتے ہو ایک فریق کو اپنے میں سے ان کے گھروں سے، مدد کرتے ہو تم ایک دوسرے کے خلاف ساتھ گناہ اور ظلم کے، اور اگر آئیں وہ تمھارے پاس قیدی ہو کر تو تم فدیہ دے کر چھڑاتے ہو انھیں، حالانکہ حرام کیا گیا تھا تم پر نکال دینا ان کا، کیا پس تم ایمان لاتے ہو ساتھ ایک حصۂ کتاب کے اور کفر کرتے ہو ساتھ دوسرے حصے کے؟ پس نہیں ہے سزا اس شخص کی جو کرے یہ کام تم میں سے، مگر رسوائی زندگانیٔ دنیا میں اور دن قیامت کے پھیرے جائیں گے وہ طرف سخت ترین عذاب کی اور نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(85) یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے خرید لی زندگی دنیا کی بدلے آخرت کے، پس نہ ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے
(86)
#
{84 ـ 85} وهذا الفعل المذكور في هذه الآية فعل للذين كانوا في زمن الوحي بالمدينة، وذلك أن الأوس والخزرج ـ وهم الأنصار ـ كانوا قبل مبعث النبي - صلى الله عليه وسلم - مشركين، وكانوا يقتتلون على عادة الجاهلية، فنزلت عليهم الفرق الثلاث من فرق اليهود: بنو قريظة، وبنو النضير، وبنو قينقاع، فكل فرقة منهم حالفت فرقة من أهل المدينة، فكانوا إذا اقتتلوا أعان اليهودي حليفه على مقاتليه الذين يُعِينونهم الفرقة الأخرى من اليهود، فيقتل اليهوديُ اليهوديَ، ويخرجه من دياره إذا حصل جلاء ونهب، ثم إذا وضعت الحرب أوزارها، وكان قد حصل أسارى بين الطائفتين فدى بعضهم بعضاً، والأمور الثلاثة كلها قد فرضت عليهم: ففرض عليهم أن لا يسفك بعضهم دم بعض، ولا يخرج بعضهم بعضاً، وإذا وجدوا أسيراً منهم وجب عليهم فداؤه، فعملوا بالأخير وتركوا الأولين، فأنكر الله عليهم ذلك فقال: {أفتؤمنون ببعض الكتاب}؛ وهو فداء الأسير {وتكفرون ببعض}؛ وهو القتل والإخراج، وفيها دليل على أن الإيمان يقتضي فعل الأوامر واجتناب النواهي، وأن المأمورات من الإيمان. قال تعالى: {فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا}؛ وقد وقع ذلك فأخزاهم الله، وسلط رسوله عليهم فقتل من قتل، وسبى من سبى منهم، وأجلى من أجلى، {ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب}؛ أي: أعظمه، {وما الله بغافل عما تعملون}؛ ثم أخبر تعالى عن السبب الذي أوجب لهم الكفر ببعض الكتاب والإيمان ببعضه، فقال:
[85-84] آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہeکی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آکر وہاں رہنا شروع کر دیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ
(دفاعی) معاہدہ کر لیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسااوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلاوطن کر دیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہو جاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔
یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے۔
(۱) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔
(۲) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔
(۳) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔
پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ ان کے اس رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَؔ۠ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ﴾ ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا
﴿ وَ تَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ ’’اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔
آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے،
نیز یہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔‘‘ اور اس رسوائی کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کر دیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلاوطن کر دیا گیا
﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ ’’اورقیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہو گا
﴿ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کر دیں۔
#
{86} {أولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالآخرة}؛ توهموا أنهم إن لم يعينوا حلفاءهم حصل لهم عار فاختاروا النار على العار، فلهذا قال: {فلا يخفف عنهم العذاب}؛ بل هو باقٍ على شدته، ولا يحصل لهم راحة بوقت من الأوقات {ولا هم ينصرون}؛ أي: يدفع عنهم مكروه.
[86] چنانچہ فرمایا:
﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا‘‘ یعنی انھیں وہم لاحق تھا کہ اگر انھوں نے اپنے حلیفوں کی مدد نہ کی تو یہ عار کی بات ہے پس انھوں نے عار کے بدلے میں آگ کو چن لیا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’پس ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا‘‘ یعنی عذاب کی شدت ہمیشہ رہے گی اور کسی وقت بھی انھیں راحت نصیب نہ ہو گی
﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ ’’اور نہ ان کی مدد کی جائے گی‘‘ یعنی ان سے عذاب کو نہیں ہٹایا جائے گا۔
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (87)}.
اور تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے در پے بھیجے ہم نے بعد اس کے رسول اور دیے ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح دلائل
(معجزات) اور قوت دی ہم نے اس کو ساتھ روح القدس
(جبریل) کے، کیا پس جب بھی آیا تمھارے پاس کوئی رسول ساتھ اس چیز کے جس کو نہ چاہتے تھے نفس تمھارے، تو تکبر کیا تم نے، پھر ایک فریق کو جھٹلایا تم نے اور ایک فریق کو قتل کرتے رہے تم
(87)
#
{87} يمتنُّ تعالى على بني إسرائيل أن أرسل إليهم كليمه موسى وآتاه التوراة، ثم تابع من بعده بالرسل الذين يحكمون بالتوراة، إلى أن ختم أنبياءهم بعيسى [بن مريم] عليه السلام وآتاه من الآيات البينات ما يؤمن على مثله البشر {وأيدناه بروح القدس}؛ أي: قواه الله بروح القدس، قال أكثر المفسرين إنه جبريل عليه السلام، وقيل إنه الإيمان الذي يؤيد الله به عباده، ثم مع هذه النعم التي لا يُقدَر قدرُها لمَّا أتوكم {بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم}؛ عن الإيمان بهم، {ففريقاً}؛ منهم، {كذبتم وفريقاً تقتلون}؛ فقدمتم الهوى على الهدى وآثرتم الدنيا على الآخرة، وفيها من التوبيخ والتشديد ما لا يخفى.
[87] ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ﴾ ’’اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی‘‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰuکو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰuکے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰuکو مبعوث فرمایا اور انھیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔
﴿ وَاَیَّؔدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ’’حضرت عیسیٰu کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔‘‘ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرئیلuہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔
پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدروعظمت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، جب وہ تمھارے پاس وہ کچھ لائے
﴿ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْـبَرْتُمْ﴾ ’’جن کو تمھارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے
(ایمان لانے کی بجائے،) تکبر کیا۔‘‘
﴿ فَفَرِیْقًا ﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو
﴿ كَذَّبْتُمْ١ٞ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ﴾ ’’تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کر دیا۔‘‘ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔
{وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ (88)}.
اور کہا انھوں نے ہمارے دل غلافوں میں ہیں
(نہیں)بلکہ لعنت کی ہے ان پر اللہ نے بوجہ ان کے کفر کے، پس کم لوگ ہی ایمان لاتے ہیں
(88)
#
{88} أي: اعتذروا عن الإيمان لما دعوتهم إليه يا أيها الرسول بأن قلوبهم غلف أي عليها غلاف وأغطية فلا تفقه ما تقول، يعني فيكون لهم ـ بزعمهم ـ عذر لعدم العلم، وهذا كذب منهم، فلهذا قال تعالى: {بل لعنهم الله بكفرهم}؛ أي: أنهم مطرودون ملعونون بسبب كفرهم؛ فقليلاً المؤمن منهم، أو قليلاً إيمانهم، وكفرهم هو الكثير.
[88] اے رسول
(e)جب آپ ان کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں تو یہ لوگ معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں، یعنی ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم تمھاری بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ گویا یہ ان کے گمان کے مطابق عدم علم کا عذر ہے اور یہ ان کا جھوٹ ہے،
بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُ٘فْرِهِمْ﴾ یعنی ’’وہ اپنے کفر کے سبب سے ملعون اور دھتکارے ہوئے ہیں‘‘ اس لیے ان میں سے بہت ہی قلیل لوگ ایمان لائیں گے۔ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا ایمان بہت ہی قلیل ہے اور ان کا کفر بہت زیادہ ہے۔
{وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (89) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (90)}.
اور جب آگئی ان کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس
(کتاب) کی جو ان کے پاس ہے اور تھے وہ پہلے اس سے فتح مانگتے خلاف ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، پھر جب آگیا ان کے پاس وہ
(حق) جس کو انھوں نے پہچان لیا تو کفر کیا انھوں نے ساتھ اس کے، سو لعنت ہے اللہ کی اوپر کافروں کے
(89) بری ہے وہ چیز کہ بیچا انھوں نے بدلے اس کے اپنے نفسوں کو، یہ کہ وہ کفر کرتے ہیں ساتھ اس چیز کے جو نازل کی اللہ نے، حسد کرتے ہوئے اس سے کہ نازل کرے اللہ فضل اپنا اوپر جس کے چاہے اپنے بندوں میں سے، پس پھرے وہ ساتھ غضب کے اوپر غضب کےاور کافروں کے لیے ہے عذاب رسوا کن
(90)
#
{89 ـ 90} أي: {ولما جاءهم [كتابٌ]} من عند الله على يد أفضل الخلق وخاتم الأنبياء، المشتمل على تصديق ما معهم من التوراة، وقد علموا به، وتيقنوه على أنهم إذا كان وقع بينهم وبين المشركين في الجاهلية حروب استنصروا بهذا النبي وتوعدوهم بخروجه، وأنهم يقاتلون المشركين معه، فلما جاءهم هذا الكتاب والنبي الذي عرفوا؛ كفروا به بغياً وحسداً أن ينزل الله من فضله على من يشاء من عباده، فلعنهم الله وغضب عليهم غضباً بعد غضب؛ لكثرة كفرهم وتوالي شكهم وشركهم، ولهم في الآخرة عذاب مهين أي مؤلم موجع، وهو صلْيُ الجحيم وفوت النعيم المقيم، فبئس الحال حالهم، وبئس ما استعاضوا واستبدلوا من الإيمان بالله وكتبه ورسله، الكفر به وبكتبه وبرسله مع علمهم وتيقنهم، فيكون أعظمَ لعذابهم.
[90-89] مطلب یہ ہے کہ جب افضل المخلوقات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیeکے ذریعے سے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب آ گئی جو ان تعلیمات کی تصدیق کرتی تھی جنھیں تورات نے پیش کیا، جس کا ان کو علم اور یقین تھا۔ علاوہ ازیں جاہلیت کے زمانے میں جب کبھی ان کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ہوتی تو یہ دعا کیا کرتے تھے
(اے اللہ) اس نبی کے ذریعے سے ہماری مدد فرما اور وہ مشرکین کو ڈرایا کرتے تھے کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ وہ اس نبی کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے۔ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور وہ نبی آ گیا جس کو انھوں نے پہچان لیا تو حسد اور سرکشی کی وجہ سے اس کو ماننے سے انکار کر دیا
(اور انھیں حسد اس بات پر تھا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل فرماتا ہے۔
(اللہ نے یہ شرف نبوت ان کی بجائے، کسی اور کو کیوں دے دیا؟) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی اور ان پر سخت غضب ناک ہوا، کیونکہ کفر میں وہ بہت بڑھ گئے تھے اور متواتر شک اور شرک میں مبتلا چلے آ رہے تھے۔
اور ان کافروں کے لیے آخرت میں
﴿ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ ’’رسوا کرنے والا عذاب ہو گا‘‘ اور وہ یہ کہ ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور دائمی نعمتوں سے وہ محروم ہوں گے۔ پس بہت برا ہے ان کا حال، بہت ہی برا ہے وہ معاوضہ جو انھوں نے اللہ تعالی، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے مقابلے میں حاصل کیا اور وہ یہ کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ، اس کی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتے تھے اور انھیں رسولوں کی صداقت کا بھی یقین تھا اسی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہو گا۔
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (91) وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (92) وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (93)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے ایمان لاؤ اس پر جو نازل کیا اللہ نے تو کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا ہم پر اور انکار کرتے ہیں وہ اس کے ماسوا کا، حالانکہ وہ
(قرآن) حق ہے، تصدیق کرنے والا اس
(کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، کہہ دیجیے! ، پھر کیوں قتل کرتے رہے تم اللہ کے نبیوں کو پہلے اس سے، اگر تھے تم مومن
(91)اور تحقیق آئے تمھارے پاس موسیٰ ساتھ واضح دلیلوں
(معجزات) کے، پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو
(معبود) بعد اس کے اور تم
(ہی) ہو ظالم
(92) اور
(یاد کرو) جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے اور بلند کیا ہم نے، تم پر طور
(پہاڑ اور کہا) پکڑو تم جو دیا ہم نے تمھیں ساتھ قوت کے اور سنو! کہا انھوں نے سنا ہم نے اور نافرمانی کی ہم نےاور پلا دیے گئے وہ اپنے دلوں میں
(محبت) بچھڑے کی بہ سبب ان کے کفر کے، کہہ دیجیے! بری ہے وہ چیز کہ حکم کرتا ہے تمھیں اس کا تمھارا ایمان اگر ہو تم مومن
(93)
#
{91} أي: وإذا أُمِر اليهود بالإيمان بما أنزل الله على رسوله وهو القرآن استكبروا وعتوا و {قالوا نؤمن بما أنزل علينا ويكفرون بما وراءه}؛ أي: بما سواه من الكتب، مع أن الواجب أن يؤمنوا بما أنزل الله مطلقاً سواء أنزل عليهم أو على غيرهم، وهذا هو الإيمان النافع، الإيمان بما أنزل الله على جميع رسل [الله]، وأما التفريق بين الرسل والكتب وزعم الإيمان ببعضها دون بعض فهذا ليس بإيمان بل هو الكفر بعينه، ولهذا قال تعالى: {إن الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن ببعض ونكفر ببعض ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا أولئك هم الكافرون حقًّا}؛ ولهذا رد عليهم تبارك وتعالى هنا ردًّا شافياً وألزمهم إلزاماً لا محيد لهم عنه فرد عليهم بكفرهم بالقرآن بأمرين فقال: {وهو الحق}؛ فإذا كان هو الحق في جميع ما اشتمل عليه من الإخبارات والأوامر والنواهي وهو من عند ربهم؛ فالكفر به بعد ذلك كفر بالله وكفر بالحق الذي أنزله.
ثم قال: {مصدقاً لما معهم}؛ أي: موافقاً له في كلِّ ما دل عليه من الحق ومهيمناً عليه، فَلِمَ تؤمنون بما أنزل عليكم وتكفرون بنظيره، هل هذا إلا تعصب واتباع للهوى لا للهدى؟ وأيضاً فإن كون القرآن مصدقاً لما معهم يقتضي أنه حجة لهم على صدق ما في أيديهم من الكتب، فلا سبيل لهم إلى إثباتها إلا به، فإذا كفروا به وجحدوه صاروا بمنزلة من ادعى دعوى بحجة وبينة ليس له غيرها، ولا تتم دعواه إلا بسلامة بينته، ثم يأتي هو لبينته وحجته فيقدح فيها ويكذب بها، أليس هذا من الحماقة والجنون؟ فكان كفرهم بالقرآن كفراً بما في أيديهم ونقضاً له. ثم نقض عليهم تعالى دعواهم الإيمان بما أنزل إليهم بقوله: {قل}؛ لهم {فَلِمَ تقتلون أنبياء الله من قبل إن كنتم مؤمنين}.
[91] جب یہود کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے،
یعنی قرآن کریم پر تو انھوں نے تکبر اور سرکشی سے کہا: ﴿نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ﴾ یعنی وہ
(تورات کے سوا) تمام کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر علی الاطلاق ایمان لائیں خواہ یہ کتابیں بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئی ہوں یا ان کے علاوہ کسی اور نبی پر۔ اور یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان جو تمام انبیائے کرامoپر نازل کی گئی ہیں۔
رہا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے درمیان تفریق کرنا اور اپنے زعم کے مطابق کسی پر ایمان لانا اور کسی کا انکار کر دینا،
تو یہ ایمان نہیں بلکہ عین کفر ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْ٘فُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْ٘فُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّؔتَّؔخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ۰۰اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ (النساء : 4؍150۔151) ’’وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے مابین
(یعنی ایمان اور کفر کے مابین) ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں بلاشبہ وہی کافر ہیں۔‘‘
اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کو شافی جواب دیا ہے اور ان کو ایک ایسی الزامی دلیل دی ہے جس سے ان کو کوئی مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار قرآن کا دو پہلوؤں سے رد کیا ہے۔
(الف) اس لیے فرمایا:
﴿ وَهُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’وہ
(قرآن) حق ہے‘‘ پس جب یہ قرآن اوامر و نواہی اور اخبار میں سراسر حق پر مشتمل ہے اور یہ حق ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ لہٰذا یہ معلوم ہو جانے کے بعد اس کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا اور اس حق کا انکار کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔
(ب) پھر فرمایا
﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ﴾ ’’ان کی موجودہ کتاب کی تصدیق کرتا ہے‘‘ یعنی یہ ہر اس چیز کے موافق اور اس کا محافظ ہے جس پر حق دلالت کرتا ہے۔
پس تم اس کتاب پر کیوں ایمان لاتے ہو جو تم پر نازل کی گئی جبکہ اس جیسی دوسری کتاب کا انکار کرتے ہو؟ اور کیا یہ تعصب نہیں؟ کیا یہ ہدایت کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی پیروی نہیں؟
نیز قرآن کا ان کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان پر نازل کی گئیں ہیں، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ قرآن ان کے لیے اس بات کی دلیل ہو کہ ان کے پاس جو کتابیں ہیں، وہ سچی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اپنی کتابوں کا اثبات بھی قرآن کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جب وہ قرآن کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی حالت اس مدعی کی سی ہو جاتی ہے جس کے پاس اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیل و حجت بھی ہے جو اثبات دعویٰ کی واحد دلیل ہے، اس دلیل کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہو سکتا، لیکن پھر وہ خود ہی اپنی دلیل میں جرح و قدح کرتا ہے اور اس کو جھٹلا دیتا ہے۔ کیا یہ پاگل پن اور حماقت نہیں؟
پس واضح ہوا کہ ان کا قرآن کا انکار کرنا درحقیقت ان کتابوں کا انکار ہے جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ﴾ یعنی ان سے
(کہہ دو) ﴿ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اگر تم ایماندار ہو تو پھر تم اس سے قبل اللہ کے انبیاء کو کیوں قتل کر دیتے رہے؟‘‘
#
{92} {ولقد جاءكم موسى بالبينات}؛ أي: بالأدلة الواضحات المبينة للحق {ثم اتخذتم العجل من بعده}؛ أي: بعد مجيئه {وأنتم ظالمون}؛ في ذلك ليس لكم عذر.
[92] ﴿وَلَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰؔى بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ یعنی تمھارے پاس موسیٰ حق کو بیان کرنے والے واضح دلائل لے کر آئے۔
﴿ ثُمَّؔ اتَّؔخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ﴾ یعنی ’’تم نے موسیٰ کے آنے کے بعد بھی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ‘‘
﴿ وَاَنْتُمْ ظٰ٘لِمُوْنَ﴾ ’’اور تم اس بارے میں سخت ظالم تھے‘‘ اور تمھارے پاس کوئی عذر نہیں۔
#
{93} {وإذ أخذنا ميثاقكم ورفعنا فوقكم الطورخذوا ما آتيناكم بقوة واسمعوا}؛ أي: سماع قبول وطاعة واستجابة، {قالوا سمعنا وعصينا}؛ أي: صارت هذه حالتهم {وأشربوا في قلوبهم العجل}؛ أي: صُبِغ حب العجل وحب عبادته في قلوبهم وشربها بسبب كفرهم {قل بئسما يأمركم به إيمانكم إن كنتم مؤمنين}؛ أي: أنتم تدعون الإيمان وتتمدحون بالدين الحق وأنتم قتلتم أنبياء الله واتخذتم العجل إلهاً من دون الله لمَّا غاب عنكم موسى نبي الله، ولم تقبلوا أوامره ونواهيه إلا بعد التهديد وَرَفْعِ الطور فوقكم، فالتزمتم بالقول ونقضتم بالفعل، فما هذا الإيمان الذي ادعيتم؟ وما هذا الدين؟ فإن كان هذا إيماناً على زعمكم، فبئس الإيمان الداعي صاحبه إلى الطغيان والكفر برسل الله وكثرة العصيان، وقد عُهِد أن الإيمان الصحيح يأمر صاحبه بكل خير وينهاه عن كل شرٍّ، فوضح بهذا كذبهم وتبين تناقضهم.
[93] ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰؔكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاسْمَعُوْا﴾ ’’اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو بلند کیا
(کھڑا کیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوطی سے تھامو اور سنو‘‘ یعنی اس کو قبول کرنے، اس کی اطاعت کرنے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے سنو
﴿ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا﴾ یعنی ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔‘‘
﴿ وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُ٘لُ٘وْبِهِمُ الْعِجْلَ ﴾ یعنی ان کے دل بچھڑے اور اس کی عبادت کی محبت کے رنگ میں رنگ گئے اور ان کے کفر کے سبب سے ان کے دلوں میں گویا بچھڑے کی محبت رچ بس گئی۔
﴿ قُلْ بِئْسَمَا یَاْ٘مُرُؔكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’انھیں کہہ دیجیے کہ تمھارا ایمان تمھیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم مومن ہو‘‘ یعنی تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اور دین حق کے نام نہاد پیرو ہونے پر اپنی تعریف چاہتے ہو۔ اور تمھاری حالت یہ ہے کہ تم نے اللہ کے نبیوں کوقتل کیا، جب حضرت موسیٰuکوہ طور پر گئے، تو تم نے اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تم نے اللہ تعالیٰ کی شریعت
(یعنی اوامر و نواہی) کو اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک کہ تمھیں دھمکی نہ دی گئی اور کوہ طور کو اٹھا کر تم پر معلق نہ کر دیا گیا۔ پھر بھی تم نے زبانی طور پر تو اسے قبول کر لیا مگر بالفعل اس کی مخالفت کی۔ یہ کیسا ایمان ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو اور یہ کیسا دین ہے؟
تمھارے زعم کے مطابق اگر یہی ایمان ہے تو بہت برا ایمان ہے جو تمھیں سرکشی، رسولوں کے انکار اور کثرت عصیان کی دعوت دیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ صحیح اور حقیقی ایمان صاحب ایمان کو ہر بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لہٰذا اس سے ان کا جھوٹ واضح اور ان کا تضاد عیاں ہو جاتا ہے۔
{قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (94) وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)}.
کہہ دیجیے! اگر ہے تمھارے ہی لیے گھر آخرت کا اللہ کے ہاں، خاص طور پر، سوائے اور لوگوں کے، تو تمنا کرو تم موت کی، اگر ہو تم سچے
(94) اور ہر گز نہیں تمنا کریں گے وہ اس
(موت) کی کبھی بھی، بہ سبب اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نےاور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو
(95) اور البتہ آپ ضرور پائیں گے ان
(یہودیوں) کو زیادہ حریص سب لوگوں سے زندگی پر اور ان سے بھی جنھوں نے شرک کیا، چاہتا ہے
(ہر) ایک ان کا، کاش کہ عمر دیا جائے وہ ہزار سال، حالانکہ نہیں ہے وہ
(کوئی ایک) بچانے والا اس کو عذاب سے، یہ کہ
(اس قدر لمبی) عمر دیا جائے وہ، اور اللہ دیکھنے والا ہے اس کو جو وہ عمل کرتے ہیں
(96)
#
{94} أي: {قل}؛ لهم على وجه تصحيح دعواهم، {إن كانت لكم الدار الآخرة}؛ يعني الجنة، {خالصة من دون الناس}؛ كما زعمتم أنه لن يدخل الجنة إلا من كان هوداً أو نصارى، وأن النار لن تمسهم إلا أياماً معدودة فإن كنتم صادقين بهذه الدعوى، {فتمنوا الموت}؛ وهذا نوع مباهلة بينهم وبين رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وليس بعد هذا الإلجاء والمضايقة لهم بعد العناد منهم إلا أحد أمرين: إما أن يؤمنوا بالله ورسوله، وإما أن يباهلوا على ما هم عليه بأمر يسير عليهم وهو تمني الموت الذي يوصلهم إلى الدار التي هي خالصة لهم، فامتنعوا عن ذلك؛ فعلم كل أحد أنهم في غاية المعاندة والمحادّة لله ورسوله مع علمهم بذلك، ولهذا قال تعالى:
[94] ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی ان کے دعویٰ کی تصحیح کی خاطر کہہ دیجیے
﴿ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ﴾ ’’کہ اگر آخرت کا گھر
(جنت) صرف تمھارے ہی لیے ہے‘‘
﴿خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ﴾ دوسرے لوگ اس میں نہیں جائیں گے۔ جیسا کہ تمھارا گمان ہے کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو یہودی اور نصرانی ہیں، نیز تمھیں ہرگز آگ نہیں چھوئے گی سوائے چند روز کے، اس لیے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو
﴿ فَتَمَنَّوُا الْ٘مَوْتَ﴾ ’’تو موت کی تمنا کر دیکھو۔‘‘ یہ ان کے اور رسول اللہeکے درمیان مباہلہ کی ایک قسم ہے۔ ان کے دلائل کا توڑ، انھیں لاجواب کر دینے اور ان کے عناد کے بعد ان کے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں۔
(۱) یا تو وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔
(۲) یا وہ اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی بات پر مباہلہ کر لیں اور وہ ہے موت کی تمنا ، جو انھیں اس جنت میں پہنچا دے گی جو خالص انھی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ مگر انھوں نے اس مباہلے کو قبول نہ کیا۔
پس ان سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور عناد میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔
#
{95} {ولن يتمنوه أبداً بما قدمت أيديهم}؛ من الكفر والمعاصي؛ لأنهم يعلمون أنه طريق لهم إلى المجازاة بأعمالهم الخبيثة، فالموت أكره شيء إليهم، وهم أحرص على الحياة من كل أحد من الناس حتى من المشركين الذين لا يؤمنون بأحد من الرسل والكتب. ثم ذكر شدة محبتهم الدنيا فقال:
[95] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَ٘نْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ﴾ یعنی کفر اور معاصی کے اعمال کے باعث وہ موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ ان کے گندے اعمال کی جزا کا راستہ ہے۔
پس موت ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے اور وہ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر زندگی کے حریص ہیں حتیٰ کہ ان مشرکین سے بھی زیادہ جو رسولوں، کتابوں اور کسی چیز پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔
#
{96} {يود أحدهم لو يعمر ألف سنة}؛ وهذا: أبلغ ما يكون من الحرص تمنوا حالة هي من المحالات، والحال أنهم لو عُمِّروا العمر المذكور لم يغن عنهم شيئاً، ولا دفع عنهم من العذاب شيئاً، {والله بصير بما يعملون}؛ تهديد لهم على المجازاة بأعمالهم.
[96] پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ساتھ ان کی شدید محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ﴾ ’’ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے‘‘ زندگی کی حرص کے لیے یہ بلیغ ترین پیرایہ ہے، انھوں نے ایک ایسی حالت کی آرزو کی ہے جو قطعاً محال ہے اور حال یہ ہے کہ اگر ان کو یہ مذکورہ عمر عطا کر بھی دی جائے تب بھی یہ عمر ان کے کسی کام نہیں آ سکتی اور نہ ان سے عذاب کو دور کر سکتی ہے
﴿ وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے‘‘ یہ ان کے لیے تہدید ہے کہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔
{قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (97) مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ (98)}.
کہہ دیجیے! جو کوئی ہے دشمن جبریل کا، تو اسی نے نازل کیا اس
(قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے، تصدیق کرنے والا اس
(کتاب) کی جو اس سے پہلے ہے اور ہدایت اور بشارت ہے مومنوں کے لیے
(97) جو کوئی ہے دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبریل و میکائیل کا، تو بلاشبہ اللہ دشمن ہے کافروں کا
(98)
#
{97 ـ 98} أي: قل لهؤلاء اليهود الذين زعموا أن الذي منعهم من الإيمان أن وليك جبريل عليه السلام ولو كان غيره من ملائكة الله لآمنوا بك وصدقوا: إن هذا الزعم منكم تناقض وتهافت وتكبر على الله، فإن جبريل عليه السلام هو الذي نزل بالقرآن من عند الله على قلبك، وهو الذي ينزل على الأنبياء قبلك، والله هو الذي أمره وأرسله بذلك، فهو رسول محض، مع أن هذا الكتاب الذي نزل به جبريل مصدقاً لما تقدمه من الكتب غير مخالف لها ولا مناقض، وفيه الهداية التامة من أنواع الضلالات، والبشارة بالخير الدنيوي والأخروي لمن آمن به، فالعداوة لجبريل الموصوف بذلك كفر بالله وآياته وعداوة لله ولرسله وملائكته، فإن عداوتهم لجبريل لا لذاته، بل لما ينزل به من عند الله من الحق على رسل الله، فيتضمن الكفر والعداوة للذي أنزله وأرسله والذي أرسل به والذي أرسل إليه، فهذا وجه ذلك.
[98-97] یعنی ان یہود سے کہہ دیجیے جن کا گمان ہے کہ ان کو آپ پر ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا ہے کہ حضرت جبرئیلuآپ کے دوست اور مددگار ہیں، اگر جبریلuکے علاوہ کوئی اور فرشتہ ہوتا تو وہ آپ پر ایمان لے آتے اور آپ کی تصدیق کرتے۔ تمھارا یہ گمان درحقیقت تمھارا تناقض، تمھاری ضد اور اللہ تعالیٰ کے سامنے تمھارا تکبر ہے۔ کیونکہ جبریل ہی وہ فرشتہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے قلب پر قرآن اتارا اور جبریل ہی آپ سے پہلے دیگر انبیاء کرام پر نازل ہوتا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے جبریل کو حکم دیا اور اسے وحی کے ساتھ بھیجا۔ وہ تو محض ایک پیامبر ہے۔
بایں ہمہ جبریلuاس کتاب کو لے کر نازل ہوئے جو کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کتاب کتب سابقہ کی مخالف ہے نہ ان کی مناقض۔ اس میں مختلف قسم کی گمراہیوں سے مکمل ہدایت کا روشن راستہ ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیاوی اور اخروی بھلائی کی بشارت ہے۔
پس ان صفات سے موصوف جبریلuسے عداوت رکھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کرنا اور اللہ تعالی، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں کے ساتھ عداوت کا اظہار ہے کیونکہ جبریلuکے ساتھ ان کی عداوت جبریل کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی عداوت محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر نازل ہوتا رہا ہے۔ پس ان کا کفر اور عداوت درحقیقت اس ہستی کے ساتھ ہے جس نے اسے بھیجا اور نازل کیا اور اس وحی کے ساتھ ہے جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے اور اس رسول کے ساتھ ہے جس کی طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے۔ ان کی عداوت کی بس یہی وجہ ہے۔
{وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ (99)}.
اور تحقیق نازل کیں ہم نے آپ کی طرف آیتیں واضح اور نہیں کفر کرتے ان کے ساتھ مگر نافرمانی کرنے والے ہی
(99)
#
{99} يقول لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: {ولقد أنزلنا إليك آيات بينات}؛ تحصل بها الهداية لمن استهدى وإقامة الحجة على من عاند، وهي في الوضوح والدلالة على الحق قد بلغت مبلغاً عظيماً، ووصلت إلى حالة لا يمتنع من قبولها إلا من فسق عن أمر الله وخرج عن طاعة الله، واستكبر غاية التكبر.
[99] اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمدeسے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:
﴿ وَلَقَدْ اَ٘نْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰؔتٍ﴾ ’’اور ہم نے آپ کی طرف روشن آیات نازل کیں‘‘ ان سے اس کو ہدایت حاصل ہوتی ہے جو ہدایت کا طلب گار ہو۔ اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے جو عناد کا مظاہرہ کرے۔ یہ آیات حق پر اپنی دلالت اور وضاحت کے اعتبار سے ایک ایسے بلند مقام اور ایسی حالت پر پہنچی ہوئی ہیں کہ کوئی ان کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتا سوائے اس شخص کے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل گیا اور اس نے انتہائی درجے کے تکبر سے کام لیا۔
{أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (100)}.
کیا
(انھوں نے کفر کیا) اور جب بھی عہد کیا انھوں نے کوئی عہد تو پھینک دیا اس کو ایک فریق نے ان میں سےبلکہ اکثر ان میں سے نہیں ایمان لاتے
(100)
#
{100} وهذا فيه التعجب من كثرة معاهداتهم وعدم صبرهم على الوفاء بها فكلما تفيد التكرار، فكلما وجد العهد ترتب عليه النقض، ما السبب في ذلك؟ السبب أن أكثرهم لا يؤمنون، فعدم إيمانهم هو الذي أوجب لهم نقض العهود، ولو صدق إيمانهم لكانوا مثل من قال الله فيهم: {من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه}.
[100] یہ ان کے کثرت معاہدات اور پھر ان معاہدات کے ایفاء پر ان کے عدم صبر پر اظہار تعجب ہے۔ فرمایا:
﴿ كُلَّمَا﴾ ’’جب بھی‘‘
(كُلَّمَا) تکرار کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ عہد کرتے ہیں تو وفا نہیں کرتے۔ اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا ایمان نہ لانا ہی وہ سبب ہے جو ان کے نقض عہد کا موجب ہے۔ اگر ان کے ایمان میں کوئی صداقت ہوتی تو ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہوتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ﴾ (الاحزاب: 33؍23) ’’اور اہل ایمان میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو عہد انھوں نے اللہ سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا۔‘‘
{وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101) وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102) [وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (103)]}.
اور جب آیا ان کے پاس کوئی رسول اللہ کے پاس سے، تصدیق کرنے والا اس
(کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، تو پھینک دیا ایک فریق نے ان لوگوں میں سے جو دیے گئے تھے کتاب، اللہ کی کتاب کو، پیچھے اپنی پیٹھوں کے، گویا وہ نہیں جانتے
(101) اور اتباع کیا انھوں نے اس کا جو پڑھتے تھے شیطان، سلیمان کی بادشاہی میں، اور نہیں کفر کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا، وہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو اور
(پیروی کی) اس کی جو نازل کیا گیا اوپر دو فرشتوں کے، بابل میں، ھاروت اور ماروت
(پر) اور نہیں سکھلاتے تھے وہ
(فرشتے) کسی کو یہاں تک کہ کہتے وہ
(پہلے) ہم تو صرف آزمائش ہیں، سو نہ کفر کر تو، پس سیکھتے تھے لوگ ان سے وہ
(جادو) کہ جدائی ڈالتے تھے وہ اس کے ذریعے سے درمیان مرد اور اس کی بیوی کے، اور نہیں تھے وہ نقصان پہنچانے والے ساتھ اس
(جادو) کے کسی کو بھی، مگر ساتھ حکم اللہ کے۔ اور سیکھتے تھے لوگ وہ
(علم) جو نقصان پہنچاتا تھا ان کو اور نہیں نفع دیتا تھا انھیں۔ اور تحقیق جان لیا انھوں نے، البتہ جس نے خریدا اس
(جادو) کو نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ اور البتہ بُری ہے وہ چیز کہ بیچا انھوں نے بدلے اس کے اپنی جانوں کو، کاش کہ ہوتے وہ جانتے
(102) اور اگر بے شک وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ، البتہ ثواب
(ملتا) اللہ کے ہاں سے بہت بہتر، کاش کہ ہوتے وہ جانتے
(103)
#
{101} أي: ولما جاءهم هذا الرسول الكريم بالكتاب العظيم بالحق الموافق لما معهم وكانوا يزعمون أنهم متمسكون بكتابهم، فلما كفروا بهذا الرسول وبما جاء به {نبذ فريق من الذين أوتوا الكتاب كتاب الله}؛ الذي أنزل إليهم أي طرحوه رغبة عنه {وراء ظهورهم}؛ وهذا أبلغ في الإعراض كأنهم في فعلهم هذا من الجاهلين وهم يعلمون صدقه وحقيقة ما جاء به، تبين بهذا أن هذا الفريق من أهل الكتاب لم يبق في أيديهم شيء حيث لم يؤمنوا بهذا الرسول، فصار كفرهم به كفراً بكتابهم من حيث لا يشعرون.
ولما كان من العوائد القدرية والحكمة الإلهية أن من ترك ما ينفعه وأمكنه الانتفاع به ولم ينتفع؛ ابتلي بالاشتغال بما يضره، فمن ترك عبادة الرحمن؛ ابتليَ بعبادة الأوثان، ومن ترك محبة الله وخوفه ورجاءه؛ ابتليَ بمحبة غير الله وخوفه ورجائه، ومن لم ينفق ماله في طاعة الله أنفقه في طاعة الشيطان، ومن ترك الذلَّ لربه؛ ابتليَ بالذل للعبيد، ومن ترك الحق؛ ابتليَ بالباطل.
[101] یعنی جب ان کے پاس رسول کریم
(e)اس حق کے ساتھ یہ عظیم کتاب لے کر آئے جو ان کے پاس موجود کتاب کے موافق تھی اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ تو انھوں نے اس رسول اور اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا جس کو یہ رسول لے کر آئے۔
﴿ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ ﴾ ’’اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پھینک دیا‘‘ یعنی وہ کتاب جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی اس کو بے رغبتی کے ساتھ دور پھینک دیا
﴿ وَرَآءَ ظُ٘هُوْرِهِمْ ﴾ ’’اپنی پیٹھوں کے پیچھے‘‘ روگردانی اور اعراض کے لیے یہ بلیغ ترین محاورہ ہے گویا وہ اپنے اس فعل کے ارتکاب میں سخت جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رسول کی صداقت اور جو کچھ وہ لایا ہے اس کی حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں جبکہ یہ اس رسول پر ایمان نہیں لائے۔ ان کا اس رسول کو نہ ماننا اپنی کتاب کا انکار کرنا ہے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔
حکمت الٰہی اور عادت قدسی یہ ہے کہ جو کوئی اس چیز کو ترک کرتا ہے جو اسے فائدہ دیتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے ممکن ہو لیکن وہ فائدہ نہ اٹھائے تو اسے ایسے کام میں مشغول کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑتا ہے، اسے بتوں کی عبادت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف اور اس پرامید کو ترک کرتا ہے وہ غیر اللہ کی محبت، اس سے خوف اور اس سے امید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ نہیں کرتا، اسے شیطان کی فرماں برداری میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے رب کے سامنے ذلت اور فروتنی کا اظہار نہیں کرتا اسے بندوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور جو کوئی حق کو چھوڑ دیتا ہے اسے باطل میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
#
{102 ـ 103} كذلك: هؤلاء اليهود لما نبذوا كتاب الله اتبعوا ما تتلوا الشياطين، وتختلق من السحر على ملك سليمان حيث أخرجت الشياطين للناس السحر، وزعموا أن سليمان عليه السلام كان يستعمله وبه حصل له الملك العظيم، وهم كذبة في ذلك فلم يستعمله سليمان بل نزهه الصادق في قيله: {وما كفر سليمان}؛ أي: بتعلم السحر فلم يتعلمه، {ولكن الشياطين كفروا}؛ في ذلك {يعلمون الناس السحر}؛ من إضلالهم وحرصهم على إغواء بني آدم وكذلك اتبع اليهود السحر الذي أُنْزِلَ على الملكين الكائنين بأرض بابل من أرض العراق، أنزل عليهما السحر امتحاناً وابتلاءً من الله لعباده فيعلمانهم السحر، {وما يعلمان من أحد حتى}؛ ينصحاه و {يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر}؛ أي: لا تتعلم السحر؛ فإنه كفر، فينهيانه عن السحر ويخبرانه عن مرتبته، فتعليم الشياطين للسحر على وجه التدليس والإضلال، ونسبته وترويجه إلى من برأه الله منه وهو سليمان عليه السلام، وتعليم الملكين امتحاناً مع نصحمها لئلا يكون لهم حجة، فهؤلاء اليهود يتبعون السحر الذي تعلمه الشياطين والسحر الذي يعلمه الملكان، فتركوا علم الأنبياء والمرسلين وأقبلوا على علم الشياطين، وكلٌّ يصبو إلى ما يناسبه.
ثم ذكر مفاسد السحر فقال: {فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه}؛ مع أن محبة الزوجين لا تقاس بمحبة غيرهما، لأن الله قال في حقهما: {وجعل بينكم مودة ورحمة}؛ وفي هذا دليل على أن السحر له حقيقة، وأنه يضر بإذن الله؛ أي: بإرادة الله، والإذن نوعان: إذن قدري: وهو المتعلق بمشيئة الله كما في هذه الآية، وإذن شرعي كما في قوله تعالى في الآية السابقة: {فإنه نزله على قلبك بإذن الله}؛ وفي هذه الآية وما أشبهها أن الأسباب مهما بلغت في قوة التأثير فإنها تابعة للقضاء والقدر ليست مستقلة في التأثير، ولم يخالف في هذا الأصل أحد من فرق الأمة غير القدرية في أفعال العباد زعموا: أنها مستقلة غير تابعة للمشيئة، فأخرجوها عن قدرة الله، فخالفوا كتاب الله وسنة رسوله وإجماع الصحابة والتابعين.
ثم ذكر أن علم السحر مضرة محضة، ليس فيه منفعة لا دينية ولا دنيوية، كما يوجد بعض المنافع الدنيوية في بعض المعاصي كما قال تعالى في الخمر والميسر: {قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس وإثمهما أكبر من نفعهما}؛ فهذا السحر مضرة محضة فليس له داعٍ أصلاً، فالمنهيات كلها إما مضرة محضة أو شرها أكبر من خيرها، كما أن المأمورات إما مصلحة محضة أو خيرها أكثر من شرها.
{ولقد علموا}؛ أي: اليهود، {لمن اشتراه}؛ أي: رغب في السحر رغبة المشتري في السلعة، {ما له في الآخرة من خلاق}؛ أي: نصيب بل هو موجب للعقوبة، فلم يكن فعلهم إياه جهلاً ولكنهم استحبوا الحياة الدنيا على الآخرة فلبئس {ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون}؛ علماً يثمر العمل ما فعلوه.
[103-102] اسی طرح ان یہودیوں نے جب اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تو اس جادو کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین نے حضرت سلیمانuکی حکومت کے زمانے میں ایجاد کیا۔ جہاں شیاطین نے لوگوں کو سکھانے کے لیے جادو گھڑا اور لوگ سمجھے کہ حضرت سلیمانuجادو کا استعمال کرتے ہیں اور جادو ہی کے زور پر انھیں اتنی بڑی سلطنت حاصل ہوئی ہے۔ اس بارے میں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت سلیمانuنے کبھی جادو نہیں کیا۔ بلکہ اللہ سچے نے اپنے اس فرمان میں حضرت سلیمان کو اس کام سے منزہ قرار دیا۔ فرمایا:
﴿ وَمَا كَفَرَ سُلَ٘یْمٰنُ﴾ یعنی
(حضرت سلیمان) نے
(جادو سیکھ کر) کفر کا ارتکاب نہیں کیا، انھوں نے ہرگز جادو نہیں سیکھا
﴿ وَلٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا﴾ یعنی
(جادو سیکھ کر )شیاطین نے کفر کا ارتکاب کیا۔
﴿ یُ٘عَلِّ٘مُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾ یعنی بنی آدم کو گمراہ کرنے اور ان کو اغوا کرنے کی حرص کی وجہ سے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اسی طرح یہودیوں نے اس جادو کی بھی پیروی کی جو سرزمین عراق کے شہر بابل میں دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے ان فرشتوں پر جادو نازل کیا گیا تھا اور یہ فرشتے آزمائش ہی کے لیے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
﴿ وَمَا یُعَلِّ٘مٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى﴾ ’’اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ‘‘ وہ ان کی خیر خواہی کرتے اور
﴿ یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْ٘فُ٘رْ﴾ ’’کہتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں، سو تم کفر مت کرو‘‘ یعنی جادو نہ سیکھو کیونکہ جادو کفر ہے۔ پس دونوں فرشتے لوگوں کو جادو سیکھنے سے روکتے تھے اور انھیں جادو کی حیثیت سے آگاہ کر دیتے تھے۔ پس شیاطین کا جادو سکھانا تو محض تدلیس اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تھا، نیز اس جادو کو ترویج دینے اور اسے اس معصوم ہستی یعنی حضرت سلیمانuکی طرف منسوب کرنے کے لیے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بری قرار دیا ہے اور فرشتوں کا جادو سکھانا لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے تھا۔ وہ خیر خواہی سے لوگوں کو آگاہ کر دیتے تھے تاکہ ان کے لیے حجت نہ بنے۔ پس یہ یہودی اس جادو کے پیچھے لگے،
جسے شیاطین نے سیکھا تھا اور جو وہ دو فرشتے سکھایا کرتے تھے۔ تو انھوں نے انبیاء و مرسلین کے علوم کو چھوڑ دیا اور شیاطین کے علم کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ہر شخص اسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جو اس کے مناسب حال ہوتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُ٘وْنَ بِهٖ بَیْنَ الْ٘مَرْءِ وَزَوْجِهٖ﴾ ’’پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘ اس کے باوجود کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کو کسی اور کی محبت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم : 30؍21) ’’اور تمھارے درمیان مودت اور رحمدلی پیدا کر دی۔‘‘ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے نیز یہ کہ جادو اللہ تعالیٰ کے ’’اذن‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نقصان دیتا ہے۔ اذن کی دو اقسام ہیں۔
(الف) اذن قدری ۔ جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
(ب) اذن شرعی ۔ جیسا کہ سابقہ آیت کریمہ
﴿فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (البقرہ : 2؍97) میں مذکور ہے ’’اس نے تو یہ کتاب اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتاری۔‘‘
اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسباب کی قوت تاثیر خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہر حال میں قضا و قدر کے تابع ہوتے ہیں، ان کی مستقل تاثیر نہیں ہوتی۔ افعال العباد کے بارے میں امت کے فرقوں میں کوئی بھی اس اصول کی مخالفت نہیں کرتا سوائے قدریہ کے۔ قدریہ سمجھتے ہیں کہ اسباب کی تاثیر مستقل ہوتی ہے اور وہ مشیت الٰہی کے تابع نہیں ہوتے۔ چنانچہ انھوں نے بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج کر دیا اور اس طرح وہ کتاب اللہ ، سنت رسول اور صحابہ و تابعین کے اجماع کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جادو میں نقصان ہی نقصان ہے،
اس میں کوئی دینی یا دنیاوی منفعت نہیں ہوتی جس طرح بعض گناہوں میں دنیاوی منفعت ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا: ﴿قُ٘لْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ١ٞ وَاِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا﴾ (البقرہ : 2؍219) ’’کہہ دو شراب اور جوئے میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ اس کا گناہ ان کے فائدے کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔‘‘ پس یہ جادو تو ضرر محض ہے اور اصل میں اس کا کوئی داعیہ نہیں۔ تمام منہیات یا تو ضرر محض کی حامل ہیں یا ان میں شر کا پہلو خیر کے پہلو سے زیادہ ہے۔ جیسے تمام مامورات صرف مصلحت پر مبنی ہیں یا ان میں خیر کا پہلو شر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
﴿ وَلَقَدْ عَلِمُوْا﴾ یعنی یہود نے جان لیا ہے
﴿ لَ٘مَنِ اشْتَرٰىهُ﴾ ’’جس نے اسے خریدا‘‘ یعنی انھوں نے جادو کے علم میں اس طرح رغبت کی جیسے تاجر مال تجارت کے خریدنے میں رغبت رکھتا ہے
﴿ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ یعنی ’’آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں‘‘ بلکہ یہ جادو آخرت میں عذاب کا موجب ہو گا۔ پس ان کا جادو پر عمل کرنا جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے
﴿وَلَ٘بِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَؔ﴾ ’’وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے‘‘ یعنی اپنے فعل کے بارے میں ایسا علم رکھنا جو عمل کا باعث ہو۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (104) مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (105)}
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ کہو تم ’’رَاعِنَا‘‘ اور کہو تم ’’اُنْظُرْنا‘‘ اور
(غور سے) سنو تم، اور کافروں کے لیے ہے عذاب بہت دردناک
(104) نہیں چاہتے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور نہ مشرکین، یہ کہ نازل کی جائے تم پر
(اے مسلمانو!) کوئی خیر تمھارے رب کی طرف سے اور اللہ خاص کرتا ہے ساتھ اپنی رحمت کے جس کو چاہتاہے اور اللہ مالک ہے فضل عظیم کا
(105)
#
{104} كان المسلمون يقولون حين خطابهم للرسول عند تعلمهم أمر الدين: {راعنا}؛ أي: راع أحوالنا فيقصدون بها معنى صحيحاً، وكان اليهود يريدون بها معنى فاسداً، فانتهزوا الفرصة فصاروا يخاطبون الرسول بذلك ويقصدون المعنى الفاسد، فنهى الله المؤمنين عن هذه الكلمة سَدًّا لهذا الباب، ففيه النهي عن الجائز إذا كان وسيلة إلى محرم، وفيه الأدب واستعمال الألفاظ التي لا تحتمل إلا الحسن وعدم الفحش وترك الألفاظ القبيحة أو التي فيها نوع تشويش واحتمال لأمر غير لائق، فأمرهم بلفظة لا تحتمل إلا الحسن فقال: {وقولوا انظرنا}؛ فإنها كافية يحصل بها المقصود من غير محذور، {واسمعوا}؛ لم يذكر المسموع ليعم ما أمر باستماعه فيدخل فيه سماع القرآن وسماع السنة التي هي الحكمة لفظاً ومعنى واستجابة ففيه الأدب والطاعة، ثم توعد الكافرين بالعذاب المؤلم الموجع.
[104] مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہeسے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے
﴿ رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجیے، ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہeکو خطاب کرتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرمeکو خطاب کرنے سے روک دیا، تاکہ
(گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہو جائے۔
اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں،
جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا: ﴿ وَقُ٘وْلُوا انْ٘ظُ٘رْنَا ﴾ ’’اور اُنْظُرْنَا کہو‘‘ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے، اس سے اصل مقصد حاصل ہو جاتا ہے
﴿ وَاسْمَعُوْا﴾ ’’اور سنو‘‘ یہاں مَسْمُوعٌ کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔
#
{105} وأخبر عن عداوة اليهود والمشركين للمؤمنين أنهم ما يودون، {أن ينزل عليكم من خير}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيرًا، {من ربكم}؛ حسدًا منهم وبغضاً لكم أن يختصكم بفضله فإنه، {ذو الفضل العظيم} ومن فضله عليكم؛ إنزال الكتاب على رسولكم ليزكيكم ويعلمكم الكتاب والحكمة ويعلمكم ما لم تكونوا تعلمون، فله الحمد والمنة.
[105] پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور یہود اور مشرکین کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ
﴿ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾ ’’تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔‘‘ یعنی کم یا زیادہ
﴿ مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے‘‘ ان کی یہ خواہش تمھارے ساتھ بغض اور اس بات پر حسد کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے فضل کے ساتھ مختص کیوں کیا
﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْ٘فَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ ’’بے شک اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ یہ اس کا فضل ہی ہے کہ اس نے تمھارے رسول پر کتاب نازل کی تاکہ وہ تمھیں پاک کرے، تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور تمھیں وہ کچھ سکھائے جو تم نہیں جانتے۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔
{مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (106) أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (107)}.
جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلوا دیتے ہیں اسے تو لے آتے ہیں ہم بہتر اس سے یا اس کی مثل ہی، کیا نہیں جانا آپ نے کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے؟
(106) کیا نہیں جانا آپ نے کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی؟ اور نہیں ہے تمھارے لیے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار
(107)
#
{106} النسخ هو النقل، فحقيقة النسخ نقل المكلفين من حكم مشروع إلى حكم آخر أو إلى إسقاطه، وكان اليهود ينكرون النسخ ويزعمون أنه لا يجوز، وهو مذكور عندهم في التوراة، فإنكارهم له كفر وهوى محض، فأخبر الله تعالى عن حكمته في النسخ، وأنه ما ينسخ {من آية أو ننسها}؛ أي: ننسها العباد فنزيلها من قلوبهم، {نأت بخير منها}؛ وأنفع لكم، {أو مثلها}؛ فدل على أن النسخ لا يكون لأقل مصلحة لكم من الأول لأن فضله تعالى يزداد خصوصاً على هذه الأمة التي سهل عليها دينها غاية التسهيل، وأخبر أن من قدح في النسخ [فقد] قدح في ملكه وقدرته فقال: {ألم تعلم أن الله على كل شيء قدير}.
[106] (نَسْخ) کے لغوی معنی نقل کرنا ہیں۔ نسخ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ مکلفین کو کسی ایک شرعی حکم سے کسی دوسرے شرعی حکم کی طرف منتقل کرنا یا اس شرعی حکم کو یکسر ساقط قرار دے دینا۔ یہودی نسخ کا انکار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نسخ جائز نہیں، حالانکہ نسخ ان کے ہاں تورات میں بھی موجود ہے، ان کا نسخ کو نہ ماننا کفر اور محض خواہش نفس کی پیروی ہے،
پس اللہ تعالیٰ نے نسخ میں پنہاں اپنی حکمت سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا نَ٘نْ٘سَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا﴾ ’’جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا اس کو بھلاتے ہیں‘‘ یعنی اپنے بندوں سے فراموش کرا دیتے ہیں اور اس آیت کو ان کے دلوں سے زائل کر دیتے ہیں
﴿نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ ﴾ ’’تو لاتے ہیں اس سے بہتر‘‘ یعنی ایسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں جو تمھارے لیے زیادہ نفع مند ہوتی ہے
﴿ اَوْ مِثْلِهَا﴾ ’’یا اس جیسی کوئی اور آیت۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمھارے لیے نسخ
(یعنی آیت ناسخہ) کی مصلحت پہلی آیت
(یعنی آیت منسوخہ) کی مصلحت سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل، خاص طور پر اس امت پر بہت زیادہ ہے جس پر اس کے دین کو اللہ نے بے حد آسان بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو کوئی نسخ میں جرح و قدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت میں عیب نکالتا ہے۔
#
{107} {ألم تعلم أن الله له ملك السموات والأرض}؛ فإذا كان مالكاً لكم متصرفاً فيكم تصرف المالك البر الرحيم في أقداره وأوامره ونواهيه، فكما أنه لا حجر عليه في تقدير ما يقدره على عباده من أنواع التقادير، كذلك لا يعترض عليه فيما يشرعه لعباده من الأحكام، فالعبد مدبر مسخر تحت أوامر ربه الدينية والقدرية فما له والاعتراض، وهو أيضاً ولي عباده ونصيرهم، فيتولاهم في تحصيل منافعهم، وينصرهم في دفع مضارهم، فمن ولايته لهم، أن يشرع لهم من الأحكام ما تقتضيه حكمته ورحمته بهم.
ومن تأمل ما وقع في القرآن والسنة من النسخ، عرف بذلك حكمة الله، ورحمته عباده، وإيصالهم إلى مصالحهم من حيث لا يشعرون بلطفه.
[107] فرمایا:
﴿ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۰۰اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے‘‘ جب اللہ تعالیٰ تمھارا مالک ہے وہ تمھارے اندر اسی طرح تصرف کرتا ہے جیسے نیکوکار، مہربان آقا اپنی اقدار میں، اپنے احکام میں اور اپنے نواہی میں تصرف کرتا ہے۔ پس جیسے اس پر اپنے بندوں کی بابت تقدیری فیصلے کرنے پر پابندی نہیں ہے اسی طرح اللہ پر ان احکام کے بارے میں بھی اعتراض صحیح نہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیے ہیں۔ پس بندہ اپنے رب کے امر دینی اور امر تکوینی کا پابند ہے، اسے اعتراض کا کیا حق ہے؟۔
نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ولی
(کارساز) اور ان کا مددگار ہے۔ پس وہ ان کے لیے منفعت کے حصول میں ان کا والی اور سرپرست ہے۔ اور ضرر کو ان سے دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ولایت
(کارسازی) کا حصہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ایسے احکام مشروع کیے، جن کا تقاضا اس کی حکمت اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کرتی ہے۔
جو کوئی اس نسخ میں غور کرتا ہے جو قرآن و سنت میں واقع ہوا ہے تو اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہے اور اس کے بندوں پر رحمت ہے اور اپنے لطف و کرم سے انھیں ان کے مصالح تک ایسے طریقے سے پہنچانا ہے کہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔
{أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (108) وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (109) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (110)}.
کیا چاہتے ہو تم
(اے مسلمانو!) کہ سوال کرو تم اپنے رسول سے، جیسے سوال کیے گئے موسیٰ پہلے اس سے؟ اور جو کوئی تبادلہ کرتا ہے کفر کا ایمان کے عوض، تو تحقیق بھٹک گیا وہ سیدھی راہ سے
(108) چاہتے ہیں بہت سے اہل کتاب میں سے، کاش کہ وہ پھیر دیں
(بنا دیں) تمھیں بعد تمھارے ایمان کے، کافر حسد کرتے ہوئے اپنے دلوں سے، بعد اس کے کہ واضح ہو گیا ان کے لیے حق، پس معاف کرو اور درگزر کرو، یہاں تک کہ لے آئے اللہ حکم اپنا، بلاشبہ اللہ ہر چیزپر خوب قادر ہے
(109) اور تم قائم کرو نماز اور دو زکاۃاور جو کچھ آگے بھیجو گے تم اپنے نفسوں کے لیے کوئی بھلائی تو پاؤ گے تم اس کو اللہ کے ہاں، بے شک اللہ جو تم عمل کرتے ہو، دیکھنے والا ہے
(110)
#
{108} ينهى الله المؤمنين أو اليهود بأن يسألوا رسولهم، {كما سئل موسى من قبل}؛ والمراد بذلك أسئلة التعنت والاعتراض، كما قال تعالى: {يسألك أهل الكتاب أن تنزل عليهم كتاباً من السماء فقد سألوا موسى أكبر من ذلك فقالوا أرنا الله جهرة}؛ وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم}؛ فهذه ونحوها هي المنهي عنها.
وأما سؤال الاسترشاد والتعلم فهذا محمود قد أمر الله به كما قال تعالى: {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون}؛ ويقرهم عليه كما في قوله: {يسألونك عن الخمر والميسر}؛ و {يسألونك عن اليتامى}؛ ونحو ذلك. ولما كانت المسائل المنهي عنها مذمومة قد تصل بصاحبها إلى الكفر قال: {ومن يتبدل الكفر بالإيمان فقد ضل سواء السبيل}.
[108] اللہ تعالیٰ اہل ایمان یا یہود کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے اس طرح سوال کریں
﴿ كَمَا سُىِٕلَ مُوْسٰؔى مِنْ قَبْلُ﴾ ’’جس طرح اس سے پہلے حضرت موسیٰuسے سوال کیا گیا۔‘‘ اس سے مراد وہ سوالات ہیں جو بال کی کھال اتارنے اور اعتراض کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یَسْـَٔؔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً﴾ (النساء : 4؍153) ’’اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب اتار لا۔ یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بات کا مطالبہ کر چکے ہیں،
کہتے تھے کہ ہمیں اللہ ان ظاہری آنکھوں سے دکھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْیَآءَؔ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ : 5؍101) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں گی۔‘‘ لہٰذا اس قسم کے
(مذموم) سوالات سے منع کیا گیا ہے۔
رہا رشد و ہدایت اور تحصیل علم کے لیے سوال کرنا تو یہ محمود ہے،
اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے سوالات کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل : 16؍43) ’’اگر تم نہیں جانتے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو اہل کتاب ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سوالات کو برقرار رکھا ہے۔ فرمایا:
﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘خَمْرِ وَالْ٘مَیْسِرِ﴾ (البقرہ : 2؍219) ’’وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘‘ نیز فرمایا:
﴿وَیَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘یَتٰمٰى ﴾ (البقرہ : 2؍220) ’’وہ تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات۔
چونکہ ممنوعہ سوالات مذموم ہوتے ہیں اس لیے بعض دفعہ سوال پوچھنے والے کو کفر کی حدود میں داخل کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْ٘كُ٘فْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ﴾ ’’جس نے ایمان کے بدلے کفر لے لیا پس اس نے سیدھا راستہ گم کر دیا۔‘‘
#
{109} ثم أخبر عن حسد كثير من أهل الكتاب وأنهم بلغت بهم الحال أنهم ودوا {لو يردونكم من بعد إيمانكم كفاراً}؛ وسعوا في ذلك، وعملوا المكايد، وكيدهم راجع عليهم كما قال تعالى: {وقالت طائفة من أهل الكتاب آمنوا بالذي أنزل على الذين آمنوا وجه النهار واكفروا آخره لعلهم يرجعون}؛ وهذا من حسدهم الصادر من عند أنفسهم، فأمرهم الله بمقابلة من أساء إليهم [غاية الإساءة] بالعفو عنهم والصفح حتى يأتي الله بأمره، ثم بعد ذلك أتى الله بأمره إياهم بالجهاد، فشفى الله أنفس المؤمنين منهم، فقتلوا من قتلوا واسترقوا من استرقوا، وأجلوا من أجلوا، {إن الله على كل شيء قدير}.
[109] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں
﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا﴾ ’’کہ کاش تمھیں تمھارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔‘‘ اس کے لیے انھوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے،
مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انھی پر پڑ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَقَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْ٘فُ٘رُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (آل عمران 3؍72) ’’اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آ جائیں۔‘‘ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی۔ چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کےمستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کر دیا۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
#
{110} ثم أمرهم الله بالاشتغال بالوقت الحاضر بإقامة الصلاة وإيتاء الزكاة وفعل كل القربات، ووعدهم أنهم مهما فعلوا من خير فإنه لا يضيع عند الله بل يجدونه عنده وافراً موفراً قد حفظه {إن الله بما تعملون بصير}.
[110] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فی الحال اقامت نماز، ادائے زکاۃ اور تقرب الٰہی کے کاموں میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ نیکی کا جو بھی کام کریں گے اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی ضائع نہیں ہو گا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت زیادہ پائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا ہے۔‘‘
{وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (111) بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (112)}.
اور کہا انھوں نے، ہرگز نہیں داخل ہوں گے جنت میں مگر وہ جو ہوں گے یہودی یا عیسائی۔ یہ
(باطل) خواہشیں ہیں ان کی، کہہ دیجیے! لاؤ تم دلیل اپنی، اگر ہو تم سچے
(111) کیوں نہیں،
(ہاں) جس نے جھکا دیا اپنا چہرہ واسطے اللہ کے اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے ہے اجر اس کا نزدیک اس کے رب کےاور نہ کوئی خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے
(112)
#
{111} أي: قال اليهود: لن يدخل الجنة إلا من كان هوداً، وقالت النصارى: لن يدخل الجنة إلا من كان نصارى، فحكموا لأنفسهم بالجنة وحدهم، وهذا مجرد أماني غير مقبولة إلا بحجة وبرهان فأتوا بها إن كنتم صادقين، وهكذا كل من ادعى دعوى لا بد أن يقيم البرهان على صِحة دعواه، وإلا فلو قلبت عليه دعواه وادعى مدع عكس ما ادعى بلا برهان لكان لا فرق بينهما، فالبرهان هو الذي يصدق الدعاوي أو يكذبها، ولما لم يكن بأيديهم برهان علم كذبهم بتلك الدعوى.
[111] یعنی یہودیوں نے کہا کہ یہودیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا اور عیسائیوں نے کہا کہ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو عیسائی ہوں گے۔ پس انھوں نے حکم لگا دیا کہ صرف وہی اکیلے جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جو دلیل و برہان کے بغیر قابل قبول نہیں۔ پس اگر تم
(اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو دلیل مہیا کرو۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی قسم کا دعویٰ کرتا ہے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوے کی صحت پر دلیل مہیا کرے وگرنہ اس کا دعویٰ اس کی طرف پلٹا دیا جائے اور اگر کوئی دعویٰ کرنے والا اس کے برعکس بغیر دلیل کے دعویٰ کر دے، تو وہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ان دونوں دعوؤں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہو گا۔ پس دلیل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دعوے کی تصدیق یا اس کی تکذیب کرتی ہے اور جب ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔
#
{112} ثم ذكر تعالى البرهان الجلي العام لكل أحد فقال: {بلى}؛ أي: ليس بأمانيكم ودعاويكم ولكن، {من أسلم وجهه لله}؛ أي: أخلص لله أعماله متوجهاً إليه بقلبه، {وهو}؛ مع إخلاصه {محسن}؛ في عبادة ربه بأن عبده بشرعه فأولئك هم أهل الجنة وحدهم، فلهم أجرهم عند ربهم؛ وهو الجنة بما اشتملت عليه من النعيم، {ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ فحصل لهم المرغوب ونجوا من المرهوب، ويفهم منها أن من ليس كذلك فهو من أهل النار الهالكين، فلا نجاة إلا لأهل الإخلاص للمعبود والمتابعة للرسول.
[112] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی روشن دلیل بیان فرمائی ہے جو ہر ایک کے لیے عام ہے فرمایا:
﴿ بَلٰى ﴾ یعنی تمھاری آرزوئیں اور تمھارے دعوے صحیح نہیں بلکہ
﴿ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ﴾ جس نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے اعمال کو اس کے لیے خالص کر لیا۔
﴿ وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾ اور وہ اپنے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت احسن طریقے سے کرتا ہے۔ یعنی وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت کرتا ہے صرف یہی لوگ جنت میں جائیں گے۔
﴿ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ﴾ ’’بے شک اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے‘‘ یہ اجر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر مشتمل جنت ہے
﴿ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ﴾ ’’اور ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ پس انھیں ان کی مرغوب چیز حاصل ہو گی اور خوف سے نجات مل جائے گی۔
ان آیات کریمہ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جو ان مذکورہ لوگوں کی مانند نہیں ہیں وہ ہلاک ہونے والے جہنمیوں میں شمار ہوں گے پس نجات صرف انھی لوگوں کا نصیب ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیکی کرتے اور رسول اللہeکی پیروی کرتے ہیں۔
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (113)}.
اور کہا یہودیوں نے، نہیں ہیں عیسائی اُوپر کسی چیز کے اور کہا عیسائیوں نے، نہیں ہیں یہودی اُوپر کسی چیز کے، حالانکہ وہ
(دونوں) پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے
(بھی) جو نہیں علم رکھتے، مثل ان کے قول کے، پس اللہ فیصلہ فرمائے گا درمیان ان کے دن قیامت کے، اس
(چیز) میں کہ تھے وہ اس میں اختلاف کرتے
(113)
#
{113} وذلك أنه بلغ بأهل الكتاب الهوى والحسد إلى أن بعضهم ضلل بعضاً، وكفر بعضهم بعضاً كما فعل الأميون من مشركي العرب وغيرهم، فكل فرقة تضلل [الفرقةَ] الأخرى، ويحكم الله في الآخرة بين المختلفين بحكمه العدل الذي أخبر به عباده، فإنه لا فوز ولا نجاة إلا لمن صدَّق جميع الأنبياء والمرسلين، وامتثل أوامر ربه، واجتنب نواهيه، ومن عداهم فهو هالك.
[113] اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب خواہش نفس اور حسد میں اس حد کو پہنچ گئے کہ انھوں نے ایک دوسرے کو گمراہ اور کافر قرار دیا، جیسے مشرکین عرب میں امیوں کا وتیرہ تھا۔ پس ہر فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ قرار دیتا تھا۔ ان اختلاف کرنے والوں کے مابین قیامت کے روز اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس کے بارے میں اس نے بندوں کو باخبر کر دیا ہے کہ فوز و فلاح اور نجات صرف انھی لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے تمام انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی، اور اپنے رب کے احکام کی پیروی کی اور اس کی منہیات سے اجتناب کیا۔ ان کے علاوہ دیگر تمام لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے۔
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114)}.
اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں سے، یہ کہ ذکر کیا جائے ان میں نام اللہ کااور کوشش کی اس نے ان کے اجاڑنے میں، یہ
(روکنے والے) نہیں تھا لائق ان کے کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں عذاب عظیم ہے
(114)
#
{114} أي: لا أحد أظلم وأشد جرماً ممن منع مساجد الله عن ذكر الله فيها وإقامة الصلاة وغيرها من [أنواع] الطاعات، {وسعى}؛ أي: اجتهد وبذل وسعه، {في خرابها}؛ الحسي والمعنوي، فالخراب الحسي هدمها وتخريبها وتقذيرها، والخراب المعنوي منع الذاكرين لاسم الله فيها، وهذا عام لكل من اتصف بهذه الصفة فيدخل في ذلك أصحاب الفيل وقريش حين صدوا رسول الله عنها عام الحديبية، والنصارى حين أخربوا بيت المقدس، وغيرهم من أنواع الظلمة الساعين في خرابها محادّة لله ومشاقة، فجازاهم الله بأن منعهم دخولها شرعاً وقدراً إلا خائفين ذليلين، فلما أخافوا عباد الله أخافهم الله، فالمشركون الذين صدوا رسوله لم يلبث رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا يسيراً حتى أذن الله له في فتح مكة ومنع المشركين من قربان بيته فقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}؛ وأصحاب الفيل قد ذكر الله ما جرى عليهم، والنصارى سلط الله عليهم المؤمنين فأجلوهم [عنه]، وهكذا كل من اتصف بوصفهم فلا بد أن يناله قسطه، وهذا من الآيات العظيمة أخبر بها الباري قبل وقوعها فوقعت كما أخبر، واستدل العلماء بالآية الكريمة على أنه لا يجوز تمكين الكفار من دخول المساجد {لهم في الدنيا خزي}؛ [أي]: فضيحة؛ كما تقدم {ولهم في الآخرة عذاب عظيم}؛ وإذا كان لا أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه، فلا أعظم إيماناً ممن سعى في عمارة المساجد بالعمارة الحسية والمعنوية؛ كما قال تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر}؛ بل قد أمر الله تعالى برفع بيوته وتعظيمها وتكريمها فقال تعالى: {في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه}.
وللمساجد أحكام كثيرة يرجع حاصلها إلى مضمون هذه الآيات الكريمة.
[114] یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جس نے اللہ کی مساجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور نیکی اور اطاعت کے دیگر کاموں سے روکا
﴿ وَسَعٰى ﴾ یعنی جس نے پوری جدوجہد اور بھرپور کوشش کی
﴿ فِیْ خَرَابِهَا﴾ ’’ان کے ویران کرنے میں۔‘‘ اس سے مراد، حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے ویران کرنا ہے۔ حسی ویرانی کا مطلب ہے منہدم کرنا، اجاڑنا اور اس میں گندگی وغیرہ پھینکنا۔ معنوی ویرانی کا مطلب ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا ہے۔ اور یہ عام ہے، اس زمرے میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں۔ اس میں اصحاب فیل بھی شامل ہیں۔ قریش بھی شامل ہیں،
جب انھوں نے حدیبیہ کے سال رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اور اس گروہ میں وہ نصرانی اور اہل ظلم بھی شامل ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے پوری کوشش سے بیت المقدس کو ویران کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے کرتوتوں کی یہ سزا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرعاً اور تقدیری طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے منع کر دیا سوائے اس کے کہ وہ ڈرتے ہوئے ذلت و انکسار کے ساتھ داخل ہوں۔ پس جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف زدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر خوف مسلط کر دیا۔
مشرکین مکہ نے رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہeکو مکہ مکرمہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ (التوبہ : 9؍28) ’’اے ایمان والو! مشرکین تو ناپاک ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔‘‘
اصحاب فیل کا جو حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے
(قرآن مجید میں) اس کا ذکر فرمایا ہے۔ نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مسلط فرمایا اور انھوں نے ان کو جلاوطن کر دیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ان جیسی صفات رکھتا ہے وہ اس سزا سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گا۔ یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے واقع ہونے سے پہلے ہی باری تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا اور یہ اسی طرح واقع ہوئیں جس طرح اس نے خبر دی تھی۔
اس آیت کریمہ سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
فرمایا:
﴿ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾ یعنی ان کے لیے دنیا میں فضیحت ہے
﴿ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘
جب اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنا سب سے بڑا ظلم ہے تو اسی طرح مساجد کو حسی اور معنوی اعتبار سے آباد کرنے والے سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (التوبہ : 9؍18) ’’اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے گھروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَ٘عَ وَیُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ﴾ (النور:24؍36) ’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور وہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔‘‘
مساجد سے متعلق بہت سے احکام ہیں جن کا خلاصہ ان آیات کریمہ کے اندر مضمر ہے۔
{وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (115)}.
اور اللہ کے لیے ہیں مشرق و مغرب، پس جس طرف بھی تم منہ کرو گے تو وہاں ہی ہے چہرہ اللہ کا، بلاشبہ اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے
(115)
#
{115} أي: {ولله المشرق والمغرب}؛ خصهما بالذكر لأنهما محل الآيات العظيمة [فهما] مطالع الأنوار ومغاربها، فإذا كان مالكاً لها كان مالكاً لكل الجهات {فأينما تولوا}؛ وجوهكم من الجهات إذا كان توليكم إياها بأمره، إما أن يأمركم باستقبال الكعبة بعد أن كنتم مأمورين باستقبال بيت المقدس، أو تؤمرون بالصلاة في السفر على الراحلة ونحوها، فإن القبلة حيثما توجه العبد، أو تشتبه القبلة فيتحرى الصلاة إليها، ثم يتبين له الخطأ أو يكون معذوراً بصلب أو مرض ونحو ذلك، فهذه الأمور إما أن يكون العبد فيها معذوراً أو مأموراً.
وبكل حال فما استقبل جهة من الجهات خارجة عن ملك ربه {فثم وجه الله إن الله واسع عليم}؛ فيه إثبات الوجه لله تعالى على الوجه اللائق به تعالى، وإن لله وجهاً لا تشبهه الوجوه، وهو تعالى واسع الفضل والصفات عظيمها عليم بسرائركم ونياتكم، فمن سعته وعلمه، وسع لكم الأمر، وقبل منكم المأمور، فله الحمد والشكر.
[115] ﴿ وَلِلّٰهِ الْ٘مَشْرِقُ وَالْ٘مَغْرِبُ﴾ ’’اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق و مغرب کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ یہ روشنی کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کا محل و مقام ہیں اور جب وہ مشارق و مغارب کا مالک ہے، تو تمام جہات اسی کی ملکیت ہیں۔
﴿ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا﴾ پس ان جہات میں سے جس کسی جہت کی طرف بھی تم اپنا منہ پھیر لو گے، بشرطیکہ تمھارا اس کی طرف منہ پھیرنا اللہ کے حکم سے ہو۔ یا تو وہ تمھیں حکم دے کہ خانہ کعبہ کی طرف بھی تم منہ پھیر لو، جبکہ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے پابند تھے یا سفر میں تمھیں سواری کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے، اس صورت میں اس کا قبلہ وہی ہو گا جس کی طرف وہ منہ کرے گا یا
(انجان جگہ میں) قبلے کا رخ معلوم نہ ہو، پس اپنے اندازے سے نماز پڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا کہ اندازہ غلط تھا یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ یا تو مامور ہے
(یعنی اللہ کے حکم پر قبلے کی طرف رخ کرنے والا ہے) یا معذور ہے۔
ہر حال میں بندہ جس جہت کی طرف بھی منہ کرتا ہے وہ جہت اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں۔
﴿ فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہوتا ہے مگر جیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے مگر مخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں۔
(اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلند و برتر ہے) وہ وسیع فضل اور عظیم صفات کا مالک ہے اور تمھارے سینوں کے بھید اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے وسعت فضل و علم کی بنا پر تمھارے لیے احکام میں وسعت بخشی ہے اور تم سے مامورات کو قبول فرمایا۔ ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر صرف اسی کی ذات کے لیے ہے۔
{وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116) بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (117)}.
اور کہا انھوں نے، بنا لی ہے اللہ نے اولاد، پاک ہے وہ
(اس سے)بلکہ اسی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں
(116) وہ انوکھا موجد ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے کسی کام کا، تو صرف یہی کہتا ہے اس کو ہو جا تو پس وہ ہو جاتاہے
(117)
#
{116} {وقالوا}؛ أي: اليهود والنصارى والمشركون وكل من قال ذلك، {اتخذ الله ولداً}؛ فنسبوه إلى ما لا يليق بجلاله وأساءوا كل الإساءة وظلموا أنفسهم وهو تعالى صابر على ذلك منهم، قد حلم عليهم، وعافاهم، ورزقهم مع تنقصهم إياه {سبحانه}؛ أي: تنزه وتقدس عن كل ما وصفه به المشركون والظالمون مما لا يليق بجلاله، فسبحان من له الكمال المطلق من جميع الوجوه الذي لا يعتريه نقصٌ بوجه من الوجوه، ومع رده لقولهم أقام الحجة والبرهان على تنزيهه عن ذلك فقال: {بل له ما في السموات والأرض}؛ أي: جميعهم ملكه وعبيده يتصرف فيهم تصرف المالك بالمماليك وهم قانتون له مسخرون تحت تدبيره، فإذا كانوا كلهم عبيده مفتقرين إليه، وهو غني عنهم فكيف يكون منهم أحد يكون له ولداً، والولد لا بد أن يكون من جنس والده لأنه جزء منه، والله تعالى المالك القاهر وأنتم المملوكون المقهورون وهو الغني وأنتم الفقراء، فكيف مع هذا يكون له ولد؟ هذا من أبطل الباطل وأسمجه.
والقنوت نوعان: قنوت عام وهو قنوت الخلق كلهم تحت تدبير الخالق، وخاص وهو قنوت العبادة. فالنوع الأول كما في هذه الآية، والنوع الثاني كما في قوله تعالى: {وقوموا لله قانتين}. ثم قال:
[116] ﴿ وَقَالُوا﴾ یعنی یہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں
﴿ اتَّؔخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا﴾ ’’اللہ نے بیٹا بنا لیا۔‘‘ انھوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انھوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انھیں معاف کر کے انھیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں
﴿ سُبْحٰؔنَهٗ﴾یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بے نیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہو سکتاہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ مالک اور غالب ہے۔ تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بے نیاز اور تم محتاج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔
’’قُنُوت‘‘
(اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔
(۱) قنوت عام: یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔
(۲) قنوت خاص: اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر
﴿وَقُ٘وْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرہ : 2؍238) ’’اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔‘‘ میں مذکور ہے۔
#
{117} {بديع السموات والأرض}؛ أي: خالقهما على وجه قد أتقنهما وأحسنهما على غير مثال سبق، {وإذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون}؛ فلا يستعصي عليه ولا يمتنع منه.
[117] پھر فرمایا:
﴿ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔
﴿وَاِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُ٘وْنُ﴾ ’’وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا بس وہ ہو جاتا ہے‘‘ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کر سکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔
{وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (118) إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (119)}.
اور کہا ان لوگوں نے جو نہیں علم رکھتے کیوں نہیں کلام کرتا ہم سے اللہ یا
(کیوں نہیں) آتی ہمارے پاس کوئی نشانی؟ اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، مثل ان کے قول کے، ایک جیسے ہو گئے دل ان کے، تحقیق بیان کر دیں ہم نے نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں
(118) بلاشبہ بھیجا ہم نے آپ کو ساتھ حق کے، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور نہیں سوال کیے جائیں گے آپ دوزخیوں کی بابت
(119)
#
{118} أي: قال الجهلة من أهل الكتاب وغيرهم هلا يكلمنا الله كما كلم الرسل، {أو تأتينا آية}؛ يعنون آيات الاقتراح التي يقترحونها بعقولهم الفاسدة وآرائهم الكاسدة التي تجرؤوا بها على الخالق واستكبروا على رسله كقولهم: {لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة}؛ {يسألك أهل الكتاب أن تنزل عليهم كتاباً من السماء فقد سألوا موسى أكبر من ذلك ... }؛ الآية. {وقالوا مالِ هذا الرسول يأكل الطعام ويمشي في الأسواق لولا أنزل إليه ملك فيكون معه نذيراً أو يلقى إليه كنز أو تكون له جنة يأكل منها ... }؛ الآيات، وقوله: {وقالوا لن نؤمن لك حتى تفجر لنا من الأرض ينبوعاً ... }؛ الآيات.
فهذا دأبهم مع رسلهم يطلبون آيات التعنت لا آيات الاسترشاد، ولم يكن قصدهم تبيين الحق فإن الرسل قد جاؤوا من الآيات بما يؤمن على مثله البشر، ولهذا قال تعالى: {قد بينا الآيات لقوم يوقنون}؛ فكل موقن فقد عرف من آيات الله الباهرة وبراهينه الظاهرة ما حصل له به اليقين، واندفع عنه كل شك وريب.
[118] یعنی اہل کتاب وغیرہ میں سے جہلاء نے کہا۔ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کیوں نہیں کرتا جس طرح وہ اپنے رسولوں سے کلام کرتا ہے۔
﴿ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ﴾ ’’یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی‘‘ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو وہ اپنی فاسد عقلوں اور باطل آراء کے ذریعے سے طلب کرتے تھے۔ ان فاسد آراء کے بل بوتے پر انھوں نے خالق کے مقابلے میں جسارت کی اور اس کے رسولوں کے سامنے تکبر سے کام لیا۔ جیسے انھوں نے کہا:
﴿ لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ﴾ (البقرہ : 2؍55) ’’ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔‘‘
﴿ یَسْـَٔؔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ﴾ (النساء : 4؍153) ’’اہل کتاب تجھ سے کہتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب اتار لا۔ پس یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیا کرتے تھے۔‘‘
﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُ٘وْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ۰۰اَوْ یُلْ٘قٰۤى اِلَیْهِ كَنْ٘زٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّ٘اْكُ٘لُ مِنْهَا﴾ (الفرقان : 25؍7، 8) ’’اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ڈرانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہتا یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا۔ یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا‘‘ یا جیسے فرمایا:
﴿ وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍90) ’’اور انھوں نے کہا ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کر دے۔‘‘
پس اپنے رسولوں کے ساتھ یہ ان کی عادت رہی ہے کہ یہ طلب رشد و ہدایت کے لیے آیات کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ تبیین حق ان کا مقصد تھا بلکہ وہ تو محض بال کی کھال اتارنے کے لیے مطالبات کرتے تھے۔ کیونکہ رسول تو آیات
(اور معجزات) کے ساتھ آتے رہے ہیں اور ان جیسی آیات و معجزات پر انسان ایمان لاتا رہا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَؔ﴾ ’’بے شک ہم نے بیان کر دیں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں۔‘‘ پس ہر صاحب ایقان اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں اور واضح دلائل و براہین کو پہچان لیتا ہے۔ ان سے اسے یقین حاصل ہوتا ہے اور شک و ریب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار و ایجاز سے بعض جامع آیات کا ذکر فرمایا ہے جو رسول اللہeکی صداقت، اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔
#
{119} {إنا أرسلناك بالحق بشيراً ونذيراً}؛ فهذا مشتمل على الآيات التي جاء بها، وهي ترجع إلى ثلاثة أمور:
الأول في نفس إرساله، والثاني في سيرته وهديه ودِلِّه، والثالث في معرفة ما جاء به من القرآن والسنة. فالأول والثاني قد دخلا في قوله: {إنا أرسلناك}؛ والثالث [دخل] في قوله: {بالحق}.
وبيان الأمر الأول: وهو ـ نفس إرساله ـ أنه قد علم حالة أهل الأرض قبل بعثته - صلى الله عليه وسلم - وما كانوا عليه من عبادة الأوثان والنيران والصلبان وتبديلهم للأديان حتى كانوا في ظلمة من الكفر قد عمتهم وشملتهم، إلا بقايا من أهل الكتاب قد انقرضوا قبيل البعثة، وقد علم أن الله تعالى لم يخلق خلقه سدى ولم يتركهم هملاً، لأنه حكيم عليم قدير رحيم، فمن حكمته ورحمته بعباده أن أرسل إليهم هذا الرسول العظيم يأمرهم بعبادة الرحمن وحده لا شريك له، فبمجرد رسالته يعرف العاقل صدقه، وهو آية كبيرة على أنه رسول الله.
وأما الثاني فمن عرف النبي - صلى الله عليه وسلم - معرفة تامة، وعرف سيرته وهديه قبل البعثة ونشوءه على أكمل الخصال، ثم من بعد ذلك قد ازدادت مكارمه وأخلاقه العظيمة الباهرة للناظرين، فمن عرفها وسبر أحواله عرف أنها لا تكون إلا أخلاق الأنبياء الكاملين؛ لأنه تعالى جعل الأوصاف أكبر دليل على معرفة أصحابها وصدقهم وكذبهم.
وأما الثالث: فهو معرفة ما جاء به - صلى الله عليه وسلم - من الشرع العظيم والقرآن الكريم المشتمل على الإخبارات الصادقة والأوامر الحسنة والنهي عن كل قبيح، والمعجزات الباهرة، فجميع الآيات تدخل في هذه الثلاثة.
قوله: {بشيراً}؛ أي: لمن أطاعك بالسعادة الدنيوية والأخروية، {نذيراً}؛ لمن عصاك بالشقاوة والهلاك الدنيوي والأخروي، {ولا تسأل عن أصحاب الجحيم}؛ أي: لست مسؤولاً عنهم، إنما عليك البلاغ وعلينا الحساب.
[119] فرمایا:
﴿ اِنَّـاۤ٘اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا﴾ ’’ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ یہ ان آیات پر مشتمل ہے جنھیں رسول اللہeلے کر مبعوث ہوئے اور یہ تین امور کی طرف راجع ہیں۔
(۱)رسول اللہeکی رسالت۔
(۲) آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا طریقہ اور آپ کی راہ نمائی۔
(۳) قرآن و سنت کی معرفت۔ پہلا اور دوسرا نکتہ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ اِنَّـاۤ٘اَرْسَلْنٰكَ ﴾ میں داخل ہے اور تیسرا نکتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ بِالْحَقِّ ﴾ میں داخل ہے۔
نکتہ اول۔۔۔ یعنی رسول اللہeکی بعثت اور رسالت کی توضیح یہ ہے کہ رسول اللہeکی بعثت سے قبل اہل زمین کی جو حالت تھی وہ معلوم ہے۔ اس زمین کے رہنے والے بتوں، آگ اور صلیب کی عبادت میں مبتلا تھے۔ ان کے لیے جو دین آیا انھوں نے اسے تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کفر کی تاریکیوں میں ڈوب گئے اور کفر کی تاریکی ان پر چھا گئی تھی۔ البتہ اہل کتاب کی کچھ باقیات تھیں
(جو دین اسلام پر قائم رہیں) اور وہ بھی رسول اللہeکی بعثت سے تھوڑا سا پہلے ناپید ہو گئیں۔
یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو بے حساب و کتاب آزاد چھوڑا ہے، کیونکہ وہ حکیم و دانا، باخبر، صاحب قدرت اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ پس اس کی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان کی طرف ایک نہایت عظمت والا رسول مبعوث کرے جو انھیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایک عقلمند شخص محض آپ کی رسالت ہی کی بنا پر آپ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے اور یہ اس بات کی بہت بڑی علامت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
رہا دوسرا نکتہ... تو جس نے رسول اللہeکو اچھی طرح پہچان لیا اور اسے آپ کی بعثت سے قبل آپ کی سیرت اور آپ کے طریق زندگی اور آپ کی کامل ترین خصلتوں پر آپ کی نشوونما کی معرفت حاصل ہو گئی۔ پھر بعثت کے بعد آپ کے مکارم ، عظیم اور روشن اخلاق بڑھتے چلے گئے۔ پس جنھیں ان اخلاق کی معرفت حاصل ہو گئی اور انھوں نے آپ کے احوال کو اچھی طرح جانچ لیا تو اسے معلوم ہو گیا کہ ایسے اخلاق صرف انبیائے کاملین ہی کے ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اوصاف کو اصحاب اوصاف اور ان کے صدق و کذب کی معرفت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرار دیا ہے۔
رہا تیسرا نکتہ۔۔۔ تو یہ اس عظیم شریعت اور قرآن کریم کی معرفت ہے جسے رسول اللہeپر نازل کیا گیا جو سچی خبروں، اچھے احکام، ہر برائی سے ممانعت اور روشن معجزات پر مشتمل ہے۔ پس تمام نشانیاں ان تین باتوں میں آ جاتی ہیں۔
﴿ بَشِیْرًا ﴾ یعنی آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے ہیں جس نے آپ کی اطاعت کی
﴿ وَّنَذِیْرًا﴾ اور اس شخص کو دنیاوی اور اخروی بدبختی اور ہلاکت سے ڈرانے والے ہیں جس نے آپ کی نافرمانی کی
﴿ وَّلَا تُ٘سْـَٔلُ عَنْ اَصْحٰؔبِ الْجَحِیْمِ ﴾ یعنی آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
{وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (120)}.
اور ہرگزنہیں راضی ہوں گے آپ سے یہودی اور نہ عیسائی، حتی کہ پیروی کریں آپ ان کی ملت کی، کہہ دیجیے! بلاشبہ اللہ کی ہدایت وہی
(حقیقی) ہدایت ہے اور اگر پیروی کی آپ نے ان کی خواہشات کی، بعد اس کے جو آگیا آپ کے پاس علم تو نہیں ہوگا آپ کے لیے اللہ سے
(بچانے والا) کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار
(120)
#
{120} يخبر تعالى رسوله أنه لا يرضى منه اليهود ولا النصارى إلا باتباعه دينهم؛ لأنهم دعاة إلى الدين الذي هم عليه يزعمون أنه الهدى، فقل لهم: {إن هدى الله}؛ الذي أرسلت به {هو الهدى}؛ وأما ما أنتم عليه فهو الهوى بدليل قوله: {ولئن اتبعت أهواءهم بعد الذي جاءك من العلم ما لك من الله من ولي ولا نصير}؛ فهذا فيه النهي العظيم عن اتباع أهواء اليهود والنصارى والتشبه بهم بما يختص به دينهم.
والخطاب وإن كان لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فإن أمته داخلة في ذلك؛ لأن الاعتبار بعموم المعنى لا بخصوص المخاطب، كما أن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب.
[120] اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے دین کی اتباع نہ کریں کیونکہ وہ اپنے اس دین کے داعی ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی ہدایت ہے۔ لہٰذا آپ ان سے کہہ دیجیے
﴿ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک اللہ کی ہدایت‘‘ یعنی وہ ہدایت جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے
﴿ هُوَ الْهُدٰؔى ﴾وہی درحقیقت ہدایت ہے۔ اور وہ مذہب جس پر تم گامزن ہو محض خواہشات نفس کی پیروی ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍؔ ﴾ ’’اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا، تو آپ کو اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ہو گا۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے اور ان امور میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو ان کے دین سے مختص ہیں۔ یہاں خطاب اگرچہ رسول اللہeسے ہے مگر بالواسطہ آپ کی امت بھی اس میں داخل ہے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس سے خاص طور پر خطاب ہو، اس کی بجائے عموم معنی کا اعتبار کیا جائے۔ جیسے کسی حکم کے نازل ہونے کا کوئی خاص سبب ہوتا ہے، لیکن وہاں اس سبب کی بجائے عموم لفظ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
{الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (121) يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (122) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (123)}.
وہ لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب، پڑھتے ہیں وہ اسے جس طرح حق ہے اس کے پڑھنے کا، وہی لوگ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کے اور جو کوئی کفر کرتا ہے ساتھ اس کے تو وہی ہیں خسارہ پانے والے
(121) اے بنواسرائیل! یاد کرو تم میری نعمت، وہ جو انعام کی میں نے تم پر اور یہ کہ فضیلت دی میں نے تمھیں اوپر تمام جہانوں کے
(122) اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں کام آئے گا کوئی نفس کسی نفس کے کچھ بھی اور نہ قبول کیا جائے گا اس سے کوئی بدلہ اور نہ نفع دے گی اس کو کوئی سفارش اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے
(123)
#
{121} يخبر تعالى أن الذين آتاهم الكتاب ومنَّ عليهم به منِّة مطلقة أنهم {يتلونه حق تلاوته}؛ أي: يتبعونه حق اتباعه، والتلاوة الاتِّباع، فيحلون حلاله، ويحرمون حرامه، ويعملون بمحكمه، ويؤمنون بمتشابهه، وهؤلاء هم السعداء من أهل الكتاب الذين عرفوا نعمة الله وشكروها، وآمنوا بكل الرسل ولم يفرقوا بين أحد منهم، فهؤلاء هم المؤمنون حقًّا لا من قال منهم نؤمن بما أنزل علينا ويكفرون بما وراءه، ولهذا توعدهم بقوله: {ومن يكفر به فأولئك هم الخاسرون}.
[121] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عطا کی اور کتاب عطا کر کے ان پر احسان کیا ہے
﴿ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ﴾ ’’وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘ یعنی اس کی اتباع کرتے ہیں جیسا کہ اتباع کرنے کا حق ہے۔ یہاں
(تلاوت) سے مراد اتباع ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے حلال ٹھہرائے ہوئے امور کو حلال اور اس کے حرام ٹھہرائے ہوئے امور کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس کی محکمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کی متشابہات پر ایمان لاتے ہیں۔ اہل کتاب میں سے یہی وہ لوگ ہیں جو خوش بخت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانا اور اس کے شکر گزار ہوئے جو تمام رسولوں پر ایمان لائے اور انھوں نے ان رسولوں کے مابین تفریق نہ کی۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں
﴿ نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ ﴾ (البقرۃ : 2؍91) ’’جو کتاب ہم پر نازل کی گئی ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَمَنْ یَّكْ٘فُ٘رْ بِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘خٰؔسِرُوْنَ﴾ ’’جو کوئی اس کا انکار کرے گا پس یہی لوگ گھاٹے میں پڑنے والے ہیں۔‘‘
#
{122 ـ 123} وقد تقدم تفسير الآية التي بعدها.
[123-122] اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
{وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (124) وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (125)}.
اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے ساتھ چند کلمات کے، تو پورا کر دیا اس نے ان کو، اللہ نے کہا بے شک میں بناؤں گا تجھے لوگوں کا امام،
(ابراہیم) نے کہا اور میری اولاد میں سے بھی، اللہ نے کہا نہیں پہنچتا میرا عہد ظالموں کو
(124) اور جب بنایا ہم نے بیت اللہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور امن
(کی جگہ)، اور بناؤ تم مقام ابراہیم کو جائے نماز اور حکم دیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو یہ کہ پاک کرو تم دونوں میرا گھر واسطے طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے
(125)
#
{124} يخبر تعالى عن عبده وخليله إبراهيم عليه السلام المتفق على إمامته وجلالته الذي كل من طوائف أهل الكتاب تدعيه، بل وكذلك المشركون أن الله ابتلاه وامتحنه بكلمات أي بأوامر ونواهٍ كما هي عادة الله في ابتلائه لعباده ليتبين الكاذب الذي لا يثبت عند الابتلاء والامتحان من الصادق، الذي ترتفع درجته، ويزيد قدره، ويزكو عمله ويخلص ذهبه، وكان من أجلِّهم في هذا المقام الخليل عليه السلام، فأتم ما ابتلاه الله به وأكمله ووفاه، فشكر الله له ذلك، ولم يزل الله شكوراً فقال: {إني جاعلك للناس إماماً}؛ أي: يقتدون بك في الهدي ويمشون خلفك إلى سعادتهم الأبدية، ويحصل لك الثناء الدائم والأجر الجزيل والتعظيم من كل أحد.
وهذه ـ لعمر الله ـ أفضل درجة تنافس فيها المتنافسون، وأعلى مقام شمر إليه العاملون، وأكمل حالة حصلها أولو العزم من المرسلين وأتباعهم من كل صِدِّيق متبع لهم داعٍ إلى الله وإلى سبيله، فلما اغتبط إبراهيم بهذا المقام، وأدرك هذا، طلب ذلك لذريته لتعلو درجته ودرجة ذريته، وهذا أيضاً من إمامته ونصحه لعباد الله ومحبته أن يكثر فيهم المرشدون، فلله عظمة هذه الهمم العالية والمقامات السامية.
فأجابه الرحيم اللطيف وأخبر بالمانع من نيل هذا المقام فقال: {لا ينال عهدي الظالمين}؛ أي: لا ينال الإمامة في الدين من ظلم نفسه وضرها وحطَّ قدرها لمنافاة الظلم لهذا المقام، فإنه مقام آلته الصبر واليقين، ونتيجته أن يكون صاحبه على جانب عظيم من الإيمان والأعمال الصالحة والأخلاق الجميلة والشمائل السديدة والمحبة التامة والخشية والإنابة، فأين الظلم وهذا المقام؟ ودلَّ مفهوم الآية أن غير الظالم سينال الإمامة، ولكن مع إتيانه بأسبابها.
[124] اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے خلیل ابراہیمuکے بارے میں خبر دیتا ہے۔ جن کی امامت و جلالت تمام گروہوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اہل کتاب کے تمام گروہ ان کی پیشوائی کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اسی طرح مشرکین مکہ بھی ان کو پیشوا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند باتوں میں حضرت ابراہیمuکا امتحان لیا یعنی چند اوامر و نواہی میں جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو امتحان اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ جھوٹا شخص جو ابتلا و امتحان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا، ایسے شخص سے علیحدہ ہو جائے جو سچا ہے تاکہ سچے شخص کے درجات بلند ہوں۔ اس کی قدر و قیمت زیادہ ہو، اس کے اعمال صاف ستھرے ہوں اور وہ اس آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔
اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے حضرت ابراہیمuجلیل ترین مقام پر فائز ہیں۔ جن امور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا تھا وہ بدرجہ اتم اس آزمائش میں پورے اترے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سعی کی قدر کی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے
(اپنے نیک بندوں کی مساعی کا) قدردان ہے۔ فرمایا:
﴿ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾ ’’میں تجھ کو لوگوں کا امام بناؤں گا‘‘ یعنی وہ زندگی کے لائحہ عمل میں تیری پیروی کریں گے اور ابدی سعادت کی منزل تک پہنچنے کے لیے تیرے پیچھے چلیں گے۔ تجھے ہمیشہ مدح و ثنا حاصل رہے گی۔ اور بے پایاں اجر عطا ہو گا اور ہر شخص تیری عظمت کا قائل ہو گا۔ اللہ کی قسم! یہ افضل ترین درجہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کرتے ہیں اور ایک ایسا بلند مقام ہے کہ اصحاب اعمال اس تک پہنچنے کے لیے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ اور وہ کامل ترین حالت ہے جو صرف اولوالعزم انبیاء و مرسلین، ان کے پیروکار صدیقین اور اللہ تعالیٰ اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔
جب ابراہیمuاس مقام بلند کو پاکر خوش ہوئے تو انھوں نے اپنی اولاد کے لیے بھی اس مقام کی درخواست کی تاکہ ان کے اور ان کی اولاد کے درجات بلند ہوں اور یہ دعا بھی ان کی امامت،
اللہ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اور چاہت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد میں اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والوں کی کثرت ہو۔ پس کیا خوب عظمت ہے ان اعلیٰ مقاصد اور مقامات بلند کی۔
اللہ رحیم اور لطف و کرم کے مالک نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اس رکاوٹ سے ان کو باخبرکر دیا جو اس مقام کے حصول کے راستے میں حائل ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا‘‘ یعنی اہل ظلم دین میں امامت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اس کو نقصان پہنچایا اور اس کی بے قدری کی، کیونکہ ظلم اس مقام کے منافی ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں تک پہنچنے کا ذریعہ صبر و یقین ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس رتبے کا مالک ایمان اور اعمال صالحہ، اخلاق جمیلہ، خصائل حمیدہ، محبت تامہ اور خشیت و انابت میں عظمت کا حامل ہو۔ پس ظلم کا اس مقام سے کیا تعلق؟
آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو ظالم نہیں وہ اس امامت کے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے مگر وہاں تک پہنچانے والے اسباب استعمال کر کے۔
#
{125} ثم ذكر تعالى أنموذجاً باقياً دالاًّ على إمامة إبراهيم وهو: هذا البيت الحرام الذي جعل قصده ركناً من أركان الإسلام حاطاًّ للذنوب والآثام، وفيه من آثار الخليل وذريته ما عرف به إمامته وتُذُكِّرت به حالته فقال: {وإذ جعلنا البيت مثابة للناس}؛ أي: مرجعاً يثوبون إليه بحصول منافعهم الدينية والدنيوية، يترددون إليه ولا يقضون منه وطراً، وجعله {أمناً}؛ يأمن به كلُّ أحد حتى الوحش وحتى الجمادات كالأشجار، ولهذا كانوا في الجاهلية ـ على شركهم ـ يحترمونه أشد الاحترام ويجد أحدهم قاتل أبيه في الحرم فلا يهيجه، فلما جاء الإسلام زاده حرمة وتعظيماً وتشريفاً وتكريماً، {واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى}؛ يحتمل أن يكون المراد بذلك المقام المعروف الذي قد جعل الآن مقابل باب الكعبة، وأن المراد بهذا ركعتا الطواف يستحب أن تكونا خلف مقام إبراهيم وعليه جمهور المفسرين ويحتمل أن يكون المقام مفرداً مضافاً فيعم جميع مقامات إبراهيم في الحج، وهي المشاعر كلها من الطواف والسعي والوقوف بعرفة ومزدلفة ورمي الجمار والنحر وغير ذلك من أفعال الحج، فيكون معنى قوله: {مصلى}؛ أي: معبداً، أي اقتدوا به في شعائر الحج، ولعل هذا المعنى أولى لدخول المعنى الأول فيه واحتمال اللفظ له.
{وعهدنا إلى إبراهيم وإسماعيل}؛ أي: أوحينا إليهما وأمرناهما بتطهير بيت الله من الشرك والكفر والمعاصي ومن الرجس والنجاسات والأقذار ليكون {للطائفين}؛ فيه {والعاكفين والركع السجود}؛ أي: المصلين، قدّم الطواف لاختصاصه بالمسجد الحرام، ثم الاعتكاف لأن من شرطه المسجد مطلقاً، ثم الصلاة مع أنها أفضل لهذا المعنى، وأضاف الباري البيت إليه لفوائد:
منها: أن ذلك يقتضي شدة اهتمام إبراهيم وإسماعيل بتطهيره لكونه بيت الله فيبذلان جهدهما، ويستفرغان وسعهما في ذلك.
ومنها: أن الإضافة تقتضي التشريف والإكرام ففي ضمنها أمر عباده بتعظيمه وتكريمه.
ومنها: أن هذه الإضافة هي السبب الجالب للقلوب إليه.
[125] پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیمuکی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کر دینے والا قرار دیا،
اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمuاور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیلuکی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا
﴿ وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنا بریں جاہلیت کے زمانے میں ، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کر دیا۔
﴿ وَاتَّؔخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰؔهٖمَ مُ٘صَلًّى ﴾ ’’اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ‘‘ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے۔۔۔ اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہو گا، جہاں جہاں ابراہیمuکے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار
(کنکریاں مارنا) اور قربانی اور دیگر افعال حج۔
پس یہاں
﴿ مُ٘صَلًّى ﴾ کا معنی ’’عبادت کی جگہ‘‘ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیمuکی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آ جاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا محتمل ہے۔
﴿ وَعَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰؔهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیلiکی طرف وحی کر کے انھیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر
﴿ لِلطَّآىِٕفِیْنَ ﴾ طواف کرنے والوں،
﴿ وَالْعٰكِفِیْنَ وَالرُّكَّ٘عِ السُّجُوْدِ ﴾ ’’اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں‘‘ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہو جائے۔
آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
۱ اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلiاس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کر دیں۔
۲ اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔
۳ یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (126)}.
اور جب کہا ابراہیم نے، اے میرے رب! بنا اس
(جگہ) کو شہر امن والا اور رزق دے اس کے باشندوں کو پھلوں سے، جو کوئی ایمان لائے ان میں سے ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے، اللہ نے کہا اور جس نے کفر کیا، پس فائدہ دوں گا میں اسے تھوڑا سا، پھر مجبور کر دوں گا اسے طرف عذابِ جہنم کی اور بری ہے وہ جگہ پھرنے کی
(126)
#
{126} أي: وإذ دعا إبراهيم لهذا البيت أن يجعله الله بلداً آمناً ويرزق أهله من أنواع الثمرات، ثم قيد عليه السلام هذا الدعاء للمؤمنين تأدباً مع الله إذ كان دعاؤه الأول فيه الإطلاق، فجاء الجواب فيه مقيداً بغير الظالم، فلما دعا لهم بالرزق وقيده بالمؤمن وكان رزق الله شاملاً للمؤمن والكافر والعاصي والطائع قال تعالى: {ومن كفر}؛ أي: أرزقهم كلهم مسلمهم وكافرهم، أما المسلم فيستعين بالرزق على عبادة الله ثم ينتقل منه إلى نعيم الجنة، وأما الكافر فيتمتع فيها قليلاً، {ثم أضطره}؛ أي: ألجئه وأخرجه مكرهاً {إلى عذاب النار وبئس المصير}.
[126] یعنی جب ابراہیمuنے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس گھر کو امن کی جگہ بنائے اور یہاں کے رہنے والوں کو مختلف قسم کے پھلوں سے رزق عطا کرے۔ پھر جناب ابراہیمuنے ادب الٰہی کی خاطر اس دعا کو ایمان کی قید لگا کر اہل ایمان کے لیے خاص کر دیا۔ چونکہ ان کی پہلی دعا مطلق تھی اس لیے اس کے جواب کو عدم ظالم کی قید سے مقید کیا گیا۔
پس جب حضرت ابراہیمuنے ان کے لیے رزق کی دعا کی اور اس کے لیے ایمان کی شرط عائد کی اور اللہ تعالیٰ کا رزق مومن اور کافر، نافرمان اور فرمانبردار سب کو ملتا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ كَفَرَ﴾ ’’اور جس نے کفر کیا‘‘ یعنی میں کافر اور مسلمان تمام لوگوں کو رزق عطا کروں گا۔ رہا مسلمان تو وہ اس رزق سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مدد لے گا پھر وہ یہاں سے جنت کی نعمتوں میں منتقل ہو جائے گا اور کافر تو وہ اس دنیا میں تھوڑا سا فائدہ اٹھائے گا
﴿ثُمَّؔ اَضْطَرُّهٗۤ﴾ پھر میں اسے لاچار کردوں گا اور اس کی ناپسندیدگی کے باوجود اسے دنیا سے نکال کر
﴿ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ جہنم کے عذاب میں جھونک دوں گا جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
{وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (127) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (129)}
اور جب بلند کر رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل
(کہتے ہوئے) اے ہمارے رب! اور تو قبول کر لے ہم سے
(یہ نیکی) یقیناً توہی سننے والا جاننے والا ہے
(127) اے ہمارے رب! بنا ہم دونوں کو فرماں بردار اپنا اور
(بنا) ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت فرماں بردار اپنی، اور سکھا ہمیں ہماری عبادت کے طریقے اور توجہ فرما ہم پر، یقیناً توہی ہے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا
(128) اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک رسول انھی میں سے، تلاوت کرے وہ اوپر ان کے تیری آیتیں اور تعلیم دے ان کو کتاب اور حکمت کی اور پاک کرے ان کو، بلاشبہ توہی ہے غالب حکمت والا
(129)
#
{127} أي: واذكر إبراهيم وإسماعيل في حالة رفعهما القواعد من البيت الأساس واستمرارهما على هذا العمل العظيم، وكيف كانت حالهما من الخوف والرجاء حتى إنهما مع هذا العمل دعوا الله أن يتقبل منهما عملهما حتى يجعل فيه النفع العميم.
[127] یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلiکی اس حالت کو یاد کرو جب وہ بیت اللہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور اس عظیم کام پر تسلسل اور پابندی سے لگے ہوئے تھے اور یہ کہ اس وقت ان پر خوف اور امید کی کیسی کیفیت طاری تھی، حتی کہ اس عظیم عمل کے باوجود انھوں نے دعا کی کہ ان کا عمل قبول کیا جائے، تاکہ اس کا فائدہ عام ہو۔
#
{128} ودعوا لأنفسهما وذريتهما بالإسلام الذي حقيقته خضوع القلب وانقياده لربه المتضمن لانقياد الجوارح {وأرنا مناسكنا}؛ أي: علمناها على وجه الإراءة والمشاهدة ليكون أبلغ، يحتمل أن يكون المراد بالمناسك أعمال الحج كلها كما يدل عليه السياق والمقام ويحتمل أن يكون المراد ما هو أعم من ذلك وهو الدين كله والعبادات كلها كما يدل عليه عموم اللفظ، لأن النسك التعبد، ولكن غلب على متعبدات الحج تغليباً عرفياً، فيكون حاصل دعائهما يرجع إلى التوفيق للعلم النافع والعمل الصالح.
ولما كان العبد مهما كان لا بد أن يعتريه التقصير ويحتاج إلى التوبة قالا: {وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم}.
[128] اور انھوں نے اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لیے اسلام کی دعا کی۔ جس کی حقیقت قلب کا خشوع و خضوع ہے اور دل کا اپنے رب کا مطیع ہو جانا، اعضاء و جوارح کے فرماں بردار ہونے کو متضمن ہے۔
﴿وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا﴾ یعنی ارادہ اور مشاہدہ کے ذریعے ہمیں ہمارا طریق عبادت سکھا۔ تاکہ یہ زیادہ مؤثر ہو۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ مناسک سے مراد تمام اعمال حج ہوں۔ جیسا کہ اس معنیٰ پر آیت کریمہ کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز مراد ہو اور وہ سارا دین اور تمام عبادات ہیں۔۔۔ جیسا کہ عموم لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ
(اَلنُّسُکُ) کا معنی عبادت کرنا ہے، پھر عرف کے لحاظ سے حج کی عبادات کے لیے اس لفظ کا استعمال غالب آ گیا۔ پس ان کی دعا کا حاصل علم نافع اور عمل صالح کی توفیق مانگنا ہے۔
بندہ، جیسا بھی ہو، اس سے تقصیر ہو ہی جاتی ہے اس لیے وہ توبہ کا محتاج ہوتا ہے، چنانچہ دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی
﴿وَتُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ ’’اے اللہ ہم پر رجوع فرما، تو بہت رجوع کرنے والا بہت مہربان ہے۔‘‘
#
{129} {ربنا وابعث فيهم}؛ أي: في ذريتنا {رسولاً منهم}؛ ليكون أرفع لدرجتهما ولينقادوا له وليعرفوه حقيقة المعرفة {يتلو عليهم آياتك}؛ لفظاً وحفظاً وتحفيظاً، {ويعلمهم الكتاب والحكمة}؛ معنى {ويزكيهم}؛ بالتربية على الأعمال الصالحة والتبري من الأعمال الردية التي لا تزكو النفس معها، {إنك أنت العزيز}؛ أي: القاهر لكلِّ شيء الذي لا يمتنع على قوته شيء {الحكيم}؛ الذي يضع الأشياء مواضعها، فبعزتك وحكمتك ابعث فيهم هذا الرسول.
فاستجاب اللهُ لهما؛ فبعث الله هذا الرسول الكريم الذي رحم الله به ذريتهما خاصة وسائر الخلق عامة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام: «أنا دعوة أبي إبراهيم».
[129] ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ﴾ یعنی ہماری اولاد میں رسول مبعوث فرما تاکہ وہ ان دونوں کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ لوگ اس کی اطاعت کریں اور اسے اچھی طرح پہچان لیں۔ فرمایا:
﴿یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ﴾ یعنی وہ لفظاً حفظاً اور حفظ کرانے کے لیے تیری آیات کی تلاوت کرے
﴿وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ یعنی معنیٰ کے اعتبار سے انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے
﴿وَیُزَكِّیْهِمْ﴾ یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تربیت کرے اور اعمال قبیحہ سے ان کو بچائے، کیونکہ قبیح اور ردی اعمال کے ہوتے ہوئے نفس پاک نہیں ہو سکتا
﴿اِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ یعنی تو ہر چیز پر غالب ہے۔ عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جس کی قوت کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکے
﴿ الْحَكِیْمُ﴾ حکیم اس ہستی کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔ پس تو اپنے غلبہ و حکمت کے تحت ان کے اندر اس رسول
(e)کو مبعوث فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں برگزیدہ نبیوں کی دعا قبول فرما لی اور تمام مخلوق پر عام طور پر اور اولاد ابراہیم و اسماعیل پر خاص طور پر رحم کرتے ہوئے اس رسول کریم
(e)کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہeفرمایا کرتے تھے: ’أَنَا دَعْوَۃُ أَبِی اِبْرَاھِیْمَ‘
(البدايۃ والنہايۃ، 2؍275 والصحیحۃ، رقم:1546،1545) ’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمuکو اس قدر عظمت و بلندی سے نوازا اور ان کی صفات کاملہ بیان فرمائیں تو فرمایا:
{وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (130) إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (131) وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (132) أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (133) تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (134)}
اور کون ہے جو بے رغبتی کرتا ہے ملت ابراہیم سے! مگر وہی جس نے نادانی کی اپنے نفس
(کے معاملے) میں اور بلاشبہ چن لیا ہم نے اس کو دنیا میں اور بے شک وہ آخرت میں نیکوں میں سے ہے
(130) جب کہا اس سے اس کے رب نے ،فرماں بردار ہو جا! تو کہا اس نے ،فرماں بردار ہو گیا میں واسطے رب العالمین کے
(131) اور وصیت کی اس
(کلمۂ اسلام) کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے، اے میرے بیٹو! یقیناً اللہ نے چن لیا ہے واسطے تمھارے یہ دین، پس نہ ہرگز مرنا تم، مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو
(132) کیا تھے تم موجود جب آئی یعقوب کو موت؟ جب کہا اس نے اپنے بیٹوں سے، کس چیز کی عبادت کرو گے تم میرے بعد؟ انھوں نے کہا، عبادت کریں گے ہم تیرے معبود کی اور تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود، یکتا کی اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں
(133) یہ ایک جماعت ہے جو گزر گئی، اسی کے لیے ہے جو کمایا اس نے اور تمھارے لیے ہے جو کمایا تم نے، اور نہیں سوال کیے جاؤ گے تم اس سے جو تھے وہ عمل کرتے
(134)
#
{130} أي: ما يرغب {عن ملة إبراهيم}؛ بعد ما عرف من فضله، {إلا من سفه نفسه}؛ أي: جهلها وامتهنها ورضي لها بالدون وباعها بصفقة المغبون كما أنه لا أرشد وأكمل ممَّن رغب في ملة إبراهيم، ثم أخبر عن حالته في الدنيا والآخرة فقال: {ولقد اصطفيناه في الدنيا}؛ أي: اخترناه ووفقناه للأعمال التي صار بها من المصطفين الأخيار، {وإنه في الآخرة لمن الصالحين}؛ الذين لهم أعلى الدرجات.
[130] یعنی وہ کون ہے جو حضرت ابراہیمuکی فضیلت کو پہچان لینے کے بعد ان کی ملت سے روگردانی کرے۔
﴿اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ﴾ یعنی ایسا شخص وہی ہو سکتا ہے جس نے اپنے نفس کو جاہل رکھ کر حقیر بنا دیا ہو۔ اپنے نفس کے لیے کمتر چیز پر راضی ہو اور گھاٹے کے سودے میں اسے فروخت کر دیا ہو۔ اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر کامل اور راست رو کوئی نہیں جو ملت ابراہیم میں رغبت رکھتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں حضرت ابراہیمuکی حالت کے بارے میں آگاہ فرمایا:
﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو چن لیا انھیں ایسے اعمال کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ چیدہ چیدہ نیک لوگوں میں شمار ہوئے ۔
﴿وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَ٘مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے‘‘ یعنی وہ نیک لوگ جو بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے۔
#
{131} {إذ قال له ربُّه أسلم قال}؛ امتثالاً لربه {أسلمتُ لربِّ العالمين}؛ إخلاصاً وتوحيداً ومحبة وإنابة فكان التوحيدُ للهِ نعته، ثم ورَّثه في ذريته ووصاهم به، وجعلها كلمة باقية في عقبه، وتوارثت فيهم حتى وصلت ليعقوبَ فوصى بها بنيه.
[131] ﴿اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ﴾ ’’اور جب انھیں ان کے رب نے کہا مطیع ہو جاؤ‘‘ تو
(اللہ تعالیٰ کے فرمان کے جواب میں) حضرت ابراہیمuنے نہایت فرماں برداری سے عرض کی
﴿ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ یعنی میں اخلاص، توحید، محبت اور انابت کے طور پر جہانوں کے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ کی توحید ان کی خاص صفت قرار پائی۔ پھر اس توحید کو حضرت ابراہیمuنے وراثت کے طور پر اپنی اولاد میں منتقل کیا۔ اس کی ان کو وصیت فرمائی اور اسے ایک ایسا کلمہ بنا دیا جو ان کے بعد بھی باقی رہا اور نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتا رہا حتیٰ کہ حضرت یعقوبuتک پہنچا اور انھوں نے اپنے بیٹوں کو اسی کلمہ توحید کی وصیت کی۔
پس اے اولاد یعقوب! تمھیں تمھارے باپ نے خاص طور پر وصیت کی ہے اس لیے نہایت کامل طریقے سے اس کی اطاعت کرنا اور خاتم الانبیاءeکی اتباع کرنا تم پر واجب ہے۔
#
{132} {يا بني إن الله اصطفى لكم الدين}؛ أي: اختاره، وتخيره لكم رحمة بكم وإحساناً إليكم، فقوموا به، واتصفوا بشرائعه، وانصبغوا بأخلاقه حتى تستمروا على ذلك فلا يأتيكم الموت إلا وأنتم عليه، لأن من عاش على شيء مات عليه، ومن مات على شيء بعث عليه.
[132] فرمایا:
﴿یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور احسان کرتے ہوئے تمھارے لیے دین کو چن لیا ہے، لہٰذا اس دین کو قائم کرو اس کی شرائع سے متصف اور اس کے اخلاق میں رنگ جاؤ، پھر ان کو دائمی طور پر اختیار کر لو۔ جب تمھیں موت آئے تو یہ اوصاف و اخلاق تمھارا اوڑھنا بچھونا ہوں۔ کیونکہ انسان جن اوصاف کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے انھی اوصاف کے ساتھ موت سے ہم آغوش ہوتا ہے اور جن اوصاف پر وہ مرتا ہے انھی اوصاف کے ساتھ اسے قیامت کے روز اٹھایا جائے گا۔
#
{133} ولما كان اليهود يزعمون أنهم على ملة إبراهيم ومن بعده يعقوب قال تعالى منكراً عليهم: {أم كنتم شهداء}؛ أي: حضوراً {إذ حضر يعقوب الموت}؛ أي: مقدماته وأسبابه فقال لبنيه على وجه الاختبار ولتقرَّ عينُه في حياته بامتثالهم ما وصاهم به: {ما تعبدون من بعدي}؛ فأجابوه بما قرت به عينُه فقالوا: {نعبد إلهك وإله آبائك إبراهيم وإسماعيل وإسحاق إلهاً واحداً}؛ فلا نشرك به شيئاً ولا نعدل به {ونحن له مسلمون}؛ فجمعوا بين التوحيد والعمل، ومن المعلوم أنهم لم يحضروا يعقوب، لأنهم لم يوجدوا بعد، فإذا لم يحضروا، فقد أخبر الله عنه أنه وصى بنيه بالحنيفية لا باليهودية، ثم قال تعالى:
[133] چونکہ یہودیوں کو زعم تھا کہ وہ ملت ابراہیم اور ان کے بعد ملت یعقوب پر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا انکار کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَؔ﴾ یعنی ’’کیا تم سب اس وقت موجود تھے‘‘
﴿اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْ٘مَوْتُ﴾ ’’جب یعقوبuکو موت آئی‘‘ یعنی جب موت کے مقدمات اور اسباب ظاہر ہوئے تو انھوں نے آزمائش اور امتحان کے طور پر اپنے بیٹوں سے پوچھا تاکہ ان کی وصیت پر ان کے بیٹوں کے عمل کرنے کی وجہ سے ان
(حضرت یعقوب) کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں
﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ﴾ ’’میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ پس یعقوبuکے بیٹوں نے انھیں ایسا جواب دیا جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں،
چنانچہ انھوں نے جواب دیا: ﴿نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبـَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا﴾ پس ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں گے نہ کسی کو اس کے برابر قرار دیں گے
﴿وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾ ’’اور ہم اس کے مطیع اور فرماں بردار ہیں۔‘‘ پس انھوں نے توحید اور عمل کو جمع کر دیا۔
یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہودی حضرت یعقوبuکی وفات کے وقت موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو ان کی وفات کے بعد وجود میں آئے۔ جب وہ اس وقت موجود نہ تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت یعقوبuنے اپنے بیٹوں کو یہودیت کی نہیں بلکہ حنیفیت کی وصیت فرمائی تھی۔
#
{134} {تلك أمة قد خلت}؛ أي: مضت {لها ما كسبت ولكم ما كسبتم}؛ أي: كلٌّ له عمله، وكلٌّ سيجازى بما فعله، لا يُؤَاخذ أحد بذنب أحد، ولا ينفع أحداً إلا إيمانه وتقواه، فاشتغالكم بهم وادعاؤكم أنكم على ملتهم والرضا بمجرد القول أمر فارغ لا حقيقة له، بل الواجب عليكم أن تنظروا حالتكم التي أنتم عليها هل تصلح للنجاة أم لا؟
[134] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿تِلْكَ اُمَّؔةٌ قَدْ خَلَتْ﴾ یعنی وہ امت گزر گئی
﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ﴾ ’’اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے وہ جو تم کماؤ گے‘‘ یعنی ہرشخص کا اپنا عمل ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کے فعل کی جزا دے گا۔ وہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا اور کسی شخص کو صرف اس کا اپنا ایمان اور تقویٰ ہی کام دے گا۔ پس تمھارا اس زعم میں مبتلا ہونا اور تمھارا یہ دعویٰ کہ تم ان انبیاءoکی ملت پر ہو مجرد دعویٰ اور ایک ایسا معاملہ ہے جو حقیقت سے خالی ہے، بلکہ تم پر فرض ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت پر غور کرو۔ کیا یہ نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟
{وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (135)}
اور کہا انھوں نے، ہو جاؤ تم یہودی یا عیسائی تو راہ پا جاؤ گے، کہہ دیجیے!بلکہ
(پیروی کرتے ہیں ہم) ملت ابراہیم کی، جو حنیف تھا اور نہیں تھا وہ مشرکوں سے
(135)
#
{135} أي: دعا كل من اليهود والنصارى المسلمين إلى الدخول في دينهم زاعمين أنهم هم المهتدون وغيرهم ضال، [قل] له مجيباً جواباً شافياً {بل}؛ نتبع {ملة إبراهيم حنيفاً}؛ أي: مقبلاً على الله معرضاً عما سواه قائماً بالتوحيد تاركاً للشرك والتنديد، فهذا الذي في اتباعه الهداية وفي الإعراض عن ملته الكفر والغواية.
[135] یعنی یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کو اپنے اپنے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی،
ان میں سے ہر ایک اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ وہ ہدایت یافتہ ہے اور دوسرے گمراہ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰؔهٖمَ حَنِیْفًا﴾ بلکہ ہم تو ملت ابراہیم کی اتباع کرتے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیمuہر طرف سے منہ موڑ کر توحید کو قائم کرتے ہوئے اور شرک کو ترک کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے۔ یہی وہ ہستی ہے جس کی پیروی میں ہدایت اور جس کی ملت سے روگردانی کرنا کفر اور گمراہی ہے۔
{قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136)}
کہو تم ایمان لائے ہم ساتھ اللہ کے اور ساتھ اس کے جو نازل کیا گیا ہماری طرف اور جو نازل کیا گیا طرف ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور
(اس کی) اولاد کی اور جو دیے گئے موسیٰ اور عیسیٰ اور جو دیے گئے انبیاء اپنے رب کی طرف سے، نہیں فرق کرتے ہم درمیان کسی ایک کے ان میں سے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں
(136)
#
{136} هذه الآية الكريمة قد اشتملت على جميع ما يجب الإيمان به. واعلم أن الإيمان الذي هو تصديق القلب التام بهذه الأصول، وإقراره المتضمن لأعمال القلوب والجوارح، وهو ـ بهذا الاعتبار ـ يدخل فيه الإسلام وتدخل فيه الأعمال الصالحة كلها، فهي من الإيمان وأثر من آثاره، فحيث أطلق الإيمان دخل فيه ما ذكر، وكذلك الإسلام إذا أطلق دخل فيه الإيمان، فإذا قرن بينهما كان الإيمان اسماً لما في القلب من الإقرار والتصديق، والإسلام اسماً للأعمال الظاهرة. وكذلك إذا جمع بين الإيمان والأعمال الصالحة.
فقوله تعالى: {قولوا}؛ أي: بألسنتكم متواطئة عليها قلوبكم، وهذا هو القول التام المترتب عليه الثواب والجزاء، فكما أن النطق باللسان بدون اعتقاد القلب نفاق وكفر، فالقول الخالي من العمل عمل القلب عديم التأثير قليل الفائدة، وإن كان العبد يؤجر عليه إذا كان خيراً ومعه أصل الإيمان، لكن فرق بين القول المجرد والمقترن به عمل القلب.
وفي قوله {قولوا}؛ إشارة إلى الإعلان بالعقيدة والصدع بها والدعوة لها، إذ هي أصل الدين وأساسه، وفي قوله {آمنا}؛ ونحوه مما فيه صدور الفعل منسوباً إلى جميع الأمة إشارة إلى أنه يجب على الأمة الاعتصام بحبل الله جميعاً والحث على الائتلاف حتى يكون داعيهم واحداً وعملهم متحداً، وفي ضمنه النهي عن الافتراق. وفيه أن المؤمنين كالجسد الواحد.
وفي قوله: {قولوا آمنا بالله ... } الخ؛ دلالة على جواز إضافة الإنسان إلى نفسه الإيمان على وجه التقييد، بل على وجوب ذلك، بخلاف قوله أنا مؤمن ونحوه فإنه لا يقال إلا مقروناً بالاستثناء بالمشيئة لما فيه من تزكية النفس والشهادة على نفسه بالإيمان، فقوله: {آمنا بالله}؛ أي: بأنه واجب الوجود واحد أحد متصف بكل صفة كمال، منزه عن كل نقص وعيب، مستحق لإفراده بالعبادة كلها وعدم الإشراك به في شيء منها بوجه من الوجوه.
{وما أنزل إلينا}؛ يشمل القرآن والسنة لقوله تعالى: {وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة}؛ فيدخل فيه الإيمان بما تضمنه كتاب الله وسنة رسوله من صفات الباري وصفات رسله واليوم الآخر والغيوب الماضية والمستقبلة، والإيمان بما تضمنه ذلك من الأحكام الشرعية الأمرية وأحكام الجزاء وغير ذلك {وما أنزل إلى إبراهيم ... }؛ إلى آخر الآية، فيه الإيمان بجميع الكتب المنزلة على جميع الأنبياء، والإيمان بالأنبياء عموماً وخصوصاً ما نص عليه في الآية لشرفهم ولإتيانهم بالشرائع الكبار، فالواجب في الإيمان بالأنبياء والكتب أن يؤمن بهم على وجه العموم والشمول، ثم ما عرف منهم بالتفصيل وجب الإيمان به مفصلاً.
وقوله: {لا نفرق بين أحد منهم}؛ أي: بل نؤمن بهم كلهم، هذه خاصية المسلمين التي انفردوا بها عن كلِّ من يدعي أنه على دين، فاليهود والنصارى والصابئون وغيرهم وإن زعموا أنهم يؤمنون بما يؤمنون به من الرسل والكتب فإنهم يكفرون بغيره فيفرقون بين الرسل والكتب، بعضها يؤمنون به وبعضها يكفرون به، وينقض تكذيبهم تصديقهم، فإن الرسول الذي زعموا أنهم قد آمنوا به قد صدق سائر الرسل وخصوصاً محمداً - صلى الله عليه وسلم -، فإذا كذبوا محمداً فقد كذبوا رسولهم فيما أخبرهم به فيكون كفراً برسولهم، وفي قوله: {وما أوتي النبيون من ربهم}؛ دلالة على أن عطية الدين هي العطية الحقيقية المتصلة بالسعادة الدنيوية والأخروية، لم يأمرنا أن نؤمن بما أوتي الأنبياء من الملك والمال ونحو ذلك، بل أمرنا أن نؤمن بما أعطوا من الكتب والشرائع، وفيه أن الأنبياء مبلغون عن الله ووسائط بين الله وبين خلقه في تبليغ دينه، ليس لهم من الأمر شيء.
وفي قوله: {من ربهم}؛ إشارة إلى أنه من كمال ربوبيته لعباده أن ينزل عليهم الكتب ويرسل إليهم الرسل، فلا تقتضي ربوبيته تركهم سدى ولا هملاً، وإذا كان ما أوتي النبيون إنما هو من ربهم ففيه الفرق بين الأنبياء وبين من يدعي النبوة، وأنه يحصل الفرق بينهم بمجرد معرفة ما يدعون إليه، فالرسل لا يدعون إلا لخير ولا ينهون إلا عن كل شر، وكل واحد منهم يصدق الآخر ويشهد له بالحق من غير تخالف ولا تناقض لكونه من عند ربهم، {فلو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيراً}؛ وهذا بخلاف من ادعى النبوة فلا بد أن يتناقضوا في أخبارهم وأوامرهم ونواهيهم كما يعلم ذلك من سبر أحوال الجميع وعرف ما يدعون إليه، فلما بين تعالى جميع ما يؤمن به عموماً وخصوصاً وكان القول لا يغني عن العمل قال: {ونحن له مسلمون}؛ أي: خاضعون لعظمته منقادون لعبادته بباطننا وظاهرنا مخلصون له العبادة، بدليل تقديم المعمول وهو {له}؛ على العامل وهو، {مسلمون}.
فقد اشتملت هذه الآية الكريمة على إيجازها واختصارها على أنواع التوحيد الثلاثة: توحيد الربوبية، وتوحيد الألوهية، وتوحيد الأسماء والصفات.
واشتملت على الإيمان بجميع الرسل وجميع الكتب، وعلى التخصيص الدال على الفضل بعد التعميم، وعلى التصديق بالقلب واللسان والجوارح والإخلاص لله في ذلك، وعلى الفرق بين الرسل الصادقين ومن ادعى النبوة من الكاذبين، وعلى تعليم الباري عباده كيف يقولون، ورحمته وإحسانه عليهم بالنعم الدينية المتصلة بسعادة الدنيا والآخرة. فسبحان من جعل كتابه تبياناً لكل شيء وهدى ورحمة لقوم يؤمنون.
[136] یہ آیت کریمہ ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ جان لیجیے کہ ایمان، جو ان اصولوں کے ساتھ دل کی پوری تصدیق کا نام ہے اور اس کا اقرار، قلوب اور اعضاء کے اعمال کو متضمن ہے اور اس اعتبار سے اس میں اسلام داخل ہے اور اس میں تمام اعمال صالحہ بھی داخل ہیں۔ پس تمام اعمال صالحہ ایمان کا حصہ اور اس کے آثار میں سے ہیں۔ جب ایمان کا علی الاطلاق ذکر ہو گا تو مذکورہ امور اس میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر کیا جائے گا تو ایمان بھی اس کے اندر داخل ہو گا۔ جب ایمان اور اسلام کو مقرون اور ایک ساتھ ذکر کیا جائے گا تب ایمان، قلب کے اقرار و تصدیق کا نام اور اسلام، اعمال ظاہرہ کا نام ہو گا۔ اور اسی طرح جب ایمان اور اعمال صالحہ کو جمع کیا جائے گا
(تو یہی اصول ہو گا۔)
ارشاد فرمایا:
﴿قُ٘وْلُوْۤا﴾ یعنی اپنی زبان سے کہو اور تمھارے دل تمھارے اس قول کی موافقت کرتے ہوں۔ یہی وہ کامل قول ہے جس پر ثواب اور جزا مرتب ہوتے ہیں، پس جیسے قلبی اعتقاد کے بغیر محض زبان سے ایمان کا اظہار نفاق اور کفر ہے۔ اسی طرح وہ قول، جو عمل سے عاری ہو، عمل قلب ہے جو تاثیر سے محروم اور بہت کم مفید ہے، تاہم اگر یہ قول کوئی بھلائی کی بات ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں ایمان بھی موجود ہو تو بندۂ مومن کو اس پر اجر ملتا ہے۔ لیکن مجرد قول اور اس قول کے درمیان فرق ہے جو عمل قلب کے ساتھ مقرون ہو۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿قُ٘وْلُوْۤا﴾ میں عقیدے کے اعلان و اظہار اور اس کی طرف دعوت دینے کا اشارہ ہے کیونکہ عقیدہ دین کی اصل اور اس کی اساس ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿اٰمَنَّا﴾ وغیرہ میں جس میں فعل کا صادر ہونا مذکور ہو اور تمام امت کی طرف منسوب ہو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تمام امت پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو اکٹھے ہو کر مضبوطی سے پکڑے رکھے ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت سے رہے، یہاں تک کہ ان کا داعی ایک اور ان کا عمل متحد ہو۔ اسی سے افتراق اور تشتت کی ممانعت بھی نکلتی ہے۔ نیز اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل ایمان جسد واحد کی مانند ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿قُ٘وْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے اپنے نفس کی طرف ایمان کی اضافت کرنا جائز ہے مگر مقید طور پر بلکہ اس اضافت کے وجوب کی دلیل ہے۔ اس کے برعکس
(اَنَا مُؤمِنٌ) ’’میں مومن ہوں‘‘ کہنے کا معاملہ ہے، تو اس طرح کہنا صرف ان شاء اللہ کے ساتھ جائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو پاک کہنے اور اپنے آپ پر ایمان کی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔
﴿ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ﴾ یعنی ہم اس حقیقت پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ وہ ایک ہے وہ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص اور عیب سے منزہ ہے۔ تمام عبادات کا اکیلا وہی مستحق ہے۔ ان عبادات میں کسی بھی پہلو سے کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں۔
﴿وَمَاۤ اُ٘نْزِلَ اِلَیْنَا﴾ اس میں قرآن اور سنت دونوں شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
﴿وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ (النساء: 4؍113) ’’اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔‘‘ اس میں ان تمام چیزوں پر ایمان لانا داخل ہے جو کتاب و سنت میں ذکر کی گئی ہیں، مثلاً باری تعالیٰ کی صفات، انبیاء و مرسلین کی صفات، روز قیامت، گزرے ہوئے اور آنے والے غیبی امور، نیز تمام شرعی احکام اور ثواب و عقاب کے احکام پر ایمان لانا۔
﴿ وَ مَاۤ اُ٘نْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰؔهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ ......وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾اس آیت کریمہ میں ان تمام کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو تمام انبیاء و مرسلین پر نازل کی گئی ہیں۔ عمومی اور خصوصی طور پر انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا، جو کہ اس آیت کریمہ میں منصوص ہیں ان کے شرف و تکریم کے باعث اور اس سبب سے ہے کہ وہ بڑی بڑی شریعتیں لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ پس انبیائے کرام اور کتب سابقہ پر ایمان لانے میں جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر عمومی طورپر ایمان لایا جائے۔ پھر جس چیز کی تفصیل کی معرفت حاصل ہوجائے اس پر مفصل ایمان لایا جائے۔
﴿وَمَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَؔ مِنْ رَّبِّهِمْ﴾ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا عطیہ ہی دراصل حقیقی عطیہ ہے جو انسان کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم انبیائے کرام کی حکومتوں اور ان کو عطا کیے گئے مال و متاع وغیرہ پر ایمان لائیں۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کو عطا کی گئی کتابوں اور شریعتوں پر ایمان لائیں۔
اس آیت کریمہ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیاء کرامoاللہ تعالیٰ کی طرف سے
(دین) پہنچانے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین دین پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ حقیقت میں وہ کسی اختیار کے مالک نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ مِنْ رَّبِّهِمْ﴾ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کمال ربوبیت کی بنا پر ان پر کتابیں نازل کیں اور ان کی طرف رسول مبعوث کیے ہیں۔ پس اس کی ربوبیت یہ تقاضا نہیں کرتی کہ انسانوں کو بیکار اور بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ جب صورت یہ ہے کہ جو کچھ انبیائے کرامoکو عطا کیا گیا وہ ان کے رب کی طرف سے ہے۔ تو اس سے انبیاء کرامoاور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ نیز انبیاء کرامoاور مدعیان نبوت کے درمیان فرق ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صرف بھلائی کی دعوت دیتے ہیں اور صرف برائی سے روکتے ہیں۔ ان میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصدیق کرتا اور اس کے لیے حق کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی دعوت میں تناقض اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی دعوت ان کے رب کی طرف سے ہوتی ہے۔
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا﴾ (النساء : 4؍82) ’’اگر یہ
(قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلافات پاتے۔‘‘
﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ﴾ یعنی ہم تمام انبیاء پر
(بلا تفریق) ایمان لاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کی بنا پر وہ ان تمام لوگوں میں منفرد ہیں جو کسی
(آسمانی) دین کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پس یہود و نصاریٰ اور صابی وغیرہ اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انبیاء و رسل اور کتب منزلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دیگر کتب کا انکار کرتے ہیں۔ پس وہ انبیاء و مرسلین اور کتب منزلہ کے مابین تفریق کرتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تکذیب خود ان کی تصدیق کو توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ وہ رسول جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہوتی ہے۔ خاص طور پر محمد مصطفیٰeکی۔ پس جب وہ محمد مصطفیٰeکی تکذیب کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ ان کا ان کے رسول کے ساتھ کفر ہے۔
اس کے برعکس جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس قسم کے جھوٹے نبیوں کی دی ہوئی خبروں اور ان کے اوامر و نواہی میں ضرور تناقض ہوتا ہے جیسا کہ اس قسم کے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کی سیرت اور ان کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بیان کر دیا جن پر عمومی اور خصوصی طور پر ایمان لانا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ قول، عمل سے کفایت نہیں کرتا،
تو فرمایا: ﴿وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾ یعنی ہم اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ہم اپنے ظاہر و باطن سے اس کی عبودیت کے لیے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ہم اس کی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہیں اور اس مفہوم کے لیے دلیل یہ ہے کہ معمول کو عامل پر مقدم رکھا ہے
﴿لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾ میں
(لَہُ) معمول ہے اور
(مُسْلِمُوْن) عامل ہے۔
(اس انداز بیان سے اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔)
یہ آیت کریمہ اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے۔ وہ ہیں توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات۔
یہ آیت کریمہ تمام انبیاء و رسلoاور تمام کتابوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔
یہ آیت کریمہ عموم کے بعد اس تخصیص پر مشتمل ہے جو فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
یہ آیت کریمہ دل ، زبان اور جوارح کی تصدیق اور اخلاص للہ پر مشتمل ہے۔
یہ آیت کریمہ سچے انبیاء و رسل اور جھوٹے مدعیان نبوت کے مابین فرق و امتیاز کو شامل ہے۔
یہ آیت باری تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے اس تعلیم پر مشتمل ہے کہ وہ
(اپنے ایمان کا) کیسے اظہار کیا کریں ،نیز اس کی رحمت اور بندوں پر اس کے احسان کو شامل ہے جو اس نے ان کو دینی نعمتوں سے نواز کر کیا، یہ نعمتیں انھیں دنیاوی اور اخروی سعادت کی منزل پر پہنچاتی ہیں۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب کو ایسا جامع بنایا کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
{فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137)}
پس اگر وہ ایمان لائیں ساتھ اس چیز کے کہ ایمان لائے تم ساتھ اس کے، تو یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہوگئے اور اگر وہ اعراض کریں تو وہی ہیں مخالفت میں، سو ضرور کفایت کرے گا آپ کو ان سے اللہ، اور وہی ہے خوب سننے والا خوب جاننے والا
(137)
#
{137} أي: فإن آمن أهل الكتاب بمثل ما آمنتم به يا معشر المؤمنين من جميع الرسل، وجميع الكتب، الذين أول من دخل فيهم وأولى خاتمهم وأفضلهم محمد - صلى الله عليه وسلم -، والقرآن، وأسلموا لله وحده ولم يفرقوا بين أحد من الرسل ، {فقد اهتدوا}؛ للصراط المستقيم الموصل لجنات النعيم؛ أي فلا سبيل لهم إلى الهداية إلا بهذا الإيمان، لا كما زعموا بقولهم كونوا هوداً أو نصارى تهتدوا فزعموا أن الهداية خاصة بما كانوا عليه.
والهدى: هو العلم بالحق والعمل به، وضده الضلال عن العلم، والضلال عن العمل بعد العلم وهو الشقاق الذي كانوا عليه لما تولوا وأعرضوا، فالمشاق هو الذي يكون في شقٍّ والله ورسوله في شقٍّ، ويلزم من المشاقة المحادَّة والعداوة البليغة التي من لوازمها بذل ما يقدرون عليه من أذية الرسول، فلهذا وعد الله رسوله أن يكفيه إياهم لأنه {السميع} لجميع الأصوات باختلاف اللغات على تفنن الحاجات. {العليم} بما بين أيديهم وما خلفهم بالغيب والشهادة بالظواهر والبواطن، فإذا كان كذلك كفاك الله شرهم، وقد أنجز الله لرسوله وعده، وسلطه عليهم حتى قتل بعضهم، وسبى بعضهم، وأجلى بعضهم، وشردهم كل مشرد، ففيه معجزة من معجزات القرآن وهو الإخبار بالشيء قبل وقوعه فوقع طبق ما أخبر.
[137] یعنی اے اہل ایمان اگر اہل کتاب اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم تمام انبیاء و مرسلینoاور تمام کتابوں پر ایمان لائے ہو، جن میں سب سے پہلے اور سب سے اولیٰ ہستی جس پر ایمان لایا جائے، حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاءeہیں جو تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن ہے۔ اور انھوں نے اللہ وحدہ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی۔
﴿فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ تو ان کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی مل گئی جو نعمتوں والی جنت تک پہنچانے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے اس ایمان کے بغیر ہدایت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو وہ دعویٰ کرتے ہیں
﴿كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى تَهْتَدُوْا﴾ یعنی یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو تم راہ راست پا لو گے پس وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہدایت تو صرف وہی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔
اور ’اَلْھُدٰی‘ ’’ہدایت‘‘ نام ہے حق کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کا اور اس کی ضد علم سے محرومی اور علم کے بعد عملی گمراہی ہے اور یہی وہ شقاق
(دشمنی اور مخالفت) ہے جس پر وہ قائم تھے، کیونکہ وہ پیٹھ پھیر کر روگردانی کر رہے تھے۔ پس مبتلائے شقاق وہ شخص ہے جو ایک طرف ہوتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول دوسری طرف۔ اس شقاق
(مخالفت) سے دشمنی اور انتہا درجے کی عداوت لازم آتی ہے جس کے لوازمات میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ عداوت میں مبتلا لوگ رسول کو اذیت دینے میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeسے وعدہ کیا کہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں ان کے لیے کافی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے اختلاف زبان اور ان کی متنوع حاجات و ضروریات کے باوجود سب کی آوازیں سنتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو وہ سب جانتا ہے۔ غائب اور شاہد، ظاہر اور باطن سب اس کے دائرۂ علم میں ہیں۔ پس جب بات اس طرح ہے تو ان کے شر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تیرے لیے کافی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeسے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، آپ کو ان پر غلبہ اور تسلط عطا کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگوں کو قتل کیا بعض کو قیدی اور غلام بنا لیا گیا اور بعض کو جلاوطن کر کے انھیں پوری طرح تتر بتر کر دیا گیا۔
اس آیت کریمہ میں قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزے کی طرف اشارہ ہے۔ اور وہ ہے کسی چیز کے واقع ہونے سے قبل اس کے وقوع کے بارے میں خبر دینا پھر اس کا عین دی ہوئی خبر کے مطابق واقع ہونا۔
{صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (138)}
(اختیار کرو) رنگ اللہ کااور کون زیادہ اچھا ہے اللہ سے رنگ میں؟ اور ہم اسی کے عبادت گزار ہیں
(138)
#
{138} أي: الزموا صبغة الله وهو دينه، وقوموا به قياماً تامًّا بجميع أعماله الظاهرة والباطنة وجميع عقائده في جميع الأوقات حتى يكون لكم صبغة وصفة من صفاتكم، فإذا كان صفة من صفاتكم أوجب ذلك لكم الانقياد لأوامره طوعاً واختياراً ومحبة، وصار الدين طبيعة لكم بمنزلة الصبغ التام للثوب الذي صار له صفة، فحصلت لكم السعادة الدنيوية والأخروية لحثِّ الدين على مكارم الأخلاق ومحاسن الأعمال ومعالي الأمور.
فلهذا قال على سبيل التعجب المتقرر للعقول الزكية؛ {ومن أحسن من الله صبغة}؛ أي: لا أحسن صبغة من صبغته ، وإذا أردت أن تعرف نموذجاً يبين لك الفرق بين صبغة الله وبين غيرها من الصبغ فقس الشيء بضده، فكيف ترى في عبد آمن بربه إيماناً صحيحاً أثر معه خضوع القلب وانقياد الجوارح، فلم يزل يتحلى بكل وصف حسن وفعل جميل وخلق كامل ونعت جليل، ويتخلى من كل وصف قبيح ورذيلة وعيب فَوَصْفُهُ الصدق في قوله وفعله والصبر والحلم والعفة والشجاعة والإحسان القولي والفعلي ومحبة الله وخشيته وخوفه ورجاؤه، فحاله الإخلاص للمعبود والإحسان لعبيده، فقسه بعبد كفر بربه وشرد عنه وأقبل على غيره من المخلوقين فاتصف بالصفات القبيحة من الكفر والشرك والكذب والخيانة والمكر والخداع وعدم العفة والإساءة إلى الخلق في أقواله وأفعاله فلا إخلاص للمعبود ولا إحسان إلى عبيده؛ فإنه يظهر لك الفرق العظيم بينهما، ويتبين لك أنه لا أحسن [صبغة] من صبغة الله، وفي ضمنه أنه لا أقبح صبغة ممن انصبغ بغير دينه.
وفي قوله: {ونحن له عابدون}؛ بيان لهذه الصبغة وهي القيام بهذين الأصلين الإخلاص والمتابعة؛ لأن العبادة: اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه من الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة، ولا تكون كذلك حتى يشرعها الله على لسان رسوله. والإخلاص أن يقصد العبد وجه الله وحده في تلك الأعمال، فتقديم المعمول يؤذن بالحصر، وقال: {ونحن له عابدون}؛ فوصفهم باسم الفاعل الدال على الثبوت والاستقرار؛ ليدلَّ على اتصافهم بذلك [وكونه صار صبغةً لهم ملازماً].
[138] یعنی اللہ کا رنگ اختیار کر لو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمھارا رنگ اور تمھاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمھاری صفت بن جائے گا تو یہ تمھارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمھاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طورپر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمھیں دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل ہو جائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند مرتبہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب،
پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمھارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔
آپ اس بندۂ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں ، پس بندۂ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کاخوف اور اس سے امید رکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہو جاتا ہے۔ اس کامقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا اور اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بدکرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے اور نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔
اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہو جاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں ،نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿وَّنَحْنُ لَهٗ عٰؔبِدُوْنَ﴾ میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ’’عبادت‘‘ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندۂ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا
(یعنی ’’عَابِدُوْنَ لَہُ‘‘ کی بجائے ’’لَہُ عَابِدُوْنَ‘‘ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔
(وَّنَحْنُ لَهٗ عٰؔبِدُوْنَ) اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل
(عَابِدُوْن) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔
{قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (139)}
کہہ دیجیے! کیا جھگڑتے ہو تم ہم سے اللہ کے بارے میں، حالانکہ وہ رب ہے ہمارا اور تمھارا اور ہمارے لیے ہیں ہمارے عمل اور تمھارے لیے ہیں تمھارے عمل اور ہم تو اسی کے لیے خالص عمل کرنے والے ہیں
(139)
#
{139} المحاجة: هي المجادلة بين اثنين فأكثر تتعلق في المسائل الخلافية حتى يكون كل من الخصمين يريد نصرة قوله وإبطال قول خصمه، فكل واحد منهما يجتهد في إقامة الحجة على ذلك، والمطلوب منها أن تكون بالتي هي أحسن بأقرب طريق يرد الضال إلى الحق، ويقيم الحجة على المعاند، ويوضح الحق، ويبين الباطل، فإن خرجت عن هذه الأمور كانت مماراة ومخاصمة لا خير فيها، وأحدثت من الشرِّ ما أحدثت، فكان أهل الكتاب يزعمون أنهم أولى بالله من المسلمين، وهذا مجرد دعوى تفتقر إلى برهان ودليل، فإذا كان رب الجميع واحداً ليس ربًّا لكم دوننا، وكلٌّ منا ومنكم له عمله، فاستوينا نحن وأنتم بذلك، فهذا لا يوجب أن يكون أحد الفريقين أولى بالله من غيره؛ لأن التفريق مع الاشتراك في الشيء من غير فرق مؤثر دعوى باطلة، وتفريق بين متماثلين ومكابرة ظاهرة، وإنما يحصل التفضيل بإخلاص الأعمال الصالحة لله وحده، وهذه الحالة وصف المؤمنين وحدهم فتعين أنهم أولى بالله من غيرهم لأن الإخلاص هو الطريق إلى الخلاص.
فهذا هو الفرق بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان بالأوصاف الحقيقية التي يسلمها أهل العقول ولا ينازع فيها إلا كل مكابر جهول، ففي هذه الآية إرشاد لطيف لطريق المحاجة، وأن الأمور مبنية على الجمع بين المتماثلين، والفرق بين المختلفين.
[139] (مَحَاجَۃ) دو یا دو سے زائد افراد کے درمیان اس مباحثہ اور مجادلہ کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق اختلافی مسائل سے ہوتا ہے، ہر فریق اپنے مدمقابل کے خلاف اپنی بات میں کامیابی حاصل کرنا اور مدمقابل کے قول کا ابطال کرنا چاہتا ہے، اس لیے دونوں ہی دلیل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں مطلوب یہ ہے کہ یہ مباحثہ نہایت احسن طریقے سے ہو۔ قریب ترین راستے کے ذریعے سے گمراہ کو حق کی طرف لوٹایا جائے۔ فریق مخالف کے سامنے دلیل بیان کر کے حق اورباطل کو واضح کر دیا جائے۔ اگر آپ ان مذکورہ امور سے باہر نکل جائیں تو مباحثہ نہیں بلکہ جھگڑا کہلائے گا۔ یہ ایک مخاصمت ہو گی جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور اس جھگڑے اور مخاصمت سے برائی جنم لیتی ہے۔
پس اہل کتاب اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ مسلمانوں کی نسبت، وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ ان کا محض دعویٰ تھا جو دلیل اور برہان کا محتاج تھا۔۔۔ جب تمام لوگوں کا رب ایک ہے تمھارا کوئی اور رب نہیں۔ ہم اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے۔ تو اعمال بجا لانے میں ہم اور آپ برابر ہیں۔ پس یہ چیز اس بات کی ہرگز موجب نہیں کہ ہم میں سے کوئی، دوسرے سے زیادہ، اللہ تعالیٰ، کے قریب ہے۔ کیونکہ کسی مشترک چیز میں بغیر کسی موثر فرق کے تفریق کرنا محض باطل دعویٰ، ایک جیسی دو چیزوں کے مابین تفریق پیدا کرنا اور کھلا انکار حق ہے۔
فضیلت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اعمال کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور یہ حالت صرف اہل ایمان کا وصف ہے۔ اور اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان ہی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے کہ اخلاص ہی نجات کا راستہ ہے۔ یہی وہ حقیقی اوصاف ہیں جن سے اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین فرق ہوتا ہے جنھیں تمام عقلمند لوگ تسلیم کرتے ہیں اور جاہل منکر حق کے سوا کوئی اس میں نزاع پیدا نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ میں نہایت لطیف طور پر طریق مباحثہ کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ تمام امور اس اصول پر مبنی ہیں کہ دو متماثل اشیاء اکٹھی ہوتی ہیں اور دو مختلف اشیاء میں فرق ہوتا ہے۔
{أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (140)}
کیا کہتے ہو تم کہ بے شک ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور
(اس کی) اولاد تھے وہ یہودی یا عیسائی؟ کہہ دیجیے! کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے چھپائی وہ گواہی جو اس کے پاس ہے اللہ کی طرف سے؟ اور نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(140)
#
{140} وهذه دعوى أخرى منهم ومحاجة في رسل الله زعموا أنهم أولى بهؤلاء الرسل المذكورين من المسلمين؛ فردَّ الله عليهم بقوله: {أأنتم أعلم أم الله}؛ فالله يقول: {ما كان إبراهيم يهودياً ولا نصرانياً ولكن كان حنيفاً مسلماً وما كان من المشركين}؛ وهم يقولون بل كان يهودياً أو نصرانياً، فإما أن يكونوا هم الصادقين العالمين أو يكون الله تعالى هو الصادق العالم بذلك، فأحد الأمرين متعين لا محالة، وصورة الجواب مبهم وهو في غاية الوضوح والبيان، حتى أنه من وضوحه لم يحتج أن يقول بل الله أعلم وهو أصدق، ونحو ذلك لانجلائه لكل أحد، كما إذا قيل الليل أنور أم النهار؟ والنار أحر أم الماء؟ والشرك أحسن أم التوحيد؟ ونحو ذلك، وهذا يعرفه كل من له أدنى عقل حتى أنهم بأنفسهم يعرفون ذلك ويعرفون أن إبراهيم وغيره من الأنبياء لم يكونوا هوداً ولا نصارى، فكتموا هذا العلم وهذه الشهادة، فلهذا كان ظلمهم أعظم الظلم، ولهذا قال تعالى: {ومن أظلم ممن كتم شهادة عنده من الله}؛ فهي شهادة عندهم مودعة من الله لا من الخلق فيقتضي الاهتمام بإقامتها، فكتموها وأظهروا ضدها، جمعوا بين كتم الحق وعدم النطق به وإظهار الباطل والدعوة إليه، أليس هذا أعظم الظلم؟ بلى والله وسيعاقبهم عليه أشد العقوبة، فلهذا قال: {وما الله بغافل عما تعملون}؛ بل قد أحصى أعمالهم وعدها وادَّخر لهم جزاءها، فبئس الجزاءُ جزاؤهم، وبئست النار مثوى للظالمين.
وهذه طريقة القرآن في ذكر العلم والقدرة عقب الآيات المتضمنة للأعمال التي يجازى عليها، فيفيد ذلك الوعد والوعيد والترغيب والترهيب، ويفيد أيضاً ذكر الأسماء الحسنى بعد الأحكام أن الأمر الديني والجزائي أثرٌ من آثارها وموجب من موجباتها وهي مقتضية له. ثم قال تعالى:
[140] یہ ان کی طرف سے ایک اور دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے بارے میں ایک اور مباحثہ ہے۔ انھوں نے گمان کیا کہ وہ مسلمانوں کی نسبت مذکورہ رسولوں کے زیادہ قریب ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ﴾ ’’کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟
‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا١ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ (آل عمران:3؍67) ’’ابراہیم یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور وہ مشرکین میں سے بھی نہ تھے۔‘‘ اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیمuیہودی یا نصرانی تھے۔ اس بارے میں یا تو وہ سچے اور علم سے بہرہ ور ہیں یا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا اور سچا ہے ان دو باتوں میں سے لامحالہ صرف ایک ہی بات صحیح ہے۔
جواب کی صورت مبہم ہے مگر جواب درحقیقت بہت واضح ہے حتیٰ کہ جواب میں یہ بھی کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی ’’بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ علم رکھنے والا اور زیادہ سچا ہے‘‘ کیونکہ یہ جواب ہر شخص پر واضح ہے۔
مثلاً جب یہ کہا جائے کہ رات زیادہ روشن ہے یا دن؟ آگ زیادہ گرم ہے یا پانی؟ اور شرک زیادہ اچھی چیز ہے یا توحید؟ اور اس قسم کا کوئی اور سوال۔
(اس کا جواب اتنا واضح ہے کہ جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔) ایک ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے حتیٰ کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیمuاور دیگر انبیاء یہودی تھے نہ نصرانی، انھوں نے اس علم اور اس گواہی کو چھپانے کے گناہ کا ارتکاب کیا،
لہٰذا ان کا ظلم سب سے بڑا ظلم ہے۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ﴾ ’’اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس شہادت کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے‘‘ پس یہ شہادت جو ان کے پاس تھی، اللہ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی نہ کہ مخلوق کی طرف سے، اس لیے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری تھا، لیکن انھوں نے اسے چھپایا اور اس کے برعکس باتوں کو ظاہر کیا۔
چنانچہ انھوں نے حق کے چھپانے، اسے بیان نہ کرنے اور اظہار باطل اور اس کی طرف دعوت دینے کو ایک جگہ جمع کر دیا۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم نہیں؟ کیوں نہیں اللہ کی قسم! یہ سب سے بڑا ظلم ہے اس پر انھیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا،
اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’وہ تمھارے اعمال سے غافل نہیں‘‘ بلکہ اس نے تمھارے اعمال کو شمار کر کے محفوظ کر لیا ہے اور ان کی جزا بھی محفوظ کی ہوئی ہے۔ پس ان کی جزا بہت بری جزا ہے اور بری ہے جہنم کی آگ، جو ظالموں کا ٹھکانا ہے۔
قرآن کریم کاطریقہ یہ ہے کہ وہ ان آیات کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرتا ہے جن میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہوتا ہے جن پر سزا و جزا مرتب ہوتی ہے پس ان آیات کریمہ کے عقب میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرنا وعد ہ و وعیداور ترغیب و ترہیب کا فائدہ دیتا ہے۔ نیز احکام کے عقب میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر کرنا اس امر کا فائدہ دیتا ہے کہ امر دینی و جزائی اسمائے حسنیٰ کے آثار اور اس کے موجبات میں سے ہے اور اسمائے حسنیٰ اس امر دینی و جزائی کا تقاضا کرتے ہیں۔
{تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (141)}.
یہ ایک جماعت ہے، تحقیق گزر گئی وہ، اسی کے لیے ہے جو کمایا اس نے اور تمھارے لیے ہے جو کمایا تم نے، اور نہیں سوال کیے جاؤ گے تم اس سے جو تھے وہ عمل کرتے۔
#
{141} تقدم تفسيرها وكررها لقطع التعلق بالمخلوقين، وإن المعول عليه ما اتصف به الإنسان لا عمل أسلافه وآبائه، فالنفع الحقيقي بالأعمال لا بالانتساب المجرد للرجال.
[141] اس کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مکرر ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ مخلوق سے اپنا تعلق منقطع کر لیں۔ بھروسہ صرف اسی عمل اور اسی صفت پر کرنا چاہیے جس سے انسان خود متصف ہو، نہ کہ اپنے اسلاف اور اپنے آباء و اجداد کے اعمال پر، کیونکہ اپنے اعمال ہی حقیقی فائدہ دیتے ہیں نہ کہ بڑے انسانوں کی طرف انتساب محض۔
{سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (142) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا}
عنقریب کہیں گے بیوقوف لوگوں میں سے، کس چیز نے پھیر دیا ان
(مسلمانوں) کو ان کے اس قبلے سے کہ تھے وہ اوپر اس کے؟ کہہ دیجیے! اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب، ہدایت دیتا ہے وہ جسے چاہتا ہے، طرف سیدھی راہ کی
(142) اور
(جیسے تمھیں ہدایت دی) اسی طرح بنایا ہم نے تمھیں امت عدل، تاکہ ہو تم گواہ لوگوں پراور ہو رسول اوپر تمھارے گواہ
#
{142} قد اشتملت الآية الأولى على معجزة وتسلية وتطمين قلوب المؤمنين واعتراض، وجوابه من ثلاثة أوجه وصفة المعترض وصفة المُسلِّم لحكم الله دينه، فأخبر تعالى أنه سيعترض السفهاء من الناس وهم الذين لا يعرفون مصالح أنفسهم بل يضيعونها ويبيعونها بأبخس ثمن وهم اليهود والنصارى ومن أشبههم من المعترضين على أحكام الله وشرائعه، وذلك أن المسلمين كانوا مأمورين باستقبال بيت المقدس مدة مقامهم بمكة ثم بعد الهجرة إلى المدينة نحو سنة ونصف لما لله [تعالى] في ذلك من الحكم التي سيشير إلى بعضها، وكانت حكمته تقتضي أمرهم باستقبال الكعبة فأخبرهم أنه لا بد أن يقول السفهاء من الناس: {ما ولاَّهم عن قبلتهم التي كانوا عليها}؛ وهي استقبال بيت المقدس أيْ: أيُّ شيء صرفهم عنه؟ وفي ذلك الاعتراض على حكم الله وشرعه وفضله وإحسانه، فسَّلاهم وأخبر بوقوعه وأنه إنما يقع ممن اتصف بالسفه قليل العقل والحلم والديانة، فلا تبالوا بهم إذ قد عُلِم مصدر هذا الكلام، فالعاقل لا يبالي باعتراض السفيه ولا يلقي له ذهنه.
ودلت الآية على أنه لا يعترض على أحكام الله إلا سفيه جاهل معاند، وأما الرشيد المؤمن العاقل فيتلقى أحكام ربه بالقبول والانقياد والتسليم كما قال تعالى: {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمراً أن يكون لهم الخيرة من أمرهم}؛ {فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم}؛ الآية {إنما كان قول المؤمنين إذا دعوا إلى الله ورسوله ليحكم بينهم أن يقولوا سمعنا وأطعنا}؛ وقد كان في قوله السفهاء ما يغني عن رد قولهم وعدم المبالاة به، ولكنه تعالى مع هذا لم يترك هذه الشبهة حتى أزالها وكشفها مما سيعرض لبعض القلوب من الاعتراض فقال تعالى: {قل}؛ لهم مجيباً: {لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ أي: فإذا كان المشرق والمغرب ملكاً لله ليس جهة من الجهات خارجة من ملكه ومع هذا يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم ومنه هدايتكم إلى هذه القبلة التي هي ملة أبيكم إبراهيم فلأي شيء يعترض المعترض بتوليتكم قبلة داخلة تحت ملك الله؟ لم تستقبلوا جهة ليست ملكاً له فهذا يوجب التسليم لأمره بمجرد ذلك، فكيف وهو من فضل الله عليكم وهدايته وإحسانه أن هداكم لذلك، فالمعترض عليكم معترض على فضل الله حسداً لكم وبغياً.
ولما كان قوله: {يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ مطلقاً والمطلق يُحمَل على المقيد فإن الهداية والضلال لهما أسباب أوجبتها حكمة الله وعدله وقد أخبر في غير موضع من كتابه بأسباب الهداية التي إذا أتى بها العبد حصل له الهدى كما قال تعالى: {يهدي به الله من اتبع رضوانه سبل السلام}؛ ذكر في هذه الآية السبب الموجب لهداية هذه الأمة مطلقاً بجميع أنواع الهداية ومنَّة الله عليها فقال:
[142] پہلی آیت ایک معجزے، تسلی اور اہل ایمان کے دلوں کو مطمئن کرنے، ایک اعتراض اور تین وجوہ سے اس کے جواب، اعتراض کرنے والے کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے کی صفت پر مشتمل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے نفس کے مصالح کو نہیں پہچانتے بلکہ انھیں ضائع کر دیتے ہیں اور انھیں نہایت کم قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں یہ یہود و نصاریٰ اور وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت پر اعتراض کرنے میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ بنی کہ مسلمان جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھیں جن میں سے بعض کی طرف اللہ تعالیٰ کے اشارے کا تذکرہ عنقریب ہوگا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بھی اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ بیوقوف لوگ ضرور یہ کہیں گے
﴿مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا﴾ ’’ان کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے‘‘ مراد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تھا یعنی کس چیز نے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے سے پھیر دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی شریعت اور اس کے فضل و احسان پر اعتراض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے وقوع کے بارے میں خبر دے کر اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ یہ اعتراض صرف وہی لوگ کریں گے جو بیوقوف یعنی قلیل العقل اور بردباری و دیانت سے محروم ہوں، اس لیے ان کی باتوں کی پروا نہ کرو کیونکہ ان کا سرچشمۂ کلام معلوم ہے۔ عقل مند شخص بیوقوف کے اعتراض کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف دھیان دیتا ہے۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر صرف وہی شخص اعتراض کرتا ہے جو بیوقوف،
جاہل اور عناد رکھتا ہو اور رہا عقل مند اور ہدایت یافتہ مومن تو وہ اپنے رب کے احکام اطاعت اور تسلیم و رضا کے جذبے سے قبول کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَ٘ضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ﴾ (الاحزاب : 33؍36) ’’کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کر دیں تو اس معاملے میں وہ اپنا بھی کوئی اختیار سمجھیں۔‘‘
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ﴾ (النساء : 4؍65) ’’ہرگز نہیں۔ تیرے رب کی قسم! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں تجھے حکم
(فیصلہ کرنے والا) نہ بنائیں۔‘‘ نیز فرمایا:
﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾ (النور : 24؍51) ’’اہل ایمان کی تو یہ بات ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ اللہ کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے
﴿السُّفَهَآءُ﴾ ’’بے وقوف‘‘ کا لفظ استعمال کرنا اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا اعتراض غیر معقول ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا کرنے کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس شبہے کو یوں ہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا ازالہ فرمایا اور بعض دلوں میں جو اعتراض پیدا ہو سکتا تھا اسے یہ کہہ کر دور فرما دیا۔
﴿قُ٘لْ﴾ ان کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیجیے
﴿لِّلّٰهِ الْ٘مَشْرِقُ وَالْ٘مَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے، سیدھے راستے کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔‘‘
یعنی جب مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تمام جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں اور اس کے باوجود وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس قبلہ کی طرف راہ نمائی بھی اسی کی طرف سے ہے، جو ملت ابراہیم کا حصہ ہے۔ پس معترض، تمھارے اس قبلہ کی طرف منہ کر لینے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے، کس وجہ سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم نے ایسی جہت کی طرف رخ کیوں کیا جو اس کی ملک نہیں؟ یہ ایک وجہ ہی اس کے حکم کے تسلیم کرنے کو واجب کر دینے والی ہے۔ تو اس وقت اسے کیوں کر تسلیم نہیں کیا جائے گا، جب کہ تم پر یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تمھیں اس کی ہدایت نصیب فرمائی۔ پس تم پر اعتراض کرنے والا دراصل اللہ کے فضل پر اعتراض کر رہا ہے، محض تم پر حسد اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے، اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہیں جن کا موجب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہدایت کے اسباب بیان کیے ہیں، بندہ جب ان اسباب کو اختیار کرتا ہے تو اسے ہدایت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ﴾ (المائدۃ5؍16) ’’اس کے ذریعے سے اللہ اپنی رضا کی پیروی کرنے والوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس امت کے لیے ہدایت کی تمام انواع کی طرف راہنمائی کا موجب ہے۔اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اسے امت وسط بنایا۔ فرمایا:
[143] ﴿وَؔ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰؔكُمْ اُمَّؔةً وَّسَطًا﴾ ’’اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا۔‘‘ یعنی معتدل اور بہترین امت، ’’وسط‘‘ کے علاوہ اور اطراف خطرے کی زد میں ہیں اللہ تعالیٰ نے دین کے ہر معاملے میں اس امت کو معتدل امت بنایا ہے۔ انبیاء کرام کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے بھی امت مسلمہ کو ان امتوں کے مابین معتدل امت بنایا ہے جو انبیاءoکے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں جیسے عیسائی ہیں اور انبیاءoکے ساتھ ظلم و جفا کرنے والوں کے مابین بھی اسے معتدل امت بنایا کہ وہ سب پر اس طرح ایمان لائے جو ان کی شان کے لائق ہے۔ جب کہ یہودیوں نے انبیاءoکی توہین و تنقیص کی۔ امت مسلمہ شریعت کے اعتبار سے بھی امت وسط ہے اس میں نہ تو یہودیوں کی شریعت کی سی سختی اور بوجھ ہے اور نہ عیسائیوں کی سی نرمی اور لاپروائی۔ طہارت اور مطعومات کے باب میں بھی۔ نہ یہودیوں کی طرح (سختی ہے) جن کے ہاں ان کی عبادت گاہ اور کنیسہ کے سوا کہیں نماز نہیں ہوتی۔ پانی ان کو نجاستوں سے پاک نہیں کر سکتا۔ سزا کے طور پر ان پر طیبات حرام ٹھہرا دی گئیں اور نہ نصاریٰ کی مانند (نرمی ہے) کہ وہ کسی چیز کو نجس ہی نہیں مانتے اور نہ ان کے ہاں کوئی چیز حرام ہے بلکہ انھوں نے ہر چیز کو حلال ٹھہرا لیا ہے۔ بلکہ اہل ایمان کی طہارت کامل ترین طہارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ہر قسم کی طیب و طاہر مطعومات، مشروبات، ملبوسات اور پاک عورتیں مباح ٹھہرا دی ہیں اور تمام خبائث ان کے لیے حرام قرار دے دیے۔ بنا بریں اس امت کا دین سب سے کامل، اس کے اخلاق سب سے اچھے اور اس کے اعمال سب سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو علم و حلم اور عدل و احسان سے جس طرح نوازا ہے، اس طرح ان کے علاوہ کسی اور امت کو یہ چیزیں عطا نہیں کیں، اس لیے وہ ﴿اُمَّؔةً وَّسَطًا﴾ ’’امت وسط‘‘ یعنی کامل اور معتدل امت کہلانے کی مستحق ہے۔ ﴿شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ﴾ تاکہ وہ اپنی عدالت اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے سبب سے لوگوں پر گواہ ہوں اور وہ تمام اہل ادیان کے لوگوں سے متعلق فیصلے کریں اور ان کی بابت دوسرے فیصلے نہ کریں۔
پس جس چیز کی بابت یہ امت قبولیت کی شہادت دے، وہی مقبول اور جسے رد کرنے کی گواہی دے، وہ مردود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسروں کے بارے میں ان کا فیصلہ کیسے قابل قبول ہے حالانکہ تنازع میں دونوں ایک دوسرے کے مخالف فریق ہیں اور فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف قابل قبول نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی تنازع میں فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف وجود تہمت کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوتا مگر جب تہمت کا شائبہ ختم ہو جائے اور عدالت کامل حاصل ہو جائے، جیسا کہ یہ امت عدالت کامل کی حامل ہے۔ مقصد تو حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور اس کی شرط علم و عدل ہے اور یہ دونوں چیزیں اس امت میں موجود ہیں، اس لیے اس امت کا قول قابل قبول ہے۔
اگر کوئی شک کرنے والا اس امت کی فضیلت میں شک کرے اور اس کے لیے تزکیہ کرنے والے کا مطالبہ کرے، تو اس کا تزکیہ کرنے والے اس امت کے نبی(e)تمام مخلوقات میں ایک کامل ترین ہستی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ یَكُ٘وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا﴾ ’’اور رسول تم پر گواہ ہو گا‘‘ اس امت کی دوسری قوموں پر گواہی اس طرح ہو گی کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ انبیاء و مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک نہیں پہنچایا، تو انبیائے کرامoاس امت سے گواہی لیں گے اور ان کا نبی ان کا تزکیہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت مسلمہ کا اجماع قطعی حجت اور دلیل ہے، کیونکہ یہ امت (مجموعی طور پر) ﴿وَّسَطًا﴾ ’’امت وسط‘‘ کے اطلاق کی بنا پر خطا سے معصوم ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ امت مسلمہ خطا پر متفق ہو سکتی ہے تو یہ ’’امت وسط‘‘ نہ رہے گی۔ سوائے چند امور کے۔ ﴿ لِّتَكُ٘وْ٘نُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ﴾ ’’تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ جب وہ کسی فیصلہ کے متعلق گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے یا اس کو حرام قرار دیا ہے یا اسے واجب کیا ہے۔ تو یہ درست ہے اس لیے کہ یہ امت اس بارے میں معصوم ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے، گواہی دینے اور فتوی وغیرہ دینے کے لیے عدالت شرط ہے۔
{وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (143)}.
اور نہیں بنایا ہم نے اس قبلے کو کہ تھے آپ اوپر اس کے مگرتاکہ جان لیں ہم اس شخص کو جو اتباع کرے گا رسول کا، اس سے جو ، پھر جائے گا اوپر اپنی دو ایڑیوں کےاور بلاشبہ یہ
(بات) بڑی بھاری ہے مگر اوپر ان کے جن کو ہدایت دی اللہ نےاور نہیں ہے اللہ کہ ضائع کر دے ایمان تمھارا، بے شک اللہ ہے لوگوں پر بہت شفیق بڑا مہربان
(143)
#
{143} يقول تعالى: {وما جعلنا القبلة التي كنت عليها}؛ وهي: استقبال بيت المقدس أولاً، {إلا لنعلم}؛ أي: علماً يتعلق به الثواب والعقاب، وإلا فهو تعالى عالم بكل الأمور قبل وجودها، ولكن هذا العلم لا يعلق عليه ثواباً ولا عقاباً لتمام عدله وإقامة الحجة على عباده، بل إذا وجدت أعمالهم ترتب عليها الثواب والعقاب، أي شرعنا تلك القبلة لنعلم ونمتحن {من يتبع الرسول}؛ ويؤمن به فيتبعه على كل حال لأنه عبد مأمور مدبر، ولأنه قد أخبرت الكتب المتقدمة أنه يستقبل الكعبة فالمنصف الذي مقصوده الحق مما يزيده ذلك إيماناً وطاعة للرسول، وأما من انقلب على عقبيه وأعرض عن الحق واتبع هواه فإنه يزداد كفراً إلى كفره وحيرة إلى حيرته ويدلي بالحجة الباطلة المبنية على شبهة لا حقيقة لها {وإن كانت}؛ أي: صرفك عنها {لكبيرة}؛ أي: شاقة {إلا على الذين هدى الله}؛ فعرفوا بذلك نعمة الله عليهم وشكروا وأقروا له بالإحسان حيث وجههم إلى هذا البيت العظيم الذي فضله على سائر بقاع الأرض وجعل قصده ركناً من أركان الإسلام وهادماً للذنوب والآثام، فلهذا خفَّ عليهم ذلك وشقَّ على من سواهم.
ثم قال تعالى: {وما كان الله ليضيع إيمانكم}؛ أي: ما ينبغي له ولا يليق به تعالى بل هي من الممتنعات عليه، فأخبر أنه ممتنع عليه ومستحيل أن يضيع إيمانكم، وفي هذا بشارة عظيمة لمن منَّ الله عليهم بالإسلام والإيمان بأن الله سيحفظ عليهم إيمانهم فلا يضيعه، وحفظه نوعان: حفظ عن الضياع والبطلان بعصمته لهم عن كل مفسد ومزيل له ومنقص من المحن المقلقة والأهواء الصادة، وحفظ بتنميته لهم وتوفيقهم لما يزداد به إيمانهم ويتم به إيقانهم، فكما ابتدأكم بأن هداكم للإيمان فسيحفظه لكم ويتم نعمته بتنميته وتنمية أجره وثوابه وحفظه من كل مكدر، بل إذا وجدت المحن التي المقصود منها تبيين المؤمن الصادق من الكاذب فإنها تمحص المؤمنين وتظهر صدقهم، وكأن في هذا احترازاً عما قد يقال أن قوله: {وما جعلنا القبلة التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه}؛ قد يكون سبباً لترك بعض المؤمنين إيمانهم فدفع هذا الوهم بقوله: {وما كان الله ليضيع إيمانكم}؛ بتقديره لهذه المحنة أو غيرها، ودخل في ذلك من مات من المؤمنين قبل تحويل الكعبة فإن الله لا يضيع إيمانهم لكونهم امتثلوا أمر الله وطاعة رسوله في وقتها، وطاعة الله امتثال أمره في كل وقت بحسب ذلك. وفي هذه الآية دليل لمذهب أهل السنة والجماعة أن الإيمان تدخل فيه أعمال الجوارح.
وقوله: {إن الله بالنَّاسِ لرءوفٌ رحيمٌ}؛ أي: شديد الرحمة بهم عظيمها، فمن رأفته ورحمته بهم أن يُتِمَّ عليهم نعمته التي ابتدأهم بها، وأن ميز عنهم من دخل في الإيمان بلسانه دون قلبه، وأن امتحنهم امتحاناً زاد به إيمانهم وارتفعت به درجتهم، وأن وجههم إلى أشرف البيوت وأجلها.
[143] یعنی اسلام کے ابتدائی دنوں میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے مقصود یہ تھا
﴿اِلَّا لِنَعْلَمَ﴾ ’’مگر تاکہ ہم جان لیں‘‘ یعنی ایسا علم جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ تمام امور کو ان کے وجود میں آنے سے قبل جانتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کامل عدل اور اپنے بندوں پر حجت قائم کرنے کی بنا پر اس علم کے ساتھ ثواب اور عقاب کا تعلق نہیں۔ بلکہ جب ان کے اعمال وجود میں آتے ہیں تب ان پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہے۔
(مصنف a کا قول: ’’ایسا علم جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے‘‘ ایک مبہم عبارت ہے جو وضاحت کی محتاج ہے ہم ائمہ تفسیر امام نسفی، امام ابوالسعود، امام ابن کثیر اور امام ابوحیان Sنے جو کچھ اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے یہاں ذکر کرتے ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ (لِنَعْلَمَ)کا مطلب ہے، تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کر سکیں اور رسول اللہeاور اہل ایمان کے سامنے ان کا حال منکشف ہو جائے،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ﴾ (ال عمران:۳؍۱۷۹) ’’حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہو جائے‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ’’علم‘‘ کو ’’تمییز‘‘ کی جگہ میں استعمال کیا ہے، کیونکہ علم ہی سے تمیز ہوتی ہے اور وہی تمییز کا سبب ہے۔ لہٰذا سبب یعنی علم کا اطلاق کر کے مسبب یعنی تمییز مراد لی گئی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید ایک قراء ت سے بھی ہوتی ہے
(لِیُعْلَمَ ) یعنی ’’نون‘‘ کی بجائے ’’یا‘‘ اور صیغہ مجہول کے ساتھ۔
(تاکہ جان لیا جائے) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے علم کو اپنی طرف اسناد کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے خاص بندے ہیں، یا یہ ملاطفت خطاب ہے، مثلاً آپ اس شخص سے جوسونے کے پگھلنے کا منکر ہے، کہتے ہیں ’’ہم سونے کو آگ میں ڈالتے ہیں،
تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ آیا سونا پگھلتا ہے یا نہیں‘‘۔البحر المحیط میں علامہ ابوحیانaرقم طراز ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد
(لِنَعْلَمَ ) میں اس علم سے مراد ابتدائے علم ہے
(یعنی پہلے سے ہی ہمیں معلوم تھا) اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم کا حادث ہونا محال ہے۔
(یعنی یہ ناممکن ہے کہ پہلے اللہ کے علم میں نہ ہو اور بعد میں اسے معلوم ہو) چنانچہ تاویل کرتے ہوئے مضاف کو محذوف مانا جائے گا۔ تب آیت کا مفہوم یہ ہو گا: ’’تاکہ ہمارا رسول اور اہل ایمان جان لیں‘‘ ان کے علم کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے،
کیونکہ نبیeاور اہل ایمان اس کے مقرب بندے ہیں تب اس کا شمار مجاز حذف میں ہو گا یا علم کا اطلاق تمییز پر کیا گیا ہے کیونکہ علم ہی کی بنا پر تمیز ہوتی ہے۔ یعنی ’’تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کر لیں‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ﴾ (ال عمران:۳؍۱۷۹) ’’حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہو جائے‘‘ اور اس طرح اس کا شمار اطلاقِ سبب کے مجاز میں سے ہو گا اور مراد اس سے مسبب ہو گا۔ یہ تاویل حضرت عبداللہ بن عباسwسے مروی ہے۔۔۔ یا اس سے ان کی اطاعت یا معصیت کے وقت اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر مراد ہے، کیونکہ اس وقت کے ساتھ ہی اس علم کا تعلق ثواب و عقاب سے ہو گا، یا یہاں مستقبل سے ماضی مراد لیا ہے۔ تب مفہوم یہ ہو گا ’’جب ہم نے جان لیا کہ رسول کی اتباع کون کرتا ہے اور اس کی مخالفت کون کرتا ہے‘‘۔
(ملخصاً) حافظ ابن کثیر aنے اپنی تفسیر میں یہ معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور یہ معنی بنایا ہے: ’’تاکہ اہل ایمان جان لیں اور کمزور ایمان والے لوگوں کا حال منکشف ہو جائے‘‘ ابن کثیر a فرماتے ہیں: ’’اے محمدe!ہم نے تیرے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا پھر ہم نے تجھے کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ ان لوگوں کا حال ظاہر ہو جائے جو تیری اتباع کرتے ہیں، تیری اطاعت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ مل کر قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال ظاہر ہو جائے جو الٹے پاؤں پھر جاتے ہیں۔
(حاشیہ : از محمد زہری النجار، من علمائے ازہر) مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ قبلہ صرف اس لیے مشروع کیا ہے تاکہ ہم جان لیں اور آزما لیں
﴿مَنْ یَّتَّ٘بِعُ الرَّسُوْلَ﴾ ’’کون رسول کی اتباع کرتا ہے۔‘‘ یعنی کون اس رسول پر ایمان لا کر ہر حال میں اس کی پیروی کرتا ہے کیونکہ وہ بندہ مامور اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ نیز کتب سابقہ نے خبر دی ہے کہ نبی آخر الزمانeکعبہ کو قبلہ بنائیں گے پس صاحب انصاف جس کا مقصود و مطلوب محض حق ہے۔ اس سے اس کے ایمان اور اطاعت رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ رہا وہ شخص جو الٹے پاؤں پھر گیا اور اس نے حق سے روگردانی کی اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کی تو اس کا کفر بڑھتا جاتا ہے اور اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ شبہات پر مبنی باطل دلیل پیش کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
﴿وَاِنْ كَانَتْ﴾ ’’اور بلاشبہ یہ بات ہے۔‘‘ یعنی
(عام لوگوں کے لیے) آپ کا بیت المقدس سے منہ پھیرنا
﴿لَؔكَبِیْرَةً﴾ ’’بہت شاق ہے‘‘
﴿اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ﴾ ’’سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ نے ہدایت دی‘‘ اور انھوں نے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان لیا، وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اقرار کیا کہ اس نے ان کا رخ اس عظیم گھر کی طرف پھیر دیا جسے اس نے روئے زمین کے تمام خطوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کا قصد کرنے کو ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور گناہوں کو مٹانے والا بنایا ہے، اسی لیے اہل ایمان پر اس کا ماننا آسان ہو گیا اور ان کے سوا دیگر لوگوں پر رخ کی تبدیلی بہت شاق گزری۔
﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ﴾ ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمھارے ایمان کو یونہی ضائع کردے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب ہے نہ یہ اس کی ذات اقدس کے لائق ہے
(کہ وہ تمھارے ایمان کو ضائع کرے) بلکہ ایسا کرنا تو اس پر ممتنع
(ناممکن) ہے،
پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمھارے ایمان کو ضائع کرنا اس کی ذات اقدس پر ممتنع اور محال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور ایمان سے نواز کر ان پر احسان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حفاظت کرے گا اسے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
اللہ کا ایمان کی حفاظت کرنا دو طرح سے ہے:
(۱)ان کو ہر فساد، ایمان میں نقص پیدا کرنے والی تکلیف دہ آزمائشوں اور ایمان سے روکنے والی خواہش نفس سے بچا کر ان کے ایمان کو ضائع اور باطل ہونے سے محفوظ رکھنا۔
(۲)ایمان کی نشوونما کے لیے ان کو ایسے اعمال کی توفیق عطا کرنا جن سے ان کے ایمان میں اضافہ اور یقین کامل حاصل ہوتا ہے۔ پس ابتدائی طور پر جس طرح اس نے ایمان کی طرف تمھاری راہ نمائی کی، اسی طرح وہ تمھارے ایمان کی حفاظت کرے گا۔ اس کو اور اس کے اجر و ثواب کو نشوونما دے کر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا اور ایمان کو مکدر کرنے والے ہر عمل سے اس کی حفاظت کرے گا بلکہ جب ایسی آزمائشیں آئیں جن سے مقصود سچے مومن کو جھوٹے دعوے دار سے الگ کرنا ہو، تو یہ آزمائشیں مومنوں کو کھرا ثابت کرتی اور ان کی سچائی کو ظاہر کر دیتی ہیں۔
گویا اس آیت میں اس بات سے احتراز
(بچاؤ) ہے جو کہی جا سکتی تھی کہ اللہ کا قول
﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّ٘بِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ﴾ کبھی کبھی بعض مومنوں کے لیے ترک ایمان کا سبب بنتا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ﴾ اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ اس امتحان یا دیگر کسی آزمائش کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام اہل ایمان بھی شامل ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے وفات پا چکے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، کیونکہ انھوں نے اپنے وقت میں اللہ اور اس کے رسولeکی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہی ہے کہ ہر وقت اس کے حکم کی پیروی کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے اس مذہب کی دلیل ہے کہ ایمان میں اعمال جوارح داخل ہیں۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر بہت زیادہ رحمت و رأفت کرنے والا ہے۔ یہ اس کی عظیم رحمت و رأفت ہے کہ اس نے اہل ایمان کو نعمت ایمان عطا کر کے اس نعمت کو مکمل کیا۔ اور ان کو ان لوگوں سے علیحدہ کر دیا جو ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کرتے تھے۔ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا جس کے ذریعے سے ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کے درجات بلند کیے اور سب سے زیادہ عزت و شرف کے حامل گھر کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔
{قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (144)}
تحقیق ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف، سو ہم ، البتہ ضرور پھیر دیں گے آپ کو اس قبلے کی طرف کہ پسند کرتے ہیں آپ اس کو، پس پھیر لیں آپ اپنا چہرہ طرف مسجد حرام کی اور جہاں کہیں بھی ہو تم، تو پھیر لو اپنے چہرے اس کی طرف اور بلاشبہ وہ لوگ جو دیے گئے کتاب، وہ یقیناً جانتے ہیں کہ بے شک وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سےاور نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو وہ عمل کرتے ہیں
(144)
#
{144} يقول الله لنبيه: {قد نرى تقلب وجهك في السماء}؛ أي كثرة تردده في جميع جهاته شوقاً وانتظاراً لنزول الوحي باستقبال الكعبة، وقال: {وجهك}؛ ولم يقل بصرك لزيادة اهتمامه، ولأن تقليب الوجه مستلزم لتقليب البصر، {فلنُوَلِّيَنَّكَ}؛ أي: نوجهك لولايتنا إياك، {قبلة ترضاها}؛ أي: تحبها، وهي الكعبة، وفي هذا بيان لفضله وشرفه - صلى الله عليه وسلم -، حيث أن الله تعالى يسارع في رضاه. ثم صرح له باستقبالها فقال: {فولِّ وجهك شطر المسجد الحرام}؛ والوجه: ما أقبل من بدن الإنسان {وحيث ما كنتم}؛ أي: من بر وبحر شرق وغرب جنوب وشمال، {فولوا وجوهكم شطره}؛ أي: جهته، ففيها اشتراط استقبال الكعبة للصلوات كلها فرضها ونفلها، وأنه إن أمكن استقبال عينها وإلا فيكفي شطرها وجهتها، وأن الالتفات بالبدن مبطل للصلاة؛ لأن الأمر بالشيء نهي عن ضده.
ولما ذكر تعالى ـ فيما تقدم ـ المعترضين على ذلك من أهل الكتاب وغيرهم وذكر جوابهم، ذكر هنا أن أهل الكتاب والعلمِ منهم يعلمون أنك في ذلك على حقٍّ واضحٍ لما يجدونه في كتبهم فيعترضون عناداً وبغياً، فإذا كانوا يعلمون بخطئهم فلا تبالوا بذلك، فإن الإنسان إنما يغمه اعتراض من اعترض عليه إذا كان الأمر مشتبهاً وكان ممكناً أن يكون معه صواب، فأما إذا تيقن أن الصواب والحق مع المعترض عليه وأن المعترض معاند عارف ببطلان قوله فإنه لا محل للمبالاة، بل يُنتظَر بالمعترض العقوبة الدنيوية والأخروية فلهذا قال تعالى: {وما الله بغافل عمَّا يعملُون}؛ بل يحفظ عليهم أعمالهم ويجازيهم عليها، وفيها وعيد للمعترضين وتسلية للمؤمنين.
[144] اللہ تعالیٰ اپنے نبیeسے فرماتا ہے
﴿قَدْ نَرٰؔى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ﴾ ’’ہم تمھارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ یعنی ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ استقبال کعبہ کے بارے میں نزول وحی کے شوق اور انتظار میں اپنا منہ تمام جہات میں کثرت سے پھیرتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے
﴿وَجْهَكَ﴾ ارشاد فرمایا ہے
﴿بَصْرُکَ﴾ نہیں، کیونکہ اس سے نبیeکے فکروغم کی زیادتی کو بیان کرنا مقصود ہے، نیز چہرہ پھیرنا نظر پھیرنے کو بھی شامل ہے۔
﴿فَلَنُوَلِّیَنَّكَ﴾ ’’سو ہم آپ کو پھیر دیں گے۔‘‘ یعنی چونکہ ہم آپ کے سرپرست اور مددگار ہیں اس لیے ہم ضرور آپ کا منہ پھیر دیں گے
﴿قِبْلَةً تَرْضٰىهَا﴾ ’’اس قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم آپ کا منہ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں اور وہ ہے کعبہ شریف۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہeکے شرف و فضیلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پسندیدہ امر کے مطابق حکم نازل کرنے میں جلدی فرمائی۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو استقبال کعبہ کا صراحتاً حکم فرمایا۔ چنانچہ فرمایا:
﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیں‘‘ ’’وَجْہٌ‘‘ سے مراد انسان کے بدن کے سامنے کا حصہ ہے۔ فرمایا:
﴿وَحَیْثُ مَا كُنْتُمْ﴾ ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہو‘‘ یعنی بحر و بر، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جہاں کہیں بھی ہو
﴿فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ﴾ ’’پس اپنے چہروں کو اس جہت کی طرف پھیر لو۔‘‘ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ تمام نمازوں میں، خواہ فرض ہو یا نفل اگر عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ممکن ہو تو اس کی طرف منہ کرنا فرض ہے ورنہ اس کی طرف اور جہت میں منہ کر لینا کافی ہے۔ اور یہ کہ نماز کے اندر بدن کے ساتھ ادھر ادھر التفات کرنا نماز کو باطل کرنے والا عمل ہے کیونکہ کسی چیز کی بابت حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہے۔
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب وغیرہ میں سے اعتراض کرنے والوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے اعتراض کا جواب بھی دیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اہل کتاب اور ان کے اہل علم جانتے ہیں کہ آپ اس معاملے میں واضح حق پر ہیں کیونکہ انھیں اپنی کتابوں میں اس نبی کی نشانیاں ملتی ہیں، اس لیے وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مبتلائے غم ہیں تو تم ان کے اعتراضات کی پروا نہ کرو، اس لیے کہ انسان کو صرف اس اعتراض کرنے والے کا اعتراض غم میں ڈالتا ہے، جب معاملہ مشتبہ ہو اور اس کا امکان ہو کہ صواب
(صحیح بات) اس کے ساتھ ہو۔
لیکن جب یہ یقین ہو جائے کہ حق و صواب اس شخص کے ساتھ ہے جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور اعتراض کرنے والا محض عناد سے کام لے رہا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ معترض کا اعتراض باطل ہے تو اسے پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے انتظار کرنا چاہیے کہ معترض کو دنیاوی اور اخروی عقوبت کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں‘‘ بلکہ وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس آیت کریمہ میں اعتراض کرنے والوں کے لیے وعید اور اہل ایمان کے لیے تسلی ہے۔
{وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (145)}
اور البتہ اگر لے آئیں آپ ان لوگوں کے پاس جو دیے گئے کتاب، ہر قسم کی نشانی، تب بھی وہ نہیں پیروی کریں گے آپ کے قبلے کی اور نہ آپ پیروی کرنے والے ہیں ان کے قبلے کی اور نہ بعض ان کا پیروی کرنے والا ہے بعض کے قبلے کی، اور البتہ اگر پیروی کی آپ نے ان کی خواہشات کی، بعد اس کے جو آگیا آپ کے پاس علم تو یقینا ًآپ اس وقت ہو جائیں گے ظالموں میں سے
(145)
#
{145} كان النبي - صلى الله عليه وسلم - من كمال حرصه على هداية الخلق يبذل [لهم] غاية ما يقدر عليه من النصيحة ويتلطف بهدايتهم، ويحزن إذا لم ينقادوا لأمر الله، فكان من الكفار من تمرَّد عن أمر الله واستكبر على رسل الله وترك الهدى عمداً وعدواناً فمنهم اليهود والنصارى أهل الكتاب الأول الذين كفروا بمحمد عن يقين لا عن جهل؛ فلهذا أخبره الله تعالى أنك لو {أتيت الذين أتُوا الكتاب بكل آيةٍ}؛ أي: بكلِّ برهان ودليل يوضح قولك ويبين ما تدعو إليه، {ما تبعوا قبلتك}؛ أي: ما تبعوك؛ لأن اتباع القبلة دليل على اتباعه، ولأن السبب هو شأن القبلة، وإنما كان الأمر كذلك لأنهم معاندون عرفوا الحقَّ وتركوه، فالآياتُ إنما [تفيدو] ينتفع بها من يتطلب الحق وهو مشتبه عليه؛ فتوضح له الآيات البينات، وأما من جزم بعدم اتباع الحق فلا حيلة فيه، وأيضاً فإن اختلافهم فيما بينهم حاصل، وبعضهم غير تابع قبلة بعض، فليس بغريب منهم مع ذلك أن لا يتبعوا قبلتك يا محمد وهم الأعداء حقيقة الحسدة. وقوله: {وما أنت بتابع قبلتهُم}؛ أبلغ من قوله ولا تتبع؛ لأن ذلك يتضمن أنه - صلى الله عليه وسلم -، اتصف بمخالفتهم، فلا يمكن وقوع ذلك منه، ولم يقل ولو أُتُوا بكل آية؛ لأنهم لا دليل لهم على قولهم، وكذلك إذا تبين الحق بأدلته اليقينية لم يلزم الإتيان بأجوبة الشُبَه الواردة عليه؛ لأنه لا حد لها، ولأنه يعلم بطلانها للعلم بأن كلَّ ما نافى الحق الواضح فهو باطل، فيكون حل الشبه من باب التبرع.
{ولئن اتَّبعت أهواءهُم}؛ إنما قال: أهواءهم ولم يقل دينهم؛ لأن ما هم عليه مجرد أهوية نفس، حتى هم في قلوبهم يعلمون أنه ليس بدين، ومن ترك الدين اتبع الهوى ولا محالة، قال تعالى: {أفرأيت من اتخذ إلهه هواه}، {من بعد ما جاءك من العلم}؛ بأنك على الحق وهم على الباطل، {إنَّك إذاً}؛ أي: إن اتبعتهم، فهذا احتراز لئلا تنفصل هذه الجملة عما قبلها ولو في الأفهام {لمن الظالمين}؛ أي: داخل فيهم ومندرج في جملتهم، وأي ظلم أعظم من ظلم من علم الحق والباطل؟ فآثر الباطل على الحق، وهذا وإن كان الخطاب له - صلى الله عليه وسلم -، فإن أمته داخلة في ذلك؛ وأيضاً فإذا كان هو - صلى الله عليه وسلم -، لو فعل ذلك ـ وحاشاه ـ صار ظالماً مع علو مرتبته وكثرة إحسانه فغيره من باب أولى وأحرى. ثم قال تعالى:
[145] نبی اکرمeمخلوقات کی ہدایت کی بہت تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے اور ان کی نہایت درجہ خیر خواہی کرتے تھے۔ نرمی اور پیار سے انھیں ہدایت کی راہ پر لانے کی کوششیں کیا کرتے تھے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے، تو یہ امر آپ کو نہایت غمگین کر دیتا تھا۔ پس کافروں میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں سرتابی اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلینoکے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور جان بوجھ کر ظلم و عدوان کی بنا پر ہدایت کو چھوڑ دیا۔ انھی میں سے پہلے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں جنھوں نے محمدeکا جہالت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ یقین رکھتے ہوئے انکار کیا کہ آپ نبی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو آگاہ فرمایا
﴿وَلَىِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُ٘لِّ اٰیَةٍ﴾ ’’اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آئیں۔‘‘ یعنی اگر آپ ان کے سامنے ہر قسم کی دلیل اور برہان پیش کردیں جو آپ کی بات اور دعوت کو واضح کر دیں
﴿مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ﴾ ’’تو بھی یہ آپ کے قبلے کی پیروی نہ کریں گے۔‘‘ یعنی تب بھی وہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے۔ کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کرنا درحقیقت آپ کی اتباع کی دلیل ہے اور اس لیے کہ اصل سبب قبلے کا معاملہ ہے اور معاملہ واقعی ایسا ہے، کیونکہ وہ حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں انھوں نے حق کو پہچانا اور اسے چھوڑ دیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے صرف وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو حق کا متلاشی ہو اور حق اس پر مشتبہ ہو گیا ہو، تب یہ آیات بینات اس پر حق کو واضح کر دیتی ہیں اور جو کوئی اس بات پر اڑ جاتا ہے کہ وہ حق کی اتباع نہیں کرے گا تو اسے حق کی طرف لانے کی کوئی صورت نہیں۔
نیز ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اے محمد
(e) یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے، کیونکہ وہ دشمن اور حاسد ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿وَمَاۤ اَنْتَ بِتَابِـعٍ قِبْلَتَهُمْ﴾ (وَلَا تَتَّبِـعْ) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ یہ لفظ اس بات کو متضمن ہے کہ رسول اللہeان کی مخالفت سے متصف ہیں، پس آپ سے اس کا وقوع ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا
(وَلَوْ اَتَوْا بِکُلِّ آیَۃٍ) کیونکہ ان کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں۔
اسی طرح جب یقینی دلائل و براہین سے حق واضح ہو جاتا ہے تو اس پر وارد شبہات کا جواب دینا لازم نہیں۔ کیونکہ ان شبہات کی تو کوئی حد نہیں اور ان کا بطلان واضح ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو چیز واضح حق کے منافی ہو وہ باطل ہوتی ہے۔ تب شبہ کو حل کرنا تبرع کے زمرے میں آئے گا۔
(یعنی بغیر ضرورت کے محض خوشی سے شبہات کا ازالہ کرنا) ﴿وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَؔآءَهُمْ﴾ ’’اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے
﴿ اَهْوَؔآءَهُمْ﴾ ’’ان کی خواہشات‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کی بجائے
(دِینَھُمْ) ’’ان کا دین‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی یہ جانتے تھے کہ یہ دین نہیں ہے۔ اور جو کوئی دین کو چھوڑ دیتا ہے وہ لامحالہ خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّؔخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ﴾ (الجاثیہ : 45؍23) ’’بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟‘‘
﴿مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ’’اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے۔‘‘ یعنی یہ جان لینے کے بعد کہ آپ حق پر اور وہ باطل پر ہیں
﴿اِنَّكَ اِذًا﴾ ’’تب آپ‘‘ یعنی اگر آپ نے ان کی اتباع کی۔ یہ احتراز ہے تاکہ یہ جملہ اپنے ماقبل جملے سے علیحدہ نہ رہے۔ خواہ وہ افہام ہی میں کیوں نہ ہو۔
﴿ لَّ٘مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی آپ کا شمار ظالموں میں ہو گا اور اس شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہے جس نے حق اور باطل کو پہچان کر باطل کو حق پر ترجیح دی۔ یہ خطاب اگرچہ رسول اللہeسے ہے تاہم آپ کی امت اس میں داخل ہے، نیز اگر رسول اللہeنے بھی یہ کام کیا ہوتا، حاشا وکلّا، آپ سے یہ ممکن نہیں تھا، تو آپ بھی اپنے بلند مرتبہ اور نیکیوں کی کثرت کے باوجود ظالموں میں شمار ہوتے تب آپ کے علاوہ کوئی دوسرا تو بطریق اولیٰ بڑا ظالم ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
{الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (146) الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (147)}
وہ لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب، وہ پہچانتے ہیں اس
(رسول) کو جیسے وہ پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کواور بے شک ایک فریق ان میں سے ، البتہ وہ چھپاتا ہے حق کو، حالانکہ وہ جانتا ہے
(146) (یہ) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، پس ہرگز نہ ہوں آپ شک کرنے والوں میں سے
(147)
#
{146} يخبر تعالى أن أهل الكتاب قد تقرر عندهم وعرفوا أن محمداً رسول الله وأن ما جاء به حق وصدق، وتيقنوا ذلك كما تيقنوا أبناءهم بحيث لا يشتبهون [عليهم] بغيرهم، فمعرفتهم بمحمد - صلى الله عليه وسلم -، وصلت إلى حد لا يشكون فيه ولا يمترون. لكن فريقاً منهم وهم أكثرهم الذين كفروا به كتموا هذه الشهادة مع تيقنها وهم يعلمون، ومن أظلم ممن كتم شهادة عنده من الله وفي ضمن ذلك تسلية للرسول والمؤمنين وتحذير لهم من شرهم وشبههم، وفريق منهم لم يكتموا الحق وهم يعلمون، فمنهم من آمن به، ومنهم من كفر به جهلاً.
فالعالم عليه إظهار الحق وتبيينه وتزيينه بكلِّ ما يقدر عليه من عبارة وبرهان ومثال وغير ذلك، وإبطال الباطل وتمييزه عن الحق وتشيينه وتقبيحه للنفوس بكل طريق مؤدٍّ لذلك، فهؤلاء الكاتمون عكسوا الأمر فانعكست أحوالهم.
[146] اللہ تعالیٰ آگاہ کرتا ہے کہ اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ محمدeاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ جو کتاب آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ حق اور سچ ہے اور انھیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انھیں اپنے بیٹوں کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے بیٹے ہیں اور اس کی بابت انھیں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ پس محمد مصطفیeکی پہچان ان کے ہاں اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی،
مگر اس کے باوجود ان میں سے ایک فریق جو تعداد میں زیادہ تھا۔ اس نے آپ کا انکار کیا اور آپ کے بارے میں یقینی شہادت کو چھپا لیا۔ درآں حالیکہ وہ جانتے تھے۔ فرمایا : ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ﴾ (البقرہ:140) ’’اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس گواہی کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں رسول اللہeاور اہل ایمان کے لیے تسلی اور ان کو اہل کتاب کے شر اور شبہات سے بچنے کی تلقین ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جنھوں نے جانتے بوجھتے حق کو نہیں چھپایا۔ پس ان میں سے بعض آپ پر ایمان لے آئے اور بعض نے محض جہالت کی بنا پر آپ کا انکار کر دیا۔ پس صاحب علم اپنے علم کے مطابق جس قدر دلیل دینے اور تعبیر کرنے پر قادر ہے اس پر اسی قدر حق کا اظہار کرنا، اس کو بیان کرنا اور اس کو مزین کرنا فرض ہے اور اسی قدر باطل کا ابطال کرنا ، حق سے اس کو علیحدہ کرنا اورہر ممکن طریقے سے نفوس کے سامنے اس کی برائی نمایاں کرنا اس پر لازم ہے۔ لیکن اس حق کو چھپانے والوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، لہٰذا ان کے احوال بھی اس کے برعکس ہو گئے۔
#
{147} {الحق من ربك}؛ أي: هذا الحق الذي هو أحق أن يسمى حقًّا من كلِّ شيء لما اشتمل عليه من المطالب العالية والأوامر الحسنة وتزكية النفوس وحثها على تحصيل مصالحها ودفع مفاسدها لصدوره من ربك الذي من جملة تربيته لك أن أنزل عليك هذا القرآن الذي فيه تربية العقول والنفوس وجميع المصالح، {فلا تكونن من الممترين}؛ أي: فلا يحصل لك أدنى شك وريبة فيه، بل تفكر فيه وتأمل حتى تصل بذلك إلى اليقين، لأن التفكر فيه لا محالة دافع للشك موصل لليقين.
[147] ﴿اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’یہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔‘‘ یعنی یہ حق، جو ہر چیز سے زیادہ حق کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ یہ مطالب عالیہ، اچھے احکام اور تزکیہ نفوس پر مشتمل ہے، نیز نفوس کے لیے ان کے مصالح کے حصول اور ان سے مفاسد کو دور کرنے کا باعث ہے، اس لیے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے صادر ہوا ہے اور یہ من جملہ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی تربیت ہے کہ اس نے آپ پر یہ قرآن نازل فرمایا جس میں نفوس و عقول کی تربیت اور تمام مصالح ہیں
﴿فَلَا تَكُ٘وْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾ ’’پس آپ ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔‘‘ یعنی اس حق کے بارے میں آپ کو معمولی سے شک و شبہ میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس حق میں غور و فکر کیجیے یہاں تک کہ آپ یقین کی منزل پر پہنچ جائیں۔ کیونکہ حق میں غور و فکر لامحالہ شک کو دور کر کے یقین کی منزل پر پہنچاتا ہے۔
{وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (148)}
اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے وہ
(منہ) پھیرنے والا ہے اس کی طرف، پس تم سبقت کرو نیکیوں میں، جہاں کہیں تم ہو گے، لے آئے گا تم کو اللہ سب کو، تحقیق اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے
(148)
#
{148} أي: كل أهل دين وملة له وجهة يتوجه إليها في عبادته، وليس الشأن في استقبال القبلة فإنه من الشرائع التي تتغير بها الأزمنة والأحوال ويدخلها النسخ والنقل من جهة إلى جهة، ولكن الشأن كل الشأن في امتثال طاعة الله والتقرب إليه وطلب الزلفى عنده، فهذا هو عنوان السعادة ومنشور الولاية، وهو الذي إذا لم تتصف به النفوس حصلت لها خسارة الدنيا والآخرة، كما أنها إذا اتصفت به فهي الرابحة على الحقيقة، وهذا أمر متفق عليه في جميع الشرائع، وهو الذي خلق الله له الخلق وأمرهم به، والأمر بالاستباق إلى الخيرات قدر زائد على الأمر بفعل الخيرات، فإن الاستباق إليها يتضمن فعلها وتكميلها وإيقاعها على أكمل الأحوال والمبادرة إليها، ومن سبق في الدنيا إلى الخيرات فهو السابق في الآخرة إلى الجنات، فالسابقون أعلى الخلق درجة، والخيرات تشمل جميع الفرائض والنوافل من صلاة وصيام وزكاة وحج وعمرة وجهاد ونفع متعدٍّ وقاصر، ولما كان أقوى ما يحث النفوس على المسارعة إلى الخير وينشطها ما رتب الله عليها من الثواب قال: {أينما تكونوا يأت بكم الله جميعاً إن الله على كلِّ شيء قدير}؛ فيجمعكم ليوم القيامة بقدرته، فيجازي كل عامل بعمله؛ {ليجزي الذين أساءوا بما عملوا ويجزي الذين أحسنوا بالحسنى}.
ويستدل بهذه الآية الشريفة على الإتيان بكل فضيلة يتصف بها العمل، كالصلاة في أول وقتها، والمبادرة إلى إبراء الذمة من الصيام والحجِّ والعمرة وإخراج الزكاة، والإتيان بسنن العبادات وآدابها، فلله ما أجمعها وأنفعها من آية.
[148] یعنی ہر ملت اور ہر دین والوں کے لیے ایک جہت مقرر ہے وہ اپنی عبادت میں اس کی طرف منہ کرتے ہیں۔ استقبال قبلہ کوئی بڑا معاملہ نہیں، اس لیے کہ یہ ان شریعتوں میں سے ہے جو احوال و زمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، اس میں نسخ اور ایک جہت سے دوسری جہت میں منتقل ہونا بھی داخل ہے، لیکن اصل اور اہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کا تقرب اور اس کے قرب میں حصول درجات ہے، یہی سعادت کا عنوان اور ولایت کا منشور ہے۔ یہی وہ وصف ہے کہ اگر نفوس اس سے متصف نہ ہوں تو دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑ جاتے ہیں جیسے اگر نفوس اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کر لیں تو یہی حقیقی منافع ہے۔ تمام شریعتوں میں یہ متفق علیہ امر ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا۔
نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، کامل ترین احوال میں ان کو واقع کرنے اور نہایت سرعت سے ان کی طرف بڑھنے کو متضمن ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا، پس سابقون
(سبقت کرنے والے) تمام مخلوق میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔
اور نیکیوں کا لفظ تمام فرائض، نماز، نوافل، روزے، زکٰوۃ ، حج و عمرہ، جہاد اور لوگوں کو نفع پہنچانے وغیرہ کو شامل ہے۔ جب بات یہ ہے کہ سب سے طاقتور داعیہ جو نفوس کو نیکیوں میں مسابقت و مسارعت پر آمادہ کرتا ہے اور انھیں نشاط عطا کرتا ہے، وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں پر عطا کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
﴿ اَیْنَ مَا تَكُ٘وْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اللہ تم سب کو لے آئے گا ،
بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے تمھیں اکٹھا کرے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى ﴾ (النجم : 53؍31) ’’تاکہ جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنھوں نے نیک کام کیے ہیں ان کو نیک بدلہ دے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر اس فضیلت کو اختیار کرنا چاہیے جس سے کوئی عمل متصف ہو سکتا ہے، مثلاً اول وقت پر نماز ادا کرنا، روزے، حج، عمرہ اور زکٰوۃ کی ادائیگی سے فوری طور پر بری الذمہ ہونا۔ تمام عبادات کی سنن و آداب کو پوری طرح ادا کرنا۔ پس کتنی جامع اور کتنی نفع مند آیت ہے۔
{وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (149) وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (150)}
اور جہاں سے نکلیں آپ تو پھیر لیں اپنا چہرہ جانب مسجد حرام کی اور بلاشبہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے اور نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(149) اور جہاں سے آپ نکلیں تو پھیر لیں اپنا چہرہ جانب مسجد حرام کی اور جہاں کہیں بھی ہو تم تو پھیر لو اپنے چہرے اس کی جانب تاکہ نہ رہے لوگوں کے لیے تمھارے خلاف کوئی حجت، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے ظلم کیا ان میں سے، پس نہ ڈرو تم ان سے اور ڈرو مجھ سےاور تاکہ پوری کروں میں اپنی نعمت اوپر تمھارے اور شاید کہ تم ہدایت پاؤ
(150)
#
{149} أي: {ومن حيث خرجت}؛ في أسفارك وغيرها وهذا للعموم، {فولِّ وجهك شطر المسجد الحرام}؛ أي: جهته. ثم خاطب الأمة عموماً فقال:
[149] ﴿وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ﴾ ’’جہاں سے بھی آپ نکلیں‘‘ یعنی اپنے سفر وغیرہ میں۔ یہ عموم کے لیے ہے
﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو عمومی طور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
#
{150} {وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره}؛ وقال: {وإنه للحق من ربك}؛ أكده بأن، واللام لئلا يقع لأحد فيه أدنى شبهة، ولئلا يظن أنه على سبيل التشهي لا الامتثال، {وما الله بغافل عما تعملون}؛ بل هو مطلع عليكم في جميع أحوالكم فتأدبوا معه وراقبوه بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، فإن أعمالكم غير مغفول عنها بل مجازون عليها أتم الجزاء إن خيراً فخير وإن شرًّا فشر، وقال هنا: {لئلا يكون للناس عليكم حجة}؛ أي: شرعنا لكم استقبال الكعبة المشرفة لينقطع عنكم احتجاج الناس من أهل الكتاب والمشركين، فإنه لو بقي مستقبلاً لبيت المقدس لتوجهت عليه الحجة، فإن أهل الكتاب يجدون في كتابهم أن قبلته المستقرة هي الكعبة البيت الحرام، والمشركين يرون أن من مفاخرهم هذا البيت العظيم، وأنه من ملة إبراهيم، وأنه إذا لم يستقبله محمد - صلى الله عليه وسلم -، توجهت نحوه حججهم، وقالوا كيف يدَّعي أنه على ملة إبراهيم وهو من ذريته وقد ترك استقبال قبلته، فباستقبال القبلة قامت الحجة على أهل الكتاب والمشركين وانقطعت حججهم عليه، إلا من ظلم منهم؛ أي: من احتج منهم بحجة هو ظالم فيها وليس لها مستند إلا اتباع الهوى والظلم؛ فهذا لا سبيل إلى إقناعه والاحتجاج عليه، وكذلك لا معنى لجعل الشبهة التي يوردونها على سبيل الاحتجاج محلا يؤبه لها ولا يلقى لها بال، فلهذا قال تعالى: {فلا تخشوهم}؛ لأن حجتهم باطلة، والباطل كاسمه مخذول، مخذول صاحبه، وهذا بخلاف صاحب الحقِّ فإن للحق صولة وعزًّا يوجب خشية من هو معه، وأمر تعالى بخشيته التي هي رأس كل خير، فمن لم يخشَ الله؛ لم ينكف عن معصيته، ولم يمتثل أمره.
وكان صرف المسلمين إلى الكعبة مما حصلت فيها فتنة كبيرة أشاعها أهل الكتاب والمنافقون والمشركون وأكثروا فيها من الكلام والشبه، فلهذا بسطها الله تعالى، وبينها أكمل بيان، وأكدها بأنواع من التأكيدات التي تضمنتها هذه الآيات.
منها: الأمر بها ثلاث مرات مع كفاية المرة الواحدة.
ومنها: أن المعهود أن الأمر إما أن يكون للرسول فتدخل فيه الأمة [تبعاً] أو للأمة عموماً، وفي هذه الآية أمر فيها الرسول بالخصوص في قوله: {فول وجهك}؛ والأمة عموماً في قوله: {فولوا وجوهكم}.
ومنها: أنه ردَّ فيه جميع الاحتجاجات الباطلة التي أوردها أهل العناد وأبطلها شبهة شبهة كما تقدم توضيحها.
ومنها: أنه قطع الأطماع من اتباع الرسول قبلة أهل الكتاب.
ومنها: قوله: {وإنه للحق من ربك}؛ فمجرد إخبار الصادق العظيم كافٍ شافٍ، ولكن مع هذا قال: {وإنه للحق من ربك}.
ومنها: أنه أخبر وهو العالم بالخفيات أن أهل الكتاب متقرر عندهم صحة هذا الأمر، ولكنهم يكتمون هذه الشهادة مع العلم.
ولما كان توليته لنا إلى استقبال القبلة نعمة عظيمة وكان لطفه بهذه الأمة ورحمته لم يزل يتزايد وكلما شرع لهم شريعة فهي نعمة عظيمة قال: {ولأتم نعمتي عليكم}؛ فأصل النعمة الهداية لدينه بإرسال رسوله وإنزال كتابه، ثم بعد ذلك النعم المتممات لهذا الأصل لا تعد كثرة ولا تحصر منذ بعث الله رسوله إلى أن قرب رحيله من الدنيا وقد أعطاه الله من الأحوال والنعم وأعطى أمته ما أتم به نعمته عليه وعليهم وأنزل الله عليه {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً}؛ فلله الحمد على فضله الذي لا نبلغ له عدًّا فضلاً عن القيام بشكره، {ولعلكم تهتدون}؛ أي: تعلمون الحق وتعملون به، فالله تبارك وتعالى من رحمته بالعباد قد يسَّر لهم أسباب الهداية غاية التيسير ونبههم على سلوك طرقها وبينها لهم أتم تبيين حتى أن من جملة ذلك أنه يقيض للحق المعاندين له فيجادلون فيه فيتضح بذلك الحق وتظهر آياته وأعلامه، ويتضح بطلان الباطل وأنه لا حقيقة له، ولولا قيامه في مقابلة الحق لربما لم يتبين حاله لأكثر الخلق وبضدها تتبين الأشياء، فلولا الليل ما عرف فضل النهار، ولولا القبيح ما عرف فضل الحسن، ولولا الظلمة ما عرف منفعة النور، ولولا الباطل ما اتضح الحق اتضاحاً ظاهراً. فلله الحمد على ذلك.
[150] ﴿وَحَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ﴾ ’’اور تم جہاں بھی ہو،
تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔‘‘ فرمایا: ﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’اور یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے
(اِنَّ) اور
(لام) استعمال کر کے اس کو موکد کر دیا ہے تاکہ اس میں کسی کے لیے ادنیٰ سے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ محض خواہش ہے اس میں اطاعت مطلوب نہیں۔
﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے‘‘ بلکہ وہ تمھیں تمھارے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے، اس لیے اس کا ادب کرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر پر عمل کرو اور اس کی نواہی سے اجتناب کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں بلکہ تمھارے اعمال کی کامل جزا دی جائے گی۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برے اعمال ہیں تو ان کی جزا بری ہو گی۔
﴿لِئَلَّا یَكُ٘وْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ﴾ ’’اس لیے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔‘‘ یعنی ہم نے تمھارے لیے کعبہ شریف کو اس لیے قبلہ قرار دیا ہے تاکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب کے لیے تم پر کوئی حجت نہ رہے۔ کیونکہ اگر بیت المقدس کو قبلہ کے طور پر باقی رکھا ہوتا تو یہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ نبی آخر الزمانeکا مستقل قبلہ، کعبہ یعنی بیت الحرام ہو گا اور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھر ان کے مفاخر میں شمار ہوتا ہے اور یہ ملت ابراہیم کامرکز ہے اور جب رسول اللہeکعبہ شریف کو قبلہ نہیں بنائیں گے تو مشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہو گی۔ وہ کہیں گے کہ محمد
(e) ملت ابراہیم پر ہونے کا کیسے دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس نے ابراہیمuکی اولاد ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کو قبلہ نہیں بنایا۔ پس بیت اللہ کو قبلہ بنانے سے اہل کتاب اور مشرکین دونوں پر حجت قائم ہو گئی اور آپ پر وہ جو حجت قائم کر سکتے تھے، وہ منقطع ہو گئی۔
﴿اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ﴾ ’’مگر ان میں سے جو ظالم ہیں۔‘‘ یعنی ان میں جو کوئی دلیل دیتا ہے وہ اس بارے میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اس کے پاس کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں سوائے ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی کے،
لہٰذا آپ کے خلاف حجت قائم کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اسی طرح اس شبہ کی پروا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جسے یہ لوگ حجت کے طور پر وارد کرتے ہیں۔ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ﴾ ’’تم ان سے مت ڈرو‘‘ کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اور باطل اپنے نام کی مانند بے کار اور فاسد ہے۔ باطل اور باطل پرست مدد اور تائید سے محروم ہیں۔ صاحب حق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حق کا رعب اور عزت ہے۔ حق جس کے ساتھ ہے وہ اس کی خشیت کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا حکم دیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ اس کی نافرمانی سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس کی اطاعت کر سکتا ہے۔
مسلمانوں نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا تو اس سے انھیں بہت بڑے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے خوب خوب اشاعت کی اور اس بارے میں انھوں نے اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کر دی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت بسط و شرح اور کامل طریقے سے اس مسئلہ کوبیان کیا ہے اور مختلف قسم کی تاکیدات سے اس کو موکد کیا جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوئی ہیں،
مثلاً:
(۱) استقبال کعبہ کا تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے جبکہ صرف ایک ہی مرتبہ کافی تھا۔
(۲) اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ حکم یا تو رسول اللہeکے لیے ہے اور امت اس میں داخل ہے یا یہ حکم امت کے لیے عام ہے۔ اس آیت کریمہ میں خصوصی طور پر صرف رسول اللہeکو استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا
﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ﴾ اور امت کو اس آیت میں استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا
﴿فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ﴾
(۳) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام باطل دلائل کا رد کیا ہے جو کہ معاندین نے پیش کیے تھے اور ایک ایک شبہہ کا ابطال کیا۔ جیسا کہ اس کی توضیح گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔
(۴) اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت امیدوں کو ختم کر دیا کہ رسول اللہeاہل کتاب کے قبلے کی پیروی کریں گے۔
(۵) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ایک عظیم سچے شخص کا خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے مگر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔‘‘
(۶) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا، اور وہ عالم الغیب ہے، کہ اہل کتاب کے ہاں استقبال کعبہ کے معاملہ کی صحت متحقق ہے مگر یہ لوگ علم رکھنے کے باوجود اس گواہی کو چھپاتے ہیں۔
جب بیت اللہ شریف کی طرف تحویل قبلہ ایک عظیم نعمت ہے اور اس امت پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں لطف و کرم ہے جو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے کوئی کام مشروع کرتا ہے تو یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿وَلِاُتِمَّؔ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ﴾ یہ تحویل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے ’’تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں۔‘‘ اصل نعمت تو دین کی ہدایت ہے جو وہ اپنا رسول بھیج کر اور اپنی کتاب نازل کر کے عطا کرتا ہے اس کے بعد دیگر تمام نعمتیں اس نعمت کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حصر و شمار ممکن نہیں۔ رسول اللہeکی بعثت سے لے کر اس دنیائے فانی سے آپ کی رحلت تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں سے نوازتا رہا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احوال اور نعمتیں عطا کیں اور اس نے آپ کی امت کو وہ کچھ دیا جس سے آپ پر اور آپ کی امت پر اتمام نعمت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ آپ پر نازل فرمائی
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَؔكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ : 5؍3) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے اس فضل و کرم پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس فضل و کرم پر اس کا شکر ادا کرنا تو کجا ہم تو اس کو شمار تک نہیں کر سکتے۔
﴿وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ ’’اور تاکہ تم راہ راست پر چلو۔‘‘ یعنی شاید کہ تم حق کو جانو اور پھر اس پر عمل کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب بے حد آسان فرما دیے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے بارے میں آگاہ فرما دیا اور ان کے لیے اس ہدایت کو پوری طرح واضح کر دیا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عناد کو حق کی مخالفت پر مقرر کر دیتا ہے، چنانچہ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جس سے حق واضح، حق کی نشانیاں اور علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور باطل کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے اور یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر باطل حق کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو تو بسا اوقات اکثر مخلوق پر باطل کا حال واضح نہ ہو۔ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو دن کی فضیلت کا اعتراف نہ ہوتا۔ اگر قبیح اور بدصورت نہ ہو تو خوبصورت کی فضیلت معلوم نہیں ہو سکتی، اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کے فوائد کو نہیں پہچانا جا سکتا، اگر باطل نہ ہو تو حق واضح طور پر ظاہر نہیں ہو سکتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔
{كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (151) فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (152)}
جس طرح بھیجا ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے، وہ تلاوت کرتا ہے تم پر ہماری آیتیں اور پاک کرتا ہے تمھیں اور تعلیم دیتا ہے تمھیں کتاب اور حکمت کی اور سکھاتا ہے تمھیں وہ
(باتیں) جو نہیں تھے تم جانتے
(151) پس یاد کرو تم مجھے، میں یاد کروں گا تمھیں اور تم شکر کرو میرے لیے اور نہ ناشکری کرو میری
(152)
#
{151} يقول تعالى: إن إنعامنا عليكم باستقبال الكعبة وإتمامها بالشرائع والنعم المتممة ليس ذلك ببدع من إحساننا ولا بأوله بل أنعمنا عليكم بأصول النعم ومتمماتها فأبلغها إرسالنا إليكم هذا الرسول الكريم منكم تعرفون نسبه وصدقه وأمانته وكماله ونصحه {يتلو عليكم آياتنا}؛ وهذا يعم الآيات القرآنية وغيرها، فهو يتلو عليكم الآيات المبينة للحق من الباطل والهدى من الضلال التي دلتكم أولاً على توحيد الله وكماله ثم على صدق رسوله ووجوب الإيمان به ثم على جميع ما أخبر به من المعاد والغيوب، حتى حصل لكم الهداية التامة والعلم اليقيني {ويزكيكم}؛ أي: يطهر أخلاقكم ونفوسكم بتربيتها على الأخلاق الجميلة، وتنزيهها عن الأخلاق الرذيلة، وذلك كتزكيتهم من الشرك إلى التوحيد ومن الرياء إلى الإخلاص، ومن الكذب إلى الصدق، ومن الخيانة إلى الأمانة، ومن الكبر إلى التواضع، ومن سوء الخلق، إلى حسن الخلق ومن التباغض والتهاجر والتقاطع إلى التحاب والتواصل والتوادد وغير ذلك من أنواع التزكية {ويعلمكم الكتاب}؛ أي: القرآن ألفاظه ومعانيه {والحكمة}؛ قيل هي السنة، وقيل: الحكمة معرفة أسرار الشريعة والفقه فيها وتنزيل الأمور منازلها، فيكون على هذا تعليم السنة داخلاً في تعليم الكتاب؛ لأن السنة تبين القرآن وتفسره وتعبر عنه {ويعلمكم ما لم تكونوا تعلمون}؛ لأنهم كانوا قبل بعثته في ضلال مبين لا علم ولا عمل، فكل علم أو عمل نالته هذه الأمة فعلى يده - صلى الله عليه وسلم -، وبسببه كان.
فهذه النعم هي أصول النعم على الإطلاق، وهي أكبر نعم ينعم بها على عباده؛ فوظيفتهم شكر الله عليها والقيام بها، فلهذا قال تعالى:
[151] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کعبہ شریف کی طرف تحویل قبلہ کے ذریعے سے ہم نے تمھیں جو نعمت عطا کی اور اس کے اتمام کے لیے شرعی احکام اور دیگر نعمتیں عطا کیں، یہ ہماری طرف سے کوئی انوکھا اور پہلا احسان نہیں بلکہ ہم نے تمھیں بڑی بڑی نعمتیں عطا کیں اور پھر دیگر نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تکمیل کی۔ ان میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ہم نے تمھاری طرف اس رسول کریم کو مبعوث کیا جو تم ہی میں سے ہے، جس کے حسب و نسب، اس کی صداقت و امانت اور اس کی خیرخواہی کو تم خوب جانتے ہو۔
﴿ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا﴾ ’’وہ تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے‘‘ اس کے عموم میں آیات قرآنی اور دیگر تمام آیات داخل ہیں۔
(ہمارا) رسول تم پر آیات کی تلاوت کرتا ہے جو باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیات الٰہی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے کمال کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ،پھر اس کے رسولeکی صداقت، اس پر ایمان کے وجوب اور ان تمام غیبی اور مابعد الموت امور پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے، تاکہ تمھیں ہدایت کامل اور علم یقینی حاصل ہو جائے۔
﴿وَیُزَؔكِّیْكُمْ﴾ ’’اور تمھارا تزکیہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی تربیت کے ذریعے سے اخلاق جمیلہ کو اجاگر اور اخلاق رذیلہ کو زائل کر کے تمھارے نفوس اور تمھارے اخلاق کو پاک کرتا ہے، مثلاً شرک سے توحید کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف، جھوٹ سے صدق کی طرف، خیانت سے امانت کی طرف، تکبر سے تواضع کی طرف، بدخلقی سے حسن اخلاق کی طرف، باہم بغض، قطع تعلقی اور قطع رحمی سے ایک دوسرے سے محبت، مودت اور صلہ رحمی کی طرف تمھارا تزکیہ کرتا ہے، اس کے علاوہ تزکیہ کی دیگر انواع کے ذریعے سے تمھیں پاک کرتا ہے۔
﴿وَیُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور تمھیں کتاب
(قرآن) سکھاتا ہے۔‘‘ یعنی قرآن کے الفاظ ومعانی کی تعلیم دیتا ہے
﴿وَالْحِكْمَةَ ﴾ ’’اور حکمت‘‘ ایک قول کے مطابق حکمت سے مراد سنت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت کی معرفت اور اس کی سمجھ ہے، نیز تمام امور کو ان کے مقام پر رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے سنت کی تعلیم کتاب اللہ کی تعلیم میں داخل ہے، کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کی تعبیر کرتی ہے۔
﴿وَیُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُ٘وْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے‘‘ کیونکہ بعثت محمدی سے قبل اہل عرب کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ ان کے پاس علم تھا نہ عمل۔ پس ہر علم اور عمل جو اس امت کو حاصل ہوا ہے وہ رسول اللہeکے توسط اور آپ ہی کے سبب سے حاصل ہوا ہے۔ یہ نعمتیں علی الاطلاق حقیقی نعمتیں ہیں۔ یہ نعمتیں سب سے بڑی نعمتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ لہٰذا ان کا وظیفہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی ہونا چاہیے۔
#
{152} {فاذكروني أذكركم}؛ فأمر تعالى بذكره، ووعد عليه أفضل جزاء وهو ذكره؛ لمن ذكره كما قال تعالى على لسان رسوله: «من ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، ومن ذكرني في ملأ ذكرته في ملأ خير منهم» ، وذكر الله تعالى أفضله ما تواطأ عليه القلب واللسان وهو [الذكرُ] الذي يثمر معرفة الله ومحبته وكثرة ثوابه، والذكر هو رأس الشكر فلهذا أمر به خصوصاً ثم من بعده أمر بالشكر عموماً فقال: {واشكروا لي}؛ أي: على ما أنعمت عليكم بهذه النعم ودفعت عنكم صنوف النقم، والشكر يكون بالقلب إقراراً بالنعم واعترافاً، وباللسان ذكراً وثناءً، وبالجوارح طاعةً لله وانقياداً لأمره واجتناباً لنهيه، فالشكر فيه بقاء النعمة الموجودة وزيادة في النعم المفقودة، قال تعالى: {لئن شكرتم لأزيدنكم}. وفي الإتيان بالأمر بالشكر بعد النعم الدينية من العلم وتزكية الأخلاق والتوفيق للأعمال بيان أنها أكبر النعم، بل هي النعم الحقيقية التي تدوم إذا زال غيرها، وإنه ينبغي لمن وفقوا لعلم أو عمل أن يشكروا الله على ذلك ليزيدهم من فضله وليندفع عنهم الإعجاب فيشتغلوا بالشكر، ولما كان الشكر ضده الكفر نهى عن ضده فقال: {ولا تكفرون}؛ المراد بالكفر ههنا ما يقابل الشكر، فهو كفر النعم وجحدها وعدم القيام بها.
ويحتمل أن يكون المعنى عامًّا فيكون الكفر أنواعاً كثيرة أعظمه الكفر بالله، ثم أنواع المعاصي على اختلاف أنواعها وأجناسها من الشرك فما دونه.
[152] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ۠ اَذْكُرْؔكُمْ﴾ ’’پس تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور اس پر بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولeکی زبان مبارک سے فرمایا ’’جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جو کسی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری، التوحید،
باب قول اللہ تعالیٰ:﴿وَیُحَذِّرُؔكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ.....﴾،
حديث:7405)سب سے بہتر ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان کی موافقت ہو اور اسی ذکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔ اور ذکر الٰہی ہی شکر کی بنیاد ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا حکم دیا ہے۔ پھر اس کے بعد شکر کا عمومی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَاشْكُرُوْا لِیْ﴾ ’’اور میرا شکر کرو۔‘‘ یعنی میں نے جو یہ نعمتیں تمھیں عطا کیں اور مختلف قسم کی تکالیف اور مصائب کو تم سے دور کیا اس پر میرا شکر کرو۔ شکر، دل سے ہوتا ہے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کر کے۔ زبان سے ہوتا ہے، اس کا ذکر اور حمدوثنا کر کے۔ اعضاء سے ہوتا ہے اس کے حکموں کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کر کے۔
پس شکر، موجود نعمت کے باقی رہنے اور مفقود نعمت
(مزید نئی نعمتوں) کے حصول کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّـكُمْ ﴾ (ابراہیم : 14؍7) ’’اگر تم شکر کرو گے تو تمھیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ علم، تزکیہ اخلاق اور توفیق عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے، جبکہ دیگر نعمتیں زائل ہو جائیں گی۔ ان تمام حضرات کے لیے، جن کو علم و عمل کی توفیق سے نوازا گیا ہے،
یہی مناسب ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اضافہ ہو اور ان سے عجب اور خود پسندی دور رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں مشغول رہیں۔
چونکہ شکر کی ضد کفران نعمت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضد سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ لَا تَكْ٘فُ٘رُوْنِ﴾ ’’اور میرا کفر نہ کرو‘‘ یہاں ’’کفر‘‘ سے مراد وہ رویہ ہے جو شکر کے بالمقابل ہوتا ہے۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری اور ان کا انکار اور ان نعمتوں کا حق ادا کرنے سے گریز و فرار۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی عام ہو تب اس لحاظ سے کفر کی بہت سی اقسام ہیں اور ان میں سب سے بڑی قسم اللہ تعالیٰ سے کفر ہے پھر اختلاف اجناس و انواع کے اعتبار سے مختلف معاصی، مثلاً شرک اور اس سے کم تر گناہ۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153)}
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! مدد طلب کرو تم ساتھ صبر اور نماز کے، بے شک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے
(153)
#
{153} أمر الله تعالى المؤمنين بالاستعانة على أمورهم الدينية والدنيوية {بالصبر والصلاة}؛ فالصبر هو حبس النفس وكفها على ما تكره، فهو ثلاثة أقسام:
صبرها على طاعة الله حتى تؤديها، وعن معصية الله حتى تتركها، وعلى أقدار الله المؤلمة فلا تتسخطها.
فالصبر هو المعونة العظيمة على كل أمر، فلا سبيل لغير الصابر أن يدرك مطلوبه، خصوصاً الطاعات الشاقة المستمرة فإنها مفتقرة أشد الافتقار إلى تحمل الصبر وتجرع المرارة الشاقة، فإذا لازم صاحبها الصبر فاز بالنجاح، وإن رده
المكروه والمشقة عن الصبر والملازمة عليها لم يدرك شيئاً وحصل على الحرمان، وكذلك المعصية التي تشتد دواعي النفس ونوازعها إليها وهي في محل قدرة العبد، فهذه لا يمكن تركها إلا بصبر عظيم وكف لدواعي قلبه ونوازعها لله تعالى واستعانة بالله على العصمة منها فإنها من الفتن الكبار، وكذلك البلاء الشاق خصوصاً إن استمر، فهذا تضعف معه القوى النفسانية والجسدية ويوجد مقتضاها وهو التسخط إن لم يقاومها صاحبها بالصبر لله والتوكل عليه واللجْأ إليه والافتقار على الدوام، فعلمت أن الصبر محتاج إليه العبد، بل مضطر في كل حالة من أحواله، فلهذا أمر الله تعالى به وأخبر أنه {مع الصابرين}؛ أي: مع من كان الصبر لهم خلقاً وصفة وملكة بمعونته وتوفيقه وتسديده فهانت عليهم بذلك المشاق والمكاره وسهل عليهم كل عظيم وزالت عنهم كل صعوبة، وهذه معية خاصة تقتضي محبته ومعونته ونصره وقربه وهذه منقبة عظيمة للصابرين فلو لم يكن للصابرين فضيلة إلا أنهم فازوا بهذه المعية من الله لكفى بها فضلاً وشرفاً، وأما المعية العامة فهي معية العلم والقدرة كما في قوله تعالى: {وهو معكم أينما كنتم} وهذه عامة للخلق.
وأمر تعالى بالاستعانة بالصلاة لأن الصلاة هي عماد الدين ونور المؤمنين، وهي الصلة بين العبد وبين ربه، فإذا كانت صلاة العبد صلاة كاملة مجتمعاً فيها ما يلزم فيها وما يسن، وحصل فيها حضور القلب الذي هو لبها فصار العبد إذا دخل فيها استشعر دخوله على ربه ووقوفه بين يديه موقف العبد الخادم المتأدب مستحضراً لكل ما يقوله وما يفعله مستغرقاً بمناجاة ربه ودعائه، لا جرم أن هذه الصلاة من أكبر المعونة على جميع الأمور، فإن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر، ولأن هذا الحضور الذي يكون في الصلاة يوجب للعبد في قلبه وصفاً وداعياً يدعوه إلى امتثال أوامر ربه واجتناب نواهيه، هذه هي الصلاة التي أمر الله أن نستعين بها على كل شيء.
[153] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیاوی امور میں صبر اور نماز سے مدد لیں۔ پس صبر، نفس کو روکنے اور ان امور سے باز رکھنے کا نام ہے جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ صبر کی تین قسمیں ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا حتیٰ کہ اسے بجا لائے۔
(۲) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر کرنا۔ یہاں تک کہ وہ اس نافرمانی کو ترک کر دے۔
(۳) تکلیف پہنچانے والی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔
صبر سے ہر کام میں زبردست معونت حاصل ہوتی ہے لہٰذا بے صبر آدمی کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنا مقصد حاصل کر سکے، خاص طور پر دائمی مشقت سے بھرپور نیکیاں۔ کیونکہ اس قسم کی نیکیاں انتہائی صبر و تحمل اور مشقت کی تلخی برداشت کرنے کی محتاج ہوتی ہیں۔ ان نیکیوں کا مشتاق جب صبر کو لازم پکڑ لیتا ہے تو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اگر ناپسندیدہ کام اور مشقت اسے صبر پر قائم نہ رکھ سکے تو اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف محرومی اس کا نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ گناہ جس کی طرف نفس انسانی کا داعیہ کشش رکھتا ہے اور اس گناہ کا ارتکاب اس کی قدرت میں بھی ہوتا ہے تو اس گناہ کا ترک کرنا صرف صبر عظیم، اللہ تعالیٰ کی خاطر قلب کے دواعی کے ترک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ گناہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہوتا ہے۔
اسی طرح سخت مصائب اور آزمائشوں میں، خاص طور پر جبکہ یہ مصائب دائمی ہوں تب ان پے در پے مصائب سے جسمانی اورنفسانی قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں، اگر یہ شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر، توکل، اللہ تعالیٰ کی پناہ کے ذریعے سے اور اپنے آپ کو اللہ کا دائمی محتاج سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کرے گا تو ناراضی اور غصہ اس پر غلبہ پا لیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا بندہ محتاج بلکہ ہر حالت میں اس کی طرف مجبور ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے صبر کو اپنی عادت، وصف اور ملکہ بنا لیا ہے۔
تب ان لوگوں پر بڑی بڑی مشقتیں اور مصائب آسان ہو جاتے ہیں، ان پر ہر بڑا کام آسان اور ان سے ہر مشکل دور ہو جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص معیت ہے جو اس کی محبت، اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر کرنے والوں کی بہت بڑی مدح و منقبت ہے۔ اگر اہل صبر کی صرف یہی فضیلت ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے تو شرف و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے۔ رہی معیت عامہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کی معیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ (الحدید: 57؍4) ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے‘‘ میں مذکور ہے اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نماز سے مدد لینے کا حکم دیا ہے کیونکہ نماز دین کا ستون اور اہل ایمان کا نور ہے۔ نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ جب بندۂ مومن کی نماز کامل ہو ، اس میں تمام لازمی امور اور سنن جمع ہوں، اس میں حضور قلب، جو نماز کا لب لباب ہے، حاصل ہو تو بندۂ مومن جب نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوا ہے اور اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہے جس طرح ایک مؤدب خادم غلام اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہے اور جو کچھ کرے اس کا معنی اور مفہوم اس کے شعور میں حاضر ہو، وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مستغرق ہو، تو یقیناً یہ نماز تمام امور میں سب سے بڑی مددگار ہے کیونکہ نماز فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ یہ حضور قلب جو نماز کے اندر حاصل ہوتا ہے، بندے کے قلب میں ایسے وصف اور داعیے کا موجب بنتا ہے جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر چیز کے مقابلے میں اس سے مدد لیں۔
{وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (154)}
اور نہ کہو تم ان کو، جو قتل کر دیے جائیں اللہ کی راہ میں، مردےبلکہ
(وہ) زندہ ہیں لیکن نہیں شعور رکھتے تم
(154)
#
{154} لما ذكر تبارك وتعالى الأمر بالاستعانة بالصبر على جميع الأحوال ذكر نموذجاً مما يستعان بالصبر عليه وهو الجهاد في سبيله وهو أفضل الطاعات البدنية وأشقها على النفوس لمشقته في نفسه ولكونه مؤدياً للقتل وعدم الحياة التي إنما يرغب الراغبون في هذه الدنيا لحصول الحياة ولوازمها، فكل ما يتصرفون به فإنه سعيٌ لها ودفع لما يضادها.
ومن المعلوم أن المحبوب لا يتركه العاقل إلا لمحبوب أعلى منه وأعظم، فأخبر تعالى أن من قتل في سبيله بأن قاتل في سبيل الله لتكون كلمة الله هي العليا ودينه الظاهر لا لغير ذلك من الأغراض فإنه لم تفته الحياة المحبوبة بل حصل له حياة أعظم وأكمل مما تظنون وتحسبون، فالشهداء {أحياء عند ربهم يرزقون. فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألاَّ خوف عليهم ولا هم يحزنون. يستبشرون بنعمة من الله وفضل وأن الله لا يضيع أجر المؤمنين}؛ فهل أعظم من هذه الحياة المتضمنة للقرب من الله تعالى وتمتعهم برزقه البدني في المأكولات والمشروبات اللذيذة والرزق الروحي وهو الفرح وهو الاستبشار وزوال كل خوف وحزن وهذه حياة برزخية أكمل من الحياة الدنيا، بل قد أخبر النبي - صلى الله عليه وسلم - أن أرواح الشهداء في أجواف طير خضر ترد أنهار الجنة، وتأكل من ثمارها وتأوي إلى قناديل معلقة بالعرش.
وفي هذه الآية أعظم حث على الجهاد في سبيل الله وملازمة الصبر عليه، فلو شعر العباد بما للمقتولين في سبيل الله من الثواب لم يتخلف عنه أحد، ولكن عدم العلم اليقيني التام هو الذي فتر العزائم وزاد نوم النائم وأفات الأجور العظيمة والغنائم، لم لا يكون كذلك والله تعالى قد {اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنة يقاتلون في سبيل الله فيقتلون ويقتلون}؛ فوالله لو كان للإنسان ألف نفس تذهب نفساً فنفساً في سبيل الله لم يكن عظيماً في جانب هذا الأجر العظيم.
ولهذا لا يتمنى الشهداء بعدما عاينوا من ثواب الله وحسن جزائه إلا أن يُرَدُّوا إلى الدنيا؛ حتى يقتلوا في سبيله مرة بعد مرة.
وفي الآية دليل على نعيم البرزخ وعذابه كما تكاثرت بذلك النصوص.
[154] چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام احوال میں صبر سے مدد لینے کا حکم دیا ہے اس لیے اس نے ایک نمونہ ذکر فرمایا ہے جس میں صبر سے مدد لی جاتی ہے۔ اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے جو سب سے افضل بدنی عبادت ہے۔ اپنی مشقت کی وجہ سے یہ نفوس انسانی پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے نیز یہ عبادت نفوس انسانی پر اس لیے بھی گراں ہے کہ اس کا نتیجہ موت اور عدم حیات ہے اور زندگی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس دنیا میں زندگی اور اس کے لوازم کے حصول میں رغبت رکھتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جس میں لوگ تصرف کرتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ضد کو دور کیا جاتا ہے۔
اور یہ معلوم ہے کہ عقل مند شخص اپنی محبوب چیز کو اس وقت ہی چھوڑتا ہے جب اسے اس سے بڑی اور اس سے بہتر کوئی اور محبوب چیز حاصل ہونے کی امید ہو۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس وجہ سے قتل ہو جاتا ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا تاکہ اللہ کا کلمہ بلند اور اس کا دین غالب ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو۔ تو وہ اپنی محبوب زندگی کو کھو نہیں دیتا بلکہ اسے اس زندگی سے زیادہ عظیم اور کامل زندگی حاصل ہو جاتی ہے جس کا تم گمان اور تصور کر سکتے ہو۔
پس شہداء وہ ہیں جن کا ذکر یوں آیا ہے
﴿ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُ٘وْنَۙ۰۰فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۙ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ١ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ۰۰ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ١ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران : 3؍169۔171) ’’وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں اور جو پیچھے رہ گئے اور
(شہید ہو کر) ان کے ساتھ نہ مل سکے ان کے بارے میں خوش ہو رہے ہیں کہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمتوں، اس کے فضل اور اس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
کیا اس سے بھی بڑی کوئی اور زندگی ہے جو قرب الٰہی، اس کے بدنی رزق، مثلاً لذیذ ماکولات و مشروبات سے تمتع اور روحانی رزق، مثلاً فرحت، خوشی اورعدم حزن و غم کو متضمن ہے؟
یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ کامل ہے۔ بلکہ رسول اللہeنے اس زندگی کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ فرمایا: ’’شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف
(پیٹ) میں جنت کی نہروں سے پانی پینے کے لیے وارد ہوتی ہیں جنت کے پھل کھاتی ہیں اور ان قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم، الإمارہ ، باب بیان أن أرواح الشھداء في الجنۃ ….. الخ، حديث:1887 و مسند احمد:1؍166)
اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس میں صبر کا دامن پکڑے رکھنے کی بڑی ترغیب ہے۔ پس اگر بندوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کا کتنا ثواب ہے تو کوئی شخص جہاد سے پیچھے نہ رہے مگر کامل علم یقینی کا فقدان، عزائم کو کمزور،
نیند میں مدہوش شخص کی نیند میں اور اضافہ اور غنیمتیں اور بہت بڑا ثواب حاصل کرنے سے محروم کر دیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا جان و مال خرید لیا ہے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَؔ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَؔ وَیُقْتَلُوْنَؔ﴾ (التوبہ : 9؍111) ’’اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں
(کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہو جاتے ہیں۔‘‘
اللہ کی قسم! اگر انسان کو ہزار جانیں عطا کی گئی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے سب جانیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی اس اجر عظیم کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے شہداء جب اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس بہترین جزا اور ثواب کا مشاہدہ کر لیں گے تو دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے تاکہ وہ اللہ کے راستے میں بار بار قتل ہوں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ برزخ میں انسان کو آرام اور عذاب ملتا ہے جیسا کہ بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔
{وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)}
اور البتہ ہم ضرور آزمائیں گے تم کو کچھ نہ کچھ خوف اور بھوک اور کمی کرنے سے مالوں اور جانوں اور پھلوں میں سےاور خوشخبری دے دیجیے صبر کرنے والوں کو
(155) وہ لوگ کہ جب پہنچتی ہے انھیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں، بلاشبہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں
(156) یہی لوگ، ان کے لیے بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور رحمت اور یہی ہیں ہدایت یافتہ
(157)
#
{155} أخبر تعالى أنه لا بد أن يبتليَ عباده بالمحن ليتبين الصادق من الكاذب والجازع من الصابر، وهذه سنته تعالى في عباده، لأن السراء لو استمرت لأهل الإيمان ولم يحصل معها محنة لحصل الاختلاط الذي هو فساد، وحكمة الله تقتضي تمييز أهل الخير من أهل الشر، هذه فائدة المحن لا إزالة ما مع المؤمنين من الإيمان ولا ردهم عن دينهم، فما كان الله ليضيع إيمان المؤمنين. فأخبر في هذه الآية أنه سيبتلي عباده، {بشيء من الخوف}؛ من الأعداء، {والجوع}؛ أي: بشيء يسير منهما لأنه لو ابتلاهم بالخوف كله أو الجوع لهلكوا، والمحن تمحص لا تهلك، {ونقص من الأموال}؛ وهذا يشمل جميع النقص المعتري للأموال من جوائح سماوية وغرق وضياع وأخذ الظلمة للأموال من الملوك الظلمة وقطاع الطريق وغير ذلك {والأنفس}؛ أي: ذهاب الأحباب من الأولاد والأقارب والأصحاب، ومن أنواع الأمراض في بدن العبد أو بدن من يحبه، {والثمرات}؛ أي: الحبوب وثمار النخيل والأشجار كلها والخضر ببرد أو برَد أو حرق أو آفة سماوية من جراد ونحوه، فهذه الأمور لا بد أن تقع لأن العليم الخبير أخبر بها فوقعت كما أخبر، فإذا وقعت انقسم الناس قسمين: جازعين وصابرين.
فالجازع حصلت له المصيبتان، فوات المحبوب وهو وجود هذه المصيبة وفوات ما هو أعظم منها وهو الأجر بامتثال أمر الله بالصبر ففاز بالخسارة والحرمان ونقص ما معه من الإيمان، وفاته الصبر والرضا والشكران وحصل له السخط الدال على شدة النقصان.
وأما من وفقه الله للصبر عند وجود هذه المصائب فحبس نفسه عن التسخط قولاً وفعلاً واحتسب أجرها عند الله وعلم أن ما يدركه من الأجر بصبره أعظم من المصيبة التي حصلت له، بل المصيبة تكون نعمة في حقه لأنها صارت طريقاً لحصول ما هو خير له وأنفع منها، فقد امتثل أمر الله وفاز بالثواب، فلهذا قال تعالى: {وبشر الصابرين}؛ أي: بشرهم بأنهم يوفون أجرهم بغير حساب، فالصابرون هم الذين فازوا بالبشارة العظيمة والمنحة الجسيمة، ثم وصفهم بقوله:
[155] اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں کو مصائب و محن کے ذریعے سے آزماتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے، صابر اور بے صبر کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔ اپنے بندوں کے معاملے میں یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ کیونکہ اگر اہل ایمان ہمیشہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں انھیں کبھی مصائب ومحن کا سامنا نہ ہو تو فساد واقع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خیر اہل شر میں سے علیحدہ ہوں۔ یہ آزمائش کا فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کا وہ ایمان زائل نہیں ہوتا جو انھیں عطا کیا گیا ہے اور نہ آزمائش انھیں دین سے ہٹاتی ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے گا
﴿بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ﴾ ’’کسی قدر خوف سے‘‘ یعنی دشمنوں کے خوف سے
﴿وَالْجُوْعِ ﴾ ’’اور بھوک سے‘‘ یعنی بھوک اور دشمنوں کے خوف کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ انھیں ضرور آزمائے گا۔ کیونکہ اگراللہ تعالیٰ نے انھیں مکمل بھوک اور خوف میں مبتلا کر دیا تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔ اور آزمائش اور امتحان ہلاک کرنے کی غرض سے نہیں آتا بلکہ اس کا مقصد پاک صاف کرنا ہوتا ہے۔
﴿وَنَقْ٘صٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ﴾ ’’اور کچھ مالوں کی کمی سے‘‘ اس میں وہ تمام کمی اور گھاٹا شامل ہے جو اہل ایمان کو آفات سماوی، سیلاب یا سمندر میں غرق ہونے، ظالم حکومتوں کے مال چھین لینے اور راہزن ڈاکوؤں کے ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے پیش آتا ہے۔
﴿وَالْاَنْفُ٘سِ ﴾ ’’اور جانوں کی کمی سے‘‘ اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں کو فوت کر کے، خود بندۂ مومن یا اس کے کسی عزیز کو بیماری لاحق کر کے ان کو آزماتا ہے۔
﴿وَالثَّ٘مَرٰتِ﴾ ’’اور پھلوں کی کمی سے‘‘ ژالہ باری، سردی، آگ لگنے، آفات سماوی اور ٹڈی دل کے ذریعے سے غلہ جات، کھجوروں، سبزیوں اور تمام پھلدار درختوں کو نقصان پہنچا کر ہم ضرور آزمائیں گے۔ ان تمام آزمائشوں کا آنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر نے ان کے بارے میں خبر دی ہے۔ اور یہ آزمائشیں اسی طرح واقع ہوئیں۔ جب یہ مصائب و محن واقع ہوئے، تو لوگ دو اقسام میں منقسم ہو گئے۔
(۱) بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے۔
(۲) صبر کرنے والے۔
بے صبر شخص کو دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محبوب چیز سے محروم ہونا اور وہ اس مصیبت کا وجود ہے۔دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑی چیز سے محروم ہونا یعنی اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ثواب کا حاصل نہ کرنا۔ چنانچہ خسارہ، حرماں نصیبی اور ایمان میں کمی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ صبر، رضا اور شکر سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے ناراضی حاصل ہوتی ہے جو شدت نقصان پر دلالت کرتی ہے۔
لیکن وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ان مصائب ومحن کے وقت صبر سے نوازا اور اس نے اپنے آپ کو قولاً اور فعلاً اللہ پر اظہار برہمی سے روکے رکھا۔ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کی امید رکھی اور اسے یہ بھی علم ہے کہ صبر کرنے سے اسے جو ثواب حاصل ہو گا،
وہ اس مصیبت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کا اسے سامنا ہے۔ بلکہ یہ مصیبت اس کے حق میں نعمت ہے کیونکہ یہ مصیبت اس کے لیے اس بھلائی اور فائدے کے حصول کا باعث بنی ہے جو اس مصیبت سے زیادہ بہتر ہے۔ پس اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور ثواب کا مستحق قرار پایا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَبَشِّ٘رِ الصّٰؔبِرِیْنَؔ﴾ ’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو۔‘‘ یعنی انھیں خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے ان کو پورا پورا اجر دے گا۔ پس اہل صبر وہ لوگ ہیں جن کو عظیم بشارت اور بہت بڑے انعام سے نوازا گیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
#
{156} {الذين إذا أصابتهم مصيبة}؛ وهي كل ما يؤلم القلب أو البدن أو كليهما مما تقدم ذكره، {قالوا إنا لله}؛ أي: مملوكون لله مدبرون تحت أمره وتصريفه فليس لنا من أنفسنا وأموالنا شيء، فإذا ابتلانا بشيء منها فقد تصرف أرحم الراحمين بمماليكه وأموالهم فلا اعتراض عليه، بل من كمال عبودية العبد علمه بأن وقوع البلية من المالك الحكيم الذي هو أرحم بعبده من نفسه، فيوجب له ذلك الرِّضا عن الله والشكر له على تدبيره لما هو خير لعبده وإن لم يشعر بذلك، ومع أننا مملوكون لله فإنا إليه راجعون يوم المعاد، فمجازٍ كل عامل بعمله، فإن صبرنا واحتسبنا وجدنا أجرنا موفراً عنده، وإن جزعنا وسخطنا لم يكن حظنا إلا السخط وفوات الأجر، فكون العبد لله وراجعاً إليه من أقوى أسباب الصبر.
[156] ﴿الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ﴾’’وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے‘‘ مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو قلب، بدن یا دونوں کو تکلیف پہنچائے۔ جس کا ذکر پہلے گزرا۔
﴿قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ﴾ ’’تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔‘‘ یعنی وہ پکار اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اسی کے دست تدبیر اور اسی کے تصرف کے تحت ہیں، پس ہماری جانوں اور ہمارے مال میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔
جب اللہ تعالیٰ ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ، جس کی ذات سب سے زیادہ رحم کرنے والی ہے، درحقیقت اپنے غلاموں اور ان کے مال میں تصرف کرتا ہے اس لیے مالک پر اعتراض کی مجال نہیں بلکہ بندۂ مومن کا کمال عبودیت اس کا یہ جان لینا ہے کہ اس پر جو مصیبت آن پڑی ہے وہ اس کے حکمت والے مالک کی طرف سے ہے جو اپنے بندے پر خود اس بندے سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، تب یہ چیز بندے کو اللہ تعالیٰ پر راضی اور اس کی اس تدبیر پر شکر گزار رکھتی ہے کہ اس نے اپنے بندے کے لیے وہی چیز اختیار کی جو اس کے لیے بہتر تھی، اگرچہ بندے کو اس کا شعور بھی نہ تھا۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں پس قیامت کے روز ہم نے لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس ہی حاضر ہونا ہے۔ اور ہر شخص کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اگر ہم صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو ہم اس کے ہاں اپنے اجر و ثواب کو وافر پائیں گے اور اگر ہم بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہوں گے تو ہمیں ناراضی اور اجر کی محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پس بندے کا اللہ کی ملکیت ہونا اور اس کا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا صبر کا سب سے طاقتور سبب ہے۔
#
{157} {أولئك}؛ الموصوفون بالصبر المذكور {عليهم صلوات من ربهم}؛ أي: ثناء وتنويه بحالهم، {ورحمة}؛ عظيمة، ومن رحمته إياهم أن وفقهم للصبر الذي ينالون به كمال الأجر {وأولئك هم المهتدون}؛ الذين عرفوا الحق، وهو في هذا الموضع علمهم بأنهم لله وأنهم إليه راجعون وعملوا به وهو هنا صبرهم لله، ودلت هذه الآية على أن من لم يصبر فله ضد ما لهم فحصل له الذم من الله والعقوبة والضلال والخسار، فما أعظم الفرق بين الفريقين وما أقل تعب الصابرين وأعظم عناء الجازعين.
فقد اشتملت هاتان الآيتان على توطين النفوس على المصائب قبل وقوعها لتخف وتسهل إذا وقعت، وبيان ما تقابل به إذا وقعت وهو الصبر، وبيان ما يعين على الصبر وما للصابرين من الأجر. ويعلم حال غير الصابر بضد حالة الصابر وأن هذا الابتلاء والامتحان سنة الله التي قد خلت ولن تجد لسنة الله تبديلاً وبيان أنواع المصائب.
[157] ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں۔‘‘ یعنی یہی لوگ جو صبر مذکور کی صفت سے موصوف ہیں
﴿عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’ان پر برکتیں ہیں ان کے رب کی طرف سے‘‘ یعنی یہ ان کے احوال کی مدح و ثنا اور تعریف و تعظیم ہے
﴿ وَرَحْمَةٌ ﴾ ’’اور رحمت‘‘ اور ان پر عظیم رحمت ہے۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے ان کو صبر کی توفیق سے نوازا جس کے ذریعے سے وہ کامل اجر حاصل کرتے ہیں۔
﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ﴾ ’’اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘ یعنی وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو پہچان لیا۔ اور وہ حق اس مقام پر یہ ہے کہ انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور انھیں لوٹ کر اسی کے پاس حاضر ہونا ہے اور اس پر وہ عمل پیرا ہوئے اور یہاں عمل، اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا صبر کرنا ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جس نے صبر نہ کیا انھیں وہ کچھ حاصل ہو گا جو صبر کرنے والوں کی ضد ہے۔ یعنی مذمت، عقوبت، گمراہی اور خسارہ۔
(اَعَاذَنَا اللہُ مِنْھَا) پس دونوں قسموں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے، اہل صبر کے لیے کتنی کم مشقت اور بے صبروں کے لیے کتنی بڑی تکلیف ہے۔ یہ دونوں آیتیں نفوس کو مصائب کے نازل ہونے سے پہلے ان مصائب کو خوش دلی سے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں تاکہ جب مصائب نازل ہوں تو وہ آسانی سے برداشت ہو سکیں۔
ان آیات میں اس امر کا بھی بیان ہے کہ جب مصیبت نازل ہو تو کس چیز سے اس کا مقابلہ کیا جائے اور وہ ہے صبر۔ اس چیز کا بھی بیان ہے جو صبر پر مددگار ہوتی ہے، نیز یہ کہ صبر کرنے والوں کے لیے کیا اجر و ثواب ہے۔
ان سے بے صبر لوگوں کا حال بھی واضح ہوتا ہے جو صبر کرنے والوں کے حال کے بالکل برعکس ہے۔
ان آیات کریمہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ابتلا و امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تو اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ نیز ان آیات کریمہ میں مصائب کی مختلف انواع کا بیان ہے۔
{إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (158)}
بے شک صفا اور مروہ، اللہ کی
(عظمت کی) نشانیوں میں سے ہیں، پس جو شخص حج کرے بیت اللہ کا یا عمرہ کرے تو نہیں کوئی گناہ اس پر یہ کہ طو اف کرے وہ ان دونوں کااور جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ قدردان، جاننے والا ہے
(158)
#
{158} يخبر تعالى: {إن الصفا والمروة}؛ وهما معروفان {من شعائر الله}؛ أي: أعلام دينه الظاهرة التي تعبَّد الله بها عباده، وإذا كانا من شعائر الله فقد أمر الله بتعظيم شعائره فقال: {ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب}؛ فدل مجموع النصين أنهما من شعائر الله، وأن تعظيم شعائره من تقوى القلوب، والتقوى واجبة على كل مكلف، وذلك يدل على أن السعي بهما فرض لازم للحج والعمرة كما عليه الجمهور، ودلت عليه الأحاديث النبوية، وفعله النبي - صلى الله عليه وسلم -، وقال: «خذوا عني مناسككم».
{فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما}؛ هذا دفع لوهم من توهم وتحرج من المسلمين عن الطواف بينهما لكونهما في الجاهلية تعبد عندهما الأصنام، فنفى تعالى الجناح لدفع هذا الوهم لا لأنه غير لازم، ودل تقييد نفي الجناح فيمن تطوف بهما في الحج والعمرة أنه لا يتطوع بالسعي مفرداً إلا مع انضمامه لحج أو عمرة، بخلاف الطواف بالبيت فإنه يشرع مع العمرة والحج وهو عبادة مفردة.
فأما السعي والوقوف بعرفة ومزدلفة ورمي الجمار فإنها تتبع النسك، فلو فعلت غير تابعة للنسك كانت بدعة، لأن البدعة نوعان: نوع يتعبد لله بعبادة لم يشرعها أصلاً، ونوع يتعبد له بعبادة قد شرعها على صفة مخصوصة فتفعل على غير تلك الصفة وهذا منه.
وقوله: {ومن تطوع}؛ أي: فعل طاعة مخلصاً بها لله تعالى {خيراً}؛ من حج وعمرة وطواف وصلاة وصوم وغير ذلك، فهو خير له؛ فدل هذا على أنه كلما ازداد العبد من طاعة الله ازداد خيره وكماله ودرجته عند الله لزيادة إيمانه، ودل تقييد التطوع بالخير أن من تطوع بالبدع التي لم يشرعها الله ولا رسوله أنه لا يحصل له إلا العناء، وليس بخير له، بل قد يكون شرًّا له إن كان متعمداً عالماً لعدم مشروعية العمل.
{فإن الله شاكر عليم}؛ الشاكر والشكور من أسماء الله تعالى الذي يقبل من عباده اليسير من العمل، ويجازيهم عليه العظيم من الأجر الذي إذا قام عبده بأوامره وامتثل طاعته أعانه على ذلك وأثنى عليه ومدحه وجازاه في قلبه نوراً وإيماناً وسعة وفي بدنه قوة ونشاطاً وفي جميع أحواله زيادة بركة ونماء وفي أعماله زيادة توفيق، ثم بعد ذلك يقدم على الثواب الآجل عند ربه كاملاً موفراً لم تنقصه هذه الأمور، ومن شكره لعبده أن من ترك شيئاً لله أعاضه الله خيراً منه، ومن تقرب منه شبراً تقرب منه ذراعاً، ومن تقرب منه ذراعاً تقرب منه باعاً، ومن أتاه يمشي أتاه هرولة، ومن عامله ربح عليه أضعافاً مضاعفة، ومع أنه شاكر فهو عليم بمن يستحق الثواب الكامل بحسب نيته وإيمانه وتقواه ممن ليس كذلك، عليم بأعمال العباد فلا يضيعها بل يجدونها أوفر ما كانت على حسب نياتهم التي اطلع عليها العليم الحكيم.
[158] اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے
﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْ٘مَرْوَةَ ﴾ ’’بے شک صفا اور مروہ‘‘ یعنی صفا اورمروہ دو معروف پہاڑیاں
﴿ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری علامتیں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبدیت کو جانچتا ہے،
اور جب صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ ﴾ (الحج : 22؍32) ’’اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ فعل دلوں کا تقویٰ ہے۔‘‘
دونوں نصوص مجموعی طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے اور تقویٰ ہر مکلف پر فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صفا و مروہ کی سعی
(دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا) فرض اور حج و عمرہ کا لازمی رکن ہے۔ جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے اور رسول اللہeکی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ نے خود بھی یہ کام کیا اور فرمایا :’خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ‘ ’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو۔‘‘
(صحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمي جمرۃ العقبۃ ……الخ، حديث:1297، و سنن البيھقی الکبری:5؍125)
﴿ فَ٘مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ﴾ ’’پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے‘‘ چونکہ جاہلیت کے زمانے میں صفا اور مروہ پر بت نصب تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اس لیے وہم دور کرنے اور مسلمانوں کے رفع حرج کے لیے فرمایا کہ ان کے طواف میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو رفع کرنے کے لیے گناہ کی نفی کی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے مابین سعی لازم نہیں۔ نیز حج اور عمرہ میں ان کی سعی میں بطور خاص گناہ کی نفی، اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حج یا عمرہ کے بغیر صرف ان کی سعی کرنا جائز نہیں۔ بخلاف طواف بیت اللہ کے۔ کیونکہ وہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی مشروع ہے اور طواف ایک مستقل عبادت بھی ہے
(یعنی حج اور عمرے کے بغیر بھی طواف جائز ہے) لیکن صفا اور مروہ کے مابین سعی، عرفہ اور مزدلفہ میں وقوف اور رمی جمار یہ تمام افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ کیے جاتے ہیں اگر یہ افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ نہ کیے جائیں بلکہ اکیلے کیے جائیں تو یہ بدعت ہوں گے، اس لیے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی کسی ایسے طریقے سے عبادت کرنا جو اصل میں اس نے مشروع نہیں کی۔
(۲) بدعت کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عبادت ایک خاص طریقے پر مشروع کی ہے اور اس کو کسی مختلف طریقے سے کیا جائے۔ مذکورہ بدعات اسی دوسری قسم سے ہوں گی۔
﴿ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا ﴾ ’’اور جو کوئی نیک کام کرے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے، جیسے حج، عمرہ، طواف، نماز اور روزہ وغیرہ نیکی کے کام تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ بندۂ مومن جتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے کمال، اس کی بھلائیوں اور اس کے درجات میں، اس کے ایمان میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے۔ اور نیکیوں میں بھلائی کی قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نیکی کے طور پر بدعات پر عمل کرتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا، اسے محض مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ اس کے لیے خیر نہیں۔ بلکہ اگر بدعات کا مرتکب ان کی عدم مشروعیت کا علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر اس پر عمل کرتا ہے تو بسا اوقات یہ اس کے لیے شر بن جاتی ہیں۔
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ ﴾ (اَلشَّاکِرُ) اور
(اَلشَّکُوْرُ) اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اَلشَّاکِرُ اور اَلشَّکُوْرُ اس ہستی کو کہتے ہیں جو بندوں کے تھوڑے عمل کو بھی قبول کر لیتی ہے اور اس پر بہت بڑا اجر عطا کرتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو وہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اس کی مدح و ثنا کرتا ہے اور اسے یہ بدلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قلب کو نور اور ایمان سے لبریز کر دیتا ہے۔ اور اس کے بدن میں قوت و نشاط، اس کے احوال میں برکت اور نشوونما اور اس کے اعمال میں مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر یہ بندۂ مومن آخرت میں جب رب کے پاس حاضر ہو گا تو وہاں اسے وافر اور کامل ثواب ملے گا، مذکورہ دنیاوی جزائیں اس کے اخروی ثواب میں کمی نہیں کریں گی۔
اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے قدر دانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ بھاگ کر اس کی طرف بڑھتا ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی گنا منافع سے اسے نوازتا ہے۔
اور باوجود اس بات کے کہ وہ بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے، وہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ کون اپنی نیت، ایمان اور تقویٰ کے مطابق کامل ثواب کا مستحق ہے اور کون اس ثواب کا حق دار نہیں۔ وہ بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، پس وہ ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی نیتوں کے مطابق، جن کو اللہ علیم و حکیم جانتا ہے، ان عملوں کا ثواب پائیں گے۔
{إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (159) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (160) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (161) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (162)}
بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ان کو جو ہم نے نازل کیے واضح دلائل اور ہدایت کی باتیں، بعد اس کے کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں، یہی لوگ ہیں، لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے
(159) مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور
(اپنی) اصلاح کر لی اور کھول کر بیان کیا تو یہی لوگ ہیں متوجہ ہوتا ہوں میں ان پر اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہوں
(160) بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور مر گئے اس حال میں کہ وہ کافر ہی تھے تو یہی لوگ ہیں ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی
(161) ہمیشہ رہیں گے وہ اس
(لعنت) میں نہ ہلکا کیاجائے گا ان سے عذاب اور نہ وہ مہلت ہی دیے جائیں گے
(162)
#
{159} هذه الآية وإن كانت نازلة في أهل الكتاب وما كتموا من شأن الرسول - صلى الله عليه وسلم -، وصفاته فإن حكمها عامٌّ لكل من اتصف بكتمان ما أنزل الله {من البينات}؛ الدالات على الحق المظهرات له {والهدى}؛ وهو العلم الذي تحصل به الهداية إلى الصراط المستقيم، ويتبين به طريق أهل النعيم من طريق أهل الجحيم، فإن الله أخذ الميثاق على أهل العلم بأن يبينوا للناس ما منَّ الله به عليهم من علم الكتاب ولا يكتموه، فمن نبذ ذلك وجمع بين المفسدتين: كتم ما أنزل الله والغش لعباد الله فأولئك {يلعنهم الله}؛ أي: يبعدهم ويطردهم عن قربه ورحمته {ويلعنهم اللاعنون}؛ وهم جميع الخليقة، فتقع عليهم اللعنة من جميع الخليقة لسعيهم في غش الخلق وفساد أديانهم وإبعادهم من رحمة الله، فجوزوا من جنس عملهم، كما أن معلم الناس الخير يصلي الله عليه وملائكته حتى الحوت في جوف الماء لسعيه في مصلحة الخلق وإصلاح أديانهم، وقربهم من رحمة الله، فجوزي من جنس عمله.
فالكاتم لما أنزله الله مضاد لأمر الله مشاق لله، يبين الله الآيات للناس ويوضحها، وهذا يسعى في طمسها وإخفائها ، فهذا عليه هذا الوعيد الشديد.
[159] یہ آیت کریمہ اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں اور اس کی بابت نازل ہوئی ہے کہ انھوں نے رسول اللہeکی صفات کو چھپایا مگر اس کا حکم ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو ان حقائق کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں
﴿ مِنَ الْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’دلائل‘‘ یعنی حق پر دلالت کرنے والی اور اس کو ظاہر کرنے والی باتیں
﴿ وَالْهُدٰؔى ﴾ ھُدٰی وہ علم ہے جس کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور جس سے اہل جنت اور اہل جہنم کے راستوں میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اللہ کا جو علم عطا کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور اسے ہرگز نہیں چھپائیں گے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو دور پھینک دیا اس نے دو مفاسد کو جمع کر دیا۔
(اول) اس حق کو چھپانا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔
(ثانی) اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ دھوکہ کرنا
﴿ اُولٰٓىِٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’ایسے ہی لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے۔‘‘ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ دھتکار دے گا اور انھیں اپنی قربت اور رحمت سے دور کر دے گا
﴿ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾ ’’اور تمام لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ان پر تمام مخلوق کی بھی لعنت پڑے گی۔ کیونکہ انھوں نے مخلوق الٰہی کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے دین کو برباد کیا، انھیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کیا اس لیے انھیں ان کے اعمال کی جنس سے بدلہ دیا جائے گا۔
جیسے لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والے پر اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے، فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لیے رحمت کی دعا کرتی ہیں کیونکہ اس کی تمام بھاگ دوڑ اور کوشش مخلوق کی بھلائی اور ان کے دین کی اصلاح اور ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اس کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپانے والا درحقیقت اللہ کے حکم کا مخالف اور اللہ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں کے سامنے اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے اور یہ شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس مذکورہ سخت وعید کا مورد یہی شخص ہے۔
#
{160} {إلا الذين تابوا}؛ أي: رجعوا عما هم عليه من الذنوب ندماً وإقلاعاً وعزماً على عدم المعاودة {وأصلحوا}؛ ما فسد من أعمالهم؛ فلا يكفي ترك القبيح حتى يحصل فعل الحسن، ولا يكفي ذلك في الكاتم أيضاً حتى يبين ما كتمه ويبدي ضد ما أخفى فهذا يتوب الله عليه لأن توبة الله غير محجوب عنها، فمن أتى بسبب التوبة تاب الله عليه لأنه {التواب}؛ أي: الرجاع على عباده بالعفو والصفح بعد الذنب إذا تابوا وبالإحسان والنعم بعد المنع إذا رجعوا {الرحيم}؛ الذي اتصف بالرحمة العظيمة التي وسعت كل شيء، ومن رحمته أن وفقهم للتوبة والإنابة فتابوا وأنابوا ثم رحمهم بأن قبل ذلك منهم لطفاً وكرماً، هذا حكم التائب من الذنب.
[160] ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا﴾ ’’مگر جنھوں نے توبہ کی‘‘ یعنی جو ندامت کے ساتھ گناہ چھوڑ کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے
﴿وَاَصْلَحُوْا ﴾ ’’اور اپنی حالت درست کرلی۔‘‘ یعنی اپنے فاسد عملوں کی اصلاح کر لی۔ پس صرف برے کام کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں، اس کی جگہ اچھے کام کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کتمان حق کے مرتکب کے لیے بھی صرف یہی کافی نہیں کہ اس نے یہ گناہ چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو بھی ظاہر کرے جس کو اس نے چھپایا تھا۔ پس یہی وہ شخص ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کا سبب لے کر توبہ کے لیے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
﴿ التَّوَّابُ ﴾ ’’بڑا معاف کرنے والا۔‘‘ ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ، گناہ کے بعد عفوودرگزر سے پیش آتا ہے جب وہ توبہ کر لیتے ہیں اور جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو روک لینے کے بعد، ان پر پھر احسان و نعمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔
﴿ الرَّحِیْمُ ﴾ اس ہستی کو کہتے ہیں جو عظیم اور بے پایاں رحمت سے متصف ہو جو ہر چیز کو محیط ہے۔ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے انھیں توبہ اور انابت کی توفیق بخشی، پس انھوں نے توبہ کی اور وہ اس کی طرف پلٹے۔ پھر اس نے ان پر رحم کیا یعنی اپنے لطف و کرم سے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ اس شخص کا حکم ہے جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔
#
{161} وأما من كفر واستمر على كفره حتى مات لم يرجع إلى ربه ولم ينب إليه ولم يتب عن قريب فأولئك {عليهم لعنة الله والملائكة والناس أجمعين}؛ لأنه لما صار كفرهم وصفاً ثابتاً صارت اللعنة عليهم وصفاً ثابتاً لا تزول، لأن الحكم يدور مع علته وجوداً وعدماً.
[161] رہا وہ شخص جو اپنے کفر پر مصر ہے، اس نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا، نہ اس کی طرف پلٹا اور نہ اس نے توبہ کی اور حالت کفر ہی میں مر گیا
﴿اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے‘‘، اس لیے کہ جب کفر، ان کا وصف ثابت بن گیا تو ان پر لعنت بھی ان کا وصف ثابت بن گئی جو کبھی زائل نہیں ہوگی۔ کیونکہ حکم وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے اپنی علت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
(یعنی علت ہو گی تو حکم ہو گا، علت نہیں ہو گی تو حکم بھی نہیں ہو گا)
#
{162} {خالدين فيها}؛ أي: في اللعنة أو في العذاب وهما متلازمان {لا يخفف عنهم العذاب}؛ بل عذابهم دائم شديد مستمر {ولا هم ينظرون}؛ أي: يمهلون لأن وقت الإمهال وهو الدنيا قد مضى، ولم يبق لهم عذر فيعتذرون.
[162] ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’وہ ہمیشہ اس
(لعنت) میں رہیں گے۔‘‘ یعنی وہ لعنت یا عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ لعنت اور عذاب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ فرمایا:
﴿ لَایُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’اور ان پر عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی‘‘ بلکہ ان کو سخت اور دائمی عذاب دیا جائے گا
﴿ وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی‘‘ کیونکہ مہلت کا وقت تو دنیا کی زندگی تھی جو گزر گئی اور ان کے پاس کوئی عذر بھی نہیں ہو گا جو وہ پیش کر سکیں۔
{وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (163)}
اور معبود تمھارا، معبود ایک ہی ہے، نہیں ہے کوئی معبود
(برحق) مگر وہی، نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا
(163)
#
{163} يخبر تعالى وهو أصدق القائلين أنه {إله واحد}؛ أي: متوحد منفرد في ذاته وأسمائه وصفاته وأفعاله فليس له شريك في ذاته ولا سمي له ولا كفو له ولا مثل ولا نظير ولا خالق ولا مدبر غيره، فإذا كان كذلك فهو المستحق لأن يؤله ويعبد بجميع أنواع العبادة ولا يشرك به أحد من خلقه لأنه {الرحمن الرحيم}؛ المتصف بالرحمة العظيمة التي لا يماثلها رحمة أحد فقد وسعت كل شيء وعمت كل حي، فبرحمته وجدت المخلوقات وبرحمته حصلت لها أنواع الكمالات، وبرحمته اندفع عنها كل نقمة، وبرحمته عرَّف عباده نفسه بصفاته وآلائه وبين لهم كل ما يحتاجون إليه من مصالح دينهم ودنياهم بإرسال الرسل وإنزال الكتب، فإذا علم أن ما بالعباد من نعمة فمن الله وأن أحداً من المخلوقين لا ينفع أحداً عُلِمَ أن الله هو المستحق لجميع أنواع العبادة وأن يفرد بالمحبة والخوف والرجاء والتعظيم والتوكل وغير ذلك من أنواع الطاعات وأن من أظلم الظلم وأقبح القبيح أن يعدل عن عبادته إلى عبادة العبيد وأن يشرك المخلوقين من تراب برب الأرباب أو يعبد المخلوق المدبر العاجز من جميع الوجوه مع الخالق المدبر القادر القوي الذي [قد] قهر كل شيء، ودان له كل شيء.
ففي هذه الآية إثبات وحدانية الباري وإلهيته وتقريرها بنفيها عن غيره من المخلوقين وبيان أصل الدليل على ذلك وهو إثبات رحمته التي من آثارها وجود جميع النعم واندفاع جميع النقم، فهذا دليل إجمالي على وحدانيته تعالى.
ثم ذكر الأدلة التفصيلية فقال:
[163] اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتا ہے اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتا ہے، وہ
﴿ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ ’’ایک ہی اِلہٰ ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں اکیلا اور متفرد ہے۔ پس اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی ہم نام اور نہ ہمسر، نہ اس کی کوئی مثال اور نہ اس کی کوئی نظیر ہے۔ اس کے سوا کوئی کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور نہ اس کی تدبیر کرنے والا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس بات کا صرف وہی مستحق ہے کہ ہر قسم کی عبادت صرف اسی کے لیے ہو اور اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
﴿ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ کیونکہ وہ رحمان و رحیم ہے یعنی وہ بے پایاں رحمت سے متصف ہے کسی اور کی رحمت اس سے مماثلت نہیں رکھتی۔ اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی رحمت ہر زندہ چیز کے لیے عام ہے۔ اس کی رحمت ہی کے باعث تمام کائنات وجود میں آئی۔ اس کی رحمت ہی کی وجہ سے تمام مخلوقات کو تمام کمالات حاصل ہوئے۔ اس کی رحمت ہی کی بنا پر ان سے ہر قسم کی ناراضی دور ہوئی۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس کے بندوں نے اس کی صفات اور اس کی نعمتوں کے ساتھ اسے پہچان لیا اور اس نے اپنے رسول بھیج کر اور اپنی کتابیں نازل کر کے دین و دنیا کے تمام مصالح جن کے وہ محتاج تھے، ان پر واضح کر دیے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، نیز یہ کہ مخلوق میں سے کوئی شخص دوسرے کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ تو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی مستحق ہے اور صرف وہی ہے جو محبت، خوف و رجا، تعظیم و توکل اور دیگر ہر قسم کی اطاعت کا مستحق ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ اس کی عبادت سے منہ موڑ کر اس کے بندوں کی عبادت کی جائے۔ مٹی سے پیدا کی گئی مخلوق کو رب ارباب کا شریک ٹھہرایا جائے۔ یا تدبیر میں محتاج اور ہر لحاظ سے عاجز مخلوق کی اس خالق کائنات کے ساتھ عبادت کی جائے جو تدبیر کنندہ، قادر اور طاقت ور ہے،
جو ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کی مطیع ہے۔
اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کا اثبات ہے اور اس بات کا بھی کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی الوہیت کا مستحق نہیں اور اس توحید الوہیت پر اصل دلیل کا بیان ہے اور وہ اس کی رحمت کا اثبات ہے جس کے آثار میں سے تمام نعمتوں کا وجود اور تمام مصائب کا دور ہونا ہے۔ پس یہ اس کی وحدانیت کی ایک اجمالی دلیل ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کے تفصیلی دلائل ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا:
{إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (164)}
بے شک پیدائش میں آسمانوں اور زمین کی اور بدل بدل کر آنے جانے میں رات اور دن کے اور ان کشتیوں میں جو چلتی ہیں سمندر میں ساتھ ان چیزوں کے جو نفع دیتی ہیں لوگوں کواور
(اس میں) جو نازل کیا ہے اللہ نے آسمان سے پانی، پس زندہ کیا اس نے ساتھ اس کے زمین کو، بعد اس کی موت کےاور
(جو) پھیلائے اس نے اس میں ہر قسم کے جانوراور پھیرنے میں ہواؤں کے اور ان بادلوں میں جو پابند کر دیے گئے ہیں درمیان آسمان اور زمین کے، یقیناً
(ان سب میں) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں
(164)
#
{164} أخبر تعالى أن في هذه المخلوقات العظيمة آيات؛ أي: أدلة على وحدانية الباري وإلهيته وعظيم سلطانه ورحمته وسائر صفاته، ولكنها {لقوم يعقلون}؛ أي: لمن لهم عقول يعملونها فيما خلقت له، فعلى حسب ما منَّ الله على عبده من العقل ينتفع بالآيات ويعرفها بعقله وفكره وتدبره، ففي {خلق السموات}؛ في ارتفاعها واتساعها وإحكامها وإتقانها وما جعل الله فيها من الشمس والقمر والنجوم وتنظيمها لمصالح العباد وفي خلق {الأرض}؛ مهاداً للخلق يمكنهم القرار عليها والانتفاع بما عليها والاعتبار، ما يدل ذلك على انفراد الله تعالى بالخلق والتدبير وبيان قدرته العظيمة التي بها خلقها، وحكمته التي بها أتقنها وأحسنها ونظمها، وعلمه ورحمته التي بها أودع ما أودع من منافع الخلق ومصالحهم وضروراتهم وحاجاتهم، وفي ذلك أبلغ الدليل على كماله واستحقاقه أن يفرد بالعبادة لانفراده بالخلق والتدبير والقيام بشؤون عباده.
وفي {اختلاف الليل والنهار}؛ وهو تعاقبهما على الدوام إذا ذهب أحدهما خلفه الآخر، وفي اختلافهما في الحر والبرد والتوسط، وفي الطول والقصر والتوسط، وما ينشأ عن ذلك من الفصول التي بها انتظام مصالح بني آدم وحيواناتهم، وجميع ما على وجه الأرض من أشجار ونوابت، كل ذلك بانتظام وتدبير وتسخير تنبهر له العقول، وتعجز عن إدراكه من الرجال الفحول ما يدل ذلك على قدرة مصرفها وعلمه وحكمته ورحمته الواسعة ولطفه الشامل وتصريفه وتدبيره الذي تفرد به وعظمته وعظمة ملكه وسلطانه ممّا يوجب أن يؤله ويعبد ويفرد بالمحبة والتعظيم والخوف والرجاء وبذل الجهد في محابه ومراضيه.
وفي {الفلك التي تجري في البحر} وهي السفن والمراكب ونحوها مما ألهم الله عباده صنعتها وخلق لهم من الآلات الداخلية والخارجية ما أقدرهم عليها ثم سخر لها هذا البحر العظيم والرياح التي تحملها بما فيها من الركاب والأموال والبضائع التي هي من منافع الناس وبما تقوم مصالحهم وتنتظم معايشهم، فمن الذي ألهمهم صنعتها وأقدرهم عليها وخلق لهم من الآلات ما به يعملونها، أم من الذي سخر لها البحر تجري فيه بإذنه وتسخيره والرياح، أم من الذي خلق للمراكب البرية والبحرية النار والمعادن المعينة على حملها وحمل ما فيها من الأموال، فهل هذه الأمور حصلت اتفاقاً أم استقل بعملها هذا المخلوق الضعيف العاجز الذي خرج من بطن أمه لا علم له ولا قدرة، ثم خلق له ربه القدرة وعلمه ما يشاء تعليمه، أم المسخر لذلك رب واحد حكيم عليم لا يعجزه شيء ولا يمتنع عليه شيء. بل الأشياء قد دانت لربوبيته، واستكانت لعظمته، وخضعت لجبروته.
وغاية العبد الضعيف أن جعله الله جزءاً من أجزاء الأسباب التي بها وجدت هذه الأمور العظام، فهذا يدل على رحمة الله وعنايته بخلقه، وذلك يوجب أن تكون المحبة كلها له والخوف والرجاء وجميع الطاعة والذل والتعظيم {وما أنزل الله من السماء من ماء}؛ وهو المطر النازل من السحاب {فأحيا به الأرض بعد موتها}؛ فأظهرت من أنواع الأقوات وأصناف النبات ما هو من ضرورات الخلائق التي لا يعيشون بدونها، أليس ذلك دليلاً على قدرة من أنزله وأخرج به ما أخرج ورحمته ولطفه بعباده وقيامه بمصالحهم وشدة افتقارهم وضرورتهم إليه من كل وجه؟ أَما يوجب ذلك أن يكون هو معبودهم وإلههم؟ أليس ذلك دليلاً على إحياء الموتى ومجازاتهم بأعمالهم؟
{وبث فيها}؛ أي في الأرض {من كلِّ دابة}؛ أي: نشر في أقطار الأرض من الدواب المتنوعة ما هو دليل على قدرته وعظمته ووحدانيته وسلطانه العظيم، وسخرها للناس ينتفعون بها بجميع وجوه الانتفاع: فمنها ما يأكلون من لحمه ويشربون من دره، ومنها ما يركبون، ومنها ما هو ساعٍ في مصالحهم وحراستهم، ومنها ما يعتبر به، ومنها أنه بث فيها من كل دابة فإنه سبحانه هو القائم بأرزاقهم المتكفل بأقواتهم، فما من دابة في الأرض إلا على الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها.
وفي {تصريف الرياح}؛ باردة وحارة وجنوباً وشمالاً وشرقاً ودبوراً وبين ذلك، وتارة تثير السحاب، وتارة تؤلف بينه، وتارة تلقحه، وتارة تدره، وتارة تمزقه، وتزيل ضرره، وتارة تكون رحمة، وتارة ترسل بالعذاب، فمن الذي صرفها هذا التصريف وأودع فيها من منافع العباد ما لا يستغنون عنه، وسخرها ليعيش فيها جميع الحيوانات وتصلح الأبدان والأشجار والحبوب والنوابت إلا العزيز الحكيم الرحيم اللطيف بعباده المستحق لكل ذلٍّ وخضوع ومحبةٍ وإنابة وعبادة، وفي تسخير السحاب بين السماء والأرض على خفته ولطافته يحمل الماء الكثير فيسوقه الله إلى حيث شاء فيحيي به البلاد والعباد ويروي التلول والوهاد وينزله على الخلق وقت حاجتهم إليه، فإذا كان يضرهم كثرته أمسكه عنهم فينزله رحمة ولطفاً ويصرفه عناية وعطفاً، فما أعظم سلطانه وأغزر إحسانه وألطف امتنانه، أليس من القبيح بالعباد أن يتمتعوا برزقه ويعيشوا ببره وهم يستعينون بذلك على مساخطه ومعاصيه، أليس ذلك دليلاً على حلمه وصبره وعفوه وصفحه وعظيم لطفه، فله الحمد أولاً وآخراً وباطناً وظاهراً.
والحاصل أنه كلما تدبر العاقل في هذه المخلوقات، وتغلغل فكره في بدائع المبتدعات، وازداد تأمله للصنعة وما أودع فيها من لطائف البر والحكمة علم بذلك أنها خلقت للحق وبالحق، وأنها صحائف آيات وكتب دلالات على ما أخبر به الله عن نفسه ووحدانيته وما أخبرت به الرسل من اليوم الآخر، وأنها مسخرات ليس لها تدبير ولا استعصاء على مدبرها ومصرفها، فتعرف أن العالم العلوي والسفلي كلهم إليه مفتقرون وإليه صامدون، وأنه الغني بالذات عن جميع المخلوقات فلا إله إلا الله، ولا رب سواه.
[164] اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں۔ لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس
﴿ فِیْ خَلْ٘قِ السَّمٰؔوٰؔتِ ﴾ ’’آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔‘‘ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔
﴿ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور زمین میں‘‘ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں، نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک اور متفرد ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے
(اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں۔)
﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ ﴾ ’’اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔‘‘ یعنی رات اور دن کا دائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے ۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا اور چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو اِلٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔
﴿ وَالْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ ﴾ ’’اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں‘‘ اس آیت کریمہ میں
(فُلْک) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انھیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحر بے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کر دیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔
وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انھیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انھیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں
(فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟
کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہو گئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انھیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی ،پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا۔ یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں۔ اور نحیف و نزار بندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سرانجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل، انکساری اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔
﴿ وَمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّؔآءٍ ﴾ ’’اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے
﴿ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ ’’پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد، زندہ کر دیا‘‘ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں۔ جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟
﴿ وَبَثَّ فِیْهَا ﴾ ’’اور پھیلائے اس میں‘‘ یعنی زمین کے اندر
﴿ مِنْ كُ٘لِّ دَآ بَّةٍ ﴾ ’’ہر قسم کے جانور‘‘ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کر دیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانور ان کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔
﴿ وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ﴾ (ھود : 11؍6) ’’زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔‘‘
﴿ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾ ’’اور ہواؤں کے پھیرنے میں‘‘ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو باردار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑکر انھیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔
کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہو سکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کر دیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔
آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انھیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے!!۔ کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں، پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہرو باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا، اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں جتنا زیادہ غوروفکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہو گا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کر سکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہو جائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (165) إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (166) وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (167)}.
اور بعض لوگ وہ ہیں جو بناتے ہیں اللہ کے سوا،
(دوسروں کو) شریک، وہ محبت کرتے ہیں ان سے جیسے محبت
(کرنی چاہیے) اللہ سےاور وہ لوگ جو ایمان لائے، زیادہ سخت ہیں محبت کرنے میں اللہ سےاور اگر
(دنیا میں) دیکھ لیں ظالم لوگ
(اس وقت کو) جب وہ دیکھیں گے عذاب،
(تو جان لیں یہ کہ) بے شک قوت اللہ ہی کے لیے ہے سب، اور یہ کہ اللہ شدید عذاب والا ہے
(165) جب بیزار ہو جائیں گے وہ لوگ، جن کی پیروی کی گئی، ان سے جنھوں نے پیروی کی تھی جبکہ دیکھیں گے وہ عذاب اور منقطع ہو جائیں گے ان کے تعلقات
(166) اور کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے اتباع کیاتھا، کاش کہ ہو واسطے ہمارے ایک بار واپسی
(دنیا میں) تو بے زار ہو جائیں گے ہم بھی ان سے جس طرح وہ بیزار ہو گئے ہیں ہم سے، اسی طرح دکھلائے گا ان کو اللہ ان کے عمل حسرتیں بنا کر اوپر ان کے اور نہیں وہ نکلنے والے آگ سے
(167)
#
{165 ـ 166 ـ 167} ما أحسن اتصال هذه الآية بالتي قبلها، فغنه تعالى لما بين وحدانيته وأدلتها القاطعة وبراهينها الساطعة الموصولة إل علم اليقين المزيلة لكل شك ذر هنا أن {من الناس}، مع هذا البيان التام {من يتخذ} من المخلوقين {أنداداً} لله؛ أي: نظراء ومثلاء يساويهم في الله بالعبادة والمحبة والتعظيم والطاعة، ومن كان بهذه الحالة ـ بعد إقامة الحجة وبيان التوحيد ـ علم أنه معاند لله، مشاق له، أو معرض عن تدبر آياته، والتفكر في مخلوقاته فليس له أدنى عذر في ذلك، بل قد حقت عليه كلمة العذاب، وهؤلاء الذين يتخذون الأنداد مع الله لا يسوونهم بالله في الخلق والرزق والتدبير، وإنما يسوونهم به في العبادة فيعبدونهم ليقربوهم إليه، وفي قوله اتخذوا دليل على أنه ليس لله ندٌّ وإنما المشركون جعلوا بعض المخلوقات أنداداً له تسمية مجردة ولفظاً فارغاً من المعنى؛ كما قال تعالى: {وجعلوا لله شركاء قل سموهم أم تنبئونه بما لا يعلم في الأرض أم بظاهر من القول}؛ {إن هي إلاَّ أسماء سميتموها أنتم وآباؤكم ما أنزل الله بها من سلطان إن يتبعون إلاَّ الظن}.
فالمخلوق ليس ندًّا لله لأن الله هو الخالق وغيره مخلوق والرب الرازق ومن عداه مرزوق، والله هو الغني وأنتم الفقراء وهو الكامل من كل الوجوه، والعبيد ناقصون من جميع الوجوه، والله هو النافع الضار، والمخلوق ليس له من النفع والضر والأمر شيء، فعلم علماً يقيناً بطلان قول من اتخذ من دون الله آلهة وأنداداً سواء كان ملكاً أو نبيًّا أو صالحاً أو صنماً أو غير ذلك وإن الله هو المستحق للمحبة الكاملة والذل التام، فلهذا مدح الله المؤمنين بقوله: {والذين آمنوا أشد حبًّا لله}؛ أي: من أهل الأنداد لأندادهم لأنهم أخلصوا محبتهم له وهؤلاء أشركوا بها، ولأنهم أحبوا من يستحق المحبة على الحقيقة الذي محبته هي عين صلاح العبد وسعادته وفوزه. والمشركون أحبوا من لا يستحق من الحب شيئاً ومحبته عين شقاء العبد وفساده وتشتت أمره.
فلهذا توعدهم الله بقوله: {ولو يرى الذين ظلموا}؛ باتخاذ الأنداد والانقياد لغير رب العباد وظلموا الخلق بصدهم عن سبيل الله وسعيهم فيما يضرهم {إذ يرون العذاب}؛ أي: يوم القيامة عياناً بأبصارهم {أن القوة لله جميعاً وأن الله شديد العذاب}؛ أي: لعلموا علماً جازماً أن القوة والقدرة لله كلها وأن أندادهم ليس فيها من القوة شيء، فتبين لهم في ذلك اليوم ضعفها وعجزها لا كما اشتبه عليهم في الدنيا، وظنوا أن لها من الأمر شيئاً وأنها تقربهم إليه وتوصلهم إليه فخاب ظنهم، وبطل سعيهم، وحق عليهم شدة العذاب ولم تدفع عنهم أندادهم شيئاً، ولم تغن عنهم مثقال ذرة من النفع، بل يحصل لهم الضرر منها من حيث ظنوا نفعها.
وتبرأ المتبعون من التابعين، وتقطعت بينهم الوصل التي كانت في الدنيا لأنها كانت لغير الله وعلى غير أمر الله، ومتعلقة بالباطل الذي لا حقيقة له فاضمحلت أعمالهم، وتلاشت أحوالهم، وتبين لهم أنهم كانوا كاذبين وأن أعمالهم التي يؤملون نفعها وحصول نتيجتها انقلبت عليهم حسرة وندامة وأنهم خالدون في النار لا يخرجون منها أبداً، فهل بعد هذا الخسران خسران؟ ذلك بأنهم اتبعوا الباطل فعملوا العمل الباطل ورجوا غير مرجوٍ وتعلقوا بغير متعلق فبطلت الأعمال ببطلان متعلقها ولما بطلت وقعت الحسرة بما فاتهم من الأمل فيها فضرتهم غاية الضرر، وهذا بخلاف من تعلق بالله الملك الحق المبين، وأخلص العمل لوجهه، ورجا نفعه فهذا قد وضع الحق في موضعه، فكانت أعماله حقًّا لتعلقها بالحق ففاز بنتيجة عمله ووجد جزاءه عند ربه غير منقطع كما قال تعالى: {الذين كفروا وصدوا عن سبيل الله أضل أعمالهم، والذين آمنوا وعملوا الصالحات وآمنوا بما نزل على محمد وهو الحق من ربهم كفر عنهم سيئاتهم وأصلح بالهم، ذلك بأن الذين كفروا اتبعوا الباطل وأن الذين آمنوا اتبعوا الحق من ربهم كذلك يضرب الله للناس أمثالهم}.
وحينئذ يتمنى التابعون أن يردوا إلى الدنيا فيتبرؤوا من متبوعهم بأن يتركوا الشرك بالله ويقبلوا على إخلاص العمل لله، وهيهات فات الأمر وليس الوقت وقت إمهال وإنظار، ومع هذا فهم كذبة فلو ردوا لعادوا لما نهوا عنه وإنما هو قول يقولونه وأماني يتمنونها حنقاً وغيظاً على المتبوعين لما تبرؤوا منهم والذنب ذنبهم فرأس المتبوعين على الشر إبليس ومع هذا يقول لأتباعه: {لما قضي الأمر إن الله وعدكم وعد الحق ووعدتكم فأخلفتكم، وما كان لي عليكم من سلطان إلا أن دعوتكم فاستجبتم لي فلا تلوموني ولوموا أنفسكم}.
[167-166-165] یہ آیت کریمہ
(مضمون کے اعتبار سے) کتنے خوبصورت طریقے سے پچھلی آیت سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو بیان فرمایا اور اس کے قطعی دلائل و براہین بیان کیے جو علم یقینی عطا کرتے اور ہر قسم کے شک و شبہ کو زائل کر دیتے ہیں۔ تو یہاں اس نے ذکر فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں
﴿ مَنْ یَّؔتَّؔخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا ﴾ ’’جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک ٹھہرا لیتے ہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور مثیل، جنھیں وہ عبادت، محبت، تعظیم اور اطاعت میں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اور حجت قائم کرنے اور توحید بیان کرنے کے بعد بھی جو شخص اس حالت پر رہنے پر مصر ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عناد رکھنے والا، اس کا مخالف ہے یا اس کی آیات و مخلوقات میں تدبر و تفکر سے روگردانی کرنے والا ہے اور اس بارے میں اس کے پاس ادنیٰ سا عذر بھی نہیں۔ بلکہ عذاب کا کلمہ اس پر ثابت ہو گیا ہے۔ اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ہمسر بناتے ہیں وہ تخلیق، رزق اور تدبیر میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار نہیں دیتے بلکہ وہ صرف عبادت میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پس وہ ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ یَّؔتَّؔخِذُ ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں۔
اہل شرک نے بعض مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا جو ہمسر قرار دے رکھا ہے۔ وہ صرف نام ہی نام ہے،
لفظ کے اعتبار سے ان کا کوئی معنی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ قُ٘لْ سَمُّوْهُمْ١ؕ اَمْ تُنَبِّـُٔوْنَهٗ۠ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ﴾ (الرعد : 13؍33) ’’اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ان سے کہو ذرا ان معبودوں کے نام تو لو کیا تم اسے ان چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہو جنھیں وہ زمین کے اندر نہیں جانتا
(یعنی زمین میں ان کا وجود ہی نہیں) یا محض ظاہری بات کی تقلید کرتے ہو۔‘‘ فرمایا:
﴿ اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰ٘نٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ ﴾ (النجم : 53؍23) ’’یہ تو محض نام ہی ہیں جن کو تم نے اور تمھارے آباؤ اجداد نے گھڑ رکھا ہے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘
پس مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہمسر نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہے، رب تعالیٰ رازق ہے اور اس کے علاوہ تمام مخلوق مرزوق ہے، اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ہے اور بندے ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ناقص ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور مخلوق کو نفع و نقصان اور کسی چیز کا بھی اختیار نہیں۔ لہٰذا اس شخص کے قول کا بطلان یقینی طور پر معلوم ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور معبود ٹھہراتا ہے، یہ غیر اللہ خواہ فرشتہ ہو یا نبی ہو، خواہ کوئی صالح بزرگ یا کوئی بت ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور،
صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی محبت کامل اور تذلل تام کی مستحق ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ ’’اور جو اہل ایمان ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔‘‘ یعنی اہل شرک اپنے معبودوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اس سے بڑھ کر اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کی محبت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اہل شرک اپنے معبودوں کی محبت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اہل ایمان صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا حقیقی مستحق ہے، جس کی محبت میں بندے کی عین صلاح، سعادت اور فوز و فلاح ہے۔ جبکہ اہل شرک ان ہستیوں سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا کچھ استحقاق نہیں رکھتے، ان کی محبت میں بندے کی عین بدبختی،
اس کا فساد اور اس کے معاملات کا بکھرناہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا ﴾ ’’اگر دیکھ لیں وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا‘‘ یعنی جنھوں نے غیر اللہ کو ہمسر بنا کر اور بندوں کے رب کے سوا دوسروں کی اطاعت کر کے ظلم کیا اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر اور انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر کے ظلم کیا۔
﴿ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ﴾ ’’جب وہ عذاب دیکھیں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے عیاں طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھیں گے
﴿ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا١ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ ﴾ ’’ہر طرح کی قوت اللہ ہی کے لیے ہے اور یہ کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس وقت انھیں یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ تمام قوت و قدرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انھوں نے جو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھے تھے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں۔ تب اس روز ان کے سامنے ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی کمزوری اور بے بسی ظاہر ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہو گا جیسے اس دنیا میں ان کا معاملہ مشتبہ ہے اور اہل شرک یہ سمجھتے ہیں کہ ان معبودوں کے پاس بھی اختیار ہے اور یہ معبود انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور اس کے پاس پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ پس وہ اپنے ظن اور گمان میں خائب و خاسر ہوئے اور ان کی تمام بھاگ دوڑ باطل گئی اور ان کے لیے سخت عذاب واجب ہو گیا۔ ان کے ٹھہرائے ہوئے یہ ہمسر ان سے عذاب کو روک نہیں سکیں گے اور نہ ذرہ بھر ان کے کوئی کام آ سکیں گے بلکہ ان معبودوں سے ان کو کسی فائدے کی بجائے نقصان پہنچے گا۔
اور راہ نما اپنے پیروکاروں سے براء ت کا اظہار کریں گے اور وہ تمام تعلقات منقطع ہو جائیں گے جو دنیا میں ان کے مابین تھے۔ کیونکہ یہ تعلقات غیر اللہ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھے، ان کا تعلق باطل کے ساتھ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے ان کے تمام اعمال مضمحل اور ان کے تمام احوال نابود ہو جائیں گے اور ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور ان کے وہ اعمال جن کے نفع مند اور نتیجہ خیز ہونے کی انھیں امید تھی، ان کے لیے حسرت اور ندامت میں بدل جائیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔پس اس خسارے کے بعد بھی کوئی اور خسارہ ہے؟ یہ اس لیے کہ انھوں نے باطل کی پیروی کی، انھوں نے ان سے امیدیں رکھیں جن پر امید نہیں رکھی جانی چاہیے تھی اور ان سے تعلق قائم کیا جن سے تعلق قائم نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ پس جب وہی باطل ثابت ہوا، جن سے انھوں نے تعلق جوڑا، تو ان کے اعمال بھی باطل ہو گئے اور جب ان کے اعمال باطل ہو گئے تو اپنی امیدوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر حسرت میں پڑ گئے، پس ان کے اعمال نے انھیں سخت نقصان پہنچایا۔
اور یہ اس شخص کے حال کے برعکس ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے، جو بادشاہ حقیقی اور واضح کرنے والا ہے، ناطہ جوڑا۔ اسی کے لیے اپنے عمل کو خالص کیا اور اس عمل پر نفع کی امید رکھی۔ پس یہی وہ شخص ہے جس نے حق کو اس کے مقام پر رکھا، اس کے اعمال بھی حق ثابت ہوئے، کیونکہ اس نے حق کے ساتھ تعلق جوڑا تھا اور اپنے اعمال کے نتیجے میں کامیاب ہوا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کابدلہ پائے گا،
جو کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ۰۰ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَؔمَّؔدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ١ۙ كَ٘فَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَ٘حَ بَ٘الَهُمْ۰۰ ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ﴾ (محمد : 47؍1-3) ’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد
(e) پر نازل کی گئی اور وہ
(کتاب) ان کے رب کی طرف سے برحق ہے، اللہ ان کے گناہ مٹا دے گا اور ان کا حال درست کر دے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے، انھوں نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی، اللہ اسی طرح لوگوں کے سامنے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔‘‘
اور اس وقت
(غلط کاروں کی) پیروی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انھیں دنیا میں لوٹایا جائے تو وہ بھی اپنے لیڈروں اور راہنماؤں سے بایں طور براءت کا اظہار کر دیں کہ شرک چھوڑ دیں گے اور صرف اللہ کے لیے عمل کریں گے، یہ بہت دور اور ناممکن ہے۔ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا، اب یہ مہلت دینے کا وقت نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اگر انھیں دنیا میں بھیج بھی دیا گیا تو وہ وہی کریں گے جس سے انھیں روکا گیا ہے۔ یہ تو محض ان کے منہ کی بات ہے اور یہ تو محض ان کی تمنائیں ہیں چونکہ ان کے راہنماؤں نے ان سے براءت کا اظہار کیا ہے اس لیے وہ ان پر شدید غصے کی بنا پر اس تمنا کا اظہار کر رہے ہیں، ورنہ گناہ تو خود انھی کا ہے۔ پس بدی کے میدان میں تمام راہنماؤں کا راہنما تو شیطان ہے،
اس کے باوجود وہ اپنے پیروکاروں سے کہے گا:﴿ لَمَّا قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۠١ؕ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ١ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾ (ابراہیم : 14؍22) ’’جب یہ معاملہ پورا ہو چکے گا
(تو شیطان کہے گا) اللہ تعالیٰ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تمھارے ساتھ کیا تھا وہ جھوٹا تھا اور مجھے تم پر کسی قسم کا اختیار نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں
(بدی کی طرف) دعوت دی اور تم نے قبول کر لی۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔‘‘
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (168) إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (169) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170)}
اے لوگو! کھاؤ تم ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں، حلال پاکیزہ اور نہ پیچھے چلو شیطان کے قدموں کے، بلاشبہ وہ تمھارا دشمن ہے ظاہر
(168) یقیناً وہ تو حکم دیتا ہے تمھیں برائی اور بے حیائی کا اور یہ کہ کہو تم اوپر اللہ کے وہ جو نہیں جانتے تم
(169) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، پیروی کرو تم اس کی جو نازل کیا اللہ نے تو کہتے ہیں
(نہیں)بلکہ پیروی کریں گے ہم تو اس چیز کی کہ پایا ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو، کیا
(اتباع کریں گے وہ ان کی) اگرچہ تھے باپ دادا ان کے نہ عقل رکھتے اور نہ پاتے وہ ہدایت
(170)
#
{168} هذا خطاب للناس كلهم مؤمنهم وكافرهم، فامتن عليهم بأن أمرهم أن يأكلوا من جميع ما في الأرض من حبوب وثمار وفواكه وحيوانات حالة كونها {حلالاً}؛ أي: محللاً لكم تناوله ليس بغصب ولا سرقة ولا محصلاً بمعاملة محرمة أو على وجه محرم أو معيناً على محرم {طيباً}؛ أي: ليس بخبيث كالميتة والدم ولحم الخنزير والخبائث كلها. ففي هذه الآية دليل على أن الأصل في الأعيان الإباحة أكلاً وانتفاعاً وأن المحرم نوعان: إما محرم لذاته وهو الخبيث الذي هو ضد الطيب، وإما محرم لما عرض له وهو المحرم لتعلق حق الله أو حق عباده به، وهو ضد الحلال.
وفيه دليل على أن الأكل بقدر ما يقيم البنية واجب يأثم تاركه لظاهر الأمر، ولما أمرهم باتباع ما أمرهم به إذ هو عين صلاحهم نهاهم عن اتباع {خطوات الشيطان}؛ أي: طرقه التي يأمر بها، وهي جميع المعاصي من كفر وفسوق وظلم، ويدخل في ذلك تحريم السوائب والحام ونحو ذلك، ويدخل فيه [أيضاً] تناول المأكولات المحرمة.
{إنه لكم عدو مبين}؛ أي: ظاهر العداوة فلا يريد بأمركم إلا غشكم وأن تكونوا من أصحاب السعير، فلم يكتف ربنا بنهينا عن اتباع خطواته حتى أخبرنا وهو أصدق القائلين بعداوته الداعية للحذر منه، ثم لم يكتف بذلك حتى أخبرنا بتفصيل ما يأمر به، وأنه أقبح الأشياء، وأعظمها مفسدة، فقال:
[168] یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل ، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں
﴿ حَلٰلًا﴾ کہ ان کا کھانا تمھارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔
﴿ طَیِّبًا﴾ ’’پاکیزہ‘‘ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔
(یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔)
اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
(۱) مُحَرَّم لِذَاتِہٖ ۔ یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔
(۲) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ انسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے
﴿ خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’شیطان کے قدم‘‘ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے، نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔
﴿ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمھیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔
ہمارے پروردگار نے ہمیں صرف شیطان کے نقش قدم پر چلنے ہی سے منع نہیں کیا بلکہ اس نے یہ خبر بھی دی ہے۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے۔۔۔ کہ شیطان ہم سے عداوت رکھتا ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تفصیل کے ساتھ آگاہ بھی فرمایا کہ شیطان کن امور کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ شیطان جن امور کا حکم دیتا ہے وہ سب سے زیادہ قباحت کے حامل اور مفاسد میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
#
{169} {إنما يأمركم بالسوء}؛ أي: الشر الذي يسوء صاحبه، فيدخل في ذلك جميع المعاصي فيكون قوله، {والفحشاء}؛ من باب عطف الخاص على العام لأن الفحشاء من المعاصي ما تناهى قبحه كالزنا وشرب الخمر والقتل والقذف والبخل ونحو ذلك مما يستفحشه من له عقل {وأن تقولوا على الله مالا تعلمون}؛ فيدخل في ذلك القول على الله بلا علم في شرعه وقدره، فمن وصف الله بغير ما وصف به نفسه، أو وصفه به رسوله، أو نفى عنه ما أثبته لنفسه، أو أثبت له ما نفاه عن نفسه؛ فقد قال على الله بلا علم، ومن زعم أن لله ندًّا وأوثاناً تقرب مَنْ عَبَدَها من الله فقد قال على الله تعالى بلا علم، ومن قال: إن الله أحل كذا، أو حرم كذا، أو أمر بكذا، أو نهى عن كذا بغير بصيرة، فقد قال على الله بلا علم، ومن قال: إنَّ الله خلق هذا الصنف من المخلوقات للعلة الفلانية بلا برهان له بذلك؛ فقد قال على الله بلا علم.
ومن أعظم القول على الله بلا علم أن يتأول المتأول كلامه أو كلام رسوله على معاني اصطلح عليها طائفة من طوائف الضلال ثم يقول إن الله أرادها، فالقول على الله بلا علم من أكبر المحرمات وأشملها وأكبر طرق الشيطان التي يدعو إليها، فهذه طرق الشيطان التي يدعو إليها هو وجنوده، ويبذلون مكرهم وخداعهم على إغواء الخلق بما يقدرون عليه، وأما الله تعالى فإنه يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي.
فلينظر العبد نفسه مع أي الداعيَيْنِ [هو] ومن أي الحِزْبَيْنِ؟ أتتبع داعي الله الذي يريد لك الخير والسعادة الدنيوية والأخروية الذي كل الفلاح بطاعته وكل الفوز في خدمته وجميع الأرباح في معاملة المنعم بالنعم الظاهرة والباطنة، الذي لا يأمر إلا بالخير ولا ينهى إلا عن الشرِّ، أم تتبع داعي الشيطان الذي هو عدو الإنسان الذي يريد لك الشرَّ ويسعى بجهده على إهلاكك في الدنيا والآخرة؟ الذي كل الشرِّ في طاعته وكل الخسران في ولايته، الذي لا يأمر إلا بشرٍّ ولا ينهى إلا عن خير.
[169] ﴿ اِنَّمَا یَاْمُرُؔكُمْ بِالسُّؔوْٓءِ ﴾ ’’وہ تمھیں شر کا حکم دیتا ہے‘‘ یعنی ایسے شر کا جو اپنے مرتکب کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ پس تمام معاصی اس میں آ جاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ وَالْفَحْشَآءِ ﴾ خاص کا عطف عام پر، کے باب میں سے ہو گا کیونکہ فواحش بھی معاصی میں شمار ہوتے ہیں جن کی قباحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً زنا، شراب نوشی، قتل ناحق، تہمت اور بخل وغیرہ یہ سب ان کاموں میں سے ہیں جن کو ہر عقل مند برا سمجھتا ہے۔
﴿ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی باتیں کہو جن کا تمھیں علم نہیں‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی تقدیر کے بارے میں کسی علم کے بغیر بات کہنا بھی شامل ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت سے موصوف کرتا ہے جسے خود اس نے یا اس کے رسولeنے بیان نہیں کیا یااللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کی نفی کرتا ہے جس کو خود اس نے اپنے لیے ثابت کیا ہے یا کسی ایسی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرتا ہے جس کی خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کی ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر کسی علم کے بات کرتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر ہے یا بت ہیں جن کی عبادت کر کے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلاعلم بات کرتا ہے اور جو کوئی دلیل کے بغیر یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز حلال کی ہے یا فلاں چیز حرام کی ہے یا فلاں کام کا حکم دیا ہے یا فلاں کام سے روکا ہے، تو وہ بھی بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرتا ہے اور جو کوئی بغیر کسی دلیل اور برہان کے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی فلاں صنف فلاں علت کی وجہ سے تخلیق فرمائی ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلاعلم بات کرتا ہے اور بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی ہوئی باتوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تاویل کرنے والا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولeکے کلام کی ان معانی کے مطابق تاویل کرے جو کسی باطل فرقے کی اصطلاحات میں سے ہو اور پھر یہ کہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔
پس بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے جس میں تمام گناہ شامل ہیں اور یہ شیطان کا سب سے بڑا راستہ ہے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ یہی شیطان اور اس کے لشکروں کے راستے ہیں، جہاں وہ اپنے مکرو فریب کے جال پھیلائے رکھتے ہیں اور جتنا بس چلتا ہے مخلوق کو پھانستے رہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تو عدل و احسان اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور فواحش، منکرات اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔
پس بندہ اپنے بارے میں غور کرے کہ وہ ان دو داعیوں میں سے کس داعی اور دو گروہوں میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے؟ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کی پیروی کر رہا ہے جو تیرے لیے بھلائی، دنیاوی اور اخروی سعادت چاہتا ہے، وہ جس کی اطاعت تمام تر فلاح، جس کی خدمت ہر لحاظ سے کامیابی ہے اور ہر قسم کا نفع اس منعم حقیقی کے ساتھ ظاہری اور باطنی نعمتوں پر معاملہ کرنے میں ہے جو صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے اور صرف اسی چیز سے روکتا ہے جو شر ہے۔ یا تو شیطان کے داعی کی پیروی کر رہا ہے جو انسان کا دشمن ہے جو تیرے لیے برائی چاہتا ہے اور جو تجھے دنیا و آخرت میں ہلاک کرنے کے لیے بھرپور کوشش اور جدوجہد میں مصروف ہے، وہ جو تمام تر شر، اس کی اطاعت میں اور ہر قسم کا خسارہ اس کی سرپرستی میں ہے، وہ صرف شر کا حکم دیتا ہے اور صرف اس چیز سے روکتا ہے جو خیر ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کو اس کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو اس نے اپنے رسولeپر نازل فرمائی ہے جس کی صفت گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے تو وہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
#
{170} {بل نتبع ما ألفينا عليه آباءنا} فاكتفوا بتقليد الآباء، وزهدوا في الإيمان بالأنبياء، ومع هذا فآباؤهم أجهل الناس وأشدهم ضلالاً. وهذه شبهة لرد الحق واهية، فهذا دليل على إعراضهم عن الحق ورغبتهم عنه وعدم إنصافهم، فلو هدوا لرشدهم وحسن قصدهم لكان الحق هو القصد، ومن جعل الحق قصده، ووازن بينه وبين غيره، تبين له الحق قطعاً واتبعه إن كان منصفاً. ثم قال تعالى:
[170] ﴿ بَلْ نَتَّ٘بِـعُ مَاۤ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا ﴾ ’’بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔‘‘ پس انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر اکتفا کیا اور انبیاءoپر ایمان لانے سے بے رغبتی اختیار کی۔ باوجود اس بات کے کہ ان کے آباء و اجداد لوگوں میں سب سے زیادہ جاہل اور سب سے زیادہ گمراہ تھے۔ حق کو رد کرنے کا یہ ایک نہایت ہی کمزور شبہ ہے، یہ ان کی حق سے روگردانی اور اس سے اعراض اور ان کے عدم انصاف کی دلیل ہے، اگر رشد و ہدایت اور اچھے مقصد کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہوتی تو حق ان کا مقصد ہوتا اور جو کوئی حق کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اور وہ حق اور غیر حق کے درمیان موازنہ کرتا ہے تو قطعی طور پر حق اس کے سامنے واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ انصاف پسند ہے تو وہ حق کی اتباع کرتا ہے۔
{وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171)}
اور مثال ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا مانند مثال اس شخص کی ہے جو پکارتا ہے اس کو جو نہیں سنتا سوائے پکار اور آواز کے،
(وہ) بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس وہ نہیں عقل رکھتے
(171)
#
{171} لما بين تعالى عدم انقيادهم لما جاءت به الرسل وردهم لذلك بالتقليد علم من ذلك أنهم غير قابلين للحق ولا مستجيبين له، بل كان معلوماً لكل أحد أنهم لن يزولوا عن عنادهم، أخبر تعالى أن مثلهم عند دعاء الداعي لهم إلى الإيمان كمثل البهائم التي ينعق لها راعيها وليس لها علم بما يقول داعيها ومناديها، فهم يسمعون مجرد الصوت الذي تقوم به عليهم الحجة، ولكنهم لا يفقهونه فقهاً ينفعهم، فلهذا كانوا صمًّاً لا يسمعون الحق سماع فهم وقبول، عمياً لا ينظرون نظر اعتبار، بُكماً فلا ينطقون بما فيه خير لهم، والسبب الموجب لذلك كله أنه ليس لهم عقل صحيح بل هم أسفه السفهاء وأجهل الجهلاء. فهل يستريب العاقل أن من دُعِيَ إلى الرشاد وذيد عن الفساد، ونُهِيَ عن اقتحام العذاب، وأُمِرَ بما فيه صلاحه وفلاحه وفوزه ونعيمه، فعصى الناصح، وتولى عن أمر ربه، واقتحم النار على بصيرة واتبع الباطل ونبذ الحق أن هذا ليس له مسكة من عقل، وأنه لو اتصف بالمكر والخديعة والدهاء فإنه من أسفه السفهاء.
[171] جب اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جو کچھ انبیاء کرام لے کر آئے، کفار نے ان کی اطاعت نہیں کی اور آباؤ اجداد کی تقلید کے باعث ان رسولوں کو رد کر دیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ حق کو قبول کر کے اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اپنے عناد سے ہرگز باز نہیں آئیں گے، تو اللہ تعالٰی نے آگاہ فرما دیا کہ ان کی مثال ایمان کے داعی کی پکار کے وقت ان مویشیوں کی سی ہے جنھیں ان کا چرواہا پکارتا ہے لیکن ان جانوروں کو یہ علم نہیں کہ ان کا چرواہا اور منادی کیا کہہ رہا ہے؟ وہ صرف آواز سنتے ہیں جس کے ذریعہ سے ان پر حجت قائم ہو گی مگر وہ اسے اس طرح سمجھتے نہیں کہ انھیں کوئی فائدہ پہنچے، پس وہ بہرے ہیں، حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے سننے سے قاصر ہیں۔ وہ اندھے ہیں عبرت کی نظر سے دیکھ نہیں سکتے اور گونگے ہیں اس لیے حق کے اندر ان کے لیے جو خیر ہے اس کے بارے میں بولتے نہیں۔
اور وہ سبب جو اس تمام فساد کا موجب ہے یہ ہے کہ وہ عقل سلیم سے محروم ہیں بلکہ وہ سب سے بڑے احمق اور سب سے بڑے جاہل ہیں۔ کیا عقل مند شخص اس بارے میں کوئی شک کر سکتا ہے کہ جس شخص کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا جائے، فساد سے روکا جائے، عذاب میں گھسنے سے منع کیا جائے اور اسے اس چیز کا حکم دیا جائے جس میں اس کی بھلائی، فوز و فلاح اور نعمت ہے اور وہ اپنے خیر خواہ کا حکم ماننے سے انکار کر دے، اپنے رب کے حکم سے پیٹھ پھیر لے، دیکھتے بوجھتے آگ میں جا گھسے اور حق کو چھوڑ کر باطل کی پیروی کرے۔ یقیناً یہ شخص ایسا ہے کہ اس میں ذرہ بھر عقل نہیں۔ اگر وہ عیاری، دھوکہ اور فریب کو اپنی صفت بنا لے تو یہ شخص سب سے بڑا احمق ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (172) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (173)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کھاؤ تم ان پاکیزہ چیزوں سے جو رزق دیا ہم نے تمھیں اور شکر کرو اللہ کا، اگر ہو تم اسی کی عبادت کرتے
(172) بس صرف اس نے تو حرام کیا ہے تم پر مردار اور خون اور گوشت سور کا اور وہ چیز کہ پکاری گئی وہ غیر اللہ کے لیے، پھر جو شخص ناچار کر دیا گیا
(بشرطیکہ) نہ ہو وہ سرکشی کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا تو نہیں ہے کوئی گناہ اس پر، یقیناً اللہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے
(173)
#
{172} هذا أمر للمؤمنين خاصة بعد الأمر العام، وذلك أنهم هم المنتفعون على الحقيقة بالأوامر والنواهي بسبب إيمانهم، فأمرهم بأكل الطيبات من الرزق والشكر لله على إنعامه باستعمالها بطاعته والتقوي بها على ما يوصل إليه، فأمرهم بما أمر به المرسلين في قوله: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحاً}؛ فالشكر في هذه الآية هو العمل الصالح، وهنا لم يقل حلالاً لأن المؤمن أباح الله له الطيبات من الرزق خالصة من التبعة، ولأن إيمانه يحجزه عن تناول ما ليس له. وقوله: {إن كنتم إياه تعبدون}؛ أي: فاشكروه فدل على أن من لم يشكر الله لم يعبده وحده، كما أن من شكره فقد عبده وأتى بما أمر به، ويدل أيضاً على أن أكل الطيب سبب للعمل الصالح وقبوله.
والأمر بالشكر عقيب النعم، لأن الشكر يحفظ النعم الموجودة، ويجلب النعم المفقودة، كما أن الكفر ينفر النعم المفقودة، ويزيل النعم الموجودة.
[172] عام حکم دینے کے بعد یہ اہل ایمان کے لیے خاص حکم ہے۔ اور یہ اس لیے کہ وہی درحقیقت اپنے ایمان کے سبب سے اوامر و نواہی سے مستفید ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رزق کھانے کا اور اللہ کے اس انعام پر اس کا شکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ اس رزق کو اس کی اطاعت میں ان امور میں مدد لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انھیں اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰؔتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ (المومنون : 23؍51) ’’اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔‘‘ پس اس آیت کریمہ میں شکر سے مراد عمل صالح ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ
(حلال) استعمال نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ضرر رساں چیزوں کو چھوڑ کر خالص پاکیزہ رزق کو اہل ایمان کے لیے مباح کیا ہے،
نیز ایمان مومن کو وہ چیز تناول کرنے سے روک دیتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہے۔ فرمایا: ﴿ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو‘‘ تو اس کا شکر کرو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی۔ جیسے جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور وہ اس کا حکم بجا لایا۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پاکیزہ رزق کھانا اعمال صالحہ اور ان کی قبولیت کا سبب ہے۔ نعمتوں کے ذکر کے بعد شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے کیونکہ شکر موجود نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور غیر موجود نعمتوں کے حصول کا باعث بنتا ہے جیسے کفر غیر موجود نعمتوں کو مزید دور کرتا ہے اور موجود نعمتوں کو زائل کرتا ہے۔
#
{173} ولما ذكر تعالى إباحة الطيبات ذكر تحريم الخبائث فقال: {إنما حرم عليكم الميتة}؛ وهي: ما مات بغير تذكية شرعية؛ لأن الميتة خبيثة مضرة لرداءتها في نفسها ولأن الأغلب أن تكون عن مرض فيكون زيادة مرض ، واستثنى الشارع من هذا العموم ميتة الجراد وسمك البحر فإنه حلال طيب {والدم}؛ أي: المسفوح كما قيد في الآية الأخرى {وما أهل به لغير الله}؛ أي ذبح لغير الله كالذي يذبح للأصنام والأوثان من الأحجار والقبور ونحوها، وهذا المذكور غير حاصر للمحرمات، وجيء به لبيان أجناس الخبائث المدلول عليه بمفهوم قوله: {طيبات}؛ فعموم المحرمات تستفاد من الآية السابقة من قوله: {حلالاً طيباً}؛ كما تقدم وإنما حرم علينا هذه الخبائث ونحوها لطفاً بنا وتنزيهاً عن المضر، ومع هذا {فمن اضطر}؛ أي ألجئ إلى المحرم بجوع وعدم أو إكراه {غير باغ}؛ أي: غير طالب للمحرم مع قدرته على الحلال أو مع عدم جوعه {ولا عاد}؛ أي: متجاوز الحد في تناول ما أبيح له اضطراراً فمن اضطر وهو غير قادر على الحلال، وأكل بقدر الضرورة فلا يزيد عليها {فلا إثم}؛ أي: جناح {عليه}؛ وإذا ارتفع الإثم رجع الأمر إلى ما كان عليه، والإنسان بهذه الحالة مأمور بالأكل بل منهيٌّ أن يلقي بيده إلى التهلكة وأن يقتل نفسه، فيجب إذاً عليه الأكل ويأثم إن ترك الأكل حتى مات فيكون قاتلاً لنفسه، وهذه الإباحة والتوسعة من رحمته تعالى بعباده، فلهذا ختمها بهذين الاسمين الكريمين المناسبين غاية المناسبة فقال: {إن الله غفورٌ رحيم}.
ولما كان الحل مشروطاً بهذين الشرطين، وكان الإنسان في هذه الحالة ربما لا يستقصي تمام الاستقصاء في تحقيقها، أخبر [تعالى] أنه غفور، فيغفر [له] ما أخطأ فيه في هذه الحال خصوصاً، وقد غلبته الضرورة، وأذهبت حواسه المشقة.
وفي هذه الآية دليل على القاعدة المشهورة «الضرورات تبيح المحظورات»، فكل محظور اضطر له الإنسان فقد أباحه له الملك الرحمن، فله الحمد والشكر أولاً وآخراً وظاهراً وباطناً.
[173] جب اللہ تعالیٰ نے طیبات کی اباحت کا ذکر فرمایا تو خبائث کی تحریم کا ذکر بھی فرما دیا،
چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ ﴾ ’’اللہ نے تم پر صرف مردار حرام کیا‘‘ مردار سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے اور اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مردار ناپاک اور خراب ہونے کی بنا پر ضرر رساں ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر مردار کسی بیماری سے مرتا ہے۔ پس وہ مرض میں اضافے ہی کا باعث ہوتا ہے۔ مردار کی حرمت کی عمومیت سے ٹڈی اور مچھلی مستثنی ہیں۔ یہ دونوں مردہ ہونے کی صورت میں بھی حلال اور طیب ہیں۔
﴿ وَالدَّمَ ﴾ ’’اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون۔ اور یہ قید ایک اور آیت سے ثابت ہے
(ملاحظہ کیجیے سورۃ الانعام؍145:مترجم) ﴿ وَمَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔‘‘ مثلاً وہ جانور جو بتوں، استھانوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ مذکورہ انواع محرمات کے لیے خاص نہیں، بلکہ ان کو ان خبائث کی اجناس کے بیان کے لیے ذکر کیا گیا ہے جن کی حرمت پر ’’طیبات‘‘ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے۔ پس محرمات کی عمومیت گزشتہ آیت میں لفظ حَلَالًا طَیِّبًا سے مستفید ہوتی ہے،
جیسا کہ پہلے گزرا۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور ان کے ضرر سے بچانے کے لیے یہ چیزیں ہم پر حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی فرما دیا :﴿ فَ٘مَنِ اضْطُرَّ﴾ ’’جو کوئی ناچار ہوجائے۔‘‘ یعنی جو کوئی بھوک، موت کے خوف یا جبر و اکراہ کے باعث ان مذکورہ محرمات کو کھانے پر مجبور ہو جائے
﴿ غَیْرَ بَاغٍ ﴾ ’’نہ سرکشی کرنے والا ہو‘‘ یعنی سخت بھوکا نہ ہونے اور حلال کھانے پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ حرام کھانے کا طلبگار نہ ہو۔
﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾ ’’اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو‘‘ یعنی اضطراری حالت میں جتنی مقدار میں اس کے لیے یہ حرام کھانا جائز ہے اس مقدار سے تجاوز نہ کرے۔
﴿ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ﴾ ’’تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی اضطراری حالت میں یہ محرمات تناول کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں اور جب گناہ اٹھ گیا تو معاملہ اسی
(اباحت اصلی کی) حالت پر چلا گیا جو کہ تحریم سے پہلے تھی۔ انسان اس اضطراری حالت میں حرام کھانے پر مامور ہے، بلکہ اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے آپ کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے، تب اس پر حرام کھانا فرض ہے۔ اگر وہ اضطراری حالت میں حرام نہیں کھاتا اور مر جاتا ہے تو گناہ گار اور خودکشی کا مرتکب ہو گا۔
یہ اباحت اور وسعت اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام اپنے ان دو اسمائے گرامی کے ساتھ کیا ہے جو غایت درجہ تک اس مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا
﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چونکہ ان کی حلت ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اس حالت میں انسان بسا اوقات اچھی طرح تحقیق کرنے سے قاصر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے پس اگر اس حالت میں اس سے خطا سرزد ہو جائے تو وہ بخش دے گا، خاص طور پر اس حالت میں جبکہ اس پر ضرورت غالب آجائے اور مشقت اس کے حواس کو مضمحل کر دے۔ اس آیت کریمہ میں مشہور فقہی قاعدہ
(اَلضرورات تبیح المحظورات) ’’ضرورت حرام کو مباح کر دیتی ہے‘‘ کی دلیل ہے۔ پس ہر حرام چیز، جس کے استعمال کرنے پر انسان مجبور ہو جائے تو اس رحم کرنے والے مالک نے اس کے لیے اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ پس اول و آخر اور ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کی مستحق صرف اسی کی ذات اقدس ہے۔
{إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (175) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (176)}.
بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس کو جو نازل کیا اللہ نے کتاب سے اور لیتے ہیں بدلے اس کے مول تھوڑا سا، یہی لوگ ہیں، نہیں بھر رہے وہ اپنے پیٹوں میں مگر آگ ہی، اور نہیں کلام کرے گا ان سے اللہ دن قیامت کے اور نہ پاک کرے گا ان کو اور ان کے لیے عذاب ہے دردناک
(174) یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے خریدا گمراہی کو بدلے ہدایت کے اور عذاب کو بدلے مغفرت کے، پس کس قدر صبر کرنے والے ہیں یہ اوپر آگ کے؟
(175) یہ اس لیے کہ بے شک اللہ نے نازل فرمائی کتاب ساتھ حق کے،اور بے شک وہ لوگ جنھوں نے اختلاف کیا کتاب میں، یقینا ًوہ بہت دور والی مخالفت میں ہیں
(176)
#
{174 ـ 175} هذا وعيد شديد لمن كتم ما أنزل الله على رسله من العلم الذي أخذ الله الميثاق على أهله أن يبينوه للناس ولا يكتموه، فمن تعوض عنه بالحطام الدنيوي ونبذ أمر الله فأولئك {ما يأكلون في بطونهم إلا النار}؛ لأن هذا الثمن الذي اكتسبوه إنما حصل لهم بأقبح المكاسب وأعظم المحرمات، فكان جزاؤهم من جنس عملهم، {ولا يكلمهم الله يوم القيامة}؛ بل قد سخط عليهم وأعرض عنهم، فهذا أعظم عليهم من عذاب النار، {ولا يزكيهم}؛ أي: لا يطهرهم من الأخلاق الرذيلة، وليس لهم أعمال تصلح للمدح والرضا والجزاء عليها، وإنما لم يزكهم لأنهم فعلوا أسباب عدم التزكية التي أعظم أسبابها العمل بكتاب الله والاهتداء به والدعوة إليه، فهؤلاء نبذوا كتاب الله وأعرضوا عنه واختاروا الضلالة على الهدى والعذاب على المغفرة فهؤلاء لا يصلح لهم إلا النار، فكيف يصبرون عليها؟ وأنَّى لهم الجلد عليها؟
[175-174] اللہ تعالیٰ نے جو علم اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور لوگوں پر اس علم کو واضح کرنے اور اس کو نہ چھپانے کا اہل علم سے وعدہ لیا۔ اس علم کو جو لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں ان کو سخت وعید سنائی ہے۔ پس جو لوگ اس علم کے عوض دنیاوی مال و متاع سمیٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیتے ہیں۔ انھی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ مَا یَ٘اْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ ﴾ ’’یہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں‘‘ کیونکہ یہ قیمت جو انھوں نے
(آیات الٰہی کے عوض) کمائی ہے یہ انھیں بدترین اور انتہائی حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہو گی۔
﴿ وَلَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’اور قیامت کے دن اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہو گا اور ان سے منہ پھیر لے گا۔ پس یہ چیز ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہو گی۔
﴿ وَلَا یُزَؔكِّیْهِمْ ﴾ ’’اور نہ ان کو پاک کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اخلاق رذیلہ سے پاک نہیں کرے گا اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے نہیں ہوں گے جو مدح، رضائے الٰہی اور جزا کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس لیے پاک نہیں کرے گا، کیونکہ انھوں نے عدم تزکیہ کے اسباب اختیار کیے۔ تزکیہ کا سب سے بڑا سبب کتاب اللہ پر عمل کرنا، اس کو راہنما بنانا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے۔ پس انھوں نے کتاب اللہ کو دور پھینک دیا، اس سے روگردانی کی، ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی اور مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کیا۔ پس یہ لوگ جہنم ہی کے قابل ہیں۔ یہ جہنم کی آگ پر کیسے صبر کریں گے اور اس کی آگ کو کیسے برداشت کر سکیں گے؟
#
{176} {ذلك}؛ المذكور وهو مجازاته بالعدل ومنعه أسباب الهداية ممن أباها واختار سواها {بأن الله نزل الكتاب بالحق}؛ ومن الحق مجازاة المحسن بإحسانه والمسيء بإساءته، وأيضاً ففي قوله: {نزل الكتاب بالحق}؛ ما يدل على أن الله أنزله لهداية خلقه وتبيين الحق من الباطل والهدى من الضلال، فمن صرفه عن مقصوده فهو حقيق بأن يجازَى بأعظم العقوبة، {وإن الذين اختلفوا في الكتاب لفي شقاق بعيد}؛ أي: وإن الذين اختلفوا في الكتاب فآمنوا ببعضه وكفروا ببعضه والذين حرفوه وصرفوه على أهوائهم ومراداتهم {لفي شقاق}؛ أي: محادة {بعيد}؛ من الحق، لأنهم قد خالفوا الكتاب الذي جاء بالحق الموجب للاتفاق وعدم التناقض، فمرج أمرهم، وكثر شقاقهم، وترتب على ذلك افتراقهم، بخلاف أهل الكتاب الذين آمنوا به، وحكموه في كل شيء، فإنهم اتفقوا، وارتفقوا بالمحبة والاجتماع عليه.
وقد تضمنت هذه الآيات الوعيد للكاتمين لما أنزل الله المؤثرين عليه عرض الدنيا بالعذاب والسخط، وأن الله لا يطهرهم بالتوفيق ولا بالمغفرة. وذكر السبب في ذلك بإيثارهم الضلالة على الهدى، فترتب على ذلك اختيار العذاب على المغفرة ثم توجع لهم بشدة صبرهم على النار لعملهم بالأسباب التي يعلمون أنها موصلة لها، وأن الكتاب مشتمل على الحق الموجب للاتفاق عليه وعدم الافتراق، وأن كل من خالفه فهو في غاية البعد عن الحق والمنازعة والمخاصمة. والله أعلم.
[176] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ اللہ کا عدل و انصاف پر مبنی بدلہ اور اس کا اسباب ہدایت سے انھیں محروم رکھنا، جنھوں نے انھیں اختیار کرنے سے انکار کیا اور ان کے سوا دوسرے اسباب اختیار کیے۔
﴿ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اس لیے ہے کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا‘‘ اور حق میں سے ہی یہ بات بھی ہے کہ نیک کام کرنے والے کو اس کی نیکیوں کا اور برا کام کرنے والے کو اس کی برائیوں کا بدلہ دیا جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مخلوق کی ہدایت، باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے،اس لیے جس نے اس کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا،
وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اس کی پاداش میں بڑی سے بڑی سزا دی جائے۔ فرمایا: ﴿ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْكِتٰبِ لَ٘فِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ﴾ ’’جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی دشمنی میں ہیں۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف کیا اور اس کے کسی حصے پر ایمان لائے اور کسی حصے کا انکار کیا اور وہ لوگ جنھوں نے اپنی مراد اور اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تحریف کی اور اس کے اصل معانی سے ہٹا دیا
(لَ٘فِیْ شِقَاقٍۭ) یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں
(بَعِیْدٍ) جو حق سے بہت دور ہے، اس لیے کہ انھوں نے کتاب اللہ کی مخالفت کی، جو حق لے کر آئی ہے جو اتفاق اور عدم تناقض کا موجب ہے۔ پس ان کا معاملہ خراب ہو گیا، ان کی مخالفت اور دشمنی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں ان میں افتراق پیدا ہو گیا۔ اس کے برعکس وہ اہل کتاب جو کتاب اللہ پر ایمان لائے اور تمام معاملات میں اسے حکم تسلیم کیا، پس ان میں اتفاق ہو گیا اور یہ لوگ محبت اور کتاب اللہ پر اجتماع کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے جو اس چیز کو چھپاتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور کتاب اللہ پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، سخت ناراضی اور عذاب کی وعید کو متضمن ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق اور مغفرت کے ذریعے سے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو ان کے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دینے کا باعث بنا اور اس پر یہ امر مترتب ہوا کہ انھوں نے مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کر لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ وہ جہنم کی آگ برداشت کرنے پر کس قدر صابر ہیں؟ جس میں وہ ان اسباب کی بنا پر داخل ہوئے جن کے بارے میں انھیں خوب علم تھا کہ یہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتاب اللہ تمام تر حق پر مشتمل ہے جو اتفاق اور عدم افتراق کا موجب ہے، نیز ہر وہ شخص جو کتاب اللہ کی مخالفت کرتا ہے وہ حق سے بہت دور ہے اور وہ نزاع اور مخاصمت میں مبتلا ہے۔ واللہ اعلم۔
{لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (177)}
نہیں ہے نیکی یہ کہ پھیر لو تم اپنے چہرے طرف مشرق اور مغرب کی لیکن نیکی
(والا) تو وہ ہے جو ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور دن آخرت کے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں کے،اور دے مال اپنا باوجود اس کی محبت کے، قرابت داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور
(چھڑانے) میں گردنوں کے اور قائم کرے نماز اور دے زکاۃ اور وہ جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب وہ عہد کریں اور وہ جو صبر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور تکلیف میں اور وقت لڑائی کے، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی متقی ہیں
(177)
#
{177} يقول تعالى: {ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب}؛ أي: ليس هذا هو البر المقصود من العباد فيكون كثرة البحث فيه والجدال من العناء الذي ليس تحته إلا الشقاق والخلاف، وهذا نظير قوله - صلى الله عليه وسلم -: «ليس الشديد بالصرعة إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب» ، ونحو ذلك، {ولكن البر من آمن بالله}؛ أي: بأنه إله واحد موصوف بكل صفة كمال منزَّه عن كلِّ نقص {واليوم الآخر}؛ وهو كل ما أخبر الله به في كتابه أو أخبر به الرسول مما يكون بعد الموت {والملائكة}؛ الذين وصفهم الله لنا في كتابه ووصفهم رسوله - صلى الله عليه وسلم -، {والكتاب}؛ أي: جنس الكتب التي أنزلها الله على رسله وأعظمها القرآن فيؤمن بما تضمنه من الأخبار والأحكام. {والنبيين}؛ عموماً، خصوصاً خاتمهم وأفضلهم محمد - صلى الله عليه وسلم - {وآتى المال}؛ وهو كل ما يتمول الإنسان من مال قليلاً كان أو كثيراً أي أعطى المال {على حبه}؛ أي: حب المال بين به أن المال محبوب للنفوس فلا يكاد يخرجه العبد، فمن أخرجه مع حبه له تقرباً إلى الله تعالى كان هذا برهاناً لإيمانه، ومن إيتاء المال على حبه أن يتصدق وهو صحيح شحيح يأمل الغنى ويخشى الفقر، وكذلك إذا كانت الصدقة عن قلة كان أفضل لأنه في هذه الحال يحب إمساكه لما يتوهمه من العُدْم والفقر، وكذلك إخراج النفيس من المال وما يحبه من ماله كما قال تعالى: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون}؛ فكل هؤلاء ممن آتى المال على حبه.
ثم ذكر المنفق عليه وهم أولى الناس ببرِّك وإحسانك من الأقارب؛ الذين تتوجع لمصابهم وتفرح بسرورهم الذين يتناصرون ويتعاقلون، فمن أحسن البر وأوفقه تعاهد الأقارب بالإحسان المالي والقولي على حسب قربهم وحاجتهم، ومن {اليتامى}؛ الذين لا كاسب لهم وليس لهم قوة يستغنون بها، وهذا من رحمته تعالى بالعباد الدالة على أنه تعالى أرحم بهم من الوالد بولده، فالله قد أوصى العباد وفرض عليهم في أموالهم الإحسان إلى من فقد آباؤهم ليصيروا كمن لم يفقد والديه، ولأن الجزاء من جنس العمل فمن رحم يتيمَ غيره رُحِم يتيمه.
{والمساكين}؛ وهم الذين أسكنتهم الحاجة وأذلهم الفقر فلهم حق على الأغنياء بما يدفع مسكنتهم أو يخففها بما يقدرون عليه وبما يتيسر. {وابن السبيل}؛ وهو الغريب المنقطع به في غير بلده. فحث الله عباده على إعطائه من المال ما يعينه على سفره لكونه مظنة الحاجة وكثرة المصارف، فعلى من أنعم الله عليه بوطنه وراحته وخوَّله من نعمته أن يرحم أخاه الغريب الذي بهذه الصفة على حسب استطاعته ولو بتزويده أو إعطائه آلة لسفره أو دفع ما ينوبه من المظالم وغيرها. {والسائلين}؛ أي: الذين تعرض لهم حاجة من الحوائج توجب السؤال، كمن ابتلي بأرش جناية أو ضريبة عليه من ولاة الأمور أو يسأل الناس لتعمير المصالح العامة كالمساجد والمدارس والقناطر ونحو ذلك فهذا له الحق وإن كان غنياً. {وفي الرقاب}؛ فيدخل فيه العتق والإعانة عليه وبذل مال للمكاتَب ليوفي سيده وفداء الأسراء عند الكفار أو عند الظلمة.
{وأقام الصلاة وآتى الزكاة}؛ قد تقدم مراراً أن الله تعالى يقرن بين الصلاة والزكاة لكونهما أفضل العبادات، وأكمل القربات عبادات قلبية وبدنية ومالية، وبهما يوزن الإيمان ويعرف ما مع صاحبه من الإيقان، {والموفون بعهدهم إذا عاهدوا}؛ والعهد هو الالتزام بإلزام الله أو إلزام العبد لنفسه فدخل في ذلك حقوق الله كلها، لكون الله ألزم بها عباده والتزموها، ودخلوا تحت عهدتها ووجب عليهم أداؤها، وحقوق العباد التي أوجبها الله عليهم والحقوق التي التزمها العبد كالأيمان والنذور ونحو ذلك.
{والصابرين في البأساء}؛ أي: الفقر لأن الفقير يحتاج إلى الصبر من وجوه كثيرة لكونه يحصل له من الآلام القلبية والبدنية المستمرة ما لا يحصل لغيره، فإن تنعم الأغنياء بما لا يقدر عليه تألم وإن جاع أو جاعت عياله تألم، وإن أكل طعاماً غير موافق لهواه تألم، وإن عري أو كاد تألم، وإن نظر إلى ما بين يديه وما يتوهمه من المستقبل الذي يستعد له تألم، وإن أصابه البرد الذي لا يقدر على دفعه تألم، فكل هذه ونحوها مصائب يؤمر بالصبر عليها والاحتساب ورجاء الثواب من الله عليها {والضراء}؛ أي: المرض على اختلاف أنواعه من حمى وقروح ورياح ووجع عضو حتى الضرس والإصبع ونحو ذلك فإنه يحتاج إلى الصبر على ذلك، لأن النفس تضعف والبدنَ يألم وذلك في غاية المشقة على النفوس، خصوصاً مع تطاول ذلك، فإنه يؤمر بالصبر احتساباً لثواب الله تعالى {وحين البأس}؛ أي: وقت القتال للأعداء المأمور بقتالهم، لأن الجلاد يشق غاية المشقة على النفس ويجزع الإنسان من القتل أو الجراح أو الأسر، فاحتيج إلى الصبر في ذلك احتساباً ورجاء لثواب الله تعالى الذي منه النصر والمعونة التي وعدها الصابرين.
{أولئك}؛ أي: المتصفون بما ذكر من العقائد الحسنة والأعمال التي هي آثار الإيمان وبرهانه ونوره والأخلاق التي هي جمال الإنسان وحقيقة الإنسانية فأولئك {الذين صدقوا}؛ في إيمانهم لأن أعمالهم صدقت إيمانهم {وأولئك هم المتقون}؛ لأنهم تركوا المحظور وفعلوا المأمور، لأن هذه الأمور مشتملة على كل خصال الخير تضمناً ولزوماً لأن الوفاء بالعهد يدخل فيه الدين كله، ولأن العبادات المنصوص عليها في هذه الآية أكبر العبادات، ومن قام بها كان بما سواها أقوم، فهؤلاء [هم] الأبرار الصادقون المتقون.
وقد علم ما رتب الله على هذه الأمور الثلاثة من الثواب الدنيوي والأخروي مما لا يمكن تفصيله في مثل هذا الموضع.
[177] ﴿ لَ٘یْسَ الْـبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْ٘مَشْ٘رِقِ وَالْ٘مَغْرِبِ﴾ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو‘‘ یعنی یہ وہ نیکی نہیں ہے جو بندوں سے مطلوب ہے جس کے بارے میں اس کثرت سے بحث و مباحثہ کی مشقت برداشت کی جائے جس سے سوائے دشمنی اور مخالفت کے کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ یہ آیت رسول اللہeکی اس حدیث کی نظیر ہے جس میں آپ نے فرمایا:
’لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَالْغَضَبِ‘
(صحیح البخاري، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حديث:6114)
’’طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں طاقت ور ہے بلکہ حقیقی طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔‘‘
﴿ وَلٰكِنَّ الْـبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ﴾ ’’لیکن نیکی تو یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر‘‘ یعنی وہ اس بات پر ایمان لایا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے، وہ صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے۔
﴿ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ ’’اور آخرت کے دن پر‘‘ یعنی وہ ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو انسان کو موت کے بعد پیش آئیں گی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسولeنے خبر دی ہے۔
﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ﴾ ’’اور فرشتوں پر۔‘‘ فرشتے وہ ہستیاں ہیں جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے، نیز رسول اللہeنے بیان فرمایا ہے۔
﴿ وَالْكِتٰبِ﴾ ’’اور کتاب پر‘‘ اس سے مراد جنس ہے، یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان لاتا ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے عظیم کتاب قرآن مجید ہے۔ پس وہ ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لاتا ہے جن پر یہ کتابیں مشتمل ہیں۔
﴿ وَالنَّبِیّٖنَ﴾ ’’اور پیغمبروں پر‘‘ یعنی وہ تمام انبیاءoپر عام طور پر اور ان میں سب سے افضل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفیeپر خاص طور پر ایمان لاتا ہے۔
﴿ وَاٰتَى الْمَالَ﴾ ’’اور دیتا ہے وہ مال‘‘ مال کے زمرے میں ہر وہ چیز آتی ہے جو مال کے طور پر انسان اپنے لیے جمع کرتا ہے۔ خواہ یہ کم ہو یا زیادہ۔
﴿ عَلٰى حُبِّهٖ﴾ ’’اس کی محبت کے باوجود‘‘
(حُبِّهٖ) میں ضمیر کا مرجع مال ہے۔ یعنی وہ مال کی محبت رکھنے کے باوجود مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بھی واضح فرمایا کہ مال نفوس انسانی کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ بندہ اسے مشکل ہی سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اس لیے جو کوئی اس مال سے محبت کے باوجود اس کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مال سے محبت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ اس حال میں مال خرچ کرے کہ وہ صحت مند ہو، مال کا حریص ہو،
فراخی کی امید رکھتا ہو اور محتاجی سے ڈرتا ہو۔ اسی طرح اگر قلیل مال میں سے صدقہ نکالا جائے تو یہ افضل ہے۔ کیونکہ بندے کی یہی وہ حالت ہے جب وہ مال کو اس وہم سے روکے رکھنا پسند کرتا ہے کہ کہیں وہ محتاج نہ ہو جائے۔
اسی طرح جب مال نفیس ہو اور وہ اس مال سے محبت کرتا ہو اور پھر بھی وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَ٘نْ تَنَالُوا الْـبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّؔا تُحِبُّوْنَ﴾ (آل عمران : 3؍92) ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ پس یہ سب وہ لوگ ہیں جو مال سے محبت رکھنے کے باوجود اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن پر مال خرچ کیا جانا چاہیے۔ یہی لوگ تیری نیکی اور تیرے احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
﴿ ذَوِی الْ٘قُ٘رْبٰى﴾ ’’رشتے داروں کو‘‘ ان قریبی رشتہ داروں پر جن کے مصائب پر تو تکلیف، اور ان کی خوشی پر خوشی محسوس کرے جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور دیت ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ پس بہترین نیکی یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ ان کے قرب اور ان کی حاجت کے مطابق مالی اور قولی احسان سے پیش آیا جائے۔
﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى﴾ ’’اور یتیموں کو‘‘ ان یتیموں پر جن کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔ اور نہ خود ان میں اتنی قوت ہو کہ وہ کما کر مستغنی ہو جائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم رحمت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتنا باپ اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وصیت کی ہے اور ان پر ان کے اموال میں فرض قرار دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی سے پیش آئیں حتی کہ وہ یوں محسوس کریں کہ گویا ان کے والدین فوت ہی نہیں ہوئے۔ کیونکہ عمل کا بدلہ عمل کی جنس ہی سے ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے یتیم پر رحم کرتا ہے تو اس کے یتیم کے سر پر بھی دست شفقت رکھا جاتا ہے۔
﴿ وَالْمَسٰكِیْنَ﴾ ’’اور مسکینوں کو‘‘ مساکین وہ لوگ ہیں جن کو حاجت نے بے دست و پا اور فقر نے ذلیل کر دیا ہو۔ پس مال دار لوگوں پر ان کا اتنا حق ہے جس سے ان کی مسکینی دور ہو جائے یا کم از کم اس میں کمی ہو جائے۔ مال دار لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اور جو کچھ ان کو میسر ہے اس سے ان کی مدد کریں۔
﴿ وَابْنَ السَّبِیْلِ﴾ ’’اور مسافر کو‘‘ یہ اس اجنبی کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو اور وہ اپنے شہر سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اجنبی مسافر کو اتنا مال عطا کریں جو سفر میں اس کا مددگار ہو۔ اس گمان پر کہ وہ حاجت مند ہے اور اس کے سفر کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ پس اس شخص پر، جسے اللہ تعالیٰ نے وطن سے اور اس کی راحت سے نوازا ہے اور اسے نعمتیں عطا کی ہیں، فرض ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے غریب الوطن بھائی پر اپنی استطاعت کے مطابق ترس کھائے خواہ اسے زاد راہ عطا کر دے یا سفر کا کوئی آلہ
(سواری وغیرہ) دے دے۔ یا اس کو پہنچنے والے مظالم وغیرہ کا ازالہ کر دے۔
﴿ وَالسَّآىِٕلِیْ٘نَ۠﴾ ’’اور مانگنے والوں کو‘‘ سائلین وہ لوگ ہیں جن پر کوئی ایسی ضرورت آن پڑے جو ان کو سوال کرنے پر مجبور کر دے، مثلاً ایسا شخص جو کسی دیت کی ادائیگی میں مبتلا ہو گیا ہو یا حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جرمانہ عائد کر دیا گیا ہو یا وہ مصالح عامہ کے لیے کوئی عمارت، مثلاً مسجد، مدرسہ اور پل وغیرہ تعمیر کروا رہا ہو۔ اس حوالے سے سوال کرنا اس کا حق ہے خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔
﴿ وَفِی الرِّقَابِ﴾ ’’اور گردنوں کے آزاد کرنے میں‘‘ غلاموں کو آزاد کرنا اور آزادی پر اعانت کرنا، مکاتب کو آزادی کے لیے مالی مدد دینا تاکہ وہ اپنے مالک کو ادائیگی کر سکے۔ جنگی قیدی جو کفار یا ظالموں کی قید میں ہوں۔ سب اس مد میں شامل ہیں۔
﴿ وَاَقَامَ الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ﴾ ’’اور قائم کرے وہ نماز اور ادا کرے زکاۃ‘‘ گزشتہ صفحات میں متعدد بار گزر چکا ہے کہ نماز اور زکٰوۃ کے سب سے افضل عبادت ہونے، تقرب الٰہی کا کامل ترین ذریعہ ہونے، اور قلبی ، بدنی اور مالی عبادت ہونے کی بنا پر ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ نماز اور زکٰوۃ ہی کے ذریعے سے ایمان کا وزن ہوتا ہے اور انھی سے معلوم کیا جاتا ہے کہ صاحب ایمان کتنے یقین کا مالک ہے۔
﴿ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰؔهَدُوْا﴾ ’’اور وہ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں‘‘ اللہ تعالیٰ یا خود بندے کی طرف سے لازم کیے ہوئے امر کا التزام کرنا عہد کہلاتا ہے۔ پس تمام حقوق اللہ اس میں داخل ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان کو لازم قرار دیا ہے اور وہ اس التزام کو قبول کر کے اس عہد میں داخل ہو گئے اور ان کا ادا کرنا ان پر فرض قرار پایا۔ نیز اس عہد میں وہ حقوق العباد بھی داخل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جن کو بندے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیتے ہیں، مثلاً قسم اور نذر وغیرہ۔
﴿ وَالصّٰؔبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ ﴾ ’’اور صبر کرنے والے ہیں وہ سختی میں‘‘ یعنی فقر اور محتاجی میں صبر کرتے ہیں، کیونکہ محتاج شخص بہت سے پہلوؤں سے صبر کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ دائمی طور پر ایسی قلبی اور بدنی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے جس میں کوئی اور شخص مبتلا نہیں ہوتا۔ اگر مال دار دنیاوی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں تو فقیر آدمی ان نعمتوں سے استفادے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے رنج و الم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال بھوک کا شکار ہوتے ہیں تو اسے دکھ ہوتا ہے جب وہ کوئی ایسا کھانا کھاتا ہے جو اس کی چاہت کے مطابق نہ ہو، تب بھی اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر وہ عریاں ہوتا ہے یا عریانی کی حالت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو دکھ محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنے سامنے کی یا مستقبل میں متوقع کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو غم زدہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ سردی محسوس کرتا ہے جس سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوتا، تو اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ تمام چیزیں مصائب کے زمرے میں آتی ہیں جن پر صبر کرنے کا اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
﴿ وَالضَّرَّآءِ ﴾ ’’اور تکلیف میں‘‘ یعنی مختلف قسم کے امراض، مثلاً بخار، زخم، ریح کا درد، کسی عضو میں درد کا ہونا حتی کہ دانت اور انگلی کا درد وغیرہ، ان تمام تکالیف میں بندہ صبر کا محتاج ہے، کیونکہ نفس کمزور ہوتا ہے اور بدن درد محسوس کرتا ہے اور یہ مرحلہ نفس انسانی کے لیے نہایت مشقت آزما ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بیماری طول پکڑ جائے۔ پس اسے حکم ہے کہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔
﴿ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ﴾ ’’اور لڑائی کے وقت‘‘ یعنی ان دشمنوں سے لڑائی کے وقت جن سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ صبر و استقلال سے جواں مردی کا مظاہرہ نفس انسانی کے لیے نہایت گراں بار ہے اور انسان قتل ہونے، زخمی ہونے یا قید ہونے سے بہت گھبراتا ہے۔ پس وہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبرکرنے کا سخت محتاج ہے جس کی طرف سے فتح و نصرت ہوتی ہے جس کا وعدہ اس نے صبر کرنے والوں کے ساتھ کر رکھا ہے۔
﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی‘‘ یعنی جو ان عقائد حسنہ اور اعمال صالحہ سے متصف ہیں جو ایمان کے آثار، اس کی برہان اور اس کا نور ہیں۔ اور ان اخلاق کے مالک ہیں جو انسان کا حسن و جمال اور انسانیت کی حقیقت ہے۔
﴿الَّذِیْنَ صَدَقُوْا﴾ ’’جو سچے ہیں۔‘‘ یعنی یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں، کیونکہ ان کے اعمال ان کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں
﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘مُتَّقُوْنَ﴾ ’’اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘ کیونکہ انھوں نے محظورات کو ترک کر دیا اور مامورات پر عمل کیا، اس لیے کہ یہ امور تمام اچھی خصلتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں، چاہے ضمناً یا لزوماً، کیونکہ ایفائے عہد میں پورا دین ہی آجاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جن عبادات کی صراحت ہے، وہ سب عبادات سے اہم اور بڑی ہیں۔ اور جو ان عبادات کا التزام کرتا ہے وہ دیگر امور کو زیادہ آسانی سے سرانجام دے سکتا ہے۔ پس یہی لوگ نیک، سچے اور متقی ہیں۔ ان تین امور پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی اور اخروی ثواب مرتب کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے جس کی تفصیل اس مقام پر ممکن نہیں۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (178) وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (179)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لکھ دیا گیا ہے تم پر برابر کا بدلہ لینا مقتولوں میں، آزاد، بدلے آزاد کےاور غلام، بدلے غلام کےاور عورت، بدلے عورت کے، پھر جو شخص کہ معاف کر دیا گیا اسے، اس کے بھائی
( ولی) کی طرف سے کچھ تو پیروی کرنی ہے موافق دستور کے اور ادا کرنا ہے اس کی طرف ساتھ اچھائی کے، یہ تخفیف ہے تمھارے رب کی طرف سے اور رحمت، پھر جس شخص نے زیادتی کی بعد اس کے تو اس کے لیے عذاب ہے دردناک
(178) اور تمھارے لیے برابر کا بدلہ لینے میں بڑی زندگی ہے اے عقل مندو! شاید کہ تم بچو
(قتل و غارت سے) (179)
#
{178} يَمْتَنُّ تعالى على عباده المؤمنين بأنه فرض عليهم {القصاص في القتلى}؛ أي: المساواة فيه، وأن يقتل القاتل على الصفة التي قتل عليها المقتول، إقامة للعدل والقسط بين العباد، وتوجيه الخطاب لعموم المؤمنين فيه دليل على أنه يجب عليهم كلهم حتى أولياء القاتل حتى القاتل بنفسه إعانة ولي المقتول إذا طلب القصاص، ويمكنه من القاتل، وأنه لا يجوز لهم أن يحولوا بين هذا الحد، ويمنعوا الولي من الاقتصاص كما عليه عادة الجاهلية ومن أشبههم من إيواء المحدِثين.
ثم بين تفصيل ذلك فقال: {الحر بالحر}؛ يدخل بمنطوقها الذكر بالذكر، والأنثى بالأنثى؛ والأنثى بالذكر والذكر بالأنثى، فيكون منطوقها مقدماً على مفهوم قوله الأنثى بالأنثى مع دلالة السنة على أن الذكر يقتل بالأنثى، وخرج من عموم هذا الأبوان وإن علوا فلا يقتلان بالولد لورود السنة بذلك مع أن في قوله: {القصاص}؛ ما يدل على أنه ليس من العدل أن يقتل الوالد بولده ولأن ما في قلب الوالد من الشفقة والرحمة ما يمنعه من القتل لولده إلا بسبب اختلال في عقله أو أذية شديدة جدًّا من الولد له، وخرج من العموم أيضاً الكافر بالسنة مع أن الآية في خطاب المؤمنين خاصة، وأيضاً فليس من العدل أن يقتل ولي الله بعدوه، {والعبد بالعبد}؛ ذكراً كان أو أنثى تساوت قيمهما أو اختلفت، ودل بمفهومها على أن الحر لا يقتل بالعبد لكونه غير مساوٍ له، {والأنثى بالأنثى}؛ أخذ بمفهومها بعض أهل العلم فلم يجز قتل الرجل بالمرأة، وتقدم وجه ذلك.
وفي هذه الآية دليل على أن الأصل وجوب القود في القتل وأن الدية بدل عنه، فلهذا قال: {فمن عفي له من أخيه شيء}؛ أي: عفا ولي المقتول عن القاتل إلى الدية أو عفا بعض الأولياء فإنه يسقط القصاص وتجب الدية وتكون الخيرة في القود واختيار الدية إلى الولي، فإذا عفا عنه، وجب على الولي؛ أي ولي المقتول أن يتبع القاتل، {بالمعروف}؛ من غير أن يشق عليه ولا يحمله ما لا يطيق، بل يحسن الاقتضاء والطلب ولا يحرجه. وعلى القاتل {أداء إليه بإحسان}؛ من غير مطلٍ ولا نقص ولا إساءة فعلية أو قولية، فهل جزاء الإحسان إليه بالعفو إلا الإحسان بحسن القضاء، وهذا مأمور به في كل ما ثبت في ذمم الناس للإنسان مأمور من له الحق بالاتباع بالمعروف ومن عليه الحق بالأداء بالإحسان ، وفي قوله: {فمن عفي له من أخيه}؛ ترقيق وحث على العفو إلى الدية وأحسن من ذلك العفو مجاناً.
وفي قوله: {أخيه}؛ دليل على أن القاتل لا يكفر لأن المراد بالأخوة هنا أخوة الإيمان فلم يخرج بالقتل منها ومن باب أولى أن سائر المعاصي التي هي دون الكفر لا يكفر بها فاعلها وإنما ينقص بذلك إيمانه، وإذا عفا أولياء المقتول أو عفا بعضهم احتقن دم القاتل وصار معصوماً منهم ومن غيرهم، ولهذا قال: {فمن اعتدى بعد ذلك}؛ أي: بعد العفو، {فله عذاب أليم}؛ أي في الآخرة، وأما قتله وعدمه فيؤخذ مما تقدم لأنه قتل مكافئاً له فيجب قتله بذلك، وأما من فسر العذاب الأليم بالقتل، وأن الآية تدل على أنه يتعين قتله ولا يجوز العفو عنه، وبذلك قال بعض العلماء، والصحيح الأول لأن جنايته لا تزيد على جناية غيره.
[178] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص، یعنی اس میں مساوات کو فرض کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے میں اسی طریقے سے قتل کیا جائے جس طریقے سے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا، یہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس خطاب کا رخ عام مومنوں کی طرف ہے، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان پر یہ فرض ہے حتی کہ قاتل کے اولیاء اور خود قاتل پر بھی کہ جب مقتول کا ولی قصاص کا مطالبہ کرے اور قاتل سے قصاص لینا ممکن ہو تو مقتول کے ولی کی مدد کی جائے اور یہ کہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حد کے درمیان حائل ہوں اور مقتول کے وارث کو بدلہ لینے سے روکیں،
جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا ان جیسے دیگر لوگ جو مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس قصاص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ ﴾ ’’آزاد، بدلے آزاد کے‘‘ الفاظ کے اعتبار سے اس میں مرد، بدلے مرد کے، کا مفہوم بھی شامل ہے۔
﴿ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى ﴾ ’’عورت، بدلے عورت کے۔‘‘ اس کا مطلب ہے مرد کے بدلے عورت اور عورت کے بدلے مرد۔ پس منطوق کلام، وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى کے مفہوم پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا
(اگر مرد عورت کا قاتل ہو گا) اس عموم سے والدین
(اوپر تک) مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا بیٹے کے قتل کے قصاص میں والدین کو قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ استثناء سنت میں وارد ہوا ہے۔ نیز قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے کہ بیٹے کے قتل کی پاداش میں باپ کو قتل کرنا انصاف نہیں۔ نیز اس لیے کہ باپ کا دل اپنے بیٹے کے لیے رحم اور شفقت سے لبریز ہوتا ہے جو اسے بیٹے کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ باپ کے دماغ میں کوئی خلل ہو یا بیٹے کی طرف سے اسے نہایت سخت اذیت پہنچی ہو۔ سنت نبوی ہی کی رو سے اس عموم سے کافر بھی خارج ہے۔ نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے۔ نیز یہ قرین انصاف بھی نہیں کہ اللہ کے دشمن کے بدلے اللہ تعالیٰ کے دوست کو قتل کیا جائے۔ اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ ان کی قیمت مختلف ہو یا برابر، مفہوم کلام یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غلام آزاد کے مساوی نہیں ہوتا۔
بعض اہل علم نے
(وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی) کے مفہوم سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور اس کی وجہ گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔
(کہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل، قتل میں قصاص کا واجب ہونا ہے
(یعنی قتل کے بدلے میں قتل ضروری ہے) اور دیت تو قصاص کا بدل ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ ﴾ ’’اگر اس
(قاتل) کو اس کے
(مقتول) بھائی سے کچھ معاف کردیا جائے۔‘‘ یعنی اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر کے دیت قبول کر لے یا مقتول کے اولیاء میں سے کوئی شخص مقتول کو معاف کر دے تو اس صورت میں قصاص ساقط ہو جائے گا اور دیت واجب ہو جائے گی۔ قصاص میں اختیار ہو گا اور مقتول کا ولی قصاص کی بجائے دیت لے سکتا ہے۔ جب مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر دے تب اس پر واجب ہے کہ وہ قاتل سے معروف طریقے سے خون بہا کا مطالبہ کرے
﴿بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’معروف طریقے سے‘‘ یعنی ایسے طریقے سے کہ اس پر شاق نہ گزرے اور اتنا زیادہ مطالبہ نہ کرے جس کو ادا کرنے کی قاتل میں طاقت نہ ہو، بلکہ نہایت احسن طریقے سے قاتل سے دیت کا تقاضا کرے اور اسے تنگی میں مبتلا نہ کرے۔
﴿ وَاَدَآءٌ اِلَیْهِ بِـاِحْسَانٍ ﴾ ’’اور احسان کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہیے۔‘‘ یعنی قاتل پر واجب ہے کہ وہ ٹال مٹول، خون بہا میں کمی اور قولی یا فعلی تکلیف پہنچائے بغیر، بھلے طریقے سے دیت ادا کرے۔ معاف کر دینے کے احسان کا بدلہ یہ ہے کہ خون بہا کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے۔ انسان پر لوگوں کی جو ذمہ داریاں واجب ہیں ان میں یہی اصول مامور بہ ہے کہ جس نے کسی سے اپنا حق لینا ہے، وہ اس امر پر مامور ہے کہ وہ معروف طریقے سے حق کا مطالبہ کرے اور جس کے ذمے حق ہے وہ اسے بھلے طریقے سے ادا کرے۔
﴿ فَ٘مَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ ﴾ میں نرمی اختیار کرنے اور قصاص معاف کر کے دیت قبول کرنے کی ترغیب ہے۔ اس سے بھی زیادہ احسن بات یہ ہے کہ کچھ لیے بغیر ہی قاتل کو معاف کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
(اَخِیْهِ) اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل کی تکفیر نہ کی جائے کیونکہ یہاں ’’اخوت‘‘ سے مراد اخوت ایمانی ہے۔ پس قتل کے ارتکاب سے قاتل دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہو گا۔ جب بات یہ ہے تو دیگر معاصی کا مرتکب، جو کفر سے کم تر ہیں،
بطریق اولیٰ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہو گا البتہ اس سے اس کے ایمان میں کمی ضرور واقع ہو گی۔
اور جب مقتول کے اولیاء یا ان میں سے کوئی ایک قاتل کو معاف کر دے تو قاتل کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ مقتول کے اولیا یا دیگر لوگوں کے قصاص لینے سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَ٘مَنِ اعْتَدٰؔى بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’اگر کوئی اس کے بعد زیادتی کرتا ہے‘‘ یعنی معاف کر دینے کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی کرتا ہے
﴿ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’تو
(آخرت میں) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
رہا اس کو قتل کرنا یا نہ قتل کرنا تو یہ حکم گزشتہ آیت سے اخذ کیا جائے گا اور چونکہ
(معاف کرنے کے بعد) اس نے قاتل کو محض بدلہ لینے کے لیے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کے قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے
﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ کی تفسیر ’’قتل‘‘ کی ہے۔ نیز ان کا موقف ہے کہ یہ آیت اس قاتل کا قتل متعین کرتی ہے اور اس کو معاف کرنا جائز نہیں۔ تو بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، کیونکہ اس کا جرم دوسرے شخص کے جرم سے زیادہ نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ قصاص کی مشروعیت میں پنہاں عظیم حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
#
{179} {ولكم في القصاص حياة}؛ أي: تنحقن بذلك الدماء وتنقمع به الأشقياء، لأن من عرف أنه مقتول إذا قتل لا يكاد يصدر منه القتل، وإذا رُئيَ القاتل مقتولاً انذعر بذلك غيره وانزجر، فلو كانت عقوبة القاتل غير القتل لم يحصل انكفاف الشر الذي يحصل بالقتل، وهكذا سائر الحدود الشرعية فيها من النكاية والانزجار ما يدل على حكمة الحكيم الغفار. ونكر الحياة لإفادة التعظيم والتكثير، ولما كان هذا الحكم لا يعرف حقيقته إلا أهل العقول الكاملة والألباب الثقيلة خصهم بالخطاب دون غيرهم، وهذا يدل على أن الله تعالى يحب من عباده أن يعملوا أفكارهم وعقولهم في تدبر ما في أحكامه من الحكم والمصالح الدالة على كماله وكمال حكمته وحمده وعدله ورحمته الواسعة، وأن من كان بهذه المثابة فقد استحقَّ المدح بأنه من ذوي الألباب الذين وجه إليهم الخطاب وناداهم رب الأرباب، وكفى بذلك فضلاً وشرفاً لقوم يعقلون.
وقوله: {لعلكم تتقون}؛ وذلك أن من عرف ربه، وعرف ما في دينه وشرعه من الأسرار العظيمة والحكم البديعة والآيات الرفيعة أوجب له ذلك أن ينقاد لأمر الله، ويعظم معاصيه فيتركها؛ فيستحق بذلك أن يكون من المتقين.
[179] ﴿ وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰؔوةٌ ﴾ ’’اور تمھارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔‘‘ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہو جاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہو گا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کر دیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے۔ اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص
(قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر
(برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑا بخشنے والا ہے۔
﴿ حَیٰؔوةٌ ﴾ کو نکرہ استعمال کرنا تکثیر اور تعظیم کے لیے ہے اور چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو عقل کامل کے مالک ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی بجائے انھی لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام میں پوشیدہ حکمتوں، اس کے کمال پر دلالت کرنے والی مصلحتوں،
اس کی کامل حمد و حکمت و عدل اور رحمت واسعہ میں تدبر کے لیے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لائیں اور جو کوئی یہ عمل کرتا ہے وہ اس مدح کا مستحق ہے کہ وہ ان عقل مند لوگوں میں سے ہے جن کو اس خطاب میں مخاطب کیا گیا ہے اور جن کو رب ارباب نے پکارا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہی فضیلت اور شرف کافی ہے۔ فرمایا: ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘ اور یہ تقویٰ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو اور اس کے دین و شریعت کے بڑے بڑے اسرار، انوکھی حکمتوں اور بلند مرتبہ نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، اس کی نافرمانیوں کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے انھیں ترک کر دے۔ تب وہ اس بات کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اسے اہل تقویٰ میں شمار کیا جائے۔
{كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (180) فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (181) فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (182)}
لکھ دیا گیا ہے تم پر، جب آنے لگے ایک تمھارے کو موت، اگر چھوڑے جا رہا ہو وہ مال، وصیت کرنا واسطے والدین کے اور قرابت داروں کے موافق دستور کے، یہ حق ہے متقیوں پر
(180) پھر جو شخص بدل دے اس
(وصیت) کو بعد اس کے کہ وہ سن چکا اسے تو یقیناً اس کا گناہ انھی لوگوں پر ہے جو بدلیں گے اس کو، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے
(181) پس جو شخص خوف کرے وصیت کرنے والے کی طرف سے حق تلفی یا گناہ کا ، پھر وہ اصلاح کرا دے ان کے درمیان تو نہیں ہے کوئی گناہ اس پر، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے
(182)
#
{180} أي: فرض الله عليكم يا معشر المؤمنين {إذا حضر أحدكم الموت}؛ أي: أسبابه كالمرض المشرف على الهلاك وحضور أسباب المهالك وكان قد {ترك خيراً }؛ وهو المال الكثير عرفاً فعليه أن يوصي لوالديه وأقرب الناس إليه بالمعروف على قدر حاله من غير سرف ولا اقتصار على الأبعد دون الأقرب، بل يرتبهم على القرب والحاجة ولهذا أتى فيه بأفعل التفضيل، وقوله: {حقًّا على المتقين}؛ دل على وجوب ذلك، لأن الحق هو الثابت، وقد جعله الله من موجبات التقوى.
واعلم أن جمهور المفسرين يرون أن هذه الآية منسوخة بآية المواريث، وبعضهم يرى أنها في الوالدين والأقربين غير الوارثين، مع أنه لم يدل على التخصيص بذلك دليل، والأحسن في هذا أن يقال إن هذه الوصية للوالدين والأقربين مجملة ردها الله تعالى إلى العرف الجاري، ثم إن الله تعالى قدر للوالدين الوارثين وغيرهما من الأقارب الوارثين هذا المعروف في آيات المواريث بعد أن كان مجملاً، وبقي الحكم فيمن لم يرثوا من الوالدين الممنوعين من الإرث وغيرهما ممن حُجِب بشخص أو وصف، فإن الإنسان مأمور بالوصية لهؤلاء وهم أحق الناس ببره، وهذا القول تتفق عليه الأمة، ويحصل به الجمع بين القولَيْنِ المتقدِمَيْنِ، لأن كلاًّ من القائلَيْنِ بهما كلٌّ منهم لَحظَ مَلْحَظاً واختلف المورد، فبهذا الجمع يحصل الاتفاق والجمع بين الآيات، فإنه مهما أمكن الجمع كان أحسن من ادعاء النسخ الذي لم يدل عليه دليل صحيح.
[180] یعنی اے مومنوں کے گروہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے، یعنی جب موت کے اسباب، مثلاً مہلک مرض اور دیگر ہلاکت خیز اسباب قریب آجائیں تو اللہ تعالیٰ نے تم پر
(وصیت) فرض کی ہے۔
﴿ اِنْ تَرَكَ خَیْرًا ﴾ ’’اگر اس نے مال چھوڑا ہو‘‘ ’’خیر‘‘ عرف میں مال کثیر کو کہا جاتا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین اور ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ اس کی نیکی کے مستحق ہیں اپنے حال اور طاقت کے مطابق بغیر کسی اسراف کے، وصیت کرے۔ علاوہ ازیں قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف دور کے رشتہ داروں کے لیے ہی وصیت نہ کرے، بلکہ وصیت کو ضرورت اور قرابت مندی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دے، اسی لیے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
(یعنی اقربین جس کا مطلب یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ تمھارے مال میں استحقاق رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں پر‘‘ وصیت کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہ حق ثابت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے موجبات تقویٰ میں شمار کیا ہے۔
جان لیجیے کہ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کر دیا ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں وصیت کا حکم والدین اور غیر وارث رشتہ داروں کے لیے ہے حالانکہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔ اس ضمن میں بہترین رائے یہ ہے کہ یہ وصیت مجمل طور پر والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے عرف جاری کی طرف لوٹا دیا۔ پھر اس اجمالی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ نے وارث والدین اور وارث رشتہ داروں کے لیے اس معروف کو آیات میراث میں مقدر فرما دیا
(یعنی ان کے حصوں کا تعین فرما دیا) اور وصیت کا حکم ان والدین اور رشتہ داروں کے لیے باقی رہ گیا جو وراثت سے محروم ہو رہے ہوں تو وصیت کرنے والا ان کے حق میں وصیت کرنے پر مامور ہے۔ اور یہ لوگ اس کی نیکی کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ اس قول پر تمام امت متفق ہو سکتی ہے اور اس سے سابقہ دونوں اقوال میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں فریقین نے اس آیت کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا اور اختلاف کا باعث بنے۔ اس تطبیق سے اتفاق اور دونوں آیات میں مطابقت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور دو آیتوں کے درمیان تطبیق نسخ کے اس دعوے سے بہتر ہے جس کی تائید میں کوئی صحیح دلیل نہ ہو۔
بسااوقات وصیت کرنے والا اس وہم کی بنا پر وصیت کرنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں پسماندگان وصیت کو تبدیل نہ کر دیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
#
{181 ـ 182} {فمن بدله}؛ أي: الإيصاء للمذكورين أو غيرهم {بعدما سمعه}؛ أي: بعد ما عقله وعرف طرقه وتنفيذه {فإنما إثمه على الذين يبدلونه}؛ وإلا فالموصي وقع أجره على الله، وإنما الإثم على المبدل المغير {إن الله سميع}؛ يسمع سائر الأصوات ومنه سماعه لمقالة الموصي ووصيته فينبغي له أن يراقب من يسمعه ويراه وأن لا يجور في وصيته، {عليم}؛ بنيته وعليم بعمل الموصَى إليه، فإذا اجتهد الموصي، وعلم الله من نيته ذلك أثابه ولو أخطأ، وفيه التحذير للموصَى إليه من التبديل، فإن الله عليم به مطلع على [ما] فعله فليحذر من الله، هذا حكم الوصية العادلة وأما الوصية التي فيها حيف وجنف وإثم فينبغي لمن حضر الموصي وقت الوصية بها أن ينصحه بما هو الأحسن والأعدل، وأن ينهاه عن الجور والجنف وهو الميل بها عن خطأ من غير تعمد، والإثم وهو التعمد لذلك، فإن لم يفعل ذلك فينبغي له أن يصلح بين الموصَى إليهم ويتوصل إلى العدل بينهم على وجه التراضي والمصالحة ووعظهم بتبرئة ذمة ميتهم، فهذا قد فعل معروفاً عظيماً، وليس عليه إثم كما على مبدل الوصية الجائزة ولهذا قال: {إن الله غفور}؛ أي: يغفر جميع الزلات ويصفح عن التبعات لمن تاب إليه، ومنه مغفرته لمن غض من نفسه وترك بعض حقه لأخيه لأن من سامح سامحه الله، غفور لميتهم الجائر في وصيته إذا احتسبوا بمسامحة بعضهم بعضاً لأجل براءة ذمته، {رحيم}؛ بعباده حيث شرع لهم كل أمر به يتراحمون ويتعاطفون.
فدلت هذه الآيات على الحث على الوصية وعلى بيان من هي له وعلى وعيد المبدل للوصية العادلة والترغيب في الإصلاح في الوصية الجائرة.
[182-181] ﴿ فَ٘مَنْۢ بَدَّلَهٗ ﴾ ’’پس جو شخص اس
(وصیت) کو بدل ڈالے۔‘‘ یعنی جو کوئی اس وصیت کو بدلتا ہے جو ان مذکور لوگوں یا دیگر لوگوں کے حق میں کی گئی ہے
﴿ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ ﴾ ’’اس کو سننے کے بعد‘‘ یعنی اس وصیت کو سمجھ لینے اور اس کے طریقوں اور اس کے نفاذ کو اچھی طرح جان لینے کے بعد جو کوئی اس کو تبدیل کرتا ہے
﴿ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ ﴾ ’’تو اس کا گناہ صرف انھی لوگوں پر ہے جو انھیں تبدیل کرتے ہیں۔‘‘ ورنہ وصیت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے اجر کا مستحق ہوگیا۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سنتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ اسی طرح وہ وصیت کرنے والے کی بات اور وصیت کو بھی سنتا ہے۔ پس وہ اس ہستی کا خوف کھاتے ہوئے جو اسے دیکھ اور سن رہی ہے اپنی وصیت میں ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔
﴿عَلِیْمٌ﴾ وہ وصیت کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے اور اس شخص کے عمل کو بھی جس کو یہ وصیت کی گئی ہے۔
جب وصیت کرنے والا پوری کوشش سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا ہے تو اسے اپنی نیت کا ثواب ملتا ہے۔ خواہ اس سے خطا ہی کیوں نہ واقع ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تنبیہ ہے جس کو وصیت کی گئی ہو کہ وہ اس میں تبدیلی سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، اس کے فعل سے وہ باخبر ہے۔ پس اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ تو تھا وصیت عادلہ کا حکم، رہی وہ وصیت جو ظلم اور گناہ کی بنیاد پر کی گئی ہو، تو وصیت کے وقت جو کوئی وصیت کرنے والے کے پاس موجود ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس امر کی نصیحت کرے جو بہتر اور زیادہ قرین عدل ہو اور اسے ظلم کرنے سے روکے۔
(الْجَنَف) سے مراد بغیر کسی ارادے کے غلطی سے وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرنا۔ اور
(الْاِثْم) سے مراد عمداً ظلم کرناہے۔ اگر اس نے وصیت کے وقت وصیت کرنے والے کو
(غلط وصیت کرنے سے) نہیں روکا،
تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مابین صلح کروا دے جن کو وصیت کی گئی ہے۔ ان کی باہمی رضامندی اور مصالحت کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل و انصاف کا اہتمام کرے اور ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ وہ اپنے مرنے والے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ باہمی صلح کروانے والے کا یہ فعل بہت بڑی نیکی ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں جیسے اس شخص کو گناہ ہوتا ہے جو جائز وصیت کو تبدیل کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اس شخص کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے، وہ اس شخص کو بھی اپنی مغفرت سے نوازے گا جو اپنی ذات سے صرف نظر کر کے اپنا کچھ حق اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ جو نرمی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس مرنے والے کو بھی بخش دینے والا ہے جو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کر گیا ہے، بشرطیکہ اس کے ورثا اس کو بریء الذمہ کرنے کی خاطر، اللہ کی رضا کے لیے آپس میں نرمی اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔
﴿ رَّحِیْمٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر ہر معاملہ اس طرح مشروع کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے معاملہ کریں۔ یہ آیات کریمہ وصیت کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں ، نیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بیان کیاجائے اور ان میں اس شخص کے لیے سخت وعید ہے جو جائز وصیت میں تغیر و تبدل کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور ظلم پر مبنی وصیت میں اصلاح کرنے کی ترغیب ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183) أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (184) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لکھ دیا گیا ہے تم پر روزہ رکھنا جس طرح لکھا گیا
(تھا) ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے، شاید کہ تم متقی بن جاؤ
(183) چند دن گنتی کے، پس جو ہو تم میں سے بیمار یا سفر پر تو گنتی
(پوری کرنی) ہے دوسرے دنوں سےاور اوپر ان لوگوں کے جو طاقت رکھتے ہیں اس کی، فدیہ ہے کھانا ایک مسکین کا، پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو وہ زیادہ بہتر ہے اس کے لیےاور تمھارا روزہ رکھنا بہت بہتر ہے تمھارے لیے، اگر ہو تم علم رکھتے
(184) مہینہ رمضان کا وہ ہے کہ نازل کیا گیا اس میں قرآن، ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور واضح دلیلیں ہدایت کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی، پس جو شخص حاضر ہو تم میں سے اس مہینے میں تو چاہیے کہ روزے رکھے وہ اس کے اور جو شخص ہو بیمار یا سفر پر تو گنتی
(پوری کرنی) ہے دوسرے دنوں سے، چاہتا ہے اللہ تمھارے ساتھ آسانی اور نہیں چاہتا وہ تمھارے ساتھ تنگی اور تاکہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ تم بڑائی
(بیان) کرو اللہ کی، اس پر کہ ہدایت دی اس نے تمھیں، اور شاید کہ تم شکر کرو
(185)
#
{183} يخبر تعالى بما منَّ الله به على عباده بأنه فرض عليهم الصيام كما فرضه على الأمم السابقة لأنه من الشرائع والأوامر التي هي مصلحة للخلق في كل زمان، وفيه تنشيط لهذه الأمة بأنه ينبغي لكم أن تنافسوا غيركم في تكميل الأعمال والمسارعة إلى صالح الخصال، وأنه ليس من الأمور الثقيلة التي اختصَّيتم بها.
ثم ذكر تعالى حكمته في مشروعية الصيام فقال: {لعلكم تتقون}؛ فإن الصيام من أكبر أسباب التقوى لأن فيه امتثال أمر الله واجتناب نهيه، فممِّا اشتمل عليه من التقوى أن الصائم يترك ما حرم الله عليه من الأكل والشرب والجماع ونحوها التي تميل إليها نفسه متقرباً بذلك إلى الله راجياً بتركها ثوابه، فهذا من التقوى، ومنها: أن الصائم يدرب نفسه على مراقبة الله تعالى فيترك ما تهوى نفسه مع قدرته عليه لعلمه باطلاع الله عليه، ومنها: أنَّ الصيام يضيق مجاري الشيطان فإنه يجري من ابن ادم مجرى الدم فبالصيام يضعف نفوذه وتقل منه المعاصي، ومنها: أن الصائم في الغالب تكثر طاعته والطاعات من خصال التقوى، ومنها: أن الغني إذا ذاق ألم الجوع أوجب له ذلك مواساة الفقراء المعدمين. وهذا من خصال التقوى.
[183] اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کیے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کیے تھے کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس امت کو اس جرأت پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں،
نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمھیں ہی بطور خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے کہ روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔ پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ
روزہ دار کھانا پینا اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنھیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دیا ہے، اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے، لیکن وہ صرف تقرب الٰہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے اور یہی تقویٰ ہے۔
روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے، چنانچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انھیں ترک کر دیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔
روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کر دیتا ہے۔ شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑ جاتا ہے اور گناہ کم ہو جاتے ہیں۔
غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔
جب خوشحال روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں اور ناداروں کی غمگساری اور دستگیری کی موجب بنتی ہے اور یہ بھی تقویٰ کی ایک خصلت ہے۔
#
{184} ولما ذكر أنه فرض عليهم الصيام أخبر أنه أيام معدودات أي قليلة في غاية السهولة ثم سهل تسهيلاً آخر فقال: {فمن كان منكم مريضاً أو على سفر فعدة من أيام أخر}؛ وذلك للمشقة في الغالب رخص الله لهما في الفطر، ولما كان لا بد من حصول مصلحة الصيام لكل مؤمن أمرهما أن يقضياه في أيام أخر إذا زال المرض وانقضى السفر وحصلت الراحة، وفي قوله: {فعدة من أيام}؛ فيه دليل على أنه يقضي عدد أيام رمضان كاملاً كان أو ناقصاً وعلى أنه يجوز أن يقضي أياماً قصيرة باردة عن أيام طويلة حارة كالعكس، وقوله: {وعلى الذين يطيقونه}؛ أي: يطيقون الصيام {فدية}؛ عن كل يوم يفطرونه {طعام مسكين}؛ وهذا في ابتداء فرض الصيام لما كانوا غير معتادين للصيام وكان فرضه حتماً فيه مشقة عليهم دَرَّجَهم الربُّ الحكيم بأسهل طريق، وخَيَّرَ المطيق للصوم بين أن يصوم وهو أفضل أو يطعم ولهذا قال: {وأن تصوموا خير لكم}؛ ثم بعد ذلك جعل الصيام حتماً على المطيق، وغير المطيق يفطر ويقضيه في أيام أُخَر، وقيل: وعلى الذين يطيقون؛ أي يتكلفونه، ويشق عليهم مشقة غير محتملة كالشيخ الكبير، فدية عن كل يوم مسكين، وهذا هو الصحيح.
[184] چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کر دیے، اس لیے یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کر دی ،
چنانچہ فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ ’’پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔‘‘ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کر دی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے، اس لیے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہو جائے اور انسان کو راحت حاصل ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جا سکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جا سکتی ہے۔
﴿ وَعَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ ﴾ ’’اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں ، تو وہ
﴿ فِدْیَةٌ ﴾ فدیہ دیں
﴿ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ ﴾ ’’ایک مسکین کا کھانا۔‘‘ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا ،چونکہ انھیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لیے مشقت تھی،
اس لیے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انھیں اس راستے پر لگایا اور روزے کی طاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ ﴾ ’’اگر تم روزہ رکھو تو تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کر دیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روزہ چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ
﴿ وَعَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ ﴾ کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں، یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔
#
{185} {شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن}؛ أي: الصوم المفروض عليكم هو شهر رمضان الشهر العظيم الذي قد حصل لكم فيه من الله الفضل العظيم، وهو القرآن الكريم المشتمل على الهداية لمصالحكم الدينية والدنيوية وتبيين الحق بأوضح بيان، والفرقان بين الحق والباطل والهدى والضلال وأهل السعادة وأهل الشقاوة، فحقيق بشهر هذا فضله، وهذا إحسان الله عليكم فيه، أن يكون موسماً للعباد مفروضاً فيه الصيام، فلما قرره وبين فضيلته وحكمة الله تعالى في تخصيصه قال: {فمن شهد منكم الشهر فليصمه}؛ هذا فيه تعيين الصيام على القادر الصحيح الحاضر، ولما كان النسخ للتخيير بين الصيام والفداء خاصة، أعاد الرخصة للمريض والمسافر لئلا يتوهم أن الرخصة أيضاً منسوخة فقال: {يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر}؛ أي: يريد الله تعالى أن ييسر عليكم الطرق الموصلة إلى رضوانه أعظم تيسير ويسهلها أبلغ تسهيل، ولهذا كان جميع ما أمر الله به عباده في غاية السهولة في أصله، وإذا حصلت بعض العوارض الموجبة لثقله؛ سهله تسهيلاً آخر إما بإسقاطه أو تخفيفه بأنواع التخفيفات، وهذه جملة لا يمكن تفصيلها، لأن تفاصيلها جميع الشرعيات، ويدخل فيها جميع الرخص والتخفيفات.
{ولتكملوا العدة}؛ وهذا والله أعلم لئلا يتوهم متوهم أن صيام رمضان يحصل المقصود منه ببعضه، دفع هذا الوهم بالأمر بتكميل عدته، ويشكر الله تعالى عند إتمامه على توفيقه وتسهيله وتبيينه لعباده وبالتكبير عند انقضائه، ويدخل في ذلك التكبير عند رؤية هلال شوال إلى فراغ خطبة العيد.
[185] ﴿ شَ٘هْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْ٘قُ٘رْاٰنُ ﴾ ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔‘‘ یعنی جو روزے تم پر فرض کیے ہیں وہ رمضان کے روزے ہیں، یہ ایک ایسا عظمت والا مہینہ ہے جس میں تمھیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل حاصل ہوا، یعنی قرآن کریم جو تمھارے دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف رہنمائی پر مشتمل ہے۔ جو حق کو نہایت وضاحت سے بیان کرتا ہے اور جو حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی اور خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان پرکھ کرنے کی کسوٹی ہے۔ وہ مہینہ جس کی یہ فضیلت ہو جس میں تم پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر احسان اور فضل ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ وہ بندوں کے لیے نیکیوں کا مہینہ بنے اور اس کے اندر روزے فرض کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو روزوں کے لیے مقرر کر دیا اور اس نے اس کی فضیلت اور روزوں کے لیے اس کو مختص کرنے کی حکمت کو واضح کر دیا،
تو فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّ٘هْرَ فَلْیَصُمْهُ ﴾ ’’پس جو تم میں سے اس مہینے کو پا لے، تو وہ اس کے روزے رکھے‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ بات متعین کر دی گئی کہ ہر صحت مند شخص جو سفر میں نہ ہو اور روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو وہ رمضان کے روزے رکھے۔
چونکہ نسخ کا تعلق اس اختیار سے ہے جو خاص طور پر روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان دیا گیا تھا،
اس لیے مریض اور مسافر کے لیے رخصت کو دوبارہ بیان کر دیا گیا تاکہ اس وہم کا ازالہ ہو جائے کہ مریض اور مسافر کے لیے بھی رخصت منسوخ ہو گئی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْ٘یُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْ٘عُسْرَ ﴾ ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے، اس لیے ان تمام امور کو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے، اصل میں حد درجہ آسان بنایا ہے اور جب کوئی ایسا عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور طرح سے آسان کر دیا۔ یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کر دیا یا ان میں مختلف قسم کی تخفیفات سے نواز دیا۔ یہ اس
(آسانی) کا اجمالاً ذکر ہے۔ یہاں تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی تفاصیل تمام شرعیات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور ان شرعیات میں تمام رخصتیں اور تخفیفات شامل ہیں۔
﴿ وَلِتُكْ٘مِلُوا الْعِدَّةَ ﴾ ’’اور تاکہ تم اس کی گنتی کو پورا کرو۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ کوئی شخص اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ رمضان کے چند روزے رکھنے سے مقصود و مطلوب حاصل ہو سکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں روزوں کی تکمیل کے حکم کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کر دیا گیا، نیز حکم دیا گیا کہ روزوں کے مکمل ہونے پر بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق، سہولت اور تبیین کا شکر ادا کیا جائے۔ رمضان کے اختتام اور روزوں کے پورے ہونے پر تکبیریں کہی جائیں۔ اس حکم میں وہ تمام تکبیریں شامل ہیں جو شوال کا چاند دیکھ کر خطبہ عید سے فراغت تک کہی جاتی ہیں۔
{وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (186)}
اور جب سوال کریں آپ سے میرے بندے میرے بارے میں تو بلاشبہ میں قریب ہوں، قبول کرتا ہوں میں پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے، پس چاہیے کہ مانیں وہ
(بھی) میرا حکم اور ایمان لائیں مجھ پرتاکہ وہ ہدایت پائیں
(186)
#
{186} هذا جواب سؤال. سأل النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - بعضُ أصحابه فقالوا: يا رسول الله، أقريب ربنا فنناجيه، أم بعيد فنناديه؟ فنزل {وإذا سألك عبادي عني فإني قريب}؛ لأنه تعالى الرقيب الشهيد المطلع على السر وأخفى يعلم خائنةَ الأعين وما تخفي الصدور فهو قريب أيضاً من داعيه بالإجابة، ولهذا قال: {أجيب دعوة الداع إذا دعان}؛ والدعاء نوعان: دعاء عبادة، ودعاء مسألة.
والقرب نوعان: قرب بعلمه من كل خلقه، وقرب من عابديه وداعيه بالإجابة والمعونة والتوفيق.
فمن دعا ربه بقلب حاضر ودعاء مشروع ولم يمنع مانع من إجابة الدعاء كأكل الحرام ونحوه فإن الله قد وعده بالإجابة، وخصوصاً إذا أتى بأسباب إجابة الدعاء وهي الاستجابة لله تعالى بالانقياد لأوامره ونواهيه القولية والفعلية والإيمان به الموجب للاستجابة، فلهذا قال: {فليستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم يرشدون}؛ أي: يحصل لهم الرشد الذي هو الهداية للإيمان والأعمال الصالحة ويزول عنهم الغي المنافي للإيمان والأعمال الصالحة، ولأن الإيمان بالله والاستجابة لأمره سبب لحصول العلم كما قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً}. ثم قال تعالى:
[186] رسول اللہeسے بعض صحابہ کرامyنے عرض کیا ’’کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے انداز میں مناجات کریں یا وہ دور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی
﴿ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’اور جب تجھ سے میرے بندے میری بابت پوچھیں تو
(ان کو بتلا دیں کہ) میں قریب ہوں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ ہر بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے۔ وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے۔ اسی لیے فرمایا:
﴿ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ﴾ ’’جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘ دعا کی دو اقسام ہیں:
(۱) دعائے عبادت۔
(۲) دعائے سوال۔ اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔
(۲) دعا کی قبولیت، مدد اور توفیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والے کے قریب ہونا۔
جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو مشروع ہو اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خاص طورپر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی اور فعلی اوامر و نواہی کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا،
جو قبولیت دعا کا موجب ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ ﴾ ’’پس ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پا لیں‘‘ یعنی ان کو وہ رشد عطا ہو گی جو ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نام ہے اور ان سے وہ گمراہی زائل ہوجائے گی جو ایمان اور اعمال صالحہ کے منافی ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا حصول علم کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّـكُمْ فُ٘رْقَانًا ﴾ (الانفال : 8؍29) ’’اے ایمان دارو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمھارے لیے حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘
{أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (187)}
حلال کر دیا گیا ہے تمھارے لیے روزے کی رات کو صحبت کرنا اپنی عورتوں کے ساتھ، وہ لباس ہیں تمھارے لیے اور تم لباس ہو ان کے لیے، جان لیا اللہ نے کہ بے شک تھے تم خیانت کرتے اپنے نفسوں کی، سو اس نے توجہ فرمائی تم پر اور معاف کر دیا تمھیں، پس اب مباشرت کرو تم ان سے اور تلاش کرو اس کو جو لکھ دیا ہے اللہ نے تمھارے لیےاور کھاؤ اور پیو حتیٰ کہ ظاہر ہو جائے واسطے تمھارے دھاری سفید، سیاہ دھاری سے ، یعنی فجر ہو جائے ، پھر پورا کرو تم روزے کو رات تک، اور نہ مباشرت
(صحبت) کرو تم اپنی عورتوں سے، جبکہ تم اعتکاف کرنے والے ہو مسجدوں میں، یہ حدیں ہیں اللہ کی، سو مت قریب جاؤ تم ان کے، اسی طرح بیان فرماتا ہے اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے، شاید کہ وہ متقی بنیں
(187)
#
{187} كان في أول فرض الصيام يحرم على المسلمين الأكل والشرب والجماع في الليل بعد النوم ، فحصلت المشقة لبعضهم، فخفف الله تعالى عنهم ذلك وأباح في ليالي الصيام كلها الأكل والشرب والجماع، سواء نام أو لم ينم، لكونهم يختانون أنفسهم بترك بعض ما أمروا به، {فتاب}؛ الله {عليكم}؛ بأن وسع لكم أمراً كان لولا توسعته موجباً للإثم، {وعفا عنكم}؛ ما سلف من التخون {فالآن}؛ بعد هذه الرخصة والسعة من الله {باشروهن}؛ وطئاً وقبلة ولمساً وغير ذلك {وابتغوا ما كتب الله لكم}؛ أي: انووا في مباشرتكم لزوجاتكم التقرب إلى الله تعالى، والمقصود الأعظم من الوطء، وهو حصول الذرية وإعفاف فرجه وفرج زوجته، وحصول مقاصد النكاح، ومما كتب الله لكم ليلة القدر الموافقة لليالي صيام رمضان، فلا ينبغي لكم أن تشتغلوا بهذه اللذة عنها وتضيعوها، فاللذة مدركة وليلة القدر إذا فاتت لم تدرك.
{وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر}؛ هذا غاية للأكل والشرب والجماع، وفيه أنه إذا أكل ونحوه شاكًّا في طلوع الفجر فلا بأس عليه، وفيه دليل على استحباب السحور للأمر، وأنه يستحب تأخيره، أخذاً من معنى رخصة الله وتسهيله على العباد، وفيه أيضاً دليل على أنه يجوز أن يدركه الفجر وهو جنب من الجماع قبل أن يغتسل، ويصح صيامه لأن لازم إباحة الجماع إلى طلوع الفجر، أن يدركه الفجر وهو جنب، ولازم الحق حق {ثم}؛ إذا طلع الفجر {أتموا الصيام}؛ أي: الإمساك عن المفطرات {إلى الليل}؛ وهو غروب الشمس، ولما كان إباحة الوطء في ليالي الصيام ليست إباحة عامة لكل أحد، فإن المعتكف لا يحل له ذلك استثناه بقوله: {ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد}؛ أي: وأنتم متصفون بذلك.
ودلت الآية على مشروعية الاعتكاف وهو لزوم المسجد لطاعة الله تعالى وانقطاعاً إليه، وأن الاعتكاف لا يصح إلا في مسجدٍ، ويستفاد من تعريف المساجد أنها المساجد المعروفة عندهم، وهي التي تقام فيها الصلوات الخمس، وفيه أن الوطء من مفسدات الاعتكاف.
تلك المذكورات وهو تحريم الأكل والشرب والجماع، ونحوه من المفطرات في الصيام، وتحريم الفطر على غير المعذور، وتحريم الوطء على المعتكف، ونحو ذلك من المحرمات {حدود الله}؛ التي حدها لعباده ونهاهم عنها فقال: {فلا تقربوها}؛ أبلغ من قوله فلا تفعلوها؛ لأن القربان يشمل النهي عن فعل المحرم بنفسه، والنهي عن وسائله الموصلة إليه.
والعبد مأمور بترك المحرمات والبعد منها غاية ما يمكنه، وترك كل سبب يدعو إليها، وأما الأوامر فيقول الله فيها تلك حدود الله فلا تعتدوها فينهى عن مجاوزتها {كذلك}؛ أي: بيَّن الله لعباده الأحكام السابقة أتم تبيين وأوضحها لهم أكمل إيضاح {يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون}؛ فإنهم إذا بان لهم الحق اتبعوه، وإذا تبين لهم الباطل اجتنبوه، فإن الإنسان قد يفعل المحرم، على وجه الجهل بأنه محرم ولو علم تحريمه لم يفعله، فإذا بين الله للناس آياته؛ لم يبق لهم عذر ولا حجة، فكان ذلك سبباً للتقوى.
[187] روزوں کے فرض کیے جانے کے بعد شروع شروع میں مسلمانوں پر رات کے وقت سو جانے کے بعد کھانا پینا اور جماع وغیرہ حرام تھا، بنا بریں بعض اصحاب کے لیے یہ چیز مشقت کا باعث ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حکم میں تخفیف فرما دی اور رمضان کی راتوں میں ان کے لیے کھانا پینا اور جماع مباح قرار دے دیا۔ خواہ وہ سویا ہو یا نہ سویا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ ایسے امور کو ترک کر کے جن کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔
﴿ فَتَابَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’پس اس
(اللہ تعالیٰ) نے تم پر رجوع کیا‘‘ بایں طور کہ اس نے تمھارے لیے اس معاملے میں وسعت پیدا کر دی، اگر اس میں یہ وسعت پیدا نہ کی جاتی تو یہ معاملہ گناہ کا موجب بنتا۔
﴿ وَعَفَا عَنْكُمْ﴾ ’’اور تم سے درگزر فرمایا‘‘ یعنی جو کچھ خیانت ہو چکی اللہ تعالیٰ نے اس پر تمھیں معاف کر دیا
﴿ فَالْ٘ـٰٔنَ ﴾ ’’پس اب‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رخصت اور وسعت کے بعد
﴿ بَ٘اشِرُوْهُنَّ ﴾ ’’ان سے مباشرت کرو۔‘‘ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت یعنی جماع، بوس و کنار اور لمس وغیرہ کرو۔
﴿ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ ’’اور اس چیز کو تلاش کرو، جو اللہ نے تمھارے لیے لکھی ہے‘‘ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت میں تقرب الٰہی اور جماع کے سب سے بڑے مقصد کو مدنظر رکھو۔ اور وہ ہے حصول اولاد، خود اپنی اور اپنی بیوی کی عفت کی حفاظت اور نکاح کے مقاصد کا حصول، نیز رمضان کی راتوں میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی موافقت کو جو تمھارے لیے مقرر کر رکھا ہے
(اس کے حصول کی کوشش کرو) اور تمھارے شایاں نہیں کہ تم شب قدر کے حصول کی کوشش کو چھوڑ کر اس لذت میں مصروف ہو جاؤ اور شب قدر کوضائع کر دو یہ لذت تو پھر بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن اگر شب قدر کے حصول کی فضیلت سے محروم ہو گئے تو یہ فضیلت کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی۔
﴿ وَكُلُوْا وَاشْ٘رَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ﴾ ’’اور کھاؤ اور پیؤ، یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح
(یعنی) فجر ہوجائے‘‘ یہ کھانے پینے اور جماع کے وقت کی آخری حد ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ طلوع فجر کے وقت میں کچھ شک ہو، تو اس وقت میں کچھ کھا پی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ آیت سحری کھانے کے استحباب پر بھی دلیل ہے۔ کیونکہ اس میں کھانے پینے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سحری کے وقت کھانے پینے میں تاخیر کی جائے، یعنی آخری وقت میں سحری کھائی جائے، کیونکہ سحری کا حکم اللہ نے لوگوں کی آسانی ہی کے لیے دیا ہے، اس لیے اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی، اتنی ہی سہولت بھی زیادہ ہو گی۔
اس میں اس امر کے جواز کی بھی دلیل ہے کہ اگر جماع کی وجہ سے جنبی حالت میں انتہائے سحر ہو جائے اور وہ غسل نہ کر سکا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے اس لیے کہ طلوع فجر تک جماع کی اباحت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب فجر ہوگی تو وہ اس وقت جنبی ہوگا۔ اور حق کو لازم ہونے والا امر بھی حق ہوتا ہے۔
﴿ ثُمَّؔ ﴾ ’’پھر‘‘ یعنی جب فجر طلوع ہو جائے
﴿ اَتِمُّؔوا الصِّیَامَ ﴾ ’’تو روزے کو پورا کرو‘‘ یعنی روزہ توڑنے والے افعال کے ارتکاب سے رکے رہو
﴿ اِلَى الَّیْلِ ﴾ ’’رات تک‘‘ یعنی غروب آفتاب تک۔ رمضان کی راتوں میں جماع کی جو اجازت دی گئی ہے چونکہ یہ ہر شخص کے لیے عام نہیں، کیونکہ اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع جائز نہیں،
چنانچہ اس استثناء کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ﴿ وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ۠ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ ﴾ ’’اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔‘‘ یعنی جب تم اعتکاف کی صفت سے متصف ہو تو تم اپنی بیویوں سے مباشرت
(ہم بستری، بوس و کنار وغیرہ) نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اعتکاف کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے دنیاوی امور سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی خاطر مسجد میں گوشہ گیر ہو جانا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہیں۔ اور مساجد کی تعریف سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ یہاں مساجد سے مراد وہ مساجد ہیں جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اور یہ وہ مساجد ہیں جہاں پانچ وقت جماعت ہوتی ہو۔
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جماع ان امور میں سے ہے جن سے اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔ یہ تمام مذکورہ امور،
مثلاً: روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کی ممانعت جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، غیر معذور کے لیے روزہ چھوڑ دینے کی ممانعت اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع کی حرمت وغیرہ
﴿ حُدُوْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی حدیں ہیں‘‘ جنھیں اس نے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور ان کو توڑنے سے انھیں منع کیا ہے۔
﴿ فَلَا تَقْ٘رَبُوْهَا ﴾ ’’پس تم ان کے قریب مت جاؤ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد
(فَلَا تَفْعَلُوْھَا) ’’پس تم ان کا ارتکاب مت کرو‘‘ سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ ’’قریب جانے‘‘ کے لفظ میں نفس فعل کی حرمت اور اس فعل حرام تک پہنچانے والے وسائل و ذرائع کی حرمت سب شامل ہیں اور بندۂ مومن تمام محرمات کو ترک کرنے، حتی الامکان ان سے دور رہنے اور ان تمام اسباب کو ترک کرنے پر مامور ہے جو ان محرمات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
رہے اوامر تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے
﴿ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ﴾ (البقرۃ:2؍229) ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان حدود سے باہر نکلنے سے روک دیا۔
﴿ كَذٰلِكَ ﴾ ’’اسی طرح‘‘ یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ احکام کو اپنے بندوں کے سامنے اچھی طرح بیان اور مکمل طور پر واضح کر دیا ہے
﴿ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اللہ بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ بچیں‘‘ اس لیے کہ جب حق ان کے لیے واضح ہو جائے گا تو وہ اس کی پیروی کریں گے اسی طرح جب باطل ان کے سامنے عیاں ہو جائے گا تو وہ اس سے اجتناب کریں گے۔ کیونکہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان فعل حرام کا ارتکاب محض اس وجہ سے کر بیٹھتا ہے کہ اسے اس کے حرام ہونے کا علم نہیں ہوتا، اگر اسے اس کی حرمت کا علم ہوتا تو وہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرتا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیا تو ان کے پاس کوئی عذر اور کوئی حجت باقی نہ رہی اور یہ چیز تقویٰ کا سبب ہے۔
{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (188)}
اور نہ کھاؤ تم اپنے مال آپس میں ناجائز طریقے سے اور
(نہ) لے جاؤ ان کو حاکموں کی طرف تاکہ کھاؤ تم کچھ حصہ لوگوں کے مالوں سے ساتھ گناہ کے، حالانکہ تم جانتے ہو
(188)
#
{188} أي: ولا تأخذوا أموالكم أي أموال غيركم، أضافه إليهم لأنه ينبغي للمسلم أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، ويحترم ماله كما يحترم ماله، ولأن أكله لمال غيره يجرئ غيره على أكل ماله عند القدرة، ولما كان أكلها نوعين: نوعاً بحقٍّ ونوعاً بباطل، وكان المحرم إنما هو أكلها بالباطل قيده تعالى بذلك، ويدخل بذلك أكلها على وجه الغصب والسرقة والخيانة في وديعة أو عارية أو نحو ذلك، ويدخل فيه أيضاً أخذها على وجه المعاوضة بمعاوضة محرمة، كعقود الربا والقمار كلها فإنها من أكل المال بالباطل، لأنه ليس في مقابلة عوض مباح، ويدخل في ذلك أخذها بسبب غش في البيع والشراء والإجارة ونحوها، ويدخل في ذلك استعمال الأجراء وأكل أجرتهم، وكذلك أخذهم أجرة على عمل لم يقوموا بواجبه، ويدخل في ذلك أخذ الأجرة على العبادات والقربات التي لا تصح حتى يقصد بها وجه الله تعالى، ويدخل في ذلك الأخذ من الزكوات والصدقات والأوقاف والوصايا، لمن ليس له حق منها أو فوق حقه، فكل هذا ونحوه من أكل المال بالباطل، فلا يحل ذلك بوجه من الوجوه حتى ولو حصل فيه النزاع والارتفاع إلى حاكم الشرع، وأدلى من يريد أكلها بالباطل بحجة غلبت حجة المحق، وحكم له الحاكم بذلك، فإن حكم الحاكم لا يبيح محرماً ولا يحلل حراماً، إنما يحكم على نحو مما يسمع، وإلا فحقائق الأمور باقية، فليس في حكم الحاكم للمبطل راحة ولا شبهة ولا استراحة، فمن أدلى إلى الحاكم بحجة باطلة، وحكم له بذلك فإنه لا يحل له، ويكون آكلاً لمال غيره بالباطل والإثم، وهو عالم بذلك فيكون أبلغ في عقوبته وأشد في نكاله.
وعلى هذا؛ فالوكيل إذا علم أن موكله مبطل في دعواه لم يحل له أن يخاصم عن الخائن كما قال تعالى: {ولا تكن للخائنين خصيماً}.
[188] ﴿ وَلَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾’’اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ‘‘ کھانے سے مراد لینا ہے اور اپنے مال سے مراد دوسرے لوگوں کا مال ہے۔ دوسروں کے مال کو اپنا مال اس لیے کہا کہ مسلمان کے شایاں یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اپنے بھائی کے مال کا اسی طرح احترام کرے جس طرح وہ اپنے مال کا احترام کرتا ہے۔ دوسرے کے مال کو اپنا مال کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے کا مال کھائے گا تو دوسرا شخص بھی جب اس کو قدرت حاصل ہو گی، تو اس کا مال کھانے کی جسارت کرے گا
(اس لیے کسی دوسرے کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنا مال کھا رہا ہے۔) چونکہ مال کھانے کی دو قسمیں ہیں:
(۱) حق کے ساتھ مال کھانا۔
(۲) اور باطل طریقے سے مال کھانا، اور حرام صرف باطل طریقے سے مال کھانا ہے اس لیے یہاں اس کو ’’باطل‘‘ سے مقید کیا ہے اور اس میں غصب کر کے، چوری کر کے، امانت میں خیانت کر کے اور ادھار لی ہوئی چیز کا انکار کر کے مال کھانا، سب شامل ہے، نیز اس میں وہ معاوضہ بھی شامل ہے جو حرام ہے، جیسے سودی لین دین اور ہر قسم کے جوئے سے حاصل شدہ مال، کیونکہ یہ مال کسی جائز معاوضے کے طور پر حاصل نہیں ہوا۔
باطل طریقے سے مال کھانے میں خرید و فروخت اور اجارہ میں دھوکہ اور ملاوٹ کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال بھی شامل ہے۔ مزدوروں سے کام لینا اور پھر ان کی اجرت کھا جانا بھی باطل طریقے سے مال کھانا ہے۔
اسی طرح ان مزدوروں کا کسی کام کی اجرت لینا اور اس کے عوض پورا کام نہ کرنا بھی حرام کھانا اور باطل ہے۔
ان عبادات اور تقرب الٰہی کے کاموں پر اجرت لینا جو اس وقت تک صحیح نہیں ہوتیں جب تک ان میں صرف رضائے الٰہی مقصود نہ ہو، باطل طریقے ہی سے مال کھانے میں داخل ہے۔
اس حرام کھانے میں ان لوگوں کا زکٰوۃ ، صدقات، اوقاف اور وصیتوں کا مال کھانا بھی داخل ہے جو اس مال کے مستحق نہیں۔ یا وہ مستحق تو تھے مگر اپنے حق سے زیادہ مال وصول کیا۔
(مال کھانے کی) مذکورہ بالا اور ان جیسی دیگر تمام اقسام باطل طریقے سے مال کھانے کے زمرے میں داخل ہیں۔ جس کا کھانا کسی بھی پہلو سے جائز نہیں۔ حتی کہ اگر اس میں نزاع واقع ہو جائے اور جھگڑا شرعی عدالت میں چلا جائے اور وہ فریق جو باطل طریقے سے مال کھانا چاہتا ہے کوئی ایسی دلیل پیش کرتا ہے جو اصلی حق دار کی دلیل پر غالب آ جاتی ہے اور حاکم اس دلیل کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے
(تو عدالتی فیصلے کے باوجود یہ مال حرام اور باطل ہی رہے گا)، اس لیے کہ کسی حاکم کا فیصلہ کسی حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کر سکتا، کیونکہ حاکم تو صرف پیش کردہ دلائل سن کر فیصلہ کرتا ہے ورنہ معاملات کے اصل حقائق تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، اس لیے باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے والے کے لیے حاکم کے فیصلے میں کوئی خوشی اور اس مال کے باطل ہونے میں کوئی شبہ اور اس کے لیے کوئی راحت نہیں۔ بنابریں جو کوئی جھوٹے ثبوت کے ساتھ کوئی جھوٹا مقدمہ حاکم کی عدالت میں دائر کرتا ہے اور حاکم اس ثبوت کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے تو یہ مال اس شخص کے لیے جائز نہیں اور وہ غیر کے مال کو جانتے بوجھتے باطل اور گناہ کے طریقے سے کھانے کا مرتکب ہو گا،
اس لیے وہ سخت ترین سزا اور عقوبت کا مستحق ہے۔ اسی بنا پر جب وکیل کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا موکل اپنے دعوے میں جھوٹا ہے تو اس کے لیے اس خائن کی وکالت کرنا جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَا تَكُ٘نْ لِّلْخَآىِٕنِیْنَ خَصِیْمًا﴾ (النساء:4؍105) ’’اور خیانت کرنے والوں کی حمایت میں کبھی جھگڑا نہ کرنا۔‘‘
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (189)}.
سوال کرتے ہیں آپ سے چاندوں کے بارے میں، کہہ دیجیے! وہ اوقات مقررہ ہیں واسطے لوگوں کے اور حج کے، اور نہیں ہے نیکی یہ کہ آؤ تم اپنے گھروں میں ان کے پچھواڑوں کی طرف سے، لیکن نیکی تو
(اس کی) ہے جو پرہیزگار ہواور آؤ تم اپنے گھروں میں ان کے دروازوں سےاور ڈرو تم اللہ سے، شاید تم فلاح پاؤ
(189)
#
{189} فقوله تعالى: {يسألونك عن الأهلة}؛ ـ جمع هلال ـ ما فائدتها وحكمتها أو عن ذاتها {قل هي مواقيت للناس}؛ أي: جعلها الله تعالى بلطفه ورحمته على هذا التدبير، يبدو الهلال ضعيفاً في أول الشهر، ثم يتزايد إلى نصفه، ثم يشرع في النقص إلى كماله، وهكذا ليعرف الناس بذلك مواقيت عباداتهم؛ من الصيام وأوقات الزكاة والكفارات وأوقات الحج، ولما كان الحج يقع في أشهر معلومات، ويستغرق أوقاتاً كثيرة قال: {والحج}؛ وكذلك تعرف بذلك أوقات الديون المؤجلات، ومدة الإجارات ومدة العدد والحمل، وغير ذلك مما هو من حاجات الخلق، فجعله تعالى حساباً يعرفه كل أحد من صغير وكبير وعالم وجاهل، فلو كان الحساب بالسنة الشمسية لم يعرفه إلا النادر من الناس.
{وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها}؛ وهذا كما كان الأنصار وغيرهم من العرب إذا أحرموا لم يدخلوا البيوت من أبوابها؛ تعبداً بذلك وظنًّا أنه برٌّ، فأخبر تعالى أنه ليس من البرِّ ؛ لأن الله تعالى لم يشرعه لهم، وكل من تعبد بعبادة لم يشرعها الله ولا رسوله فهو متعبد ببدعة، وأمرهم أن يأتوا البيوت من أبوابها؛ لما فيه من السهولة عليهم التي هي قاعدة من قواعد الشرع.
ويستفاد من إشارة الآية أنه ينبغي في كل أمر من الأمور أن يأتيه الإنسان من الطريق السهل القريب الذي قد جعل له موصلاً، فالآمر بالمعروف والناهي عن المنكر، ينبغي أن ينظر في حالة المأمور، ويستعمل معه الرفق والسياسة التي بها يحصل المقصود أو بعضه، والمتعلم والمعلم ينبغي أن يسلك أقرب طريق وأسهله يحصل به مقصوده، وهكذا كل من حاول أمراً من الأمور، وأتاه من أبوابه، وثابر عليه فلا بد أن يحصل له المقصود بعون الملك المعبود.
{واتقوا الله}؛ هذا هو البرُّ الذي أمر الله به، وهو لزوم تقواه على الدوام بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، فإنه سبب للفلاح الذي هو الفوز بالمطلوب والنجاة من المرهوب، فمن لم يتق الله تعالى لم يكن له سبيل إلى الفلاح، ومن اتقاه فاز بالفلاح والنجاح.
[189] ﴿ اَلْاَهِلَّةِ ﴾ (ھِلَال) کی جمع ہے یعنی وہ سوال کرتے ہیں کہ چاند کا کیا فائدہ اور اس میں کیا حکمت ہے یا چاند کیا چیز ہے؟
﴿ قُ٘لْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے لیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اسے درج ذیل نظم و تدبیر پر تخلیق کیا ہے۔
مہینے کے آغاز میں چاند بہت باریک اور کمزور سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر مہینے کے نصف تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور مہینے کے پورا ہونے تک گھٹتا رہتا ہے۔
(اس طرح یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے) اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ذریعے سے اپنی عبادات کے اوقات،
مثلاً: روزوں، زکاۃ کے اوقات، کفارے اور حج کے اوقات پہچان لیں اور چونکہ حج متعین مہینوں میں ہوتا ہے اور بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوتا ہے، اس لیے
﴿وَالْ٘حَجِّ ﴾ فرما کر اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا، یعنی چاند کے ذریعے سے حج کے مہینوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند کے ذریعے سے مدت معینہ پر ادا کیے جانے والے قرض، اجارات، عدت طلاق و وفات اور حمل وغیرہ کی مدت اور اوقات معلوم کیے جاتے ہیں جو کہ مخلوق کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاند کو ایسا حساب بنایا کہ جس سے ہر چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل سب معلوم کر لیتے ہیں۔ اگر یہ حساب تقویم شمسی کے ذریعے سے ہوتا تو چند لوگ ہی اس حساب کی معرفت حاصل کر سکتے۔
﴿ وَلَ٘یْسَ الْـبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا ﴾ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں کو پچھواڑے سے آؤ‘‘ یہ انصار وغیرہ اور بعض دیگر عربوں کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں میں سے داخل نہیں ہوتے تھے
(بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے) اور اسے وہ نیکی اور عبادت تصور کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ایسا کرنا نیکی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع نہیں کیا اور ایسا شخص جو کسی ایسی عبادت کا التزام کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا، تو وہ بدعت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل ہوا کریں، کیونکہ اسی میں ان کے لیے سہولت ہے جو شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے۔ اس آیت کریمہ کے اشارے سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ تمام معاملات میں مناسب یہی ہے کہ انسان آسان اور قریب ترین راستہ استعمال کرے جسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے کو چاہیے کہ وہ مامور کے احوال کو مدنظر رکھے۔ نرمی اور ایسی حکمت عملی سے کام لے جس سے پورا مقصد یا اس سے کچھ حصہ حاصل ہو سکتا ہو۔ متعلم اور معلم دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قریب ترین اور سہل ترین راستہ استعمال کریں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور وہ اس کے لیے صحیح راستے سے داخل ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ضرور اپنے مقصد کو پالے گا۔
﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ اور یہی حقیقی نیکی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ ہے دائمی طور پر تقویٰ کا التزام، یعنی اس کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنا۔ تقویٰ فلاح کا سبب ہے جس کے ذریعے سے مطلوب
(جنت) کے حصول میں کامرانی اور ڈرائے گئے امر
(عذاب) سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے فوز و فلاح کا کوئی راستہ نہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہو گا۔
{وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (190) وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (191) فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (192) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (193)}.
اور لڑو تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے،اور نہ زیادتی کرو تم، بے شک اللہ نہیں پسندکرتا زیادتی کرنے والوں کو
(190) اور قتل کرو تم ان کو، جہاں پاؤ تم ان کواور نکال دو تم ان کو جہاں سے نکالا انھوں نے تم کو،اور فتنہ زیادہ سخت ہے قتل سےاور نہ لڑو تم ان سے نزدیک مسجد حرام کے، یہاں تک کہ لڑیں وہ تم سے اس میں، پس اگر وہ لڑیں تم سے تو قتل کرو تم ان کو، اسی طرح ہے سزا کافروں کی
(191) پھر اگر وہ باز آجائیں، تو بلاشبہ اللہ ہے بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا
(192) اور لڑو تم ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ اور ہو جائے دین صرف اللہ کے لیے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو نہیں ہے زیادتی مگر اوپر ظالموں کے
(193)
#
{190} هذه الآيات تتضمن الأمر بالقتال في سبيل الله، وهذا كان بعد الهجرة إلى المدينة، لَمَّا قَوِيَ المسلمون للقتال أمرهم الله به بعدما كانوا مأمورين بكفِّ أيديهم، وفي تخصيص القتال {في سبيل الله}؛ حث على الإخلاص ونهيٌ عن الاقتتال في الفتن بين المسلمين، {الذين يقاتلونكم}؛ أي: الذين هم مستعدون لقتالكم، وهم المكلفون الرجال غير الشيوخ الذين لا رأي لهم ولا قتال.
والنهي عن الاعتداء يشمل أنواع الاعتداء كلها من قتل من لا يقاتل من النساء والمجانين والأطفال والرهبان ونحوهم، والتمثيل بالقتلى وقتل الحيوانات وقطع الأشجار ونحوها، لغير مصلحة تعود للمسلمين، ومن الاعتداء مقاتلة من تقبل منهم الجزية، إذا بذلوها فإن ذلك لا يجوز.
[190] یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد اور قتال کو متضمن ہیں اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد جب مسلمان طاقتور ہو گئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قتال کا حکم دیا جبکہ اس سے قبل ان کو حکم تھا کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی سے روکے رکھیں ۔ قتال کو
﴿ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ کے ساتھ مختص کرنے میں، اخلاص کی ترغیب اور فتنوں کے زمانے میں مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی ممانعت ہے۔
﴿ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ ﴾ ’’جو تم سے لڑتے ہیں۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو تمھارے ساتھ لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ ذمے دار لڑنے کی اہلیت رکھنے والے کافر مرد ہیں، نہ کہ وہ بوڑھے جو لڑ سکتے ہیں اور نہ لڑائی میں کوئی مشورہ دے سکتے ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت میں ظلم و تعدی کی تمام انواع شامل ہیں، جیسے عورتوں، بچوں، بے عقل لوگوں اور راہبوں وغیرہ کو قتل کرنا جو لڑائی میں شریک نہ ہوں۔ جنگ کے دوران مقتولین کا مثلہ کرنا
(یعنی مقتول کے کان، ناک اور پوشیدہ اعضاء کاٹنا، آنکھیں نکال دینا اور پیٹ چاک کرنا) اور مسلمانوں کی کسی مصلحت کے بغیر جانوروں کو قتل کرنا اور درخت وغیرہ کاٹنا، سب ظلم و تعدی میں شمار ہو گا۔ جب کفار جزیہ قبول کر کے اس کو ادا کر چکے ہوں تو ان کے خلاف لڑنا بھی ظلم و تعدی ہے جو کہ ہرگز جائز نہیں۔
#
{191 ـ 192} {واقتلوهم حيث ثقفتموهم}؛ هذا أمر بقتالهم أينما وجدوا في كل وقت وفي كل زمان قتال مدافعة وقتال مهاجمة، ثم استثنى من هذا العموم قتالهم {عند المسجد الحرام}؛ وأنه لا يجوز إلا أن يَبْدَؤوا بالقتال فإنهم يُقَاتَلُون جزاء لهم على اعتدائهم، وهذا مستمر في كل وقت حتى ينتهوا عن كفرهم فيسلموا، فإن الله يتوب عليهم ولو حصل منهم ما حصل من الكفر بالله والشرك في المسجد الحرام وصد الرسول والمؤمنين عنه، وهذا من رحمته وكرمه بعباده. ولما كان القتال عند المسجد الحرام يتوهم أنه مفسدة في هذا البلد الحرام أخبر تعالى أن المفسدة بالفتنة عنده بالشرك والصد عن دينه أشد من مفسدة القتل، فليس عليكم أيها المسلمون حرج في قتالهم.
ويستدل في هذه الآية على القاعدة المشهورة وهي أنه يرتكب أخف المفسدتين لدفع أعلاهما.
[192-191] ﴿ وَاقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ۠ ﴾ ’’اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں بھی پاؤ تم ان کو‘‘ یہ ان کے ساتھ قتال کا حکم ہے ہر وقت اور ہر زمانے میں جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان کے خلاف مدافعانہ اور جارحانہ جنگ جاری رہے۔ پھر اس عموم سے مسجد حرام کے قریب قتال کرنے کو مستثنیٰ کر دیا، کیونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنا جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسجد حرام کے قریب لڑائی کی ابتدا کریں تو پھر ان کے خلاف لڑائی کی جائے یہ ان کے ظلم و زیادتی کا بدلہ ہے۔
یہ کفار کے خلاف، ہر وقت اور دائمی قتال و جہاد ہے یہاں تک کہ وہ کفر کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیں۔
(اگر وہ ایسا کر لیں) تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اگرچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، مسجد حرام میں شرک کا ارتکاب کیا اور رسول اللہeاور اہل ایمان کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت اور اس کا کرم ہے، چونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنے کی ممانعت سے یہ وہم لاحق ہوتا ہے کہ یہ لڑائی اس محترم شہر کے اندر گویا فساد برپا کرنا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس حرمت والے شہر کے اندر فتنہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے مفاسد، قتل کے مفاسد سے بڑھ کر ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! تمھارے لیے ان کے خلاف لڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس آیت کریمہ سے فقہ کے ایک مشہور قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ دو برائیوں میں سے
(جب ایک برائی کو اختیار کرنا لابدی ہو تو) کم تر برائی کو اختیار کیا جائے۔ تاکہ بڑی برائی کا سدباب کیا جا سکے۔
#
{193} ثم ذكر تعالى المقصود من القتال في سبيله، وأنه ليس المقصود به سفك دماء الكفار وأخذ أموالهم، ولكن المقصود به أن {يكون الدين لله} تعالى، فيظهر دين الله تعالى على سائر الأديان، ويدفع كل ما يعارضه من الشرك وغيره وهو المراد بالفتنة، فإذا حصل هذا المقصود فلا قتل ولا قتال. {فإن انتهوا}؛ عن قتالكم عند المسجد الحرام، {فلا عدوان إلا على الظالمين}؛ أي: فليس عليهم منكم اعتداء إلا من ظلم منهم؛ فإنه يستحق المعاقبة بقدر ظلمه.
[193] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے راستے میں اس قتال اور جہاد کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ کفار کا خون بہایا جائے اور ان کے اموال لوٹ لیے جائیں بلکہ جہاد کا مقصد صرف یہ ہے
﴿ وَّیَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ ﴾ ’’کہ دین اللہ کا ہو جائے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آ جائے اور شرک وغیرہ اور ان تمام نظریات کا قلع قمع کر دیا جائے جو اللہ کے دین کے منافی ہیں اور فتنہ سے بھی یہی مراد ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہو جائے تو قتل کرنا اور لڑائی کرنا جائز نہیں۔
﴿ فَاِنِ انْتَهَوْا ﴾ ’’پس اگر وہ باز آجائیں۔‘‘ یعنی اگر وہ مسجد حرام کے قریب تمھارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آ جائیں
﴿ فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں۔‘‘ یعنی تمھاری طرف سے ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہونی چاہیے، سوائے اس کے جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو تو ایسا شخص اپنے ظلم کے برابر سزا کا مستحق ہے۔
{الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (194)}.
حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہےاور سب حرمتیں بدلے کی چیزیں ہیں، سو جو زیادتی کرے اوپر تمھارے، تو تم زیادتی کرو اوپر اس کے مثل اس کے جو زیادتی کی اس نے تم پر،اور ڈرو اللہ سے،اور جان لو بے شک اللہ ساتھ ہے متقین کے
(194)
#
{194} يقول تعالى: {الشهر الحرام بالشهر الحرام} يحتمل أن يكون المراد به ما وقع من صد المشركين للنبي - صلى الله عليه وسلم -، وأصحابه عام الحديبية عن الدخول لمكة وقاضوهم على دخولها من قابل، وكان الصد والقضاء في شهر حرام وهو ذو القعدة فيكون هذا بهذا، فيكون فيه تطييب لقلوب الصحابة بتمام نسكهم وكماله، ويحتمل أن يكون المعنى أنكم إن قاتلتموهم في الشهر الحرام، فقد قاتلوكم فيه وهم المعتدون، فليس عليكم في ذلك حرج، وعلى هذا فيكون قوله: {والحرمات قصاص}؛ من باب عطف العام على الخاص، أي كل شيء يحترم من شهر حرام أو بلد حرام أو إحرام، أو ما هو أعم من ذلك جميع ما أمر الشرع باحترامه، فمن تجرأ عليها فإنه يقتص منه: فمن قاتل في الشهر الحرام قوتل، ومن هتك البلد الحرام أخذ منه الحد ولم يكن له حرمة، ومن قتل مكافئاً له قتل به، ومن جرحه، أو قطع عضواً منه اقتص منه، ومن أخذ مال غيره المحترم؛ أخذ منه بدله، ولكن هل لصاحب الحق أن يأخذ من ماله بقدر حقه أم لا؟ خلاف بين العلماء، الراجح من ذلك أنه إن كان سبب الحق ظاهراً كالضيف إذا لم يقره غيره، والزوجة والقريب إذا امتنع من تجب عليه، النفقة من الإنفاق عليه، فإنه يجوز أخذه من ماله، وإن كان السبب خفيًّا كمن جحد دَيْن غيره أو خانه في وديعة أو سرق منه ونحو ذلك، فإنه لا يجوز له أن يأخذ من ماله مقابلة له جمعاً بين الأدلة، ولهذا قال تعالى توكيداً وتقوية لما تقدم: {فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم}؛ هذا تفسير لصفة المقاصة وأنها هي المماثلة في مقابلة المعتدي.
ولما كانت النفوس ـ في الغالب ـ لا تقف على حدها إذا رخص لها في المعاقبة لطلبها التشفي أمر تعالى بلزوم تقواه التي هي الوقوف عند حدوده وعدم تجاوزها وأخبر تعالى أنه {مع المتقين}؛ أي: بالعون والنصر والتأييد والتوفيق، ومن كان الله معه حصل له السعادة الأبدية، ومن لم يلزم التقوى تخلى عنه وليه، وخذله فَوَكَلَه إلى نفسه، فصار هلاكه أقرب إليه من حبل الوريد.
[194] ﴿ اَلشَّ٘هْرُ الْحَرَامُ بِالشَّ٘هْرِ الْحَرَامِ ﴾ ’’حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہے‘‘ اس آیت میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ واقعہ ہو کہ جب صلح حدیبیہ والے سال کفار نے رسول اللہeاور صحابہ کرامyکو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال مکہ مکرمہ آئیں گے، تو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ اور عمرۂ قضا دونوں حرمت والے مہینے
(ذوالقعدہ) میں پیش آئے، اس لیے حرام مہینے کے مقابلے میں حرام مہینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام کے مناسک کی تکمیل کی خبر دے کر ان کی دل جوئی کی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ تم نے اگر ان کے ساتھ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی ہے تو
(کیا ہوا) انھوں نے بھی تو تم سے حرمت والے مہینے ہی میں لڑائی کی ہے اس لیے حد سے تجاوز کرنے والے تو وہی کفار مکہ ہیں
(تمھیں تو مجبوراً لڑنا پڑا ہے) پس تمھارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ﴾ ’’اور حرمتوں میں بدلہ ہے‘‘ عام کا عطف خاص پر، کے باب سے ہو گا۔ یعنی ہر وہ چیز جو قابل احترام ہے، وہ حرمت والا مہینہ ہو یا حرمت والا شہر ہو یا احرام ہو یا اس سے بھی زیادہ عام ہو،یعنی ہر وہ چیز جس کی حرمت کا حکم شریعت نے دیا ہے، جو کوئی ان کی بے حرمتی کی جرأت کرے گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس جو کوئی حرام مہینے میں لڑائی کرے گا اس کے ساتھ لڑائی کی جائے گی۔ جو کوئی اس محترم شہر کی بے حرمتی کرے گا اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کا کوئی احترام نہیں۔ جو کوئی بدلہ لینے کے لیے
(حرم شریف کے اندر) کسی کو قتل کرے گا اسے قتل کیا جائے گا ۔جو کسی کو زخمی کرے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹے گا، اس کا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جو کوئی بلاجواز کسی کا مال لے گا، اس سے اس کا بدلا لیا جائے گا۔
البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صاحب حق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مال میں سے اپنے مال کے بقدر مال لے لے؟ اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اس میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر حق کا سبب واضح ہو جیسے مہمان جبکہ دوسرے شخص نے اس کی مہمان نوازی نہ کی ہو، بیوی اور وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ جس کے ذمہ فرض ہو ، وہ نفقہ اور کفالت سے انکار کر دے تو اس کے مال میں سے بقدر حق مال لے لینا جائز ہے۔
اور اگر حق کا سبب خفی اور غیر واضح ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کے قرض کا انکار کر دیتا ہے کہ اس نے قرض لیا ہی نہیں، یا کسی امانت میں خیانت کرتا ہے، یا اس میں سے چوری کر لیتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح دلائل میں تطبیق ہو جاتی ہے اور تعارض نہیں رہتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ حکم کی تاکید اور تقویت کے لیے فرمایا
﴿ فَ٘مَنِ اعْتَدٰؔى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْ٘لِ مَا اعْتَدٰؔى عَلَیْكُمْ ﴾ ’’جو تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس کی مثل زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی‘‘ یہ بدلہ لینے کی صفت کی تفسیر ہے۔ نیز یہ کہ یہ تعدی کا ارتکاب کرنے والے کی تعدی اور ظلم کی مماثلت ہے۔
چونکہ غالب حالات میں، اگر نفوس انسانی کو
(اپنے ساتھ زیادتی کے بدلے میں) سزا دینے کی رخصت دے دی جائے، تو وہ اپنی تشفی اور تسکین کے لیے جائز حد پر نہیں رکتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو التزام تقویٰ کا حکم دیا جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی حدود پر ٹھہر جانے اور ان سے تجاوز نہ کرنے کا اور ان کو بتلایا کہ
﴿ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے‘‘ یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور اس کی تائید و توفیق ان کے ساتھ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہو گئی، وہ ابدی سعادت سے سرفراز ہو گیا اور جس نے تقویٰ کا التزام نہ کیا تو اس کا سرپرست اس سے علیحدہ ہو گیا، اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا اور اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیا، تب اس کی ہلاکت اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہو جاتی ہے۔
{وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (195)}.
اور خرچ کرو تم اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو تم اپنے ہاتھوں کو طرف ہلاکت کی اور نیکی کرو، یقیناً اللہ پسند کرتا ہے نیکی کرنے والوں کو
(195)
#
{195} يأمر تعالى عباده بالنفقة في سبيله، وهو إخراج الأموال في الطرق الموصلة إلى الله، وهي كل طرق الخير من صدقة على مسكين أو قريب أو إنفاق على من تجب مؤنته، وأعظم ذلك وأول ما دخل في ذلك الإنفاق في الجهاد في سبيل الله، فإن النفقة فيه جهاد بالمال وهو فرض كالجهاد بالبدن، وفيها من المصالح العظيمة الإعانة على تقوية المسلمين و [على] توهية الشرك وأهله وعلى إقامة دين الله وإعزازه، فالجهاد في سبيل الله، لا يقوم إلا على ساق النفقة، فالنفقة له كالروح لا يمكن وجوده بدونها، وفي ترك الإنفاق في سبيل الله إبطال للجهاد وتسليط للأعداء، وشدة تكالبهم، فيكون قوله تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة}؛ كالتعليل لذلك.
والإلقاء باليد إلى التهلكة يرجع إلى أمرين: ترك ما أمر به العبد إذا كان تركه موجباً أو مقارباً لهلاك البدن أو الروح، وفعل ما هو سبب موصل إلى تلف النفس أو الروح فيدخل تحت ذلك أمور كثيرة، فمن ذلك ترك الجهاد في سبيل الله، أو النفقة فيه الموجب لتسلط الأعداء، ومن ذلك تغرير الإنسان بنفسه في مقاتلة أو سفر مخوف أو محل مسبعة أو حيات، أو يصعد شجراً أو بنياناً خطراً، أو يدخل تحت شيء فيه خطر ونحو ذلك، فهذا ونحوه ممن ألقى بيده إلى التهلكة، ومن ذلك الإقامة على معاصي الله واليأس من التوبة، ومنها ترك ما أمر الله به من الفرائض التي تركها هلاك للروح والدين.
ولما كانت النفقة في سبيل الله نوعاً من أنواع الإحسان أمر بالإحسان عموماً فقال: {وأحسنوا إن الله يحب المحسنين}؛ وهذا يشمل جميع أنواع الإحسان لأنه لم يقيده بشيء دون شيء، فيدخل فيه الإحسان بالمال كما تقدم، ويدخل فيه الإحسان بالجاه بالشفاعات ونحو ذلك، ويدخل في ذلك الإحسان بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وتعليم العلم النافع، ويدخل في ذلك قضاء حوائج الناس من تفريج كرباتهم، وإزالة شداتهم وعيادة مرضاهم وتشييع جنائزهم وإرشاد ضالهم وإعانة من يعمل عملاً، والعمل لمن لا يحسن العمل، ونحو ذلك مما هو من الإحسان الذي أمر الله به، ويدخل في الإحسان أيضاً الإحسان في عبادة الله تعالى، وهو كما ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم -: «أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك» ، فمن اتصف بهذه الصفات كان من الذين قال الله فيهم: {للذين أحسنوا الحسنى وزيادة}؛ وكان الله معه يسدده ويرشده ويعينه على كل أموره.
[195] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد ہے کہ مال کو ان راستوں میں خرچ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں اور یہ بھلائی کے تمام راستے ہیں، جیسے مساکین، قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنا اور ان لوگوں پر خرچ کرنا جن پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ان راستوں میں سب سے بڑا اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والا، فی سبیل اللہ یعنی جہاد کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ کیونکہ اس راہ میں خرچ کرنا جہاد بالمال کے زمرے میں آتا ہے اور مالی جہاد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح بدنی جہاد فرض ہے۔ مالی جہاد میں عظیم مصالح پنہاں ہیں۔ مالی جہاد سے اہل ایمان کو تقویت پہنچتی ہے، شرک اور اہل شرک کمزور ہوتے ہیں اور اقامت دین اور اس کی سربلندی میں مدد ملتی ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ کا درخت مالی اعانت کے تنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، جہاد کے لیے مالی اخراجات وہی حیثیت رکھتے ہیں جو بدن کے لیے روح، پس اس کے بغیر جہاد کا جاری رہنا ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے گریز درحقیقت جہاد کا ابطال، دشمنوں کا تسلط اور ان کی اسلام دشمنی میں اضافہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ وَلَا تُلْ٘قُوْا بِاَیْؔدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ ’’اپنے ہاتھوں
(جان) کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ اس حکم کی علت کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا دو امور کی طرف راجع ہے۔
(۱) اس امر کو ترک کر دینا جس کا حکم بندے کو دیا گیا جبکہ اس امر کو ترک کرنا بدن یا روح کی ہلاکت کا یا ہلاکت کے قریب کرنے کا موجب ہو۔
(۲) ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو بدن یا روح کی ہلاکت کا سبب ہو۔ اس کے تحت بہت سے امور آتے ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کے راستے میں بدنی یا مالی جہاد ترک کر دینا، جو دشمن کے تسلط کا باعث بنتا ہے۔
(۲) انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا ،مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہو جانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا۔ یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے تحت آتے ہیں۔
(۳) توبہ سے مایوس ہو کر گناہوں پر قائم رہنا۔
(۴) ان فرائض کو ترک کرنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور جن کے ترک کرنے میں روح اور دین کی ہلاکت ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا احسان کی ایک قسم ہے،
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر احسان کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’اور احسان کرو، یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ اس آیت کے معنی میں ہر قسم کا احسان شامل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی صفت اور شرط وغیرہ سے مقید نہیں کیا۔ پس اس میں مالی احسان بھی شامل ہے۔ اپنے جاہ و منصب کی بنیاد پر
(کسی حق دار کی) سفارش کرنے کا احسان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور علم نافع کی تعلیم بھی احسان میں داخل ہے۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی تکالیف کو دور کرنا، ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازوں کے ساتھ جانا، ان کے بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا، کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اور کسی ایسے شخص کے لیے کام کر دینا جسے کام نہ آتا ہو۔ یہ تمام امور اس احسان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور اس احسان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت احسن طریقے سے کرنا بھی داخل ہے،
جیسا کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’اَنْ تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ‘ ’’احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تب وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، الإيمان، باب سؤال جبریل …… الخ، حديث:50)
جو کوئی ان صفات سے متصف ہو جاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ﴾ (یونس : 10؍26) ’’جنھوں نے نیکی کی ان کے لیے بھلائی ہے
(اور مزید برآں) اور بھی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی معیت اسے حاصل رہتی ہے اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اس کی راہنمائی کرتا ہے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
اور جب اللہ روزے اور جہاد کے احکام کے ذکر سے فارغ ہو گیا، تو اب حج کے احکام کا ذکر فرماتا ہے۔
{وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (196)}.
اور پورا کرو تم حج اور عمرہ اللہ کے لیے، پھر اگر روک دیے جاؤ تم تو جو میسر ہو قربانی سے،
(وہ کر دو) اور نہ منڈاؤ اپنے سر، یہاں تک کہ پہنچ جائے قربانی اپنے حلال ہونے کی جگہ پر، پس جو کوئی ہو تم میں سے مریض یا ہو اس کو کوئی تکلیف اس کے سر میں تو فدیہ دینا ہے روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے، پھر جب امن میں ہو جاؤ تم تو جس نے فائدہ اٹھایا ساتھ عمرے کے، حج
(کے احرام) تک تو جو میسر ہو قربانی سے
(وہ کر دو) ، پھر جو شخص نہ پائے
(قربانی) تو روزے رکھنے ہیں تین دن کے، حج
(کے دنوں) میں اور سات، جب واپس لوٹو تم، یہ دس ہیں پورے، یہ
(حکم) اس شخص کے لیے ہے کہ نہ ہوں اس کے گھر والے رہنے والے مسجد حرام کے پاس، اور ڈرو تم اللہ سے اور جان لو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے
(196)
#
{196} يستدل بقوله: {وأتموا الحج والعمرة}؛ على أمور: أحدها وجوب الحج والعمرة وفرضيتهما. الثاني وجوب إتمامهما بأركانهما وواجباتهما التي قد دل عليها فعل النبي - صلى الله عليه وسلم -، وقوله: «خذوا عني مناسككم». الثالث أن فيه حجة لمن قال بوجوب العمرة. الرابع أن الحج والعمرة يجب إتمامهما بالشروع فيهما ولو كانا نفلاً. الخامس الأمر بإتقانهما وإحسانهما، وهذا قدر زائد على فعل ما يلزم لهما. السادس فيه الأمر بإخلاصهما {لله} تعالى. السابع أنه لا يخرج المحرم بهما بشيء من الأشياء حتى يكملهما، إلا بما استثناه الله وهو الحصر، فلهذا قال: {فإن أحصرتم}؛ أي: منعتم من الوصول إلى البيت لتكميلهما بمرض أو ضلالة أو عدو، ونحو ذلك من أنواع الحصر الذي هو المنع {فما استيسر من الهدي}؛ أي: فاذبحوا ما استيسر من الهدي وهو سبع بدنة أو سبع بقرة أو شاة يذبحها المحصر، ويحلق، ويحل من إحرامه بسبب الحصر كما فعل النبي - صلى الله عليه وسلم -، وأصحابه لما صدهم المشركون عام الحديبية ، فإن لم يجد الهدي فليصم بدله عشرة أيام كما في المتمتع ثم يحل.
ثم قال تعالى: {ولا تحلقوا رؤوسكم حتى يبلغ الهديُ محله}؛ وهذا من محظورات الإحرام إزالة الشعر بحلق أو غيره لأن المعنى واحد من الرأس أو من البدن، لأن المقصود من ذلك، حصول الشعث والمنع من الترفه بإزالته وهو موجود في بقية الشعر، وقاس كثير من العلماء على إزالة الشعر تقليم الأظفار بجامع الترفه، ويستمر المنع مما ذكر حتى يبلغ الهدي محله وهو يوم النحر، والأفضل أن يكون الحلق بعد النحر كما تدل عليه الآية.
ويستدل بهذه الآية على أن المتمتع إذا ساق الهدي لم يتحلل من عمرته قبل يوم النحر، فإذا طاف وسعى للعمرة أحرم بالحج، ولم يكن له إحلال بسبب سوق الهدي، وإنما منع تبارك وتعالى من ذلك لما فيه من الذل والخضوع لله والانكسار له والتواضع الذي هو عين مصلحة العبد، وليس عليه في ذلك من ضرر؛ فإذا حصل الضرر بأن كان به أذى من مرض ينتفع بحلق رأسه له أو قروح أو قمل ونحو ذلك، فإنه يحل له أن يحلق رأسه، ولكن يكون عليه فدية من صيام ثلاثة أيام، أو إطعام ستة مساكين ، أو نسك ما يجزي في أضحية فهو مخير، والنسك أفضل فالصدقة فالصيام، ومثل هذا، كل ما كان في معنى ذلك من تقليم الأظفار أو تغطية الرأس أو لبس المخيط أو الطيب؛ فإنه يجوز عند الضرورة مع وجوب الفدية المذكورة، لأن القصد من الجميع إزالة ما به يترفه.
ثم قال تعالى: {فإذا أمنتم}؛ أي: بأن قدرتم على البيت من غير مانع عدو وغيره {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج}؛ بأن توصل بها إليه، وانتفع بتمتعه بعد الفراغ منها {فما استيسر من الهدي}؛ أي فعليه ما تيسر من الهدي، وهو ما يجزي في أضحية، وهذا دم نسك مقابلة لحصول النسكين له في سفرة واحدة، ولإنعام الله عليه بحصول الانتفاع بالمتعة بعد فراغ العمرة وقبل الشروع في الحج، ومثلها القِران لحصول النسكين له، ويدل مفهوم الآية على أن المفرد للحج ليس عليه هدي، ودلت الآية على جواز بل فضيلة المتعة وعلى جواز فعلها في أشهر الحج {فمن لم يجد}؛ أي الهدي أو ثمنه {فصيام ثلاثة أيام في الحج}؛ أول جوازها من حين الإحرام بالعمرة، وآخرها ثلاثة أيام بعد النحر، أيام رمي الجمار والمبيت بمنى، ولكن الأفضل منها أن يصوم السابع والثامن والتاسع {وسبعة إذا رجعتم}؛ أي: فرغتم من أعمال الحج، فيجوز فعلها في مكة، وفي الطريق، وعند وصوله إلى أهله. ذلك المذكور من وجوب الهدي على المتمتع {لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام}؛ بأن كان عنه مسافة قصر فأكثر أو بعيداً عنه عرفا، فهذا الذي يجب عليه الهدي لحصول النسكين له في سفر واحد، وأما من كان أهله من حاضري المسجد الحرام، فليس عليه هدي لعدم الموجب لذلك.
{واتقوا الله}؛ أي: في جميع أموركم بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، ومن ذلك امتثالكم لهذه المأمورات واجتناب هذه المحظورات المذكورة في هذه الآية {واعلموا أن الله شديد العقاب}؛ أي: لمن عصاه، وهذا هو الموجب للتقوى، فإن من خاف عقاب الله؛ انكف عما يوجب العقاب، كما أن من رجا ثواب الله؛ عمل لما يوصله إلى الثواب، وأما من لم يخف العقاب، ولم يرج الثواب؛ اقتحم المحارم، وتجرأ على ترك الواجبات.
[196] ﴿ وَاَتِمُّوا الْ٘حَجَّ وَالْ٘عُمْرَةَ ﴾ ’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو‘‘ سے متعدد امور پر استدلال کیا جاتا ہے۔
(۱) حج اور عمرے کا وجوب اور ان کی فرضیت
(۲) حج اور عمرے کو ان ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرنا جن کی طرف رسول اللہeکا فعل اور آپ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے :’خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ‘ ’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو‘‘
(سنن البيھقی:5؍125)
(۳) اس آیت کریمہ سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو عمرے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
(۴) حج اور عمرہ کو، خواہ وہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں جب شروع کر دیا جائے تو ان کا اتمام واجب ہے۔
(۵) حج اور عمرے کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے اور یہ چیز حج اور عمرے کے لازمی افعال سے قدر زائد ہے۔
(۶) اس میں حج اور عمرے کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(۷) حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا ان کی تکمیل کیے بغیر احرام نہ کھولے سوائے اس صورت حال کے جس کواللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ ہے
(کسی وجہ سے) محصور ہو جانا۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ ﴾ ’’پس اگر تم روک دیے جاؤ‘‘ یعنی اگر تم کسی مرض یا راستہ بھول جانے یا دشمن کے روک لینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے حج اور عمرہ کی تکمیل کے لیے بیت اللہ نہ پہنچ سکو تو فرمایا:
﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ﴾ ’’تو جیسی قربانی میسر ہو۔‘‘ یعنی
(جو قربانی میسر ہو،) ذبح کرو۔ یہ قربانی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری ہے جسے مُحْصَر ذبح کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنا سر منڈوائے اور احرام کھول دے۔ جیسا کہ رسول اللہeاور صحابہ کرامyنے حدیبیہ والے سال کیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ اگر مُحْصَر کو قربانی نہ ملے تو اس کے بدلے دس روزے رکھے جیسا کہ تمتع کرنے والے کے لیے ضروری ہے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلال ہو جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُ٘وْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُ٘غَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ ﴾ ’’اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے کو پہنچ جائے‘‘ بالوں کو منڈوا کر یا کسی اور طریقے سے زائل کرنا احرام کے ممنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ بال خواہ سر کے ہوں یا بدن کے کسی اور حصے کے، ان کو زائل کرنا منع ہے، کیونکہ احرام میں اصل مقصود بالوں کی پراگندگی اور ان کو زائل کر کے ان کی اصلاح کرنے کی ممانعت ہے اور وہ باقی بالوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے علماء نے زیب و زینت کے لیے ناخن ترشوانے کو بال منڈوانے پر قیاس کیا ہے اور مذکورہ تمام چیزیں اس وقت تک ممنوع ہیں جب تک کہ قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے اور اس سے مراد قربانی کا دن ہے اور افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بال اتروائے جائیں جیسا کہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ تمتع کرنے والا جب اپنے ساتھ قربانی لے کر آیا ہو تو وہ قربانی کے دن سے قبل اپنے عمرے کا احرام نہ کھولے۔ پس تمتع کرنے والا جب عمرے کے طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے تو حج کا احرام باندھ لے اور اپنے ساتھ قربانی لانے کی وجہ سے اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے
(حَلْق) ’’بال مونڈنے‘‘ سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ اس میں عاجزی، اللہ کے لیے خضوع اور انکساری ہے جو کہ بندے کے لیے عین مصلحت ہے اور اس میں اس کے لیے کوئی نقصان بھی نہیں۔ اگر سر میں کسی مرض یا زخم یا جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کے لیے سر کو منڈوانا جائز ہے البتہ فدیہ کے طور پر تین روزے رکھنا یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا جو قربانی کے لیے جائز ہو واجب ہے۔ ان میں سے جو کام چاہے اسے کرنے کا اختیار ہے۔ قربانی سب سے افضل ہے، اس کے بعد صدقہ اور پھر روزے۔
اسی طرح کے حالات میں اگر ناخن تراشنے، سر ڈھانپنے، سلا ہوا کپڑا پہننے یا خوشبو لگانے کی ضرورت لاحق ہو تو ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے،
البتہ مذکورہ بالا فدیہ کی مانند فدیہ دینا واجب ہے۔ اس تمام صورت میں اصل مقصد آسودگی کے مظاہر سے دور رہنا ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ ﴾ ’’پس جب تم امن میں ہو جاؤ‘‘ یعنی جب تم دشمن وغیرہ کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو
﴿ فَ٘مَنْ تَ٘مَتَّ٘عَ بِالْ٘عُمْرَةِ اِلَى الْ٘حَجِّ ﴾ ’’پس جو حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔‘‘ یعنی جو عمرہ کو حج کے ساتھ ملا دے اور عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے تمتع سے فائدہ اٹھائے
﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ﴾ ’’تو وہ جیسی قربانی میسر ہوکرے۔‘‘ یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ قربانی دے جو میسر ہو اور وہ ایسا جانور ذبح کرے جو قربانی کے لیے جائز ہو۔
یہ قربانی، حج کی قربانی ہے جو ان دو عبادات کے مقابلے میں ہے جو اسے ایک ہی سفر میں حاصل ہوئیں، علاوہ ازیں یہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اسے عمرہ سے فراغت کے بعد اور مناسک حج شروع کرنے سے پہلے تمتع سے استفادہ کرنے کی صورت میں حاصل ہوئی۔ اور اسی کی مثل حج قران ہے، کیونکہ اس میں بھی
(حج تمتع کی طرح) دو عبادات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ مفرد حج کرنے والے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ آیت کریمہ تمتع کے جواز بلکہ تمتع کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، نیز اس پر بھی کہ حج کے مہینوں میں تمتع جائز ہے۔
﴿ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾ ’’پس جو شخص نہ پائے‘‘ یعنی جس کے پاس قربانی یا اس کی قیمت موجود نہ ہو
﴿ فَصِیَامُ ثَلٰ٘ثَةِ اَیَّامٍ فِی الْ٘حَجِّ ﴾ ’’تو تین روزے رکھنے ہیں حج کے دنوں میں‘‘ ان روزوں کا پہلا جواز تو یہ ہے کہ انھیں عمرہ کے احرام کے ساتھ ہی رکھا جائے اور ان کا آخری وقت یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں، رمی جمار اور منی میں شب باشی کے ایام، البتہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحج کو رکھے جائیں۔
﴿ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ﴾ ’’اور سات
(روزے) اس وقت جب تم گھر لوٹو‘‘ یعنی جب تم اعمال حج سے فارغ ہو جاؤ تو ان روزوں کو مکہ مکرمہ میں رکھنا بھی جائز ہے، واپسی سفر کے دوران راستے میں اور گھر پہنچ کر بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی تمتع کرنے والے پر قربانی کا واجب ہونا
﴿ لِمَنْ لَّمْ یَكُ٘نْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ ’’اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں‘‘ یعنی یہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو نمازقصر کرنے یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہو یا اتنا دور رہتا ہو جسے عرف میں دور سمجھا جاتا ہو۔ اس شخص پر ایک ہی سفر میں دو عبادات کے ثواب کے حصول کی بنا پر قربانی واجب ہے۔
جو کوئی مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے پاس رہتا ہے، تو اس پر عدم موجب کی بنا پر قربانی واجب نہیں۔
﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرو‘‘ یعنی اپنے تمام امور میں، اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے۔ اسی زمرے میں حج کے ان اوامر کی اطاعت اور ان ممنوعات سے اجتناب ہے جو کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔
﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہی
(خوف عذاب) تقویٰ کا موجب ہے کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ جیسے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہے وہ ایسے کام کرتا ہے جو ثواب کے موجب ہیں اور جو کوئی عذاب سے نہیں ڈرتا اور ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ حرام میں گھس جاتا ہے اور فرائض کو چھوڑ دینے کی جرأت کا مرتکب ہوتا ہے۔
{الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ (197)}.
حج
(کا وقت) چند مہینے ہیں معلوم، پس جس نے فرض کر لیا ان میں حج تو نہیں ہے شہوت کی باتیں کرنا اور نہ نافرمانی کرنا اور نہ جھگڑا کرنا حج میں، اور جو کچھ کرتے ہو تم نیکی سے، جانتا ہے اسے اللہ، اور زاد راہ لے لو، کیونکہ یقیناً بہترین زاد راہ تقویٰ ہے،اور تم مجھ سے ڈرو! اے عقل مندو!
(197)
#
{197} يخبر تعالى أن {الحج} واقع في {أشهر معلومات}؛ عند المخاطبين مشهورات بحيث لا تحتاج إلى تخصيص، كما احتاج الصيام إلى تعيين شهره، وكما بين تعالى أوقات الصلوات الخمس، وأما الحج فقد كان من ملة إبراهيم التي لم تزل مستمرة في ذريته معروفة بينهم. والمراد بالأشهر المعلومات عند الجمهور: شوال وذو القعدة وعشر من ذي الحجة، فهي التي يقع فيها الإحرام بالحج غالباً {فمن فرض فيهن الحج}؛ أي: أحرم به، لأن الشروع فيه يصيره فرضاً، ولو كان نفلاً.
واستدل بهذه الآية الشافعي ومن تابعه على أنه لا يجوز الإحرام بالحج قبل أشهره، قلت: لو قيل [أنّ] فيها دلالة لقول الجمهور بصحة الإحرام بالحج قبل أشهره لكان قريباً، فإن قوله: {فمن فرض فيهن الحج}؛ دليل على أن الفرض قد يقع في الأشهر المذكورة، وقد لا يقع فيها وإلا لم يقيده، وقوله: {فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج}؛ أي: يجب أن تعظموا الإحرام بالحج وخصوصاً الواقع في أشهره، وتصونوه عن كل ما يفسده أو ينقصه من الرفث وهو الجماع، ومقدماته الفعلية والقولية، خصوصاً عند النساء بحضرتهن، والفسوق وهو جميع المعاصي، ومنها محظورات الإحرام، والجدال وهو المماراة والمنازعة والمخاصمة، لكونها تثير الشر وتوقع العداوة، والمقصود من الحج الذل والانكسار لله والتقرب إليه بما أمكن من القربات والتنزه عن مقارفة السيئات، فإنه بذلك يكون مبروراً، والمبرور ليس له جزاء إلا الجنة ، وهذه الأشياء وإن كانت ممنوعة في كل مكان وزمان، فإنه يتغلظ المنع عنها في الحج.
واعلم أنه لا يتم التقرب إلى الله بترك المعاصي حتى يفعل الأوامر، ولهذا قال تعالى: {وما تفعلوا من خير يعلمه الله}؛ أتى بمن لتنصيص العموم فكل خير وقربة وعبادة داخل في ذلك، أي: فإن الله به عليم، وهذا يتضمن غاية الحث على أفعال الخير خصوصاً في تلك البقاع الشريفة والحرمات المنيفة، فإنه ينبغي تدارك ما أمكن تداركه فيها من صلاة وصيام وصدقة وطواف وإحسان قولي وفعلي، ثم أمر تعالى بالتزود لهذا السفر المبارك؛ فإن التزود فيه الاستغناء عن المخلوقين، والكف عن أموالهم سؤالاً واستشرافاً، وفي الإكثار منه نفع، وإعانة للمسافرين، وزيادة قربة لرب العالمين، وهذا الزاد الذي المراد منه إقامة البِنْية بُلْغَةٌ ومتاع، وأما الزاد الحقيقي المستمر نفعه لصاحبه في دنياه وأخراه فهو زاد التقوى؛ الذي هو زاد إلى دار القرار، وهو الموصل لأكمل لذة وأجل نعيم دائماً أبداً، ومن ترك هذا الزاد فهو المنقطع به، الذي هو عرضة لكل شر وممنوع من الوصول إلى دار المتقين، فهذا مدح للتقوى، ثم أمر بها أولي الألباب فقال: {واتقوني يا أولي الألباب}؛ أي: يا أهل العقول الرزينة، اتقوا ربكم، الذي تقواه أعظم ما تأمر به العقولُ، وتركها دليل على الجهل وفساد الرأي.
[197] اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتا ہے
﴿ اَلْ٘حَجُّ ﴾ یعنی حج واقع ہوتا ہے
﴿ اَشْ٘هُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ﴾ ’’معلوم مہینوں
(میں)۔‘‘ جو مخاطبین کے ہاں معلوم اور معروف ہیں جن کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ روزوں کے لیے اس کے مہینے کے تعین کی ضرورت پیش آئی اور جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات بیان فرمائے ہیں۔ رہا حج تو یہ ملت ابراہیم کا رکن ہے جو حضرت ابراہیمuکی اولاد میں ہمیشہ سے معروف رہا ہے اور وہ لوگ حج کرتے چلے آئے ہیں۔ جمہور اہل علم کے نزدیک
﴿ اَشْ٘هُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ﴾ ’’معلوم مہینے‘‘ سے مراد شوال، ذیقعد اور ذوالحج کے پہلے دس دن ہیں۔ یہی وہ مہینے ہیں جن میں غالب طور پر حج کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔
﴿ فَ٘مَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْ٘حَجَّ ﴾ ’’تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے۔‘‘ یعنی جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھتا ہے، کیونکہ جو کوئی حج شروع کر دیتا ہے تو اس کا اتمام اس پر فرض ہو جاتا ہے خواہ حج نفلی ہی کیوں نہ ہو۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب استدلال کرتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل حج کے لیے احرام باندھنا جائز نہیں ہے۔
میں
(عبدالرحمن بن ناصر السعدی) کہتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت کریمہ جمہور اہل علم کے اس مسلک پر دلالت کرتی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کے لیے احرام باندھنا صحیح ہے تو ایسا کہنا زیادہ قرین صحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ فَ٘مَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْ٘حَجَّ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ حج کی فرضیت کبھی تو مذکورہ مہینوں میں واقع ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مقید نہ کرتا۔
﴿ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ١ۙ وَلَا جِدَالَ فِی الْ٘حَجِّ ﴾ ’’تو دل لگی کی باتیں نہیں کرنا، نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں‘‘ یعنی تم پر حج کے احرام کی تعظیم کرنا فرض ہے خاص طور پر جبکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہو، لہٰذا تم پر فرض ہے کہ تم احرام حج کی ہر اس چیز سے حفاظت کرو جو احرام کو فاسد کرتی ہے یا اس کے ثواب میں کمی کر دیتی ہے، مثلاً
(رَفَث) اور
(رَفَث) سے مراد ہے جماع اور اس کے قولی اور فعلی مقدمات۔ خاص طور پر بیویوں کے پاس، ان کی موجودگی میں۔
(فُسُوق) سے تمام معاصی مراد ہیں اور ممنوعات احرام بھی اس میں شامل ہیں اور
(جِدَال) سے مراد لڑائی، جھگڑا اور مخاصمت ہے، کیونکہ لڑائی جھگڑا شر کو جنم دیتا اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔
حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لیے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ،
جنت کے سوا کوئی نہیں۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقرب الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جو بھی تم بھلائی کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عموم کی تصریح کے لیے
(مِنْ) استعمال کیا ہے، اس لیے ہر بھلائی، تقرب الٰہی کا ہر ذریعہ اور ہر عبادت اس میں شامل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر بھلائی کو جانتا ہے۔ یہ آیت کریمہ بھلائی کے کاموں میں ترغیبکو متضمن ہے۔ خاص طور پر زمین کے ان قطعات میں جن کو شرف اور احترام میں بہت بلند مقام حاصل ہے، اس لیے یہی مناسب ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ، طواف اور قولی و فعلی احسان کے ذریعے سے جتنی بھلائی ممکن ہو، اسے حاصل کیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں زاد راہ ساتھ لینے کا حکم دیا ہے کیونکہ زاد راہ مسافر کو لوگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اسے لوگوں کے مال کی طرف دیکھنے اور سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد زاد راہ ساتھ لینے میں فائدہ اور ساتھی مسافروں کی اعانت ہے اور اس سے اللہ رب العالمین کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو یہاں مراد ہے جو زندگی کو قائم رکھنے،
گزر بسر کرنے اور راستے کے اخراجات کے لیے نہایت ضروری ہے۔ رہا زاد حقیقی جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زاد راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زاد راہ ہے اور وہی زاد راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچاتا ہے۔ جو کوئی زاد تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے اور وہ اہل تقویٰ کی منزل پر پہنچنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کی مدح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے عقل مند لوگوں کو ان الفاظ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے: ﴿ وَاتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ ﴾ ’’اے اہل دانش! مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اے سنجیدہ اور عقلمند لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس سے ڈرنا وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا عقل انسانی حکم دیتی ہے، اور اس کو ترک کرنا جہالت اور فساد رائے کی دلیل ہے۔
{لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198) ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (199) فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (200) وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (201) أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (202)}
نہیں ہے تم پر کوئی گناہ یہ کہ تلاش کرو تم فضل اپنے رب کا، پھر جب لوٹو تم عرفات سے تو یاد کرو اللہ کو نزدیک مشعر حرام کےاور یاد کرو تم اس کو جس طرح اس نے ہدایت دی تمھیں اور تحقیق تھے تم پہلے اس سے البتہ گمراہوں سے
(198) پھر لوٹو تم جہاں سے لوٹیں سب لوگ ،اور مغفرت مانگو اللہ سے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے
(199) پھر جب پورے کر چکو تم اپنے حج کے احکام،تو یاد کرو اللہ کو مانند یاد کرنے تمھارے اپنے باپ دادا کو،بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرنا، پس کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! دے ہمیں دنیا میں اور نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ
(200) اور کچھ ان میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں، اے ہمارے رب! دے ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی اور بچا ہمیں آگ کے عذاب سے
(201)یہی لوگ ہیں، واسطے ان کے حصہ ہے اس سے جو انھوں نے کمایا اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے
(202)
#
{198} لما أمر تعالى بالتقوى أخبر تعالى أن ابتغاء فضل الله بالتكسب في مواسم الحج وغيره ليس فيه حرج إذا لم يشغل عما يحب إذا كان المقصود هو الحج، وكان الكسب حلالاً منسوباً إلى فضل الله؛ لا منسوباً إلى حذق العبد والوقوف مع السبب ونسيان المسبب، فإن هذا هو الحرج بعينه وفي قوله: {فإذا أفضتم من عرفات فاذكروا الله عند المشعر الحرام}؛ دلالة على أمور:
أحدها: الوقوف بعرفة، وأنه كان معروفاً أنه ركن من أركان الحج، فالإفاضة من عرفات لا تكون إلا بعد الوقوف.
الثاني: الأمر بذكر الله عند المشعر الحرام وهو المزدلفة، وذلك أيضاً معروف يكون ليلة النحر بائتاً بها، وبعد صلاة الفجر يقف في المزدلفة داعياً حتى يسفر جدًّا، ويدخل في ذكر الله عنده إيقاع الفرائض والنوافل فيه.
الثالث: أن الوقوف بمزدلفة متأخر عن الوقوف بعرفة كما تدل عليه الفاء والترتيب.
الرابع والخامس: أن عرفات ومزدلفة كلاهما من مشاعر الحج المقصود فعلها وإظهارها.
السادس: أن مزدلفة في الحرم كما قيده بالحرام.
السابع: أن عرفة في الحل كما هو مفهوم التقييد بمزدلفة.
{واذكروه كما هداكم وإن كنتم من قبله لمن الضالين}؛ أي اذكروا الله تعالى كما منَّ عليكم بالهداية بعد الضلال، وكما علمكم ما لم تكونوا تعلمون. فهذه من أكبر النعم التي يجب شكرها ومقابلتها بذكر المنعم بالقلب واللسان.
[198] چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں آگاہ فرما دیا کہ مواسم حج وغیرہ میں محنت و اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ وہ فرائض سے غافل ہو کر اسی میں مشغول نہ ہو جائے۔ جبکہ اس کا اصل مقصد حج ہی ہو اور یہ کمائی حلال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب ہو اور بندے کی اپنی مہارت کی طرف منسوب نہ ہو، کیونکہ سبب کو ہی سب کچھ سمجھنا اور مسبب کو فراموش کر دینا، یہی عین حرج ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان
﴿ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْ٘مَشْ٘عَرِ الْحَرَامِ ﴾ ’’پس جب تم عرفات سے لوٹو،
تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو‘‘ متعدد امورپر دلالت کرتا ہے:
(۱) عرفہ میں وقوف، مناسک حج میں سے ہے اور یہ ارکان حج میں سے ایک معروف رکن ہے، کیونکہ عرفات سے واپسی صرف وقوف کے بعد ہی ہوتی ہے۔
(۲) مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کے ذکر کا حکم دیا گیا ہے اور مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے، مزدلفہ بھی معروف جگہ ہے جہاں قربانی کی رات بسر کرنی ہوتی ہے، نماز فجر کے بعد خوب روشنی پھیلنے تک دعائیں کرتے ہوئے مزدلفہ میں وقوف کرے، مزدلفہ کے پاس دعاؤں اور اذکار میں فرائض اور نوافل بھی داخل ہیں۔
(۳) مزدلفہ کا وقوف، عرفات کے وقوف سے متاخر ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں دی گئی ترتیب دلالت کرتی ہے۔
(۴) عرفات اور مزدلفہ، دونوں ان مشاعر حج میں شمار ہوتے ہیں جن کا فعل اور اظہار مقصود ہے۔
(۵) مزدلفہ بھی حرم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ’’حرام‘‘ کی صفت سے مقید کیا ہے۔
(۶) مزدلفہ کو ’’حرام‘‘ کی صفت سے مقید کرنا یہ مفہوم دیتا ہے کہ عرفہ حرم میں شامل نہیں۔
﴿ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰؔىكُمْ١ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَ٘مِنَ الضَّآلِّیْ٘نَ ﴾ ’’اور اس
(اللہ) کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو بتلایا ہے اور اس سے پہلے تم ناواقف تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسا کہ اس نے گمراہی کے بعد تمھیں ہدایت سے نوازا اور تمھیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہ جانتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس کا شکر واجب، اور اس کے مقابلے میں قلب اور زبان سے منعم کا ذکر کرنا فرض ہے۔
#
{199} {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}؛ أي: ثم أفيضوا من مزدلفة من حيث أفاض الناس من لدن إبراهيم عليه السلام إلى الآن، والمقصود من هذه الإفاضة كان معروفاً عندهم، وهو رمي الجمار، وذبح الهدايا، والطواف والسعي والمبيت بمنى ليالي التشريق، وتكميل باقي المناسك، ولما كانت هذه الإفاضة يقصد بها ما ذكر والمذكورات آخر المناسك، أمر تعالى عند الفراغ منها باستغفاره والإكثار من ذكره، فالاستغفار للخلل الواقع من العبد في أداء عبادته وتقصيره فيها، وذكر الله شكر الله على إنعامه عليه بالتوفيق لهذه العبادة العظيمة والمنة الجسيمة، وهكذا ينبغي للعبد كلما فرغ من عبادة أن يستغفر الله عن التقصير، ويشكره على التوفيق، لا كمن يرى أنه قد أكمل العبادة، ومنَّ بها على ربه، وجعلت له محلاًّ ومنزلة رفيعة، فهذا حقيق بالمقت ورد العمل، كما أن الأول حقيق بالقبول والتوفيق لأعمال أخر.
[199] ﴿ ثُمَّؔ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾ ’’پھر تم وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں‘‘ یعنی مزدلفہ سے۔ اور یہ وہ عمل ہے جو حضرت ابراہیمuسے لے کر اب تک چلا آرہا ہے۔ اور اس افاضہ یعنی واپسی کا مقصد ان کے ہاں معروف تھا اور وہ ہے رمی جمار، قربانیوں کو ذبح کرنا، طواف، سعی، تشریق کی راتوں میں منی میں شب بسری اور باقی مناسک کی تکمیل۔ چونکہ اس افاضہ کا مقصد وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ مذکورہ امور حج کے آخری مناسک ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے فارغ ہو کر استغفار اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اس لیے کہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں بندے کی طرف سے جو خلل اور کوتاہی واقع ہوئی ہے استغفار سے اس کی تلافی ہو جائے اور اللہ کا ذکر، یہ اللہ کا اس انعام پر شکر ہے جو اس نے عظیم عبادت اور بھاری احسان کی توفیق سے نواز کر کیا۔
بندۂ مومن کے لیے مناسب بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنی عبادت سے فارغ ہو تو اپنی تقصیر اور کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور عبادت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، نہ کہ اس شخص کی مانند ہو جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے عبادت کی تکمیل کر کے رب پر احسان کیا ہے اور اس عبادت نے اس کے مقام و مرتبہ کو بہت بلند کر دیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً اللہ کی ناراضی کا باعث اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے فعل
(عبادت) کو ٹھکرا دیا جائے جیسے عبادت کی پہلی صورت اس بات کی مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرے اور بندے کو دوسرے اعمال خیر کی توفیق عطا ہو۔
#
{200 ـ 201 ـ 202} ثم أخبر تعالى عن أحوال الخلق، وأن الجميع يسألونه مطالبهم، ويستدفعونه ما يضرهم، ولكن مقاصدهم تختلف، فمنهم {من يقول ربنا آتنا في الدنيا}؛ أي: يسأله من مطالب الدنيا ما هو من شهواته، وليس له في الآخرة من نصيب لرغبته عنها، وقصر همته على الدنيا، ومنهم من يدعو الله لمصلحة الدارين، ويفتقر إليه في مهمات دينه ودنياه، وكل من هؤلاء وهؤلاء لهم نصيب من كسبهم وعملهم، وسيجازيهم تعالى على حسب أعمالهم وهماتهم ونياتهم جزاءً دائراً بين العدل والفضل، يحمد عليه أكمل حمد وأتمه.
وفي هذه الآية دليل على أن الله يجيب دعوة كل داعٍ مسلماً أو كافراً أو فاسقاً، ولكن ليست إجابته دعاء من دعاه دليلاً على محبته له وقربه منه إلا في مطالب الآخرة ومهمات الدين، والحسنة المطلوبة في الدنيا، يدخل فيها كل ما يحسن وقعه عند العبد من رزق هني واسع حلال، وزوجة صالحة، وولد تقر به العين، وراحة، وعلم نافع، وعمل صالح، ونحو ذلك من المطالب المحبوبة والمباحة، وحسنة الآخرة هي السلامة من العقوبات في القبر والموقف والنار، وحصول رضا الله، والفوز بالنعيم المقيم، والقرب من الرب الرحيم، فصار هذا الدعاء أجمع دعاء وأكمله وأولاه بالإيثار، ولهذا كان النبي - صلى الله عليه وسلم -، يكثر من الدعاء به والحث عليه.
[202-200] پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے احوال کی خبر دی اور آگاہ فرمایا کہ تمام مخلوق اپنے اپنے مطالبات کا سوال کرتی ہے اور جو چیز ان کے لیے ضرر رساں ہے اس سے بچنے کی دعا مانگتی ہے۔ البتہ ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں
﴿ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا ﴾ ’’اے ہمارے رب! دے تو ہمیں دنیا میں‘‘ یعنی وہ دنیا کے ساز و سامان اور اس کی شہوات کا سوال کرتے ہیں۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا، کیونکہ آخرت میں ان کو کوئی رغبت نہیں اور انھوں نے اپنی ہمت اور ارادے دنیا ہی پر مرکوز کر دیے ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھتے ہیں۔
ان دونوں گروہوں کے لیے اپنے اپنے اعمال اور اپنے اپنے اکتساب کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب انھیں ان کے اعمال، ان کے ارادوں اور ان کی نیتوں کی ایسی جزا دے گا جو عدل اور فضل کے دائرے میں ہو گی، اس پر اس کی کامل ترین حمد و ثنا بیان کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعا سنتا ہے، خواہ وہ کافر ہو، مسلمان ہو یا فاسق و فاجر، البتہ کسی کی دعا قبول ہونے کے معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اس نے
(اس کی دعا قبول کر کے) اسے اپنے قرب سے نواز دیا ہے۔ البتہ آخرت کی بھلائی اور دینی امور میں دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کی علامت ہے۔ وہ بھلائی جو دنیا میں طلب کی جاتی ہے، اس میں ہر وہ بھلائی شامل ہے جس کا ہونا بندے کو پسند ہو۔ جیسے رزق کی کشائش ، نیک بیوی، نیک اولاد جسے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، آرام اور راحت، علم نافع، اعمال صالحہ اور دیگر پسندیدہ اور مباح چیزیں اور آخرت کی بھلائی، قبر، حساب کتاب اور آگ کے عذاب سے سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کامیاب ہونے اور رب رحیم کے قرب کا نام ہے۔ اس اعتبار سے یہ دعا سب سے جامع اور سب سے کامل دعا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے تمام دعاؤں پر ترجیح دی جائے۔ اسی لیے رسول اللہeاکثر یہی دعا مانگا کرتے تھے اور اس دعا کی ترغیب دیا کرتے تھے۔
{وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (203)}
اور یاد کرو تم اللہ کو، گنتی کے چند دنوں میں، پس جس نے جلدی کی دو دنوں میں تو نہیں ہے کوئی گناہ اس پر،اور جس نے تاخیر کی تو نہیں کوئی گناہ اس پر
(بھی) واسطے اس کے جو ڈرا،اور ڈرو تم اللہ سے اور جان لو، بے شک تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے
(203)
#
{203} يأمر تعالى بذكره في الأيام المعدودات وهي أيام التشريق الثلاثة بعد العيد لمزيتها وشرفها، وكون بقية المناسك تفعل بها، ولكون الناس أضيافاً لله فيها، ولهذا حرم صيامها، فللذكر فيها مزية ليست لغيرها، ولهذا قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر الله» ، ويدخل في ذكر الله فيها؛ ذكره عند رمي الجمار، وعند الذبح، والذكر المقيد عقب الفرائض، بل قال بعض العلماء إنه يستحب فيها التكبير المطلق كالعشر وليس ببعيد {فمن تعجل في يومين}؛ أي: خرج من منى، ونفر منها قبل غروب شمس اليوم الثاني {فلا إثم عليه ومن تأخر}؛ بأن بات بها ليلة الثالث، ورمى من الغد {فلا إثم عليه}؛ وهذا تخفيف من الله تعالى على عباده في إباحة كلا الأمرين، ولكن من المعلوم أنه إذا أبيح كلا الأمرين، فالتأخُّر أفضل؛ لأنه أكثر عبادة. ولما كان نفي الحرج قد يفهم منه نفي الحرج في ذلك المذكور وفي غيره، والحاصل أن الحرج منفي عن المتقدم والمتأخر فقط، قيده بقوله: {لمن اتقى}؛ أي: اتقى الله في جميع أموره وأحوال الحج، فمن اتقى الله في كل شيء، حصل له نفي الحرج في كل شيء، ومن اتقاه في شيء دون شيء كان الجزاء من جنس العمل {واتقوا الله}؛ بامتثال أوامره، واجتناب معاصيه {واعلموا أنكم إليه تحشرون}؛ فمجازيكم بأعمالكم، فمن اتقاه وجد جزاء التقوى عنده، ومن لم يتقه عاقبه أشدَّ العقوبة، فالعلم بالجزاء من أعظم الدواعي لتقوى الله، فلهذا حثَّ تعالى على العلم بذلك.
[203] اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، ان دنوں سے مراد عید کے بعد کے ایام تشریق
(کے تین دن) ہیں، کیونکہ انھیں شرف و فضیلت حاصل ہے، نیز اس لیے بھی کہ بقیہ تمام مناسک حج انھی ایام میں پورے کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان دنوں میں لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام قرار دیا ہے۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایک ایسی خوبی ہے جو اور دنوں میں نہیں پائی جاتی،
چنانچہ رسول اللہeنے فرمایا: ’اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ اَیَّامُ أَکْلٍ وَّشُرْبٍ وَذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ‘ ’’ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں‘‘
(مسند أحمد:5؍76)
اور ان ایام میں جو اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، تو اس میں رمی جمار کے وقت، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد مخصوص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں اس حکم میں مطلق تکبیرات داخل ہیں۔ جیسے ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں تکبیرات کہی جاتی ہیں اور یہ بعید بھی نہیں۔
﴿ فَ٘مَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ﴾ ’’پس جس نے جلدی کی دو دنوں میں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی جو کوئی دوسرے روز غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکل کر کوچ کرتا ہے
﴿ وَمَنْ تَاَخَّ٘رَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ﴾ ’’اور جس نے دیر کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی جو کوئی تیسری رات منیٰ میں بسر کر کے اگلی صبح کنکر مارتا ہے
(تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں) دونوں امور مباح قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تخفیف عطا کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ اگرچہ دونوں امور جائز ہیں تاہم تیسری رات کے بعد منی سے کوچ کرنا افضل ہے۔ کیونکہ اس طرح کثرت عبادت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
چونکہ آیت کریمہ میں نفی حرج کا ذکر کیا گیا ہے جس سے کبھی تو صرف اسی معاملے میں نفی حرج کا مفہوم ذہن میں آتا ہے اور کبھی اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ صرف تقدیم و تاخیر میں حرج کی نفی کی گئی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے
﴿ لِمَنِ اتَّ٘قٰى ﴾ کے ساتھ مقید کیا ہے، یعنی جس نے تمام معاملات میں اور حج کے احوال میں تقویٰ اختیار کیا۔ پس جس نے ہر معاملے میں تقویٰ اختیار کیا اس کے لیے ہر معاملے میں حرج کی نفی حاصل ہو گئی اور جس نے بعض معاملات میں تقویٰ اختیار کیا اور بعض معاملات میں اسے نظر انداز کر دیا تو اس کو جزا بھی اس کے عمل کی جنس سے ملے گی۔
﴿ وَاتَّقُ٘وا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو
﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّـكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’جان لو کہ تمھیں اسی
(اللہ تعالیٰ) کے پاس اکٹھا کیا جائے گا‘‘ اور وہ تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس جس کسی نے تقویٰ اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا پائے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے باز نہ آیا، اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دے گا۔ جزا و سزا کا علم، تقویٰ کا سب سے بڑا داعیہ ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جزائے آخرت کے علم کی بڑی ترغیب دی ہے۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (206)}
اور کچھ لوگ وہ ہیں کہ خوش لگتی ہے آپ کو اس کی بات حیات دنیا میں اور وہ گواہ بناتا ہے اللہ کو اس پر جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
(204) اور جب وہ پیٹھ پھیر جاتا ہے تو کوشش کرتا ہے زمین میں، تاکہ فساد کرے اس میں اور برباد کرے کھیتیاں اور نسل، اور اللہ نہیں پسند کرتا فساد کو
(205) اور جب کہا جاتا ہے اسے، ڈر تو اللہ سے، تو ابھارتا ہے اسے تکبر گناہ پر، سو کافی ہے اسے جہنم اور یقیناً وہ برا ٹھکانا ہے
(206)
#
{204} لما أمر تعالى بالإكثار من ذكره، وخصوصاً في الأوقات الفاضلة الذي هو خيرٌ ومصلحة وبرٌّ أخبر تعالى بحال من يتكلم بلسانه، ويخالف فعلُه قولَه، فالكلام إما أن يرفع الإنسان أو يخفضه فقال: {ومن الناس من يعجبك قوله في الحياة الدنيا}؛ أي: إذا تكلم راق كلامُه السامعَ، وإذا نطق ظننته يتكلم بكلام نافع، ويؤكد ما يقول بأنه {يشهد الله على ما في قلبه}؛ بأن يخبر أن الله يعلم أن ما في قلبه موافق لما نطق به، وهو كاذب في ذلك لأنه يخالف قوله فعله، فلو كان صادقاً لتوافق القول والفعل كحال المؤمن غير المنافق، ولهذا قال: {وهو ألد الخصام}؛ أي: إذا خاصمته، وجدت فيه من اللدد والصعوبة والتعصب وما يترتب على ذلك ما هو من مقابح الصفات، ليس كأخلاق المؤمنين؛ الذين جعلوا السهولة مركبهم والانقياد للحق وظيفتهم والسماحة سجيتهم.
[204] جب اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا، خاص طور پر فضیلت والے اوقات میں،
وہ ذکر الٰہی جو سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے حال کے بارے میں خبر دی جو اپنی زبان سے جو بات کرتا ہے اس کا فعل اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پس کلام ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرتی ہے یا اس کو پستی میں گرا دیتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰؔوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’بعض لوگ وہ ہیں جن کی بات تجھ کو اچھی لگتی ہے دنیا کی زندگی میں‘‘ یعنی جب وہ بات کرتا ہے تو اس کی باتیں سننے والے کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی فائدہ مند بات کر رہا ہے۔ اور بات کو مزید موکد بناتا ہے
﴿وَیُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ ﴾ ’’اور جو اس کے دل میں ہے، اس پر وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے‘‘ یعنی وہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کے دل میں وہی کچھ ہے جس کا اظہار وہ زبان سے کر رہا ہے،
درآنحالیکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے کیونکہ اس کا فعل اس کے قول کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس کا فعل اس کے قول کی موافقت کرتا جیسا کہ سچے مومن کا حال ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ﴾ ’’اور وہ سخت جھگڑالو ہے‘‘ یعنی جب کبھی آپ اس سے بحث کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں سخت جھگڑالو پن، سرکشی اور تعصب جیسی مذموم صفات موجود ہیں اور ان کے نتیجے میں، اس کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو قبیح ترین اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے اوصاف کی مانند نہیں ہیں۔ وہ اہل ایمان جنھوں نے سہولت کواپنی سواری، اطاعت حق کو اپنا وظیفہ اور عفو و درگزر کو اپنی طبیعت بنالیا۔
#
{205} {وإذا تولى}؛ هذا الذي يعجبك قوله إذا حضر عندك {سعى في الأرض ليفسد فيها}؛ أي: يجتهد على أعمال المعاصي التي هي إفساد في الأرض فيهلك بسبب ذلك {الحرث والنسل}؛ فالزروع والثمار والمواشي تتلف، وتنقص، وتقل بركتها بسبب العمل في المعاصي، {والله لا يحب الفساد}؛ فإذا كان لا يحب الفساد فهو يبغض العبد المفسد في الأرض غاية البغض، وإن قال بلسانه قولاً حسناً.
ففي هذه الآية دليل على أن الأقوال التي تصدر من الأشخاص ليست دليلاً على صدقٍ ولا كذبٍ ولا برٍّ ولا فجورٍ، حتى يوجد العمل المصدق لها، المزكي لها، وأنه ينبغي اختبار أحوال الشهود والمحق والمبطل من الناس ببرِّ أعمالهم، والنظر لقرائن أحوالهم، وأن لا يغتر بتمويههم وتزكيتهم أنفسهم، ثم ذكر أن هذا المفسد في الأرض بمعاصي الله إذا أمر بتقوى الله تكبر وأنف.
[205] ﴿ وَاِذَا تَوَلّٰى ﴾ ’’اور جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے۔‘‘ یعنی یہ شخص جب آپ کے پاس موجود ہوتا ہے تو اس کی باتیں آپ کو بہت خوش کن لگتی ہیں،جب وہ آپ کے ہاں سے واپس لوٹتا ہے
﴿ سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا ﴾ ’’تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے۔‘‘ یعنی وہ گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتے ہیں
﴿ وَیُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ﴾ ’’اور کھیتی اور نسل کو نابود کردے۔‘‘ اور اس سبب سے کھیتیاں، باغات اور مویشی تباہ ہوتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوتی ہے اور گناہوں کے سبب سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ ’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘ اور جب وہ فساد کو پسند نہیں کرتا تو وہ زمین میں فساد پھیلانے والے بندے کو سخت ناپسند کرتا ہے خواہ یہ بندہ اپنی زبان سے بہت اچھی اچھی باتیں ہی کیوں نہ کرتا ہو۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو لوگوں کے منہ سے صادر ہوتی ہیں ان کے صدق یا کذب، اور نیکی یا بدی پر اس وقت تک دلالت نہیں کرتیں جب تک اس کا عمل ان باتوں کی تصدیق نہ کر دے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہوں، حق پرستوں اور باطل پرستوں کے احوال کی تحقیق اور ان کے اعمال اور قرائن احوال میں غور و فکر کے ذریعے سے ان کی پہچان کی جائے، نیز ان کی ملمع سازی اور ان کے پاکئ داماں کے دعووں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلانے والے اس شخص کو جب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کی جاتی ہے تو تکبر کرنے لگتا ہے۔
#
{206} {وأخذته العزة بالإثم}؛ فيجمع بين العمل بالمعاصي والتكبر على الناصحين {فحسبه جهنم}؛ التي هي دار العاصين والمتكبرين {وبئس المهاد}؛ أي المستقر والمسكن، عذاب دائم، وهمٌ لا ينقطع، ويأس مستمر، لا يخفف عنهم العذاب ولا يرجون الثواب، جزاءً لجنايتهم ومقابلة لأعمالهم، فعياذاً بالله من أحوالهم.
[206] ﴿ اَخَذَتْهُ الْ٘عِزَّةُ بِالْاِثْمِ ﴾ ’’کھینچ لاتا ہے، غرور اس کو گناہ پر‘‘ چنانچہ اس کے اندر گناہ اور معاصی کے اعمال اور نصیحت کرنے والوں کے خلاف متکبرانہ رویہ اکٹھے ہو جاتے ہیں
﴿ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ﴾ ’’پس اس کے لیے جہنم کافی ہے‘‘ جو نافرمان متکبرین کا ٹھکانا ہے۔
﴿ وَلَ٘بِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ ’’اور بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یعنی بہت ہی برا ٹھکانا اور مسکن ہے جہاں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی مایوسی اور دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے، ان کے عذاب میں کبھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ وہ ثواب کی کوئی امید نہیں رکھیں گے یہ ان کے اعمال بد اور ان کے جرم کی سزا ہے۔ ہم ان کے احوال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے طلب گار ہیں۔
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (207)}
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو بیچ دیتے ہیں اپنا نفس، واسطے تلاش کرنے کے رضامندی اللہ کی اور اللہ بہت شفیق ہے اپنے بندوں کے ساتھ
(207)
#
{207} [هؤلاء هم الموفقون الذين باعوا أنفسهم، وأرخصوها، وبذلوها طلباً لمرضاة الله، ورجاءً لثوابه، فهم بذلوا الثمن للملي الوفي، الرءوف بالعباد، الذي من رأفته ورحمته أن وفقهم لذلك، وقد وَعَدَ الوفاء بذلك، فقال: {إن الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأنَّ لهم الجنة ... } إلى آخر الآية. وفي هذه الآية أخبر أنهم اشتروا أنفسهم وبذلوها، وأخبر برأفته الموجبة لتحصيل ما طلبوا، وبذل ما به رغبوا، فلا تسأل بعد هذا عمّا يحصل لهم من الكريم، وما ينالهم من الفوز والتكريم].
[207] ’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو بیچ دیتا ہے اپنے آپ کو اللہ کی رضاجوئی میں اور اللہ بڑا مہربان ہے بندوں پر۔‘‘ یہی لوگ توفیق یافتہ ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کو ارزاں داموں میں بیچ دیا اور اللہ کی رضا کے حصول اور ثواب کی امید پر اپنی جانوں کو قربان کردیا۔ پس انھوں نے، بندوں کے ساتھ انتہائی مہربان، پورا بدلہ دینے والے مال دار کو قیمت ادا کی ہے، وہ مہربان کہ جس کی شفقت و رحمت ہی سے ہے کہ اس نے ان کو اس قربانی کی توفیق بخشی۔ اور اس نے اس قربانی کے پورے بدلے کا وعدہ فرمایا
﴿ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ﴾ (التوبۃ:9؍111)’’بے شک اللہ نے خرید لیا ہے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور مالوں کو، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مومنوں نے اپنی جانوں کو فروخت اور قربان کردیا ہے اور اللہ نے ان کے مطلوب و مقصود کے حصول کے لیے اپنی واجب شفقت و رحمت کی خبر دی ہے۔ پس اس کے بعد، ان پر اللہ کریم جو نوازشات فرمائے گا اور جو کامیابی و کامرانی ان کو حاصل ہوگی، اس کی بابت مت پوچھ۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (208) فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)}.
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! داخل ہو جاؤ تم اسلام میں پورے کے پورے،اور نہ پیروی کرو تم شیطان کے قدموں کی، بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے ظاہر
(208) پھر اگر پھسل جاؤ تم بعد اس کے کہ آگئیں تمھارے پاس واضح دلیلیں، تو جان لو! بے شک اللہ غالب ہے خوب حکمت والا
(209)
#
{208} هذا أمر من الله تعالى للمؤمنين أن يدخلوا {في السلم كافة}؛ أي: في جميع شرائع الدين، ولا يتركوا منها شيئاً، وأن لا يكونوا ممن اتخذ إلهه هواه؛ إن وافق الأمر المشروع هواه فعله، وإن خالفه تركه، بل الواجب أن يكون الهوى تبعاً للدين، وأن يفعل كل ما يقدر عليه من أفعال الخير، وما يعجز عنه يلتزمه، وينويه فيدركه بنيته، ولما كان الدخول في السلم كافة لا يمكن ولا يتصور إلا بمخالفة طرق الشيطان قال: {ولا تتبعوا خطوات الشيطان}؛ أي: في العمل بمعاصي الله، {إنه لكم عدو مبين}؛ والعدو المبين لا يأمر إلا بالسوء والفحشاء وما به الضرر عليكم، ولما كان العبد لا بد أن يقع منه خللٌ وزللٌ قال تعالى:
[208] یہ اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ مکمل طور پر اسلام میں داخل ہو جائیں، یعنی دین کے تمام احکام پر عمل کریں اور ان احکام میں سے کسی حکم کو ترک نہ کریں اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جنھوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا۔ اگر شرعی حکم ان کی خواہش نفس کے مطابق ہوتا ہے تو اس پر عمل کر لیتے ہیں اگر یہ حکم خواہش نفس کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ یہ فرض ہے کہ بندے کی خواہش دین کے تابع ہو، بھلائی کا ہر وہ کام کرے جس پر اسے قدرت حاصل ہو اور جس کام کے کرنے سے وہ عاجز ہو، اس کی کوشش کرے اور اس کو بجا لانے کی نیت رکھے،
پس اپنی نیت سے وہ اسے پا لے گا۔ چونکہ دین میں مکمل طور پر داخل ہونا شیطان کے راستوں کی مخالفت کیے بغیر ممکن نہیں اور نہ اس کا تصور کیا جا سکتا ہے اس لیے فرمایا:
﴿ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع نہ کرو۔‘‘ یعنی اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو
﴿ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’وہ تمھارا ظاہر دشمن ہے۔‘‘ یعنی اس کی دشمنی ظاہر ہے۔ وہ دشمن جس کی عداوت ظاہر ہو ہمیشہ تمھیں برائی،
فواحش اور ایسے کاموں کا حکم دیتا ہے جو تمھارے لیے نقصان دہ ہوں۔ چونکہ بندے سے ہمیشہ کوتاہی اور لغزش واقع ہوتی رہتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
#
{209} {فإن زللتم من بعد ما جاءتكم البينات}؛ أي: على علم ويقين، {فاعلموا أن الله عزيز حكيم}، وفيه من الوعيد الشديد والتخويف ما يوجب ترك الزلل، فإن العزيز المقام الحكيم إذا عصاه العاصي، قهره بقوته، وعذبه بمقتضى حكمته، فإن من حكمته تعذيب العصاة والجناة.
[209] ﴿ فَاِنْ زَلَلْتُمْ ﴾ ’’اگر تم پھسل جاؤ۔‘‘ یعنی اگر تم سے کوئی لغزش ہو جائے اور تم گناہ میں پڑ جاؤ
﴿ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ ﴾ ’’احکام روشن پہنچ جانے کے بعد‘‘ یعنی علم اور یقین حاصل ہو جانے کے بعد
﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت میں نہایت سخت وعید اور تخویف ہے جو لغزشوں کو ترک کرنے کی موجب ہے۔ کیونکہ جب نافرمان لوگ اس غالب اور حکمت والی ہستی کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ نہایت قوت کے ساتھ ان کو پکڑتی ہے اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کو سزا دیتی ہے کیونکہ نافرمانوں اور مجرموں کو سزا دینا اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔
{هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (210)}
نہیں انتظار کرتے وہ مگر یہ کہ آئے ان کے پاس اللہ سایوں میں بادلوں کے اور فرشتے
(بھی) اور چکا دیا جائے معاملہ، اور اللہ ہی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں سب کام
(210)
#
{210} وهذا فيه من الوعيد الشديد والتهديد ما تنخلع له القلوب، يقول تعالى: هل ينتظر الساعون في الفساد في الأرض، المتبعون لخطوات الشيطان، النابذون لأمر الله إلا يوم الجزاء بالأعمال، الذي قد حُشِي من الأهوال والشدائد والفظائع ما يقلقل قلوب الظالمين، ويحق به الجزاء السَّيئ على المفسدين، وذلك أن الله تعالى يطوي السماواتِ والأرضَ، وتنتثر الكواكبُ، وتُكوَّر الشمس والقمر، وتنزل الملائكة الكرام فتحيط بالخلائق، وينزل الباري تبارك وتعالى {في ظلل من الغمام} ليفصل بين عباده بالقضاء العدل، فتوضع الموازين، وتنشر الدواوين، وتبيَّض وجوه أهل السعادة، وتسوَّد وجوه أهل الشقاوة، ويتميز أهل الخير من أهل الشرِّ، وكل يجازى بعمله، فهنالك يعضُّ الظالم على يديه إذا علم حقيقة ما هو عليه.
وهذه الآية وما أشبهها دليل لمذهب أهل السنة والجماعة المثبتين للصفات الاختيارية؛ كالاستواء، والنزول، والمجيء، ونحو ذلك من الصفات التي أخبر بها تعالى عن نفسه، أو أخبر بها عنه رسوله - صلى الله عليه وسلم -، فيثبتونها على وجه يليق بجلال الله وعظمته من غير تشبيه ولا تحريف، خلافاً للمعطلة على اختلاف أنواعهم، من الجهمية والمعتزلة والأشعرية ونحوهم، ممن ينفي هذه الصفات، ويتأول لأجلها الآيات بتأويلات ما أنزل الله عليها من سلطان، بل حقيقتها القدح في بيان الله وبيان رسوله، والزعم بأن كلامهم هو الذي تحصل به الهداية في هذا الباب، فهؤلاء ليس معهم دليل نقلي؛ بل ولا دليل عقلي.
أما النقلي فقد اعترفوا أن النصوص الواردة في الكتاب والسنة، ظاهرها بل صريحها دال على مذهب أهل السنة والجماعة، وأنها تحتاج لدلالتها على مذهبهم الباطل أن تخرج عن ظاهرها ويزاد فيها وينقص، وهذا كما ترى لا يرتضيه من في قلبه مثقال ذرة من إيمان.
وأما العقل فليس في العقل ما يدل على نفي هذه الصفات، بل العقل دل على أن الفاعل أكمل من الذي لا يقدر على الفعل، وأن فعله تعالى المتعلق بنفسه والمتعلق بخلقه هو كمال، فإن زعموا أن إثباتها يدل على التشبيه بخلقه، قيل لهم الكلام على الصفات يتبع الكلام على الذات، فكما أن لله ذاتاً لا تشبهها الذوات فلله صفات لا تشبهها الصفات، فصفاته تبع لذاته وصفات خلقه تبع لذواتهم، فليس في إثباتها ما يقتضي التشبيه بوجه، ويقال أيضاً لمن أثبت بعض الصفات، ونفى بعضاً، أو أثبت الأسماء دون الصفات: إما أن تثبت الجميع كما أثبته الله لنفسه، وأثبته رسوله، وإما أن تنفي الجميع، وتكون منكراً لرب العالمين. وأما إثباتك بعض ذلك ونفيك لبعضه فهذا تناقض، فَفَرِّقْ بين ما أثبته وبين ما نفيته، ولن تجد إلى الفرق سبيلاً. فإن قلت ما أثبته لا يقتضي تشبيهاً، قال لك أهل السنة والإثبات لما نفيته لا يقتضي تشبيهاً، فإن قلت لا أعقل من الذي نفيته إلا التشبيه، قال لك النفاة ونحن لا نعقل من الذي أثبته إلا التشبيه، فما أجبت به النفاة أجابك به أهل السنة لما نفيته.
والحاصل أن من نفى شيئاً، وأثبت شيئاً مما دل الكتاب والسنة على إثباته فهو متناقض؛ لا يثبت له دليل شرعي ولا عقلي، بل قد خالف المعقول والمنقول.
[210] یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہو گا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا۔ اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہو گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کر دی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیے جائیں گے، سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہ گاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہو جائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں
(افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔
یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت والجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً استواء علی العرش ’’نزول‘‘ اور ’’آمد‘‘ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeنے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لیے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہو سکتی ہے۔
پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اوراس کو ثابت کرنے کے لیے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کر سکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔
اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کی تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لیے اور اس کے رسولeنے ان صفات کا اثبات کیا ہے۔ یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لیے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے، وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔
{سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (211)}
سوال کیجیے بنو اسرائیل سے! کتنی ہی دیں ہم نے ان کو نشانیاں واضح اور جو کوئی بدل دیتا ہے اللہ کی نعمت کو بعد اس کے کہ آگئی وہ اس کے پاس تو یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے
(211)
#
{211} يقول تعالى: {سل بني إسرائيل كم آتيناهم من آية بينة}، تدل على الحق وعلى صدق الرسل فتيقنوها، وعرفوها، فلم يقوموا بشكر هذه النعمة التي تقتضي القيام بها، بل كفروا بها، وبدلوا نعمة الله كفراً؛ فلهذا استحقوا أن ينزل الله عليهم عقابه، ويحرمهم من ثوابه، وسمى الله تعالى كفر النعمة تبديلاً لها؛ لأن من أنعم الله عليه نعمة دينية أو دنيوية فلم يشكرها، ولم يقم بواجبها اضمحلت عنه، وذهبت وتبدلت بالكفر والمعاصي، فصار الكفر بدل النعمة، وأما من شكر الله تعالى، وقام بحقها فإنها تثبت، وتستمر، ويزيده الله منها.
[211] ﴿ سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ ﴾ ’’بنو اسرائیل سے پوچھیں، کتنی ہی واضح نشانیاں ہم نے ان کو دیں؟‘‘ ایسی آیتیں جو حق اور رسولوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں، انھوں نے ان آیات کو پہچان لیا اور ان کی حقانیت کا انھیں یقین بھی ہو گیا مگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر نہ بجا لائے جو اس نعمت کا تقاضا ہے، بلکہ انھوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو کفران نعمت سے بدل ڈالا، پس وہ اس بات کے مستحق بن گئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے اور ان کو اپنے ثواب سے محروم رکھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفران نعمت کو ’’نعمت کی تبدیلی‘‘ اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کوئی دینی یا دنیاوی نعمت عطا کرتا ہے اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا اور اس کے واجبات کو ادا نہیں کرتا تو یہ نعمت اضمحلال کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کے پاس سے چلی جاتی ہے۔ اور کفر اور معاصی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح گویا کفر، نعمت کا بدل ہو گیا اور جو کوئی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو وہ نعمت نہ صرف ہمیشہ برقرار رہتی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس نعمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔
{زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (212)}
مزین کر دی گئی ہے واسطے ان لوگوں کے، جنھوں نے کفر کیا، زندگانی دنیا کی اور مذاق کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے جو ایمان لائےاور وہ لوگ جو متقی ہیں، بالا ہوں گے ان پر دن قیامت کےاور اللہ رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے
(212)
#
{212} يخبر تعالى أن الذين كفروا بالله وبآياته ورسله، ولم ينقادوا لشرعه أنهم زينت لهم الحياة الدنيا، فزينت في أعينهم وقلوبهم، فرضوا بها، واطمأنوا بها، فصارت أهواؤهم وإراداتهم وأعمالهم كلها لها، فأقبلوا عليها، وأكبوا على تحصيلها، وعظموها، وعظموا من شاركهم في صنيعهم، واحتقروا المؤمنين، واستهزؤوا بهم، وقالوا: أهؤلاء منَّ الله عليهم من بيننا، وهذا من ضعف عقولهم ونظرهم القاصر، فإن الدنيا دار ابتلاء وامتحان، وسيحصل الشقاء فيها لأهل الإيمان والكفران، بل المؤمن في الدنيا وإن ناله مكروه فإنه يصبر ويحتسب، فيخفف الله عنه بإيمانه وصبره ما لا يكون لغيره، وإنما الشأن كلُّ الشأن والتفضيل الحقيقي في الدار الباقية، فلهذا قال تعالى: {والذين اتقوا فوقهم يوم القيامة}؛ فيكون المتقون في أعلى الدرجات متمتعين بأنواع النعيم والسرور والبهجة والحبور، والكفار تحتهم في أسفل الدركات، معذبين بأنواع العذاب والإهانة والشقاء السرمدي الذي لا منتهى له، ففي هذه الآية تسلية للمؤمنين، ونعي على الكافرين، ولما كانت الأرزاق الدنيوية والأخروية لا تحصل إلا بتقدير الله، ولن تنال إلا بمشيئة الله قال تعالى: {والله يرزق من يشاء بغير حساب}؛ فالرزق الدنيوي يحصل للمؤمن والكافر، وأما رزق القلوب من العلم والإيمان ومحبة الله وخشيته ورجائه ونحو ذلك فلا يعطيها إلا من يحبه.
[212] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کے سامنے دنیاوی زندگی کو مزین اور آراستہ کر دیتا ہے۔ دنیا کی یہ زندگی ان کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے خوشنما بنا دی جاتی ہے، پس وہ اس دنیا میں مگن اور اس پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو ان کی خواہشات، ان کے ارادے اور ان کا عمل سب دنیا کے لیے ہو جاتے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف بھاگتے ہیں، اسی کے حصول میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں، وہ اس دنیا اور اپنے جیسے دنیا داروں کی تعظیم کرتے ہیں اور اہل ایمان سے نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟‘‘ یہ ان کی کم عقلی اور کم نظری ہے کیونکہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے اس دنیا میں اہل ایمان اور اہل کفر ان سب کو آزمائش کی یہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، بلکہ اس دنیا کے اندر مومن کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان اور صبر کی بنا پر اس کی تکلیف میں تخفیف کر دیتا ہے کسی اور کے لیے یہ تخفیف نہیں ہوتی،
اس لیے تمام معاملہ اور تمام تر فضیلت وہ ہے جو آخرت میں عطا ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’اور پرہیز گار ان سے بلند ہوں گے قیامت کے دن‘‘ پس اہل تقویٰ قیامت کے روز بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی انواع و اقسام کی نعمتوں، مسرتوں، تروتازگی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں گے اور کفار ان کے نیچے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں مختلف قسم کے عذاب،
ابدی اہانت اور بدبختی میں مبتلا رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہ ہو گی۔ پس اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کے لیے تسلی اور کفار کے لیے ان کے برے انجام کی اطلاع ہے۔
چونکہ دنیاوی اور اخروی رزق صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی مشیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں اس لیے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ ’’اور اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے، بغیر حساب کے‘‘ پس دنیاوی رزق تو مومن اور کافر سب کو عطا ہوتا ہے۔ رہا علم و ایمان، محبت الٰہی ، اللہ کا ڈر اور اس پر امید تو یہ دلوں کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ صرف اسے عطا کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
{كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (213)}.
تھے لوگ
(پہلے) ایک ہی امت
(، پھر مختلف ہو گئے) تو بھیجے اللہ نے نبی، خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے اور نازل کیں اس نے ان کے ساتھ کتابیں، ساتھ حق کےتاکہ فیصلہ کرے وہ درمیان لوگوں کے اس بات میں کہ اختلاف کیا انھوں نے اس میں اور نہیں اختلاف کیا اس میں مگر ان ہی لوگوں نے جو دیے گئے کتاب، بعد اس کے کہ آگئے ان کے پاس واضح دلائل، آپس کی ضد سے، پھر ہدایت دی اللہ نے ان کو جو ایمان لائے، واسطے اس
(بات) کے کہ اختلاف کیا انھوں نے اس میں، حق سے، اپنے حکم سے اور اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہتا ہے طرف سیدھے راستے کی
(213)
#
{213}؛ [أي: كانوا مجتمعين على الهدى، وذلك عشرة قرون بعد نوح عليه السلام، فلما اختلفوا في الدِّين، فكفر فريقٌ منهم، وبقي الفريقُ الآخرُ على الهدى، وحصل النزاع، بعث اللهُ الرُّسل؛ ليفصلوا بين الخلائق، ويقيموا الحجة عليهم، وقيل: بل كانوا]؛ أي: كان الناس مجتمعين على الكفر والضلال والشقاء ليس لهم نور ولا إيمان، فرحمهم الله تعالى بإرسال الرسل إليهم {مبشرين}؛ من أطاع الله بثمرات الطاعات من الرزق والقوة في البدن والقلب والحياة الطيبة، وأعلى ذلك الفوز برضوان الله والجنة {ومنذرين}؛ من عصى الله بثمرات المعصية من حرمان الرزق والضعف والإهانة والحياة الضيقة، وأشد ذلك سخط الله والنار، وأنزل الكتب عليهم بالحق؛ وهو الإخبارات الصادقة والأوامر العادلة.
فكل ما اشتملت عليه الكتب فهو حق يفصل بين المختلفين في الأصول والفروع، وهذا هو الواجب عند الاختلاف والتنازع أن يرد الاختلاف إلى الله وإلى رسوله، ولولا أن في كتابه وسنة رسوله فصلَ النزاع لما أمر بالرد إليهما، ولما ذكر نعمته العظيمة بإنزال الكتب على أهل الكتاب، وكان هذا يقتضي اتفاقهم عليها واجتماعهم فأخبر تعالى أنهم بغى بعضهم على بعض، وحصل النزاع والخصام وكثرة الاختلاف، فاختلفوا في الكتاب الذي ينبغي أن يكونوا أولى الناس بالاجتماع عليه وذلك من بعد ما علموه وتيقنوه بالآيات البينات والأدلة القاطعات، وضلوا بذلك ضلالاً بعيداً، وهدى الله {الذين آمنوا}؛ من هذه الأمة {لما اختلفوا فيه من الحق}؛ فكل ما اختلف فيه أهل الكتاب، وأخطَؤوا فيه الحق والصواب، هدى الله للحق فيه هذه الأمة {بإذنه}؛ تعالى وتيسيره لهم ورحمته.
{والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ فعم الخلق تعالى بالدعوة إلى الصراط المستقيم عدلاً منه تعالى وإقامة حجة على الخلق؛ لئلا يقولوا ما جاءنا من بشير ولا نذير، وهدى ـ بفضله ورحمته وإعانته ولطفه ـ مَنْ شاء مِنْ عباده، فهذا فضله وإحسانه، وذاك عدله وحكمته تبارك وتعالى.
[213] یعنی وہ سب ہدایت پر جمع تھے اور یہ سلسلہ آدمuکے بعد دس صدیوں تک جاری رہا۔ پھر جب انھوں نے دین میں اختلاف کیا تو ایک گروہ کافر ہوگیا اوردوسرا گروہ دین پر قائم رہا اور ان کے درمیان اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے رسلoبھیجے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ کفر، ضلالت اور شقاوت پر مجتمع تھے۔ ان کے سامنے کوئی روشنی اور ایمان کی کوئی کرن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء و رسلoبھیج کر ان پر رحم فرمایا
﴿ مُبَشِّ٘رِیْنَ ﴾ ’’بشارت دینے والے۔‘‘ یعنی یہ رسول لوگوں کو خوشخبری سناتے کہ اللہ کی اطاعت کے ثمرات، رزق، قلب و بدن کی قوت اور پاکیزہ زندگی کی صورت میں ہوں گے… اور ان سب سے بڑھ کر وہ کامیابی ہے جو اللہ کی رضامندی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔
﴿وَمُنْذِرِیْنَ ﴾ اور اللہ کے نافرمانوں کو معصیت کے نتائج سے ڈراتے ہیں جو دنیا میں رزق سے محرومی، کمزوری، اہانت اور تنگ زندگی کی صورت میں نکلتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے بدترین عذاب، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے۔
﴿ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ان کے ساتھ کتاب اتاری ساتھ حق کے۔‘‘ اس سے مراد وہ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جنھیں اللہ کے رسول لے کر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ پس وہ تمام اخبار و احکام جن پر کتب الہٰیہ مشتمل ہیں، حق ہیں اور اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کرتے ہیں اور اختلاف اور تنازع واقع ہونے کی صورت میں فرض ہے کہ اختلاف اور تنازع کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی طرف لوٹایا جائے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان اختلاف کرنے والوں کے نزاع کا فیصلہ موجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جھگڑوں کو ان کی طرف لوٹانے کا حکم نہ دیتا۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر کتابیں نازل فرما کر اپنی عظیم نعمت کا ذکر کیا ہے۔ اس نعمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان کتابوں پر اتفاق کرتے ہوئے اکٹھے ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ انھوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں نزاعات، جھگڑے اور بے شمار اختلافات ظاہر ہوئے، چنانچہ انھوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا جس کے بارے میں ان کے لیے مناسب یہ تھا کہ وہ اس کتاب پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اتفاق کرنے والے ہوتے اور ان کا یہ رویہ آیات بینات اور دلائل قاطعہ کو جان لینے اور ان کی صداقت پر یقین ہو جانے کے بعد تھا۔ پس وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے۔
﴿ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’پس اللہ نے مومنوں کو راہ دکھا دی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی
﴿ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ ﴾ ’’ان چیزوں میں جن میں انھوں نے اختلاف کیا، حق سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس معاملے میں اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی جس میں اہل کتاب اختلافات کا شکار ہو کر حق و صواب سے دور ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی حق و صواب کی طرف راہنمائی فرمائی
﴿ بِـاِذْنِهٖ ﴾ ’’اپنے حکم سے‘‘ یعنی اپنے اذن اور اپنی رحمت سے حق و صواب کو ان کے لیے آسان کر دیا۔
﴿ وَاللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے عدل اور مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لیے تمام انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف عام دعوت دی ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں
﴿ مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ﴾ ’’ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور کوئی ڈرانے والا ہی نہیں آیا‘‘
(المائدۃ:5؍19)اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت اور لطف و اعانت سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔ پس ہدایت سے نوازنا، یہ اس کا فضل و احسان ہے اور ساری مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، یہ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔
{أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (214)}
کیا گمان کیا تم نے کہ داخل ہو جاؤ گے جنت میں، حالانکہ نہیں پیش آئیں تمھیں
(مشکلیں) مانند ان لوگوں کے جو گزر چکے تم سے پہلے، پہنچی ان کو سختی اور تکلیف اور ہلا ڈالے گئے وہ، یہاں تک کہ کہنے لگے رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس کے ساتھ، کب
(آئے گی) مدد اللہ کی؟ آگاہ رہو! بے شک مدد اللہ کی قریب ہی ہے
(214)
#
{214} يخبر تبارك وتعالى أنه لا بد أن يمتحن عباده بالسراء والضراء والمشقة كما فعل بمن قبلهم، فهي سنته الجارية التي لا تتغير ولا تتبدل، أن من قام بدينه وشرعه لا بد أن يبتليه، فإن صبر على أمر الله، ولم يبال بالمكاره الواقفة في سبيله، فهو الصادق الذي قد نال من السعادة كمالها ومن السيادة آلتها، ومن جعل فتنة الناس كعذاب الله، بأن صدته المكاره عما هو بصدده، وثنته المحن عن مقصده، فهو الكاذب في دعوى الإيمان، فإنه ليس الإيمان بالتحلي والتمني ومجرد الدعاوي؛ حتى تصدقه الأعمال أو تكذبه، فقد جرى على الأمم الأقدمين ما ذكر الله عنهم {مستهم البأساء والضراء}؛ أي: الفقر والأمراض في أبدانهم {وزلزلوا}؛ بأنواع المخاوف من التهديد بالقتل والنفي، وأخذ الأموال، وقتل الأحبة، وأنواع المضار، حتى وصلت بهم الحال، وآل بهم الزلزال إلى أن استبطؤوا نصر الله مع يقينهم به، ولكن لشدة الأمر وضيقه قال {الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله}؛ فلما كان الفرج عند الشدة، وكلما ضاق الأمر اتسع قال تعالى: {ألا إن نصر الله قريب}؛ فهكذا كل من قام بالحق فإنه يمتحن، فكلما اشتدت عليه وصعبت إذا صابر وثابر على ما هو عليه؛ انقلبت المحنة في حقه منحة، والمشقات راحات، وأعقبه ذلك الانتصار على الأعداء وشفاء ما في قلبه من الداء.
وهذه الآية نظير قوله تعالى: {أم حسبتم أن تدخلوا الجنة ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ويعلم الصابرين}؛ وقوله تعالى: {ألم. أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا وهم لا يفتنون، ولقد فتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين}؛ فعند الامتحان يكرم المرء أو يهان.
[214] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خوشحالی، بدحالی اور مشقت کے ذریعے سے ضرور اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ یہ اس کی سنت جاریہ ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا جو کوئی اس کے دین اور شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور آزماتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر کرتا ہے اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب اور تکالیف کی پروا نہیں کرتا تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور کامل ترین سعادت اور سیادت کی منزل کو پا لے گا اور جو کوئی لوگوں کے فتنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتا ہے بایں طور کہ لوگوں کی ایذائیں اور تکالیف اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہیں اور امتحان اور آزمائش اس کی منزل کھوٹی کردیتے ہیں، تو وہ اپنے دعوئ ایمان میں جھوٹا ہے۔ کیونکہ ایمان محض تمناؤں اور مجرد دعووں کا نام نہیں بلکہ اعمال اس کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں۔ سابقہ امتوں کو بھی اسی راستے سے گزرنا پڑا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ ﴾ ’’ان کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں۔‘‘ یعنی وہ فقر و فاقہ کا شکار ہوئے اور ان پر مختلف بیماریوں نے حملہ کیا
﴿ وَزُلْ٘زِلُوْا﴾ ’’اور وہ ہلا دیے گئے۔‘‘ یعنی قتل، جلا وطنی، مال لوٹ لینے اور عزیز و اقارب کو قتل کی دھمکی کے خوف اور دیگر نقصانات کے ذریعے سے ان کو ہلا ڈالا گیا، اس حالت نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر یقین رکھنے کے باوجود اس کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ معاملے کی شدت اور تنگی کی بنا پر
﴿ حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ﴾ ’’رسول اور اس کے مومن ساتھی بھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔‘‘
چونکہ ہر شدت کے بعد آسانی اور ہر تنگی کے بعد فراخی ہوتی ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے‘‘ پس ہر وہ شخص جو حق پر قائم رہتا ہے اس کا اسی طرح امتحان لیا جاتا ہے۔ جب بندۂ مومن پر سختیاں اور صعوبتیں یلغار کرتی ہیں اور وہ ثابت قدمی سے ان پر صبر کرتا ہے، تب یہ امتحان اس کے حق میں انعام اورمشقتیں راحتوں میں بدل جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے نوازا جاتا ہے اور وہ قلب کی تمام بیماریوں سے شفایاب ہو جاتا ہے۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے
﴿ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّؔا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ (آل عمران : 3؍142) ’’کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ اس نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو آزما کر معلوم ہی نہیں کیا اور نیز یہ کہ وہ صبر کرنے والوں کو معلوم کرے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے
﴿ الٓـمّٓۚ۰۰اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَؔكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۰۰ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَ٘لَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ الْكٰذِبِیْنَ﴾ (العنکبوت : 29؍1-3) ’’الم ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا، یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا ہے جو ان سے پہلے تھے اللہ ان کو ضرور آزما کر معلوم کرے گا جو اپنے دعوئ ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔‘‘ پس امتحان کے وقت ہی انسان کی عزت یا تحقیر ہوتی ہے۔
{يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (215)}
سوال کرتے ہیں آپ سے کہ وہ کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے! جو خرچ کرو تم مال سے تو وہ واسطے ماں باپ کے ہے اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کےاور جو کچھ کرو گے تم بھلائی سے، تو بلاشبہ اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے
(215)
#
{215} أي: يسألونك عن النفقة وهذا يعم السؤال عن المنفَق والمنفَق عليه، فأجابهم عنها فقال: {قل ما أنفقتم من خير}؛ أي: مال قليل أو كثير فأولى الناس به وأحقهم بالتقديم أعظمهم حقًّا عليك، وهم الوالدان الواجب برهما والمحرم عقوقهما، ومن أعظم برهما، النفقة عليهما، ومن أعظم العقوق ترك الإنفاق عليهما، ولهذا كانت النفقة عليهما واجبة على الولد الموسر، ومن بعد الوالدين الأقربون على اختلاف طبقاتهم، الأقرب، فالأقرب، على حسب القرب والحاجة، فالإنفاق عليهم صدقة وصلة {واليتامى}؛ وهم الصغار الذين لا كاسب لهم فهم في مظنة الحاجة، لعدم قيامهم بمصالح أنفسهم وفقد الكاسب، فوصى الله بهم العباد رحمة منه بهم ولطفاً {والمساكين}؛ وهم أهل الحاجات وأرباب الضرورات الذين أسكنتهم الحاجة، فينفَق عليهم لدفع حاجاتهم وإغنائهم {وابن السبيل}؛ أي: الغريب المنقطع به في غير بلده، فيعان على سفره بالنفقة التي توصله إلى مقصده.
ولما خصص الله تعالى هؤلاء الأصناف لشدة الحاجة، عمم تعالى فقال: {وما تفعلوا من خير}؛ من صدقة على هؤلاء وغيرهم بل ومن جميع أنواع الطاعات والقربات لأنها تدخل في اسم الخير {فإن الله به عليم}؛ فيجازيكم عليه، ويحفظه لكم كلٌّ على حسب نيته وإخلاصه، وكثرة نفقته وقلتها، وشدة الحاجة إليها، وعظم وقعها ونفعها.
[215] لوگ آپ سے خرچ کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ یہ سوال خرچ کرنے والے اور جس پر خرچ کیا جائے،
ان کے بارے میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں ان کو جواب عطا فرمایا ہے: ﴿ قُ٘لْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے، جو مال تم خرچ کرنا چاہو۔‘‘ یعنی تھوڑا یا زیادہ جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو، اس مال کے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے مستحق والدین ہیں جن کے ساتھ نیکی کرنا فرض اور ان کی نافرمانی حرام ہے اور والدین کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ان پر خرچ کرنا اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی ان پر خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے، اس لیے صاحب کشائش بیٹے کے لیے والدین پر خرچ کرنا فرض ہے۔
والدین کے بعد رشتہ داروں پر ان کے رشتوں کے مطابق خرچ کیا جائے اور
(اَ لْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَب) ’’جو زیادہ قریبی ہے وہ زیادہ مستحق ہے‘‘ کے اصول کو مدنظر رکھا جائے اور جو زیادہ قریبی اور ضرورت مند ہے اسے دیا جائے۔ پس ان پر خرچ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔
﴿وَالْ٘یَ٘تٰمٰى﴾ یتیموں سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں۔ ان کے بارے میں گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی کمانے والا موجود نہیں ہے اور وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے اپنے بندوں کو ان کے بارے میں وصیت کی ہے۔
﴿ وَالْ٘مَسٰكِیْنِ ﴾ مساکین سے مراد حاجت مند اور ضرورت مند لوگ ہیں جنھیں ضرورتوں اور حاجتوں نے غریب و مسکین بنا دیا ہو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے اور انھیں ضروریات سے بے نیاز کرنے کے لیے ان پر خرچ کیا جائے۔
﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ اس سے مراد وہ مسافر اور اجنبی شخص ہے جو زاد سفر ختم ہو جانے کی وجہ سے دیار غیر میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس پر خرچ کر کے اس کے سفر میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کی ان تمام اصناف کو خاص طور پر ذکر کرنے کے بعد اس حکم کو عام کر دیا اور فرمایا
﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ ﴾ ’’اور جو بھلائی تم کروگے۔‘‘ یعنی مذکورہ بالا اور دیگر لوگوں پر تم جو کچھ خرچ کرتے ہو بلکہ نیکی اور تقرب الٰہی کا جو کام بھی کرتے ہو، اس میں سب شامل ہیں کیونکہ یہ تمام کام ’’خیر‘‘ یعنی بھلائی کے تحت آتے ہیں
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اللہ
(بھلائی کے) ان تمام کاموں کو جانتا ہے‘‘ پس وہ تمھیں ان کا بدلہ عطا کرے گا اور اس کو وہ تمھارے لیے محفوظ رکھتا ہے، ہرشخص کو اس کی نیت، اخلاص، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قلت یا کثرت، ضرورت مندوں کی ضرورت کی شدت، اس خرچ کی وقعت اور فائدے کے مطابق جزا ملے گی۔
{كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (216)}
لکھ دیا گیا ہے تم پر لڑنااور وہ ناگوار ہے تمھارے لیےاور ممکن ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو اور وہ بہتر ہو تمھارے لیےاور ممکن ہے کہ تم پسند کرو کسی چیز کو اور وہ بری ہو تمھارے لیےاور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
(216)
#
{216} هذه الآية فيها فرض القتال في سبيل الله بعد ما كان المؤمنون مأمورين بتركه لضعفهم وعدم احتمالهم لذلك، فلما هاجر النبي - صلى الله عليه وسلم - إلى المدينة، وكثر المسلمون، وقووا؛ أمرهم الله تعالى بالقتال، وأخبر أنه مكروه للنفوس، لما فيه من التعب والمشقة وحصول أنواع المخاوف والتعرض للمتالف، ومع هذا فهو خير محض لما فيه من الثواب العظيم والتحرز من العقاب الأليم والنصر على الأعداء والظفر بالغنائم، وغير ذلك مما هو مُربٍ على ما فيه من الكراهة {وعسى أن تحبوا شيئاً وهو شر لكم}؛ وذلك مثل القعود عن الجهاد لطلب الراحة فإنه شرٌّ؛ لأنه يعقب الخذلان، وتسلط الأعداء على الإسلام وأهله، وحصول الذلِّ والهوان، وفوات الأجر العظيم، وحصول العقاب.
وهذه الآيات عامة مطردة في أن أفعال الخير التي تكرهها النفوس لما فيها من المشقة أنها خير بلا شك، وأن أفعال الشر التي تحبها النفوس لما تتوهمه فيها من الراحة واللذة فهي شرٌّ بلا شك، وأما أحوال الدنيا فليس الأمر مطرداً، ولكن الغالب على العبد المؤمن أنه إذا أحب أمراً من الأمور فقيض الله له من الأسباب ما يصرفه عنه أنه خير له، فالأوفق له في ذلك أن يشكر الله، ويعتقد الخير في الواقع، لأنه يعلم أن الله تعالى أرحم بالعبد من نفسه، وأقدر على مصلحة عبده منه، وأعلم بمصلحته منه كما قال تعالى: {والله يعلم وأنتم لا تعلمون}؛ فاللائق بكم أن تتمشوا مع أقداره سواء سرتكم أو ساءتكم.
[216] اس آیت کریمہ میں اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راستے میں
(کافروں کے ساتھ) قتال فرض کیا گیا ہے اس سے قبل وہ ترک قتال پر مامور تھے کیونکہ وہ کمزور تھے اور قتال کے متحمل نہیں تھے۔ جب رسول اللہeہجرت فرما کر مدینہ منورہ آ گئے، مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور وہ طاقتور ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتال کا حکم دے دیا۔ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ مشقت، تکان، مختلف قسم کے خوف اور ہلاکت کے خطرے کی وجہ سے نفس کو جہاد اور قتال ناپسند ہے۔ اس کے باوجود قتال خالص نیکی ہے جس میں بہت بڑا ثواب، جہنم کے عذاب سے حفاظت، دشمن پر فتح و نصرت اور مال غنیمت وغیرہ کا حصول ہے۔ یہ تمام چیزیں قتال کے ناپسند ہونے کے باوجود مرغوب ہوتی ہیں۔
﴿وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ﴾ ’’اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو‘‘ مثلاً: محض راحت اور آرام کی خاطر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنا۔ یہ بہت بڑی برائی ہے اس کا نتیجہ پسپائی، اسلام اور مسلمانوں پر کفار کے تسلط، ذلت اور رسوائی، بہت بڑے ثواب سے محرومی اور جہنم کے عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آیات کریمہ اس بات کی بابت عام ہیں کہ نیکی کے وہ کام جن کو نفوس ناپسند کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نہ کرنے میں راحت اور لذت کا واہمہ ہے، وہ بلاشک بہت برے کام ہیں۔
(اس لیے کہ نیکی کے کام ہر صورت میں کرنے ضروری ہیں، پسند ہوں یا ناپسند) رہے دنیا کے حالات تو یہ اصول عام نہیں۔ لیکن غالب طور پر بندۂ مومن جب کسی معاملے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جو اس کے اس خیال کو دور کر دیتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے لیے اچھا ہے۔ پس اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور فی الواقع خیر ہی کا اعتقاد رکھے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ اپنے آپ پر رحم کر سکتا ہے۔ اور اپنے بندے کے مصالح کی اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال کرتا ہے جتنی دیکھ بھال بندہ خود کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ اس کے مصالح کو جانتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ لہٰذا تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ ساتھ چلو، خواہ تمھیں اچھے لگیں یا برے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے قتال کا (مطلق) حکم دیا ہے اور اگر اس حکم کو مقید نہ کیا جائے تو اس میں حرام مہینوں میں قتال بھی شامل ہو جائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان حرام مہینوں کو مستثنی قرار دے دیا۔ چنانچہ فرمایا:
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (217)}.
وہ پوچھتے ہیں آپ سے حرمت والے مہینے کی بابت، لڑائی کرنے سے اس میں؟ کہہ دیجیے! لڑائی کرنا اس میں بہت بڑا
(گناہ) ہے،اور روکنا اللہ کے راستے سے،اور کفر کرنا اس کے ساتھ اور
(روکنا) مسجد حرام سے اور نکالنا اس کے رہنے والوں کو اس سے، بہت بڑا
(گناہ) ہے نزدیک اللہ کے،اور فتنہ کہیں بڑا
(گناہ) ہے قتل سے،اور وہ
(کافر تو) ہمیشہ لڑتے رہیں گے تم سے، یہاں تک کہ وہ پھیر دیں تمھیں تمھارے دین سے اگر وہ استطاعت رکھیں ، اور جو شخص پھر جائے تم میں سے اپنے دین سے، پھر وہ مر جائے ایسی حالت میں کہ وہ کافر ہی ہو، تو یہی لوگ ہیں، برباد ہوگئے اعمال ان کے بیچ دنیا اور آخرت کےاور یہی ہیں دوزخ والے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(217)
#
{217} الجمهور على أن تحريم القتال في الأشهر الحرم منسوخ بالأمر بقتال المشركين حيثما وجدوا. وقال بعض المفسرين: إنه لم ينسخ لأن المطلق محمول على المقيد، وهذه الآية مقيدة لعموم الأمر بالقتال مطلقاً، ولأن من جملة مزية الأشهر الحرم بل أكبر مزاياها تحريم القتال فيها، وهذا إنما هو في قتال الابتداء وأما قتال الدفع فإنه يجوز في الأشهر الحرم كما يجوز في البلد الحرام.
ولما كانت هذه الآية نازلة بسبب ما حصل لسرية عبد الله بن جحش وقتلهم عمرو بن الحضرمي وأخذهم أموالهم ـ وكان ذلك على ما قيل في شهر رجب ـ عيرهم المشركون بالقتال بالأشهر الحرم وكانوا في تعييرهم ظالمين إذ فيهم من القبائح ما بعضه أعظم مما عيروا به المسلمين، قال تعالى في بيان ما فيهم: {وصد عن سبيل الله}؛ أي: صد المشركين من يريد الإيمان بالله وبرسوله وفتنتهم من آمن به وسعيهم في ردهم عن دينهم وكفرهم الحاصل في الشهر الحرام والبلد الحرام الذي هو بمجرده كاف في الشرِّ، فكيف وقد كان في شهر حرام وبلد حرام {وإخراج أهله}؛ أي: أهل المسجد الحرام وهم النبي - صلى الله عليه وسلم -، وأصحابه لأنهم أحق به من المشركين وهم عُمَّاره على الحقيقة فأخرجوهم {منه}؛ ولم يمكنوهم من الوصول إليه مع أن هذا البيت سواء العاكف فيه والباد، فهذه الأمور كل واحد منها {أكبر من القتل}؛ في الشهر الحرام فكيف وقد اجتمعت فيهم فعلم أنهم فسقة ظلمة في تعييرهم المؤمنين.
ثم أخبر تعالى أنهم لن يزالوا يقاتلون المؤمنين، وليس غرضهم في أموالهم وقتلهم وإنما غرضهم أن يرجعوهم عن دينهم ويكونوا كفاراً بعد إيمانهم حتى يكونوا من أصحاب السعير، فهم باذلون قدرتهم في ذلك ساعون بما أمكنهم ويأبى الله إلا أن يتم نوره ولو كره الكافرون. وهذا الوصف عامٌّ لكل الكفار لا يزالون يقاتلون غيرهم حتى يردوهم عن دينهم، وخصوصاً أهل الكتاب من اليهود والنصارى الذين بذلوا الجمعيات، ونشروا الدعاة، وبثوا الأطباء، وبنوا المدارس لجذب الأمم إلى دينهم، وتدخيلهم عليهم كل ما يمكنهم من الشبه التي تشككهم في دينهم، ولكن المرجو من الله تعالى الذي منَّ على المؤمنين بالإسلام، واختار لهم دينه القيم، وأكمل لهم دينه أن يتم عليهم نعمته بالقيام به أتم قيام، وأن يخذل كل من أراد أن يطفئ نوره، ويجعل كيدهم في نحورهم، وينصر دينه، ويعلي كلمته وتكون هذه الآية صادقة على هؤلاء الموجودين من الكفار كما صدقت على من قبلهم {إن الذين كفروا ينفقون أموالهم ليصدوا عن سبيل الله، فسينفقونها ثم تكون عليهم حسرة ثم يغلبون، والذين كفروا إلى جهنم يحشرون}؛ ثم أخبر تعالى أن من ارتد عن الإسلام بأن اختار عليه الكفر واستمر على ذلك حتى مات كافراً {فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة}؛ لعدم وجود شرطها وهو الإسلام {وأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}.
ودلت الآية بمفهومها أن من ارتد ثم عاد إلى الإسلام أنه يرجع إليه عمله [الذي قبل ردته]، وكذلك من تاب من المعاصي فإنها تعود إليه أعماله المتقدمة.
[217] جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہو گئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔
(اشارہ ہے البقرۃ؍191، النساء؍89،91 کی طرف۔ مترجم)اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے، جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔
اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبد اللہ بن جحشtکے سریہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کر دیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا ۔۔۔روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لیے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
﴿وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کی راہ سے روکنا۔‘‘ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اورحرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ۔ اور قباحت کے لیے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہو گا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔
﴿وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ﴾ ’’اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا‘‘ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرمeاور صحابہ کرامyہیں، کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لیے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لیے برابر حیثیت رکھتا ہے۔
﴿اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ ’’خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے۔ تب ان کا کیا حال ہے جب کہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق و فاجر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کوقتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہو جائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لیے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔
تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسرپیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود و نصاری نے اس مقصد کے لیے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کیے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کر لیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لیے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لیے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گاجو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا۔ اور سورۃالانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی،
اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ١ؕ۬ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ﴾ (الانفال 8؍36) ’’بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کار یہ مال خرچ کرنا ان کے لیے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتی کہ کفر کی حالت میں مر جائے
﴿فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے‘‘ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے
﴿وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہو جاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (218)}
بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں یہی لوگ امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی، اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے
(218)
#
{218} هذه الأعمال الثلاثة هي عنوان السعادة وقطب رَحَى العبودية، وبها يعرف ما مع الإنسان من الربح والخسران، فأما الإيمان فلا تسأل عن فضيلته وكيف تسأل عن شيء هو الفاصل بين أهل السعادة وأهل الشقاوة، وأهل الجنة من أهل النار، وهو الذي إذا كان مع العبد قبلت أعمال الخير منه، وإذا عدم منه لم يقبل له صرف ولا عدل ولا فرض ولا نفل، وأما الهجرة فهي مفارقة المحبوب المألوف لرضا الله تعالى فيترك المهاجر وطنه وأمواله وأهله وخلانه تقرباً إلى الله ونصرة لدينه، وأما الجهاد فهو بذل الجهد في مقارعة الأعداء، والسعي التام في نصرة دين الله وقمع دين الشيطان، وهو ذروة الأعمال الصالحة وجزاؤه أفضل الجزاء، وهو السبب الأكبر لتوسيع دائرة الإسلام، وخذلان عباد الأصنام وأمن المسلمين على أنفسهم وأموالهم وأولادهم، فمن قام بهذه الأعمال الثلاثة على لأوائها ومشقتها، كان لغيرها أشد قياماً به وتكميلاً، فحقيق بهؤلاء أن يكونوا هم الراجون رحمة الله لأنهم أتوا بالسبب الموجب للرحمة، وفي هذا دليل على أن الرجاء لا يكون إلا بعد القيام بأسباب السعادة، وأما الرجاء المقارن للكسل وعدم القيام بالأسباب فهذا عجز وتمنٍّ وغرور، وهو دالٌّ على ضعف همة صاحبه، ونقص عقله، بمنزلة من يرجو وجود الولد بلا نكاح، ووجود الغلة بلا بذر وسقي ونحو ذلك.
وفي قوله: {أولئك يرجون رحمة الله}؛ إشارة إلى أن العبد ولو أتى من الأعمال بما أتى به لا ينبغي له أن يعتمد عليها ويعول عليها، بل يرجو رحمة ربه ويرجو قبول أعماله ومغفرة ذنوبه وستر عيوبه، ولهذا قال: {والله غفور}؛ أي: لمن تاب توبة نصوحاً، {رحيم}؛ وسعت رحمته كلَّ شيء وعمَّ جُودُه وإحسانُه كلَّ حيٍّ، وفي هذا دليل على أن من قام بهذه الأعمال المذكورة حصل له مغفرة الله، إذ الحسنات يذهبن السيئات، وحصلت له رحمة الله، وإذا حصلت له المغفرة اندفعت عنه عقوبات الدنيا والآخرة التي هي آثار الذنوب التي قد غفرت، واضمحلت آثارها، وإذا حصلت له الرحمة حصل على كل خير في الدنيا والآخرة، بل أعمالهم المذكورة من رحمة الله بهم، فلولا توفيقه إياهم لم يريدوها، ولولا إقدارهم عليها، لم يقدروا عليها ولولا إحسانه لم يتمها ويقبلها منهم، فله الفضل أولاً وآخراً وهو الذي مَنَّ بالسبب والمسبب، ثم قال تعالى:
[218] آیت کریمہ میں مذکور تینوں اعمال سعادت کا عنوان اور عبودیت کا مرکز و محور ہیں، انھی اعمال سے پہچان ہوتی ہے کہ انسان کے پاس کیا گھاٹے یا منافع کا سودا ہے۔ رہا ایمان تو اس کی فضیلت کے بارے میں مت پوچھیے اور آپ اس چیز کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے ہیں جو اہل سعادت اور اہل شقاوت اور جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان حد فاصل ہو؟ یہ ایمان ہی ہے کہ جب بندہ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے تو بھلائی کے تمام اعمال اس سے قبول کیے جاتے ہیں اور اگر وہ اس سے محروم ہو تو پھر اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قابل قبول نہیں۔ رہی ہجرت! تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے محبوب اور مالوف وطن سے جدائی کو قبول کرنا ہے۔ پس مہاجر محض تقرب الٰہی اور نصرت دین کی خاطر اپنا وطن، اپنا مال و متاع، اپنے اہل و عیال اور اپنے دوست و احباب کو چھوڑ دیتا ہے۔
رہا جہاد تو یہ دشمنان اسلام کے خلاف پوری طاقت سے جدوجہد کرنے، پوری کوشش سے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور شیطانی نظریات کے قلع قمع کرنے کا نام ہے۔ جہاد اعمال صالحہ میں سب سے بڑا عمل ہے اور اس کی جزا بھی ہر عمل کی جزا سے افضل ہے۔ جہاد دائرہ اسلام کی توسیع، بتوں کے پجاریوں کی پسپائی اور مسلمانوں، ان کی جان و مال اور ان کی اولاد کے لیے امن کا سب سے بڑا وسیلہ اور سبب ہے۔ جو کوئی ان تینوں اعمال کو، ان کی سختیوں اور مشقتوں کے باوجود بجا لاتا ہے وہ دیگر اعمال کو بدرجہ اولی بجا لانے اور ان کی تکمیل پر قادر ہے۔ یہی لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بنیں کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ایسا سبب پیش کیا ہے جو اس کی رحمت کا موجب ہے۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ سعادت کے اسباب کو عمل میں لا کر ہی سعادت کی امید کی جا سکتی ہے۔ رہی وہ امید جو سستی اور کاہلی پر مبنی ہو اور جس سے پہلے اسباب کو عمل میں نہ لایا گیا ہو، تو وہ محض عجز، آرزو اور فریب ہے اور اس قسم کی امید، کم ہمتی اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو نکاح کے وجود کے بغیر ہی اولاد کی اور بیج بوئے اور پانی دیے بغیر ہی غلے کی فصل کی امید رکھتا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿اُولٰٓىِٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ﴾ ’’یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں‘‘ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندۂ مومن خواہ کتنے ہی بڑے بڑے اعمال لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو، تب بھی اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان اعمال پر بھروسہ کرے، بلکہ وہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھے وہ یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے اعمال قبول ہو جائیں گے،
اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کر دی جائے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ ﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا‘‘ یعنی جو خالص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے
﴿رَّحِیْمٌ﴾ ’’رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس کی رحمت ہر چیز پر محیط اور اس کی سخاوت اور احسان ہر ذی حیات کے لیے عام ہے۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی ان مذکورہ اعمال کو بجا لائے گا، وہ مغفرت الٰہی سے بہرہ ور ہوگا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجائے گی اور بندۂ مومن جب اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کر لے گا تو دنیا و آخرت کی تمام عقوبتیں اس سے دور ہو جائیں گی۔ یہ عقوبتیں درحقیقت گناہوں کے اثرات ہیں ان گناہوں کو بخش دیا جائے گا تو یہ اثرات بھی ختم ہو جائیں گے۔
جب بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ مند ہو جاتا ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اسے حاصل ہو جاتی ہے، بلکہ مذکورہ اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی توفیق عطا نہ فرماتا تو کبھی ان اعمال کا ارادہ بھی نہ کر سکتے، اگر اللہ تعالیٰ ان اعمال کو بجا لانے کی قدرت عطا نہ کرتا، تو وہ ان اعمال کو بجا لانے پر کبھی قادر نہ ہوتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان شامل حال نہ ہوتا تو اللہ ان اعمال کو تکمیل تک پہنچاتا نہ ان اعمال کو قبول کرتا۔ پس اول و آخر وہی فضل و کرم کا مالک ہے اور وہی ہے جو سبب اور مسبب سے نوازتا ہے۔
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا}
وہ پوچھتے ہیں آپ سے شراب اور جوئے کی بابت، کہہ دیجیے! ان دونوں میں گناہ ہے بڑااور
(کچھ) فائدے ہیں، لوگوں کے لیے اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدے سے،
#
{219} أي: يسألك يا أيها الرسولُ، المؤمنون عن أحكام الخمر والميسر، وقد كانا مستعمليْنِ في الجاهلية وأول الإسلام، فكأنه وقع فيهما إشكال، فلهذا سألوا عن حكمهما، فأمر الله تعالى نبيَّه أن يبين لهم منافعهما ومضارهما ليكون ذلك مقدمة لتحريمهما وتحتيم تركهما، فأخبر أن إثمهما ومضارهما وما يصدر عنهما من ذهاب العقل والمال والصد عن ذكر الله وعن الصلاة والعداوة والبغضاء أكبر مما يظنونه من نفعهما من كسب المال بالتجارة بالخمر وتحصيله بالقمار والطرب للنفوس عند تعاطيهما، وكان هذا البيان زاجراً للنفوس عنهما لأن العاقل يرجح ما ترجحت مصلحته، ويجتنب ما ترجحت مضرته، ولكن لما كانوا قد ألفوهما، وصعب التحتيم بتركهما أول وهلة؛ قدم هذه الآية مقدمة للتحريم الذي ذكره في قوله: {يا أيها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان} إلى قوله: {منتهون}، وهذا من لطفه ورحمته وحكمته، ولهذا لما نزلت قال عمر رضي الله عنه: انتهينا انتهينا.
فأما الخمر فهو كل مسكر خامر العقل وغطاه من أي نوع كان، وأما الميسر فهو كل المغالبات التي يكون فيها عوض من الطرفين من النرد والشطرنج وكل مغالبة قولية أو فعلية بعوض، سوى مسابقة الخيل والإبل والسهام؛ فإنها مباحة لكونها معينة على الجهاد؛ [فلهذا] رخص فيها الشارع.
{وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (219) فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ}
وهذا سؤال عن مقدار ما ينفقونه من أموالهم، فيسر الله لهم الأمر وأمرهم أن ينفقوا العفو، وهو المتيسر من أموالهم الذي لا تتعلق به حاجتهم وضرورتهم، وهذا يرجع إلى كل أحد بحسبه من غني وفقير ومتوسط، كل له قدرة على إنفاق ما عفا من ماله ولو شق تمرة، ولهذا أمر الله رسوله - صلى الله عليه وسلم -، أن يأخذ العفو من أخلاق الناس وصدقاتهم، ولا يكلفهم ما يشق عليهم؛ ذلك بأن الله تعالى لم يأمرنا بما أمرنا به حاجة منه لنا أو تكليفاً لنا بما يشق، بل أمرنا بما فيه سعادتنا وما يسهل علينا وما به النفع لنا ولإخواننا فيستحق على ذلك أتم الحمد.
ولما بين تعالى هذا البيان الشافي وأطلع العباد على أسرار شرعه قال: {كذلك يبين الله لكم الآيات}؛ أي: الدالات على الحق المحصلات للعلم النافع والفرقان، {لعلكم تتفكرون في الدنيا والآخرة}؛ أي: لكي تستعملوا أفكاركم في أسرار شرعه، وتعرفوا أن أوامره فيها مصالح الدنيا والآخرة، وأيضاً لكي تتفكروا في الدنيا وسرعة انقضائها فترفضوها، وفي الآخرة وبقائها، وأنها دار الجزاء فتعمروها.
[219] یعنی اے رسول! اہل ایمان آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ صحابہ کرام زمانہ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب وغیرہ استعمال کیا کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کوئی اشکال واقع ہوا تھا اس لیے انھوں نے ان کے احکام کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اہل ایمان پر شراب اور جوئے کے فوائد اور نقصانات واضح کر دیں، تاکہ یہ وضاحت شراب اور جوئے کی تحریم اور ان کو حتمی طور پر ترک کر دینے کا مقدمہ بن جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے گناہ اور ان کے نقصانات اور ان کے اثرات سے آگاہ فرمایا، ان اثرات اور نقصانات میں عقل اور مال کا زائل ہونا، ان کا اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکنا اور عداوت اور بغض پیدا کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام نقصانات ایسے ہیں جو ان کے مزعومہ فوائد، مثلاً شراب کی تجارت اور جوئے کے ذریعے سے اکتساب مال، شراب نوشی اور جوا کھیلتے وقت حاصل ہونے والے طرب اور فرحت وغیرہ سے، بہت بڑے ہیں۔
نیز یہ بیان نفوس کے لیے زجر و توبیخ کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ عقل مند شخص ہمیشہ اس چیز کو ترجیح دیتا ہے جس کے فوائد راجح ہوں اور اس چیز سے اجتناب کرتا ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوں۔ لیکن چونکہ یہ حضرات شراب اور جوئے کے عادی اور ان سے مالوف تھے، لہٰذا فوری اور حتمی طور پر ان کو چھوڑنا ان کے لیے سخت مشکل تھا اس لیے
(تدریج کے طور پر) اس آیت کریمہ کو پہلے نازل فرمایا۔ چنانچہ یہ آیت اس آیت کے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْ٘مَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ (المائدۃ:5؍90) ’’اے ایمان والے لوگو! شراب، جوا،
بت اور پانسے تو ناپاک اور شیطان کے کام ہیں۔‘‘ اور آخر میں فرمایا: ﴿فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ﴾(المائدۃ:5؍91) ’’کیا تم باز آؤ گے؟‘‘ اور یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم، اس کی رحمت اور اس کی حکمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عمرtپکار اٹھے، اِنْتَھَیْنَا اِنْتَھَیْنَا ’’اے ہمارے رب!ہم باز آئے، ہم باز آئے۔‘‘
(سنن الترمذی، تفسیر القرآن، سورۃ المائدۃ، حديث:3049)
رہی شراب، تو اس سے مراد ہر نشہ دینے والی چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو۔
اور جوئے سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مدمقابل کو ہرانے اور خود جیتنے کے لیے مقابلہ ہو اور فریقین کی طرف سے جیتنے پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو، مثلاً شطرنج کا کھیل اور تمام قولی اور فعلی مقابلے جن کی ہار جیت پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ گھوڑ دوڑ، اونٹ دوڑ میں مسابقت اور تیراندازی کا مقابلہ جائز ہے۔ کیونکہ یہ کام جہاد میں مدد دیتے ہیں اس لیے شارع نے ان مقابلوں کی رخصت دی ہے۔
اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے! جو ضرورت سے زائد ہو، اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے
(اپنے) احکام ،تاکہ تم غور و فکر کرو
(219) دنیا اور آخرت کے بارے میں ،
[219] یہ سوال اس بارے میں ہے کہ اہل ایمان اپنے اموال میں سے کتنی مقدار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تمام معاملے کو نہایت آسان بنا دیا اور حکم دیا کہ وہ صرف وہی چیز خرچ کریں جو فاضل ہو۔ اس سے مراد ان کے اموال میں وہ زائد حصہ ہے جس کا تعلق ان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے نہ ہو۔ یہ حکم ہر شخص کی طرف اس کی استطاعت کے مطابق لوٹتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو، فقیر ہو یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص اس مال کو خرچ کرنے پر قادر ہے جو اس کی ضروریات سے فاضل ہو خواہ یہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
بنابریں رسول اللہeنے حکم دیا کہ لوگوں کے مال اور صدقات میں سے فاضل مال وصول کیا جائے اور انھیں کسی ایسے امر کا مکلف نہ کیا جائے جو ان پر شاق گزرتا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی ایسی چیز کے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا جس کی ہمیں خود ضرورت ہو، اور نہ ہمیں کسی ایسے امر کا مکلف بنایا ہے جو ہم پر شاق گزرے، بلکہ اس نے ہمیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ہمارے لیے آسان اور جس میں ہماری سعادت ہو اور جس میں ہمارا یا ہمارے بھائیوں کا کوئی فائدہ ہو۔ پس وہ اس عنایت اور نوازش پر کامل ترین حمد و ثنا کا مستحق ہے۔
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حکم کو اچھی طرح واضح کر دیا اور اپنے بندوں کو اسرار شریعت سے آگاہ کر دیا،
تو فرمایا :﴿كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ﴾ ’’اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنے احکام کھول کھول کربیان کرتا ہے۔‘‘ یعنی یہ آیات حق پر دلالت کرتی ہیں اور علم نافع اور حق و باطل کے درمیان فرق کے لیے کسوٹی عطا کرتی ہیں۔
﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ۰۰ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’تاکہ تم دنیا و آخرت
(کی باتوں) میں غوروفکر کرو۔‘‘ یعنی، تاکہ تم اسرار شریعت معلوم کرنے کے لیے اپنے فکر و تدبر کو استعمال میں لاؤ اور تمھیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں دنیا و آخرت کے مصالح اور فوائد پوشیدہ ہیں اور تاکہ تم دنیا اور اس کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھنے پر اور آخرت اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے پر غور و فکر کرو۔ نیز یہ کہ آخرت جزا و سزا کا گھر ہے۔ تاکہ تم اسے آباد کرو۔
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (220)}.
اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے یتیموں کے بارے میں، کہہ دیجیے! اصلاح کرنا ان کی بہتر ہےاور اگر باہم ملا لو تم ان کو تو وہ بھائی ہیں تمھارے،اور اللہ جانتا ہے فسادی کو اصلاح کرنے والے سے،اور اگر چاہتا اللہ تو تکلیف میں ڈال دیتا تمھیں، بے شک اللہ بہت زبردست، حکمت والا ہے
(220)
#
{220} لما نزل قوله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلماً إنما يأكلون في بطونهم ناراً وسيصلون سعيراً}؛ شق ذلك على المسلمين وعزلوا طعامهم عن طعام اليتامى خوفاً على أنفسهم من تناولها ولو في هذه الحالة التي جرت العادة بالمشاركة فيها، وسألوا النبي - صلى الله عليه وسلم -، عن ذلك ، فأخبرهم تعالى أن المقصود إصلاح أموال اليتامى بحفظها وصيانتها والاتجار فيها، وأن خلطتهم إياهم في طعام وغيره جائز على وجه لا يضر باليتامى لأنهم إخوانكم ومن شأن الأخ مخالطة أخيه، والمرجع في ذلك إلى النية والعمل، فمن علم [اللهُ] من نيته أنه مصلح لليتيم وليس له طمع في ماله فلو دخل عليه شيء من غير قصد لم يكن عليه بأس، ومن علم الله من نيته أن قصده بالمخالطة التوصل إلى أكلها [وتناولها] فذلك الذي حُرِّجَ وأُثِّم، والوسائل لها أحكام المقاصد.
وفي هذه الآية دليل على جواز أنواع المخالطات في المآكل والمشارب والعقود وغيرها، وهذه الرخصة لطف من الله تعالى وإحسان وتوسعة على المؤمنين وإلا، فلو {شاء الله لأعنتكم}؛ أي: شق عليكم بعدم الرخصة بذلك فحُرِّجْتُم وشُقَّ عليكم وأثمتم {إن الله عزيز}؛ أي: له القوة الكاملة والقهر لكل شيء ولكنه مع ذلك {حكيم}؛ لا يفعل إلا ما هو مقتضى حكمته الكاملة وعنايته التامة فعزته لا تنافي حكمته فلا يقال إنه ما شاء فعل وافق الحكمة أو خالفها، بل يقال إن أفعاله وكذلك أحكامه تابعة لحكمته فلا يخلق شيئًا عبثًا بل لا بد له من حكمة عرفناها أم لم نعرفها، وكذلك لم يشرع لعباده شيئًا مجردًا عن الحكمة، فلا يأمر إلا بما فيه مصلحة خالصة أو راجحة ولا ينهى إلا عما فيه مفسدة خالصة أو راجحة لتمام حكمته ورحمته.
[220] جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَ٘اْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْ٘یَ٘تٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَ٘اْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا﴾ (النساء : 4؍10) ’’بے شک وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘ تو یہ آیت کریمہ مسلمانوں پر بہت شاق گزری اور انھوں نے یتیموں کے کھانے سے اپنے کھانے کو اس خوف سے علیحدہ کر لیا کہ کہیں وہ ان کا کھانا تناول نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ان حالات میں اموال میں شراکت کی عادت جاری و ساری رہی۔ پس صحابہ کرامyنے اس بارے میں رسول اللہeسے سوال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ اصل مقصد تو یتیموں کے مال کی اصلاح، اس کی حفاظت اور
(اضافے کی خاطر) اس کی تجارت ہے اگر ان کا مال دوسرے مال میں اس طرح ملا لیا جائے کہ یتیم کے مال کو نقصان نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمھارے بھائی ہیں اور بھائی کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل جل کر رہتا ہے۔ اس بارے میں اصل معاملہ نیت اور عمل کا ہے۔ جس کی نیت کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ یتیم کے لیے مصلح کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسے یتیم کے مال کاکوئی لالچ نہیں، تو اگر بغیر کسی قصد کے اس کے پاس کوئی چیز آ بھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی نیت، اللہ کے علم میں، یتیم کے مال کو اپنے مال میں ملانے سے اس کوہڑپ کرنا ہو تو اس میں یقیناً حرج اور گناہ ہے اور قاعدہ ہے
(اَلْوَسَائِلُ لَھَا اَحْکَامُ الْمَقَاصِدِ ) ’’وسائل کے وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماکولات و مشروبات اور عقود وغیرہ میں مخالطت
(مل جل کر کرنا) جائز ہے اور یہ رخصت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور ان کے لیے وسعت ہے۔ ورنہ
﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ﴾ ’’اگر اللہ چاہتا تو تمھیں دشواری میں مبتلا کر دیتا۔‘‘ یعنی اس بارے میں عدم رخصت تم پر بہت شاق گزرتی اور تم حرج، مشقت اور گناہ میں مبتلا ہو جاتے
﴿اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ قوت کاملہ کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ لیکن بایں ہمہ وہ حکمت والا ہے، وہ صرف وہی فعل سرانجام دیتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کاملہ اور عنایت تامہ کرتی ہے۔ پس اس کی عزت و غلبہ اس کی حکمت کے منافی نہیں ہے لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے خواہ اس کی حکمت کے مطابق ہو یا مخالف ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں کہا جائے گا کہ اس کے افعال اور احکام اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے خواہ اس حکمت تک ہماری رسائی ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کوئی ایسا شرعی حکم مشروع نہیں کیا جو حکمت سے خالی ہو، اس لیے وہ صرف اس بات کا حکم دیتا ہے جس میں ضرور کوئی فائدہ ہو یا فائدہ غالب ہو اور اسی طرح منع بھی صرف اسی بات سے کرتا ہے جس میں یقینی نقصان یا نقصان کا غالب امکان ہو، اور ایسا اس لیے ہے کہ اس کا ہر کام حکمت اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔
{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (221)}
اور نہ نکاح کرو تم مشرک عورتوں سے، یہاں تک کہ ایمان لائیں وہ، اور لونڈی مومنہ بہتر ہے، ایک مشرک عورت سے اگرچہ وہ تمھیں بھلی ہی لگے،اور نہ نکاح میں دو تم
(مسلمان عورتیں) مشرک مردوں کے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور البتہ غلام مومن بہت بہتر ہے مشرک سے، اگرچہ وہ تمھیں بھلا ہی لگے، یہ
(مشرک) بلاتے ہیں طرف آگ کی، اور اللہ بلاتا ہے طرف جنت کی اور
(طرف) مغفرت کی اپنے حکم سے،اور بیان کرتا ہے اپنی آیتیں واسطے لوگوں کے،تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
(221)
#
{221} أي: {ولا تنكحوا}؛ النساء، {المشركات}؛ ما دمن على شركهن {حتى يؤمن}؛ لأن المؤمنة ولو بلغت من الدمامة ما بلغت خير من المشركة ولو بلغت من الحسن ما بلغت، وهذه عامة في جميع النساء المشركات، وخصصتها آية المائدة في إباحة نساء أهل الكتاب كما قال تعالى: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب}؛ {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}؛ وهذا عام لا تخصيص فيه، ثم ذكر تعالى الحكمة في تحريم نكاح المسلم أو المسلمة لمن خالفهما في الدين فقال: {أولئك يدعون إلى النار}؛ أي: في أقوالهم وأفعالهم وأحوالهم، فمخالطتهم على خطر منهم، والخطر ليس من الأخطار الدنيوية إنما هو الشقاء الأبدي.
ويستفاد من تعليل الآية النهي عن مخالطة كل مشرك ومبتدع؛ لأنه إذا لم يجز التزوج مع أن فيه مصالح كثيرة؛ فالخلطة المجردة من باب أولى وخصوصاً الخلطة التي فيها ارتفاع المشرك ونحوه على المسلم كالخدمة ونحوها.
وفي قوله: {ولا تنكحوا المشركين}؛ دليل على اعتبار الولي في النكاح {والله يدعو إلى الجنة والمغفرة}؛ أي: يدعو عباده لتحصيل الجنة والمغفرة التي من آثارها دفع العقوبات؛ وذلك بالدعوة إلى أسبابها من الأعمال الصالحة والتوبة النصوح والعلم النافع والعمل الصالح، {ويبين آياته}؛ أي: أحكامه وحكمها {للناس لعلهم يتذكرون}؛ فيوجب لهم ذلك التذكر لما نسوه وعلم ما جهلوه والامتثال لما ضيَّعوه. ثم قال تعالى:
[221] یعنی ان مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جو اپنے شرک پر قائم ہوں
﴿حَتّٰى یُؤْمِنَّ﴾ ’’حتی کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘ کیونکہ ایک مومن عورت خواہ وہ کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہوں، مشرک عورت سے بہرحال بہتر ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ حسین کیوں نہ ہو۔ یہ حکم تمام مشرک عورتوں کے بارے میں عام ہے اور اس حکم کے عموم کو سورۂ مائدہ کی اس آیت نے خاص کر دیا ہے جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اباحت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے
﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ﴾ (المائدۃ : 5؍5) ’’اور اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں۔‘‘ فرمایا
﴿وَلَا تُنْكِحُوا الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا﴾ ’’اور اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘ یہ حکم عام ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کا ذکر فرمایا ہے جو ایک مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں پنہاں ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿اُولٰٓىِٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ﴾ ’’یہ
(مشرک) آگ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ اختلاط میں سخت خطرہ ہے اور یہ خطرہ کوئی دنیاوی خطرہ نہیں، بلکہ یہ تو ابدی بدبختی ہے۔
اس آیت کریمہ کی علت سے مشرک اور بدعتی سے اختلاط کی ممانعت مستفاد ہوتی ہے کیونکہ مشرکین سے نکاح جائز نہیں، حالانکہ اس میں بہت سے مصالح ہیں۔۔۔ پس مجرد اختلاط تو بدرجہ اولی جائز نہ ہو گا۔ خاص طور پر جبکہ مشرک مسلمان پر معاشرتی طور پر فوقیت رکھتا ہو، مثلاً مسلمان مشرک کا خادم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿وَلَا تُنْكِحُوا الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ ’’مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا اعتبار ہے
(یعنی اس کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہو گا) ﴿وَاللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْ٘مَغْفِرَةِ﴾ ’’اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت کے حصول اور اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے جس کے اثرات یہ ہیں کہ اس سے تمام عذاب دور ہو جاتے ہیں۔ یہ دعوت درحقیقت اعمال صالحہ، خالص توبہ اور علم نافع کی طرف دعوت ہے جو حصول جنت اور مغفرت کے اسباب ہیں۔
﴿وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ﴾ ’’وہ اپنی آیات بیان کرتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت کے حکم اور اپنے دیگر احکام کو واضح کرتا ہے
﴿لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’لوگوں کے لیے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ تب یہ آیات لوگوں کے لیے نصیحت اور عبرت کا موجب بنتی ہیں جسے انھوں نے فراموش کر ڈالا تھا۔ انھیں وہ علم عطا کرتی ہیں جس سے وہ جاہل تھے اور انھیں وہ اطاعت اور فرماں برداری عطا کرتی ہیں جسے انھوں نے ضائع کر ڈالا تھا۔
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (223)}
اور سوال کرتے ہیں آپ سے حیض کے بارے میں، کہہ دیجیے! وہ گندگی ہے، پس الگ رہو تم عورتوں سے حیض میں، اور نہ قربت
(صحبت) کرو تم ان سے، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پس جب وہ پاک ہو جائیں، تو آؤ ان کے پاس جہاں سے حکم دیا تم کو اللہ نے، بے شک اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور پسند کرتا ہے پاک صاف رہنے والوں کو
(222) تمھاری عورتیں کھیتی ہیں تمھارے لیے، پس آؤ تم اپنی کھیتی میں جس طرح سے چاہو،اورآگے بھیجو
(نیک عمل) واسطے اپنے نفسوں کے،اور ڈرو تم اللہ سے اور جان لو بلاشبہ تم ملنے والے ہو اللہ سے،اور خوشخبری سنا دیجیے مومنوں کو
(223)
#
{222} يخبر تعالى عن سؤالهم عن المحيض وهل تكون المرأة بحالها بعد الحيض كما كانت قبل ذلك أم تجتنب مطلقاً كما يفعله اليهود؟ فأخبر تعالى أن الحيض أذى وإذا كان أذى فمن الحكمة أن يمنع الله تعالى عباده عن الأذى وحده، ولهذا قال: {فاعتزلوا النساء في المحيض}؛ أي: مكان الحيض وهو الوطء في الفرج خاصة فهذا المحرم إجماعاً، وتخصيص الاعتزال في المحيض يدل على أن مباشرة الحائض وملامستها في غير الوطء في الفرج جائز، لكن قوله: {ولا تقربوهن حتى يطهرن}؛ يدل على ترك المباشرة فيما قرب من الفرج وذلك فيما بين السرة والركبة ينبغي تركه كما كان النبي - صلى الله عليه وسلم -، إذا أراد أن يباشر امرأته وهي حائض أمرها أن تتزر فيباشرها ، وحد هذا الاعتزال وعدم القربان للحيض {حتى يطهرن}؛ أي: ينقطع دمهن، فإذا انقطع الدم زال المنع الموجود وقت جريانه، الذي كان لحله شرطان: انقطاع الدم والاغتسال منه، فلما انقطع الدم زال الشرط الأول وبقي الثاني فلهذا قال: {فإذا تطهرن}؛ أي: اغتسلن، {فأتوهن من حيث أمركم الله}؛ أي: في القبل لا في الدبر لأنه محل الحرث، وفيه دليل على وجوب الاغتسال للحائض وإن انقطاع الدم شرط لصحته، ولما كان هذا المنع لطفاً منه تعالى بعباده وصيانة عن الأذى، قال تعالى: {إن الله يحب التوابين}؛ أي: من ذنوبهم على الدوام، {ويحب المتطهرين}؛ أي: المتنزهين عن الآثام، وهذا يشمل التطهر الحسي من الأنجاس والأحداث، ففيه مشروعية الطهارة مطلقاً؛ لأن الله تعالى يحب المتصف بها، ولهذا كانت الطهارة مطلقاً شرطاً لصحة الصلاة والطواف وجواز مس المصحف، ويشمل التطهر المعنوي عن الأخلاق الرذيلة والصفات القبيحة والأفعال الخسيسة.
[222] اللہ تعالیٰ حیض کے بارے میں اہل ایمان کے اس سوال سے آگاہ فرماتا ہے کہ آیا ایام حیض کے شروع ہونے کے بعد عورت سے اسی طرح اختلاط رکھا جائے جس طرح ایام حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض ایک نجاست ہے۔ جب حیض ایک نجاست ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نجاست سے روک کر اس کی حدود مقرر کر دے، اس لیے فرمایا
﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْ٘مَحِیْضِ﴾ ’’پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔‘‘ یعنی مقام حیض سے دور رہو۔ اور اس سے مراد شرم گاہ میں مجامعت ہے اور اس مجامعت کے حرام ہونے پر اجماع ہے اور حیض کے دوران مجامعت سے دور رہنے کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شرم گاہ میں مجامعت کے سوا عورت کے ساتھ اختلاط اور اس کو ہاتھ سے چھونا جائز ہے البتہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ﴾ ’’جب تک پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرنا۔‘‘ عورت کے ساتھ ایسے اختلاط کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو فرج کے قریب یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان ہو۔ اس قسم کے اختلاط کو ترک کر دینا چاہیے۔ نبی اکرمeجب کبھی اپنی کسی بیوی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے ازار پہننے کا حکم دیتے تب اس کے ساتھ اختلاط کرتے۔
(صحیح بخاری، الحيض، باب مباشرۃ الحائض، حديث:302)
اور بیوی سے دور رہنے اور حیض کی وجہ سے قریب نہ جانے کی حد
﴿حَتّٰى یَطْهُرْنَ﴾ ’’یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں‘‘ مقرر فرمائی ہے۔ یعنی جب حیض کا خون منقطع ہو جائے تو وہ مانع زائل ہو جاتا ہے جو جریان حیض کے وقت موجود تھا۔ اس کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں۔
(۱) خون کا منقطع ہونا۔
(۲) خون کے منقطع ہونے کے بعد غسل کرنا۔ جب خون منقطع ہو جاتا ہے تو پہلی شرط زائل ہو جاتی ہے اور دوسری شرط باقی رہ جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿فَاِذَا تَ٘طَ٘هَّرْنَ﴾ ’’پس جب وہ
(حیض سے) پاک ہو جائیں‘‘ یعنی غسل کر لیں
﴿ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَؔكُمُ اللّٰهُ﴾ ’’پس تم آؤ ان عورتوں کو، جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے‘‘ قُبل یعنی سامنے سے جماع کرو اور دُبر سے اجتناب کرو۔ کیونکہ قُبل
(شرم گاہ) ہی کھیتی کا محل و مقام ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ عورت پر غسل فرض ہے اور غسل کی صحت کے لیے خون کا منقطع ہونا شرط ہے۔ اور چونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور نجاستوں سے ان کی حفاظت ہے اس لیے فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ﴾ ’’اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں
﴿وَیُحِبُّ الْ٘مُتَطَهِّرِیْنَ﴾ اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ آیت کریمہ حدث اور نجاست سے حسی طہارت کو شامل ہے۔ پس اس آیت سے طہارت کی مطلق مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو طہارت کی صفت سے متصف ہو، اس لیے مطلق طہارت صحت نماز، صحت طواف اور مصحف شریف کو چھونے کے لیے شرط ہے۔ یہ آیت کریمہ معنوی طہارت یعنی اخلاق رذیلہ، صفات قبیحہ اور افعال خسیسہ جیسی معنوی نجاستوں سے طہارت کو بھی شامل ہے۔
#
{223} {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أَنى شئتم}؛ مقبلة ومدبرة غير أنه لا يكون إلا في القبل لكونه موضع الحرث وهو الموضع الذي يكون منه الولد، وفيه دليل على تحريم الوطء في الدبر؛ لأن الله لم يبح إتيان المرأة إلا في الموضع الذي منه الحرث. وقد تكاثرت الأحاديث عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، في تحريم ذلك ولعن فاعله. {وقدموا لأنفسكم}؛ أي: من التقرب إلى الله بفعل الخيرات، ومن ذلك أن يباشر الرجل امرأته ويجامعها على وجه القربة والاحتساب وعلى رجاء تحصيل الذرية الذين ينفع الله بهم. {واتقوا الله}؛ أي: في جميع أحوالكم كونوا ملازمين لتقوى الله مستعينين على ذلك بعلمكم، {أنكم ملاقوه}؛ ومجازيكم على أعمالكم الصالحة وغيرها، [ثم قال]: {وبشر المؤمنين}؛ لم يذكر المبَشر به ليدل على العموم وأن لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة، وكل خير واندفاع كل ضير رُتِّب على الإيمان فهو داخل في هذه البشارة، وفيها محبة الله للمؤمنين ومحبة ما يسرهم واستحباب تنشيطهم وتشويقهم بما أعد الله لهم من الجزاء الدنيوي والأخروي.
[223] ﴿نِسَآ ؤُ كُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ﴾ ’’تمھاری بیویاں، تمھاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتیوں کو جہاں سے چاہو، آؤ‘‘ یعنی تم اپنی بیویوں سے سامنے سے جماع کرو یا پیچھے سے۔ البتہ یہ جماع صرف قُبل
(یعنی شرمگاہ) میں ہونا چاہیے، کیونکہ یہی کھیتی کے اگنے کی جگہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اولاد جنم لیتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دبر
(یعنی پیٹھ) میں جماع کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی کے ساتھ صرف اسی مقام میں مجامعت کو جائز قرار دیا ہے جو کھیتی
(یعنی اولاد) پیدا کرنے کا مقام ہے۔ رسول اللہeسے نہایت کثرت سے احادیث مروی ہیں جو دبر میں جماع کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں اور جن میں آپ نے اس فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔
(سنن أبي داود، النکاح، باب فی جامع النکاح، حديث:2162) ﴿وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ﴾ ’’اور اپنے لیے
(نیک عمل) آگے بھیجو۔‘‘ یعنی نیکیوں کے کام سرانجام دے کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور ان نیکیوں میں ایک نیکی یہ بھی ہے کہ مرد اپنی بیوی سے مباشرت کرے، یہ مباشرت اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر اور اولاد کے حصول کی امید کے ساتھ ہو، وہ اولاد جن کے ذریعے سے اللہ فائدہ پہنچاتا ہے۔
﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ اختیار کرو اور اس بارے میں اپنے علم سے مدد لیتے ہوئے تقویٰ کا التزام کرو
﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّـكُمْ مُّلٰ٘قُوْهُ﴾ ’’اور جان لو کہ تم اس
(اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کرو گے‘‘ اور وہ تمھیں تمھارے اعمال صالحہ وغیرہ کی جزا دے گا
﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور ایمان والوں کو بشارت سنادو۔‘‘ یہاں اس امر کا ذکر نہیں کیا گیا جس کی بشارت دی گئی ہے تاکہ یہ بشارت کے عموم پر اور اس بات پر دلالت کرے کہ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی بشارت ہے اور ہر بھلائی کا حصول، ہر نقصان سے بچاؤ جو ایمان پر مترتب ہو، وہ بھی اس بشارت میں داخل ہے۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور اس چیز کو پسند کرتا ہے جس سے اہل ایمان خوش ہوتے ہیں، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیار کی ہوئی دنیاوی اور اخروی جزا کے حصول کے لیے شوق اور نشاط پیدا کرنا مستحب ہے۔
{وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (224)}
اور نہ بناؤ تم اللہ کو نشانہ واسطے اپنی قسموں کے، یہ کہ تم نیکی
(نہیں) کرو گےاور تقویٰ
(نہیں) اپناؤ گےاور صلح
(نہیں) کراؤ گے درمیان لوگوں کے اور اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے
(224)
#
{224} المقصود من اليمين والقسم تعظيم المُقْسَمِ به وتأكيد المُقْسَم عليه. وكان الله تعالى قد أمر بحفظ الأيمان وكان مقتضى ذلك حفظها في كل شيء، ولكن الله تعالى استثنى من ذلك إذا كان البر باليمين يتضمن ترك ما هو أحب إليه فنهى عباده أن يجعلوا أيمانهم عرضة أي مانعة وحائلة عن أن يبروا أي يفعلوا خيراً ويتقوا شرًّا ويصلحوا بين الناس، فمن حلف على ترك واجب وجب حِنْثه وحرم إقامته على يمينه، ومن حلف على ترك مستحب استحب له الحِنْثُ، ومن حلف على فعل محرَّم وجب الحِنْثُ، أو على فعل مكروه استحب الحِنْث. وأما المباح فينبغي فيه حفظ اليمين عن الحِنْث.
ويستدل بهذه الآية على القاعدة المشهورة أنه إذا تزاحمت المصالح قدم أهمها، فهنا تتميم اليمين مصلحة، وامتثال أوامر الله في هذه الأشياء مصلحة أكبر من ذلك، فقدمت لذلك. ثم ختم الآية بهذين الاسمين الكريمين فقال: {والله سميع}؛ أي: لجميع الأصوات، {عليم}؛ بالمقاصد والنيات، ومنه سماعه لأقوال الحالفين وعلمه بمقاصدهم هل هي خير أم شرٌّ، وفي ضمن ذلك التحذير من مجازاته، وأن أعمالكم ونياتكم قد استقر علمها عنده. ثم قال تعالى:
[224] حلف اور قسم کا مقصد اس ہستی کی تعظیم ہے جس کی قسم کھائی جائے اور اس چیز کی تاکید مراد ہے جس پر قسم کھائی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قسموں کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں قسم کی حفاظت کی جائے مگر اس سے اس قسم کو اللہ نے مستثنیٰ کر دیا ہے جس میں کسی کے ساتھ احسان
(نہ کرنے) کی قسم کھائی گئی ہو۔ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہ قسم توڑ کر اس چیز کو اختیار کرے جو اسے زیادہ پسند ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو نشانہ، یعنی انھیں نیکی کرنے سے رکاوٹ بنا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلائی کے کام سرانجام دیں، برائی سے بچیں اور لوگوں کے درمیان صلح کروائیں۔
(اور اس طرح قسم نہ کھائیں کہ میں فلاں کے ساتھ احسان نہیں کروں گا، فلاں کے ساتھ نہیں بولوں گا، وغیرہ)۔
پس جو کوئی کسی واجب کو ترک کرنے کی قسم کھاتا ہے اس پر قسم توڑنا واجب ہے اور اس قسم پر قائم رہنا حرام ہے اور جو کوئی کسی مستحب کو چھوڑنے کی قسم کھاتا ہے اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے اور جو کسی حرام امر کے ارتکاب کا حلف اٹھاتا ہے اس پر حلف توڑنا واجب ہے اور اگر وہ کسی مکروہ فعل کے ارتکاب پر قسم اٹھاتا ہے تو اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے۔ رہے مباح امور تو ان کے بارے میں اٹھائی ہوئی قسم کی حفاظت کرنا زیادہ مناسب ہے۔
اس آیت کریمہ سے اس مشہور فقہی اور قانونی قاعدے پر استدلال کیا جاتا ہے اِذَا تَزَاحَمَتِ الْمَصَالِحُ قُدِّمَ اَھَمُّھَا ’’جب مصالح میں باہم ٹکراؤ ہو تو اس کو مقدم رکھا جائے گا جو ان میں سب سے زیادہ اہم ہو گا‘‘ پس یہاں قسم کا پورا کرنا ایک مصلحت ہے اور ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا اس سے زیادہ بڑی مصلحت ہے اس لیے اس کو مقدم رکھا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو اسمائے کریمہ کے ذکر کے ساتھ آیت کا اختتام کیا ہے
﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ﴾ ’’اللہ سننے والا‘‘ یعنی اللہ تمام آوازوں کو سننے والا ہے
﴿ عَلِیْمٌ ﴾ یعنی وہ مقاصد اور نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ گویا وہ قسم اٹھانے والوں کی بات کو سنتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی جانتا ہےکہ آیا یہ قسم کسی نیک مقصد کے لیے اٹھائی گئی ہے یا برے مقصد کے لیے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچا جائے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال اور تمھاری نیتوں کو جانتا ہے۔
{لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (225)}
نہیں مؤاخذہ کرے گا تمھارا اللہ اوپر لغو قسموں میں تمھاری، لیکن وہ مؤاخذہ کرے گا تمھارا ان پر جن کا قصد کیا تمھارے دلوں نے،اور اللہ بخشنے والا بڑا بردبار ہے
(225)
#
{225} أي: لا يؤاخذكم بما يجري على ألسنتكم من الأيمان اللاغية التي يتكلم بها العبد، من غير قصد منه، ولا كسب قلب، ولكنها جرت على لسانه، كقول الرجل في عرض كلامه: لا والله وبلى والله، وكحلفه على أمر ماضٍ يظن صدق نفسه، وإنما المؤاخذة على ما قصده القلب، وفي هذا دليل على اعتبار المقاصد في الأقوال كما هي معتبرة في الأفعال، والله غفور لمن تاب إليه، حليم بمن عصاه حيث لم يعاجلْه بالعقوبة، بل حلم عنه، وستر، وصفح مع قدرته عليه وكونه بين يديه.
[225] یعنی اللہ تعالیٰ ان لغو قسموں پر تمھارا مؤاخذہ نہیں کرتا جو تمھاری زبان سے نکلتی رہتی ہیں اور بندہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے قسمیں کھاتا رہتا ہے اور یوں ہی اس کی زبان سے بلاقصدقسمیں نکل جاتی ہیں، مثلاً وہ بات چیت میں بار بار کہتا ہے ’’اللہ کی قسم! نہیں‘‘ اور ’’ہاں! اللہ کی قسم‘‘! وغیرہ۔ یا جیسے وہ کسی گزرے ہوئے معاملے میں حلف اٹھاتا ہے جس کے بارے میں وہ اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے۔ البتہ اس قسم پر مؤاخذہ ہو گا جو دل سے کھائے گا۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس طرح مقاصد افعال میں معتبر ہوتے ہیں اسی طرح اقوال میں بھی مقاصد کا اعتبار ہو گا۔
﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ ﴾ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخش دیتا ہے جو توبہ کے ذریعے سے اس کی طرف لوٹتا ہے
﴿ حَلِیْمٌ ﴾ جو شخص اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس کے بارے میں بہت حلم سے کام لیتا ہے اور اس کو سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا ،بلکہ اپنے حلم کی بنا پر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اس پر قدرت رکھنے اور اپنے سامنے ہونے کے باوجود اس سے درگز کرتا ہے۔
{لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (227)}
واسطے ان لوگوں کے، جو قسم کھا لیتے ہیں اپنی عورتوں
(کے پاس جانے) سے، انتظار کرنا ہے چار مہینے، پھر اگر وہ رجوع کر لیں، تو بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے
(226) اور اگر عزم کر لیں وہ طلاق کا، تو بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے
(227)
#
{226} وهذا من الأيمان الخاصة بالزوجة في أمر خاص وهو حلف الرجل على ترك وطء زوجته مطلقاً أو مقيداً بأقل من أربعة أشهر أو أكثر، فمن آلى من زوجته خاصة فإن كان لدون أربعة أشهر فهذا مثل سائر الأيمان إن حنث كفَّر وإن أتم يمينه فلا شيء عليه، وليس لزوجته عليه سبيل لأنه مَلَّكَه أربعة أشهر، وإن كان أبداً أو مدة تزيد على أربعة أشهر ضربت له مدة أربعة أشهر من يمينه إذا طلبت زوجته ذلك لأنه حق لها، فإذا تمت أمر بالفيئة وهو الوطء، فإن وطئ فلا شيء عليه إلا كفارة اليمين، وإن امتنع أجبر على الطلاق، فإن امتنع طلق عليه الحاكم ولكن الفيئة والرجوع إلى زوجته أحب إلى الله تعالى، ولهذا قال: {فإن فاءوا}؛ أي: رجعوا إلى ما حلفوا على تركه وهو الوطء، {فإن الله غفور}؛ يغفر لهم ما حصل منهم من الحلف بسبب رجوعهم {رحيم}؛ حيث جعل لأيمانهم كفارة وتحلة ولم يجعلها لازمة لهم غير قابلة للانفكاك، ورحيم بهم أيضاً حيث فاءوا إلى زوجاتهم وحنوا عليهن ورحموهن.
[226] یہ قسم کسی خاص معاملے میں صرف بیوی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ بیوی کے ساتھ مطلق طور پر یا چار مہینے یا اس سے بھی زیادہ کی قید کے ساتھ جماع نہ کرنے کی قسم ہے۔ پس جو کوئی اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتا ہے۔ اگر یہ قسم چار ماہ سے کم مدت کے لیے ہے تو یہ عام قسموں میں شمار ہو گی۔ اگر وہ قسم توڑے گا تو اس کا کفارہ ادا کرے گا اور اگر وہ اپنی قسم پوری کرتا ہے تو اس پر کوئی چیز نہیں اور اس کی بیوی کو اس کے خلاف چارہ جوئی کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ اس کی بیوی چار ماہ تک اس کی ملک ہے اور اگر اس نے ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی ہے یا قسم کا عرصہ چار ماہ سے زیادہ ہے، ایسی صورت میں جب اس کی بیوی اس سے حق زوجیت کا مطالبہ کرے گی تو اس قسم کے لیے چار ماہ کی مدت مقرر کر دی جائے گی، کیونکہ یہ بیوی کا حق ہے۔ جب چار ماہ کی مدت پوری ہو جائے تو خاوند کو رجوع یعنی مجامعت کا حکم دیا جائے،
اگر وہ رجوع کر کےتعلق زوجیت قائم کر لے تو اس پر قسم کے کفارے کے سوا کچھ لازم نہیں اور اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کر دے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر پھر بھی طلاق نہ دے تو حاکم طلاق نافذ کر دے گا۔۔۔ البتہ بیوی کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ فَآءُوْ ﴾ ’’پس اگر وہ رجوع کریں۔‘‘ یعنی جس چیز
(تعلق زوجیت) کو چھوڑ دینے کی انھوں نے قسم اٹھائی تھی اگر اس کی طرف دوبارہ لوٹ آئیں۔
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ﴾ تو قسم اٹھانے کی وجہ سے انھوں نے جس گناہ کا ارتکاب کیا تھا ان کے رجوع کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا
﴿ رَّحِیْمٌ ﴾ وہ بہت رحم کرنے والا ہے کہ اس نے بندوں کی قسموں کو اٹوٹ اور ان پر لازم قرار نہیں دیا، بلکہ ان سے باہر نکلنے کے لیے کفارہ مقرر کیا۔ نیز وہ ان پر اس لحاظ سے بھی مہربان ہے کہ انھوں نے اپنی بیویوں سے رجوع کیا ان سے مہربانی اور شفقت سے پیش آئے۔
(یعنی ان کا رجوع بھی اللہ کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے۔)
#
{227} {وإن عزموا الطلاق}؛ أي امتنعوا من الفيئة فكان ذلك دليلاً على رغبتهم عنهن وعدم إرادتهم لأزواجهم، وهذا لا يكون إلا عزماً على الطلاق فإن حصل هذا الحق الواجب منه مباشرة وإلا أجبره الحاكم عليه أو قام به {فإن الله سميع عليم}؛ فيه وعيد وتهديد لمن يحلف هذا الحلف ويقصد بذلك المضارة والمشاقة.
ويستدل بهذه الآية على أن الإيلاء خاص بالزوجة لقوله من نسائهم، وعلى وجوب الوطء في كل أربعة أشهر مرة؛ لأنه بعد الأربعة يجبر إما على الوطء أو على الطلاق، ولا يكون ذلك إلا لتركه واجباً.
[227] ﴿ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ﴾ ’’اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کرلیں۔‘‘ یعنی اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کر دیں تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انھیں ان میں رغبت نہیں اور وہ ان کو بیوی کے طور پر باقی رکھنا نہیں چاہتے ۔۔۔ اور یہ چیز طلاق کے ارادے کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ اگر یہ طلاق جو اس پر واجب ہے، کہنے سننے پر بیوی کو حاصل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ حاکم اس کو طلاق پر مجبور کرے یا خود نافذ کر دے۔
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت وعید اور تہدید ہے جو کوئی اللہ کی قسم اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد محض ضرر رسانی اور تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اِیْلاَء بیوی سےمخصوص ہے کیونکہ اس میں مِنْ نِّسَاءِھِمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نیز چار ماہ میں ایک مرتبہ بیوی کے ساتھ مجامعت فرض ہے۔ کیونکہ چارماہ کے بعد یا تو اسے مجامعت پر مجبور کیا جائے گا یا اسے طلاق دینی پڑے گی۔ یہ جبر صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔
{وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (228)}.
اور مطلقہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک اور نہیں حلال ان کے لیے یہ کہ چھپائیں وہ اس کو جو پیدا کیا اللہ نے ان کے رحموں میں اگر ہیں وہ ایمان رکھتیں ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے ،اور خاوند ان کے زیادہ حق دار ہیں ان کو لوٹا لینے کے اس
(مدت) میں، اگر ارادہ رکھیں وہ اصلاح کا،اور
(ان) عورتوں کا
(حق ہے مردوں پر) مانند اس کے جو ہے ان
(عورتوں) پر، مطابق دستور کے،اور مردوں کو ان پر ایک فضیلت ہے اور اللہ غالب، خوب حکمت والا ہے
(228)
#
{228} أي: النساء [اللاتي] طلقهن أزواجهن {يتربصن بأنفسهن}؛ أي: ينتظرن ويعتددن مدة {ثلاثة قروء}؛ أي: حيض أو أطهار على اختلاف العلماء في المراد بذلك مع أن الصحيح أن القرء الحيض، ولهذه العدة عدة حكم منها العلم ببراءة الرحم إذا تكررت عليها ثلاثة الأقراء علم أنه ليس في رحمها حمل فلا يفضي إلى اختلاط الأنساب، ولهذا أوجب تعالى عليهن الإخبار عن، {ما خلق الله في أرحامهن}؛ وحرم عليهن كتمان ذلك من حمل أو حيض، لأن كتمان ذلك يفضي إلى مفاسد كثيرة فكتمان الحمل موجب أن تلحقه بغير من هو له رغبة فيه أو استعجالاً لانقضاء العدة فإذا ألحقته بغير أبيه حصل من قطع الرحم والإرث واحتجاب محارمه وأقاربه عنه، وربما تزوج ذوات محارمه وحصل في مقابلة ذلك إلحاقه بغير أبيه وثبوت توابع ذلك من الإرث منه وله، ومن جعل أقارب الملحق به أقارب له وفي ذلك من الشر والفساد ما لا يعلمه إلا رب العباد، ولو لم يكن في ذلك إلا إقامتها مع من نكاحها باطل في حقه، وفيه الإصرار على الكبيرة العظيمة وهي الزنا لكفى بذلك شرًّا.
وأما كتمان الحيض فإن استعجلت فأخبرت به وهي كاذبة ففيه من انقطاع حق الزوج عنها وإباحتها لغيره وما يتفرع عن ذلك من الشرِّ كما ذكرنا، وإن كذبت وأخبرت بعدم وجود الحيض لتطول العدة فتأخذ منه نفقة غير واجبة عليه بل هي سحت عليها محرمة من جهتين: من كونها لا تستحقه، ومن كونها نسبته إلى حكم الشرع وهي كاذبة، وربما راجعها بعد انقضاء العدة فيكون ذلك سفاحاً لكونها أجنبية منه، فلهذا قال تعالى: {ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن إن كن يؤمن بالله واليوم الآخر}.
فصدور الكتمان منهن دليل على عدم إيمانهن بالله واليوم الآخر وإلا فلو آمنَّ بالله واليوم الآخر وعرفن أنهن مجزيات عن أعمالهن لم يصدر منهن شيء من ذلك، وفي ذلك دليل على قبول خبر المرأة عما تخبر بها عن نفسها من الأمر الذي لا يطلع عليه غيرها كالحمل والحيض ونحوهما.
ثم قال تعالى: {وبعولتهن أحق بردهن في ذلك}؛ أي: لأزواجهن ما دامت متربصة في تلك العدة أن يردوهن إلى نكاحهن {إن أرادوا إصلاحاً}؛ أي: رغبة وألفة ومودة، ومفهوم الآية أنهم إن لم يريدوا الإصلاح فليسوا بأحق بردهن فلا يحل لهم أن يراجعوهن لقصد المضارة لها وتطويل العدة عليها، وهل يملك ذلك مع هذا القصد؟ فيه قولان:
الجمهور على أنه يملك ذلك مع التحريم، والصحيح أنه إذا لم يرد الإصلاح لا يملك ذلك كما هو ظاهر الآية الكريمة، وهذه حكمة أخرى في هذا التربص، وهي أنه ربما أن زوجها ندم على فراقه لها فجعلت له هذه المدة ليتروى بها ويقطع نظره، وهذا يدل على محبته تعالى للألفة بين الزوجين وكراهته للفراق كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» ، وهذا خاص في الطلاق الرجعي، وأما الطلاق البائن فليس البعل بأحق برجعتها، بل إن تراضيا على التراجع فلا بد من عقد جديد مجتمع الشروط.
ثم قال تعالى: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف}؛ أي: وللنساء على بعولتهن من الحقوق واللوازم مثل الذي عليهن لأزواجهن من الحقوق اللازمة والمستحبة، ومرجع الحقوق بين الزوجين إلى المعروف وهو العادة الجارية في ذلك البلد وذلك الزمان من مثلها لمثله، ويختلف ذلك باختلاف الأزمنة والأمكنة والأحوال والأشخاص والعوائد، وفي هذا دليل على أن النفقة والكسوة والمعاشرة والمسكن وكذلك الوطء الكل يرجع إلى المعروف، فهذا موجب العقد المطلق، وأما مع الشرط فعلى شرطهما، إلا شرطاً أحل حراماً أو حرم حلالاً.
{وللرجال عليهن درجة}؛ أي: رفعة ورياسة وزيادة حق عليها كما قال تعالى: {الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم}؛ ومنصب النبوة والقضاء والإمامة الصغرى والكبرى وسائر الولايات [مختصٌّ] بالرجال، وله ضعفا ما لها في كثير من الأمور كالميراث ونحوه {والله عزيز حكيم}؛ أي: له العزة القاهرة والسلطان العظيم الذي دانت له جميع الأشياء، ولكنه مع عزته حكيم في تصرفه.
ويخرج من عموم هذه الآية الحوامل فعدتهن وضع الحمل، واللاتي لم يدخل بهن فليس لهن عدة، والإماء فعدتهن حيضتان كما هو قول الصحابة رضي الله عنهم، وسياق الآية يدل على أن المراد بها الحرة.
[228] یعنی وہ عورتیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہے
﴿ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْ٘فُ٘سِهِنَّ ﴾ ’’اپنے تئیں روکے رکھیں ‘‘ یعنی وہ انتظار کریں اور عدت پوری کریں
﴿ ثَلٰثَةَ قُ٘رُوْٓءٍ ﴾ ’’تین حیض‘‘ قرء کے معنی میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس کے معنی حیض اور بعض کے نزدیک طہر کے ہیں۔ تاہم صحیح مسلک یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں اور اس عدت کی متعددحکمتیں ہیں، مثلاً جب مطلقہ عورت کو بتکرار تین حیض آجاتے ہیں تو براء ت رحم ہو جاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں حمل نہیں اور اس طرح نسب میں اختلاط کا کوئی خدشہ نہیں رہتا۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ تخلیق کیا ہے اس کے بارے میں آگاہ کریں۔ اور حمل یا حیض کا چھپانا ان پر حرام ٹھہرایا ہے کیونکہ ان کا حیض یا حمل چھپانا بہت سے مفاسد کا باعث بنتا ہے۔ حمل کو چھپانا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ عورت اپنے حمل کے نسب کو کسی ایسے شخص کے ساتھ ملحق کر دے جس میں اسے رغبت ہے یا محض عدت کے پورا ہو جانے میں جلد بازی کے لیے حیض آنے کا اعلان کر دے۔ پس جب یہ عورت اپنے حمل کو اس کے باپ کے سوا کسی اور کے ساتھ ملحق کر دیتی ہے، تو یہ چیز قطع رحمی اور میراث سے محروم کرنے کا باعث بنتی ہے، اس کے لیے اس کے محرموں اور اقارب سے پردے کا موجب بنتی ہے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس الحاق سے محارم کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں باپ کے سوا کسی اور شخص سے اس حمل کا الحاق ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے تمام توابع، مثلاً میراث وغیرہ کا اثبات ہوتا ہے اور جس شخص کے ساتھ اس حمل کا الحاق کیا گیا ہوتا ہے، اس کے تمام اقارب کو اس بچے کے اقارب بنا دیتا ہے اور اس میں بہت بڑا شر اور فساد ہے جسے بندوں کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر اس میں مذکورہ باتیں نہ بھی ہوں، تب بھی مطلقہ کا ایسے شخص سے نکاح کر لینا، جس سے اس کا نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو اس کا یہ ایک نتیجہ ہی اس فعل کی برائی کے لیے کافی ہے، کیونکہ یہ نکاح، نکاح نہیں، زنا ہو گا، جو کبیرہ گناہ اور اس پر اصرار ہے۔ رہا حیض کو چھپانا تو اس نے عجلت سے کام لے کر جھوٹ بولتے ہوئے حیض آنے کی خبر دی ہے تو اس میں پہلے خاوند کی حق تلفی اور اپنے آپ کو دوسرے کے لیے مباح قرار دینا ہے، نیز اس سے دیگر برائیاں متفرع ہوتی ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ اگر وہ حیض کے عدم وجود کی جھوٹی اطلاع دیتی ہے تاکہ عدت لمبی ہو جائے اور اس طرح وہ نان و نفقہ حاصل کر سکے جو شوہر پر واجب نہ تھا تو یہ دو پہلوؤں سے اس پر حرام ہے۔
(۱) اب وہ اس کی مستحق نہیں رہی۔
(۲) اس کو شریعت کی طرف منسوب کرنا حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔
اس صورت میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عدت کے ختم ہو جانے کے بعد خاوند رجوع کر لیتا ہے
(یعنی خاوند مطلقہ کی اطلاع کے مطابق سمجھتا ہے کہ ابھی عدت ختم نہیں ہوئی) یہ رجوع درحقیقت زنا ہے۔ کیونکہ یہ عورت اب اس کے لیے اجنبی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿ وَلَا یَحِلُّ لَ٘هُنَّ اَنْ یَّكْ٘تُ٘مْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُ٘نَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتی ہیں‘‘ حیض یا حمل کو چھپانا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتیں۔ اگر ان کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہوتا اور انھیں علم ہوتا کہ انھیں ان کے اعمال کی جزا ملے گی تو ان سے کبھی یہ فعل صادر نہ ہوتا۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے معاملات کے بارے میں جن کی اطلاع اس کے سوا کسی اور کو نہیں ہوتی، مثلاً حیض اور حمل وغیرہ۔۔۔ کوئی خبر دیتی ہے،
تو وہ قابل قبول ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَبُعُوْلَ٘تُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور ان کے خاوند ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ یعنی جب تک بیویاں عدت کے اندر عدت پوری ہونے کی منتظر ہیں اس وقت تک ان کے شوہر ان سے رجوع کا زیادہ حق رکھتے ہیں
﴿ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا ﴾ ’’اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہے‘‘ یعنی اگر شوہر رغبت، الفت اور مودت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر رجوع کرنے سے ان کا مقصد اصلاح نہیں تو وہ انھیں واپس لانے کا حق نہیں رکھتے، کیونکہ بیوی کو نقصان پہنچانے اور عدت کو طول دینے کی غرض سے رجوع کرنا جائز نہیں۔ کیا خاوند اس قسم کا مقصد و ارادہ رکھتے ہوئے رجوع کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟
فقہاء اس بارے میں دو آراء رکھتے ہیں۔
جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ تحریم کے باوجود خاوند یہ اختیار رکھتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر شوہر اصلاح کا ارادہ نہیں رکھتا تو رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔
اور اس انتظار میں یہ دوسری حکمت ہے۔ وہ اس طرح کہ بسا اوقات شوہر بیوی کو طلاق دے کر نادم ہوتا ہے تو اس کے لیے یہ مدت رکھ دی گئی ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنے فیصلہ طلاق پر غور کر لے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان الفت چاہتا ہے ان کے درمیان جدائی اسے پسند نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہeنے فرمایا:’اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللہِ الطَّلَاقُ‘ ’’حلال چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ اللہ کو ناپسند ہے، وہ طلاق ہے۔‘‘
(سنن أبي داود، الطلاق، باب في کراھیۃ الطلاق، حديث:2178) رجوع کا یہ حق طلاق رجعی کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی طلاق بائن تو اس میں خاوند کو رجوع کا حق نہیں۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں رجوع پر راضی ہوں، تو نکاح کی پوری شرائط کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہے۔
﴿ وَلَ٘هُنَّ مِثْ٘لُ الَّذِیْ عَلَ٘یْهِنَّ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’اور عورتوں کا حق ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق
(مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔‘‘ یعنی عورتوں کے اپنے شوہروں پر وہی حقوق ہیں جو شوہروں کے اپنی بیویوں پر ہیں۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کے بارے میں اصل مرجع ’’معروف‘‘ ہے، یہاں معروف سے مراد اس زمانے اور اس شہر میں عورتوں مردوں کے بارے میں جاری عادت ہے۔ زمان و مکان، احوال و اشخاص اور عادات میں تغیر و تبدل کے ساتھ معروف میں تبدیلی ہو جائے گی۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ نان و نفقہ، لباس، معاشرتی تعلق، گھر، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان خاص تعلق، ان سب کا مرجع ’’معروف‘‘ ہے۔ یہ عقد مطلق کی صورت میں ہے، یعنی نکاح کے وقت کوئی شرط طے نہ کی گئی ہو۔ لیکن جو نکاح مطلق نہیں، مقید یعنی شرطوں کے ساتھ ہو گا، تو وہاں ان شرطوں کا ایفاء ضروری ہو گا۔ البتہ کوئی ایسی شرط نہ ہو جو حرام کو حلال اور کسی حلال کو حرام ٹھہرا دے۔
﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَ٘یْهِنَّ دَرَجَةٌ ﴾ ’’اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَلرِّؔجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ﴾ (النساء:4؍34) ’’مرد عورتوں پر حاکم و قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے نیز اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
منصب نبوت، منصب قضا، امامت صغری، امامت کبری اور دیگر تمام شعبوں کی سربراہی مردوں سے مخصوص ہے۔ میراث وغیرہ جیسے بہت سے معاملات میں بھی مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حیثیت حاصل ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ غالب صاحب حکمت ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ عزت اور غلبہ اور بہت بڑے تسلط اور اختیارات کا مالک ہے۔ تمام کائنات اس کے سامنے سرافگندہ ہے مگر وہ اپنے غلبہ اور اختیارات کے باوجود اپنے تصرفات میں نہایت حکمت سے کام لیتا ہے۔
اس آیت کریمہ کے عموم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں۔
(۱) اگر مطلقہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
(۲) اگر مطلقہ غیر مدخولہ ہو یعنی اس کے ساتھ خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو، تو اس پر کوئی عدت نہیں۔
(۳) لونڈیوں کی عدت دو حیض ہے۔ جیسا کہ صحابہ کرامyکا قول ہے۔ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکورہ عورت سے مراد آزاد عورت ہے۔
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (229)}
طلاق
(رجعی) دو مرتبہ ہے، پھر روک رکھنا ہے موافق دستور کے یا چھوڑ دینا ہے ساتھ بھلائی کے،اور نہیں حلال تمھارے لیے یہ کہ لو تم اس
(مہر) میں سے جو دیا تم نے ان کو، کچھ بھی مگر یہ کہ وہ دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ اللہ کی حدوں کو، پس
(اے مومنو!) اگر تم خوف کھا ؤ اس بات سے کہ وہ دونوں نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدوں کو تو نہیں گناہ ان پر اس
(مال) میں جو
(خلع کے) فدیے میں دے عورت وہ مال، یہ حدیں ہیں اللہ کی، سو نہ تجاوز کرو تم ان سےاور جو کوئی تجاوز کرے اللہ کی حدوں سے تو وہی ہیں ظالم
(229)
#
{229} كان الطلاق في الجاهلية واستمر أول الإسلام يطلق الرجل زوجته بلا نهاية، فكان إذا أراد مضارتها طلقها فإذا شارفت انقضاء عدتها راجعها ثم طلقها وصنع بها مثل ذلك أبداً، فيحصل عليها من الضرر ما الله به عليم. فأخبر تعالى أن {الطلاق}؛ أي: الذي تحصل به الرجعة، {مرتان}؛ ليتمكن الزوج إن لم يرد المضارة من ارتجاعها ويراجع رأيه في هذه المدة، وأما ما فوقها فليس محلاًّ لذلك؛ لأن من زاد على الثنتين فإما متجرئ على المحرم أو ليس له رغبة في إمساكها بل قصده المضارة، فلهذا أمر تعالى الزوج أن يمسك زوجته {بمعروف}؛ أي: عشرة حسنة ويجري مجرى أمثاله مع زوجاتهم، وهذا هو الأرجح، وإلا يسرحها ويفارقها، {بإحسان}؛ ومن الإحسان أن لا يأخذ على فراقه لها شيئاً من مالها لأنه ظلم وأخذ للمال في غير مقابلة بشيء، فلهذا قال: {ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئاً إلا أن يخافا أن لا يقيما حدود الله}؛ وهي المخالعة بالمعروف بأن كرهت الزوجة زوجها لخُلُقِه أو خَلْقِه أو نقص دينه، وخافت أن لا تطيع الله فيه {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به}؛ لأنه عوض لتحصيل مقصودها من الفرقة، وفي هذا مشروعية الخلع إذا وجدت هذه الحكمة {تلك}؛ أي: ما تقدم من الأحكام الشرعية، {حدود الله}؛ أي: أحكامه التي شرعها لكم وأمر بالوقوف معها {ومن يتعد حدود الله فأولئك هم الظالمون}، وأي ظلم أعظم ممن اقتحم الحلال وتعدى منه إلى الحرام فلم يسعه ما أحل الله؟
والظلم ثلاثة أقسام:
ظلم العبد فيما بينه وبين الله، وظلم العبد الأكبر الذي هو الشرك، وظلم العبد فيما بينه وبين الخلق.
فالشرك لا يغفره الله إلاَّ بالتوبة، وحقوق العباد لا يترك الله منها شيئاً، والظلم الذي بين العبد وربه فيما دون الشرك تحت المشيئة والحكمة.
[229] جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا تھا تو اس کی عدت کی کوئی انتہا نہیں تھی ۔۔۔ لہٰذا مرد جب اپنی بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا تو اسے طلاق دے دیتا اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کر لیتا۔ پھر اسے طلاق دے دیتا اور پھر اختتام عدت سے پہلے رجوع کر لیتا اور ہمیشہ اس طرح کرتا رہتا۔ اس طرح عورت کو جس ضرر اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا :
﴿ اَلطَّلَاقُ﴾ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے۔
﴿ مَرَّتٰنِ ﴾ ’’صرف دو مرتبہ ہے‘‘ تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کر سکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں۔ کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بھلے طریقے سے اپنی بیوی کو رکھ لے
﴿ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ ’’بطریق شائستہ‘‘ یعنی اچھے رہن سہن اور اچھے سلوک کے ساتھ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اس جیسے دوسرے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہی زیادہ راجح بات ہے، یا اس کو آزاد کر دے اور اس سے جدا ہو جائے
﴿ بِـاِحْسَانٍ ﴾ یعنی بھلے طریقے سے۔
احسان یعنی بھلائی یہ ہے کہ اس نے بیوی کو جو مال وغیرہ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے، اس لیے کہ یہ ظلم ہے اور یہ کچھ دیے بغیر مال لینے کے زمرے میں آئے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿ وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّؔاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا ﴾ ’’تمھارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم نے ان عورتوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو‘‘
﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’مگر یہ کہ وہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے‘‘ اس میں معروف کے ساتھ خلع کرنے کا بیان ہے
(جس میں خاوند کو معاوضہ لے کر طلاق دینے کی اجازت ہے۔) اس کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی عادات یا جسمانی بدصورتی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ خاوند
(کے حقوق) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کر سکے گی۔
(تو وہ خلع کے ذریعے سے طلاق حاصل کر سکتی ہے۔) ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ﴾ ’’پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت جو معاوضہ دے گی تو ان پر کوئی گناہ نہیں‘‘ اس لیے کہ یہ اس جدائی اور علیحدگی کا عوض ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے جب یہ حکمت پائی جائے تب خلع مشروع ہے۔
﴿ تِلْكَ ﴾ یعنی وہ تمام احکام جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے
﴿ حُدُوْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی حدود ہیں۔‘‘ یعنی وہ احکام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے مشروع فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر عمل کیا جائے
﴿وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے، پس وہی لوگ ظالم ہیں‘‘ اس سے بڑا اور کون سا ظلم ہے کہ حلال سے تجاوز کر کے حرام کی حدود میں داخل ہوا جائے؟ کیا جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے، وہ اس کے لیے کافی نہیں؟
ظلم کی تین اقسام ہیں:
(۱) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہیں۔
(۲) بندے کا ظلم اکبر یعنی شرک کا ارتکاب۔
(۳) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب، جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔
اللہ تعالیٰ شرک کو توبہ کے بغیر نہیں بخشتا اور حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑے گا
(بلکہ ایک دوسرے کو بدلہ دلوایا جائے گا) اور وہ ظلم جو بندے اور اس کے مابین ہے اور شرک سے کم تر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (230) وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (231)}
پھر اگر وہ خاوند
(تیسری) طلاق دے دے اس کو تو وہ حلال نہیں اس کے لیے اس کے بعد، یہاں تک کہ نکاح کرے وہ کسی خاوند سے اس کے علاوہ ، پھر اگر وہ طلاق دے دے اس کو تو نہیں گناہ ان
(سابقہ میاں بیوی) پر، یہ کہ باہم رجوع کر لیں، اگر وہ یقین کریں یہ کہ قائم رکھیں گے حدیں اللہ کی، اور یہ حدیں ہیں اللہ کی، وہ بیان کرتا ہے انھیں ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں
(230) اور جب
(پہلی یا دوسری) طلاق دو تم عورتوں کو، پھر
(قریب) پہنچ جائیں وہ اپنی عدت کے تو روک لو ان کو موافق دستور کے یا چھوڑ دو ان کو موافق دستور کے،اور نہ روکو ان کو ستانے کے لیے تاکہ تم زیادتی کرو اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ یقیناً ظلم کرے گا اپنے نفس ہی پر،اور نہ بناؤ تم اللہ کی آیتوں کو ہنسی مذاق، اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو
(جو ہوئی) تم پر اور اس کو
(بھی) جو نازل کی اس نے تم پر کتاب اور حکمت، نصیحت کرتا ہے وہ تمھیں اس کے ساتھ، اور ڈرو تم اللہ سے اور جان لو! بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
(231)
#
{230} يقول تعالى: {فإن طلقها}؛ أي: الطلقة الثالثة {فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجًا غيره}؛ أي: نكاحاً صحيحاً ويطأها، لأن النكاح الشرعي لا يكون إلا صحيحاً ويدخل فيه العقد والوطء وهذا بالاتفاق، ويتعين أن يكون نكاح الثاني نكاح رغبة، فإن قصد به تحليلها للأول فليس بنكاح ولا يفيد التحليل، ولا يفيد وطء السيد لأنه ليس بزوج، فإذا تزوجها الثاني راغباً، ووطأها، ثم فارقها وانقضت عدتها {فلا جناح عليهما}؛ أي: على الزوج الأول والزوجة {أن يتراجعا}؛ أي: يجددا عقداً جديداً بينهما لإضافته التراجع إليهما، فدل على اعتبار التراضي، ولكن يشترط في التراجع أن يظنا {أن يقيما حدود الله}؛ بأن يقوم كل منهما بحق صاحبه، وذلك إذا ندما على عشرتهما السابقة الموجبة للفراق، وعزما أن يبدلاها بعشرة حسنة، فهنا لا جناح عليهما في التراجع.
ومفهوم الآية الكريمة أنهما إن لم يظنا أن يقيما حدود الله بأن غلب على ظنهما أن الحال السابقة باقية والعشرة السيئة غير زائلة أن عليهما في ذلك جناحاً، لأن جميع الأمور إن لم يقم فيها أمر الله ويسلك بها طاعته لم يحل الإقدام عليها، وفي هذا دلالة على أنه ينبغي للإنسان إذا أراد أن يدخل في أمر من الأمور، خصوصاً الولايات الصغار والكبار، أن ينظر في نفسه، فإن رأى من نفسه قوة على ذلك ووثق بها أقدم وإلا أحجم.
ولما بيَّن تعالى هذه الأحكام العظيمة قال: {وتلك حدود الله}؛ أي: شرائعه التي حددها وبينها ووضحها، {يبينها لقوم يعلمون}؛ لأنهم هم المنتفعون بها النافعون لغيرهم، وفي هذا من فضيلة أهل العلم ما لا يخفى، لأن الله تعالى جعل تبيينه لحدوده خاصًّا بهم وأنهم المقصودون بذلك، وفيه أن الله تعالى يحب من عباده معرفة حدود ما أنزل على رسوله والتفقه بها.
[230] ﴿ فَاِنْ طَلَّقَهَا ﴾ ’’پھر اگر
(تیسری) طلاق دے دے‘‘
﴿ فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَ٘نْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ﴾ ’’تو اب اس کے لیے حلال نہیں وہ عورت اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔‘‘ یعنی وہ عورت دوسرے خاوند سے صحیح نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری بھی کرے، اس لیے کہ اہل علم کے اجماع کے مطابق نکاح شرعی اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں عقد اور مجامعت نہ ہو۔ اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ نکاح ثانی رغبت سے کیا گیا ہو۔ اگر یہ نکاح پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی نیت سے کیا گیا ہو تو یہ نکاح نہیں ہو گا اور نہ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہی ہوگی نہ اس سے اس کی ہم بستری ہی مفید ہے، کیونکہ وہ اس کا خاوند ہی نہیں ہے۔
اگر اس مطلقہ سے کوئی دوسرا شخص نکاح کر لیتا ہے اور اس سے جماع بھی کرتا ہے پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور اس مطلقہ کی عدت پوری ہو جاتی ہے
﴿فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ ﴾ ’’تو نہیں ہے گناہ ان دونوں پر‘‘ یعنی پہلے خاوند اور اس بیوی پر
﴿ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ ﴾ ’’یہ کہ وہ دونوں رجوع کر لیں‘‘ یعنی وہ ایک دوسرے سے رجوع کر کے اپنے نکاح کی تجدید کر لیں یہ آیت باہمی رضامندی پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ تراجع کی اضافت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ مگر ان کے آپس کے رجوع میں یہ یقین شرط ہے
﴿ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور وہ اس طرح کہ دونوں اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہوں جن کی وجہ سے ان میں جدائی پیدا ہوئی۔ اور یہ عزم کریں کہ وہ اپنے ان رویوں کو بدل کر اچھی معاشرت اختیار کریں گے۔ تب ان کے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔
آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ ان کو گمان غالب ہے کہ ان کے گزشتہ رویئے باقی رہیں گے اور ان کی بری معاشرت زائل نہیں ہو گی، تو پھر ان پر گناہ ہو گا، اس لیے کہ تمام معاملات میں اگر وہ اللہ کے حکم کو قائم نہیں کریں گے اور اس کی اطاعت کے راستے پر نہیں چلیں گے، تو ان کے لیے
(دوبارہ باہم نکاح کرنے کا) یہ اقدام جائز ہی نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، خاص طور پر چھوٹے یا بڑے عہدے کو قبول کرتے وقت، تو اسے اپنے آپ میں غور کرنا چاہیے۔ اگر اسے ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کا پورا یقین ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو قبول کر لینا چاہیے ورنہ پیچھے ہٹ جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے احکام کو بیان فرمایا ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے شرائع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور ان کو واضح کیا۔
﴿ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’وہ اسے جاننے والے لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے‘‘ کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پھر دوسروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی جس فضیلت کا بیان ہے، وہ مخفی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود کی توضیح وتبیین کو ان کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس آیت میں وہی لوگ مقصود اور مراد ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ ان حدود کی معرفت اور ان میں تفقہ حاصل کریں جو اس نے اپنے رسولeپر نازل کی ہیں۔
#
{231} ثم قال تعالى: {وإذا طلقتم النساء}؛ أي: طلاقاً رجعياً بواحدة أو اثنتين {فبلغن أجلهن}؛ أي: قاربن انقضاء عدتهن {فأمسكوهن بمعروف أو سرحوهن بمعروف}؛ أي: إما أن تراجعوهن ونيتكم القيام بحقوقهن، أو تتركوهن بلا رجعة ولا إضرار، ولهذا قال: {ولا تمسكوهن ضرارًا}؛ أي: مضارة بهن {لتعتدوا} في فعلكم هذا الحلال إلى الحرام، فالحلال الإمساك بالمعروف والحرام المضارة، {ومن يفعل ذلك فقد ظلم نفسه}، ولو كان الحق يعود للمخلوق فالضرر عائد إلى من أراد الضرار، {ولا تتخذوا آيات الله هزواً}، لما بين تعالى حدوده غاية التبيين وكان المقصود العلم بها والعمل والوقوف معها وعدم مجاوزتها، لأنه تعالى لم ينزلها عبثاً بل أنزلها بالحق والصدق والجد، نهى عن اتخاذها هزواً، أي: لعباً بها وهو التجري عليها وعدم الامتثال لواجبها، مثل: استعمال المضارة في الإمساك أو الفراق أو كثرة الطلاق أو جمع الثلاث، والله من رحمته جعل له واحدة بعد واحدة رفقاً به، وسعياً في مصلحته.
{واذكروا نعمة الله عليكم}؛ عموماً باللسان حمداً وثناء وبالقلب اعترافاً وإقراراً وبالأركان بصرفها في طاعة الله {وما أنزل عليكم من الكتاب والحكمة}؛ أي: السنة، اللذين بَيَّن لكم بهما طرق الخير، ورغبكم فيها، وطرق الشر، وحذركم إياها، وعرفكم نفسه ووقائعه في أوليائه وأعدائه، وعلمكم ما لم تكونوا تعلمون، وقيل المراد بالحكمة أسرار الشريعة، فالكتاب فيه الحكم، والحكمة فيها بيان حكمة الله في أوامره ونواهيه، وكلا المعنيين صحيح، ولهذا قال: {يعظكم به}؛ أي: بما أنزل عليكم، وهذا مما يقوي أن المراد بالحكمة أسرارُ الشريعة لأن الموعظة ببيان الحكم والحكمة والترغيب أو الترهيب، فالحكم به يزول الجهل، والحكمة مع الترغيب يوجب الرغبة، والحكمة مع الترهيب يوجب الرهبة {واتقوا الله} في جميع أموركم {واعلموا أن الله بكل شيء عليم}؛ فلهذا بين لكم هذه الأحكام بغاية الإتقان والإحكام التي هي جارية مع المصالح في كل زمان ومكان، فله الحمد والمنة.
[231] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ ﴾ ’’جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو۔‘‘ یعنی جب تم اپنی بیویوں کو ایک طلاق رجعی یا دو طلاق دے دو
﴿فَ٘بَلَ٘غْ٘نَ اَجَلَهُنَّ ﴾ ’’پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں۔‘‘ یعنی وہ اپنی عدت پوری ہونے کے قریب پہنچ جائیں
﴿ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ ’’تو انھیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو۔‘‘ یعنی یا تو تم ان سے رجوع کرو اور تمھاری نیت یہ ہونی چاہیے کہ تم ان کے حقوق پورے کرو گے یا تم ان کو بغیر رجوع کیے اور بغیر نقصان پہنچائے چھوڑ دو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَّلَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا ﴾ ’’اور ان کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو۔‘‘
﴿ لِّتَعْتَدُوْا ﴾ ’’تاکہ تم زیادتی کرو‘‘ یعنی تم اپنے اس فعل میں حلال سے تجاوز کر کے حرام میں نہ پڑ جاؤ ۔یہاں ’’حلال‘‘ سے مراد معروف طریقے سے بیوی کو روک لینا اور ’’حرام‘‘ سے مراد اس کو نقصان پہنچانا ہے۔
﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ﴾ ’’اور جو شخص ایسا کرے گا، پس یقیناً اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا‘‘ اگر حق مخلوق کی طرف لوٹتا ہو تو ضرر اس شخص کی طرف لوٹے گا جو ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے۔
﴿ وَلَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا ﴾ ’’اور نہ ٹھہراؤ اللہ کے حکموں کو ہنسی مذاق‘‘ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مقرر کردہ حدود کو نہایت وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان حدود کا علم حاصل کیا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور انھی پر اکتفا کی جائے اور ان حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو عبث اور بے فائدہ نازل نہیں فرمایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو حق، صدق اور اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے، اس لیے ان کا تمسخر اڑانے سے منع کیا ہے۔ یعنی ان کو کھیل تماشا بنانے سے روکا ہے، جس کا مطلب ان کے خلاف جسارت کرنا اور ان کی ادائیگی میں عدم اطاعت کا راستہ اختیار کرنا ہے، مثلاً بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر روکنا یا جدا رکھنا یا کثرت سے طلاق دینا یا تین طلاق ایک ہی بار دے دینا۔ جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت، مہربانی اور بندے کی بھلائی کی بنا پر یکے بعد دیگرے
(ایک، ایک کر کے) طلاق دینے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔
﴿ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو، جو تم پر ہوئی‘‘ زبان سے عام طور پر، حمدوثنا کے ذریعے سے۔ دل سے اقرار و اعتراف کر کے اور جوارح
(اعضاء) کے ذریعے سے، ان کو اللہ کی اطاعت میں مصروف کر کے۔
﴿ وَمَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ ’’اور جو اس نے تم پر کتاب و حکمت سے اتارا‘‘ حکمت سے مراد، سنت ہے، یعنی قرآن اور سنت کے ذریعے سے تمھارے لیے بھلائی کی راہیں واضح کر دیں اور ان پر گامزن ہونے کی تمھیں ترغیب دی اور تمھارے سامنے برائی کے راستے بھی واضح کر دیے اور ان پر چلنے سے ڈرایا، اور اس نے تمھیں اپنی معرفت سے نوازا اور تمھیں اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں اپنی عادت اور اپنے طریقے سے آگاہ کیا اور تمھیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں ۔اس معنی کے لحاظ سے، کتاب سے مراد احکام الٰہی اور حکمت سے مراد وہ اسرار و حکم ہیں جو اس کے اوامر اور نواہی کے اندر ہیں اور حکمت کے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔
﴿ یَعِظُكُمْ بِهٖ ﴾ ’’وہ اس کے ذریعے سے تمھیں نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کتاب نازل فرمائی ہے اس کے ذریعے سے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اس رائے کو تقویت دیتا ہے کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں کیونکہ حکم اور حکمت اور ترغیب یا ترہیب کے بیان کے ذریعے سے ہی نصیحت کی جاتی ہے۔ پس حکم
(یعنی شریعت) سے جہالت زائل ہو جاتی ہے۔ حکمت، ترغیب کے ساتھ رغبت کی موجب ہوتی ہے اور ترہیب کے ساتھ حکمت،
اللہ تعالیٰ کے ڈر کی موجب ہوتی ہے۔ فرمایا: ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو
﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمھارے لیے یہ احکام کھول کھول کر بیان کر دیے ہیں جو اپنے تمام تر مصالح کے ساتھ ہر زمان و مکان میں جاری و ساری ہیں۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے اور اسی کا احسان ہے۔
{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (232)}
اور جب طلاق دو تم عورتوں کو، پھر پہنچ جائیں وہ اپنی عدت کو تو مت روکو تم ان کو اس بات سے کہ وہ نکاح کریں اپنے
(پہلے) خاوندوں سے، جبکہ وہ راضی ہوں آپس میں موافق دستور کے، یہ بات ، نصیحت کی جاتی ہے ساتھ اس کے، اس شخص کو جو ہے تم میں سے ایمان رکھتا ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے، یہ بہت پاکیزہ ہے واسطے تمھارے اور زیادہ صاف ستھرا،اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
(232)
#
{232} هذا خطاب لأولياء المرأة المطلقة دون الثلاث إذا خرجت من العدة وأراد زوجها أن ينكحها ورضيت بذلك فلا يجوز لوليها من أب وغيره أن يعضلها أي يمنعها من التزوج به حنقاً عليه وغضباً واشمئزازاً لما فعل من الطلاق الأول، وذكر أن من كان يؤمن بالله واليوم الآخر؛ فإيمانه يمنعه من العضل، ذلك {أزكى لكم وأطهر}؛ وأطيب مما يظن الولي أن عدم تزويجه هو الرأي واللائق وأنه يقابل بطلاقه الأول بعدم تزويجه كما هو عادة المترفعين المتكبرين، فإن كان يظن أن المصلحة في عدم تزويجه. فالله {يعلم وأنتم لا تعلمون}؛ فامتثلوا أمر من هو عالم بمصالحكم، مريد لها قادر عليها، ميسر لها من الوجه الذي تعرفون وغيره.
وفي هذه الآية دليل على أنه لا بد من الولي في النكاح لأنه نهى الأولياء عن العضل، ولا ينهاهم إلا عن أمر هو تحت تدبيرهم ولهم فيه حق. ثم قال تعالى:
[232] یہ خطاب اس مطلقہ عورت کے سرپرستوں سے ہے جسے تین سے کم طلاق دی گئی ہو، عدت پوری ہونے کے بعد اس کا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کاخواہاں ہو اور وہ عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو تو اس عورت کے ولی کے لیے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، جائز نہیں کہ اسے نکاح کرنے سے روکے، یعنی پہلی طلاق پر اپنے غصہ، بغض اور نفرت کی بنا پر، میاں بیوی کو نکاح کی تجدید سے منع نہ کرے۔ اور بیان کیا کہ تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کا ایمان اسے ان دونوں کو نکاح کرنے سے روکنے سے منع کرتا ہے، کیونکہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ تجدید نکاح تمھارے لیے اس سے زیادہ پاک اور بہتر ہے جو عورت کا ولی سمجھتا ہے کہ عدم نکاح درست رائے ہے اور نکاح سے روکنا
(انتقاماً) پہلی طلاق کا جواب ہے۔ جیسا کہ متکبر اور نام نہاد اونچے گھرانوں کے لوگوں کی عادت ہے۔ پس اگر ولی یہ سمجھتا ہے کہ عدم نکاح ہی میں میاں بیوی کی مصلحت ہے تو
﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اسے اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘ پس اس ہستی کی اطاعت کرو جو تمھارے مصالح کا تم سے زیادہ علم رکھتی ہے، وہ تمھارے لیے یہ مصالح چاہتی ہے، وہ ان پر قادر ہے اور ان کو تمھارے لیے اس طرح آسان بناتی ہے جن کو تم خوب جانتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء
(یعنی سرپرستوں) کو عورتوں کے نکاح سے روکنے سے منع کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی چیز سے روکتا ہے جو ان کی تدبیر کے تحت آتی ہو اس میں ان کا حق ہو۔
{وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (233)}
اور مائیں دودھ پلائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل
(یہ حکم) اس شخص کے لیے ہے جو ارادہ کرے یہ کہ پوری کرے وہ دودھ پلانے کی مدت، اور بچے کے باپ پر ہے کھانا ان کا اور کپڑا ان کا موافق دستور کے، نہیں تکلیف دیا جاتا کوئی نفس مگر اپنی وسعت کے مطابق ہی، نہ نقصان پہنچایا جائے ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سےاور اوپر وارثوں کے مثل اسی کے
(نان نفقہ) ہے، پس اگر ارادہ کریں ماں باپ دودھ چھڑانے کا آپس کی رضامندی اور باہمی مشورے سے، تو نہیں کچھ گناہ ان دونوں پر،اور اگر ارادہ کرو تم کہ دودھ پلواؤ
(کسی اَنّا سے)اپنی اولاد کو، تو نہیں کوئی گناہ تم پر جب کہ حوالے کر دو
(ان کے) جو کچھ تم نے دینا ٹھہرایا تھا موافق دستور کے، اور ڈرو اللہ سے اور جان لو بے شک اللہ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، دیکھنے والا ہے
(233)
#
{233} هذا خبر بمعنى الأمر تنزيلاً له منزلة المتقرر الذي لا يحتاج إلى أمر بأن {يرضعن أولادهن حولين}؛ ولما كان الحول يطلق على الكامل وعلى معظم الحول قال: {كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة}؛ فإذا تم للرضيع حولان فقد تم رضاعه وصار اللبن بعد ذلك بمنزلة سائر الأغذية، فلهذا كان الرضاع بعد الحولين غير معتبر لا يُحَرِّم. ويؤخذ من هذا النص ومن قوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً}؛ أن أقل مدة الحمل ستة أشهر وأنه يمكن وجود الولد بها {وعلى المولود له}؛ أي: الأب، {رزقهن وكسوتهن بالمعروف}؛ وهذا شامل لما إذا كانت في حباله أو مطلقة، فإن على الأب رزقها؛ أي: نفقتها وكسوتها وهي الأجرة للرضاع، ودل هذا على أنها إذا كانت في حباله لا يجب لها أجرة غير النفقة والكسوة وكل بحسب حاله، فلهذا قال: {لا تكلف نفس إلا وسعها}؛ فلا يكلف الفقير أن ينفق نفقة الغني ولا من لم يجد شيئاً بالنفقة حتى يجد {لا تضار والدة بولدها ولا مولود له بولده}؛ أي: لا يحل أن تضار الوالدة بسبب ولدها، إما أن تمنع من إرضاعه أو لا تعطى ما يجب لها من النفقة والكسوة أو الأجرة {ولا مولود له بولده}؛ بأن تمتنع من إرضاعه على وجه المضارة [له] أو تطلب زيادة عن الواجب ونحو ذلك من أنواع الضرر، ودل قوله: {مولود له}؛ أن الولد لأبيه لأنه موهوب له ولأنه من كسبه، فلذلك جاز له الأخذ من ماله رضيَ أو لم يرضَ، بخلاف الأم.
وقوله: {وعلى الوارث مثل ذلك}؛ أي: على وارث الطفل إذا عدم الأب، وكان الطفل ليس له مال مثل ما على الأب من النفقة للمرضع والكسوة، فدل على وجوب نفقة الأقارب المعسرين على القريب الوارث الموسر، {فإن أرادا}؛ أي: الأبوان، {فصالاً}؛ أي: فطام الصبي قبل الحولين، {عن تراضٍ منهما}؛ بأن يكونا راضيين، {وتشاور}؛ فيما بينهما هل هو مصلحة للصبي أم لا؟ فإن كان مصلحة ورضيا {فلا جناح عليهما}؛ في فطامه قبل الحولين، فدلت الآية بمفهومها على أنه إن رضي أحدهما دون الآخر أو لم يكن مصلحة للطفل أنه لا يجوز فطامه. وقوله: {وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم}؛ أي: تطلبوا لهم المراضع غير أمهاتهم على غير وجه المضارة، {فلا جناح عليكم إذا سلمتم ما آتيتم بالمعروف}؛ أي: للمرضعات، {والله بما تعملون بصير}؛ فمجازيكم على ذلك بالخير والشر.
[233] یہ خبر، امر کے معنی میں ہے گویا یہ امر متحقق ہے جو کسی حکم کا محتاج نہیں، وہ یہ کہ مائیں
﴿ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْ٘نِ ﴾ ’’اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘ چونکہ
(حَوْل) کا لفظ سال یا سال کے بڑے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اس لیے فرمایا:
﴿ كَامِلَیْ٘نِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ﴾ ’’پورے دو سال، اس شخص کے لیے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی چاہے‘‘ پس جب دودھ پیتے بچے کے دو سال مکمل ہو جائیں تو اس کی رضاعت مکمل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ماں کا دودھ دیگر غذاؤں کی مانند ہو جاتا ہے۔ اسی لیے دو سال کے بعد کی رضاعت معتبر نہیں اور اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس نص اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰ٘ثُوْنَ شَ٘هْرًا ﴾ (الاحقاف:46؍15) ’’اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے۔‘‘ کو ملا کر یہ فقہی مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ اس مدت میں بچے کا پیدا ہوناممکن ہے۔
﴿ وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ ﴾ ’’اور بچے کے باپ پر‘‘
﴿ رِزْقُ٘هُنَّ وَؔ كِسْوَتُ٘هُنَّ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’ان کا رزق اور ان کا لباس ہے، معروف کے ساتھ‘‘ اور یہ حکم دودھ پلانے والی خواہ اس کے نکاح میں ہو یا مطلقہ، دونوں کو شامل ہے۔ مولود
(بچے) کے باپ پر اس عورت کا نان و نفقہ اور لباس واجب ہے اور یہ دودھ پلانے کی اجرت ہے۔
یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک عورت مرد کے نکاح میں ہے اس وقت تک عورت کو رضاعت کی اجرت دینا واجب نہیں،
سوائے نان و نفقہ اور لباس کے۔ نان و نفقہ اور لباس بھی مرد کے حسب حال اور حیثیت کے مطابق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا تُكَلَّفُ نَفْ٘سٌ اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ ’’کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے‘‘ یعنی کسی فقیر شخص کو مال دار شخص جیسے نان و نفقہ دینے کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا اور نہ اس شخص کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ نان و نفقہ ادا کرے جس کے پاس نان و نفقہ ادا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس طاقت ہو جائے۔ فرمایا:
﴿ لَا تُضَآرَّؔ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا ﴾ ’’ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘‘ یعنی یہ جائز نہیں کہ ماں کو اپنے بیٹے کے سبب سے نقصان پہنچایا جائے۔
(یعنی ان دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعے سے) یا تو اس کو دودھ پلانے سے روک دیا جائے یا نان و نفقہ،لباس اور اجرت وغیرہ جیسے واجبات اس کو ادا نہ کیے جائیں۔
﴿ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ﴾ ’’اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے‘‘ یعنی ماں نقصان پہنچانے کے لیے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا اس اجرت سے زیادہ کا مطالبہ کرے جو دودھ پلانے پر اس کا حق بنتا ہے اور اس قسم کے دیگر نقصانات۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی کو عطا کیا گیا ہے اور اس لیے کہ بیٹا درحقیقت باپ کا کسب ہے، پس اسی لیے باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا مال لے لے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو،
اس کے برعکس ماں مال نہیں لے سکتی۔ فرمایا: ﴿ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْ٘لُ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح وارث کے ذمے ہے۔‘‘ یعنی جب بچے کا باپ نہ ہو اور بچے کا کوئی مال بھی نہ ہو تو بچے کے وارث پر دودھ پلانے والی کا وہی نان و نفقہ وغیرہ واجب ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خوش حال قریبی رشتہ داروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے تنگدست اقرباء کے نان نفقہ کا انتظام کریں۔
﴿ فَاِنْ اَرَادَا ﴾ ’’پس اگر دونوں چاہیں۔‘‘ یعنی اگر والدین
(ماں باپ) ﴿ فِصَالًا ﴾ ’’دودھ چھڑانا‘‘ یعنی دو سال سےقبل ہی بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں
﴿عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا ﴾ ’’آپس کی رضامندی سے۔‘‘ یعنی دونوں ہی دودھ چھڑانے پر راضی ہوں
﴿ وَتَشَاوُرٍ ﴾ ’’اور مشورے سے‘‘ یعنی دونوں کے باہمی مشورے کے ساتھ کہ آیا بچے کا دودھ چھڑانا اس کے لیے درست ہے یا نہیں۔ اگر بچے کے لیے اس میں کوئی مصلحت ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں
﴿فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَا ﴾ ’’تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یعنی تب دو سال سے قبل اس کے دودھ چھڑانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ اگر دونوں میں سے صرف ایک دودھ چھڑانے پر راضی ہو یا دودھ چھڑانے میں بچے کے لیے کوئی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں بچے کا دودھ چھڑانا جائز نہیں۔
﴿ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا۠ اَوْلَادَؔكُمْ ﴾ ’’اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو۔‘‘ یعنی اگر تم ضرر پہنچائے بغیر بچوں کی ماؤں کی بجائے دوسری عورتوں سے دودھ پلوانا چاہو
﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو۔‘‘ یعنی اگر دودھ پلانے والی دیگر عورتوں کو معروف طریقے سے ان کی اجرت عطا کر دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں
﴿ اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تمھارے عملوں کو دیکھنے والا ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ تمھیں اس پر اچھی یا بری جزا دے گا۔
{وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (234)}
اور وہ لوگ جو فوت کر دیے جائیں تم میں سے اور چھوڑ جائیں بیویاں، تو انتظار میں رکھیں وہ اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن، پھر جب پہنچ جائیں وہ اپنی عدت کو ،تو نہیں کوئی گناہ تم پر اس میں جو کریں وہ اپنے حق میں موافق دستور کے، اور اللہ ساتھ اس کے، جو تم عمل کرتے ہو، خبردار ہے
(234)
#
{234} أي: إذا توفي الزوج مكثت زوجته متربصة أربعة أشهر وعشرة أيام وجوباً، والحكمة في ذلك ليتبين الحمل في مدة الأربعة ويتحرك في ابتدائه في الشهر الخامس، وهذا العام مخصوص بالحوامل، فإن عدتهن بوضع الحمل، وكذلك الأمة عدتها على النصف من عدة الحرة شهران وخمسة أيام. وقوله: {فإذا بلغن أجلهن}؛ أي: انقضت عدتهن، {فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن}؛ أي: من مراجعتها للزينة والطيب، {بالمعروف}؛ أي: على وجه غير محرم ولا مكروه، وفي هذا وجوب الإحداد مدة العدة على المتوفى عنها زوجها دون غيرها من المطلقات والمفارقات وهو مجمع عليه بين العلماء، {والله بما تعملون خبير}؛ أي: عالم بأعمالكم ظاهرها وباطنها جليِّها وخفيها فمجازيكم عليها، وفي خطابه للأولياء بقوله: {فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن}؛ دليل على أن الولي ينظر على المرأة ويمنعها مما لا يجوز فعله، ويجبرها على ما يجب وأنه مخاطب بذلك واجب عليه.
[234] یعنی جب خاوند فوت ہو جائے تو عورت پر فرض ہے کہ وہ گھر میں چار مہینے دس دن ٹھہرے اور انتظار کرے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت میں حمل واضح ہو جاتا ہے اور پانچویں مہینے کی ابتدا میں بچہ پیٹ میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ حکم ان تمام عورتوں کے لیے عام ہے جن کے شوہر فوت ہو جائیں۔ مگر اس عموم میں سے حاملہ عورتیں مخصوص ہیں، کیونکہ ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح لونڈی کی عدت نصف یعنی دو ماہ اور پانچ دن ہے۔
﴿ فَاِذَا بَلَ٘غْ٘نَ اَجَلَهُنَّ ﴾ ’’پس جب ان کی عدت پوری ہو جائے‘‘
﴿ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْ٘نَ فِیْۤ اَنْ٘فُ٘سِهِنَّ ﴾ ’’تو جو وہ اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی اگر وہ دوبارہ بناؤ سنگار کرتی ہیں اور خوشبو وغیرہ لگاتی ہیں
﴿ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’بھلائی کے ساتھ‘‘ یعنی اگر وہ بناؤ سنگار اس طرح کریں جو حرام اور مکروہ نہ ہو
(بلکہ معروف طریقے سے ہو۔) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس پر عدت کی مدت کے لیے سوگ منانا
(یعنی بناؤ سنگار سے پرہیز کرنا) فرض ہے۔ جب کہ یہ سوگ مطلقہ رجعیہ اور بائنہ پر واجب نہیں، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے ظاہری اور باطنی، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کو جانتا ہے۔ پس وہ تمھیں ان کا بدلہ دے گا اور عورت کے اولیا سے اللہ تعالیٰ کے خطاب
﴿ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْ٘نَ فِیْۤ اَنْ٘فُ٘سِهِنَّ ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا ولی اس پر نظر رکھے اور جو فعل جائز نہ ہو اس کے ارتکاب سے اسے منع کرے اور اس فعل کو بجا لانے پر اسے مجبور کرے جو اس پر واجب ہو۔ عورت کا ولی اس آیت کا مخاطب ہے اور ایسا کرنا اس پر واجب ہے۔
{وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (235)}
اور نہیں گناہ تم پر اس بات میں کہ اشارہ کرو تم ساتھ اس کے نکاح کے پیغام کا عورتوں کو
(عدت میں) یا پوشیدہ رکھو تم اپنے دلوں میں، جان لیا اللہ نے یہ کہ یقیناً تم ضرور ذکر کرو گے ان عورتوں کا، لیکن نہ وعدہ کرو ان سے چھپ کر، مگر یہی کہ کہو تم کوئی بات موافق دستور کے،اور مت عزم کرو عقد نکاح کا، یہاں تک کہ پہنچ جائے میعاد مقرر اپنی انتہا کو،اور جان لو بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، پس ڈرو تم اس سے،اور جان لو بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا، نہایت بردبار ہے
(235)
#
{235} هذا حكم المعتدة من وفاة أو المبانة في الحياة، فيحرم على غير مبينها أن يصرح لها في الخطبة وهو المراد بقوله: {ولكن لا تواعدوهن سرًّا}؛ وأما التعريض فقد أسقط تعالى فيه الجناح، والفرق بينهما أن التصريح لا يحتمل غير النكاح فلهذا حرم خوفاً من استعجالها وكذبها في انقضاء عدتها رغبة في النكاح، ففيه دلالة على منع وسائل المحرم وقضاء لحق زوجها الأول بعدم مواعدتها لغيره مدة عدتها، وأما التعريض وهو الذي يحتمل النكاح وغيره فهو جائز للبائن كأن يقول [لها]: إني أريد التزوج وإني أحب أن تشاوريني عند انقضاء عدتك ونحو ذلك، فهذا جائز لأنه ليس بمنزلة الصريح، وفي النفوس داعٍ قوي إليه، وكذا إضمار الإنسان في نفسه أن يتزوج من هي في عدتها إذا انقضت، ولهذا قال: {أو أكننتم في أنفسكم علم الله أنكم ستذكرونهن}؛ هذا التفصيل كله في مقدمات العقد، وأما عقد النكاح فلا يحل، {حتى يبلغ الكتاب أجله}؛ أي: تنقضي العدة.
{واعلموا أن الله يعلم ما في أنفسكم}؛ أي: فانووا الخير ولا تنووا الشرَّ خوفاً من عقابه ورجاء لثوابه، {واعلموا أن الله غفور}؛ لمن صدرت منه الذنوب فتاب منها، ورجع إلى ربه، {حليم}؛ حيث لم يعاجل العاصينَ على معاصيهم مع قدرته عليهم.
[235] یہ حکم اس عورت کے بارے میں ہے جو خاوند کی وفات پر عدت گزار رہی ہو یا اسے طلاق دی گئی ہو۔ طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے حرام ہے کہ وہ صریح الفاظ میں اسے نکاح کا پیغام دے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ۠ سِرًّا ﴾ ’’ لیکن تم ان سے وعدہ مت کرو، چھپ کر‘‘ سے یہی مراد ہے۔
رہی تعریض
(اشارے کنایے سے نکاح کی بات کرنا) تو اللہ تعالیٰ نے اس میں گناہ کو ساقط کر دیا ہے۔
اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تصریح صرف نکاح کے معنی کی محتمل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تصریح کو حرام قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں عورت جلدی نکاح کرنے کے لیے عدت پوری ہونے کے سلسلے میں جھوٹ نہ بولے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام کی طرف لے جانے والے وسائل بھی ممنوع ہیں، نیز عدت کی مدت کے دوران خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کے وعدے کا سدباب کر کے، پہلے خاوند کے حق کو برقرار رکھا ہے۔ رہی تعریض تو اس میں نکاح کے علاوہ دیگر معانی کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور یہ تعریض بائنہ عورت کے لیے بھی جائز ہے، جیسے کوئی کہے ’’میں نکاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ جب تمھاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ سے مشورہ کر لینا‘‘ تو یہ جائز ہے، اس لیے کہ تعریض تصریح کی مانند نہیں ہے اور نفوس انسانی کے اندر اس کا قوی داعیہ موجود ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے دل میں یہ ارادہ چھپا کر رکھنا بھی جائز ہے کہ وہ فلاں عورت،
جو عدت گزار رہی ہے اس کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّـكُمْ سَتَذْكُرُوْنَ٘هُنَّ ﴾ ’’یا چھپا کر رکھو تم اپنے نفسوں میں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے‘‘ یہ تمام تفصیلات عقد کے مقدمات میں شمار ہوتی ہیں۔
(لہٰذا جائز ہیں) رہا عقد نکاح تو یہ جائز نہیں
﴿حَتّٰی یَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ ﴾ ’’جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے‘‘
﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ ﴾ ’’اور جان لو، اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہیں‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف اور اس کے ثواب کی امید میں ہمیشہ بھلائی کی نیت رکھو اور کبھی بھی برائی کی نیت نہ رکھو
﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو توبہ کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے
﴿ حَلِیْمٌ ﴾ ’’وہ بردبار ہے‘‘ کیونکہ گناہ گاروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ان کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔
{لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (236)}
نہیں گناہ تم پر اگر طلاق دے دو تم عورتوں کو جب کہ نہ ہاتھ لگایا ہو تم نے ان کو اور نہ مقرر کیا ہو واسطے ان کے کچھ مہر اور انھیں کچھ فائدہ دو، خوش حال پر ہے اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر ہے اس کی حیثیت کے مطابق، فائدہ دینا مطابق دستور کے، لازم ہے اوپر نیکی کرنے والوں کے
(236)
#
{236} أي: ليس عليكم ـ يا معشر الأزواج ـ جناح وإثم بتطليق النساء قبل المسيس وفرض المهر وإن كان في ذلك كسر لها فإنه ينجبر بالمتعة فعليكم أن تمتعوهن؛ بأن تعطوهن شيئاً من المال جبراً لخواطرهن {على الموسع قدره وعلى المقتر}؛ أي: المعسر، {قدره}؛ وهذا يرجع إلى العرف وأنه يختلف باختلاف الأحوال ولهذا قال: {متاعاً بالمعروف}؛ فهذا حق واجب {على المحسنين}؛ ليس لهم أن يبخسوهن، فكما تسببوا لتشوفهن واشتياقهن وتعلق قلوبهن، ثم لم يعطوهن ما رغبن فيه فعليهم في مقابلة ذلك المتعة.
فلله ما أحسن هذا الحكم الإلهي وأدله على حكمة شارعه ورحمته! ومن أحسن من الله حكماً لقوم يوقنون؟! فهذا حكم المطلقات قبل المسيس وقبل فرض المهر، ثم ذكر حكم المفروض لهن فقال:
[236] یعنی اے مردو! اگر تم اپنی بیویوں کو چھونے اور مہر مقرر کرنے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس میں عورتوں کے لیے نقصان ہے تاہم متعہ طلاق سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم ان کی دل جوئی کی خاطر ان کو کچھ مال ضرور عطا کرو۔
﴿ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ﴾ ’’فراخ دست پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی وسعت کے مطابق‘‘ مطلقہ کو خرچ دینا لازم ہے۔ اور اس کا مرجع عرف ہے جو کہ زمان و مکان کے اختلاف کے مطابق مختلف ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿ مَتَاعًۢا بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’فائدہ پہنچانا ہے معروف کے ساتھ‘‘ پس یہ حق واجب ہے
﴿ عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’نیکو کاروں پر‘‘ اس لیے ان کو اس حق میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔
پس جیسے وہ عورتوں کی امیدوں، ان کے اشتیاق اور ان کے دلی تعلق کا سبب بنے، لیکن پھر انھوں نے ان کو وہ چیز نہیں دی جو ان عورتوں کو مرغوب تھی، اس لیے اس کے مقابلے میں ان کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کتنا اچھا ہے! اور شارع کی حکمت اور رحمت پر کس قدر دلالت کرتا ہے! اور ایمان و ایقان سے بہرہ ور لوگوں کے لیے اللہ سے بڑھ کر کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ حکم تو ان عورتوں سے متعلق تھا جن کو چھونے سے پہلے اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو۔
{وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (237)}
اور اگر طلاق دے دو تم ان کو پہلے اس سے کہ ہاتھ لگاؤ تم ان کو جب کہ مقرر کر چکے ہو تم واسطے ان کے مہر تو نصف ہے اس
(مہر) کا جو تم نے مقرر کیا مگر یہ کہ وہ عورتیں معاف کر دیں یا معاف کر دے وہ شخص کہ اس کے ہاتھ میں ہے گرہ نکاح کی، اور تمھارا معاف کر دینا زیادہ قریب ہے تقویٰ کے،اور نہ بھلاؤ احسان کرنا آپس میں، بے شک اللہ، اس کو جو تم عمل کرتے ہو، دیکھنے والا ہے
(237)
#
{237} أي: إذا طلقتم النساء قبل المسيس وبعد فرض المهر فللمطلقات من المهر المفروض نصفه ولكم نصفه، هذا هو الواجب ما لم يدخله عفو ومسامحة بأن تعفو عن نصفها لزوجها إذا كان يصح عفوها، {أو يعفو الذي بيده عقدة النكاح}؛ وهو الزوج على الصحيح لأنه الذي بيده حل عقدته، ولأن الولي لا يصح أن يعفو عن ما وجب للمرأة لكونه غير مالك ولا وكيل، وقيل: إنه الأب وهو الذي يدل عليه لفظ الآية الكريمة.
ثم رغب في العفو وأن من عفا كان أقرب لتقواه لكونه إحساناً موجباً لشرح الصدر، ولكون الإنسان لا ينبغي أن يهمل نفسه من الإحسان والمعروف، وينسى الفضل الذي هو أعلى درجات المعاملة، لأن معاملة الناس فيما بينهم على درجتين: إما عدل وإنصاف واجب، وهو أخذ الواجب وإعطاء الواجب، وإما فضل وإحسان، وهو إعطاء ما ليس بواجب والتسامح في الحقوق والغض مما في النفس، فلا ينبغي للإنسان أن ينسى هذه الدرجة ولو في بعض الأوقات، وخصوصاً لمن بينك وبينه معاملة أو مخالطة، فإن اللهَ مجازٍ المحسنين بالفضل والكرم، ولهذا قال: {إن الله بما تعملون بصير}. ثم قال تعالى:
[237] پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مہر مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مہر مقرر کرنے کے بعد ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو تو مطلقہ عورتوں کے لیے نصف مہر ہے اور باقی نصف تمھارا ہے۔ مہر کی یہ رقم اگر عورت کی طرف سے معاف نہ کر دی جائے تو خاوند پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ جب کہ عورت کا اس کو معاف کرنا صحیح ہو۔
﴿ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّ٘كَاحِ ﴾ ’’یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘ صحیح مسلک کے مطابق اس سے مراد شوہر ہے
(نہ کہ ولی) کیونکہ شوہر ہی وہ شخص ہے جو نکاح کی گرہ کو کھول سکتا ہے۔ عورت کے ولی کے لیے تو درست ہی نہیں کہ وہ عورت کے کسی حق واجب کو معاف کر دے کیونکہ وہ مالک ہے نہ وکیل۔
( اس کی وضاحت شیخa نے حاشیہ نمبر۱ میں فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ان سطور کو لکھتے وقت میرا یہی موقف تھا لیکن بعد میں میرے لیے یہ واضح ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ قریب ترین ولی ہے اور وہ باپ ہے۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے یہی زیادہ صحیح قول ہے جیسا کہ غور وفکر کرنے والے کے لیے ظاہر ہے۔‘‘ اور حاشیہ نمبر۲ میں مؤلفa کے قلم سے لکھاہوا ہے: ’’ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ باپ ہے (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) اور یہی وہ معنی ہے جس پر آیت کریمہ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔‘‘
(از محقق) خاوند کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادا شدہ
(یا مقرر) حق مہر میں سے اپنے حصے کاآدھا حق مہر عورت سے واپس نہ لے اور پورا کاپورا مہر ہی عورت کے پاس رہنے دے
(یا اس کو دے دے)۔
(ص۔ی)
پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ جو کوئی معاف کر دیتا ہے وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا احسان ہے جو شرح صدر کا موجب ہے، نیز انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسان اور نیکی سے تہی دست نہ رکھے اور اس فضیلت کو فراموش نہ کر دے جو معاملات کا بلند ترین درجہ ہے، اس لیے کہ لوگوں کے آپس کے معاملات کے دو درجے ہیں۔
(۱) عدل و انصاف جو کہ واجب ہے۔ یعنی حق واجب لینا اور کسی کا جو حق واجب ہے اسے ادا کرنا۔
(۲) فضل و احسان،
اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کچھ عطا کرنا جس کا عطا کرنا واجب نہ تھا اور اپنے حقوق کے بارے میں چشم پوشی اور مسامحت سے کام لینا۔ پس انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس درجہ کو فراموش کر دے خواہ کبھی کبھار ہی سہی۔ خاص طور پر آپ اس شخص کے ساتھ تسامح کو ہرگز فراموش نہ کریں جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اور میل جول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو احسان کے بدلے میں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔‘‘
{حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (239)}
حفاظت کرو تم
(سب) نمازوں کی اور درمیان والی نماز کی، اور کھڑے ہو اللہ کے سامنے عاجزی کرنے والے
(238) پھر اگر
(حالت) خوف میں ہو تم، تو
(نماز پڑھ لو) پیدل یا سوار ہی، پھر جب امن میں ہو جاؤ تم، تو یاد کرو اللہ کو جس طرح سکھایا ہے اس نے تمھیں وہ جو تم نہیں تھے جانتے
(239)
#
{238} يأمر تعالى بالمحافظة {على الصلوات}؛ عموماً وعلى، {الصلاة الوسطى}؛ وهي العصر خصوصاً، والمحافظة عليها أداؤها بوقتها وشروطها وأركانها وخشوعها وجميعِ ما لها من واجب ومستحب. وبالمحافظة على الصلوات تحصل المحافظة على سائر العبادات وتفيد النهيَ عن الفحشاء والمنكر، خصوصاً إذا أكملها كما أمر بقوله: {وقوموا لله قانتين}؛ أي: ذليلين مخلصين خاشعين، فإن القنوت دوام الطاعة مع الخشوع.
[238] اللہ تعالیٰ تمام نمازوں کی حفاظت کا عام حکم دے رہا ہے، اور ’’درمیان والی نماز‘‘ کی حفاظت کا خاص طورپر۔ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نماز کی حفاظت کا مطلب ہے کہ اسے وقت پر، مشروط ارکان کا خیال رکھتے ہوئے، خشوع خضوع کے ساتھ اور اس کے تمام واجبات و مستحبات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ نماز کی حفاظت کے ساتھ دوسری عبادتوں کی بھی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے
(خود کو) برائی اوربے حیائی سے روک دینے کافائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے،
خصوصاً جب نماز اس طرح مکمل کی جائے جس طرح اللہ نے اس آیت میں فرمایا: ﴿ وَقُ٘وْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ ﴾ ’’اللہ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو۔‘‘ یعنی اخلاص، عاجزی اور ذلت کا اظہار کرتے ہوئے۔ اس میں قیام اور عاجزی کا حکم ہے، اور نماز کے دوران بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ آرام و سکون کا حکم ہے۔
#
{239} وقوله: {فإن خفتم}؛ حذف المتعلق ليعم الخوف من العدو والسبع وفواتِ ما يتضرر العبد بفوته فصلوا {رجالاً}؛ ماشين على أرجلكم، {أو ركباناً}؛ على الخيل والإبل وسائر المركوبات، وفي هذه الحال لا يلزمه الاستقبال. فهذه صفة صلاة المعذور بالخوف فإذا حصل الأمن صلى صلاة كاملة ويدخل في قوله: {فإذا أمنتم فاذكروا الله}؛ تكميل الصلوات، ويدخل فيه أيضاً الإكثار من ذكر الله شكراً له على نعمة الأمن وعلى نعمة التعليم لما فيه سعادة العبد.
وفي الآية الكريمة فضيلة العلم وأن على من علمه الله ما لم يكن يعلم الإكثارَ من ذكر الله، وفيه الإشعارُ أيضاً أن الإكثار من ذكره سبب لتعليم علوم أخر لأن الشكر مقرون بالمزيد. ثم قال تعالى:
[239] پھر فرمایا:
﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ ﴾ ’’اگر تمھیں خوف ہو۔‘‘ خوف والی چیز کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ اس میں کافر سے، ظالم سے اور درندے سے خوف اور دوسرے تمام اقسام کے خوف شامل ہوجائیں۔ یعنی ان حالات میں نماز پڑھتے ہوئے اگر تم خوف محسوس کرو تو
﴿ فَرِجَالًا﴾ ’’پیدل ہی‘‘ یعنی چلتے چلتے نماز پڑھ لو
﴿ اَوْ رُؔكْبَانًا ﴾ ’’سوار ہوکر ہی سہی‘‘ یا گھوڑوں اونٹوں وغیرہ پر، اس طرح نماز پڑھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ کبھی ان کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور کبھی نہ ہو۔ اس سے بروقت نماز پڑھنے کی مزید تاکید ظاہر ہوتی ہے، کہ بہت سے ارکان اور بہت سی شروط میں خلل پڑجانے کے باوجود نماز وقت پر پڑھو۔ اس نازک وقت میں بھی نماز میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔ ان حالات میں اس طریقے سے نماز پڑھنا افضل ہے، بلکہ تاخیر کرکے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس طریقے سے وقت پر نماز پڑھ لینا زیادہ ضروری ہے۔
﴿ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ ﴾ ’’پھر جب تم امن میں آجاؤ۔‘‘ یعنی خوف ختم ہوجائے
﴿ فَاذْكُرُوا اللّٰهَؔ ﴾ ’’تو اللہ کا ذکر کرو۔‘‘ اس میں ذکر کی ہر قسم شامل ہے۔ اور کامل نماز پڑھنا بھی اس ذکر کی ایک صورت ہے۔
﴿ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’جس طرح اس نے تمھیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔‘‘ اس لیے کہ یہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے عوض ذکر اور شکر کرنا چاہیے، تاکہ تم پر اس کی نعمت باقی رہے اور اس میں اضافہ ہو۔
{وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (240)}
اور وہ لوگ جو فوت کر دیے جائیں تم میں سے اور چھوڑ جائیں بیویاں،
(ان پر لازم ہے) وصیت کرنا واسطے اپنی بیویوں کے، خرچ دینے کی ایک سال تک بغیر نکالنے کے
(گھر سے)، پس اگر وہ خود نکل جائیں تو نہیں کوئی گناہ تم پر اس میں جو کریں وہ اپنے حق میں موافق دستور کے،اور اللہ غالب ہے، حکمت والا
(240)
#
{240} اشتهر عند كثير من المفسرين أن هذه الآية الكريمة نسختها الآية التي قبلها وهي قوله تعالى: {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجاً يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشراً}؛ وأن الأمر كان على الزوجة أن تتربص حولاً كاملاً ثم نسخ بأربعة أشهر وعشر، ويجيبون عن تقدم الآية الناسخة أن ذلك تقدم في الوضع لا في النزول لأن شرط الناسخ أن يتأخر عن المنسوخ، وهذا القول لا دليل عليه، ومن تأمل الآيتين اتضح له أن القول الآخر في الآية هو الصواب، وأن الآية الأولى في وجوب التربص أربعة أشهر وعشراً على وجه التحتيم على المرأة، وأما في هذه الآية فإنها وصية لأهل الميت أن يبقوا زوجة ميتهم عندهم حولاً كاملاً جبراً لخاطرها وبرًّا بميتهم، ولهذا قال: {وصية لأزواجهم}؛ أي: وصية من الله لأهل الميت أن يستوصوا بزوجته ويمتعوها ولا يخرجوها، فإن رغبت أقامت في وصيتها وإن أحبت الخروج فلا حرج عليها، ولهذا قال: {فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن}؛ أي: من التجمل واللباس، لكن الشرط أن يكون بالمعروف الذي لا يخرجها عن حدود الدين والاعتبار. وختم الآية بهذين الاسمين العظيمين الدالين على كمال العزة وكمال الحكمة، لأن هذه أحكام صدرت عن عزته، ودلت على كمال حكمته حيث وضعها في مواضعها اللائقة بها.
[240] مطلب یہ ہے کہ جو مرد فوت ہوجاتے ہیں او راپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ تو مرنے سے پہلے ان کے لیے ضروری ہے
﴿ وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ۠ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ﴾ ’’اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کرجائیں سال بھر فائدہ اٹھانے کی، اور یہ کہ انھیں کوئی نہ نکالے۔‘‘ یعنی انھیں چاہیے کہ بیویوں کو سال بھر ان
(شوہروں) کے گھروں میں رہنے کی وصیت کرجائیں۔ اس مدت میں عورتیں وہاں سے نہ نکلیں۔
﴿ فَاِنْ خَرَجْنَ ﴾ ’’پس اگر وہ خود نکل جائیں۔‘‘
﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تو
(اے وارثو!) تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں۔‘‘
﴿ فِیْ مَا فَعَلْ٘نَ فِیْۤ اَنْ٘فُ٘سِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ١ؕ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ جو وہ اپنے لیے اچھائی سے کریں۔ اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔‘‘ اچھائی سے مراد زیب و زینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت اپنے سے پہلی آیت کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں
﴿ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّ٘صْنَ بِاَنْ٘فُ٘سِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْ٘هُرٍ وَّعَشْ٘رًا﴾ (بقرہ:2؍234) ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں ۔‘‘ بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں، بلکہ پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ماہ دس دن کی مدت پوری کرنا واجب ہے۔ اس سے زیادہ مستحب ہے۔ خاوند کے حق کی تکمیل کے لیے اور بیوی کی دلجوئی کے لیے اسے پورا کرنا چاہیے۔ مستحب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے عورتوں کے اس گھر سے چلے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے خاوند کے وارثوں پر گناہ نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس گھر میں رہائش رکھنا واجب ہوتا تو انھیں یہ نہ کہا جاتا کہ کوئی حرج نہیں۔
{وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (241) كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (242)}
اور واسطے مطلقہ عورتوں کے فائدہ پہنچانا ہے مطابق دستور کے،
(یہ) حق ہے اوپر متقی لوگوں کے
(241) اسی طرح بیان فرماتا ہے اللہ واسطے تمھارے اپنی آیتیں، تاکہ تم سمجھو
(242)
#
{241 ـ 242} لما بين في الآية السابقة إمتاع المفارقة بالموت ذكر هنا أن كل مطلقة فلها على زوجها أن يمتعها ويعطيها ما يناسب حاله وحالها وأنه حق إنما يقوم به المتقون، فهو من خصال التقوى الواجبة أو المستحبة، فإن كانت المرأة لم يسم لها صداق وطلقها قبل الدخول فتقدم أنه يجب عليه بحسب يساره وإعساره، وإن كان مسمى لها فمتاعها نصف المسمى، وإن كانت مدخولاً بها صارت المتعة مستحبة في قول جمهور العلماء ومن العلماء من أوجب ذلك استدلالاً بقوله: {حقاً على المتقين}؛ والأصل في الحق أنه واجب خصوصاً وقد أضافه إلى المتقين، وأصل التقوى واجبة، فلما بين تعالى هذه الأحكام الجليلة بين الزوجين؛ أثنى على أحكامه، وعلى بيانه لها وتوضيحه، وموافقتها للعقول السليمة، وأن القصد من بيانه لعباده أن يعقلوا عنه ما بينه فيعقلونها حفظاً وفهماً وعملاً بها، فإن ذلك من تمام عقلها.
[242,241] یعنی ہر طلاق یافتہ عورت کو مناسب فائدہ دینااس کا حق ہے جو ہر متقی پر واجب ہے، تاکہ عورت کی دل جوئی ہوسکے اور اس کے بعض حقوق ادا ہوسکیں۔ جس عورت کو خلوت سے پہلے طلاق دی جائے اسے یہ متعہ
(مثلاً کپڑوں کا جوڑا یا کچھ رقم وغیرہ) دینا واجب ہے۔ دوسری صورت میں پورا حق مہر ادا کرنا واجب ہے جیسے پہلے بیان ہوا۔ اس مسئلہ میں یہ قول زیادہ بہتر ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر عورت کو طلاق کے بعد متعہ دینا واجب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے۔
(اس میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی) لیکن قانون یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ متعہ اس عورت کے لیے واجب ہے جسے خلوت سے پہلے اور حق مہر کے تعین سے پہلے طلاق ہوجائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم مسائل بیان فرمائے جو اس کی حکمت اور رحمت پر مشتمل ہیں،
تو بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ اسی طرح تم پر اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے۔‘‘ یعنی حدود، حلال و حرام اور وہ احکام جن میں تمھارا فائدہ ہے۔
﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ تاکہ تم انھیں سمجھو، اور ان کا اصل مقصد تمھیں معلوم ہوجائے، کیونکہ جو ان کو سمجھ لے گا،
وہ ان پر عمل کرنا ضروری سمجھے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہے:
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (243)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جو نکلے اپنے گھروں سے اور وہ کئی ہزار تھے، موت کے ڈر سے، تو کہا ان سے اللہ نے، مر جاؤ تم! ، پھر زندہ کر دیا ان کو، بے شک اللہ فضل کرنے والا ہے اوپر لوگوں کے اور لیکن اکثر لوگ نہیں شکر کرتے
(243)
#
{243} أي: ألم تسمع بهذه القصة العجيبة الجارية على من قبلكم من بني إسرائيل حيث حل الوباء بديارهم فخرجوا بهذه الكثرة فراراً من الموت فلم ينجِهِمُ الفرارُ ولا أغنى عنهم من وقوع ما كانوا يحذرون، فعاملهم بنقيض مقصودهم وأماتهم الله عن آخرهم، ثم تفضل عليهم فأحياهم إما بدعوة نبي كما قاله كثير من المفسرين وإما بغير ذلك، ولكن ذلك بفضله وإحسانه وهو لا يزال فضله على الناس وذلك موجب لشكرهم لنعم الله بالاعتراف بها وصرفها في مرضاة الله ومع ذلك فأكثر الناس قد قصروا بواجب الشكر.
وفي هذه القصة عبرة بأنه على كل شيء قدير وذلك آية محسوسة على البعث؛ فإن هذه القصة معروفة منقولة نقلاً متواتراً عند بني إسرائيل ومن اتصل بهم، ولهذا أتى بها تعالى بأسلوب الأمر الذي قد تقرر عند المخاطبين، ويحتمل أن هؤلاء الذين خرجوا من ديارهم خوفاً من الأعداء وجبناً عن لقائهم، ويؤيد هذا أن الله ذكر بعدها الأمر بالقتال وأخبر عن بني إسرائيل أنهم كانوا مخرجين من ديارهم وأبنائهم، وعلى الاحتمالين فإن فيها ترغيباً في الجهاد وترهيباً من التقاعد عنه وأن ذلك لا يغني عن الموت شيئاً {قل لو كنتم في بيوتكم لبرز الذين كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم}.
[243] اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرما رہا ہے جو ایک متفقہ مقصد کے تحت کثیر تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ وبا یا کسی اور وجہ سے مرجانے کا خوف رکھتے تھے۔ گھروں سے نکلنے سے ان کا مقصود موت سے بچنا تھا، لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی، چنانچہ
﴿فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے انھیں فرمایا: مرجاؤ۔‘‘ تو وہ مر گئے۔
﴿ ثُمَّؔ ﴾ پھر اللہ تعالیٰ نے
﴿ اَحْیَاهُمْ ﴾ ’’انھیں زندہ کردیا۔، یا نبی کی دعا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے۔ یہ ان پر رحمت، مہربانی اور حلم کا اظہار تھا اور مردوں کو زندہ کرنے کی ایک نشانی دکھانا مقصود تھا،
اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔‘‘ پس وہ نعمت ملنے پر شکر میں اضافہ نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید گناہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں ایسے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں جو نعمت کو پہچان کر، اس کا اعتراف کرکے اسے منعم حقیقی کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دیاہے۔ اس سے مراد اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لیے اپنے دشمنوں یعنی کافروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔
{وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (244) مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (245)}
اور لڑو تم اللہ کی راہ میں، اور جان لو! بے شک اللہ سننے والا، خوب جاننے والا ہے
(244) کون ہے جو قرض دے اللہ کو قرض حسنہ ، پھر اللہ بڑھا دے وہ
(مال) اس کے لیے کئی کئی گنا؟ اور اللہ ہی تنگی کرتا اور فراخی کرتا ہےاور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
(245)
#
{244 ـ 245} جمع الله بين الأمر بالقتال في سبيله بالمال والبدن؛ لأن الجهاد لا يقوم إلا بالأمرين، وحث على الإخلاص فيه بأن يقاتل العبد لتكون كلمة الله هي العليا فإن الله {سميع}؛ للأقوال وإن خفيت {عليم}؛ بما تحتوي عليه القلوب من النيات الصالحة وضدها. وأيضاً فإنه إذا علم المجاهد في سبيله أن الله سميع عليم، هان عليه ذلك وعلم أنه بعينه ما يتحمل المتحملون من أجله وأنه لا بد أن يمدهم بعونه ولطفه.
وتأمل هذا الحث اللطيف على النفقة وإن المنفق قد أقرض الله الملي الكريم ووعده المضاعفة الكثيرة كما قال تعالى: {مثل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كمثل حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة، والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم}؛ ولما كان المانع الأكبر من الإنفاق خوفَ الإملاقِ أخبر تعالى أنَّ الغنى والفقرَ بيد الله، وأنه يقبض الرزق على من يشاء ويبسطه على من يشاء، فلا يتأخر من يريد الإنفاق خوفَ الفقر، ولا يظن أنه ضائع، بل مرجع العباد كلهم إلى الله فيجد المنفقون والعاملون أجرهم عنده مدخراً أحوج ما يكونون إليه، ويكون له من الوقع العظيم ما لا يمكن التعبير عنه.
والمراد بالقرض الحسن هو ما جمع أوصاف الحسن من النية الصالحة وسماحة النفس بالنفقة ووقوعها في محلها وأن لا يتبعها المنفِقُ مَنًّا ولا أذىً ولا مبطلاً ومنقصاً.
[245,244] چنانچہ فرمایا:
﴿ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سننا جانتا ہے۔‘‘ لہٰذا نیت درست رکھو، اور جہاد سے صرف اللہ کی رضا تمھارا مقصود ہونا چاہیے اور تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ سے پہلوتہی کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جنگ نہ کرنے کے نتیجے میں تم زیادہ عرصہ زندہ رہو گے تو حقیقت یوں نہیں ہے۔ اسی لیے اس حکم کی تمہید کے طورپر گزشتہ قصہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح ان کو موت کے ڈر سے گھروں سے نکلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ ان کا خطرہ ان کے سامنے آگیا جب کہ ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ موت اس طرح بھی آسکتی ہے، تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمھارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، اور چونکہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے مال خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے اللہ نے اس راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا اور ترغیب دی، اور اسے قرض فرمایا، چنانچہ فرمایا
﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْ٘رِضُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا ﴾ ’’ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟‘‘ اور جتنا مال ہوسکے نیکی کے کاموں میں، بالخصوص جہاد میں خرچ کرے۔ ’’اچھا‘‘ وہ ہے جو حلال کی کمائی سے ہو اور اس سے مقصودمحض رضائے الٰہی ہو۔
﴿ فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً ﴾ پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔‘‘ یعنی نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک یا اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرمائے۔ ثواب میں یہ اضافہ خرچ کرنے والے کی حالت، نیت،
اس خرچ کے فائدے اور ضرورت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے وہ مفلس ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یَقْ٘بِضُ وَیَبْصُۜطُ ﴾ ’’اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔‘‘ یعنی جس کا رزق چاہتا ہے وسیع کردیتا ہے، اورجس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ معاملات صرف اسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام امور کا دارومدار اسی کی ذات پر ہے۔ بچا بچا کر رکھنے سے رزق بڑھتا نہیں اور خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں۔ علاوہ ازیں جو خرچ کیا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا، بلکہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ اپنی پیش کی ہوئی اشیا پوری پوری، بلکہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ کئی گنا وصول کرلیں گے،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ پھر وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر کے مقابلے میں اسباب فائدہ نہیں دیتے۔ خصوصاً وہ اسباب جن سے اللہ کے احکامات پر عمل ترک ہوتا ہو، نیز ان میں اللہ کی عظیم نشانی کا ذکر ہے کہ اسی جہان میں مردوں کو زندہ کرکے دکھا دیا۔ ان میں اللہ کی راہ میں جہاد و قتال اور خرچ کرنے کا حکم ہے یہاں ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جن سے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہوتی ہے، مثلاً اسے قرض قرار دینا، اس کا بہت زیادہ بڑھ جانا، رزق کی کمی بیشی اللہ کے ہاتھ میں ہونا اور بندوں کا اسی کی طرف لوٹ کے جانا۔
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (246) وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (247) وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (248) فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (249) وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (250) فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (251) تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (252)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے طرف ایک جماعت کی بنی اسرائیل میں سے، بعد موسیٰ کے؟ جب انھوں نے کہا اپنے نبی سے، آپ مقرر کر دیں ہمارے لیے ایک بادشاہ، تاکہ ہم لڑیں اللہ کی راہ میں، اس نے کہا، تحقیق امید
(تو یہی) ہے تم سے، اگر لکھ دیا جائے اوپر تمھارے لڑنا، یہ کہ نہ لڑو تم، انھوں نے کہا! اور ہمیں کیا ہے کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں جب کہ ہم نکال دیے گئے ہیں اپنے گھروں اور اپنے بیٹوں سے؟ ، پھر جب فرض کر دیا گیا اوپر ان کے لڑنا، تو پھر گئے وہ
(سب) سوائے تھوڑے سے لوگوں کے ان میں سے،اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو
(246) اور کہا ان سے ان کے نبی نے، بے شک اللہ نے تحقیق مقرر کیا ہے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ، انھوں نے کہا، کیسے ہو سکتی ہے واسطے اس کے بادشاہی ہم پر جب کہ ہم زیادہ حق دار ہیں بادشاہی کے اس سے،اور نہیں دیا گیا وہ وسعت مال کی، اس نے کہا، بے شک اللہ نے چن لیا ہے اسے تم پر،اور زیادہ دی ہے اسے کشادگی علم اور جسم
(دونوں) میں، اور اللہ دیتا ہے، ملک اپنا جس کو چاہتا ہے،اور اللہ بڑا وسعت والا، جاننے والا ہے
(247) اور کہا ان سے ان کے نبی نے، بے شک نشانی اس کی بادشاہی کی یہ ہے کہ آئے گا تمھارے پاس صندوق، اس میں سکینت ہوگی تمھارے رب کی طرف سے اور بقیہ چیزیں ہوں گی اس سے جو چھوڑ گئے تھے آل موسیٰ اور آل ہارون، اٹھا کر لائیں گے اس کو فرشتے، بلاشبہ اس میں یقیناً
(عظیم) نشانی ہے واسطے تمھارے اگر ہو تم مومن
(248)پس جب نکلا طالوت فوجیں لے کر تو کہا، بے شک اللہ آزمائے گا تمھیں ساتھ ایک نہر کے، سو جس نے پانی پیا اس سے
(سیر ہو کر) تو نہیں ہے وہ مجھ سے،اور جس نے نہ چکھا اس سے، تو بلاشبہ وہ مجھ سے ہے، مگر جو چلو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے، پس پی لیا انھوں نے اس نہر سے، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے ان میں سے، پھر جب عبور کر لیا اس کو اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے تھے، اس کے ساتھ، تو کہا، نہیں ہے طاقت ہمارے اندر آج لڑنے کی، ساتھ جالوت اور اس کی فوجوں کے، کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے اس پر کہ وہ ملنے والے ہیں اللہ سے، بارہا تھوڑی سی جماعت غالب آئی ہے بڑی جماعت پر، اللہ کے حکم سےاور اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے
(249) اور جب وہ
(مومن) سامنے ہوئے واسطے جالوت اور اس کی فوجوں کے، تو کہا، اے ہمارے رب! ڈال دے ہم پر صبر اور جمائے رکھ قدم ہمارے،اور مدد فرما ہماری اوپر اس کافر قوم کے
(250) پس شکست دی مومنوں نے کافروں کو، اللہ کے حکم سے،اور قتل کیا داود نے جالوت کو،اور دی اللہ نے داود کو بادشاہی اور حکمت، اور سکھایا اس کو اس سے جو چاہا
(اللہ نے)اور اگر نہ ہوتا دفع کرنا اللہ کا لوگوں کو، ان کے بعض کو بعض کے ذریعے سے تو یقیناً خراب ہو جاتی
(ساری) زمین، لیکن اللہ بڑے فضل والا ہے اوپر جہانوں کے
(251) یہ آیتیں ہیں اللہ کی، ہم پڑھتے ہیں ان کو آپ پر ساتھ حق کے،اور بلاشبہ آپ رسولوں میں سے ہیں
(252)
#
{246 ـ 247} يقص الله تعالى هذه القصة على الأمة ليعتبروا وليرغبوا في الجهاد ولا ينكلوا عنه، فإن الصابرين صارت لهم العواقب الحميدة في الدنيا والآخرة والناكلين خسروا الأمرين، فأخبر تعالى أن أهل الرأي من بني إسرائيل وأصحاب الكلمة النافذة تراودوا في شأن الجهاد واتفقوا على أن يطلبوا من نبيهم أن يعين لهم ملكاً لينقطع النزاع بتعيينه وتحصلَ الطاعة التامة ولا يبقى لقائل مقال، وأن نبيهم خشي أن طلبهم هذا مجردُ كلام لا فعل معه، فأجابوا نبيهم بالعزم الجازم وأنهم التزموا ذلك التزاماً تامًّا، وأن القتال متعين عليهم حيث كان وسيلة لاسترجاع ديارهم ورجوعهم إلى مقرهم ووطنهم، وأنه عين لهم نبيهم طالوت ملكاً يقودهم في هذا الأمر الذي لا بد له من قائد يحسن القيادة، وأنهم استغربوا تعيينه لطالوت وثَمَّ من هو أحق منه بيتاً وأكثر مالاً، فأجابهم نبيهم: إن الله اختاره عليكم بما آتاه الله من قوة العلم بالسياسة وقوة الجسم، اللذين هما آلة الشجاعة والنجدة وحسن التدبير، وأن الملك ليس بكثرة المال، ولا بكون صاحبه ممن كان الملك والسيادة في بيوتهم، فالله يؤتي ملكه من يشاء.
ثم لم يكتف ذلك النبي الكريم بتقنيعهم بما ذكره من كفاءة طالوت واجتماع الصفات المطلوبة فيه حتى قال لهم:
[247,246] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ا پنے نبیeکو بنی اسرائیل کے سرداروں کا واقعہ سنایا ہے۔ سرداروں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طورپر سردار ہی اپنے فائدے کے معاملات پر غوروفکر کرتے ہیں تاکہ وہ متفقہ فیصلہ کریں اور دوسرے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ وہ موسیٰu کے بعد مبعوث ہونیوالے اپنے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا:
﴿ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجیے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔‘‘ تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو اور ہم دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ شاید اس وقت ان کا کوئی متفقہ سردار نہیں تھا۔ جیسے قبائلی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کوئی گھرانا یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرے گھرانے کا کوئی آدمی اس پر حاکم مقرر ہوجائے،
اس لیے انھوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ایک بادشاہ مقرر کردیا جائے جس پر سب فریق متفق ہوجائیں۔ بنی اسرائیل میں سیاسی رہنمائی انبیائے کرام کا فریضہ تھی۔ جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا نبی مقرر فرما دیتا۔ جب انھوں نے اپنے نبی سے یہ بات کہی تو پیغمبر نے کہا: ﴿ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ﴾ ’’ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔‘‘ یعنی شاید تم ایسی چیز کا مطالبہ کررہے ہو کہ اگر تم پر فرض ہوجائے تو تم اس کو انجام نہ دے سکو۔ نبی کے اس مشورہ کو تسلیم کرلینے میں ان کے لیے عافیت تھی،
لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپنے عزم و نیت پر اعتماد کیا اور بولے: ﴿ وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآىِٕنَا ﴾ ’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔‘‘ یعنی ہمیں جہاد کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے جبکہ ہمیں اس پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ ہمیں وطن سے بے وطن کردیا گیا اور بیوی بچوں کو قید کرلیا گیاہے؟ ان حالات میں بھی اگر ہم پر اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہ بھی آئے تب بھی ہمیں لڑنا چاہیے۔ اب جب کہ سب کچھ ہوچکا ہے اور جہاد فرض کردیا جائے تو ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ لیکن ان کی نیتیں درست نہ تھیں اور اللہ پر توکل مضبوط نہیں تھا، اس لیے
﴿ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا﴾ ’’جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سب پھر گئے۔‘‘ انھیں بزدلی کی وجہ سے جہاد کی ہمت نہ ہوئی، وہ دشمن سےٹکر لینے کی جرأت نہ کرسکے۔ ان کا عزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اکثریت پربزدلی کے جذبات غالب آگئے۔
﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’سوائے تھوڑے سے لوگوں کے‘‘ جنھیں اللہ نے ثابت قدمی بخشی، ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ پس انھوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن سےٹکرانے کا حوصلہ کیا تو انھیں دنیا اور آخرت کی عزت نصیب ہوئی۔ لیکن اکثریت نے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا،
اس لیے اللہ تعالیٰ فرتا ہے: ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘
﴿ وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ ﴾ ’’اور ان کے نبی نے
(ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے) کہا‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمھارا بادشاہ بنادیا ہے۔‘‘ یہ نام زدگی اللہ کی طرف سے تھی، لہٰذا ان کا فرض تھا کہ اسے قبول کرتے ہوئے اعتراضات بند کردیتے۔ لیکن انھوں نے اعتراض کردیا،
اور کہنے لگے: ﴿ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ﴾ ’’بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت حق دار بادشاہت کے ہم ہیں۔ اسے مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔‘‘ یعنی وہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے جب کہ وہ خاندانی طورپر ہم سے کم تر ہے، پھر وہ غریب اور نادار بھی ہے، اس کے پاس حکومت قائم رکھنے کے لیے مال بھی نہیں۔ ان کی اس بات کی بنیاد ایک غلط خیال پر تھی کہ بادشاہ اور سردار ہونے کے لیے اونچا خاندان اور بہت مالدار ہونا ضروری ہے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ ترجیح کے قابل اصل صفات زیادہ اہم ہیں،
اس لیے ان کے نبی نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’سنو! اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کیا ہے۔‘‘ لہٰذا اس کی اطاعت قبول کرنا تمھارا فرض ہے۔
﴿وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ﴾ ’’اور اسے اللہ نے علمی اور جسمانی برتری بھی عطافرمائی ہے۔‘‘ یعنی اسے عقل اور جسم کی قوت عطا فرمائی ہے۔ اور ملک کے معاملات انھی دو چیزوں کی بنیاد پر صحیح طورپر انجام پاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عقل و رائے میں کامل ہو، اور اس صحیح رائے کے مطابق احکام نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو درجہ کمال حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو نظام میں خلل آجائے گا۔ اگر وہ جسمانی طورپر طاقت ور ہوا لیکن پورا عقل مند نہ ہوا تو ملک میں غیر شرعی سختی ہوگی اور طاقت کا استعمال حکمت کے مطابق نہیں ہوگا اور اگر وہ معاملات کی پوری سمجھ رکھنے والا ہوا، لیکن اپنے احکام نافذ کرنے کی طاقت سے محروم ہوا، تو اس عقل و فہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جسے وہ نافذ نہ کرسکے۔
﴿ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کشادگی والا۔‘‘ یعنی بہت فضل و کرم والا ہے اس کی عمومی رحمت کسی کو محروم نہیں رکھتی، بلکہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ
﴿ عَلِیْمٌ ﴾ ’’علم والا ہے۔‘‘ وہ جانتا ہے کہ فضل کا صحیح حق دار کون ہے۔ لہٰذا اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
#
{248} {إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم وبقية مما ترك آل موسى وآل هارون}؛ وكان هذا التابوت قد استولت عليه الأعداء، فلم يكتفوا بالصفات المعنوية في طالوت ولا بتعيين الله له على لسان نبيهم حتى يؤيد ذلك هذه المعجزة ولهذا قال: {إن في ذلك لآية لكم إن كنتم مؤمنين}؛ فحينئذ سلموا وانقادوا. فلما ترأس فيهم طالوت وجندهم ورتبهم وفصل بهم إلى قتال عدوهم وكان قد رأى منهم من ضعف العزائم والهمم ما يحتاج إلى تمييز الصابر من الناكل فقال:
[248] اس کے بعد ان کے نبی نے ایک حسی نشانی بھی بیان کی، جسے وہ دیکھ لیں گے۔ وہ ہے اس تابوت کا واپس مل جانا جو ایک طویل عرصہ سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس تابوت میں ان کے لیے اطمینان قلب اور سکون کا سامان موجود تھا۔ یعنی آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی اشیا موجود تھیں۔ اسے فرشتے اٹھا کر لائے تو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
#
{249 ـ 250} {إن الله مبتليكم بنهر}؛ تمرون عليه وقت حاجة إلى الماء، {فمن شرب منه فليس مني}؛ أي لا يتبعني؛ لأن ذلك برهان على قلة صبره ووفور جزعه {ومن لم يطعمه فإنه مني}؛ لصدقه وصبره، {إلا من اغترف غرفة بيده}؛ أي: فإنه مسامح فيها. فلما وصلوا إلى ذلك النهر وكانوا محتاجين إلى الماء شربوا كلهم منه {إلا قليلاً منهم}؛ فإنهم صبروا ولم يشربوا {فلما جاوزه هو والذين آمنوا معه قالوا}؛ أي: الناكلون أو الذين عبروا {لا طاقة لنا اليوم بجالوت وجنوده}؛ فإن كان القائلون هم الناكلين فهذا قول يبررون به نكولهم، وإن كان القائلون هم الذين عبروا مع طالوت فإنه حصل معهم نوع استضعاف لأنفسهم، ولكن شجعهم على الثبات والإقدام أهل الإيمان الكامل حيث قالوا: {كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن الله والله مع الصابرين}؛ بعونه وتأييده ونصره فثبتوا وصبروا لقتال عدوهم جالوت وجنوده.
[250,249] جب بنی اسرائیل پر طالوت کی حکومت قائم ہوگئی اور مستحکم ہوگئی تو قوم نے دشمن سے مقابلے کی تیاری کی۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تو اس نے اللہ کے حکم سے ان کا امتحان لیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ثابت قدم رہنے والا کون کون ہے اور دوسری طرح کا
(بھگوڑا) کون کون ہے؟
چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍ١ۚ فَ٘مَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَ٘لَ٘یْسَ مِنِّیْ ﴾ ’’سنو! اللہ تعالیٰ تمھیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس میں سے پانی پی لیا، وہ میرا نہیں۔‘‘ پس وہ نافرمان ہے۔ اس کی بے صبری اور گناہ کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نہ آئے۔
﴿ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ ﴾ ’’اور جو اسے نہ چکھے‘‘ یعنی اس کا پانی نہ پیے۔ وہ میرا ہے۔
﴿ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُ٘رْفَةًۢ بِیَدِهٖ ﴾ ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے۔‘‘ اسے کوئی گناہ نہیں۔ اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس میں برکت ڈال دے کہ وہ اس کے لیے کافی ہوجائے۔ اس امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پانی تھوڑا رہ گیا تھا، تاکہ آزمائش ہوسکے۔ اکثر نے نافرمانی کرتے ہوئے اتنا پانی پی لیا، جتنا پینے کی انھیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں جہاد کرنے سے بھی پہلوتہی کرگئے۔ ان کا گھڑی بھر پانی سے صبر نہ کرسکنا بہت بڑی دلیل تھی کہ وہ جنگ میں بھی صبر نہ کرسکیں گے، جو طویل بھی ہوسکتی ہے اور پر مشقت بھی۔ ان کے اس طرح پلٹ جانے سے باقی لشکر میں اللہ پر اعتماد،
اللہ کے سامنے عجزو نیاز اور اپنی طاقت پر گھمنڈ سے اجتناب جیسی کیفیات اور زیادہ ہوگئیں وہ اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کو دیکھ کر مزید ثابت قدم ہوگئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّؔا جَاوَزَهٗ ﴾ ’’جب وہ نہر سے گزر گیا‘‘
﴿ هُوَ ﴾ ’’وہ طالوت‘‘
﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ﴾ ’’مومنین سمیت‘‘ جنھوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جائز حد سے زیادہ پانی نہیں پیا تھا۔ تو فوج کے اکثر لوگ اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت دیکھ کر کہنے لگے:
﴿ لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ﴾ ’’آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔‘‘ کیونکہ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اسلحہ بھی۔
﴿ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰ٘قُوا اللّٰهِ ﴾ ’’لیکن اللہ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا‘‘ جو پختہ ایمان کے حامل تھے، انھوں نے دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے، انھیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا
﴿ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’بسا اوقات چھوٹی اورتھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے‘‘ یعنی اس کے ارادہ اور مشیت سے ۔’’غلبہ پالیتی ہیں۔‘‘ کیونکہ معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عزت اور ذلت اس کے دینے سے ملتی ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کثرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور اس کی مدد حاصل ہو تو قلت سے کوئی نقصان نہیں۔
﴿ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اس کی مدد اور توفیق انھیں حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بندے کا اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا ہے۔ ان کی نصیحت کا کم ہمتوں پر بہت اچھا اثر ہوا،
اس لیے جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی: ﴿ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا ﴾ ’’اے پروردگار! ہمیں صبر دے۔‘‘ یعنی دل مضبوط کردے۔ ہمیں صبر کی توفیق دے۔
﴿وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا ﴾ ’’اور ثابت قدمی دے۔‘‘ کہ ہمارے قدموں میں لغزش نہ آئے، ہم بھاگنے کی غلطی سے محفوظ رہیں۔
﴿ وَانْ٘صُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جالوت اور اس کی قوم کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی، کیونکہ انھوں نے قبولیت کے اسباب مہیا کرلیے تھے۔ اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔
#
{251} {وقتل داود}؛ - صلى الله عليه وسلم -، {جالوت}؛ وحصل بذلك الفتح والنصر على عدوهم {وآتاه الله}؛ أي: داود {الملك والحكمة}؛ النبوة والعلوم النافعة وآتاه الله الحكمة وفصل الخطاب. ثم بين تعالى فائدة الجهاد فقال: {ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لفسدت الأرض}؛ باستيلاء الكفرة والفجار وأهل الشر والفساد {ولكن الله ذو فضل على العالمين}؛ حيث لطف بالمؤمنين ودافع عنهم وعن دينهم بما شرعه وبما قدره. فلما بين هذه القصة قال لرسوله - صلى الله عليه وسلم -:
[251] ﴿ فَهَزَمُوْهُمْ بِـاِذْنِ اللّٰهِ وَقَتَلَ دَاوٗدُ ﴾ ’’چنانچہ اللہ کے حکم سے انھوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی۔ اور حضرت داودuکے ہاتھوں‘‘ جو طالوت کے لشکر میں شامل تھا
﴿ جَالُوْتَ ﴾ ’’جالوت قتل ہوا‘‘ آپuنے بہادری، قوت اور ثابت قدمی کی بدولت کافروں کے بادشاہ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔
﴿ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے داودuکو مملکت و حکمت عطا فرمائی۔‘‘ یعنی اللہ نے آپ پر یہ احسان فرمایا کہ بنی اسرائیل کی حکومت عطا فرمانے کے علاوہ حکمت بھی عطا فرمائی، یعنی نبوت سے سرفرازی فرمائی جس سے عظیم شریعت اور سیدھی راہ ملی،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَعَلَّمَهٗ مِمَّؔا یَشَآءُ ﴾ ’’اور جتنا کچھ چاہا، علم بھی عطا فرمایا۔‘‘ شریعت کا علم بھی اور سیاست کا علم بھی۔ اس طرح انھیں نبوت اور حکومت دونوںعطا فرمادیں۔ اس سے پہلے انبیاء اور ہوتے تھے اور بادشاہ اور۔ پس جب اللہ نے ان کی مدد فرمائی تو وہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں میں رہنے لگے، اور بے خوف ہوکر اللہ کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ نے ان کے دشمنوں کو مغلوب کردیا اور انھیں اقتدار عطا فرمادیا، یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کی برکات تھیں،
اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ لَا دَفْ٘عُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ ﴾ ’’اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔‘‘ اگر مجاہدین کے ذریعے سے بدکاروں اور کفار کا قلع قمع نہ کرتا تو کافروں کے غلبے کی وجہ سے، کفر کی رسمیں قائم ہونے سے اوراللہ کی عبادت سے روک دیے جانے کی وجہ سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ ’’لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔‘‘ یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے جہاد مقرر کردیا، جس میں ان کی سعادت اور ان کا دفاع ہے اور انھیں معلوم و نامعلوم اسباب کے ذریعے سے زمین میں اقتدار عطا فرما دیا۔
#
{252} {تلك آيات الله نتلوها عليك بالحق وإنك لمن المرسلين}؛ ومن جملة الأدلة على رسالته هذه القصة حيث أخبر بها وحياً من الله مطابقاً للواقع.
وفي هذه القصة عِبَرٌ كثيرةٌ للأمة:
منها: فضيلة الجهاد في سبيله وفوائده وثمراته وأنه السبب الوحيد في حفظ الدين وحفظ الأوطان وحفظ الأبدان والأموال، وأنَّ المجاهدين ولو شقت عليهم الأمور فإن عواقبهم حميدة، كما أن الناكلين ولو استراحوا قليلاً فإنهم سيتعبون طويلاً.
ومنها: الانتداب لرياسة من فيه كفاءة وأن الكفاءة ترجع إلى أمرين: إلى العلم الذي هو علم السياسة والتدبير، وإلى القوة التي ينفذ بها الحق، وأن من اجتمع فيه الأمران فهو أحق من غيره.
ومنها: الاستدلال بهذه القصة على ما قاله العلماء أنه ينبغي للأمير للجيوش أن يتفقدها عند فصولها؛ فيمنع من لا يصلح للقتال من رجال وخيل وركاب، لضعفه أو ضعف صبره أو لتخذيله أو خوف الضرر بصحبته، فإن هذا القسم ضرر محض على الناس.
ومنها: أنه ينبغي عند حضور البأس تقوية المجاهدين وتشجيعهم وحثهم على القوة الإيمانية والاتِّكال الكامل على الله والاعتماد عليه، وسؤال الله التثبيت والإعانة على الصبر والنصر على الأعداء.
ومنها: أن العزم على القتال والجهاد غير حقيقته، فقد يعزم الإنسان ولكن عند حضوره تنحل عزيمته، ولهذا من دعاء النبي - صلى الله عليه وسلم -: «أسألك الثبات في الأمر والعزيمة على الرشد» ، فهؤلاء الذين عزموا على القتال وأتوا بكلام يدل على العزم المصمم لما جاء الوقت نكص أكثرهم، ويشبه هذا قوله - صلى الله عليه وسلم -: «وأسألك الرضا بعد القضا» ؛ لأن الرضا بعد وقوع القضاء المكروه للنفوس هو الرضا الحقيقي.
[252] پھر فرمایا:
﴿تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنھیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پرپڑھتے ہیں۔‘‘ یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کوبھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی۔
﴿ وَاِنَّكَ لَ٘مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔‘‘ اس میں اللہ کی طرف سے اس کے رسول کے لیے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرتeکی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپeکو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپeکا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔
اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل و عقد کا جمع ہوکر یہ غوروفکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔
(۲) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کیے جائیں تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے،جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انھیں ایسے جواب دیے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔
(۳) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔
(۴) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔
پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے:
﴿ وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآىِٕنَا ﴾ ’’بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟
ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔‘‘ اس کا نتیجہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔
دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْ٘صُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی! اے پروردگار! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔
(۵) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ پاک کو ناپاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کردے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔
(۶) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا، اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے۔ جس سے زمین فساد سے بھرجاتی۔
قوله تعالى: {تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ (253)}.
یہ سب رسول، فضیلت دی ہم نے ان کے بعض کو بعض پر، کچھ ان میں سے ایسے ہیں جن سے کلام فرمایا اللہ نےاور بلند کیا ان کے بعض کو درجوں میں اور دیے ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح دلائل
(معجزات) اور قوت دی ہم نے اس کو ساتھ روح القدس
(جبریل) کےاور اگر چاہتا اللہ تو نہ باہم لڑتے وہ لوگ جو ہوئے ان
(رسولوں) کے پیچھے، بعد اس کے کہ آئیں ان کے پاس واضح نشانیاں لیکن انھوں نے اختلاف کیا، پس کچھ ان میں سے وہ ہیں جو ایمان لائے اور کچھ ان میں سے وہ ہیں جنھوں نے کفر کیااور اگر چاہتا اللہ تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے
(253)
#
{253} يخبر الباري أنه فاوت بين الرسل في الفضائل الجليلة والتخصيصات الجميلة، بحسب ما منَّ الله به عليهم وقاموا به من الإيمان الكامل واليقين الراسخ والأخلاق العالية والآداب السامية والدعوة والتعليم والنفع العميم، فمنهم من اتخذه خليلاً، ومنهم من كلمه تكليماً، ومنهم من رفعه فوق الخلائق درجات، وجميعهم لا سبيل لأحد من البشر إلى الوصول إلى فضلهم الشامخ. وخص عيسى بن مريم أنه آتاه البينات الدالة على أنه رسول الله حقًّا وعبده صدقاً وأن ما جاء به من عند الله كله حق، فجعله يبرئ الأكمه والأبرص ويحيي الموتى بإذن الله وكلم الناس في المهد صبياً وأيده بروح القدس أي بروح الإيمان، فجعل روحانيتَهُ فائقةً روحانيةَ غيرِهِ، فحصل له بذلك القوة والتأييد، وإن كان أصل التأييد بهذه الروح عامًّا لكل مؤمن بحسب إيمانه كما قال: {وأيدهم بروح منه}؛ لكن ما لعيسى أعظم مما لغيره لهذا خصه الله بالذكر، وقيل: إن روح القدس هنا جبريل أيده الله بإعانته ومؤازرته لكن المعنى هو الأول. ولما أخبر عن كمال الرسل وما أعطاهم من الفضل والخصائص وأن دينهم واحد ودعوتهم إلى الخير واحدة، وكان موجب ذلك ومقتضاه أن تجتمع الأمم على تصديقهم والانقياد لهم لما آتاهم من البينات التي على مثلها يؤمن البشر، لكن أكثرهم انحرفوا عن الصراط المستقيم، ووقع الاختلاف بين الأمم فمنهم من آمن ومنهم من كفر ووقع لأجل ذلك الاقتتال، الذي هو موجب الاختلاف والتعادي، ولو شاء الله لجمعهم على الهدى فما اختلفوا، ولو شاء الله أيضاً بعدما وقع الاختلاف الموجب للاقتتال ما اقتتلوا، ولكن حكمته اقتضت جريان الأمور على هذا النظام بحسب الأسباب.
ففي هذه الآية أكبر شاهد على أنه تعالى يتصرف في جميع الأسباب المقتضية لمسبباتها، وأنه إن شاء أبقاها وإن شاء منعها، وكل ذلك تبع لحكمته وحده فإنه فعال لما يريد، فليس لإرادته ومشيئته ممانع ولا معارض ولا معاون.
[253] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ پہلے تو انھیں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی طرف وحی نازل کرکے انھیں دوسروں کی طرف مبعوث فرمایا، اور انھوں نے مخلوق کو اللہ کی طرف بلایا۔ پھر انھیں ایک دوسرے پر فضیلت دی کہ ان میں خاص خوبیاں رکھ دیں، ان سے بہت زیادہ انسانوں کو فائدہ پہنچا۔ مثلاً موسیٰuکو ہم کلام ہونے کا خاص شرف عطا فرمایا۔ اور ہمارے نبیeکو دوسرے انبیاء سے افضل بنایا اور آپ میں وہ تمام فضائل جمع فرمادیے جو دوسرے رسولوں کو الگ الگ ملے تھے۔ اور آپ کو ایسے مناقب بخشے جن کی وجہ سے آپ اولین اور آخرین سے اشرف قرار پائے۔
﴿ وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ﴾ ’’اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے۔‘‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے بندے، اس کے رسول اور مریم کی طرف نازل ہونے والا اللہ کا کلمہ، اور اس کی طرف سے آنے والی ایک روح ہیں۔
﴿وَاَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ﴾ ’’او رروح القدس سے ہم نے ان کی تائید کی۔‘‘ اس سے مراد ایمان اور یقین ہے جس کے ذریعے سے ان کو وہ فریضہ انجام دینے کی طاقت حاصل ہوئی، جو آ پ پر عائد کیا گیا تھا۔ایک قول کے مطابق روح القدس سے مراد جبریلuہیں، جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔
﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْ٘تَـتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے۔‘‘ بلکہ ان دلائل کی وجہ سے سب مومن اور متحد ہوجاتے۔
﴿ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ﴾ ’’لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا۔ ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر۔‘‘ پس اس اختلاف کے نتیجے میں افتراق، دشمنی اور لڑائی ہوئی۔ اس کے باوجود اگر اللہ چاہتا تو اختلاف کے باوجود لڑائی تک نوبت نہ پہنچتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مرضی اسباب پر غالب ہے۔ اسباب کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب مشیت اس کے برعکس نہ ہو۔ جب مشیت آجائے تو ہر سبب کالعدم ہوجاتا ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ﴾ ’’لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ اس کا ارادہ غالب ہے، اس کی مرضی پوری ہوکر رہتی ہے۔ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں سے بعض کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ مثلاً استوا، نزول،
کلام اور وہ افعال جنھیں ’’افعال اختیاریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
فائدہ: جس طرح اللہ کی پہچان حاصل کرنا فرض ہے۔ اسی طرح رسولوں کے بارے میں علم حاصل کرلینا بھی ضروری ہے، ان کی لازمی صفات کیا ہیں، کیا کچھ ان کے لیے محال ہے اور کیا کچھ ممکن ہے۔ ان امور کا علم قرآن مجید کی متعدد آیات سے ہوتا ہے۔ مثلاً رسول مرد ہیں عورتیں نہیں، وہ بستیوں میں رہنے والوں میں سے مبعوث ہوئے ہیں، خانہ بدوشوں میں سے نہیں۔ وہ اللہ کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں، ان میںایسی خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو انھیں اس انتخاب کا اہل بنا دیتی ہیں۔ ان میں کوئی ایسی خرابی نہیں ہوتی جو منصب رسالت کے منافی ہو۔ مثلاً جھوٹ، خیانت، حق کو چھپانا، اور قابل نفرت جسمانی عیوب۔ ان سے اگر کوئی ایسی فروگزاشت ہوجائے جو منصب رسالت سے متعلق ہو، تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔ اللہ نے انھیں وحی کے لیے مخصوص فرمایا ہے اس لیے ان پر ایمان لانا، اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ جو شخص کسی نبی پر تنقید کرے یا اس کی شان میں گستاخی کرے، وہ کافر ہوجاتا ہے،
اور اسے قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں۔ جو شخص قرآن مجید میں غور و فکر کرے گا اس پر حق واضح ہوجائے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ (254)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خرچ کرو تم اس میں سے جو دیا ہم نے تمھیں، پہلے اس سے کہ آئے وہ دن کہ نہ خرید و فروخت ہوگی اس میں، اور نہ کوئی دوستی اور نہ کوئی شفاعت، اور کافر لوگ وہی ہیں ظالم
(254)
#
{254} يحث الله المؤمنين على النفقات في جميع طرق الخير، لأن حذف المعمول يفيد التعميم، ويذكرهم نعمته عليهم بأنه هو الذي رزقهم ونوَّع عليهم النعم، وأنه لم يأمرهم بإخراج جميع ما في أيديهم بل أتى بِمِنْ الدالة على التبعيض، فهذا مما يدعوهم إلى الإنفاق، ومما يدعوهم أيضاً إخبارهم أن هذه النفقات مدخرة عند الله في يوم لا تفيد فيه المعاوضات بالبيع ونحوه ولا التبرعات ولا الشفاعات فكل أحد يقول ما قدمت لحياتي، فتنقطع الأسباب كلها إلا الأسباب المتعلقة بطاعة الله والإيمان به يوم لا ينفع مال ولا بنون إلا من أتى الله بقلب سليم. {وما أموالكم ولا أولادكم بالتي تقربكم عندنا زلفى إلا من آمن وعمل صالحاً فأولئك لهم جزاء الضعف بما عملوا وهم في الغرفات آمنون}، {وما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله هو خيراً وأعظم أجراً}. ثم قال تعالى: {والكافرون هم الظالمون}؛ وذلك لأن الله خلقهم لعبادته، ورزقهم، وعافاهم، ليستعينوا بذلك على طاعته، فخرجوا عما خلقهم الله له، وأشركوا بالله ما لم ينزل به سلطاناً، واستعانوا بنعمه على الكفر والفسوق والعصيان، فلم يبقوا للعدل موضعاً، فلهذا حصر الظلم المطلق فيهم.
[254] اللہ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے تھوڑا سا واجب او رمستحب صدقہ پیش کریں تاکہ ان کے لیے ثواب کا ذریعہ ہوجائے اور انھیں اس دن زیادہ ہوکر ملے جس دن ایک ذرہ برابر نیکی کی ضرورت ہوگی تو مل نہیں سکے گی۔ اگر انسان زمین بھر سونا فدیہ کردے تاکہ اس دن کے عذاب سے بچ جائے، تو اس کی یہ پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ نہ کوئی دوست اس کے کام آسکے گا نہ وجاہت کے ذریعے سے، نہ شفاعت کے ذریعے سے۔اس دن اہل باطل خسارے میں ہوں گے اور ظالم رسوا ہوں گے۔ ظالم وہ ہیں جو ایک چیز کو اس کے محل سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ پس انھوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے واجب کو ترک کردیا۔ اور حلال کے بجائے حرام اختیار کیا۔ سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ کفر کرنا ہے، یعنی عبادت جو صرف اللہ کا حق ہے۔ کافر اسے اپنی جیسی مخلوق کے لیے کرتا ہے،
اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَالْ٘كٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘ اور یہ حصر کے باب سے ہے،
یعنی انھوں نے مکمل ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمن:31؍13) ’’بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘ اس کے بعد ارشاد ہے۔
{اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)}
اللہ، نہیں کوئی معبود
(برحق) سوائے اس کے، زندہ سب کو سنبھالنے والا، نہیں آتی اس کو اونگھ اور نہ نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو شفاعت کرے اس کے پاس؟ سوائے اس کی اجازت کے، وہ جانتا ہے جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے،اور وہ نہیں احاطہ کر سکتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے، مگر ساتھ اس چیز کے جو ووہ چاہے، گھیر لیا ہے اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو اور نہیں گراں اس پر حفاظت ان دونوں کی، اور وہ بلند تر، نہایت عظمت والا ہے
(255)
#
{255} أخبر - صلى الله عليه وسلم - أن هذه الآية أعظم آيات القرآن لما احتوت عليه من معاني التوحيد والعظمة وسعة الصفات للباري تعالى، فأخبر أنه {الله}؛ الذي له جميع معاني الألوهية، وأنه لا يستحق الألوهية والعبودية إلا هو، فألوهية غيره وعبادة غيره باطلة، وأنه {الحي} الذي له جميع معاني الحياة الكاملة من السمع والبصر والقدرة والإرادة وغيرها من الصفات الذاتية، كما أن {القيوم}؛ تدخل فيه جميع صفات الأفعال لأنه القيوم الذي قام بنفسه واستغنى عن جميع مخلوقاته وقام بجميع الموجودات فأوجدها وأبقاها وأمدها بجميع ما تحتاج إليه في وجودها وبقائها. ومن كمال حياته وقيوميته أنه {لا تأخذه سنة}؛ أي: نعاس {ولا نوم}؛ لأن السنة والنوم إنما يعرضان للمخلوق الذي يعتريه الضعف والعجز والانحلال، ولا يعرضان لذي العظمة والكبرياء والجلال، وأخبر أنه مالك جميع ما في السماوات والأرض، فكلهم عبيد لله مماليك لا يخرج أحد منهم عن هذا الطور {إن كل من في السموات والأرض إلا آتي الرحمن عبداً}؛ فهو المالك لجميع الممالك وهو الذي له صفات الملك والتصرف والسلطان والكبرياء، ومن تمام ملكه أنه لا {يشفع عنده}؛ أحد {إلا بإذنه}؛ فكل الوجهاء والشفعاء عبيد له مماليك لا يَقْدِمُون على شفاعة حتى يأذن لهم {قل لله الشفاعة جميعاً له ملك السموات والأرض}؛ والله لا يأذن لأحد أن يشفع إلا فيمن ارتضى ولا يرتضي إلا توحيده واتباع رسله، فمن لم يتصف بهذا فليس له في الشفاعة نصيب. ثم أخبر عن علمه الواسع المحيط وأنه يعلم ما بين أيدي الخلائق من الأمور المستقبلة التي لا نهاية لها {وما خلفهم}؛ من الأمور الماضية التي لا حد لها، وأنه لا تخفى عليه خافية {يعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور}؛ وأن الخلق لا يحيط أحد بشيء من علم الله ومعلوماته {إلا بما شاء} منها وهو ما أطلعهم عليه من الأمور الشرعية والقدرية، وهو جزء يسير جدًّا مضمحل في علوم الباري ومعلوماته كما قال أعلم الخلق به وهم الرسل والملائكة: {سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا}؛ ثم أخبر عن عظمته وجلاله وأن كرسيه وسع السماوات والأرض، وأنه قد حفظهما ومن فيهما من العوالم بالأسباب والنظامات التي جعلها الله في المخلوقات، ومع ذلك فلا يؤوده أي يثقله حفظهما لكمال عظمته واقتداره وسعة حكمته في أحكامه {وهو العلي}؛ بذاته على جميع مخلوقاته، وهو العلي بعظمة صفاته، وهو العلي الذي قهر المخلوقات، ودانت له الموجودات، وخضعت له الصعاب، وذلت له الرقاب {العظيم}؛ الجامع لجميع صفات العظمة والكبرياء والمجد والبهاء، الذي تحبه القلوب، وتعظمه الأرواح، ويعرف العارفون أن عظمة كل شيء وإن جلت عن الصفة فإنها مضمحلة في جانب عظمة العلي العظيم. فآية احتوت على هذه المعاني التي هي أجل المعاني يحق أن تكون أعظم آيات القرآن، ويحق لمن قرأها متدبراً متفهماً أن يمتلئ قلبه من اليقين والعرفان والإيمان، وأن يكون محفوظاً بذلك من شرور الشيطان.
[255] یہ آیت قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور یہ سب سے افضل آیت ہے جس میں عظیم مسائل اور اللہ کی صفات کریمہ بیان ہوئی ہیں، اس لیے بہت سی احادیث میں اس کی تلاوت کی ترغیب وارد ہے کہ اسے صبح شام،
سوتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’اللہ ہی معبود برحق ہے۔‘‘ لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور اطاعت اسی کے لیے ہونی چاہیے کیونکہ وہ تمام صفات سے متصف اور عظیم نعمتیں دینے والا ہے۔ بندے کا یہ حق ہے کہ اپنے رب کا بندہ بن کر رہے، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا رہے، اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے بچتا رہے۔ اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے، پس اس کے سوا ہر ایک کی عبادت باطل ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق اور ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کسی عبادت کا حق نہیں رکھتی۔‘‘
﴿ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔‘‘ ان دو اسمائے حسنیٰ
(اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔ ’’ اَلْحَیُّ ‘‘ سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو، مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا قدرت رکھنا وغیرہ۔ ’’القیوم‘‘ سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے، یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں، اس لیے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس کی حیات اور قیومیت کے تمام ہونے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ
﴿ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌؔ﴾ ’’اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔‘‘
﴿ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں۔‘‘ وہ مالک ہے، باقی سب مملوک ہیں۔ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے۔ باقی سب مخلوق،
مرزدق اور مُدَبَّر۔ کسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کے معاملات میں سے نہ اپنے لیے ذرہ بھر اختیار ہے نہ دوسروں کے لیے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَ٘شْ٘فَ٘عُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ﴾ ’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟‘‘ یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ تو شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن وہ جب کسی بندے پر رحم کرنا چاہے گا، تو اپنے جس بندے کی عزت افزائی کرنا چاہے گا،
اسے اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے دے گا۔ اجازت ملنے سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا: ﴿ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ’’وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔‘‘ یعنی ان کے گزشتہ اور آئندہ معاملات سے باخبر ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات کی تمام تفصیلات جانتا ہے، یعنی اگلے پچھلے، ظاہر، پوشیدہ، غیب اور حاضر سب جانتا ہے۔ بندوں کو ان میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ وہ ذرہ برابر معلومات رکھتے ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ خود بتا دے،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیزکا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی کی وسعت نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ اس سے اس کی عظمت کا کمال اور سلطنت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ جب کرسی کی یہ شان ہے کہ آسمان و زمین کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت بڑی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی سب سے بڑی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی اس سے بڑی مخلوق بھی موجود ہے۔ یعنی عرش اور ایسی مخلوقات جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ان مخلوقات کی عظمت کا تصور کرنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں تو ان کے خالق کی عظمت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے انھیں وجود بخشا، اور ان میں بے شمار حکمتیں اور اسرار رکھ دیے۔ جس نے زمین و آسمان کو اپنی جگہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے اور وہ اس سے تھکتا نہیں،
اس لیے فرمایا: ﴿وَلَا یَـــُٔوْدُهٗ حِفْ٘ظُهُمَا﴾ ’’اور نہ وہ ان دونوں کی حفاظت سے تھکتا ہے۔‘‘ یعنی اس کے لیے ان کی حفاظت دشوار نہیں
﴿وَهُوَ﴾ ’’اور وہ‘‘ اپنی ذات کے لحاظ سے
﴿ الْ٘عَلِیُّ﴾ ’’بہت بلند‘‘ ہے۔ او رعرش عظیم پر موجود ہے۔ وہ اس لیے بھی بلند ہے کہ تمام مخلوقات اس کے زیر نگیں ہیں، اس لیے بھی بلند شان والا ہے کہ اس کی صفات کامل ہیں۔ اور
﴿ الْعَظِیْمُ﴾ ’’بہت بڑا ہے۔‘‘ جس کی عظمت کے سامنے کسی بڑے سے بڑے جبار، متکبر اور زبردست بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت میں توحید الوہیت بھی ہے، توحید ربوبیت بھی اور توحید اسماء و صفات بھی۔ اس میں اس کی بادشاہت کا محیط ہونا بھی مذکور ہے اور علم کا بھی، اس کی سلطنت کی وسعت بھی ہے اس کا جلال،
مجد اور اس کی عظمت و کبریائی کابھی بیان ہے۔ لہٰذا یہ آیت اکیلی ہی اللہ کے تمام اسماء و صفات اور تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کی جامع ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:
{لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (256)}
نہیں ہے، کوئی زبردستی دین میں، تحقیق واضح ہو چکی ہے ہدایت گمراہی سے، پس جو شخص کفر کرے طاغوت سے اور ایمان لائے ساتھ اللہ کے، تو تحقیق تھام لیا اس نے کڑا مضبوط، نہیں ہے ٹوٹنا اس کے لیے،اور اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے
(256)
#
{256} هذا بيان لكمال هذا الدين الإسلامي، وأنه لكمال براهينه، واتضاح آياته وكونه هو دين العقل والعلم ودين الفطرة والحكمة ودين الصلاح والإصلاح ودين الحق والرشد، فلكماله وقبول الفطر له لا يحتاج إلى الإكراه عليه، لأن الإكراه إنما يقع على ما تنفر عنه القلوب، ويتنافى مع الحقيقة والحق أو لما تخفى براهينه وآياته، وإلا فمن جاءه هذا الدين ورده ولم يقبله فإنه لعناده، فإنه {قد تبين الرشد من الغي} فلم يبق لأحد عذر ولا حجة إذا رده ولم يقبله.
ولا منافاة بين هذا المعنى وبين الآيات الكثيرة الموجبة للجهاد، فإن الله أمر بالقتال ليكون الدين كله لله، ولدفع اعتداء المعتدين على الدين، وأجمع المسلمون على أن الجهاد ماضٍ مع البر والفاجر، وأنه من الفروض المستمرة الجهاد القولي والجهاد الفعلي، ومن ظن من المفسرين أن هذه الآية تنافي آيات الجهاد فجزم بأنها منسوخة فقوله ضعيف لفظاً ومعنى كما هو واضح بين لمن تدبر الآية الكريمة كما نبهنا عليه.
ثم ذكر الله انقسام الناس إلى قسمين: قسم آمن بالله وحده لا شريك له وكفر بالطاغوت ـ وهو كل ما ينافي الإيمان بالله من الشرك وغيره ـ فهذا قد {استمسك بالعروة الوثقى} التي لا انفصام لها، بل هو مستقيم على الدين الصحيح حتى يصل به إلى الله وإلى دار كرامته. ويؤخذ القسم الثاني من مفهوم الآية أن من لم يؤمن بالله بل كفر به وآمن بالطاغوت فإنه هالك هلاكاً أبدياً ومعذب عذاباً سرمدياً. وقوله {والله سميع}؛ أي: لجميع الأصوات باختلاف اللغات على تفنن الحاجات، وسميع لدعاء الداعين وخضوع المتضرعين. {عليم}؛ بما أكنته الصدور، وما خفي من خفايا الأمور، فيجازي كل أحد بحسب ما يعلمه من نياته وعمله.
[256] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ زبردستی تو اس کام کے لیے کی جاتی ہے جس کے حقائق واضح نہ ہوں یا جو کام انتہائی ناپسندیدہ ہو۔ اس صراط مستقیم کا تو ہر گوشہ واضح ہے۔ اس کا چپہ چپہ روشن ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار آدمی معمولی سا غوروفکر کرے تو اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن جس کی نیت درست نہ ہو، غلط ارادے رکھتا ہوا، ایسا بدظن آدمی حق کو دیکھ کربھی باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اچھی چیز کو دیکھ کر پھر گندی چیز کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اسے دین کو قبول کرنے پر مجبور کرے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور زبردستی قبول کرایا ایمان معتبر بھی نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں ان کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ یہ آیت تو صرف یہ بات واضح کرتی ہے کہ دین بنیادی طورپر ایسی چیز ہے کہ ہر انصاف پسند اسے قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مسئلہ دوسری نصوص سے ثابت ہے۔ البتہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہودونصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں سے بھی جزیہ لینا درست ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کا قول ہے۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت ترک کرکے اللہ پر صحیح ایمان لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی عبادت و اطاعت پر قائم ہوجائے
﴿ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْ٘عُرْوَةِ الْوُثْ٘قٰى﴾ ’’تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔‘‘ یعنی ایسا پختہ دین اختیار کرلیا، جس کی بنیادیں بھی مضبوط ہیں اور عمارت بھی۔ وہ پورے اعتماد سے اس پر قائم رہتا ہے کیونکہ اس نے ایسا مضبوط کڑا تھام لیا ہے
﴿ لَاانْفِصَامَ لَهَا﴾ ’’جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔‘‘ اس کے برعکس جو شخص اللہ کا انکار کرکے شیطانوں پر یقین رکھتا ہے اس نے اس مضبوط کڑے کو چھوڑ دیا، جس کے ذریعے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسے باطل کو پکڑ لیا جو اسے جہنم میں لے جائے گا۔
﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ وہ ہر ایک کے نیک و بد اعمال سے واقف ہے لہٰذا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ اس کڑے کو پکڑنے والے اور نہ پکڑنے والے کا یہی انجام ہے۔
{اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (257)}
اللہ دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے، نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ لوگ جنھوں نے کفر اختیار کیا، ان کے دوست ہیں شیطان، وہ نکال لے جاتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف، یہی لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(257)
#
{257} هذه الآية مترتبة على الآية التي قبلها، فالسابقة هي الأساس وهذه هي الثمرة. فأخبر تعالى أن الذين آمنوا بالله وصدقوا إيمانهم بالقيام بواجبات الإيمان وترك كل ما ينافيه أنه وليهم يتولاهم بولايته الخاصة، ويتولى تربيتهم، فيخرجهم من ظلمات الجهل والكفر والمعاصي والغفلة والإعراض، إلى نور العلم واليقين والإيمان والطاعة والإقبال الكامل على ربهم، وينور قلوبهم بما يقذفه فيها من نور الوحي والإيمان، وييسرهم لليسرى، ويجنبهم العسرى، وأما الذين كفروا فإنهم لما تولوا غير وليهم، ولاهم الله ما تولوا لأنفسهم، وخذلهم، ووكلهم إلى رعاية من تولاهم ممن ليس عنده نفع ولا ضر، فأضلوهم، وأشقوهم، وحرموهم هداية العلم النافع والعمل الصالح، وحرموهم السعادة، وصارت النار مثواهم خالدين فيها مخلدين. اللهم تولنا فيمن توليت.
[257] اس کے بعد اللہ نے وہ سبب بیان فرمایا ہے جس کی و جہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ
﴿ اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ خود ہے۔‘‘ یہ آیت ان کی اپنے رب سے دوستی پر مشتمل ہے، بایں طور کہ وہ اپنے رب سے محبت رکھتے ہیں، پس اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اس کے پیاروں سے محبت کرتے اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں، اللہ نے بھی ان پر لطف و کرم اور احسان فرماتے ہوئے انھیں کفر، معاصی اور جہل کے اندھیروں سے نکالا اور ایمان، نیکی اور علم کی روشنی میں پہنچا دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ قبر، حشر اور قیامت کے اندھیروں سے محفوظ رہ کر دائمی نعمت، راحت اور سرور والی جنت میں پہنچ گئے۔
﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓؔــُٔـهُمُ۠ الطَّاغُ٘وْتُ﴾ ’’اور کافروں کے اولیاء شیطان ہیں۔‘‘ پس انھوں نے شیطان سے اور اس کی پارٹی سے دوستی کی۔ اپنے مالک اور آقا کی دوستی چھوڑ دی۔ اس کی سزا کے طورپر اللہ نے ان پر شیطانوں کو مسلط کردیا، جو انھیں گناہوں کی طرف ہانکتے اور برائی پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس طرح انھیں ایمان، علم اور نیکی کے نور سے ہٹا کر کفر، معاصی اور جہالت کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں وہ نیکیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور نعمت اور خوشی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ حسرت کے جہان
(جہنم) میں بھی شیطان کی جماعت اور اس کے دوست ہی شمار ہوں گے،
اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’یہ لوگ جہنمی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔‘‘
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (258)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت اس وجہ سے کہ دے رکھی تھی اس کو اللہ نے بادشاہی، جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں، کہا ابراہیم نے، پس بے شک اللہ لاتا ہے سورج کو مشرق سے، سو تو لے آ اس کو مغرب سے، پس ہکا بکا رہ گیا وہ جس نے کفر کیا تھا،اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ان لوگوں کو جو ظالم ہیں
(258)
#
{258} يقص الله علينا من أنباء الرسل والسالفين ما به تتبين الحقائق، وتقوم البراهين المتنوعة على التوحيد، فأخبر تعالى عن خليله إبراهيم - صلى الله عليه وسلم -، حيث حاج هذا الملك الجبار، وهو نمرود البابلي المعطل المنكر لرب العالمين، وانتدب لمقاومة إبراهيم الخليل ومحاجته في هذا الأمر الذي لا يقبل شكًّا ولا إشكالاً ولا ريباً وهو توحيد الله وربوبيته الذي هو أجلى الأمور وأوضحها. ولكن هذا الجبار غره ملكه وأطغاه حتى وصلت به الحال إلى أن نفاه، وحاج إبراهيمَ الرسولَ العظيمَ الذي أعطاه الله من العلم واليقين ما لم يعط أحداً من الرسل سوى محمد - صلى الله عليه وسلم -، فقال إبراهيم مناظراً له: {ربي الذي يحيي ويميت}؛ أي: هو المنفرد بالخلق والتدبير والإحياء والإماتة، فذكر من هذا الجنس أظهرها وهو الإحياء والإماتة، فقال ذلك الجبار مباهتاً: {أنا أحيي وأميت}؛ وعنى بذلك أني أقتل من أردت قتله وأستبقي من أردت استبقاءه، ومن المعلوم أن هذا تمويه وتزوير عن المقصود، وأن المقصود أن الله تعالى هو الذي تفرد بإيجاد الحياة في المعدومات وردها على الأموات، وأنه هو الذي يميت العباد والحيوانات بآجالها بأسباب ربطها وبغير أسباب.
فلما رآه الخليل مموهاً تمويهاً ربما راج على الهمج الرَّعاع قال إبراهيم ملزماً له بتصديق قوله إن كان كما يزعم: {فإن الله يأتي بالشمس من المشرق فأت بها من المغرب، فبهت الذي كفر}؛ أي: وقف وانقطعت حجته، واضمحلت شبهته.
وليس هذا من الخليل انتقالاً من دليل إلى آخر، وإنما هو إلزام لنمرود بطرد دليله إن كان صادقاً وأتى بهذا الذي لا يقبل الترويج والتزوير والتمويه، فجميع الأدلة السمعية والعقلية والفطرية قد قامت شاهدة بتوحيد الله معترفة بانفراده بالخلق والتدبير وأن من هذا شأنه لا يستحق العبادة إلا هو، وجميع الرسل متفقون على هذا الأصل العظيم، ولم ينكره إلا معاند مكابر مماثل لهذا الجبار العنيد، فهذا من أدلة التوحيد، ثم ذكر أدلة كمال القدرة والبعث والجزاء فقال:
[258] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو ابراہیم
(u)سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔‘‘ یعنی کیا آپ نے اس کی جراء ت، تجاہل، عناد اور ناقابل شک حقیقت کے بارے میں جھگڑے کا مشاہدہ نہیں فرمایا؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی۔
﴿ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ﴾ ’’کہ اسے اللہ نے حکومت دی تھی۔‘‘ تو وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رعیت کا حکمران بن گیا ہے تو اتنی جرأت کی کہ ابراہیمuسے اللہ کی ربوبیت کے بارے میں بحث کرنے لگا۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ ابراہیمuنے فرمایا:
﴿ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُـمِیْتُ﴾ ’’میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔‘‘ یعنی ہر کام کا اختیار اسی کو حاصل ہے۔ آپ نے زندہ کرنے اور مارنے کا خاص طورپر ذکر فرمایا کیونکہ یہ سب سے عظیم تدبیر ہے۔ اور اس لیے بھی کہ زندگی بخشنا دنیا کی زندگی کی ابتدا ہے اور موت دینا آخرت کے معاملات کی ابتدا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا:
﴿ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ﴾ ’’میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں۔‘‘ اس نے یہ نہیں کہا: ’’میں ہی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔‘‘ کیونکہ اس کا دعویٰ مستقل تصرف کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ کہتا تھا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک آدمی کو قتل کردیتا ہے تو گویا اسے موت دے دی۔ اور ایک آدمی کو زندہ رہنے دیتا ہے تو گویا اسے زندگی بخش دی۔ جب ابراہیمuنے دیکھا کہ یہ شخص بحث میں مغالطہ سے کام لیتا ہے۔ اور ایسی باتیں کہتا ہے جو دلیل تو درکنار شبہ بننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں تو ایک دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ یَ٘اْتِیْ بِالشَّ٘مْسِ مِنَ الْ٘مَشْ٘رِقِ﴾ ’’اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہر شخص تسلیم کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔
﴿ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْ٘مَغْرِبِ﴾ ’’پس تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔‘‘ یہ الزامی دلیل ہے۔ اگر وہ اپنے دعوی میں سچا ہوتا تو یہ اس کے موافق ہوجاتی۔ جب آپ نے ایسی بات فرمادی جس میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نہ اس کے پاس اس دلیل کا کوئی توڑ موجود تھا۔
﴿ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ﴾ ’’اس لیے وہ کافر حیران رہ گیا۔‘‘ یعنی حیرت زدہ ہوگیا، اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس کی دلیل غلط ثابت ہوگئی اور اس کا پیش کردہ شبہ کالعدم ہوگیا۔ جو بھی جھوٹا ضد اور عناد کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنا چاہے، وہ اسی طرح مغلوب اور شکست خوردہ ہوجایا کرتا ہے،
اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ بلکہ انھیں کفر و ضلالت میں مبتلا رہنے دیتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے لیے خود یہ چیز پسند کرلی ہوتی ہے۔ اگر ان کا مقصد ہدایت کا حصول ہوتا تو اللہ انھیں ہدایت دے دیتا اور ہدایت تک پہنچنے کے اسباب مہیا کردیتا۔ یہ آیت ایک قطعی دلیل ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور وہی مختار کل ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت اور ہر حال میں توکل اسی کا حق ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اس مناظرہ میں ایک باریک نکتہ ہے کہ دنیا میں شرک کا دارومدار ستاروں اور قبروں کی عبادت پر ہے۔ بعدمیں انھی کے نام سے بت تراشے گئے۔ ابراہیمuنے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں ان سب کی الوہیت کی اجمالاً تردید موجود ہے کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ زندہ، جو مرجانے والا ہے وہ زندگی میں معبود بننے کی اہلیت رکھتا ہے نہ مرنے کے بعد۔ کیونکہ اس کا ایک رب ہے، جو قادر ہے، زبردست ہے، وہ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو ایسا مجبور ہو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی صورت کا بت بنایا جائے اور اس کی پوجا کی جائے۔ اسی طرح ستاروں کا حال ہے۔ ان میں سے بڑا نظر آنے والا سورج ہے۔ یہ بھی حکم کا پابند ہے، اپنے بارے میں آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کا خالق و مالک ہی اسے مشرق سے لاتا ہے تو وہ اس کے حکم اور مرضی کے مطابق اطاعت کرتا ہے۔ یعنی یہ بھی مربوب اور مسخر یعنی حکم کا پابند غلام ہے۔ معبود نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔‘‘
(مفتاح دارالسعادۃ) اس کے بعد فرمایا:
{أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (259) وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (260)}.
یا اسی طرح اس شخص کو
(نہیں دیکھا) جو گزرا ایک بستی پر اور وہ گری پڑی تھی اوپر اپنی چھتوں کے، اس نے کہا، کس طرح زندہ کرے گا اس کو اللہ بعد اس کی موت کے؟ پس موت دے دی اسے اللہ نے ایک سو سال، پھر زندہ کیا اسے،
(اللہ نے) کہا تو کتنی دیر
(یہاں) رہا؟ اس نے کہا، رہا میں ایک دن یا کچھ حصہ دن کا،
(اللہ نے) فرمایا،
(نہیں)بلکہ تو
(مرا) رہا سو سال، پس دیکھ تو طرف اپنے کھانے اور پینے کی، نہیں سڑا بسا وہ، اور دیکھ طرف اپنے گدھے کی اور
(یہ اس لیے) تاکہ بنائیں ہم تجھے نشانی لوگوں کے لیےاور دیکھ طرف
(گدھے کی) ہڈیوں کی، کیسے ہم اُٹھا کر جوڑ دیتے ہیں ان کو، پھر پہناتے ہیں ان کو گوشت
(کا لباس) پس جب
(یہ سب) واضح ہو گیا واسطے اس کے تو اس نے کہا، میں
(بالیقین) جانتا ہوں کہ بے شک اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے
(259)اور جب کہا ابراہیم نے، اے رب! دکھا مجھے، کیسے تو زندہ کرے گا مردوں کو؟ فرمایا، کیا تو نہیں ایمان لایا؟ کہا، کیوں نہیں؟ اور لیکن تاکہ مطمئن ہو جائے میرا دل،
(اللہ نے) فرمایا، پس پکڑ لے تو چار پرندے، پس ہلا لے ان کو اپنے ساتھ،
(، پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر لے)، پھر رکھ دے اوپر ہر پہاڑ کے ایک ایک ٹکڑا ان میں سے، پھر بلا تو ان کو، آئیں گے وہ تیرے پاس دوڑتے ہوئےاور جان لے کہ بے شک اللہ غالب ہے، خوب حکمت والا
(260)
#
{259} هذان دليلان عظيمان محسوسان في الدنيا قبل الآخرة على البعث والجزاء، واحد أجراه الله على يد رجل شاك في البعث على الصحيح كما تدل عليه الآية الكريمة، والآخر على يد خليله إبراهيم، كما أجرى دليل التوحيد السابق على يده. فهذا الرجل مرَّ على قرية قد دمرت تدميراً وخوت على عروشها قد مات أهلها وخربت عمارتها، فقال على وجه الشك والاستبعاد: {أنى يحيي هذه الله بعد موتها}؟ أي: ذلك بعيد وهي في هذه الحال، يعني وغيرها مثلها بحسب ما قام بقلبه تلك الساعة، فأراد الله رحمته ورحمة الناس حيث أماته الله مئة عام، وكان معه حمار فأماته معه، ومعه طعام وشراب فأبقاهما الله بحالهما كل هذه المدد الطويلة. فلما مضت الأعوام المائة بعثه الله فقال: {كم لبثت قال: لبثت يوماً أو بعض يوم}؛ وذلك بحسب ما ظنه، فقال الله: {بل لبثت مائة عام}؛ والظاهر أن هذه المجاوبة على يد بعض الأنبياء الكرام.
ومن تمام رحمة الله به وبالناس أنه أراه الآية عياناً ليقتنع بها، فبعد ما عرف أنه ميت قد أحياه الله قيل له: انظر {إلى طعامك وشرابك لم يتسنه}؛ أي: لم يتغير في هذه المُدَد الطويلة. وذلك من آيات قدرة الله فإن الطعام والشراب خصوصاً ما ذكره المفسرون أنه فاكهة وعصير لا يلبث أن يتغير وهذا قد حفظه الله مئة عام وقيل له: {انظر إلى حمارك}؛ فإذا هو قد تمزق وتفرق وصار عظاماً نخرة، {وانظر إلى العظام كيف ننشزها}؛ أي: نرفع بعضها إلى بعض ونصل بعضها ببعض بعدما تفرقت وتمزقت {ثم نكسوها}؛ بعد الالتئام {لحماً}؛ ثم نعيد فيه الحياة {فلما تبين له}؛ رأيَ عين لا يقبل الريب بوجه من الوجوه {قال أعلم أن الله على كل شيء قدير}؛ فاعترف بقدرة الله على كل شيء وصار آية للناس، لأنهم قد عرفوا موته وموت حماره وعرفوا قضيته ثم شاهدوا هذه الآية الكبرى. هذا هو الصواب في هذا الرجل.
وأما قول كثير من المفسرين: أن هذا الرجل مؤمن أو نبي من الأنبياء إما عزير أو غيره وأن قوله: {أنى يحيي هذه الله بعد موتها}؛ يعني كيف تعمر هذه القرية بعد أن كانت خراباً، وأن الله أماته ليريه ما يعيد لهذه القرية من عمارتها بالخلق وأنها عمرت في هذه المدة وتراجع الناس إليها وصارت عامرة بعد أن كانت دامرة، فهذا لا يدل عليه اللفظ بل ينافيه، ولا يدل عليه المعنى، فأي آية وبرهان برجوع البلدان الدامرة إلى العمارة، وهذه لم تزل تشاهد تعمر قرى ومساكن، وتخرب أخرى، وإنما الآية العظيمة في إحيائه بعد موته وإحياء حماره وإبقاء طعامه وشرابه لم يتعفن ولم يتغير، ثم قوله: {فلما تبين له}؛ صريح في أنه لم يتبين له إلا بعدما شاهد هذه الحال الدالة على كمال قدرته عيانا.
[259] یہ ایک اور دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی خالق ہے۔ وہی سب فیصلے کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’یا اس شخص کے مانند جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی۔‘‘ یعنی اس کے باشندے مرکھپ گئے تھے، اور چھتیں گر کر اوپر دیواریں گر چکی تھیں،
وہاں کوئی نہیں رہتا تھا بلکہ بالکل ویران ہوچکی تھی۔ وہ شخص وہاں کھڑا ہوکر تعجب سے بولا: ﴿ اَنّٰى یُحْیٖ هٰؔذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ’’اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟‘‘ اسے یہ چیز ناممکن محسوس ہوئی، اس نے اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا تو خود اس کی ذات میں اور اس کے گدھے میں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرادیا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔
﴿ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّؔ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ﴾ ’’پس اللہ نے اسے سو سال کے لیے مار دیا۔ پھر اسے اٹھایا،
پوچھا: کتنی مدت تجھ پر گزری؟
کہنے لگا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔‘‘ اسے یہ موت انتہائی مختصر محسوس ہوئی،
کیونکہ اس کے احساسات ختم ہوچکے تھے۔ اسے اپنی صرف وہ حالت یاد تھی جو اسے موت سے پہلے معلوم تھی۔ اسے بتایا گیا: ﴿ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ﴾ ’’بلکہ تو سو سال تک رہا۔ پس اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا۔‘‘ سالوں کی مدت گزرنے کے باوجود اور مختلف اوقات گزرنے کے باوجود اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ اس نے کھانے پینے کی چیزوں کو تبدیل یا خراب ہونے سے بچائے رکھا حالانکہ یہ چیزیں سب سے جلدی خراب ہوتی ہیں۔
﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰى حِمَارِكَ﴾ ’’اور اپنے گدھے کوبھی دیکھ۔‘‘ وہ مرچکا تھا۔ اس کا گوشت اور چمڑاریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔ اس کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔
﴿وَلِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ﴾ ’’اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں۔‘‘ جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتا ہے۔ تاکہ یہ ایسی مثال بن جائے جس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ پیغمبرنے جو خبریں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں۔
﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُ٘نْ٘شِزُهَا﴾ ’’اور تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں۔‘‘ اور انھیں ایک دوسری سے جوڑتے ہیں۔
﴿ ثُمَّؔ نَكْ٘سُوْهَا لَحْمًا﴾ ’’پھر ہم ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔‘‘ پس اس نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ لیا۔
﴿ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ﴾ ’’جب یہ سب اس کے لیے ظاہر ہوچکا۔‘‘ اور اسے اللہ کی قدرت کا علم ہوگیا۔ تو کہنے لگا:
﴿ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص موت کے بعد کی زندگی کا منکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ اسے ہدایت دے کر لوگوں کے لیے نشانی اور قیامت کی دلیل بنا دے۔ اس موقف کے تین دلائل ہیں:
(۱) اس نے کہا:
﴿ اَنّٰى یُحْیٖ هٰؔذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ’’اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا۔؟‘‘ اگر وہ نبی یا نیک بندہ ہوتا تو یوں نہ کہتا۔
(۲) اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی خوراک، اس کے مشروب، اس کے گدھے اور اس کی ذات میں اپنی نشانی دکھا دی، تاکہ وہ جس چیز کا انکار کرتا ہے اسے آنکھوں سے دیکھ کر اقرار کرلے۔ آیت میں یہ ذکر نہیں کہ وہ بستی بعد میں پہلے کی طرح آباد ہوگئی تھی۔ نہ سیاق کلام ہی سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہی ہے۔ ایک بستی جو بے آباد ہوگئی۔ بعد میں اس کے باشندوں نے واپس آکر یا دوسرے لوگوں نے رہائش اختیار کرکے اسے آباد کردیا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرے گا؟ اصل دلیل تو خود اسے اور اس کے گدھے کو زندہ کرنے میں اور اس کے سامان خورونوش کو اصلی حالت میں باقی رکھنے میں ہے۔
(۳) اللہ نے فرمایا:
﴿ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗ﴾ ’’جب اس کے لیے ظاہر ہوگیا۔‘‘ یعنی جو چیز اسے معلوم نہیں تھی، اس سے مخفی تھی، وہ ظاہر اور واضح ہوگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا قول صحیح ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ۔
#
{260} وأما البرهان الآخر فإن إبراهيم قال طالباً من الله أن يريه كيف يحيي الموتى فقال الله له: {أو لم تؤمن}؛ ليزيل الشبهة عن خليله، {قال}؛ إبراهيم: {بلى}؛ يا رب قد آمنت أنك على كل شيء قدير وأنك تحيي الموتى وتجازي العباد، ولكن أريد أن يطمئن قلبي وأصل إلى درجة عين اليقين، فأجاب الله دعوته كرامة له ورحمة بالعباد، {قال فخذ أربعة من الطير}؛ ولم يبين أي الطيور هي فالآية حاصلة بأي نوع منها وهو المقصود، {فصرهن إليك}؛ أي: ضمهن واذبحهن ومزقهن {ثم اجعل على كل جبل منهن جزءاً ثم ادعهن يأتينك سعياً واعلم أن الله عزيز حكيم}؛ ففعل ذلك وفرق أجزاءهن على الجبال التي حوله ودعاهن بأسمائهن فأقبلن إليه أي سريعات، لأن السعي السرعة، وليس المراد أنهن جئن على قوائمهن، وإنما جئن طائرات على أكمل ما يكون من الحياة، وخص الطيور بذلك لأن إحياءهن أكمل وأوضح من غيرهن، وأيضاً أزال في هذا كل وهم ربما يعرض للنفوس المبطلة، فجعلهن متعددات أربعة، ومزقهن جميعاً، وجعلهن على رؤوس الجبال، ليكون ذلك ظاهراً علناً يشاهد من قرب ومن بعد، وأنه نحاهن عنه كثيراً لئلا يظن أن يكون عاملاً حيلة من الحيل، وأيضاً أمره أن يدعوهن فجئن مسرعات، فصارت هذه الآية أكبر برهان على كمال عزة الله وحكمته.
وفيه تنبيه على أن البعث فيه يظهر للعباد كمال عزة الله وحكمته وعظمته وسعة سلطانه وتمام عدله وفضله.
[260] یہ بھی ایک عظیم اور محسوس دلیل ہے، جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ فوت شدہ لوگوں کو جزا و سزا دینے کے لیے زندہ فرمائے گا۔ اللہ نے اپنے خلیل ابراہیمuکے بارے میں خبر دی ہے کہ انھوں نے اللہ سے درخواست کی کہ انھیں مردوں کو زندہ ہوتا آنکھوں سے دکھا دیا جائے۔ آپuکو اللہ کے بتانے سے اس کا یقین تو حاصل ہوچکا تھا،
لیکن آپ کی خواہش تھی کہ اس کا بچشم سر مشاہدہ فرمالیں تاکہ انھیں حق الیقین کا مقام حاصل ہو جائے۔ اس لیے اللہ نے انھیں فرمایا: ﴿ اَوَ لَمْ تُ٘ـؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ﴾ ’’کیا تمھیں ایمان نہیں؟
جواب دیا: ایمان تو ہے،
لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یقینی دلائل یکے بعد دیگرے آنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یقین کامل ہوجاتا ہے۔ اہل عرفان اسی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے رب نے اسے فرمایا: ﴿ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ﴾ یعنی چارپرندے لے کر اکٹھے کرلے۔ تاکہ سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے واقع ہو۔ اور آپ کے ہاتھوں سے اس کا مشاہدہ کرایا جائے۔
﴿ ثُمَّؔ اجْعَلْ عَلٰى كُ٘لِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا﴾ ’’پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو۔‘‘ یعنی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کے اجزا کو باہم ملا دو۔ اور قریب پہاڑوں میں سے ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دو۔
﴿ ثُمَّؔ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا﴾ ’’پھر انھیں پکارو، تمھارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔‘‘ یعنی انھیں مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ تو وہ پوری قوت سے دوڑتے ہوئے اور تیزی سے اڑتے ہوئے آپ کے پاس آجائیں گے۔ ابراہیمuنے ایسے ہی کیا، تو انھیں مردوں کے زندہ ہونے کا مطلوبہ مشاہدہ حاصل ہوگیا۔ اور یہ معاملہ بھی ملکوت السموات والارض
(آسمانوں اور زمین کی سلطنت) میں شامل ہے جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں ہے:
﴿وَؔكَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ﴾ (انعام:6؍75) ’’اور ہم نے ایسے ہی طورپر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں اور تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا:
﴿ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ غالب ہے حکمتوں والا۔‘‘ یعنی عظیم قوتوں والا ہے،
جس سے اس نے مخلوقات کو مسخر کررکھا ہے۔ کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کی سب اس کی عظمت کے آگے سرنگوں اور اس کے جلال کے سامنے جھکی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے افعال اس کی حکمت کے تابع ہیں۔ وہ کوئی کام بے مقصد نہیں کرتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (261) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (262)}
مثال ان لوگوں کی، جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں مانند مثال اس دانے کی ہے جو اگاتا ہے سات بالیاں، ہر ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ بڑھاتا ہے، واسطے جس کے چاہتا ہےاور اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے
(261)وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، پھر نہیں پیچھے لگاتے اس کے جو انھوں نے خرچ کیا احسان جتلانا اور نہ ایذا دینا، واسطے ان کے اجر ہے ان کا نزدیک ان کے رب کےاور نہ کوئی خوف ہوگا اوپر ان کے اور نہ وہ غمگین ہوں گے
(262)
#
{261} هذا حث عظيم من الله لعباده في إنفاق أموالهم في سبيله، وهو طريقه الموصل إليه، فيدخل في هذا إنفاقه في ترقية العلوم النافعة، وفي الاستعداد للجهاد في سبيله، وفي تجهز المجاهدين وتجهيزهم، وفي جميع المشاريع الخيرية النافعة للمسلمين، ويلي ذلك الإنفاق على المحتاجين والفقراء والمساكين، وقد يجتمع الأمران فيكون في النفقة دفع الحاجات والإعانة على الخير والطاعات، فهذه النفقات مضاعفة هذه المضاعفة بسبعمائة إلى أضعاف أكثر من ذلك، ولهذا قال: {والله يضاعف لمن يشاء}؛ وذلك بحسب ما يقوم بقلب المنفق من الإيمان والإخلاص التام وفي ثمرات نفقته ونفعها، فإن بعض طرق الخيرات يترتب على الإنفاق فيها منافع متسلسلة ومصالح متنوعة فكان الجزاء من جنس العمل.
[261] اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تشریح ہوتی ہے:
﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْ٘رِضُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً﴾ (البقرہ:2؍245) ’’کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لیے کئی گنا بڑھا دے گا۔‘‘یہاں فرمایا:
﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾’’مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کی خوشنودی کے کاموں میں۔ ان میں سب سے اہم جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے۔
﴿ كَمَثَلِ حَبَّؔةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُ٘لِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ﴾ ’’ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں، اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔‘‘ اس مثال کے ذریعے عمل کے ثواب میں اضافے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اضافہ بندہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ثواب میں اضافے کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ اس طرح آنکھوں دیکھی چیز کی وجہ سے ایمان کے ذریعے دیکھی ہوئی چیز پر یقین بڑھتا ہے۔ لہٰذا دل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری آمادگی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اس قدر اضافے اور اس اللہ کے عظیم احسان کی امید ہوتی ہے۔
﴿وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے۔‘‘ یعنی خرچ کرنے والے کے حال اور اس کے خلوص کے مطابق یا خرچ کی کیفیت، منافع اور برمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ ﴾ ’’اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے۔‘‘ اس سے بھی زیادہ
﴿ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’جسے چاہے‘‘ یعنی بے حساب اجر و ثواب عنایت فرمائے۔
﴿ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ﴾ ’’اور اللہ کشادگی والا ہے۔‘‘ اس کا فضل وسیع ہے، اس کی عطا بے حساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ لہٰذا خرچ کرنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ شاید کئی گنا بڑھا کر دینے کا ذکر مبالغے کے طورپر کیا گیا ہے۔ اللہ کے لیے تو کوئی انعام بھی مشکل نہیں۔ بے شمار عطا کے باوجود اسے کمی نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ
﴿ عَلِیْمٌ﴾ وہ علیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے ثواب کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ لہٰذا وہ اضافہ وہیں کرتا ہے جہاں اس کا صحیح مقام ہو، کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی۔
#
{262} ثم أيضاً ذكر ثواباً آخر للمنفقين أموالهم في سبيله نفقة صادرة مستوفية لشروطها منتفية موانعها، فلا يتبعون المنفق عليه، منًّا منهم عليه وتعداداً للنعم وأذية له قولية أو فعلية فهؤلاء {لهم أجرهم عند ربهم}؛ بحسب ما يعلمه منهم وبحسب نفقاتهم ونفعها وبفضله الذي لا تناله ولا تصل إليه صدقاتهم، {ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ فنفى عنهم المكروه الماضي بنفي الحزن، والمستقبل بنفي الخوف عليهم فقد حصل لهم المحبوب واندفع عنهم المكروه.
[262] جو لوگ اپنے مال اللہ کی فرماں برداری کے کاموں میں اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایسے کام نہیں کرتے جن سے عمل میں نقص واقع ہوجائے یا عمل ضائع ہوجائے۔ یعنی جس کو دیا ہے اس پر زبان سے یا دل سے احسان نہیں دھرتے، مثلاً اپنے احسانات گن گن کر بتانا اور اس کے بدلے ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، نہ زبانی یا عملی طورپر ایذا دیتے ہیں، تو ان کو وہ ثواب ملے گا جو ان کے شایان شان ہوگا۔ انھیں کوئی خوف یا غم بھی لاحق نہیں ہوگا۔ لہٰذا انھیں ہر خیر حاصل ہوجائے گی اور ہر برائی ان سے دور ہوجائے گی۔ کیونکہ انھوں نے اللہ کے لیے ایسی نیکی کی تھی، جو ضائع کرنے والے اسباب سے پاک تھی۔
{قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (263)}
بات کہنا اچھی اور درگزر کرنا بہت بہتر ہے اس صدقے سے جس کے پیچھے ہو ایذا دینااور اللہ بے پروا ہے، نہایت بردبار
(263)
#
{263} ذكر الله أربع مراتب للإحسان:
المرتبة العليا: النفقة الصادرة عن نية صالحة ولم يتبعها المنفق منًّا ولا أذى.
ثم يليها قول المعروف وهو الإحسان القولي بجميع وجوهه الذي فيه سرور المسلم، والاعتذار من السائل إذا لم يوافق عنده شيئاً، وغير ذلك من أقوال المعروف.
والثالثة الإحسان بالعفو والمغفرة عمن أساء إليك بقول أو فعل.
وهذان أفضل من الرابعة وخير منها وهي: التي يتبعها المتصدق الأذى للمعطي لأنه كدر إحسانه وفعل خيراً وشرًّا.
فالخير المحض وإن كان مفضولاً خير من الخير الذي يخالطه شرٌّ وإن كان فاضلاً، وفي هذا التحذير العظيم لمن يؤذي من تصدق عليه كما يفعله أهل اللؤم والحمق والجهل، {والله}؛ تعالى {غني}؛ عن صدقاتهم وعن جميع عباده {حليم}؛ مع كمال غناه وسعة عطاياه يحلم عن العاصين، ولا يعاجلهم بالعقوبة بل يعافيهم، ويرزقهم، ويدر عليهم خيره، وهم مبارزون له بالمعاصي.
ثم نهى أشد النهي عن المنِّ والأذى وضرب لذلك مثلاً:
[263] ﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ﴾ ’’اچھی بات۔‘‘ جس کو دل پہچانتے ہیں، اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔ اس میں ہر اچھی بات شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے دل کی خوشی کا باعث بننا کار ثواب ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سائل کو جواب دینا ہو تو اچھے الفاظ سے جواب دیا جائے، اور اسے دعا دی جائے۔
﴿وَّمَغْفِرَةٌ﴾ ’’اور برائی کرنے والے کو معاف کردینا۔‘‘ یعنی اس سے مواخذہ نہ کرنا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر سائل کوئی نامناسب حرکت کرے تو اسے معاف کردیا جائے۔ نرم بات کہنا قولی احسان ہے۔ اور معاف کردینا عملی احسان ہے کہ اس کا مواخذہ نہیں کیا گیا۔ یہ دونوں احسان ایسے ہیں، جن کے ساتھ ان کو تباہ کرنے والی کوئی غلطی موجود نہیں۔ لہٰذا یہ اس صدقے کے احسان سے بہتر ہیں، جن کے ساتھ احسان جتلانے کی یا کسی اور انداز سے تکلیف پہنچانے کی خرابی موجود ہے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس صدقہ کے ساتھ تکلیف پہنچانے کی خرابی موجود نہ ہو، وہ صدقہ نرم بات کہنے اور معاف کرنے سے افضل ہے۔ صدقہ کرکے احسان جتلانا حرام ہے جس سے عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اصل احسان اللہ ہی کا ہے۔ لہٰذا بندے کے لیے مناسب نہیں کہ کسی کو ایسا احسان جتلائے جو اس کی طرف سے نہیں ہوا
(بلکہ اصل میں اللہ کی طرف سے ہوا ہے) علاوہ ازیں احسان جتلانا غلام بنانے کے مترادف ہے اور عبودیت اور جھکنا صرف اللہ کے لیے روا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ جو تمام مخلوقات سے مستغنی ہے۔ اور تمام مخلوقات تمام حالات اور تمام اوقات میں اس کی محتاج ہیں، لہٰذا تمھارا صدقہ، تمھارا خرچ کرنا اور تمھاری نیکیاں ان سب کا فائدہ خود تم ہی کو حاصل ہوتا ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ غَنِیٌّ ﴾’’اور اللہ بے نیاز ہے‘‘ اسے ان کی ضرورت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ
﴿ حَلِیْمٌ ﴾ ’’بردبار ہے‘‘ جو اس کی نافرمانی کرے اسے فوراً سزا نہیں دیتا، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی رحمت، احسان اور بردباری اسے گناہ گاروں کو فوری سزا دینے سے مانع ہوجاتی ہے۔ بلکہ وہ انھیں مہلت دیتاہے، انھیں مختلف انداز سے اپنی آیات سناتا اور دکھاتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں، البتہ جب یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں میں خیر کی کوئی رمق نہیں رہی اور انھیں آیات سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ پھر ان پر عذاب نازل فرما دیتا ہے اور اپنے عظیم ثواب سے محروم فرما دیتا ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (264) وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (265) أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (266)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ باطل کرو اپنے صدقے ساتھ احسان جتانے اور ایذا دینے کے، مانند اس شخص کے جو خرچ کرتا ہے مال اپنا واسطے دکھاوے لوگوں کےاور نہیں ایمان لاتا وہ ساتھ اللہ اور یوم آخرت کے، پس اس کی مثال مانند مثال ایک چکنے پتھر کے ہے کہ اوپر اس
(پتھر) کے مٹی ہے، سو پہنچی اسے زور کی بارش، پس بارش نے چھوڑا اس پتھر کو صاف کرکے، نہیں قدرت رکھیں گے
(ایسے لوگ) اوپر کسی چیز کے اس میں سے جو انھوں نے کمایااور اللہ نہیں ہدایت دیتا کافر قوم کو
(264) اور مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال واسطے تلاش کرنے کے رضامندی اللہ کی، اور واسطے پختگی پیدا کرنے کے اپنے نفسوں میں، مانند مثال اس باغ کے ہے جو ٹیلے پر ہے، پہنچی اسے زور کی بارش تو لایا وہ باغ اپنا پھل دوگنا، پس اگر نہ پہنچے اس باغ کو زور کی بارش تو پھوار
(ہی کافی ہے) اور اللہ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے
(265) کیا پسند کرتا ہے ایک تمھارا یہ کہ ہو اس کے واسطے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا، بہتی ہوں اس کے نیچے نہریں، اس شخص کے واسطے اس باغ میں ہر قسم کے پھل ہوں اور آپہنچا ہوا سے بڑھاپااور واسطے اس کے اولاد ہو کمزور، پھر
(ناگہاں) آپڑے اس
(باغ) پر ایک ایسا بگولا کہ اس میں آگ ہو، پس جل جائے وہ
(باغ)؟ اسی طرح
(کھول کر) بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے آیتیں، تاکہ تم غور و فکر کرو
(266)
#
{264 ـ 266} ضرب الله في هذه الآيات ثلاثة أمثلة: للمنفق ابتغاء وجهه ولم يتبع نفقته منًّا ولا أذى، ولمن أتبعها منًّا وأذى، وللمرائي.
فأما الأول فإنه لما كانت نفقته مقبولة مضاعفة لصدورها عن الإيمان والإخلاص التام {ابتغاء مرضاة الله وتثبيتاً من أنفسهم}؛ أي: ينفقون وهم ثابتون على وجه السماحة والصدق فمثل هذا العمل، {كمثل جنة بربوة}؛ وهو المكان المرتفع لأنه يتبين للرياح والشمس، والماء فيها غزير، فإن لم يصبها ذلك الوابل الغزير، حصل لها طلٌّ كافٍ لطيب منبتها وحسن أرضها وحصول جميع الأسباب الموفرة لنموها وازدهارها وإثمارها، ولهذا {آتت أكلها ضعفين}؛ أي: متضاعفاً، وهذه الجنة التي على هذا الوصف هي أعلى ما يطلبه الناس، فهذا العمل الفاضل بأعلى المنازل.
وأما من أنفق لله ثم أتبع نفقته منًّا وأذى، أو عمل عملاً فأتى بمبطل لذلك العمل فهذا مثله مثال صاحب هذه الجنة، لكن سلط عليها {إعصار}؛ وهو الريح الشديدة {فيه نار فاحترقت}؛ وله ذرية ضعفاء وهو ضعيف قد أصابه الكبر، فهذه الحال من أفظع الأحوال، ولهذا صدَّر هذا المثل بقوله: {أيود أحدكم}؛ إلى آخرها بالاستفهام المتقرر عند المخاطبين فظاعته، فإن تَلَفَها دفعة واحدة بعد زهاء أشجارها وإيناع ثمارها مصيبة كبرى، ثم حصول هذه الفاجعة وصاحبها كبير قد ضعف عن العمل وله ذرية ضعفاء لا مساعدة منهم له ومؤنتهم عليه فاجعة أخرى، فصار صاحب هذا المثل الذي عمل لله ثم أبطل عمله بمنافٍ له يشبه حال صاحب الجنة التي جرى عليها ما جرى حين اشتدت ضرورته إليها.
المثل الثالث الذي يرائي الناس وليس معه إيمان بالله ولا احتساب لثوابه حيث شبه قلبه بالصفوان وهو الحجر الأملس عليه تراب يظن الرائي أنه إذا أصابه المطر أنبت كما تنبت الأراضي الطيبة، ولكنه كالحجر الذي أصابه الوابل الشديد فأذهب ما عليه من التراب وتركه صلداً، وهذا مثل مطابق لقلب المرائي الذي ليس فيه إيمان بل هو قاسٍ لا يلين ولا يخشع، فهذا أعماله ونفقاته لا أصل لها تؤسس عليه ولا غاية لها تنتهي إليه، بل ما عمله فهو باطل لعدم شرطه.
والذي قبله بطل بعد وجود الشرط لوجود المانع، والأول مقبول مضاعف لوجود شرطه الذي هو الإيمان والإخلاص والثبات وانتفاء الموانع المفسدة. وهذه الأمثال الثلاثة تنطبق على جميع العاملين، فليزن العبد نفسه وغيره بهذه الموازين العادلة والأمثال المطابقة {وتلك الأمثال نضربها للناس وما يعقلها إلا العالمون}.
[266-264] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے انھیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقے ضائع کر بیٹھیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ احسان جتلانے اور تنگ کرنے سے صدقہ کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گناہوں کے ارتکاب کے نتیجے میں نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ جیسے ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَ٘شْ٘عُرُوْنَ ﴾ (الحجرات:49؍2) ’’نبی سے اونچی آواز سے بات نہ کرو،
جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال اکارت جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ چنانچہ جس طرح نیکیوں کی وجہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گناہ بھی اپنے مقابلے میں آنے والی نیکیوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿ وَلَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ ﴾ (محمد:47؍33) ’’اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔‘‘ ان دونوں آیات میں عمل کو مکمل کرنے اور اسے خراب کرنے والی اشیاء سے محفوظ رکھنے کی ترغیب ہے تاکہ عمل بے کار نہ ہوجائے۔ پھر فرمایا:
﴿ كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَؔاؔٓءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔ نہ اللہ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘‘ یعنی اگر تم نے شروع میں اللہ کی رضا کی نیت رکھ کر بھی عمل کیا ہو تو احسان جتلانے سے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ تمھارا یہ عمل اس شخص کے عمل کی طرح ہوجائے گا جو صرف دکھاوے کے لیے نیکی کرتا ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی رضا اور جنت کا حصول نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا عمل سرے سے ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ عمل مقبول کی شرط یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کے لیے ہو۔ اس شخص نے اصل میں عمل کیا ہی لوگوں کے لیے ہے، اللہ کے لیے کیا ہی نہیں۔ لہٰذا اس کا عمل کالعدم ہوگا اور اس کی محنت بے کار جائے گی۔ اس کے حال کے مطابق تو اس کی مثال
﴿ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ ﴾ ’’ملائم اور سخت پتھر کی سی ہے۔‘‘
﴿ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ ﴾ ’’جس پر کچھ مٹی پڑی ہے۔ پھر اس پر زور دار مینہ برسا‘‘
﴿ فَتَرَؔكَهٗ صَلْدًا ﴾ یعنی اسے اس طرح کا کرکے چھوڑا کہ اس پر وہ مٹی بالکل باقی نہیں رہی۔ دکھاوا کرنے والے کی بھی یہی مثال ہے۔ اس کا سخت دل صاف اور سخت پتھر کے مشابہ ہے۔ اس کا صدقہ وغیرہ اس پتھر پر پڑی ہوئی مٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس پتھر کی حقیقت سے واقف نہیں، وہ خیال کرے گا کہ یہ قابل کاشت اور زرخیز زمین ہے۔ جب حقیقت ظاہر ہوگئی تو گویا وہ مٹی ہٹ گئی اور معلوم ہوگیا کہ اس کا عمل ایک سراب کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا دل تو اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس میں
(نیکی کی) کھیتی اگ سکے اور بڑھ پھول سکے۔ اس کی ریا کاری اور بدنیتی اسے کسی نیکی سے مستفید ہونے کے قابل نہیں چھوڑتی،
اس لیے فرمایا: ﴿ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ ﴾ یعنی وہ اپنے کمائے ہوئے اعمال میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ انھوں نے ان اعمال کو غلط جگہ پر رکھا، اور اپنے جیسی مخلوق کے لیے انجام دیا جس کے ہاتھ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ جس رب کی عبادت سے فائدہ ہو سکتا ہے اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا، تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیا،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اللہ کافروں کی قوم کو راہ نہیں دکھاتا۔‘‘
یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنے مال اس انداز سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کے صدقات قبول ہوتے اور بڑھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا:
﴿ وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ﴾ ’’ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا مندی کی طلب میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔
﴿ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ۔‘‘ یعنی جب وہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں سخاوت اور خوشی کی کیفیت ہوتی ہے۔ تردد کے ساتھ بادل نخواستہ خرچ نہیں کرتے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے نیک عمل پر دو طرح کی آفتیں آتی ہیں۔ یا تو انسان کا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ لوگ تعریف کریں، یہ ریا کی بیماری ہے۔ یا کمزور نیت کے ساتھ ہچکچاتا ہوا خرچ کرتا ہے۔ سچے مومن ان دونوں آفتوں سے بچ کر صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی اور مقصد نہیں ہوتا۔ ان کے خرچ کی مثال ایسے ہے
﴿ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ ﴾ ’’جیسے ایک باغ‘‘ جس میں درخت بے شمار ہیں اور سایہ گھنا ہے۔
(جَنَّةٍ) کا لفظ
(اِجْتِنَان) سے ماخوذ ہے یعنی چھپا لینا۔ لہٰذا جنت سے مراد ایسا باغ ہے جس کے درخت زمین کو چھپا لیتے ہیں اس تک دھوپ نہیں پہنچنے دیتے۔
اور یہ باغ
﴿ بِرَبْوَةٍ ﴾ ’’اونچی زمین پر‘‘ ہے۔ جس کو صبح، دوپہر اور شام سورج کی پوری روشنی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے باغ کے پھل زیادہ اور بہتر ہوتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ نہیں جہاں نہ ہوا لگے نہ دھوپ۔ اونچی زمین پر موجود اس باغ پر
﴿ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِ ﴾ ’’زور دار بارش برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لائے۔‘‘ زمین نم دار ہونے کی وجہ سے اور دوسرے معاون اسباب کی وجہ سے اور بکثرت پانی کی موجودگی کی وجہ سے اس باغ سے دگنا پھل حاصل ہوا۔
﴿ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ﴾ ’’اور اگر اس پر بارش نہ برسے تو پھوار ہی کافی ہے۔‘‘ یعنی عمدہ زمین کی وجہ سے معمولی بارش بھی کافی ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا حال ہے۔ کوئی زیادہ خرچ کرے یا کم، ہر ایک کو اپنے حالات کے مطابق فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اور ہر ایک کے ثواب میں پوری طرح اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو بڑھانے والا وہ ہے جو تجھ پر تجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جہاں تجھے اپنے فائدے کا خیال نہیں رہتا، اسے وہاں بھی تیرا فائدہ مقصود ہوتا ہے۔ اگر اس دنیا میں اس طرح کا کوئی باغ ہوتا، تو لوگ اس کے حصول کے لیے پوری کوشش کرتے، بلکہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور جنگ و جدل تک نوبت پہنچ جاتی۔ حالانکہ یہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور یہاں بے شمار آفات و مصائب ہیں۔ اور یہ ثواب جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، مومن اسے بصیرت ایمانی کے نور سے گویا سامنے دیکھتا ہے، وہ جہاں دائمی ہے اس کی تمام خوشیاں اور نعمتیں دائمی ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی ہمت بیدار نہیں ہوتی، اس کے لیے جدوجہد کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیا اس کی وجہ آخرت سے بے رغبتی ہے یا اللہ کے وعدے پر یقین کمزور ہے؟ ورنہ اگر بندے کو واقعی کماحقہ یقین ہوتا اور دل میں ایمان سرایت کرچکا ہوتا، تو دل اس کے لیے جذبے اور ولولے سے معمور ہوجاتے اور ثواب کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا آسان ہوجاتا،
اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے کام دیکھ رہا ہے۔‘‘ وہ ہر شخص کے عمل سے بھی باخبر ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس عمل کا باعث کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے مطابق مکمل جزا دے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہے۔
یہ مثال اس شخص کی ہے جو صدقہ وغیرہ نیکی کاکام اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، پھر کوئی ایسا کام کردیتا ہے جس سے وہ نیکی تباہ ہوجائے۔ اس کی مثال ایک باغ کے مالک کی سی ہے جس کے باغ میں ہر قسم کے پھل ہیں۔ ان میں سے کھجور اور انگور کا ذکر خاص طورپر کیا گیا ہے کیونکہ یہ دوسروں سے افضل ہیں اور ان کے فوائد بھی زیادہ ہیں۔ ان کا استعمال خوراک کے طورپر بھی ہوتا ہے اور میوہ کے طورپر
(لطف اندوزی کے لیے) بھی۔ اس باغ میں نہریں بھی چل رہی ہیں، جن کی وجہ سے آب پاشی میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ اس کا مالک اس پر خوش ہے، لوگ رشک کرتے ہیں۔ یہ آدمی بوڑھا ہوگیا، کام کاج کے قابل نہیں رہا، اس لیے اب اسے باغ ہی سے امید ہے۔ اس کی اولاد کمزور ہے، جو کام کاج میں اس کی مدد نہیں کرسکتی۔ بلکہ اس کے لیے بوجھ ہے۔ اس کااپنا خرچ بھی باغ سے چلتا ہے اور بچوں کا بھی۔ ان حالات میں باغ پر آندھی آگئی۔
(إِعْصَار) اس تیز ہوا کو کہتے ہیں جو گول گھومتی ہے اور اوپر کو بلند ہوتی ہے۔ اس بگولے میں آگ تھی جس سے باغ جل گیا۔ اس حادثے سے جو رنج و غم حاصل ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر غم سے مرا جاسکتا تو یہ آدمی ضرور مرجاتا۔ اس طرح جو شخص اللہ کی رضا کے لیے عمل کرتا ہے تو اس کے عمل کھیتی اور پھلوں کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے اعمال کے نتیجے میں اسے وہ باغ مل جاتا ہے جو بے انتہا دلکش ہے۔ نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال اس بگولے کی طرح ہیں، جس میں آگ ہے۔ بندہ اپنے اعمال کا انتہائی ضرورت مند اس وقت ہوتا ہے جب وہ فوت ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مزید کوئی عمل نہیں کرسکتا۔ اور جس عمل سے فائدے کی امید کی جاسکتی ہے وہ گردوغبار کی طرح بے حقیقت ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس صورت حال کو سمجھ لے اور اس کا تصور کرے تو اگر اسے تھوڑی سی عقل حاصل ہے تو ایسا کام ہرگز نہ کرے گا، جس میں اس کا اس قدر نقصان ہے اور جس کا انجام حسرت و افسوس ہے، لیکن ایمان و عقل کی کمزوری کی وجہ سے اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے انسان اس حال کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایسی حرکت کسی مجنون سے بھی سرزد ہو تو وہ عظیم اور انتہائی خطرناک ہو،
اس لیے اللہ نے غوروفکر کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے: ﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَؔكَّـرُوْنَ﴾ ’’اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غوروفکر کرو۔‘‘
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (267) الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (268)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خرچ کرو تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو کماؤ تم اور ان میں سے
(بھی) جو نکالیں ہم نے تمھارے لیے زمین سے،اور نہ ارادہ کرو تم خراب چیز کا اس میں سے کہ خرچ کرو تم، اور نہیں ہو تم لینے والے اس چیز کو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ تم اس میں، اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ بے پروا ہے، قابل تعریف ہے
(267) شیطان ڈراتا ہے تمھیں تنگ دستی سے اور حکم دیتا ہے تمھیں بے حیائی کا،اور اللہ وعدہ کرتا ہے تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا،اور اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے
(268)
#
{267 ـ 268} يحث الباري عباده على الإنفاق مما كسبوا في التجارات، ومما أخرج لهم من الأرض من الحبوب والثمار، وهذا يشمل زكاة النقدين والعروض كلها المعدة للبيع والشراء والخارج من الأرض من الحبوب والثمار. ويدخل في عمومها الفرض والنفل، وأمر تعالى أن يقصدوا الطيب منها ولا يقصدوا الخبيث وهو الرديء الدون يجعلونه لله، ولو بذله لهم من لهم حق عليه لم يرتضوه، ولم يقبلوه إلا على وجه المغاضاة والإغماض، فالواجب إخراج الوسط من هذه الأشياء والكمال إخراج العالي، والممنوع إخراج الرديء فإن هذا لا يجزي عن الواجب، ولا يحصل فيه الثواب التام في المندوب.
{واعلموا أن الله غني حميد}؛ فهو غني عن جميع المخلوقين، وهو الغني عن نفقات المنفقين وعن طاعات الطائعين، وإنما أمرهم بها وحثهم عليها لنفعهم ومحض فضله وكرمه عليهم، ومع كمال غناه وسعة عطاياه فهو الحميد فيما يشرعه لعباده من الأحكام الموصلة لهم إلى دار السلام، وحميد في أفعاله التي لا تخرج عن الفضل والعدل والحكمة، وحميد الأوصاف لأن أوصافه كلها محاسن وكمالات لا يبلغ العباد كنهها ولا يدركون وصفها. فلما حثهم على الإنفاق النافع نهاهم عن الإمساك الضار، وبين لهم أنهم بين داعيين: داعي الرحمن يدعوهم إلى الخير ويعدهم عليه الخير والفضل والثواب العاجل والآجل وإخلاف ما أنفقوا، وداعي الشيطان الذي يحثهم على الإمساك، ويخوفهم إن أنفقوا أن يفتقروا.
فمن كان مجيباً لداعي الرحمن، وأنفق مما رزقه الله فليُبْشِر بمغفرة الذنوب وحصول كل مطلوب، ومن كان مجيباً لداعي الشيطان فإنه إنما يدعو حزبه ليكونوا من أصحاب السعير، فليختر العبد أي الأمرين أليق به.
وختم الآية بأنه {واسع عليم}؛ أي واسع الصفات كثير الهبات عليم بمن يستحق المضاعفة من العاملين، وعليم بمن هو أهل فيوفقه لفعل الخيرات، وترك المنكرات.
[268,267] اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس نے انھیں جس کمائی کی توفیق دی ہے، اور ان کے لیے زمین سے جو کچھ نکالا ہے، اس میں سے کچھ پاکیزہ اموال خرچ کریں۔ جس طرح اس نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس کا حصول تمھارے لیے آسان فرمادیا، اسی طرح اس کا شکر ادا کرنے کے لیے، اپنے بھائیوں کے کچھ حقوق ادا کرنے کے لیے اور اپنے مالوں کو پاک کرنے کے لیے اس میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ خرچ کرنے والے کے لیے وہ عمدہ چیز منتخب کرو، جو تمھیں اپنے لیے پسند ہے۔ ایسی نکمی چیز دینے کا قصد نہ کرو، جو خود تمھیں پسند نہیں اور جسے تم خود دوسروں سے وصول کرنا پسند نہیں کرتے۔
﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔‘‘ وہ تم سے بے نیاز ہے۔ تمھارے صدقات اور دوسرے اعمال کا فائدہ خود تمہی کو حاصل ہوگا۔ وہ اس بات پر تعریف کے قابل ہے کہ اس نے تمھیں اچھے اعمال کے کرنے کا اور اچھی خوبیاں اپنانے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا تمھارا فرض ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کرو، کیونکہ ان سے دلوں کو روحانی غذا ملتی ہے۔ دل زندہ ہوتے ہیں اور روح کو نعمت حاصل ہوتی ہے۔ اپنے دشمن یعنی شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرنا، جو تمھیں بخل کا حکم دیتا ہے اور تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجاؤ گے۔ وہ تمھاری خیر خواہی کے طورپر یہ مشورہ نہیں دیتا، بلکہ یہ اس کا بہت بڑا دھوکا ہے۔
﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر:35؍6)’’وہ اپنی جماعت کو
(گناہ کی طرف) بلاتا ہے، تاکہ وہ بھی جہنمی بن جائیں۔‘‘ بلکہ اپنے رب کا حکم مانو، جو تمھیں ایسے انداز سے خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے، جو تمھارے لیے آسان ہو اور جس میں تمھارا کوئی نقصان نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ
﴿ یَعِدُؔكُمْ مَّغْفِرَةً ﴾ ’’وہ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی بخشش کا‘‘ یعنی تمھیں گناہوں سے پاک کرنے کا
﴿ وَفَضْلًا ﴾ ’’اور فضل کا‘‘ جس سے دنیا اور آخرت میں تمھارا بھلا ہوگا۔ یعنی جو خرچ کرتے ہو، ویسا ہی جلد ہی
(دنیا میں) تمھیں دے گا، دلوں کو خوشی اور سکون اور قبر میں راحت حاصل ہوگی۔ قیامت کے دن اس کا پورا پورا ثواب بھی ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے اتنا زیادہ اجروثواب اور انعام دینا مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ
﴿ وَاسِعٌ ﴾ ’’وسعت والا‘‘ یعنی وسیع فضل اور عظیم احسان کرنے والا ہے۔ اور تمھارے کیے ہوئے خرچ کو
﴿ عَلِیْمٌ﴾ ’’جاننے والا ہے‘‘ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خفیہ ہو یا ظاہر، لہٰذا اپنے فضل و احسان سے اس کا بدلہ دے گا۔ اب بندے کو خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اسے اللہ کی بات ماننی ہے یا شیطان کی؟
ان دو آیات میں بہت سے اہم مسائل مذکور ہیں،
مثلاً: (۱) اللہ کی راہ میں خرچ کی ترغیب۔
(۲)وضاحت کہ خرچ کرنا کیوں ضروری ہے۔
(۳) سونے چاندی اور سامان تجارت میں زکاۃ کا حکم کیونکہ یہ
﴿ مِنْ طَیِّبٰؔتِ مَا كَسَبْتُمْ ﴾ میں شامل ہیں۔
(۴) غلہ، پھل اور معدنیات میں زکاۃ واجب ہے۔
(۵) زکاۃ اس پر واجب ہے جس کا وہ غلہ اور پھل ہے۔ زمین کے مالک پر واجب نہیں کیونکہ ارشاد ہے:
﴿ اَخْرَجْنَا لَكُمْ ﴾ لہٰذا زمین جس کے لیے یہ اشیا اگاتی ہے، زکاۃ بھی اس پر واجب ہے۔
(۶) ان مالوں پر زکاۃ نہیں جو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے رکھے گئے ہوں، مثلاً قطعہ زمین اور برتن وغیرہ۔ اسی طرح اگر معلوم نہ ہو کہ فلاں نے میرا قرض ادا کرنا ہے یا کسی نے مال پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے یا مال اور قرض ایسے شخص کے پاس ہے جس سے واپس لینے کی طاقت نہیں، تو ایسے اموال پر زکاۃ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان مالوں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جوبڑھتے ہیں یعنی زمین سے حاصل ہونے والی اشیا اور اموال تجارت اور جو مال اس مقصد کے لیے تیار نہیں رکھے گئے یا جن مالوں کو حاصل کرنا ممکن نہیں، ان میں یہ وصف نہیں پایا جاتا ہے۔
(۷) نکمی چیز دینا منع ہے، ایسی چیز دینے سے زکاۃ کا فرض ادا نہیں ہوگا۔
{يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (269)}
اللہ دیتا ہے حکمت جسے چاہتا ہے اور جو شخص دیا جائے حکمت پس تحقیق دیا گیا وہ بھلائی بہت، اور نہیں نصیحت حاصل کرتے مگر عقل مند ہی
(269)
#
{269} لما ذكر أحوال المنفقين للأموال، وأن الله أعطاهم، ومنَّ عليهم بالأموال التي يدركون بها النفقات في الطرق الخيرية، وينالون بها المقامات السنية، ذكر ما هو أفضل من ذلك وهو أنه يعطي الحكمة من يشاء من عباده، ومن أراد بهم خيراً من خلقه، والحكمة هي العلوم النافعة والمعارف الصائبة والعقول المسددة والألباب الرزينة وإصابة الصواب في الأقوال والأفعال، وهذا أفضل العطايا وأجل الهبات، ولهذا قال: {ومن يؤت الحكمة فقد أوتي خيراً كثيراً}؛ لأنه خرج من ظلمة الجهالات إلى نور الهدى، ومن حمق الانحراف في الأقوال والأفعال إلى إصابة الصواب فيها وحصول السداد، ولأنه كمل نفسه بهذا الخير العظيم واستعد لنفع الخلق أعظم نفع في دينهم ودنياهم، وجميع الأمور لا تصلح إلا بالحكمة التي هي وضع الأشياء مواضعها وتنزيل الأمور منازلها، والإقدام في محل الإقدام، والإحجام في موضع الإحجام.
ولكن ما يتذكر هذا الأمر العظيم وما يعرف قدر هذا العطاء الجسيم، {إلا أولو الألباب}؛ وهم أهل العقول الوافية والأحلام الكاملة، فهم الذين يعرفون النافع فيعملونه والضار فيتركونه، وهذان الأمران وهما بذل النفقات المالية وبذل الحكمة العلمية أفضل ما تقرب به المتقربون إلى الله وأعلى ما وصلوا به إلى أجل الكرامات، وهما اللذان ذكرهما النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالاً فسلطه على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يعلمها الناس».
[269] چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم احکامات نازل فرمائے ہیں جن میں بہت سے اسرار اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ اور ان پر عمل کی توفیق ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف اسی کو ملتی ہے جس پر اللہ کا خاص احسان ہو اور اسے اللہ حکمت عطا فرما دے۔ حکمت سے مراد علم نافع، عمل صالح، اور شریعت کے اسرار اور حکمتوں سے واقفیت ہے۔ جسے اللہ ایسی حکمت دے دے اسے اللہ نے بہت بھلائی عطا فرمادی۔ اس بھلائی سے عظیم تر بھلائی کون سی ہوسکتی ہے جس میں دنیا اور آخرت کی خوش نصیبی پنہاں ہو، اور جس کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی بدنصیبی سے نجات مل جائے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت خاص خاص لوگوں کو ملتی ہے اور یہ انبیاء کا ترکہ ہے۔ پس بندے کو کمال صرف حکمت سے حاصل ہوسکتاہے۔ کیونکہ کمال نام ہے علمی اور عملی قوت کے کامل ہونے کا۔ علمی قوت تو حق کی معرفت سے اور اس کے مقصود کی معرفت سے کامل ہوتی ہے۔ اور عملی قوت نیکی کرنے اور برائی سے اجتناب کرنے سے مکمل ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بندہ صحیح قول اور صحیح عمل کا حامل ہوسکتا ہے۔ اور اپنی ذات کے بارے میں، نیز دوسروں کے بارے میں ہر حکم کو اس کے صحیح مقام پر رکھ سکتا ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی فطرت میں یہ رکھ دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں، بھلائی سے محبت رکھیں ، حق کے طالب ہوں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے کہ لوگوں کو ان کی عقل و فطرت میں جڑیں رکھنے والی ان اشیاء کی یاد دہانی کرائیں اور جو تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں، وہ بیان فرمائیں۔ پھر لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جنھوں نے انبیاء کی دعوت کو قبول کیا، تو انھیں اپنے فائدے کی باتیں یاد ہوگئیں، انھوں نے اس پر عمل کیا۔ اور انھیں اپنے نقصان کی باتیں معلوم ہوگئیں، لہٰذا وہ ان سے بچ گئے۔ یہ لوگ کامل عقل و فہم کے حامل ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنھوں نے انبیاء کی دعوت قبول نہیں کی، بلکہ ان کی فطرت میں جو خرابی پیدا ہوگئی تھی اسی کے مطابق عمل کیا،
رب کا حکم نہیں مانا۔ یہ لوگ عقل والے نہیں۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَمَا یَذَّكَّـرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ ’’نصیحت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
{وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (270) إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (271)}
اگر ظاہر کرو تم خیرات، تو اچھی بات ہے یہ، اور اگر چھپاؤ تم اس کو اور دو وہ فقیروں کو تو وہ بہت ہی بہتر ہے تمھارے لیے،اور دور کر دے گا
(اللہ) تم سے تمھارے گناہ اور اللہ، ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے
(271) اور جو خرچ کرو تم کسی قسم کا خرچ یا نذر مانو تم کوئی بھی نذر، تو بے شک اللہ جانتا ہے اسے،اور نہیں ہے واسطے ظالموں کے کوئی مددگار
(270)
#
{270 ـ 271} يخبر تعالى أنه مهما أنفق المنفقون أو تصدق المتصدقون أو نذر الناذرون فإن الله يعلم ذلك. ومضمون الإخبار بعلمه يدل على الجزاء وأن الله لا يضيع عنده مثقالُ ذرة، ويعلم ما صدرت عنه من نيات صالحة أو سيئة، وأن الظالمين الذين يمنعون ما أوجب الله عليهم، أو يقتحمون ما حرم عليهم، ليس لهم من دونه أنصار ينصرونهم ويمنعونهم. وأنه لا بد أن تقع بهم العقوبات، وأخبر أن الصدقة إن أبداها المتصدق فهي خير، وإن أخفاها وسلمها للفقير كان أفضل، لأن الإخفاء على الفقير إحسان آخر، وأيضاً فإنه يدل على قوة الإخلاص. وأحد السبعة الذين يظلهم الله في ظله من تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه، وفي قوله: {وإن تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم}؛ فائدة لطيفة، وهو أن إخفاءها خير من إظهارها إذا أعطيت الفقير.
فأما إذا صرفت في مشروع خيري لم يكن في الآية ما يدل على فضيلة إخفائها، بل هنا قواعد الشرع تدل على مراعاة المصلحة، فربما كان الإظهار خيراً لحصول الأسوة والاقتداء وتنشيط النفوس على أعمال الخير.
وقوله: {ويكفر عنكم من سيئاتكم}؛ في هذا أن الصدقات يجتمع فيها الأمران: حصول الخير وهو كثرة الحسنات والثواب والأجر، ودفع الشرِّ والبلاء الدنيوي والأخروي بتكفير السيئات {والله بما تعملون خبير}؛ فيجازي كلا بعمله بحسب حكمته.
[271,270] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس خرچ کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ واجب ہو یا مستحب، کم ہو یا زیادہ،
ہر خرچ کا ثواب ملتا ہے۔ نذر اسے کہتے ہیں جسے کوئی مکلف انسان خود اپنے ذمے لے لے۔ اور اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کیونکہ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ عمل خلوص سے کیا گیا ہے یا کسی اور نیت سے۔ اگر صرف اللہ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہے تو اللہ اس کی جزا کے طورپرعظیم فضل اور کثیر ثواب عطا فرماتا ہے۔ اگر بندہ واجب اخراجات نہ کرے یا مانی ہوئی نذر پوری نہ کرے یا یہ عمل مخلوق کی خوشنودی کے لیے کرے تو وہ ظالم بن جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک چیز کو غلط مقام پر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ جس سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ﴾ ’’اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
﴿ اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ﴾ ’’اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو۔‘‘یعنی علانیہ خیرات کرو، جبکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو
﴿ فَنِعِمَّا هِیَ ﴾ ’’تو وہ بھی اچھا ہے۔‘‘ کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔
﴿ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْ٘فُ٘قَرَآءَؔ فَهُوَ خَیْرٌ لَّـكُمْ ﴾ ’’اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو، تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ اس میں یہ نکتہ ہے کہ غریب آدمی کو پوشیدہ طورپر صدقہ دینا، ظاہر کرکے دینے سے افضل ہے لیکن جب غریبوں کو صدقات نہ دیے جارہے ہوں تو اس آیت میں اشارہ ہے کہ اس صورت میں پوشیدہ طورپر صدقہ کرنا ظاہر کرنے سے افضل نہیں۔ یعنی اس کا دارومدار مصلحت اور فائدے پر ہے۔ اگر اس کے ظاہر کرنے سے ایک دینی حکم کی اشاعت ہوتی ہو، اور امید ہو کہ دوسرے لوگ بھی یہ نیک کام کرنے لگیں گے، تو چھپانے کی نسبت ظاہر کرکے دینا افضل ہوگا۔
﴿ وَتُؤْتُوْهَا الْ٘فُ٘قَرَآءَؔ ﴾ ’’اور اسے مسکینوں کو دے دو۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو چاہیے کہ ضرورت مندوں کو تلاش کرکے صدقہ دے۔ زیادہ ضرورت مند کی موجودگی میں کم ضرورت مند کو نہ دے۔ اور اللہ کے اس فرمان میں کہ صدقہ دینا صدقہ دینے والے کے لیے بہتر ہے، یہ اشارہ ہے کہ اسے ثواب حاصل ہوگا اور
﴿ وَیُكَ٘ـفِّ٘رُ٘ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ ﴾ میں بتایا ہے کہ سزا ختم ہوجائے گی، اور عذاب سے نجات مل جائے گی۔
﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے‘‘ یعنی وہ اچھے ہوں یا برے، کم ہوں یا زیادہ، یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی جزا و سزا ملے گی۔
{لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (272)]}.
نہیں ہے اوپر آپ کے ہدایت دینا ان کو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے،اور جو خرچ کرو تم مال سے تو وہ تمھارے نفسوں ہی کے
(فائدے کے) لیے ہے،اور نہیں خرچ کرتے ہو تم مگر واسطے تلاش کرنے کے رضامندی اللہ کی، اور جو خرچ کرو گے تم مال سے، وہ پورا پورا دیا جائے گا تمھیں اور تم نہیں ظلم کیے جاؤ گے
(272)
#
{272} أي: إنما عليك أيها الرسول البلاغ وحث الناس على الخير وزجرهم عن الشرِّ، وأما الهداية فبيد الله تعالى.
ويخبر عن المؤمنين حقاً أنهم لا ينفقون إلا لطلب مرضاة ربهم واحتساب ثوابه لأن إيمانهم يدعوهم إلى ذلك، فهذا خير وتزكية للمؤمنين، ويتضمن التذكير لهم بالإخلاص، وكرَّر علمه تعالى بنفقاتهم لإعلامهم أنه لا يضيع عنده مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها، ويؤت من لدنه أجراً عظيماً.
[272] اللہ تعالیٰ اپنے نبیeسے فرماتا ہے کہ مخلوق کو ہدایت پر چلا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ حق کو واضح طورپر ان تک پہنچا دیں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مسلمان پر واجب ہے کہ صدقہ و خیرات اور دوسرے اخراجات کرے، اسی طرح کافر پر بھی یہ واجب ہے، اگرچہ اس نے ہدایت قبول نہ کی ہو،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ ﴾ ’’تم جو کچھ مال خرچ کرو گے۔‘‘ کم ہو یا زیادہ اور خرچ کرنے والا مسلمان ہو یا کافر:
﴿ فَلِاَنْفُسِكُمْ۠ ﴾ ’’اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔‘‘
﴿ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَؔ وَجْهِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور تم صرف اللہ کی رضامندی کی طلب کے لیے خرچ کرتے ہو۔‘‘ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ مومنوں کے خرچ کی بنیاد ایمان ہوتی ہے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ایمان انھیں فضول مقاصد کے لیے کام کرنے سے منع کرتا ہے اور اخلاص پیدا کرتا ہے۔
﴿ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ ﴾ ’’تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمھیں دیا جائے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے دن تم پورا اجر وثواب حاصل کرو گے۔
﴿ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ تمھارے نیک عملوںمیں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی، اور تمھارے گناہوں میں بلاوجہ اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
{لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (273) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (274)}
(یہ صدقہ) واسطے ان ضرورت مندوں کے ہے جو روک دیے گئے ہیں اللہ کی راہ میں، نہیں استطاعت رکھتے وہ چلنے پھرنے کی زمین میں، گمان کرتا ہے ان کو ناواقف، مال دار، ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے، آپ پہچان لیں گے ان کو ان کے چہرے کی علامات سے، نہیں سوال کرتے وہ لوگوں سے چمٹ کراور جو خرچ کرو تم مال سے، تو بلاشبہ اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے
(273)وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن میں، پوشیدہ اور ظاہر، تو واسطے ان کے اجر ہے ان کا نزدیک ان کے رب کےاور نہ کوئی خوف ہوگا اوپر ان کے اور نہ وہ غمگین ہوں گے
(274)
#
{273} يعني أنه ينبغي أن تتحروا بصدقاتكم الفقراء الذين حبسوا أنفسهم في سبيل الله وعلى طاعته، وليس لهم إرادة في الاكتساب أو ليس لهم قدرة عليه وهم يتعففون إذا رآهم الجاهل ظن أنهم أغنياء {لا يسألون النّاس إلحافاً}؛ فهم لا يسألون بالكلية وإن سألوا اضطراراً لم يلحفوا في السؤال، فهذا الصنف من الفقراء أفضل ما وضعت فيهم النفقات لدفع حاجتهم وإعانة لهم على مقصدهم وطريق الخير وشكراً لهم على ما اتصفوا به من الصبر والنظر إلى الخالق لا إلى الخلق، ومع ذلك فالإنفاق في طرق الإحسان وعلى المحاويج حيثما كانوا فإنه خير وأجر وثواب عند الله ولهذا قال:
[273] اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ کون لوگ زیادہ مستحق ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ ان کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں۔
(۱) فقر اور تنگ دستی۔
(۲) ﴿ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں، جہاد وغیرہ کے لیے وقف ہوچکے ہیں، وہ اس کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
(۳) رزق کی تلاش کے لیے سفر کے قابل نہ ہوں۔ جیسے فرمایا:
﴿ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ ضَرْبً٘ا فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی روزی کمانے کے لیے زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔
(۴)﴿ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَؔ مِنَ التَّعَفُّفِ ﴾ ’’نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انھیں مال دار خیال کرتے ہیں۔‘‘ اس سے ان کا مخلصانہ صبر اور سوال سے بچنے کی صفت کا بیان ہے۔
(۵) اللہ نے فرمایا:
﴿ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ﴾ ’’آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے پہچان لیں گے۔‘‘ یعنی اس علامت کے ذریعے سے پہچان لیں گے جو اللہ نے ان کے وصف کے طورپر ذکر کی ہے۔ اور یہ ارشاد
﴿ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَؔ ﴾ نادانوں کے انھیں مال دار خیال کرنے کے منافی نہیں۔ کیونکہ جو ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اس میں اتنی سمجھ نہیں کہ دیکھ کر ان کے حالات سمجھ لے۔ سمجھ دار آدمی تو انھیں دیکھتے ہی ان کی علامت کی وجہ سے پہچان لیتا ہے۔
(۶) ﴿لَا یَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ﴾ یعنی لوگوں سے اصرار کے ساتھ نہیں مانگتے۔ بلکہ اگر حالات انھیں سوال کرنے پر مجبور کردیں تب بھی ان کے سوال میں اصرار اور چمٹ جانے کی کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنی ان صفات کی وجہ سے صدقات دیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ دوسروں پر خرچ کرنا فی نفسہ ایک نیکی اور احسان ہے۔ خواہ کسی شخص پر خرچ کیا جائے۔ آدمی کو اس کا اجر و ثواب ملے گا،
اس لیے فرمایا: ﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ﴾ ’’تم جو کچھ مال خرچ کرو، اللہ اس کا جاننے والا ہے۔‘‘ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو ہر حال میں ہر وقت صدقہ کرتے ہیں۔
#
{274} {الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سراً وعلانية فلهم أجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ فإن الله يظلهم بظله يوم لا ظل إلا ظله، وإن الله ينيلهم الخيرات ويدفع عنهم الأحزان والمخاوف والكريهات. وقوله: {فلهم أجرهم عند ربهم}؛ أي: كل أحد منهم بحسب حاله، وتخصيص ذلك بأنه عند ربهم يدل على شرف هذه الحال ووقوعها في الموقع الأكبر كما في الحديث الصحيح «إن العبد ليتصدق بالتمرة من كسب طيب فيتقبلها الجبار بيده فيربيها لأحدكم كما يربي أحدكم فَلُوَّه حتى تكون مثل الجبل العظيم».
[274] چنانچہ فرمایا:
﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ ﴾ ’’جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں۔‘‘ یعنی اس کی اطاعت میں، اور اس کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، حرام اور مکروہ کاموں میں یا اپنے دل کی خواہش پوری کرنے کے لیے خرچ نہیں کرتے
﴿ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ ’’رات دن، چھپے کھلے
(خرچ کرتے ہیں) ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔‘‘ یعنی رحمتوں والے مالک کے پاس عظیم اجر ہے۔
﴿ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ﴾ ’’انھیں نہ خوف ہوگا‘‘ جب کوتاہی کرنے والے خوف میں مبتلا ہوں گے
﴿ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ ﴾ ’’اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ جب جائز حد سے آگے بڑھنے والے غم میں مبتلا ہوں گے۔ تو یہ اپنااصل مقصود اور مطلوب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بندوں پر مختلف انداز سے خرچ کرکے احسان کرنے والوں کا ذکر مکمل کرلیا تو اس کے بعد ان ظالموں کا ذکر فرمایا جو اللہ کے بندوں پر انتہائی برا ظلم کرتے ہیں۔ ارشاد ہے۔
{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (275) يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (276) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (277) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (280) وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (281)}
وہ لوگ جو کھاتے ہیں سود، نہیں کھڑے ہوں گے وہ مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ شخص کہ حواس باختہ بنا دیا ہو اس کو شیطان نے چھو کر، یہ
(سزا) بہ سبب اس کے کہ انھوں نے کہا، بلاشبہ بیع بھی مثل سود ہی کے ہے، حالانکہ حلال کیا ہے اللہ نے بیع کو اور حرام کیا سود کو، پس وہ شخص کہ آگئی اس کے پاس نصیحت، اس کے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا، تو اس کے لیے ہے جو کچھ پہلے ہو چکااور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے اور جو شخص دوبارہ
(سودی معاملہ) کرے تو یہی لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(275) مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کواور اللہ نہیں پسند کرتا ہر کفر کرنے والے گناہ گار کو
(276) بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، اور قائم کیا نماز کو اور ادا کرتے رہے زکاۃ، ان کے واسطے اجر ہے ان کا نزدیک ان کے رب کےاور نہ کوئی خوف ہوگا اوپر ان کے اور نہ وہ غمگین ہوں گے
(277) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ڈرو تم اللہ سےاور چھوڑ دو جو باقی ہے سود سے، اگر ہو تم مومن
(278) پس اگر نہ کیا تم نے
(یہ) تو خبردار ہو جاؤ واسطے جنگ کے اللہ اور اس کے رسول سے،اور اگر توبہ کر لو تم، تو تمھارے لیے ہیں اصل مال تمھارے، نہ تم
(کسی پر) ظلم کرواور نہ تم ظلم کیے جاؤ گے
(279) اور اگر ہو وہ
(مقروض) تنگ دست تو مہلت دینا ہے
(اسے) آسانی تک، اور تمھارا معاف کر دینا بہت بہتر ہے تمھارے لیے، اگر ہو تم جانتے
(280) اور ڈرو اس دن سے کہ لوٹائے جاؤ گے تم اس میں اللہ کی طرف، پھر پورا
(بدلہ) دیا جائے گا ہر نفس کو
(اس کا) جو کچھ اس نے کمایااور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے
(281)
#
{275} لما ذكر الله حالة المنفقين وما لهم من الله من الخيرات وما يكفر عنهم من الذنوب والخطيئات ذكر الظالمين أهل الربا والمعاملات الخبيثة، وأخبر أنهم يجازون بحسب أعمالهم، فكما كانوا في الدنيا في طلب المكاسب الخبيثة كالمجانين عوقبوا في البرزخ والقيامة أنهم لا يقومون من قبورهم إلى يوم بعثهم ونشورهم {إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس}؛ أي: من الجنون والصرع وذلك عقوبة وخزي وفضيحة لهم وجزاء لهم على مراباتهم ومجاهرتهم بقولهم: {إنما البيع مثل الربا}؛ فجمعوا ـ بجراءتهم ـ بين ما أحل الله وبين ما حرم الله واستباحوا بذلك الربا. ثم عرض تعالى التوبة على المرابين وغيرهم فقال: {فمن جاءه موعظة من ربه}؛ بيان مقرون به الوعد والوعيد {فانتهى}؛ عما كان يتعاطاه من الربا {فله ما سلف}؛ مما تجرأ عليه وتاب منه {وأمره إلى الله}؛ فيما يستقبل من زمانه فإن استمر على توبته، فالله لا يضيع أجر المحسنين.
{ومن عاد}؛ بعد بيان الله وتذكيره وتوعده لأكل الربا {فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}؛ في هذا أن الربا موجب لدخول النار والخلود فيها، وذلك لشناعته ما لم يمنع من الخلود مانع الإيمان، وهذا من جملة الأحكام التي تتوقف على وجود شروطها وانتفاء موانعها؛ وليس فيها حجة للخوارج كغيرها من آيات الوعيد، فالواجب أن تصدق جميع نصوص الكتاب والسنة فيؤمن العبد بما تواترت به النصوص من خروج من في قلبه أدنى مثقالِ حبة خردل من الإيمان من النار، ومن استحقاق هذه الموبقات لدخول النار إن لم يتب منها.
[275] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کا انجام بد بیان فرمایا ہے۔ وہ قیامت کے دن قبروں سے اٹھیں گے
﴿ كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ مِنَ الْ٘مَسِّ ﴾ تو ان کی حالت یہ ہوگی گویا انھیں شیطان نے پاگل بنا دیا ہے۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو حیران پریشان ہوں گے۔ انھیں سخت سزا ملنے کا یقین ہوگا۔
﴿ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْ٘بَیْعُ مِثْ٘لُ الرِّبٰؔوا ﴾ انھوں نے کہا تھا: ’’تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔‘‘ یہ بات کوئی ایسا جاہل ہی کہہ سکتا ہے جو جہالت کے انتہائی درجے تک پہنچا ہوا ہو یا دین کا انتہائی دشمن کہہ سکتا ہے۔ جس طرح ان کی عقلیں اوندھی ہوگئی تھیں تو اس کابدلہ بھی یہ ملے گا کہ ان کی حالت پاگلوں کے مشابہ ہوگی۔ آیت مبارکہ کے اس حصے کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ چونکہ سود کی کمائی کے حصول میں ان کی عقلیں سلب ہوگئیں،
اس لیے وہ احمق بن گئے اور ان کی حرکات پاگلوں کے مشابہ ہو گئیں۔ جو بے سروپا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اور عظیم حکمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْ٘بَیْعَ ﴾ ’’اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا‘‘ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے، سب کو اس کی ضرورت ہے اور اسے حرام قرار دینے میں نقصان ہے۔ اور حصول رزق سے تعلق رکھنے والے کاموں میں یہ ایک عظیم اصل ہے۔ اس سے صرف وہی تصرفات مستثنیٰ ہوں گے جن سے صاف طورپر منع کردیا گیا ہے۔
﴿ وَحَرَّمَ الرِّبٰؔوا ﴾ ’’اور سود کو حرام کیا۔‘‘ کیونکہ یہ ظلم پرمبنی ہے اور اس کاانجام برا ہے۔ سود کی دو قسمیں ہیں:
(۱) ربا نسیۂ مثلاً سودی چیز کا اس کی علت میں شریک چیز کے عوض ادھار تبادلہ۔ اور اس کی صورت یہ بھی ہے کہ واجب الادا رقم کو رأس المال کا نام دے کر بیع سلم کر لی جائے۔
(۲) ربا الفضل: کسی ایسی چیز کو جس میں سود ہوسکتا ہے، اس کی ہم جنس چیز کے عوض اضافے کے ساتھ بیچنا، دونوں کی حرمت پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں۔ اور ربانسیۂ کی حرمت پر اجماع بھی ہے۔ جس نے ربا الفضل کو جائز قرار دیا ہے اس کا قول شاذ ہے جو بکثرت نصوص کے خلاف ہے بلکہ سود تباہ کن کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
﴿ فَ٘مَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ﴾ ’’جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت آئی۔‘‘ یعنی اللہ نے کسی کو توفیق دی کہ اسے نصیحت کرے، جو اس کے لیے رحمت کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے اس پر حجت قائم ہوگئی۔
﴿ فَانْ٘تَ٘هٰى ﴾ پس اس کے ڈرانے سے وہ سود لینے سے باز آگیا۔ اس گناہ سے رک گیا تو
﴿ فَلَهٗ مَا سَلَفَ ﴾ ’’اس کے لیے ہے جو گزرا۔‘‘ یعنی یہ نصیحت کی بات پہنچنے سے پہلے اس نے جو غلط لین دین کیا وہ معاف ہوجائے گا۔ یہ نصیحت قبول کرنے کی جزا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو باز نہیں آئے گا، اسے پہلے اور پچھلے دونوں گناہوں کی سزا ملے گی۔
﴿ وَاَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔‘‘ یعنی اسے سزا دینا اور مستقبل میں اس کے عمل دیکھنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
﴿ وَمَنْ عَادَ ﴾ ’’اور جس نے پھر بھی کیا‘‘ دوبارہ سود لیا، نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ سود خوری پر اصرار کیا
﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’تو وہ جہنمی ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
شرک کے علاوہ جن گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی سزا مذکور ہے۔ ان کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ بہتر قول یہ ہے کہ جن اعمال کا نتیجہ اللہ نے دائمی جہنم مقرر کیاہے یہ اس کا سبب ہیں۔ لیکن سبب کے ساتھ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نتیجہ ضرور ظاہر ہوا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ توحید اور ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہیں۔ یعنی یہ عمل ایسا ہے کہ اگر بندہ توحید کا حامل نہ ہوتا تو یہی عمل اسے جہنم میں ہمیشہ رکھنے کا باعث بن سکتا تھا۔
#
{276} ثم أخبر تعالى أنه يمحق مكاسب المرابين ويربي صدقات المنفقين، عكس ما يتبادر لأذهان كثير من الخلق أن الإنفاق ينقص المال وأن الربا يزيده، فإن مادة الرزق وحصول ثمراته من الله تعالى، وما عند الله لا ينال إلا بطاعته وامتثال أمره، فالمتجرئ على الربا يعاقبه بنقيض مقصوده، وهذا مشاهد بالتجربة ومن أصدق من الله قيلاً {والله لا يحب كل كفار أثيم}؛ وهو الذي كفر نعمة الله، وجحد منَّة ربه وأثم بإصراره على معاصيه.
ومفهوم الآية أن الله يحب من كان شكوراً على النعماء تائباً من المآثم والذنوب. ثم أدخل هذه الآية بين آيات الربا وهي قوله:
[276] اس کے بعد فرمایا:
﴿ یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰؔوا ﴾ ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے۔‘‘ یعنی اسے بھی اور اس کی برکت کو بھی ذاتی اور صفاتی طورپر ختم کرتا ہے۔ یہ آفات کا باعث بنتا ہے اور برکت چھن جانے کا سبب ہوتاہے۔ اگر اس
(حرام کمائی) سے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، بلکہ یہ اسے جہنم میں لے جائے گا۔
﴿ وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾ ’’اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ یعنی جس مال سے صدقہ دیا جائے اس میں برکت نازل فرماتا ہے اور ثواب میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جزا و سزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ سود خور لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے مال غیر شرعی طریقے سے لیتا ہے اس لیے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کامال تباہ ہوجائے اور جو شخص لوگوں پر کسی بھی انداز سے احسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سخی ہے۔ جس طرح اس شخص نے اس کے بندوں پر احسان کیا ہے، اللہ بھی اس پر احسان کرتا ہے۔
﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُ٘لَّ كَفَّارٍ ﴾ ’’اور اللہ نہیں دوست رکھتا کسی ناشکرے کو۔‘‘ جو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے واجب کیے ہوئے صدقے اور زکاۃ ادا نہیں کرتا، اور اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ نہیں۔
﴿ اَثِیْمٍ ﴾ ’’اور گناہ گار کو‘‘ یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو اسے سزا ملنے کا باعث ہے۔
#
{277 ـ 279} {إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة}؛ الآية لبيان أن أكبر الأسباب لاجتناب ما حرم الله من المكاسب الربوية تكميل الإيمان وحقوقه، خصوصاً إقامة الصلاة وإيتاء الزكاة، فإن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر، والزكاة إحسان إلى الخلق ينافي تعاطي الربا الذي هو ظلم لهم وإساءة عليهم، ثم وجه الخطاب للمؤمنين وأمرهم أن يتقوه ويذروا ما بقي من معاملات الربا التي كانوا يتعاطونها قبل ذلك وأنهم إن لم يفعلوا ذلك فإنهم محارِبون لله ورسوله، وهذا من أعظم ما يدل على شناعة الربا حيث جعل المصرَّ عليه محارباً لله ورسوله، ثم قال: {وإن تبتم}؛ يعني من المعاملات الربوية {فلكم رؤوس أموالكم لا تظلمون}؛ الناس بأخذ الربا {ولا تظلمون}؛ ببخسكم رؤوس أموالكم، فكل من تاب من الربا فإن كانت معاملات سالفة فله ما سلف وأمره منظور فيه، وإن كانت معاملات موجودة وجب عليه أن يقتصر على رأس ماله، فإن أخذ زيادة فقد تجرأ على الربا. وفي هذه الآية بيان لحكمة الربا وأنه يتضمن الظلم للمحتاجين بأخذ الزيادة وتضاعف الربا عليهم وهو واجب إنظارهم، ولهذا قال:
[279-277] اللہ تعالیٰ نے جب سود خوروں کا ذکر فرمایا۔ اور واضح ہے کہ اگر انھیں ایمان نافع حاصل ہوتا تو ان سے یہ جرم سرزد نہ ہوتا۔ تو اس کے بعد مومنوں کا ذکر فرمایا: ان کو ملنے والا ثواب بیان فرمایا: اور انھیں ایمان والے کہہ کر مخاطب فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ سود لینا چھوڑ دیں اگر وہ مومن ہیں۔ ایسے لوگ ہی اللہ کی نصیحتیں قبول کرتے اور اس کے احکامات تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ نے انھیں تقویٰ کا حکم دیا ہے اور تقویٰ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ لین دین کے سلسلے میں جو سود کسی کے ذمہ ہے اسے چھوڑ دیں، وصول نہ کریں۔ باقی رہا وہ سود جو پہلے لیا جاچکا ہے تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ جو شخص نصیحت قبول کرکے آئندہ سود لینے سے اجتناب کرے گا، اس کا سابقہ گناہ معاف ہوجائے گا۔ اور جس نے اللہ کی نصیحت قبول نہ کی اور باز نہ آیا وہ اللہ کا مخالف اور اللہ سے جنگ کرنے والا ہے۔ بھلا ایک عاجز ضعیف بندہ اس رب کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ وہ ظالم کو مہلت تو دیتا ہے، اسے چھوڑتا نہیں۔
﴿ وَاِنْ تُبْتُمْ ﴾ ’’ہاں اگر تم
(سود سے) توبہ کرلو‘‘
﴿ فَلَكُمْ رُءُ٘وْسُ اَمْوَالِكُمْ ﴾ ’’تو تمھارے لیے تمھارا اصل مال ہے۔‘‘ یعنی وہ وصول کرلو
﴿ لَا تَظْلِمُوْنَ﴾ ’’نہ تم ظلم کرو۔‘‘ کہ اصل قرض سے زیادہ وصول کرو، جو سود ہے۔
﴿ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ کہ تمھاری اصل رقم میں کمی کی جائے۔
#
{280 ـ 281} {وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة}؛ أي: وإن كان الذي عليه الدَّين معسراً لا يقدر على الوفاء وجب على غريمه أن يُنْظِره إلى ميسرة، وهو يجب عليه إذا حصل له وفاء بأي طريق مباح أن يوفي ما عليه، وإن تصدق عليه غريمه بإسقاط الدَّينِ كلِّه أو بعضه فهو خير له، ويهون على العبد التزام الأمور الشرعية واجتناب المعاملات الربوية والإحسان إلى المعسرين؛ عِلْمُه بأن له يوماً يرجع فيه إلى الله ويوفيه عمله ولا يظلمه مثقال ذرة. كما ختم هذه الآية بقوله: {واتقوا يوماً ترجعون فيه إلى الله ثم توفى كل نفس ما كسبت وهم لا يظلمون}؛ ثم قال تعالى:
[281,280] ﴿ وَاِنْ كَانَ ﴾ ’’اور اگر کوئی‘‘ مقروض
﴿ ذُوْ عُسْرَةٍ ﴾ ’’تنگی والا ہو‘‘ جسے قرض کی ادائیگی کے لیے مال میسر نہ ہو
﴿ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ ﴾ ’’تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔‘‘ یہ واجب ہے کہ ایسے مقروض کو اتنی مہلت دی جائے کہ اسے قرض واپس کرنے کے لیے مال مل جائے۔
﴿ وَاَنْ تَصَدَّقُ٘وْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور صدقہ کرو
(کہ سارا یا کچھ قرض معاف کردو) تو تمھارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ اگر تمھیں علم ہو۔‘‘
﴿ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّؔ تُوَفّٰى كُ٘لُّ نَ٘فْ٘سٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید کی ان آیات میں شامل ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئیں۔ اس پر ان احکام اور اوامر و نواہی کو ختم کیا گیا کیونکہ اس میں نیکی پر جزا کا وعدہ ہے، برائی پر سزا کی وعید ہے اوریہ بیان ہے کہ جس شخص کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پاس جانے والا ہے، جو اسے ہر چھوٹے بڑے، ظاہر اور پوشیدہ عمل کی جزا دے گا، اور وہ اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا، اس یقین کے نتیجے میں اس کے دل میں رغبت و رہبت
(شوق اور خوف) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب تک دل میں یہ یقین جاگزیں نہ ہو، یہ چیز کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتی۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (282) وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (283)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم آپس میں معاملہ کرو ساتھ ادھار کے ایک وقت مقرر تک، تو لکھ لو اسے،اور چاہیے کہ لکھے تمھارے درمیان ایک کاتب ساتھ انصاف کے،اور نہ انکار کرے کاتب اس سے کہ لکھے وہ جس طرح سکھایا اسے اللہ نے، پس چاہیے کہ لکھے وہ، اور چاہیے کہ لکھوائے وہ شخص کہ اوپر اس کے حق
(قرض) ہے،اور چاہیے کہ ڈرے وہ، اللہ اپنے رب سے،اور نہ کم کرے اس میں سے کوئی چیز، پھر اگر ہو وہ شخص کہ اوپر اس کے حق
(قرض) ہے، بے وقوف یا ضعیف یا نہیں استطاعت رکھتا وہ اس بات کی کہ لکھوائے وہ خود، تو چاہیے کہ لکھوائے مختار اس
(مقروض) کا ساتھ انصاف کے،اور گواہ بنا لو تم دو گواہ اپنے
(مسلمان) مردوں میں سے، پس اگر نہ ہوں دو مرد تو
(گواہی دیں) ایک مرد اور دو عورتیں، ان میں سے جنھیں تم پسند کرتے ہو گواہوں سے،
(یہ اس سبب سے) کہ بھول جائے ایک عورت ان دو میں سے تو یاد کرا دے ایک ان میں سے دوسری کو،اور نہ انکار کریں گواہ جب وہ بلائے جائیں، اور نہ اکتاہٹ ہو تمھیں اس سے کہ لکھو تم اس کو، چھوٹا
(معاملہ) ہو یا بڑا، اس کے مقرر وقت تک، یہ
(لکھنا) زیادہ قرین انصاف ہے نزدیک اللہ کے،اور بہت درست رکھنے والا ہے گواہی کو،اور زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ نہ شک میں پڑو تم، مگر یہ کہ ہو سودا ہاتھوں ہاتھ کہ لیتے دیتے ہو تم اسے آپس میں، تو نہیں تم پر کوئی گناہ یہ کہ نہ لکھو تم اس کو،اور گواہ بنا لو جب تم آپس میں سودا کرو،اور نہ نقصان پہنچایا جائے کاتب کو اور نہ گواہ کو،اور اگر تم ایسا کرو گے تو بے شک یہ نافرمانی ہے
(جس کا گناہ ہوگا) تمھیں اور ڈرو اللہ سے،اور تمھیں سکھلاتا ہے اللہ، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
(282)اور اگر ہو تم سفر میں اور نہ پاؤ تم کوئی کاتب، تو رہن
(کے طور پر) قبضے میں دے دی جائے
(کوئی چیز)، پس اگر امین سمجھے بعض تمھارا بعض کو تو چاہیے کہ ادا کر دے وہ شخص کہ جس کو امین سمجھا گیا ہے، امانت اس کی، اور چاہیے کہ ڈرے وہ اللہ سے اپنے رب سےاور نہ چھپاؤ تم گواہی کو،اور جو شخص چھپائے گا اس
(گواہی) کو، تو بلاشبہ وہ شخص، گناہ گار ہے دل اس کا اور اللہ ان کو جو تم عمل کرتے ہو خوب جاننے والا ہے
(283)
#
{282} احتوت هذه الآيات على إرشاد الباري عباده في معاملاتهم إلى حفظ حقوقهم بالطرق النافعة والإصلاحات التي لا يقترح العقلاء أعلى ولا أكمل منها فإن فيها فوائد كثيرة:
منها: جواز المعاملات في الديون سواء كانت ديون سلم أو شراء مؤجلاً ثمنه فكله جائز، لأن الله أخبر به عن المؤمنين، وما أخبر به عن المؤمنين فإنه من مقتضيات الإيمان وقد أقرهم عليه الملك الديان.
ومنها: وجوب تسمية الأجل في جميع المداينات وحلول الإجارات.
ومنها: أنه إذا كان الأجل مجهولاً فإنه لا يحل لأنه غرر وخطر فيدخل في الميسر.
ومنها: أمره تعالى بكتابة الديون، وهذا الأمر قد يجب إذا وجب حفظ الحق كالذي للعبد عليه ولاية، كأموال اليتامى والأوقاف والوكلاء والأمناء، وقد يقارب الوجوب كما إذا كان الحق متمحضاً للعبد فقد يقوى الوجوب وقد يقوى الاستحباب، بحسب الأحوال المقتضية لذلك، وعلى كل حال فالكتابة من أعظم ما تحفظ به هذه المعاملات المؤجلة لكثرة النسيان ولوقوع المغالطات، وللاحتراز من الخونة الذين لا يخشون الله تعالى.
ومنها: أمره تعالى للكاتب أن يكتب بين المتعاملين بالعدل فلا يميل مع أحدهما لقرابة ولا غيرها ولا على أحدهما لعداوة ونحوها.
ومنها: أن الكتابة بين المتعاملين من أفضل الأعمال ومن الإحسان إليهما، وفيها حفظ حقوقهما وبراءة ذممهما كما أمره الله بذلك فليحتسب الكاتب بين الناس هذه الأمور ليحظى بثوابها.
ومنها: أن الكاتب لا بد أن يكون عارفاً بالعدل معروفاً بالعدل، لأنه إذا لم يكن عارفاً بالعدل لم يتمكن منه، وإذا لم يكن معتبراً، عدلاً عند الناس، رضياً، لم تكن كتابته معتبرة، ولا حاصلاً بها المقصود الذي هو حفظ الحقوق.
ومنها: أن من تمام الكتابة والعدل فيها أن يحسن الكاتب الإنشاء والألفاظ المعتبرة في كل معاملة بحسبها، وللعرف في هذا المقام اعتبار عظيم.
ومنها: أن الكتابة من نعم الله على العباد التي لا تستقيم أمورهم الدينية ولا الدنيوية إلا بها، وأن من علَّمه الله الكتابة فقد تفضل عليه بفضل عظيم، فمن تمام شكره لنعمة الله تعالى أن يقضي بكتابته حاجات العباد ولا يمتنع من الكتابة ولهذا قال: {ولا يأب كاتب أن يكتب كما علمه الله}.
ومنها: أن الذي يكتبه الكاتب هو اعتراف من عليه الحق إذا كان يحسن التعبير عن الحق الذي عليه، فإن كان لا يحسن ذلك لصغره أو سفهه أو جنونه أو خرسه أو عدم استطاعته، أملى عنه وليه، وقام وليه في ذلك مقامه.
ومنها: أن الاعتراف من أعظم الطرق التي تُثبَت بها الحقوق حيث أمر الله تعالى أن يكتب الكاتب ما أملى عليه من عليه الحق.
ومنها: ثبوت الولاية على القاصرين من الصغار والمجانين والسفهاء ونحوهم.
ومنها: أن الولي يقوم مقام موليه في جميع اعترافاته المتعلقة بحقوقه.
ومنها: أن من أمنته في معاملة وفوضته فيها فقوله في ذلك مقبول وهو نائب منابك، لأنه إذا كان الولي على القاصرين ينوب منابهم، فالذي وليته باختيارك وفوضت إليه الأمر أولى بالقبول واعتبار قوله وتقديمه على قولك عند الاختلاف.
ومنها: أنه يجب على الذي عليه الحق إذا أملى على الكاتب أن يتقي الله ولا يبخس الحق الذي عليه فلا ينقصه في قدره ولا في وصفه ولا في شرط من شروطه أو قيد من قيوده، بل عليه أن يعترف بكل ما عليه من متعلقات الحق كما يجب ذلك إذا كان الحق على غيره له، فمن لم يفعل ذلك فهو من المطففين الباخسين.
ومنها: وجوب الاعتراف بالحقوق الجلية والحقوق الخفية وأن ذلك من أعظم خصال التقوى، كما أن ترك الاعتراف بها من نواقض التقوى ونواقصها.
ومنها: الإرشاد إلى الإشهاد في البيع فإن كانت في المداينات فحكمها حكم الكتابة كما تقدم، لأن الكتابة هي كتابة الشهادة، وإن كان البيع بيعاً حاضراً فينبغي الإشهاد فيه ولا حرج فيه بترك الكتابة لكثرته وحصول المشقة فيه.
ومنها: الإرشاد إلى إشهاد رجلين عدلين فإن لم يمكن أو تعذر أو تعسر فرجل وامرأتان، وذلك شامل لجميع المعاملات، بيوع الإدارة وبيوع الديون وتوابعها من الشروط والوثائق وغيرها. وإذا قيل قد ثبت أنه - صلى الله عليه وسلم - قضى بالشاهد الواحد مع اليمين ، والآية الكريمة ليس فيها إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين، قيل: الآية الكريمة فيها إرشاد الباري عباده إلى حفظ حقوقهم ولهذا أتى فيها بأكمل الطرق وأقواها، وليس فيها ما ينافي ما ذكره النبي - صلى الله عليه وسلم - من الحكم بالشاهد واليمين، فباب حفظ الحقوق في ابتداء الأمر يرشد فيه العبد إلى الاحتراز والتحفظ التام، وباب الحكم بين المتنازعين ينظر فيه إلى المرجحات والبينات بحسب حالها.
ومنها: أن شهادة المرأتين قائمة مقام الرجل الواحد في الحقوق الدنيوية وأما في الأمور الدينية كالرواية والفتوى فإن المرأة فيه تقوم مقام الرجل، والفرق ظاهر بين البابين.
ومنها: الإرشاد إلى الحكمة في كون شهادة المرأتين عن شهادة الرجل وأنه لضعف ذاكرة المرأة غالباً وقوة حافظة الرجل.
ومنها: أن الشاهد لو نسي شهادته فذكره الشاهد الآخر فذكر، أنه لا يضر ذلك النسيان إذا زال بالتذكير لقوله: {أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى}؛ ومن باب أولى إذا نسي الشاهد ثم ذكر من دون تذكير، فإن الشهادة مدارها على العلم واليقين.
ومنها: أن الشهادة لا بد أن تكون عن علم ويقين لا عن شكِّ، فمتى صار عند الشاهد ريب في شهادته ولو غلب على ظنه لم يحل له أن يشهد إلا بما يعلم.
ومنها: أن الشاهد ليس له أن يمتنع إذا دعي للشهادة سواء دعي للتحمل أو للأداء وأن القيام بالشهادة من أفضل الأعمال الصالحة كما أمر الله بها وأخبر عن نفعها ومصالحها.
ومنها: أنه لا يحل الإضرار بالكاتب ولا بالشهيد بأن يدعيا في وقت أو حالة تضرهما. وكما أنه نهي لأهل الحقوق والمتعاملين أن يضاروا الشهود والكتاب فإنه أيضاً نهي للكاتب والشهيد أن يضار المتعامليْن أو أحدهما. وفي هذا أيضاً أن الشاهد والكاتب إذا حصل عليهما ضرر في الكتابة والشهادة أنه يسقط عنهما الوجوب.
وفيها: التنبيه على أن جميع المحسنين الفاعلين للمعروف لا يحل إضرارهم وتحميلهم ما لا يطيقون، فهل جزاء الإحسان إلا الإحسان؟ وكذلك على من أحسن وفعل معروفاً أن يتمم إحسانه بترك الإضرار القولي والفعلي بمن أوقع به المعروف، فإن الإحسان لا يتم إلا بذلك.
ومنها: أنه لا يجوز أخذ الأجرة على الكتابة والشهادة حيث وجبت لأنه حق أوجبه الله على الكاتب والشهيد، ولأنه من مضارة المتعاملين.
ومنها: التنبيه على المصالح والفوائد المترتبة على العمل بهذه الإرشادات الجليلة وأن فيها حفظ الحقوق والعدل وقطع التنازع والسلامة من النسيان والذهول ولهذا قال: {ذلكم أقسط عند الله وأقوم للشهادة وأدنى ألا ترتابوا}؛ وهذه مصالح ضرورية للعباد.
ومنها: أن تعلم الكتابة من الأمور الدينية، لأنها وسيلة إلى حفظ الدين والدنيا وسبب للإحسان.
ومنها: أن من خصه الله بنعمة من النعم يحتاج الناس إليها فمن تمام شكر هذه النعمة أن يعود بها على عباد الله وأن يقضي بها حاجاتهم لتعليل الله النهي عن الامتناع عن الكتابة بتذكير الكاتب بقوله: {كما علمه الله}؛ ومع هذا فمن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته.
ومنها: أن الإضرار بالشهود والكتاب فسوق بالإنسان، فإن الفسوق هو الخروج عن طاعة الله إلى معصيته، وهو يزيد وينقص ويتبعض، ولهذا لم يقل فأنتم فساق أو فاسقون بل قال: {فإنه فسوق بكم}؛ فبقدر خروج العبد عن طاعة ربه فإنه يحصل به من الفسوق بحسب ذلك، واستدل بقوله تعالى: {واتقوا الله ويعلمكم الله}؛ أن تقوى الله وسيلة إلى حصول العلم، وأوضح من هذا قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً}؛ أي: علماً تفرقون به بين الحقائق والحق والباطل.
ومنها: أنه كما أنه من العلم النافع تعليم الأمور الدينية المتعلقة بالعبادات فمنه أيضاً تعليم الأمور الدنيوية المتعلقة بالمعاملات، فإن الله تعالى حفظ على العباد أمور دينهم ودنياهم، وكتابه العظيم فيه تبيان كل شيء.
ومنها: مشروعية الوثيقة بالحقوق وهي الرهون والضمانات التي تكفل للعبد حصول حقه سواء عامل برًّا أو فاجراً أميناً أو خائناً، فكم في الوثائق من حفظ حقوق وانقطاع منازعات.
ومنها: أن تمام الوثيقة في الرهن أن يكون مقبوضاً، ولا يدل ذلك على أنه لا يصح الرهن إلا بالقبض بل التقييد بكون الرهن مقبوضاً يدل على أنه قد يكون مقبوضاً تحصل به الثقة التامة وقد لا يكون مقبوضاً فيكون ناقصاً.
ومنها: أنه يستدل بقوله:
[282] یہ آیت ’’آیتِ دَیْن‘‘
(قرض کے مسائل والی آیت) کے نام سے معروف ہے۔ یہ قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس میں بڑے عظیم مسائل بیان ہوئے ہیں جو بے شمار عظیم فوائد پر مشتمل ہیں۔
(۱) اس سے قرض کی تمام صورتوں مثلاً سلم وغیرہ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں رائج تھا، اس کے مسائل بیان کیے ہیں، جس سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
(۲۔۳) بیع سلم میں مدت ضروری ہے اور وہ مدت متعین ہونی چاہیے اس لیے نہ تو نقد بیع سلم درست ہے، نہ اس صورت میں جبکہ اس کی مدت مقرر نہ ہو۔
(۴) تمام قرض وغیرہ کے معاملات لکھنا شرعاً مطلوب ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا مستحب۔ اس کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ اور نہ لکھنے کی صورت میں غلطی، بھول، اختلاف اور جھگڑا واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔
(۵) کاتب کو حکم ہے کہ وہ لکھے۔
(۶) کاتب کو عادل
(قابل اعتماد) ہونا چاہیے، تاکہ اس کی تحریر پر اعتبار کیا جاسکے۔ فاسق کے نہ قول کا اعتبار ہے نہ لکھنے کا۔
(۷) کاتب پر فرض ہے کہ فریقین کے درمیان انصاف سے کام لے۔ وہ رشتہ داری، دوستی وغیرہ کی وجہ سے کسی ایک فریق کی طرف مائل نہ ہو۔
(۸) کاتب کا ایسی تحریریں لکھنے کے طریق کار سے، اور فریقین کے لیے جو کچھ واجب ہے اور جس چیز سے تحریر قابل اعتماد بنتی ہے ان سب امور سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ ان مسائل کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے
﴿ وَلْیَكْتُبْ بَّیْنَؔكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ﴾ ’’اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمھارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے‘‘
(۹) جب کوئی ایسی تحریر موجود ہو، جس کی کتابت معروف عادل
(قابل اعتماد) آدمی کے ہاتھ کی ہو، تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اگرچہ لکھنے والا اور گواہ فوت ہوچکے ہوں۔
(۱۰)اللہ نے فرمایا:
﴿ وَلَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّؔكْتُبَ ﴾ ’’اور کاتب لکھنے سے انکار نہ کرے‘‘ یعنی جس پر اللہ نے یہ احسان کیا ہے کہ اسے لکھنے کا علم عطافرمایا ہے، اسے بھی اللہ کے ان بندوں پر احسان کرنا چاہیے جو اس سے لکھوانے کے محتاج ہیں۔ لہٰذا ان کو لکھ کر دینے سے انکار نہ کرے۔
(۱۱) کاتب کو حکم ہے کہ صرف وہی چیز لکھے، جس کو وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق ہے۔
(۱۲) فریقین میں سے لکھوانے کی ذمہ داری اس کی ہے جس کے ذمہ قرض ہے۔
(۱۳) اسے حکم ہے کہ پورا حق بیان کرے، اس میں کچھ نہ چھپائے۔
(۱۴) انسان کا اپنے بارے میں اقرار شرعاً معتبر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقروض کو حکم دیا ہے کہ وہ کاتب کو لکھوائے، جب وہ اس کے اقرار کے مطابق لکھے گا تو اس کا مضمون اور اس کے نتائج بھی معتبر ہوں گے۔ اگرچہ بعدمیں غلطی لگ جانے کا یا بھول جانے کا دعویٰ کرے۔
(۱۵) قول اس کا معتبر ہوگا جس کے ذمے کوئی حق ہے کہ بیع شدہ چیز کی مقدار، صفت، قلت، کثرت اور مقررہ مدت کیا ہے۔ جس کا حق ہے
(قرض خواہ) اس کا قول معتبر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو حکم دیا ہے کہ جتنا حق ہے، اس سے کم نہ لکھوائے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مقدار اور وصف میں اس کا قول معتبر ہے۔
(۱۶) جس کے ذمہ حق ہے اس پر حرام ہے کہ مقدار میں، عمدگی اور ظاہری اچھائی میں یا مدت وغیرہ میں کمی کرے۔
(۱۷) جو شخص کسی عذر مثلاً کم سنی، کم عقلی، گونگا پن وغیرہ۔ کی وجہ سے خود نہ لکھوا سکے تو لکھوائے، اور اقرار کاکام اس کا سرپرست اس کا نائب ہونے کی حیثیت سے کرے گا۔
(۱۸) جو عدل اس پر واجب ہے جس کے ذمے حق ہے،
وہی عدل اس کے سرپرست پر واجب ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿ بِالْعَدْلِ ﴾ ’’عدل کے ساتھ‘‘
(۱۹) سرپرست کا عادل ہونا شرط ہے۔ کیونکہ عدل کے ساتھ لکھوانا فاسق سے نہیں ہوسکتا۔
(۲۰) مالی معاملات میں سرپرستی کاثبوت۔
(۲۱) حق بچے، کم عقل، مجنون اور کمزور کے ذمے واجب ہوتا ہے اس کے سرپرست کے ذمے نہیں ہوتا۔
(۲۲) بچے، کم عقل، مجنون وغیرہ کا اقرار اور تصرف صحیح نہیں کیونکہ اللہ نے لکھوانے کی ذمہ داری ولی
(سرپرست) پر ڈالی ہے۔ ان معذور افراد کے ذمہ نہیں۔ اس میں ان پر لطف و رحمت ہے، اور ان کے مال کا ضائع ہونے سے بچاؤ ہے۔
(۲۳) مذکورہ افراد کے مال میں ولی
(سرپرست) کا تصرف
(قانوناً) درست ہے۔
(۲۴) انسان کے لیے ایسے معاملات کا جاننا مشروع ہے جس سے قرض کا لین دین کرنے والوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رہتا ہے۔ لہٰذا اصل مقصود معاملے کا قابل اعتبار رکھنا اور انصاف ہے۔ اور جس عمل کے بغیر مشروع کام پر عمل نہ کیا جاسکے، وہ عمل بھی مشروع ہوتا ہے۔
(۲۵)کتابت سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض وغیرہ کے معاملات لکھنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کام کتابت سیکھے بغیر نہیں ہوسکتا۔
(۲۶) لین دین کے معاہدوں پر گواہ بنانا مشروع ہے۔ اور یہ مشروعیت مندوب کے درجے میں ہے۔ کیونکہ اس حکم کا مقصد حقوق کی حفاظت کا طریقہ بتانا ہے۔ اور اس میں آخر کار مکلف افراد ہی کا فائدہ ہے۔ ہاں اگر تصرف کرنے والا یتیم کا سرپرست ہو یا کسی وقف کا نگران ہو یا اسی قسم کا کوئی معاملہ ہو جس کی حفاظت واجب ہو۔ تب حق کو محفوظ رکھنے والی یہ گواہی واجب ہوجائے گی۔
(۲۷) مالی معاملات میں گواہوں کی کم از کم مطلوب تعداد یہ ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گواہ کی موجودگی میں مدعی کی ایک قسم سے بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔
(۲۸) بچوں کی گواہی معتبر نہیں۔ کیونکہ
(رجل) ’’مرد‘‘ کے لفظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔
(۲۹) مال وغیرہ کے معاملات میں صرف عورتوں کی گواہی قبول نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مرد کے ساتھ ہی گواہ کے طورپر قبول کیا ہے۔ البتہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے قائم مقام اس حکمت کی وجہ سے قرار دیا ہے جو آیت میں مذکور ہے۔ اور یہ حکمت مرد کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ واللہ اعلم۔
(۳۰) بالغ غلام کی گواہی بھی بالغ آزاد لوگوں کی طرح مقبول ہے،
کیونکہ اللہ کے اس فرمان میں عموم ہے: ﴿ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ﴾ ’’اور اپنے مردوں میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔‘‘اور بالغ غلام ’’ہمارے مردوں‘‘ میں شامل ہے۔
(۳۱) غیر مسلم مرد ہوں یا عورتیں، ان کی گواہی قبول نہیں، کیونکہ وہ ہم میں شامل نہیں۔ علاوہ ازیں گواہی کا دارومدار ’’عدل‘‘
(نیک قابل اعتماد) ہونے پر ہے اور غیر مسلم ’’عدل‘‘ نہیں۔
(۳۲) اس سے مرد کا عورت سے افضل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ اور ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابلے میں رکھا گیا ہے کیونکہ مرد کا حافظہ مضبوط ہوتا ہے، عورت کا کمزور ۔
(۳۳) جو شخص گواہی بھول جائے اور اسے یاد دلانے پر یاد آجائے،
تو اس کی گواہی قبول ہے کیونکہ ارشاد ہے: ﴿ فَتُذَكِّ٘رَ اِحْدٰؔىهُمَا الْاُخْ٘رٰى ﴾ ’’ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلادے‘‘
(۳۴) اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جب گواہ کو واجب حقوق سے تعلق رکھنے والی گواہی بھول جانے کا خطرہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ اسے لکھ لے۔ کیونکہ جس عمل کے بغیر واجب ادا نہ ہوسکے، وہ بھی واجب ہوتا ہے۔
(۳۵) جب گواہ کو گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو اگر اسے کوئی عذر لاحق نہ ہو تو اسے گواہی دینا واجب ہے۔ اس سے انکار کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ ارشاد ہے:
﴿ وَلَا یَ٘اْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا ﴾ ’’اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔‘‘
(۳۶) جس شخص میں ایسی صفات موجود نہ ہوں جن کی بنیاد پر گواہی قبول کی جاتی ہے، تو اسے گواہی کے لیے حاضر ہونا واجب نہیں، کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں اور وہ گواہوں میں شامل بھی نہیں۔
(۳۷) قرض چھوٹے ہوں یا بڑے سب لکھنے چاہئیں۔ مدت اور شروط و قیود لکھنا بھی ضروری ہیں۔ اس سے اکتاہٹ کا اظہار کرنا ممنوع ہے۔
(۳۸) آیت معاملات میں تحریر اور گواہی کی حکمت بیان کرتی ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا ﴾ ’’اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ انصاف والی ہے اور گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے زیادہ بچانے والی ہے‘‘ یعنی اس میں انصاف پایا جاتا ہے جس سے بندوں کے اور سب کے معاملات درست رہتے ہیں اور تحریری شہادت زیادہ پختہ، زیادہ کامل، شک و شبہ سے زیادہ دور رکھنے والی۔ جھگڑے سے بچانے والی ہے۔
(۳۹) اس سے یہ بھی مسئلہ نکلتا ہے کہ جسے گواہی میں شک ہوجائے، اسے گواہی دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے لیے یقین ضروری ہے۔
(۴۰) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَؔكُمْ فَ٘لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا ﴾ اگر تجارت دست بدست اور نقد ہو تو نہ لکھنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اس میں تحریر کی ضرورت اتنی شدید نہیں۔
(۴۱)نقد لین دین میں تحریر نہ کرنا تو جائز ہے۔ تاہم اس میں گواہ بنانا مشروع ہے کیونکہ فرمایا:
﴿ وَاَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ﴾ ’’خریدوفروخت کے وقت گواہ مقرر کرلیا کرو۔‘‘
(۴۲) کاتب کو تنگ کرنا منع ہے۔ مثلاً اسے اس وقت طلب کیا جائے جب وہ کسی اور کا م میں مشغول ہو یا جس وقت اسے حاضر ہونے میں مشقت ہو۔
(۴۳)گواہ کو بھی تنگ کرنا منع ہے مثلاً اسے اس وقت گواہ بننے کے لیے یا گواہی دینے کے لیے بلایا جائے جب وہ بیمار ہو یا ایسے کام میں مشغول ہو، جسے چھوڑ کر آنے میں پریشانی اور مشقت ہو۔ یہ اس صورت میں ہے جب
﴿ وَلَا یُضَآرَّؔ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِیْدٌ ﴾ ’’نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو‘‘ میں لفظ
(یُضَآرُّ) کو مجہول قرار دیا جائے۔ اور اگر اسے فعل معروف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ گواہ اور کاتب کے لیے صاحب حق کو تنگ کرنے کے لیے گواہی یا کتابت سے انکار کرنا یا بہت زیادہ اجرت طلب کرنا منع ہے، اس صورت میں انھیں فائدہ نمبر۴۴ اور نمبر۴۵ شمار کیا جاسکتا ہے۔
(۴۶) ان حرام کاموں کا ارتکاب فسق ہے کیونکہ ارشاد ہے:
﴿ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ﴾ ’’اگر تم یہ کرو تو یہ تمھاری کھلی نافرمانی ہے۔‘‘
(۴۷) فسق، ایمان، نفاق، عداوت،
محبت وغیرہ جیسے اوصاف کسی بھی انسان میں کم یا زیادہ مقدار میں ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک آدمی میں فسق وغیرہ کا مادہ موجود ہو اور اسی طرح ایمان یا کفر کا مادہ موجود ہو۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے: ﴿ فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ﴾ ’’یہ تمھارے اندر نافرمانی ہے‘‘ یہ نہیں فرمایا:
(فَأَنْتُمْ فَاسِقُونَ) ’’تم فاسق ہو‘‘
(۴۸) یہ نکتہ پہلے بیان ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہاں اس کی مناسب جگہ تھی۔ وہ یہ ہے کہ گواہ عادل
(نیک اور قابل اعتماد) ہونا چاہیے کیونکہ ارشاد ہے:
﴿ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ ﴾ ’’جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرو۔‘‘
(۴۹) عدالت
(قابل اعتماد ہونا)، اس میں ہر زمانے اور ہر مقام کا عرف معتبر ہے۔ جو شخص لوگوں کے نزدیک قابل اعتبار ہو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔
(۵۰) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا عادل یا فاسق ہونا معلوم نہ ہو۔ اس کی گواہی بھی قبول نہیں، حتیٰ کہ اس کے نیک ہونے کی تصدیق ہوجائے۔ موجود حالات میں ناقص سمجھ کے مطابق یہ مسائل اخذ کیے گئے ہیں۔ اللہ کے کلام میں اور بہت سی حکمتیں اور اسرار ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے ان کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
#
{283} {فرهان مقبوضة}؛ أنه إذا اختلف الراهن والمرتهن في مقدار الدين الذي به الرهن أن القول قول المرتهن صاحب الحق لأن الله جعل الرهن وثيقة به فلولا أنه يقبل قوله في ذلك لم تحصل به الوثيقة لعدم الكتابة والشهود.
ومنها: أنه يجوز التعامل بغير وثيقة ولا شهود لقوله: {فإن أمن بعضكم بعضاً فليؤد الذي ائتمن أمانته}؛ ولكن في هذه الحال يحتاج إلى التقوى والخوف من الله وإلا فصاحب الحق مخاطر في حقه ولهذا أمر الله في هذه الحال من عليه الحق أن يتقي الله ويؤدي أمانته.
ومنها: أن من ائتمنه معاملة فقد عمل معه معروفاً عظيماً ورضي بدينه وأمانته فيتأكد على من عليه الحق أداء الأمانة من الجهتين: أداء لحق الله وامتثالاً لأمره، ووفاء بحق صاحبه الذي رضي بأمانته ووثق به.
ومنها: تحريم كتم الشهادة وأن كاتمها قد أثم قلبه الذي هو ملك الأعضاء، وذلك لأن كتمها كالشهادة بالباطل والزور فيها ضياع الحقوق وفساد المعاملات والإثم المتكرر في حقه وحق من عليه الحق. وأما تقييد الرهن بالسفر مع أنه يجوز حضراً وسفراً فللحاجة إليه لعدم الكاتب والشهيد. وختم الآية بأنه عليم بكل ما يعمله العباد كالترغيب لهم في المعاملات الحسنة والترهيب من المعاملات السيئة.
[283] آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم سفر میں ہو،
﴿ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا ﴾ ’’اور تمھیں کاتب نہ ملے‘‘ جو تمھارے لیے تحریر لکھ دے، جس سے بات پکی اور قابل اعتماد ہوجائے
﴿ فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ ﴾ ’’تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔‘‘ صاحب حق
(قرض خواہ) اسے قبضہ میں رکھے، اور یہ اس کے اطمینان کا باعث
(اور ضمانت کے طورپر) رہے حتیٰ کہ اس کا حق
(قرض) اسے واپس مل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر رہن
(گروی رکھی ہوئی چیز) پر قرض خواہ کا قبضہ نہ ہو تو اس سے ضمانت نہیں بنتی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر راہن
(رہن والی چیز کا مالک) اور مرتہن
(رہن رکھ کر قرض دینے والا) رہن شدہ چیز کی مقدار میں اختلاف کریں تو مرتہن کا قول قبول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرض خواہ کے اعتبار کے لے رہن کو تحریر کا قائم مقام بنا دیا ہے۔ اگر رہن شدہ چیز کی قیمت کے بارے میں مرتہن کی بات نہ مانی جائے تو رہن کا مقصود
(اعتماد اور اطمینان) حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ رہن کا مقصد اعتماد و اعتبار ہے، اس لیے یہ سفر اور حضر
(دونوں صورتوں) میں جائز ہے۔ آیت میں سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کی ضرورت سفر میں زیادہ پیش آسکتی ہے کیونکہ سفر میں ہوسکتا ہے کاتب میسر نہ ہو۔ یہ حکم تب ہے کہ جب صاحب حق
(قرض خواہ) اپنے حق
(قرض) کے بارے میں تسلی کرنا چاہتا ہے۔ اگر صاحب حق کو مقروض سے کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ بغیر رہن کے معاملہ کرنا چاہے تو مقروض کو چاہیے کہ قرض پورا پورا ادا کرے۔ نہ ظلم کرے نہ اس کی حق تلفی کرے
﴿وَلْ٘یَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔‘‘ حق ادا کرے۔ اور جس نے اس کے بارے میں حسن ظن رکھا۔ اس کی نیکی کا اچھا بدلہ دے۔
﴿ وَلَا تَكْ٘تُمُوا الشَّهَادَةَ ﴾ ’’اور گواہی کو مت چھپاؤ۔‘‘ کیونکہ حق کا دارومدار گواہی پر ہے۔ اس کے بغیر حق ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے چھپانا عظیم ترین گناہ ہے۔ کیونکہ اس نے سچی بات بتانے کا فریضہ ترک کرکے جھوٹ بولا۔ جس کے نتیجے میں حق والے کا حق مارا گیا،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَؔ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور جو کوئی اسے چھپالے، وہ گناہ گار دل والا ہے۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ اللہ نے ا پنے بندوں کو یہ جو عمدہ مسائل بتائے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور عام فوائد موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر بندے اللہ کی ہدایات پر عمل کریں تو ان کا دین درست ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھی سنور جائے۔ کیونکہ ان میں انصاف، فائدہ، حقوق کی حفاظت اور لڑائی جھگڑے کا خاتمہ، اور معاشی معاملات کی درستی پائی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے جیسے اس کے چہرہ اقدس کے جلال اور عظیم سلطنت کے لائق ہے۔ ہم اس کی کماحقہ تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔
{لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (284)}.
اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے،اور اگر ظاہر کرو تم اس کو جو تمھارے دلوں میں ہے یا چھپاؤ تم اس کو، حساب لے گا تم سے اس کا اللہ، پھر بخش دے گا وہ جس کو چاہے گا اور عذاب دے گا جس کو چاہے گااور اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے
(284)
#
{284} يخبر تعالى بعموم ملكه لأهل السماء والأرض وإحاطة علمه بما أبداه العباد وما أخفوه في أنفسهم، وأنه سيحاسبهم به {فيغفر لمن يشاء} وهو المنيب إلى ربه الأواب إليه، {إنه كان للأوابين غفوراً}؛ {ويعذب من يشاء} وهو المصر على المعاصي في باطنه وظاهره، وهذه الآية لا تنافي الأحاديث الواردة في العفو عما حدَّث به العبد نفسه ما لم يعمل أو يتكلم ، فتلك الخطرات التي تتحدث بها النفوس التي لا يتصف بها العبد ولا يصمم عليها، وأما هنا فهي العزائم المصممة والأوصاف الثابتة في النفوس، أوصاف الخير وأوصاف الشر، ولهذا قال: {ما في أنفسكم}؛ أي: استقر فيها وثبت من العزائم والأوصاف. وأخبر أنه {على كل شيء قدير}؛ فمن تمام قدرته محاسبة الخلائق وإيصال ما يستحقونه من الثواب والعقاب.
[284] اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ سب کو اسی نے پیدا کیا، رزق دیا، ان کے دینی اور دنیوی فوائد کا بندوبست فرمایا۔ چنانچہ وہ سب اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لیے نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا، نہ موت کا نہ حیات کا، نہ مر کر جینے کا۔ وہ ان کا رب ہے، ان کا مالک ہے، جو اپنی حکمت، عدل اور احسان کے مطابق ان میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اس نے انھیں کچھ کاموں کاحکم دیاہے، کچھ کاموں سے منع فرمایا۔ لہٰذا وہ ان سے اس کے ظاہر اور پوشیدہ اعمال کا حساب لے گا۔
﴿ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’پھر جسے چاہے گا بخشے گا۔‘‘ یعنی جس کے پاس مغفرت کے اسباب موجود ہوں گے۔
﴿ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔‘‘ اسے ان گناہوں کی سزا ملے گی، جن کی معافی کے اسباب حاصل نہیں ہوئے۔
﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ کوئی چیز اس کے بس سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کے غلبہ، مشیت، تقدیر اور جزا و سزا کے قوانین کے ماتحت ہیں۔
{آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لَا {يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286)}.
ایمان لائے رسول
(e) ساتھ اس
(کتاب) کے جو نازل کی گئی ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے اور سارے مومن بھی، سب ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور اس کے فرشتوں کے اور اس کی کتابوں کے اور اس کے رسولوں کے،
(کہتے ہیں) ہم نہیں تفریق کرتے درمیان کسی کے، اس کے رسولوں میں سےاور کہا انھوں نے، سنا ہم نے اور اطاعت کی ہم نے،
(ہم طلب کرتے ہیں) تیری مغفرت، اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف ہے لوٹنا
(285)نہیں تکلیف دیتا اللہ کسی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی، واسطے اسی کے ہے جو کمائی اس نے
(بھلائی)،اور اسی پر ہے وبال جو کمائی اس نے
(برائی)، اے ہمارے رب! نہ مؤاخذہ کرنا ہمارا اگر ہم بھول جائیں یا ہم چوک جائیں، اے ہمارے رب! نہ ڈالیو ہم پر ایسا بھاری بوجھ جیسا کہ ڈالا تھا تونے وہ اوپر ان لوگوں کے جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب! اور نہ اٹھوا ہم سے وہ بوجھ کہ نہیں طاقت ہمیں اس
(کے اٹھانے) کی اور درگزر فرما ہم سےاور بخش دے ہمیں اور رحم فرما ہم پر تو ہی کارساز ہے ہمارا، پس تو مدد فرما ہماری اوپر کافر قوم کے
(286)
#
{285 ـ 286} ثبت عنه - صلى الله عليه وسلم - أن من قرأ هاتين الآيتين في ليلة كفتاه ؛ أي: من جميع الشرور، وذلك لما احتوتا عليه من المعاني الجليلة، فإن الله أمر في أول هذه السورة الناس بالإيمان بجميع أصوله في قوله: {قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا}؛ الآية، وأخبر في هذه الآية أن الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومن معه من المؤمنين آمنوا بهذه الأصول العظيمة وبجميع الرسل وجميع الكتب، ولم يصنعوا صنيع من آمن ببعض وكفر ببعض كحالة المنحرفين من أهل الأديان المنحرفة. وفي قرن المؤمنين بالرسول - صلى الله عليه وسلم - والإخبار عنهم جميعاً بخبر واحد شرف عظيم للمؤمنين، وفيه أنه - صلى الله عليه وسلم - مشارك للأمة في توجه الخطاب الشرعي له وقيامه التام به وأنه فاق المؤمنين بل فاق جميع المرسلين في القيام بالإيمان وحقوقه.
وقوله: {وقالوا سمعنا وأطعنا}؛ هذا التزام من المؤمنين عام لجميع ما جاء به النبي - صلى الله عليه وسلم - من الكتاب والسنة، وأنهم سمعوه سماع قبول وإذعان وانقياد. ومضمون ذلك تضرعهم إلى الله في طلب الإعانة على القيام به وأن الله يغفر لهم ما قصروا فيه من الواجبات وما ارتكبوه من المحرمات، وكذلك تضرعوا إلى الله في هذه الأدعية النافعة، والله تعالى قد أجاب دعاءهم على لسان نبيه - صلى الله عليه وسلم - فقال: «قد فعلت».
فهذه الدعوات مقبولة من مجموع المؤمنين قطعاً ومن أفرادهم إذا لم يمنع من ذلك مانع في الأفراد، وذلك أن الله رفع عنهم المؤاخذة في الخطأ والنسيان وأن الله سهل عليهم شرعه غاية التسهيل، ولم يحملهم من المشاق والآصار والأغلال ما حمله على من قبلهم، ولم يحملهم فوق طاقتهم، وقد غفر لهم ورحمهم ونصرهم على القوم الكافرين. فنسأل الله تعالى بأسمائه وصفاته وبما منَّ به علينا من التزام دينه أن يحقق لنا ذلك وأن ينجز لنا ما وعدنا على لسان نبيه، وأن يصلح أحوال المؤمنين.
ويؤخذ من هذا قاعدة التيسير ونفي الحرج في أمور الدين كلها، وقاعدة العفو عن النسيان والخطأ في العبادات وفي حقوق الله تعالى، وكذلك في حقوق الخلق من جهة رفع المأثم وتوجيه الذم، وأما وجوب ضمان المتلفات خطأً أو نسياناً في النفوس والأموال فإنه مرتب على الإتلاف بغير حق، وذلك شامل لحالة الخطأ والنسيان والعمد.
تم تفسير سورة البقرة. ولله الحمد والثناء. وصلى الله على محمد وسلم.
[286,285] اللہ تعالیٰ رسولوں اور مومنوں کے ایمان، اطاعت اور طلب مغفرت کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ لوگ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں ان تمام صفات کمال و جلال پر ایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، اور اللہ کی ذات کو تشبیہ و تمثیل، تعطیل اور تمام صفات نقص سے پاک ماننا بھی شامل ہے۔ شریعتوں میں جن فرشتوں کا ذکر کیا گیاہے، ان سب پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، رسولوں کی بتائی ہوئی اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں میں موجود تمام خبروں اور احکامات پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔ مومن رسولوں میں تفریق نہیں کرتے، بلکہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں
(جن کے ذریعے ہمیں اللہ کے اوامر و نواہی کاعلم ہوتا ہے) لہٰذا کسی نبی کا انکار کرنا تمام نبیوں کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔
﴿ وَقَالُوْا سَمِعْنَا ﴾ ’’انھوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا۔‘‘ یعنی اے اللہ تونے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے، اور جن سے منع کیا ہے، ہم نے انھیں توجہ سے سن لیا ہے
﴿ وَاَطَعْنَا ﴾ ’’اور ہم نے اطاعت کی‘‘ یہ تمام احکام تسلیم کرلیے۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوئے جنھوں نے کہا تھا:
﴿ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ﴾ (البقرۃ:2؍93)’’ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔‘‘ کیونکہ بندے سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، لہٰذا اسے ہمیشہ اس کی مغفرت کی ضرورت رہتی ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں
﴿غُ٘فْرَانَكَ ﴾ ’’تیری بخشش‘‘ یعنی ہم سے جو کوتاہی اور گناہ ہوئے ہیں، ہم تجھ سے ان کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ اور ہم جن عیوب میں ملوث ہوئے ہیں، ان گناہوں کو مٹا دینے کی درخواست کرتے ہیں۔
﴿ وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات واپس تیرے پاس ہی پہنچیں گی،
پھر تو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔
جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ﴾ ’’تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے۔ تم اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ۔ اللہ اس کاحساب تم سے لے گا‘‘ تو مسلمان بہت پریشان ہوئے کیونکہ انھوں نے یہ سمجھا کہ دل میں جس قسم کے خیالات ہوں خواہ وہ پختہ یقین کی صورت میں ہوں یا عارضی خیالات، دل میں جاگزین ہوں یا آکر گزر جانے والے،
سب کا مواخذہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کام کا مکلف نہیں فرماتا۔ ان کاموں کا حکم دیتا ہے جو وہ کرسکتا ہو۔ ان کا حکم نہیں دیتا جو اس کی طاقت سے بڑھ کر ہوں۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ (الحج:22؍78)’’اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘ اوامر و نواہی بنیادی طورپر ایسے نہیں جو انسانوں کے لیے انتہائی دشوار ہوں۔ بلکہ یہ تو روح کی غذا، بدن کی دوا اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں۔ اللہ نے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے، وہ رحمت اور احسان کی بنا پر دیا ہے۔ اس کے باوجود جب کوئی عذر پیش آجائے جس سے مشقت کا اندیشہ ہو تو اللہ تعالیٰ تخفیف اور آسانی فرما دیتا ہے۔ کبھی تو اس عمل کو مکلف کے ذمہ سے مکمل طورپر ساقط فرما دیتا ہے۔ کبھی اس کا کچھ حصہ معاف کردیتا ہے۔ جیسے بیمار اور مسافر کے لیے بعض احکام میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہر کسی کو وہی نیکی ملے گی جو اس نے کمائی، اور اس کے ذمے وہی گناہ لکھا جائے گا جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور کسی کی وجہ سے دوسرے کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ نیکی میں
(کَسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو نیکی معمولی سی کوشش سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات صرف نیت کی وجہ سے ہی ثواب مل جاتا ہے۔ جبکہ گناہ کے لیے
(اکْتَسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کے ذمے گناہ اس وقت تک نہیں لکھا جاتا، جب تک وہ اس کا ارتکاب نہ کرلے اور اس کی کوشش نہ کی جائے۔ جب اللہ نے رسول اور مومنوں کے ایمان کا ذکر فرمایا، اور بتایا کہ انسان سے کوتاہی،
غلطی اور بھول چوک کا صدور ممکن ہے اور یہ بتایا کہ اس نے ہمیں صرف ایسے اعمال کا حکم دیا ہے جس کو انجام دینے کی طاقت ہم میں موجود ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ مومن بھی یہ دعا کرتے ہیں۔ نبیeنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرکے فرمایا: ’’میں نے یہ کردیا۔‘‘ ارشاد ہے:
﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّؔسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا ﴾ ’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطاکی ہو، تو ہمیں نہ پکڑنا‘‘ بھول اور غلطی میں فرق یہ ہے کہ نسیان
(بھول) کا مطلب ہوتا ہے، مامور کام کا دل سے فراموش ہو جانا، اور بھول جانے کی وجہ سے اس عمل کا چھوٹ جانا۔ خطا
(غلطی) یہ ہوتی ہے کہ انسان ایک جائز کام کا ارادہ کرے، لیکن اس سے کام اس انداز سے واقع ہوجائے جو جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحمت اور احسان فرماتے ہوئے اس سے واقع ہونے والے یہ دونوں طرح کے کام معاف فرما دیے۔ اس اصول کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ جو شخص چھینے ہوئے یا ناپاک کپڑے پہن کر نماز پڑھے۔ بدن پر سے نجاست دور کرنا بھول گیا ہو یا نماز کے دوران بھول کر کسی سے بات کرلے۔ یا روزے کے دوران بھول کر کچھ کھالے یا احرام کے دوران بھول کر کوئی ممنوع کام کرلے، بشرطیکہ اس میں کسی جان دار کی ہلاکت شامل نہ ہو، تو اس کی یہ غلطیاں معاف ہیں۔ اسی طرح اگر ایک کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہو، پھر بھول کر وہ کام کرلے۔ اس طرح اگر غلطی سے کسی کی جان یا مال کا نقصان کر بیٹھے تو اس کو گناہ نہیں ہوگا۔ نقصان پورا کرنے کے لیے ادائیگی کرنے کا تعلق نقصان کرنے سے ہے
(ارادہ یا بھول وغیرہ سے نہیں) اس طرح جن موقعوں پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر وہاں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو کام درست سمجھا جائے گا۔
﴿ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘ اس سے مشکل احکام مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرمالی۔ اور اس امت پر طہارت اور عبادت کے مسائل میں ایسی نرمی فرمادی، جو کسی اور امت پر نہیں فرمائی تھی۔
﴿ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو‘‘ اللہ نے یہ درخواست بھی قبول فرمالی۔ ولہ الحمد
﴿ وَاعْفُ عَنَّا١ٙ وَاغْ٘فِرْ لَنَا١ٙ وَارْحَمْنَا١ٙ ﴾ ’’اور ہم سے درگزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر‘‘ معافی اور بخشش کے نتیجے میں مصائب اور شر دور ہوتے ہیں۔ اور رحمت کے نتیجے میں معاملات درست ہوتے ہیں۔
﴿ اَنْتَ مَوْلٰ٘ىنَا ﴾ ’’تو ہمارا مولیٰ ہے‘‘ یعنی ہمارا رب، ہمارا بادشاہ اور ہمارا معبود ہے۔ جب سے تونے ہمیں پیدا فرمایا تیری مدد اور توفیق ہمیں حاصل رہی ہے۔ تیری نعمتیں ہر وقت مسلسل ہمیں مل رہی ہیں۔ پھر تونے ہم پر ایک عظیم احسان کیا کہ اسلام کی نعمت عطا فرمادی۔ باقی سب نعمتیں اس کے تابع ہیں، اس لیے اے ہمارے مالک اور ہمارے مولیٰ ہم تجھ سے اس نعمت کی تکمیل کا سوال کرتے ہیں کہ ان کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما جنھوں نے تیرے ساتھ کفر کیا، تیرے نبیوں کا انکار کیا، تیرا دین ماننے والوں سے مقابلہ کیا،تیرے احکامات کو پس پشت ڈالا۔ لہٰذا دلیل و برہان اور شمشیر و سنان کے ساتھ ہماری مدد فرما۔ ہمیں زمین میں شوکت عطا فرما۔ ان کو ذلیل کردے۔ ہمیں ایسا ایمان اور ایسے اعمال نصیب فرما، جن کی برکت سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ آمِّینَ وَالْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔