آیت:
تفسیر سورۂ انبیاء
تفسیر سورۂ انبیاء
آیت: 1 - 4 #
{اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (1) مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ (2) لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (3) قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (4)}.
قریب آگیا ہے لوگوں کے لیے حساب (کا وقت) ان کا جبکہ وہ غفلت میں پڑے اعراض کرنے والے ہیں (1) نہیں آتا ان کے پاس کوئی ذکر ان کے رب کی طرف سے نیا مگر وہ سنتے ہیں اس کو اس حال میں کہ وہ کھیل رہے ہوتے ہیں (2) غافل ہیں دل ان کےاور چپکے چپکے کیا مشورہ ان لوگوں نے جنھوں نے ظلم کیا، نہیں ہے یہ (رسول) مگر بشر ہی تم جیسا، کیا پس تم آتے (مانتے) ہو جادو کو جبکہ تم دیکھ بھی رہے ہو (3) رسول نے کہا، میرا رب جانتا ہے (ہر) بات کو آسمان اور زمین میں اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے (4)
#
{1} هذا تعجُّبٌ من حالة الناس، وأنَّهم لا يَنْجَعُ فيهم تذكيرٌ، ولا يَرْعَوونَ إلى نذيرٍ، وأنَّهم قد قرب حسابهم ومجازاتهم على أعمالهم الصالحة والطالحة، والحال أنهم {في غفلةٍ معرضون}؛ أي: غفلة عمَّا خُلِقوا له، وإعراض عما زُجِروا به، كأنَّهم للدُّنيا خُلقوا، وللتمتُّع بها ولدوا، وأنَّ الله تعالى لا يزال يجدِّد لهم التَّذكير والوعظ، ولا يزالون في غفلتهم وإعراضهم.
[1] یہ لوگوں کے احوال پر تعجب کا اظہار ہے اور اس امر کی آگاہی کہ انھیں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ دیتی ہے نہ وہ کسی ڈرانے والے کی طرف دھیان دیتے ہیں اور یہ کہ ان کے حساب اور ان کے اعمال صالحہ کی جزا کا وقت قریب آ گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے روگردانی کر رہے ہیں ، یعنی وہ ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور ان کو جو تنبیہ کی جاتی ہے وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ گویا کہ انھیں صرف دنیا کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اور وہ محض اس دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نئے نئے انداز سے انھیں وعظ و نصیحت کرتا ہے اور یہ ہیں کہ اپنی غفلت اور اعراض میں مستغرق ہیں ۔
#
{2} ولهذا قال: {ما يأتيهم من ذكرٍ من ربِّهم محدَثٍ}: يذكِّرهم ما ينفعهم ويحثُّهم عليه، وما يضرهم ويرهبهم منه. {إلاَّ استمعوهُ}: سماعاً تقوم عليهم به الحجَّة، {وهم يلعبونَ}.
[2] اس لیے فرمایا: ﴿ مَا یَ٘اْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّؔحْدَثٍ ﴾ ’’نہیں آتی ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت۔‘‘ جو انھیں ایسی باتوں کی یاددہانی کراتی اور ان کی ان کو ترغیب دیتی ہے جو انھیں فائدہ دیتی ہے اور ان باتوں کی بھی، جو ان کے لیے نقصان دہ ہیں اور ان سے ان کو ڈراتی ہے۔ ﴿اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ﴾ مگر وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے ﴿وَهُمْ یَلْعَبُوْنَ﴾
#
{3} {لاهيةً قلوبُهم}؛ أي: قلوبهم غافلةٌ معرضةٌ لاهيةٌ بمطالبها الدُّنيوية، وأبدانُهم لاعبةٌ، قد اشتغلوا بتناول الشهوات والعمل بالباطل والأقوال الرديَّة، مع أن الذي ينبغي لهم أن يكونوا بغير هذه الصفة؛ تُقْبِل قلوبُهم على أمر الله ونهيه، وتستمعه استماعاً تفقه المراد منه، وتسعى جوارحهم في عبادة ربِّهم التي خلقوا لأجلها، ويجعلون القيامةَ والحسابَ والجزاء منهم على بال؛ فبذلك يتمُّ لهم أمرُهم وتستقيمُ أحوالُهم وتزكو أعمالُهم. وفي معنى قوله: {اقتربَ للناس حسابُهم}: قولان: أحدُهما: أنَّ هذه الأمَّة هي آخر الأمم، ورسولُها آخرُ الرسل، وعلى أمته تقوم الساعةُ؛ فقد قَرُبَ الحساب منها بالنسبة لما قبلها من الأمم؛ لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «بُعِثْتُ أنا والساعة كهاتين»؛ وقرن بين إصبعيه السبابة والتي تليها. والقول الثاني: أنَّ المراد بقُرب الحساب الموتُ، وأنَّ مَنْ مات قامتْ قيامتُه ودخل في دار الجزاء على الأعمال، وأن هذا تعجُّب من كلِّ غافل معرض لا يدري متى يفجؤه الموتُ صباحاً أو مساء؛ فهذه حالة الناس كلِّهم؛ إلاَّ من أدركته العناية الربانيَّة، فاستعدَّ للموت وما بعده. ثم ذكر ما يتناجى به الكافرون الظالمون على وجه العناد ومقابلة الحقِّ بالباطل، وأنهم تناجَوْا وتواطؤوا فيما بينهم أن يقولوا في الرسول - صلى الله عليه وسلم -: إنَّه بشرٌ مثلكم؛ فما الذي فضَّله عليكم وخصَّه من بينكم؟! فلو ادَّعى أحدٌ منكم مثل دعواه؛ لكان قولُه من جنس قوله، ولكنَّه يريد أن يتفضَّل عليكم ويرأس فيكم؛ فلا تطيعوهُ ولا تصدِّقوه، وإنَّه ساحرٌ، وما جاء به من القرآن سحرٌ؛ فانفروا عنه ونفِّروا الناس، وقولوا: {أفتأتونَ السِّحْرَ وأنتُم تبصِرونَ}: هذا وهم يعلمون أنَّه رسولُ الله حقًّا بما يشاهدون من الآيات الباهرة ما لم يشاهدْ غيرهم، ولكنْ حملهم على ذلك الشقاء والظُّلم والعناد.
[3] ﴿لَاهِیَةً قُ٘لُوْبُهُمْ ﴾ یعنی ان کے دل اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد میں مستغرق ہو کر اس ’’ذکر‘‘ سے روگرداں اور ان کے جسم شہوات کے حصول، باطل پر عمل پیرا ہونے اور ردی اقوال میں مشغول ہیں ۔جبکہ ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اس صفت سے متصف نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس وہ اللہ تعالیٰ کے امرونہی کو قبول کریں ، اسے اس طرح سنیں جس سے اس کی مراد ان کی سمجھ میں آئے، ان کے جوارح اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوں جس کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ روز قیامت، حساب و کتاب اور جزا و سزا کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ اس طرح ہی ان کے معاملے کی تکمیل ہو گی، ان کے احوال درست اور ان کے اعمال پاک ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ ﴾ ’’لوگوں کے لیے ان کا حساب قریب آ گیا ہے۔‘‘ کی تفسیر میں اصحاب تفسیر سے دو قول منقول ہیں۔ (۱) پہلا قول یہ ہے کہ یہ امت آخری امت اور یہ رسول آخری رسول ہے۔ اس رسول کی امت پر ہی قیامت قائم ہو گی گزشتہ امتوں کی نسبت، قیامت اس امت کے زیادہ قریب ہے۔ رسول اللہe نے فرمایا ’’مجھے اس زمانے میں مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اور قیامت کا دن اس طرح ساتھ ساتھ ہیں ۔‘‘ اور آپe نے شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی کو اکٹھا کر کے دکھایا۔(صحیح البخاري، الرقاق، باب قول النبیﷺ (بعث انا…)، ح:6503 و صحیح مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، ح:867) (۲) دوسرا قول یہ ہے کہ ’’حساب‘‘ کے قریب ہونے سے مراد موت کا قریب ہونا ہے، نیز یہ کہ جو کوئی مر جاتا ہے ،اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لیے دارالجزا میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ تعجب ہر اس شخص پر ہے جو غافل اور روگرداں ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ صبح یا شام، کب اچانک موت کا پیغام آ جائے۔ تمام لوگوں کی یہی حالت ہے سوائے اس کے جس پر عنایت ربانی سایہ کناں ہے۔ پس وہ موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کے لیے تیاری کرتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ ظالم کفار عناد اور باطل کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور رسول اللہe کے بارے میں یہ کہنے پر متفق ہیں کہ وہ تو ایک بشر ہے، کس بنا پر اسے تم پر فضیلت دی گئی ہے اور کس وجہ سے اسے تم میں سے خاص کر لیا گیا ہے اور تم میں سے کوئی اس قسم کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ بھی اسی طرح کا دعویٰ ہو گا۔ درحقیقت یہ شخص تم پر اپنی فضیلت ثابت کر کے تمھارا سردار بننا چاہتا ہے، اس لیے اس کی اطاعت کرنا نہ اس کی تصدیق کرنا، یہ جادوگر ہے اور یہ جو قرآن لے کر آیا ہے، وہ جادو ہے، اس لیے اس سے خود بھی دور رہو اور لوگوں کو بھی اس سے متنفر کرو اور لوگوں سے کہو! ﴿اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُ٘بْصِرُوْنَ ﴾ یعنی اسے دیکھتے ہوئے تم اس جادو کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہو… حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپe اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں کیونکہ وہ بڑی بڑی آیات الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا لیکن ظلم، عناد اور بدبختی نے ان کو اس انکار پر آمادہ کیا۔
#
{4} والله تعالى قد أحاط علماً بما تناجَوْا به، وسيُجازيهم عليه، ولهذا قال: {قال ربِّي يعلمُ القولَ}: الخفيَّ والجليَّ {في السماء والأرض}؛ أي: في جميع ما احتوت عليه أقطارهما. {وهو السميعُ}: لسائر الأصوات باختلاف اللُّغات على تفنُّن الحاجات. {العليم}: بما في الضمائر، وأكنَّته السرائر.
[4] اور جو وہ سرگوشیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے عنقریب وہ ان کو ان سرگوشیوں کی سزا دے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ ﴾ یعنی میرا رب جلی اور خفی ہر بات کو جانتا ہے ﴿ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’آسمان ا ور زمین میں ۔‘‘ یعنی ہر اس جگہ میں جن کو ان دونوں کے کناروں نے گھیر رکھا ہے۔ ﴿ وَهُوَ السَّمِیْعُ ﴾ یعنی لوگوں کی زبانوں کے اختلافات اور ان کی متنوع حاجات کے باوجود ان کی آوازیں سنتا ہے۔ ﴿ الْعَلِیْمُ ﴾ وہ دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے۔
آیت: 5 - 6 #
{بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ (5) مَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ (6)}.
بلکہ انھوں نے کہا ، پراگندہ خواب ہیں بلکہ اس نے خود ہی گھڑا ہے اسےبلکہ وہ شاعر ہے، پس چاہیے کہ لے آئے ہمارے پاس کوئی نشانی جیسا کہ بھیجے گئے تھے پہلے (پیغمبر) (5) نہیں ایمان لائے ان سے پہلے کوئی بستی (والے) کہ ہلاک کیا ہم نے انھیں ، کیا پس وہ (اب) ایمان لے آئیں گے؟ (6)
#
{5} يذكر تعالى ائتفاكَ المكذِّبين بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - وبما جاء به من القرآن العظيم، وأنهم تقوَّلوا فيه ، وقالوا فيه الأقاويل الباطلة المختلفة؛ فتارةً يقولون: أضغاثُ أحلام بمنزلة كلام النائم الهاذي الذي لا يُحِسُّ بما يقول! وتارةً يقولون: افتراهُ واختلقَه وتقوَّله من عند نفسه! وتارةً يقولون: إنَّه شاعرٌ وما جاء به شِعر! وكلُّ مَن له أدنى معرفة بالواقع من حالة الرسول، ونظر في هذا الذي جاء به؛ جزم جزماً لا يقبل الشكَّ أنه أجلُّ الكلام وأعلاه، وأنَّه من عند الله، وأنَّ أحداً من البشر لا يقدِرُ على الإتيان بمثل بعضه؛ كما تحدَّى الله أعداءه بذلك ليعارِضوه مع توفُّر دواعيهم لمعارضته وعداوته، فلم يقدِروا على شيء من معارضته وهم يعلمون ذلك؛ وإلاَّ فما الذي أقامهم وأقعدهم وأقضَّ مضاجعهم وبلبل ألسنتهم إلا الحق الذي لا يقوم له شيء، وإنَّما يقولون هذه الأقوال فيه حيث لم يؤمنوا به؛ تنفيراً عنه لمن لم يعرِفْه، وهو أكبرُ الآيات المستمرَّة الدالَّة على صحَّة ما جاء به الرسول - صلى الله عليه وسلم - وصدقه، وهو كافٍ شافٍ؛ فمن طَلَبَ دليلاً غيره أو اقترح آيةً من الآيات سواه؛ فهو جاهلٌ ظالمٌ مشبهٌ لهؤلاء المعاندين الذين كذَّبوه، وطلبوا من الآيات الاقتراحيَّة ما هو أضرُّ شيء عليهم، وليس لهم فيها مصلحةٌ؛ لأنَّهم إن كان قصدُهم معرفةَ الحقِّ إذا تبيَّن دليلُه؛ فقد تبيَّن دليلُه بدونها، وإن كان قصدُهم التعجيزَ وإقامة العذر لأنفسهم إن لم يأتِ بما طَلَبوا؛ فإنَّهم بهذه الحالة على فرض إتيان ما طلبوا من الآيات لا يؤمنون قطعاً؛ فلو جاءتهم كلُّ آيةٍ لا يؤمنون حتى يروا العذابَ الأليم، ولهذا قال الله عنهم: {فَلْيَأتِنا بآية كما أرْسِلَ الأولون}؛ أي: كناقة صالح وعصا موسى ونحو ذلك.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد مصطفیe اور آپe کے لائے ہوئے قرآن عظیم پر کفار کی بہتان طرازی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بارے میں جھوٹ گھڑتے اور اس کے بارے میں مختلف باطل باتیں پھیلاتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں ’’یہ پراگندہ خواب ہیں ‘‘ ایک سوئے ہوئے شخص کے ہذیانی کلام کی مانند، جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ’’یہ اس کا من گھڑت کلام ہے‘‘ جو اس نے اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے اور کبھی کہتے ہیں ’’یہ شاعر ہے‘‘ اور جو قرآن یہ لے کر آیا ہے وہ محض شاعری ہے۔ جو کوئی واقعات اور رسولe کے احوال کی ادنیٰ سی بھی معرفت رکھتا ہے اور اس کلام میں غور کرتا ہے جسے رسول اللہe لے کر آئے ہیں وہ ایسے جزم و یقین سے پکار اٹھتا ہے، جس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ نہایت جلیل القدر اور بلند ترین کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کوئی بشر اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے سامنے چیلنج کیا ہے کہ وہ اس کلام کا مقابلہ کر دکھائیں ، حالانکہ ان کے اندر قرآن عظیم کی مخالفت اور اس کے ساتھ عداوت کا وافر داعیہ موجود تھا۔ بایں ہمہ وہ اس کلام کا مقابلہ نہ کر سکے اور وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ ورنہ وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو باز رکھا، ان کو کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کیا اور ان کی زبانوں کو گنگ کر دیا؟… وہ حق کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی؟ اور چونکہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے اس لیے ایسے لوگوں کو، جو اس کی معرفت نہیں رکھتے متنفر کرنے کے لیے اس قسم باتیں کرتے ہیں ۔ یہ قرآن عظیم ہمیشہ رہنے والا سب سے بڑا معجزہ ہے جو رسول اللہe کی لائی ہوئی ہدایت کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کافی و شافی ہے۔ پس جو اس کے علاوہ کوئی اور دلیل طلب کرتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق معجزوں کا مطالبہ کرتا ہے، وہ جاہل اور ظالم ہے اور ان معاندین حق سے مشابہت رکھتا ہے جنھوں نے اس کی تکذیب کی، معجزات کا مطالبہ کیا جو ان کے لیے سب سے زیادہ ضرر رساں چیز ہے اور ان معجزات میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ اگر ان کا مقصد و ضوح دلیل کے ذریعے سے معرفت حق ہے تو دلیل ان معجزات کے بغیر بھی واضح ہو چکی ہے اور اگر ان کا مقصد عاجز کرنا اور معجزات کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں اپنے لیے عذر کا جواز پیدا کرنا ہے… تو اس صورت میں بھی جبکہ فرض کر لیا جائے کہ ان کی خواہش کے مطابق معجزہ پیش کر دیا جائے، وہ قطعاً ایمان نہیں لائیں گے۔ پس واقعہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس ہر قسم کا معجزہ ہی کیوں نہ آ جائے تو پھر بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل فرمایا: ﴿ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ ’’وہ ہمارے پاس ایسی کوئی نشانی لائے جیسے پہلے پیغمبر (ان کے ساتھ) بھیجے گئے۔‘‘ جیسے صالح کی اونٹنی اور موسیٰu کا عصااور اس جیسے معجزات۔
#
{6} قال الله: {ما آمنتْ قبلَهم من قريةٍ أهْلَكْناها}؛ أي: بهذه الآيات المقترحة، وإنَّما سنَّتُه تقتضي أنَّ من طَلَبها، ثم حَصَلَتْ له، فلم يؤمن؛ أنْ يعاجِلَه بالعقوبة؛ فالأوَّلون ما آمنوا بها، أفيؤمنُ هؤلاء بها؟! ما الذي فضَّلهم على أولئك؟! وما الخير الذي فيهم يقتضي الإيمان عند وجودها؟! وهذا الاستفهام بمعنى النفي؛ أي: لا يكونُ ذلك منهم أبداً.
[6] بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿ مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَ٘رْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا١ۚ اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’نہیں ایمان لائی ان سے پہلے کوئی بستی جن کو ہم نے ہلاک کیا، کیا پس یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟‘‘ یعنی ان معجزات پر جو ان کے مطالبوں پر پیش کیے جائیں گے۔ اللہ کی سنت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو معجزے طلب کرتا ہے، پھر وہ اسے دکھا دیا جاتا ہے (پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتا تو) وہ فوری سزا سے محفوظ نہیں ہے۔ پس پہلے لوگ ان معجزات کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تو کیا یہ ان کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے؟ آخر ان (عربوں ) کو پہلے لوگوں پر کیا فضیلت حاصل ہے اور وہ کیا بھلائی ہے جو ان کے اندر موجود ہے جو اس بات کی مقتضی ہو کہ معجزات کے صدور پر یہ ایمان لے آئیں گے؟ یہ استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی ان سے کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔
آیت: 7 - 9 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (7) وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ (8) ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَيْنَاهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ (9)}.
اور نہیں بھیجے ہم نے (رسول) آپ سے پہلے مگر مرد ہی، ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف، پس پوچھ لو تم اہل ذکر سے اگر ہو تم نہیں جانتے (7) اور نہیں بنائے تھے ہم نے ان (رسولوں ) کے ایسے جسم کہ نہ کھاتے ہوں وہ طعام، نہ تھے وہ ہمیشہ رہنے والے (8) پھر سچا کیا ہم نے ان سے وعدہ، پس نجات دی ہم نے انھیں اور جنھیں ہم چاہتے تھےاور ہلاک کر دیا ہم نے حد سے گزرنے والوں کو (9)
#
{7 ـ 9} هذا جوابٌ لِشُبَه المكذِّبين للرسول القائلين: هلاَّ كان مَلَكاً لا يحتاجُ إلى طعام وشراب وتصرُّف في الأسواق! وهلاَّ كان خالداً! فإذا لم يكن كذلك؛ دلَّ على أنه ليس برسول! وهذه الشُّبه ما زالت في قلوب المكذِّبين للرسل، تشابهوا في الكفر؛ فتشابهت أقوالهم؛ فأجاب تعالى عن هذه الشُّبه، لهؤلاء المكذِّبين للرسول، المُقِرِّين بإثبات الرُّسل قبله، ولو لم يكنْ إلاَّ إبراهيم عليه السلام، الذي قد أقرَّ بنبوَّته جميع الطوائف، والمشركون يزعمون أنَّهم على دينِهِ وملَّته؛ بأنَّ الرُّسل قبل محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - كلَّهم من البشر الذين يأكلون الطعام ويمشون في الأسواق، وتطرأ عليهم العوارضُ البشرية من الموت وغيره، وأنَّ الله أرسلهم إلى قومهم وأممهم، فصدَّقهم مَن صدَّقهم، وكذَّبهم مَن كذَّبهم، وأنَّ الله صَدَقَهم ما وَعَدَهم به من النجاة والسعادة لهم ولأتباعهم، وأهلك المسرفين المكذِّبين لهم؛ فما بال محمد - صلى الله عليه وسلم - تُقام الشُّبه الباطلة على إنكار رسالته، وهي موجودةٌ في إخوانه المرسلين، الذين يقرُّ بهم المكذِّبون لمحمد؟! فهذا إلزامٌ لهم في غاية الوضوح، وأنَّهم إن أقرُّوا برسول من البشر، ولن يقرُّوا برسول من غير البشرِ، أنَّ شبههم باطلةٌ، قد أبطلوها هم بإقرارهم بفسادها وتناقُضِهم بها. فلو قُدِّرَ انتقالُهم هذا إلى إنكار نبوَّة البشر رأساً، وأنَّه لا يكون نبيٌّ إنْ لم يكن مَلَكاً مخلَّداً لا يأكلُ الطعام؛ فقد أجاب الله عن هذه الشبهة بقوله: {وقالوا لولا أنزِلَ عليه مَلَكٌ ولو أنزَلْنا مَلَكاً لقضي الأمر ثم لا يُنظَرونَ. ولو جَعَلْناه مَلَكاً لجعلناهُ رَجُلاً ولَلَبَسْنا عليهم ما يَلْبِسونَ}، وأنَّ البشر لا طاقة لهم بتلقِّي الوحي من الملائكة، {قل لو كانَ في الأرض ملائكةٌ يمشون مطمئنِّينَ لَنَزَّلْنا عليهم من السماءِ مَلَكاً رسولاً}؛ فإن حصل معكم شكٌّ وعدم علم بحالة الرسل المتقدِّمين؛ فاسألوا أهل الذِّكر من الكتب السالفة؛ كأهل التوراة والإنجيل؛ يخبرونَكم بما عندَهم من العلم، وأنَّهم كلَّهم بشرٌ من جنس المرسَل إليهم. وهذه الآية وإنْ كان سبُبها خاصًّا بالسؤال عن حالة الرسل المتقدِّمين من أهل الذكر، وهم أهل العلم؛ فإنَّها عامَّة في كلِّ مسألة من مسائل الدين أصوله وفروعه إذا لم يكنْ عند الإنسان علمٌ منها أنْ يسألَ من يَعْلَمُها؛ ففيه الأمر بالتعلُّم والسؤال لأهل العلم، ولم يؤمر بسؤالِهِم إلاَّ لأنَّه يجبُ عليهم التعليم والإجابة عما علموه. وفي تخصيص السؤال بأهل الذِّكر والعلم نهيٌ عن سؤال المعروف بالجهل وعدم العلم، ونهي له أن يتصدَّى لذلك. وفي هذه الآية دليلٌ على أن النساء ليس منهنَّ نبيَّة؛ لا مريم ولا غيرها؛ لقوله: {إلاَّ رجالاً}.
[9-7] یہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کے شبہ کا جواب ہے جو یہ کہتے تھے۔ ’’کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو کھانے پینے اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کا محتاج نہ ہوتا؟ کوئی ایسا رسول کیوں نہ بھیجا گیا جسے دائمی زندگی عطا کی گئی ہوتی؟ جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ رسول نہیں ہے۔‘‘ یہ شبہ انبیاء و رسل کو جھٹلانے والوں کے دلوں میں ہمیشہ رہا ہے۔ چونکہ اہل تکذیب کفر میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لیے ان کے نظریات بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کفار کو… جو رسول اللہe کو تو جھٹلاتے ہیں اور گزشتہ رسولوں کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں اگرچہ صرف حضرت ابراہیمu ہی نبی ہوتے جن کی نبوت کا تمام گروہ اقرار کرتے ہیں بلکہ مشرکین تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کی ملت پر ہیں … ان کے شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفیe سے پہلے بھی تمام رسول بشر ہی تھے، جو کھانا کھاتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، ان پر موت وغیرہ اور تمام بشری عوارض طاری ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے قوموں اور امتوں میں مبعوث فرمایا ان قوموں میں سے کسی نے ان کی تصدیق کی اور کسی نے ان کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور ان کے متبعین سے نجات اور سعادت کا جو وعدہ کیا تھا اس نے پورا کر دیا اور اس نے حد سے بڑھنے والے اہل تکذیب کو ہلاک کر ڈالا تو محمد مصطفیe کے ساتھ یہ کیا معاملہ ہے کہ آپe کی رسالت کے انکار کے لیے باطل شبہات قائم كيے جاتے ہیں ، حالانکہ یہی شبہات دیگر انبیاء و مرسلین پر بھی وارد ہوتے ہیں جن کی رسالت کا یہ لوگ اقرار کرتے ہیں جو محمدe کی تکذیب کرتے ہیں … پس ان پر یہ الزامی جواب بالکل واضح ہے۔ اگر انھوں نے کسی رسول بشر کا اقرار کیا ہے تو وہ کسی غیر بشر رسول کا اقرار ہرگز نہیں کریں گے تب ان کے شبہات باطل ہیں انھوں نے ان شبہات کے فساد اور اپنے تناقض کا اقرار کر کے خود ان شبہات کا ابطال کر لیا ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ لوگ سرے ہی سے کسی بشر کے نبی ہونے کے منکر ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ صرف دائمی زندگی رکھنے والا فرشتہ ہی نبی ہو سکتا ہے جو کھانا نہیں کھاتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَقَالُوْا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّ٘قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَ٘رُوْنَ۰۰وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ﴾ (الانعام:6؍8،9) ’’اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا، اگر ہم نے فرشتہ اتارا ہوا ہوتا تو تمام معاملے کا فیصلہ ہو گیا ہوتا، پھر ان کو ڈھیل نہ دی جاتی اور اگر ہم نے اس کو فرشتہ بنایا ہوتا تو تب بھی اس کو بشر ہی بنایا ہوتا اور (اس طرح) ہم معاملہ ان پر مشتبہ کر دیتے جیسے اب وہ اشتباہ پیش کر رہے ہیں۔‘‘ انسان فرشتوں سے وحی اخذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا: ﴿ قُ٘لْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ۠ لَـنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا ﴾ (بنی اسرائیل:17؍95) ’’کہہ دیجیے کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے اور اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔ ‘‘ اگر گزشتہ رسولوں کے بارے میں تمھیں کوئی شک ہے یا ان کے احوال کا علم نہیں ﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ ﴾ ’’تو تم اہل ذکر سے پوچھ لو۔‘‘ یعنی کتب سابقہ رکھنے والوں سے پوچھ لو، مثلاً:اہل تورات اور اہل انجیل وغیرہ، ان کے پاس جو علم ہے وہ اس کے مطابق تمھیں بتائیں گے کہ گزشتہ تمام رسول انسان تھے جیسے یہ انسان ہیں ۔ اس آیت کریمہ کا سبب نزول انبیائے متقدمین کے بارے میں اہل کتاب سے سوال کرنے سے مختص ہے کیونکہ وہ اس بارے میں علم رکھتے تھے… مگر یہ دین کے اصول و فروع کے تمام مسائل کے لیے عام ہے۔ جب انسان کے پاس ان مسائل کا علم نہ ہو تو وہ اس شخص سے پوچھ لے جو اس کا علم رکھتا ہے، نیز اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے اور اہل علم سے سوال کرنے کا حکم ہے اور اہل علم سے سوال کرنے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ اہل علم پر تعلیم دینا اور اپنے علم کے مطابق جواب دینا فرض ہے۔ اہل علم اور اہل ذکر سے سوال کرنے کی تخصیص سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص جہالت اور عدم علم میں معروف ہو اس سے سوال کرنے کی ممانعت ہے اور اس شخص کے لیے بھی جواب دینے کے درپے ہونا ممنوع ہے۔ اس آیت میں اس امر پر دلیل ہے کہ عورتیں نبی نہیں ہوئیں ، حضرت مریم [ نبی تھیں نہ کوئی اور عورت۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اِلَّا رِجَالًا﴾ یعنی ہم نے صرف مرد ہی نبی بنا کر بھیجے۔
آیت: 10 #
{لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (10)}.
البتہ تحقیق نازل کی ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب، اس میں ذکر ہے تمھارا، کیا پس نہیں سمجھتے ؟ (10)
#
{10} أي: {لقد أنزلنا إليكم}: أيُّها المرسل إليهم محمد بن عبد الله بن عبد المطلب {كتاباً}: جليلاً وقرآناً مبيناً. {فيه ذِكْرُكُم}؛ أي: شرفكم وفخركم وارتفاعكم: إن تذكَّرتم به ما فيه من الأخبار الصَّادقة فاعتقدتمُوها، وامتثَلْتُم ما فيه من الأوامر، واجتنبتم ما فيه من النواهي؛ ارتفع قدرُكم وعظُم أمركم. {أفلا تعقِلونَ}: ما ينفعكم وما يضرُّكم؛ كيف لا تعملون على ما فيه ذكرُكم وشرفُكم في الدنيا والآخرة؟! فلو كان لكم عقلٌ؛ لسلكتُم هذا السبيل، فلما لم تسلكوه وسلكتُم غيره من الطُّرق التي فيها ضَعَتُكم وخِسَّتُكم في الدنيا والآخرة وشقاوتُكم فيهما؛ عُلم أنه ليس لكم معقولٌ صحيحٌ ولا رأيٌ رجيحٌ. وهذه الآية مصداقها ما وقع؛ فإنَّ المؤمنين بالرسول والذين تذكَّروا بالقرآن من الصحابة فَمَنْ بعدَهم؛ حصل لهم من الرِّفعة والعلوِّ الباهر والصيت العظيم والشرف على الملوك ما هو أمرٌ معلومٌ لكلِّ أحدٍ؛ كما أنه معلومٌ ما حصل لمن لم يَرْفَعْ بهذا القرآن رأساً، ولم يهتدِ به ويتزكَّى به من المقتِ والضَّعَةِ والتَّدْسِيَة والشقاوةِ؛ فلا سبيل إلى سعادة الدُّنيا والآخرة إلاَّ بالتذكُّر بهذا الكتاب.
[10] اے وہ لوگو! جن کی طرف محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب (e) کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، ہم نے تمھاری طرف ایک جلیل القدر کتاب اور ایک واضح قرآن نازل کیا ﴿ فِیْهِ ذِكْرُؔكُمْ ﴾ یعنی جو کچھ اس میں سچی باتیں بیان کی گئیں ہیں اگر تم اس سے نصیحت پکڑو، انھیں اپنا اعتقاد بناؤ اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو تو اس میں تمھارا شرف و فخر اور تمھاری سربلندی ہے، تمھاری قدر بڑھے گی اور تمھارا معاملہ عظیم ہو جائے گا۔ ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ کیا تم ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے جن میں تمھارا نفع و نقصان ہے؟ تم اس چیز پر کیوں عمل پیرا نہیں ہوتے جس میں تمھارا ذکر اور جس میں تمھارے لیے دنیا و آخرت کا شرف ہے؟ اگر تم میں عقل ہوتی تو تم اسی راستے پر گامزن ہوتے۔ چونکہ تم اسے راستے پر نہیں چلے بلکہ تم نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے جس میں تمھارے لیے دنیا و آخرت کی ذلت اور تحقیر ہے اور جس کی منزل تمھارے لیے دنیا و آخرت کی بدبختی ہے، اس لیے معلوم ہوا کہ تم صحیح معقولات اور راجح آراء سے تہی دامن ہو… جو کچھ واقع ہوا یہ آیت کریمہ اس کا مصداق ہے۔ کیونکہ رسول اللہe پر ایمان لانے والے صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے اہل ایمان نے اس قرآن سے نصیحت پکڑی تو انھیں غلبہ، سربلندی، عظیم شہرت اور بادشاہوں پر سرداری حاصل ہوئی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر شخص جانتا ہے جیسے اس شخص کے بارے میں معلوم ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے سربلندی حاصل نہیں کی، اس کی راہنمائی قبول نہیں کی اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کیا، اس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی، ذلت و رسوائی، گمنامی اور بدبختی ہے۔ پس دنیا و آخرت کی سعادت تک رسائی صرف اس کتاب عظیم کے ذریعے نصیحت پکڑنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
آیت: 11 - 15 #
{وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ (11) فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَرْكُضُونَ (12) لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ (13) قَالُوا يَاوَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (14) فَمَا زَالَتْ تِلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ (15)}.
اور کتنی ہی تہس نہس کر دیں ہم نے بستیاں کہ تھیں وہ ظالم اور پیدا کیں ہم نے ان کے بعد قومیں دوسری (11) پس جب محسوس کیا انھوں نے ہمارا عذاب تب وہ لوگ ان (بستیوں ) سے بھاگتے تھے (12) (انھیں کہا گیا) مت بھاگو تم! اور لوٹ آؤ طرف ان نعمتوں کی کہ آسودگی دیے گئے تھے تم ان میں اور اپنے مکانوں کی طرف تاکہ تم پوچھے جاؤ (13) انھوں نے کہا، ہائے ہماری کم بختی! بلاشبہ ہم ہی تھے ظالم (14) پس ہمیشہ رہی یہی پکار ان کی، یہاں تک کہ کر دیا ہم نے انھیں کٹی کھیتی (کی طرح) بجھے ہوئے (مردہ) (15)
#
{11} يقول تعالى محذِّراً لهؤلاء الظَّالمين المكذِّبين للرسول بما فعل بالأمم المكذِّبة لغيره من الرسل: {وكم قَصَمْنا} أي: أهلكنا بعذابٍ مستأصل {من قريةٍ}: تَلِفَتْ عن آخرها، {وأنشأنا بعدَها قوماً آخرين}.
[11] اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہe کو جھٹلانے والے ظالموں کو ان قوموں کے انجام سے ڈراتا ہے جنھوں نے دیگر انبیاء و مرسلین کی تکذیب کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ؔكَمْ قَصَمْنَا ﴾ ’’اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کر دیں ۔‘‘ یعنی جڑ کانٹے والے عذاب کے ذریعے سے ﴿ مِنْ قَ٘رْیَةٍ ﴾ ’’بستیاں ‘‘ جنھوں نے اپنے انجام کو نظرانداز کیا۔ ﴿ وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ﴾ ’’اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پیدا کیا۔‘‘
#
{12 ـ 13} وإنَّ هؤلاء المهلَكين لما أحسُّوا بعذاب الله وعقابه وباشرهم نزولُه؛ لم يمكنْ لهم الرجوعُ، ولا طريق لهم إلى النزوع، وإنَّما ضربوا الأرض بأرجلهم ندماً وقلقاً وتحسُّراً على ما فعلوا، فقيل لهم على وجه التهكُّم بهم: {لا تركُضوا وارجِعوا إلى ما أتْرِفْتُم فيه ومساكِنِكم لعلَّكم تُسألونَ}؛ أي: لا يفيدكم الركض والندم، ولكن؛ إنْ كان لكم اقتدارٌ؛ فارجعوا إلى ما أُتْرِفْتُم فيه من اللذَّات والمشتَهَيات ومساكِنِكم المزخرفات ودُنياكم التي غرَّتكم وألهتكم حتى جاءكم أمر الله؛ فكونوا فيها متمكِّنين، وللذَّاتها جانين، وفي منازلكم مطمئنِّين معظَّمين؛ لعلَّكم أن تكونوا مقصودين في أموركم كما كنتُم سابقاً مسؤولين من مطالب الدُّنيا كحالتكم الأولى، وهيهات!
[13,12] جب ان ہلاک ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عقاب کے نزول کو دیکھ لیا تو ان کے لیے لوٹنا ممکن نہ رہا اور اس عذاب سے رہائی پانے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہ رہا تو وہ تو صرف ندامت، افسوس اور اپنی کرتوتوں پر حسرت کے مارے زمین پر پاؤں پٹختے تھے تو تمسخر اور ٹھٹھے کے انداز میں ان سے کہا گیا: ﴿ لَا تَرْؔكُ٘ضُوْا وَارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُ٘تْرِفْتُمْ فِیْهِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُ٘سْـَٔلُوْنَ ﴾ یعنی اب ندامت کا اظہار کرنے اور ایڑیاں مارنے سے تمھیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر تم قدرت رکھتے ہو تو اپنی لذتوں اور شہوتوں بھری خوشحال زندگی، اپنے آراستہ اور مزین گھروں اور اس دنیا کی طرف واپس لوٹ کر دکھاؤ جس نے تمھیں دھوکے میں ڈال کر غافل رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچا۔ پس واپس لوٹ کر دنیا میں ڈیرے ڈال دو، اس کی لذات کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرو، اپنے گھروں میں اطمینان کے ساتھ بڑے بن کر رہو۔ شاید اپنے امور میں تم پھر مقصود بن جاؤ اور دنیا کے معاملات میں پھر تم سے جواب دہی کی جائے جیسا کہ پہلے تمھارا حال تھا… لیکن یہ بہت بعید ہے۔
#
{14} أين الوصول إلى هذا وقد فات الوقت، وحلَّ بهم العقاب والمقت، وذهب عنهم عزُّهم وشرفُهم ودنياهم، وحضرهم ندمُهم وتحسُّرهم؟! ولهذا {قالوا يا وَيْلَنا إنَّا كنَّا ظالمين}.
[14] اب دنیا میں کیسے واپس جایا جا سکتا ہے، وہ وقت ہاتھ سے نکل گیا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کا عذاب نازل ہو گیا، ان کا عزوشرف ختم ہو گیا اور ان کی دنیا بھی فنا ہو گئی اور ندامت اور حسرت ان کا نصیب بن گئی۔ اس لیے وہ پکار اٹھیں گے: ﴿ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ﴾ ’’ہائے افسوس، ہم ہی ظالم تھے۔‘‘
#
{15} {فما زالتْ تلك دَعْواهم}؛ أي: الدعاء بالويل والثبور والندم والإقرار على أنفسِهِم بالظُّلم وأنَّ الله عادلٌ فيما أحلَّ بهم، {حتى جَعَلْناهم حصيداً خامدينَ}؛ أي: بمنزلة النبات الذي قد حُصِدَ وأنيم؛ قد خمدت منهم الحركاتُ، وسكنتْ منهم الأصواتُ؛ فاحذروا أيُّها المخاطَبون، أن تستمرُّوا على تكذيب أشرف الرُّسل، فيحلَّ بكم كما حلَّ بأولئك.
[15] ﴿ فَمَا زَالَتْ تِّؔلْكَ دَعْوٰىهُمْ ﴾ پس ہمیشہ رہے گا ان کا یہ پکارنا۔‘‘ یعنی ہلاکت اور موت کی دعا مانگنا۔ وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ خود انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اللہ تعالیٰ نے عذاب بھیجنے میں ان کے ساتھ انصاف کیا ہے ﴿حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ ﴾ ’’علاوہ ازیں یہاں تک کہ کر دیا ہم نے ان کو کٹے ہوئے کھیت اور بجھنے والی آگ (کی طرح)۔‘‘ یعنی اس نباتات کی مانند جسے کاٹ گرایا گیا ہو۔ ان کی حرکات مدہم پڑ گئیں اور آوازیں ختم ہو گئیں ، اس لیے اے لوگو جن کو مخاطب کیا جا رہا ہے تم افضل ترین رسول (e) کو جھٹلانے سے بچو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اللہ کا عذاب اسی طرح نازل ہو جائے جیسے ان لوگوں پر ہوا تھا۔
آیت: 16 - 17 #
{وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (16) لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَاعِلِينَ (17)}.
اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، کھیلتے ہوئے (بے فائدہ) (16) اگر ہم چاہتے یہ کہ بنائیں کوئی کھیل تماشہ تو ا لبتہ بنا لیتے ہم اس کو اپنے پاس سے اگر ہوتے ہم (یہ کام) کرنے والے (17)
#
{16} يخبر تعالى أنه ما خلق السماواتِ والأرضَ عَبَثاً ولا لَعِباً من غير فائدة، بل خلقها بالحقِّ وللحقِّ؛ ليستدلَّ بها العبادُ على أنَّه الخالق العظيم، المدبِّر الحكيم، الرحمن الرحيم، الذي له الكمالُ كلُّه والحمدُ كلُّه والعزَّةُ كلُّها، الصادق في قيله، الصادقةُ رسلُه فيما تخبر عنه، وأنه القادر على خلقِهما مع سَعَتِهِما وعِظَمِهِما، قادرٌ على إعادة الأجساد بعد موتها؛ ليجازي المحسنُ بإحسانه، والمسيء بإساءته.
[16] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے طور پر عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان کو حق کے ساتھ اور حق کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ بندے اس کائنات سے استدلال کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، عظمت والا، کائنات کی تدبیر کرنے والا، حکمت والا اور رحمان و رحیم ہے، جو کمال کلی، ہر قسم کی تعریف اور تمام تر عزت کا مالک ہے۔ وہ اپنے قول میں سچا ہے اس کے رسول بھی اس کی طرف سے خبردینے میں سچے ہیں ۔ وہ قادر ہستی جو زمین و آسمان کو ان کی وسعت اور عظمت کے ساتھ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ جسموں کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے تاکہ نیک کو اس کی نیکی کی جزا اور بدکو اس کی بدی کی سزا دے۔
#
{17} {لو أردْنا أن نَتَّخِذَ لهواً}: على الفرض والتقدير المُحال؛ {لاتَّخذناه من لَدُنَّا}؛ أي: من عندنا، {إن كنَّا فاعلين}: ولم نطلِعكْم على ما فيه عبثٌ ولهوٌ؛ لأنَّ ذلك نقصٌ ومَثَلُ سَوْءٍ لا نحبُّ أن نرِيَه إياكم؛ فالسماوات والأرض اللذان بمرأى منكم على الدوام لا يمكنُ أن يكون القصدُ منهما العبثُ واللهو؛ كلُّ هذا تنزُّل مع العقول الصغيرة وإقناعها بجميع الوجوه المقنعة؛ فسبحان الحليم الرحيم الحكيم في تنزيله الأشياء منازلها.
[17] ﴿ لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّؔتَّؔخِذَ لَهْوًا ﴾ ’’اگر ہم کھیل تماشے ہی کا ارادہ کرتے‘‘ یعنی بفرض محال اگر یہ تسلیم کر لیا جائے ﴿ لَّاتَّؔخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ﴾ ’’تو ہم اسے بنا لیتے اپنی طرف ہی سے۔‘‘ ﴿ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْ٘نَ﴾ ’’اگر ہوتے ہم کرنے والے۔‘‘ اور کھیل تماشے کی بابت تمھیں مطلع بھی نہ کرتے کیونکہ یہ نقص اور برا وصف ہے، جسے ہم تمھیں دکھانا پسند نہ کرتے۔ یہ زمین و آسمان جو ہمیشہ سے تمھارے سامنے ہیں ، ممکن نہیں کہ ان کو عبث اور کھیل تماشے کے مقصد سے پیدا کیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ موٹی عقل کے لوگوں کی سطح پر اتر کر کہا گیا ہے تاکہ ان کو ہر لحاظ سے مطمئن کیا جائے۔ پس پاک ہے وہ ذات جو حلم والی، رحم کرنے والی اور حکمت والی ہے، وہ تمام اشیاء کو ان کے اپنے مقام پر رکھنے میں حکمت سے کام لیتی ہے۔
آیت: 18 - 20 #
{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ (18) وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ (19) يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ (20)}.
بلکہ ہم پھینک مارتے ہیں حق کو اوپر باطل (کے سر) کے تو وہ اس کا سر پھوڑ دیتا ہے، پس یکا یک وہ مٹ جانے والا ہو جاتا ہے اور تمھارے لیے ہلاکت ہے بوجہ ان باتوں کے جو تم (اللہ کی بابت) بیان کرتے ہو (18) اور اسی کا ہے جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جو اس کے پاس ہیں نہیں تکبر کرتے وہ اس کی عبادت سے اور نہ وہ تھکتے ہیں (19) وہ تسبیح کرتے ہیں (اس کی) رات اوردن، نہیں سستی کرتے وہ (اس سے) (20)
#
{18} يخبر تعالى أنه تكفَّل بإحقاق الحقِّ وإبطال الباطل، وإنْ كان باطلٌ قيلَ وجُودِلَ به؛ فإنَّ الله يُنْزِلُ من الحقِّ والعلم والبيان ما يدمغُه فيضمحلُّ ويتبيَّن لكلِّ أحدٍ بطلانُه. {فإذا هو زاهقٌ}؛ أي: مضمحلٌ فانٍ. وهذا عامٌّ في جميع المسائل الدينيَّة، لا يورِدُ مبطلٌ شبهةً عقليَّة ولا نقليَّة في إحقاق باطل أو ردِّ حقٍّ؛ إلاَّ وفي أدلَّة الله من القواطع العقليَّة والنقليَّة ما يذهِبُ ذلك القول الباطل ويقمعُه؛ فإذا هو متبيِّن بطلانُه لكلِّ أحدٍ. وهذا يتبيَّن باستقراء المسائل مسألة مسألة؛ فإنَّك تجدُها كذلك. ثم قال: ولكم أيُّها الواصفون الله بما لا يَليقُ به من اتِّخاذ الولد والصاحبة ومن الأنداد والشُّركاء حظُّكم من ذلك ونصيبكم، الذي تدرِكون به الويل والنَّدامة والخُسران، ليس لكم مما قُلتم فائدةٌ، ولا يرجع عليكم بعائدة تؤمِّلونها، وتعملون لأجلها، وتسعَوْن في الوصول إليها؛ إلاَّ عكس مقصودكم، وهو الخيبة والحرمان.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے احقاق حق اور ابطلال باطل کی ذمہ داری لی ہے۔ باطل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ حق، علم اور بیان نازل کرتا ہے، جس سے باطل پر ضرب لگتی ہے پس باطل مضمحل ہو جاتا ہے اور اس کا بطلان ہر ایک پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ ﴿ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ یعنی مضمحل ہو کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور تمام دینی مسائل میں یہی اصول عام ہے، جب بھی کوئی باطل پرست شخص باطل کو حق ثابت کرنے یا حق کو رد کرنے کے لیے کوئی عقلی یا نقلی شبہ وارد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل میں اتنا زور ہوتا ہے کہ وہ اس قول باطل کو زائل کر کے اس کا قلع قمع کر دیتا ہے اور یوں اس کا بطلان ہر شخص پر واضح ہو جاتا ہے۔ اگر تمام مسائل میں ایک ایک مسئلہ کا استقراء کیا جائے تو آپ اس اصول کو اسی طرح پائیں گے۔ پھر ارشاد فرمایا: ﴿ وَلَكُمُ ﴾ ’’اور تمھارے لیے۔‘‘ اے لوگو! جو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف کرتے ہو جو اس کے شایان شان نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا، بیوی، اس کے ہمسر اور شریک قراردینا۔ان باطل باتوں میں سے تمھارا حصہ اور تمھارا نصیب ہے کہ اس پاداش میں تمھارے لیے ہلاکت، ندامت اور خسارہ ہے تم نے جو کچھ کہا ہے اس میں تمھارے لیے کوئی فائدہ ہے نہ تمھارے لیے کوئی بھلائی، جس کی خاطر تم عمل کر رہے ہو اور جہاں پہنچنے کے لیے تم کوشاں ہو، البتہ تمھارے مقصود و مطلوب کے برعکس، تمھارے نصیب میں ناکامی اور محرومی ہے۔
#
{19} ثم أخبر أنَّه له ملك السماواتِ والأرض وما بينهما؛ فالكل عبيده ومماليكه، فليس لأحدٍ منهم ملكٌ ولا قسطٌ من الملك ولا معاونةٌ عليه، ولا يشفعُ إلاَّ بإذن الله؛ فكيف يتَّخذ من هؤلاء آلهة؟! وكيف يُجعل لله منها ولد؟! فتعالى وتقدَّس المالك العظيم الذي خضعت له الرقاب، وذلَّت له الصعاب، وخشعت له الملائكة المقرَّبون، وأذعنوا له بالعبادة الدَّائمة المستمرة أجمعون؛ ولهذا قال: {ومن عنده}؛ أي: [من] الملائكة، {لا يَسْتَكْبِرونَ عن عبادتِهِ ولا يستحسرونَ}؛ أي: لا يملُّون، ولا يسأمون لشدَّة رغبتهم وكمال محبَّتهم وقوَّة أبدانهم.
[19] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ زمین، آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ پس تمام مخلوق اس کی غلام اور مملوک ہے۔ زمین و آسمان کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کی ملکیت ہے نہ اس میں کسی کا حصہ ہے، نہ اس اقتدار میں اس کا کوئی معاون ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کر سکے گا، پھر کیسے ان کو معبود بنایا جا سکتا ہے اور کیسے ان میں سے کسی کو اللہ کا بیٹا قرار دیا جا سکتا ہے؟… بالا و بلند اور پاک ہے وہ ہستی جو مالک اور عظمت والی ہے جس کے سامنے گردنیں جھکی ہوئی، بڑے بڑے سرکش سرافگندہ اور جس کے حضور مقرب فرشتے عاجز اور فروتن ہیں اور سب اس کی دائمی عبادت میں مصروف ہیں ۔ بناء بریں فرمایا: ﴿ وَمَنْ عِنْدَهٗ ﴾ ’’اور جو اس کے پاس ہیں ۔‘‘ یعنی فرشتے ﴿ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ۠﴾ ’’وہ اس کی عبادت سے انکار کرتے ہیں نہ وہ تھکتے ہیں ۔‘‘ یعنی شدت رغبت، کامل محبت اور اپنے بدن کی طاقت کی وجہ سے، اس کی عبادت سے تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں ۔
#
{20} {يسبِّحون الليل والنهار لا يفتُرون}؛ أي: مستغرِقين في العبادة والتسبيح في جميع أوقاتهم، فليس في أوقاتهم وقتٌ فارغٌ ولا خالٍ منها، وهم على كثرتِهِم بهذه الصفة. وفي هذا من بيان عظمتِهِ وجلالة سلطانِهِ وكمال علمِهِ وحكمته ما يوجبُ أن لا يُعْبَدَ إلاَّ هو، ولا تُصْرَفَ العبادةُ لغيره.
[20] ﴿یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ ﴾ یعنی وہ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح و تحمید میں مستغرق رہتے ہیں ۔ ان کے اوقات میں کوئی وقت فارغ ہے نہ عبادت سے خالی ہے۔ وہ اپنی کثرت کے باوصف اس صفت سے متصف ہیں ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال، اس کی قدرت، اس کے کامل علم و حکمت کا بیان ہے جو اس امر کا موجب ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت کی جائے نہ عبادت کو غیر اللہ کی طرف پھیرا جائے۔
آیت: 21 - 25 #
{أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنْشِرُونَ (21) لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (22) لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (23) أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُمْ مُعْرِضُونَ (24) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (25)}.
کیا بنا لیے ہیں انھوں نے معبود زمین میں سے کہ وہ زندہ کر دیں گے (مردوں کو)؟ (21) اگر ہوتے ان (آسمانوں و زمین) میں کئی معبود سوائے اللہ کے تو البتہ بگڑ جاتے وہ دونوں پس پاک ہے اللہ، جو رب ہے عرش کا، ان سے جو وہ بیان کرتے ہیں (22) نہیں پوچھا جاسکتا اس سے اس چیز کی بات جو وہ کرتا ہے، جبکہ وہ (لوگ) پوچھے جائیں گے(23) کیا بنا لیے ہیں انھوں نے سوائے اس کے اور معبود؟ کہہ دیجیے! لاؤ تم دلیل اپنی، یہ (توحید ہی) ذکر ہے ان لوگوں کا جو میرے ساتھ ہیں اور ذکر ہے ان لوگوں کا جو مجھ سے پہلے تھےبلکہ اکثر ان کے نہیں جانتے حق کو، پس وہ اعراض کرنے والے ہیں (24)اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول مگر وحی کرتے تھے ہم اس کی طرف (یہ بات) کہ بلاشبہ نہیں کوئی معبود مگر میں ہی، سو تم عبادت کرو میری ہی (25)
#
{21} لما بيَّن تعالى كمال اقتدارِهِ وعظمته وخضوع كلِّ شيءٍ له؛ أنكر على المشركين الذين اتَّخذوا من دون الله آلهةً من الأرض في غاية العجزِ وعدم القدرة. {هم يُنشِرون}: استفهام بمعنى النفي؛ أي: لا يقدرون على نشرِهِم وحشرِهِم؛ يفسِّرها قوله تعالى: {واتَّخذوا من دونِهِ آلهةً لا يخلُقون شيئاً وهُم يُخْلَقون. ولا يملِكونَ لأنفسِهِم نفعاً ولا ضَرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً}، {واتَّخذوا من دون الله آلهةً لعلَّهم يُنصَرونَ. لا يستطيعونَ نصرَهم وهم لهم جندٌ محضَرون}.
[21] اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اقتدار اور اپنی عظمت کا ذکر کرنے اور اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد کہ ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے، مشرکین پر نکیر کی جنھوں نے اللہ کے سوا زمین سے معبود بنا لیے ہیں جو انتہائی عاجز اور قدرت سے محروم ہیں ۔ ﴿ هُمْ یُنْشِرُوْنَ ﴾ ’’وہ ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر سکیں گے؟‘‘ یہ استفہام نفی کے معنٰی میں ہے، یعنی وہ ان کے حشرونشر پر قادر نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتا ہے۔ ﴿وَاتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔؔا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰؔوةً وَّلَا نُشُوْرًؔا﴾ (الفرقان:25؍3) ’’انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے خدا بنا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود پیدا كيے جاتے ہیں وہ خود اپنے لیے کسی نقصان کا اختیار رکھتے ہیں نہ نفع کا اور نہ وہ موت و حیات کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ یُنْصَرُوْنَؕ۰۰لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ نَصْرَهُمْ١ۙ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ﴾ (یٰسین:36؍74،75) ’’انھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنائے ہیں شائد کہ ان کی طرف سے ان کی مدد کی جائے (حالانکہ) وہ ان کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ تو خود ان کے لشکری ہیں حاضر کیے ہوئے۔‘‘
#
{22} فالمشرك يَعْبُدُ المخلوق الذي لا ينفع ولا يضرُّ، ويدعُ الإخلاص لله الذي له الكمالُ كلُّه وبيده الأمرُ والنفعُ والضرُّ، وهذا من عدم توفيقه وسوء حظِّه وتوفُّر جهله وشدَّة ظلمِهِ؛ فإنَّه لا يصلحُ الوجود إلاَّ على إله واحدٍ؛ كما أنَّه لم يوجد إلا بربٍّ واحد، ولهذا قال: {لو كان فيهما}؛ أي: في السماواتِ والأرض، {آلهةٌ إلاَّ الله لفسدتا}: في ذاتهما، وفَسَدَ مَنْ فيهما من المخلوقات. وبيانُ ذلك: أنَّ العالم العلويَّ والسفليَّ على ما يُرى في أكمل ما يكون من الصَّلاح والانتظام، الذي ما فيه خللٌ ولا عيبٌ ولا ممانعةٌ ولا معارضةٌ، فدلَّ ذلك على أن مدبِّره واحدٌ وربَّه واحدٌ وإلهه واحدٌ؛ فلو كان له مدبِّران وربَّان أو أكثر من ذلك؛ لاختلَّ نظامُه وتقوَّضت أركانُه؛ فإنهما يتمانعان ويتعارضان، وإذا أراد أحدُهما تدبير شيء وأراد الآخر عدمه؛ فإنَّه محالٌ وجود مرادهما معاً، ووجود مراد أحدِهِما دونَ الآخر يدلُّ على عَجْزِ الآخر وعدم اقتدارِهِ، واتفاقُهما على مرادٍ واحدٍ في جميع الأمور غيرُ ممكنٍ؛ فإذاً يتعيَّن أن القاهر الذي يوجدُ مرادُهُ وحدَه من غير ممانع ولا مدافع هو الله الواحد القهَّار، ولهذا ذكر الله دليل التمانع في قوله: {ما اتَّخَذَ اللهُ من ولدٍ وما كان معه من إلهٍ إذاً لَذَهَبَ كلُّ إلهٍ بما خَلَقَ ولَعَلا بعضُهم على بعض سبحانَ اللهِ عما يصفون}، ومنه على أحد التأويلين قوله تعالى: {قُل لو كانَ معه آلهةٌ كما يقولون إذاً لابْتَغَوا إلى ذي العرشِ سبيلاً. سبحانَهُ وتعالى عمَّا يقولونَ علوًّا كبيراً}؛ ولهذا قال هنا: {فسبحان الله}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس عن كلِّ نقص لكماله وحده، {ربِّ العرشِ}: الذي هو سقف المخلوقات وأوسعها وأعظمها؛ فربوبيَّته ما دونَه من باب أولى، {عما يصِفونَ}؛ أي: الجاحدون الكافرون من اتِّخاذ الولد والصاحبة، وأن يكون له شريكٌ بوجهٍ من الوجوه.
[22] پس مشرک مخلوق کی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کو ترک کر دیتا ہے جو تمام کمالات کا مالک ہے اور تمام معاملات اور نفع و نقصان اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ یہ توفیق سے محرومی، اس کی بدقسمتی، اس کی جہالت کی فراوانی اور اس کے ظلم کی شدت ہے۔ یہ وجود کائنات صرف ایک ہی الٰہ کے لیے درست اور لائق ہے اور اس وجود کائنات میں صرف ایک ہی رب موجود ہے، اس لیے فرمایا ﴿ لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ ﴾ اگر ہوتے زمین اور آسمان میں ﴿ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ﴾ ’’کئی معبود اللہ کے سوا تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے۔‘‘خود زمین و آسمان فساد کا شکار ہو جاتے اور زمین و آسمان میں موجود تمام مخلوق میں فساد برپا ہو جاتا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی… جیسا کہ نظر آ رہا ہے بہترین اور کامل ترین انتظام کے تحت چل رہے ہیں جس میں کوئی خلل ہے نہ عیب، جس میں کوئی اختلاف ہے نہ معارضہ… پس کائنات کا یہ انتظام دلالت کرتا ہے کہ ان کی تدبیر کرنے والا، ان کا رب اور ان کا معبود ایک ہے۔ اگر اس کائنات کی تدبیر کرنے والے اور اس کے رب دو یا دو سے زیادہ ہوتے تو اس کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا اور اس کے تمام ارکان منہدم ہو جاتے کیونکہ دونوں معبود ایک دوسرے کے معارض ہوتے اور ایک دوسرے کے انتظام سے مزاحم ہوتے۔ جب ان دو خداؤں میں سے ایک خدا کسی چیز کی تدبیر کا ارادہ کرتا اور دوسرا اس کو معدوم کرنے کا ارادہ کرتا تو بیک وقت دونوں کی مراد کا وجود میں آنا محال ہوتا اور دونوں میں سے کسی ایک کی مراد کا پورا ہونا دوسرے کے عجز اور اس کے عدم اقتدار پر دلالت کرتا ہے اور تمام معاملات میں کسی ایک مراد پر دونوں کا متفق ہونا ناممکن ہے، تب یہ حقیقت متعین ہو گئی کہ وہ غالب و قاہر ہستی جس اکیلی ہی کی مراد بغیر کسی مانع کے وجود میں آتی ہے، وہ اللہ واحد و قہار ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمانع کی دلیل یہ بیان فرمائی۔ ﴿مَا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰ٘هٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُ٘لُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ﴾ (المومنون:23؍91) ’’ا للہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ کوئی دوسرا معبود ہی اس کی خدائی میں اس کے ساتھ شریک ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق کو لے کر علیحدہ ہو جاتا اور غالب آنے کے لیے ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے۔ جن اوصاف سے تم اسے موصوف کر رہے ہو اللہ ان سے پاک ہے۔‘‘ اور ایک تفسیر کے مطابق درج ذیل آیت بھی اسی تمانع کی دلیل ہے۔ ﴿ قُ٘لْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْ٘عَرْشِ سَبِیْلًا۰۰سُبْحٰؔنَهٗ وَ تَ٘عٰ٘لٰ٘ى عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِیْرًؔا ﴾ (بنی اسرائیل:17؍42، 43) ’’کہہ دیجیے اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو عرش کے مالک تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ ضرور تلاش کرتے، وہ پاک اور بلند و بالاہے ان باتوں سے جو یہ مشرکین کہہ رہے ہیں ۔‘‘ اسی لیے فرمایا: ﴿فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ایک اور منزہ ہے ہر نقص سے کیونکہ وہ اکیلا کمال کا مالک ہے ﴿ رَبِّ الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’رب ہے عرش کا۔‘‘ وہ عرش جو مخلوقات کی چھت، تمام مخلوقات سے زیادہ وسیع اور سب سے بڑا ہے، لہٰذا اس سے کمتر مخلوق کے لیے اس کا رب ہونا تو طریق اولیٰ کے باب سے ہے۔ ﴿ عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ یعنی یہ منکرین حق اور کفار جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور بیوی ہے، کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک ہے۔ان سب باتوں سے وہ پاک ہے۔
#
{23} {لا يُسْأَلْ عما يفعلُ}: لعظمته وعزَّته وكمال قدرتِهِ ؛ لا يقدرُ أحدٌ أن يمانعه أو يعارضه؛ لا بقول ولا بفعل، ولكمال حكمتِهِ ووضعه الأشياء مواضعها وإتقانها أحسن شيءٍ يقدِّره العقل؛ فلا يتوجَّه إليه سؤالٌ؛ لأنَّ خلقَه ليس فيه خللٌ ولا إخلالٌ. {وهم}؛ أي: المخلوقون كلهم، {يُسألونَ}: عن أفعالهم وأقوالهم؛ لعجزِهم وفقرِهم، ولكونِهم عبيداً، قد استحقَّت أفعالُهم وحركاتُهم؛ فليس لهم من التصرُّف والتدبير في أنفسهم ولا في غيرهم مثقال ذرَّة.
[23] ﴿ لَا یُسْـَٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ ﴾ ’’نہیں پوچھا جائے گا اس سے (اس کی بابت) جو وہ کرتا ہے۔‘‘ اس کی طاقت، اس کے غلبہ اور اس کی کامل قدرت کی بنا پر کوئی اس کے افعال میں ، قول یا فعل کے ذریعے، مزاحم نہیں ہو سکتا اس نے اپنی حکمت کاملہ کی بنا پر تمام اشیاء کو ان کے لائق مقامات پر رکھا ہے، ان کو نہایت مہارت سے تخلیق کیا اور ہر چیز کو احسن طریقے سے بنایا، عقل جس کا اندازہ کر سکتی ہے۔ اس پر سوال وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی تخلیق میں کوئی خلل اور نقص نہیں ۔ ﴿ وَهُمْ ﴾ یعنی تمام مخلوقات ﴿ یُسْـَٔلُوْنَ ﴾ یعنی اپنے افعال و اقوال کے بارے میں جواب دہ ہیں کیونکہ وہ عاجز، محتاج اور غلام ہیں ۔ وہ خود اپنی ذات پر یا کسی دوسرے پر ذرہ بھر اختیار نہیں رکھتے۔
#
{24} ثم رجع إلى تهجين حال المشركين، وأنَّهم اتَّخذوا من دونه آلهةً؛ فقُلْ لهم موبِّخاً ومقرِّعاً: {أم اتَّخذوا من دونِهِ آلهةً قل هاتوا برهانَكم}؛ أي: حجَّتكم ودليلكم على صحَّة ما ذهبتُم إليه، ولن يجدوا لذلك سبيلاً، بل قد قامتِ الأدلة القطعيَّة على بطلانِهِ، ولهذا قال: {هذا ذكرُ مَن معيَ وذِكْرُ من قبلي}؛ أي: قد اتَّفقت الكتب والشرائع على صحَّة ما قلتُ لكم من إبطال الشرك؛ فهذا كتابُ الله الذي فيه ذِكْرُ كلِّ شيء بأدلَّته العقليَّة والنقليَّة، وهذه الكتب السابقة كلُّها براهينُ وأدلَّة لما قلتُ. ولمَّا عُلم أنَّهم قامت عليهم الحجَّة والبرهانُ على بطلان ما ذهبوا إليه؛ عُلم أنَّه لا برهان لهم؛ لأنَّ البرهان القاطع يُجزَمُ أنَّه لا معارض له، وإلاَّ؛ لم يكن قطعيًّا، وإن وُجِدَ معارضات؛ فإنَّها شُبَهٌ لا تغني من الحقِّ شيئاً. وقوله: {بل أكثرهُم لا يعلمون الحقَّ}؛ أي: وإنَّما أقاموا على ما هم عليه تقليداً لأسلافهم؛ يجادِلون بغير علم ولا هدىً، وليس عدمُ علمهم الحقَّ لخفائِهِ وغموضِهِ، وإنَّما ذلك لإعراضهم عنه، وإلاَّ؛ فلو التفتوا إليه أدنى التفاتٍ؛ تبيَّن لهم الحقُّ من الباطل تبيُّناً واضحاً جليًّا، ولهذا قال: {فهم معرضونَ}.
[24] پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کے احوال کی تحقیر کی طرف لوٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بہت سے معبود بنا لیے ہیں ، لہٰذا ان کو زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہو! ﴿ اَمِ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ قُ٘لْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ﴾ یعنی اپنے موقف کی صحت پر حجت اور دلیل لاؤ مگر وہ کبھی دلیل نہ لا سکیں گے بلکہ اس کے برعکس ان کے اس موقف کے بطلان پر قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں ، اس لیے فرمایا: ﴿ هٰؔذَا ذِكْرُ مَنْ مَّ٘عِیَ وَذِكْرُ مَنْ قَ٘بْلِیْ ﴾ یعنی تمام آسمانی کتابیں اور شریعتیں ، ابطال شرک کے بارے میں میرے موقف کی صحت پر متفق ہیں ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور یہ سابقہ تمام کتب ہیں ، یہ بھی میرے موقف پر واضح دلیل اور برہان ہیں اور چونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ ان کے موقف کے بطلان پر حجت و برہان قائم ہو گئی اس لیے صاف ظاہر ہو گیا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ دلیل و برہان قطعی طور پر فیصلہ کر دیتی ہے کہ اس کا کوئی معارض نہیں ۔ اگر بظاہر کچھ معارضات موجود ہوں تو یہ محض شبہات ہیں جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آ سکتے۔ ﴿بَلْ اَ كْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ ﴾ یعنی وہ اپنے اسلاف کی تقلید کی بنا پر اپنے باطل موقف پر قائم ہیں اور بغیر کسی علم اور ہدایت کے جھگڑا کرتے ہیں ۔ ان کا حق کے علم سے محروم ہونے کا باعث یہ نہیں کہ حق مخفی ہے بلکہ اس محرومی کا سبب ان کی حق سے روگردانی ہے۔ ورنہ اگر انھوں نے حق کی طرف ادنیٰ سا التفات بھی کیا ہوتا تو حق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ ’’پس وہ اعراض کرنے والے ہیں ۔‘‘
#
{25} ولما حول تعالى على ذكر المتقدِّمين، وأمر بالرجوع إليها في بيان هذه المسألة؛ بيَّنها أتمَّ تبيينٍ في قوله: {وما أرسَلْنا من قبلِكَ من رسول إلاَّ نوحي إليه أنَّه لا إله إلاَّ أنا فاعبدونِ}: فكلُّ الرسل الذين من قبلك مع كتبِهِم زُبْدَةُ رسالتِهِم وأصلُها الأمرُ بعبادةِ الله وحدَه لا شريك له وبيانُ أنَّه الإله الحقُّ المعبودُ وأنَّ عبادة ما سواه باطلةٌ.
[25] اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے متقدمین کا ذکر فرمایا اور حکم دیا کہ اس مسئلے کی توضیح و تبیین کے بارے میں ان کی طرف رجوع کیا جائے، اس لیے اس مسئلہ کو اپنے اس ارشاد مقدس میں مکمل طور پر واضح فرما دیا ہے: ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ پس آپe سے پہلے آنے والے تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت اور ان کی کتابوں کا لب لباب اور مقصد ِ وحید، اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کا حکم اور اس حقیقت کو کھول کر بیان کرنا ہے کہ صرف وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت باطل ہے۔
آیت: 26 - 29 #
{وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ (26) لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (27) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ (28) وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (29)}.
اور انھوں نے کہا، بنائی ہے رحمن نے اولاد، پاک ہے وہ بلکہ وہ (فرشتے) تو (اس کے) بندے ہیں معزز (26) نہیں سبقت کرتے وہ اس (اللہ) سے بات (کرنے) میں اور وہ اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں (27) وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہےاور وہ (فرشتے) نہیں سفارش کریں گے مگر واسطے اسی شخص کے (جس کے لیے) اللہ پسند کرے گااور وہ اس کے خوف سے ڈرنے والے ہیں (28) اور جو کوئی بھی کہے ان میں سے کہ بے شک میں معبود ہوں سوائے اس (اللہ) کے تو وہ شخص، سزا دیں گے ہم اسے جہنم کی، اسی طرح ہم سزا دیتے ہیں ظالموں کو (29)
#
{26} يخبر تعالى عن سفاهةِ المشركين المكذِّبين للرسول، وأنَّهم زعموا ـ قبَّحهم الله ـ أنَّ الله اتَّخذ ولداً، فقالوا: الملائكةُ بناتُ الله! تعالى الله عن قولهم، وأخبر عن وصفِ الملائكة بأنَّهم عبيدٌ مربوبون مدبَّرون، ليس لهم من الأمر شيءٌ، وإنَّما هم مُكْرَمونَ عند الله، قد ألزمهم الله، وصيَّرهم من عبيد كرامتِهِ ورحمتِهِ، وذلك لما خصَّهم به من الفضائل والتطهير عن الرذائل، وأنَّهم في غاية الأدب مع اللَّه والامتثال لأوامره.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ رسول (e) کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی سفاہت اور ان کے زعم باطل کے بارے میں خبر دیتا ہے… ان کا برا ہو… کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا بنایا ہے اور وہ ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس ہرزہ سرائی سے بلندوبالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے اوصاف کے متعلق آگاہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے مرہون بندے اور اس کے دست تدبیر کے تحت مجبور ہیں اور انھیں کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لائق تکریم ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی رحمت اور کرامت کے مستحق بندوں میں شامل کیا ہے، انھیں رذائل سے پاک اور بے شمار فضائل سے مختص فرمایا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی باادب اور اس کے احکامات کی تعمیل کرنے والے ہیں ۔
#
{27} {لا يسبِقونَهُ بالقول}؛ أي: لا يقولون قولاً مما يتعلَّق بتدبير المملكة حتى يقول الله؛ لكمال أدبهم وعلمهم بكمال حكمته وعلمه. {وهم بأمرِهِ يعملونَ}؛ أي: مهما أمَرَهم؛ امتثلوا لأمره، ومهما دبَّرهم عليه؛ فعلوه؛ فلا يعصونه طرفةَ عين، ولا يكون لهم عملٌ بأهواء أنفسهم من دون أمر الله.
[27] ﴿لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ ﴾ تدبیر مملکت کے متعلق اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ارشاد نہ فرمائے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کامل طور پرمؤدب اور اللہ تعالیٰ کے کمال علم و حکمت سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔ ﴿ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ ﴾ وہ انھیں جو بھی حکم دیتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں اور جس کام پر انھیں لگاتا ہے وہ اسے سرانجام دیتے ہیں ۔ وہ لمحہ بھر کے لیے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں نہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو نظر انداز کر کے اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگتے ہیں۔
#
{28} ومع هذا؛ فالله قد أحاط بهم علمه، فعلم {ما بينَ أيديهم وما خلفهم}؛ أي: أمورهم الماضية والمستقبلة؛ فلا خروج لهم عن علمه؛ كما لا خروج لهم عن أمره وتدبيره، ومن جزئيَّات وصفهم بأنهم لا يسبقونه بالقول أنَّهم لا يشفعون لأحد بدون إذنه ورضاه؛ فإذا أذِنَ لهم وارتضى مَنْ يشفعون فيه شفعوا فيه؛ ولكنه تعالى لا يرضى من القول والعمل إلاَّ ما كان خالصاً لوجهه متَّبعاً فيه الرسول. وهذه الآية من أدلَّة إثبات الشفاعة، وأنَّ الملائكة يشفعون. {وهم من خشيتِهِ مشفِقونَ}؛ أي: خائفون وجلون، قد خَضَعوا لجلالِهِ، وعَنَتْ وجوهُهم لعزِّه وجماله.
[28] اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ﴿ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ماضی اور مستقبل کے تمام معاملات کا علم رکھتا ہے، وہ اس کے احاطۂ علم سے اسی طرح باہر نہیں نکل سکتے جیسے وہ اس کے دائرۂ امروتدبیر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ ان کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کسی بات میں اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں کر سکتے اور نہ اس کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر کسی کی سفارش کر سکتے ہیں ، اس لیے جب االلہ تعالیٰ ان کو اجازت دیتا ہے اور جس کے بارے میں وہ سفارش کرنا چاہتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، تب وہ سفارش کرتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ صرف اسی قول و عمل سے راضی ہوتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لیے اور رسول (e) کی اتباع میں کیا گیا ہو… یہ آیت کریمہ شفاعت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے شفاعت کریں گے۔ ﴿ وَهُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، اس کے جلال کے سامنے سرنگوں اور اس کے غلبہ و جمال کے سامنے سرافگندہ ہیں ۔
#
{29} فلما بيَّن أنَّه لا حقَّ لهم في الألوهيَّة، ولا يستحقُّون شيئاً من العبوديَّة بما وصفهم به من الصِّفات المقتضية لذلك؛ ذكر أيضاً أنَّه لا حظَّ لهم ولا بمجرَّد الدَّعوى، وأنَّ مَنْ قال منهم: إنِّي إلهٌ من دون الله على سبيل الفرض والتنزل. {فذلك نَجْزيه جَهَنَّم كذلك نجزي الظَّالمين}: وأيُّ ظلم أعظمُ من ادِّعاء المخلوق الناقص الفقير إلى الله من جميع الوجوه مشارَكَتَهُ الله في خصائص الإلهيَّة والربوبيَّة؟!
[29] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ الوہیت میں ان (فرشتوں ) کا کوئی حق نہیں اور نہ وہ عبودیت ہی کا کوئی استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ وہ ایسی صفات سے متصف ہیں جو عدم استحقاق کا تقاضا کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر فرمایا دیا کہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ بھی نہیں اور نہ مجرد دعویٰ سے الوہیت کا استحقاق ہی ثابت ہوتا ہے اور ان میں سے جو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ﴿ اِنِّیْۤ اِلٰ٘هٌ مِّنْ دُوْنِهٖ ﴾ ’’کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں ‘‘ یعنی فرض کیا اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے ﴿ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَ١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو جزاء دیتے ہیں۔‘‘ اور اس سے بڑا اور کونسا ظلم ہو سکتا ہے کہ ایک ناقص مخلوق جو ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے، خصائص الوہیت و ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کی شریک ہونے کا دعویٰ کرے؟
آیت: 30 #
{أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (30)}.
کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، کہ بلاشبہ آسمان اور زمین تھے باہم ملے ہوئے؟ پھر الگ الگ کیا ہم نے ان دونوں کو اور بنائی ہم نے پانی سے ہر چیز جاندار کیا پس نہیں ایمان لاتے وہ؟ (30)
#
{30} أي: أولم ينظُر هؤلاء الذين كفروا بربِّهم، وجَحَدوا الإخلاص له في العبوديَّة ما يدلُّهم دلالةَ مشاهدةٍ على أنه الربُّ المحمود الكريم المعبود، فيشاهدون السماء والأرض، فيجدونهما {رتقاً}؛ هذه ليس فيها سحابٌ ولا مطرٌ، وهذه هامدةٌ ميتةٌ لا نبات فيها، {ففتقناهما}؛ السماء بالمطر، والأرض بالنبات. أليس الذي أوجَدَ في السماء السحاب بعد أن كان الجوُّ صافياً لا قَزَعَةَ فيه، وأودَعَ فيه الماء الغزير، ثم ساقه إلى بلدٍ ميِّتٍ قد اغبرَّت أرجاؤه وقحط عنه ماؤه، فأمطره فيها، فاهتزَّت وتحرَّكت ورَبَتْ وأنبتت من كلِّ زوج بهيج مختلفِ الأنواع متعددِ المنافع؛ أليس ذلك دليلاً على أنه الحقُّ وما سواه باطلٌ، وأنَّه محيي الموتى، وأنَّه الرحمن الرحيم؟ ولهذا قال: {أفلا يؤمنون}؛ أي: إيماناً صحيحاً ما فيه شكٌ ولا شرك.
[30] کیا ان لوگوں نے… جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا اور عبودیت کو اس کے لیے خالص کرنے سے انکار کیا… ان نشانیوں کو نہیں دیکھا جو عیاں طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رب محمود و کریم اور معبود ہے۔ وہ زمین و آسمان کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا پاتے ہیں ، آسمان میں کوئی بادل ہوتا ہے نہ بارش، زمین مردہ اور بنجر دکھائی دیتی ہے، بے آب و گیاہ، پھر ہم دونوں کو جدا کر دیتے ہیں ، آسمان کو پانی کے ذریعے سے اور زمین کو نباتات کے ذریعے سے۔ کیا وہ ہستی جو آسمان پر بادل وجود میں لائی تھی جبکہ آسمان بالکل صاف تھا کہیں بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا، پھر اس نے اس میں بہت سا پانی ودیعت کیا، پھر وہ ہستی اس بادل کو ایک ایسی مردہ زمین پر لے گئی جہاں پانی کی نایابی کی وجہ سے اس کے کناروں تک خاک اڑتی تھی۔ پس اس نے اس مردہ زمین میں بارش برسائی اور وہ لہلہا اٹھی، حرکت کرنے اور بڑھنے لگی اور اس نے مختلف انواع اور متعدد فوائد کی خوشنما نباتات اگائی۔ کیا یہ سب کچھ اس بات کی دلیل نہیں کہ صرف وہی حق ہے اور اس کے سوا سب باطل ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا، وہی رحمن و رحیم ہے؟ اس لیے فرمایا ﴿ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ یعنی کیا وہ صحیح طور پر ایمان نہیں لاتے جس میں کوئی شک ہو نہ شرک۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دلائل آفاقی شمار کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 31 - 33 #
{وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (31) وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ (32) وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (33)}.
اور بنائے ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑتاکہ (نہ) جھک پڑے وہ (کسی ایک طرف) انھیں لے کر اور بنائے ہم نے اس میں کشادہ راستے تاکہ وہ (لوگ) راہ پائیں (31) اور بنایا ہم نے آسمان کو چھت محفوظ اور وہ اس (آسمان) کی نشانیوں سے اعراض کرنے والے ہیں (32) اور وہی ہے (اللہ) جس نے پیدا کیے رات اور دن اور سورج اورچاند، سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے ہیں (33)
#
{31} أي: ومن الأدلَّة على قدرته وكماله ووحدانيَّته ورحمته أنَّه لما كانت الأرضُ لا تستقرُّ إلاَّ بالجبال؛ أرْساها بها، وأوْتَدَها لئلاَّ تميدَ بالعباد؛ أي: لئلاَّ تضطرب؛ فلا يتمكَّن العباد من السكون فيها ولا حرثها ولا الاستقرار بها، فأرساها بالجبال، فحصل بسبب ذلك من المصالح والمنافع ما حصل. ولما كانت الجبالُ المتَّصل بعضها ببعض قد اتَّصلت اتصالاً كثيراً جدًّا؛ فلو بقيت بحالها جبالاً شامخاتٍ وقللاً باذخاتٍ؛ لتعطَّل الاتِّصال بين كثير من البلدان؛ فمن حكمة الله ورحمته أن جعل بين تلك الجبال {فِجاجاً سُبُلاً}؛ أي: طرقاً سهلة لا حَزْنَةً، {لعلَّهم يهتَدون}: إلى الوصول إلى مطالبهم من البلدان، ولعلَّهم يهتدونَ بالاستدلال بذلك على وحدانيَّة المنَّان.
[31] یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے کمال، اس کی وحدانیت اور رحمت پر دلیل ہے کہ جب زمین میں پہاڑوں کے بغیر ٹھہراؤ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے سے اس میں ٹھہراؤ پیدا کیا تاکہ وہ بندوں ساتھ جھک نہ جائے یعنی زمین میں اضطراب پیدا نہ ہو اور بندے سکون اور کھیتی باڑی کرنے سے محروم نہ رہ جائیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ زمین میں ٹھہراؤ نہ رہے… اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے سے زمین کو ٹھہراؤ عطا کیا تب اس سبب سے بندوں کو جو بہت سے مصالح اور منافع حاصل ہوئے،وہ محتاجِ وضاحت نہیں ۔ چونکہ پہاڑ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان میں بہت زیادہ اتصال ہے۔ اگر اسی حالت اتصال میں بڑے بڑے پہاڑ اور بلند چوٹیاں ہوتیں تو بہت سے شہروں کا آپس میں رابطہ نہ رہتا، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور بندوں پر اس کی رحمت ہے کہ اس نے پہاڑوں کے درمیان راستے بنائے، یعنی آسان راستے جن پر چلنا مشکل نہ ہو تاکہ وہ اپنی مطلوبہ منزلوں تک پہنچ سکیں اور شاید وہ اسی طرح احسان کرنے والی اس ہستی کی وحدانیت پر اس سے استدلال کر کے راہِ ہدایت پا لیں ۔
#
{32 ـ 33} {وجَعَلْنا السماء سَقْفاً}: للأرض التي أنتم عليها {محفوظاً}: من السقوط؛ {إنَّ الله يمسِكُ السمواتِ والأرضَ أن تزولا}؛ محفوظاً أيضاً من استراق الشياطين للسمع. {وهُم عن آياتِها معرِضونَ}؛ أي: غافلون لاهون. وهذا عامٌّ في جميع آيات السماء؛ من علوِّها، وسعتها، وعظمتها، ولونها الحسن، وإتقانها العجيب، وغير ذلك من المشاهَدِ، فيها من الكواكب الثوابت والسيَّارات، وشمسها وقمرها النيِّرات، المتولِّد عنهما الليل والنهار، وكونهما دائماً في فلكهما سابحيْن. وكذلك النجوم، فتقوم بسبب ذلك منافعُ العباد من الحرِّ والبرد والفصول، ويعرفون حسابَ عباداتهم ومعاملاتهم، ويستريحون في ليلهم ويهدؤون ويسكنون، وينتشرون في نهارهم ويسعَوْن في معايشهم؛ كل هذه الأمور إذا تدبَّرها اللبيب وأمعن فيها النظر؛ جزم جزماً لا شكَّ فيه أن الله جعلها مؤقَّتة في وقتٍ معلوم إلى أجل محتوم، يقضي العبادُ منها مآرِبَهم، وتقومُ بها منافِعُهم، وليستمتعوا وينتفعوا، ثم بعد هذا ستزول وتضمحلُّ ويفنيها الذي أوجدها ويُسكِّنُها الذي حركها، وينتقل المكلَّفون إلى دارٍ غير هذه الدار؛ يجدون فيها جزاء أعمالهم كاملاً موفراً، ويعلم أنَّ المقصود من هذه الدار أن تكون مزرعةً لدار القرار، وأنَّها منزلُ سفرٍ لا محلُّ إقامة.
[33,32] ﴿ وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا ﴾ یعنی آسمان کو اس زمین کے لیے چھت بنایا جس پر تم رہ رہے ہو ﴿ مَّحْفُوْظًا﴾ یعنی گرنے سے محفوظ۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ﴾ (فاطر:35؍41) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں او زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو شیاطین کے سن گن لینے سے بھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿ وَّهُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ یعنی وہ اس کی آیات سے غافل اور لہوولعب میں مبتلا ہیں ۔ یہ آسمان کی تمام نشانیوں کے لیے عام ہے، مثلاً:اس کی بلندی، کشادگی، عظمت، اس کے حسین رنگ، حیرت انگیز مہارت سے اس کی مضبوطی وغیرہ، نیز اس میں بہت سی دیگر نشانیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً:ستارے، سیارے، روشن سورج اور چاند جو رات اور دن کے وجود کا باعث بنتے ہیں اور ہمیشہ سے اپنے افلاک میں تیر رہے ہیں ۔ اسی طرح ستارے اپنے اپنے فلک میں رواں دواں ہیں ۔ پس اس سبب سے بندوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں ، مثلاً:گرمی سردی کا پیدا ہونا، موسموں کا تغیر و تبدل، جس سے بندے اپنی عبادات اور دیگر معاملات کا حساب رکھتے ہیں ، رات کے وقت راحت اور سکون پاتے ہیں اور دن کے وقت اپنی معاش کے حصول کے لیے زمین میں پھیل جاتے ہیں ۔ ان تمام امور کی تدبیر ایک دانا و بینا ہستی کر رہی ہے اور وہ نہایت توجہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک وقت مقرر اور حتمی مدت تک کے لیے بنایا ہے تاکہ اس دوران میں اپنے مصالح و منافع حاصل کر لیں اور فائدہ اٹھا لیں ۔ اس کے بعد یہ سب کچھ زائل ہو کر مضمحل ہو جائے گا اور وہ ہستی اسے فنا کے گھاٹ اتار دے گی جو اسے وجود میں لائی ہے، وہ ہستی اس کون و مکاں کو ساکن کر دے گی جس نے اس کو متحرک کیا ہے۔ مکلفین اس گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جائیں گے جہاں انھیں ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دنیا آخرت کے دائمی گھر کے لیے کھیتی ہے، یہ سفر کی ایک منزل ہے، مستقل قیام کی جگہ نہیں ہے۔
آیت: 34 - 35 #
{وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (34) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (35)}.
اور نہیں کیا ہم نے کسی بشر کے لیے آپ سے پہلے ہمیشہ رہنا، کیا پس اگر آپ مر جائیں تو (کیا) وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ (34) ہر نفس چکھنے والا ہے (تلخی) موت کی اور ہم آزماتے ہیں تمھیں ساتھ برائی اور اچھائی کے خوب آزمانا اور ہماری طرف ہی تر لوٹائے جاؤ گے (35)
#
{34} لما كان أعداء الرسول يقولون: {تربَّصوا به ريْبَ المنونِ}؛ قال الله تعالى: هذا طريقٌ مسلوكٌ ومعبدٌ منهوكٌ؛ فلم نجعل لبشر من قبلك يا محمد الخلدَ في الدُّنيا؛ فإذا متَّ؛ فسبيل أمثالك من الرسل والأنبياء والأولياء [وغيرهم]. {أفإن متَّ فهم الخالدون}؛ أي: فهل إذا متَّ؛ خلدوا بعدك، فليهنهم الخلود إذاً إن كان، وليس الأمر كذلك، بل كلُّ من عليها فان.
[34] رسول اللہe کے دشمن کہا کرتے تھے تم اس(e) کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موت کا راستہ ایک ایسی گزرگاہ ہے جس پر سب رواں دواں ہیں ۔ ﴿ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ﴾ ’’اے محمد! (e) ہم نے آپ سے پہلے بھی دنیا میں کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی۔‘‘ اگر آپe موت سے ہم آغوش ہوں گے تو آپe کی طرح دیگر رسول، انبیاء اور اولیاء بھی اسی راستے پر گامزن رہے ہیں جس کی منزل موت ہے۔ ﴿ اَفَاۡىِٕنْ مِّؔتَّ فَهُمُ الْخٰؔلِدُوْنَ﴾ یعنی اگر آپe وفات پا جائیں گے تو کیا آپe کے بعد یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے تاکہ وہ اس دائمی زندگی سے لطف اندوز ہوں ؟ معاملہ اس طرح نہیں (جس طرح انھوں نے سمجھ رکھا ہے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی زمین پر ہے اس کی منزل فنا ہے۔
#
{35} ولهذا قال: {كلُّ نفس ذائقةُ الموتِ}: وهذا يشملُ سائر نفوس الخلائق، وأنَّ هذا كأسٌ لا بدَّ من شربِهِ وإن طال بالعبدِ المدى وعُمِّر سنين، ولكن الله تعالى أوجد عبادَهُ في الدُّنيا، وأمرهم ونهاهم، وابتلاهم بالخير والشرِّ وبالغنى والفقر والعزِّ والذُّل والحياة والموت؛ فتنةً منه تعالى؛ {ليبلوَهُم أيُّهم أحسنُ عملاً}، ومَنْ يفتتن عند مواقع الفتن ومن ينجو، ثمَّ {إلينا تُرْجَعون}: فنجازيكم بأعمالكم؛ إن خيراً فخير، وإن شرًّا؛ فشر، وما ربُّك بظلاَّم للعبيد. وهذه الآية تدلُّ على بطلان قول مَنْ يقول ببقاء الخَضِر، وأنَّه مخلَّد في الدُّنيا؛ فهو قولٌ لا دليل عليه، ومناقض للأدلَّة الشرعيَّة.
[35] اس لیے فرمایا: ﴿كُ٘لُّ نَ٘فْ٘سٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ ﴾ ’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ تمام خلائق کے نفوس کو شامل ہے۔ بندے کو خواہ کتنی ہی لمبی مہلت اور کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ دے دی جائے، آخر موت کا پیالہ اسے پینا ہی پڑے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کو وجود بخشا، ان کو اوامر و نواہی عطا كيے ان کو خیروشر، غناوفقر، عزت و ذلت اور موت و حیات کے ذریعے سے آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ فتنے کے مواقع پر کون فتنے میں مبتلا ہوتا ہے اور کون فتنے سے نجات پاتا ہے۔ فرمایا: ﴿ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ پھر ہم تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دیں گے، اگر اچھے اعمال ہیں تو جزا اچھی ہو گی، اگر برے اعمال ہیں تو جزا بھی بری ہو گی۔ ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ (حم السجدۃ:41؍46) ’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو حضرت خضر u کی بقاء کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت خضر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ، نیز یہ دلائل شرعیہ کے بھی منافی ہے۔
آیت: 36 - 41 #
{وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ (36) خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ (37) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (38) لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (39) بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (40) وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (41)}.
اور جب دیکھتے ہیں آپ کو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تو نہیں بناتے آپ کو مگر مذاق ہی (کہتے ہیں ) کیا یہی ہے وہ جو ذکر کرتا ہے تمھارے معبودوں کا؟ جبکہ وہ تو ذکرِ رحمن ہی سے آپ (خود) منکر ہیں (36) پیدا کیا گیا ہے انسان جلد بازی (کے خمیر) سے، عنقریب دکھاؤں گا میں تمھیں اپنی نشانیاں ، پس نہ جلدی طلب کرو تم مجھ سے (37) او ر وہ لوگ کہتے ہیں ، کب (پورا) ہو گا یہ وعدہ، اگر ہو تم سچے؟ (38) اگر جان لیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا (اس وقت کو) کہ جس وقت نہیں ہٹا سکیں گے وہ اپنے مونہوں سے آگ کواور نہ اپنی پیٹھوں سےاور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے (39)بلکہ وہ (قیامت) آئے گی ان کے پاس اچانک ہی، پس وہ بدحواس کر دے گی انھیں ، پھر وہ نہ استطاعت رکھیں گے اسے ٹالنے کی اور نہ وہ مہلت ہی دیے جائیں گے(40) اور البتہ تحقیق ٹھٹھا کیا گیا کئی رسولوں کے ساتھ آپ سے پہلے، پس گھیر لیا ان لوگوں کو جو ٹھٹھا کرتے تھے ان میں سے، اس (عذاب) نے کہ تھے وہ ساتھ اس کے ٹھٹھا کرتے (41)
#
{36} وهذا من شدَّة كفرِهِم؛ فإنَّ المشركين إذا رأوا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ استهزؤوا به وقالوا: {أهذا الذي يَذْكُرُ آلهتَكم}؛ أي: هذا المحتقر بزعمهم، الذي يسبُّ آلهتكم ويذمُّها ويقع فيها؛ أي: فلا تُبالوا به، ولا تحتفلوا به. هذا استهزاؤُهم واحتقارُهم له بما هو من كماله؛ فإنَّه الأكمل الأفضل، الذي من فضائله ومكارمه إخلاصُ العبادة لله، وذمُّ كلِّ ما يُعْبَدُ من دونه وتنقُّصه، وذِكْرُ محلِّه ومكانته، ولكنَّ محلَّ الازدراء والاستهزاء هؤلاء الكفار الذين جَمَعوا كلَّ خُلُقٍ ذميم، ولو لم يكنْ إلاَّ كفرهم بالربِّ وجحدهم لرسلِهِ، فصاروا بذلك من أخس الخلق وأرذلهم، ومع هذا؛ فذِكْرُهم للرحمن الذي هو أعلى حالاتهم كافرون به؛ لأنَّه لا يذكرونه ولا يؤمنون به إلاَّ وهم مشركون؛ فذِكْرُهم كفرٌ وشركٌ؛ فكيف بأحوالهم بعد ذلك؟! ولهذا قال: {وهم بذِكْرِ الرحمن هم كافرونَ}. وفي ذكر اسمه الرحمن هنا بيانٌ لقباحة حالهم، وأنَّهم كيف قابلوا الرحمن ـ مُسْدي النِّعم كلِّها، ودافع النِّقَم، الذي ما بالعبادِ من نعمةٍ إلاَّ منه، ولا يدفع السُّوء إلاَّ هو ـ بالكفر والشرك.
[36] یہ ان کے کفر کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب رسول اللہe کو دیکھتے تو آپe کا تمسخر اڑاتے اور کہتے: ﴿ اَهٰؔذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ﴾ یعنی ان کے زعم کے مطابق یہی ہے جو تمھارے معبودں کی تحقیر کرتا ہے، ان کو سب و شتم اور ان کی مذمت کرتا ہے اور ان کی برائیاں بیان کرتا ہے اس کی پروا کرو نہ اس کی طرف دھیان دو… یہ سب کچھ رسول اللہe کے ساتھ ان کا استہزاء اور آپe کی تحقیر ہے جو آپe کی صفات کمال شمار ہوتی ہیں ۔ آپe وہ اکمل و افضل ہستی ہیں جس کے فضائل و مکارم میں اخلاص للہ، غیر اللہ کی عبادت کی مذمت اور عبادت کے اصل مقام و مرتبہ کا ذکر شامل ہے۔ ذلت و استہزاء تو ان کفار کے لیے ہے جن میں ہر قسم کے مذموم اخلاق جمع ہیں ۔ اگر ان میں صرف یہی عیب ہوتا کہ انھوں نے رب کریم کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کا انکار کیا تو اس کی وجہ سے ہی وہ مخلوق میں سب سے زیادہ گھٹیا اور رذیل ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا رحمن کا ذکر کرنا، جو ان کا بلند ترین حال ہے، اس کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں یا اس پر ایمان لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں ، اس لیے جب ان کا ذکر کفر اور شرک ہے تو اس کے بعد ان کے دیگر احوال کیسے ہوں گے؟ اس لیے فرمایا: ﴿ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ رحمن کے ذکر کے منکر ہیں ۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (الرحمن) کا ذکر کرنے میں ان کے حال کی قباحت کا بیان ہے، نیز یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رحمن کا کیسے کفر اور شرک کے ساتھ سامنا کرتے ہیں ، حالانکہ وہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا اور مصائب کو دور کرنے والا ہے، بندوں کے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ اسی کی طرف سے ہیں اور تمام تکلیف کو صرف وہی رفع کرتا ہے۔
#
{37} {خُلِقَ الإنسانُ من عَجَل}؛ أي: خُلِق عجولاً، يبادِرُ الأشياء، ويستعجِلُ بوقوعها؛ فالمؤمنون يستعجِلون عقوبة الله للكافرين ويتباطؤونها، والكافرون يتولَّون ويستعجلون بالعذاب تكذيباً وعناداً ويقولون: {متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}، والله تعالى يُمْهِلُ ولا يُهْمِلُ، ويحلَم ويجعلُ لهم أجلاً مؤقَّتاً، {إذا جاء أجَلُهُم لا يستأخِرونَ ساعةً ولا يستقدِمونَ}. ولهذا قال: {سأريكم آياتي}؛ أي: في انتقامي ممَّن كَفَر بي وعصاني، {فلا تستعجلون}: ذلك.
[37] ﴿ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ یعنی انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے، وہ تمام امور میں عجلت پسند ہے اور ان کے وقوع میں جلدی مچاتا ہے۔ اہل ایمان کفار کے لیے عذاب میں جلدی چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کفار پر عذاب بھیجنے میں دیر کر دی گئی ہے۔ کفار تکذیب و عناد کے ساتھ روگردانی کرتے اور نزول عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں اور کہتے ہیں : ﴿ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’کب ہے یہ (عذاب کا) وعدہ، اگر تم سچے ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نہایت حلم کے ساتھ ان کو مہلت دیتا ہے ان کو مہمل نہیں چھوڑتا اور ان کے لیے ایک وقت مقرر کر دیتا ہے۔ ﴿ فَاِذَا جَآءَؔ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۠ ﴾ (الاعراف:7؍34) ’’جب ان کا وقت مقرر آن پہنچتا ہے تو ان کے لیے ایک گھڑی بھر کی تاخیر ہوتی ہے نہ تقدیم۔‘‘ اور اسی لیے فرمایا: ﴿ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ ﴾ یعنی جس نے میرے ساتھ کفر کیا اور میری نافرمانی کی میں انھیں اپنے انتقام کا مزا چکھانے میں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا ﴿ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ ﴾ اس لیے اس کی بابت جلدی نہ مچاؤ۔
#
{38} وكذلك الذين كفروا يقولون: {متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}: قالوا هذا القول اغتراراً ولما يحقَّ عليهم العقاب وينزلْ بهم العذاب.
[38] اسی طرح جو کفار کہتے تھے کہ ﴿۠ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ وہ فریب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ بات کہتے تھے کیونکہ ابھی ان کے لیے سزا مقرر نہیں ہوئی تھی اور ان پر عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔
#
{39} فلو {يعلم الذين كفروا} حالَهم الشنيعة {حين لا يكفُّون عن وجوههم النار ولا عن ظهورهم}؛ إذ قد أحاطَ بهم من كلِّ جانب، وغَشِيَهم من كلِّ مكان، {ولا هم يُنصَرون}؛ أي: لا ينصرهم غيرُهم؛ فلا نُصِروا، ولا انتصروا.
[39] ﴿ لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’کا ش جان لیں کافر‘‘ یعنی اپنی بری حالت کو ﴿ حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ ﴾ ’’کہ جب نہیں روک سکیں گے وہ عذاب کو اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پشتوں سے۔‘‘ جب عذاب انھیں ہر جانب سے گھیر لے گا اور ہر طرف سے ان پر چھا جائے گا ﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی کوئی ان کی مدد کر سکے گا نہ وہ خود کسی کی مدد کر سکیں گے اور نہ کسی سے مدد حاصل کر سکیں گے۔
#
{40} {بل تأتيهم} النار {بغتةً}: فتبهتُهم من الانزعاج والذعر والخوف العظيم. {فلا يستطيعون ردَّها}: إذ هم أذلُّ وأضعف من ذلك. {ولا هم يُنظَرون}؛ أي: يُمْهَلون فيؤخَّر عنهم العذاب؛ فلو علموا هذه الحالة حقَّ المعرفة؛ لما استعجلوا بالعذاب، ولخافوه أشدَّ الخوف، ولكن لما ترحَّلَ عنهم هذا العلم؛ قالوا ما قالوا.
[40] ﴿ بَلْ تَاْتِیْهِمْ ﴾ ’’بلکہ آ جائے گی ان کے پاس۔‘‘ یعنی آگ ﴿ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ ﴾ ’’اچانک، پس وہ ان کو مبہوت کر دے گی۔‘‘ یعنی ناگہاں ان پر ٹوٹ پڑے گی، گھبراہٹ، دہشت اور عظیم خوف انھیں ہکا بکا کر دیں گے۔ ﴿ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ رَدَّهَا ﴾ ’’پس وہ اس کو لوٹانے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔‘‘ کیوں کہ وہ ایسا کرنے سے عاجز اور بہت کمزور ہوں گے۔ ﴿ وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ﴾ یعنی ان کو مہلت دے کر ان پر سے عذاب موخر نہیں کیا جائے گا۔ اگر انھیں اپنی اس حالت اور انجام کا علم ہوتا تو کبھی عذاب کے لیے جلدی نہ مچاتے بلکہ عذاب سے بہت زیادہ ڈرتے۔ مگر جب یہ علم ان کے پاس نہ رہا تو انھوں نے اس قسم کی باتیں کیں۔
#
{41} ولما ذَكَرَ استهزاءَهم برسوله بقولهم: {أهذا الذي يَذْكُرُ آلهتكم}؛ سلاَّه بأن هذا دأب الأمم السالفة مع رسلهم، فقال: {ولقد استُهزئ برسل من قبلِكَ فحاق بالذين سَخِروا منهم}؛ أي: نزل بهم، {ما كانوا به يستهزِئون}؛ أي: نزل بهم العذاب وتقطَّعت عنهم الأسباب؛ فليحذرْ هؤلاء أنْ يصيبَهم ما أصاب أولئك المكذِّبين.
[41] اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کے ساتھ کفار کے تمسخر کا ذکر فرمایا ﴿اَهٰؔذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ﴾ تو اللہ تعالیٰ نے آپe کو تسلی دی کہ گزشتہ قوموں کا بھی اپنے رسولوں کے ساتھ یہی رویہ تھا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠﴾ ’’اور آپ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا۔ پس گھیر لیا ان لوگوں کو جنھوں نے ان میں سے استہزاء کیا تھا اس چیز نے جس کے ساتھ وہ استہزاء کرتے تھے۔‘‘ یعنی ان پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑا اور ان کے تمام اسباب منقطع ہو گئے، اس لیے ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر بھی وہ عذاب نازل نہ ہو جائے جو گزشتہ امتوں پر نازل ہوا تھا جنھوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی۔
آیت: 42 - 44 #
{قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُعْرِضُونَ (42) أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ (43) بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ (44)}.
کہہ دیجیے! کون نگہبانی کرتا ہے تمھاری رات اوردن میں ، رحمن (کے عذاب) سے؟بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں (42) کیا ان کے لیے (اور) معبود ہیں جو بچاتے ہوں ان کو، ہمارے سوا؟ نہیں استطاعت رکھتے وہ مدد کرنے کی اپنی ہی جانوں کی اورنہ وہ ہم (ہمارے عذاب) ہی سے محفوظ ہیں (43)بلکہ فائدہ دیا ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو، یہاں تک کہ طویل ہو گئیں ان کی عمریں ، کیا پس نہیں دیکھتے وہ کہ بے شک ہم آتے زمین کو، کم کرتے ہیں ہم اس کو اس کے کناروں سے؟ کیا پس وہ غالب ہیں ؟ (44)
#
{42} يقول تعالى ذاكراً عَجْزَ هؤلاء الذين اتَّخذوا من دونِهِ آلهةً، وأنَّهم محتاجون مضطرُّون إلى ربِّهم الرحمن، الذي رحمته شملَتِ البرَّ والفاجر في ليلهم ونهارهم، فقال: {قل من يَكْلَؤُكُم}؛ أي: يحرسكم ويحفظكم {بالليل}: إذا كنتم نائمين على فُرُشِكم وذهبت حواسُّكم، وبالنّهار وقت انتشاركم وغفلتكم {من الرحمن}؛ أي: بدله غيره؛ أي: هل يحفظُكم أحدٌ غيره؟ لا حافظ إلاَّ هو. {بل هم عن ذِكْرِ ربِّهم معرِضونَ}: فلهذا أشركوا به، وإلاَّ؛ فلو أقبلوا على [ذكر] ربِّهم، وتلقَّوا نصائحه؛ لَهُدوا لِرُشْدِهِم، ووفِّقوا في أمرهم.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے جنھوں نے اللہ کے بغیر دوسرے معبود بنا لیے… کہ وہ اپنے رب رحمان کے محتاج ہیں جس کی بے پایاں رحمت شب و روز ہر نیک اور بد پر سایہ کناں ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ ﴾ یعنی کون تمھاری حفاظت کرتا ہے ﴿ بِالَّیْلِ ﴾ ’’رات کو۔‘‘ یعنی جب تم اپنے بستروں میں سو رہے اور اپنے حواس سے محروم ہوتے ہو ﴿ وَالنَّهَارِ ﴾ ’’اور دن کو۔‘‘ یعنی تمھارے زمین میں پھیل جانے اور تمھاری غفلت کے وقت ﴿ مِنَ الرَّحْمٰنِ ﴾ ’’رحمن کے مقابلے میں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کون تمھاری حفاظت کرتا ہے اس کے بغیر کوئی ہے جو تمھاری حفاظت کرتا ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمھاری حفاظت کرنے والا نہیں ۔ ﴿ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ ’’بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں ۔‘‘ اسی لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا۔ اگر انھوں نے اپنے رب کی طرف توجہ کی ہوتی، اس کی نصیحتوں کو قبول کیا ہوتا تو یقینا انھیں رشد و ہدایت عطا کر دی جاتی اور ان کے معاملے میں انھیں توفیق سے نواز دیا جاتا۔
#
{43} {أم لهم آلهةٌ تمنَعُهم من دوننا}؛ أي: إذا أردناهم بسوءٍ؛ هل من آلهتهم من يقدِرُ على منعهم من ذلك السوء والشرِّ النازل بهم؟ {لا يستطيعونَ نصرَ أنفسِهِم ولا هم منا يُصْحَبون}؛ أي: لا يُعانون على أمورهم من جهتنا، وإذا لم يُعانوا من الله؛ فهم مَخْذولون في أمورهم، لا يستطيعون جَلْبَ منفعةٍ ولا دفع مَضَرَّةٍ.
[43] ﴿ اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا ﴾ یعنی جب ہم ان کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا ان کے خود ساختہ معبود ان کو اس برائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے شر سے بچانے کی قدرت رکھتے ہیں ؟ ﴿لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِّؔنَّا یُصْحَبُوْنَ ﴾ ’’نہیں طاقت رکھتے وہ خود اپنی مدد کرنے کی اور نہ وہ ہماری طرف سے رفاقت دیے جاتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہماری طرف سے ان کے معاملات میں ان کی مدد نہیں کی جاتی۔ جب ان کی مدد نہ کی جائے تو گویا ان کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محروم کر کے ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور یوں وہ کوئی فائدہ اٹھانے اور ضرر دور کرنے پر قادر نہیں ہوتے۔
#
{44} والذي أوجب لهم استمرارهم على كفرهم وشركهم قوله: {بل مَتَّعْنا هؤلاء وآباءَهم حتى طالَ عليهم العُمُرُ}؛ أي: أمددناهم بالأموال والبنين، وأطلنا أعمارهم، فاشتغلوا بالتمتُّع بها، ولهوا بها عما له خُلقوا، وطال عليهم الأمد، فقست قلوبُهم، وعظُم طغيانُهم، وتغلَّظ كفرانهم؛ فلو لفتوا أنظارهم إلى مَنْ عن يمينهم وعن يسارهم من الأرض؛ لم يَجِدوا إلاَّ هالكاً، ولم يسمعوا إلاَّ صوتَ ناعيةٍ، ولم يحسُّوا إلا بقرونٍ متتابعة على الهلاك، وقد نَصَبَ الموتُ في كلِّ طريق ـ لاقتناص النفوس ـ الأشْراكَ، ولهذا قال: {أفلا يَرَوْنَ أنَّا نأتي الأرض نَنقُصُها من أطرافِها}؛ أي: بموت أهلها وفنائهم شيئاً فشيئاً حتى يَرِثَ الله الأرض ومَنْ عليها وهو خيرُ الوارثين؛ فلو رأوا هذه الحالة؛ لم يغترُّوا ويستمرُّوا على ما هم عليه. {أفهم الغالبونَ}: الذين بوسِعِهم الخروج عن قَدَرِ الله، وبطاقَتِهِم الامتناع من الموت؛ فهل هذا وصفهم حتى يغترُّوا بطول البقاء؟ أم إذا جاءهم رسولُ ربِّهم، لِقَبْضِ أرواحهم، أذعنوا وذلُّوا ولم يظهرْ منهم أدنى ممانعةٍ؟
[44] جو چیز ان کے اپنے کفر و شرک پر جمے رہنے کی باعث بنی اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَاٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَیْهِمُ الْ٘عُمُرُ ﴾ ہم نے مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کی مدد کی، ان کو لمبی عمریں عطا کیں تو وہ ان مقاصد کو چھوڑ کر جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا تھا، لہو و لعب کی بنا پر، مال اور اولاد سے متمتع ہونے میں مشغول ہو گئے اور ان کی مدت مہلت طویل ہو گئی، جس سے ان کے دل سخت ہو گئے، ان کی سرکشی بڑھ گئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہو گیا۔ اگر وہ اس زمین پر دائیں بائیں مڑ کر اپنے جیسے لوگوں کا انجام دیکھتے تو ہلاک ہونے والوں کے سوا کچھ نہ پاتے اور موت کی خبر دینے والے کی آواز کے سوا کوئی آواز نہ سنتے۔ انھیں معلوم ہوتا کہ کئی قومیں پے در پے ہلاک ہو گئیں اور موت نے نفوس کو پھانسنے کے لیے ہر راستے پر پھندہ لگا رکھا ہے۔ بناء بریں فرمایا: ﴿اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا﴾ یعنی ہم زمین کو اہل زمین کی موت اور ان کو فنا کرنے کے ذریعے آہستہ آہستہ کم کررہے ہیں یہاں تک کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی زمین اور زمین کے رہنے والوں کا وارث ہو گا اور وہ بہترین وارث ہے اگر وہ اپنی اس حالت کو دیکھیں تو کبھی فریب میں مبتلا نہ ہوں اور کبھی اپنے کفر و شرک کے موجودہ رویے پر جمے نہ رہیں ۔ ﴿ اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ﴾ ’’کیا پس وہ غالب ہیں ۔‘‘ جو اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کو روک سکتے ہوں اور اپنی طاقت سے موت سے بچ سکتے ہوں ؟ کیا یہ ان کا وصف ہے کہ جس کی بنا پر وہ طول بقاء کے فریب میں مبتلا ہیں ؟ یا ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کی ارواح کو قبض کرنے کے لیے ان کے رب کا فرشتہ ان کے پاس آئے گا تو اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے اور ادنیٰ سی مزاحمت پر بھی قادر نہ ہوں گے۔
آیت: 45 - 46 #
{قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنْذَرُونَ (45) وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَاوَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (46)}.
کہہ دیجیے! یقینا ڈراتا ہوں میں تمھیں وحی کے ذریعے سےاور نہیں سنتے بہرے پکار کو جب وہ ڈرائے جائیں (45)اور البتہ اگر چھو جائے انھیں ایک (ہلکا سا) جھونکا آپ کے رب کے عذاب کا تو البتہ ضرور کہیں گے وہ، ہائے ہماری کم بختی! بلاشبہ ہم ہی تھے ظالم (46)
#
{45} أي: {قلْ}: يا محمدُ للناس كلِّهم: {إنَّما أنذِرُكم بالوَحْي}؛ أي: إنما أنا رسولٌ، لا آتيكم بشيء من عندي، ولا عندي خزائنُ الله، ولا أعلم الغيبَ، ولا أقولُ إنِّي مَلَكٌ، وإنما أنذركم بما أوحاه الله لي؛ فإنِ استجَبْتُم فقد استجبتم لله، وسَيُثيبكم على ذلك، وإن أعرضتُم وعارضتم؛ فليس بيدي من الأمر شيء، وإنَّما الأمر لله، والتقدير كلُّه لله. {ولا يسمعُ الصمُّ الدُّعاء}؛ أي: الأصم لا يسمع صوتاً؛ لأنَّ سمعه قد فَسَدَ وتعطَّل، وشرط السماع مع الصوت أن يوجَدَ محلٌّ قابلٌ لذلك. كذلك الوحي سببٌ لحياة القلوب والأرواح وللفقهِ عن الله، ولكنْ إذا كان القلبُ غير قابل لسماع الهُدى؛ كان بالنسبة للهدى والإيمان بمنزلةِ الأصمِّ بالنسبة إلى الأصوات؛ فهؤلاء المشركون صمٌّ عن الهدى؛ فلا يُسْتَغْرَبُ عدم اهتدائهم، خصوصاً في هذه الحالة التي لم يأتِهِمُ العذابُ، ولا مسَّهم ألمه.
[45] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے محمد! (e) تمام لوگوں سے کہہ دیجیے ﴿ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُؔكُمْ بِالْوَحْیِ﴾ یعنی میں تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو کچھ تمھارے پاس لایا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں لایا نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ، نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف اس چیز کے ذریعے سے تمھیں ڈراتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے۔ اگر تم نے میری دعوت پر لبیک کہی تو یہ اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک ہے وہ تمھیں اس پر ثواب عطا کرے گا اور اگر تم روگردانی کر کے اس کی مخالفت کروگے تو میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ۔ اختیار تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور تقدیر صرف اسی کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَلَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ ﴾ یعنی بہرہ کسی قسم کی آواز نہیں سن سکتا کیونکہ اس کی سماعت خراب ہو چکی ہے جس طرح آواز کا سننا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آواز کو قبول کرنے والا مقام و محل موجود ہو۔ اسی طرح وحی قلب و روح کے لیے زندگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کا سبب ہے لیکن اگر قلب ہدایت کی آواز کو قبول نہیں کرتا تو وہ ہدایت اور ایمان کی نسبت سے اس بہرے کی مانند ہے جو آوازوں کو نہیں سن سکتا۔ یہ مشرکین بھی ہدایت اور ایمان کی آواز سننے سے بہرے ہیں اس لیے ان کا ہدایت کو قبول نہ کرنا کوئی تعجب انگیز بات نہیں خاص طور پر اس حالت میں کہ ابھی تک ان کو عذاب اور اس کی تکلیف نے چھویا نہیں ۔
#
{46} فلو مسَّهم {نفحةٌ من عذاب ربِّك}؛ أي: ولو جزءٌ يسيرٌ ولا يسير من عذابِهِ؛ {لَيقولُنَّ يا ويْلَنا إنا كنَّا ظالمينَ}؛ أي: لم يكن قولهم إلاَّ الدُّعاءَ بالويل والثُّبور والندم والاعتراف بظُلْمِهِم وكفرِهم واستحقاقِهِم العذاب.
[46] ﴿ وَلَىِٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ﴾ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک معمولی سا حصہ ان کو چھو لے ﴿ لَیَقُوْلُ٘نَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ ﴾ ’’تو پکار اٹھیں گے ہائے ہماری کم بختی! ہم تو ظالم تھے۔‘‘ یعنی وہ اپنی ہلاکت اور موت ہی کو پکاریں گے اور ان کی پکار اپنی ندامت کا اظہار اور اپنے ظلم، کفر اور استحقاق عذاب ہی کا اعتراف ہو گی۔
آیت: 47 #
{وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (47)}.
اور ہم رکھیں گے ترازوئیں انصاف کی دن قیامت کے، پس نہ ظلم کیا جائے گا کسی نفس پر کچھ بھی اور اگر ہوگا (عمل) برابر دانے ایک رائی کے بھی تو لے آئیں گے ہم اسے اور کافی ہیں ہم حساب کرنے والے (47)
#
{47} يخبر تعالى عن حكمِهِ العدل وقضائِهِ القِسْط بين عباده إذا جمعهم يوم القيامة، وأنَّه يضع لهم الموازينَ العادلةَ التي يَبينُ فيها مثاقيلُ الذَّرِّ الذي توزن به الحسنات والسيئات؛ {فلا تُظْلَمُ نفسٌ}: مسلمةٌ ولا كافرةٌ {شيئاً}: بأن تُنْقَصَ من حسناتها أو يُزادَ في سيئاتها، وإنْ كانَ مثقال ذرة من خردلٍ التي هي أصغر الأشياء وأحقرها من خيرٍ أو شرٍّ أتينا بها وأحضرناها، ليجازى بها صاحبها؛ كقوله: {فمن يَعملَ مثقالَ ذرةٍ خيراً يَرَه. ومن يَعمل مثقَالَ ذَرَّةٍ شرًّا يَرَه}، {وقالوا يا وَيْلَتَنا ما لهذا الكتابِ لا يُغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحْصاها ووَجَدوا ما عَمِلوا حاضراً}. {وكفى بنا حاسِبينَ}؛ يعني بذلك نفسَه الكريمةَ؛ فكفى بها حاسباً؛ أي: عالماً بأعمال العباد، حافظاً لها، مثبتاً لها في الكتاب، عالماً بمقاديرها ومقادير ثوابها وعقابها واستحقاقها، موصلاً للعمال جزاءها.
[47] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے عدل پر مبنی حکم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، قیامت کے روز جب وہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ نہایت عدل کے ساتھ وزن کرنے والی ترازوئیں قائم کر دی جائیں گی جن پر ذرہ بھر وزن بھی واضح ہو جائے گا۔ یہ ترازوئیں نیکیوں اور برائیوں کا وزن کریں گی۔ ﴿ فَلَا تُظْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ ’’پس کسی نفس پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ﴿ شَیْـًٔؔا﴾ ’’کچھ بھی۔‘‘ یعنی کسی شخص کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی نہ کسی شخص کی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ ﴿ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ﴾ ’’اور اگر ہو گا (عمل) رائی کے دانے کے برابر۔‘‘ جو کہ سب سے چھوٹی اور حقیر سی چیز ہے یعنی رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی یا بدی ہو گی ﴿ اَتَیْنَا بِهَا﴾ ہم اسے سامنے حاضر کر دیں گے تاکہ اس پر اس کے مرتکب کو جزا دی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ۰۰وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ ﴾ (الزلزال:99؍7 ،8) ’’جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے اور جس نے ذرہ بھر برائی کا ارتکاب کیا ہو گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ (الکہف:18؍49) ’’وہ کہیں گے کہ ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس میں لکھنے سے رہ گیا ہو اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے۔‘‘ ﴿ وَكَ٘فٰى بِنَا حٰؔسِبِیْنَ﴾ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد خود اپنا نفس کریمہ ہے اور وہ حساب لینے کے لیے کافی ہے، یعنی اللہ اپنے بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، ان اعمال کو کتا ب میں درج کر کے ان کی حفاظت کرتا ہے، وہ ان اعمال کی مقدار کے مطابق ثواب اور ان کے استحقاق کا بھی علم رکھتا ہے اور وہ عمل کرنے والوں کو ان کی جزا عطا کرے گا۔
آیت: 48 - 50 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ (48) الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ (49) وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (50)}.
اور البتہ تحقیق دی تھی ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی (کتاب) اور روشنی اور ذکر (نصیحت) پرہیز گاروں کے لیے (48) وہ لوگ جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھےاور وہ قیامت سے بھی ڈرنے والے ہیں (49) اور یہ (قرآن) ذکر ہے، برکت والا ہے، ہم نے نازل کیا ہے اسے، کیا پس تم اس کے منکر ہو؟ (50)
#
{48} كثيراً ما يَجْمَعُ تعالى بين هذين الكتابين الجليلين اللَّذين لم يَطْرُق العالم أفضلُ منهما ولا أعظمُ ذكراً ولا أبركُ ولا أعظمُ هدىً وبياناً، وهما التوراة والقرآن، فأخبر أنَّه آتى موسى أصلاً وهارون تَبَعاً الفرقان، وهو التوراة الفارقة بين الحقِّ والباطل والهدى والضَّلال، وأنها {ضياء}؛ أي: نورٌ يهتدي به المهتدون، ويأتمُّ به السالكون، وتُعْرَفُ به الأحكام، ويميَّز به بين الحلال والحرام، وينير في ظُلمة الجهل والبدع والغواية وذكراً للمتَّقين؛ يتذكَّرون به ما ينفعهم وما يضرُّهم، ويتذكَّر به الخيرَ والشرَّ، وخصَّ المتَّقين بالذِّكر، لأنَّهم المنتفعون بذلك علماً وعملاً.
[48] اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت کثرت سے ان دو جلیل القدر کتابوں کا اکٹھا ذکر کیا ہے ان دونوں سے افضل، ذکر میں ان سے بڑی، ان سے زیادہ بابرکت اور ہدایت و بیان کے لیے زیادہ عظیم کوئی اور کتاب دنیا میں نازل نہیں ہوئی اور وہ ہیں تورات اور قرآن کریم، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰu کو اصلاً اور حضرت ہارونu کو تبعاً تورات عطا فرمائی ﴿ الْ٘فُرْقَانَ ﴾ جو حق اور باطل کے درمیان اور ہدایت اور گمراہی کے درمیان فرق کرتی ہے ﴿وَضِیَآءً ﴾ نور ہے جس سے راہنمائی کے خواہشمند راہنمائی حاصل کرتے ہیں ، اہل سلوک اس کو اپنا امام بناتے ہیں ، اس سے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے حلال و حرام کی پہچان حاصل ہوتی ہے، وہ جہالت، گمراہی اور بدعات کی تاریکیوں میں روشنی عطا کرتی ہے۔ ﴿ وَّذِكْرًا لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ۠﴾ ’’اور نصیحت ہے متقین کے لیے۔‘‘ یعنی اہل تقویٰ کے ذریعے سے نصیحت پکڑتے ہیں کہ کون سے امور ان کو فائدہ دیتے ہیں اور کون سے امور ان کے لیے نقصان دہ ہیں اور اس کے ذریعے سے خیروشر کی معرفت حاصل کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو ’’ذکر‘‘ کے ساتھ اس لیے مختص کیا ہے کیونکہ صرف وہی اس سے علم و عمل میں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
#
{49} ثم فسَّر المتقين فقال: {الذين يَخْشَوْنَ ربَّهم بالغيب}؛ أي: يخشونه في حال غيبتهم وعدم مشاهدةِ الناس لهم؛ فمع المشاهدة أولى، فيتورَّعون عمَّا حَرَّم، ويقومون بما ألزم. {وهم من الساعةِ مشفِقونَ}؛ أي: خائفون وَجِلون؛ لكمال معرفتهم بربِّهم، فجمعوا بين الإحسان والخوف، والعطف هنا من باب عطف الصفات المتغايراتِ الواردة على شيءٍ واحدٍ وموصوف واحدٍ.
[49] پھر اللہ تعالیٰ نے ’’متقین‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ ﴾ یعنی اپنے تنہائی کے اوقات میں جب لوگ ان کو دیکھ نہیں رہے ہوتے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور جب ایسا ہے تو لوگوں کے سامنے تو بطریق اولیٰ ڈرتے ہیں ۔ پس وہ حرام امور سے بچتے ہیں اور جو امور ان پر لازم ٹھہرا دیے گئے ان کا التزام کرتے ہیں ۔ ﴿ وَهُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ ﴾ اور وہ، اپنے رب کی کامل معرفت حاصل ہونے کی بنا پر، قیامت کی گھڑی سے ڈرتے ہیں … پس انھوں نے احسان اور خوف الٰہی کو یکجا کر کے اپنے اندر سمو لیا۔ یہاں عطف، ایک ہی چیز اور ایک ہی موصوف پر وارد ہونے والی متضاد صفات پر عطف کے باب میں سے ہے۔
#
{50} {وهذا}؛ أي: القرآن، {ذكرٌ مباركٌ أنزلناه}: فوصفه بوصفينِ جليلين: كونُهُ ذكراً يُتَذَكَّر به جميعُ المطالب؛ من معرفة الله بأسمائه وصفاته وأفعاله، ومن صفات الرسل والأولياء وأحوالهم، ومن أحكام الشرع من العبادات والمعاملات وغيرها، ومن أحكام الجزاء والجنَّة والنَّار، فَيُتَذَكَّر به المسائل والدَّلائل العقليَّة والنقليَّة، وسماه ذكراً؛ لأنَّه يُذَكِّرُ ما رَكَزَهُ الله في العقول والفطر من التصديق بالأخبار الصادقة، والأمر بالحَسَن عقلاً، والنهي عن القبيح عقلاً. وكونُهُ مباركاً يقتضي كثرة خيره ونمائها وزيادتها، ولا شيء أعظم بركةً من هذا القرآن؛ فإنَّ كلَّ خير ونعمة وزيادة دينيَّةٍ أو دنيويَّةٍ أو أخرويَّة؛ فإنَّها بسببه وأثرٌ عن العمل به؛ فإذا كان ذِكْرًا مباركاً؛ وجب تلقِّيه بالقَبول والانقياد والتسليم، وشُكْرِ الله على هذه المنحة الجليلة، والقيام بها، واستخراج بركته؛ بتعلُّم ألفاظه ومعانيه. ومقابلتُهُ بضدِّ هذه الحالة؛ من الإعراض عنه، والإضراب عنه صفحاً، وإنكاره، وعدم الإيمان به؛ فهذا من أعظم الكفر وأشدِّ الجهل والظُّلم، ولهذا أنكر تعالى على مَنْ أنكره، فقال: {أفأنتُم له منكِرونَ}.
[50] ﴿ وَهٰؔذَا ﴾ ’’اور یہ‘‘ یعنی قرآن کریم ﴿ ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ ﴾ ’’ذکر ہے مبارک۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو دو جلیل القدر اوصاف سے موسوم کیا ہے۔ (۱) قرآن حکیم ’’ذکر‘‘ ہے۔ تمام مطالب میں قرآن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال، اس کے انبیاء و اولیاء کی صفات اور احکام جزا، جنت اور جہنم کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس لیے بھی ’’ذکر‘‘ کہا ہے کہ قرآن… اخبار صادقہ کی تصدیق، ان امور کا حکم دینا جو عقلاً حسن ہیں اور ان امور سے روکنا جو عقلاً قبیح ہیں ، جیسی صفات کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی عقل و فطرت میں ودیعت کر رکھی ہیں ان کی یاد دہانی کراتا ہے۔ (۲) قرآن کریم کا ’’مبارک‘‘ (یعنی بابرکت) ہونا اس میں بھلائی کی کثرت، بھلائی کی نشوونما اور اس میں اضافے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی چیز بابرکت نہیں کیونکہ ہر بھلائی، ہر نعمت، دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں ہر اضافہ اسی کے سبب سے ہے اور اس پر عمل کے آثار ہیں ۔ جب ’’ذکر‘‘ بابرکت ہو تو اس کو قبول کرنا، اس کی اطاعت کرنا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس جلیل القدر نعمت کا شکر ادا ہو،اس کو قائم کیا جا سکے اور اس کے الفاظ و معانی کو سیکھ کر اس سے برکت حاصل کی جائے اور اس رویے سے متضاد رویہ، یعنی اس سے روگردانی کرنا، اسے درخور اعتنانہ سمجھنا، اس کا انکار کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا سب سے بڑا کفر، شدید ترین جہالت اور سخت ظلم ہے، اس لیے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر نکیر کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْؔكِرُوْنَ ﴾ کیا تم اس کا انکار کرتے ہو۔
آیت: 51 - 73 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ (51) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ (52) قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ (53) قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (54) قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ (55) قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (56) وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (57) فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (61) قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَاإِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ (64) ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ (65) قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (67) قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (68) قُلْنَا يَانَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (69) وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (70) وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (71) وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ (72) وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ (73)}.
اور البتہ تحقیق دی تھی ہم نے ابراہیم کو اس کی ہدایت اس سے پہلے اور تھے ہم اسے (خوب)جاننے والے (51) جب کہا تھا اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے، کیا ہیں یہ مورتیاں وہ جو تم ہو ان کے لیے (تعظیم سے) جھکنے والے؟ (52) انھوں نے کہا، پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے (53) ابراہیم نے کہا، البتہ تحقیق ہو تم خود اور (تھے) باپ دادا تمھارے گمراہی صریح میں (54) انھوں نے کہا، کیا لایا ہے تو ہمارے پاس حق یا ہے تو کھیل کرنے والوں میں سے؟(55) ابراہیم نے کہابلکہ تمھارا رب رب ہے آسمانوں اور زمین کا، وہ جس نے پیدا کیا ان کواور میں اوپر اس (بات) کے گواہوں میں سے ہوں (56) اور اللہ کی قسم! البتہ ضرور ایک تدبیر کروں گا میں تمھارے بتوں (کو توڑنے) کے لیے، بعد اس کے کہ چلے جاؤ گے تم پیٹھ پھیر کر (57) پھر کر دیا اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے سوائے ایک بڑے کے ان کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں (58) انھوں نے کہا، کس نے کیا ہے یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ؟ بلاشبہ وہ البتہ ظالموں میں سے ہے (59) انھوں نے کہا، سنا ہم نے ایک جو ان کو، وہ ذکر کرتا تھا ان کا، کہا جاتا ہے اسے ابراہیم (60) انھوں نے کہا، پس لے آؤ تم اسے روبرو لوگوں کے تاکہ وہ (عبرت کے لیے) دیکھیں (61)انھوں نے کہا، کیا تو نے ہی کیا ہے یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ، اے ابراہیم؟ (62)اس نے کہا (نہیں )بلکہ کیا ہے یہ کام ان کے اس بڑے (بت) نے، پس تم پوچھو ان سے اگر ہیں وہ بولتے (63) پس لوٹے وہ اپنے نفسوں کی طرف (یعنی سوچا) اور کہا (آپس میں ) بلاشبہ تم ہی ظالم ہو (64) پھر وہ الٹے کر دیے گئے اپنے سروں کے بل (اور کہا) البتہ تحقیق تو جانتا ہے کہ نہیں یہ (بت) بولتے (65) ابراہیم نے کہا، کیا پس تم عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے ان کی جو نہیں نفع دے سکتے تمھیں کچھ اور نہ نقصان دے سکتے ہیں تمھیں ؟ (66) افسوس ہے تم پر اور ان پر جن کی تم عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟ (67) انھوں نے کہا، جلا دو تم اس کو اور مدد کرو اپنے معبودوں کی، اگر ہو تم (کچھ) کرنے والے (68) ہم نے کہا، اے آگ ہو جا تو ٹھنڈی اور سلامتی (والی) اوپر ابراہیم کے (69) اور ارادہ کیا تھا انھوں نے اس کے ساتھ مکر کا، پس کر دیا ہم نے انھیں ہی خسارہ پانے والے (70) اور نجات دی ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو طرف اس زمین کی وہ جو برکت دی تھی ہم نے اس میں جہان والوں کے لیے(71) اور عطا کیا ہم نے اس (ابراہیم) کو اسحاق اور یعقوب مزیداور ہر ایک کو بنایا ہم نے صالح (72) اور بنایا ہم نے انھیں امام، وہ ہدایت کرتے تھے ہمارے حکم کے ساتھ اور وحی کی ہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے کی اور زکاۃ ادا کرنے کی اور تھے وہ ہمارے عبادت گزار (فرماں بردار) بندے (73)
#
{51} لما ذكر تعالى موسى ومحمداً - صلى الله عليه وسلم - وكتابيهما؛ قال: {ولقد آتينا إبراهيم رُشْدَهُ من قبلُ}؛ أي: من قبل إرسال موسى ومحمد ونزول كتابيهما، فأراه الله ملكوتَ السماواتِ والأرض، وأعطاه من الرُّشد الذي كَمَّلَ به نفسه ودعا الناس إليه ما لم يؤتِهِ أحداً من العالمين غير محمدٍ، وأضاف الرُّشد إليه لكونِهِ رُشداً بحسب حاله وعلوِّ مرتبتِهِ، وإلاَّ؛ فكلُّ مؤمنٍ له من الرشد بحسب ما عه من الإيمان. {وكُنَّا به عالمين}؛ أي: أعطيناه رشدَه، واختَصَصْناه بالرسالة والخُلَّة، واصطفيناه في الدُّنيا والآخرة؛ لعلمنا أنَّه أهل لذلك وكفءٌ له؛ لزكائه وذكائه. ولهذا ذَكَرَ محاجَّتَهُ لقومه، ونهيهم عن الشِّرك، وتكسير الأصنام وإلزامهم بالحجَّة، فقال:
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ u اور حضرت محمد مصطفیe اور ان کی جلیل القدر کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ ﴾ یعنی حضرت موسیٰu اور حضرت محمدe کی بعثت اور ان کی کتابوں کے نازل ہونے سے پہلے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم u کو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مشاہدہ کروایا اور انھیں رشد و ہدایت عطا کی، جس سے ان کے نفس کو کمال حاصل ہوا اور آپ نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰe کے سوا کسی کو عطا نہیں کی اور آپ کے ہدایت یافتہ ہونے کے باعث، آپ کے حسب حال اور آپ کے بلند مرتبہ کی بنا پر رشد کو آپ کی طرف مضاف کیا گیا ورنہ ہر مومن کو اس کے حسب ایمان رشد و ہدایت سے نوازا گیا ہے۔ ﴿ وَؔكُنَّا بِهٖ عٰؔلِمِیْنَ﴾ ’’اور ہم اس کو جانتے تھے۔‘‘ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو رشد و ہدایت کی، ان کو رسالت کے لیے منتخب کیا، انھیں اپنا خلیل بنایا اور دنیا و آخرت میں انھیں اپنے لیے چن لیا اس لیے کہ ہم جانتے تھے کہ وہ اس مرتبہ کے اہل اور اپنی پاکیزگی اور ذہانت کی بنا پر اس کے مستحق ہیں ۔ بناء بریں اللہ تعالیٰ نے ان کا اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ، شرک سے ان کو روکنے، بتوں کو توڑنے اور ان پر آپ کے حجت قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
#
{52} {إذْ قال لأبيه وقومِهِ ما هذه التماثيلُ}: التي مثَّلْتُموها؛ ونَحَتُّموها بأيديكم على صور بعض المخلوقات، {التي أنتُم لها عاكفون}: مقيمون على عبادِتها، ملازِمون لذلك؛ فما هي؟ وأيُّ فضيلة ثبتتْ لها؟ وأين عقولُكم التي ذهبت حتى أفنيتُم أوقاتكم بعبادتها؛ والحالُ أنَّكم مثلْتموها ونحتُّموها بأيديكم؛ فهذا من أكبر العجائب؛ تعبُدون ما تنحِتون؟!
[52] ﴿ اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰؔذِهِ التَّمَاثِیْلُ ﴾ ’’جب انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ مورتیاں کیا ہیں ؟‘‘ جن کو تم نے بعض مخلوقات کی صورت پرخود اپنے ہاتھوں سے بنایا اور خود گھڑا ہے ﴿ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ ﴾ جن پر تم ان کی عبادت کے لیے قیام اور اس کا التزام کرتے ہو… یہ گھڑے ہوئے پتھر کیا ہیں ؟ ان میں کونسی فضیلت ظاہر ہوئی ہے؟ تمھاری عقلیں کہاں چلی گئی ہیں کہ تم نے اپنے اوقات کو ان بتوں کی عبادت میں ضائع کر دیا، حالانکہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہے؟ یہ سب سے بڑی تعجب انگیز بات ہے کہ جس چیز کو تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑتے ہو، اس کی عبادت کرتے ہو؟
#
{53} فأجابوا بغير حجَّةٍ جواب العاجز الذي ليس بيده أدنى شبهة، فقالوا: {وجَدْنا آباءنا}: كذلك يفعلونَ فسلكنا سبيلَهم واتَّبعناهم على عبادتها!! ومن المعلوم أنَّ فعل أحدٍ من الخلق سوى الرُّسل ليس بحجَّةٍ ولا تجوز به القدوةُ، خصوصاً في أصل الدين وتوحيد ربِّ العالمين.
[53] تو انھوں نے بغیر کسی حجت اور برہان کے اس شخص کا سا جواب دیا جو عاجز اور بے بس ہو اور جسے ادنیٰ سے بھی شبہ کرنے کا بھی اختیار نہ ہو، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا﴾ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہم بھی ان کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کی پیروی میں ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء و مرسلین کے سوا، کسی شخص کا فعل حجت ہے نہ اس کی پیروی ہی کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر اصول دین اور توحید الٰہی میں …
#
{54} ولهذا قال لهم إبراهيمُ مضلِّلاً للجميع: {لقد كنتُم أنتم وآباؤكم في ضَلال مبينٍ}؛ أي: ضلال بيِّن واضح، وأيُّ ضلال أبلغُ من ضلالهم في الشرك وترك التوحيد؟! أي: فليس ما قلتُم يصلُحُ للتمسُّك به، وقد اشتركتُم وإياهم في الضَّلال الواضح البيِّن لكلِّ أحدٍ.
[54] اس لیے ابراہیم u نے ان تمام لوگوں کو گمراہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ یعنی تم اور تمھارے آباء و اجداد واضح گمراہی میں مبتلا ہو اور کونسی گمراہی ہے جو ان کے شرک میں مبتلا ہونے اور توحید کو ترک کرنے کی گمراہی سے زیادہ بڑی ہو؟ یعنی اس گمراہی کو پکڑے رہنے کے لیے تم نے جو دلیل دی ہے وہ درست نہیں ، تم اور تمھارے باپ دادا کھلی گمراہی پر ہو جو ہر ایک پر واضح ہے۔
#
{55} {قالوا}: على وجه الاستغراب لقولِهِ، والاستفهام لما قال، وكيف بادأهم بتسفيههم وتسفيه آبائهم: {أجئتنا بالحقِّ أم أنت من اللاَّعبينَ}؛ أي: هذا القول الذي قُلْتَه والذي جئتنا به: هل هو حقٌّ وُجِدَ، أم كلامُك لنا كلامُ لاعب مستهزئ لا يَدْري ما يقول؟! وهذا الذي أرادوا، وإنما ردَّدوا الكلام بين الأمرين لأنَّهم نزَّلوه منزلة المتقرِّر المعلوم عند كلِّ أحدٍ، أنَّ الكلامَ الذي جاء به إبراهيمُ كلامُ سفيهٍ لا يَعْقِلُ ما يقول.
[55] ﴿ قَالُوْۤا ﴾ انھوں نے تعجب اور ابراہیم u کے قول پر استفہام کے طور پر کہا، نیز یہ کہ ابراہیم u نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو بے وقوف قرار دیا تھا۔ ﴿ اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ﴾ یعنی کیا وہ بات جو تو نے کہی ہے اور وہ چیز جو تو لے کر آیا ہے، حق ہے؟ یا تیرا ہمارے ساتھ بات کرنا، کسی دل لگی کرنے والے اور تمسخر اڑانے والے کا بات کرنا ہے جو یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟… پس انھوں نے ان دو امور کی بنا پر حضرت ابراہیمu کی بات کو رد کر دیا، انھوں نے حضرت ابراہیم uکی دعوت کو اس بنا پر رد کر دیا کہ ان کے ہاں یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ جو کلام حضرت ابراہیمu لے کر آئے ہیں وہ ایک بے وقوف کا کلام ہے، آپ جو بات کہتے ہیں وہ عقل میں نہیں آتی۔
#
{56} فردَّ عليهم إبراهيمُ ردًّا بيَّن به وجهَ سَفَهِهِم وقلَّة عقولهم، فقال: {بل ربُّكم ربُّ السمواتِ والأرض الذي فَطَرَهُنَّ وأنا على ذلكم من الشاهدينَ}: فجمع لهم بين الدَّليل العقليِّ والدَّليل السمعيِّ: أمَّا الدليلُ العقليُّ؛ فإنَّه قد عَلِمَ كلُّ أحدٍ، حتى هؤلاء الذين جادلهم إبراهيم: أنَّ الله وحده الخالقُ لجميع المخلوقات من بني آدم والملائكة والجنِّ والبهائم والسماوات والأرض المدبِّر لهنَّ بجميع أنواع التدبير، فيكون كلُّ مخلوق مفطوراً مدبَّراً متصرَّفاً فيه، ودخل في ذلك جميعُ ما عُبِدَ من دون الله، أفيليقُ عند مَنْ له أدنى مُسْكَةٍ من عقل وتمييزٍ، أن يَعْبُدَ مخلوقاً متصرَّفاً فيه، لا يملِكُ نفعاً، ولا ضرًّا، ولا موتاً، ولا حياةً، ولا نُشوراً، ويدع عبادة الخالق الرازق المدبِّر؟! وأما الدَّليل السمعيُّ؛ فهو المنقولُ عن الرُّسل عليهم الصلاة (والسلام) ؛ فإنَّ ما جاؤوا به معصومٌ لا يغلط ولا يخبِرُ بغير الحقِّ، ومن أنواع هذا القسم شهادةُ أحدٍ من الرُّسل على ذلك؛ فلهذا قال إبراهيم: {وأنا على ذلكم}؛ أي: أنَّ الله وحدَه المعبودُ، وأنَّ عبادةَ ما سواه باطلٌ، {من الشَّاهِدين}: وأيُّ شهادةٍ بعد شهادةِ الله أعلى من شهادة الرُّسل، خصوصاً أولي العزم منهم، خصوصاً خليل الرحمن؟
[56] ابراہیم u نے ان کی بات کا اس طرح جواب دیا جس سے ان کی سفاہت اور کم عقلی واضح ہوتی تھی، چنانچہ فرمایا: ﴿ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ١ۖٞ وَاَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ ’’بلکہ تمھارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور میں بھی ان باتوں کو ماننے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ حضرت ابراہیم نے ان کے لیے عقلی اور نقلی دونوں دلیلوں کو جمع کر دیا۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ ہر ایک شخص، حتیٰ کہ وہ خود بھی جنھوں نے ابراہیم u کے ساتھ جھگڑا کیا، جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انسانوں ، فرشتوں ، جنوں، جانوروں اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جو مختلف الانواع تدابیر کے ساتھ ان کی تدبیر کر رہا ہے۔ پس تمام مخلوق پیدا شدہ، محتاج تدبیر اور وہ زیر تصرف ہے اور جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں وہ بھی اس مخلوق میں داخل ہیں … کیا یہ چیز اس شخص کے نزدیک، جو ادنیٰ سی عقل اور تمیز رکھتا ہے… مناسب ہے کہ ایک ایسی مخلوق ہستی کی عبادت کی جائے جو کسی کے زیر تصرف ہے، جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں ، جو زندگی اور موت پر قدرت رکھتی ہے نہ دوبارہ زندہ کرنے پر اور خالق، رازق اور مدبر کائنات کی عبادت کو چھوڑ دیا جائے؟ نقلی اور سمعی دلیل وہ ہے جو انبیاء کرامo سے منقول ہے کہ وہ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک ہے اور وہ صرف حق کی خبر دیتا ہے اور دلیل سمعی اس کی ایک قسم کسی نبی کی گواہی ہے، بنابریں ابراہیم u نے فرمایا: ﴿ وَاَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ ﴾ ’’اور میں اس پر‘‘ یعنی اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ ﴿مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ ’’گواہی دینے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کے بعد کونسی گواہی ہے جو انبیاء و رسل کی گواہی سے افضل ہو خاص طور پر اولوالعزم رسول اور رحمان کے خلیل کی گواہی سے؟
#
{57} ولما بيَّن أنَّ أصنامَهم ليس لها من التدبير شيءٌ؛ أراد أن يُرِيَهم بالفعل عجزها وعدم انتصارها، وليكيد كيداً يحصُلُ به إقرارُهم بذلك؛ فلهذا قال: {وتاللهِ لأكيدنَّ أصنامَكم}؛ أي: أكسرها على وجه الكيد، {بعدَ أن تُوَلُّوا مدبِرينَ}: عنها، إلى عيدٍ من أعيادهم.
[57] چونکہ آپ نے دلیل سے واضح کر دیا تھا کہ ان کے بت کسی تدبیر کا اختیار نہیں رکھتے، اس لیے آپ نے ان کو بالفعل ان کے خود ساختہ معبودوں کی بے بسی اور خود اپنی مدد کرنے پر بے اختیاری کا مشاہدہ کروانے کا ارادہ کیا اور ایسا طریق کار استعمال کیا کہ وہ اپنے معبودوں کی بے بسی اور بے اختیار کا خود اقرار کریں ، اس لیے ابراہیم u نے فرمایا: ﴿وَتَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ﴾ یعنی تمھیں لاجواب کرنے کے لیے چال کے طور پر میں ان بتوں کو توڑ دوں گا ﴿ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ ’’جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔‘‘ یعنی جب اپنی کوئی عید منانے کے لیے چلے جاؤ گے۔
#
{58} فلما تَوَلَّوا مدبرين؛ ذَهَبَ إليها بِخفيةٍ، {فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً}؛ أي: كِسَراً وقطعاً، وكانت مجموعةً في بيت واحدٍ فكسَّرها كلَّها، {إلاَّ كبيراً لهم}؛ أي: إلاَّ صنمهم الكبير؛ فإنَّه تركه لمقصد سيبيِّنه. وتأمَّل هذا الاحتراز العجيب؛ فإنَّ كلَّ ممقوتٍ عند الله لا يُطلق عليه ألفاظ التعظيم إلاَّ على وجه إضافتِهِ لأصحابه؛ كما كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - إذا كتب إلى ملوك الأرض المشركين يقول: إلى عظيم الفُرس ... إلى عظيم الروم ... ونحو ذلك ولم يقل: إلى العظيم! وهنا قال تعالى: {إلاَّ كبيراً لهم}، ولم يقل: كبيراً من أصنامهم؛ فهذا ينبغي التنبُّه له والاحتراز من تعظيم ما حقَّره الله؛ إلاَّ إذا أضيفَ إلى من عظَّمه. وقوله: {لعلَّهم إليه يرجِعونَ}؛ أي: ترك إبراهيم تكسير صَنَمِهم هذا لأجل أن يرجعوا إليه، ويستملوا حجَّته، ويلتفِتوا إليها، ولا يُعْرِضوا عنها، ولهذا قال في آخرها: {فرجَعوا إلى أنفسهم}.
[58] چنانچہ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابراہیم u چپکے سے ان بتوں کے پاس گئے ﴿ فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا ﴾ اور ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ تمام بت ایک ہی بت خانے میں جمع تھے، اس لیے ا ن سب کو توڑ دیا۔ ﴿ اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ﴾ سوائے ان کے بڑے بت کے اور اسے ایک خاص مقصد کے لیے چھوڑ دیا، جسے عنقریب اللہ تعالیٰ بیان فرمائے گا۔ ذرا اس عجیب ’’احتراز‘‘ پر غور فرمائیے کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہے۔ اس پر تعظیم کے الفاظ کا اطلاق صحیح نہیں سوائے اس صورت میں کہ تعظیم کی اضافت تعظیم کرنے والوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ نبی e کا طریقہ تھا کہ آپ جب زمین کے مشرک بادشاہوں کی طرف خط لکھتے تو اس طرح مخاطب فرماتے: (الٰی عظیم الفرس او الی عظیم الروم) یعنی ’’اہل فارس کے بڑے کی طرف یا اہل روم کے بڑے کی طرف‘‘ اور ﴿اِلَی الْعَظِیْمِ﴾ ’’یعنی بڑی ہستی کی طرف‘‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ﴾ ’’ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔‘‘ اور یہ نہیں فرمایا :(کبیرا من اصنامھم) ’’ان کے بتوں میں سے بڑے بت کو‘‘ پس یہ بات اس لائق ہے کہ آدمی اس پر متنبہ رہے اور اس ہستی کی تعظیم سے احتراز کرے جسے اللہ تعالیٰ نے حقیر قرار دیا ہے، البتہ اس تعظیم کی اضافت ان لوگوں کی طرف کی جا سکتی ہے جو اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ ﴾ یعنی ابراہیم u نے ان کے اس بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور آپ کی حجت و دلیل سے زچ ہو کر اس حجت کی طرف التفات کریں اور اس سے روگردانی نہ کریں اسی لیے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا: ﴿ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’پس انھوں نے اپنے دل میں غور کیا۔‘‘
#
{59} فحين رأوا ما حلَّ بأصنامهم من الإهانة والخزي؛ {قالوا مَن فَعَلَ هذا بآلهتنا إنَّه لمن الظالمين}: فرَمَوا إبراهيم بالظُّلم الذي هم أولى به حيث كسَّرها، ولم يدروا أن تكسيره لها من أفضل مناقبه ومن عدلِهِ وتوحيدِهِ، وإنَّما الظالم مَنِ اتَّخذها آلهةً، وقد رأى ما يفعل بها.
[59] جب انھوں نے اپنے معبودوں کی اہانت اور رسوائی دیکھی تو کہنے لگے: ﴿ مَنْ فَعَلَ هٰؔذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَ٘مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾’’ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے؟ یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔‘‘ انھوں نے حضرت ابراہیمu کو ظالم کہا، حالانکہ وہ خود اس صفت کے زیادہ مستحق ہیں حضرت ابراہیمu نے ان بتوں کو توڑا اور آپ کا ان بتوں کو توڑنا آپ کے بہترین مناقب میں سے ہے، نیز آپ کے عدل اور آپ کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ ظالم تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان بتوں کو معبود بنا لیا تھا، حالانکہ انھوں نے دیکھ لیا کہ ان کے معبودوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔
#
{60} {قالوا سَمِعْنا فتىً يذكُرُهم} ـ أي: يَعيبهم ويذُمُّهم، ومَنْ هذا شأنُهُ لا بدَّ أن يكون هو الذي كسرها، أو أنَّ بعضهم سَمِعَهُ يذكر أنه سيكيدها ـ {يُقال له إبراهيمُ}.
[60] ﴿ سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ﴾ یعنی جو ان بتوں کی عیب چینی اور مذمت کرتا تھا۔ جس کا یہ حال ہے یقینا اسی نے ان بتوں کو توڑا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب حضرت ابراہیمu ان بتوں کے خلاف چال چلنے کی بات کر رہے تھے تو ان مشرکین میں سے کسی نے سن لیا ہو۔
#
{61} فلما تحقَّقوا أنه إبراهيم؛ {قالوا فأتوا بهِ}؛ أي: بإبراهيم، {على أعين الناس}؛ أي: بمرأى منهم ومسمع، {لعلَّهم يشهدونَ}؛ أي: يحضُرون ما يصنعُ بمن كَسَّرَ آلهتهم. وهذا الذي أراد إبراهيم وقَصَدَ: أن يكون بيانُ الحقِّ بمشهدٍ من الناس؛ ليشاهِدوا الحقَّ وتقوم عليهم الحجَّة؛ كما قال موسى حين واعَدَ فرعونَ: {موعِدُكم يومُ الزِّينة وأن يُحْشَرَ الناس ضحىً}.
[61] جب ان کے سامنے یہ بات متحقق ہو گئی کہ یہ سب کچھ ابراہیمu نے کیا ہے ﴿ قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ ﴾ تو کہنے لگے ابراہیم کو لے کر آؤ ﴿ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ﴾ یعنی لوگوں کے سامنے ﴿ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ﴾ یعنی جس شخص نے ان کے معبودوں کو توڑا ہے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے وقت لوگ موجود ہوں اور یہی بات ابراہیم u چاہتے تھے اور یہی ان کا مقصد تھا کہ لوگوں کے بھرے مجمع میں حق ظاہر ہو لوگ حق کا مشاہدہ کریں اور ان پر حجت قائم ہو جائے، جیسا کہ حضرت موسیٰu نے فرعون سے اس وقت کہا تھا جب اس نے موسیٰ u کو مقابلے کے لیے ایک دن مقرر کرنے کے لیے کہا تھا، چنانچہ موسیٰ u نے فرمایا تھا: ﴿ مَوْعِدُؔكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴾ (طٰہ:20؍59) ’’تمھارے لیے جشن کا دن مقرر ہوا چاشت کے وقت لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔‘‘
#
{62} فحين حضر الناس وأُحْضِر إبراهيم؛ قالوا له: {أأنتَ فعلتَ هذا}؛ أي: التكسير {بآلهتنا يا إبراهيمُ}؟ وهذا استفهام تقريرٍ؛ أي: فما الذي جرَّأك؟ وما الذي أوجبَ لك الإقدام على هذا الأمر؟
[62] جب لوگ اکٹھے ہو گئے اور ابراہیم u کو بھی حاضر کیا گیا تو انھوں نے حضرت ابراہیمu سے پوچھا ﴿ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰؔذَا ﴾ ’’کیا تو نے یہ کیا ہے؟‘‘ یعنی بتوں کو توڑا ہے ﴿ بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُ﴾ یہ استفہام تقریری ہے یعنی اس اقدام کی تجھے کیسے جرأت ہوئی؟
#
{63} فقال إبراهيم والناس مشاهدونَ: {بل فَعَلَهُ كبيرُهم هذا}؛ أي: كسَّرها غضباً عليها لمَّا عُبِدَتْ معه، وأراد أن تكونَ العبادةُ منكم لصنمكم الكبير وحدَه، وهذا الكلامُ من إبراهيم القصدُ منه إلزامُ الخصم وإقامةُ الحجَّة عليه، ولهذا قال: {فاسْألوهُم إن كانوا ينطقونَ}، وأراد الأصنام المكسَّرة؛ اسألوها لم كُسِّرَتْ؟ والصنم الذي لم يكسر؛ اسألوه لأيِّ شيءٍ كسَّرها؟ إنْ كان عندَهم نطقٌ؛ فسيجيبونكم إلى ذلك، وأنا وأنتم وكلُّ أحدٍ يدري أنَّها لا تنطِقُ، ولا تتكلَّم، ولا تنفع ولا تضرُّ، بل ولا تنصر نفسَها ممَّن يريدها بأذى.
[63] ابراہیم u نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمع میں جواب دیا ﴿ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖ ۗ كَبِیْرُهُمْ هٰؔذَا﴾ یعنی اس بڑے بت نے ناراض ہو کر ان کو توڑا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جاتی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عبادت صرف تمھارے اس بڑے بت کی ہو۔ اس سے ابراہیم u کا مقصد الزامی جواب اور حجت قائم کرنا تھا، اس لیے فرمایا: ﴿ فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ﴾ ’’ان سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان ٹوٹے ہوئے بتوں سے پوچھو کہ ان کو کیوں توڑا گیا؟ اور جس بت کو نہیں توڑا گیا، اس سے پوچھو کہ اس نے ان بتوں کو کیوں توڑا؟ اگر وہ بول سکتے ہیں تو تمھیں جواب دیں … میں ، تم اور ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بت بول سکتے ہیں نہ کلام کر سکتے ہیں ، کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ بلکہ اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ خود اپنی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں ۔
#
{64} {فرجعوا إلى أنفسهم}؛ أي: ثابتْ عليهم عقولُهم، ورجعتْ إليهم أحلامُهم، وعلموا أنَّهم ضالُّون في عبادتها، وأقرُّوا على أنفسهم بالظُّلم والشرك، {فقالوا إنَّكم أنتم الظالمون}: فحصل بذلك المقصودُ، ولزمتهم الحجَّة بإقرارهم أنَّ ما هم عليه باطلٌ، وأنَّ فعلَهم كفرٌ وظلمٌ.
[64] ﴿ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’پس وہ اپنے آپ ہی کی طرف لوٹے۔‘‘ یعنی ان کی عقل ان کی طرف لوٹی اور انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ ان بتوں کی عبادت کر کے گمراہی میں مبتلا تھے اور انھوں نے اپنے ظلم اور شرک کا اقرار کر لیا۔ ﴿ فَقَالُوْۤا اِنَّـكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اور کہنے لگے، تم ہی ظالم ہو۔‘‘ پس اس سے حضرت ابراہیم u کا مقصد حاصل ہو گیا اور ان کے اس اقرار کے ساتھ، کہ ان کا موقف باطل اور ان کا فعل کفر اور ظلم ہے، ان پر حجت قائم ہو گئی۔
#
{65} ولكن لم يستمرُّوا على هذه الحالة، ولكن {نُكِسوا على رؤوسهم}؛ أي: انقلب الأمر عليهم، وانتكست عقولهم، وضلَّت أحلامهم، فقالوا لإبراهيم: {لقد علمتَ ما هؤلاء ينطِقونَ}؛ فكيف تَهَكَّمُ بنا، وتستهزئ بنا، وتأمُرُنا أنْ نسألها، وأنتَ تعلم أنَّها لا تنطِقُ؟
[65] مگر وہ اس حالت پر قائم نہ رہ سکے بلکہ ﴿ ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ﴾ ’’اوندھے ہو گئے اپنے سروں کے بل۔‘‘ یعنی ان کا معاملہ بدل گیا ان کی عقل اوندھی گئی اور ان کے خواب پریشان ہو گئے، چنانچہ حضرت ابراہیمu سے کہنے لگے: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ ﴾ تم کیسے ہمارے ساتھ ٹھٹھا اور تمسخر کر رہے ہو اور ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم ان بتوں سے پوچھ لیں حالانکہ تو جانتا ہے کہ یہ بول نہیں سکتے؟
#
{66} فقال إبراهيم موبِّخاً لهم ومعلناً بشركِهِم على رؤوس الأشهاد ومبيِّناً عدم استحقاق آلهتهم للعبادة: {أفتَعْبُدون من دون الله ما لا ينفعُكم شيئاً ولا يضرُّكم}: فلا نفع ولا دفع.
[66] اس پر ابراہیم u نے ان کی زجروتوبیخ اور علی الاعلان ان کے شرک اور عبادت کے لیے ان کے خداؤں کے عدم استحقاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْـًٔؔا وَّلَا یَضُرُّكُمْ﴾ ’’کیا جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو؟‘‘
#
{67} {أفٍّ لكم ولما تَعْبُدونَ من دون الله}؛ أي: ما أضلَّكم وأخسرَ صفقتكم وما أخسَّكم أنتم وما عبدتُم من دون الله!! إن كنتم تعقِلونَ عرفتُم هذه الحال، فلما عدمتُم العقلَ وارتكبتم الجهلَ والضَّلال على بصيرةٍ؛ صارت البهائم أحسنَ حالاً منكم.
[67] ﴿ اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ’’تُف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم، اللہ کو چھوڑ کر، عبادت کرتے ہو۔‘‘ یعنی تم کتنے گمراہ، تمھاری تجارت کتنی گھاٹے کی تجارت اور تم اور تمھارے معبود جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کتنے گھٹیا ہو۔ ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ صورتحال کو پہچان سکو؟ چونکہ تم نے عقل سے عاری ہونے کی بنا پر جانتے بوجھتے، جہالت اور گمراہی کا ارتکاب کیا ہے اس لیے جانوروں کا حال تمھارے حال سے کہیں بہتر ہے۔
#
{68} فحينئذٍ لمَّا أفحمهم ولم يبيِّنوا حجةً؛ استعملوا قوتهم في معاقبتِهِ، فـ {قالوا حرِّقوه وانصُروا آلهتكم إن كنتُم فاعلينَ}؛ أي: اقتلوه أشنع القِتلات بالإحراق غضباً لآلهتكم ونُصرةً لها؛ فَتَعْساً لهم تَعْساً، حيثُ عبدوا من أقرُّوا أنه يحتاجُ إلى نصرِهم واتَّخذوه إلهاً!!
[68] جب ابراہیم u نے ان کو لاجواب کر دیا اور وہ اپنی دلیل کو واضح نہ کر سکے تو آپ کو سزا دینے کے لیے قوت استعمال کی، چنانچہ وہ کہنے لگے: ﴿ حَرِّقُ٘وْهُ وَانْ٘صُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْ٘نَ ﴾ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو، اپنے معبودوں کی حمایت اور تائید میں ، اسے آگ میں ڈال دو… ان کے لیے ہلاکت ہے، وہ ان معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے معبود اِن کی مدد کے محتاج ہیں ، پھر بھی انھوں نے بے بس ہستیوں کو معبود بنا لیا۔
#
{69} فانتصر الله لخليلِهِ لمَّا ألقَوْه في النار، وقال لها: {كوني بَرْداً وسلاماً على إبراهيم}: فكانت عليه برداً وسلاماً، لم يَنَلْهُ فيها أذى، ولا أحسَّ بمكروه.
[69] پس جب انھوں نے ابراہیم u کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی مدد فرمائی اور آگ کو حکم دیا: ﴿ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰ٘مًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ﴾ ’’ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔‘‘ اور آگ سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو گئی اور حضرت ابراہیمu کو کوئی اذیت اور کوئی گزند نہ پہنچی۔
#
{70} {وأرادوا به كيداً}: حيث عَزَموا على إحراقه، {فَجَعَلْناهم الأخسرينَ}؛ أي: في الدنيا والآخرة؛ كما جعل الله خليله وأتباعه هم الرابحين المفلحين.
[70] ﴿ وَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا﴾ ’’انھوں نے ابراہیم کے ساتھ برا چاہا۔‘‘ یعنی ان کو جلانے کا ارادہ کیا ﴿ فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْ٘سَرِیْنَ﴾ ’’پس ہم نے انھی کو نقصان اٹھانے والوں میں سے کر دیا۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں ان کو گھاٹا کھانے والوں میں شامل کر دیا اور اس کے برعکس خلیل u اور آپ کے پیروکاروں کو نفع اٹھانے اور فلاح پانے والے لوگوں میں شامل کر دیا۔
#
{71} {ونجَّيْناه ولوطاً}: وذلك أنَّه لم يؤمن به من قومِهِ إلاَّ لوطٌ عليه السلام، قيل: إنَّه ابن أخيه، فنجَّاه الله، وهاجر {إلى الأرض التي بارَكْنا فيها للعالمين}؛ أي: الشام، فغادر قومه في بابل من أرض العراق، {وقال إنِّي مهاجر إلى ربِّي إنَّه هو العزيز الحكيم}. ومن بركةِ الشام أنَّ كثيراً من الأنبياء كانوا فيها، وأنَّ الله اختارَها مهاجَرَاً لخليلِهِ، وفيها أحدُ بيوتِهِ الثلاثة المقدَّسة، وهو بيت المقدس.
[71] ﴿ وَنَجَّیْنٰهُ وَلُوْطًا ﴾ ’’اور ہم نے اسے اور لوط کی نجات دی۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم u پر حضرت لوط u کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لوط u حضرت ابراہیم u کے بھتیجے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو کفار سے نجات دی اور وہ ہجرت کر گئے ﴿ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰ٘رَؔكْنَا فِیْهَا لِلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اس زمین کی طرف جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔‘‘ اس سے مراد ملک شام ہے، یعنی وہ اپنی قوم کو ’’بابل‘‘ یعنی عراق میں چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ ﴿وَقَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ ﴾ (الصافات:37؍99) ’’انھوں نے کہا، میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں ۔‘‘ سرزمین شام کی برکتوں میں سے چند یہ ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام یہیں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت خلیل u کی ہجرت کے لیے چن لیا اور اللہ تعالیٰ کے تین مقدس گھروں میں ایک گھر یہیں واقع ہے یعنی بیت المقدس۔
#
{72} {ووهَبْنا له}: حين اعتزل قومَه، {إسحاقَ ويعقوبَ}: ابن إسحاق، {نافلةً}: بعدما كبر وكانت زوجتُهُ عاقراً، فبشَّرته الملائكةُ بإسحاق، {ومن وراءِ إسحاقَ يعقوبَ}، ويعقوب هو إسرائيل الذي كانت منه الأمة العظيمة، وإسماعيل بن إبراهيم الذي كانت منه الأمة الفاضلة العربيَّة، ومن ذرِّيَّته سيد الأولين والآخرين. {وكلاًّ}: من إبراهيم وإسحاق ويعقوب، {جَعَلْنا صالحين}؛ أي: قائمين بحقوقِهِ وحقوق عباده.
[72] ﴿ وَوَهَبْنَا لَهٗۤ﴾ ’’اور ہم نے عطا کیے اسے۔‘‘ جب وہ اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کر کے ہجرت کر گئے ﴿ اِسْحٰقَ١ؕ وَیَعْقُوْبَ ﴾ ’’اسحاق اور یعقوب بن اسحاقi ‘‘﴿نَافِلَةً﴾ ’’مزید‘‘ یعنی ابراہیم u کے بوڑھا ہو جانے کے بعد، جبکہ ان کی بیوی بھی بانجھ تھی۔ فرشتوں نے ان کو اسحاق u کی خوشخبری دی۔ ﴿وَمِنْ وَّرَؔآءِ اِسْحٰؔقَ یَعْقُوْبَ ﴾ (ھود:11؍71) ’’اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔‘‘ اور یعقوب سے مراد حضرت اسرائیلu ہیں جو ایک بہت بڑی امت کے جدامجد ہیں اور حضرت اسماعیل بن ابراہیمi، فضیلت والی امت عربی کے جدامجد ہیں ۔ اولین و آخرین کے سردار حضرت محمد مصطفیe آپ ہی کی نسل میں سے ہیں ۔ ﴿ وَكُلًّا﴾ ’’اور ہر ایک کو۔‘‘ یعنی ابراہیم، اسحاق اور یعقوبo کو ﴿ جَعَلْنَا صٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’ہم نے نیک بنایا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے والے۔
#
{73} ومن صلاحِهِم أنَّه جعلهم أئمةً يهدون بأمره، وهذا من أكبر نعم الله على عبده: أن يكونَ إماماً يَهتدي به المهتدونَ، ويمشي خلفَه السالكون، وذلك لمَّا صبروا، وكانوا بآياتِ الله يوقنونَ. وقوله: {يهدون بأمرِنا}؛ أي: يهدون الناس بديننا، لا يأمرون بأهواء أنفسهم، بل بأمر الله ودينِهِ واتِّباع مرضاته، ولا يكون العبدُ إماماً حتى يدعو إلى أمر الله. {وأوحَيْنا إليهم فعلَ الخيرات}: يفعلونها ويدعون الناس إليها، وهذا شاملٌ للخيرات كلِّها من حقوق الله وحقوق العباد، {وإقام الصَّلاة وإيتاءِ الزَّكاةِ}: هذا من باب عطف الخاصِّ على العامِّ؛ لشرف هاتين العبادتين وفضلهما، ولأنَّ مَنْ كمَّلهما كما أمِرَ؛ كان قائماً بدينه، ومن ضيَّعهما؛ كان لما سواهما أضيع، ولأنَّ الصلاةَ أفضلُ الأعمال التي فيها حقُّه، والزكاة أفضلُ الأعمال التي فيها الإحسان لخلقه. {وكانوا لنا}؛ أي: لا لغيرنا {عابدينَ}؛ أي: مديمين على العبادات القلبيَّة والقوليَّة والبدنيَّة في أكثر أوقاتهم، فاستحقُّوا أن تكون العبادة وصفَهم، فاتَّصفوا بما أمر الله به الخلقَ، وخَلَقَهم لأجلِهِ.
[73] ان کی صالحیت میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رہبر و راہنما بنایا جو اس کے حکم سے راہنمائی حاصل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ راہنما ہو اور لوگ اس کی راہنمائی میں راہ راست پر گامزن ہوں … چلنے والے ان کو راہنمائی میں چلتے تھے اور ان کی راہنمائی کی یہ نعمت اس سبب سے عطا ہوئی کہ وہ صابر تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھتے تھے۔ ﴿ یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا﴾ یعنی ہمارے دین کے ذریعے سے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی خواہشات نفس کے مطابق حکم نہیں دیتے تھے بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی رضا کی اتباع ہی کا حکم دیتے تھے اور بندہ اس وقت تک امامت کے رتبے پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف دعوت نہ دے۔ ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ﴾ ’’اور ہم نے ان کی طرف وحی کی نیک کاموں کے کرنے کی۔‘‘ وہ خود بھی ان نیک کاموں کو سرانجام دیتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق تمام نیک کاموں کو شامل ہے۔ ﴿ وَاِقَامَ الصَّلٰ٘وةِ وَاِیْتَآءَ الزَّكٰوةِ﴾ ’’اور نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے کی۔‘‘ یہ عام پر خاص کے عطف کے باب سے ہے کیونکہ ان دونوں عبادات کو باقی تمام عبادات پر شرف اور فضیلت حاصل ہے، نیز اس لیے بھی کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان عبادات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس نے دین کو قائم کر لیا اور جس نے ان دونوں عبادت کو ضائع کر دیا، اس سے ان کے علاوہ دیگر امور کو ضائع کرنے کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے، نیز نماز ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے حق پر مبنی ہیں اور زکاۃ ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جن میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنے کا پہلو پایا جاتا ہے۔ ﴿ وَؔكَانُوْا لَنَا عٰؔبِدِیْنَ﴾ ’’اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔‘‘ یعنی وہ ہمیشہ اپنے تمام اوقات میں قلبی، قولی اور بدنی عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ پس وہ اس بات کے مستحق ہو گئے کہ عبادت ان کا وصف بن جائے، چنانچہ وہ اس صفت سے متصف ہوگئے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو متصف ہونے کا حکم دیا اور جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
آیت: 74 - 75 #
{وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ (74) وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ (75)}.
اور لوط کو، دیا ہم نے اسے حکم اور علم اور نجات دی ہم نے اسے اس بستی سے وہ جو کرتے تھے (اس کے باشندے) کام ناپاک، بلاشبہ وہ تھے لوگ برے، نافرمان (74) اور داخل کیا ہم نے اس (لوط) کو اپنی رحمت میں ، بے شک وہ صالح لوگوں میں سے تھا(75)
#
{74} هذا ثناءٌ من الله على رسوله لوطٍ عليه السلام بالعلم الشرعيِّ والحكم بين الناس بالصواب والسَّداد، وأنَّ الله أرسله إلى قومه يَدْعوهم إلى عبادة الله وينهاهم عما هم عليه من الفواحش، فَلَبِثَ يدعوهم، فلم يستجيبوا له، فَقَلَبَ الله عليهم ديارَهم، وعذَّبهم عن آخرهم؛ لأنَّهم {كانوا قَوْمَ سَوْءٍ فاسقينَ}: كذَّبوا الدَّاعي وتوعَّدوه بالإخراج، ونجَّى الله لوطاً وأهله، فأمره أن يَسْرِيَ بهم ليلاً ليبعدوا عن القرية، فَسَرَوْا ونَجَوْا من فضل الله عليهم ومنته.
[74] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول لوط u کی مدح و ثناء ہے کہ وہ شریعت کا علم رکھتے تھے، نیز یہ کہ و ہ لوگوں کے درمیان صواب اور راستی کے ساتھ فیصلے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا وہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے انھیں ان کی بدکاریوں اور فواحش سے روکتے تھے۔ پس وہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر انھوں نے ان کی دعوت پر لبیک نہ کہی۔ تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کر دیا ﴿ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَ﴾ کیونکہ وہ بڑے ہی برے اور فاسق لوگ تھے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے داعی کو جھٹلایا اور انھیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے لوط u کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات اس بستی سے دور نکل جائیں ، چنانچہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے دور نکل گئے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی وجہ سے ہوا۔
#
{75} {وأدخَلْناه في رحمتِنا}: التي مَنْ دَخَلَها كان من الآمنين من جميع المخاوف، النائلين كلَّ خير وسعادة وبرٍّ وسرور وثناءٍ، وذلك لأنَّه من الصالحين، الذين صَلَحَتْ أعمالهم، وزَكَتْ أحوالُهم، وأصلح الله فاسدَهم، والصلاحُ هو السبب لدخول العبدِ برحمةِ الله؛ كما أنَّ الفساد سببٌ لحرمانه الرحمة والخير، وأعظمُ الناس صلاحاً الأنبياءُ عليهم السلام، ولهذا يَصِفُهم بالصَّلاح، وقال سليمان عليه السلام: {وأدْخِلْني برحمتِكَ في عبادِكَ الصَّالحين}.
[75] ارشاد فرمایا: ﴿ وَاَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَا ﴾ ’’اور ہم نے اس کو داخل کر لیا اپنی رحمت میں ۔‘‘ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہو جاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جو ہر قسم کے خوف سے مامون ہیں ، جو ہر قسم کی بھلائی، سعادت، نیکی، مسرت اور مدح و ثنا سے بہرہ ور ہیں ۔ یہ اس لیے کہ لوط u ان صالحین میں سے ہیں ، جن کے اعمال درست اور احوال پاک ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام فاسد امور کو درست فرما دیا اور بندے کا درست ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت میں اس کے داخل ہونے کا سبب ہے جیسے بندے کا فاسد ہونا اس کے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور خیر سے محروم ہونے کا سبب ہے۔ صالحیت کے اعتبار سے انبیاء کرامo سب سے بڑے لوگ ہیں اس لیے صالحیت کے ساتھ ان کا وصف بیان فرمایا۔ حضرت سلیمان u نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا مانگی: ﴿ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ (النمل:27؍19) ’’مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں شامل کر۔‘‘
آیت: 76 - 77 #
{وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (76) وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (77)}.
اور یاد کیجیے نوح کو جب اس نے پکارا تھا اس سے پہلے،پس قبول کی ہم نے (دعا) اس کی اور نجات دی ہم نے اسے اور اس کے اہل (مومنوں ) کو غم سے جو بہت بڑا تھا (76) اور مدد کی ہم نے اس کی اس قوم کے خلاف جنھوں نے جھٹلایا تھا ہماری آیتوں کو، بلاشبہ وہ تھے لوگ برے، پس غرق کر دیا ہم نے ان کو سب کو (77)
#
{76 ـ 77} أي: واذكر عَبْدَنا ورسولنا نوحاً عليه السلام مُثْنِياً مادحاً حين أرسله الله إلى قومه، فلَبِثَ فيهم ألف سنةٍ إلاَّ خمسينَ عاماً؛ يدعوهم إلى عبادة الله، وينهاهم عن الشرك به، ويبدي فيهم ويعيدُ، ويدعوهم سرًّا وجهاراً وليلاً ونهاراً، فلما رآهم لا ينجع فيهم الوعظ ولا يفيدُ لديهم الزجرُ؛ نادى ربَّه وقال: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرض من الكافرين ديّاراً. إنَّك إن تَذَرْهُم يُضِلُّوا عبادك ولا يَلِدوا إلاَّ فاجراً كفّاراً}؛ فاستجاب الله له، فأغرقهم، ولم يُبقِ منهم أحداً، ونجَّى الله نوحاً وأهله ومن معه من المؤمنين في الفلك المشحون، وجعل ذرِّيَّته هم الباقين، ونصرهُ الله على قومه المستهزئين.
[77,76] ہمارے بندے اور رسول نوح (u) کی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے ان کا ذکر کیجیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور وہ ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے، انھیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے روکتے رہے، بار بار انھیں کھلے چھپے اور شب و روز اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تو انھوں نے اپنے رب کو پکارا اور دعا کی۔ ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا۰۰اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًؔا ﴾ (نوح: 71؍26 ،27) ’’اے میرے رب! روئے زمین پر کسی کافر کو آباد نہ رہنے دے اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر اور کافر اولاد ہی کو جنم دیں گے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نوح u کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو سیلاب میں غرق کر دیا، ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ باقی نہ چھوڑا۔ صرف نوح u کی ذریت باقی رہ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ٹھٹھا کرنے والی قوم کے خلاف ان کی مدد فرمائی۔
آیت: 78 - 82 #
{وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ (78) فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ (79) وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ (80) وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ (81) وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَلِكَ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ (82)}.
اور (یاد کیجیے) داود اور سلیمان کو جس وقت فیصلہ کر رہے تھے وہ دونوں کھیتی کی بابت جبکہ رات کو چر گئی تھیں اس میں بکریاں ایک قوم کی اور تھے ہم ان کے فیصلہ کرنے کے وقت حاضر (78) پس سمجھا دیا ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کواور اہر ایک کو دیا ہم نے حکم اور علم اور تابع کیے تھے ہم نے ساتھ داود کے پہاڑ، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی (تابع کیے) اور تھے ہم ہی کرنے والے (79) اور سکھائی ہم نے اسے کاریگری لباس (زر ہیں ) بنانے کی تمھارے لیے تاکہ وہ (لباس) حفاظت کرے تمھاری، تمھاری لڑائی سے تو کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ (80) اور سلیمان کے لیے ہوا تندوتیز (تابع کر دی ہم نے)، وہ چلتی تھی اس کے حکم سے طرف اس سرزمین کی وہ جو برکت دی تھی ہم نے اس میں اور تھے ہم ہر چیز کو جاننے والے (81) اور کچھ شیطان بھی (ہم نے اس کے تابع کر دیے تھے)، وہ جو غوطہ لگاتے تھے اس کے لیے اور کرتے تھے (اور بھی) کئی کام سوائے اس کے اور تھے ہم ہی ان کی حفاظت کرنے والے (82)
#
{78} أي: واذكر هذين النبيين [الكريمين] داود وسليمان مثنياً مبجِّلاً؛ إذْ آتاهما الله العلم الواسع والحكم بين العباد؛ بدليل قوله: {إذْ يحكُمانِ في الحَرْثِ إذْ نَفَشَتْ فيه غَنَمُ القوم}؛ أي: إذ تحاكم إليهما صاحبُ حرثٍ نفشت فيه غنم القوم الأخرى؛ أي: رعتْ ليلاً، فأكلتْ ما في أشجارِهِ ورعتْ زرعه، فقضى فيه داود عليه السلام بأنَّ الغنم تكون لصاحب الحَرْث؛ نظراً إلى تفريط أصحابها، فعاقبهم بهذه العقوبة، وحكم فيها سليمانُ بحكم موافقٍ للصواب؛ بأنَّ أصحاب الغنم يدفعونَ غَنَمَهم إلى صاحب الحرث، فينتفع بدرِّها وصوفها، ويقومون على بستان صاحب الحرثِ حتَّى يعودَ إلى حاله الأولى؛ فإذا عاد إلى حاله؛ ترادّا، ورَجَعَ كلٌّ منهما بماله، وكان هذا من كمال فهمه وفطنته عليه السلام.
[78] ہمارے دو انبیائے کرام، سلیمان اور داؤدi کا مدح و ثنا کے ساتھ ذکر کیجیے جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کو وسیع علم سے نوازا اور انھیں بندوں کے درمیان فیصلے کرنے کی صلاحیت بخشی اور اس کی دلیل یہ ہے۔ ﴿اِذْ یَحْكُ٘مٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ﴾ یعنی جب ایک کھیتی کا مالک ان کے پاس فیصلہ کروانے کے لیے آیا جسے دوسرے لوگوں کی بکریاں چر گئی تھیں ، یعنی رات کے وقت کھیت میں داخل ہو گئیں اور اس کے درختوں اور تمام فصل کو چر گئیں ۔ اس جھگڑے میں داؤدu نے فیصلہ کیا کہ تمام بکریاں کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کے مالک عام طور پر کوتاہی سے کام لیتے ہیں ۔ پس اس طرح آپ نے ان کو سزا دی۔ سلیمان u نے اس قضیے میں حق و صواب کے مطابق فیصلہ سنایا کہ بکریوں کے مالک اپنی بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کر دیں تاکہ وہ ان بکریوں کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کے مالک اس کے باغ اور کھیت میں اس وقت تک کام کریں گے جب تک کہ باغ اپنی پہلی حالت پر نہیں آتا۔ جب باغ اپنی پہلی حالت پر واپس آ جائے تو دونوں ایک دوسرے کا مال لوٹا دیں اور ہر شخص اپنا اپنا مال لے لے۔ یہ فیصلہ حضرت سلیمانu کے کمال فہم اور فطانت پر دلالت کرتا ہے۔
#
{79} ولهذا قال: {ففهَّمْناها سليمان}؛ أي: فهَّمناه هذه القضية، ولا يدلُّ ذلك أن داود لم يُفَهِّمْه الله في غيرها، ولهذا خصَّها بالذكر؛ بدليل قوله: {وكلًّا}: من داود وسليمان آتيناهما {حكماً وعلماً}: وهذا دليلٌ على أن الحاكم قد يصيب الحقَّ والصواب، وقد يخطئ ذلك، وليس بملوم إذا أخطأ مع بذل اجتهاده. ثم ذكر ما خصَّ به كلًّا منهما، فقال: {وسخَّرْنا مع داود الجبالَ يُسَبِّحْنَ والطيرَ}: وذلك أنَّه كان من أعبد الناس وأكثرهم لله ذكراً وتسبيحاً وتمجيداً، وكان قد أعطاه اللهُ من حسن الصوت ورِقَّته ورخامتِهِ ما لم يؤتِهِ أحداً من الخلق، فكان إذا سبَّح وأثنى على الله؛ جاوبتْه الجبالُ الصمُّ والطيورُ البهم، وهذا فضلُ اللَّه عليه وإحسانه، ولهذا قال: {وكنا فاعلين}.
[79] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَ٘یْمٰنَ﴾ یعنی ہم نے سلیمان کو اس قضیے کا فہم عطا کیا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ داؤد u کو کسی دوسرے قضیے کا فہم بھی عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے ان دونوں کا ذکر فرمایا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مقدس ہے ﴿ وَؔكُلًّا ﴾ ’’اور ہر ایک کو۔‘‘ یعنی داؤد اور سلیمانi کو ﴿ اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ﴾ ’’دیا ہم نے حکم اور علم۔‘‘ فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور علم سے ہم نے دونوں کو سرفراز کیا تھا۔ یہ واقعہ دلالت کرتا ہے کہ حاکم جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا فیصلہ کبھی تو حق و صواب کے موافق ہوتا ہے اور کبھی اس میں اس سے خطا بھی ہو جاتی ہے۔ اگر فیصلے میں کوشش و اجتہاد کے باوجود اس سے خطا ہو جائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں ۔ پھر ان مخصوص امور کا ذکر فرمایا جن سے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ نوازا گیا تھا۔ فرمایا: ﴿ وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ﴾ ’’اور تابع کر دیے ہم نے داؤد کے پہاڑ، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی۔‘‘ ذکر کیا جاتا ہے کہ داؤد u سب سے زیادہ عبادت گزار اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و تحمید کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت اور نرم آواز اور رقت عطا کی تھی جو کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمدوثنا بیان کرتے تو ٹھوس پتھر، گونگے پرندے اور بے شعور جانور بھی ان کے ہم زبان ہو جاتے اور یہ داؤد u پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، اس لیے فرمایا: ﴿وَؔكُنَّا فٰعِلِیْ٘نَ ﴾ یعنی اس فعل کو کرنے والے ہم ہی تھے۔
#
{80} {وعلَّمْناه صنعةَ لَبوسٍ لكم}؛ أي: علَّم الله داود عليه السلام صنعةَ الدُّروع؛ فهو أول من صَنَعَها وعلمها وسَرَتْ صناعته إلى مَنْ بعده، فألانَ الله له الحديدَ، وعلَّمه كيف يَسْرُدُها، والفائدة فيها كبيرة؛ {لِتُحْصِنَكُم من بأسِكُم}؛ أي: هي وقاية لكم وحفظٌ عند الحرب واشتداد البأس. {فهل أنتم شاكرونَ}: نعمة الله عليكم؛ حيث أجراها على يد عبده داود؟ كما قال تعالى: {وجَعَلَ لكم سرابيلَ تَقيكم الحرَّ وسَرابيلَ تَقيكم بأسَكُم كذلك يُتِمُّ نعمتَه عليكم لعلَّكم تُسْلِمونَ}. يُحتمل أنَّ تعليم الله لداود صنعةَ الدُّروع وإلانتها أمرٌ خارق للعادةِ، وأنْ يكون كما قاله المفسِّرون: إنَّ الله ألانَ له الحديدَ، حتَّى كان يعمَلُه كالعجين والطين من دون إذابةٍ له على النار. ويُحتمل أنَّ تعليم الله له على جاري العادة، وأنَّ إلانة الحديد له بما علَّمه الله من الأسباب المعروفةِ الآن لإذابتها، وهذا هو الظاهر؛ لأنَّ الله امتنَّ [بذلك] على العباد وأمرهم بشكرِها، ولولا أنَّ صنعتَه من الأمور التي جعلها الله مقدورةً للعباد؛ لم يمتنَّ عليهم بذلك ويذكُر فائدتها؛ لأنَّ الدُّروع التي صَنَعَ داود عليه السلام متعذِّرٌ أنْ يكونَ المرادُ أعيانَها، وإنَّما المنَّةُ بالجنس. والاحتمال الذي ذكره المفسرون لا دليلَ عليه؛ إلاَّ قوله: {وألَنَّا له الحديدَ}، وليس فيه أنَّ الإلانةَ من دون سبب، والله أعلم بذلك.
[80] ﴿ وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّـكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے داؤد u کو زرہ بکتر بنانے کا علم بخشا اور حضرت داؤدu پہلے شخص ہیں جنھوں نے زرہ بکتر بنائی اور پھر اس کا علم آئندہ آنے والوں کی طرف منتقل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لوہے کو نرم کر دیا اور ان کو زرہ بنانا سکھایا، اس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ ﴿لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَ٘اْسِكُمْ﴾ یعنی سخت لڑائی اور جنگ میں تمھاری حفاظت کرنے والی ہے۔ ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ ﴾ یعنی کیا تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہو جو اس نے اپنے بندے داؤدu کے توسط سے تمھیں عطا کی؟ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَ٘اْسَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُ٘سْلِمُوْنَ ﴾ (النحل:16؍81) ’’اور تمھارے لیے ایسی پوشاک بنائی جو گرمی سے تمھاری حفاظت کرتی ہے اور ایسی پوشاک بنائی جو جنگ میں تمھاری حفاظت کرتی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم سرتسلیم خم کرو۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داؤد u کو زرہ بکتر بنانا سکھانا اور ان کے لیے لوہے کو نرم کرنا، خارق عادت امر ہو… جیسا کہ مفسرین کہتے ہیں … اللہ تعالیٰ نے داؤد u کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔ وہ لوہے کو آگ میں پگھلائے بغیر اسی طرح استعمال میں لاتے تھے گویا کہ وہ گندھا ہوا آٹا اور گندھی مٹی ہو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ عادت جاریہ کے مطابق انھیں لوہے کو استعمال میں لانا سکھایا گیا ہو۔ اللہ کی طرف سے لوہے کو نرم کرنے کی تعلیم ان معروف اسباب میں سے سے ہو جن کے ذریعے سے آج کل لوہا پگھلایا جاتا ہے… اور یہی راجح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا اور ان کو اس پر شکر کرنے کا حکم دیا اور اگر صنعت آہن گری ان امور میں سے نہ ہوتی جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تصرف کی قدرت عطا کی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر اس احسان اور اس کے فوائد کا ذکر نہ کرتا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ داؤد u کی جن زرہوں کے بنانے کا ذکر ہے اس سے مراد متعین زرہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو زرہ بکتر کی جنس کا ذکر کر کے اپنا احسان یاد دلایا ہے اور وہ احتمال جس کا ذکر اصحاب تفسیر کرتے ہیں تو اس کی کوئی دلیل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ﴿وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ﴾ (سبا:34؍10) ’’ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔‘‘ اور اس میں یہ واضح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو بغیر کسی سبب کے نرم کر دیا تھا۔ واللہ اعلم۔
#
{81} {ولسليمان الريح}؛ أي: سخَّرناها {عاصفةً}؛ أي: سريعة في مرورها، {تَجْري بأمرِه}: حيث دبرت امتثلت أمره، غدوُّها شهرٌ ورَواحها شهرٌ، {إلى الأرض التي بارَكْنا فيها}: وهي أرض الشام؛ حيث كان مقرُّه، فيذهب على الريح شرقاً وغرباً، ويكون مأواها ورجوعُها إلى الأرض المباركة. {وكنَّا بكلِّ شيءٍ عالمِينَ}: قد أحاط علمُنا بجميع الأشياء، وعَلِمْنا من داود وسليمان ما أوصَلْناهما به إلى ما ذكرنا.
[81] ﴿وَلِسُلَ٘یْمٰنَ الرِّیْحَ ﴾ یعنی ہم نے سلیمان (u) کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا ﴿عَاصِفَةً ﴾ جو بہت تیز چلتی تھی۔ ﴿تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ ﴾ جہاں چلنے کا اس کو حکم دیا جاتا تھا ہَوا اس حکم کی اطاعت کرتی تھی۔ صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی منزل تک تھا اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی منزل تک تھا۔ ﴿اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَؔكْنَا فِیْهَا﴾ ’’اس زمین کی طرف، جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔‘‘ یعنی سرزمین شام، جو سلیمان u کا مستقر تھا، وہ ہوا کے دوش پر مشرق و مغرب میں سفر کرتے تھے اور ہوا کا ٹھکانا اور لوٹنا ارض مقدس کی طرف ہوتا تھا۔ ﴿وَؔكُنَّا بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عٰؔلِمِیْنَ﴾ ہمارا علم، تمام چیزوں کا احاطہ كيے ہوئے ہے ہم نے داؤد اور سلیمان (i) کو ان امور کی تعلیم دی جن کے ذریعے سے ہم نے ان کو اس مقام پر پہنچایا جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں ۔
#
{82} {ومِنَ الشياطين مَن يغوصون له ويَعْمَلون عملاً دونَ ذلك}: وهذا أيضاً من خصائص سليمان عليه السلام: أنَّ الله سَخَّر له الشياطين والعفاريتَ، وسلَّطه على تسخيرِهم في الأعمال التي لا يقدِرُ على كثيرٍ منها غيرهم، فكان منهم مَنْ يَغوصُ له البحر ويستخرِجُ الدُّرَّ واللؤلؤ وغير ذلك، ومنهم من يعمل له {محاريبَ وتماثيلَ وجفانٍ كالجواب وقدورٍ راسياتٍ}. وسخَّر طائفةً منهم لبناء بيت المقدس، ومات وهم على عمله، وبقوا بعدَه سنةً، حتَّى علموا موتَه؛ كما سيأتي إن شاء الله تعالى. {وكنَّا لهم حافظين}؛ أي: لا يقدِرون على الامتناع منه وعصيانِهِ، بل حَفِظَهم الله له بقوَّته وعزَّته وسلطانه.
[82] ﴿وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ﴾ ’’اور جنات میں سے بھی ہم نے بہت سے ان کے تابع کر دیے تھے جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ کئی کام کرتے تھے۔‘‘ یہ چیز بھی سلیمان u کے خصائص میں شمار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جن اور عفریت مسخر کر دیے اور آپ کو ان پر تسلط بخشا۔ وہ آپ کے لیے بڑے بڑے کام کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے کاموں کو ان کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ ان میں کچھ جن وہ تھے جو سمندر میں غوطہ لگاتے اور اس کی تہہ سے موتی نکالتے تھے اور کچھ وہ تھے جو ان کے لیے ﴿ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ ﴾ (سبا:34؍13) ’’اونچی محرابیں (عمارتیں ) تصویریں ، بڑے بڑے حوض کی مانند لگن اور اپنی جگہ پر جمی ہوئی بڑی بڑی دیگیں بناتے تھے۔‘‘ اور ان میں سے ایک گروہ کو بیت المقدس کی تعمیر کے لیے مسخر کر رکھا تھا۔ جب سلیمان u نے وفات پائی تو جن بیت المقدس کی تعمیر میں مصروف تھے آپ کی وفات کے بعد ایک سال تک یہ کام کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو آپ کی وفات کا علم ہو گیا جیسا کہ ان شاء اللہ عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ ﴿وَؔكُنَّا لَهُمْ حٰؔفِظِیْنَ﴾ ’’اور ہم ان کی حفاظت کرنے والے تھے۔‘‘ یعنی وہ سلیمان u کی نافرمانی پر قادر نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت، غلبہ اور تسلط کے ذریعے سے ان کو حضرت سلیمانu کا مطیع کر رکھا تھا۔
آیت: 83 - 84 #
{وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (83) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ (84)}.
اور (یاد کیجیے) ایوب کو، جب پکارا تھا اس نے اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف، او ر تو زیادہ رحم کرنے والوں سے (83) پس قبول کی ہم نے (دعا) اس کی، پھر ہٹا دی ہم نے جو کچھ کہ تھی اسے کوئی تکلیف اور دیا ہم نے اسے اہل (کنبہ) اس کا اورمثل ان کے اور لوگ بھی ساتھ ان کے، رحمت کرتے ہوئے اپنی طرف سے اور نصیحت ہے عبادت کرنے والوں کے لیے (84)
#
{83} أي: واذكُر عبدَنا ورسولَنا أيوب مثنياً معظماً له رافعاً لقدرِهِ حين ابتلاه ببلاء شديدٍ فوجَدَه صابراً راضياً عنه، وذلك أنَّ الشيطان سُلِّطَ على جسدِهِ ابتلاءً من اللَّه وامتحاناً، فنفخ في جسدِهِ، فتقرَّح قروحاً عظيمةً، ومكث مدَّةً طويلة، واشتدَّ به البلاءُ، ومات أهلُه، وذهب مالُه، فنادى ربَّه: ربِّ {أَنَّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وأنتَ أرحم الراحمين}: فتوسَّل إلى الله بالإخبار عن حال نفسه، وأنَّه بلغ الضرُّ منه كلَّ مبلغ، وبرحمة ربِّه الواسعة العامة.
[83] یعنی ہمارے بندے اور رسول ایوب (u) کا تعظیم و ثنا اور ان کی قدرو منزلت بڑھاتے ہوئے ذکرکیجیے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک نہایت ہی سخت آزمائش میں مبتلا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو صابر اور اللہ سے راضی پایا… اور یہ اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا اور آزمائش کے طور پر شیطان کو آپ پر مسلط کر دیا گیا۔ شیطان نے آپ کے جسم پر پھونک ماری جس کے نتیجہ میں جسم پر بڑے بڑے پھوڑے بن گئے، وہ اس امتحان اور مصیبت میں مدت تک مبتلا رہے۔ اس دوران میں آپ کے گھر والے وفات پا گئے، آپ کا تمام مال چلا گیا تب حضرت ایوب نے اپنے رب کو پکارا: ﴿ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّ٘رُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ﴾ ’’مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پس انھوں نے اپنے حال کے ذکر کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اب تکلیف اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے۔
#
{84} فاستجاب الله له وقال له: {اركُضْ برجلِكَ هذا مغتسَلٌ باردٌ وشرابٌ}: فركض برجلِهِ، فخرجتْ من ركضتِهِ عينُ ماء باردةٍ، فاغتسل منها، وشرب، فأذهب الله ما به من الأذى. {وآتَيْناه أهلَه}؛ أي: ردَدْنا عليه أهله وماله. {ومثلَهم معهم}: بأن منحه الله [مع] العافية من الأهل والمال شيئاً كثيراً، {رحمةً من عندنا}: به حيثُ صَبَرَ ورضي، فأثابه الله ثواباً عاجلاً قبل ثواب الآخرة. {وذِكْرى للعابدينَ}؛ أي: جعلناه عبرةً للعابدين الذين ينتفعون بالصبرِ؛ فإذا رأوا ما أصابه من البلاءِ، ثم ما أثابه بعد زواله، ونظروا السببَ؛ وجدوه الصبر، ولهذا أثنى الله عليه به في قوله: {إنَّا وَجَدْناه صابراً نعم العبدُ إنَّه أوابٌ}، فجعلوه أسوةً وقدوةً عندما يصيبُهُم الضرُّ.
[84] ان کے رب نے اپنی بے پایاں رحمت سے ان کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا: ﴿ اُرْؔكُ٘ضْ بِرِجْلِكَ١ۚ هٰؔذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ﴾ (ص:38؍42) ’’زمین پر اپنا پاؤں مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لیے۔‘‘ ایوب u نے زمین پر ایڑی ماری اور وہاں سے ٹھنڈے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ آپ نے اس پانی کو پیا اور اس سے غسل کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تکلیف دور کر دی۔ ﴿وَّاٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ ﴾ یعنی ہم نے ان کو ان کا مال اور اہل و عیال واپس لوٹا دیے ﴿ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ ﴾ ’’اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور۔‘‘ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عافیت، اہل و عیال اور بہت سا مال عطا کیا ﴿ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا ﴾ ’’اپنی طرف سے مہربانی کرتے ہوئے۔‘‘ کیونکہ آپ نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ پر راضی رہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخروی ثواب سے پہلے دنیاوی ثواب سے سرفراز کیا۔ ﴿ وَذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ ﴾ ہم نے اس واقعہ کو عبادت گزاروں کے لیے عبرت بنا دیا جو صبر سے کام لیتے ہیں ۔ اگر لوگ دیکھیں کہ ایوب u کس آزمائش میں مبتلا ہوئے پھر اس مصیبت کے زائل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنے بڑے ثواب سے نوازا تو صبر ہی کو اس کا سبب پائیں گے۔ بناء بریں اللہ تعالیٰ نے ایوب u کی ان الفاظ میں مدح فرمائی۔ ﴿اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا١ؕ نِعْمَ الْعَبْدُ١ؕ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ﴾ (ص:38؍44) ’’ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندہ اور اپنے رب کی طرف بہت ہی رجوع کرنے والا تھا۔‘‘ جب اہل ایمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو حضرت ایوبu کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صبر کرتے ہیں ۔
آیت: 85 - 86 #
{وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ (85) وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِينَ (86)}.
اور (یاد کیجیے) اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو ہر ایک (ان میں سے) تھا صبر کرنے والوں سے (85) اور داخل کیا ہم نے انھیں اپنی رحمت میں ، بے شک وہ تھے صالح لوگوں میں سے (86)
#
{85} أي: واذكُرْ عبادنا المصطَفَيْن وأنبياءنا المرسلين بأحسن الذِّكر، واثْنِ عليهم أبلغ الثناء: {إسماعيل} ابن إبراهيم، {وإدريس وذا الكفل}: نَبِيَّيْنِ من أنبياء بني إسرائيل؛ {كلٌّ} من هؤلاء المذكورين {من الصابرين}. والصبر: هو حَبْسُ النفس ومنعها مما تميل بطبعها إليه، وهذا يشملُ أنواع الصبر الثلاثة: الصبرُ على طاعة الله، والصبرُ عن معصيةِ الله، والصبرُ على أقدار الله المؤلمة. فلا يستحقُّ العبد اسم الصبرِ التامِّ حتى يوفِّي هذه الثلاثة حقَّها؛ فهؤلاء الأنبياء عليهم الصلاة والسلام قد وَصَفَهم الله بالصبرِ؛ فدلَّ أنَّهم وفَّوْها حقَّها وقاموا بها كما ينبغي.
[85] یعنی ہمارے چنے ہوئے بندوں اور انبیاء و مرسلین کو بہترین اسلوب میں یاد کیجیے اور بلیغ ترین پیرائے میں ان کی مدح و ثنا کیجیے، یعنی اسماعیل، ادریس، ذوالکفل اور بنی اسرائیل کے انبیاءo کا ذکر کیجیے۔ ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ یعنی تمام انبیاء جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ﴿ مِّنَ الصّٰؔبِرِیْنَ﴾ صبر کرنے والے تھے۔ صبر سے مراد نفس کو اس کی طبیعت کی طرف مائل ہونے سے روکنا ہے اور یہ صبر تین انواع پر مشتمل ہے۔ ۱۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر (یعنی اس کے حکموں کی پابندی) کرنا۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر کرنا (یعنی اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرنا) ۳۔ اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضاو قدر پر صبر کرنا۔ بندہ صبر کامل کے نام کا اس وقت تک مستحق نہیں ہوتا جب تک کہ صبر کی مذکورہ تینوں اقسام کا حق ادا نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کو صبر کی صفت کے ساتھ موصوف کیا ہے، لہٰذا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے صبر کی ان تینوں اقسام کو پورا کیا اور صبر کا اسی طرح التزام کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا۔
#
{86} ووصفهم أيضاً بالصلاح، وهو يشمَلُ: صلاح القلب بمعرفة الله ومحبَّته والإنابة إليه كلَّ وقت، وصلاح اللسان؛ بأنْ يكون رطباً من ذكر الله، وصلاح الجوارح باشتغالها بطاعة الله وكفِّها عن المعاصي. فبصبرهم وصلاحهم أدخلهم الله برحمتِهِ، وجعلهم مع إخوانِهِم من المرسلين، وأثابهم الثواب العاجل والآجل، ولو لم يكنْ من ثوابهم إلاَّ أنَّ الله تعالى نَوَّهَ بذكرِهم في العالمين، وجعل لهم لسانَ صدقٍ في الآخرين؛ لكفى بذلك شرفاً وفضلاً.
[86] نیز ان کو ’’صلاح‘‘ کی صفت سے موصوف فرمایا جو مشتمل ہے صلاح قلب پر جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور ہر وقت اس کی طرف انابت سے حاصل ہوتی ہے اور صلاح لسان پر، جس کا مطلب ہر وقت زبان کا اللہ کے ذکر سے تر رہنا ہے اور صلاح جوارح پر، جس کا مطلب جوارح (اعضاء) کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھنا اور نافرمانی سے ان کو روکے رکھنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے صبر اور صلاح کی بناء پر اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں سمیٹ لیا، ان کو ان کے دیگر برادر انبیاء و مرسلین میں شامل کیا اور انھیں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا ثواب عطا نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اللہ نے جو دنیا میں ان کا ذکر بلند کیا ہے اور آئندہ لوگوں میں انھیں سچی شہرت عطا کی ہے تو ان کے فضل و شرف کے لیے یہی کافی تھا۔
آیت: 87 - 88 #
{وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (87) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ (88)}.
اور (یاد کیجیے) مچھلی والے (یونس) کو، جب چلا گیا تھا وہ (اپنی قوم سے) ناراض ہو کر، پس گمان کیا اس نے کہ ہرگز نہیں تنگی کریں گے ہم اس پر، پس پکارا اس نے اندھیروں میں یہ کہ نہیں ہے کوئی معبود (مشکل کشا) مگر تو ہی، پاک ہے تو، بلاشبہ میں ہی ہوں ظالموں میں سے (87) پس قبول کی ہم نے (دعا) اس کی اور نجات دی ہم نے اسے (اس) غم سےاور اسی طرح نجات دیتے ہیں ہم مومنوں کو (88)
#
{87 ـ 88} أي: واذكرْ عبدَنا ورسولَنا {ذَا النُّونِ}، وهو يونُس؛ أي: صاحب النون، وهي الحوت، بالذكر الجميل والثناء الحسن؛ فإنَّ الله تعالى أرسله إلى قومه، فدعاهم، فلم يؤمنوا، فوعدهم بنزول العذاب بأمدٍ سمَّاه لهم، فجاءهم العذابُ، ورأوه عِياناً، فعَجُّوا إلى الله وضجُّوا وتابوا، فرفع الله عنهم العذاب؛ كما قال تعالى: {فلولا كانت قريةٌ آمنتْ فَنَفَعَها إيمانُها إلاَّ قومَ يونُسَ لما آمنوا كَشَفْنا عنهم عذابَ الخِزْي في الحياة الدنيا ومتَّعْناهم إلى حين}، وقال: {وأرسَلْناه إلى مائةِ ألفٍ أو يزيدونَ. فآمَنوا فَمَتَّعْناهم إلى حينٍ}. وهذه الأمَّة العظيمة الذين آمنوا بدعوة يونس من أكبر فضائله، ولكنه عليه الصلاة والسلام ذَهَبَ مغاضِباً وأبَقَ عن ربِّه لذنبٍ من الذُّنوب التي لم يَذْكُرها الله لنا في كتابه ولا حاجة لنا إلى تعيينها؛ لقوله: {إذْ أبَقَ إلى الفُلْكِ ... وهو مليمٌ}؛ أي: فاعلٌ ما يُلام عليه، [والظاهر أن عجلته ومغاضبته لقومه وخروجه من بين أظهرهم قبل أن يأمره اللَّه بذلك]. وظنَّ أنَّ الله لا يقدر عليه؛ أي: يضيِّق عليه في بطن الحوت، أو ظنَّ أنَّه سيفوتُ الله تعالى، ولا مانع من عُروض هذا الظنِّ للكمَّل من الخلق على وجهٍ لا يستقرُّ ولا يستمرُّ عليه، فركب في السفينة مع أناس، فاقْتَرَعوا مَنْ يُلقون منهم في البحر لما خافوا الغرق إن بَقُوا كلُّهم، فأصابت القرعةُ يونس، فالتقمه الحوتُ، وذهب فيه إلى ظلمات البحار، فنادى في تلك الظلمات: {لا إله إلا أنتَ سبحانَكَ إني كنتُ من الظالمينَ}، فأقرَّ لله تعالى بكمال الألوهيَّة، ونزَّهه عن كل نقص وعيبٍ وآفةٍ، واعترفَ بظلم نفسِهِ وجنايتِهِ؛ قال الله تعالى: {فَلَوْلا أنَّه كان من المسبِّحين. لَلَبِثَ في بطنِهِ إلى يوم يبعثون}، ولهذا قال هنا: {فاستَجَبْنا له ونَجَّيْناه من الغمِّ}؛ أي: الشدَّة التي وقع فيها، {وكذلك نُنْجي المؤمنينَ}: وهذا وعدٌ وبشارةٌ لكلِّ مؤمن وقع في شدَّة وغمٍّ: أنَّ الله تعالى سَيُنجيه منها ويكشِفُ عنه، ويخفِّفُ لإيمانِهِ؛ كما فعل بيونس عليه السلام.
[88-87] یعنی ہمارے بندے اور رسول ذوالنون کو ذکر جمیل اور ثنائے حسن کے ساتھ یاد کریں اور ذوالنون سے مراد حضرت یونس u ہیں ، یعنی مچھلی والے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی مگر وہ ایمان نہ لائے۔ حضرت یونس u نے ان کو نزول عذاب کی وعید سنائی اور عذاب کے نزول کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا۔پس جب ان پر عذاب آیا اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے اور توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَ٘رْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُ٘سَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ ﴾ (یونس:10؍98) ’’کوئی ایسی بستی کی مثال ہے جو عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان لانے نے اس کو کوئی فائدہ دیا ہو۔ قوم یونس کے سوا۔ وہ لوگ جب ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوا کن عذاب کو ٹال دیا اور ایک مدت تک کے لیے ہم نے اس کو متاع دنیا سے بہرہ مند رکھا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ۰۰فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ ﴾ (الصافات:37؍147، 148) ’’اور ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے کچھ زائد لوگوں کی طرف مبعوث کیا پس وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ایک وقت تک ان کو متاع دنیا سے بہرہ مند رکھا۔‘‘ یہ ایک بہت بڑی امت تھی جو یونس u پر ایمان لائی۔ یہ واقعہ آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ مگر حضرت یونس u، کسی گناہ کی بنا پر، ناراضی کی حالت میں اپنے رب سے فرار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ وہ کونسا گناہ تھا اور اس کے تعین کی ہمیں حاجت بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ۰۰فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَۚ۰۰فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِیْمٌ ﴾ (الصافات:37؍140۔142) ’’جب وہ فرار ہو کر ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف آیا۔ پس وہ قرعہ اندازی میں شامل ہوا اور ہار گیا۔ آخر مچھلی نے اس کو نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔‘‘ یعنی وہ قابل ملامت فعل کا ارتکاب کرنے والے تھے۔ ظاہری طورپر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا جلدی کرنا، قوم پر غصہ ہونا اور ان کے پاس سے نکل بھاگنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہلے تھا۔ اور ان کو گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان پر قدرت نہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ ان کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس نہیں کر سکتا یا ان کا خیال تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نکل بھاگیں گے اور مخلوق میں سے کسی کو بھی ایسا گمان پیش آنے سے کچھ مانع نہیں مگر اس طرح کہ اس کو استقرار اور استمرار حاصل نہ ہو… پس یونس u بھاگ کر کچھ لوگوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گئے… اور انھوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ ان میں سے کس کو سمندر میں پھینکا جائے کیونکہ انھیں خوف تھا کہ اگر سب کشتی میں رہے تو کشتی ڈوب جائے گی۔ قرعہ یونس u کے نام کا نکلا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی ان کو نگل کر سمندر کی گہرائیوں میں لے کر چلی گئی۔ سمندر کی ان تاریکیوں میں حضرت یونسu نے اپنے رب کو پکارا: ﴿ لَّاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰؔنَكَ١ۖ ۗ اِنِّیْؔ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ پس حضرت یونس u نے اللہ کی کامل الوہیت کا اقرار کیا، اس کی ذات مقدس کو ہر نقص، ہر عیب اور ہر آفت سے منزہ اور پاک قرار دیا اور اپنے ظلم و جرم کا اعتراف کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَوْلَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۠ۙ۰۰لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ﴾ (الصافات:37؍143، 144) ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتا تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتا۔ ‘‘ اسی لیے یہاں فرمایا: ﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ۙ وَنَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ﴾ ’’ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی۔‘‘ یعنی اس مصیبت سے نجات دی جس میں وہ مبتلا ہو گئے تھے۔ ﴿ وَؔكَذٰلِكَ نُـْۨجِي الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں ۔‘‘ یہ ہر اس مومن کے لیے وعدہ اور بشارت ہے جو کسی مصیبت اور غم میں مبتلا ہو جائے۔ یقینا اللہ تعالیٰ اس کو اس مصیبت سے نجات دے گا، اس کے ایمان کے سبب سے اس کی مصیبت کو دور کر دے گا۔ جیسا کہ اس نے حضرت یونس u کے ساتھ کیا تھا۔
آیت: 89 - 90 #
{وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (89) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (90)}.
اور (یاد کیجیے) زکریا کو، جب پکارا تھا اس نے اپنے رب کو، اے میرے رب! نہ چھوڑ تو مجھے تنہا اور تو ہی ہے سب سے بہترین وارث (89) پس قبول کی ہم نے (دعا) اس کی اورعطا کیا ہم نے اسے یحیی اوردرست کر دیا ہم نے اس کے لیے اس کی بیوی کو، بے شک وہ (انبیاء) تھے جلدی کرتے نیکی کے کاموں میں اور پکارتے تھے ہمیں رغبت کرتے اور خوف کھاتے ہوئےاور تھے وہ ہمارے لیے عاجزی کرنے والے (90)
#
{89} أي: واذكر عبدَنا ورسولَنا زكريَّا، منوِّهاً بذكره، ناشراً لمناقبه وفضائله التي من جملتها هذه المنقبةُ العظيمة، المتضمِّنة لنُصحه للخلق ورحمة الله إيَّاه، وأنه {نادى ربَّه ربِّ لا تَذَرْني فَرْداً}؛ أي: {قال ربِّ إنِّي وَهَنَ العظمُ منِّي واشتعلَ الرأسُ شيباً ولم أكُن بدعائِكَ ربِّ شقيًّا. وإنِّي خفتُ المواليَ من ورائي وكانتِ امرأتي عاقراً فَهَبْ لي مِن لَدُنكَ وَلِيًّا. يرِثُني ويرثُ من آل يعقوبَ واجْعَلْه ربِّ رضيًّا}: من هذه الآيات علِمْنا أنَّ قوله: {ربِّ لا تذرني فرداً}: أنَّه لما تقارب أجلُه؛ خاف أن لا يقوم أحدٌ بعده مقامَه في الدعوة إلى الله والنُّصح لعباد الله، وأن يكون في وقتِهِ فرداً ولا يُخْلِفَ من يشفَعُه ويعينُه على ما قام به. {وأنت خير الوارثين}؛ أي: خير الباقين، وخيرُ من خَلَفَني بخيرٍ، وأنت أرحمُ بعبادك منِّي، ولكنِّي أريدُ ما يطمئنُّ به قلبي، وتسكنُ له نفسي ويجري في موازيني ثوابه.
[89] یعنی ہمارے بندے اور رسول زکریاu کو اس کی تعریف و تعظیم کے ساتھ اور ان مناقب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے یاد کیجیے۔ ان جملہ فضائل میں یہ عظیم منقبت بھی شامل ہے کہ انھوں نے مخلوق کے ساتھ خیرخواہی کی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوئی۔ زکریا u نے اپنے رب کو پکارا: ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا﴾ ’’اے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑنا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہا: ﴿رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَكُ٘نْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّا۰۰وَاِنِّیْ خِفْتُ الْ٘مَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَؔكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ۰۰یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖ ۗ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ﴾ (مریم:19؍4-6) ’’اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور پڑ گئیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہو گیا۔ اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اپنی عنایت سے مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! تو اسے ایک پسندیدہ انسان بنا۔‘‘ ان آیات کریمہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت زکریا u کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور مخلوق کے ساتھ خیرخواہی کرنے کے لیے کوئی آپ کا قائم مقام نہ ہو گا، نیز یہ کہ حضرت زکریاu اس وقت تنہا تھے کوئی ان کا خلف رشید نہ تھا جو دعوت میں ان کی اعانت کرتا۔ ﴿ وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ ﴾ یعنی تو باقی رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور بھلائی میں میرے کسی خلف رشید سے بہتر ہے اور تو اپنے بندوں کے ساتھ مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ میرا دل مطمئن اور نفس کو سکون حاصل ہو اور میرے لیے اس کا ثواب جاری رہے۔
#
{90} {فاستجَبْنا له ووَهَبْنا له يحيى}: النبيَّ الكريمَ، الذي لم يجعل الله له من قبل سميًّا، {وأصْلَحْنا له زَوْجَه}: بعدما كانت عاقراً لا يصلُحُ رحمها للولادةِ، فأصلح الله رَحِمَها للحمل لأجل نبيِّه زكريا، وهذا من فوائد الجليس والقرين الصالح؛ أنَّه مباركٌ على قرينه، فصار يحيى مشتركاً بين الوالدين. ولما ذَكَرَ هؤلاء الأنبياء والمرسلين كلًّا على انفراده؛ أثنى عليهم عموماً، فقال: {إنَّهم كانوا يسارِعون في الخيراتِ}؛ أي: يبادرون إليها، ويفعلونها في أوقاتها الفاضلة، ويكمِّلونها على الوجه اللائق الذي ينبغي، ولا يتركون فضيلةً يقدِرون عليها إلا انتهزوا الفرصة فيها. {ويَدْعوننا رَغَباً ورَهَباً}؛ أي: يسألوننا الأمورَ المرغوب فيها من مصالح الدنيا والآخرة، ويتعوَّذون بنا من الأمور المرهوب منها من مضارِّ الدارين، وهم راغبون [راهبون]، لا غافلون لاهون، ولا مدلون. {وكانوا لَنا خاشعينَ}؛ أي: خاضعين متذلِّلين متضرِّعين، وهذا لكمال معرفتهم بربِّهم.
[90] ﴿فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ٞ وَوَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى﴾ ’’پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا۔‘‘ جو ایسا مکرم نبی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس نام کا کوئی شخص نہیں کیا ﴿وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ﴾ ’’اور ہم نے درست کر دیا اس کے لیے اس کی بیوی کو۔‘‘ یعنی حضرت زکریاu کی بیوی بانجھ تھیں اور ان کا رحم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا u کی خاطر ان کے رحم کو درست کر کے اسے حمل کے قابل بنا دیا۔ نیک ساتھی اور ہم نشین کے فوائد میں سے ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے لیے بابرکت ہوتا ہے۔ پس حضرت یحییٰ u ماں باپ میں (برکت کے لیے) مشترک ہو گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء و مرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ﴾ یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لیے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے۔ ﴿وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ﴾ یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں ، خوفناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرأت کرتے تھے۔ ﴿وَؔكَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ﴾ یعنی ہمارے سامنے خشوع، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے۔
آیت: 91 - 94 #
{وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (91) إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (92) وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ (93) فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ (94)}.
اور (یاد کیجیے) اس عورت کو جس نے حفاظت کی تھی اپنی شرم گاہ کی، پس پھونکی ہم نے اس میں اپنی روح اور بنایا ہم نے اسے اور اس کے بیٹے (عیسیٰ) کو (عظیم) نشانی جہان والوں کے لیے (91) بلاشبہ یہ تمھارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمھارا رب ہوں ، سو تم میری ہی عبادت کرو (92) اور ٹکڑے ٹکڑے کر لیا انھوں نے اپنا کام آپس میں (وہ) سب ہماری ہی طرف لوٹنے والے ہیں (93) پس جو شخص عمل کرے نیک جبکہ وہ مومن ہو تو نہیں انکار کیا جائے گا ان کی کوشش کا اور بے شک ہم ہیں اس کے لیے لکھنے والے (94)
#
{91} أي: واذكر مريم عليها السلام مثنياً عليها مبيِّناً لقَدْرها شاهراً لشرفها، فقال: {والتي أحصَنَتْ فرجَها}؛ أي: حفظته من الحرام وقربانه، بل ومن الحلال، فلم تتزوَّج؛ لاشتغالها بالعبادة واستغراق وقتها بالخدمةِ لربِّها، وحين جاءها جبريل في صورة بشرٍ سويٍّ تامِّ الخَلْق والحسن؛ {قالتْ إنِّي أعوذُ بالرحمن منك إن كنتَ تقيًّا}، فجازاها اللَّه من جنس عملها ورزقها ولداً من غير أب، بل نَفَخَ فيها جبريلُ عليه السلام، فحملت بإذنِ الله، {وجَعَلْناها وابْنها آيةً للعالمين}؛ حيثُ حملت به ووضَعَتْه من دون مسيس أحدٍ، وحيث تكلَّم في المهد، وبرَّأها مما ظنَّ بها المتَّهِمُون، وأخبر عن نفسه في تلك الحالة، وأجرى الله على يديه من الخوارق والمعجزات ما هو معلوم، فكانت وابنها آيةً للعالمين، يتحدَّث بها جيلاً بعد جيل، ويعتبر بها المعتبرون.
[91] یعنی مریم[ کا، ان کی مدح و ثنا کے ساتھ، ان کی قدر و منزلت کا بیان اور ان کے فضل و شرف کا اعلان کرتے ہوئے، ذکر کیجیے! فرمایا: ﴿وَالَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ﴾ یعنی جس نے حرام کے قریب جانے سے بلکہ حلال سے بھی اپنی شرمگاہ کو بچائے رکھا۔ پس مریم[ نے ہمہ وقت عبادت میں مشغول اور اپنے رب کی خدمت میں مستغرق رہنے کی وجہ سے شادی نہیں کی تھی۔ جب حضرت جبریل u ایک کامل اور خوبصورت مرد کی شکل میں مریم[ کے پاس آئے تو آپ کہنے لگیں : ﴿اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا ﴾ (مریم:19؍18) ’’میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ، اگر تو اللہ سے ڈرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم[ کو ان کے عمل کی جنس ہی سے اس کا بدلہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر باپ کے ایک بیٹے سے نوازا۔ جبریل u نے پھونک ماری تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مریم[ کو حمل ٹھہر گیا ﴿ وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور کر دیا ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے کو نشانی جہانوں کے لیے۔‘‘ کیونکہ حضرت مریم[ کو بغیر کسی مرد کے چھوئے حمل ٹھہرا اور پھر بیٹے کو جنم دیا اور اس بیٹے نے گہوارے میں کلام کیا اور بہتان طراز آپ پر جو تہمت لگاتے تھے اس سے مریم[ کی براء ت کا اعلان کیا اور اسی حالت میں انھوں نے اپنے بارے میں آگاہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر معجزات ظاہر فرمائے جو کہ سب کو معلوم ہیں ۔ حضرت مریم اور ان کا فرزند ارجمندi تمام جہانوں کے لیے ایک نشانی بن گئے لوگ نسل در نسل اس واقعے کو بیان کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں ۔
#
{92} ولما ذَكَرَ الأنبياء عليهم السلام؛ قال مخاطباً للناس: و {إنَّ هذه أمَّتُكم أمةً واحدةً}؛ أي: هؤلاء الرسل المذكورون هم أمَّتُكم وأئمَّتُكم الذين بهم تأتمُّون وبهديهم تقتدون، كلُّهم على دينٍ واحدٍ وصراطٍ واحدٍ، والربُّ أيضاً واحدٌ، ولهذا قال: {وأنا ربُّكم}: الذي خلقتُكم وربَّيتكم بنعمتي في الدين والدُّنيا؛ فإذا كان الربُّ واحداً والنبيُّ واحداً والدين واحداً، وهو عبادةُ الله وحده لا شريك له بجميع أنواع العبادة؛ كان وظيفتُكم والواجبُ عليكم القيامَ بها، ولهذا قال: {فاعبدونِ}: فرتَّب العبادة على ما سبق بالفاء ترتيب المسبب على سببه.
[92] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے کرامo کا ذکر فرمایا تو لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ﴿ اِنَّ هٰؔذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً﴾ یہ تمام انبیاء و مرسلین جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے وہ تمھاری امت اور تمھارے امام ہیں جن کی راہنمائی میں تم ان کے طریقے کی پیروی کرتے ہو۔ ان سب کا دین ایک، سب کا راستہ ایک اور سب کا رب ایک ہے۔ بناء بریں فرمایا: ﴿ وَّاَنَا رَبُّكُمْ ﴾ میں تمھارا رب ہوں جس نے تمھیں پیدا کیا اور دین و دنیا میں اپنی نعمت کے ذریعے سے تمھاری پرورش کی۔ جب تمھارا رب ایک، تمھارا نبی ایک اور تمھارا دین ایک، یعنی عبادت کی تمام انواع کے ذریعے ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا… تو تمھارا وظیفہ اور تم پر فرض ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو، اس لیے فرمایا: ﴿ فَاعْبُدُوْنِ ﴾ ’’پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ پس حرف ’’فاء‘‘ کے ذریعے سے اس جملے کو گزشتہ مضمون کے ساتھ اس طرح مرتب کیا جس طرح مسبب سبب پر مترتب ہوتا ہے۔
#
{93} وكان اللائق الاجتماع على هذا الأمر وعدم التفرُّق فيه، ولكنَّ البغيَ والاعتداءَ أبيا إلاَّ الافتراق والتقطُّع، ولهذا قال: {وتقطَّعوا أمْرَهُم بينَهم}؛ أي: تفرَّق الأحزابُ المنتسبون لأتباع الأنبياء فرقاً، وتشتَّتوا كلٌّ يدَّعي أن الحقَّ معه والباطل مع الفريق الآخر، وكلُّ حزبٍ بما لديهم فرحون. وقد عُلِمَ أنَّ المصيب منهم مَنْ كان سالكاً للدين القويم والصراط المستقيم، مؤتماً بالأنبياء، وسيظهر هذا إذا انكشَفَ الغطاء، وبَرَحَ الخفاءُ، وحَشَرَ الله الناس لفصل القضاء؛ فحينئذٍ يتبيَّن الصادق من الكاذب، ولهذا قال: {كلٌّ}: من الفرق المتفرِّقةِ وغيرهم، {إلينا راجعونَ}؛ أي: فنجازيهم أتمَّ الجزاء.
[93] مناسب یہی تھا کہ اس امر پر سب کا اتفاق اور اجتماع ہوتا اور اس میں تفرق اور تشتت نہ ہوتا مگر ظلم اور زیادتی سے افتراق اور تشتت پیدا ہو کر ہی رہا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ﴾ یعنی انبیائے کرام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے، فرقوں میں تقسیم اور تشتت کا شکار ہو گئے۔ ان میں ہر فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ حق اس کے ساتھ ہے اور دوسرا فرقہ باطل پر ہے۔ ﴿كُ٘لُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ ﴾ (الروم:30؍32) اور یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے راہ صواب پر صرف وہی ہے جو انبیاء کرام o کی اتباع کرتے ہوئے دین قویم اور صراط مستقیم پر گامزن ہے… اور یہ حقیقت اس وقت ظاہر ہو گی جب پردہ ہٹ جائے گا اور اصلیت سامنے آ جائے گی اور اللہ تعالیٰ فیصلوں کے لیے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا تب اس وقت صاف نظر آئے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون، اس لیے فرمایا: ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ تمام فرقوں میں سے ہر فرقہ ﴿ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ ﴾ ہماری ہی طرف لوٹے گا اور ہم اسے پوری پوری جزا دیں گے۔
#
{94} ثم فصَّل جزاءه فيهم منطوقاً ومفهوماً، فقال: {فَمَن يعملْ من الصالحاتِ}؛ أي: الأعمال التي شرعَتْها الرسلُ وحَثَّتْ عليها الكتب، {وهو مؤمنٌ}: بالله وبرسله وما جاؤوا به، {فلا كفرانَ لسعيِهِ}؛ أي: لا نضيع سَعْيَهُ ولا نبطِلُه، بل نضاعِفُه له أضعافاً كثيرةً. {وإنَّا له كاتبونَ}؛ أي: مثبتون له في اللوح المحفوظ وفي الصُّحف التي مع الحفظة؛ أي: ومن لم يَعْمَلْ من الصالحات أو عَمِلَها وهو ليس بمؤمن؛ فإنَّه محرومٌ خاسرٌ في دينه ودنياه.
[94] پھر منطوق اور مفہوم کے اسلوب میں ، اس جزا کی تفصیل بیان کی، فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ یعنی ایسے عمل كيے جن کو انبیائے کرام نے مشروع کیا اور کتب الٰہیہ نے ان کی ترغیب دی۔ ﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو۔ ﴿ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ﴾ یعنی ہم اس کی کوششوں کو ضائع کریں گے نہ باطل کریں گے بلکہ اس کو کئی گنا بڑھا کر اجر عطا کریں گے۔ ﴿ وَاِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْن ﴾ یعنی ہم اس کی کوشش کو لوح محفوظ اور ان صحیفوں میں لکھنے والے ہیں جو کرام الکاتبین کے پاس ہیں ۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کوئی نیک کام کرے اور وہ مومن نہ ہو تو وہ ثواب آخرت سے محروم اور اپنے دین و دنیا میں خائب و خاسر ہو گا۔
آیت: 95 #
{وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (95)}.
اور لازم ہے اوپر اس بستی (والوں ) کے کہ ہلاک کیا ہم نے اسے،بے شک وہ نہیں واپس لوٹیں گے (95)
#
{95} أي: يمتنعُ على القُرى المُهْلَكَة المعذَّبة الرُّجوع إلى الدُّنيا ليستدرِكوا ما فَرَّطوا فيه؛ فلا سبيلَ إلى الرجوع لمن أُهْلِكَ وعذِّب، فليحذرِ المخاطبون أن يستمرُّوا على ما يوجب الإهلاك، فيقع بهم، فلا يمكن رفعهُ، وليقلِعوا وقتَ الإمكان والإدراك.
[95] یعنی ان بستیوں کا، جنھیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا گیا، اپنی کوتاہیوں کی تلافی کی خاطر اس دنیا میں واپس لوٹنا ممکن نہیں ، پس ان کے لیے واپس لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں جنھیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا گیا۔ اس لیے مخاطبین کو ان اعمال پر جمے رہنے سے ڈرنا چاہیے جو ہلاکت کا باعث بنتے ہیں … مباداکہ یہ اعمال انھیں ہلاکت میں ڈال دیں اور اس وقت اس ہلاکت سے بچنا ممکن نہ ہو گا، اس لیے تلافی اور استدراک کے وقت اس قسم کے کاموں سے باز آ جانا چاہیے۔
آیت: 96 - 97 #
{حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (96) وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَاوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ (97)}.
یہاں تک کہ جب کھولے جائیں گے یاجوج اور ماجوج اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوں گے (96) اور قریب آپہنچے گا وعدہ سچا (قیامت کا)، پس ناگہاں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا (اور وہ کہیں گے) ہائے ہماری کم بختی! تحقیق تھے ہم غفلت میں اس (قیامت) سےبلکہ تھے ہم ہی ظالم (97)
#
{96} هذا تحذيرٌ من الله للناس أن يُقيموا على الكفرِ والمعاصي، وأنَّه قد قَرُبَ انفتاح يأجوجَ ومأجوجَ، وهما قبيلتان عظيمتان من بني آدم، وقد سدَّ عليهم ذو القرنينِ لما شُكِي إليه إفسادُهم في الأرض، وفي آخر الزمان ينفتحُ السدُّ عنهم؛ فيخرجونَ إلى الناس، وفي هذه الحالة والوصف الذي ذَكَرَهُ الله من كلِّ مكان مرتفع، وهو الحدب، {يَنسِلونَ}؛ أي: يسرعون. في هذا دلالةٌ على كثرتهم الباهرة، وإسراعهم في الأرض، إما بذواتِهِم، وإمَّا بما خَلَقَ الله لهم من الأسباب التي تقرِّبُ لهم البعيد، وتسهِّلُ عليهم الصعب، وأنَّهم يَقْهَرون الناس، ويَعْلون عليهم في الدُّنيا، وأنه لا يدان لأحدٍ بقتالهم.
[96] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لیے تحذیر ہے کہ وہ اپنے کفر اور معاصی پر جمے نہ رہیں ۔ یاجوج و ماجوج کے کھلنے کا وقت قریب ہے اور یاجوج و ماجوج بنی آدم کے دو قبیلوں کا نام ہے۔ جب ذوالقرنین سے ان کے فساد فی الارض کا شکوہ کیا گیا تو اس نے درے کو دیوار کے ذریعے بند کر کے ان کا راستہ مسدود کر دیا۔ آخری زمانے میں یہ درہ کھل جائے گا اور وہ اس طرح لوگوں کی طرف نکلیں گے جیسے اللہ نے یہاں ذکر فرمایا ہے کہ وہ نہایت تیزی سے ہر ٹیلے سے نیچے اترتے نظر آئیں گے۔ یہ آیت کریمہ ان کی کثرت اور نہایت تیزی کے ساتھ ان کے زمین میں پھیل جانے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی نقل و حرکت میں سرعت یا تو اس وجہ سے ہو گی کہ وہ جسمانی اعتبار سے نہایت پھرتیلے اور سریع الحرکت ہوں گے یا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ان اسباب کی وجہ سے، جو دور کی مسافتوں کو قریب اور آسان کر دیں گے۔ وہ لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے اور اس دنیا میں ان پر غالب آ جائیں گے، نیز یہ کہ کسی کے اندر ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہو گی۔
#
{97} {واقتربَ الوعدُ الحقُّ}؛ أي: يوم القيامة الذي وَعَدَ الله بإتيانه، ووعدُهُ حقٌّ وصدقٌ؛ ففي ذلك اليوم ترى أبصار الكفار شاخصةً من شدَّة الأفزاع والأهوال المزعجة والقلاقل المفظِعَة، وما كانوا يعرفون من جناياتهم وذنوبهم، وأنَّهم يَدْعون بالويل والثُّبور والندم والحسرةِ على ما فات ويقولون: لقد {كُنَّا في غفلةٍ من هذا} اليوم العظيم، فلم نَزَلْ فيها مستغرقين، وفي لهو الدُّنيا متمتِّعين، حتى أتانا اليقين، ووردْنا القيامةَ؛ فلو كان يموتُ أحدٌ من الندم والحسرة لماتوا. {بل كُنَّا ظالمينَ}: اعترفوا بظلمِهِم وعَدْل الله فيهم؛ فحينئذٍ يُؤْمَرُ بهم إلى النار هم وما كانوا يعبدون، ولهذا قال:
[97] ﴿ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ﴾ ’’اور قریب آ لگے گا برحق وعدہ۔‘‘ یعنی قیامت کا دن، جس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر کھا ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔ پس اس روز گھبراہٹ، خوف اور دہلا دینے والے زلزلوں سے کفار کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کیونکہ انھیں اپنے جرائم اور گناہوں کا علم ہو گا۔ وہ موت کو پکاریں گے اور اپنی کوتاہیوں پر ندامت اور حسرت کا اظہار کریں گے، کہیں گے: ﴿ قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰؔذَا﴾ ’’ہم اس عظیم دن سے غافل تھے‘‘ پس دنیا کے لہوولعب میں مستغرق رہے حتیٰ کہ فرشتہ اجل آ گیا اور ہم قیامت کی گھاٹی میں اتر گئے۔ اگر کوئی حسرت و ندامت کی وجہ سے مرتا ہو تو وہ ضرور مرتے۔ وہ کہیں گے ﴿ بَلْ كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ ﴾ ’’بلکہ ہم ہی ظالم تھے۔‘‘ وہ اپنے ظلم اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اعتراف کریں گے۔ اس وقت حکم دیا جائے گا کہ انھیں اور ان کے ان معبودوں کو جہنم میں جھونک دو جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا:
آیت: 98 - 103 #
{إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (98) لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ (99) لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ (100) إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (101) لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ (102) لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (103)}.
بلاشبہ تم اور و ہ جن کی تم عبادت کرتے تھے سوائے اللہ کے، ایندھن ہو گئے جہنم کا تم اس میں وارد ہونے والے ہو (98) اگر ہوتے یہ (واقعی) معبود تو نہ وارد ہوتے اس جہنم میں اور وہ سب اس میں ہمیشہ رہیں گے (99) ان کے لیے اس میں چیخنا چلانا ہو گا اور وہ اس میں (کچھ) نہ سنیں گے (100) بے شک وہ لوگ کہ پہلے سے ٹھہر چکی ہے ان کے لیے ہماری طرف سے نیکی، وہ لوگ اس سے دور رکھے جائیں گے(101) نہیں سنیں گے وہ آہٹ تک اس کی اور وہ ان (نعمتوں ) میں کہ جنھیں چاہیں گے نفس ان کے، ہمیشہ رہیں گے(102) نہیں غمگین کرے گی انھیں گبھراہٹ بڑی اور ملیں گے ان کو فرشتے (یہ کہتے ہوئے کہ) یہ ہے تمھارا دن وہ جو تھے تم (اس کا) وعدہ دیے جاتے (103)
#
{98} أي: وإنَّكم أيها العابدون، مع الله آلهةً غيره، {حَصَبُ جَهَنَّمَ}؛ أي: وقودها وحطبها، {أنتم لها واردونَ}: وأصنامُكم.
[98] یعنی اے وہ لوگو! جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو ﴿ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ تم سب جہنم کا ایندھن ہو ﴿ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ﴾ تمھیں اور تمھارے بتوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔
#
{99} والحكمةُ في دخول الأصنام النار وهي جمادٌ لا تعقِل، وليس عليها ذنبٌ؛ بيانُ كَذِبِ من اتَّخذها آلهةً، وليزداد عذابُهم؛ فلهذا قال: {لو كانَ هؤلاءِ آلهةً ما وَرَدوها}: هذا كقوله تعالى: {لِيُبَيِّنَ لهم الذي يختلفونَ فيه ولِيعلمَ الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبينَ}، وكلٌّ من العابدين والمعبودين فيها خالدون، لا يخرجون منها، ولا ينتقلون عنها.
[99] بتوں کو جہنم میں جھونکنے میں حکمت یہ ہے… حالانکہ یہ پتھر ہیں ، عقل و شعور نہیں رکھتے اور ان کا کوئی گناہ بھی نہیں … کہ ان کا کذب و افترا واضح ہو جائے جنھوں نے ان بتوں کو معبود بنا رکھا تھا اور تاکہ ان کے عذاب میں اضافہ ہو۔ اس لیے فرمایا: ﴿ لَوْ كَانَ هٰۤؤُلَآءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا ﴾ ’’اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو جہنم میں کبھی داخل نہ ہوتے۔‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مقدس کی مانند ہے۔ ﴿لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ ﴾ (النحل:16؍39) ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس حقیقت کو اضح کر دے جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور تاکہ کفار جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔‘‘ اور عابدومعبود سب ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اس سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے اور نہ جہنم سے کسی اور جگہ منتقل ہوں گے۔
#
{100} {لهم فيها زفيرٌ}: من شدَّة العذاب، {وهُم فيها لا يسمعونَ}: صمٌ بكمٌ عميٌ، أو لا يسمعون من الأصوات غيرَ صوتِها؛ لشدَّة غليانها، واشتداد زفيرها وتغيظها.
[100] ﴿ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ ﴾ ’’وہ جہنم میں پھنکاریں گے شدت عذاب کی وجہ سے ‘‘ ﴿ وَّهُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہوں گے یا جہنم کے سخت بھڑکنے، اس کے غیظ و غضب اور اس کی پھنکار کے باعث، جہنم کی آواز کے سوا کوئی اور آواز نہیں سن سکیں گے۔
#
{101 ـ 102} ودُخول آلهة المشركين النار إنَّما هو الأصنام أو مَنْ عُبِدَ وهو راضٍ بعبادتِهِ، وأمَّا المسيح وعزيرٌ والملائكةُ ونحوهم ممَّن عُبِد من الأولياء؛ فإنَّهم لا يعذَّبون فيها، ويدخُلون في قوله: {إنَّ الذين سَبَقَتْ لهم منّا الحُسنى}؛ أي: سبقت لهم سابقةُ السعادة في علم الله وفي اللَّوح المحفوظ وفي تيسيرهم في الدُّنيا لليسرى والأعمال الصالحة. {أولئك عنها}؛ أي: عن النار {مبعَدون}: فلا يدخُلونها، ولا يكونونَ قريباً منها، بل يُبْعدَون عنها غايةَ البعدِ، حتَّى لا يسمَعوا حسيسها، ولا يروا شخصَها. {وهم فيما اشتهتْ أنفسُهُم خالدونَ}: من المآكل والمشارب والمناكح والمناظر مما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعت ولا خَطَرَ على قلب بشر، مستمرٌّ لهم ذلك، يزداد حسنُه على الأحقاب.
[102,101] اور مشرکین کے معبودوں کا جہنم میں داخل ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ پتھر کے بت ہیں یا صرف اس شخص کو اپنی عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں جھونکا جائے گا جو اپنی عبادت كيے جانے پر راضی تھا۔ رہے حضرت مسیح، حضرت عزیرi، فرشتے اور اولیاء کرام جن کی عبادت کی جاتی ہے تو ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتے ہیں ۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّؔنَّا الْحُسْنٰۤى ﴾ ’’اور وہ لوگ کہ سبقت کر گئی ان کے لیے ہماری طرف سے بھلائی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کے لیے پہلے ہی سے لوح محفوظ میں سعادت لکھ دی گئی اور دنیا میں نیک اعمال ان کے لیے آسان کر دیے گئے ہیں ۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا ﴾ ’’یہ لوگ اس سے۔‘‘ یعنی جہنم سے ﴿ مُبْعَدُوْنَ﴾ ’’دور رکھے جائیں گے۔‘‘ پس وہ جہنم میں داخل ہوں گے نہ جہنم کے قریب جائیں گے بلکہ وہ اس سے انتہائی حد تک دور رہیں گے حتیٰ کہ اس کی آواز تک نہیں سنیں گے اور نہ اس کا نظارہ کر سکیں گے۔ ﴿ وَهُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰؔلِدُوْنَ ﴾ یعنی وہ اپنے من چاہے ماکولات، مشروبات، بیویوں اور دلکش مناظر میں ہمیشہ رہیں گے، جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان کے طائر خیال کا گزر ہوا ہے۔ یہ نعمتیں ان کے لیے ہمیشہ رہیں گی، ان کا حسن سالہا سال گزرنے پر بھی روز افزوں ہی رہے گا۔
#
{103} {لا يَحْزُنُهم الفزعُ الأكبرُ}؛ أي: لا يقلِقُهم إذا فزع الناس أكبر فزع، وذلك يوم القيامة، حين تقرب النار تتغيَّظ على الكافرين والعاصين، فيفزع الناسُ لذلك الأمر، وهؤلاء لا يحزُنُهم؛ لعلِمِهم بما يُقدِمون عليه، وأنَّ الله قد أمَّنهم مما يخافون. {وتتلقَّاهم الملائكةُ}: إذا بُعِثوا من قبورِهم وأتَوْا على النجائب وفداً لنشورِهم مهنِّئين لهم قائلين: {هذا يومُكُم الذي كنتُم توعَدون}: فليهنِكُم ما وعدكم الله، وليعظُم استبشاركُم بما أمامكم من الكرامة، وليكثر فَرَحُكم وسرورُكم بما أمنَّكم الله من المخاوف والمكاره.
[103] ﴿ لَا یَحْزُنُهُمُ الْ٘فَزَعُ الْاَكْبَرُ ﴾ ’’نہیں غم میں ڈالے گی انھیں بڑی گھبراہٹ۔‘‘ یعنی جب لوگ بہت زیادہ گھبراہٹ میں ہوں گے تو انھیں کسی قسم کا قلق نہ ہو گا اور یہ قیامت کے روز ہو گا۔ جب جہنم کو قریب لایا جائے گا جہنم کفار اور نافرمان لوگوں پر سخت غضبناک ہو گی، اس بنا پر لوگ سخت گھبراہٹ میں مبتلا ہوں گے۔ مگر انھیں کوئی غم نہ ہو گا کیونکہ انھیں علم ہو گا کہ وہ اللہ کے پاس کیا لے کر حاضر ہوئے جائیں ، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس چیز سے مامون کر دیا ہے جس سے وہ ڈرتے تھے۔ ﴿ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ﴾ ’’اور ہاتھوں ہاتھ لیں گے ان کو فرشتے۔‘‘ جب فرشتے ان کو ان کی قبروں سے اٹھائیں گے اور وہ نیک لوگوں کے پاس ان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وفد کی صورت میں آئیں گے اور ان کو مبارک دیتے ہوئے کہیں گے: ﴿ هٰؔذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ﴾ ’’یہ تمھارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘ لہٰذا تمھیں مبارک ہو وہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے تم سے کیا ہے… تمھارے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عزت و تکریم تمھاری منتظر ہے اس پر تمھیں بہت زیادہ خوش ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں خوفناک اور ناپسندیدہ حالات سے تمھیں محفوظ و مامون رکھا ہے اس پر تمھیں بے پایاں فرحت اور سرور ہونا چاہیے۔
آیت: 104 - 105 #
{يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (104) وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (105)}.
(یاد کیجیے) جس دن لپیٹیں گے ہر آسمان کو مانند لپیٹنے کاغذ کے جو لکھا ہوا ہو جس طرح پہلے پہل کی تھی ہم نے پہلی (مرتبہ) پیدائش (اسی طرح) ہم لوٹائیں گے اس کو، وعدہ ہے ہمارے ذمے، بلاشبہ ہم ہیں کرنے والے (104) اور البتہ تحقیق لکھی ہے ہم نے زبور میں بعد نصیحت کے (یہ بات کہ) بے شک زمین، وارث ہوں گے اس کے میرے بندے نیک (105)
#
{104} يخبر تعالى أنه يوم القيامة يطوي السماواتِ على عِظَمها واتِّساعها كما يطوي الكاتُب للسجل؛ أي: الورقة المكتوب فيها؛ فتنتثر نجومها، وتكور شمسها وقمرها، وتزول عن أماكنها. {كما بَدَأنا أوَّلَ خلقٍ نعيدُه}؛ أي: إعادتنا للخلق مثل ابتدائنا لخلقهم؛ فكما ابتدأنا خلقَهم ولم يكونوا شيئاً؛ كذلك نعيدُهم بعد موتهم، {وعداً علينا إنَّا كنَّا فاعلينَ}: ننفِّذُ ما وَعَدْنا؛ لكمال قدرتِهِ، وأنه لا تمتنعُ منه الأشياء.
[104] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے روز آسمانوں کو… ان کی عظمت اور وسعت کے باوجود، لپیٹ دے گا، جس طرح کاتب ورق کو لپیٹتا ہے یہاں (السجل) سے مراد ورق ہے جس کے اندر کچھ تحریر کیا گیا ہو۔ پس آسمان کے تمام ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ سورج اور چاند اپنی روشنی سے محروم ہو کر اپنی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ ﴿كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْ٘قٍ نُّعِیْدُهٗ﴾ ہم مخلوق کو دوبارہ اسی طرح پیدا کریں گے جس طرح ہم نے ان کو ابتدا میں پیدا کیا تھا۔ پس جس طرح ہم نے ان کو اس وقت پیدا کیا جب وہ کچھ بھی نہ تھے، اسی طرح ہم ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کریں گے۔ ﴿وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْ٘نَ ﴾ یعنی جو ہم نے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور کوئی چیز اس کے لیے ناممکن نہیں ۔
#
{105} {ولقد كَتَبْنا في الزَّبورِ}: وهو الكتاب المزبور، والمرادُ الكتبُ المنزلة؛ كالتوراة، ونحوها، {من بعد الذِّكْرِ}؛ أي: كتبناه في الكتب المنزلة بعدما كَتَبْنَاه في الكتاب السابق الذي هو اللوح المحفوظ وأمِّ الكتاب الذي توافِقُه جميعُ التقادير المتأخِّرة عنه والمكتوب في ذلك: {أنَّ الأرض}؛ أي: أرض الجنَّة، {يَرِثُها عباديَ الصَّالحونَ}: الذين قاموا بالمأمورات، واجتنبوا المنهيَّات؛ فهم الذين يورِثُهم الله الجنات؛ كقول أهل الجنة: {الحمد لله الذي هدانا لهذا}، {وأورثنا الأرض نتبوأ من الجنة حيث نشاء}، ويُحتمل أنَّ المراد الاستخلاف في الأرض، وأنَّ الصالحين يمكِّنُ الله لهم في الأرض، ويولِّيهم عليها؛ كقوله تعالى: {وَعَدَ الله الذين آمنوا منكم وعَمِلوا الصالحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرضِ كما اسْتَخْلَفَ الذين من قبلهم ... } الآية.
[105] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ ﴾ ’’اور ہم نے لکھا زبور میں ۔‘‘ اور وہ ہے لکھی ہوئی کتاب اور اس سے مراد ہے کتب الٰہیہ، مثلاً:تورات وغیرہ ﴿ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ ﴾ ’’ذکر (میں لکھنے) کے بعد۔‘‘ یعنی ہم نے کتاب سابق لوح محفوظ یعنی ام الکتاب میں لکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتابوں میں لکھ دیا۔ تمام تقدیریں ام الکتاب کے موافق واقع ہوتی ہیں اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ﴿ اَنَّ الْاَرْضَ ﴾ ’’بلاشبہ زمین‘‘ یعنی جنت کی زمین ﴿ یَرِثُ٘هَا عِبَادِیَ الصّٰؔلِحُوْنَ ﴾ ’’اس کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے۔‘‘ جو مامورات کو قائم اور منہیات سے اجتناب کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جنت کا وارث بنائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا قول نقل فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْؔجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ ﴾ (الزمر:39؍74) ’’ہر قسم کی حمدوثنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمارے ساتھ اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ زمین سے مراد زمین کی خلافت ہو۔ اللہ تعالیٰ صالحین کو زمین میں اقتدار عطا کرے گا اور ان کو زمین کا والی بنائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ (النور:24؍55) ’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے، جو ایمان لائیں گے اور نیک کام کریں گے کہ وہ ان کو اسی طرح زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی۔‘‘
آیت: 106 - 112 #
{إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ (106) وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (107) قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (108) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ (109) إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ (110) وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (111) قَالَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (112)}.
بلاشبہ اس (وعظ و نصیحت) میں البتہ کفایت ہے ان لوگوں کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں (106) اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کے لیے (107) آپ کہہ دیجیے! یقینا وحی کی جاتی ہے میری طرف (یہ بات کہ) بلاشبہ تمھارا معبود، معبود ایک ہی ہے، پس کیا تم اس کی فرماں برداری کرنے والے ہو؟ (108) پس اگر وہ منہ موڑ لیں (اس سے) تو کہہ دیجیے! خبر دار کر دیا ہے میں نے تمھیں اوپر برابری کے اور نہیں جانتا میں کہ آیا قریب ہے یا بعید وہ جو تم وعدہ دیے جاتے ہو؟ (109) بے شک اللہ جانتا ہے پکار کر کہی ہوئی بات کو او روہ جانتا ہے (اسے بھی) جو تم چھپاتے ہو (110) اور نہیں جانتا میں شاید کہ وہ آزمائش ہو تمھارے لیےاور فائدہ اٹھانا ایک وقت (معین) تک (111) اس (رسول) نے کہا، اے میرے رب! فیصلہ فرما تو ساتھ حق کےاور ہمارا رب نہایت مہربان ہے، وہ جس سے مدد طلب کی جاتی ہے اوپر ان باتوں کے جو تم بیان کرتے ہو (112)
#
{106} يُثني الله تعالى على كتابِهِ العزيز القرآنِ ويبيِّن كفايته التامَّة عن كلِّ شيءٍ وأنَّه لا يُستغنى عنه، فقال: {إنَّ في هذا لبلاغاً لقوم عابدين}؛ أي: يتبلَّغون به في الوصول إلى ربِّهم وإلى دار كرامته، فيوصِلُهم إلى أجلِّ المطالب وأفضل الرغائب، وليس للعابدين الذين هم أشرفُ الخلق وراءه غايةٌ؛ لأنَّه الكفيل بمعرفةِ ربِّهم بأسمائِهِ وصفاتِهِ وأفعالِهِ وبالإخبار بالغيوبِ الصَّادقة وبالدَّعوة لحقائق الإيمان وشواهد الإيقان، المبيِّن للمأمورات كلِّها والمنهيَّات جميعها، المعرِّف بعيوب النفس والعمل والطرق التي ينبغي سلوكها في دقيق الدين وجليله، والتَّحذير من طُرُق الشيطان، وبيان مداخلِهِ على الإنسان؛ فمن لم يُغْنِهِ القرآنُ؛ فلا أغناه الله، ومَنْ لا يكفيه؛ فلا كفاه الله.
[106] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب عزیز، قرآن کریم کی ستائش کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ قرآن کریم میں ہر چیز سے مکمل کفایت ہے اور اس سے مستغنی نہیں رہا جا سکتا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ فِیْ هٰؔذَا لَبَلٰ٘غًا لِّقَوْمٍ عٰؔبِدِیْنَ﴾ ’’بے شک اس میں البتہ کفایت ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔‘‘ یعنی وہ اپنے رب اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچنے کے لیے قرآن عزیز پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ پس یہ گراں قدر کتاب ان کو جلیل ترین مقاصد اور افضل ترین مرغوبات تک پہنچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے، جو سب سے زیادہ فضل و شرف کے حامل ہیں ، اس سے آگے اور کوئی منزل نہیں کیونکہ قرآن ان کے رب کی، اس کے اسماء و صفات اور افعال کے ذریعے سے معرفت کے لیے کفیل ہے اور غیب کی خبریں بیان کرنے اور حقائق ایمان اور شواہد ایقان کی دعوت کا بھی کفیل ہے، قرآن ہی تمام مامورات اور تمام منہیات کو بیان کرتا ہے، یہ قرآن ہی ہے جو نفس و عمل کے عیوب اور دین کے دقیق و جلیل معاملات میں ان راستوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ جن پر اہل ایمان کو گامزن رہنا چاہیے اور یہ قرآن ہی ہے جو شیطان کے راستوں پر چلنے سے بچاتا ہے اور انسان کے عقائد و اعمال میں اس کی مداخلت کے دروازوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ جسے قرآن مستغنی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی نہ کرے اور جس کے لیے قرآن کافی نہیں ، اللہ اس کو کفایت نہ کرے۔
#
{107} ثم أثنى على رسولِهِ الذي جاء بالقرآن، فقال: {وما أرْسَلْناك إلاَّ رحمةً للعالمين}: فهو رحمتُهُ المهداةُ لعبادِهِ؛ فالمؤمنون به قَبِلوا هذه الرحمة وشكروها وقاموا بها، وغيرُهم كفروها، وبدَّلوا نعمةَ الله كفراً، وأبوا رحمةَ الله ونعمته.
[107] پھر اپنے رسول (e) کی جو قرآن لے کر آئے، مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ پس آپe اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لیے اس کی رحمت کا تحفہ ہیں ۔ پس اہل ایمان نے اس رحمت کو قبول کیا، اس کی قدر کی اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا اور جو آپ پر ایمان نہ لائے انھوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اس کی اس رحمت اور نعمت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
#
{108} {قل} يا محمد: {إنَّما يُوحى إليَّ أنَّما إلهكم إلهٌ واحدٌ}: الذي لا يستحقُّ العبادةَ إلاَّ هو، ولهذا قال: {فهل أنتُم مسلِمونَ}؛ أي: منقادون لعبوديَّتِهِ مستسلِمون لألوهيَّتِهِ؛ فإنْ فَعَلوا؛ فَلْيَحْمدوا ربَّهم على ما منَّ عليهم بهذه النعمة التي فاقت المنن.
[108] ﴿ قُ٘لْ ﴾ اے محمدe کہہ دیجیے! ﴿ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ﴾ ’’میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔‘‘ جس کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں ، اس لیے فرمایا: ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ یعنی کیا تم اس کی عبودیت کو اختیار اور اس کی الوہیت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہو؟… اگر وہ ایسا کریں تو انھیں اپنے رب کی ستائش کرنی چاہیے کہ اس نے ان کو اس نعمت سے سرفراز کیا، جو تمام نعمتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
#
{109 ـ 110} وإنْ {تَوَلَّوْا}: عن الانقياد لعبوديَّة ربِّهم؛ فحذِّرْهم حلول المَثُلات ونزول العقوبة. {فقُلْ آذنْتُكم}؛ أي: أعلمتُكم بالعقوبة، {على سواءٍ}؛ أي: علمي وعلمُكم بذلك مستوٍ؛ فلا تقولوا إذا نزل بكم العذاب: ما جاءنا من بشيرٍ ولا نذيرٍ، بل الآن استوى علمي، وعلمُكم لمَّا أنذرتُكم وحذرتُكم وأعلمتُكم بمآل الكفر، ولم أكتُم عنْكُم شيئاً. {وإنْ أدري أقريبٌ أم بعيدٌ ما توعدونَ}؛ أي: من العذاب؛ لأنَّ عِلْمَهُ عند الله، وهو بيده؛ ليس لي من الأمر شيءٌ.
[110,109] ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا ﴾ اگر وہ اپنے رب کی عبودیت سے منہ موڑ لیں تو ان کو گزری ہوئی قوموں پر نازل ہونے والے عذاب اور سزا سے ڈراؤ! ﴿ فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ﴾ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بارے میں تمھیں آگاہ کر دیا ہے ﴿ عَلٰى سَوَآءٍ ﴾ ’’برابری پر۔‘‘ یعنی میں اور تم اس حقیقت کو برابر طور پر جانتے ہیں ، اس لیے جب تم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسے تو یہ نہ کہنا ﴿ مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ﴾ (المائدۃ:5؍19) ’’ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا آیا ہے نہ کوئی ڈرانے والا۔‘‘ بلکہ ہم اس حقیقت سے برابر طور پر آگاہ ہیں کیونکہ میں تم کو ڈرا چکا ہوں اور تمھیں کفر کے انجام کے بارے میں آگاہ کر چکا ہوں اور میں نے تم سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔
#
{111} {وإنْ أدْري لعلَّه فتنةٌ لكم ومتاعٌ إلى حين}؛ أي: لعلَّ تأخير العذاب الذي استعجَلْتُموه شرٌّ لكم، وإنْ تُمَتَّعوا في الدُّنيا إلى حين، ثم يكون أعظم لعقوبتكم.
[111] ﴿وَاِنْ اَدْرِیْۤ اَ٘قَ٘رِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ﴾ یعنی جس عذاب کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے (میں نہیں جانتا کہ وہ عذاب قریب آن لگا ہے یا دور ہے) کیونکہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں ۔ ﴿ وَاِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّـكُمْ وَمَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ ﴾ یعنی… شاید اس عذاب میں تاخیر جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو، تمھارے لیے بہت بری ہے اور اگر تم ایک وقت مقرر تک اس دنیا سے متمتع ہوتے ہو تو یہ تمھارے لیے بہت بڑے عذاب کا باعث ہو گا۔
#
{112} {قال ربِّ احكُم بالحقِّ}؛ أي: بيننا وبين القوم الكافرين؛ فاستجابَ الله هذا الدُّعاء، وحكم بينَهم في الدُّنيا قبل الآخرة بما عاقب الله به الكافرين من وقعة بدرٍ وغيرها. {وربُّنا الرحمن المستعانُ على ما تصفِونَ}؛ أي: نسأل ربَّنا الرحمن ونستعينُ به على ما تصِفون من قولكم: سنظهرُ عليكُم، وسيضمحلُّ دينكم! فنحنُ في هذا لا نعجبُ بأنفسنا، ولا نتَّكِلُ على حولنا وقوَّتِنا، وإنَّما نستعينُ بالرحمن الذي ناصيةُ كلِّ مخلوقٍ بيدِهِ، ونرجوه أن يُتِمَّ ما اسْتَعَنَّاه به من رحمتِهِ. وقد فعل ولله الحمد.
[112] ﴿ قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ﴾ ’’کہا، اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ کر دے‘‘ یعنی ہمارے اور کافروں کی قوم کے درمیان۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرما لی اور اس دنیا میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر وغیرہ میں ان کافروں کو سزا دے دی۔ ﴿ وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ ﴾ یعنی تم جو باتیں بناتے ہوں ان کے مقابلے میں ہم اپنے رب رحمان ہی سے سوال کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہیں ، ہم عنقریب تم پر غالب آئیں گے اور عنقریب تمھارا دین ختم ہو جائے گا۔ پس اس بارے میں ہم کسی خود پسندی میں مبتلا ہیں نہ ہم اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ہم تو رب رحمن سے مدد مانگتے ہیں جس کے قبضۂ قدرت میں تمام مخلوق کی پیشانی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم نے رب رحمن سے جس امر کے بارے میں استعانت طلب کی ہے، وہ اپنی رحمت سے ضرور اس کو پورا کرے گا… اور اس نے ایسا کیا۔ ولِلّٰہِ الْحَمْد۔