آیت:
تفسیر سورۂ حج
تفسیر سورۂ حج
آیت: 1 - 2 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (1) يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ (2)}.
اے لوگو! ڈرو تم اپنے رب سے، بے شک زلزلہ قیامت کا ایک چیز ہے بہت بڑی (1) جس دن تم دیکھو گے اسے، غافل ہو جائے گی ہر دودھ پلانے والی اس سے جسے اس نے دودھ پلایا تھااورڈال دے گی ہر حمل والی اپنا حمل اور دیکھیں گے آپ لوگوں کو نشے میں (مدہوش) حالانکہ نہیں ہوں گے وہ نشے میں لیکن عذاب اللہ کا شدید ہوگا(2)
#
{1} يخاطب الله الناس كافَّة بأن يتَّقوا ربَّهم الذي ربَّاهم بالنعم الظاهرة والباطنة، فحقيقٌ بهم أن يتَّقوه بترك الشِّرك والفسوق والعصيان، ويمتثلوا أوامره مهما استطاعوا. ثم ذكر ما يعينُهم على التَّقوى ويحذِّرهم من تركها، وهو الإخبارُ بأهوال القيامة، فقال: {إنَّ زلزلةَ الساعة شيءٌ عظيمٌ}: لا يُقْدَرُ قَدْرُه ولا يُبْلَغُ كُنْهُهُ، ذلك بأنَّها إذا وقعت الساعة؛ رجفتِ الأرض، وارتجَّت، وزُلزلت زلزالها، وتصدَّعت الجبال، واندكَّت، وكانت كثيباً مهيلاً، ثم كانت هباءً منبثاً، ثم انقسم الناس ثلاثة أزواج؛ فهناك تنفطر السماء، وتكوَّر الشمس والقمر، وتنتثرُ النجوم، ويكون من القلاقل والبلابل ما تنصدعُ له القلوب، وتَجِل منه الأفئدة، وتشيبُ منه الولدان، وتذوبُ له الصمُّ الصلاب.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈریں جس نے ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے ان کی پرورش کی، اس لیے ان کے لائق یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں ، شرک، فسق اور نافرمانی کو ترک کر دیں اور جہاں تک استطاعت ہو، اس کے احکام پر عمل کریں ، پھر ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اختیار کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو تقویٰ کو ترک کر دیتے ہیں اور وہ ہے قیامت کی ہولناکیوں کی خبر دینا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’بے شک قیامت کا بھونچال، بہت بڑی چیز ہے۔‘‘ کوئی اس کا اندازہ کر سکتا ہے نہ اس کی کنہ کو پہنچ سکتا ہے۔ جب قیامت واقع ہو گی تو زمین کو نہایت شدت سے ہلا دیا جائے گا، زمین میں زلزلہ آ جائے گا، پہاڑ پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور بڑے بڑے ہولناک ٹیلوں کی شکل اختیار کر لیں گے، پھر غبار بن کر اڑ جائیں گے، پھر لوگ تین اقسام میں منقسم ہو جائیں گے۔ آسمان پھٹ جائے گا، سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے، ستارے بکھر جائیں گے، ایسے خوفناک زلزلے آئیں گے کہ خوف کے مارے دل پھٹ جائیں گے، خوف سے بچے بھی بوڑھے ہو جائیں گے اور بڑی بڑی سخت چٹانیں پگھل جائیں گی۔
#
{2} ولهذا قال: {يوم تَرَوْنَها تذهلُ كلُّ مرضعةٍ عمَّا أرضعتْ}: مع أنَّها مجبولةٌ على شدَّةِ محبَّتها لولدِها، خصوصاً في هذه الحال التي لا يعيش إلاَّ بها، {وتضعُ كلُّ ذات حَمْل حَمْلَها}: من شدَّة الفزع والهول، {وَتَرى الناسَ سُكارى وما هم بِسُكارى}؛ أي: تحسبُهم أيُّها الرائي لهم سكارى من الخمر، وليسوا سكارى. {ولكنَّ عذابَ الله شديدٌ}: فلذلك أذهَبَ عقولَهم، وفَرَّغَ قلوبَهم، وملأها من الفزع، وبلغت القلوب الحناجرَ، وشخصتِ الأبصار، [و] في ذلك اليوم لا يَجْزي والدٌ عن ولدِهِ، ولا مولودٌ هو جازٍ عن والده شيئاً، ويومئذٍ يَفِرُّ المرء من أخيه وأمِّه وأبيه وصاحبتِهِ وفصيلتِهِ التي تؤويه، لكلِّ امرئٍ منهم يومئذٍ شأنٌ يُغنيه، وهناك يعضُّ الظالم على يديهِ يقولُ يا ليتني اتَّخذتُ مع الرسولِ سبيلاً، يا ويلتى ليتني لم أتَّخِذْ فلاناً خليلاً، وتسودُّ حينئذٍ وجوهٌ وتبيضُّ وجوهٌ، وتُنْصَبُ الموازين التي يوزَنُ بها مثاقيلُ الذَّرِّ من الخير والشرِّ، وتُنْشَرُ صحائفُ الأعمال وما فيها من جميع الأعمال والأقوال والنيَّات من صغير وكبيرٍ، ويُنْصَبُ الصراط على متن جهنَّم، وتُزْلَفُ الجنَّةُ للمتقين، وبُرِّزَتِ الجحيمُ للغاوين، إذا رأتْهم من مكانٍ بعيدٍ سمعوا لها تغيُّظاً وزفيراً، وإذا أُلْقوا منها مكاناً ضيِّقاً مقرَّنينَ دَعَوْا هنالك ثُبوراً، ويُقالُ لهم: لا تدعوا اليومَ ثُبوراً واحداً وادْعوا ثُبوراً كثيراً، وإذا نادَوْا ربَّهم ليُخْرِجَهم منها؛ قال: اخسؤوا فيها ولا تكلِّمونِ؛ قد غضب عليهم الربُّ الرحيم، وحَضَرَهُمُ العذابُ الأليم، وأيسوا من كلِّ خير، ووجدوا أعمالهم كلَّها، لم يفقدوا منها نقيراً ولا قِطْميراً. هذا؛ والمتَّقون في روضات الجناتِ يُحْبَرون، وفي أنواع اللَّذَّات يَتَفَكَّهون، وفيما اشتهتْ أنفسهم خالِدون؛ فحقيقٌ بالعاقل الذي يعرِفُ أنَّ كلَّ هذا أمامه أن يُعِدَّ له عدَّتَه، وأن لا يُلْهِيَهُ الأمل فيتركَ العمل، وأنْ تكون تقوى الله شعاره، وخوفُه دثاره، ومحبَّة الله وذكرُه روح أعماله.
[2] اس لیے فرمایا: ﴿ یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُ٘لُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ ﴾ ’’جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پلاتے بچے کو بھول جائے گی۔‘‘ حالانکہ دودھ پلانے والی ماں کی جبلت میں اپنے بچے کی محبت رچی بسی ہوتی ہے، خاص طور پر اس حال میں جبکہ بچہ ماں کے بغیر زندہ نہ رہ سکتا ہو۔ ﴿وَتَ٘ضَعُ كُ٘لُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا﴾ یعنی شدت ہول اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ ﴿ وَتَرَى النَّاسَ سُكٰ٘رٰى وَمَا هُمْ بِسُكٰ٘رٰى ﴾ یعنی اے دیکھنے والو! تم سمجھو گے کہ لوگ شراب کے نشہ میں مدہوش ہیں ، حالانکہ وہ شراب نوشی کی وجہ سے مدہوش نہ ہوں گے ﴿ وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ ﴾ ’’بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی بڑا سخت ہو گا‘‘ جس کی وجہ سے عقل ماری جائے گی، دل خالی ہو کر گھبراہٹ اور خوف سے لبریز ہو جائیں گے، دل اچھل کر حلق میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں خوف سے کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ اس روز کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی طرف سے بدلہ دینے والا ہو گا۔ ﴿ یَوْمَ یَفِرُّ الْ٘مَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۰۰وَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِۙ۰۰وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِؕ۰۰لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ۰۰﴾ (عبس:80؍34-37) ’’اس روز بھائی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے، اس روز ہر شخص ایک فکر میں مبتلا ہو گا جو اس کو دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گی۔‘‘ وہاں ﴿یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ﴾ (الفرقان:25؍27۔28) ’’ظالم مارے پشیمانی اور حسرت کے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور پکار اٹھے گا، اے کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ اس وقت کچھ چہرے سیاہ پڑ جائیں گے اور کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ ترازوئیں نصب کر دی جائیں گی جن میں ذرہ بھر نیکی اور بدی کا بھی وزن کیا جا سکے گا۔ اعمال نامے پھیلا دیے جائیں گے اور ان کے اندر درج كيے ہوئے تمام اعمال، اقوال اور نیتیں ، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سامنے ہوں گے اور جہنم کے اوپر پل صراط کو نصب کر دیا جائے گا۔ جنت اہل تقویٰ کے قریب کر دی جائے گی اور جہنم کو گمراہ لوگوں کے سامنے کر دیا جائے گا ﴿اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭؔ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۰۰وَاِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا﴾ (الفرقان:25؍12۔13) ’’جب وہ جہنم کو دور سے دیکھیں گے تو اس کی غضبناک آواز اور اس کی پھنکار سنیں گے اور جب ان کو جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں پھینک دیا جائے گا تو وہاں اپنی موت کو پکارنے لگیں گے‘‘ ان سے کہا جائے گا ﴿لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا ﴾ (الفرقان:25؍14) ’’آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کا پکارو۔‘‘ اور جب وہ اپنے رب کو پکاریں گے کہ وہ ان کو وہاں سے نکالے تو رب تعالیٰ فرمائے گا۔ ﴿اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ ﴾ (المؤمنون:23؍108) ’’دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے پڑے رہو جہنم میں اور میرے ساتھ کلام نہ کرو‘‘ رب رحیم کا غضب ان پر بھڑک اٹھے گا اور وہ ان کو دردناک عذاب میں ڈال دے گا، وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی مفقود نہیں ہو گا۔ یہ تو ہو گا کفار کا حال اور متقین کو جنت کے باغات میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ وہ انواع و اقسام کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے، جہاں جی چاہے گا وہاں ہمیشہ رہیں گے۔پس عقل مند شخص، جو جانتا ہے کہ یہ سب کچھ پیش آنے والا ہے تو اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اس کے لیے تیاری کر رکھے، مہلت اسے غفلت میں مبتلا نہ کر دے کہ وہ عمل کو چھوڑ بیٹھے۔ تقویٰ الٰہی اس کا شعار، خوف الٰہی اس کا سرمایہ اور اللہ کی محبت اور اس کا ذکر اس کے اعمال کی روح ہو۔
آیت: 3 - 4 #
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ (3) كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ (4)}.
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی بابت بغیر علم کےاور اتباع کرتے ہیں وہ ہر شیطان سرکش کا (3) لکھ دیا گیا ہے اس کی بابت کو بے شک جو کوئی دوستی کرے گا اس سے تو بے شک وہ گمراہ کر دے گا اس کواور راہنمائی کرے گا اس کی طرف عذاب جہنم کی (4)
#
{3 ـ 4} أي: ومن الناس طائفةٌ وفرقةٌ؛ سلكوا طريق الضَّلال، وجعلوا يجادلون بالباطل الحقَّ؛ يريدون إحقاق الباطل وإبطال الحقِّ، والحال أنَّهم في غاية الجهل، ما عندهم من العلم شيء، وغاية ما عندهم تقليد أئمَّة الضَّلال من كلِّ شيطان مَريدٍ متمرِّدٍ على الله وعلى رسلِهِ معاندٍ لهم، قد شاقَّ الله ورسوله، وصار من الأئمة الذين يدعون إلى النار. {كُتِبَ عليه}؛ أي: قدِّر على هذا الشيطان المريد، {أنَّه مَنْ تولاَّه}؛ أي: اتَّبعه؛ {فأنَّه يضلُّه}: عن الحقِّ ويجنِّبه الصراط المستقيم؛ {ويهديهِ إلى عذابِ السَّعير}: وهذا نائبُ إبليس حقًّا؛ فإنَّ اللَّه قال عنه: {إنَّما يدعو حِزْبَهُ ليكونوا من أصحاب السَّعير}. فهذا الذي يجادلُ في الله قد جمع بين ضلالِهِ بنفسِهِ وتصدِّيه إلى إضلال الناس، وهو متَّبعٌ ومقلِّد لكلِّ شيطان مَريدٍ، ظلماتٌ بعضها فوق بعض، ويدخل في هذا جمهورُ أهل الكفر والبدع؛ فإنَّ أكثرهم مقلِّدةٌ يجادلون بغير علم.
[4,3] یعنی لوگوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہے، وہ باطل دلائل کے ساتھ حق سے جھگڑتے ہیں ، وہ باطل کو حق اور حق کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ جہالت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں ، ان کے پاس کچھ بھی علم نہیں ۔ ان کے علم کی انتہا یہ ہے کہ وہ ائمہ ضلال اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے ساتھ عناد رکھتا ہے، ان کے خلاف سرکشی کرتا ہے۔ وہ اللہ اور رسول کی مخالفت کر کے ائمہ ضلال میں شامل ہو جاتا ہے جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔ ﴿ كُتِبَ عَلَیْهِ ﴾ ’’لکھ دیا گیا ہے اس پر۔‘‘ یعنی اس سرکش شیطان کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے ﴿ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ ﴾ کہ جو اس کی پیروی کرے گا ﴿ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ ﴾ وہ اسے حق سے دور اور راہ راست سے بھٹکا دے گا ﴿ وَیَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ﴾ اور اسے جہنم کا راستہ دکھائے گا اور یہ یقینا ابلیس کا نائب ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے بارے میں فرمایا: ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر:35؍6) ’’وہ اپنے پیروکاروں کو صرف اس لیے اپنی راہ پر بلا رہا ہے تاکہ وہ بھی جہنمیوں میں شامل ہو جائیں ۔‘‘ یہی وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتا ہے، خود اپنے آپ کو بھی گمراہ کرتا ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہوتا ہے اور یہی وہ شخص ہے جو ہر سرکش شیطان کا مقلد ہے… اندھیرے ایک سے ایک بڑھ کر ہیں ۔ اس گروہ میں اہل کفر اور اہل بدعت کی اکثریت شامل ہے کیونکہ ان کی اکثریت مقلدین پر مشتمل ہے جو بغیر علم کے جھگڑتی ہے۔
آیت: 5 - 7 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (5) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِ الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (6) وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ (7)}.
اے لوگو! اگر ہو تم شک میں دوبارہ جی اٹھنے سے تو بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا تمھیں مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، جو واضح شکل و صورت والا اور غیر واضح (ادھوری) شکل و صورت والا ہے تاکہ ہم بیان کریں تمھارے لیے اور ہم ٹھہراتے ہیں رحموں میں ، جس (نطفے) کو ہم چاہتے ہیں ایک وقت مقرر تک ، پھر نکالتے ہیں ہم تمھیں (مکمل) بچہ (بنا کر) ، پھر (عمر دیتے ہیں ) تاکہ تم پہنچو اپنی جوانی کواور بعض تم میں سے ہیں جو فوت کیے جاتے ہیں اور بعض تم میں سے ہیں جو لاٹائے جاتے ہیں طرف ناکارہ عمر کی تاکہ نہ جانے وہ بعد جاننے کے کچھ بھی اور دیکھتے ہیں آپ زمین کو خشک (مردہ و بے آباد) ، پھر جب اتارتے ہیں ہم اس پر پانی (بارش) تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور وہ اگاتی ہے ہر قسم کی خوش نما چیزیں (5) یہ بسبب اس کے ہے کہ بے شک اللہ ہی حق ہےاور (یہ کہ) بلاشبہ وہی زندہ کرتا ہے مردوں کواور یہ کہ بے شک وہی اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے (6) اور یہ کہ بلاشبہ قیامت آنے والی ہے، نہیں کوئی شک اس میں اور یہ کہ بے شک اللہ دوبارہ اٹھائے گا ان کو جو قبروں میں ہیں (7)
#
{5} يقول تعالى: {يا أيُّها الناس إن كنتُم في ريبٍ من البعث}؛ أي: شكٍّ واشتباه وعدم علم بوقوعه، مع أن الواجب عليكم أن تصدِّقوا ربَّكم وتصدِّقوا رسلَه في ذلك، ولكن إذا أبيتُم إلاَّ الرَّيْب؛ فهاكم دليلين عقليَّين تشاهدونهما، كلُّ واحدٍ منهما يدلُّ دلالةً قطعيةً على ما شككتُم فيه، ويُزيل عن قلوبكم الريب: أحدهما: الاستدلال بابتداء خَلْق الإنسان، وأنَّ الذي ابتدأه سيعيدُه، فقال فيه: {فإنَّا خَلَقْناكم من تُرابٍ}: وذلك بخَلْق أبي البشر آدم عليه السلام، {ثمَّ من نطفةٍ}؛ أي: منيٍّ، وهذا ابتداء أول التخليق، {ثم من عَلَقَةٍ}؛ أي: تنقِلبُ تلك النطفة بإذن الله دماً أحمر، {ثم من مُضْغَةٍ}؛ أي: ينتقل الدم مضغةً؛ أي: قطعة لحم بقدر ما يُمضغ، وتلك المضغةُ تارة تكون {مخلَّقة}؛ أي: مصوَّر منها خلق الآدميِّ. وتارة {غير مُخَلَّقة}: بأن تقذِفَها الأرحام قبل تخليقها، {لنبيِّنَ لكم}: أصل نشأتكم؛ مع قدرتِهِ تعالى على تكميل خَلْقِه في لحظة واحدة، ولكن ليُبَيِّنَ لنا كمال حكمتِهِ وعظيم قدرتِهِ وسعة رحمتِهِ. {وَنُقِرُّ في الأرحام ما نشاءُ إلى أجل مسمًّى}: [أي:] ونُقِرُّ؛ أي: نبقي في الأرحام من الحَمْل الذي لم تقذِفْه الأرحامُ ما نشاء إبقاءه إلى أجل مسمّى، وهو مدَّة الحمل، {ثم نخرِجُكم}: من بطون أمهاتكم {طفلاً}: لا تعلمون شيئاً، وليس لكم قدرةٌ، وسخَّرنا لكم الأمهاتِ، وأجْرَيْنا لكم في ثديها الرزق، ثم تُنَقَّلونَ طوراً بعد طورٍ حتى تبلغوا أشُدَّكُم، وهو كمال القوة والعقل. {ومنكُم من يُتَوَفَّى}: من قبل أن يبلغَ سنَّ الأشُدِّ، ومنكُم مَنْ يتجاوزُه فيردُّ {إلى أرذل العمر}؛ أي: أخسِّه وأرذلِهِ، وهو سنُّ الهرم والتخريف، الذي به يزول العقلُ ويضمحلُّ كما زالت باقي القوة وضعفت، {لِكَيْلا يعلمَ من بعدِ علم شيئاً}؛ أي: لأجل أن لا يَعْلَمَ هذا المعمَّر شيئاً مما كان يعلمه قبل ذلك، وذلك لضعف عقله؛ فقوة الآدميِّ محفوفةٌ بضعفين: ضعفُ الطفوليَّة ونقصُها، وضعف الهرم ونقصُه؛ كما قال تعالى: {الله الذي خلقكم من ضَعْفٍ ثم جعل من بعد ضعف قُوَّةً ثم جَعَلَ من بعد قُوَّةٍ ضَعْفاً وشَيْبَةً يَخْلُقُ ما يشاءُ وهو العليم القدير}. والدليل الثاني: إحياء الأرض بعد موتها، فقال الله فيه: {وترى الأرض هامدةً}؛ أي: خاشعة مغبرَّةً لا نباتَ فيها ولا خُضرة، {فإذا أنْزَلْنا عليها الماء اهتزَّتْ}؛ أي: تحرَّكت بالنبات، {وَرَبَتْ}؛ أي: ارتفعت بعد خُشوعها، وذلك لزيادة نباتها، {وأنبتتْ من كلِّ زوج}؛ أي: صنف من أصناف النبات {بَهيج}؛ أي: يُبْهجُ الناظرين ويسرُّ المتأملين.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ ﴾ یعنی اگر تم کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو اور قیامت کے وقوع کے بارے میں تمھیں کوئی علم نہیں جبکہ تم پر لازم ہے کہ تم اس بارے میں اپنے رب اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرو لیکن اگر تم شک كيے بغیر نہ رہ سکو تو تمھارے سامنے یہ دو عقلی دلائل ہیں جن میں سے ہر ایک کا تم مشاہدہ کرتے ہو۔ جس بارے میں تم شک کرتے ہو اس پر قطعی دلالت کرتے ہیں اور تمھارے دلوں میں شک کو زائل کرتے ہیں : پہلی دلیل: انسان کی تخلیق کی ابتداء سے استدلال ہے، یعنی وہ ہستی جس نے ابتداء میں اس کو پیدا کیا ہے وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گی، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ﴾ ’’ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ اور یہ اس طرح کہ اس نے ابوالبشر آدم u کو مٹی سے پیدا کیا ﴿ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ﴾ یعنی منی سے پیدا کیا۔ یہ انسان کی تخلیق کا اولین مرحلہ ہے ﴿ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ﴾ ’’پھر گاڑھے خون سے۔‘‘ یعنی پھر یہ نطفہ اللہ کے حکم سے سرخ خون میں بدل جاتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ ﴾ ’’پھر لوتھڑے سے۔‘‘ یعنی پھر وہ گاڑھا خون لوتھڑے یعنی بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور یہ بوٹی کبھی تو ﴿ مُّخَلَّقَةٍ ﴾ اس سے آدمی کی تصویر بن جاتی ہے۔ ﴿ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ ﴾ ’’اور بے تصویر‘‘ یعنی کبھی اس کی تخلیق سے قبل ہی رحم سے اس کا اسقاط ہو جاتا ہے۔ ﴿ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ ﴾ ’’تاکہ ہم تمھارے سامنے تمھاری اصل تخلیق کو واضح کریں ‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک لمحہ میں اس کی تخلیق کی تکمیل کر سکتا ہے مگر وہ ہمارے سامنے اپنی کامل حکمت، عظیم قدرت اور بے پایاں رحمت کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ یعنی اگر اسقاط نہ ہو تو اسے جب تک ہم چاہتے ہیں رحم میں باقی رکھتے ہیں ، یعنی مدت حمل تک ﴿ ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ ﴾ پھر ہم تمھیں تمھاری ماؤں کے رحموں سے باہر نکال لاتے ہیں ﴿ طِفْلًا ﴾ ’’بچے کی صورت میں ‘‘ اس وقت تمھیں کسی بات کا علم ہوتا ہے نہ کسی چیز کی قدرت اور تمھاری ماؤں کو تمھارے لیے مسخر کر دیتے اور اس کی چھاتی میں سے تمھارے لیے رزق جاری کر دیتے ہیں پھر تم ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے ہو حتیٰ کہ تم اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہو اور یہ مکمل قوت اور عقل کی عمر ہے۔ ﴿ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى ﴾ اور تم میں کچھ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ اس سے آگے گزر کر رذیل ترین یعنی خسیس ترین عمر کو پہنچ جاتا ہے اور یہ وہ عمر ہے جب انسان نہايت کمزور ہو جاتا ہے، قویٰ فاسد ہو جاتے ہیں ، عقل بھی اسی طرح مضمحل ہو کر زائل ہو جاتی ہے جس طرح دیگر قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ ﴿ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْـًٔؔا﴾ یعنی… تاکہ اس معمر شخص کو ان تمام چیزوں کا کچھ بھی علم نہ ہو جن کو وہ اس سے قبل جانتا تھا اور اس کا سبب اس کا ضعف عقل ہے۔ پس انسان کی قوت دو قسم کے ضعفوں میں گھری ہوئی ہے۔ ۱۔ طفولیت کا ضعف اور اس کا نقص۔ ۲۔ بڑھاپے کا ضعف اور اس کا نقص جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُ٘وَّ٘ةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُ٘وَّ٘ةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً١ؕ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ١ۚ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ﴾ (الروم:30؍54) ’’اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد تمھیں قوت عطا کی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ علم والا اور قدرت والا ہے۔‘‘ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً ﴾ ’’اور تو دیکھتا ہے زمین کو بنجر۔‘‘ یعنی خشک، چٹیل اور بے آب و گیا ہ﴿ فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَؔ اهْتَزَّتْ ﴾ ’’پس جب ہم اس پر بارش نازل کرتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے۔‘‘ یعنی نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے ﴿ وَرَبَتْ ﴾ ’’اور پھولتی ہے۔‘‘ یعنی خشک ہونے کے بعد خوب سرسبز ہو کر بلند ہوتی ہے۔ ﴿ وَاَنْۢـبَتَتْ مِنْ كُ٘لِّ زَوْجٍۭ ﴾ یعنی زمین نباتات کی ہر صنف کو اگاتی ہے ﴿ بَهِیْـجٍ ﴾ یعنی جو دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہے۔
#
{6 ـ 7} فهذان الدليلان القاطعان يدلاَّن على هذه المطالب الخمسةَ، وهي هذه: {ذلك}: الذي أنشأ الآدميَّ من ما وَصَفَ لكم وأحيا الأرض بعد موتها، {بأنَّ الله هو الحقُّ}؛ أي: الربُّ المعبود الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له، وعبادتُهُ هي الحقُّ، وعبادة غيره باطلةٌ. {وأنَّه يُحيي الموتى}: كما ابتدأ الخلق، وكما أحيا الأرض بعد موتها، {وأنَّه على كلِّ شيء قديرٌ}: كما أشهدكم من بديع قدرته وعظيم صنعته ما أشهدكم، {وأنَّ الساعةَ آتيةٌ لا ريبَ فيها}: فلا وجه لاستبعادها، {وأنَّ الله يبعثُ مَن في القبورِ}: فيجازيكم بأعمالكم حسنها وسيئها.
[7,6] یہ دو قطعی دلائل ہیں جو ان پانچ مقاصد پر دلالت کرتی ہیں ۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ سب کچھ یعنی آدمی کا اس طرح پیدا کرنا جو اللہ نے بیان کیا اور زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرنا، اس لیے ہے کہ ﴿ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’اللہ، وہی حق ہے۔‘‘ یعنی وہی رب معبود ہے اس کے سوا کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں ، اسی کی عبادت حق ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت باطل ہے ﴿ وَاَنَّهٗ یُحْیِ الْ٘مَوْتٰى ﴾ ’’اور وہ زندہ کرے گا مُردوں کو۔‘‘ جس طرح اس نے ابتداء تخلیق کی اور جس طرح اس نے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کیا ﴿ وَاَنَّهٗ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ جیسا کہ اس نے اپنی بدیع قدرت اور عظیم صنعت کا تمھیں مشاہدہ کروایا۔ ﴿ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا ﴾ ’’اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ پس اس کو بعید سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ﴿وَاَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ ’’اور اللہ ان کو دوباروہ اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں ۔‘‘ پھر تمھیں تمھارے تمام اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔
آیت: 8 - 10 #
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (8) ثَانِيَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ (9) [ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (10)}].
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہے جو جھگڑا کرتا ہے اللہ کی بابت بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کتاب روشن کے (8) درآنحالیکہ وہ موڑنے والا ہے اپنا پہلو تاکہ گمراہ کرے وہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے، اس کے لیے دنیا میں رسوائی ہےاور ہم چکھائیں گے اسے دن قیامت کے عذاب جلانے والا (9) یہ بوجہ اس کے ہے جو آگے بھیجا تیرے دونوں ہاتھوں نےاور یہ کہ بلاشبہ اللہ نہیں ظلم کرنے والا (اپنے) بندوں پر (10)
#
{8} المجادلة المتقدِّمة للمقلِّد، وهذه المجادلة للشيطان المريد الدَّاعي إلى البدع، فأخبر أنَّه {يجادِلُ في الله}؛ أي: يجادِلُ رسلَ الله وأتباعهم بالباطل لِيُدْحِضَ به الحقَّ، {بغير علم}: صحيح، {ولا هدىً}؛ أي: غير متَّبع في جداله هذا مَن يهديه؛ لا عقل مرشد، ولا متبوع مهتدٍ، {ولا كتابٍ منيرٍ}؛ أي: واضح بيِّن؛ [أي:] فلا له حجَّة عقليَّة ولا نقليَّة، إن هي إلاَّ شبهاتٌ يوحيها إليه الشيطان، وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم لِيجادِلوكم.
[8] وہ جھگڑا جس کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوا ، وہ مقلد کا جھگڑا تھا اور یہ جھگڑا سرکش شیطان کے ساتھ ہے جو لوگوں کو بدعات کی طرف دعوت دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا: ﴿ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کے ساتھ باطل دلائل سے جھگڑتا ہے تاکہ حق کو نیچا دکھائے ﴿بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ بغیر کسی صحیح علم کے ﴿ وَّلَا هُدًى ﴾ وہ اپنے جھگڑے میں کسی ایسے شخص کی اتباع نہیں کرتا جو اس کی راہنمائی کرے، نہ عقل کے پیچھا لگتا ہے جو اس کو راہ راست پر رکھے اور نہ کسی مقتدا کی اقتداء کرتا ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو۔ ﴿ وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ﴾ ’’اور نہ کسی روشن اور واضح کتاب کی پیروی کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا اس کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی دلیل، یہ محض شبہات ہیں جو شیطان اس کی طرف القاء کرتا ہے۔ ﴿وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیِٰٕٓهِمْ۠ لِیُجَادِلُوْؔكُمْ﴾ (الانعام؍121) ’’اور شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں القاء کرتے ہیں تاکہ وہ تمھارے ساتھ جھگڑا کریں ۔‘‘
#
{9} ومع هذا: {ثانيَ عِطْفِهِ}؛ أي: لاوي جانبه وعنقه، وهذا كنايةٌ عن كبره عن الحقِّ واحتقاره للخلق؛ فقد فرح بما معه من العلم غير النافع، واحتقر أهل الحقِّ وما معهم من الحقِّ؛ {ليضلَّ} الناس؛ أي: ليكون من دعاة الضَّلال. ويدخل تحت هذا جميع أئمة الكفر والضلال. ثم ذَكَرَ عقوبتهم الدنيويَّة والأخرويَّة، فقال: {له في الدُّنيا خِزْيٌ}؛ أي: يفتضح هذا في الدُّنيا قبل الآخرة. وهذا من آياتِ الله العجيبة؛ فإنَّك لا تَجِدُ داعياً من دعاة الكفر والضلال إلاَّ وله من المَقْتِ بين العالمين واللعنة والبُغض والذَّمِّ ما هو حقيقٌ به، وكلٌّ بحسب حاله. {ونذيقُهُ يومَ القيامةِ عذابَ [الحريق]}؛ أي: نذيقُه حَرَّها الشديد وسعيرها البليغ، وذلك بما قدَّمت يداه. {[وأن اللَّه ليس بظلامٍ للعبيد]}.
[9] اس کے ساتھ ساتھ ﴿ ثَانِیَ عِطْفِهٖ﴾ وہ گردن اکڑائے، منہ موڑ کر چلتا ہے یہ حق کے بارے میں اس کے تکبر اور مخلوق کے ساتھ اس کے حقارت آمیز رویے کے لیے کنایہ ہے۔ پس وہ اسی پر فرحاں و شاداں ہے کہ اس کے پاس غیر نافع علم ہے اور وہ حق اور اہل حق کو حقیر گردانتا ہے۔ ﴿ لِیُضِلَّ ﴾ ’’تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے‘‘ یعنی گمراہی کے داعیوں میں اس کا شمار ہو۔ اس آیت کریمہ کے تحت تمام ائمہ کفروضلالت آ جاتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے دنیاوی اور اخروی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾ یعنی وہ آخرت سے پہلے، اس دنیا ہی میں رسوا ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی ہے۔ آپ داعیان کفر و ضلالت میں سے جس کو بھی دیکھیں وہ تمام لوگوں کی ناراضی، لعنت، بغض اور مذمت کا اسی طرح نشانہ ہوتا ہے جیسے وہ اس کا مستحق ہوتا ہے اور ہر شخص حسب حال جزا پاتا ہے۔ ﴿ وَّنُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ ﴾ یعنی ہم اسے جہنم کی سخت گرمی اور اس کی بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ اور یہ سب کچھ اس کے ان کرتوتوں کی وجہ سے ہے جو اس نے آگے بھیجے۔ [10] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ دنیاوی اور اُخروی عذاب جس کا ذکر کیا گیا اور اس میں بعد کا جو معنی پایا جاتا ہے (اور وہ ہے (ذلک) کے اندر موجود لام کا معنی جو بُعد کی طرف اشارہ کے لیے وضع کیا گیا ہے) وہ اس امر پر دلیل ہے کہ کفار ہول اور قباحت کی انتہاء پر ہوں گے۔ ﴿ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰؔكَ ﴾ یعنی اس سبب سے، جو تیرے ہاتھوں نے کفر اور معاصی کا اکتساب کیا ہے۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ لَ٘یْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ اور حقیقت امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے پہلے گناہوں کے بغیر عذاب نہیں دے گا۔ اس کا اجمالی معنی یہ ہے کہ اس کافر کو، جو ان صفات سے متصف ہے جن کا ذکر مذکورہ دو آیتوں میں گزر چکا ہے، کہا جائے گا کہ یہ عذاب اور رسوائی جس کا تو سامنا کر رہا ہے تیری افترا پردازی اور تکبر کے سبب سے ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظلم نہیں کرتا وہ مومن اور کافر، نیک اور بد کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتا وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دیتا ہے۔
آیت: 11 - 13 #
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (11) يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنْفَعُهُ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ (12) يَدْعُو لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلَى وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ (13)}.
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہیں جو عبادت کرتے ہیں اللہ کی اوپر ایک کنارے کے ، پس اگر پہنچے اس کو بھلائی تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے اس پراور اگر پہنچے اس کو کو ئی فتنہ (آزمائش) تو الٹا ، پھر جاتا ہے اوپر اپنے منہ کے،خسارہ اٹھایا اس نے دنیا اور آخرت میں ، یہی ہے وہ خسارہ صریح (11) وہ پکارتا ہے سوائے اللہ کے اس کو جو نہیں نقصان پہنچا سکتا اسے اور نہ وہ نفع دے سکتا ہے اسے، یہی ہے وہ گمراہی دور کی (12) وہ پکارتا ہے اس شخص کو کہ نقصان اس کا (یقینا) زیادہ قریب ہے اس کے نفع سے، البتہ برا ہے وہ کارساز اور البتہ برا ہے وہ ساتھی (13)
#
{11} أي: ومن الناس مَنْ هو ضعيفُ الإيمان، لم يدخُل الإيمان قلبَه، ولم تخالطْه بشاشتُه، بل دخل فيه إمَّا خوفاً وإمَّا عادة على وجهٍ لا يثبتُ عند المحن. {فإنْ أصابَه خيرٌ اطمأنَّ به}؛ أي: إن استمرَّ رزقُه رغداً ولم يحصُل له من المكاره شيءٌ اطمأنَّ بذلك الخير، لا إيمانه ؛ فهذا ربَّما أنَّ الله يعافيه ولا يقيِّضُ له من الفتن ما ينصرفُ به عن دينه. {وإنْ أصابتْه فتنةٌ}: من حصول مكروهٍ أو زوال محبوبٍ؛ {انقلبَ على وجهِهِ}؛ أي: ارتدَّ عن دينه؛ {خَسِرَ الدُّنيا والآخرة}: أما في الدُّنيا؛ فإنَّه لا يحصُل له بالردة ما أمَّله، الذي جعل الردَّة رأساً لماله وعوضاً عما يظنُّ إدراكه، فخاب سعيُه، ولم يحصُل له إلاَّ ما قُسِم له، وأما الآخرةُ؛ فظاهرٌ، حُرِم الجنة التي عرضها السماوات والأرض، واستحقَّ النار. {ذلك هو الخسران المبين}؛ أي: الواضح البين.
[11] یعنی لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو ضعیف الایمان ہے جس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، ایمان کی بشاشت اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ یا تو خوف سے ایمان لایا ہے یا محض عادت کی بنا پر اور وہ بھی اس طریقے سے کہ وہ سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ ﴿ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِهٖ﴾ یعنی اگر اسے وافر رزق مل رہا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تو وہ ایمان پر نہیں بلکہ پہنچنے والی بھلائی پر مطمئن ہوتا ہے… اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات اسے عافیت میں رکھتا ہے اور اسے ایسے فتنوں میں مبتلا نہیں کرتا جو اسے اس کے دین سے پھیر دیں ۔ ﴿ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ ﴾ اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی محبوب چیز اس سے چھن جاتی ہے ﴿اِنْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ﴾ ’’پھر جاتا ہے اپنے چہرے پر۔‘‘ یعنی اپنے دین سے پھر جاتا ہے۔ ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ﴾ ’’خسارہ اٹھایا اس نے دنیا اور آخرت کا۔‘‘ دنیا میں خسارہ یہ ہے کہ جس امید پر وہ مرتد ہوا اور جس امید کو اس نے سرمایہ قرار دے رکھا تھا وہ پوری نہ ہوئی اور وہ عوض جس کے حاصل ہونے کا اسے یقین تھا حاصل نہ ہوا۔ پس اس کی کوشش ناکام ہوئی اور اسے صرف وہی کچھ حاصل ہوا جو اس کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ رہا آخرت کا خسارہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو جس کی کشادگی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اس پر حرام کر دیا اور وہ جہنم کا مستحق ہوا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ﴾ اور یہ واضح اور کھلا خسارہ ہے۔
#
{12 ـ 13} {يدعو}: هذا الراجع على وجهِهِ من دون الله ما لا ينفعُه ولا يضرُّه، وهذا صفة كلِّ مدعوٍّ ومعبودٍ من دون الله؛ فإنه لا يملك لنفسه ولا لغيره نفعاً ولا ضرًّا. {ذلك هو الضلال البعيدُ}: الذي قد بلغ في البعد إلى حدِّ النهاية؛ حيث أعرض عن عبادة النافع الضارِّ الغنيِّ المغني، وأقبل على عبادة مخلوقٍ مثله أو دونه، ليس بيده من الأمر شيء، بل هو إلى حصول ضدِّ مقصوده أقرب، ولهذا قال: {يدعو لَمَن ضَرُّه أقربُ من نفعِهِ}: فإنَّ ضرره في العقل والبدن والدُّنيا والآخرة معلوم. {لبئس المولى}؛ أي: هذا المعبود، {ولبئس العشيرُ}؛ أي: القرين الملازم على صحبته؛ فإنَّ المقصود من المولى والعشير حصول النفع ودفع الضرر؛ فإذا لم يحصل شيءٌ من هذا؛ فإنَّه مذموم ملوم.
[13,12] ﴿ یَدْعُوْا ﴾ ’’پکارتا ہے۔‘‘ یعنی یہ مرتد ﴿ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهٗ وَمَا لَا یَنْفَعُهٗ﴾ اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو، جو اسے کوئی نقصان دے سکتی ہیں نہ نفع۔ یہ ہر اس معبود باطل کی صفت ہے، جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ معبود باطل اپنے لیے یا کسی اور کے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰ٘لُ الْبَعِیْدُ﴾ یہ گمراہی بعد میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کیونکہ اس نے اس ہستی کی عبادت سے روگردانی کی جس کے قبضۂ قدرت میں نفع و نقصان ہے، جو خود بے نیاز ہے اور بے نیاز کرنے والی ہے… اور اپنے جیسی یا اپنے سے بھی کمتر ہستی کے سامنے سربسجود ہوا جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے مقصد کی ضد کے حصول کے زیادہ قریب ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ یَدْعُوْا لَ٘مَنْ ضَرُّهٗۤ اَ٘قْ٘رَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ ﴾ ’’ وہ اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ اس لیے کہ اس کا نقصان عقل، بدن، دنیا اور آخرت میں ہے ﴿ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى ﴾ ’’البتہ برا ہے والی۔‘‘ یعنی یہ معبود باطل ﴿ وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ﴾ یعنی بہت برا ہم نشین ہے جس کی صحبت کو اس نے لازم پکڑ رکھا ہے کیونکہ دوست اور ہم نشین سے حصول نفع اور دفع ضرر مقصود ہوتا ہے۔ اگر اس میں اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو تو وہ قابل مذمت اور قابل ملامت ہے۔
آیت: 14 #
{إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ (14)}.
بے شک اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ایسے باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، بے شک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے (14)
#
{14} لما ذكر تعالى المجادل بالباطل، وأنَّه على قسمين: مقلِّدٍ وداعٍ؛ ذكر أن المتسمِّي بالإيمان أيضاً على قسمين: قسم لم يدخُل الإيمان قلبَه كما تقدَّم. والقسم الثاني: المؤمنُ حقيقةً؛ صدَّق ما معه من الإيمان بالأعمال الصالحة، فأخبر تعالى أنَّه يدخِلُهم {جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: وسمِّيت الجنة جنةً لاشتمالها على المنازل والقصور والأشجار والنوابت التي تُجِنُّ مَنْ فيها ويستترُ بها من كثرتها. {إنَّ الله يفعلُ ما يريدُ}: فمهما أراده تعالى؛ فَعَلَه؛ من غير ممانع ولا معارض، ومن ذلك إيصال أهل الجنة إليها، جعلنا الله منهم بمنِّه وكرمِهِ.
[14] جب اللہ تعالیٰ نے باطل دلیلوں سے جھگڑنے والے کا ذکر فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ ایسے لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں ، ایک مقلدین اور دوسرے اپنی بدعات کی طرف دعوت دینے والے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی دو اقسام ذکر فرمائیں جو اپنے آپ کو ایمان سے منسوب کرتے ہیں ۔ پہلی قسم ان لوگوں کی جن کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرا اور دوسری قسم ان لوگوں کی جو حقیقی مومن ہیں جنھوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ پس ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جنت کو ’’جنت‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ خوبصورت منازل، محلوں ، درختوں اور نباتات پر مشتمل ہے یہ درخت اور نباتات اپنی کثرت کے باعث ان لوگوں کو ڈھانپ لیں گے اور ان پر سایہ کناں ہوں گے جو اس میں داخل ہوں گے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ﴾ پس اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اسے بغیر کسی مانع اور معارض کے، کر گزرتا ہے۔ اس کا ایک ارادہ یہ ہے کہ وہ جنت کو اہل جنت میں داخل کرے گا… اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور احسان سے ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔
آیت: 15 #
{مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ (15)}.
جو شخص گمان کرتا ہے یہ کہ ہرگز نہیں مدد کرے گا اللہ اس (رسول) کی دنیا اور آخرت میں تو چاہیے کہ وہ دراز کرے ایک رسی آسمان تک ، پھر چاہیے کہ کاٹ دے (اسے) ، پھرچاہیے کہ وہ دیکھے کیا لے جاتی ہے تدبیر اس کی ، اس کے غصے کو؟ (15)
#
{15} أي: من كان يظن أنَّ الله لا ينصر رسوله وأنَّ دينه سيضمحل فإنَّ النصر من الله ينزل من السماء، [{فَلْيَمدُد بِسَبَبٍ إلى السَّمَاءِ ثُمَّ ليَقطَع}: النصر عن الرسول] ، {فَليَنظُر هَل يُذْهِبَنَّ كَيدُهُ}؛ أي: ما يكيد به الرسول ويعمله من محاربته والحرص على إبطال دينه ما يُغيظُهُ من ظهورِ دينِهِ. وهذا استفهامٌ بمعنى النفي، وأنَّه لا يقدر على شفاء غيظه بما يعمله من الأسباب. ومعنى هذه الآية الكريمة: يا أيُّها المعادي للرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، الساعي في إطفاء دينه، الذي يظنُّ بجهله أنَّ سعيه سيفيدُهُ شيئاً! اعلم أنَّك مهما فعلت من الأسباب، وسعيتَ في كيد الرسول؛ فإنَّ ذلك لا يُذْهِبُ غيظَكَ ولا يشفي كَمَدَكَ؛ فليس لك قدرةٌ في ذلك، ولكن سنشير عليك برأي تتمكَّن به من شفاء غيظِكَ ومن قطع النصر عن الرسول إن كان ممكناً: ائتِ الأمر مع بابِهِ، وارتقِ إليه بأسبابه: اعمدْ إلى حبل من ليفٍ أو غيره، ثم علِّقْه في السماء، ثم اصعدْ به حتى تَصِلَ إلى الأبواب التي ينزل منها النصرُ، فسدَّها وأغلِقْها واقطعْها؛ فبهذه الحال تشفي غيظك؛ فهذا هو الرأي والمكيدةُ، وأما سوى هذه الحال؛ فلا يخطر ببالك أنَّك تشفي بها غيظك، ولو ساعدك مَن ساعدك مِن الخلق. وهذه الآية الكريمة فيها من الوعد والبشارة بنصر الله لدينِهِ ولرسولِهِ وعباده المؤمنين ما لا يخفى، ومن تأييس الكافرين الذين يريدون أن يطفئوا نور الله بأفواههم، واللهُ متمُّ نورِهِ ولو كره الكافرون؛ أي: وسَعَوْا مهما أمكنهم.
[15] یعنی جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (e) کی مدد نہیں کرے گا اور اس کا دین عنقریب ختم ہو جائے گا تو بلاشبہ مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْ٘یَقْ٘طَ٘عْ ﴾ ’’پس وہ آسمان کی طرف رسی دراز کرے، پھر کاٹ دے۔‘‘ رسول اللہe سے اس مدد کو منقطع کر دکھائے۔ ﴿ فَلْیَنْظُ٘رْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ ﴾ یعنی وہ کیا چیز ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول اللہe کے خلاف چال چل سکتا ہے، آپe کے خلاف جنگ برپا کر سکتا ہے، جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے ابطال کی خواہش رکھتا ہے وہ کیا چیز ہے جو دین کے ظہور پر اسے غیظ و غضب میں مبتلا کرتی ہے… یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے یعنی وہ ان اسباب کے ذریعے اپنے غیظ و غضب کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ اس آیت مقدسہ کا معنیٰ یہ ہے، اے وہ شخص! جو محمد رسول اللہe سے عداوت رکھتا ہے، جو آپe کے دین کو مٹانے میں کوشاں ہے، جو اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش رنگ لائے گی، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو جو بھی اسباب اختیار کر لے، رسول (e) کے خلاف کوئی بھی چال چل لے، اس سے تیرا غیظ و غضب اور تیرے دل کی بیماری کو شفا حاصل نہیں ہو گی۔ اس پر تجھے کوئی قدرت حاصل نہیں البتہ ہم تجھے ایک مشورہ دیتے ہیں جس سے تو اپنے دل کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور اگر یہ ممکن ہے کہ تو رسول (e) سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو منقطع کر سکتا ہے تو معاملے میں صحیح راستے سے داخل ہو اور درست اسباب اختیار کر اور وہ یہ کہ کھجور وغیرہ کی چھال سے بٹی ہوئی رسی لے، پھر اسے آسمان پر لٹکا کر آسمان پر چڑھ جا اور ان دروازوں تک پہنچ جا جہاں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور ان دروازوں کو بند کر کے اللہ تعالیٰ کی مدد منقطع کر دے۔ اس طریقے سے تیرے غیظ و غضب کو شفا حاصل ہو گی… بس یہ تجویز اور چال ہے اس طریقے کے علاوہ تیرے دل میں بھی یہ بات نہیں آنی چاہیے کہ تو اپنے غیظ و عضب سے چھٹکارا پا سکتا ہے خواہ مخلوق تیری مدد کے لیے کمر کیوں نہ باندھ لے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دین، اپنے رسول اور اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت کا جو وعدہ اور خوشخبری ہے، وہ مخفی نہیں اور کفار کے لیے مایوسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے اور خواہ وہ اس نور کو بجھانے کی امکان بھر کوشش کیوں نہ کر لیں ۔
آیت: 16 #
{وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَأَنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يُرِيدُ (16)}.
اور اسی طرح نازل کیا ہم نے اس (قرآن) کو آیات واضحہ (کی صورت میں ) اور بے شک اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے (16)
#
{16} أي: وكذلك لما فصَّلنا في هذا القرآن ما فصَّلنا؛ جعلناهُ آياتٍ بيناتٍ واضحاتٍ دالاَّتٍ على جميع المطالب والمسائل النافعة، ولكن الهداية بيد الله؛ فمن أراد اللهُ هدايته؛ اهتدى بهذا القرآن، وجعله إماماً له وقدوةً واستضاء بنورِهِ، ومن لم يرِدِ الله هدايته؛ فلو جاءتْه كلُّ آية؛ ما آمن ولم ينفعْه القرآنُ شيئاً، بل يكون حجةً عليه.
[16] یعنی اسی طرح جب ہم نے اس قرآن عظیم میں تفاصیل بیان کی تو ہم نے اس کو آیات بینات بنایا جو تمام مطالب اور مسائل نافعہ پر دلالت کرتی ہیں لیکن ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جس کی ہدایت کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ اس قرآن کے ذریعے سے ہدایت پالیتا ہے، وہ قرآن کو اپنا راہنما اور مقتدا بنا لیتا ہے اور قرآن کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ اور جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا اس کے پاس خواہ ہر قسم کی نشانی کیوں نہ آ جائے وہ کبھی ایمان نہیں لاتا، قرآن اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا بلکہ قرآن اس کے خلاف حجت بنے گا۔
آیت: 17 - 24 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (17) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (18) هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (19) يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (20) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (21) كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (22) إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ (23) وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (24)}.
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائےاور وہ لوگ جو یہودی ہوئےاور صابی (بے دین) اور نصاریٰ اور مجوسی اور وہ لوگ جنھوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا بے شک اللہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان دن قیامت کے بلاشبہ اللہ اوپر ہر چیز کے گواہ ہے (17) کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ،سجدہ کرتا ہے اسے جو کوئی آسمانوں میں اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اورچوپائے اور بہت سے لوگوں میں سے (بھی) اور بہت سے ایسے ہیں کہ ثابت ہو گیا ہے ان پر عذاب اور جس کو ذلیل کرے اللہ تو نہیں ہے اسے کوئی عزت دینے والا بے شک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے (18) وہ دو گرہ وہ جھگڑنے والے ہیں ، جھگڑا کیا انھوں نے اپنے رب کی بابت، پس وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کاٹے جائیں گے ان کے لیے کپڑے آگ کے، انڈیلا جائے گا اوپر سے ان کے سروں کے کھولتا ہوا پانی (19) پگھلا دیا جائے گا اس کے سبب سے جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہو گا اور کھالیں (20) اور ان (کو مارنے) کے لیے ہتھوڑے ہوں گے لوہے کے (21) جب بھی وہ ارادہ کریں گے یہ کہ نکلیں وہ اس (آگ) میں سے، مارے غم کے، وہ لوٹا دیے جائیں گے اس میں اور (کہا جائے گا) چکھو تم عذاب جلانے والا (22) بے شک اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ایسے باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، وہ پہنائے جائیں گے ان میں کچھ کنگن سونے کےاور موتی اور لباس ان کا اس میں ریشم کا ہو گا (23) اور وہ ہدایت دیے گئے تھے (دنیا میں ) پاکیزہ بات (توحید) کی طرفاور وہ ہدایت دیے گئے تھے ایسے راستے کی طرف (جو) قابل تعریف ہے (24)
#
{17} يخبر تعالى عن طوائف أهل الأرض من الذين أوتوا الكتاب من المؤمنين واليهود والنصارى والصابئين ومن المجوس ومن المشركين: أنَّ الله سيجمعُهم جميعهم ليوم القيامة، ويفصِلُ بينهم بحكمِهِ العدل، ويجازيهم بأعمالهم التي حَفِظَها وكتبها وشهدها، ولهذا قال: {إنَّ الله على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ روئے زمین پر بسنے والے مذاہب کے پیروکاروں کے تمام گروہوں ، یعنی وہ لوگ جن کو کتاب عطا کی گئی ہے، مثلاً:اہل ایمان، یہود، نصاریٰ، صابئین، مجوس اور مشرکین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو قیامت کے روز جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا جن کو اس نے حفاظت کے ساتھ ان کے اعمال ناموں میں درج کر رکھا ہے اور ان پر گواہ ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
#
{19 ـ 22} ثم فَصَّلَ هذا الفصل بينهم بقوله: {هذان خصمان اختصموا في ربِّهم}: كلٌّ يدعي أنه المحقُّ. {فالذين كفروا}: يشمل كلَّ كافر من اليهود والنصارى والمجوس والصابئين والمشركين، {قُطِّعَتْ لهم ثيابٌ من نارٍ}؛ أي: يُجعل لهم ثيابٌ من قَطِران، وتُشعل فيها النار؛ ليعمَّهم العذابُ من جميع جوانبهم، {يصبُّ من فوق رؤوسهم الحميمُ}: الماء الحارُّ جدًّا، {يُصْهَرُ به ما في بطونهم}: من اللحم والشحم والأمعاء من شدَّة حرِّه وعظيم أمره. {ولهم مقامعُ من حديدٍ}: بيد الملائكة الغلاظ الشداد تضرِبُهم فيها وتقمعُهم. كلَّما أرادوا أن يَخْرُجوا منها أُعيدوا فيها؛ فلا يُفَتَّرُ عنهم العذاب ولا هُمْ يُنْظَرون، ويقالُ لهم توبيخاً: {ذوقوا عذابَ الحريق}؛ أي: المحرق للقلوب والأبدان.
[22-19] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مابین مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿هٰؔذٰنِ خَ٘صْمٰنِ اخْ٘تَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ ﴾ ’’یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔‘‘ ان میں سے ہر فریق دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے۔ ﴿فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ یہ جملہ تمام کفار، یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، صابئین اور مشرکین کو شامل ہے۔ ﴿ قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ﴾ یعنی ان کے کپڑے گندھک کے ہوں گے جن میں آگ شعلہ زن ہو گی تاکہ عذاب ان کو ہر جانب سے پوری طرح گھیرلے۔ ﴿یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؔءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُ﴾ یعنی ان کے سروں پر سخت کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس کی شدت حرارت سے ان کے پیٹ کے اندر گوشت، چربی، انتڑیاں گل جائیں گی۔ ﴿ وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ ﴾ ’’اور ان کے لیے ہتھوڑے ہوں گے لوہے كے۔‘‘ جو سخت اور درشت خو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوں گے جن کے ساتھ وہ ان کو ماریں گے اور سزا دیں گے۔ فرمایا: ﴿ كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا ﴾ ’’جب بھی وہ اس جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، غم کی وجہ سے تو وہ اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔‘‘ پس کسی وقت بھی عذاب ان سے منقطع ہو گا نہ ان کو مہلت دی جائی گی بلکہ زجروتوبیخ کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا: ﴿وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ﴾ یعنی دلوں اور بدنوں کو جلانے والا عذاب چکھو۔
#
{23} {إنَّ الله يدخِلُ الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ جناتٍ تجري من تحتِها الأنهارُ}: ومعلومٌ أنَّ هذا الوصف لا يَصْدُقُ على غير المسلمين، الذين آمنوا بجميع الكتب وجميع الرسل، {يُحَلَّوْنَ فيها من أساورَ من ذهب}؛ أي: يسوَّرون في أيديهم، رجالُهم ونساؤهم أساور الذهب، {ولباسُهم فيها حريرٌ}: فتمَّ نعيمُهم بذلك: أنواع المأكولات اللذيذات، المشتمل عليها لفظ الجنات، وذكر الأنهار السَّارحات، أنهار الماء واللبن والعسل والخمر، وأنواع اللباس والحلي الفاخر.
[23] ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے، ایسے باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔‘‘ اور یہ چیز معلوم ہے کہ یہ وصف مسلمان کے علاوہ کسی اور پر صادق نہیں آتا، جو تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ ﴿یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ﴾ یعنی تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ﴿وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ ﴾ ’’اور ان کا لباس اس میں ریشم کا ہو گا۔‘‘ پس اس کے ساتھ ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور لذیذ ماکولات کی تکمیل ہو جائے گی جن پر جنت مشتمل ہے، نیز یہ بہتی ہوئی نہروں کے ذکر کو بھی شامل ہے، یعنی پانی کی نہریں ، دودھ کی نہریں ، شہد کی نہریں اور شراب کی نہریں ، انواع و اقسام کے لباس اور قیمتی زیورات۔
#
{24} وذلك بسبب أنَّهم {هُدوا إلى الطيِّبِ من القول}: الذي أفضلُه وأطيبُه كلمةُ الإخلاص، ثم سائر الأقوال الطيِّبة التي فيها ذكر الله أو إحسانٌ إلى عباد الله. {وهُدوا إلى صراط الحميد}؛ أي: الصراط المحمود، وذلك لأنَّ جميع الشرع كله محتوٍ على الحكمة والحمد وحسن المأمور به وقُبح المنهيِّ [عنه]، وهو الدينُ الذي لا إفراط فيه ولا تفريطَ، المشتمل على العلم النافع والعمل الصالح. أو: وهُدوا إلى صراطِ الله الحميد؛ لأنَّ الله كثيراً ما يُضيف الصراط إليه؛ لأنَّه يوصِلُ صاحبه إلى الله. وفي ذكر الحميد هنا ليبيِّن أنهم نالوا الهداية بحمد ربِّهم ومنَّته عليهم، ولهذا يقولون في الجنة: {الحمدُ لله الذي هَدانا لهذا وما كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لولا أنْ هَدانا الله}.
[24] یہ سب کچھ اس سبب سے عطا ہو گا کہ ﴿وَهُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ﴾ ’’ان کی رہنمائی پاکیزہ بات کی طرف کی گئی ۔‘‘ جس میں سب سے افضل اور سب سے اچھا قول کلمۂ اخلاص ہے، پھر دیگر تمام اقوال طیبہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اچھے طریقے سے کرنا ہے۔ ﴿وَهُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ﴾ ’’اور ان کی رہنمائی کی گئی صراطِ حمید کی طرف۔‘‘ یعنی قابل ستائش طریقے کی طرف۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی تمام تر حکمت، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا، مامورات کے حسن اور منہیات کی قباحت پر مشتمل ہے اور یہ ایک ایسا دین ہے جس میں کوئی افراط اور تفریط نہیں جو علم نافع اور عمل صالح پر مبنی ہے۔ یا اس کا معنی یہ ہے کہ ان کی اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف رہنمائی کی گئی، وہ اللہ جو قابل تعریف ہے، اس لیے کہ اکثر راستے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ چلنے والے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے (الحمید) کا ذکر فرمایا کیونکہ اہل ایمان یعنی اس راستے پر گامزن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور اس کے احسان ہی کی بنا پر ہدایت حاصل کی۔ بنابریں وہ جنت میں کہیں گے: ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰؔىنَا لِهٰؔذَا١۫ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰؔىنَا اللّٰهُ﴾ (الاعراف؍43) ’’ہر قسم کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں جنت کی راہ دکھائی، ہم خود کبھی یہ راہ نہ پا سکتے اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا۔‘‘
#
{18} واعترض تعالى بين هذه الآيات بذكر سجودِ المخلوقات له؛ جميع من في السماوات والأرض، والشمس، والقمر، والنجوم، والجبال، والشجر، والدوابِّ الذي يشمل الحيوانات كلَّها. وكثير من الناس، وهم المؤمنون: {وكثيرٌ حقَّ عليه العذاب}؛ أي: وَجَبَ وكُتِبَ لكفره وعدم إيمانه، فلم يوفِّقْه الله للإيمان؛ لأنَّ الله أهانه. {وَمَن يُهِنِ الله فما له من مكرم}: ولا رادَّ لما أراد، ولا معارِضَ لمشيئتِهِ؛ فإذا كانت المخلوقات كلُّها ساجدةً لربِّها، خاضعةً لعظمتِهِ، مستكينةً لعزَّته، عانيةً لسلطانه؛ دلَّ أنه وحده الربُّ المعبودُ الملكُ المحمودُ، وأنَّ من عدل عنه إلى عبادة سواه؛ فقد ضلَّ ضلالاً بعيداً، وخسر خسراناً مُبيناً.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ کے درمیان، جملہ معترضہ کے طور پر اپنے لیے مخلوقات کے سجدے کا ذکر فرمایا ہے، یعنی آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات، سورج، چاند، ستاروں ، پہاڑ، زمین پر چلنے والے تمام جاندار یعنی تمام حیوانات اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد یعنی اہل ایمان کے سجدے کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ وَؔكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ ﴾ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کے کفر اور عدم ایمان کی وجہ سے ان پر عذاب واجب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق نہ بخشی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسوا کیا ﴿ وَمَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ﴾ ’’اور جس کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے تو کوئی اس کو عزت دینے والا نہیں۔‘‘ اور کوئی اس کو اس کے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا اور نہ کوئی ہستی اس کی مشیت کی مخالفت کر سکتی ہے۔ پس جب تمام مخلوق اپنے رب کے حضور سربسجود، اس کی عظمت کے سامنے سرافگندہ، اس کے غلبہ کے سامنے عاجز و فروتن اور اس کے تسلط کے سامنے لاچار ہے۔ تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہی اکیلا رب معبود اور بادشاہ محمود ہے اور جو کوئی اس سے روگردانی کر کے کسی اور کی عبادت کرتا ہے تو وہ بہت دور کی گمراہی اور واضح خسارے میں جا پڑا۔
آیت: 25 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (25)}.
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور وہ روکتے ہیں اللہ کی راہ سےاور مسجد حرام سے وہ جو بنایا ہم نے اسے(سب) لوگوں کے لیے، برابر ہے مقیم اس میں اور باہر سے آنے والا اورجو شخص ارادہ کرے اس میں کج روی کا ظلم سے ہم چکھائیں گے اسے عذاب نہایت درد ناک (25)
#
{25} يخبر تعالى عن شناعةِ ما عليه المشركون الكافرون بربِّهم، وأنَّهم جَمَعوا بين الكفر بالله ورسلِهِ، وبين الصدِّ عن سبيل الله، ومَنْع الناس من الإيمان، والصدِّ أيضاً عن المسجد الحرام الذي ليس ملكاً لهم ولا لآبائهم، بل الناس فيه سواءٌ المقيمُ فيه والطارئ إليه، بل صدُّوا عنه أفضل الخلق محمداً وأصحابه، والحالُ أنَّ المسجد الحرام من حرمتِهِ واحترامه وعظمتِهِ أنَّ {مَن يُرِدْ فيه بإلحادٍ بظُلْم نُذِقْهُ من عذابٍ أليم}؛ فمجرَّد الإرادة للظُّلم والإلحاد في الحرم موجبٌ للعذاب، وإنْ كان غيرُهُ لا يعاقَب العبدُ إلاَّ بعمل الظُّلم؛ فكيف بمن أتى فيه أعظمَ الظُّلم من الكفر والشرك والصدِّ عن سبيله ومنع من يريدُهُ بزيارةٍ؟! فما ظنُّهم أن يفعلَ الله بهم؟! وفي هذه الآية الكريمة وجوبُ احترام الحرم وشدَّة تعظيمه والتحذير من إرادة المعاصي فيه وفعلها.
[25] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی برائی کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، انھوں نے اللہ اور اس کے رسول (e) کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، لوگوں کو ایمان لانے سے منع کیا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکا، جو ان کی ملکیت ہے نہ ان کے باپ دادا کی۔ بلکہ مسجد حرام مقیم اور دور سے زیارت کے لیے آنے والوں کے لیے برابر ہے۔ بلکہ انھوں نے مخلوق میں افضل ترین ہستی محمدe اور آپ کے اصحاب کرام کو بھی مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا، حالانکہ مسجد حرام کا احترام، حرمت اور عظمت یہ ہے کہ جو کوئی اس مسجد میں الحاد اور ظلم کا ارادہ کرتا ہے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھاتے ہیں ۔پس حرم میں مجرد ظلم اور الحاد کا ارادہ ہی عذاب کا موجب ہے، حالانکہ دیگر گناہوں میں بندے کو صرف اس وقت سزا ملتی ہے جب وہ اپنے ارادۂ گناہ پر عمل کرتا ہے۔ تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو مسجد میں سب سے بڑے گناہ یعنی کفر اور شرک کا ارتکاب کرتا ہے، لوگوں کو اللہ کے راستے سے اور زیارت کا ارادہ رکھنے والوں کو مسجد حرام سے روکتا ہے۔ تمھارا کیا خیال ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ اس آیت کریمہ میں حرم کے احترام اور اس کی شدت تعظیم کے وجوب کا اور اس کے اندر ارادۂ معصیت اور اس کے ارتکاب سے بچنے کی تاکید کا اثبات ہے۔
آیت: 26 - 29 #
{وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26) وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (28) ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (29)}.
اور جب مقرر کر دی ہم نے واسطے ابراہیم کے جگہ بیت اللہ کی (اور اسے حکم دیا) یہ کہ نہ شریک ٹھہرانا تو میرے ساتھ کسی چیز کو بھی اور پاک کر تو میرا گھر طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدے کے لیے (26)اور تو اعلان کر دے لوگوں میں حج کا، وہ آئیں گے تیرے پاس پیدل اور (سوار ہو کر) اوپر ہر دبلے (پتلے) اونٹ کے وہ (اونٹ) آئیں گے ہر دور دراز راستے سے (27)تاکہ وہ حاضر ہوں منافع کے لیے واسطے اپنےاور (تاکہ) یاد کریں وہ (بوقت ذبح) نام اللہ کا ان ایام میں جو معلوم ہیں اوپر ان کے جو دیے ہیں ان کو (اللہ نے) چوپائے مویشیوں میں سے، پس کھاؤ تم ان میں سے اور کھلاؤ فاقہ کش فقیر کو (28) پھر چاہیے کہ وہ دور کریں میل کچیل اپنا اورچاہیے کہ پوری کریں اپنی نذریں (منتیں ) اور چاہیے کہ وہ طواف کریں قدیم گھر کا (29)
#
{26} يذكر تعالى عظمة البيت الحرام وجلالته وعظمة بانيه، وهو خليل الرحمن، فقال: {وإذْ بوَّأنا لإبراهيمَ مكانَ البيتِ}؛ أي: هيأناه له وأنزلناه إياه، وجعل قسماً من ذُرِّيَّتِهِ من سكانه، وأمره الله ببنيانِهِ، فبناه على تقوى الله، وأسَّسه على طاعة الله، وبناه هو وابنُه إسماعيل، وأمره أن لا يُشْرِكَ به شيئاً؛ بأن يُخْلِصَ لله أعمالَه ويبنيه على اسم الله. {وَطَهِّرْ بيتيَ}؛ أي: من الشرك والمعاصي ومن الأنجاس والأدناس، وأضافَهُ الرحمن إلى نفسه لشرفه وفضله ولتعظُمَ محبتُه في القلوب، وتنصبَّ إليه الأفئدة من كلِّ جانب، وليكونَ أعظم لتطهيرِه وتعظيمِهِ؛ لكونه بيتَ الربِّ للطائفين به والعاكفين عنده، المقيمين لعبادةٍ من العبادات من ذكرٍ وقراءةٍ وتعلُّم علم وتعليمِهِ وغير ذلك من أنواع القرب، {والرُّكَّع السُّجود}؛ أي: المصلين؛ أي: طهره لهؤلاء الفضلاء الذين همُّهم طاعة مولاهم وخدمتُه والتقرُّب إليه عند بيته؛ فهؤلاء لهم الحقُّ ولهم الإكرام، ومن إكرامهم تطهيرُ البيت لأجلهم. ويدخل في تطهيرِه تطهيرُهُ من الأصوات اللاغية والمرتفعة التي تشوِّشُ على المتعبِّدين بالصلاة والطواف. وقدَّم الطواف على الاعتكاف والصلاة لاختصاصه بهذا البيت، ثم الاعتكاف لاختصاصِهِ بجنس المساجد.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ مسجد حرام کی عظمت و جلال اور اس کے بانی، رحمان کے خلیل، ابراہیم u کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰؔهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ ﴾ ’’اور جب ہم نے مقرر کر دی ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ۔‘‘ یعنی ہم نے ان کے لیے اسے مہیا کر دیا ، آپ کو وہاں رہنے کے لیے بھیج دیا اور آپ کی اولاد کے ایک حصے کو وہاں آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم u کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا پس آپ نے بیت اللہ کو تقویٰ اور اطاعت الٰہی کی اساس پر تعمیر کیا۔ بیت اللہ کو آپ اور آپ کے بیٹے اسماعیلi نے مل کر تعمیر کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، نیز یہ کہ اپنے اعمال کو اللہ کے لیے خالص کریں اور اس مقدس گھر کی اللہ تعالیٰ کے نام پر بنیاد رکھیں ۔ ﴿ وَّطَهِّرْ بَیْتِیَ ﴾ یعنی میرے گھر کو شرک، معاصی، نجاست اور گندگی سے پاک کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو شرف اور فضیلت بخشنے، بندوں کے دلوں میں اس کی عظمت کو اجاگر کرنے اور ہر جانب سے دلوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے اپنی طرف مضاف کیا ہے تاکہ یہ طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں ، ذکر، قراء ت قرآن، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں کے لیے رب تعالیٰ کا گھر ہونے کے ناطے سے اپنی تطہیر اور تعظیم کے لیے عظیم ترین گھر ہو۔ ﴿وَالرُّكَّ٘عِ السُّجُوْدِ ﴾ ’’اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی نماز پڑھنے والوں کے لیے، یعنی اس گھر کو ان اصحاب فضیلت کے لیے پاک کیجیے جن کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اس گھر کے پاس اپنے آقا کی اطاعت اور اس کی خدمت کریں ، نیز اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ یہی لوگ حقدار ہیں اور انھیں کے لیے اکرام ہے۔ ان کا اکرام یہ ہے کہ ان کی خاطر اس گھر کی تطہیر کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تطہیر میں لغو آوازوں اور شور و شغب سے اس کا پاک صاف ہونا بھی شامل ہے جو نماز اور طواف میں مصروف لوگوں کو تشویش میں ڈالتی ہیں ۔ طواف کو اعتکاف اور نماز پر اس لیے مقدم رکھا ہے کیونکہ طواف صرف اسی گھر کے ساتھ مختص ہے اور پھر اعتکاف کا ذکر کیا کیونکہ وہ تمام مساجد سے مختص ہے۔
#
{27} {وأذِّنْ في الناس بالحجِّ}؛ أي: أعلِمْهم به، وادْعُهم إليه، وبلِّغْ دانِيَهم وقاصِيَهم فرضَه وفضيلتَه؛ فإنَّك إذا دعوتَهم؛ أتوْك حُجاجاً وعماراً. {رجالاً}؛ أي: مشاة على أرجلهم من الشوق، {وعلى كلِّ ضامرٍ}؛ أي: ناقة ضامرٍ تقطع المهامةَ والمفاوِزَ، وتواصِل السير حتى تأتي إلى أشرف الأماكن، {من كلِّ فجٍّ عميقٍ}؛ أي: من كلِّ بلدٍ بعيدٍ. وقد فعل الخليلُ عليه السلام ثم مِنْ بعدِهِ ابنُه محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، فدعيا الناس إلى حجِّ هذا البيت، وأبْدَيا في ذلك وأعادا، وقد حَصَلَ ما وَعَدَ اللَّه به؛ أتاه الناس رجالاً وركباناً من مشارق الأرض ومغاربها.
[27] ﴿ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْ٘حَجِّ ﴾ یعنی حج کے بارے میں ان کو آگاہ کیجیے اور ان کو حج کی دعوت دیجیے، نیز قریب اور دور کے رہنے والے تمام لوگوں کو حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کی تبلیغ کیجیے کیونکہ جب آپ ان کو حج کی دعوت دیں گے تو حج کے ارادے سے آپ کے پاس آئیں گے اور اس گھر کو آباد کرنے کے شوق میں پیدل چل کر آئیں گے ﴿ وَّعَلٰى كُ٘لِّ ضَامِرٍ ﴾ لاغر اونٹنیوں پر مسلسل سفر کرتے ہوئے، صحراؤں اور بیابانوں کو چیرتے ہوئے سب سے زیادہ شرف کے حامل اس مقام پر پہنچیں گے ﴿ مِنْ كُ٘لِّ فَ٘جٍّ عَمِیْقٍ﴾ ’’دوردراز کی تمام راہوں سے۔‘‘ یعنی لوگ تمام دور دراز کے شہروں سے پہنچیں گے۔ حضرت خلیل u نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے حضرت محمد مصطفیe نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ دونوں مقدس ہستیوں نے لوگوں کو اس گھر کے حج کی دعوت دی، ان دونوں نے ابتداء کی اور اس کا اعادہ کیا اور وہ مقصد حاصل ہو گیا جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا… اور لوگ مشرق و مغرب سے پیدل اور سوار ہو کر بیت اللہ کی زیارت کے لیے پہنچے۔
#
{28} ثم ذكر فوائد زيارة بيت الله الحرام مرغباً فيه، فقال: {لِيَشْهَدوا منافعَ لهم}؛ أي: لينالوا ببيت الله منافع دينيَّة من العبادات الفاضلة، والعبادات التي لا تكون إلاَّ فيه، ومنافع دنيويَّة، من التكسُّب وحصول الأرباح الدنيويَّة، وكلُّ هذا أمرٌ مشاهدٌ، كلٌّ يعرفه. {ويذكُروا اسم الله على ما رَزَقَهم من بهيمةِ الأنعام}: وهذا من المنافع الدينيَّة والدنيويَّة؛ أي: ليذكروا اسم الله عند ذبح الهدايا شكراً لله على ما رَزَقَهم منها ويسَّرها لهم؛ فإذا ذبحتموها؛ {فكلوا منها وأطعموا البائسَ الفقير}؛ أي: شديد الفقر.
[28] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ترغیب کی خاطر ان فوائد کا ذکر فرمایا جو بیت اللہ کی زیارت سے حاصل ہوتے ہیں ، چنانچہ فرمایا ﴿ لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ ﴾ تاکہ بیت اللہ میں دینی منافع، یعنی فضیلت والی عبادات اور ان عبادات کا ثواب حاصل کریں جو اس گھر کے سوا کہیں اور نہیں کی جا سکتیں اور دنیاوی منفعتیں ، یعنی اکتساب مال اور دنیاوی فوائد حاصل کریں ۔ یہ مشاہدہ میں آنے والا ایسا امر ہے جسے ہر شخص جانتا ہے۔ ﴿ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَ یَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ ’’اور اللہ کا نام یاد کریں پالتو چوپایوں پر جو اللہ نے ان کو دیے۔‘‘ اور یہ چیز دینی اور دنیاوی منافع میں شمار ہوتی ہے، یعنی قربانیوں کو ذبح کرتے وقت، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے، کہ اس نے یہ قربانیاں عطا فرمائیں اور ان کے لیے یہ قربانیاں میسر کیں … ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں اور جب تم ان کو ذبح کر چکو ﴿ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَ﴾ ’’تو خود بھی اس میں سے کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔‘‘ یعنی اسے بھی کھلاؤ جو سخت محتاج ہو۔
#
{29} {ثم لْيَقْضوا تَفَثَهُم}؛ أي: يقضوا نُسُكَهم ويزيلوا الوسخ والأذى الذي لَحِقَهم في حال الإحرام، {وَلْيوفوا نُذورَهم}: التي أوجبوها على أنفسهم من الحجِّ والعمرة والهدايا، {ولْيَطَّوَّفوا بالبيتِ العتيق}؛ أي: القديم، أفضل المساجد على الإطلاق، المعَتق من تسلُّط الجبابرة عليه. وهذا أمرٌ بالطواف، خصوصاً بعد الأمر بالمناسك عموماً؛ لفضلِهِ وشرفِهِ، ولكونِهِ المقصودَ، وما قبلَه وسائلُ إليه. ولعلَّه والله أعلم أيضاً لفائدة أخرى، وهو أنَّ الطواف مشروعٌ كلَّ وقتٍ، وسواء كان تابعاً لِنُسُكٍ أم مستقلاًّ بنفسه.
[29] ﴿ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ ﴾ ’’پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں ۔‘‘ یعنی اپنے مناسک پورے کریں اور پھر اپنے جسم سے وہ میل کچیل دور کریں جو حالت احرام میں ان کو لاحق ہو گیا تھا ﴿ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ ﴾ اور اپنی نذروں کو پورا کریں جو انھوں نے اپنے آپ پر واجب کی تھیں ، یعنی حج، عمرہ اور ہدی وغیرہ ﴿وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْ٘عَتِیْقِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے قدیم گھر کا طواف کریں جو علی الاطلاق تمام مساجد میں سب سے افضل ہے اور ہر جابر و سرکش کے تسلط سے آزاد ہے۔ یہ طواف کا حکم ہے، تمام مناسک کا عمومی حکم دینے کے بعد اس کے فضل و شرف کی بنا پر یہ خصوصی حکم ہے کیونکہ یہ بالذات مقصود ہے اور اس سے قبل تمام امور اس مقصد کے حصول کے وسائل اور ذرائع ہیں ۔ اور شاید… واللہ اعلم… اس میں ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ ہے کہ طواف ہر وقت اور ہر آن مشروع ہے خواہ یہ طواف مناسک حج کے تابع ہو یا بنفسہ مستقل حیثیت کا حامل ہو۔
آیت: 30 - 31 #
{ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (30) حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (31)}.
(حکم) یہی ہے اور جو شخص تعظیم کرے اللہ کی حرمتوں کی تو وہ بہت بہتر ہے اس کے لیے نزدیک اس کے رب کےاورحلال کیے گئے ہیں تمھارے لیے چوپائے سوائے ان کے جو پڑھے جاتے ہیں تم پر پس بچو تم ناپاکی سے بتوں کی اور بچو تم بات جھوٹی سے (30) یکسو ہو کر اللہ ہی کے لیے اس حال میں کہ نہ ہو شریک ٹھہرانے والے اس کے ساتھ اور جو کوئی شرک کرے اللہ کے ساتھ تو گویا وہ گرا آسمان سے اور اچک لے جائیں اسے پرندے یا (لے جا کر) گرا دے اسے ہوا کسی دور کے مکان میں (31)
#
{30} {ذلك}؛ أي: ذكرنا لكم من تلكُم الأحكام وما فيها من تعظيم حُرُمات الله وإجلالها وتكريمها؛ لأنَّ تعظيم حرماتِ الله من الأمورِ المحبوبة لله المقرِّبة إليه التي من عَظَّمَها وأجَلَّها أثابه الله ثواباً جزيلاً، وكانت خيراً له في دينِهِ ودُنياه وأخراه عند ربِّه. وحرماتُ الله كلُّ ما له حرمةٌ وأمَرَ باحترامِهِ من عبادةٍ أو غيرها؛ كالمناسك كلها، وكالحرم والإحرام، وكالهدايا، وكالعبادات التي أمر الله العباد بالقيام بها؛ فتعظيمُها إجلالاً بالقلب ومحبَّتها وتكميلُ العبوديَّة فيها غير متهاونٍ ولا متكاسل ولا متثاقل. ثم ذَكَرَ منَّته وإحسانَه بما أحلّه لعبادِهِ من بهيمة الأنعام من إبل وبقرٍ وغنم، وشرعها من جملة المناسك التي يُتَقَرَّبُ بها إليه، فعظمت منَّته فيها من الوجهين. {إلاَّ ما يُتلى عليكم} في القرآن تحريمُه من قوله: {حُرِّمَتْ عليكُم الميتةُ والدَّم ولحم الخنزير ... } الآية. ولكن الذي من رحمته بعباده أنْ حرَّمه عليهم ومَنَعَهم منه تزكيةً لهم وتطهيراً من الشرك به وقول الزور ، ولهذا قال: {فاجتنبوا الرجسَ}؛ أي: الخبث القذر {من الأوثانِ}؛ أي: الأنداد التي جعلتموها آلهةً مع الله؛ فإنَّها أكبرُ أنواع الرجس. والظاهر أنَّ {مِن} هنا ليست لبيان الجنس كما قاله كثيرٌ من المفسرين، وإنَّما هي للتبعيض، وأنَّ الرجس عامٌّ في جميع المنهيَّات المحرَّمات، فيكون منهيًّا عنها عموماً، وعن الأوثان التي هي بعضُها خصوصاً، {واجْتَنِبوا قولَ الزُّور}؛ أي: جميع الأقوال المحرمات؛ فإنَّها من قول الزُّور، [الذي هو الكذب ومن ذلك شهادة الزور، فلما نهاهم عن الشرك والرجس وقول الزور].
[30] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی وہ احکام جن کا ہم تمھارے سامنے ذکر کر چکے ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم توقیر اور تکریم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب اور اس کے تقرب کا ذریعہ ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم و توقیر کی، اللہ تعالیٰ اسے بے پایاں ثواب عطا کرے گا یہ حرمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کے دین، دنیا اور آخرت میں اس کے لیے بہتر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی حرمات سے مراد، وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محترم ہیں اور جن کے احترام کا اس نے حکم دیا ہے، یعنی عبادات وغیرہ، مثلاً: تمام مناسک حج، حرم اور احرام، بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور اور وہ تمام عبادات جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ پس ان کی تعظیم یہ ہے کہ دل سے ان کی توقیر اور ان کے ساتھ محبت کی جائے اور کسی تحقیر، سستی اور بے دلی کے بغیر ان میں عبودیت کی تکمیل کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی نوازشات کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے چوپایوں میں سے مویشی حلال کر دیے، مثلاً:اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ اور ان کو ان جملہ مناسک میں مشروع کیا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے ان میں اللہ تعالیٰ کی عنایت بہت عظیم ہو گئی ہے۔ ﴿ اِلَّا مَا یُ٘تْ٘لٰى عَلَیْكُمْ ﴾ ’’سوائے ان جانوروں کے جن کی تلاوت تم پر کی جاتی ہے۔‘‘ یعنی جن کی تحریم قرآن مجید میں بایں الفاظ ہے۔ ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْ٘مَوْقُ٘وْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ۠ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَاۤ اَكَ٘لَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّـیْتُمْ١۫ وَمَا ذُبِـحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ (المائدۃ:5؍3) ’’حرام کر دیا گیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور جس کو درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کر لو اور وہ جانور جن کو استھانوں پر ذبح کیا جائے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ان کے تزکیہ کے لیے اور شرک اور جھوٹی بات سے تطہیر کی خاطر حرام قرار دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا: ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ ﴾ یعنی خبث اور گندگی سے اجتناب کرو۔ ﴿ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ ’’یعنی بتوں سے‘‘ یعنی ہمسروں سے، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا رکھا ہے، یہ معبودان باطل سب سے بڑی گندگی ہیں ۔ ظاہر ہے یہاں حرفِ جار (من) بیان جنس کے لیے نہیں ہے، جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے بلکہ یہ تبعیض کے لیے ہے اور (رجس) تمام منہیات محرمات کے لیے عام ہے تب یہ نہی عام ہے اور بتوں کی گندگی سے اجتناب کا حکم خاص ہے، جو حرام شدہ منہیات ہی کا حصہ ہے ﴿ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ﴾ یعنی تمام حرام شدہ اقوال سے اجتناب کرو کیونکہ یہ سب جھوٹی کلام میں شمار ہوتے ہیں ۔
#
{31} أمرهم أن يكونوا {حُنَفاء لله}؛ أي: مقبلين عليه وعلى عبادته، معرِضين عما سواه. {غير مشركين بِهِ ومَن يشرِكْ بالله}: فمثله {فكأنَّما خَرَّ من السماء}؛ أي: سقط منها، {فَتَخْطَفُه الطيرُ}: بسرعة، {أو تَهْوي به الريحُ في مكانٍ سحيقٍ}؛ أي: بعيد. كذلك المشركون ؛ فالإيمان بمنزلة السماء محفوظة مرفوعة، ومن تَرَكَ الإيمان بمنزلة الساقط من السماء عرضة للآفات والبليَّات؛ فإما أن تَخْطَفَهُ الطيرُ فتقطِّعَه أعضاءً، كذلك المشرك إذا ترك الاعتصام بالإيمان؛ تخطفتْه الشياطينُ من كلِّ جانب، ومزَّقوه، وأذهبوا عليه دينَه ودُنياه.
[31] اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ﴿ حُنَفَآءَؔ لِلّٰهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کے لیے یکسور ہیں یعنی ہر ماسوا سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں ۔ ﴿ وَمَنْ یُّشْ٘رِكْ بِاللّٰهِ ﴾ ’’اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔‘‘ اس کی مثال ایسے ہے۔ ﴿ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ ﴾ جیسے کہ وہ آسمان سے گر پڑا ہو۔ ﴿ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ ﴾ ’’پس پرندوں نے اسے اچک لیا ہو‘‘ نہایت سرعت سے ﴿ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ ﴾ ’’یا ہوا اسے کہیں دور لے جا کر پھینک دے۔‘‘ یہی حال مشرکین کا ہے۔ پس ایمان آسمان کی مانند محفوظ اور بلند ہے اور جس نے ایمان کو ترک کر دیا وہ اس چیز کی مانند ہے جو آسمان سے گرے اور آفات و بلیات کا شکار ہو جائے تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں اور اس کے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں ۔ مشرک کا یہی حال ہے جب وہ ایمان کو ترک کر دیتا ہے تو شیاطین ہر جانب سے اسے اچک لیتے ہیں ، اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور اس کا دین اور دنیا تباہ کر دیتے ہیں … یا اسے سخت تیز ہوا لے اڑتی ہے اور اسے فضا کے مختلف طبقات میں لیے پھرتی ہے اور اس کے اعضاء کے چیتھڑے بنا کر کہیں دور جا پھینکتی ہے۔
آیت: 32 - 33 #
{ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (32) لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (33)}.
(بات) یہی ہےاور جو شخص تعظیم کرے اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں کی تو بلاشبہ یہ ہے دلوں کی پرہیز گاری سے (32)تمھارے لیے ان (چوپایوں ) میں منافع ہیں ایک وقت مقرر تک ، پھر ان کے حلال (ذبح) ہو نے کی جگہ ہے نزدیک قدیم گھر (بیت اللہ) کے (33)
#
{32} أي: ذلك الذي ذكرنا لكم من تعظيم حُرُماتِهِ وشعائِرِه، والمرادُ بالشعائرِ أعلامُ الدين الظاهرة: ومنها: المناسك كلُّها؛ كما قال تعالى: {إنَّ الصَّفا والمروة من شعائر الله}. ومنها: الهدايا والقُربان للبيتِ، وتقدَّم أنَّ معنى تعظيمها إجلالها والقيام بها وتكميلها على أكمل ما يقدِرُ عليه العبد. ومنها: الهدايا؛ فتعظيمُها باستحسانها واستسمانها، وأن تكون مكمَّلةً من كلِّ وجهٍ. فتعظيمُ شعائِر الله صادرٌ من تَقْوى القلوب؛ فالمعظِّم لها يبرهِنُ على تقواه وصحَّة إيمانِهِ؛ لأنَّ تعظيمها تابعٌ لتعظيم الله وإجلاله.
[32] یعنی اللہ تعالیٰ کی وہ حرمات اور اس کے شعائر کی تعظیم جس کا ہم نے تمھارے سامنے ذکر کیا ہے اور شعائر سے مراد دین کی ظاہری علامات ہیں ۔ انھی شعائر میں تمام مناسک حج شامل ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الصَّفَا وَالْ٘مَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ:2؍158) ’’صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں ۔‘‘ بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور بھی اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور گزشتہ سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان شعائر کی تعظیم سے مراد ان کی توقیر، ان کو قائم کرنا اور بندے کی استطاعت اور قدرت کے مطابق ان کی تکمیل کرنا ہے۔ ہدی یعنی بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانوربھی شعائر اللہ میں سے ہیں ۔ پس ان کی تعظیم سے مراد ان کی توقیر کرنا ان کو اچھا جاننا اور ان کو موٹا کرنا ہے، نیز یہ کہ قربانی کے یہ جانور ہر لحاظ سے کامل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم، دلوں کے تقویٰ سے صادر ہوتی ہے۔ پس شعائر کی تعظیم کرنے والا اپنے تقویٰ اور صحت ایمان کی دلیل پیش کرتا ہے، اس لیے کہ شعائر کی تعظیم دراصل اللہ تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کے تابع ہے۔
#
{33} {لكم فيها}؛ أي: في الهدايا، {منافعُ إلى أجل مسمًّى}: هذا في الهدايا المسوقة من البُدْن ونحوها؛ ينتفعُ بها أربابُها بالرُّكوب والحَلْبِ ونحو ذلك مما لا يضرُّها إلى أجل مسمًّى مقدَّر موقتٍ، وهو ذبحهُا إذا وصلت مَحِلَّها، وهو {البيت العتيق}؛ أي: الحرم كلُّه، منىً وغيرها؛ فإذا ذُبِحَتْ؛ أكلوا منها وأهْدَوْا وأطعَموا البائس الفقير.
[33] ﴿ لَكُمْ فِیْهَا ﴾ ’’تمھارے لیے ان میں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر کو بھیجی گئی قربانیوں میں ﴿ مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’ایک مقررہ مدت تک فائدے ہیں ۔‘‘ بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے اونٹوں وغیرہ میں ایک مدت کے لیے چند فوائد ہیں جن سے ان کے مالک استفادہ کر سکتے ہیں ، مثلاً: ان پر سوار ہونا اور ان کے دودھ دوہنا وغیرہ اور ایسے ہی بعض دیگر کام، جن سے ان قربانیوں کو ضرر نہ پہنچے۔ ﴿ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ یعنی ان کے ذبح ہونے کے وقت تک فوائد ہیں ۔ جب وہ مقام مقصود پر پہنچ جائیں اور وہ (البیت العتیق) ’’بیت اللہ‘‘ ہے، یعنی سارا حرم، منیٰ وغیرہ۔ پس جب ان کو ذبح کر دیا جائے تو ان کا گوشت خود بھی کھاؤ، ہدیہ بھیجو اور محتاجوں کو کھلاؤ۔
آیت: 34 - 35 #
{وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (34) الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (35)}.
اور واسطے ہر امت کے مقرر کی ہے ہم نے قربانی تاکہ یاد کریں وہ (بوقت ذبح) نام اللہ کا اوپر ان کے جو دیے انھیں (اللہ نے) چوپائے مویشیوں میں سے پس تمھارا معبود، معبود ایک ہی ہے، سو اسی کے لیے تم مطیع ہو جاؤاور خوشخبری سنا دیجیے عاجزی کرنے والوں کو (34) وہ لوگ کہ جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ کا تو ڈرجاتے ہیں ان کے دل اور وہ صبر کرنے والے ہیں اوپر اس (تکلیف) کے جوپہنچتی ہے انھیں اوروہ جو قائم کرنے والے ہیں نمازاور اس میں سے جو رزق دیا ہم نے ان کو، وہ خرچ کرتے ہیں (35)
#
{34} أي: {ولكلِّ أمةٍ}: من الأمم السالفة {جَعَلْنا منْسَكاً}؛ أي: فاستبقوا إلى الخيرات وتسارعوا إليها، ولننظر أيُّكم أحسن عملاً. والحكمة في جعل الله لكلِّ أمَّةٍ مَنْسَكاً؛ لإقامة ذكره والالتفات لشكره، ولهذا قال: {لِيَذْكُروا اسم الله على ما رَزَقَهم من بهيمةِ الأنعام فإلهكُم إلهٌ واحدٌ}: وإن اختلفتْ أجناسُ الشرائع؛ فكلُّها متفقةٌ على هذا الأصل، وهو ألوهيَّة الله وإفرادُهُ بالعبوديَّة وترك الشرك به، ولهذا قال: {فله أسْلِموا}؛ أي: انقادوا واستسلموا له لا لغيرِهِ؛ فإنَّ الإسلامَ له طريق إلى الوصول إلى دار السلام. {وبشَّرِ المخبِتينَ}: بخير الدُّنيا والآخرة، والمخبِتُ، الخاضع لربِّه، المستسلم لأمره، المتواضع لعباده.
[34] ہم نے گزشتہ تمام قوموں کے لیے قربانی کو مشروع کیا ہے۔ پس تم تیزی کے ساتھ نیکیوں کی طرف بڑھو تاکہ ہم دیکھیں کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے طریقے کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم اور اس کے شکر کی طرف التفات ہو، اس لیے فرمایا: ﴿ لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ ﴾ اگرچہ تمام شریعتیں مختلف ہیں مگر ایک اصول پر سب متفق ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی الوہیت، اللہ تعالیٰ اکیلے کا عبودیت کا مستحق ہونا اور اس کے ساتھ شرک کا ترک کر دینا، اس لیے فرمایا: ﴿ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ﴾ یعنی اسی کی اطاعت کرو اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرو، اس کے سوا کسی کی اطاعت نہ کرو کیونکہ اس کی اطاعت ہی سلامتی کے گھر تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ ﴿وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ﴾ یعنی عاجزی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی خوشخبری دو (اَلْمُخْبِت) سے مراد اپنے رب کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرنے والا، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا اور اس کے بندوں کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آنے والا ہے۔
#
{35} ثم ذكر صفاتِ المخبتين، فقال: {الذين إذا ذُكِرَ الله وَجِلَتْ قلوبُهم}؛ أي: خوفاً وتعظيماً، فتركوا لذلك المحرَّمات لخوفهم ووجلهم من الله وحده. {والصابرين على ما أصابَهم}: من البأساء والضرَّاء وأنواع الأذى؛ فلا يجري منهم التسخُّطِ لشيءٍ من ذلك، بل صبروا ابتغاء وجه ربِّهم؛ محتسبينَ ثوابه، مرتقبين أجرَه. {والمقيمي الصلاةِ}؛ أي: الذين جَعَلوها قائمةً مستقيمةً كاملةً؛ بأن أدَّوا اللازمَ فيها والمستحبَّ وعبوديَّتها الظاهرة والباطنة. {ومما رَزَقْناهم يُنفِقونَ}: وهذا يشملُ جميع النفقات الواجبة؛ كالزَّكاة والكفَّارة والنفقة على الزوجات والمماليك والأقارب، والنفقات المستحبَّة؛ كالصدقات بجميع وجوهها. وأتى بـ {من} المفيدة للتبعيض لِيُعْلَمَ سهولةُ ما أمر الله به ورغَّب فيه، وأنَّه جزءٌ يسيرٌ مما رَزَقَ الله، ليس للعبدِ في تحصيلِهِ قدرةٌ لولا تيسيرُ الله له ورزقُه إيَّاه؛ فيا أيُّها المرزوق من فضل الله! أنفِقْ مما رَزَقَكَ الله؛ ينفِق اللهُ عليك ويزِدْك من فضله.
[35] پھر اللہ تعالیٰ نے عاجزی کرنے والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُ٘لُوْبُهُمْ ﴾ ’’وہ لوگ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور صرف اس کے خوف ہی کی بنا پر محرمات کو ترک کر دیتے ہیں ﴿ وَالصّٰؔبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ ﴾ ان پر جو مصیبتیں اور سختیاں آتی ہیں اور انھیں جن مختلف اقسام کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان پر صبر کرتے ہیں ، ان میں سے کسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ناراضی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اپنے رب کی رضا کے حصول کی خاطر صبر کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی امید رکھتے ہیں ۔ ﴿ وَالْ٘مُقِیْمِی الصَّلٰوةِ﴾ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو کامل اور درست طریقے سے قائم کرتے ہیں ، یعنی وہ اس کی ظاہری اور باطنی عبودیت اور اس کے تمام فرائض و مستحبات کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾ ’’اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔‘‘ یہ تمام نفقاتِ واجبہ، مثلاً:زكاة، کفارات، بیویوں ، غلاموں اور اقارب پر خرچ کرنا اور تمام نفقات مستحبہ جیسے تمام قسم کے صدقات ہیں ، کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرف جار (من) کا استعمال کیا ہے جو تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے، اس میں سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے رغبت کرے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا کیا ہے، یہ اس کا بہت معمولی حصہ ہے، اس رزق کے حصول میں بندے کی قدرت کو کوئی دخل نہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کے حصول کو آسان نہ بناتا اور اس کو عطا نہ کرتا تو بندہ اسے حاصل نہ کر سکتا… پس اے وہ شخص! جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کو خرچ کر، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کرے گا اور اپنے فضل سے تیرے رزق میں اضافہ کرے گا۔
آیت: 36 - 37 #
{وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (36) لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (37)}.
اور قربانی کے اونٹ بنایا ہے ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ (کی عظمت) کی نشانیوں میں سے، تمھارے لیے ان میں بہت بھلائی ہے، پس یاد کرو تم نام اللہ کا ان پر صف بستہ (کھڑا کر کے) ، پھر جب گر جائیں (زمین پر) ان کے پہلو تو تم کھاؤ ان میں سے اورکھلاؤ بے سوالی محتاج اور سوالی (ضرورت مند) کو، اسی طرح تابع کر دیا ہم نے ان (چوپایوں ) کو تمھارے لیے تاکہ تم شکر کرو (36) ہرگز نہیں پہنچیں گے اللہ کو ان کے گوشت اور نہ ان کے خون لیکن پہنچے گا اسے تقویٰ تمھارا، اسی طرح اللہ نے تابع کر دیا ان کو واسطے تمھارے تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اوپر اس کے کہ اس نے ہدایت دی تمھیں اور خوشخبری سنا دیجیے نیکی کرنے والوں کو (37)
#
{36} هذا دليل على أن الشعائر عامٌّ في جميع أعلام الدين الظاهرة، وتقدَّم أنَّ الله أخبر أنَّ مَنْ عَظَّمَ شعائِرَه؛ فإنَّ ذلك من تقوى القلوب، وهنا أخبر أن من جُملة شعائرِهِ البُدْنَ؛ أي: الإبل والبقر على أحد القولين، فَتُعَظَّمُ وتستسمن وتُستحسن. {لكم فيها خيرٌ}؛ أي: المهدي وغيره من الأكل والصدقة والانتفاع والثواب والأجر. {فاذكُروا اسم الله عليها}؛ أي: عند ذبحها، قولوا: بسم الله، واذْبَحوها {صَوَافَّ}؛ أي: قائماتٍ؛ بأنْ تُقام على قوائمها الأربع، ثم تُعْقَلُ يدُها اليُسرى، ثم تُنْحَر. {فإذا وَجَبَتْ جُنوبها}؛ أي: سقطت في الأرض جُنوبها حين تُسلخ ثم يسقِطُ الجزارُ جنوبَها على الأرض؛ فحينئذٍ قد استعدَّتْ لأن يُؤْكَلَ منها؛ {فكلوا منها}: وهذا خطابٌ للمهدي، فيجوز له الأكل من هديِهِ، {وأطعِموا القانعَ والمعتَرَّ}؛ أي: الفقير الذي لا يسأل تقنُّعاً وتعففاً، والفقير الذي يسألُ؛ فكلٌّ منهما له حقٌّ فيهما. {كذلك سخَّرْناها لكم}؛ أي: البدن، {لعلَّكم تشكرونَ}: الله على تسخيرها؛ فإنَّه لولا تسخيرُه لها؛ لم يكنْ لكم بها طاقةٌ، ولكنَّه ذلَّلها لكم وسخَّرها رحمةً بكم وإحساناً إليكم؛ فاحْمَدوه.
[36] یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ ’’شعائر‘‘ دین کی تمام ظاہری علامات میں عام ہے۔ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔ یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ شعائر میں (البدن) بھی داخل ہیں ۔ ایک قول کے مطابق ’’بدن‘‘ وہ اونٹ اور گائے وغیرہ ہیں جن کو قربانی کے لیے بڑا اور موٹا کیا جائے اور ان کو اچھا جانا جائے۔ ﴿ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ﴾ یعنی قربانی دینے والے کے لیے اس میں بھلائی ہے یعنی اس میں سے کھانا، صدقہ کرنا، اس سے متمتع ہونا اور اجروثواب ، سب بھلائی ہے ﴿ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا ﴾ یعنی ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر ان کو ذبح کیا کرو۔ ﴿ صَوَآفَّ ﴾ یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں ان کو ذبح کرو۔ ان کو چاروں پاؤں پہ کھڑا کرو پھر ان کا اگلا بایاں پاؤں باندھ دو اور پھر ان کو نحر کرو۔ ﴿فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا﴾ جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں ، پھر قصاب ان کو زمین پر گرا کر اس کی کھال وغیرہ اتار دے تب یہ جانور کھائے جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ ﴿ فَكُلُوْا مِنْهَا ﴾ ’’پس تم کھاؤ اس سے۔‘‘ یہ قربانی کرنے والے سے خطاب ہے۔ پس اس کا اپنی قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔ ﴿وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ یعنی اس محتاج کو بھی گوشت کھلاؤ جو قناعت اور عفت پسندی کی بنا پر سوال نہیں کرتا اور اس فقیر کو بھی قربانی کا گوشت دو جو اس کا سوال کرتا ہے۔ ہر ایک کا حق ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ ﴾ یعنی ہم نے ان قربانیوں کو تمھارے لیے مسخر کیا ﴿ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ تاکہ ان کی تسخیر پر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھارے لیے مسخر نہ کیا ہوتا تو تم میں ان کو مسخر کرنے کی طاقت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھارا مطیع بنایا، تم پر رحم اور احسان کرتے ہوئے ان کو تمھارے لیے مسخر کر دیا۔ پس اسی کی حمدوثنا بیان کرو۔
#
{37} وقوله: {لن ينالَ اللهَ لحومُها ولا دِماؤها}؛ أي: ليس المقصود منها ذبحها فقط، ولا ينالُ اللهَ من لحومها ولا دمائها شيءٌ؛ لكونه الغنيَّ الحميد، وإنَّما ينالُه الإخلاصُ فيها والاحتسابُ والنيَّة الصالحةُ، ولهذا قال: {ولكن ينالُهُ التَّقوى منكم}: ففي هذا حثٌّ وترغيبٌ على الإخلاص في النحر، وأن يكونَ القصدُ وجهَ الله وحدَه؛ لا فخراً ولا رياءً ولا سمعةً ولا مجرَّد عادةٍ، وهكذا سائر العبادات إن لم يقترِنْ بها الإخلاص وتقوى الله؛ كانتْ كالقُشورِ الذي لا لبَّ فيه والجسدِ الذي لا روح فيه. {كذلك سخَّرها لكُم لتكبِّروا الله}؛ أي: تعظِّموه وتُجِلُّوه، كما {هداكم}؛ أي: مقابلةً لهدايته إيَّاكم؛ فإنَّه يستحقُّ أكمل الثناء وأجلَّ الحمد وأعلى التعظيم. {وبشِّر المحسنينَ}: بعبادة الله؛ بأنْ يعبُدوا الله كأنَّهم يرونَه؛ فإنْ لم يصلوا إلى هذه الدرجة؛ فليعْبُدوه معتقدينَ وقتَ عبادتِهِم اطِّلاعَه عليهم ورؤيته إيَّاهم، والمحسنين لعبادِ الله بجميع وجوه الإحسان؛ من نفع مال أو علم أو جاه أو نُصح أو أمر بمعروفٍ أو نهي عن منكرٍ أو كلمةٍ طيِّبةٍ ونحو ذلك؛ فالمحسِنونَ لهم البشارةُ من الله بسعادة الدُّنيا والآخرة، وسَيُحْسِنُ الله إليهم كما أحْسَنوا في عبادته ولعباده؛ {هل جزاءُ الإحسانِ إلاَّ الإحسانُ}، {للذين أحسنوا الحُسنى وزيادةٌ}.
[37] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَ٘نْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا ﴾ یعنی ان کو فقط ذبح کرنا مقصود نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے بے نیاز اور قابل ستائش ہے اس کے پاس تو صرف بندوں کا اخلاص، ثواب کی امید اور صالح نیت پہنچتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ﴾ ’’لیکن اس کے پاس تو تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘پس اس آیت کریمہ میں قربانی میں اخلاص کی ترغیب دی گئی ہے۔ قربانی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب ہو، اس کا مقصد تفاخر، ریاکاری، شہرت کی خواہش یا محض عادت نہ ہو۔ اسی طرح دیگر تمام عبادات کے ساتھ اگر اخلاص اور تقویٰ مقرون نہ ہوں تو وہ اسی چھلکے کی مانند ہیں جس کے اندر مغز نہ ہو اور اس کی مثال اس جسد کی سی ہے جس کے اندر روح نہ ہو۔ ﴿كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ ﴾ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کرو ﴿ عَلٰى مَا هَدٰؔىكُمْ ﴾ یعنی اس بنا پر کہ اس نے تمھیں ہدایت سے نوازا ہے کیونکہ وہ کامل ترین ثنا، جلیل ترین حمد اور بلند ترین تعظیم کا مستحق ہے۔ ﴿ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’اور خوشخبری دے دو نیکی کرنے والوں کو۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں ، اگر وہ اس درجہ پر فائز نہیں تو عبادت کے وقت یہ اعتقاد رکھتے ہوئے عبادت کرتے ہیں کہ اللہ ان سے مطلع ہے اور ان کو دیکھ رہا ہے، وہ اس کے بندوں سے ہر لحاظ سے اچھے سلوک سے پیش آتے ہیں ، یعنی ان کو مالی فائدہ یا علمی فائدہ پہنچاتے ہیں یا انھیں منصب اور جاہ کے ذریعے سے کوئی فائدہ دیتے ہیں یا ان کی خیرخواہی کرتے ہیں یا ان کو کسی نیکی کا حکم دیتے ہیں یا ان کو کسی برائی سے روک دیتے ہیں یا انھیں کوئی اچھی بات کہہ دیتے ہیں یہ تمام چیزیں ’’احسان‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں ۔ پس احسان کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں سعادت کی خوشخبری ہے۔ جس طرح انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادات میں احسان کو مدنظر رکھا، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے گا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ﴾ (الرحمن:55؍60) ’’احسان کا بدلہ، احسان کے سوا کچھ اور ہے؟‘‘ اور فرمایا: ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ﴾ (یونس:10؍26) ’’جو احسان کے طریقے پرکاربند ہوئے ان کے لیے احسان ہے اور کچھ زیادہ ہے۔‘‘ (یعنی دیدارِ الٰہی)
آیت: 38 #
{إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (38)}.
بلاشبہ اللہ دور کرتا ہے (دشمنوں کو) ان لوگوں سے جو ایمان لائے، بے شک اللہ نہیں پسند کرتا ہر خیانت کرنے والے، ناشکرے کو (38)
#
{38} هذا إخبارٌ ووعدٌ وبشارةٌ من الله للذين آمنوا أنَّ الله يدافِعُ عنهم كلَّ مكروه، ويدفعُ عنهم كلَّ شرٍّ بسبب إيمانِهِم: من شرِّ الكفار وشرِّ وسوسة الشيطان وشرور أنفسهم وسيئاتِ أعمالهم، ويحملُ عنهم عند نزول المكاره ما لا يتحمَّلون، فيخفِّف عنهم غاية التخفيف، كلّ مؤمن له من هذه المدافعة والفضيلة بحسب إيمانه، فمستقلٌّ ومستكثرٌ. {إن الله لا يحبُّ كلَّ خوَّانٍ}؛ أي: خائن في أمانته التي حَمَّله الله إيَّاها، فيبخسُ حقوق الله عليه ويخونُها ويخونُ الخلق. {كفورٍ}: لنعم الله، يوالي عليه الإحسان، ويتوالى منه الكفر والعصيان؛ فهذا لا يحبُّه الله، بل يُبْغِضُه ويمقُتُه وسيجازيه على كفرِهِ وخيانتِهِ. ومفهوم الآية أنَّ اللَّه يحبُّ كلَّ أمينٍ قائمٍ بأمانته شكورٍ لمولاه.
[38] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور وعدہ ہے کہ وہ ہر تکلیف دہ معاملے میں ان کی مدافعت کرے گا، یعنی وہ ان کے ایمان کے سبب سے کفار کے ہر قسم کے شر سے، شیطان کے وسوسوں کے شر سے اور خود ان کے اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے ان کی مدافعت کرے گا۔ مصائب کے نزول کے وقت جن کا بوجھ اٹھانے سے وہ قاصر ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے یہ بوجھ اٹھائے گا اور انتہائی حد تک ان کے بوجھ کو ہلکا کر دے گا۔ ہر مومن اپنے ایمان کے مطابق اس فضیلت اور مدافعت سے سے بہرہ ور ہوگا۔ کسی کو کم حصہ ملے گا کسی کو زیادہ۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُ٘لَّ خَوَّانٍ ﴾ اللہ تعالیٰ امانت میں خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا، جو اس نے اس کے سپرد کی ہے۔ پس خائن اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کوتاہی کرتا ہے، ان میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور مخلوق کے حقوق میں بھی خیانت کرتا ہے ﴿كَفُوْرٍ﴾ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ اس پر احسان کرتا ہے اور یہ خائن جواب میں کفر اور عصیان پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو کبھی پسند نہیں کرتا بلکہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ وہ عنقریب اسے اس کے کفر اور خیانت کی سزا دے گا۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر امانت دار شخص سے، جو اپنی امانت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے مولا کا شکر گزار ہے… محبت کرتا ہے۔
آیت: 39 - 41 #
{أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (41)}.
اجازت دی گئی ہے (جہاد کی) ان لوگوں کو کہ لڑائی کیے جاتے ہیں وہ، بسبب اس کے کہ بے شک وہ مظلوم ہیں اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد کرنے پر البتہ خوب قادر ہے (39) وہ لوگ جو نکالے گئے اپنے گھروں سے بغیر حق کے، صرف ان کے یہ کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہےاور اگر نہ ہوتا دور کرنا اللہ کا لوگوں کو ان کے ایک کو دوسرے کے ذریعے سے تو البتہ ڈھا دیے جاتے راہبوں کے خلوت خانے اور گرجےاور عبادت خانے یہودیوں کےاور مسجدیں کہ ذکر کیا جاتا ہے ان میں نام اللہ کا بہت اور البتہ ضرور مدد کرے گا اللہ اس کی جو مدد کرے گا اس (کے دین) کی، بے شک اللہ البتہ بہت قوت والا، غالب ہے (40) وہ لوگ کہ اگر ہم قدرت دیں ان کو زمین میں تو وہ قائم کریں نماز اور ادا کریں زکاۃ اور وہ حکم دیں اچھے (نیک) کاموں کا اور روکیں برے کاموں سے اوراللہ ہی کے اختیار میں ہے انجام تمام امور کا (41)
#
{39} كان المسلمون في أول الإسلام ممنوعين من قتال الكفار ومأمورين بالصبر عليهم لحكمةٍ إلهيَّةٍ، فلما هاجروا إلى المدينة، وأوذوا وحصل لهم مَنَعَةٌ وقوَّةٌ؛ أُذن لهم بالقتال؛ كما قال تعالى: {أُذِنَ للذين يقاتَلونَ}: يُفهم منه أنهم كانوا قبلُ ممنوعين، فأذِنَ الله لهم بقتال الذين يقاتلون، وإنَّما أذن لهم لأنَّهم ظُلموا بمنعهم من دينهم وأذيَّتهم عليه وإخراجهم من ديارهم. {وإنَّ الله على نصرِهم لَقديرٌ}: فلْيَسْتَنْصروه ولْيستعينوا به.
[39] اسلام کی ابتداء میں مسلمانوں کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کی ممانعت تھی اور ان کو صبر کرنے کا حکم تھا، اس میں حکمت الہیہ پوشیدہ تھی۔ جب انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور انھیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ستایا گیا اور مدینہ منورہ پہنچ کر انھیں طاقت اور قوت حاصل ہوگئی تو انھیں کفار کے خلاف جہاد کی اجازت دیدی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے جن سے کافر لڑائی کرتے ہیں ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے قبل مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہ تھی پس اللہ نے انھیں ان لوگوں کے خلاف جہاد اور جنگ کی اجازت مرحمت فرما دی جو ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور انھیں کفار کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت صرف اس لیے ملی کیونکہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، انھیں ان کے دین سے روکا گیا، دین کی وجہ سے ان کو اذیتیں دی گئیں اور ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ﴾ ’’اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قادر ہے۔‘‘ اس لیے اہل ایمان اسی سے نصرت طلب کریں اور اسی سے مدد مانگیں ۔
#
{40} ثم ذكر صفة ظلمهم، فقال: {الذين أُخْرِجوا من ديارِهم}؛ أي: ألجئوا إلى الخروج بالأذيَّة والفتنة، {بغير حقٍّ إلاَّ}: أن ذنبهم الذي نقم منهم أعداؤهم، {أن يَقولوا ربُّنا الله}؛ أي: إلاَّ أنَّهم وحَّدوا الله وعبدوه مخلصينَ له الدِّين؛ فإنْ كان هذا ذنباً؛ فهو ذنبهم؛ كقوله تعالى: {وما نَقَموا منهم إلاَّ أن يُؤْمِنوا بالله العزيز الحميد}: وهذا يدلُّ على حكمة الجهاد؛ فإنَّ المقصود منه إقامةُ دين الله، أو ذبُّ الكفار المؤذين للمؤمنين البادئين لهم بالاعتداء عن ظلمهم واعتدائهم، والتمكُّن من عبادةِ الله وإقامة الشرائع الظاهرة، ولهذا قال: {ولولا دَفْعُ الله الناسَ بعضَهم ببعض}: فيدفعُ الله بالمجاهدين في سبيله ضررَ الكافرين؛ {لَهُدِّمَتْ صوامعُ وبِيَعٌ وصلواتٌ ومساجدُ}؛ أي: لَهُدِّمَتْ هذه المعابد الكبار لطوائف أهل الكتاب معابد اليهود والنصارى والمساجد للمسلمين. {يُذْكَرُ فيها}؛ أي: في هذه المعابد {اسمُ الله كثيراً}: تُقام فيها الصلواتُ، وتُتْلى فيها كتب الله، ويُذكر فيها اسمُ الله بأنواع الذِّكْر؛ فلولا دفعُ الله الناس بعضَهم ببعض؛ لاستولى الكفارُ على المسلمين، فخرَّبوا معابدهم وفَتَنوهم عن دينهم، فدلَّ هذا أنَّ الجهاد مشروعٌ لأجل دفع الصائل والمؤذي، ومقصودٌ لغيره. ودلَّ ذلك على أنَّ البلدان التي حصلت فيها الطمأنينة بعبادة الله، وعُمِّرَتْ مساجدها، وأقيمت فيها شعائرُ الدين كلُّها من فضائل المجاهدين وبركتهم، دفع الله عنها الكافرين؛ قال الله تعالى: {ولولا دَفْعُ اللهِ الناسَ بعضَهم ببعض لَفَسَدَتِ الأرضُ ولكنَّ الله ذو فضل على العالمينَ}. فإنْ قلتَ: نرى الآن مساجد المسلمينَ عامرةً لم تَخْرَبْ؛ مع أنَّها كثيرٌ منها إمارة صغيرة وحكومة غير منظَّمة، مع أنَّهم لا يدان لهم بقتال مَنْ جاوَرَهم من الإفرنج، بل نرى المساجد التي تحتَ ولايتهم وسيطرتهم عامرةً، وأهلُها آمنون مطمئنُّون؛ مع قدرةِ ولاتِهِم من الكفَّار على هدمها، واللهُ أخبر أنه لولا دَفْعُ الله الناسَ بعضَهم ببعضٍ؛ لَهُدِّمَتْ هذه المعابد، ونحن لا نشاهد دفعا؟ أجيب بأنَّ جواب هذا السؤال والاستشكال داخلٌ في عموم هذه الآية وفردٌ من أفرادها؛ فإنَّ مَنْ عَرَفَ أحوال الدول الآن ونظامها، وأنها تعتبرُ كلَّ أمَّةٍ وجنس تحتَ ولايتها وداخل في حكمها؛ تعتبرُهُ عضواً من أعضاء المملكة وجزءاً من أجزاء الحكومة، سواء كانت تلك الأمةُ مقتدرةً بعددها أو عُددها أو مالها أو علمها أو خدمتها، فتراعي الحكوماتُ مصالح ذلك الشعب الدينيَّة والدنيويَّة، وتخشى إنْ لم تفعلْ ذلك أن يختلَّ نظامُها وتفقدَ بعضَ أركانها، فيقوم من أمر الدين بهذا السبب ما يقوم، خصوصاً المساجد؛ فإنَّها ولله الحمد في غاية الانتظام، حتى في عواصم الدول الكبار، وتراعي تلك الدول الحكومات المستقلة؛ نظراً لخواطر رعاياهم المسلمين، مع وجود التحاسدِ والتباغُض بين دول النصارى، الذي أخبر الله أنه لا يزال إلى يوم القيامةِ، فتبقى الحكومة المسلمة التي لا تقدِرُ تدافعُ عن نفسها سالمةً من كثيرِ ضررهم ؛ لقيام الحسدِ عندهم؛ فلا يقدِرُ أحدُهم أن يمدَّ يدَه عليها، خوفاً من احتمائِها بالآخرِ، مع أنَّ الله تعالى لا بدَّ أن يُري عبادَه من نصر الإسلام والمسلمين ما قد وَعَدَ به في كتابه، وقد ظهرتْ ولله الحمدُ أسبابُه بشعور المسلمين بضرورة رجوعِهِم إلى ديِنِهم، والشعورُ مبدأ العمل؛ فنحمَدُه ونسأله أن يُتِمَّ نعمتَه، ولهذا قال في وعدِهِ الصادق المطابق للواقع: {وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ من يَنصُرُه}؛ أي: يقوم بنصر دينِهِ، مخلصاً له في ذلك، يقاتِلُ في سبيله لتكونَ كلمةُ الله هي العليا. {إنَّ الله لقويٌّ عزيزٌ}؛ أي: كامل القوة، عزيزٌ، لا يُرام، قد قهر الخلائق وأخذ بنواصيهم. فأبشروا يا معشر المسلمين؛ فإنَّكم وإنْ ضَعُفَ عددُكم وعُددُكم وقوي عددُ عدوِّكم ؛ فإنَّ ركنَكم القويَّ العزيز ومعتمدكم على مَنْ خَلَقَكُم وخَلَقَ ما تعملون؛ فاعملوا بالأسباب المأمور بها، ثم اطلبوا منه نصرَكم؛ فلا بدَّ أن ينصركم، {يا أيَّها الذين آمنوا إن تَنصُروا الله يَنصُرْكُم ويثبِّتْ أقدامكَم}، وقوموا أيُّها المسلمون بحقِّ الإيمان والعمل الصالح؛ فقد {وَعَدَ الله الذين آمنوا وعملوا الصالحات لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم في الأرض كما اسْتَخْلَفَ الذين من قَبْلِهِم ولَيُمَكِّنَنَّ لهم دينَهم الذي ارتضى لهم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم من بعدِ خوفهم أمناً يعبُدونني لا يشرِكونَ بي شيئاً}.
[40] پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَ٘ارِهِمْ ﴾ یعنی ان کو اذیتوں اور فتنے میں مبتلا کرکے اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا ﴿ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ ﴾ یعنی ناحق اور ان کا گناہ اس کے سوا کچھ نہیں جس کی بنا پر ان کے دشمن ناراض ہوکران کو سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ ﴿ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ﴾ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، یعنی ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں اور دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا گناہ ہے تو وہ ضرور گنہگار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ (البروج:85؍8) ’’وہ اہل ایمان سے صرف اس بات پر ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب اور قابل ستائش پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ یہ آیت کریمہ جہاد کی حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ جہاد کا مقصد اقامت دین یا اہل ایمان کا کفار کی اذیتوں ، ان کے ظلم اور ان کی تعدی سے دفاع کرنا ہے جو اہل ایمان پر ظلم و زیادتی کی ابتدا کرتے ہیں ، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ممکن بنایا جائے اور دین کے تمام ظاہری قوانین کو نافذ کیا جائے، اس لیے فرمایا: ﴿وَلَوْلَا دَفْ٘عُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ﴾ ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے نہ ہٹاتا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کرتا ہے۔ ﴿ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ ﴾ یعنی یہ بڑے بڑے معابد منہدم کر دیے جاتے ہیں جو اہل کتاب کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلاً: یہود و نصاریٰ کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد۔ ﴿ یُذْكَرُ فِیْهَا﴾ ’’ذکر کیا جاتا ہے ان میں ‘‘ یعنی ان عبادت گاہوں میں ﴿ اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًا﴾ ’’اللہ کا نام بہت زیادہ۔‘‘ یعنی ان عبادت گاہوں کے اندر نماز قائم کی جاتی ہے، کتب الہیہ کی تلاوت ہوتی ہے اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیاجاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ روکے توکفار مسلمانوں پر غالب آجائیں ، ان کے معابد کو تباہ کر دیں اور دین کے بارے میں ان کو آزمائش میں مبتلا کر دیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جہاد جارح کی جارحیت اور ایذارسانی کا سدباب کرنے اور بعض دیگر مقاصد کے لیے مشروع کیا گیا ہے، نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ وہ شہر جہاں امن اور اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے، اس کی مساجد آباد ہیں جہاں دین کے تمام شعائر قائم ہیں ، یہ مجاہدین کی فضیلت اور ان کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَلَوْ لَا دَفْ٘عُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ﴾ (البقرۃ:2؍251) ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹاتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ جہان والوں پر بڑا ہی فضل کرتا ہے۔‘‘ اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ ہم آج کل مسلمانوں کی مساجد کو آباد دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان مساجد میں ایک چھوٹی سی امارت اور ایک غیر منظم حکومت قائم ہوتی ہے حالانکہ ان پر اردگرد کے فرنگیوں کے خلاف جہاد لازم ہے بلکہ ہم ایسی مساجد بھی دیکھتے ہیں جو کفار کی حکومت اور ان کے انتظام کے تحت آباد ہیں ۔ اہل مسجد پر امن اور مطمئن ہیں حالانکہ کافر حکومتوں کو قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ وہ ان مساجد کو منہدم کر دیں ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹائے تو یہ معابد منہدم کر دیے جائیں اور ہم نے تو لوگوں کو ایک دوسرے کو ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس اعتراض اور اشکال کا جواب، اس آیت کریمہ کے عموم میں داخل اور اس کے افراد میں سے ایک فرد ہے۔ جو کوئی زمانہ ٔجدید کی حکومتوں کے حالات اور ان کے نظام کی معرفت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان حکومتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والا ہر گروہ اور ہر قوم کو، اس مملکت کا رکن، اس کے اجزائے حکومت میں سے ایک جزو تصور کیا جاتا ہے خواہ یہ گروہ اپنی تعداد کی بنا پر اقتدار میں ہو، خواہ اپنی حربی استعداد یا مال یا علم یا خدمات کی بنا پر اقتدار میں شریک ہو۔ حکومتیں اس گروہ کے دینی اور دنیاوی مصالح و مفادات کی رعایت رکھتی ہیں اور اس بات سے ڈرتی ہیں کہ اگر انھوں نے ان کے مصالح کی رعایت نہ رکھی تو حکومت کے انتظام میں خلل واقع ہو جائے گا اور حکومت کے بعض ارکان مفقود ہو جائیں گے۔ پس اس سبب سے دین کے معاملات قائم ہیں ۔ خاص طور پر مساجد کا نظم و نسق… اَلْحَمْدُللّٰہ… بہترین طریقے سے ہورہا ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے ممالک کے درالحکومتوں میں مساجد کا انتظام انتہائی اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں ، اپنی مسلمان رعایا کی دل جوئی کی خاطر اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں ، حالانکہ ان نصرانی ممالک کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد موجود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہ بغض اور حسد ان کے درمیان روز قیامت تک موجود رہے گا۔ پس مسلمان حکومت، جو اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، ان کے آپس کے افتراق اور حسد کی وجہ سے ان کی جارحیت سے محفوظ رہتی ہے۔ کوئی ملک اس مسلمان ملک کے خلاف اس خوف سے جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کسی اور ملک کی حمایت اور مدد حاصل کرے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کا مشاہدہ کروائے جس کا اس نے اپنی کتاب میں وعدہ کررکھا ہے اور دین کی طرف مسلمانوں کے رجوع کی ضرورت کے شعور کے اجاگر ہونے کی بنا پر اس نصرت کے اسباب ظاہر ہو گئے ہیں … وللہ الحمد … اور شعور عمل کی بنیاد ہے … ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا جو واقع کے مطابق سچ ثابت ہوا، فرمایا: ﴿ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ یعنی وہ پوری قوت کا مالک اور غالب ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی مجال نہیں ۔ وہ تمام مخلوق پر غالب ہے ان کی پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ پس اے مسلمانو! خوش ہو جاؤ کہ اگرچہ تم تعداد اور سازوسامان کے اعتبار سے کمزور ہو اور تمھارا دشمن طاقتور ہے مگر تمھیں قوت والی اور غالب ہستی پر بھروسہ اور اس ذات پر اعتماد ہے جس نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو تخلیق کیا۔ پس وہ تمام اسباب اختیار کرو جن کو استعمال کرنے کا تم کو حکم دیا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، وہ ضرور تمھاری مدد کرے گا۔ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْؔكُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ﴾ (محمد:47؍7) ’’اے ایمان لانے والے لوگو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘ اے مسلمانو ! ایمان اور عمل صالح کی خاطر اٹھ کھڑے ہو! ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَلَیُمَكِّنَ٘نَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَ٘ضٰى لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ۠ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْـًٔـا﴾ (النور:24؍55) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو زمین کی خلافت عطا کی تھی، ان کے دین کو ان کے لیے مستحکم کردے گا، جسے اللہ نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اورمیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘
#
{41} ثم ذكر علامة مَنْ ينصره، وبها يُعرف أنَّ مَن ادَّعى أنه يَنْصُرُ الله ويَنْصُرُ دينَه ولم يتَّصِف بهذا الوصف؛ فهو كاذب، فقال: {الذين إن مَكَّنَّاهُم في الأرض}؛ أي: مَلَّكْناهم إياها، وجعلناهم المتسلِّطين عليها من غير منازعٍ ينازِعُهم ولا معارِض؛ {أقاموا الصلاةَ}: في أوقاتها وحدودها وأركانها وشروطها في الجمعة والجماعات. {وآتوُا الزَّكاة}: التي عليهم خصوصاً، وعلى رعيَّتهم عموماً، آتَوْها أهلها الذين هم أهلها. {وأمروا بالمعروف}: وهذا يشمَلُ كلِّ معروفٍ حُسْنُهُ شرعاً وعقلاً من حقوق الله وحقوق الآدميين. {ونَهَوا عن المنكر}: كلّ منكرٍ شرعاً وعقلاً، معروف قبحُه، والأمر بالشيء والنهي عنه يدخُلُ فيه ما لا يتمُّ إلاَّ به؛ فإذا كان المعروف والمنكر يتوقَّف على تعلُّم وتعليم أجبروا الناس على التعلُّم والتعليم، وإذا كان يتوقَّف على تأديبٍ مقدَّر شرعاً أو غير مقدَّر؛ كأنواع التعزير؛ قاموا بذلك، وإذا كان يتوقَّف على جعل أناس متصدِّين له؛ لزم ذلك، ونحو ذلك مما لا يتمُّ الأمر بالمعروف والنهيُ عن المنكر إلاَّ به. {ولله عاقبةُ الأمور}؛ أي: جميع الأمور ترجِعُ إلى الله، وقد أخبر أنَّ العاقبة للتقوى؛ فمن سلَّطه الله على العباد من الملوك وقام بأمر الله؛ كانتْ له العاقبةُ الحميدةُ والحالةُ الرشيدةُ، ومن تسلَّط عليهم بالجَبَروت، وأقام فيهم هوى نفسه؛ فإنَّه وإن حصل له ملكٌ موقتٌ؛ فإنَّ عاقبتَه غيرُ حميدةٍ؛ فولايتُه مشؤومة، وعاقبته مذمومة.
[41] پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی علامت بیان فرمائی ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں ۔ یہی علامت ان کی پہچان ہے اور جو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی مدد کرتا ہے مگر وہ اس وصف سے متصف نہیں ہوتا تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ علامت بیان فرمائی ہے۔ ﴿ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّؔكَّـنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ﴾ یعنی اگر ہم ان کو زمین کا مالک بنا دیں اور ان کو زمین کا تسلط بخش دیں اور کوئی ان کی معارضت اور مخالفت کرنے والا باقی نہ رہے ﴿ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ ﴾ تو وہ نماز کے اوقات میں نماز کو اس کی تمام حدود، ارکان، شرائط، جمعہ اور جماعت کے ساتھ قائم کرتے ہیں ﴿ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ ﴾ ’’اور زکاۃ ادا کرتے ہیں ۔‘‘ جو ان پر خاص طور پر اور رعایا پر عام طور پر واجب ہے، یہ زكاة وہ مستحقین کو اداکرتے ہیں ﴿ وَاَمَرُوْا بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں ۔ (معروف) ہر اس کام کو شامل ہے جو عقلاً اور شرعاً حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اعتبار سے نیک ہو۔ ﴿ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور برائی سے وہ روکتے ہیں ۔‘‘ ہر برائی جس کی قباحت شرعاً اور عقلاً معروف ہو (منکر) کہلاتی ہے۔ کسی چیز کے حکم دینے اور اس کے منع کرنے میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہ ہو۔ پس جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تعلیم و تعلم پر موقوف ہے تو لوگوں کو تعلیم اور تعلم پر مجبور کرتے ہیں اور جب امربالمعروف اور نہی عن المنکر، شرعی طور پر مقرر کردہ یا غیر مقرر کردہ تادیب پر موقوف ہو، مثلاً:مختلف قسم کی تعزیرات تو انھیں قائم کرتے ہیں ۔ جب یہ معاملہ اس بات پر موقوف ہو کہ لوگ کچھ امور کے خوگر ہوں جن کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اتمام ممکن نہیں تو ان پر ان امور کو لازم کیا جائے گااور اسی طرح معاملات ہیں کہ ان کے بغیر اگر امربالمعروف یا نہی عن المنکر ممکن نہ ہو تو ان کا اہتمام ضروری ہو گا۔ ﴿وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ ﴾ یعنی تمام امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اچھا انجام تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن بادشاہوں کو بندوں پر تسلط بخشا اور انھوں نے اللہ کے حکم کو نافذ کیا ان کی حالت رشد و ہدایت پر مبنی اور ان کی عاقبت قابل ستائش ہے۔اور وہ بادشاہ، جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہو جاتا ہے پھر وہ اپنی خواہشات نفس کو ان پر نافذ کرتا ہے تو اقتدار اگرچہ ایک مقررہ وقت تک اس کے پاس رہتا ہے تاہم اس کا انجام ناقابل ستائش، اس کی حکومت نامقبول اور اس کی عاقبت مذموم ہے۔
آیت: 42 - 46 #
{وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ (42) وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ (43) وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ وَكُذِّبَ مُوسَى فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (44) فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ (45) أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (46)}.
اور اگر جھٹلائیں آپ کو تو تحقیق جھٹلایا ہے ان سے پہلے قوم نوح نےاور عاد اور ثمود نے (42) اورقوم ابراہیم اور قوم لوط نے (43) اور اہل مدین نے بھی اور جھٹلائے گئے موسی بھی، پس مہلت دی میں نے کافروں کو، پھر میں نے پکڑا ان کو پس کیسا تھا میرا عذاب؟ (44) پس کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہلاک کر دیا ہم نے ان کو اور وہ ظالم تھیں ، پس وہ گری پڑی ہیں اوپر اپنی چھتوں کےاور (کتنے ہی) کنویں ہیں ناکارہ پڑے ہوئے اور (کتنے ہی) محل ہیں مضبوط (ویران)؟ (45) کیا پس نہیں سیر کی انھوں نے زمین میں ؟ کہ ہوتے ان کے دل کہ سمجھتے وہ ان کے ساتھ یا (ہوتے ان کے) کان کہ وہ سنتے ان کے ساتھ، پس بلاشبہ قصہ یہ ہے کہ نہیں اندھی ہوتیں آنکھیں لیکن اندھے ہوتے ہیں دل، وہ جو سینوں میں ہیں (46)
#
{42 ـ 44} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: وإنْ يكذِّبْك هؤلاء المشركون؛ فلستَ بأوَّل رسول كُذِّب، وليسوا بأول أمةٍ كَذَّبَت رسولها؛ {فقد كَذَّبَتْ قبلَهم قومُ نوح وعادٌ وثمودُ. وقومُ إبراهيم (وقومُ لوط). وأصحابُ مَدْيَنَ}؛ أي: قوم شعيب. {وكُذِّبَ موسى فأمليتُ للكافرين}: المكذِّبين، فلم أعاجِلْهم بالعقوبة، بل أمهلتُهم حتى استمرُّوا في طغيانهم يعمهونَ وفي كفرِهِم وشرِّهم يزدادون، {ثمَّ أخَذْتُهم}: بالعذاب أخذَ عزيز مقتدرٍ. {فكيف كان نَكيرِ}؛ أي: إنكاري عليهم كفرهم وتكذيبهم كيف حالُه؟! كان أشدَّ العقوبات وأفظعَ المَثُلات؛ فمنهم من أغرقَه، ومنهم من أخذَتْه الصيحةُ، ومنهم من أُهْلِكَ بالريح العقيم، ومنهم من خُسِفَ به الأرض، ومنهم من أُرْسِلَ عليه عذابُ يوم الظُّلَّة؛ فليعتبِرْ بهم هؤلاء المكذِّبون أن يصيبَهم ما أصابهم؛ فإنَّهم ليسوا خيراً منهم، ولا كُتِبَ لهم براءةٌ في الكتب المنزَّلة من الله. وكم من المعذَّبين المهلكين أمثال هؤلاء كثير!
[44-42] اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر یہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جس کو جھٹلایا گیا ہو اور یہ امت بھی کوئی پہلی امت نہیں جس نے اپنے رسول کو جھٹلایا ہے۔ ﴿ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ۰۰وَقَوْمُ اِبْرٰؔهِیْمَ وَقَوْمُ لُوْطٍ ۰۰ وَّاَصْحٰؔبُ مَدْیَنَ وَؔكُذِّبَ مُوْسٰؔى ﴾ ’’بلاشبہ ان سے پہلے قومِ نوح نے، عاد و و ثمود نے، قوم ابراہیم و قومِ لوط نے اور اصحاب مدین (قوم شعیب) نے رسولوں کو جھٹلایا، موسیٰ u کی بھی تکذیب کی گئی۔‘‘ ﴿ فَاَمْلَیْتُ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ یعنی تکذیب کرنے والوں کو میں نے ڈھیل دی۔ ان کو سزا دینے میں میں نے جلدی نہ کی، یہاں تک کہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اپنے کفر و شر میں بڑھتے ہی چلے گئے ﴿ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ﴾ پھر میں نے ان کوغالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کی طرح عذاب کے ذریعے سے گرفت میں لے لیا۔ ﴿فَكَیْفَ كَانَ نَؔكِیْرِ ﴾ پھر دیکھا ان کے کفر اور ان کی تکذیب پر میری نکیر کیسی تھی اور اس کا کیسا حال تھا۔ ان کے لیے بدترین سزا اور قبیح ترین عذاب تھا۔ ان میں سے بعض کو غرق کردیا گیا، بعض کو ایک چنگھاڑ نے آلیا اور بعض طوفانی ہوا کے ذریعے ہلاک کر دیے گئے، بعض کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور بعض کو چھتری والے دن کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا، لہٰذا تکذیب کرنے والوں کو ان قوموں سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی عذاب آ لے جو گزشتہ بدکردار قوموں پر نازل ہوا یہ ان سے بہتر نہیں ہیں اور نہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں ہی میں براء ت کی کوئی ضمانت ہے۔
#
{45} ولهذا قال: {فكأيِّن من قريةٍ}؛ أي: وكم من قريةٍ، {أهلَكْناها}: بالعذابِ الشديدِ والخزي الدنيويِّ، {وهي ظالمةٌ}: بكفرِها بالله وتكذيبها لرسلِهِ، لم يكنْ عقوبتُنا لها ظلماً منا. {فهي خاويةٌ على عروشها}؛ أي فديارُهم متهدِّمة قصورُها وجدرانُها، قد سقطتْ على عروشها ، فأصبحت خراباً بعد أن كانتْ عامرةً، وموحشةً بعد أن كانت آهلةً بأهلها آنسة. {وبئرٍ معطَّلةٍ وقصرٍ مَشيدٍ}؛ أي: وكم من بئر قد كان يزدحمُ عليه الخلقُ لشُرْبهم وشرب مواشيهم، ففُقِدَ أهلُه وعُدِمَ منه الوارد والصادر! وكم من قصرٍ تعبَ عليه أهلُه فشيَّدوه ورفعوه وحصَّنوه وزخرفوه؛ فحين جاءهم أمرُ الله؛ لم يُغْنِ عنهم شيئاً، وأصبح خالياً من أهله، قد صاروا عبرةً لمن اعتبر ومثالاً لمن فكَّر ونظر.
[45] ان جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کو عذاب سے ہلاک کیا گیا، اس لیے فرمایا: ﴿ فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَ٘رْیَةٍ ﴾ یعنی کتنی ہی بستیاں ہیں ﴿ اَهْلَكْنٰهَا ﴾ جن کو ہم نے دنیاوی رسوائی کے ساتھ سخت عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا۔ ﴿ وَهِیَ ظَالِمَةٌ ﴾ اور ان کی حالت یہ تھی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار اور رسول کی تکذیب کرکے ظلم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کے لیے ہماری سزا ظلم نہ تھی۔ ﴿ فَ٘هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا ﴾ پس ان کے گھر منہدم ہوکر اجڑے پڑے ہیں ، ان کے محل اور عمارتیں اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں ۔ کبھی یہ آباد تھیں اب ویران پڑی ہیں ، کبھی اپنے رہنے والوں کے ساتھ معمور تھیں اب وہاں وحشت ٹپکتی ہے۔ ﴿ وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ ﴾ کتنے ہی کنویں ہیں جہاں کبھی پانی پینے اور مویشیوں کو پلانے کے لیے لوگوں کا ازدحام ہوا کرتا تھا۔ اب ان کنوؤں کے مالک مفقود اور پانی پینے والے معدوم ہیں ، کتنے ہی محل اور قصر ہیں جن کے لیے ان کے رہنے والوں نے مشقت اٹھائی ان کو چونے سے مضبوط کیا، ان کو بلند کیا، ان کو محفوظ کیا اور ان کو خوب سجایا مگر جب اللہ کا حکم آگیا تو کچھ بھی ان کے کام نہ آیا اور یہ محل خالی پڑے رہ گئے اور ان میں رہنے والے عبرت پکڑنے والوں کے لیے سامان عبرت اور فکر و نظر رکھنے والوں کے لیے مثال بن گئے۔
#
{46} ولهذا دعا الله عبادَه إلى السير في الأرض لينظُروا ويعتبِروا، فقال: {أفلم يَسيروا في الأرض}: بأبدانهم وقلوبهم؛ {فتكون لهم قلوبٌ يعقِلونَ بها}: آياتِ الله ويتأمَّلون بها مواقعَ عِبَرِهِ، {أو آذانٌ يسمعونَ بها}: أخبارَ الأمم الماضين وأنباء القرون المعذَّبين، وإلاَّ فمجرَّد نظر العين وسماع الأذُن وسير البدن الخالي من التفكُّر والاعتبار غير مفيدٍ ولا موصل إلى المطلوب، ولهذا قال: {فإنَّها لا تَعْمى الأبصارُ ولكن تَعْمى القلوبُ التي في الصُّدور}؛ أي: هذا العمى الضارُّ في الدين عمى القلب عن الحقِّ حتى لا يشاهدَه كما لا يشاهِدُ الأعمى المرئيَّات، وأما عمى البصر؛ فغايتُه بلغةٌ ومنفعةٌ دنيويَّةٌ.
[46] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو زمین میں چلنے پھرنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں اور عبرت پکڑیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ کیا وہ اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین میں چلے پھرے نہیں ۔ ﴿ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُ٘لُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھتے اور عبرت کے لیے ان میں غور و فکر کرتے۔ ﴿ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا﴾ یعنی گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات اور جن قوموں پر عذاب نازل کیا گیا ان کی خبریں سنتے… وگرنہ محض آنکھوں اور کانوں سے سننا اور تفکر اور عبرت سے خالی ہوکر زمین میں چلنا پھرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے مطلوب کا حصول ممکن ہے، اسی لیے فرمایا: ﴿ فَاِنَّهَا لَا تَ٘عْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَ٘عْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ﴾ یعنی یہ اندھا پن جو دین کے لیے ضرر رساں ہے، درحقیقت حق کے بارے میں قلب کا اندھاپن ہے حتیٰ کہ جیسے بصارت کا اندھا مرئیات کا مشاہدہ نہیں کر سکتا اسی طرح بصیرت کا اندھا حق کا مشاہدہ کرنے سے عاری ہے لیکن بصارت کا اندھا تو صرف دنیاوی منفعت تک پہنچنے سے محروم ہے۔
آیت: 47 - 48 #
{وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (47) وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ (48)}.
اور وہ (لوگ) جلدی طلب کرتے ہیں آپ سے عذاب کواور ہرگز نہیں خلاف کرے گا اللہ اپنے وعدے کےاور بلاشبہ ایک دن نزدیک آپ کے رب کے مانند ایک ہزار سال کے ہے ان (دنوں ) سے جوتم گنتے ہو (47) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ مہلت دی میں نے ان کو جبکہ وہ ظالم تھیں ، پھر میں نے پکڑا ان کواور میری طرف ہی (سب کی) واپسی ہے (48)
#
{47} أي: يتعجَّلُك هؤلاء المكذِّبون بالعذاب لجهلهم وظلمهم وعنادهم وتعجيزاً لله وتكذيباً لرسله، ولن يُخْلِفَ الله وعده؛ فما وَعَدَهُم به من العذاب لا بدَّ من وقوعه، ولا يمنعُهم منه مانعٌ، وأمَّا عَجَلَتُهُ والمبادرةُ فيه؛ فليس ذلك إليك يا محمدُ، ولا يستفزنَّك عجلتُهم وتعجيزُهم إيَّانا؛ فإنَّ أمامهم يوم القيامة الذي يُجمع فيه أولهم وآخرهم، ويجازَوْن بأعمالهم، ويقع بهم العذابُ الدائم الأليم، ولهذا قال: {وإنَّ يوماً عند ربِّكَ كألفِ سنةٍ مما تَعُدُّونَ}: من طوله وشدَّته وهولِهِ؛ فسواء أصابهم عذابٌ في الدنيا أم تأخَّر عنهم العذاب؛ فإنَّ هذا اليوم لا بدَّ أن يدرِكهم. ويُحتمل أنَّ المراد أنَّ الله حليمٌ، ولو استعجلوا العذاب؛ فإنَّ يوماً عنده كألف سنة مما تعدُّون؛ فالمدَّة وإنْ تطاوَلْتُموها، واستبطأتم فيها نزول العذاب؛ فإنَّ الله يمهل المدد الطويلةَ، ولا يُهمل، حتى إذا أخذ الظالمين بعذابه؛ لم يُفْلِتْهم.
[47] عذاب کی تکذیب کرنے والے، اپنی جہالت، ظلم، عناد، اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرتے ہوئے آپe سے جلدی عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عذاب کا جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور واقع ہو کر رہے گا کوئی روکنے والا اس کو روک نہیں سکتا۔ رہا اس عذاب کا جلدی آنا تو اے محمد ! (e) یہ آپ کے اختیار میں نہیں ان کے جلدی مچانے اور ہمیں عاجز گرداننے پر، آپe کو ہلکا نہ سمجھیں ، قیامت کا دن ان کے سامنے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ تمام اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی اور ان کو دردناک عذاب میں ڈالا جائے گا، اس لیے فرمایا: ﴿ وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ﴾ یعنی قیامت کا دن اپنی طوالت، اپنی شدت اور اپنی ہولناکی کی وجہ سے ہزار برس کا لگے گا … لہذا خواہ ان پر دنیا کا عذاب نازل ہو جائے یا آخرت تک عذاب کو موخر کر دیا جائے یہ دن تو بہرطور ان پر آکر رہے گا۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلم والا ہے، پس اگر وہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں تو (انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن تمھارے شمار کے ہزاربرس کے برابر ہے۔ پس یہ مدت خواہ تم اس کو کتنا ہی لمبا کیوں نہ سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کتنا ہی دور کیوں نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ بہت طویل مدتوں تک مہلت عطا کرتا رہتا ہے مگر حساب لیے بغیر، بے فائدہ نہیں چھوڑتا حتیٰ کہ جب وہ ظالموں کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتا ہے تو پھر ان کو چھوڑتا نہیں ۔
#
{48} {وكأيِّنْ من قريةٍ أمليتُ لها}؛ أي: أمهلتها مدة طويلة، {وهي ظالمةٌ}؛ أي: مع ظلمهم، فلم يكنْ مبادرتُهم بالظُّلم موجباً لمبادرتِنا بالعقوبة، {ثم أخذتُها} بالعذابِ {وإليَّ المصيرُ}؛ أي: مع عذابها في الدنيا سترجِعُ إلى الله فيعذِّبُها بذنوبها؛ فليحذر هؤلاء الظالمون من حلول عقاب اللَّه، ولا يغترُّوا بالإمهال.
[48] ﴿ وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَ٘رْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا ﴾ یعنی میں نے ایک طویل مدت تک ان کو مہلت دی ﴿ وَهِیَ ظَالِمَةٌ ﴾ یعنی ان کے ظلم کے باوجود اور ان کا ظلم میں سبقت کرنا ہمارے عذاب میں جلدی کا موجب نہ بنا ﴿ ثُمَّ اَخَذْتُهَا﴾ پھر میں نے ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ ﴿ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ ﴾ دنیا میں ان پر عذاب نازل کرنے کے باوجود، انھیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ انھیں ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب دے گا۔ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے فریب نہ کھائیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے سے بچیں ۔
آیت: 49 - 51 #
{قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ (49) فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (50) وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (51)}.
کہہ دیجیے، اے لوگو! یقینا میں تمھارے لیے ڈرانے والا ہوں کھلم کھلا (49)پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ان کے لیے مغفرت ہے اور روزی عزت والی (50) اور وہ لوگ جنھوں نے کوشش کی ہماری آیتوں (کے جھٹلانے) میں (ہمیں ) عاجز کرنے کے لیے، وہی لوگ ہیں جہنمی(51)
#
{49} يأمر تعالى عبده ورسوله محمداً - صلى الله عليه وسلم - أن يخاطِبَ الناس جميعاً بأنَّه رسولُ اللَّه حقًّا؛ مبشراً للمؤمنين بثواب اللَّه، منذراً للكافرين والظالمين من عقابِهِ. وقولُهُ: {مبينٌ} أي؛ بيِّنُ الإنذار، وهو التخويف مع الإعلام بالمَخُوف، وذلك لأنَّه أقام البراهين الساطعة على صدق ما أنذرهم به.
[49] اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول محمد مصطفیٰe کوحکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر کہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں ، اہل ایمان کو ثواب کی خوشخبری سنانے والے اور کافروں اور ظالموں کو اس کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ۔ ﴿ مُّبِیْنٌ﴾ یعنی واضح طور پر ڈرانے والے ہیں ۔ ’’انذار‘‘ سے مراد ایسا ڈرانا ہے جس میں اس امر سے بھی خبردار کیا گیا ہو جس سے ڈرانا مقصود ہے کیونکہ آپe نے جس امر سے ان کو ڈرایا، اس کی صداقت پر روشن اور واضح دلائل قائم كيے۔
#
{50} ثم ذَكَرَ تفصيل النِّذارة والبِشارة، فقال: {فالذين آمنوا}: بقلوبهم إيماناً صحيحاً صادقاً، {وعملوا الصالحات}: بجوارِحِهم [{في جنَّاتِ النعيم}؛ أي: الجنات التي يُتَنَعَّمُ بها بأنواع النعيم من المآكل والمشارب والمناكح والصُّوَر والأصوات والتنعُّم برؤية الربِّ الكريم وسماع كلامه.
[50] پھر اللہ تعالیٰ نے اس انذار اور تبشیر کی تفصیل بیان فرمائی ﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ’’اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔‘‘ یعنی ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ ﴾ اس سے مراد جنت ہے، یعنی رزق کی اقسام میں بہترین قسم، جو تمام فضائل کی جامع اور تمام کمالات سے بڑھ کر ہے۔ آیت کریمہ کا حاصل معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور یہ ایمان ان کے دلوں میں گھر کر گیا اور پھر ایمان صادق بن گیا … اور اس ایمان کے ساتھ انھوں نے نیک کام بھی كيے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گناہوں کی مغفرت ہے جو ان سے واقع ہوگئے تھے اور ان کے لیے جنت میں بہترین رزق ہوگا اور یہ رزق تمام فضائل و کمالات کا جامع ہوگا۔
#
{51} {والذين كفروا}؛ أي: جَحَدوا نعمةَ ربِّهم، وكذَّبوا رُسُله وآياته]. فأولئك {أصحابُ الجحيم}؛ أي: الملازمون لها، المصاحبون لها في كلِّ أوقاتهم؛ فلا يخفَّف عنهم من عذابِها، ولا يفتَّرُ عنهم لَحْظةٌ من عقابها.
[51] ﴿ وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ ﴾ ’’وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ‘‘ یعنی جو بزعم خود اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانے کے لیے بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں یہ امید رکھتے ہوئے کہ اسلام کے خلاف ان کی سازش کامیاب ہو جائے گی۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی لوگ ‘‘ جو آیات الٰہی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے سے موصوف ہیں ۔‘‘ ﴿ اَصْحٰؔبُ الْجَحِیْمِ ﴾ ’’جہنمی ہیں ۔‘‘ یعنی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور ہر وقت وہیں رہیں گے۔ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی نہ لمحہ بھر کے لیے یہ دردناک عذاب ان سے ہٹایا جائے گا۔ حاصل معنی یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور بزعم خود اہل ایمان کو نیچا دکھانے کے لیے ان کی مخالفت اور ان سے دشمنی کرتے ہیں اور سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنا مقصد حاصل کرلیں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔
آیت: 52 - 54 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (53) وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (54)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب وہ تلاوت کرتا تو ڈال دیتا شیطان اس کی تلاوت میں (کچھ اپنی طرف سے) پس مٹا دیتا اللہ اس (وسوسے) کو جو ڈالتا شیطان، پھر محکم (پختہ) کر دیتا اللہ اپنی آیتیں اور اللہ خوب جاننے والا ، حکمت والا ہے (52) تاکہ بنا دے اللہ اس کو جو ڈالتا ہے شیطان آزمائش ان لوگوں کے لیے کہ ان کے دلوں میں روگ ہےاور وہ جو سخت ہیں دل ان کےاور بے شک ظالم تو (پڑے ہوئے) ہیں مخالفت میں دور کی (53) اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جو دیے گئے علم، کہ بلاشبہ یہ (قرآن) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، پس وہ ایمان لائیں اس کے ساتھ، پھر جھک جائیں اس کے لیے ان کے دل اور بے شک اللہ البتہ ہدایت دینے والا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے، طرف سیدھے راستے کی (54)
#
{52} يخبر تعالى بحكمته البالغة واختيارِهِ لعبادِهِ وأنَّ الله ما أرسل قبل محمدٍ {من رسول ولا نبيٍّ إلاَّ إذا تمنَّى}؛ أي: قرأ قراءته التي يذكِّر بها الناسَ ويأمرُهم وينهاهم، {ألقَى الشَّيطَانُ في أُمْنِيَّتِهِ}؛ أي: في قراءته من طرقه ومكايده ما هو مناقض لتلك القراءة مع أنَّ الله تعالى قد عَصَمَ الرسل بما يبلِّغون عن الله وحَفِظَ وحيَه أن يشتبِهَ أو يختلطَ بغيرِهِ، ولكنْ هذا إلقاءٌ من الشيطان غير مستقرٍّ ولا مستمرٍّ، وإنَّما هو عارضٌ يعرِضُ ثم يزول، وللعوارض أحكامٌ، ولهذا قال: {فينسخُ الله ما يُلْقي الشيطانُ}؛ أي: يزيله، ويذهبهُ، ويبطلُه، ويبيِّنُ أنه ليس من آياته. و {يُحْكِمُ الله آياتِهِ}؛ أي: يتقنها، ويحرِّرها، ويحفظها، فتبقى خالصةً من مخالطة إلقاء الشيطان. {واللَّه [عزيزٌ] }؛ أي: كامل القوة والاقتدار؛ فبكمال قوَّته يحفظ وحيَه، ويزيل ما تلقيه الشياطين. {حكيمٌ}: يضعُ الأشياء مواضعَها.
[52] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ اور اپنے بندوں کے لیے جو کچھ اختیار کررکھا ہے اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز بیان فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفیe سے پہلے ﴿مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى ﴾ ’’جو بھی رسول اور نبی گزرا، جب بھی اس نے تمنا کی‘‘ یعنی قراء ت کی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کو نصیحت کرتا، ان کو معروف کا حکم دیتا اور منکر سے روکتا ﴿ اَلْ٘قَى الشَّ٘یْطٰ٘نُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ﴾ ’’تو شیطان اس کی تمنا میں القاء کر دیتا ہے۔‘‘ یعنی اس کی قراءت میں ایسے امر سے فریب دینے کی کوشش کرتا جو اس قراء ت کے مناقض (مخالف) ہوتا … حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو تبلیغ رسالت کے ضمن میں معصوم رکھا ہے اور ہر چیز سے اپنی وحی کی حفاظت کی ہے تاکہ اس میں کوئی اشتباہ یا اختلاط واقع نہ ہو۔ مگر اس شیطانی القاء کو استقرار اور دوام نہیں ہوتا۔ یہ ایک عارض ہے جو پیش آتا ہے پھر زائل ہو جاتا ہے اور عوارض کے کچھ احکام ہیں اس لیے فرمایا: ﴿ فَ٘یَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْ٘قِی الشَّ٘یْطٰ٘نُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس القاء کو زائل کرکے باطل کر دیتا ہے اور واضح کر دیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں ہیں ۔ ﴿ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ ﴾ یعنی پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم اور متحقق کر دیتا ہے اور ان کی حفاظت کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی آیات شیطانی القاء کے اختلاط سے محفوظ اور خالص رہتی ہیں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کامل قوت و اقتدار کا مالک ہے۔ وہ اپنی قوت کاملہ سے اپنی وحی کی حفاظت کرکے شیطانی القاء کو زائل کر دیتا ہے۔ ﴿ حَكِیْمٌ﴾ وہ اشیاء کو ان کے لائق شان مقام پر رکھتا ہے۔
#
{53} فمن كمال حكمتِهِ مكَّن الشياطين من الإلقاء المذكور؛ ليحصُلَ ما ذكره بقولِهِ {لِيَجْعَلَ ما يلقي الشيطانُ فتنةً}: لطائفتين من الناس لا يبالي الله بهم: [وهم الذين] {في قلوبِهِم مرضٌ}؛ أي: ضَعْفٌ وعدم إيمان تامٍّ وتصديق جازم، فيؤثِّر في قلوبهم أدنى شبهةٍ تطرأ عليها؛ فإذا سمعوا ما ألقاه الشيطان؛ داخَلَهم الريبُ والشكُّ، فصار فتنةً لهم. {والقاسيةِ قلوبُهُم}؛ أي: الغليظة التي لا يؤثر فيها زجرٌ ولا تذكيرٌ، ولا تَفْهَمُ عن الله وعن رسوله لقسوتها؛ فإذا سمعوا ما ألقاه الشيطان؛ جعلوه حجةً لهم على باطلهم، وجادلوا به، وشاقُّوا الله ورسوله، ولهذا قال: {وإنَّ الظالمينَ لفي شقاقٍ بعيدٍ}؛ أي: مشاقَّة لله ومعاندةٍ للحقِّ ومخالفةٍ له بعيد من الصواب. فما يلقيه الشيطانُ يكون فتنةً لهؤلاء الطائفتين، فيظهر به ما في قلوبهم من الخبثِ الكامن فيها.
[53] پس یہ اس کے کمال حکمت کا حصہ ہے کہ اس نے شیاطین کو القاء کا اختیار دیا تاکہ اس امر کا حصول ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِّیَجْعَلَ مَا یُلْ٘قِی الشَّ٘یْطٰ٘نُ فِتْنَةً ﴾ ’’تاکہ کر دے اللہ القائے شیطانی کو آزمائش۔‘‘ لوگوں کے دو گروہوں کے لیے فتنہ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں اور یہ وہ لوگ ہیں ﴿ لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ جن کے دلوں میں کمزوری ہے اور ان کے دلوں میں ایمان کامل اور تصدیق جازم معدوم ہیں ۔ پس یہ القاء ایسے دلوں پر اثر کرتا ہے جن کے دلوں میں ادنیٰ سا شبہ بھی ہوتا ہے، جب وہ اس شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو شک و ریب ان کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ ﴿ وَّالْقَاسِیَةِ قُ٘لُوْبُهُمْ﴾ یعنی (دوسرا گروہ) وہ لوگ ہیں جن کے دل سخت ہوتے ہیں ۔ ان کی قساوت قلبی کی بنا پر کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی زجر و توبیخ ان پر اثرکرتی ہے نہ اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی ہے۔ پس جب وہ شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو اسے اپنے باطل کے لیے حجت بنا لیتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر جھگڑا کرتے ہیں اور پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ،اسی لیے فرمایا: ﴿ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَ٘فِیْ شِقَاقٍۭؔ بَعِیْدٍ﴾ یعنی یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی، حق کے ساتھ عناد اور اس کی مخالفت میں راہ صواب سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ پس شیطان جو کچھ القاء کرتا ہے وہ ان دونوں قسم کے گروہوں کے لیے فتنہ بن جاتا ہے اور یوں ان کے دلوں میں جو خبث چھپا ہوتا ہے ظاہر ہو جاتا ہے۔
#
{54} وأمَّا الطائفةُ الثالثةُ؛ فإنَّه يكون رحمةً في حقِّها، وهم المذكورون بقوله: {ولِيَعْلَمَ الذين أوتوا العلم أنَّه الحقُّ من ربِّك}: وأن الله مَنَحَهم من العلم ما به يعرفون الحقَّ من الباطل والرُّشْدَ من الغيِّ، فيفرِّقون بين الأمرين الحقِّ المستقرِّ الذي يُحْكِمُهُ الله، والباطل العارض الذي ينسَخُهُ الله، بما على كلٍّ منهما من الشواهد، وليعلموا أنَّ الله حكيمٌ يقيِّضُ بعضَ أنواع الابتلاء ليظهرَ بذلك كمائن النفوس الخيِّرة والشِّريرة؛ {فيؤمنوا به}: بسببِ ذلك، ويزدادُ إيمانُهم عند دفع المعارِضِ والشبهِ؛ {فتخبِتَ له قلوبُهُم}؛ أي: تخشع وتخضع وتسلم لحكمتِهِ، وهذا من هدايته إيَّاهم. {وإنَّ الله لهادي الذين آمنوا}: بسبب إيمانهم {إلى صراطٍ مستقيم}: علم بالحقِّ وعمل بمقتضاه؛ فيثبِّتُ الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدُّنيا وفي الآخرة، وهذا النوع من تثبيت الله لعبده. وهذه الآيات فيها بيانُ أنَّ للرسول - صلى الله عليه وسلم - أسوةٌ بإخوانِهِ المرسلين؛ لما وَقَعَ منه عند قراءتِهِ - صلى الله عليه وسلم - {والنجم}، فلما بَلَغَ: {أفرأيتُمُ اللاتَ والعُزَّى. ومناةَ الثَّالثَةَ الأخرى}؛ ألقى الشيطانُ في قراءته: تلك الغرانيق العلى. وإنَّ شفاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجى؛ فحصل بذلك للرسول حزنٌ وللناس فتنةٌ؛ كما ذكر الله، فأنزل الله هذه الآيات.
[54] رہا تیسرا گروہ تو یہ شیطانی القاء ان کے حق میں رحمت بن جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿ وَّلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو علم سے نواز رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں ۔ پس وہ دونوں امور میں تفریق کرتے ہیں ، ایک حق مستقر ہے، جس کو اللہ محکم کرتا ہے اور دوسرا عارضی طور پر طاری ہونے والا باطل ہے، جس کو اللہ تعالیٰ زائل کر دیتا ہے، وہ حق و باطل کے شواہد اور علامات کے ذریعے سے ان میں تفریق کرتے ہیں … تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے۔ وہ آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اچھے اور برے نفوس میں چھپے ہوئے خیالات کو ظاہر کر دے۔ ﴿ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ ﴾ تاکہ وہ اس سبب سے اس پر ایمان لائیں اور معارضات و شبہات کے دور ہونے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﴿ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُ٘لُوْبُهُمْ﴾ اور اس کے سامنے ان کے دل جھک جائیں اور اس کی حکمت کو تسلیم کرلیں اور یہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ اللہ ان کو ان کے ایمان کے سبب سے راہ راست پر گامزن کرتا ہے، یعنی حق کے علم اور اس کے تقاضوں پر عمل کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ قول ثابت کے ذریعے سے اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے… اور یہ نوع، بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ثابت قدمی ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کا بیان ہے کہ رسول اللہe کے لیے گزشتہ انبیاء و مرسلین کا طریقہ ایک نمونہ ہے۔ نبی اکرمe نے سورۃ (النجم) تلاوت فرمائی تو جب آپe اس مقام پر پہنچے ﴿ اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْ٘عُزّٰىۙ۰۰وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى ﴾ (النجم:53؍19 ،20) ’’بھلا تم لوگوں نے لات اور عزی کو دیکھا اور تیسرے منات کو بھی (بھلا یہ بت معبود ہو سکتے ہیں ؟‘‘ تو شیطان نے آپ کی تلاوت کے درمیان یہ الفاظ القاء کر دیے۔ (تلک الغرانیق العلی ۔ وان شفاعتھن لترتجی) ’’یہ خوبصورت اور بلند مرتبہ دیویاں ہیں جن کی سفارش کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘ اس طرح رسولe کو حزن و غم کا سامنا کرنا پڑا اور لوگ فتنہ میں مبتلا ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔(حدیث غرانیق موضوع اور باطل ہے۔ محدث عصر علامہ ناصرالدین البانیa نے اپنے رسالہ ’’نصب المجانیق فی نسف حدیث الغرانیق‘‘ میں سند اور متن دونوں اعتبار سے حدیث غرانیق کا بطلان واضح کیا ہے۔اور اس سے قبل شیخ محمد عبدہ نے بھی اس کے موضوع ہونے کی وضاحت کی ہے، ازمحقق)
آیت: 55 - 57 #
{وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ (55) الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (56) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (57)}.
اور ہمیشہ رہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، شک میں اس (قرآن) سے، یہاں تک کہ آجائے ان کے پاس قیامت اچانک یا آجائے ان پر عذاب بانجھ (بے برکت) دن کا (55) بادشاہی اس دن اللہ ہی کی ہوگی وہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان، پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، (وہ ہوں گے) باغات میں نعمتوں کے (56) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو تو یہ لوگ، ان کے لیے ہے عذاب ذلیل کرنے والا (57)
#
{55} يخبر تعالى عن حالة الكفار، وأنَّهم لا يزالون في شكٍّ مما جئتَهم به يا محمدُ؛ لعنادهم وإعراضهم، وأنَّهم لا يبرحون مستمرِّين على هذه الحال، {حتَّى تأتِيَهُمُ الساعةُ بغتةً}؛ أي: مفاجأةً، {أو يأتِيَهُمْ عذابُ يوم عقيم}؛ أي: لا خير فيه، وهو يوم القيامة؛ فإذا جاءتهم الساعةُ أو أتاهم ذلك اليوم؛ علم الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين، وندموا حيث لا ينفعُهم الندمُ، وأبْلِسوا، وأَيِسوا من كلِّ خيرٍ، وودُّوا لو آمنوا بالرسول واتَّخذوا معه سبيلاً. ففي هذا تحذيرُهم من إقامتهم على مِرْيَتِهِم وفِرْيَتِهِم.
[55] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی حالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ کفار ہمیشہ شک و ریب میں مبتلا رہیں گے۔ اے محمد! (e) آپ جو کچھ ان کے پاس لے کر آئے ہیں کفار اپنے عناد اور اعراض کے باعث شک کرتے رہیں گے اور وہ اسی حال میں ہمیشہ رہیں گے ﴿ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً ﴾ ’’یہاں تک کہ ان کے پاس قیامت کی گھڑی اچانک آجائے‘‘ ﴿ اَوْ یَ٘اْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ ﴾ ’’یا ان کے پاس بانجھ دن کا عذاب آ جائے۔‘‘ یعنی ایسے دن کا عذاب آجائے، جس میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جب قیامت کی گھڑی ان کے پاس آجائے گی یا وہ دن آجائے گا تو ان لوگوں کو معلوم ہو جائے گا جنھوں نے کفر کیا کہ وہ جھوٹے تھے۔ وہ نادم ہوں گے جبکہ ان کی ندامت انھیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ کاش انھوں نے رسول پر ایمان لا کر اس کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ اس آیت میں کفار کو اپنے شک و شبہات اور افترا پردازی پر قائم رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔
#
{56 ـ 57} {الملكُ يومئذٍ}؛ أي: يوم القيامة {لله}: تعالى لا لغيره، {يحكُمُ بينَهم}: بحكمه العدل وقضائه الفصل. {فالذين آمنوا}: بالله ورسلِهِ وما جاؤوا به، {وعمِلوا الصالحاتِ}: ليصدِّقوا بذلك إيمانَهم {في جنَّاتِ النعيم}: نعيم القلب والروح والبدن مما لا يصفه الواصفون ولا تدركه العقول. {والذِينَ كَفَرُوا}: بالله ورسله، {وكذَّبوا بآياتنا}: الهاديةِ للحقِّ والصواب، فأعرضوا عنها أو عاندوها {فأولئك لهم عذابٌ مُهينٌ}: لهم من شدَّتِهِ وألمِهِ وبلوغِهِ للأفئدة؛ كما استهانوا برسلِهِ وآياتِهِ؛ أهانهم الله بالعذاب.
[57,56] ﴿ اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’بادشاہی اس دن۔‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ لِّلّٰهِ﴾ ’’صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی۔‘‘ اور اس کے سوا کسی اور کا کوئی اقتدار و اختیار نہ ہوگا۔ ﴿ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ ﴾ وہ ان کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کرے گا۔ ﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ پس وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور جو کچھ رسول لے کر آئے، اس پر ایمان لائے ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ اور نیک عمل كيے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت بہم پہنچائیں ﴿ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ﴾ ’’نعمت والے باغوں میں ہوں گے۔‘‘ یعنی انھیں قلب و روح اور بدن کی ایسی نعمت حاصل ہوگی جسے کوئی بیان کرنے والا بیان کر سکتا ہے نہ عقل اس کا ادراک کر سکتی ہے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ اور وہ جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کیا ﴿ وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ﴾ اور حق و صواب کی طرف راہ نمائی کرنے والی ہماری آیات کی تکذیب کی، ان سے روگردانی کی یا ان سے عناد رکھا ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ﴾ ان کے لیے،انتہائی شدید، المناک اور دلوں تک اتر جانے والا رسوا کن عذاب ہے کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اس کی آیات کی اہانت کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کواہانت آمیز عذاب میں مبتلا کیا۔
آیت: 58 - 59 #
{وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (58) لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ (59)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اللہ کی راہ میں ، پھر وہ قتل (شہید) کیے گئے یا وہ مر گئے البتہ ضرور رزق دے گا ان کو اللہ رزق بہت اچھا اور بلاشبہ اللہ، البتہ وہی ہے سب سے بہتر رزق دینے والا (58) البتہ ضرور داخل کرے گا وہ ان کو اس مقام میں کہ وہ پسند کریں گے اسے اور بلاشبہ اللہ البتہ خوب جاننے والا بردبار ہے (59)
#
{58} هذه بشارةٌ كبرى لمن هاجر في سبيل الله، فخرج من دارِهِ ووطنِهِ وأولادِهِ ومالِهِ ابتغاءَ وجه الله ونصرةً لدين الله؛ فهذا قد وجب أجرُهُ على الله؛ سواءً مات على فراشِهِ أو قُتِلَ مجاهداً في سبيل الله. {لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللهُ رزقاً حسناً}: في البرزخ وفي يوم القيامة ؛ بدخول الجنَّة الجامعة للرَّوْح والرَّيْحان والحُسْن والإحسان ونعيم القلب والبدن، ويُحْتَمَلُ أنَّ المراد أنَّ المهاجر في سبيل الله قد تكفَّلَ الله برزقِهِ في الدُّنيا رزقاً واسعاً حسناً، سواء علم الله منه أنه يموتُ على فراشه أو يُقْتَلُ شهيداً؛ فكلُّهم مضمونٌ له الرزق؛ فلا يتَوَهَّم أنه إذا خرج من دياره وأمواله سيفتقرُ ويحتاج؛ فإنَّ رازِقَه هو خير الرازقين. وقد وقع كما أخبر؛ فإنَّ المهاجرين السابقين تركوا ديارهم وأبناءهم وأموالهم نُصْرَةً لدين الله، فلم يَلْبَثوا إلاَّ يسيراً حتى فتحَ الله عليهم البلادَ، ومكَّنهم من العباد، فاجْتَبوا من أموالها ما كانوا به من أغنى الناس.
[58] یہ آیت کریمہ اس شخص کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی نصرت کی خاطراپنا گھر بار، مال اور اولاد چھوڑ کر وطن سے نکلا۔ اب یہ شخص خواہ اپنے بستر پرجان دے یا جہاد کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے، اللہ تعالیٰ پر اس کا اجر واجب ہوگیا ﴿ لَیَ٘رْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا﴾ ’’اللہ تعالیٰ انھیں اچھا رزق عطا کرے گا ‘‘ عالم برزخ میں اور قیامت کے روز جنت میں داخل کرکے اچھے رزق سے نوازے گا۔ اس جنت میں آرام، خوشبوئیں ، حسن، احسان اور قلب و بدن کی تمام نعمتیں جمع ہوں گی۔ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کشادہ اور اچھے رزق کی ذمہ داری اٹھائی ہے، خواہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بستر پرجان دے یا اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جائے، ان سب کے لیے رزق کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہجرت کرنے والے کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ جب وہ اپنے گھر بار اور مال و اولاد کو چھوڑ کر نکلے گا تو محتاج ہو جائے گا کیونکہ اس کا رازق وہ ہے جو سب سے بہتر رزق عطا کرنے والا ہے۔ یہ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا تھا۔ مہاجرین سابقین نے نصرت دین کی خاطر اپنا گھر بار، اولاد اور مال چھوڑ دیا تو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے بہت سے شہر فتح کروائے، انھیں لوگوں پر اقتدار و اختیار عطا کیا تو انھوں نے ان شہروں سے مال حاصل کیا اور اس مال کے ذریعے سے سب سے دولت مند ہوگئے۔
#
{59} ويكون على هذا القول قولُهُ: {لَيُدْخِلَنَّهُم مُدْخلاً يرضَوْنَه}: إمَّا ما يفتحُ الله عليهم من البلدان، خصوصاً فتحَ مكَّة المشرَّفة؛ فإنَّهم دخلوها في حالة الرضا والسرور، وإمَّا المرادُ به رزق الآخرة، وأنَّ ذلك دخولُ الجنَّة، فتكون الآية جمعت بين الرزقين؛ رزق الدُّنيا ورزق الآخرة. واللفظ صالحٌ لذلك كله، والمعنى صحيحٌ؛ فلا مانعَ من إرادةِ الجميع. {وإنَّ الله لعليمٌ}: بالأمورِ؛ ظاهرها وباطنها، متقدِّمها ومتأخِّرها. {حليم}: يعصيه الخلائقُ ويبارِزونه بالعظائم، وهو لا يعاجِلُهم بالعقوبة، مع كمال اقتدارِهِ، بل يواصِلُ لهم رزقَه، ويُسْدي إليهم فضله.
[59] اور انکا حال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہوگیا : ﴿ لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗ ﴾ ’’اور اللہ ان کو ایسی جگہ میں داخل فرمائے گا جس کو وہ پسند کریں گے۔‘‘ اس سے مراد یا تو وہ شہر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح كيے، خاص طور پر مکہ مکرمہ کیونکہ اہل ایمان مکہ مکرمہ میں نہایت مسرت اور رضا کی حالات میں داخل ہوئے تھے … یا اس سے مراد آخرت کا رزق اور جنت میں داخل ہونا ہے۔ پس آیت کریمہ رزق کی دونوں اقسام، یعنی رزق دنیا اور رزق آخرت دونوں کو جمع کرنے والی ہے لفظ کا اطلاق دونوں کے لیے درست اور معنی دونوں کے صحیح ہے۔ ان تمام معانی کے اطلاق سے کوئی امر مانع نہیں ۔ ﴿وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَلِیْمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ ظاہری اور باطنی، گزرے ہوئے اور آنے والے تمام امور کا علم رکھتا ہے۔ ﴿ حَلِیْمٌ ﴾ مخلوق اس کی نافرمانی کرتی ہے اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے مگر وہ کامل قدرت رکھنے کے باوجود سزا دینے میں جلدی نہیں کرتابلکہ ان کو پیہم رزق مہیا فرماتا اور اپنے فضل سے انھیں نوازتا ہے۔
آیت: 60 #
{ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ (60)}.
(بات) یہی ہےاور جو شخص بدلہ مثل اس کے جو زیادتی کی گئی اس کے ساتھ، پھر ظلم کیا جائے اس پر تو البتہ ضرور مدد کرے گا اس کی اللہ بلاشبہ اللہ البتہ نہایت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے (60)
#
{60} ذلك بأنَّ من جُنِيَ عليه وظُلِمَ؛ فإنَّه يجوز له مقابلةُ الجاني بمثل جنايته؛ فإنْ فعل ذلك؛ فليس عليه سبيلٌ، وليس بِمَلوم؛ فإنْ بُغِيَ عليه بعد هذا؛ فإنَّ الله ينصرُه؛ لأنَّه مظلومٌ؛ فلا يجوز أن يُبْغَى عليه بسبب أنَّه استوفى حقَّه، وإذا كان المجازي غيرَه بإساءته إذا ظُلِمَ بعد ذلك؛ نَصَرَه الله؛ فالذي بالأصل لم يعاقب أحداً إذا ظلم وجُنِيَ عليه؛ فالنصر إليه أقرب. {إنَّ الله لعفوٌّ غفورٌ}؛ أي: يعفو عن المذنبين؛ فلا يعاجِلُهم بالعقوبة، ويغفر ذنوبهم، فيزيلها ويزيل آثارها عنهم؛ فالله هذا وصفُه المستقرُّ اللازم الذاتيُّ، ومعاملتُهُ لعباده في جميع الأوقات بالعفو والمغفرة، فينبغي لكم أيها المظلومون المجنيُّ عليهم أن تعفوا وتصفحوا وتغفِروا؛ لِيُعامِلَكُمُ الله كما تعامِلون عبادَه؛ فمن عفا وأصلح؛ فأجْرُهُ على الله.
[60] جس شخص کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا ارتکاب کیا گیا ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس ظالم کامقابلہ ویسی ہی زیادتی کے ساتھ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ اور کوئی ملامت نہیں ۔ پس اگر اس کے بعد بھی وہ اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس ظالم کی مدد کرے گا کیونکہ وہ اب مظلوم ہے، اس بنا پر اس کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا جائز نہیں کیوں کہ اس نے اپنا حق وصول کرلیا ہے پس جب دوسرے سے اس کی برائی کا بدلہ لینے والا شخص اپنا بدلہ لینے کے بعد زیادتی کرے تو کے بعد اس پر پھر ظلم کیا جائے، اللہ تعالیٰ اس دوسرے کی (جو اب مظلوم ہے) مدد فرماتا ہے تو جو مظلوم سرے سے بدلہ ہی نہ لے تو اس کے لیے تو اللہ کی مدد بہت زیادہ قریب ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ٘ غَفُوْرٌ﴾ ’’بلاشبہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ گناہ گاروں کو معاف کر دیتا ہے۔ ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، وہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان گناہوں کو دور کر کے ان کے آثار بھی مٹا دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی، دائمی اور وصف لازم ہے اور ہر وقت اپنے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ عفو اور مغفرت کا معاملہ ہوتا ہے، اس لیے اے وہ مظلوم لوگو! جن کے خلاف جرم کیا گیا ہے، تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم معاف کر دو، درگزر سے کام لو اور بخش دو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی تمھارے ساتھ وہی معاملہ کرے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (الشوریٰ:42؍40) ’’جس نے معاف کر دیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ہاں واجب ٹھہرا۔‘‘
آیت: 61 - 62 #
{ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (61) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (62)}.
یہ اس لیے کہ بے شک اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور (یہ کہ) بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے (61)یہ اس لیے کہ بے شک اللہ ، وہی حق ہےاور جس کو وہ پکارتے ہیں سوائے اس کے، وہ باطل ہےاور (یہ کہ) بلاشبہ اللہ، وہی ہے بلند تر، بہت بڑا (62)
#
{61} ذلك الذي شَرَعَ لكم تلك الأحكامَ الحسنة العادلة هو حَسَنُ التصرُّف في تقديره وتدبيره، الذي {يولِجُ الليلَ في النهارِ}؛ أي: يُدْخِلُ هذا على هذا وهذا على هذا، فيأتي بالليل بعد النهار، وبالنهارِ بعد الليل، ويزيدُ في أحدِهما ما يَنْقُصُه من الآخر، ثم بالعكس، فيترتَّب على ذلك قيامُ الفصول ومصالح الليل والنهار والشمس والقمر، التي هي من أجلِّ نعمِهِ على العباد، وهي من الضروريَّات لهم. {وأنَّ الله سميعٌ}: يسمع ضجيجَ الأصوات باختلاف اللغات على تفنُّن الحاجات. {بصيرٌ}: يرى دبيبَ النملة السوداء تحت الصخرة الصمَّاء في الليلة الظَّلماء، سواء منكم مَن أسرَّ القول ومَن جَهَرَ به، ومن هُو مُسْتَخْفٍ بالليل وسارب بالنهار.
[61] وہ اللہ جس نے تمھارے لیے یہ اچھے اور انصاف پر مبنی احکام مشروع كيے ہیں ، اپنی تقدیر اور تدبیر میں بہترین طریقے سے تصرف کرتا ہے، جو ﴿ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ ﴾ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ پس وہ دن کے بعد رات کو اور رات کے بعد دن کو لاتا ہے اور وہ ان دونوں میں سے ایک کو بڑھاتا اور دوسرے میں اسی حساب سے کمی کرتا رہتا ہے، پھر اس کے برعکس پہلے میں کمی کرتا ہے اور دوسرے کو بڑھاتا ہے۔ پس دن رات کی اس کمی بیشی پر موسم مترتب ہوتے ہیں اور اسی پر شب و روز اور سورج چاند کے فوائد کا انحصار ہے، جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور یہ مختلف مواسم ان کے لیے نہایت ضروری ہیں ۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ ﴾ ’’اور اللہ سننے والا ہے۔‘‘ بندوں کی زبان کے اختلاف اور ان کی مختلف حاجات کے باوجود وہ ان کی چیخ و پکار میں ہر ایک کی بات سنتا ہے۔ ﴿ بَصِیْرٌ ﴾ ’’دیکھنے والا ہے۔‘‘ وہ رات کی تاریکی میں ، ٹھوس چٹان کے نیچے، سیاہ چیونٹی کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ﴿ سَوَؔآءٌ مِّؔنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭؔ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ﴾ (الرعد:13؍10) ’’تم میں سے کوئی شخص خواہ بلند آواز سے بات کرے یا آہستہ اور کوئی رات کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہو یا دن کے اجالے میں چل رہا ہو اس کے لیے سب برابر ہے۔‘‘
#
{62} {ذلك}: صاحب الحكم والأحكام، {بأنَّ الله هو الحقُّ}؛ أي: الثابتُ الذي لا يزال ولا يزول، فالأولُ الذي ليس قبله شيء، الآخِرُ الذي ليس بعدَه شيء، كامل الأسماء والصفات، صادقُ الوعد، الذي وعدُهُ حقٌّ ولقاؤه حقٌّ ودينه حقٌّ وعبادته هي الحقُّ النافعة الباقية على الدوام. {وأنَّ ما يدعون من دونِهِ}: من الأصنام والأنداد من الحيوانات والجمادات، {هو الباطل}: الذي هو باطلٌ في نفسه، وعبادتُه باطلةٌ؛ لأنها متعلِّقةٌ بمضمحلٍّ فانٍ، فتبطُلُ تبعاً لغايتها ومقصودها. {وأنَّ الله هو العليُّ الكبيرُ}: العليُّ في ذاته؛ فهو عالٍ على جميع المخلوقات، وفي قَدْرِهِ؛ فهو كامل الصفات، وفي قهرِهِ لجميع المخلوقات، الكبيرُ في ذاتِهِ وفي أسمائِهِ وفي صفاتِهِ، الذي من عظمتِهِ وكبريائِهِ أنَّ الأرضَ قبضتُه يوم القيامة والسماوات مطوياتٌ بيمينِهِ، ومن كبريائِهِ أنَّ كرسيَّه وَسِعَ السماواتِ والأرض، ومن عظمتِهِ وكبريائِهِ أنَّ نواصي العباد بيدِهِ؛ فلا يتصرفون إلا بمشيئته، ولا يتحرَّكون ويسكُنون إلاَّ بإرادتِهِ، وحقيقةُ الكبرياء التي لا يعلمها إلاَّ هو؛ لا مَلَكٌ مقرَّبٌ ولا نبيٌّ مرسلٌ: أنَّها كلُّ صفة كمال وجلال وكبرياء وعظمةٍ؛ فهي ثابتةٌ له، وله من تلك الصفة أجلُّها وأكملُها، ومن كبريائِهِ أنَّ العباداتِ كلَّها، الصادرةَ من أهل السماوات والأرضِ كلِّها، المقصودُ منها تكبيرُهُ وتعظيمُهُ وإجلالُهُ وإكرامُهُ، ولهذا كان التكبير شعاراً للعبادات الكبار كالصلاة وغيرها.
[62] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ حکم اور احکام والی ہستی ﴿ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ وہ ثابت ہے جو ہمیشہ سے ہے، وہ زائل ہونے والی نہیں ، وہ ’’اول‘‘ ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھا وہ ’’آخر‘‘ ہے اس کے بعد کچھ نہیں ، وہ کامل اسماء و صفات کا مالک، وعدے کا سچا، اس کا وعدہ حق ہے، اس سے ملاقات ہونا حق ہے، اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق، نفع مند اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ ﴿ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ﴾ اور اس کے سوا تم جن بتوں اور جمادات و حیوانات میں سے خود ساختہ خداؤں کو پکارتے ہو ﴿ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾ وہ فی نفسہ باطل ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے کیونکہ یہ ایسی ہستی سے متعلق ہے جو مضمحل اور فانی ہے، لہٰذا وہ بھی اپنے باطل مقصد کی بنا پر باطل ہے۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْ٘عَلِیُّ الْكَبِیْرُ ﴾ وہ فی ذاتہ بلند ہے، اس لیے وہ تمام مخلوقات سے بلند ہے، وہ عالی قدر ہے، اس لیے وہ اپنی صفات میں کامل ہے، وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے، وہ اپنی ذات اور اسماء و صفات میں بلند ہے۔ یہ اس کی عظمت و کبریائی ہے کہ قیامت کے روز زمین اس کے قبضۂ قدرت میں اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر محیط ہے، یہ اس کی کبریائی ہے کہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ وہ اس کی مشیت کے بغیر تصرف نہیں کر سکتے۔ وہ اس کے ارادے کے بغیر حرکت کر سکتے ہیں نہ ساکن ہو سکتے ہیں ۔ اس کی کبریائی کی حقیقت کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبىٔ مرسل۔ ہر صفت کمال و جلال اور عظمت و کبریائی اس کے لیے ثابت ہے۔ اس کی یہ صفت کامل ترین اور جلیل ترین درجے پر ہے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ زمین و آسمان سے صادر ہونے والی عبادات کا مقصد وحید اس کی تعظیم و کبریائی کا اقرار اور اس کے جلال و اکرام کا اعتراف ہے، بنابریں تکبیر تمام بڑی بڑی عبادات ، مثلاً: نماز وغیرہ کا شعار ہے۔
آیت: 63 - 64 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (63) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (64)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے یہ کہ بے شک اللہ ہی نے نازل کیا آسمان سے پانی، کہ ہو جاتی ہے (اس سے) زمین سرسبز، بلاشبہ اللہ نہایت باریک بین، باخبر ہے (63) اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بے شک اللہ، البتہ وہی بے پروا، قابل تعریف ہے (64)
#
{63} هذا حثٌّ منه تعالى وترغيبٌ في النظر بآياتِهِ الدَّالَّة على وحدانيَّته وكماله، فقال: {ألم تَرَ}؛ أي: ألم تشاهِدْ ببصرك وبصيرتك، {أنَّ الله أنْزَلَ مِنَ السماء ماءً}: وهو المطر، فينزِلُ على أرضٍ خاشعةٍ مجدبةٍ، قد اغبرَّت أرجاؤُها ويَبِسَ ما فيها من شجرٍ ونباتٍ، فتصبح مخضرَّةً؛ قد اكتستْ من كلِّ زوج كريم، وصار لها بذلك منظرٌ بهيجٌ، أنَّ الذي أحياها بعد موتها وهمودها لَمحيي الموتى بعد أن كانوا رميماً. {إنَّ الله لطيفٌ خبيرٌ}: اللطيفُ: الذي يدرِكُ بواطن الأشياء وخفيَّاتها وسرائرها، الذي يسوقُ إلى عباده الخير، ويدفَعُ عنه الشرَّ بطرقٍ لطيفةٍ تَخْفى على العباد. ومن لطفِهِ أنَّه يُري عبده عزَّتَه في انتقامه، وكمال اقتدارِهِ، ثم يظهِرُ لطفَه بعد أن أشرف العبدُ على الهلاك. ومن لطفِهِ أنَّه يعلم مواقعَ القطرِ من الأرض وبذور الأرض في بواطنها، فيسوق ذلك الماء إلى ذلك البذر الذي خفي على عِلْم الخلائق، فَيَنْبُتُ منه أنواعُ النبات. {خبيرٌ}: بسرائر الأمور وخبايا الصُّدور وخفايا الأمور.
[63] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آیات الٰہی میں تفکروتدبر کی ترغیب ہے، جو اس کی وحدانیت اور اس کے کمال پر دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ تَرَ﴾ یعنی کیا تم نے چشم بصارت اور چشم بصیرت سے دیکھا نہیں ؟ ﴿ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً﴾ ’’بے شک اللہ اتارتا ہے آسمان سے پانی۔‘‘ اس سے مراد بارش ہے جو پیاسی اور قحط زدہ زمین پر، جس کے کنارے غبار آلود اور اس میں موجود تمام درخت اور نباتات خشک ہو چکے ہوتے ہیں ، نازل ہوتی ہے۔ پس زمین سرسبز ہو جاتی ہے، ہر قسم کا خوبصورت لباس پہن لیتی ہے اور اس طرح زمین خوش منظر بن جاتی ہے۔بلاشبہ وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کیا، مردوں کو ان کے بوسیدہ ہو جانے کے بعد زندہ کرے گی۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ ﴾ (اللطیف) سے مراد وہ ہستی ہے جو تمام اشیاء کے باطن، ان کے مخفی امور اور ان کے تمام بھیدوں کو خوب جانتی ہے، جو اپنے بندوں کو اَن دیکھے راستوں سے بھلائی عطا کرتی ہے اور ان سے برائی کو دور کرتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کو اپنے انتقام میں اپنی قوت اور اپنی قدرت کاملہ کا نظارہ کرواتا ہے اور جب بندہ ہلاکت کے گھڑے کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے تو اس پر اپنے لطف کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بھی اس کے لطف و کرم کا حصہ ہے کہ وہ بارش ہونے کی جگہوں اور زمین کے سینے میں چھپے ہوئے بیجوں کو جانتا ہے۔ وہ بارش کے اس پانی کو اس بیج تک پہنچاتا ہے، جو مخلوق سے مخفی ہے پھر اس سے مختلف انواع کی نباتات اگاتا ہے۔ ﴿خَبِیْرٌ﴾ وہ تمام امور کے رازوں اور تمام سینوں کے بھیدوں کی خبر رکھتا ہے۔
#
{64} {له ما في السمواتِ} والأرض خَلْقاً وعبيداً، يتصرَّف فيهم بملكه وحكمته وكمال اقتداره، ليس لأحدٍ غيره من الأمر شيءٌ. {وإنَّ الله لهو الغنيُّ}: بذاتِهِ، الذي له الغنى المطلقُ التامُّ من جميع الوجوه. ومن غناه أنَّه لا يحتاجُ إلى أحدٍ من خَلْقِهِ ولا يواليهم من ذلَّةٍ ولا يتكثَّرُ بهم من قِلَّةٍ. ومن غناه أنه ما اتَّخذ صاحبةً ولا ولداً. ومن غناه أنَّه صمدٌ لا يأكل ولا يشرب ولا يحتاجُ إلى ما يحتاج إليه الخلقُ بوجهٍ من الوجوه؛ فهو يُطْعِمُ ولا يُطْعَمُ. ومن غناه أنَّ الخلق كلَّهم مفتقرون إليه؛ في إيجادهم وإعدادهم وإمدادهم، وفي دينهم ودنياهم. ومن غناه أنَّه لو اجتمع مَن في السماوات ومَن في الأرض، الأحياء منهم والأموات، في صعيدٍ واحدٍ، فسأل كل منهم ما بلغت أمنيَّتُه، فأعطاهم فوق أمانيهم؛ ما نَقَصَ ذلك من ملكه شيء. ومن غناه أنَّ يَدَهُ سحاءُ بالخير والبركات الليل والنهار، لم يزل إفضاله على الأنفاس. ومن غناه وكرمِه ما أودعه في دار كرامتِهِ مما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خَطَرَ على قلب بشر. {الحميد}؛ أي: المحمود في ذاته، وفي أسمائه؛ لكونها حسنى، وفي صفاته؛ لكونها كلها صفات كمال، وفي أفعاله؛ لكونها دائرة بين العدل والإحسان والرحمة والحكمة، وفي شرعه؛ لكونه لا يأمر إلاَّ بما فيه مصلحةٌ خالصةٌ أو راجحةٌ، ولا ينهى إلاَّ عما فيه مفسدةٌ خالصةٌ أو راجحةٌ، الذي له الحمدُ الذي يملأ ما في السماوات والأرض وما بينهما وما شاء بعدها، الذي لا يُحْصي العبادُ ثناءً على حمده، بل هو كما أثنى على نفسه وفوق ما يُثْني عليه عباده، وهو المحمود على توفيق من يوفِّقه وخذلان من يخذله، وهو الغنيُّ في حمده، الحميد في غناه.
[64] ﴿ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی قوت، حکمت اور اقتدار کامل سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ اس معاملے میں اس کے سوا کسی کو کوئی اختیار نہیں ﴿وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِیُّ ﴾ یعنی وہ بذاتہ غنی ہے، جو ہر لحاظ سے غنائے مطلق و تام کا مالک ہے یہ اس کی غنائے کامل ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں وہ ذلت سے بچنے کے لیے ان کو مددگار بناتا ہے نہ قلت کو دور کرنے کے لیے ان کے ذریعے کثرت حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی غنائے تام ہے کہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد۔ یہ اس کی غنا ہے کہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے کسی لحاظ سے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے، وہ مخلوق کو کھلاتا ہے کوئی اس کو نہیں کھلاتا۔ یہ اس کی غنا ہے کہ تمام مخلوق اپنے وجود میں آنے، اپنے تیار ہونے، اپنی امداد میں اور اپنے دین و دنیا میں اسی کی محتاج ہے۔ یہ اس کی غنائے تام ہے کہ اگر آسمانوں اور زمین کے تمام لوگ زندہ و مردہ سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں ، پھر اس میں سے ہر شخص اپنی اپنی خواہش و تمنا کے مطابق اس سے سوال کرے اور وہ ان کو ان کی تمنا اور خواہش سے بڑھ کر عطا کر دے تب بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ یہ اس کی غنا ہے کہ اس کا دست عطا دن رات خیر و برکات عنایت کرتا رہتا ہے، اس کا فضل و کرم تمام جانداروں پر حاوی و ساری ہے۔ یہ اس کی غنا ہے کہ اس نے اپنے اکرام و تکریم والے گھر میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور سے اس کے طائر خیال کا گزر ہوا ہے۔ ﴿الْحَمِیْدُ ﴾ وہ اپنی ذات میں محمود ہے اور وہ اپنے اسماء میں محمود ہے کیونکہ اس کے تمام نام اچھے ہیں ۔ وہ اپنی صفات میں محمود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات، صفات کمال ہیں ۔ وہ اپنے افعال میں محمود ہے کیونکہ اس کے تمام افعال عدل و احسان اور رحمت و حکمت پر مبنی ہیں ۔ وہ اپنی تشریع میں محمود ہے کیونکہ وہ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں کوئی خالص یا راجح مصلحت ہو اور وہ اسی چیز سے روکتا ہے جس میں کوئی خالص یا راجح فساد ہو۔ وہ جس کے لیے ہر قسم کی ستائش ہے جس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور ان کے بعد جو کچھ وہ چاہے، سب کو لبریز کر رکھا ہے۔ وہ ہستی کہ بندے اس کی حمد و ثنا بیان کرنے سے قاصر ہیں بلکہ وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی حمد و ثنا بیان کی ہے۔ وہ اس حمد و ثنا سے بالا و بلند تر ہے جو بندے بیان کرتے ہیں ۔ وہ جسے اپنی توفیق سے نوازتا ہے تو اپنی توفیق پر قابل تعریف ہے اور جب اس سے علیحدہ ہو کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو اس پر بھی قابل تعریف ہے۔ وہ اپنی حمد و ثنا میں غنی اور اپنی غنا میں قابل تعریف ہے۔
آیت: 65 - 66 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (65) وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ (66)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ نے تابع کر دیا واسطے تمھارے جو کچھ زمین میں ہے اور کشتیوں کو جو چلتی ہیں سمندر میں ساتھ اس کے حکم کے اور وہی تھامے رکھتا ہے آسمان کو اس سے کہ گر پڑے وہ اوپر زمین کے مگر ساتھ اسی کے حکم کے بلاشبہ اللہ لوگوں پر البتہ نہایت شفقت کرنے والا ، بڑا مہربان ہے (65) اور وہی ہے جس نے زندہ کیا تمھیں ، پھر وہ مارے گا تمھیں ، پھر (دوبارہ) وہ زندہ کرے گا تمھیں ، بے شک انسان البتہ بڑا ناشکراہے (66)
#
{65} أي: ألم تشاهدْ ببصرك وقلبك نعمة ربِّك السابغة وأياديه الواسعة، و {أنَّ الله سخَّرَ لكم ما في الأرض}: من حيوانات ونبات وجمادات؛ فجميع ما في الأرض مسخَّر لبني آدم؛ حيواناتُها لركوبه وحمله وأعماله وأكله وأنواع انتفاعه، وأشجارُها وثمارها يقتاتُها، وقد سُلِّط على غرسها واستغلالها، ومعادنها يستخرجها وينتفع بها. {والفلَك}؛ أي: وسخَّرَ لكم الفلك، وهي السفن، {تجري في البحر بأمرِهِ}: تحمِلُكم وتحمل تجاراتكم وتوصِلُكم من محل إلى محلٍّ وتستخرجون من البحر حليةً تلبَسونها. ومن رحمته بكم أنه {يُمْسِكُ السماء أن تَقَعَ على الأرض}؛ فلولا رحمتُهُ وقدرتُهُ؛ لسقطت السماء على الأرض، فتلف ما عليها، وهلك من فيها: {إنَّ الله يُمْسِكُ السمواتِ والأرضَ أن تزولا ولئن زالتا إنْ أمْسَكَهُما من أحدٍ من بعدِهِ إنَّه كان حليماً غفوراً}. {إنَّ الله بالناس لرءوفٌ رحيمٌ}: أرحم بهم من والديهم ومن أنفسهم، ولهذا يريد لهم الخير، ويريدون لها الشرَّ والضرَّ. ومن رحمته أن سخَّر لهم ما سخَّر من هذه الأشياء.
[65] کیا تم نے اپنی آنکھ اور دل سے اپنے رب کی بے پایاں نعمت اور بے حد احسانات کو نہیں دیکھا؟ ﴿ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حیوانات نباتات اور جمادات کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ روئے زمین کی تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لیے مسخر کر دیا ہے، چنانچہ زمین کے تمام حیوانات کو انسان کی سواری، نقل و حمل، کام کاج، کھانے اور مختلف انواع کے استفادے کے لیے مسخر کر دیا اور اس کے تمام درختوں اور پھلوں کو بھی مسخر کر دیا تاکہ وہ ان سے خوراک حاصل کر سکے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو درخت لگانے زمین سے غلہ حاصل کرنے اور معدنیات نکالنے کی طاقت عطا کی تاکہ وہ ان سے استفادہ کرے۔ ﴿ وَالْفُلْكَ ﴾ یعنی تمھارے لیے کشتیوں کو مسخر کر دیا ﴿ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ﴾ وہ سمندوں میں تمھیں اور تمھارے تجارتی سامان کو اٹھائے پھرتی ہیں اور تمھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں ، نیز تم سمندر سے موتی نکالتے ہو جنھیں تم زیور کے طور پر پہنتے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ ﴿وَیُمْسِكُ السَّمَآءَؔ اَنْ تَ٘قَ٘عَ عَلَى الْاَرْضِ ﴾ ’’اس نے آسمان کو زمین پر گرنے سے تھام رکھا ہے۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی قدرت نہ ہوتی تو آسمان زمین پر گر پڑتا اور زمین پر موجود ہر چیز کو تلف اور ہر انسان کو ہلاک کر دیتا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ١ۚ ۬ وَلَىِٕنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَ٘هُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ﴾ (فاطر:35؍41) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے اگر وہ دونوں ٹل (ڈول) جائیں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ان کو تھامنے والا نہیں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت حلیم اور بخش دینے والا ہے۔ ‘‘ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ ان پر ان کے والدین سے اور خود ان سے زیادہ مہربان ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھلائی چاہتا ہے اور وہ خود برائی اور ضرر چاہتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان تمام اشیاء کو ان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔
#
{66} {وهو الذي أحياكم}: وأوجدكم من العدم، {ثم يُميتُكم}: بعد أن أحياكم، {ثم يُحييكم}: بعد موتكم؛ ليجازي المحسن بإحسانه والمسيء بإساءته. {إنَّ الإنسان}؛ أي: جنسه إلاَّ مَنْ عَصَمَهُ الله؛ {لكفورٌ}: لنعم الله، كفورٌ بالله، لا يعترف بإحسانه، بل ربَّما كفر بالبعث وقدرة ربِّه.
[66] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ ﴾ ’’اور وہی ہے جس نے تمھیں زندہ کیا۔‘‘ اور تمھیں عدم سے وجود میں لایا ﴿ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ﴾ پھر وہ تمھیں زندہ کرنے کے بعد مارے گا ﴿ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ﴾ پھر تمھارے مرنے کے بعد تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ نیک کو اس کی نیکی اور بد کو اس کی بدی کا بدلہ دے۔ ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ﴾ ’’بے شک انسان۔‘‘ یعنی جنس انسان ، سوائے اس کے جس کو اللہ تعالیٰ بچا لے ﴿ لَكَفُوْرٌ ﴾ ’’ناشکرا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور اللہ تعالیٰ کا ناسپاس ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ بسااوقات وہ دوبارہ اٹھائے جانے کا اور اپنے رب کی قدرت کا انکار کرتا ہے۔
آیت: 67 - 70 #
{لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ (67) وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (68) اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (69) أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (70)}.
واسطے ہر امت کے مقرر کیا ہے ہم نے طریقہ عبادت کا، وہ بجالانے والے ہیں اس کو، پس نہ جھگڑا کریں وہ آپ سے اس معاملے میں اور آپ بلائیں طرف اپنے رب کی ، بلاشبہ آپ البتہ اوپر راہ راست کے ہیں (67) اور اگر وہ (لوگ) جھگڑا کریں آپ سے تو آپ کہہ دیجیے! اللہ خوب جانتا ہے ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو (68) اللہ ہی فیصلہ کرے گا تمھارے درمیان دن قیامت کے ان باتوں میں کہ تھے تم ان میں اختلاف کرتے (69) کیا نہیں جانتے آپ کہ بے شک اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے؟ بلاشبہ یہ (سب کچھ) لوح محفوظ میں (درج) ہے، بے شک یہ اوپر اللہ کے آسان ہے (70)
#
{67} يخبر تعالى أنَّه جَعَلَ لكلِّ أمةٍ {مَنْسَكاً}؛ أي: معبداً وعبادةً، قد تختلفُ في بعض الأمور، مع اتِّفاقها على العدل والحكمة؛ كما قال تعالى: {لكلٍّ جَعَلْنا منكم شِرْعةً ومنهاجاً ولو شاءَ اللهُ لَجَعَلَكُم أمَّةً واحدةً ولكن لِيَبْلُوَكُم فيما آتاكم ... } الآية، {هم ناسِكُوه}؛ أي: عاملون عليه بحسب أحوالهم؛ فلا اعتراض على شريعةٍ من الشرائع، خصوصاً من الأميين أهل الشرك والجهل المبين؛ فإنَّه إذا ثبتت رسالةُ الرسول بأدلتها؛ وجب أن يُتَلَقَّى جميع ما جاء به بالقَبول والتسليم وترك الاعتراض، ولهذا قال: {فلا ينازِعُنَّكَ في الأمر}؛ أي: لا ينازِعُك المكذِّبون لك، ويعترِضون على بعض ما جئتَهم به بعقولهم الفاسدة؛ مثلَ منازعتِهِم في حلِّ الميتةِ بقياسهم الفاسد؛ يقولونَ: تأكلونَ ما قَتَلْتُم ولا تأكلونَ ما قَتَلَ الله؟! وكقولهم: {إنَّما البيعُ مثلُ الرِّبا} ... ونحو ذلك من اعتراضاتهم التي لا يلزم الجواب عن أعيانها، وهم منكرون لأصل الرسالة، وليس فيها مجادلةٌ ومحاجَّةٌ بانفرادها، بل لكلِّ مقام مقال؛ فصاحب هذا الاعتراض المنكِرُ لرسالة الرسول إذا زَعَمَ أنَّه يجادِل ليسترشدَ؛ يُقال له: الكلامُ معك في إثبات الرِّسالة وعدمها، وإلاَّ؛ فالاقتصارُ على هذه دليلٌ أنَّ مقصوده التعنت والتعجيز، ولهذا أمر اللَّهُ رسولَه أن يدعُو إلى ربِّه بالحكمة والموعظة الحسنة ويمضي على ذلك؛ سواءً اعترضَ المعترِضون أم لا، وأنه لا ينبغي أن يَثْنيكَ عن الدَّعوةِ شيءٌ؛ لأنَّك على {هدىً مستقيم}؛ أي: معتدلٍ، موصل للمقصودِ، متضمنٍ علم الحقِّ والعمل به؛ فأنت على ثقةٍ من أمرك ويقينٍ من دينك، فيوجِبُ ذلك لك الصلابة والمضيَّ لما أمرك به ربُّك، ولست على أمرٍ مشكوكٍ فيه أو حديثٍ مفترى، فتقف مع الناس ومع أهوائهم وآرائهم ويوقِفُك اعتراضُهم، ونظير هذا قولُه تعالى: {فتوكَّلْ على اللهِ إنَّك على الحقِّ المبينِ}. مع أنَّ في قوله: {إنَّك لعلى هدىً مستقيم}: إرشاداً لأجوبة المعترضين على جزئيَّات الشرع بالعقل الصحيح؛ فإنَّ الهدى وصفٌ لكلِّ ما جاء به الرسول، والهدى ما تحصُلُ به الهدايةُ في مسائل الأصول والفروع، وهي المسائل التي يُعْرَفُ حسنُها وعدلُها وحكمتُها بالعقل والفطرة السليمة، وهذا يُعْرَفُ بتدبُّر تفاصيل المأمورات والمنهيَّاتِ.
[67] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لیے ﴿ مَنْسَكًا ﴾ ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لِكُ٘لٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا١ؕ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَؔكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ (المائدۃ:5؍48) ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لیے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمھیں دیے ہیں وہ ان میں تمھیں آزمانا چاہتا ہے۔‘‘ ﴿ هُمْ نَاسِكُوْهُ ﴾ یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں ، اس لیے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں ، خاص طور پر ان پڑھوں کے لیے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہو گئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا: ﴿ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ ﴾ یعنی آپe کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں ، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپe سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھا لیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے‘‘ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لیے کہتے ہیں : ’’تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے‘‘ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں ۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں ، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لیے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لیے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے: ’’آپ کے ساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہو سکتی ہے‘‘ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں ، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ ﴿اِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰ٘ى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’یقینا آپe سیدھے راستے پر ہیں ‘‘ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپe اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپe کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور ان کی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپe کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ ﴾ (النمل:27؍79) ’’اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے، بے شک آپ واضح حق پر ہیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰ٘ى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں ۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
#
{68 ـ 69} ولهذا أمره الله بالعدول عن جدالهم في هذه الحالة، فقال: {وإن جادَلوكَ فقُل اللهُ أعلم بما تعملونَ}؛ أي: هو عالمٌ بمقاصدِكم ونيَّاتكم؛ فمجازيكم عليها في يوم القيامة الذي يحكم الله بينكم {فيما كنتُم فيه تختلفونَ}: فمن وافَقَ الصراط المستقيم؛ فهو من أهل النعيم، ومن زاغَ عنه؛ فهو من أهل الجحيم.
[69,68] بناء بریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حالت میں ان کے ساتھ بحث کرنے سے گریز کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ﴿ وَاِنْ جٰؔدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو کہہ دیجیے، اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے مقاصد اور تمھاری نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ وہ تمھیں قیامت کے دن ان کی جزا دے گااور تمھارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ پس جو کوئی صراط مستقیم کے موافق ہو گا وہ ان لوگوں میں شامل ہو گا جنھیں نعمتوں سے نوازا جائے گا اور جو صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہو گا وہ جہنمیوں میں شامل ہو گا۔
#
{70} ومن تمام حكمِهِ أن يكون حُكماً بعلم؛ فلذلك ذَكَرَ إحاطة علمه وإحاطةَ كتابه، فقال: {ألم تَعْلَمْ أنَّ الله يعلمُ ما في السماء والأرض}: لا يخفى عليه منها خافيةٌ من ظواهر الأمور وبواطنها؛ خفيِّها وجليِّها، متقدِّمها ومتأخِّرها؛ ذلك العلم المحيطَ بما في السماء والأرض، قد أثبتَه الله في كتابٍ، وهو: اللوحُ المحفوظُ، حين خَلَقَ الله القلم؛ «قال له: اكتبْ! قال: ما أكتبُ؟ قال: اكتبْ ما هو كائنٌ إلى يوم القيامة». {إنَّ ذلك على اللهِ يَسيرٌ}: وإنْ كان تصوُّره عندَكم لا يُحاط به؛ فالله تعالى يسيرٌ عليه أن يحيطَ علماً بجميع الأشياء، وأنْ يكتُبَ ذلك في كتابٍ مطابق للواقع.
[70] اس کے فیصلے کی تکمیل یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر ہو گا، بنابریں اللہ تعالیٰ نے احاطۂ علم اور احاطۂ کتاب کا ذکر فرمایا: ﴿ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ﴾ اللہ تعالیٰ پر تمام معاملات کے ظاہر و باطن، جلی و خفی اور اول و آخر میں سے کچھ بھی مخفی نہیں ، زمین و آسمان کی موجودات کا احاطہ کرنے والا علم اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب میں درج کر رکھا ہے… اور وہ ہے لوح محفوظ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا ’’لکھ! قلم نے عرض کیا ’’کیا لکھوں ؟ فرمایا ’’قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اسے لکھ‘‘(سنن ابی داود، السنۃ، باب فی القدر، ح:4700 و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ نون و القلم، ح:3319) ﴿ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ﴾ اگرچہ تمھارے نزدیک اس کے تصور کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا مگر اللہ تعالیٰ کے لیے تمام اشیاء کے علم کا احاطہ کرنا بہت آسان ہے اور اس کے لیے یہ بھی بہت آسان ہے کہ آئندہ واقعات کے علم کو واقعات کے مطابق ایک کتاب میں درج کر دے۔
آیت: 71 - 72 #
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُمْ بِهِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ (71) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (72)}.
اور وہ (مشرک) عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے اس چیز (بتوں ) کی کہ نہیں نازل کی اللہ نے اس کی کوئی دلیل اور اس چیز کی کہ نہیں ہے ان کو اس کاکوئی علم اور نہیں ہے واسطے ظالموں کے کوئی مدد گار (71) جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں واضح تو پہچانتے ہیں آپ چہروں میں ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا ناگواری، قریب ہوتے ہیں وہ کہ حملہ کر دیں ان لوگوں پر جو پڑھتے ہیں ان پر ہماری آیتیں ، آپ کہہ دیجیے! کیاپس خبر دوں میں تمھیں ساتھ بدتر کے اس سے بھی؟ (وہ) آگ ہے، وعدہ کیا اس کا اللہ نے ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیااوربری ہے و ہ ، پھرنے کی جگہ (72)
#
{71} يذكر تعالى حالَة المشركين به العادِلينَ به غيرَه، وأنَّ حالهم أقبحُ الحالات، وأنَّه لا مستندَ لهم على ما فعلوه؛ فليس لهم به علمٌ، وإنَّما هو تقليدٌ تلقَّوْه عن آبائهم الضالين، وقد يكون الإنسانُ لا علم عندَه بما فعله، وهو في نفس الأمر له حجَّة ما علمها، فأخبر هنا أن الله لم يُنَزِّلْ في ذلك {سُلطاناً}؛ أي: حجة تدلُّ عليه وتجوِّزه، بل قد أنزل البراهين القاطعة على فسادِهِ وبطلانِهِ، ثم توعَّد الظالمين منهم المعاندين للحق، فقال: {وما للظَّالمين من نصيرٍ}: ينصُرُهم من عذاب الله إذا نَزَلَ بهم، وحلَّ.
[71] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی حالت کا ذکر کرتا ہے جنھوں نے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھا ہے کہ ان کی حالت بدترین حالت ہے۔ ان افعال پر ان کے پاس کوئی سند ہے نہ ان کے پاس کوئی علم ہی ہے۔ یہ تو محض مقلد ہیں یہ سب کچھ انھوں نے اپنے گمراہ آباؤ واجداد سے حاصل کیا ہے… اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان جو کوئی کام کرتا ہے اس کے پاس… فی نفس الامر… کوئی علمی دلیل نہیں ہوتی چنانچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ایسی براہین قاطعہ نازل فرمائی ہیں جو اس کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو، جو حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں ، وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ﴾ ’’ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا‘‘ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔
#
{72} وهل هؤلاء الذين لا علم لهم بما هم عليه قصدٌ في اتِّباع الآيات والهدى إذا جاءهم أم هم راضون بما هم عليه من الباطل، ذكر ذلك بقوله: {وإذا تُتْلى عليهم آياتُنا}: التي هي آيات الله الجليلة المستلزمة لبيان الحقِّ من الباطل؛ لم يلتفتوا إليها، ولم يرفعوا بها رأساً، بل {تعرِفُ في وجوه الذين كفروا المنكَرَ}: من بُغْضِها وكراهتِها؛ ترى وجوهَهم معبسةً وأبشارهم مكفهرةً. {يكادونَ يَسْطُونَ بالذين يتلونَ عليهم آياتِنا}؛ أي: يكادون يوقِعون بهم القتلَ والضربَ البليغ من شدَّة بغضِهم وبغضِ الحقِّ وعداوته؛ فهذه الحالة من الكفار بئس الحالةُ وشرُّها بئس الشرُّ، ولكن ثَمَّ ما هو شرٌّ منها: حالتُهم التي يؤولون إليها؛ فلهذا قال: {قل أفأنبِّئُكم بشرٍّ من ذلكم النارُ وَعَدَها اللهُ الذين كفروا وبئس المصيرُ}: فهذه شرُّها طويلٌ عريضٌ، ومكروهُها وآلامُها تزدادُ على الدوام.
[72] کیا یہ لوگ جن کو اپنے موقف کے بطلان کا علم نہیں ، یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات اور ہدایت آ جائے گی وہ اس کی اتباع کریں گے یا وہ اپنے باطل ہی پر راضی ہیں ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا تُ٘تْ٘لٰ٘ى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ ﴾ ’’جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری واضح آیات۔‘‘ وہ جو اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر آیات ہیں اور باطل میں سے حق کو واضح کرنے کو مستلزم ہیں … تو یہ ان آیات کی طرف التفات کرتے ہیں نہ ان کو درخور اعتناء سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس ﴿ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الْمُنْؔكَرَ﴾ آپe ان کے چہروں کو، ان آیات الٰہی کے ساتھ ان کے بغض و کراہت کی بنا پر، بگڑا ہوا اور ان کو منقبض اور ترش رو دیکھتے ہیں ۔ ﴿ یَكَادُوْنَ یَسْطُوْنَ بِالَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا﴾ یعنی ان کے شدت بغض اور حق کے ساتھ عناد اور عداوت کی وجہ سے قریب ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت کرنے والے کو قتل کرنے یا مارنے کے لیے اس پر چڑھ دوڑیں ۔ پس کفار کی یہ حالت بہت ہی بری حالت اور ان کا شر بہت ہی برا شر ہے مگر ان کی ایک حالت اس سے بھی بدتر ہے جس کی طرف یہ لوٹیں گے، اس لیے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ١ؕ اَلنَّارُ١ؕ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’کہہ دیجیے! کیا میں تمھیں خبر دوں اس سے بھی بدتر چیز کی، وہ آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کیا ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘ پس اس کا شر بہت طویل اور عریض ہے، اس کے آلام بہت شدید ہیں جو ہمیشہ بڑھتے ہی رہیں گے۔
آیت: 73 - 74 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (73) مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (74)}.
اے لوگو! بیان کی گئی ہے ایک مثال، پس کان لگاؤ تم اس کے لیے (غور سے سنو)، بے شک وہ لوگ جنھیں تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے، ہرگز نہیں پیدا کر سکیں گے وہ ایک مکھی بھی اگر چہ اکٹھے ہو جائیں وہ اس کے لیے اور اگر چھین لے ان سے مکھی کچھ تو نہیں چھڑا سکتے وہ اس کو اس سے ، کمزور ہے طلب کرنے والا (عابد) اور وہ جس سے طلب کیا جاتا ہے (معبود) (73) نہیں قدر کی انھوں نے اللہ کی جس طرح حق ہے اس کی قدر کرنے کا، بے شک اللہ البتہ نہایت قوت والا غالب ہے (74)
#
{73 ـ 74} هذا مثلٌ ضَرَبَه الله لقبح عبادة الأوثان وبيانِ نُقصان عقول مَن عَبَدها وضَعْفِ الجميع، فقال: {يا أيها الناسُ}: هذا خطابٌ للمؤمنين والكفَّار؛ المؤمنون يزدادون علماً وبصيرةً، والكافرون تقوم عليهم الحجَّة. {ضُرِبَ مَثَلٌ فاستَمِعوا له}؛ أي: ألقوا إليه أسماعَكم، وافْهَموا ما احتوى عليه، ولا يصادِفْ منكم قلوباً لاهيةً وأسماعاً معرضةً، بل ألْقوا إليه القلوبَ والأسماعَ، وهو هذا: {إنَّ الذين تَدْعونَ من دونِ اللهِ}: شَمِلَ كلَّ ما يُدْعى من دونِ الله، {لَنْ يَخْلُقوا ذباباً}: الذي هو من أحقر المخلوقات وأخسِّها؛ فليس في قدرتهم خَلْقُ هذا المخلوق الضعيف؛ فما فوقَه من باب أولى، {ولو اجْتَمَعوا له}: بل أبلغُ من ذلك: لو {يَسْلُبْهُمُ الذبابُ شيئاً لا يستَنْقِذوه منه}: وهذا غايةُ ما يصير من العجز. {ضَعُفَ الطالبُ}: الذي هو المعبودُ من دون الله، {والمطلوبُ}: الذي هو الذباب؛ فكل منهما ضعيفٌ، وأضعفُ منهما من يتعلَّق بهذا الضعيف وينزِله منزلةَ ربِّ العالمين؛ فهذا ما قَدَر اللَّه حقَّ قدرِهِ، حيث سوَّى الفقيرَ العاجزَ من جميع الوجوه بالغنيِّ القويِّ من جميع الوجوه، سوَّى مَنْ لا يملِكُ لنفسه ولا لغيره نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً بمن هو النافعُ الضارُّ المعطي المانعُ مالكُ الملكِ والمتصرِّفُ فيه بجميع أنواع التصريف. {إنَّ الله لَقَوِيٌ عزيزٌ}؛ أي: كامل القوة، كامل العزَّة، من كمال قوَّتِهِ وعزَّتِهِ: أنَّ نواصي الخلق بيديه، وأنَّه لا يتحرَّك متحرِّكٌ ولا يسكُنُ ساكنٌ إلاَّ بإرادتِهِ ومشيئتِهِ؛ فما شاء الله كان، وما لم يشأ لم يكن، ومن كمال قوَّتِهِ: أنه يمسِكُ السماواتِ والأرضَ أن تزولا، ومن كمال قوَّته: أنه يبعثُ الخلق كلَّهم، أوَّلهم وآخرهم بصيحةٍ واحدةٍ، ومن كمال قوَّته أنَّه أهلك الجبابرة والأمم العاتية بشيء يسيرٍ وسوطٍ من عذابه.
[74,73] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کی قباحت، ان کی عبادت کرنے والوں میں عقل کی کمی اور ان سب کی کمزوری کو بیان کرنے کے لیے ایک مثال بیان کی ہے۔ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ﴾ ’’اے لوگو!‘‘ یہ خطاب مومنین اور کفار دونوں کے لیے ہے۔ اس سے اہل ایمان کے علم و بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور کفار کے خلاف حجت قائم ہوتی ہے۔ ﴿ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ﴾ یعنی اس بیان کردہ مثال کو غور سے سنو اور اس کے مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ تمھارے دلوں کو غافل اور تمھارے کانوں کو اس سے اعراض کرنے والا نہ پائے بلکہ اپنے کانوں اور دلوں سے خوب غور سے سنو۔ وہ مثال یہ ہے۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ ان تمام ہستیوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ ﴿ لَ٘نْ یَّخْلُ٘قُوْا ذُبَ٘ابً٘ا ﴾ ’’وہ مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے‘‘ جو حقیر ترین اور خسیس ترین مخلوق ہے۔ پس وہ اس نہایت کمزور سی مخلوق کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں ، اس لیے بڑی مخلوق تو وہ کیا پیدا کر سکتے ہیں ؟ ﴿ وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ﴾ ’’اگرچہ وہ سب اکٹھے کیوں نہ ہو جائیں ۔‘‘ بلکہ اس سے بھی بلیغ تر بات یہ ہے کہ ﴿ وَاِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَ٘ابُ شَیْـًٔؔا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ۠ مِنْهُ﴾ ’’اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو وہ اس سے وہ بھی نہیں چھڑا سکتے۔‘‘ یہ عجز اور بے بسی کی انتہاء ہے۔ ﴿ ضَعُفَ الطَّالِبُ ﴾ ’’کمزور ہے طالب۔‘‘ یعنی وہ جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے ﴿ وَالْمَطْلُوْبُ ﴾ ’’اور وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘ یعنی مکھی، پس دونوں ہی کمزور ہیں اور ان دونوں سے بھی کمزور تر وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان کو رب العالمین کے مقام پر فائز کر رکھا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں ﴿مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﴾ ’’جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہ پہچانی جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے‘‘ کیونکہ انھوں نے ایک ایسی ہستی کو جو ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہے، اس اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ بنا دیا جو ہر اعتبار سے بے نیاز اور طاقتور ہے۔ انھوں نے اس ہستی کو، جو خود اپنے یا کسی دوسرے کے لیے کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ زندگی اور موت کا اختیار رکھتی ہے اور نہ دوبارہ زندہ اٹھانے پر قادر ہے، اس ہستی کے برابر ٹھہرا دیا جو نفع و نقصان کی مالک ہے، جو عطا کرتی ہے اور محروم کرتی ہے، جو اقتدار کی مالک اور اپنی بادشاہی میں ہر قسم کا تصرف کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ یعنی وہ کامل قوت اور کامل عزت کا مالک ہے اس کی قوت کاملہ اور کامل غلبے کا یہ حال ہے کہ تمام مخلوق کی پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ اس کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کوئی چیز حرکت کر سکتی ہے نہ ساکن ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے، جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہو سکتا اور یہ اس کا کمال قوت ہے کہ وہ تمام مخلوق کو اول سے لے کر آخر تک، ایک چنگھاڑ کے ذریعے سے زندہ اٹھا کر کھڑا کرے گا اور یہ اس کا کمال قوت ہے کہ اس نے بڑے بڑے جابروں اور سرکش قوموں کو ایک معمولی سی چیز اور اپنے عذاب کے کوڑے سے ہلاک کر ڈالا۔
آیت: 75 - 76 #
{اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (75) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (76)}.
اللہ چن لیتا ہے فرشتوں میں سے کچھ قاصد اور لوگوں میں سے(بھی) یقینا اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے (75) وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہےاور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تمام امور (76)
#
{75 ـ 76} لما بيَّن تعالى كمالَه وضعفَ الأصنام وأنَّه المعبود حقًّا؛ بيَّن حالة الرسل وتميُّزهم عن الخلق بما تميَّزوا به من الفضائل، فقال: {الله يصطفي من الملائكة رسلاً ومن الناس}؛ أي: يختار ويجتبي من الملائكة رسلاً ومن الناس رسلاً؛ يكونون أزكى ذلك النوع وأجمعَهُ لصفاتِ المجدِ وأحقَّه بالاصطفاء؛ فالرسلُ لا يكونون إلاَّ صفوةَ الخلق على الإطلاق، والذي اختارهم واجتباهم ليس جاهلاً بحقائق الأشياء، أو يعلم شيئاً دون شيءٍ، وإنَّ المصطفي لهم السميعُ البصيرُ، الذي قد أحاط علمُهُ وسمعُهُ وبصرُهُ بجميع الأشياء؛ فاختياره إيَّاهم عن علم منه أنَّهم أهلٌ لذلك، وأنَّ الوحي يصلُحُ فيهم؛ كما قال تعالى: {اللهُ أعلمُ حيث يجعلُ رسالتَه}. {وإلى الله تُرْجَعُ الأمور}؛ أي: هو يرسل الرسل يدعون الناس إلى الله؛ فمنهم المجيبُ، ومنهم الرادُّ لدعوتهم، ومنهم العاملُ، ومنهم الناكلُ؛ فهذا وظيفةُ الرسل، وأمَّا الجزاءُ على تلك الأعمال؛ فمصيرُها إلى الله؛ فلا تعدم منه فضلاً وعدلاً.
[76,75] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا کمال اور بتوں کی کمزوری اور عجز بیان کرنے کے بعد، نیز یہ کہ وہی معبودِ برحق ہے… انبیاء و رسل کا حال بیان کیا ہے اور ان کے وہ امتیازی فضائل بیان كيے جن کے ذریعے سے وہ دیگر مخلوق سے ممتاز ہیں ۔ فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب کرتا ہے جو اپنی نوع میں بہترین فرد اور صفات مجد کے سب سے زیادہ جامع اور منتخب كيے جانے کے سب سے زیادہ اہل اورمستحق ہوتے ہیں ۔پس رسول علی الاطلاق مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور جس ہستی نے ان کو رسالت کے منصب کے لیے منتخب کیا ہے وہ اشیاء کے حقائق سے لاعلم نہیں یا وہ ایسی ہستی نہیں کہ وہ کچھ چیزوں کا علم رکھتی ہو اور کچھ چیزوں سے لاعلم ہو بلکہ ان کو منتخب کرنے والی ہستی، سمیع و بصیر ہے جس کے علم اور سمع و بصر نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے، اس لیے اس نے اپنے علم ہی کی بنیاد پر ان لوگوں کو اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا ہے۔ وہ اس منصب کے اہل ہیں اور وحی کی ذمہ داری سونپے جانے کے لیے یہ صحیح لوگ ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام:6؍124) ’’اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ رسالت کسے عنایت فرمائے۔‘‘ ﴿وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ﴾ ’’اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہے وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں ، کچھ لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ لوگ ان کی دعوت کو رد کر دیتے ہیں ، کچھ لوگ ان کی لائی ہوئی وحی پر عمل کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ پس یہ تو ہے رسولوں کی ذمہ داری اور ان کا وظیفہ۔ اور رہی ان اعمال کی جزا و سزا تو یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پس وہ اس جزاء و سزا میں فضل و کرم کا اہتمام بھی کرے گا اور عدل و انصاف کا بھی۔
آیت: 77 - 78 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (77) وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (78)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! رکوع کرواور سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے رب کی اور کرو بھلائی (کے کام) تاکہ تم فلاح پاؤ (77) اور جہاد کرو تم اللہ کی راہ میں جیسا کہ حق ہے اس کے جہاد کرنے کا اسی نے پسند کیا تمھیں اور نہیں رکھی اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی (مانند) دین تمھارے باپ ابراہیم کے اسی نے نام رکھا تمھارا مسلمان اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی ،تاکہ ہوں رسول اللہ(e) گواہ تم پراور تم ہو گواہ اوپر لوگوں کے، پس قائم کرو تم نماز اور ادا کرو زکاۃاور مضبوطی سے پکڑو تم اللہ کو، وہی کارساز ہے تمھارا، پس بہترین کارساز ہے وہ اور بہترین مدد گار ہے وہ (78)
#
{77} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالصَّلاة، وخصَّ منها الرُّكوع والسُّجود لفضلهما وركنيَّتِهِما وعبادته التي هي قرَّة العيون وسلوةُ القلب المحزون، وإنَّ ربوبيَّته وإحسانَه على العباد يقتضي منهم أن يُخْلِصوا له العبادةَ، ويأمرهم بفعل الخيرِ عموماً، وعلَّق تعالى الفلاح على هذه الأمور، فقال: {لعلَّكم تفلحون}؛ أي: تفوزون بالمطلوب المرغوب، وتَنْجون من المكروه المرهوب؛ فلا طريق للفلاح سوى الإخلاص في عبادة الخالق والسعي في نفع عبيده؛ فمن وُفِّق لذلك؛ فله القَدَحُ المعَلاَّ من السعادة والنجاح والفلاح.
[77] اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو نماز کا حکم دیتا ہے اور اس نے رکوع و سجود کا، ان کی فضیلت اور ان کے رکن نماز ہونے کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ نماز اس کی عبادت ہے جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور غمزدہ دل کے لیے تسلی ہے۔ اس کی ربوبیت اور بندوں پر اس کا احسان ان سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ عبادت کو اس کے لیے خالص کریں ۔ نیز اللہ تعالیٰ عمومی طور پر ان کو بھلائی کے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فلاح کو انھی امور سے وابستہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ یعنی تم اپنے مطلوب و مرغوب کے حصول اور ناپسندیدہ اور خوفناک امور سے نجات پانے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور اس کے بندوں کو نفع پہنچانے کی کوشش کے سوا، فلاح کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ۔ جسے اس راستے کی توفیق حاصل ہو گئی اسی کے لیے کامیابی، سعادت اور فلاح ہے۔ ﴿ وَجَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ﴾ ’’اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے۔‘‘ مقصود و مطلوب کے حصول میں پوری کوشش کرنا جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد، جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے… یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو پوری طرح نافذ کیا جائے، مخلوق کو ہر طریقے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دی جائے۔ خیر خواہی سے، تعلیم، قتال اور تادیب سے، زجرو توبیخ یا وعظ و نصیحت کے ذریعے سے اس مقصد کے لیے جس طریقے اور ذریعے کی بھی ضرورت ہو، اسے اختیار کیا جائے۔ ﴿ هُوَ اجْتَبٰؔىكُم ﴾ یعنی اے مسلمانوں کے گروہ! اس نے تمھیں لوگوں سے چن لیا ہے اور تمھارے لیے دین کو منتخب کرکے اسے تمھارے لیے پسند کرلیا ہے، تمھارے لیے افضل ترین کتاب اور افضل ترین رسولe کو منتخب کیا، اس لیے جہاد کو اچھی طرح قائم کرکے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نوازش کا بدلہ دو۔
#
{78} {وجاهدوا في الله حقَّ جهاده}: والجهاد بذلُ الوسع في حصول الغرض المطلوب؛ فالجهادُ في الله حقَّ جهادِهِ هو القيامُ التامُّ بأمر الله، ودعوةُ الخلق إلى سبيله بكلِّ طريق موصل إلى ذلك؛ من نصيحةٍ وتعليم وقتال وأدبٍ وزجرٍ ووعظٍ وغير ذلك. {هو اجتباكُم}؛ أي: اختاركم يا معشر المسلمين من بين الناس، واختار لكم الدين، ورضِيَه لكم، واختار لكم أفضلَ الكتب وأفضلَ الرسل؛ فقابِلوا هذه المنحة العظيمة بالقيام بالجهاد فيه حقَّ القيام. ولما كان قولُهُ. {وجاهدوا في الله حقَّ جهادِهِ}؛ ربما تَوَهَّمَ متوهِّمٌ أنَّ هذا من باب تكليف ما لا يُطاق أو تكليف ما يشقُّ؛ احترزَ منه بقوله: {وما جَعَلَ عليكم في الدِّينِ من حَرَج}؛ أي: مشقَّةٍ وعسرٍ، بل يسَّره غاية التيسير، وسهَّله بغاية السهولة؛ فأولاً: ما أمرَ وألزمَ إلاَّ بما هو سهل على النفوس لا يُثْقِلها ولا يَؤودُها، ثم إذا عَرَضَ بعضُ الأسباب الموجبة للتَّخفيف؛ خفَّف ما أمر به: إما بإسقاطِهِ، أو إسقاطِ بعضِهِ. ويؤخذ من هذه الآية قاعدةٌ شرعيةٌ، وهي أن «المشقَّة تجلب التَّيسير» و «الضرورات تبيح المَحْظورات»، فيدخُلُ في ذلك من الأحكام الفروعيَّة شيء كثيرٌ معروفٌ في كتب الأحكام. {ملةَ أبيكم إبراهيم}؛ أي: هذه الملة المذكورة والأوامر المزبورة ملَّةُ أبيكم إبراهيم، التي ما زال عليها؛ فالزموها واستمسكوا بها. {هو سمَّاكُم المسلمينَ من قبلُ}؛ أي: في الكتب السابقة مذكورونَ ومشهورونَ، {وفي هذا}؛ أي: هذا الكتاب وهذا الشرع؛ أي: ما زال هذا الاسم لكم قديماً وحديثاً؛ {ليكونَ الرسولُ شهيداً عليكم}: بأعمالكم خيرِها وشرِّها، {وتكونوا شهداءَ على الناس}: لكونِكُم خيرَ أمَّةٍ أخرِجَت للناس، أمَّة وسطاً عدلاً خياراً، تشهدونَ للرسل أنَّهم بَلَّغوا أمَمَهم، وتشهدون على الأمم أنَّ رُسُلَهم بلَّغَتْهم بما أخبركم الله به في كتابه. {فأقيموا الصلاةَ}: بأركانِها وشروطِها وحدودِها وجميع لوازمها، {وآتوا الزَّكاة}: المفروضة لمستحقِّيها؛ شكراً لله على ما أولاكم. {واعتصموا بالله}؛ أي: امتنعوا به، وتوكَّلوا عليه في ذلك، ولا تتَّكِلوا على حولكم وقوَّتِكم. {هُوَ مولاكم}: الذي يتولَّى أمورَكم، فيدبِّرُكم بحسن تدبيرِهِ، ويصرِّفُكم على أحسن تقديره. {فنعم المولى ونعم النصيرُ}؛ أي: نعم المولى لمن تولاَّه فحصَلَ له مطلوبُهُ، ونعم النصيرُ لمن استنصرَهُ فدفع عنه المكروه.
[78] چونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَجَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ﴾ سے بسااوقات کسی متوہم کو یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ ایسا حکم ہے جس کی تعمیل طاقت سے باہر ہے یا جس کی تعمیل میں سخت مشقت ہے، اس لیے اس وہم سے احتراز کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ ’’اور نہیں کی اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی۔‘‘ یعنی مشقت اور تنگی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دین کو انتہائی آسان اور سہل بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انھی امور کا حکم دیا ہے، جس کو بجا لانا نفوس انسانی کے لیے نہایت سہل ہے جو ان کے لیے گراں بار ہیں نہ تھکا دینے والے ہیں ، پھر بھی اگر کوئی ایسا سبب پیش آجائے جو تخفیف کا موجب ہو تو اللہ تعالیٰ اس حکم کو ساقط کرکے یا اس میں کمی کرکے اس میں تخفیف کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ایک شرعی قاعدہ اخذ کیا جاتا ہے اور وہ ہے (المشقۃ تجلب التیسیر) ’’مشقت اپنے ساتھ آسانی لے کر آتی ہے‘‘ (الضرورات تبیح المحظورات) ’’ضرورت ممنوع چیز کو مباح کر دیتی ہے۔‘‘ بہت سے فروعی احکام اس قاعدہ کے تحت آتے ہیں جن کا ذکر احکام کی کتابوں میں معروف ہیں ۔ ﴿ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰؔهِیْمَ﴾ یعنی مذکورہ دین اور احکام تمھارے باپ ابراہیم u کا دین ہیں جن پر وہ ہمیشہ عمل پیرا رہے، اس لیے تم بھی ان کا التزام کرو اور ان پر عمل پیرا رہو۔ ﴿ هُوَ سَمّٰؔىكُمُ الْ٘مُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ ﴾ یعنی اس نے کتب سابقہ میں تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا ہے اور اسی نام سے تم مذکور و مشہور ہو یعنی ابراہیم u ہی نے تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا ہے۔ ﴿ وَفِیْ هٰؔذَا ﴾ اور اس کتاب اور اس شریعت میں بھی تمھارا نام ’’مسلم‘‘ ہی ہے یعنی قدیم اور جدید زمانے میں تمھیں ’’مسلم‘‘ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ ﴿ لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ﴾ تاکہ رسول تمھارے اچھے اور برے اعمال کی گواہی دیں ۔ ﴿وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ ﴾ تم انبیاء و رسل کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو کچھ نازل فرمایا تھا انھوں نے اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا کیونکہ تم بہترین، معتدل، بھلائی کے راستے پر گامزن اور امت وسط ہو۔ ﴿فَاَقِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ ﴾ نماز کو اس کے تمام ارکان، تمام شرائط و حدود اور اس کے تمام لوازم کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن نعمتوں سے نوازا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے زکاۃ مفروضہ ادا کرو۔ ﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ اور اس بارے میں صرف اسی پر بھروسہ کرو اور اپنی قوت و اختیار پر اعتماد نہ کرو۔ ﴿ هُوَ مَوْلٰىكُمْ﴾ ’’وہی تمھارا مولیٰ ہے‘‘ جو تمھارے تمام امور کی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ پس وہ بہترین طریقے سے تمھاری تدبیر اور بہترین اندازے سے تم میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ﴾ ’’پس کیا اچھا مولیٰ اور کیا اچھا مددگار ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی سرپرستی کرتا ہے تو وہ بہترین سرپرست ہے۔ پس اس سے اس کا مطلوب و مقصود حاصل ہو جاتا ہے اورجو کوئی اپنی مصیبت دور کرنے کے لیے اس سے مدد مانگتا ہے تو وہ بہترین مدد گار ہے، اس سے اس مصیبت کو وہ دور کر دیتا ہے۔