{طه (1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (2) إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (3) تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى (4) الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (5) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى (6) وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (7) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (8)}
طٰہٰ
(1) نہیں نازل کیا ہم نے آپ پر قرآن ، اس لیے کہ آپ مشقت میں پڑیں
(2) مگر نصیحت کے لیے واسطے اس شخص کے جو ڈرتا ہے
(3) نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا زمین کو اور بلند آسمانوں کو
(4) (وہ) رحمٰن ہے، اوپر عرش کے مستوی ہے
(5) اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اورجو کچھ ہے درمیان ان دونوں کےاورجو کچھ ہے نیچے نمناک زمین کے
(6) اور اگر آپ بلند آواز سے بات کریں تو بلاشبہ وہ جانتا ہے پوشیدہ اور پوشیدہ تر بات کو
(7) اللہ، نہیں ہے کوئی بھی معبود مگر وہی، اسی کے ہیں سب نام اچھے
(8)
#
{1 ـ 2} {طه}: من جملة الحروف المقطَّعة المفتَتَح بها كثيرٌ من السور، وليست اسماً للنبي - صلى الله عليه وسلم -. {ما أنزلنا عليكَ القرآن لِتَشْقى}؛ أي: ليس المقصود بالوحي وإنزال القرآن عليك وشرع الشريعة لِتَشْقى بذلك، ويكونَ في الشريعة تكليفٌ يشقُّ على المكلَّفين، وتعجزُ عنه قُوى العاملين، وإنَّما الوحي والقرآن والشرع شَرَعَهُ الرحيم الرحمن، وجَعَلَهُ موصلاً للسعادة والفلاح والفوز، وسهَّله غايةَ التسهيل، ويسَّر كلَّ طرقه وأبوابه، وجعله غذاء للقلوب والأرواح وراحةً للأبدان، فتلقَّتْه الفطر السليمة والعقول المستقيمة بالقبول والإذعان؛ لِعِلْمها بما احتوى عليه من الخير في الدُّنيا والآخرة.
[2,1] ﴿ طٰهٰؔ﴾ اس کا شمار من جملہ حروف مقطعات سے ہے جن کے ساتھ بہت سی سورتوں کی ابتداء ہوتی ہے اور واضح رہے کہ یہ نبی اکرمe کا اسم گرامی نہیں ہے۔
﴿ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ لِتَ٘شْ٘قٰۤى ﴾ ’’نہیں اتارا ہم نے آپ پر قرآن اس لیے کہ آپ مشقت میں پڑیں ۔‘‘ یعنی آپ کی طرف وحی بھیجنے، قرآن نازل کرنے اور آپ کو شریعت عطا کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ کسی سختی میں مبتلا ہوں ،
(ایسا نہیں کہ) شریعت میں کوئی تکلیف ہو جو مکلفین پر شاق گزرے اور عمل کرنے والوں کے قویٰ اس پر عمل کرنے سے عاجز ہو جائیں ۔ وحی، قرآن اور شریعت کو تو رحیم و رحمان نے نازل کیا ہے اور اسے سعادت اور فوزوفلاح کا راستہ قرار دیا، اسے انتہائی سہل رکھا، اس کے تمام راستوں اور دروازوں کو آسان بنایا اور اسے قلب و روح کی غذا اور بدن کی راحت قرار دیا۔ فطرت سلیم اور عقل مستقیم نے اسے قبول کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا کیونکہ فطرت سلیم اور عقل مستقیم کو علم ہے کہ یہ دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل ہے ۔
#
{3} ولهذا قال: {إلاَّ تَذْكِرَةً لِمَن يَخْشى}: إلاَّ ليتذكَّر به من يَخْشى الله تعالى، فيتذكر ما فيه من الترغيب لأجل المطالب فيعمل بذلك، ومن الترهيب عن الشقاء والخسران فيرهب منه، ويتذكَّر به الأحكام الحسنةَ الشرعيَّة المفصَّلة التي كان مستقرًّا في عقله حسنها مجملاً، فوافق التفصيلُ ما يَجِدُهُ في فطرتِهِ وعقلِهِ، ولهذا سمَّاه الله تذكرةً، والتَّذْكِرَةُ لشيء كان موجوداً؛ إلاَّ أن صاحبَه غافلٌ عنه أو غير مستحضرٍ لتفصيلِهِ.
وخصَّ بالتَّذْكِرَةِ مَنْ يخشى؛ لأنَّ غيره لا ينتفع به، وكيف ينتفعُ به من لم يؤمنْ بجنَّة ولا نارٍ ولا في قلبه من خشيةِ الله مثقال ذرة؟! هذا ما لا يكون، {سَيَذَّكَّرُ مَنْ يخشى. ويتجنَّبُها الأشقى. الذي يَصْلى النار الكُبرى}.
[3] اس لیے فرمایا:
﴿ اِلَّا تَذْكِرَةً لِّ٘مَنْ یَّخْشٰى ﴾ یہ اس لیے نازل کیا تاکہ اس سے وہ شخص نصیحت پکڑے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ پس وہ جلیل ترین مقاصد کی خاطر اس کے اندر دی گئی ترغیب سے نصیحت پکڑتا اور اس کی وجہ سے اس پر عمل کرتا ہے اور اس کے اندر شقاوت و خسران سے جو ڈرایا گیا ہے، اس سے ڈرتا اور شریعت کے احکام جمیلہ سے نصیحت پکڑتا ہے جن کا حسن و جمال، مجمل طور پر عقل میں جاگزیں ہے اور وہ ان تفاصیل کے مطابق ہیں جو اس کی عقل و فطرت میں موجود ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو
(تذکرہ) کہا ہے۔
کسی چیز کا ’’تذکرہ‘‘ موجود ہوتا ہے البتہ انسان خود اس سے غافل ہوتا ہے یا اس کی تفاصیل مستحضر نہیں ہوتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ’’تذکرہ‘‘
(یاد دہانی) کو اس شخص کے ساتھ مختص کیا ہے
﴿ ِمَنْ یَّخْشٰى﴾ ’’جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والا شخص اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ شخص فائدہ اٹھا بھی کیسے سکتا ہے جو جنت پر ایمان رکھتا ہے نہ جہنم پر اور اس کے قلب میں ذرہ بھر بھی خوف الٰہی موجود نہیں ؟
یہ ایسی بات ہے جو کبھی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ سَیَذَّكَّـرُ مَنْ یَّخْشٰى ۙ۰۰وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْ٘قَىۙ۰۰الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى﴾ (الاعلیٰ:87؍10-12) ’’جو اللہ کا خوف رکھتا ہے وہی اس سے نصیحت پکڑتا ہے اور بدبخت
(اور بے خوف انسان) اس سے پہلو تہی کرتا ہے، وہ جو بہت بڑی دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا۔‘‘
#
{4} ثم ذَكَرَ جلالة هذا القرآن العظيم، وأنه تنزيلُ خالقِ الأرض والسماوات، المدبِّر لجميع المخلوقات؛ أي: فاقبلوا تنزيلَه بغاية الإذعان والمحبَّة والتسليم، وعظِّموه نهاية التعظيم. وكثيراً ما يقرِنُ بين الخَلْق والأمر؛ كما في هذه الآية وكما في قوله: {ألا لَهُ الخلقُ والأمر}، وفي قوله: {الله الذي خَلَقَ سبعَ سمواتٍ ومن الأرضِ مثلَهُنَّ يتنزَّلُ الأمرُ بينهنَّ}، وذلك أنَّه الخالق الآمر الناهي؛ فكما أنه لا خالق سواه؛ فليس على الخلق إلزامٌ ولا أمرٌ ولا نهيٌ إلاَّ من خالقهم. وأيضاً؛ فإنَّ خلقه للخلق فيه من التدبير القدريِّ الكونيِّ، وأمره فيه التدبير الشرعيُّ الدينيُّ؛ فكما أنَّ الخلق لا يخرُجُ عن الحكمة، فلم يَخْلُقْ شيئاً عبثاً؛ فكذلك لا يأمُرُ ولا ينهى إلاَّ بما هو عدلٌ وحكمةٌ وإحسانٌ.
[4] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قرآن عظیم کی جلالت شان کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خالق ارض و سماء کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے جوتمام کائنات کی تدبیر کرتا ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو حد درجہ اطاعت اور محبت و تسلیم کے ساتھ قبول کرو اور انتہائی حد تک اس کی تعظیم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بہت دفعہ
(خَلق) اور
(اَمر) کو مقرون
(ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں بھی ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے:
﴿ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ﴾ (الاعراف:7؍54) ’’آگاہ رہو کہ تخلیق بھی اسی کی اور حکم بھی اسی کا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ فرمایا:
﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْ٘لَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ ﴾ (الطلاق:65؍12) ’’اللہ ہی تو ہے جس نے ساتوں آسمان پیدا کیے اور ویسی ہی
(سات) زمینیں ، ان میں امر الٰہی نازل ہوتا ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق کائنات، حکم دینے والا اور روکنے والا ہے۔ پس جس طرح اس کے سوا کوئی خالق نہیں ، اسی طرح مخلوق پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لازم کرنے والا نہیں ۔ ان کے خالق کے سوا کوئی حکم دے سکتا ہے نہ روک سکتا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس کے خلق میں اس کی تدبیر کونی و قدری جاری و ساری ہے اور اس کے امر میں دینی و شرعی تدبیر کارفرما ہے۔ پس جیسے اس کی تخلیق اس کی حکمت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی، اس نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ پس اسی طرح اللہ تعالیٰ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جو عدل و احسان پر مبنی ہو اور صرف عدل و احسان اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہی کسی چیز سے روکتا ہے۔
#
{5} فلما بين أنه الخالق المدبِّر الآمر الناهي؛ أخبر عن عظمته وكبريائه، فقال: {الرحمن على العرش}: الذي هو أرفع المخلوقات وأعظمُها وأوسعها، {استوى}: استواءً يَليقُ بجلالِهِ ويناسب عظمتَه وجمالَه، فاستوى على العرش، واحتوى على الملك.
[5] جب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا خالق اور مدبر ہے،
وہی حکم دینے والا اور روکنے والا ہے تو اس نے اپنی عظمت اور کبریائی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’ رحمٰن عرش پر‘‘ جو تمام کائنات سے بلند، تمام کائنات سے بڑا اور تمام کائنات سے وسیع ہے
﴿ اسْتَوٰى ﴾ ’’مستوی ہے‘‘ یہاں استواء سے مراد وہ استواء ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کی عظمت و جمال سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی اور کائنات پر حاوی ہے۔
#
{6} {له ما في السمواتِ وما في الأرض وما بينَهما}: من مَلَكٍ وإنسيٍّ وجنيٍّ وحيوانٍ وجمادٍ ونباتٍ، {وما تحتَ الثَّرى}؛ أي: الأرض؛ فالجميع مُلكٌ لله تعالى، عبيدٌ مدبَّرون مسخَّرون تحت قضائه وتدبيره، ليس لهم من المُلك شيء، ولا يملكون لأنفسهم نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً.
[6] ﴿ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ﴾ ’’اسی کے لیے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے۔‘‘ تمام ملائکہ، جن و انس، حیوانات، جمادات اور نباتات۔
﴿ وَمَا تَحْتَ الـثَّ٘رٰى ﴾ اور جو کچھ سطح زمین کے نیچے ہے، سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور تمام لوگ اس کے بندے ہیں جو اس کے دست تدبیراور اس کی قضا و قدر کے تحت مسخر ہیں ۔ اقتدار الٰہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ خود اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھائے جانے پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
#
{7} {وإن تَجْهَرْ بالقول فإنَّه يعلم السرَّ}: الكلام الخفي، {وأخفى}: من السرِّ، الذي في القلب ولم يُنطقْ به، أو السِّر ما خطر على القلب، وأخفى ما لم يخطُر؛ يعلم تعالى أنه يخطُرُ في وقته وعلى صفته. المعنى أنَّ علمه تعالى محيطٌ بجميع الأشياء؛ دقيقِها وجليها؛ خفيِّها وظاهرها؛ فسواء جهرتَ بقولك أو أسررتَه؛ فالكلُّ سواء بالنسبة لعلمه تعالى.
[7] ﴿ وَاِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ ﴾ ’’اور اگر آپ اونچی بات کہیں تو وہ تو جانتا ہے سری بات کو بھی۔‘‘ یعنی پوشیدہ کلام کو
﴿ وَاَخْ٘فٰى ﴾ ’’اور سری سے بھی زیادہ مخفی بات کو۔‘‘ یعنی خفی سے خفی تر بات، جو انسان کے دل میں ہوتی ہے اور ابھی نطق زبان پر نہیں آئی ہوتی۔ یا
(السِّرّ) سے مراد وہ خیال ہے جو انسان کے دل میں آتا ہے اور
(اخْفٰی) سے مراد وہ خیال ہے جسے ابھی دل میں آنا ہے اورابھی تک نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کب وہ خیال اپنے وقت پر اپنی صفت کے ساتھ دل میں داخل ہو گا۔ معنی یہ ہے کہ علم الٰہی، چھوٹی بڑی اور ظاہر و باطن تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس لیے آپ بلند آواز سے بولیں یا آہستہ آواز سے، علم الٰہی کی نسبت سے سب برابر ہے۔
#
{8} فلما قرَّر كماله المطلق بعموم خلقه وعموم أمرِهِ ونهيِهِ وعموم رحمتِهِ وسعة عظمتِهِ وعلوِّه على عرشه وعموم ملكِهِ وعموم علمِهِ؛ نَتَجَ من ذلك أنَّه المستحقُّ للعبادة، وأنَّ عبادته هي الحقُّ التي يوجبها الشرع والعقل والفطرة، وعبادة غيره باطلةٌ، فقال: {الله لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا معبود بحقِّ ولا مألوه بالحبِّ والذُّلِّ والخوف والرجاء والمحبَّة والإنابة والدُّعاء إلاَّ هو. {له الأسماء الحسنى}؛ أي: له الأسماء الكثيرة الكاملة الحسنى: من حسنها أنَّها كلَّها أسماءٌ دالةٌ على المدح؛ فليس فيها اسمٌ لا يدلُّ على المدح والحمد، ومن حسنها أنَّها ليست أعلاماً محضةً، وإنما هي أسماءٌ وأوصافٌ، ومن حسنها أنَّها دالَّة على الصفات الكاملة وأنَّ له من كلِّ صفةٍ أكملها وأعمَّها وأجلَّها، ومن حسنها أنَّه أمر العبادَ أن يدعوه بها؛ لأنَّها وسيلةٌ مقربةٌ إليه؛ يحبُّها ويحبُّ من يحبُّها، ويحبُّ من يحفظُها، ويحبُّ من يبحث عن معانيها، ويتعبَّد له بها؛ قال تعالى: {ولله الأسماءُ الحسنى فادْعوه بها}.
[8] جب یہ بات متحقق ہو گئی کہ وہ کمال مطلق کا مالک ہے، اپنی تخلیق کے عموم کی وجہ، اپنے امرونہی اور اپنی رحمت کے عموم کی وجہ سے،
اپنی عظمت کی وسعت اور اپنے عرش پر بلند ہونے کی وجہ سے اور اپنی بادشاہی اور اپنے علم کے عموم کی وجہ سے تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اسی کی عبادت حق ہے جس کو شریعت اور عقل و فطرت واجب ٹھہراتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت باطل ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ ﴾ یعنی کوئی معبود حق ہے نہ کوئی قابل عبادت جس کے سامنے محبت، تذلل، خوف، امید اور انابت کا اظہار کیا جائے اور اس کو پکارا جائے مگر صرف اللہ ہی۔
﴿ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى﴾ ’’اسی کے لیے ہیں اچھے نام‘‘ یعنی اس کے بہت سے نام ہیں جو بہت اچھے ہیں ۔ اس کے ناموں کا حسن یہ ہے کہ وہ نام تمام تر مدح پر دلالت کرتے ہیں ۔ ان ناموں میں سے کوئی نام ایسا نہیں جو مدح و حمد پر دلالت نہ کرتا ہو۔ ان ناموں کا حسن یہ بھی ہے کہ وہ محض اَعلام
(نام) نہیں بلکہ وہ نام اور اوصاف ہیں۔ ان کا حسن یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل صفات پر دلالت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کامل،
عام اور جلیل ترین ہے اور ان کا حسن یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کوحکم دیا ہے کہ وہ اسے ان ناموں سے پکاریں کیونکہ یہ ایک وسیلہ ہیں جو بندوں کو اللہ کے قریب کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان ناموں کو پسند کرتا ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو ان ناموں کو پسند کرتے ہیں اور جو انھیں یاد کر تے ہیں اور ان لوگوں سے بھی محبت کرتا ہے جو ان کے معانی کی تحقیق کرتے ہیں اور ان ناموں کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَلِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ﴾ (الاعراف:7؍180) ’’اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں اسے انھی ناموں سے پکارو۔‘‘
{وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى (9) إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى (10) فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَامُوسَى (11) إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12) [وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى (13) إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (14) إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (15)}].
اور کیا آئی ہے آپ کے پاس بات موسی کی؟
(9) جب اس نے دیکھی آگ تو کہا اپنے گھر والوں سے، ٹھہرو تم، بلاشبہ میں نے دیکھی ہے آگ تاکہ میں لے آؤں تمھارے پاس اس میں سے کوئی انگارا یا میں پاؤں آگ کے پاس راستہ بتلانے والا
(10) پس جب وہ آیا اس آگ کے پاس تو آواز دیا گیا، اے موسی!
(11) بے شک میں تیرا رب ہوں ، سو تو اتار دے اپنی جوتیاں ، بلاشبہ تو وادیٔ مقدس طُویٰ میں ہے
(12) اور میں نے تجھے پسند کر لیا ہے، پس تو غور سے سن اس کو جو وحی کی جاتی ہے
(13) بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں ، نہیں کوئی معبود
(برحق) مگر میں ہی، سو تو عبادت کر میری ہی اور قائم کر نماز میرے ذکر کے لیے
(14) بلاشبہ قیامت آنے والی ہے، قریب ہے کہ چھپاؤں میں اس کو تاکہ بدلہ دیا جائے ہر جان کو، اس کا جو وہ کوشش کرتا ہے
(15)
#
{9 ـ 10} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - على وجه الاستفهام التقريريِّ والتعظيم لهذه القصَّة والتفخيم لها: {هل أتاك حديثُ موسى}: في حاله التي هي مبدأ سعادته ومنشأ نبوَّته؛ أنَّه رأى ناراً من بعيد، وكان قد ضلَّ الطريق، وأصابه البردُ، ولم يكنْ عنده ما يتدفَّأ به في سفره. فقال لأهلِهِ: {إني آنستُ}؛ أي: أبصرتُ {ناراً}: وكان ذلك في جانب الطور الأيمن. {لعلِّي آتيكُم منها بقَبَسٍ}: تصطلون به، {أو أجِدُ على النار هُدى}؛ أي: من يهديني الطريق. وكان مطلبُهُ النور الحسي والهداية الحسيَّة، فوجَدَ ثَمَّ النورَ المعنويَّ؛ نور الوحي الذي تستنير به الأرواح والقلوب، والهداية الحقيقيَّة؛ هداية الصراط المستقيم الموصلة إلى جنَّات النعيم، فحصل له أمرٌ لم يكنْ في حسابِهِ ولا خَطَر بباله.
[10,9] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰe سے استفہام تقریری کے طور پر اور اس قصہء مذکورہ کی تعظیم اور عظمت کی خاطر،
فرماتا ہے: ﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰؔى ﴾ ’’کیا آپ کے پاس موسیٰ کی بات آئی؟‘‘ یعنی جناب موسیٰ u کی اس حالت کا قصہ، جو ان کی سعادت کی بنیاد اور ان کی نبوت کی ابتدا تھی کہ انھیں بہت دور سے آگ نظر آئی اور وہ راستے سے بھٹک گئے تھے اور سردی محسوس کر رہے تھے اور ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے وہ اپنے سفر میں گرمی حاصل کر سکیں ۔
﴿ اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا ﴾ ’’تو انھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا، ذرا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے‘‘ اور یہ آگ کوہ طور کے دائیں جانب تھی۔
﴿ لَّ٘عَ٘لِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّؔنْهَا بِقَ٘بَسٍ ﴾ ’’شاید میں تمھارے پاس اس میں سے ایک انگارہ لاؤں ۔‘‘ تاکہ تم اس سے آگ تاپ سکو
﴿اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى ﴾ یا اس آگ کے پاس مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے راستہ بتا دے۔ موسیٰu کا مقصود تو حسی روشنی اور حسی ہدایت تھا۔ مگر انھوں نے وہاں معنوی نور یعنی نورِ وحی پا لیا۔ جس سے قلوب و ارواح روشن ہوتے ہیں اور انھیں حقیقی ہدایت یعنی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل ہوئی جو نعمتوں بھری جنت کو جاتی ہے۔ حضرت موسیٰu ایک ایسی چیز سے بہرہ ور ہوئے جو ان کے کسی حساب اور خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔
#
{11} {فلمَّا أتاها}؛ أي: النار التي آنسها من بعيدٍ، وكانت في الحقيقة نوراً، وهي نارٌ تحرق وتشرق، ويدلُّ على ذلك قوله - صلى الله عليه وسلم -: «حجابُهُ النورُ أو النارُ، لو كَشَفَهُ؛ لأحرقت سُبُحات وجهه ما انتهى إليه بصره ». فلما وصل إليها؛ نودِيَ منها؛ أي: ناداه الله؛ كما قال: {وناديناه من جانب الطور الأيمن وقرَّبْناه نَجِيًّا}.
[11] ﴿ فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا ﴾ یعنی جب حضرت موسیٰ u اس آگ کے پاس پہنچے جو انھوں نے دور سے دیکھی تھی… جو درحقیقت نور تھا اور وہ ایسی آگ ہے جو جلا ڈالتی ہے اور روشنی دیتی ہے اس حقیقت پر رسول اللہe کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ’حِجَابُہُ النُّورُ۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: النَّارُ۔ لَوْ کَشَفَہُ لأَ حْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہِ مَا انْتَھَی إِلَیْہِ بَصَرُہُ‘
(صحیح مسلم، الإیمان، باب فی قولہﷺ،(ان اللہ لاینام)…،
ح:179) ’’اس کا حجاب نور ہے ایک روایت میں ہے: آگ۔ اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کا جلال حد نگاہ تک ہر چیز کو بھسم کر ڈالے۔‘‘ جب موسیٰ u وہاں پہنچے تو اس میں سے آواز آئی یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو ندا دی جیسا کہ ارشاد فرمایا:
﴿ وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَقَ٘رَّبْنٰهُ نَؔجِیًّا ﴾ (مریم:19؍52) ’’ہم نے اسے کوہ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور سرگوشی کرنے کے لیے اس کو قریب کیا۔‘‘
#
{12} {إني أنا ربُّك فاخْلَعْ نعلَيْكَ إنَّك بالواد المقدَّس طُوىً}: أخبره أنَّه ربُّه، وأمره أن يستعدَّ ويتهيَّأ لمناجاته ويهتمَّ لذلك، ويُلْقيَ نعليه، لأنَّه بالوادي المقدَّس المطهَّر المعظَّم، ولو لم يكن من تقديسِهِ إلاَّ أنَّه اختاره لمناجاتِهِ كليمَه موسى؛ لكفى. وقد قال كثيرٌ من المفسِّرين: إنَّ الله أمره أن يُلْقِيَ نعليه لأنهما من جلد حمارٍ ؛ فالله أعلم بذلك.
[12] ﴿ اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْ٘لَ٘عْ نَعْلَیْكَ١ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ موسیٰu کا رب ہے اور حضرت موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مناجات کے لیے تیار اور اس کا اہتمام کر لیں اور اپنے جوتے اتار دیں کیونکہ وہ مقدس، پاک اور قابل تعظیم وادی میں ہیں ۔ اگر وادی کی تقدیس کے لیے کوئی اور چیز نہ ہوتی تب بھی حضرت موسیٰ کلیم اللہu کو مناجات کے لیے چن لینا ہی کافی تھا۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو جوتے اتارنے کا اس لیے حکم دیا تھا کیونکہ وہ گدھے کی کھال سے بنے ہوئے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
#
{13} {وأنا اخترتُك}؛ أي: تخيَّرْتك واصطفيتُك من الناس، وهذه أكبر نعمةٍ ومنَّة أنعم الّله بها عليه تقتضي من الشُّكر ما يَليق بها، ولهذا قال: {فاستمعْ لما يُوحى}؛ أي: ألق سمعك للذي أوحي إليك؛ فإنَّه حقيقٌ بذلك؛ لأنَّه أصل الدين ومبدؤه وعماد الدعوة الإسلامية.
[13] ﴿ وَاَنَا اخْتَرْتُكَ ﴾ یعنی میں نے لوگوں میں سے تجھے چن لیا ہے۔ یہ سب سے بڑی نعمت اور احسان ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ u کو نوازا جو اس شکر کا تقاضا کرتی ہے جو اس کے لائق ہے، اس لیے فرمایا
﴿ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰؔى ﴾ یعنی اس وحی کو غور سے سن جو تیری طرف کی جا رہی ہے، وہ اس کی مستحق ہے کہ اس کو غور سے سنا جائے کیونکہ یہ دین کی اساس اور دعوت اسلامی کا ستون ہے۔
#
{14} ثم بيَّن الذي يوحيه إليه بقوله: {إنَّني أنا الله لا إله إلاَّ أنا}؛ أي: الله المستحقُّ الألوهيَّة المتَّصف بها؛ لأنه الكامل في أسمائه وصفاته، المنفرد بأفعاله، الذي لا شريكَ له ولا مثيلَ ولا كفو ولا سَمِيَّ. {فاعْبُدْني}: بجميع أنواع العبادة ظاهرها وباطنها أصولها وفروعها. ثم خصَّ الصَّلاة بالذِّكر، وإن كانت داخلةً في العبادة؛ لفضلها وشرفها وتضمُّنها عبوديَّة القلب واللسان والجوارح. وقوله: {لِذِكْري}: اللام للتعليل؛ أي: أقم الصلاة لأجل ذكرِكَ إيَّاي؛ لأن ذكره تعالى أجلُّ المقاصد، وبه عبوديَّة القلب، وبه سعادته؛ فالقلبُ المعطَّل عن ذكر الله معطَّلٌ عن كلِّ خير وقد خَرِبَ كلَّ الخراب، فشرع الله للعباد أنواعَ العباداتِ التي المقصود منها إقامةُ ذكرِهِ، وخصوصاً الصلاة؛ قال تعالى: {اتلُ ما أوحِيَ إليكَ من الكتاب وأقم الصَّلاةَ إنَّ الصلاةَ تَنْهى عن الفحشاءِ والمنكرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أكبرُ}؛ أي: ما فيها من ذكر الله أكبرُ من نهيها عن الفحشاء والمنكر، وهذا النوع يقال له: توحيدُ الإلهيَّة وتوحيدُ العبادة؛ فالألوهيَّة وصفُه تعالى، والعبوديَّة وصفُ عبده.
[14] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وحی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا ﴾ ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ یعنی اللہ ہی ہے جو الوہیت کا مستحق اور اس سے متصف ہے کیونکہ وہ اسماء و صفات میں کامل اور اپنے افعال میں منفرد ہے، جس کا کوئی شریک ہے نہ مثیل اور جس کا کوئی ہمسر ہے نہ برابری کرنے والا۔
﴿ فَاعْبُدْنِیْ﴾ ’’پس میری ہی عبادت کر۔‘‘ عبادت کی ظاہری اور باطنی،اصولی اور فروعی تمام انواع کے ذریعے سے، پھر نماز کا بطور خاص ذکر فرمایا، حالانکہ نماز عبادت میں داخل ہے۔ اس کی ایک وجہ نماز کا شرف و فضل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جو دل، زبان اور اعضاء کی عبادت کو متضمن ہے۔
﴿ لِـذِكْرِیْ ﴾ یہاں لام تعلیل کے لیے ہے، یعنی میرے ذکر کی خاطر نماز قائم کر کیونکہ ذکر الٰہی جلیل ترین مقصد ہے، علاوہ ازیں یہ عبودیت قلب کو متضمن ہے اور اسی پر انسان کی سعادت کا دارومدار ہے۔ پس ذکر الٰہی سے خالی دل، ہر بھلائی سے محروم ہو کر پوری طرح برباد ہو جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے مختلف انواع کی عبادات مشروع فرمائی ہیں ،
خاص طور پر نماز تو ان عبادات کا مقصد صرف ذکر الٰہی کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰ٘وةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰ٘وةَ تَ٘نْ٘هٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْؔكَرِ١ؕ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ﴾ (العنبکوت:29؍45) ’’اس کتاب کی تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کیجیے بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور ذکر الٰہی اس سے بھی بڑی چیز ہے۔‘‘ یعنی نماز کے اندر اللہ تعالیٰ کا جو ذکر ہے، وہ نماز کے فحش اور برے کاموں سے روکنے سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ عبادت کی اس نوع کو توحید الوہیت اور توحید عبادت کہا جاتا ہے۔ الوہیت اللہ تعالیٰ کا وصف ہے اور عبودیت بندے کا وصف ہے۔
#
{15} {إنَّ الساعة آتيةٌ}؛ أي: لا بدَّ من وقوعها، {أكاد أخفيها}؛ أي: عن نفسي؛ كما في بعض القراءَات؛ كقوله تعالى: {يسألونك عن الساعةِ قلْ إنَّما علمُها عند الله}، وقال: {وعنده علمُ الساعةِ}؛ فعلمُها قد أخفاه عن الخلائق كلِّهم؛ فلا يعلمها مَلَكٌ مقرَّبٌ ولا نبيٌّ مرسل، والحكمة في إتيان الساعة: {لِتُجْزى كلُّ نفس بما تَسْعى}: من الخير والشرِّ؛ فهي الباب لدار الجزاء، {ليَجزيَ الذين أساؤوا بما عَمِلوا ويَجْزيَ الذين أحسَنوا بالحُسْنى}.
[15] ﴿ اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی کا واقع ہونا لازمی امر ہے۔
﴿ اَكَادُ اُخْفِیْهَا ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی خود آپe سے چھپی ہوئی ہے،
جیسا کہ بعض قراء ت میں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: ﴿ یَسْـَٔؔلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ١ؕ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ (الاحزاب:33؍63) ’’آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ،
کہہ دیجیے اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ (لقمان:31؍34) ’’قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے علم کو تمام مخلوقات سے چھپا رکھا ہے قیامت کے بارے میں کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبی ٔ مرسل۔
اور قیامت کے آنے کی حکمت یہ ہے کہ
﴿ لِتُجْزٰى كُ٘لُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَ٘سْعٰى ﴾ ہر شخص نے جو بھلے یا برے اعمال میں بھاگ دوڑ کی ہے اس کو ان کی جزا دی جائے کیونکہ قیامت دارالجزا کا دروازہ ہے۔
﴿ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى﴾ (النجم:53؍31) ’’تاکہ جن لوگوں نے برے کام کیے، انھیں ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنھوں نے نیک کام کیے ان کو اچھا بدلہ دے۔‘‘
{فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى (16)}.
پس نہ روکے تجھ کو اس سے وہ شخص جو نہیں ایمان لاتا ساتھ اس کےاور پیروی کی اس نے اپنی خواہش کی، پس تو
(بھی) ہلاک ہو جائے
(16)
#
{16} أي: فلا يصدُّك ويشغَلُك عن الإيمان بالساعة والجزاء والعمل لذلك مَنْ كان كافراً بها، غير معتقدٍ لوقوعها، يسعى في الشكِّ فيها والتشكيك، ويجادلُ فيها بالباطل، ويقيم من الشُّبه ما يقدر عليه؛ متبعاً في ذلك هواه، ليس قصدُهُ الوصول إلى الحق، وإنَّما قُصاراه اتِّباع هواه؛ فإيَّاك أن تصغي إلى مَنْ هذه حالُه أو تقبلَ شيئاً من أقواله وأعماله الصادَّة عن الإيمان بها والسعي لها سعيها. وإنَّما حذَّر الله تعالى عمَّن هذه حاله؛ لأنَّه من أخوف ما يكون على المؤمن بوسوسته وتدجيله وكون النفوس مجبولةً على التشبُّه والاقتداء بأبناء الجنس، وفي هذا تنبيهٌ وإشارةٌ إلى التحذير عن كلِّ داع إلى باطل، يصدُّ عن الإيمان الواجب أو عن كمالِهِ، أو يوقع الشبهةَ في القلب، وعن النظر في الكتب المشتملة على ذلك.
وذكر في هذا الإيمان به وعبادته والإيمان باليوم الآخر؛ لأن هذه الأمور الثلاثة أصولُ الإيمان وركنُ الدين، وإذا تمَّت؛ تمَّ أمر الدين، ونقصُه أو فقدُه بنقصِها أو نقص شيء منها. وهذه نظيرُ قوله تعالى في الإخبار عن ميزان سعادةِ الفِرَق الذين أوتوا الكتاب وشقاوتهم: {إنَّ الذين آمنوا والذين هادوا والصَّابئينَ والنَّصارى مَنْ آمنَ بالله واليوم الآخر وعَمِلَ صالحاً فلا خوفٌ عليهم ولا هم يَحْزَنونَ}. وقوله: {فتردى}؛ أي: تهلك وتشقى إنِ اتَّبعت طريق من يصدُّ عنها، وقولُه تعالى:
[16] وہ شخص، جو قیامت کا انکار کرتا ہے اور اس کے واقع ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتا وہ آپ
(e) کو قیامت اور جزا و سزا پر ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے روک نہ دے۔ وہ اس بارے میں شک کرتا ہے اور شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس بارے میں باطل دلائل کے ذریعے سے بحث کرتا ہے، خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے، مقدور بھر قیامت کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے، اس کا مقصد حق تک پہنچنا نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ جس شخص کا یہ حال ہو اس کی بات پر کان دھرنے اور اس کے اقوال و افعال کو، جو قیامت پر ایمان لانے سے روکتے ہیں، قبول کرنے سے بچیے۔
جس شخص کا یہ حال ہے اس سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے صرف اس لیے حکم دیا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جس کا دجل اور اس کی وسوسہ اندازی مومن کے لیے سب سے زیادہ ڈرنے کی چیز ہے اور نفوس انسانی کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ ہر اس شخص سے بچا جائے جو باطل کی طرف دعوت دیتا ہے، ایمان واجب یا اس کی تکمیل سے روکتا ہے اور قلب میں شبہات پیدا کرتا ہے، نیز ان تمام کتابوں سے بچا جائے جو باطل نظریات پر مشتمل ہیں ۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، آخرت پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ تینوں امور ایمان کی اساس اور دین کا ستون ہیں ۔ اگر یہ امور کامل ہیں تو دین بھی کامل ہے اور ان امور کے فقدان یا ان کے ناقص رہنے سے دین بھی ناقص رہ جاتا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جس میں ان گروہوں کی سعادت اور شقاوت کی میزان کے بارے میں خبر دی گئی ہے،
جن کو کتاب عطا کی گئی تھی۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰؔبِـُٔوْنَ وَالنَّ٘صٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۰۰﴾ (المائدۃ:5؍69) ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے یا یہودی ہوئے یا صابی یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل بھی کرے گا،
ان کے لیے کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ ارشاد فرمایا: ﴿ فَتَرْدٰى ﴾ یعنی اگر آپ اس شخص کے راستے پر گامزن ہوئے جو مذکورہ امور سے روکتا ہے تو آپ ہلاک ہو کر بدبختی کا شکار ہو جائیں گے۔
{وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (17) قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (18) قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى (19) فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (22) لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى (23)}.
اور کیا ہے یہ تیرے دائیں ہاتھ میں اے موسیٰ؟
(17) موسیٰ نے کہا، یہ میرا عصا ہے، ٹیک لگاتا ہوں میں اس پراور پتے جھاڑتا ہوں اس کے ساتھ اپنی بکریوں پراور میرے لیے اس میں مقاصد ہیں اور بھی
(18) اللہ نے فرمایا، ڈال دے اسے، اے موسی
(19) پس جب اس نے ڈالا اسے تو ناگہاں وہ سانپ تھا دوڑتا ہوا
(20) فرمایا، پکڑ لے اسے اور مت ڈر تو، ابھی ہم لوٹا دیں گے اسے اس کی پہلی ہی حالت پر
(21) اور ملا اپنا ہاتھ ساتھ اپنی بغل کے، نکلے گا وہ چمکتا ہوا بغیر کسی بیماری کے، یہ نشانی ہے دوسری
(22) تاکہ ہم دکھائیں تجھے کچھ اپنی نشانیاں بڑی بڑی
(23)
#
{17} لما بيَّن الله لموسى أصلَ الإيمان؛ أراد أن يبيِّن له ويريه من آياته ما يطمئنُّ به قلبه، وتقرُّ به عينه، ويقوى إيمانُه بتأييد الله له على عدوِّه، فقال: {وما تلك بيمينِك يا موسى}: هذا مع علمه تعالى، ولكن لزيادة الاهتمام في هذا الموضع؛ أخرج الكلام بطريق الاستفهام.
[17] جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u کے سامنے اساس ایمان کا ذکر کیا تو ارادہ فرمایا کہ وہ ان کے سامنے اساس ایمان کو اچھی طرح واضح کر دے اور انھیں اپنی نشانیاں دکھائے جن سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی تائید سے ان کے ایمان کو تقویت حاصل ہو،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰؔى ﴾ ’’اے موسیٰ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کے باوجود تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر زیادہ اہتمام کی بنا پر استفہام کے اسلوب میں کلام فرمایا۔
#
{18} فقال موسى: {هي عصايَ أتوكَّأ عليها وأهشُّ بها على غنمي}: ذكر فيها هاتين المنفعتين؛ منفعة لجنس الآدمي، وهو أنَّه يعتمد عليها في قيامه ومشيه، فيحصُل فيها معونةٌ ومنفعةٌ للبهائم، وهو أنَّه كان يرعى الغنم؛ فإذا رعاها في شجر الخبط ونحوه؛ هشَّ بها؛ أي: ضرب الشجر ليتساقطَ ورقُه فيرعاه الغنم. هذا الخُلُق الحسن من موسى عليه السلام الذي من آثارِهِ حُسْنُ رعاية الحيوان البهيم والإحسان إليه دلَّ على عنايةٍ من الله له واصطفاءٍ وتخصيص تقتضيه رحمةُ الله وحكمتُه. {ولي فيها مآربُ}؛ أي: مقاصد {أخرى}: غير هذين الأمرين.
ومن أدب موسى عليه السلام أنَّ الله لما سأله عمَّا في يمينه، وكان السؤال محتملاً عن السؤال عن عينها أو منفعتها؛ أجابه بعينها ومنفعتها.
[18] موسیٰ u نے جواب میں عرض کیا:
﴿ قَالَ هِیَ عَصَایَ١ۚ اَتَوَؔكَّـؤُا عَلَیْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَ٘نَمِیْ ﴾ ’’یہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں ۔‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ نے دو فوائد ذکر فرمائے ہیں ۔
(۱) آدمی کے لیے فائدہ، وہ چلنے پھرنے اور کھڑے ہونے میں اس کا سہارا لیتا ہے اور اسے اس سے مدد حاصل ہوتی ہے۔
(۲) بہائم کے لیے فائدہ، آدمی اس کے ذریعے اپنی بھیڑ بکریوں کو چراتا ہے۔ جب وہ اپنے مویشیوں کو درختوں کے پاس چراتا ہے تو اس سے درختوں کے پتے جھاڑتا ہے، یعنی یہ عصا درخت پر مارتا ہے تاکہ پتے جھڑیں اور ان کو بکریاں چر لیں ۔
یہ حضرت موسیٰ u کا حسن خلق ہے جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ بہائم و حیوانات کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن رعایت سے پیش آتے تھے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت موسیٰu پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی اللہ تعالیٰ نے انھیں چن کر اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت اس تخصیص کا تقاضا کرتی تھی۔
﴿ وَلِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰؔى ﴾ ’’اور میرے لیے اس میں دوسرے مقاصد بھی ہیں ۔‘‘ یعنی ان مذکورہ دو مقاصد کے علاوہ، دیگر مقاصد۔ یہ موسیٰ u کا ادب تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کیا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے… یہ سوال عصا کے عین کے بارے میں ہے یا اس کی منفعت کے بارے میں ، اس میں دونوں احتمالات ہیں … موسیٰ u نے اس کے عین اور منفعت، یعنی دونوں احتمالات کے مطابق جواب دیا۔
#
{19 ـ 20} فقال الله له: {ألقها يا موسى. فألقاها فإذا هي حيَّةٌ تسعى}: انقلبت بإذن الله ثعباناً عظيماً، فولَّى موسى هارباً خائفاً ولم يعقبْ.
وفي وصفها بأنها تسعى إزالةٌ لوهم يمكن وجوده، وهو أنْ يُظنَّ أنها تخييلٌ لا حقيقة؛ فكونها تسعى يزيلُ هذا الوهم.
[20,19] اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu سے ارشاد فرمایا:
﴿ قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰؔى فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَ٘سْعٰى ﴾ ’’اے موسیٰ! اسے زمین پر ڈال دے تو انھوں نے ڈال دیا، پس وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ عصا ایک بہت بڑے سانپ میں تبدیل ہو گیا اور موسیٰ u خوف کھا کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
#
{21} فقال الله لموسى: {خُذْها ولا تَخَفْ}؛ أي: ليس عليك منها بأسٌ، {سنعيدُها سيرتها الأولى}؛ أي: هيئتها وصفتها؛ إذ كانت عصا، فامتثل موسى أمر الله إيماناً به وتسليماً، فأخذها، فعادت عصاه التي كان يعرفها. هذه آيةٌ.
[21] اس سانپ کا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ حرکت کرتا تھا یہ ایک وہم کے ازالے کے لیے تھا جو ممکن تھا کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سب تخیل کی کارفرمائی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ۔ پس اس کے حرکت کرنے نے اس وہم کا ازالہ کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu سے فرمایا:
﴿ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ﴾ ’’اسے پکڑ لے اور مت ڈر‘‘ یعنی اس سے تجھ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔
﴿ سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى﴾ یعنی ہم اسے اس کی اصلی ہیئت اور صفت کی طرف لوٹا دیں گے جو عصا کی ہوتی ہے۔ موسیٰ u نے ایمان اور تسلیم و رضا سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور سانپ کو پکڑ لیا اور سانپ اسی جانے پہچانے عصا میں تبدیل ہو گیا۔ یہ
(پہلا) معجزہ ہے۔
#
{22} ثم ذكر الآية الأخرى، فقال: {واضْمُمْ يدك إلى جناحِكَ}؛ أي: أدخل يدك إلى جيبك، وضمَّ عليك عَضُدك الذي هو جناحُ الإنسان؛ {تَخْرُجْ بيضاءَ من غير سوءٍ}؛ أي: بياضاً ساطعاً من غير عيبٍ ولا برص. {آيةً أخرى}.
[22] اللہ تعالیٰ نے دوسرے معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَاضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ ﴾ یعنی اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال اور اپنے بازو کو اپنے ساتھ لگا لے جو انسان کے پرَ ہیں ۔
﴿ تَخْرُجْ بَیْضَآءَؔ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ ﴾ یعنی بغیر کسی عیب اور برص وغیرہ کے، سفید، چمکتا ہوا نکلے گا۔
﴿ اٰیَةً اُخْرٰى﴾ یہ دوسرا معجزہ ہے۔
#
{23} قال الله: {فذانك برهانان من ربِّك إلى فرعون وملئه إنِّهم كانوا قوماً فاسقين}؛ {لِنُرِيَكَ من آياتنا الكبرى}؛ أي: فعلنا ما ذكرنا من انقلاب العصا حيَّةً تسعى ومن خروج اليد بيضاء للناظرين، لأجل أن نُرِيَكَ من آياتنا الكبرى الدالَّة على صحَّة رسالتك وحقيقة ما جئتَ به، فيطمئنُّ قلبك، ويزداد علمُك، وتثقُ بوعد الله لك بالحفظ والنُّصرة، ولتكون حجَّة وبرهاناً لمن أرسِلْتَ إليهم.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰ٘نِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ (القصص:28؍32) ’’تیرے رب کی طرف سے یہ دو معجزے ہیں ، فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں ۔‘‘
﴿ لِـنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰى ﴾ یہ مذکور افعال… یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا دیکھنے والوں کے لیے سفید چمکدار ہو جانا… صرف اس لیے سرانجام دیے ہیں تاکہ ہم تجھ کو اپنی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کروائیں ، جو تیری رسالت کی صحت اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کی حقیقت پر دلالت کرتی ہیں اور یوں تجھ کو اطمینان قلب حاصل ہو گا، تیرے علم میں اضافہ ہو گا اور تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرت کے وعدے پر بھروسہ کرے گا، نیز یہ نشانیاں ان لوگوں کے سامنے حجت اور دلیل ہوں گی جن کی طرف تجھ کو مبعوث کیا جا رہا ہے۔
{اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (24) قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي (28) وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (33) وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا (34) إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا (35) قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَامُوسَى (36)}.
تو جا فرعون کی طرف، بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے
(24) موسیٰ نے کہا، اے رب! کھول دے میرے لیے میرا سینہ
(25) اور آسان کر دے میرے لیے میرا کلام
(26) اور کھول دے گرہ میری زبان کی
(27) (تاکہ) وہ سمجھیں میری بات
(28) اور بنا دے میرے لیے وزیر میرے اہل سے
(29) (، یعنی ) ہارون میرے بھائی کو
(30) مضبوط کر تو ساتھ اس کے میری کمر
(31) اور شریک کر اسے میرے کام
(نبوت) میں
(32) تاکہ ہم تسبیح بیان کریں تیری بہت
(33) اور
(تاکہ) ہم یاد کریں تجھے کثرت سے
(34)بلاشبہ تو ہے ہمیں خوب دیکھنے والا
(35) اللہ نے کہا تحقیق دے دیا گیا تو اپنا سوال اے موسیٰ!
(36)
#
{24} لما أوحى الله إلى موسى ونبَّأه وأراه الآيات الباهرات؛ أرسله إلى فرعون ملك مصر، فقال: {اذهبْ إلى فرعون إنَّه طغى}؛ أي: تمرَّد وزاد على الحدِّ في الكفر والفساد والعلوِّ في الأرض والقهر للضعفاء، حتى إنَّه ادَّعى الربوبيَّة والألوهيَّة قبحه الله؛ أي: وطغيانه سبب لهلاكه، ولكنْ من رحمة الله وحكمتِهِ وعدلِهِ أنَّه لا يعذِّب أحداً إلاَّ بعد قيام الحجة بالرسل.
[24] جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ u پر وحی نازل کر کے انھیں نبوت عطا کر دی اور انھیں بڑے بڑے معجزات کا مشاہدہ کروا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف مبعوث کیا اور فرمایا:
﴿ اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ﴾ ’’فرعون کی طرف جا، وہ سرکش ہو گیا ہے۔‘‘ یعنی وہ ، اپنے کفر و فسادمیں ، زمین میں تغلب اور کمزوروں پر ظلم کرنے میں حد سے بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ اس نے ربویت اور الوہیت کا دعویٰ کر دیا… قبحہ اللّٰہ… یعنی اس کی سرکشی اس کی ہلاکت کا سبب ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اس کی حکمت اور اس کا عدل ہے کہ وہ کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک کہ انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے اس پر حجت قائم نہیں کر دیتا۔
#
{25} فحينئذٍ عَلِمَ موسى عليه السلام أنَّه تحمَّل حملاً عظيماً؛ حيث أُرسِلَ إلى هذا الجبار العنيد، الذي ليس له منازعٌ في مصر من الخلق، وموسى عليه السلام وحدَه، وقد جرى منه ما جرى من القتل، فامتثل أمر ربِّه، وتلقَّاه بالانشراح والقَبول، وسأله المعونة وتيسير الأسباب التي هي من تمام الدَّعوة، فقال: {ربِّ اشرحْ لي صدري}؛ أي: وسِّعه وافسحْه لأتحمَّل الأذى القوليَّ والفعليَّ، ولا يتكدَّر قلبي بذلك، ولا يضيق صدري؛ فإنَّ الصدر إذا ضاق؛ لم يصلح صاحبُه لهداية الخلق ودعوتهم؛ قال الله لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم ولو كنتَ فظًّا غليظَ القلب لانفضُّوا من حولِكَ}، وعسى الخلقُ يقبلون الحقَّ مع اللِّين وسَعَة الصدر وانشراحه عليهم.
[25] اس وقت موسیٰ u کو معلوم ہوا کہ انھوں نے بہت بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا لیا ہے اور انھیں ایک جابر اور سرکش انسان کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، جس کا مصر میں مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں جبکہ موسیٰ u نے تن تنہا ہیں ، علاوہ ازیں ان سے ایک قتل بھی سرزد ہو چکا تھا لیکن انھوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور انشراح صدر کے ساتھ اس کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ سے مدد اور اسباب کی فراہمی کا سوال کیا جن کی بنا پر دعوت کی تکمیل ہوتی ہے،
چنانچہ عرض کیا: ﴿ رَبِّ اشْ٘رَحْ لِیْ صَدْرِیْ﴾ یعنی اے اللہ! میرے سینے کو کھول دے اور اسے وسعت عطا کر تاکہ میں قولی اور فعلی اذیتیں برداشت کر سکوں اور میرا قلب تکدر کا شکار نہ ہو اور میرا سینہ تنگ نہ ہو کیونکہ انسان کا سینہ جب تنگ ہوتا ہے تو وہ مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا اہل نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرمایا:
﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ
(e) ان کے لیے بہت نرم دل ہیں اگر آپ تندخو سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے اردگرد سے چھٹ جاتے۔‘‘ لوگ
(داعی کی) نرم خوئی، کشادہ دلی اور ان کے بارے میں اس سے انشراح صدر کی بنا پر قبول حق کے قریب آتے ہیں ۔
#
{26} {ويسِّرْ لي أمري}؛ أي: سهل عليَّ كلَّ أمرٍ أسلكه وكلَّ طريق أقصده في سبيلك، وهوِّنْ عليَّ ما أمامي من الشدائد، ومن تيسير الأمر أن ييسِّر للداعي أن يأتي جميع الأمور من أبوابها، ويخاطبَ كلَّ أحدٍ بما يناسب له، ويدعوه بأقرب الطُّرق الموصلة إلى قبول قوله.
[26] ﴿ وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ﴾ یعنی میرے لیے میرا ہر معاملہ اور اپنے راستے میں میری ہر منزل کو آسان کر دے، میرے سامنے جو مشکلات اور سختیاں ہیں ان کو نرم کر دے۔ معاملے کو آسان کرنا یہ ہے کہ داعی نہایت آسانی کے ساتھ تمام معاملات کو ان کے اپنے اپنے دائرے میں نمٹا سکے۔ ہر شخص سے اس کے مزاج کی مناسبت سے مخاطب ہو اور اسے اس طریقے سے دعوت دے جو قبول حق کے قریب تر ہو۔
#
{27 ـ 28} {واحلُلْ عقدةً من لساني. يَفْقَهوا قولي}: وكان في لسانه ثِقَلٌ لا يكاد يُفْهَمُ عنه الكلام كما قال المفسِّرون؛ كما قال الله عنه: إنَّه قال: {وأخي هارونَ هو أفصحُ مني لساناً}، فسأل الله أن يَحُلَّ منه عقدةً؛ يفقهوا ما يقولُ، فيحصل المقصود التامُّ من المخاطبة والمراجعة والبيان عن المعاني.
[28,27] ﴿ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ۰۰ یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ﴾ موسیٰ u کی زبان میں ثقل تھا جس کی وجہ سے ان کی بات مشکل سے سمجھ میں آتی تھی۔ جیسا کہ مفسرین کی رائے ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا:
﴿ وَاَخِیْ هٰؔرُوْنُ هُوَ اَفْ٘صَحُ مِنِّیْ لِسَانًا ﴾ (القصص:28؍34) ’’اور میرا بھائی ہارون، مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے۔‘‘ حضرت موسیٰ u نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان کی بات کو سمجھ سکیں اور خطاب اور معانی کے بیان کا مقصد پورا ہو سکے۔
#
{29 ـ 30} {واجعل لي وزيراً من أهلي}؛ أي: عويناً يعاونني ويؤازرني ويساعدني على من أرسِلْتُ إليهم، وسأل أن يكون من أهلِهِ؛ لأنه من باب البرِّ، وأحقُّ ببر الإنسان قرابتُهُ. ثم عيَّنه بسؤاله، فقال: {هارونَ أخي}.
[30,29] ﴿ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْ٘لِیْ﴾ یعنی میرے گھر والوں میں سے میرا مددگار بنا دے جو میری مدد کرے، جو میرا بوجھ بٹائے اور جن لوگوں کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیجا جا رہا ہے ان کے مقابلے میں مجھے تقویت دے اور اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کی کہ یہ مددگار ان کے گھر والوں میں سے ہو اس لیے کہ یہ صلہ رحمی کا ایک طریقہ ہے۔ انسان کی نیکی کا سب سے زیادہ مستحق اس کا رشتہ دار ہوتا ہے،
پھر اپنی دعا میں اس مددگار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا: ﴿هٰؔرُوْنَ اَخِی﴾
#
{31 ـ 32} {اشدد به أزري}؛ أي قوِّني به وشدَّ به ظهري. قال الله: {سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بأخيك ونَجْعَلُ لكما سلطاناً}، {وأشرِكْه في أمري}؛ أي: في النبوَّة؛ بأن تجعله نبيًّا رسولاً كما جعلتني.
[32,31] ﴿اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ﴾ یعنی مجھے میرے بھائی کے ذریعے قوت عطا کر اور میری کمر کو مضبوط کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُؔلْطٰنًا ﴾ (القصص:28؍35) ’’ہم آپ کے بھائی کے ذریعے سے آپ کے ہاتھ مضبوط کریں گے اور آپ دونوں کو غلبہ دیں گے۔‘‘
﴿وَاَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ﴾ نبوت میں اسے میرا شریک بنا دے، یعنی اسے بھی نبی اور رسول بنا دے جس طرح مجھے بنایا ہے۔
#
{33 ـ 34} ثم ذكر الفائدة في ذلك، فقال: {كي نسبِّحكَ كثيراً. ونذكُرَكَ كثيراً}: علم عليه الصلاة (والسلام) أنَّ مدار العباداتِ كلِّها والدينِ على ذِكْرِ الله، فسأل الله أن يجعلَ أخاه معه يتساعدان ويتعاونان على البرِّ والتقوى، فيكثر منهما ذِكْرُ الله من التسبيح والتهليل وغيره من أنواع العبادات.
[34,33] پھر اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے عرض کیا:
﴿كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ۰۰ وَّنَذْكُرَكَ كَثِیْرًا﴾ موسیٰu کو معلوم تھا کہ تمام عبادات اور دین کا دارومدار اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کے ساتھ ان کے بھائی کو بھی نبوت عطا کر دے، وہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی تسبیح و تہلیل اور عبادات کی دیگر انواع میں اضافہ ہو گا۔
#
{35} {إنَّك كنتَ بنا بصيراً}: تعلمُ حالنا وضعفنا وعَجْزَنا وافتقارَنا إليك في كلِّ الأمور، وأنت أبصرُ بنا من أنفسنا وأرحم؛ فمُنَّ علينا بما سألناك، وأجب لنا فيما دعوناك.
[35] ﴿اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا ﴾ اے اللہ! تو ہمارے حال، ہماری کمزوری اور ہمارے عجز کو جانتا ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم ہر معاملے میں تیرے محتاج ہیں تو ہمیں ہم سے زیادہ دیکھتا ہے اور ہم پر ہم سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ پس ہم نے تجھ سے جو سوال کیا ہے وہ ہمیں عطا کر کے ہمیں ممنون فرما اور ہماری دعا قبول فرما۔
#
{36} فقال الله: {قد أوتيتَ سُؤْلَكَ يا موسى}؛ أي: أعطيت جميع ما طلبت، فسنشرح صدرك، ونيسِّر أمرك، ونحلُّ عقدةً من لسانك؛ يفقهوا قولك، ونشدُّ {عَضُدَكَ بأخيك هارون، ونجعلُ لكما سلطاناً؛ فلا يصلونَ إليكما بآياتِنا، أنتما ومَن اتَّبعكما الغالبون}.
وهذا السؤال من موسى عليه السلام، يدلُّ على كمال معرفته بالله وكمال فطنتِهِ ومعرفتِهِ للأمور وكمال نصحِهِ، وذلك أنَّ الدَّاعي إلى الله المرشِدِ للخلق، خصوصاً إذا كان المدعوُّ من أهل العناد والتكبُّر والطُّغيان ، يحتاج إلى سعة صدر، وحلم تامٍّ على ما يصيبه من الأذى، ولسان فصيح يتمكَّن من التعبير به عن ما يريده ويقصده، بل الفصاحةُ والبلاغة لصاحب هذا المقام من ألزم ما يكون؛ لكثرة المراجعات والمراوضات، ولحاجته لتحسين الحقِّ وتزيينه بما يقدر عليه؛ ليحبِّبه إلى النفوس، وإلى تقبيح الباطل وتهجينه لينفِّرَ عنه، ويحتاج مع ذلك أيضاً أن يتيسَّر له أمره، فيأتي البيوت من أبوابها، ويدعو إلى سبيل الله بالحكمة والموعظة الحسنة والمجادلة بالتي هي أحسن؛ يعامل الناس كلًّا بحسب حاله، وتمام ذلك أن يكون لمن هذه صفتُهُ أعوانٌ ووزراءُ يساعدونه على مطلوبه؛ لأنَّ الأصوات إذا كَثُرت؛ لا بدَّ أن تؤثر؛ فلذلك سأله عليه الصلاة والسلام هذه الأمور، فأعْطِيَها.
وإذا نظرتَ إلى حالة الأنبياء المرسلين إلى الخلق؛ رأيتَهم بهذه الحال بحسب أحوالهم، خصوصاً خاتمهم وأفضلهم محمد - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّه في الذُّروة العليا من كلِّ صفة كمال، وله من شرح الصدرِ وتيسير الأمر وفصاحةِ اللسان وحسن التعبيرِ والبيان والأعوانِ على الحقِّ من الصحابة فَمَنْ بعدَهم ما ليس لغيره.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰؔى ﴾ اے موسیٰ! جو کچھ تو نے مانگا ہے تجھ کو عطا کیا جاتا ہے، ہم تجھ کو انشراح صدر عطا کر دیں گے، تیرے معاملے کو آسان کر دیں گے، تیری زبان کی گرہ کھول دیں گے، لوگ تیری بات کو سمجھیں گے اور ہم تیرے بھائی ہارون کے ذریعے سے تیرے ہاتھ مضبوط کر دیں گے
﴿ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُؔلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا١ۛۚ بِاٰیٰتِنَاۤ ١ۛۚ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ ﴾ (القصص:28؍35) ’’ہم تم دونوں کو غلبہ دیں گے اور وہ ہماری نشانیوں کے سبب سے تم دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، غلبہ تم دونوں اور تمھارے متبعین ہی کا ہو گا۔‘‘
موسیٰ u کا سوال اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل تھی، آپ کمال درجے کے ذہین و فطین تھے اور تمام معاملات کی کامل معرفت رکھتے تھے اور کامل خیرخواہی سے بہرہ ور تھے، نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوق کی راہنمائی کرنے والا… خاص طور پرجب اس داعی کے مخاطب اہل عناد، متکبر اور سرکش لوگ ہوں … کشادہ دلی، اذیتوں پر بردباری اور فصاحت زبان کا، جس کے ذریعے سے وہ اپنے مقاصد اور ارادوں کی تعبیر پر قادر ہو، محتاج ہوتا ہے بلکہ اس مقام پر فائز شخص کے لیے فصاحت و بلاغت نہایت ضروری ملکہ ہے کیونکہ اسے کثرت سے بحث و تکرار کی ضرورت پیش آتی ہے، علاوہ ازیں یہ بھی اس کی ضرورت ہے کہ وہ حتی المقدور حق کو خوب صورت اور مزین کر کے پیش کرے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو اور باطل کی قباحت و شناعت کو اجاگر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر ہوں ۔
اس کے ساتھ ساتھ داعی ٔحق اس بات کا بھی محتاج ہے کہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا ہو اور وہ اس کے لیے درست طریق کار اختیار کرے۔ حکمت، اچھی نصیحت اور بہترین طریق گفتگو کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دے اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب حال معاملہ کرے اور ان سب باتوں کی تکمیل یہ ہے کہ جو شخص یہ وصف رکھتا ہو اس کے کچھ اعوان و مددگار ہوں جو اس کے مقصد کے حصول میں اس کی مدد کریں کیونکہ جب آوازیں زیادہ ہوں گی تو وہ زیادہ اثر انداز ہوں گی، اسی لیے موسیٰ u نے ان امور کا سوال کیا تھا جو انھیں عطا کر دیے گئے۔
اگر آپ انبیاء کی حالت پر غور کریں گے، جن کو مخلوق کی طرف بھیجا گیا تو ان کے احوال کے مطابق ان کو اسی حال میں پائیں گے۔ خاص طور پر افضل الانبیاء خاتم المرسلین جناب محمدe کو، جو ہر صفت کمال میں بلندترین درجے پر فائز تھے۔ آپe کو جس طرح شرح صدر، تیسیر امر، فصاحت زبان، حسن تعبیر و بیان اور حق کی راہ میں اعوان و انصار یعنی صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والوں سے نوازا گیا، دوسرے انبیاء کو یہ خوبیان اس انداز سے میسر نہیں آئیں ۔
{وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى (37) إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى (38) أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِي وَعَدُوٌّ لَهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي (39) إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَامُوسَى (40) وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي (41)}.
اور البتہ تحقیق احسان کر چکے ہیں ہم تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی
(37)جب الہام کیا تھا ہم نے تیری ماں کی طرف، وہ جو
(اب) وحی کی جاتی ہے
(38) یہ کہ ڈال دے تو اس
(موسیٰ) کو صندوق میں ، پھر ڈال دے اس
(صندوق) کو دریا میں ، پس لا ڈالے گا اس کو دریا ساحل پر، کہ پکڑے اس کو دشمن میرا اور دشمن اس کااور ڈال دی میں نے تجھ پر محبت اپنی طرف سےاور تو پرورش کیا جائے میری آنکھوں کے سامنے
(39)جب چلتی تھی تیری بہن، پس کہتی تھی وہ، کیا رہنمائی کروں میں تمھاری اس شخص پر جو کفالت کرے اس کی؟ پھر لوٹایا ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف تاکہ ٹھنڈی ہو آنکھ اس کی اور نہ غم کھائے وہ، اور قتل کیا تھا تو نے ایک نفس کو، پس نجات دی ہم نے تجھے غم سےاورآزمایا ہم نے تجھے
(خوب آزمانا)، پس ٹھہرا رہا تو کئی سال اہل مدین میں ، پھر آیا تو اوپر تقدیر
(الٰہی) کے، اے موسی!
(40) اور خاص کر لیا میں نے تجھے اپنے کام کے لیے
(41)
#
{37 ـ 39} لما ذكر مِنَّته على عبده ورسوله موسى بن عمران في الدين والوحي والرسالة وإجابة سُؤْلِهِ؛ ذكر نعمته عليه وقتَ التربية والتنقُّلات في أطواره، فقال: {ولقد مَنَنَّا عليك مرةً أخرى}: حيث ألهمنا أمَّك أن تقذِفَك في التابوت وقت الرَّضاع خوفاً من فرعون؛ لأنَّه أمر بذبح أبناء بني إسرائيل، فأخفته أمُّه وخافت عليه خوفاً شديداً، فقذفَتْه في التابوت، ثم قذفتْه في اليمِّ؛ أي: شط نيل مصر، فأمر الله اليمَّ أن يُلقيه في الساحل، وقيَّض أنْ يأخذه أعدى الأعداء لله ولموسى، ويتربَّى في أولاده، ويكون قرَّة عينٍ لمن رآه، ولهذا قال: {وألقيتُ عليك محبَّةً منِّي}؛ فكلُّ من رآه أحبَّه. {ولِتُصْنَعَ على عيني}؛ أي: ولتتربَّى على نظري وفي حفظي وكلاءتي، وأيُّ نظر وكفالة أجلُّ وأكمل من ولاية البَرِّ الرحيم القادر على إيصال مصالح عبده ودفع المضارِّ عنه؛ فلا ينتقلُ من حالةٍ إلى حالةٍ إلاَّ والله تعالى هو الذي دبَّر ذلك لمصلحة موسى!
[39-37] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بیان کرنے کے بعد کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ بن عمرانu کو دین، وحی،رسالت اور قبولیت دعا سے نوازا… اس نعمت کا ذکر فرمایا جو اس نے حضرت موسیٰu کو ان کی پرورش اور ان کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتے وقت عطا کی تھی،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً اُخْرٰۤى ﴾ ’’اور ہم نے تجھ پر احسان کیا دوسری مرتبہ‘‘ جب ہم نے تیری والدہ کی طرف الہام کیا کہ وہ تجھ کو رضاعت کے وقت، فرعون کے خوف سے، ایک صندوق میں ڈال دے کیونکہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرنے کا حکم دے رکھا تھا، موسیٰ u کی والدہ نے آپ کو چھپا دیا، انھیں حضرت موسیٰu کے بارے میں سخت خوف لاحق ہوا چنانچہ انھوں نے آپ کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا یعنی دریائے نیل میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا کہ وہ اس صندوق کو کنارے پر لگا دے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا کہ اس صندوق کو،
اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰu کا سب سے بڑا دشمن پکڑ لے اور اس کی اپنی اولاد کے ساتھ تربیت حاصل کرے اور جو کوئی اس کو دیکھے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔
اسی لیے فرمایا: ﴿ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ﴾ ’’اور میں نے ڈال دی تجھ پر محبت اپنی طرف سے۔‘‘ یعنی جو کوئی آپ کو دیکھتا محبت کرنے لگتا تھا۔
﴿وَلِتُصْنَعَ عَلٰى عَیْنِیْ ﴾ یعنی تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے، میری حفاظت میں تربیت حاصل کرے اور رحیم و کریم اللہ کی سرپرستی سے بڑھ کر کس کی کفالت اور دیکھ بھال جلیل القدر اور کامل ہو سکتی ہے، جو اپنے بندے کو اس کے مصالح عطا کرنے اور ضرر رساں امور کو اس سے دور کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پس موسیٰ u ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہی ان کی مصلحت کے مطابق ان کی تدبیر فرماتا ۔
#
{40} ومن حسن تدبيره أنَّ موسى لما وقع في يد عدوِّه؛ قلقتْ أمُّه قلقاً شديداً، وأصبح فؤادها فارغاً، وكادت تُخْبِرُ به، لولا أنَّ الله ثبَّتها وربط على قلبها؛ ففي هذه الحالة حرَّم الله على موسى المراضع؛ فلا يقبل ثديَ امرأةٍ قطُّ؛ ليكون مآلُه إلى أمِّه فترضِعَه ويكونَ عندها مطمئنَّة ساكنةً قريرة العين، فجعلوا يعرضون عليه المراضع؛ فلا يقبلُ ثدياً، فجاءتْ أختُ موسى، فقالت لهم: {هل أدلُّكم}: على أهل بيتٍ يكفُلونه لكم وهم له ناصحونَ، {فَرَجَعْناك إلى أمِّك كي تَقَرَّ عينُها ولا تحزنْ وقتلتَ نفساً}: وهو القبطيُّ لما دخل المدينة وقتَ غفلةٍ من أهلها وَجَدَ رجلين يقتتلانِ: واحدٌ من شيعة موسى والآخر من عدوِّه قبطيٌّ، فاستغاثه الذي من شيعتِهِ على الذي من عدوِّه، فوَكَزَهُ موسى فقضى عليه، فدعا الله وسأله المغفرةَ فَغَفَرَ له، ثم فرَّ هارباً لما سمع أنَّ الملأ طَلَبوه يريدون قتله. {فنجَّيْناك من الغمِّ}: من عقوبة الذنب ومن القتل، {وفَتَنَّاك فُتوناً}؛ أي: اختبرناك وبَلَوْناك فوجدناك مستقيماً في أحوالك، أو نقَّلْناك في أحوالك وأطوارك حتى وصلتَ إلى ما وصلتَ إليه. {فلبثتَ سنين في أهل مَدْيَنَ}: حين فرَّ هارباً من فرعون وملئه حين أرادوا قتله، فتوجَّه إلى مدين، ووصل إليها، وتزوَّج هناك، ومكث عشر سنين أو ثمان سنين، {ثم جئتَ على قَدَرٍ يا موسى}؛ أي: جئت مجيئاً ليس اتفاقاً من غير قصدٍ ولا تدبيرٍ منَّا، بل بقدرٍ ولطف منَّا ، وهذا يدلُّ على كمال اعتناء الله بكليمه موسى عليه السلام.
[40] اور یہ اللہ تعالیٰ کی حسن تدبیر ہی تھی کہ جب موسیٰ u دشمن کے قبضے میں چلے گئے تو ان کی والدہ سخت بے چین ہو گئیں اور ان کا دل رنجیدہ ہو گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا تو قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰu کا بھید کھول دیتیں ۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u پر تمام دودھ پلانے والیوں کا دودھ حرام کر دیا۔ انھوں نے کسی عورت کی چھاتی کو منہ نہ لگایا تاکہ معاملہ آخرکار ماں تک پہنچے اور ماں ان کو دودھ پلائے، بچہ ماں کے پاس رہے اور ماں مطمئن اور پرسکون ہو اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔
فرعون کے کارندے دودھ پلانے والیوں کو ایک ایک کر کے بچے کے پاس لائے مگر اس نے کسی کی چھاتی کو قبول نہ کیا۔ موسیٰ u کی بہن آئی اور فرعون اور اسکے کارندوں سے کہنے لگی۔
﴿ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ ﴾ (القصص:28؍12) ’’کیا میں تمھیں ایسے گھرانے کے متعلق نہ بتاؤں جو اسکی کفالت کریں اور اس کی خیر خواہی بھی کریں ؟‘‘ چنانچہ اس طرح ہم نے موسیٰu کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا۔
﴿ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى اُمِّؔكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ١ؕ۬ وَقَتَلْتَ نَفْسًا ﴾ ’’پھر ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹایا تاکہ اسکی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے اور تو نے ایک جان کو قتل کر دیا۔‘‘ وہ مقتول قبطی تھا۔ ایک روز موسیٰu ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے جب شہر کے لوگ غفلت میں تھے۔ آپ نے دیکھا کہ دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں ان میں ایک موسیٰ u کی قوم کا آدمی تھا اور دوسرا ان کی دشمن قوم یعنی قبطیوں سے تعلق رکھتا تھا۔
﴿ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ١ۙ فَوَؔكَزَهٗ مُوْسٰؔى فَ٘قَ٘ضٰى عَلَیْهِ ﴾ (القصص:28؍15) ’’جو شخص ان کی قوم سے تھا اس شخص کے خلاف موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا جو اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا، موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا۔‘‘ اس پر موسیٰ u نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا۔ حضرت موسیٰu کو معلوم ہوا کہ دربار کے لوگ ان کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ ان کو قتل کر دیا جائے تو وہ وہاں سے فرار ہو گئے۔
﴿ فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ ﴾ ’’پس ہم نے تجھ کو نجات دی غم سے‘‘ یعنی گناہ کی سزا اور قتل سے۔
﴿ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ﴾ یعنی ہم نے تجھ کو آزمایا اور تجھ کو اپنے تمام احوال میں راست رو پایا یا ہم تجھ کو مختلف احوال و اطوار میں منتقل کرتے رہے یہاں تک کہ تو اپنے اس مقام کو پہنچ گیا جہاں تجھے پہنچنا تھا۔
﴿فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ﴾ ’’پس تو اہل مدین میں کئی سال رہا۔‘‘ یعنی جب حضرت موسیٰu کو فرعون اور اس کے درباریوں نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو موسیٰu وہاں سے فرار ہو کر مدین پہنچ گئے اور وہاں انھوں نے نکاح کر لیا اور مدین میں آٹھ یا دس سال رہے۔
﴿ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰؔى ﴾ ’’پھر تو آیا تقدیر کے مطابق اے موسیٰ!‘‘ یعنی تو اس مقام پر اتفاقاً، بغیر قصدو ارادہ اور بغیر ہماری تدبیر کے نہیں پہنچا بلکہ ہمارے لطف و کرم اور اندازے سے یہاں پہنچا ہے۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ موسیٰ کلیم اللہ u پر اللہ تعالیٰ کی کامل نظر عنایت تھی۔
#
{41} ولهذا قال: {واصطنعتُك لنفسي}؛ أي: أجريت عليك صنائعي ونعمي وحسن عوائدي وتربيتي؛ لتكون لنفسي حبيباً مختصًّا، وتبلغ في ذلك مبلغاً لا ينالُه أحدٌ من الخلق إلاَّ النادر منهم.
وإذا كان الحبيب إذا أراد اصطناع حبيبه من المخلوقين، وأراد أن يبلغ من الكمال المطلوب له ما يبلغ؛ يبذُلُ غايةَ جهدِهِ ويسعى نهايةَ ما يمكِنُه في إيصاله لذلك؛ فما ظنُّك بصنائع الربِّ القادر الكريم؟! وما تحسبُه يفعلُ بمن أراده لنفسِهِ، واصطفاه من خلقِهِ.
[41] بنا بریں فرمایا:
﴿ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْ٘سِیْ﴾ ’’اور میں نے تجھ کو پسند کر لیا اپنی ذات کے لیے۔‘‘ یعنی میں نے تجھ پر اپنی نعمتوں کا فیضان کیا اور تجھ کو اپنی خصوصی توجہ اور تربیت سے نوازا تاکہ تو میرا خاص محبوب بندہ بن جائے اور ایسے مقام پر فائز ہو جائے جہاں تک کوئی شاذو نادر شخص ہی پہنچتا ہے۔ مخلوق میں جب ایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا دوست اپنے کمال مطلوب میں بلند ترین مقام پر پہنچ جائے تو وہ اس کو اس مقام پہ پہنچانے کے لیے انتہائی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے… جب مخلوق کا یہ حال ہے تو آپ کا رب قادر و کریم کے بارے میں کیا خیال ہے، کہ وہ مخلوق میں سے جس کو اپنا محبوب اور دوست بنانے کے لیے چن لے اس کے ساتھ کیا کرے گا؟
{اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي (42) اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (43) فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى (44) قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى (45) قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى (46)}.
جا تو اور تیرا بھائی میری نشانیاں
(معجزے) لے کراور نہ سستی کرنا تم دونوں میری یاد میں
(42) تم دونوں جاؤ فرعون کی طرف، بلاشبہ وہ سرکش ہو گیا ہے
(43) پس کہو تم دونوں اس سے بات نرم، شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے
(44) ان دونوں نے کہا، اے ہمارے رب! بلاشبہ ہم تو ڈرتے ہیں اس سے کہ وہ زیادتی کرے ہم پر، یا یہ کہ وہ سرکشی کرے
(45) اللہ نے کہا، مت ڈرو تم دونوں ، بلاشبہ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ، میں سنتا اور دیکھتا ہوں
(46)
#
{42} لما امتنَّ اللهّ على موسى بما امتنَّ به من النعم الدينيَّة والدنيويَّة؛ قال له: {اذهب أنت وأخوك}: هارون {بآياتي}؛ أي: الآيات التي مني، الدالَّة على الحقِّ وحسنه وقبح الباطل؛ كاليد والعصا ونحوها؛ في تسع آياتٍ إلى فرعون وملئهِ، {ولا تَنِيا في ذِكْري}؛ أي: لا تفترا ولا تكسلا عن مداومة ذِكْري بالاستمرار عليه والْزَماه كما وعدتُما بذلك: {كي نسبِّحَكَ كثيراً ونَذْكُرَكَ كثيراً}؛ فإنَّ ذكر الله فيه معونةٌ على جميع الأمور؛ يسهِّلها، ويخفِّف حملها.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ u کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازنے کے بعد فرمایا:
﴿ اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ ﴾ ’’جا تو اور تیرا بھائی۔‘‘ یعنی ہارونu
﴿بِاٰیٰتِیْ﴾ ’’میری نشانیوں کے ساتھ۔‘‘ یعنی ان نشانیوں کے ساتھ جائیں جو حق کے حسن اور باطل کی قباحت پر دلالت کرتی ہیں ،
مثلاً:ید بیضاء، عصا اور دیگر نو معجزات لے کر فرعون اور اس کی اشرافیہ کے پاس پاس جائیں ۔
﴿ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْ﴾ ’’اور تم دونوں میرے ذکر میں سستی نہ کرو۔‘‘ یعنی میرا ذکر ہمیشہ کرتے رہو اور اس کو دائمی طور پر قائم رکھتے ہوئے کسی سستی کا شکار نہ ہو، میرے ذکر کو لازم بناؤ جیسا کہ تم دونوں نے خود ان الفاظ میں وعدہ کیا ہے۔
﴿ كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ۰۰وَّنَذْكُرَكَ كَثِیْرًا ﴾ (طٰہ:20؍33،34) اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر تمام معاملات میں مدد و معونت فراہم کر کے ان کو سہل بناتا ہے اور ان معاملات کے بوجھ میں تخفیف کرتا ہے۔
#
{43} {اذهبا إلى فرعون إنَّه طغى}؛ أي: جاوز الحدَّ في كفرِهِ وطغيانِهِ وظلمه وعدوانه.
[43] ﴿ اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى﴾ ’’تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، وہ سرکش ہو گیا ہے۔‘‘ یعنی وہ کفر، سرکشی، ظلم اور تعدی کی تمام حدود پھلانگ گیا ہے۔
#
{44} {فقولا له قولاً ليِّناً}؛ أي: سهلاً لطيفاً برفق ولينٍ وأدبٍ في اللفظ من دون فحش ولا صَلَف ولا غِلْظَةٍ في المقال أو فظاظةٍ في الأفعال. {لعلَّه}: بسبب القول اللين {يَتَذَكَّر}: ما ينفعه فيأتيه {أو يَخْشى}: ما يضرُّه فيتركه؛ فإنَّ القول الليِّن داعٍ لذلك، والقول الغليظ منفِّرٌ عن صاحبه، وقد فُسِّر القول الليِّن في قوله: {فَقُلْ هل لك إلى أن تَزَكَّى. وأهدِيَك إلى ربِّك فتَخْشى}؛ فإنَّ في هذا الكلام من لطف القول وسهولتِهِ وعدم بشاعته ما لا يخفى على المتأمِّل؛ فإنَّه أتى بـ {هل} الدالَّة على العرض والمشاورة، التي لا يشمئزُّ منها أحدٌ، ودعاه إلى التزكِّي والتطهُّر من الأدناس، التي أصلها التطهُّر من الشرك، الذي يقبله كلُّ عقل سليم، ولم يقلْ: أزكيك، بل قال: {تزكَّى}: أنت بنفسك، ثم دعاه إلى سبيل ربِّه الذي ربَّاه وأنعم عليه بالنِّعم الظاهرة والباطنة، التي ينبغي مقابلتها بشكرها وذكرها، فقال: {وأهدِيَك إلى ربِّك فتَخْشى}، فلما لم يقبلْ هذا الكلام الليِّن الذي يأخُذُ حسنُه بالقلوب؛ عُلِمَ أنَّه لا ينجعُ فيه تذكيرٌ، فأخذه الله أخذ عزيز مقتدر.
[44] ﴿ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا﴾ لفظی آداب کا خیال رکھتے ہوئے، نرمی کے ساتھ نہایت سہل اور لطیف بات کیجیے، فحش گوئی، ڈینگیں مارنے، سخت الفاظ اور درشت افعال سے پرہیز کیجیے۔
﴿ لَّعَلَّهٗ﴾ شاید وہ اس نرم گوئی کے سبب سے
﴿ یَتَذَكَّـرُ ﴾ نصیحت پکڑے جو اس کو فائدہ دے اور وہ اس پر عمل کرنے لگے
﴿اَوْ یَخْشٰى ﴾ اور نقصان دہ چیز سے ڈرے اور اسے ترک کر دے کیونکہ نرم گوئی اس کی طرف دعوت دیتی ہے اور سخت گوئی لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ’’نرم گوئی‘‘ کی اپنے ارشاد میں تفسیر بیان کی ہے۔
﴿ فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَؔكّٰى ۙ۰۰وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ﴾ (النزعت:79؍18،19) ’’اور اس سے کہیے کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے؟‘‘ کیونکہ اس قول میں جو نرمی اور آسانی پنہاں ہے اور سختی اور درشتی سے جس طرح پاک ہے، غور کرنے والے پر مخفی نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
(ھل) کا لفظ استعمال کیا ہے جو ’’عرض‘‘ اور ’’مشاورت‘‘ پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی شخص نفرت نہیں کرتا اور اسے ہر قسم کی گندگی سے تطہیر اور تزکیہ کی طرف بلایا ہے۔ جس کی اصل شرک کی گندگی سے تطہیر ہے جسے ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا
(اُزَکِّیکَ) ’’میں تجھے پاک کروں ‘‘ بلکہ فرمایا:
(تَزَکّٰی) یعنی ’’تو خود پاک ہو جائے۔‘‘
پھر موسیٰ u نے اسے اس کے رب کی طرف بلایا جس نے اس کی پرورش کی اور اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا جن پر شکر اور ذکر کرنا چاہیے۔ اس لیے فرمایا:
﴿ وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ﴾ (النازعات:79؍19) ’’اور تاکہ میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے۔‘‘ جب فرعون نے اس کلام نرم و نازک کو قبول نہ کیا، جس کا حسن دلوں کو پکڑ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کو وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پکڑلیا جس طرح ایک غالب اور مقتدر ہستی پکڑتی ہے۔
#
{45} {قالا ربَّنا إنَّنا نخافُ أن يَفْرُطَ علينا}؛ أي: يبادرنا بالعقوبة والإيقاع بنا قبل أن تبلِّغه رسالاتك، ونقيم عليه الحجَّة، {أو أن يَطْغى}؛ أي: يتمرَّد عن الحقِّ، ويطغى بملكه وسلطانه وجندِهِ وأعوانِهِ.
[45] ﴿ قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ ﴾ ’’دونوں نے کہا، اے ہمارے رب! ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے۔‘‘ یعنی کہیں وہ ہمیں عقوبت میں نہ ڈال دے اور تیرا پیغام پہنچانے اور اس پر حجت قائم کرنے سے پہلے ہی کہیں ہمیں کسی تعذیب میں مبتلا نہ کر دے
﴿ اَوْ اَنْ یَّ٘طْغٰى ﴾ یا وہ حق کے خلاف تکبر سے اقتدار و سلطنت، اپنے اعوان اور اپنی افواج کی بنا پر سرکشی نہ دکھائے۔
#
{46} {قال لا تخافا}: أن يَفْرُطَ عليكما؛ {إنَّني معكما أسمع وأرى}؛ أي: أنتما بحفظي ورعايتي، أسمع قولكما، وأرى جميع أحوالكما؛ فلا تخافا منه. فزال الخوفُ عنهما، واطمأنَّت قلوبُهما بوعد ربِّهما.
[46] ﴿ قَالَ لَا تَخَافَاۤ ﴾ فرمایا، اس بات سے نہ ڈرو کہ وہ تم پر زیادتی کرے گا
﴿ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَاَرٰى ﴾ ’’میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ، سنتا اور دیکھتا ہوں۔‘‘ یعنی تم دونوں میری حفاظت اور نگرانی میں ہو، میں تمھاری بات کو سن رہا اور تمھارے تمام احوال کو دیکھ رہا ہوں اس لیے فرعون سے نہ ڈرو! چنانچہ ان دونوں کے دلوں سے فرعون کا خوف زائل ہو گیا اور اپنے رب کے وعدے پر ان کا دل مطمئن ہو گیا۔
{فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (47) إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (48)}.
سو تم دونوں جاؤ اس کے پاس اور کہو، بے شک ہم رسول ہیں تیرے رب کے، پس تو بھیج ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کواور نہ ستا انھیں ، تحقیق ہم لائے ہیں تیرے پاس نشانی تیرے رب کی طرف سےاور سلامتی ہے اس شخص پر جس نے پیروی کی ہدایت کی
(47) بے شک ہم، تحقیق وحی کی گئی ہے ہماری طرف کہ بے شک عذاب ہے اس شخص پر جس نے تکذیب کی اور منہ پھیرا
(48)
#
{47} أي: فأتياه بهذين الأمرين: دعوتُه إلى الإسلام، وتخليصُ هذا الشعب الشريف بني إسرائيل من قيدِهِ وتعبيدِهِ لهم؛ ليتحرَّروا ويملكوا أمرهم، ويقيم فيهم موسى شرع الّله ودينه. {قد جئناك بآيةٍ}: تدلُّ على صدقِنا، فألقى موسى عصاه؛ فإذا هي ثعبانٌ مبينٌ، ونزع يده فإذا هي بيضاءُ للناظرينَ ... إلى آخر ما ذَكَرَ الله عنهما. {والسلامُ على مَنِ اتَّبَعَ الهدى}؛ أي: من اتَّبع الصراط المستقيم واهتدى بالشرع المُبين؛ حصلت له السلامة في الدُّنيا والآخرة.
[47] یعنی ان دو باتوں کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں ۔
(۱) فرعون کو اسلام کی دعوت دیں ۔
(۲) شرف کے حامل قبیلہء بنی اسرائیل کو فرعون کی قید اور اس کی غلامی سے نجات دلائیں تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنے معاملات کے بارے میں خود فیصلہ کریں اور موسیٰ u ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے دین کو نافذ کریں ۔
﴿ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ ﴾ ’’ہم تیرے پاس آئے ہیں نشانی لے کر۔‘‘ جو ہماری صداقت پر دلالت کرتی ہے۔
﴿ فَاَلْ٘قٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ۰۰وَّنَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ ﴾ (الاعراف:7؍107،108) ’’موسیٰ
(u) نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ واضح طور پر سانپ بن گیا اور اس نے اپنا ہاتھ گریبان سے نکالا تو دیکھنے والوں کے سامنے سفید چمک رہا تھا۔‘‘
﴿ وَالسَّلٰ٘مُ عَلٰى مَنِ اتَّ٘بَعَ الْهُدٰؔى ﴾ ’’اور سلام ہے اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔‘‘ یعنی جس نے صراط مستقیم کی پیروی کی اور شرع مبین سے راہ نمائی لی، اسے دنیا و آخرت کی سلامتی حاصل ہو گئی۔
#
{48} {إنَّا قد أوحي إلينا}؛ أي: خبرنا من عند الله لا من عند أنفسنا؛ {أنَّ العذابَ على من كَذَّبَ وتولَّى}؛ أي: كذَّب بأخبار الله وأخبار رسلِهِ، وتولَّى عن الانقياد لهم واتِّباعهم، وهذا فيه الترغيب لفرعون بالإيمان والتصديق واتِّباعهما والترهيب من ضدِّ ذلك، ولكن لم يُفِدْ فيه هذا الوعظ والتذكير، فأنكر ربَّه وكفر وجادل في ذلك ظلماً وعناداً.
[48] ﴿ اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ ﴾ ’’ہماری طرف وحی کی گئی ہے۔‘‘ یعنی ہم جو خبر دے رہے ہیں ، اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے
﴿ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى ﴾ یعنی اس شخص کے لیے عذاب ہے جس نے اللہ اور انبیاء و رسل کی خبر کی تکذیب کی اور ان کی اطاعت سے منہ موڑا۔ اس میں فرعون کو ایمان و تصدیق اور دونوں نبیوں کی اطاعت و اتباع کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے متضاد امور سے ڈرایا گیا ہے۔ مگر اس کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور اس نے اپنے رب کا انکار کر دیا اور ظلم و عناد کی بنا پر اس بارے میں جھگڑا کیا۔
{قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَامُوسَى (49) قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى (50) قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى (51) قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى (52) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى (53) كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (54) مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (55)}.
فرعون نے کہا، پس کون ہے رب تم دونوں کا؟ اے موسیٰ!
(49) موسیٰ نے کہا، ہمارا رب وہ ہے جس نے دی ہر چیز کو شکل و صورت اس کی، پھر سوجھ بوجھ دی
(50) فرعون نے کہا، پس کیا حال ہے پہلی امتوں کا؟
(51) موسیٰ نے کہا، ان کا علم میرے رب کے پاس ہے لوح محفوظ میں ، نہیں بھٹکتا میرا رب اور نہ وہ بھولتا ہے
(52) وہ ذات جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو بچھونااور اس نے بنا دیے تمھارے
(چلنے کے) لیے اس میں راستےاور نازل کیا آسمان سے پانی، پھر نکالیں ہم نے اس کے ذریعے سے کئی اقسام کی نباتات مختلف
(53) تم
(خود بھی) کھاؤ اور چراؤ اپنے چوپایوں کو بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے
(54) اسی زمین سے ہم نے پیدا کیا تمھیں اور اسی میں ہم
(دوبارہ) لوٹائیں گے تمھیں اور اسی میں سے ہم نکالیں گے تمھیں ایک بار پھر
(55)
#
{49} أي: قال فرعون لموسى على وجه الإنكار: {فمن ربُّكما يا موسى}؟
[49] یعنی فرعون نے موسیٰu سے انکار کے طور پر کہا:
﴿ فَ٘مَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰؔى﴾ ’’تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ؟‘‘
#
{50} فأجاب موسى بجواب شافٍ كافٍ واضح، فقال: {ربُّنا الذي أعطى كلَّ شيءٍ خَلْقَه ثم هدى}؛ أي: ربُّنا الذي خلق جميع المخلوقات، وأعطى كلَّ مخلوق خَلْقَه اللائق به، [الدال] على حسن صنعة من خلقه، من كبر الجسم وصغره وتوسطه وجميع صفاته، ثم هدى كلَّ مخلوق إلى ما خَلَقَه له، وهذه الهداية الكاملةُ المشاهدةُ في جميع المخلوقات؛ فكلُّ مخلوق تجِدُه يسعى لما خُلِقَ له من المنافع وفي دفع المضارِّ عنه، حتَّى إنَّ الله أعطى الحيوان البهيم من العقل ما يتمكَّن به على ذلك، وهذا كقوله تعالى: {الذي أحسن كلَّ شيءٍ خَلَقَه}: فالذي خَلَقَ المخلوقاتِ، وأعطاها خَلْقَها الحسنَ الذي لا تقترح العقول فوقَ حسنِهِ، وهداها لمصالحها؛ هو الربُّ على الحقيقة؛ فإنكاره إنكارٌ لأعظم الأشياء وجوداً، وهو مكابرةٌ ومجاهرةٌ بالكذب؛ فلو قُدِّرَ أنَّ الإنسان أنكر من الأمور المعلومة ما أنكر؛ كان إنكارُهُ لربِّ العالمين أكبر من ذلك.
[50] موسیٰ u نے نہایت واضح اور کافی و شافی جواب دیا۔ فرمایا:
﴿رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ﴾ یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ہر مخلوق کو اپنی حسن تخلیق، حسن صنعت اور اس کی ضرورت کے مطابق وجود عطا کیا،
مثلاً:کسی کو بڑا، کسی کو چھوٹا اور کسی کو متوسط جسم عطا کیا اور یہی حال تمام صفات کا ہے۔
﴿ ثُمَّ هَدٰؔى ﴾ ’’پھر اس نے رہنمائی کی۔‘‘ یعنی ہر مخلوق کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کی طرف اس نے اس کی راہنمائی کی۔ اس ہدایت کامل کا تمام مخلوقات میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر مخلوق جس منفعت کے لیے تخلیق کی گئی ہے اس کے حصول اور مضرت کے دور کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی عقل عطا کی جس کے ذریعے وہ ان امور کے حصول پر متمکن ہوتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے۔
﴿ الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ ﴾ (السجدۃ:32؍7) ’’جس نے ہر چیز کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا۔‘‘ وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انھیں ایسی بہترین تخلیق عطا کی کہ عقل انسانی اس سے زیادہ خوبصورت تخلیق پیش نہیں کر سکتی اور وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات میں ان کے مصالح کی طرف راہنمائی ودیعت کی، وہی حقیقت میں رب کائنات ہے۔ اس رب کا انکار، سب سے بڑی چیز کے وجود کا انکار کرنا ہے اور یہ حقیقت کا انکار اور صریح جھوٹ ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انسان نے بعض ایسے امور کا انکار کیا ہے جو یقینی طور پر معلوم ہیں تو ان کا رب کائنات کا انکار کرنا سب سے بڑا انکار ہے۔
#
{51} ولهذا لما لم يمكنْ فرعون أن يعانِدَ هذا الدليل القاطع؛ عدل إلى المشاغبة، وحاد عن المقصود، فقال لموسى: {فما بالُ القرون الأولى}؛ أي: ما شأنهم؟ وما خبرهم؟ وكيف وصلت بهم الحالُ وقد سبقونا إلى الإنكار والكفر والظُّلم والعناد ولنا فيهم أسوة؟
[51] اس لیے جب فرعون اس قطعی دلیل کا مقابلہ نہ کر سکا تو اصل مقصد سے ہٹ کر جھگڑنے پر اتر آیا اور موسیٰ u سے کہنے لگا:
﴿ قَالَ فَمَا بَ٘الُ الْ٘قُ٘رُوْنِ الْاُوْلٰى ﴾ یعنی پہلے زمانے کے لوگوں کا کیا معاملہ ہے اور ان کی کیا خبر اور کیا حال ہے ان لوگوں نے تو ہم سے پہلے حق کا انکار کر کے، کفر، ظلم اور عناد کا ارتکاب کیا، کیا وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں ؟
#
{52} فقال موسى: {علمُها عند ربِّي في كتابٍ لا يَضِلُّ ربِّي ولا ينسى}؛ أي: قد أحصى أعمالهم من خير وشرٍّ، وكتبه في كتابه ، وهو اللوح المحفوظ، وأحاط به علماً وخبراً؛ فلا يضلُّ عن شيء منها ولا ينسى ما عَلِمهُ منها، ومضمون ذلك أنَّهم قَدِموا إلى ما قدَّموه ولاقَوْا أعمالهم وسيجازَوْن عليها؛ فلا معنى لسؤالك واستفهامك يا فرعون عنهم؛ فتلك أمةٌ قد خلتْ، لها ما كسبتْ ولكم ما كسبتُم؛ فإنْ كان الدليل الذي أوردْناه عليك والآياتُ التي أريناكَها قد تحقَّقْتَ صدقَها ويقينَها، وهو الواقع؛ فانقدْ إلى الحقِّ، ودعْ عنك الكفر والظُّلم وكثرةَ الجدال بالباطل، وإن كنتَ قد شككت فيها أو رأيتَها غير مستقيمة؛ فالطريق مفتوحٌ، وبابُ البحث غير مغلقٍ، فَرُدَّ الدليل بالدليل والبرهان بالبرهان، ولن تَجِدَ لذلك سبيلاً ما دام الملوان ؛ كيف وقد أخبر الله عنه أنه جَحَدها مع استيقانها؛ كما قال تعالى: {وجَحَدوا بها واستيقَنَتْها أنفسُهم ظلماً وعلوًّا}، وقال موسى: {لقد علمتَ ما أنزلَ هؤلاءِ إلاَّ ربُّ السمواتِ والأرضِ بصائرَ}؟! فَعُلم أنه ظالمٌ في جداله، قصدُه العلوُّ في الأرض.
[52] موسیٰ u نے فرمایا:
﴿ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْؔ كِتٰبٍ١ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے برے تمام اعمال کو شمار کر کے اپنی کتاب، یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ علم و خبر کے اعتبار سے اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے کوئی چیز اس کے شمار کرنے اور لکھنے سے چھوٹتی نہیں اور نہ کوئی چیز اسے بھولتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے جو بھی اعمال آگے بھیجے ہیں قیامت کے روز انھیں ان اعمال کا سامنا کرنا ہو گا اور ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا… اس لیے اے فرعون! ان کے بارے میں تیرے اس سوال اور استفہام کا کوئی معنیٰ نہیں ۔ ’’وہ ایک امت تھی جو گزر گئی ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تم جو عمل کرو گے وہ تمھارے لیے ہے۔اس لیے وہ دلیل جو ہم نے تیرے سامنے پیش کی ہے اور وہ نشانیاں جو ہم تجھے دکھا چکے ہیں ، اگر تجھ پر ان کی صداقت متحقق ہو چکی ہے تو حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ کفر، ظلم اور باطل کے ذریعے کثرت جدال کو چھوڑ دے اور اگر تجھے اس بارے میں کوئی شک ہے اور تجھے اس پر یقین نہیں ہے تو بحث کا دروازہ کھلا ہوا ہے، دلیل کا جواب دلیل سے اور برہان کا جواب برہان سے ہونا چاہیے اور جب تک دن رات باقی ہیں تو کبھی بھی ایسا نہیں کر سکے گا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس نے ان آیات کا ان کی صداقت کا قائل ہونے کے بعد انکار کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
﴿ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾ (النمل:27؍14) ’’انھوں نے ان آیات کا، ان کا قائل ہونے کے بعد،
ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کیا۔‘‘
موسیٰ u نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ ﴾ (بنی اسرائیل:17؍102) ’’تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں ۔‘‘ تب معلوم ہوا کہ فرعون اپنی بحث و جدال میں ظلم کا مرتکب ہوا اور اس کا مقصد محض زمین میں تغلب کا حصول تھا۔
#
{53} ثم استطرد في هذا الدليل القاطع بذكر كثيرٍ من نعمه وإحسانه الضروريِّ، فقال: {الذي جَعَلَ لكم الأرضَ مَهْداً}؛ أي: فراشاً بحالةٍ تتمكَّنون من السكون فيها والقرار والبناء والغراس وإثارتها للازدراع وغيره، وذلَّلها لذلك، ولم يجعلْها ممتنعةً عن مصلحةٍ من مصالحكم. {وسَلَكَ لكم فيها سُبُلاً}؛ أي: نفذ لكم الطرق الموصلة من أرض إلى أرض، ومن قطر إلى قطر، حتى كان الآدميونَ يتمكَّنون من الوصول إلى جميع الأرض بأسهل ما يكون، وينتفعونَ بأسفارِهم أكثر مما ينتفعون بإقامتهم. {وأنزلَ من السماءِ ماءً فأخرجْنا به أزواجاً من نباتٍ شتى}؛ أي: أنزل المطر، فأحيا به الأرض بعد موتها، وأنبت بذلك جميعَ أصناف النوابت على اختلاف أنواعها وتشتُّت أشكالها وتبايُنِ أحوالها، فساقَه وقدَّره ويسَّره رزقاً لنا ولأنعامنا، ولولا ذلك؛ لهلك مَنْ عليها من آدميٍّ وحيوانٍ.
[53] پھر موسیٰ u نے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کر کے اس دلیل قاطع کو ان پر لازم کر دیا،
چنانچہ فرمایا: ﴿ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا ﴾ یعنی اس نے زمین کو تمھارے لیے بچھونا بنایا، تم اس سے سکون و قرار حاصل کرتے ہو، اس پر عمارتیں تعمیر کرتے ہو، باغات لگاتے ہو، زراعت کے لیے اس میں ہل چلاتے ہو اور ان تمام کاموں کے لیے زمین کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے اور وہ تمھارے لیے تمھارے فوائد اور مصالح فراہم کرنے سے انکار نہیں کرتی
﴿ وَّسَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا ﴾ یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے کے لیے تمھارے لیے زمین میں راستے بنائے یہاں تک کہ انسان تمام روئے زمین پر ہر جگہ آسانی سے پہنچنے پر قادر ہیں اور وہ اپنے گھروں میں قیام پذیر رہ کر جو فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی نسبت اپنے سفروں میں زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
﴿ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ؕ فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَ٘اتٍ شَتّٰى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی
﴿ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ (البقرۃ:2؍164) ’’اور اس بارش سے زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اس کو زندہ کیا۔‘‘ پھر اس بارش کے ذریعے سے مختلف انواع، مختلف اشکال اور مختلف احوال کے مطابق نباتات کی بہت سی اصناف پیدا کیں ، پھر اس نباتات سے ہمارے لیے اور ہمارے مویشیوں کے لیے رزق فراہم کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو روئے زمین کے تمام انسان اور حیوان ہلاک ہو جاتے۔
#
{54} ولهذا قال: {كُلوا وارْعَوْا أنعامَكم}: وسياقها على وجه الامتنان؛ ليدلَّ ذلك على أنَّ الأصل في جميع النوابت الإباحة؛ فلا يَحْرُمُ منها إلاَّ ما كان مضرًّا كالسموم ونحوه. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لأولي النُّهى}؛ أي: لذوي العقول الرزينة والأفكار المستقيمة، على فضل الله وإحسانه ورحمته وسعة جوده وتمام عنايته، وعلى أنَّه الربُّ المعبود المالك المحمود، الذي لا يستحقُّ العبادة سواه، ولا الحمد والمدح والثناء إلاَّ مَن امتنَّ بهذه النعم، وعلى أنَّه على كلِّ شيء قديرٌ؛ فكما أحيا الأرض بعد موتها؛ إنَّ ذلك لمحيي الموتى. وخصَّ الله أولي النُّهى بذلك لأنَّهم المنتفعون بها الناظرون إليها نظر اعتبار، وأمَّا مَنْ عداهم؛ فإنَّهم بمنزلة البهائم السارحة والأنعام السائمة، لا ينظرون إليها نظر اعتبار، ولا تنفذ بصائرهم إلى المقصود منها، بل حظُّهم حظُّ البهائم؛ يأكلون ويشربون وقلوبُهم لاهيةٌ وأجسادهم مُعْرِضةٌ، {وكأيِّن من آيةٍ في السمواتِ والأرض يمرُّون عليها وهم عنها معرضونَ}.
[54] اس لیے فرمایا:
﴿ كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ ﴾ ’’تم کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو چراؤ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر اس آیت کریمہ کو بیان فرمایا ہے تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ تمام نباتات مباح ہیں اور ان میں سے کوئی چیز حرام نہیں سوائے ضرر رساں نباتات کے،
مثلاً:زہر وغیرہ
﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّ٘هٰى ﴾ یعنی اس میں پختہ عقل اور فکر راست رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، اس کے احسان، اس کی رحمت، اس کے بے پایاں جود وسخا اور اس کی عنایت کامل کی نشانیاں ہیں اور یہ اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ وہی رب معبود اور وہی مالک محمود ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ حمد، مدح اور ثنا کا اس ہستی کے سوا کوئی مستحق نہیں جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں ، نیز یہ اس امر پر بھی دلیل ہیں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پس اس نے جس طرح زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کیا اسی طرح وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں عقل مندوں کو خاص طور پر مخاطب کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل مند لوگ ہی ان نشانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو عبرت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ بہائم اور چوپایوں کی مانند ہیں ، وہ ان نشانیوں کو عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور نہ ان کی بصیرت کو ان نشانیوں کے مقاصد تک رسائی حاصل ہے بلکہ ان کے لیے ان نشانیوں میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا بہائم
(چوپایوں ) کا ہے۔ وہ کھاتے ہیں ، پیتے ہیں اور ان کے دل غافل اور جسم اعراض کرنے والے ہیں ۔
﴿ وَؔكَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ (یوسف:12؍105) ’’زمین اور آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے ان کا گزر ہوتا ہے مگر یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔‘‘
#
{55} ولما ذَكَرَ كرم الأرض وحسنَ شكرِها لما يُنْزِلُه الله عليها من المطر، وأنَّها بإذن ربِّها تُخرج النبات المختلف الأنواع؛ أخبر أنَّه خَلَقَنا منها، وفيها يعيدُنا إذا متنا فَدُفِنَّا فيها، ومنها يخرِجُنا {تَارةً أُخْرى}؛ فكما أوجدنا منها من العدم، وقد علمنا ذلك وتحقَّقناه؛ فسيعيدُنا بالبعث منها بعد موتنا؛ ليجازينا بأعمالنا التي عملناها عليها. وهذان دليلان على الإعادة عقليَّان واضحان: إخراجُ النبات من الأرض بعد موتها، وإخراجُ المكلَّفين منها في إيجادهم.
[55] جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی نفاست و فیاضی اور اللہ تعالیٰ کے اس پر بارش برسانے کے سبب اس کے حسن شکر کا ذکر کیا نیز بیان فرمایا کہ زمین اپنے رب کے حکم سے مختلف اقسام کی نباتات اگاتی ہے… تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ہمیں زمین سے پیدا کیا، ہمارے مرنے کے بعد ہمیں زمین ہی کی طرف لوٹائے گا اور ہمیں زمین میں دفن کر دے گا اور ایک مرتبہ پھر وہ ہمیں زمین سے نکال کھڑا کرے گا۔ پس جس طرح وہ ہمیں عدم سے وجود میں لایا… اور یہ حقیقت ہمیں معلوم اور ہمارے سامنے متحقق ہے… اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر ہمیں ہمارے اعمال کی جزا دے گا۔ اور مرنے کے بعد اعادۂ حیات پر یہ دونوں دلیلیں واضح اور عقلی دلیلیں ہیں ۔
۱۔ زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اس میں سے نباتات کو دوبارہ نکالنا۔
۲۔ مکلفین کو زمین میں سے نکال کر دوبارہ وجود میں لانا۔
{وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى (56) قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَامُوسَى (57) فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ مَكَانًا سُوًى (58) قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى (59) فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى (60) قَالَ لَهُمْ مُوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى {(61) [فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى (62) قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَنْ يُخْرِجَاكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى (63) فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى (64) قَالُوا يَامُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى (65) قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (66) فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى (67) قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى (68) وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (69) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى (70) قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى (71) قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (72) إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (73)] }.
اور البتہ تحقیق دکھائیں ہم نے اس کو نشانیاں اپنی سب، پھر بھی اس نے جھٹلایااور انکار کیا
(56)اس نے کہا، کیا آیا ہے تو ہمارے پاس تاکہ تو نکال دے ہمیں ہماری زمین سے اپنے جادو کے ذریعے سے؟ اے موسیٰ!
(57) سو البتہ ہم ضرور لائیں گے تیرے پاس جادو اس جیسا ہی، پس مقرر کر ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت کہ نہ خلاف کریں اس کا ہم اور نہ تو، جگہ ہو ہموار
(58) موسیٰ نے کہا، تمھارا وعدہ ہے دن زینت
(جشن) کا اور یہ کہ اکٹھے کیے جائیں لوگ چاشت کے وقت
(59) پس لوٹا فرعون اورجمع کیا اپنا مکر
(و فریب کا سامان)، پھر وہ آگیا
(60)کہا ان
(جادو گروں ) سے موسیٰ نے، ہلاکت ہو تمھارے لیے، نہ باندھو تم اللہ پر جھوٹ، پس وہ تباہ کر دے گا تمھیں ساتھ عذاب کےاور تحقیق ناکام ہوا وہ جس نے جھوٹ باندھا
(61) پس انھوں نے جھگڑا کیااپنے معاملے میں ، آپس میں اورچپکے چپکے کیا انھوں نے مشورہ
(62) انھوں نے کہا، بلاشبہ یہ دونوں جادوگر ہیں ، یہ دونوں چاہتے ہیں یہ کہ نکال دیں تمھیں تمھاری زمین سے اپنے جادو کے ذریعے سےاور لے جائیں
(برباد کر دیں ) تمھارا طریقہ عمدہ
(63) پس پختہ کر لو تم تدبیریں اپنی، پھر آجاؤ تم صف باندھ کراور تحقیق کامیاب ٹھہرا آج کے دن جو غالب آیا
(64) انھوں نے کہا، اے موسی! یا یہ کہ تو ڈالے یا پھر ہم ہی ہوں پہلے ڈالنے والے
(65) موسیٰ نے کہابلکہ تم ہی ڈالو
(انھوں نے ڈالیں ) تو ناگہاں ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ، خیال میں ڈالا گیا اس
(موسیٰ) کے، ان کے جادو کی وجہ سے، کہ بے شک وہ دوڑ رہی ہیں
(66) پس محسوس کیا اپنے دل میں خوف موسیٰ نے
(67) ہم نے کہا، مت ڈر تو، بلاشبہ تو ہی غالب ہے
(68) اور ڈال تو
(اپنی لاٹھی) جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے، وہ نگل جائے گی اس کو جو کچھ انھوں نے بنایا ہے، یقینا جو کچھ انھوں نے بنایا ہے، فریب ہے جادو گر کا اور نہیں کامیاب ہوتا جادو گر جس جگہ بھی
(حق کے مقابل) آئے
(69)پس گرا دیے گئے جادو گر سجدے میں
(اور) انھوں نے کہا، ہم ایمان لائے رب پرہارون اور موسیٰ کے
(70) فرعون نے کہا،
(کیا) تم ایمان لائے ہو اس پر پہلے اس سے کہ میں اجازت دوں تمھیں ؟ بلاشبہ وہ موسیٰ البتہ بڑا ہے تمھارا، وہ جس نے سکھایا تمھیں جادو، پس البتہ ضرور کاٹوں گا میں تمھارے ہاتھ اور تمھارے پاؤں ایک دوسرے کی مخالف جانب سے اور البتہ ضرور سولی دوں گا میں تمھیں تنوں پر کھجور کےاور یقینا تم جان لو گے کہ کون ہم میں سے زیادہ سخت ہے عذاب دینے میں اور زیادہ باقی رہنے والا؟
(71) انھوں نے کہا، ہرگز نہیں ترجیح دیں گے ہم تجھے ان پر، جو آئیں ہمارے پاس واضح دلیلیں اور اس ذات پر جس نے پیدا کیا ہمیں پس کر لے تو جو کچھ بھی تو کر سکتا ہے، بس تو تو حکم چلا سکتا ہے اس زندگانیٔ دنیا ہی پر
(72) بلاشبہ ہم ایمان لائے ساتھ اپنے رب کے تاکہ وہ بخش دے ہمارے لیے ہماری خطائیں اور
(جرم) بھی کہ مجبور کیا تھا تو نے ہمیں اس پر،
(یعنی ) جادو کرنے کا اور اللہ بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے
(73)
#
{56} يخبر تعالى أنَّه أرى فرعون من الآياتِ والعِبَرِ والقواطع جميعَ أنواعها العيانيَّة والأفقيَّة والنفسيَّة؛ فما استقام ولا ارعوى، وإنَّما كذَّب وتولَّى؛ كذب الخبر وتولَّى عن الأمر والنهي، وجعل الحقَّ باطلاً والباطل حقًّا، وجادل بالباطل ليضلَّ الناس.
[56] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے فرعون کو عیانی، آفاقی اور نفسی تمام اقسام کی نشانیاں دکھائیں مگر وہ درست ہوا نہ کفر سے باز آیا بلکہ اس نے ان کو جھٹلایا اور روگردانی کی۔ اس نے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کی، اللہ تعالیٰ کے امرونہی سے اعراض کیا، اس نے حق کو باطل اور باطل کو حق بنایا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے باطل دلائل کے ذریعے سے جھگڑا کیا۔
#
{57} فقال: {أجئتَنا لِتُخْرِجَنا من أرضنا بسحرِك}: زعم أنَّ هذه الآيات التي أراه إيَّاها موسى سحرٌ وتمويهٌ، المقصود منها إخراجُهم من أرضهم والاستيلاءُ عليها؛ ليكون كلامه مؤثراً في قلوب قومه؛ فإنَّ الطِّباع تميل إلى أوطانها، ويصعُبُ عليها الخروج منها ومفارقتها، فأخبرهم أنَّ موسى هذا قصده؛ ليبغِضوه ويسعَوْا في محاربته.
[57] پس اس نے موسیٰu سے کہا۔
﴿ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا ﴾ ’’کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ تو ہم کو ہماری زمین سے نکال دے۔‘‘ فرعون سمجھتا تھا کہ موسیٰ u نے جو معجزات دکھائے ہیں ، وہ محض جادو کا کرشمہ اور شعبدہ بازی ہے اور ان کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ فرعون کی قوم کو مصر کی سرزمین سے نکال کر خود قبضہ کیا جائے اور تاکہ موسیٰu کا کلام ان کی قوم کے دلوں کو متاثر کرے کیونکہ انسانی طبیعت اپنے وطن کی طرف مائل ہوتی ہے وطن سے نکلنا اور اس سے جدا ہونا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔پس فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کو حضرت موسیٰu کے قصد سے آگاہ کیا تاکہ وہ ان کے خلاف ہو جائیں اور ان کے خلاف لڑائی پر آمادہ ہو جائیں ۔
#
{58} {فلنأتينَّك بسحرٍ}: مثل سحرك، فأمهِلْنا واجعلْ لنا {موعداً لا نخلِفُه نحن ولا أنت مكاناً سُوى}؛ أي: مستوٍ علمنا وعلمك به، أو مكاناً مستوياً معتدلاً لنتمكَّن من رؤية ما فيه.
[58] فرعون نے موسیٰ u سے کہا کہ ہم بھی تمھارے جادو جیسا جادو دکھا سکتے ہیں ہمیں کچھ مہلت دو۔
﴿مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَلَاۤ اَنْتَ مَكَانًا سُوًؔى ﴾ اور طے کر دے کہ کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے یعنی اس کا ہمیں بھی علم ہو اور تمھیں بھی۔ یا کوئی ہموار میدان ہو جہاں ان کرتبوں کا مشاہدہ ممکن ہو۔
#
{59} فقال موسى: {موعدُكم يوم الزينةِ}: وهو عيدُهم الذي يتفرَّغون فيه ويقطعون شواغلهم، {وأن يُحْشَرَ الناس ضُحىً}؛ أي: يُجمعون كلهم في وقت الضُّحى. وإنَّما سأل موسى ذلك لأنَّ يوم الزينة ووقت الضحى منه يحصُلُ منه كثرة الاجتماع ورؤية الأشياء على حقائقها ما لا يحصُل في غيره.
[59] موسیٰ u نے فرمایا:
﴿ مَوْعِدُؔكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ ﴾ ’’زینت
(جشن) کے دن کا تم سے وعدہ ہے۔‘‘ یہ دن ان کی عید کا دن تھا۔ جس میں وہ اپنے کام کاج سے فارغ ہوتے تھے اور تمام مشاغل منقطع کر دیتے تھے۔
﴿ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴾ یعنی چاہشت کے وقت تمام لوگوں کو جمع کیا جائے۔ حضرت موسیٰu نے یہ مطالبہ اس لیے کیا تھا کیونکہ ان کے جشن کا وقت دن چڑھے ہوتا تھا۔ اس جشن میں لوگ کثیر تعداد میں کھٹے ہوتے تھے نیز اس وقت اشیاء کے حقائق کا صاف طور پر مشاہدہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے وقت نہیں ہو سکتا۔
#
{60} {فتولَّى فرعونُ فجمع كيدَه}؛ أي: جميع ما يقدرُ عليه مما يكيد به موسى، فأرسل في مدائنه من يحشُرُ السحرة الماهرين في سحرهم، وكان السحر إذ ذاك متوفراً، وعلمه مرغوباً فيه، فجمع خلقاً كثيراً من السحرة، ثم أتى كلٌّ منهما للموعد، واجتمع الناس للموعدِ، فكان الجمعُ حافلاً، حضره الرجال والنساء والملأ والأشراف والعوامُّ والصغار والكبار، وحضُّوا الناس على الاجتماع، وقالوا {للناس هل أنتم مجتمعون لعلَّنا نتَّبع السحرةَ إن كانوا هم الغالبين}.
[60] ﴿ فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَ٘جَمَعَ كَیْدَهٗ ﴾ یعنی اس نے وہ تمام وسائل جمع کر لیے جن کے ذریعے سے وہ موسیٰ u کے خلاف چال چل سکتا تھا۔ اس نے تمام شہروں میں اپنے ہرکارے دوڑا دیے تاکہ وہ ماہر جادوگروں کو اکٹھا کریں ۔ اس زمانے میں جادو بہت عام تھا اور لوگ اس کا علم حاصل کرنے میں بہت رغبت رکھتے تھے۔ فرعون نے جادو گروں کا ایک جم غفیر اکٹھا کر لیا۔ دونوں گروہ مقررہ مقام پر آ گئے اور لوگ اس مقام پر اکٹھے ہو گئے۔ اجتماع بہت بڑا تھا وہاں مرد، عورتیں ، امراء، اشراف،
عوام اور چھوٹے بڑے سب لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے انھوں نے لوگوں کو ترغیب دے کر جمع کیا تھا۔ انھوں نے لوگوں سے کہا تھا: ﴿ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَۙ۰۰لَعَلَّنَا نَ٘تَّ٘بِـعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ ﴾ (الشعراء:26؍39، 40) ’’کیا تم اجتماع میں اکھٹے ہو گے؟ تاکہ اگر جادوگر غالب رہے تو ہم ان کی پیروی کریں ۔‘‘
#
{61} فحين اجتمعوا من جميع البلدان؛ وَعَظَهم موسى عليه السلام، وأقام عليهم الحجَّة، وقال لهم: {ويلَكم لا تَفْتَروا على الله كَذِباً فيُسْحِتَكم بعذابٍ}؛ أي: لا تنصروا ما أنتم عليه من الباطل بسحركم، وتغالبون الحقَّ، وتفترون على الله الكذبَ، فيستأصِلُكم بعذابٍ من عنده، ويخيب سعيُكم وافتراؤكم؛ فلا تدركون ما تطلبون من النصر والجاه عند فرعون وملئه، ولا تسلموا من عذاب الله.
[61] جب جادو گر تمام شہروں سے اکٹھے ہو گئے تو موسیٰ u نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان پر حجت قائم کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ﴾ یعنی اپنے جادو کے ذریعے سے اپنے باطل مسلک کی مدد کر کے حق پر غالب آنے کی کوشش نہ کرو اور نہ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرو ورنہ عذاب الٰہی تمھیں تباہ کر دے گا۔ تمھاری کوشش اور تمھاری بہتان طرازی ناکام ہو جائے گی اور تمھیں فتح و نصرت اور فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں کوئی عزت و جاہ حاصل نہیں ہو گی اور تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکو گے۔
#
{62} وكلام الحقِّ لا بدَّ أن يؤثِّر في القلوب، لا جرم ارتفع الخصامُ والنزاع بين السحرة لمَّا سمعوا كلام موسى وارتبكوا، ولعلَّ من جملة نزاعهم الاشتباه في موسى هل هو على الحقِّ أم لا؟ ولكنهم إلى الآن ما تمَّ أمرهم؛ ليقضي الله أمراً كان مفعولاً؛ ليهلِكَ من هَلَكَ عن بينةٍ ويحيا من حَيَّ عن بينةٍ؛ فحينئذ أسرّوا فيما بينهم النجوى، وأنَّهم يتَّفقون على مقالةٍ واحدةٍ؛ لينجحوا في مقالهم وفعالهم، وليتمسَّك الناس بدينهم.
[62] کلام حق دلوں کو ضرور متاثر کرتا ہے۔ جب جادوگروں نے حضرت موسیٰ کی بات سنی تو ان جادوگروں کے درمیان باہم نزاع اور جھگڑا برپا ہو گیا۔ ان کے درمیان نزاع کا سبب شاید یہ اشتباہ تھا کہ آیا موسیٰ u حق پر ہیں یا نہیں ؟ مگر اس وقت تک ان کے درمیان اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا… تاکہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کو ظہور میں لے آئے جس کا وہ فیصلہ کر چکا ہے۔
﴿ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔‘‘ اس وقت انھوں نے آپس میں سرگوشیاں شروع کر دیں کہ وہ ایک موقف پر متفق ہو جائیں تاکہ اپنے قول و فعل میں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور لوگ ان کے دین کی پیروی کریں ۔
#
{63} والنجوى التي أسرُّوها فسَّرها بقوله: {قالوا إنْ هذانِ لساحرانِ يُريدان أن يخرِجاكم من أرضِكم بسحرِهما}؛ كمقالة فرعون السابقة؛ فإمَّا أن يكونَ ذلك توافقاً من فرعون والسحرة على هذه المقالة من غير قصدٍ، وإما أن يكون تلقيناً منه لهم مقالته التي صمَّم عليها وأظهرها للناس، وزادوا على قول فرعون أن قالوا: {ويَذْهَبا بطريقتِكُم المُثلى}؛ أي: طريقة السحر؛ حسدكم عليها، وأراد أن يظهر عليكم؛ ليكون له الفخرُ والصيتُ والشهرةُ، ويكون هو المقصودُ بهذا العلم الذي شغلتُم زمانَكم فيه ويذهب عنكم ما كنتُم تأكلون بسببه، وما يتبع ذلك من الرياسة.
[63] وہ سرگوشی، جو وہ آپس میں کر رہے تھے،
اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَالُوْۤا اِنْ هٰؔذٰنِ لَسٰحِرٰؔنِ یُرِیْدٰؔنِ اَنْ یُّخْرِجٰؔكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا﴾ ’’انھوں نے کہا، یہ دونوں جادوگر ہیں جو تمھیں اپنے جادو کے ذریعے سے تمھاری زمین سے نکالنا چاہتے ہیں ۔‘‘ ان کا یہ قول فرعون کے قول کی مانند ہے جو گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ یا تو فرعون اور جادوگروں میں بغیر کسی قصد کے اس قول پر اتفاق ہوا یا فرعون نے ان جادوگروں کو اس قول کی تلقین کی جس کا اس نے لوگوں کے سامنے اظہار کیا تھا اور لوگوں سے کہلوایا تھا،
چنانچہ جادوگروں نے فرعون کی بات پر اضافہ کرتے ہوئے کہا: ﴿وَیَذْهَبَا بِطَرِیْقَتِكُمُ۠ الْ٘مُثْ٘لٰى﴾ ’’اور تمھارے بہترین طریقے کو ختم کر دیں ۔‘‘ یعنی تمھارا جادو کا طریقہ جس پر موسیٰ u تمھارے ساتھ حسد کرتا ہے اور تم پر غالب آنا چاہتا ہے تاکہ اسے فخر اور شہرت حاصل ہو اور اس علم کا مقصد بھی یہی ہے جس میں تم ایک زمانے سے مشغول ہو۔ موسیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمھارے جادو کو ختم کر دے جو تمھارا ذریعہ معاش ہے، جس کی وجہ سے تمھیں ریاست ملی ہوئی ہے۔
#
{64} وهذا حضٌّ من بعضهم على بعض على الاجتهاد في مغالبته، ولهذا قالوا: {فأجْمِعوا كيدَكم}؛ أي: أظهروه دفعةً واحدةً متظاهرين متساعدين فيه متناصرين متفقاً رأيُكم وكلمتُكم، {ثم ائْتوا صفًّا}: ليكونَ أمكنَ لعملكم وأهيبَ لكم في القلوب، ولئلاَّ يتركَ بعضُكم بعضَ مقدورِهِ من العمل، واعلموا أنَّ مَنْ أفلح اليوم ونجح وغلب غيره؛ فإنَّه المفلح الفائز؛ فهذا يومٌ له ما بعده من الأيام؛ فما أصلبهم في باطلهم وأشدَّهم فيه! حيث أتوا بكل سببٍ ووسيلةٍ وممكنٍ ومكيدةٍ يكيدون بها الحقَّ.
[64] یہ جادوگروں کی ایک دوسرے کو حضرت موسیٰ u پر غالب آنے کے لیے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترغیب ہے،
اس لیے انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: ﴿فَاَجْمِعُوْا كَیْدَؔكُمْ ﴾ ’’پس تم اپنا داؤ اکٹھا کرو۔‘‘ یعنی اپنی رائے اور بات پر متفق ہو کر، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے یکبارگی موسیٰ پر غلبہ حاصل کر لو۔
﴿ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا﴾ ’’پھر آؤ تم صف بندی کر کے۔‘‘ تاکہ تم بہتر طریقے سے اپنا کام کر سکو اور دلوں میں تمھاری ہیبت بیٹھ جائے اور تاکہ تم میں سے کوئی اس کام کو نہ چھوڑے جس کی وہ قدرت رکھتا ہے اور یاد رکھو! جو آج کامیاب ہو کر اپنے مدمقابل پر غالب آ گیا وہی فوزوفلاح کے مقام پر فائز ہے آج کی کامیابی پر مستقبل کی تمام کامیابیوں کا دارومدار ہے۔ وہ اپنے باطل میں کتنے سخت تھے، حق کے خلاف سازشوں میں انھوں نے ہر قسم کا سبب اور وسیلہ استعمال کیا۔
#
{65} ويأبى الله إلاَّ أن يُتِمَّ نورَه ويظهِرَ الحقَّ على الباطل، فلما تمَّتْ مكيدتُهم وانحصر قصدُهم ولم يبقَ إلاَّ العمل؛ {قالوا} لموسى: {إمَّا أن تلقي}: عصاك، {وإمَّا أن نكونَ أولَ من ألقى}: خيَّروه موهمين أنَّهم على جزم من ظهورهم عليه بأيِّ حالة كانت.
[65] مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو مکمل اور حق کو باطل پر غالب کر کے رہنے والا ہے۔ پس جب ان کی سازش مکمل ہو گئی اور ان کا قصد منحصر ہو گیا اور عمل کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
﴿ قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُ٘لْ٘قِیَ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے موسیٰ یا تو تو پہلے ڈال۔‘‘ یعنی اپنا عصا
﴿ وَاِمَّاۤ اَنْ نَّـكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْ٘قٰى ﴾ ’’یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں ۔‘‘ انھوں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ ہر حالت میں غالب آئیں گے، موسیٰ u کو ابتدا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا۔
#
{66} فقال لهم موسى: {بلْ ألقوا}: فألْقَوْا حبالهم وعصيهم؛ {فإذا حبالُهم وعصيُّهم يُخَيَّلُ إليه}؛ أي: إلى موسى {من سحرِهم}: البليغ، {أنَّها تسعى}: [أنها حيات تسعى].
[66] موسیٰ u نے ان سے کہا:
﴿ بَلْ اَلْقُوْا ﴾ ’’بلکہ تم ہی ڈالو۔‘‘ پس انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں
﴿ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ ﴾ یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں
(حضرت ) موسیٰ کو یوں محسوس ہوئیں ‘‘
﴿ مِنْ سِحْرِهِمْ ﴾ ان کے بہت بڑے جادو کے زور سے
﴿ اَنَّهَا تَ٘سْعٰى ﴾ کہ وہ دوڑ رہی ہیں ۔
#
{67} فلما خُيِّل إلى موسى ذلك؛ أوجس في نفسِهِ خيفةً كما هو مقتضى الطبيعة البشريَّة، وإلاَّ؛ فهو جازمٌ بوعد الله ونصره.
[67] جب موسیٰ u کو رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی محسوس ہوئیں
﴿ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰؔى ﴾ تو موسیٰ u اپنے دل میں ڈر گئے جیسا کہ طبیعت بشری کا تقاضا ہے، ورنہ حقیقت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کی نصرت کا پورا یقین تھا۔
#
{68} {قلنا له}: تثبيتاً وتطميناً: {لا تخفْ إنَّك أنت الأعلى}: عليهم؛ أي: ستعلو عليهم، وتقهرهم، ويذلُّوا لك، ويخضعوا.
[68] ﴿ قُلْنَا ﴾ ان کو ثابت قدم اور مطمئن رکھنے کے لیے ہم نے کہا:
﴿ لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى ﴾ ’’ڈر نہ تو ہی غالب ہو گا‘‘ یعنی تو ہی ان پر غالب رہے گا اور وہ ہار مان کر تیرے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔
#
{69} {وألقِ ما في يمينِك}؛ أي: عصاك؛ {تَلْقَفْ ما صنعوا إنَّما صنعوا كيدُ ساحرٍ ولا يفلِحُ الساحر حيث أتى}؛ أي: كيدهم ومكرهم ليس بمثمرٍ لهم ولا ناجح؛ فإنَّه من كيد السحرة الذين يموِّهون على الناس ويُلَبِّسون الباطل ويخيِّلون أنهم على الحقِّ.
[69] ﴿ وَاَلْ٘قِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ ﴾ یعنی اپنا عصا زمین پر پھینک دے
﴿ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا١ؕ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَیْدُ سٰحِرٍ١ؕ وَلَا یُفْ٘لِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى ﴾ ’’وہ نگل جائے گا وہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے۔ ان کا کیا ہوا، جادوگر کا کرتب ہے۔ اور جادوگر جہاں سے بھی آئے، کامیاب نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی ان کی سازش اور ان کی چال ان کے لیے بارآور نہ ہو گی اور اس سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا کیونکہ یہ ان جادوگروں کا فریب اور شعبدہ بازی ہے جو لوگوں کو فریب دیتے ہیں ۔ وہ باطل کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں ۔
#
{70} فألقى موسى عصاه، فتلقَّفت ما صنعوا كلَّه وأكلتْه، والناسُ ينظُرون لذلك الصنيع، فعَلِمَ السحرةُ علماً يقيناً أنَّ هذا ليس بسحر، وأنَّه من الله، فبادروا للإيمان، {فأُلْقي السحرةُ} ساجدينَ، {قالوا آمنَّا بربِّ العالمين ربِّ موسى وهارون}، فوقع الحقُّ وظهر وسطع، وبطل السحر والمكر والكيدُ في ذلك المجمع العظيم، فصارتْ بيِّنة ورحمةً للمؤمنين وحجَّة على المعاندين.
[70] پس موسیٰ u نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا اور وہ ان جادو گروں کے بناوٹی سانپوں کو نگل گیا اور لوگ اس سارے کرشمے کو دیکھ رہے تھے۔ تب جادو گروں کو یقینی طورپر معلوم ہو گیا کہ یہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ ہے پس وہ فوراً ایمان لے آئے۔
﴿فَاُلْ٘قِیَ السَّحَرَةُ سٰؔجِدِیْنَۙ۰۰قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْ٘عٰلَمِیْنَۙ۰۰رَبِّ مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ﴾ (الشعراء:26؍46-48) ’’پس گر گئے جادوگر سجدے میں اور کہا ہم رب کائنات پر ایمان لے آئے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔‘‘ پس اس بھرے مجمع میں حق ظاہر اور روشن ہو گیا اور مکروفریب اور جادو باطل ہو گیا اور یہ چیز اہل ایمان کے لیے ایک واضح دلیل اور رحمت بن گئی اور معاندین حق پر حجت قائم ہو گئی۔
#
{71} فقال فرعون للسحرة: {آمنتُم له قبلَ أن آذَنَ لكم}؛ أي: كيف أقدمتُم على الإيمان من دون مراجعة منِّي ولا إذن، استغرب ذلك منهم لأدبهم معه وذلِّهم وانقيادهم له في كلِّ أمر من أمورهم، وجعل هذا من ذاك، ثم استلجَّ فرعونُ في كفره وطغيانه بعد هذا البرهان، واستخفَّ بقوله قومَهُ، وأظهر لهم أنَّ هذه الغلبة من موسى للسحرة ليس لأنَّ الذي معه الحقُّ، بل لأنَّه تمالأ هو والسحرة ومكروا ودبَّروا أن يخرجوا فرعونَ وقومَه من بلادهم، فقبل قومُه هذا المكرَ منه، وظنُّوه صدقاً، {فاستخفَّ قومَه فأطاعوه إنَّهم كانوا قوماً فاسقين}؛ مع أنَّ هذه المقالة التي قالها لا تدخُلُ عقلَ من له أدنى مُسْكة من عقل ومعرفةٍ بالواقع؛ فإنَّ موسى أتى من مَدْيَنَ وحيداً، وحين أتى؛ لم يجتمع بأحدٍ من السحرة ولا غيرهم، بل بادَرَ إلى دعوة فرعون وقومه، وأراهم الآيات، فأراد فرعونُ أن يعارِضَ ما جاء به موسى، فسعى ما أمكنه، وأرسل في مدائنه من يجمعُ له كلَّ ساحر عليم، فجاؤوا إليه، ووعدهم الأجر والمنزلة عند الغلبة، وهم حرصوا غاية الحرص وكادوا أشدَّ الكيد على غلبتهم لموسى، وكان منهم ما كان؛ فهل يمكن أو يُتَصَوَّر مع هذا أن يكونوا دبَّروا هم وموسى واتَّفقوا على ما صدر؟! هذا من أمحل المحال. ثم توعَّد فرعونُ السحرة فقال: لأقَطِّعَنَّ {أيدِيَكم وأرجُلَكم من خلافٍ}: كما يفعل بالمحاربِ الساعي بالفساد؛ يَقْطَعُ يده اليمنى ورجله اليسرى. {ولأصَلِّبَنَّكُم في جذوع النخل}؛ أي: لأجل أن تشتهروا وتختزوا. {وَلَتَعْلَمُنَّ أيُّنا أشدُّ عذاباً وأبقى}؛ يعني: بزعمه هو وأمته وأنَّه أشدُّ عذاباً من الله وأبقى؛ قلباً للحقائق، وترهيباً لمن لا عقل له.
[71] ﴿ قَالَ ﴾ فرعون نے جادو گروں سے کہا:
﴿ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ﴾ یعنی مجھ سے پوچھے اور میری اجازت کے بغیر تم نے ایمان لانے کا اقدام کیسے کر لیا؟ چونکہ وہ اپنے ہر معاملے میں فرعون کے مطیع تھے اور اس کا نہایت ادب کرتے تھے، اس لیے فرعون کو ان کا ایمان لانا بڑا عجیب سا لگا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس معاملے میں بھی اس کی اطاعت کریں گے۔ اس دلیل اور برہان کو دیکھ لینے کے بعد فرعون اپنے کفر اور سرکشی میں بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ بات کہہ کر اس نے اپنی قوم کی عقل کو اپنی اس بات سے ماؤف کر دیا اور یہ ظاہر کیا کہ موسیٰ u کو جادوگروں پر جو غلبہ حاصل ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ حق موسیٰ u کے ساتھ ہے بلکہ یہ موسیٰu اور جادوگروں کا گٹھ جوڑ ہے، انھوں نے فرعون اور اس کی قوم کو ان کی زمین سے باہر نکالنے کے لیے سازش کی ہے۔پس فرعون کی قوم نے مکروفریب پر مبنی اس موقف کو سچ سمجھ کر قبول کر لیا۔
﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَ طَاعُوْهُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ (الزخرف:43؍54) ’’اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا کر دیا اور انھوں نے اس کی بات مان لی، بے شک وہ نافرمان لوگ تھے۔‘‘
فرعون کی یہ بات کسی آدمی کی سمجھ میں نہیں آ سکتی جو رتی بھر عقل اور واقعہ کی معرفت رکھتا ہے۔ کیونکہ موسیٰu جب مدین سے تشریف لائے تو وہ تنہا تھے جب وہ مصر پہنچے تو وہ کسی جادوگر یا غیر جادوگر سے نہیں ملے بلکہ وہ فرعون اور اس کی قوم کو دعوت دینے کے لیے جلدی سے اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے معجزات دکھائے۔ فرعون نے موسیٰ u کے معجزات کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور امکان بھر کوشش کی،
چنانچہ ہر کارے بھیج کر تمام شہروں سے ماہر جادوگر اکٹھے کر لیے۔ اس نے جادوگروں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ موسیٰ پر غالب آ گئے تو وہ انھیں بہت بڑا معاوضہ اور قدرومنزلت عطا کرے گا۔ چونکہ وہ بہت زیادہ لالچی تھے اس لیے انھوں نے موسیٰ u پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے مکروفریب کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ کیا اس صورتحال میں یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ جادوگروں اور موسیٰ u نے فرعون کے خلاف سازش کر لی ہو اور جو کچھ پیش آیا اس پر پہلے سے اتفاق کر لیا ہو۔ یہ محال ترین بات ہے۔
پھر فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ﴿ فَلَاُقَ٘طِّ٘عَنَّ۠ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ﴾ ’’پس میں ضرور کاٹ دوں گا تمھارے ہاتھ اور تمھارے پیر الٹے سیدھے‘‘ جیسے فساد برپا کرنے والے محاربین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جاتا ہے۔
﴿ وَّلَاُصَلِّبَنَّـكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ یعنی تمھاری رسوائی اور اس کی تشہیر کی خاطر تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی دے دوں گا۔
﴿ وَلَ٘تَ٘عْلَ٘مُنَّ اَ٘یُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابً٘ا وَّاَبْقٰى ﴾ ’’اور تم جان لو گے کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور پائدار ہے۔‘‘ یعنی فرعون اور اس کے گروہ کا یہ گمان تھا کہ فرعون کا عذاب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے زیادہ سخت، حقائق کو بدلنے اور بے عقل لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے زیادہ دیر پا ہے۔
#
{72} ولهذا؛ لما عَرَفَ السحرةُ الحقَّ ورزقَهم الله من العقل ما يدرِكون به الحقائق؛ أجابوه بقولهم: {لَن نُؤْثِرَكَ على ما جاءَنا من البيِّناتِ} [أي لن نختارك وما وعدتنا به من الأجر والتقريب على ما أرانا اللَّه من الآيات البينات]: الدالاَّتِ على أنَّ الله هو الربُّ المعبود وحدَه، المعظَّم المبجَّل وحده، وأنَّ ما سواه باطلٌ، ونؤثِرَكَ على الذي فَطَرنا وخَلَقنا، هذا لا يكونُ. {فاقضِ ما أنت قاضٍ}: مما أوْعَدْتنا به من القطع والصلب والعذاب، {إنَّما تقضي هذه الحياةَ الدُّنيا}؛ أي: إنما توعدنا به غاية ما يكون في هذه الحياة الدُّنيا ينقضي ويزولُ ولا يضرُّنا؛ بخلافِ عذاب الله لمن استمرَّ على كفرِهِ؛ فإنَّه دائمٌ عظيمٌ. وهذا كأنَّه جوابٌ منهم لقوله: {وَلَتَعْلَمُنَّ أيُّنا أشدُّ عذاباً وأبقى}. وفي هذا الكلام من السَّحرة دليلٌ على أنَّه ينبغي للعاقل أن يوازنَ بين لَذَّات الدُّنيا ولذَّات الآخرة وبين عذاب الدُّنيا وعذاب الآخرة.
[72] اس لیے جب جادوگروں نے حق کو پہچان لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دے دی جس کی بناء پر انھوں نے حقائق کا ادراک کر لیا تو انھوں نے جواب دیا۔
﴿ قَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’ہم ہرگز تجھ کو ترجیح نہیں دیں گے ان دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں ۔‘‘ جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکیلا ہی رب ہے، وہ اکیلا ہی معظم اور معزز ہے اور اس کے سوا
(دوسرے تمام) معبود باطل ہیں ۔ تجھے ہم اس ہستی پر ترجیح دیں جس نے ہمیں پیدا کیا؟ یہ نہیں ہو سکتا۔
﴿ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْ٘ضِ﴾ ’’پس تو جو کر سکتا ہے کر لے۔‘‘ یعنی جن باتوں سے تو نے ہمیں ڈرایا ہے، ہاتھ پیر کاٹنے سے، سولی پر چڑھانے سے یا اور سخت سزا سے، وہ تو دے کر دیکھ لے۔
﴿ اِنَّمَا تَ٘قْ٘ضِیْ هٰؔذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا﴾ تو ہمیں جس تعذیب کی دھمکی دیتا ہے اس کی غایت و انتہاء یہ ہے کہ تو صرف اس دنیا میں ہمیں عذاب دے سکتا ہے جو ختم ہو جانے والا ہے یہ عذاب ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کا دائمی عذاب ہے جو اس کا انکار کرتا ہے۔ یہ گویا فرعون کے اس قول کا جواب ہے۔
﴿ وَلَ٘تَ٘عْلَ٘مُنَّ اَ٘یُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابً٘ا وَّاَبْقٰى ﴾ جادوگروں کے اس کلام میں اس بات کی دلیل ہے کہ عقل مند کے لیے مناسب ہے کہ وہ دنیا کی لذتوں اور آخرت کی لذتوں ، دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب کے مابین موازنہ کرے۔
#
{73} {إنَّا آمنَّا بِرَبِّنا لِيَغْفِرَ لنا خَطايانا}؛ أي: كُفْرَنا ومعاصينا؛ فإنَّ الإيمان مكفِّر للسيئاتِ، والتوبة تجبُّ ما قبلها. وقولهم: {وما أكْرَهْتَنا عليه من السحر}: الذي عارَضْنا به الحقَّ. هذا دليلٌ على أنهم غير مختارين في عملهم المتقدِّم، وإنما [أكرههم] فرعونُ إكراهاً. والظاهر ـ والله أعلم ـ أنَّ موسى لما وعظهم ـ كما تقدَّم في قوله: {ويلَكُم لا تَفْتروا على اللهِ كَذِباً فَيُسْحِتَكُم بعذابٍ} أثَّر معهم ووقع منهم موقعاً كبيراً، ولهذا تنازعوا بعد هذا الكلام والموعظة. ثمَّ إنَّ فرعونَ ألزمهم ذلك وأكرهَهَم على المكرِ الذي أجْرَوْه، ولهذا تكلَّموا بكلامه السابق قبل إتيانهم؛ حيث قالوا: {إنْ هذانِ لَساحِرانِ يُريدانِ أن يخرِجاكم من أرضِكُم بسِحْرِهما}، فَجَرَوا على ما سنَّه لهم وأكرههم عليه. ولعلَّ هذه النكتة التي قامت بقلوبهم من كراهتهم لمعارضة الحقِّ بالباطل، وفعلهم ما فعلوا على وجه الإغماضِ هي التي أثَّرت معهم ورحمهم الله بسببها، ووفَّقهم للإيمان والتوبة. {والله خيرٌ}: مما أوعدتنا من الأجر والمنزلة والجاه، {وأبقى}: ثواباً وإحساناً، لا ما يقول فرعون: {ولَتَعْلَمُنَّ أيُّنا أشدُّ عذاباً وأبقى}؛ يريد أنه أشد عذاباً وأبقى.
وجميع ما أتى من قَصَص موسى مع فرعون يَذْكُرُ الله فيه إذا أتى على قصة السحرة أن فرعون توعدهم بالقطع والصلب ولم يذكر أنَّه فعل ذلك، ولم يأتِ في ذلك حديثٌ صحيح، والجزم بوقوعه أو عدمِهِ يتوقَّف على الدليل. والله أعلم بذلك وغيره، [ولكن توعده إياهم بذلك مع اقتداره، دليل على وقوعه، ولأنه لو لم يقع لذكره اللَّه، ولاتفاق الناقلين على ذلك].
[73] ﴿اِنَّـاۤ٘ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰؔنَا ﴾ ’’ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔‘‘ یعنی ہمارے کفر اور ہمارے گناہوں کو اس لیے کہ ایمان برائیوں کا کفارہ ہے اور توبہ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے
﴿وَمَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِ﴾ ’’اور اس جادو کو بھی معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیا۔‘‘ یعنی وہ جس سے ہم نے حق کا مقابلہ کیا۔ جادو گروں کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے خود اختیاری سے جادو کا کام نہیں کیا تھا بلکہ فرعون نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔
ظاہر ہوتا ہے، واللہ اعلم، کہ جب موسیٰ u نے ان کو نصیحت کی جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے
﴿ وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ﴾ (طٰہ:20؍61) ’’ کم بختو! اللہ پر بہتان طرازی نہ کرو، ورنہ وہ کسی عذاب کے ذریعے سے تمھاری جڑ کاٹ دے گا۔‘‘ تو آپ کی نصیحت نے جادوگروں کو متاثر کیا اور ان کے دلوں میں جاگزین ہو گئی ، اس لیے موسیٰ u کی نصیحت کے بعد ان کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہوالیکن فرعون نے ان جادوگروں کو اس مکر و فریب پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کر دیا، اسی لیے انھوں نے جادو کے کرتب دکھانے سے پہلے فرعون کی بات دہرائی
﴿ اِنْ هٰؔذٰنِ لَسٰحِرٰؔنِ یُرِیْدٰؔنِ اَنْ یُّخْرِجٰؔكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا ﴾ یہ کہہ کر وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئے جس پر فرعون نے ان کو مجبور کیا تھا۔ شاید یہی نکتہ تھا کہ باطل کے ذریعے سے حق کی معارضت کی ناپسندیدگی ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی تھی… انھوں نے جو کام سرانجام دیا وہ انھوں نے اغماض برتتے ہوئے سرانجام دیا… اسی نکتہ نے ان کے دلوں کو متاثر کیا، اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کو ایمان اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔
انھوں نے کہا تو نے جو اجرو و منزلت اور عزت و جاہ کا ہم سے وعدہ کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب بہتر ہے اور فرعون کے اس قول کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ثواب اور احسان باقی رہنے والا ہے۔
﴿ وَلَ٘تَ٘عْلَ٘مُنَّ اَ٘یُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابً٘ا وَّاَبْقٰى ﴾ فرعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں فرعون کے ساتھ موسیٰ u کا ذکر آیا ہے۔ وہاں جادوگروں کے واقعے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ فرعون نے جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی دینے کی دھمکی دی تھی مگر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے اپنی اس دھمکی پر عمل کیا تھااور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس دھمکی پر عمل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا دلیل پر موقوف ہے
(جو موجود نہیں ) واللہ تعالٰی أعلم مگر اس نے اپنے اقتدار کے بل بوتے پر ان کو جو دھمکی دی تھی، وہ اس پر عمل کی دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرما دیتا۔ ناقلین کا اس پر اتفاق ہے۔
{إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (74) وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى (75) جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى (76)}.
بے شک جو شخص آئے گا اپنے رب کے پاس مجرم بن کر تو بلاشبہ اس کے لیے جہنم
(تیار) ہے، نہ مرے گاوہ اس میں اور نہ جیے گا
(74) اور جو شخص آئے گا اس کے پاس مومن ہو کر، جبکہ اس نے عمل کیے ہوں نیک تو یہ لوگ، ان کے لیے ہیں درجے بلند
(75) (یعنی ) باغات ہمیشگی کے، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں اور یہی ہے جزا اس شخص کی جو پاک ہوا
(76)
#
{74} يخبر تعالى أنَّ مَن أتاه وقَدِم عليه مجرماً ـ أيْ: وصفه الجرم من كل وجهٍ، وذلك يستلزم الكفر ـ واستمرَّ على ذلك حتى مات؛ فإنَّ له نار جهنم الشديد نَكالها، العظيمة أغلالها، البعيد قعرها، الأليم حرها وقرها، التي فيها من العقاب ما يُذيب الأكباد والقلوب، ومن شدَّة ذلك أنَّ المعذَّب فيها لا يموت ولا يحيا، لا يموت فيستريح ولا يحيا حياة يتلذَّذ بها، وإنَّما حياته محشوَّة بعذاب القلب والروح والبدن، الذي لا يُقَدَّر قَدْرُه ولا يُفَتَّر عنه ساعة؛ يستغيثُ فلا يُغاث، ويدعو فلا يُستجاب له؛ نعم؛ إذا استغاث؛ أُغيث بماء كالمهل يشوي الوجوه، وإذا دعا؛ أجيب: بأخسؤوا فيها، ولا تكلمون.
[74] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جو کوئی مجرم کی حیثیت سے اس کے حضور حاضر ہوتا ہے یعنی وہ ہر لحاظ سے مجرمانہ صفات سے متصف ہے جو کفر کو مستلزم ہے اور وہ مرتے دم تک اس پر جما رہتا ہے، اس کی سزا جہنم ہے، جس کا عذاب بہت ہی سخت، جس کی ہتھکڑیاں بہت بڑی، جس کی گہرائی بہت زیادہ اور جس کی گرمی اور سردی بہت المناک ہو گی اور جہنم میں اس کو ایسا عذاب دیا جائے گا جو دل و جگر کو پگھلا کر رکھ دے گا۔ جہنم کے عذاب کی ایسی شدت ہو گی کہ جس کو عذاب دیا جائے گا وہ اس عذاب میں مرے گا نہ جیے گا، نہ وہ مرے گا کہ اس کی جان چھوٹ جائے اور نہ وہ جیے گا کہ وہ اس زندگی سے لذت اٹھا سکے۔ اس کی زندگی قلبی، روحانی اور جسمانی عذاب سے لبریز ہو گی، جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عذاب ایک گھڑی کے لیے بھی اس سے دور نہ ہو گا۔ وہ مدد کے لیے پکارے گا لیکن اس کی مدد نہ کی جائے گی اور وہ دعائیں کرے گا لیکن اس کی دعا قبول نہ ہو گی۔ ہاں ! جب وہ پانی مانگے گا تو اسے پینے کے لیے ایسا پانی دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ کی مانند ہو گا جو چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ جب وہ پکارے گا تو اس کو جواب دیا جائے گا۔
﴿ اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ ﴾ (المؤمنون:23؍108) ’’دفع ہو جاؤ اور اسی عذاب میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔‘‘
#
{75 ـ 76} ومن يأت ربَّه مؤمناً به، مصدقاً لرسله، متَّبعاً لكتبه، قد عمل الصالحات الواجبة والمستحبَّة؛ {فأولئك لهم الدرجات العلى}؛ أي: المنازل العاليات في الغرف المزخرفات، واللَّذَّات المتواصلات، والأنهار السارحات، والخلود الدائم، والسرور العظيم، فيما لا عين رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر. و {ذلك}: الثواب {جزاء من تزكَّى}؛ أي: تطَهَّر من الشرك والكفر والفسوق والعصيان: إما أنْ لا يفعَلَها بالكلِّية، أو يتوب مما فعله منها، وزكَّى أيضاً نفسه، ونمَّاها بالإيمان والعمل الصالح؛ فإنَّ للتزكية معنيين: التنقية، وإزالة الخبث، والزيادة بحصول الخير، وسمِّيت الزكاة زكاة لهذين الأمرين.
[76,75] اور جو کوئی اپنے رب پر ایمان رکھتے، اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے اور اس کی کتابوں کی اتباع کرتے ہوئے، اس کے حضور حاضر ہوتا ہے
﴿قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ ﴾ اور اس نے فرض اور مستحب اعمال بھی سرانجام دیے ہوتے ہیں
﴿فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰؔتُ الْ٘عُ٘لٰى ﴾ ’’تو ان کے لیے بڑے درجے ہوں گے۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے آراستہ بالا خانوں میں عالیشان ضیافتیں ہوں گی، کبھی نہ ختم ہونے والی لذتیں ، بہتی ہوئی نہریں ، دائمی خلود اور ایسی عظیم مسرتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے تصور میں ان کا گزر ہوا ہے۔
﴿ وَذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ ثواب
﴿جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَؔكّٰى ﴾ اس شخص کی جزا ہے جو شرک، کفر، فسق اور معصیت سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے۔ وہ یا تو ان مذکورہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی نہیں یا اگر اس سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو وہ توبہ کر لیتا ہے، نیز وہ اپنے نفس کو پاک کرتا ہے، ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اس کی نشوونما کرتا ہے۔
’’تزکیہ‘‘ کے دو معنیٰ ہیں ۔
(۱) صاف کرنا اور گندگی کو زائل کرنا ۔
(۲) بھلائی کے حصول میں اضافہ کرنا۔
زکاۃ کو انھی دو امور کی بنا پر زکاۃ کہا جاتا ہے۔
{وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَى (77) فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ (78) وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى (79)}.
اور البتہ تحقیق وحی کی ہم نے موسی کی طرف یہ کہ رات کو نکال لے جا میرے بندے ، پھر بنا تو ان کے لیے راستہ سمندر میں خشک اس حال میں کہ نہ خوف ہو گا تجھے پکڑے جانے کا اور نہ ڈرے گا تو
(ڈوبنے سے) (77) پس پیچھے لگا ان کے فرعون اپنے لشکروں سمیت تو ڈھانپ لیا انھیں سمندر سے جس چیز نے ڈھانپ لیا انھیں
(78) اور گمراہ کیا فرعون نے اپنی قوم کواور نہ
(سیدھی) راہ بتائی
(79)
#
{77 ـ 79} لما ظهر موسى بالبراهين على فرعون وقومه؛ مكث في مصر يدعوهم إلى الإسلام ويسعى في تخليص بني إسرائيل من فرعون وعذابِهِ، وفرعونُ في عتوٍّ ونفور، وأمره شديدٌ على بني إسرائيل، ويريه الله من الآيات والعبر ما قصَّه الله علينا في القرآن، وبنو إسرائيل لا يقدِرون أن يُظْهِروا إيمانَهم ويعلِنوه، قد اتَّخذوا بيوتهم مساجدَ، وصبروا على فرعون وأذاه، فأراد الله تعالى أن ينجِّيهم من عدوِّهم ويمكِّن لهم في الأرض؛ ليعبدوه جَهْراً ويُقيموا أمره، فأوحى إلى نبيِّه موسى أن يواعِدَ بني إسرائيل سرًّا ويسيروا أولَ الليل ليتمادوا في الأرض، وأخبره أنَّ فرعون وقومه سَيَتَّبعونه، فخرجوا أولَ الليل، جميعُ بني إسرائيل [هم] ونساؤُهم وذرِّيَّتُهم، فلما أصبح أهل مصر، وإذا هم ليس فيهم منهم داعٍ ولا مجيبٌ، فَحَنَقَ عليهم عدوُّهم فرعون، وأرسل في المدائن من يَجْمَعُ له الناس ويحضُّهم على الخروج في أثر بني إسرائيل، [ليوقع بهم وينفذ غيظه، واللَّه غالب على أمره، فتكاملت جنود فرعون فسار بهم يتبع بني إسرائيل] فاتَّبَعوهم مشرِقين، فلما تراءى الجمعانِ؛ قال أصحابُ موسى: إنَّا لَمدركون، وقلقوا، وخافوا: البحر أمامهم. وفرعون من ورائهم؛ قد امتلأ عليهم غيظاً وحنقاً، وموسى مطمئنُّ القلب ساكنُ البال، قد وَثِقَ بوعد ربِّه فقال: {كلاَّ إنَّ معي ربي سيهدينِ}؛ فأوحى الله إليه أن يَضْرِبَ البحر بعصاه، فضربه، فانفرق اثني عشر طريقاً، وصار الماء كالجبال العالية عن يمين الطرق ويسارها، وأيبس الله طُرُقهم التي انفرق عنها الماء، وأمرهم الله أن لا يخافوا من إدراكِ فرعونَ ولا يَخْشَوا من الغرق في البحر، فسلكوا في تلك الطرق، فجاء فرعونُ وجنودُه، فسلكوا وراءهم، حتَّى تكامل قوم موسى خارجين وقوم فرعون داخلين؛ أمر الله البحر، فالتطم عليهم، وغَشِيَهم من اليمِّ ما غَشِيَهم، وغرقوا كلُّهم، ولم ينجُ منهم أحدٌ، وبنو إسرائيل ينظُرون إلى عدوِّهم، قد أقرَّ الله أعيُنَهم بهلاكِهِ ، وهذا عاقبة الكفر والضلال وعدم الاهتداء بهدي الله، ولهذا قال تعالى: {وأضلَّ فرعونُ قومَه}: بما زيَّن لهم من الكفر، وتهجين ما أتى به موسى، واستخفافِهِ إيَّاهم، وما هداهم في وقت من الأوقات، فأوردهم موارد الغيِّ والضَّلال، ثم أوردهم مورد العذاب والنَّكال.
[79-77] جب موسیٰ u معجزات کے ذریعے سے فرعون اور اس کی قوم پر غالب آ گئے تو وہ مصر میں ٹھہر گئے اور فرعون اور قوم فرعون کو اسلام کی دعوت دینے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور اس کی تعذیب سے نجات دلانے میں کوشاں رہے۔ فرعون اپنی سرکشی اور روگردانی پر جما ہوا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں اس کا معاملہ بہت سخت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ آیات و معجزات دکھائے جن کا قرآن میں ذکر فرمایا اور بنی اسرائیل اعلانیہ اپنے ایمان کے اظہار پر قادر نہیں تھے انھوں نے اپنے گھروں کو مساجد بنا رکھا تھا اور نہایت صبر و استقامت کے ساتھ وہ فرعون کی تعذیب اور اذیتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کو اس کے دشمن کی غلامی سے رہائی دلا کر ایک ایسی سرزمین میں آباد کرے جہاں وہ اعلانیہ اس کی عبادت کریں اور اس کے دین کو قائم کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ u کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے منصوبے سے آگاہ کریں ، رات کے ابتدائی حصے میں مصر سے نکل کر راتوں رات بہت دور نکل جائیں اور خبردار کر دیا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ان کا تعاقب کرے گا، چنانچہ تمام بنی اسرائیل اپنے اہل و عیال سمیت، رات کے پہلے پہر، مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو مصریوں نے دیکھا کہ شہر میں
(بنی اسرائیل میں سے) کوئی بلانے والا ہے نہ جواب دینے والا تو ان کا دشمن فرعون سخت غضبناک ہوا۔ اس نے تمام شہروں میں ہر کارے بھجوا دیے تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب پر آمادہ کریں تاکہ وہ ان کو پکڑ کر ان پر اپنا غصہ نکال سکے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافذ کرنے پر غالب ہے۔ پس فرعونی لشکر جمع ہوگیا تو وہ اسے لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔
﴿فَلَمَّا تَرَآءَؔ الْ٘جَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰؔبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَؔكُوْنَ﴾ (الشعراء:26؍61) ’’جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو
(حضرت) موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا لو ہم پکڑے گئے۔‘‘ ان پر خوف طاری ہو گیا، سمندر ان کے سامنے تھا اور فرعون
(اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ) ان کے پیچھے تھا اور وہ غیظ و غضب سے لبریز تھا۔ حضرت موسیٰ u نہایت مطمئن اور پرسکون تھے اور انھیں اپنے رب کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا،
چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿كَلَّا١ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ﴾ (الشعراء:26؍62) ’’ہرگز نہیں ! میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے ضرور کوئی راہ دکھائے گا۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u کی طرف وحی کی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں ۔ انھوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی بلند پہاڑ کی مانند راستوں کے دائیں بائیں کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام راستوں کو خشک کر دیا جن سے پانی دور ہٹ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ فرعون سے ڈریں نہ سمندر میں غرق ہونے سے ڈریں ۔ پس وہ سمندر میں بنے ہوئے راستوں پر چل پڑے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ساحل سمندر پر پہنچا تو وہ ان راستوں پر ان کے پیچھے سمندر میں گھس گیا۔ جب موسیٰ uکی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر آ گئی اور فرعون اور اس کا لشکر پورے کا پورا سمندر میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو سمندر کی موجوں نے ان پر تھپیڑے مارنے شروع کر دیے
(راستے کے دونوں طرف کی موجیں آپس میں مل گئیں ) اور سمندر نے ان کو ڈھانپ لیا اور تمام لشکر ڈوب گیا اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا، جبکہ بنی اسرائیل اپنے دشمنوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے دشمن کو ہلاک کر کے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔
اور یہ کفر، ضلالت،
بد راہی اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے عدم اعتناء کا انجام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ ﴾ ’’اور گمراہ کر دیا فرعون نے اپنی قوم کو۔‘‘ یعنی فرعون نے کفر کو مزین اور موسیٰu کی دعوت کا استخفاف کر کے اور اس کو برا کہہ کر اپنی قوم کو گمراہ کیا اور کبھی بھی ان کو راہ راست نہ دکھائی۔ وہ انھیں گمراہی اور بدراہی کے گھاٹ پر لے گیا، پھر انھیں عذاب اور ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔
{يَابَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى (80) كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى (81) وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (82)}.
اے بنی اسرائیل! تحقیق نجات دی ہم نے تمھیں تمھارے دشمن سےاور وعدہ کیا ہم نے تم سے طور کی دائیں جانب کااور نازل کیاہم نے تم پر من اور سلوی
(80) تم کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں سے جو رزق دیا ہم نے تمھیں اور نہ سرکشی کرو تم اس میں کہ
(اس کی وجہ سے) اترے تم پر میرا غضب اور وہ شخص کہ اترا اس پر میرا غضب تو یقینا وہ تباہ ہو گیا
(81) اور بلاشبہ میں البتہ بہت بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا عمل کیا نیک، پھر وہ راہ راست پر رہا
(82)
#
{80 ـ 81} يذكِّر تعالى بني إسرائيل منَّته العظيمة عليهم بإهلاك عدوِّهم، ومواعدته لموسى عليه السلام بجانب الطُّور الأيمن؛ لينزل عليه الكتاب الذي فيه الأحكام الجليلة والأخبار الجميلة، فتتمَّ عليهم النعمة الدينيَّة بعد النعمة الدنيويَّة، ويذكِّر منَّته أيضاً عليهم في التيه بإنزال المنِّ والسلوى والرزق الرَّغَد الهني، الذي يحصُلُ لهم بلا مشقَّة، وأنه قال لهم: {كُلوا من طيِّبات ما رَزَقْناكم}؛ أي: واشكروه على ما أسدى إليكم من النعم. {ولا تَطْغَوْا فيه}؛ أي: في رزقه فتستعملونه في معاصيه وتبطرون النعمة فإنكم إن فعلتم ذلك حلَّ عليكم غضبي؛ أي: غضبتُ عليكم ثم عذَّبتكم. {ومَن يَحْلُلْ عليه غضبي فقد هوى}؛ أي: ردي وهلك وخاب وخسر؛ لأنه عَدِمَ الرِّضا والإحسان، وحلَّ عليه الغضب والخسران.
[81,80] اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا احسان عظیم یاد دلاتا ہے کہ اس نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور کوہ طور کے دائیں جانب وعدہ کیا کہ وہ ان پر کتاب نازل کرے گا جس میں جلیل القدر احکام اور عالیشان خبریں ہیں ۔ اس طرح دنیاوی نعمت کی تکمیل کے بعد دینی نعمت کی تکمیل ہوئی۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ ان کو اپنا یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے بے آب و گیاہ بیابان میں ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور ان کو بافراط رزق سے نوازا جو انھیں بلامشقت حاصل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا:
﴿ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰؔتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تمھیں عطا کی ہیں ، ان پر اس کا شکر ادا کرو۔
﴿ وَلَا تَطْغَوْا فِیْهِ ﴾ یعنی اس کے عطا کردہ رزق میں سرکشی نہ کرو کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کرنے لگو یا اس کی نعمت پر اترانے لگو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم پر میرا غضب نازل ہو گا یعنی میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا اور تمھیں عذاب میں مبتلا کر دوں گا۔
﴿ وَمَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى ﴾ یعنی جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاک اور خائب و خاسر ہوا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور احسان سے محروم ہو گیا اور اس کی ناراضی اور خسارہ اس کے حصے میں آیا۔
#
{82} ومع هذا؛ فالتوبة معروضةٌ، ولو عمل العبد ما عمل من المعاصي، ولهذا قال: {وإنِّي لغفارٌ}؛ أي: كثير المغفرة والرحمة، {لمن تابَ}: من الكفر والبدعة والفسوق، و {آمن}: بالله وملائكته وكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر، {وعمل صالحاً}: من أعمال القلب والبدن وأقوال اللسان، {ثمَّ اهتدى}؛ أي: سلك الصراط المستقيم، وتابع الرسول الكريم، واقتدى بالدِّين القويم؛ فهذا يغفر الله أوزاره، ويعفو عما تقدَّم من ذنبه وإصراره؛ لأنَّه أتى بالسبب الأكبر للمغفرة والرحمة، بل الأسباب كلُّها منحصرةٌ في هذه الأشياء؛ فإنَّ التوبة تجبُّ ما قبلها، والإيمان والإسلام يهدم ما قبله، والعمل الصالحُ الذي هو الحسناتُ يُذْهِبُ السيئاتِ، وسلوكُ طرق الهداية، بجميع أنواعها، من تعلُّم علم وتدبُّر آية أو حديث، حتى يتبيَّن له معنى من المعاني يهتدي به، ودعوة إلى دين الحقِّ وردِّ بدعة أو كفر أو ضلالة وجهاد وهجرةٍ وغير ذلك، من جزئيَّات الهداية كلها مكفِّرات للذنوب محصِّلات لغاية المطلوب.
[82] بایں ہمہ بندے نے خواہ کتنا ہ بڑا گناہ کیوں نہ کیا ہو، اس کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ﴾ یعنی جو شخص کفر، بدعت اور فسق و فجور سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لے آتا ہے اور قلب، بدن اور زبان کے ذریعے سے نیک عمل کرتا ہے تو میں بہت زیادہ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہوں ۔
﴿ ثُمَّ اهْتَدٰؔى ﴾ یعنی پھر وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوا،رسول کریمe کی اتباع اور دین قیم کی پیروی کی۔ پس یہ وہ شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ اس کے گزشتہ گناہوں اور ان پر اس کے اصرار کو معاف کر دے گا کیونکہ وہ بخشش اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے بلکہ تمام اسباب انھی اشیاء پر منحصر ہیں کیونکہ توبہ گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے، ایمان اور اسلام گزشتہ تمام بداعمالیوں کو منہدم کر دیتے ہیں اور عمل صالح یعنی نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ راہ ہدایت کی تمام اقسام پر گامزن رہنا ،
مثلاً: علم حاصل کرنا، کسی آیت یا حدیث کا معنیٰ سمجھنے کے لیے ان میں تدبر کرنا، دین حق کی طرف دعوت دینا، بدعت، کفر و ضلالت کا رد کرنا، جہاد اور ہجرت وغیرہ اور ہدایت کی دیگر جزئیات۔ یہ سب گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اور منزل مطلوب کے حصول میں مدد دیتی ہیں ۔
{وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَامُوسَى (83) قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى (84) قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ (85) فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ يَاقَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي (86)}.
اور کون سی چیز جلدی لے آئی تجھے، تیری قوم سے اے موسیٰ؟
(83) اس نے کہا، وہ لوگ میرے پیچھے
(آرہے) ہیں اور میں نے جلدی کی تیری طرف، اے میرے رب! تاکہ تو راضی ہو جائے
(84) اللہ نے کہا، پس بے شک ہم نے آزمایا ہے تیری قوم کو تیرے بعداور گمراہ کر دیا انھیں سامری نے
(85) پس لوٹا موسی اپنی قوم کی طرف غضب ناک غمگین، اس نے کہا، اے میری قوم! کیا نہیں وعدہ کیا تھا تم سے تمھارے رب نے وعدہ اچھا؟ کیا پس لمبا ہو گیا تھا تم پر عہد یا چاہا تم نے یہ کہ اترے تم پر غضب تمھارے رب کی طرف سے؟ پس خلاف ورزی کی تم نے میرے وعدے کی
(86)
#
{83} كان الله تعالى قد واعَدَ موسى أن يأتِيَهُ لِيُنْزِلَ عليه التوراة ثلاثين ليلةً، فأتمَّها بعشرٍ، فلما تمَّ الميقات؛ بادر موسى عليه السلام إلى الحضور للموعد شوقاً لربِّه وحرصاً على موعوده، فقال الله له: {وما أعْجَلَكَ عن قومك يا موسى}؛ أي: ما الذي قدَّمك عليهم؟ ولِمَ لمْ تصبِرْ حتى تَقْدِمَ أنت وهم؟
[83] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u کے لیے جگہ اور وقت مقرر کر دیا تاکہ ان پر تیس دن میں تورات نازل کر دے۔ پھر چالیس دن میں اس کا اتمام کیا۔ جب مدت مقرر پوری ہوئی تو موسیٰ u اپنے رب کی ملاقات کے شوق اور چاہت میں وعدے کے مطابق جلدی سے مقررہ مقام پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰؔى ﴾ یعنی کس چیز نے تجھ کو اپنی قوم سے پہلے آنے پر آمادہ کیا؟ تو نے صبر کیوں نہ کیا یہاں تک کہ تو اپنی قوم کے ساتھ آتا ۔
#
{84} {قال هم أولاءِ على أثَري}؛ أي: قريباً مني، وسيصلون في أثَري، والذي عَجَّلَني إليك يا ربِّ الطلبُ لقربك والمسارعة في رضاك والشوق إليك.
[84] موسیٰ u نے عرض کیا:
﴿ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤى اَثَرِیْ ﴾ وہ یہاں سے قریب ہی ہیں وہ عنقریب میرے پیچھے پہنچ جائیں گے اور جس چیز نے مجھے تیری جناب میں جلدی حاضر ہونے پر آمادہ کیا وہ ہے تیرے قرب کی طلب، تیری رضا کے حصول میں جلدی اور تیرا شوق۔
#
{85} فقال الله له: {فإنَّا قد فَتَنَّا قومَكَ من بعدِكَ}؛ أي: بعبادتهم للعجل ابتليناهم واختبرناهم فلم يصبِروا، وحين وصلتْ إليهم المحنة كفروا، {وأضلَّهم السامرِيُّ}: فأخرج لهم عجلاً جسداً وصاغَهُ فصار له خُوارٌ، وقال لهم: هذا إلهكم وإله موسى، فنسِيَه موسى، فافتتن به بنو إسرائيل، فعبدوه، ونهاهم هارونُ، فلم ينتهوا.
[85] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ ﴾ یعنی تیرے بعد تیری قوم کو بچھڑے کی پوجا کے ذریعے سے ہم نے آزمایا۔ پس انھوں نے صبر نہیں کیا اور جب ان کا امتحان ہوا تو انھوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔
﴿وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ﴾ ’’اور سامری نے ان کو گمراہ کر دیا‘‘
﴿فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا ﴾ وہ ان کے لیے ایک بچھڑے کا بت بنا لایا
﴿لَّهٗ خُوَارٌؔ فَقَالُوْا ﴾ اس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ کہنے لگے۔
﴿ هٰؔذَاۤ اِلٰهُكُمْ وَاِلٰ٘هُ مُوْسٰؔى﴾ ’’یہ تمھارا اور موسیٰ کا معبود ہے‘‘ جسے موسیٰ بھول گیا ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل فتنے میں مبتلا ہو گئے اور انھوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا حضرت ہارونu نے ان کو روکا مگر وہ بچھڑے کی عبادت سے باز نہ آئے۔
#
{86} فلما رجع موسى إلى قومِهِ وهو غضبان أسف؛ أي: ممتلئ غيظاً وحنقاً وغمًّا؛ قال لهم موبِّخاً ومقبحاً لفعلهم: {يا قوم ألمْ يَعِدْكُم ربُّكم وعداً حسناً}: وذلك بإنزال التوراة. {أفطالَ عليكُمُ العهدُ}؛ أي: المدة فتطاولتم غيبتي وهي مدة قصيرة؟! هذا قول كثيرٍ من المفسرين، ويُحتمل أنَّ معناه: أفطال عليكُم عهد النبوَّة والرِّسالة، فلم يكن لكم بالنبوَّة علمٌ ولا أثرٌ، واندرستْ آثارُها، فلم تقِفوا منها على خبرٍ، فانمحت آثارُها لبعد العهد بها، فعبدتُم غير الله لغلبة الجهل وعدم العلم بآثار الرسالة؟! أي: ليس الأمر كذلك، بل النبوَّة بين أظهركم، والعلم قائمٌ، والعذر غيرُ مقبول. {أم أردتُم}: بفعلكم {أن يَحِلَّ عليكم غضبٌ من ربِّكم}؛ أي: فتعرَّضتم لأسبابه واقتحمتم موجب عذابه، وهذا هو الواقع. {فأخلفتُم موعدي}: حين أمرتكم بالاستقامة ووصيت بكم هارون فلم ترقُبوا غائباً ولم تحترموا حاضراً.
[86] جب موسیٰ u اپنی قوم میں واپس آئے تو سخت ناراض ہوئے وہ تاسف اور غیظ و غضب سے لبریز تھے انھوں نے اس فعل پر زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ﴾ ’’اے میری قوم! کیا تم سے تمھارے رب نے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟‘‘ اور یہ تورات نازل کرنے کا وعدہ تھا۔
﴿اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ ﴾ کیا وعدہ پورا ہونے میں دیر لگ گئی تھی اور میری عدم موجودگی طویل ہو گئی تھی، حالانکہ یہ تو بہت ہی تھوڑی سی مدت تھی۔ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے اور اس میں ایک دوسرے معنی کا احتمال بھی ہے، وہ یہ کہ کیا عہد نبوت اور رسالت کو زیادہ عرصہ گزر گیا ہے؟ جس کی وجہ سے تمھارے پاس علم باقی نہ رہا، علم کے تمام آثار مٹ گئے اور تمھارے پاس کوئی خبر نہ پہنچی اور طول عہد کی بنا پر آثار نبوت محو ہو گئے تھے اور اس طرح تم نے آثار رسالت اور علم کے معدوم ہونے اور غلبہء جہالت کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت شروع کر دی…؟ مگر معاملہ یوں نہیں بلکہ نبوت تمھارے درمیان موجود اور علم قائم ہے، اس لیے تمھارا یہ عذر قابل قبول نہیں ۔ یا اس فعل کے ذریعے سے تمھارا ارادہ یہ تھا کہ تم پر تمھارے رب کا غضب نازل ہو، یعنی تم نے ایسے اسباب اختیار کیے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے موجب ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔
﴿ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ﴾ ’’پس تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا۔‘‘ جب میں نے تمھیں استقامت کا حکم دیا اور ہارونu کو تمھارے بارے میں وصیت کی تو تم نے غائب کا انتظار کیا نہ موجود کا احترام کیا۔
{قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ (87) فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ (88) أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا (89)}.
انھوں نے کہا، نہیں خلاف ورزی کی ہم نے تیرے وعدے کی اپنے اختیار سے لیکن اٹھوائے گئے تھے ہم بوجھ زیورات کا
(فرعون کی) قوم کے، پس پھینک دیے ہم نے وہ
(آگ میں ) اور اسی طرح
(کچھ) پھینکا سامری نے بھی
(87) پھر اس نے نکالا ان کے لیے ایک بچھڑا
(یعنی ) ایک جسم، اس کی آواز تھی گائے کی سی تو انھوں نے کہا، یہ معبود ہے موسی کا، پس وہ بھول گیا
(88) کیا پس نہیں دیکھتے وہ کہ بلاشبہ وہ
(بچھڑا) نہیں لوٹاتا ان کی طرف کوئی بات اور نہیں اختیار رکھتاوہ ان کے لیے نقصان کا اور نہ نفع کا
(89)
#
{87 ـ 88} أي: قالوا له: ما فعلنا الذي فعلنا عن تعمُّدٍ منَّا وملكٍ منَّا لأنفسنا، ولكن السبب الداعي لذلك أنَّنا تأثَّمنا من زينة القوم التي عندنا، وكانوا فيما يَذْكُرون استعاروا حُلِيًّا كثيراً من القبط، فخرجوا وهو معهم، وألقوه وجمعوه حين ذهب موسى ليراجعوه فيه إذا رجع، وكان السامريُّ قد بصر يومَ الغرق بأثر الرسول، فسوَّلت له نفسُه أن يأخُذَ قبضةً من أثرِهِ، وأنَّه إذا ألقاها على شيءٍ حَيِيَ فتنة وامتحاناً، فألقاها على ذلك العجل الذي صاغه بصورة عجل، فتحرَّك العجلُ وصار له خُوارٌ وصوتٌ، وقالوا: إنَّ موسى ذهب يطلُبُ ربَّه، وهو هاهنا، فنسِيَه.
[88,87] انھوں نے موسیٰ u سے کہا کہ ان سے یہ کام جان بوجھ کر اور اپنے اختیار سے سرزد نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ہم زیورات کے گناہ سے، جو ہمارے پاس تھے، بچنا چاہتے تھے۔ اہل تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے قبطیوں سے زیورات وغیرہ مستعار لیے تھے مصر سے نکلتے وقت وہ زیورات بھی ساتھ لے آئے۔ وہاں سے نکل کر انھوں نے وہ زیورات پھینک دیے تھے جب موسیٰ u چلے گئے تو انھوں نے وہ زیورات اکٹھے کر لیے تاکہ حضرت موسیٰ کی واپسی پر اس بارے میں ان سے رجوع کریں ۔
جس روز فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اس روز سامری نے رسول کا نقش پا دیکھ لیا تھا، اس کے نفس نے اسے آمادہ کیا اور اس نے اس نقش پا سے خاک کی ایک مٹھی اٹھالی اور اس خاک میں یہ تاثیر تھی کہ جب اسے کسی چیز پر ڈالا جاتا تو وہ زندہ ہو جاتی تھی… یہ امتحان اور آزمائش تھی۔ اس نے یہ خاک بچھڑے کے اس بت پر ڈال دی، جو اس نے گھڑا تھا۔ اس سے اس میں حرکت پیدا ہو گئی اور اس سے آواز بھی نکلتی تھی۔ بنی اسرائیل نے کہا موسیٰu اپنے رب کو تلاش کرنے گیا ہے اور وہ یہاں موجود ہے، موسیٰu بھول گیا۔
#
{89} وهذا من بلادتهم وسخافة عقولهم؛ حيث رأوا هذا الغريب الذي صار له خُوارٌ بعد أن كان جماداً، فظنُّوه إله الأرض والسماوات، أفلا يَرَوْنَ أنَّ العجل لا {يرجِعُ إليهم قولاً}؛ أي: لا يتكلَّم ويراجعهم ويراجعونه، {ولا يملكُ لهم ضرًّا ولا نفعاً}؛ فالعادم للكمال والكلام والفعال لا يستحقُّ أن يُعْبَدَ، وهو أنقصُ من عابديه؛ فإنَّهم يتكلَّمون ويقدِرون على بعض الأشياء من النفع والدفع بإقدارِ الله لهم.
[89] یہ ان کی کم عقلی اور حماقت تھی کہ انھوں نے گائے کے بچھڑے کو جو ایک دھات کا بنا ہوا تھا جس میں آواز پیدا ہو گئی تھی… زمین اور آسمانوں کا اِلٰہ سمجھ لیا تھا۔
﴿اَفَلَا یَرَوْنَ ﴾’’کیا وہ نہیں دیکھتے۔‘‘ کہ وہ بچھڑا
﴿ اَلَّا یَرْجِـعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا ﴾ ان سے کلام کر سکتا ہے نہ وہ ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے نہ ان کو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان؟ پس صرف وہی ہستی عبادت کی مستحق ہے جو کمال، کلام اور افعال کی مالک ہو اور ایسی ہستی عبادت کیے جانے کا استحقاق نہیں رکھتی جو اپنے عبادت گزاروں سے بھی ناقص ہو کیونکہ عبادت گزار تو کلام کر سکتے ہیں اور بعض معاملات میں ، اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت کے مطابق، نفع و نقصان کا اختیار بھی رکھتے ہیں ۔
{وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي (90) قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى (91) قَالَ يَاهَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا (92) أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي (93) قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي (94)}.
اور البتہ تحقیق کہا تھا ان سے ہارون نے پہلے اس سے، اے میری قوم! یقینا تم آزمائے گئے ہو بوجہ اس
(بچھڑے) کے اور بلاشبہ تمھارا رب نہایت مہربان ہے، پس تم پیروی کرو میری اور اطاعت کرو میرے حکم کی
(90) انھوں نے کہا، ہمیشہ رہیں گے ہم تو اس کی پرستش کرتے یہاں تک کہ لوٹ آئے ہماری طرف موسیٰ
(91) موسیٰ نے کہا، اے ہارون! کس چیز نے منع کیا تھا تجھے جب دیکھا تو نے ان کو کہ وہ گمراہ ہو گئے
(92) اس سے کہ نہ پیروی کرے تو میری؟ کیا پس تو نے نافرمانی کی میرے حکم کی؟
(93) ہارون نے کہا، اے میری ماں جائے! نہ پکڑ تو داڑھی میری اور نہ سر میرا، بے شک میں ڈر گیا تھا اس
(بات) سے کہ تو کہے گا تفرقہ ڈال دیا تو نے درمیان بنی اسرائیل کےاور نہ انتظار کیا تو نے میری بات کا
(94)
#
{90 ـ 91} أي: إنَّهم باتَّخاذهم العجل ليسوا معذورينَ فيه؛ فإنَّه وإنْ كانت عَرَضَتْ لهم الشبهةُ في أصل عبادته؛ فإنَّ هارونَ قد نهاهم عنه، وأخبرهم أنه فتنة، وأن ربَّهم الرحمن الذي منه النعم الظاهرة والباطنة، الدافع للنقم، وأنَّه أمرهم أن يتَّبعوه ويعتزلوا العجل، فأبوا وقالوا: {لن نَبْرَحَ عليه عاكفينَ حتَّى يرجِعَ إلينا موسى}.
[91,90] یعنی بچھڑے کو معبود بنانے میں وہ معذور نہیں تھے۔ اگر وہ بچھڑے کی عبادت کے بارے میں کسی شبہ میں مبتلا ہو گئے تھے تو ہارون u نے ان کو بہت روکا تھا اور ان کو آگاہ کر دیا تھا کہ یہ ان کی آزمائش ہے۔ ان کا رب تو رحمٰن ہے جس کی طرف سے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اور وہ تمام تکالیف کو دور کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہارونu کی اتباع کریں اور بچھڑے کو چھوڑ دیں ۔ مگر انھوں نے ایسا نہ کیا اور کہنے لگے:
﴿لَ٘نْ نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عٰكِفِیْنَ حَتّٰى یَرْجِـعَ اِلَیْنَا مُوْسٰؔى ﴾ ’’موسیٰ کے آنے تک ہم تو اسی کی عبادت و تعظیم میں لگے رہیں گے۔‘‘
#
{92 ـ 93} فأقبل موسى على أخيه لائماً له، وقال: {يا هارونُ ما منعكَ إذْ رأيتَهم ضَلُّوا. أن لا تَتَّبِعَنِ}: فتخبِرَني لأبادِرَ للرُّجوع إليهم. {أفعصيتَ أمري}: في قولي: {اخلُفني في قومي وأصْلِحْ ولا تَتَّبِع سبيلَ المفسدين}: فأخذ موسى برأسِ هارون ولحيتِهِ يجرُّه من الغضب والعتب عليه.
[93,92] اور حضرت موسیٰu اپنے بھائی کو ملامت کرتے ہوئے آئے اور کہنے لگے:
﴿ قَالَ یٰهٰؔرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْۤا اَلَّا تَ٘تَّ٘بِعَنِ﴾ ’’اے ہارون! جب تو نے ان کو دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو تجھے میرے پیچھے آنے سے کس چیز نے روک دیا؟‘‘ کہ آ کر تو مجھے خبر کر دیتا تاکہ میں جلدی سے ان کی طرف لوٹ آتا
﴿ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ ﴾کیا تو نے میرے اس حکم کی نافرمانی کی ہے
﴿اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍142) ’’تو میری قوم میں میری جانشینی کر، معاملات کو درست کر اور اہل فساد کے راستے کی پیروی نہ کر۔‘‘ موسیٰ u نے حضرت ہارونu کو سر اور داڑھی سے پکڑا اور غصے میں اپنی طرف کھینچا۔
#
{94} فقال هارون: {يا ابن أمَّ}: ترقيقٌ له، وإلاَّ فهو شقيقه. {لا تأخُذْ بلحيتي ولا برأسي إني خشيتُ أن تقولَ فرَّقتَ بين بني إسرائيلَ ولم تَرْقُبْ قَوْلي}: فإنَّك أمرتني أن أخْلُفَكَ فيهم؛ فلو تبعتُك؛ لتركتُ ما أمرتَني بلزومِهِ، وخشيتُ لائمَتَكَ، وأن تقول: فرَّقْتَ بين بني إسرائيل؛ حيث تركتَهم وليس عندَهم راعٍ ولا خليفةٌ؛ فإنَّ هذا يفرِّقُهم، ويشتِّت شملَهم؛ فلا تَجْعَلْني مع القوم الظالمين، ولا تشمِّتْ فينا الأعداء. فندم موسى على ما صَنَعَ بأخيه وهو غير مستحقٍّ لذلك، فقال: {ربِّ اغفِرْ لي ولأخي وأدْخِلْنا في رحمتِكَ وأنت أرحم الراحمين}.
[94] ہارون u نے کہا:
﴿ یَبْنَؤُمَّ ﴾ ’’اے میرے ماں جائے‘‘ انھوں نے موسیٰ u سے رقت قلبی کی امید پر یہ فقرہ کہا تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ موسیٰu ماں اور باپ دونوں طرف سے ان کے بھائی تھے۔
﴿ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَاْسِیْ١ۚ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ ﴾ ’’آپ میری داڑھی اور سر نہ پکڑیں ، میں تو اس بات سے ڈرا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل کے درمیان تفریق ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔‘‘ کیونکہ آپ کا حکم تھا کہ میں ان میں آپ کی جانشینی کروں اگر میں آپ کے پیچھے چلا آتا تو میں اس چیز کو چھوڑ بیٹھتا جس کے التزام کا آپ نے حکم دیا تھا اور میں آپ کی ملامت سے ڈرتا رہا۔
﴿ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ کسی نگرانی کرنے والے اور کسی جانشین کے بغیر ان کو چھوڑ دیا اور اس سے ان میں تشتت و افتراق پیدا ہو گیا۔ اس لیے آپ مجھے ظالموں میں شریک نہ کریں اور نہ دشمنوں کو ہم پر ہنسنے کا موقع دیں ۔
اس پر موسیٰ u کو بھائی کے ساتھ اپنے طرز عمل پر ندامت ہوئی کہ وہ اس سلوک کے مستحق نہ تھے، اس لیے دعا کی۔
﴿رَبِّ اغْ٘فِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖٞ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰؔحِمِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍151) ’’اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخشش اور ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
پھر سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
{قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَاسَامِرِيُّ (95) قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي (96) قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا (97)}.
موسیٰ نے کہا، پس کیامعاملہ ہے تیرا اے سامری؟
(95) اس نے کہا، دیکھا تھا میں نے اس چیز کو کہ نہ دیکھا تھا ان لوگوں نے اسے، پس بھر لی میں نے ایک مٹھی رسول
(جبریل) کے نشان قدم سے، پھر پھینکا میں نے اس کواور اسی طرح مزین کیا تھا میرے نفس نے
(96) موسیٰ نے کہا،پس جا تو، پس بے شک تیرے لیے ہے زندگی بھر کہ تو کہتا رہے نہ ہاتھ لگانا
(مجھے)اور بلاشبہ تیرے لیے وعدہ کا وقت ہے کہ ہرگز نہیں خلاف کیا جائے گا تیرے حق میں اس سے اور دیکھ تو طرف اپنے معبود کی وہ جو ہو گیا تھا تواس کی پرستش کرنے والا، البتہ ضرور جلائیں گے ہم اسے، پھر اڑائیں گے ہم
(اس کی راکھ) سمندر میں
(مکمل طور پر) اڑانا
(97)
#
{95 ـ 96} أي: ما شأنُك يا سامريُّ حيثُ فعلتَ ما فعلتَ؟ فقال: {بَصُرْتُ بما لم يَبْصُروا به}: وهو جبريلُ عليه السلام على فرسٍ، رآه وقتَ خروجهم من البحر وغرِق فرعون وجنوده على ما قاله المفسرون، {فقبضتُ قبضةً من أثر} حافر فرسِهِ، فنبذتُها على العجل، {وكذلك سَوَّلَتْ لي نفسي}: أنْ أقبِضَها ثمَّ أنبِذَها، فكان ما كان.
[96,95] یعنی یہ جو تو نے سب کچھ کیا ہے یہ کیا معاملہ ہے؟ سامری نے جواب دیا۔
﴿ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ ﴾ ’’میں نے وہ چیز دیکھی جو انھوں نے نہیں دیکھی۔‘‘ یعنی وہ جبریلu تھے جن کو سامری نے سمندر سے باہر نکلتے اور فرعون کے اپنے لشکر سمیت ڈوبتے وقت گھوڑی پر سوار دیکھا۔ جیسا کہ مفسرین کی رائے ہے، یعنی میں نے گھوڑی کے سم کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھائی اور بچھڑے
(کے بت) پر ڈال دی۔
﴿ وَؔكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ ﴾ میرے نفس نے مجھے ایسے ہی سمجھایا تھا کہ میں
(جبریل کے نقش پا سے) ایک مٹھی خاک لوں اور اسے اس بچھڑے پر ڈال دوں اور اس طرح وہ کچھ ہو جائے جو ہو گیا۔
#
{97} فقال له موسى: اذهبْ؛ أي: تباعَدْ عنِّي واستأخِرْ منِّي. {فإنَّ لك في الحياة أن تقولَ لا مِساسَ}؛ أي: تعاقَبُ في الحياة عقوبةً، لا يدنو منك أحدٌ ولا يَمَسُّك أحدٌ، حتى إنَّ من أراد القرب منك؛ قلت له: لا تَمَسَّني ولا تَقْرَبْ مني؛ عقوبةً على ذلك؛ حيث مسَّ ما لم يمسَّه غيره وأجرى ما لم يجرِهِ أحدٌ. {وإنَّ لك موعداً لن تُخْلَفَهُ}: فتُجازى بعملك من خيرٍ وشرٍّ. {وانظُرْ إلى إلهك الذي ظَلْتَ عليه عاكفاً}؛ أي: العجل، {لَنُحَرِّقَنَّه ثم لَنَنْسِفَنَّه في اليمِّ نَسْفاً}: ففعل موسى ذلك؛ فلو كان إلهاً؛ لامتنع ممَّن يريده بأذى ويسعى له بالإتلاف. وكان قد أشْرِبَ العجلُ في قلوب بني إسرائيل، فأراد موسى عليه السلام إتلافَه وهم ينظُرون على وجهٍ لا تمكن إعادتُه؛ بالإحراق والسَّحْق وذَرْيِهِ في اليمِّ ونسفِهِ؛ ليزول ما في قلوبهم من حبِّه كما زال شخصه، ولأنَّ في إبقائه محنةً؛ لأن في النفوس أقوى داعٍ إلى الباطل.
[97] پس موسیٰ u نے سامری سے کہا:
﴿ فَاذْهَبْ ﴾ مجھ سے دور ہو جا
﴿ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰؔوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ﴾ یعنی تجھے زندگی میں ایسی سزا دی جائے گی کہ کوئی شخص تیرے قریب آئے گا نہ تجھے چھوئے گا۔ اگر کوئی شخص تیرے پاس آنا چاہے گا تو خود ہی پکار کر اسے کہہ دے گا ’’مجھے مت چھونا، میرے قریب نہ آنا‘‘ یہ تمھارے اس فعل کی سزا ہو گی… کیونکہ سامری نے اس چیز کو چھوا جسے کسی دوسرے نے نہیں چھوا اس نے وہ کچھ جاری کیا جو کسی اور نے جاری نہیں کیا۔
﴿ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّ٘نْ تُخْلَفَهٗ﴾ ’’اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو ہرگز تجھ سے نہیں ٹلے گا۔‘‘ پس اس وقت تجھے تیرے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا
﴿ وَانْ٘ظُ٘رْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًا﴾ ’’اور دیکھ تو اپنے اس معبود کی طرف جس کی تو تعظیم و عبادت کرتا ہے۔‘‘ اس سے مراد بچھڑا ہے
﴿لَنُحَرِّؔقَنَّهٗ۠ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ﴾ ’’ہم اسے جلا کر، اس کا ریزہ ریزہ اڑا دیں گے۔‘‘ اور موسیٰ u نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ بچھڑا معبود ہوتا تو وہ ایذا دینے والے اور تلف کرنے والے سے بچ سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی، اس لیے موسیٰ u نے بنی اسرائیل کے سامنے اس کو تلف کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ اس کو دوبارہ نہ بنا سکیں … اس کو جلانے اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بکھیرنے سے حضرت موسیٰu کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بچھڑا جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا ہے اسی طرح ان کے دلوں سے اس کی محبت بھی زائل ہو جائے، نیز اس کے باقی رکھنے میں نفوس کے لیے فتنے کا امکان تھا کیونکہ نفسوں کے اندر باطل کی طرف بڑا قوی داعیہ ہوتا ہے۔
جب ان کے سامنے اس خود ساختہ خدا کا بطلان واضح ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس ہستی کے متعلق آگاہ فرمایا جو عبادت کی مستحق ہے، جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ، فرمایا:
{إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا (98)}.
یقینا تمھارا معبود تو وہ اللہ ہے کہ نہیں کوئی اور معبود سوائے اس کے، گھیر رکھا ہے اس نے ہر چیز کو ازروئے علم کے
(98)
#
{98} أي: لا معبود إلاَّ وجهه الكريم؛ فلا يؤلَّه ولا يُحَبُّ ولا يُرجى ولا يُخاف ولا يُدعى إلاَّ هو؛ لأنَّه الكامل الذي له الأسماء الحسنى والصفات العُلى، المحيط علمه بجميع الأشياء، الذي ما من نعمة بالعباد إلاَّ منه، ولا يدفع السوء إلاَّ هو؛ فلا إله إلاَّ هو، ولا معبود سواه.
[98] یعنی اللہ کریم کے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف اسی کے ساتھ محبت کی جائے، اسی پر امیدیں رکھی جائیں ، اسی سے ڈرا جائے اور اسی کو پکارا جائے۔ وہی کامل ہستی ہے جو اسماء حسنیٰ اور اوصاف عالیہ کی مالک ہے۔ اس کے علم نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ بندوں پر جتنی بھی نعمتیں ہیں صرف اسی کی عطا کردہ ہیں ۔ صرف وہی ہے جو تمام تکالیف کو دور کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
{كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا (99) مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا (100) خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا (101)}.
اسی طرح ہم بیان کرتے ہیں آپ پر کچھ وہ خبریں جو پہلے گزر چکی ہیں اورتحقیق دیا ہم نے آپ کو اپنے پاس سے ذکر
(قرآن) (99) جس شخص نے اعراض کیا اس سے تو بلاشبہ وہ اٹھائے گا دن قیامت کے ایک بوجھ
(100) وہ ہمیشہ رہیں گے اس
(تکلیف) میں اور برا ہوگا ان کے لیے دن قیامت کے بوجھ اٹھانا
(101)
#
{99} يمتنُّ الله تعالى على نبيِّه - صلى الله عليه وسلم - بما قصَّه عليه من أنباء السابقين وأخبار السالفين؛ كهذه القصَّة العظيمة، وما فيها من الأحكام وغيرها، التي لا ينكرها أحدٌ من أهل الكتاب؛ فأنت لم تدرُسْ أخبار الأولين، ولم تتعلَّمْ ممَّن دراها؛ فإخبارُك بالحقِّ اليقين من أخبارهم دليلٌ على أنَّك رسولُ الله حقًّا، وما جئت به صدقٌ، ولهذا قال: {وقد آتَيْناك مِن لَدُنَّا}؛ أي: عطيَّة نفيسة ومِنْحة جزيلة من عندنا، {ذِكْراً}: وهو هذا القرآن الكريم؛ ذِكْرٌ للأخبار السابقة واللاحقة، وذِكْرٌ يُتَذَكَّرُ به ما لله تعالى من الأسماء والصفات الكاملة، ويُتَذَكَّرُ به أحكام الأمرِ والنهي وأحكام الجزاء، وهذا ممَّا يدلُّ على أنَّ القرآن مشتملٌ على أحسن ما يكونُ من الأحكام، التي تشهد العقولُ والفِطَرُ بحسنها وكمالها، ويذكُرُ هذا القرآن ما أودَعَ الله فيها، وإذا كان القرآنُ ذكراً للرسول ولأمَّته؛ فيجبُ تلقِّيه بالقَبول والتسليم والانقياد والتعظيم، وأنْ يُهْتَدَى بنوره إلى الصراط المستقيم، وأنْ يُقْبِلوا عليه بالتعلُّم والتعليم.
[99] اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے آپ کو گزرے ہوئے لوگوں کی خبروں سے آگاہ فرمایا… مثلاً: یہ عظیم واقعہ اور اس کے اندر مذکور تمام احکام، جن کا اہل کتاب میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ پس آپ نے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ کا درس لیا ہے نہ کسی سے اس کا علم حاصل کیا ہے،
لہٰذا آپ کا ان کے واقعات کے بارے میں حق الیقین کے ساتھ آگاہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ سب صداقت پر مبنی ہے۔ بناء بریں فرمایا: ﴿ وَقَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ﴾ ’’اور دیا ہم نے آپ کو اپنی طرف سے۔‘‘ یعنی اپنی طرف سے نفیس عطیہ اور عظیم نوازش کے طور پر
﴿ ذِكْرًا ﴾ ’’ایک ذکر‘‘ اس سے مراد قرآن کریم ہے جس میں تمام گزرے ہوئے اور آنے والے واقعات کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے کامل اسماء و صفات کا ذکر ہے اور اس میں احکام امرونہی اور احکام جزا کا تذکرہ ہے۔
یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم بہترین احکام پر مشتمل ہے۔ عقل اور فطرت سلیم ان احکام کے حسن و کمال کی گواہی دیتی ہیں اور قرآن کریم آگاہ کرتا ہے کہ ان احکام میں کیا کیا مصالح پنہاں ہیں ، اس لیے جب قرآن کریم رسول اللہe اور آپ کی امت کے لیے تذکرہ ہے تب اس کو قبول کرنا، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، اس کی اطاعت کرنا، اس کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہونا اور اس کی تعلیم و تعلم واجب ہے۔
#
{100} وأما مقابلته بالإعراض أو ما هو أعظم منه من الإنكار؛ فإنَّه كفرٌ لهذه النعمة، ومن فعل ذلك؛ فهو مستحقٌّ للعقوبة، ولهذا قال: {مَنْ أعْرَضَ عنه}: فلم يؤمنْ به أو تهاونَ بأوامرِهِ ونواهيهِ أو بتعلُّم معانيه الواجبة، {فإنَّه يَحْمِلُ يوم القيامةِ وِزْراً}: وهو ذنبُه الذي بسببه أعرض عن القرآن، وأولاه الكفر والهجران.
[100] اور اس سے روگردانی کے ساتھ پیش آنا یا اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جو اس سے بھی زیادہ عمومیت کا حامل ہو،
جیسے اس کی باتوں کا انکار کرنا۔ تو یہ اس نعمت کی ناشکری ہے اور جو کوئی اس ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔
اس لیے فرمایا: ﴿ مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ﴾ جس نے اس سے روگردانی کی اور اس پر ایمان نہ لایا یا اس کے اوامر و نواہی کو حقیر سمجھا یا اس نے اس کے معانی کے تعلم کا تمسخر اڑایا تو یہ شخص
﴿ فَاِنَّهٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وِزْرًؔا﴾ قیامت کے روز اپنے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا جس کے سبب سے اس نے قرآن سے روگردانی کی۔ سب سے بڑا گناہ تو کفر اور قرآن کو چھوڑنا ہے۔
#
{101} {خالدين فيه}؛ أي: في وِزْرهم؛ لأنَّ العذاب هو نفس الأعمال، تنقلب عذاباً على أصحابها بحسب صغرها وكبرها، {وساءَ لهم يومَ القيامةِ حِمْلاً}؛ أي: بئس الحملُ الذي يحمِلونه والعذابُ الذي يعذَّبونه يوم القيامة.
[101] ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهِ﴾ یعنی وہ اپنے گناہ کے بوجھ اٹھانے کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے کیونکہ
(برے) اعمال ہی درحقیقت عذاب ہیں ۔ یہ اعمال بد صغیرہ یا کبیرہ ہونے کے مطابق، ارتکاب کرنے والوں کے لیے عذاب میں بدل جاتے ہیں ۔
﴿ وَسَآءَؔ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ حِمْلًا﴾ یعنی بہت برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے اور بہت برا عذاب ہے جو انھیں قیامت کے روز بھگتنا ہو گا۔
پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قیامت کے دن کے احوال اور اس کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا (102) يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا (103) نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا (104)}.
جس دن پھونک ماری جائے گی صور میں اورہم اکٹھا کریں گے اس دن مجرموں کو درآنحالیکہ وہ نیلی آنکھوں والے ہوں گے
(102) چپکے چپکے کہتے ہوں گے وہ آپس میں
(یہ کہ) نہیں ٹھہرے تم
(دنیا میں ) مگر صرف دس دن
(103) ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو کچھ وہ کہیں گے، جس وقت کہے گا بہترین ان کا باعتبار رائے کے کہ نہیں ٹھہرے تم مگر ایک ہی دن
(104)
#
{102 ـ 104} أي: إذا نُفِخَ في الصور، وخرج الناس من قبورهم؛ كل على حسب حاله؛ فالمتَّقون يُحْشَرون إلى الرحمن وفداً، والمجرِمون يُحْشَرون زُرقاً ألوانُهم من الخوف والقلق والعطش؛ يتناجَوْن بينَهم ويَتَخافَتون في قِصَرِ مدَّة الدُّنيا وسرعة الآخرة، فيقول بعضُهُم ما لبثتُم إلاَّ عشرة أيَّام، ويقول بعضُهم غير ذلك، والله يعلمُ تخافُتَهم ويسمعُ ما يقولون: {إذْ يقولُ أمثلُهم طريقةً}؛ أي: أعدلهم وأقربهم إلى التقدير: {إنْ لَبِثْتُم إلاَّ يوماً}: والمقصود من هذا الندم العظيم؛ كيف ضيَّعوا الأوقات القصيرة وقطعوها ساهين لاهين معرضين عما ينفعُهم مقبِلين على ما يضرُّهم؛ فها قد حضر الجزاءُ، وحقَّ الوعيد، فلم يبق إلاَّ الندمُ والدُّعاء بالويل والثبور؛ كما قال تعالى: {قال كم لَبِثْتُم في الأرضِ عَدَدَ سنين. قالوا لَبِثْنا يوماً أو بعضَ يوم فاسْألِ العادِّينَ قالَ إن لَبِثْتُم إلاَّ قليلاً لو أنَّكم كنتُم تعلمونَ}.
[104-102] یعنی جب صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگ اپنے اپنے حسب حال اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، اہل تقویٰ وفد کی صورت میں رحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور مجرم اس حال میں اکٹھے کیے جائیں گے کہ خوف، غم اور سخت پیاس کے مارے ان کا رنگ نیلا پڑ گیا ہو گا تو وہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کریں گے اور نہایت پست آواز میں دنیا کی مدت کے کم ہونے اور آخرت کے جلد آ جانے کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں گے۔ ان میں سے کچھ لوگ کہیں گے کہ تم لوگ بس دس دن دنیا میں رہے ہو اور بعض دوسرے لوگ کچھ اور کہیں گے۔ پست آواز میں وہ جو سرگوشیاں کر رہے ہوں گے اللہ انھیں جانتا ہو گا اور وہ جو باتیں کر رہے ہوں گے وہ انھیں سنتا ہو گا
﴿ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً ﴾ یعنی ان میں سے سب سے زیادہ معتدل اور اندازے کے سب سے زیادہ قریب شخص کہے گا:
﴿ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ﴾ تم صرف ایک دن دنیا میں رہے ہو۔
اس سے ان کا مقصد بہت بڑی ندامت اور پشیمانی کا اظہار ہے کہ انھوں نے اوقات قصیرہ کیسے ضائع کر دیے اور غفلت اور لہو و لعب میں ڈوب کر فائدہ مند اعمال سے اعراض کرتے ہوئے اور نقصان دہ اعمال میں پڑ کر ان اوقات کو گزار دیا۔ اب جزا کا وقت آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہوا اور اب ندامت ہلاکت اور موت کی دعا کے سوا کچھ باقی نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۰۰قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّیْنَ۰۰قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّـكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (المؤمنون:23؍112-114) ’’اللہ پوچھے گا تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے! فرمایا تم زمین میں بہت تھوڑا ٹھہرے ہو، کاش تم نے اس وقت جانا ہوتا۔‘‘
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا (105) فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا (106) لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا (107) يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا (108) يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا (109) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (110) وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا (111) وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا (112)}.
اور وہ سوال کیا کرتے ہیں آپ سے پہاڑوں کی بابت، پس آپ کہہ دیجیے! اڑا دے گا ان کو میرا رب اڑا دینا
(105) پس چھوڑے گا وہ اس
(زمین) کو چٹیل میدان بنا کر
(106) نہ دیکھیں گے آپ اس میں کوئی کجی اور نہ ٹیلہ
(107) اس دن وہ
(لوگ) پیچھے چلیں گے بلانے والے کے نہیں کوئی کجی ہو گی اس کے لیےاور پست ہو جائیں گی سب آوازیں
(اللہ) رحمٰن کے سامنے، پس نہ سنیں گے آپ سوائے آہٹ کے
(108) اس دن نہیں نفع دے گی سفارش مگر اس شخص کی کہ اجازت دے گا اسے رحمٰن اور پسند کرے گا اس کے لیے بات کرنا
(109) وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہےاور نہیں احاطہ کر سکتے وہ لوگ اس کا ازروئے علم کے
(110)اور جھک جائیں گے
(سب) چہرے حَیّ قیّوم
(اللہ) کے لیےاور تحقیق ناکام ہوا وہ شخص جس نے اٹھایا بوجھ ظلم
(شرک) کا
(111) اور جو شخص عمل کرے نیک جبکہ وہ مومن ہو تو نہیں ڈرے گا وہ ناانصافی سے اور نہ حق تلفی سے
(112)
#
{105 ـ 107} يخبر تعالى عن أهوال القيامة وما فيها من الزلازل والقلاقل، فقال: {ويسألونك عن الجبال}؛ أي: ماذا يُصنعُ بها يوم القيامة؟ وهل تبقى بحالها أم لا؟ {فقل ينسِفُها ربِّي نسفاً}؛ أي: يزيلُها ويقلعُها من أماكنها، فتكون كالعهن وكالرمل، ثم يدكُّها فيجعلها هباءً منبثًّا، فتضمحِلُّ وتتلاشى، ويسوِّيها بالأرض، ويجعل الأرض {قاعاً صفصفاً}: مستوياً، {لا ترى فيها}: أيُّها الناظر، {عِوَجاً}: هذا من تمام استوائها، {ولا أمْتاً}؛ أي: أودية وأماكن منخفضة أو مرتفعة، فتبرز الأرض وتتَّسع للخلائق ويمدُّها الله مدَّ الأديم، فيكونون في موقف واحدٍ، يسمعُهم الداعي، وينفذُهُم البصرُ.
[107-105] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں اور اس کے خوفناک زلزلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿ وَیَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ﴾ یعنی وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ کیا یہ پہاڑ اپنی حالت پر باقی رہیں گے؟
﴿ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کو ان کی جگہ سے اکھاڑ پھینکے گا اور یہ پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی اون اور ریت، پھر ان کو ریزہ ریزہ کر کے اڑتی ہوئی خاک میں تبدیل کر دے گا۔ پہاڑ فنا ہو کر ختم ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ہموار کر کے زمین کے برابر کر دے گا اور زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا دے گا۔ زمین کے کامل طور پر ہموار ہونے کی بنا پر دیکھنے والے کو کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آئے گا، یعنی وادیاں اور پست یا بلند مقامات نہیں ہوں گے۔ تمام زمین ہموار اور یکساں نظر آئے گی جو تمام مخلوقات کے لیے کشادہ ہو گی اور اللہ اس کو اس طرح بچھا دے گا جس طرح چمڑا بچھایا جاتا ہے۔ تمام مخلوق ایک جگہ کھڑی ہو گی پکارنے والے کی آواز ان کو سنائی دے گی اور دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا۔
#
{108 ـ 110} ولهذا قال: {يومئذٍ يتَّبعونَ الداعيَ}: وذلك حين يبُعثون من قبورهم ويقومون منها؛ يدعوهم الداعي إلى الحضور والاجتماع للموقف، فيتَّبِعونه مهطعينَ إليه، لا يلتفتون عنه، ولا يعرُجون يمنةً ولا يسرةً. وقوله: {لا عِوَجَ له}؛ أي: لا عوج لدعوة الداعي، بل تكون دعوته حقًّا وصدقاً لجميع الخلق، يُسمِعُهم جميعَهم، ويصيح لهم أجمعين، فيحضُرون لموقف القيامة خاشعةً أصواتُهم للرحمن. {فلا تسمعُ إلاَّ همساً}؛ أي: إلا وطء الأقدام أو المخافتة سرًّا بتحريك الشفتين فقط؛ يملكُهم الخشوعُ والسكوتُ والإنصاتُ؛ انتظاراً لحكم الرحمن فيهم، وتعنوا وجوهُهم؛ أي: تذِلُّ وتخضع، فترى في ذلك الموقف العظيم الأغنياء والفقراء والرجال والنساء والأحرار والأرقاء والملوك والسوقة، ساكتين منصتين خاشعةً أبصارُهم خاضعةً رقابُهم جاثين على رُكَبِهِم عانيةً وجوهُهم، لا يدرون ماذا ينفصِلُ كلٌّ منهم به ولا ماذا يفعلُ به، قد اشتغل كلٌّ بنفسِهِ وشأنه عن أبيه وأخيه وصديقه وحبيبه، لكلِّ امرئٍ منهم يومئذٍ شأنٌ يُغنيه، [فحينئذ] يحكم فيه الحاكمُ العدلُ الديَّانُ، ويجازي المحسنَ بإحسانِهِ والمسيءَ بالحرمان.
والأمل بالربِّ الكريم الرحمن الرحيم أن يُري الخلائقَ منه من الفضل والإحسان والعَفْو والصَّفْح والغُفْران ما لا تعبِّرُ عنه الألسنةُ ولا تتصوَّره الأفكارُ، ويتطلَّع لرحمتِهِ إذ ذاك جميعُ الخلق؛ لما يشاهدونه، فيختصُّ المؤمنون به وبرسله بالرحمةِ.
فإنْ قيل من أين لكم هذا الأمل؟ وإن شئت قلتَ: من أين لكم هذا العلم بما ذُكِرَ؟
قلنا: لما نعلمُهُ من غلبةِ رحمتِهِ لغضبِهِ، ومن سَعَةِ جودِهِ الذي عمَّ جميع البرايا، ومما نشاهده في أنفسنا وفي غيرنا من النعم المتواترة في هذه الدار، وخصوصاً في فضل القيامة؛ فإنَّ قوله: {وخشعتِ الأصواتُ للرحمن} {إلاَّ مَنْ أذِنَ له الرحمنُ}، مع قوله: {الملكُ يومئذٍ الحقُّ للرحمن}، مع قوله - صلى الله عليه وسلم -: «إنَّ لله مائةَ رحمةٍ، أنزل لعباده رحمةً بها يتراحمون ويتعاطفون، حتى إن البهيمةَ ترفعُ حافِرَها عن ولدها خشيةَ أن تطأه»، [أي]: من الرحمة المودَعة في قلبها؛ فإذا كان يومُ القيامةِ؛ ضمَّ هذه الرحمة إلى تسع وتسعين رحمةً، فرحم بها العباد، مع قوله - صلى الله عليه وسلم -: «للهُ أرحمُ بعبادِهِ من الوالدة بولدِها» ؛ فقل ما شئتَ عن رحمتِهِ؛ فإنَّها فوق ما تقولُ، وتصوَّرْ فوق ما شئتَ؛ فإنَّها فوق ذلك؛ فسبحان من رحم في عدله وعقوبته، كما رحم في فضله وإحسانه ومثوبته، وتعالى مَنْ وسعت رحمتُهُ كلَّ شيء، وعمَّ كرمُهُ كلَّ حيٍّ، وجلَّ من غنيٍّ عن عبادِهِ رحيم بهم، وهم مفتقرونَ إليه على الدوام في جميع أحوالهم؛ فلا غنى لهم عنه طرفةَ عين.
وقوله: {يومئذٍ لا تنفعُ الشفاعةُ إلاَّ مَن أذِنَ له الرحمن ورضي له قَوْلاً}؛ أي: لا يشفع أحدٌ عنده من الخلق إلاَّ مَنْ أذِنَ له في الشفاعة، ولا يأذنُ إلاَّ لمن رَضِيَ قوله؛ أي: شفاعته؛ من الأنبياء والمرسلين وعباده المقرَّبين فيمن ارتضى قوله وعمله، وهو المؤمن المخلص؛ فإذا اختلَّ واحدٌ من هذه الأمور؛ فلا سبيلَ لأحدٍ إلى شفاعة من أحد.
[110-108] اس لیے فرمایا:
﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ ﴾ ’’اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے لگیں گے۔‘‘ اور یہ اس وقت ہو گا جب وہ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے کھڑے ہوں گے اور پکارنے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے اور ایک جگہ جمع ہونے کے لیے پکارے گا تو وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کی طرف جائیں گے اور دائیں بائیں وہ اس سے نظر ہٹائیں گے نہ دائیں بائیں التفات کریں گے۔
فرمایا:
﴿ لَا عِوَجَ لَهٗ﴾ یعنی پکارنے والے کی دعوت میں کوئی کجی نہ ہو گی بلکہ اس کی دعوت تمام خلائق کے لیے حق اور صدق پر مبنی ہو گی اور وہ پکار کر تمام خلائق تک اپنی آواز پہنچائے گا۔ تمام لوگ قیامت کے میدان میں حاضر ہوں گے اور رحمٰن کے سامنے ان کی آوازیں پست ہوں گی۔
﴿ فَلَا تَ٘سْمَعُ اِلَّا هَمْسًا﴾ ’’پس نہیں سنے گا تو سوائے کھسر پھسر کے۔‘‘ یعنی فقط قدموں کی چاپ یا ہونٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی پست آواز سنائی دے گی اور ان پر خشوع، سکوت اور خاموشی طاری ہو گی اور رب رحمٰن کے فیصلے کے منتظر ہوں گے اور چہرے تذلل اور خضوع سے جھکے ہوئے ہوں گے۔ تم اس عظیم مقام پر دیکھو گے کہ دولت مند اور فقراء، مرد اور عورتیں ، آزاد اور غلام، بادشاہ اور عوام سب نظریں نیچے کیے ساکت اور خاموش گھٹنوں کے بل گرے ہوئے اور گردنوں کو جھکائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ہر شخص اپنے باپ، بھائی اور دوست یار کو بھول کر صرف اپنے معاملے میں مشغول ہو گا۔
﴿لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ﴾ (عبس:80؍37) ’’اس روز ہر شخص ایک معاملے میں مصروف ہو گا جو اسے دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گا۔‘‘
حاکم عادل اس بارے میں فیصلہ کرے گا، نیکوکار کو اس کی نیکی کی جزا دے گا اور بدکار کو محروم کرے گا۔ رب کریم اور رحمٰن و رحیم پر امید یہ ہے کہ تمام خلائق اس کے ایسے فضل و احسان، عفو و درگزر اور بخشش کو دیکھے گی، زبان جس کی تعبیر سے قاصر اور فکر اس کے تصور سے بے بس ہے۔ تب تمام خلائق اس کی رحمت کی منتظر ہو گی مگر رحمت ان لوگوں کے لیے مختص ہو گی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ امید آپ کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس امید مذکور کا آپ کو کیسے علم ہوا؟
تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، اس کی عنایات تمام مخلوقات پر عام ہیں ۔ ہم اس دنیاوی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اور دیگر لوگوں کو لامحدود نعمتیں حاصل ہیں خاص طور پر روز قیامت کے متعلق اللہ کے یہ فرامین
﴿وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ ﴾،
﴿ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ ﴾ اور
﴿اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِ ِ۟ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ﴾ (الفرقان:25؍26) اس امر پر دلالت کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ e نے فرمایا ’’اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں اس نے ایک حصہ اپنے بندوں کے لیے نازل فرمایا ہے، اس رحمت ہی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور عاطفت سے پیش آتے ہیں حتیٰ کہ ایک چوپائے کا پاؤں اگر اس کے بچے پر آ جائے تو وہ اپنے پاؤں کو اٹھا لیتا ہے تاکہ وہ اس کو روند نہ ڈالے یہ اس رحم کی وجہ سے ہے جو اس چوپائے کے دل میں ودیعت کیا گیا ہے۔ جب قیامت کا روز ہو گا تو رحمت کا یہ حصہ بھی ننانوے حصے میں شامل ہو جائے گا اور اللہ رحمت کے ان سو حصوں کے ساتھ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘
(صحیح البخاري، الادب، باب جعل اللہ الرحمۃفی مائۃ جزء، ح:6000 و صحیح مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ…، ح:2752) رسول اللہe نے فرمایا ’’ماں اپنی اولاد کے لیے جس قدر رحیم ہے اللہ اس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کے لیے رحیم ہے۔‘‘
(صحیح البخاري، الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ و معانقتہ، ح:5999)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں آپ جو چاہیں کہیں وہ آپ کے اندازوں اور آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے… پس پاک ہے وہ ذات، جو اپنے عدل و انصاف اور سزا دینے میں اسی طرح رحیم ہے جس طرح وہ اپنے فضل و احسان اور ثواب عطا کرنے میں رحیم ہے۔ بلند و بالا ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس کا فضل و کرم ہر زندہ مخلوق کو شامل ہے،
وہ اپنی بے نیازی کے باعث اپنے بندوں سے بالا و برتر اور ان پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بندے اپنے تمام احوال میں ہمیشہ اس کے محتاج ہیں اور لمحہ بھر کے لیے اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ فرمایا: ﴿ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَهٗ قَوْلًا﴾ یعنی اس کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اس کے ہاں سفارش نہیں کر سکے گا اور وہ صرف اس شخص کے لیے سفارش کی اجازت دے گا جس کے لیے وہ راضی ہو گا، یعنی انبیاء و مرسلین اور مقرب بندوں کو صرف ان لوگوں کے لیے سفارش کی اجازت ہو گی جن کی باتوں کو اللہ کی رضا حاصل ہو گی اور وہ صرف مخلص مومن ہیں ۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی معدوم ہو گی تو کسی کے لیے کسی کی سفارش قبول نہ ہو گی۔
#
{111 ـ 112} وينقسم الناسُ في ذلك الموقف قسمين: ظالمين بكفرِهم وشرِّهم؛ فهؤلاء لا ينالُهم إلاَّ الخيبة والحرمان والعذاب الأليم في جهنَّم وسخطُ الدَّيَّان. والقسم الثاني: مَنْ آمَنَ الإيمان المأمور به، وعمل صالحاً من واجب ومسنون؛ {فلا يخافُ ظلماً}؛ أي: زيادة في سيئاتِهِ. {ولا هَضْماً}؛ أي: نقصاً من حسناته، بل تُغْفَرُ ذنوبُهُ وتُطَهَّرُ عيوبه وتضاعَفُ حسناتُهُ، {وإن تَكُ حسنةً يضاعِفْها ويؤتِ من لَدُنْه أجراً عظيماً}.
[112,111] اس موقعے پر لوگ دو اقسام میں منقسم ہوں گے۔
(۱) اپنے کفر کی وجہ سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے، جنھیں ناکامی، حرماں نصیبی، جہنم میں دردناک عذاب اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
(۲) وہ لوگ جو ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کے لیے ان کو حکم دیا گیا، نیک عمل کرتے رہے یعنی واجبات و مستحبات پر عمل پیرا رہے۔
﴿ فَلَا یَخٰؔفُ ظُلْمًا ﴾ ’’پس اسے ظلم کا خوف نہیں ہو گا۔‘‘ یعنی اس کی اصل بداعمالیوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا
﴿ وَّلَا هَضْمًا﴾ ’’اور نہ حق تلفی کا۔‘‘ یعنی نہ اس کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی بلکہ اس کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا،
اس کے عیوب کو پاک کر دیا جائے گا اور اس کی نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے گا۔ فرمایا: ﴿وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (النساء:4؍40) ’’اگر کوئی نیکی ہو گی تو وہ اسے دو گنا کر دے گا اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔‘‘
{وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا (113)}.
اور اسی طرح نازل کیاہم نے اس
(قرآن) کو قرآن عربی اور پھیر پھیر کر بیان کیں ہم نے اس میں وعیدیں تاکہ وہ تقوی اختیار کریں یا پیدا کردے
(قرآن) ان کے لیے نصیحت
(113)
#
{113} أي: وكذلك أنزلنا هذا الكتاب باللِّسان الفاضل العربيِّ الذي تفهمونه وتفقهونه ولا يخفى عليكم لفظُهُ ولا معناه. {وصرَّفنا فيه من الوعيدِ}؛ أي: نوعناها أنواعاً كثيرةً؛ تارةً بذكر أسمائِهِ الدالَّة على العدل والانتقام، وتارةً بذكر المَثُلاتِ التي أحلَّها بالأمم السابقة، وأمر أن تَعْتَبِرَ بها الأممُ اللاحقةُ، وتارةً بذكرِ آثار الذُّنوب وما تُكْسِبُه من العيوب، وتارةً بذِكْر أهوال القيامة وما فيها من المزعجاتِ والمقلقاتِ، وتارةً بذكر جهنَّم وما فيها من أنواع العقابِ وأصناف العذابِ؛ كل هذا رحمةً بالعباد؛ {لعلَّهم يتَّقون}: الله، فيترُكون من الشرِّ والمعاصي ما يضرُّهم، {أو يحدِثُ لهم ذِكْراً}: فيعملون من الطاعات والخير ما ينفعهم، فكونه عربيًّا وكونه مصرفاً فيه من الوعيد أكبرُ سبب وأعظمُ داعٍ للتقوى والعمل الصالح؛ فلو كان غير عربيِّ أو غير مصرَّفٍ فيه؛ لم يكن له هذا الأثر.
[113] یعنی اسی طرح ہم نے اس کتاب کو فضیلت والی عربی زبان میں نازل کیا ہے جس کو تم خوب سمجھتے ہو اور اس میں کامل تفقُّہ رکھتے ہو اور اس کے الفاظ و معانی تم پر مخفی نہیں ہیں ۔
﴿ وَّصَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ﴾ یعنی اس کتاب میں ہم نے وعید کو بہت سی انواع کے ذریعے بیان کیا ہے۔ کبھی تو ان اسماء کے ذریعے سے بیان کیا ہے جو عدل و انتقام پر دلالت کرتے ہیں ، کبھی اس عبرت ناک عذاب کے ذکر کے ذریعے سے اس وعید کو بیان کیا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا اور حکم دیا کہ آنے والی امتیں اس سے عبرت حاصل کریں اور کبھی گناہوں کے آثار اور ان سے پیدا ہونے والے عیوب کو بیان کر کے اس وعید کا ذکر کیا۔ کبھی قیامت کی ہولناکیوں اور اس کے دل کو ہلا دینے والے مناظر کو بیان کر کے اس وعید کا ذکر کیا۔ کبھی جہنم کے مناظر اور اس میں دیے جانے والے مختلف انواع کے عذاب اور عقوبتوں کا ذکر کر کے اس وعید کو بیان کیا ہے۔
اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت کی وجہ سے ہے، شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور گناہوں اور معاصی کو چھوڑ دیں جن سے ان کو نقصان پہنچتا ہے۔
﴿ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ﴾ یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے نصیحت پیدا کر دے اور یہ لوگ نیک عمل کرنے لگیں جو ان کو فائدہ دیں … پس اس کتاب کا عربی زبان میں نازل ہونا اور وعید کا مختلف طریقوں سے بیان ہونا، عمل صالح کا سب سے بڑا سبب اور سب سے بڑا داعی ہے۔ اگر یہ عظیم کتاب عربی زبان میں نہ ہوتی یا اس میں وعید کو مختلف انواع میں بیان نہ کیا گیا ہوتا تو اس میں یہ تاثیر نہ ہوتی۔
{فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (114)}.
پس بلند تر ہے اللہ بادشاہ برحق اور نہ جلدی کریں آپ قرآن پڑھنے میں ، پہلے اس سے کہ پوری کی جائے آپ کی طرف وحی اس کی اور کہیں ، اے میرے رب! زیادہ کر مجھے علم میں
(114)
#
{114} لما ذكر تعالى حكمَهُ الجزائيَّ في عبادِهِ، وحكمه الأمريَّ الدينيَّ الذي أنزله في الكتاب وكان هذا من آثار ملكه؛ قال: {فتعالى اللهُ}؛ أي: جلَّ وارتفع وتقدَّس عن كلِّ نقص وآفة. {الملكُ}: الذي المُلْكُ وصفُه، والخلق كلُّهم مماليك له، وأحكام المُلْك القدريَّة والشرعيَّة نافذة فيهم. {الحقُّ}؛ أي: وجوده ومُلكه وكمالُه حقٌّ؛ فصفات الكمال لا تكون حقيقةً إلا لذي الجلال، ومن ذلك الملك؛ فإنَّ غيره من الخلق، وإنْ كان له ملكٌ في بعض الأوقات على بعض الأشياء؛ فإنَّه ملكٌ قاصرٌ باطلٌ يزولُ، وأما الربُّ؛ فلا يزال ولا يزول ملكاً حيًّا قيوماً جليلاً. {ولا تَعْجَلْ بالقرآنِ من قبلِ أن يُقْضى إليك وحيُهُ}؛ أي: لا تبادِرْ بتلقُّف القرآن حين يتلوه عليك جبريلُ، واصبرْ حتى يفرغ منه؛ فإذا فَرَغَ منه؛ فاقرأهُ؛ فإنَّ الله قد ضَمِنَ لك جمعَه في صدرك وقراءتك إيَّاه؛ كما قال تعالى: {لا تُحَرِّكْ به لِسانَكَ لِتَعْجَلَ به إنَّ عَلَيْنا جَمْعَه وقرآنَهُ. فإذا قَرَأناه فاتَّبِعْ قرآنَهُ. ثم إنَّ عَلَيْنا بيانَهُ}. ولما كانت عَجَلَتُهُ - صلى الله عليه وسلم - على تلقُّف الوحي ومبادرتُهُ إليه يدلُّ على محبَّته التامَّة للعلم وحرصه عليه؛ أمره تعالى أن يسألَهُ زيادةَ العلم؛ فإنَّ العلم خيرٌ، وكثرةُ الخير مطلوبةٌ، وهي من الله، والطريق إليها الاجتهاد والشوق للعلم وسؤالُ الله والاستعانةُ به والافتقارُ إليه في كل وقت.
ويؤخذ من هذه الآية الكريمة الأدب في تلقِّي العلم، وأنَّ المستمع للعلم ينبغي له أن يتأنَّى ويصبِرَ حتى يفرغ المملي والمعلِّم من كلامه المتَّصل بعضه ببعض؛ فإذا فَرَغَ منه؛ سأل إن كان عنده سؤالٌ، ولا يبادِرُ بالسؤال وقطع كلام مُلقي العلم؛ فإنَّه سببٌ للحرمان، وكذلك المسؤول ينبغي له أن يستملي سؤال السائل ويعرف المقصودَ منه قبل الجواب؛ فإنَّ ذلك سببٌ لإصابة الصواب.
[114] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حکم جزائی کا ذکر کیا جس سے اس کے بندے دوچار ہوتے ہیں اور حکم دینی و امری بیان فرمایا جو اس کتاب کریم میں نازل کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اقتدار کے آثار ہیں تو فرمایا
﴿ فَ٘تَ٘عٰ٘لَى اللّٰهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہر نقص اور آفت سے پاک، بلند اور جلیل تر ہے
﴿ الْمَلِكُ﴾ اقتدار، حاکمیت جس کا وصف ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک
(غلام) ہے۔ اس کی بادشاہی کے قدری و شرعی احکام تمام مخلوق پر نافذ ہیں ۔
﴿ الْحَقُّ﴾ یعنی اس کا وجود، اس کا اقتدار اور اس کا کمال سب حق ہے۔ پس صفات کمال کی مالک صرف ایسی ہستی ہو سکتی ہے جو ذی جلال ہو اور اس میں اقتدار بھی شامل ہے۔ بعض اوقات، اس کے سوا مخلوق بھی، بعض اشیاء پر اقتدار اور اختیار رکھتی ہے مگر یہ اقتدار ناقص اور باطل ہے جو زائل ہو جانے والا ہے… مگر رب تعالیٰ ہمیشہ کے لیے بادشاہ حقیقی، جلال کا مالک اور قائم و دائم رہنے والا ہے۔
﴿ وَلَا تَعْجَلْ بِالْ٘قُ٘رْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّ٘قْ٘ضٰۤى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ ﴾ یعنی جب جبریل آپe کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو اخذ کرنے میں جلدی نہ کیجیے اس وقت تک صبر کیجیے جب تک کہ وہ تلاوت سے فارغ نہ ہو جائے۔ جب وہ تلاوت سے فارغ ہو جائے تب اس کو پڑھیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو آپe کے سینے میں جمع کرنے اور آپ کے اس کی قراء ت کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ۰۰اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُ٘رْاٰنَهٗۚۖ۰۰فَاِذَا قَ٘رَاْنٰهُ فَاتَّ٘بِـعْ قُ٘رْاٰنَهٗۚ۰۰ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ﴾ (القیامۃ:75؍16-19) ’’جلدی سے وحی پڑھنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجیے، اس کو جمع کرنا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے اور جب ہم اس وحی کو پڑھیں تو آپ اسی طرح پڑھا کریں پھر اس کے معانی کی تبیین و توضیح ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
چونکہ وحی کو اخذ کرنے کے لیے آپe کی عجلت دلالت کرتی ہے کہ آپ علم کے ساتھ کامل محبت رکھتے تھے اور اس کے حصول کے بے حد خواہش مند تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لیے ازدیاد علم کی دعا کریں کیونکہ علم بھلائی ہے اور بھلائی کی کثرت مطلوب ہے اور یہ کثرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور اس کے حصول کا راستہ کوشش، شوق علم، اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا، اس سے مدد مانگنا اور ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے حصول علم کے آداب اخذ کیے جاتے ہیں ۔ علم کی سماعت کرنے والے کے لیے مناسب ہے کہ صبر سے کام لے یہاں تک کہ املا کرانے والا اور معلم اپنے کلام سے فارغ ہو جائیں جو لگاتار اور مسلسل ہے۔ اگر ذہن میں کوئی سوال ہے تو وہ اس وقت کیا جائے جب معلم فارغ ہو جائے۔ معلم کی قطع کلامی اور سوال کرنے میں عجلت سے باز رہے کیونکہ یہ حرماں نصیبی کا سبب ہے۔ اسی طرح مسؤل کے لیے مناسب ہے کہ وہ سائل کے سوال کو لکھ لے اور جواب دینے سے قبل سائل کے مقصود کو اچھی طرح سمجھ لے کیونکہ یہ صحیح جواب کا سبب ہے۔
{وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (115)}.
اور البتہ تحقیق عہد لیا تھا ہم نے آدم سے اس سے پہلے، پس بھول گیا وہ اور نہ پائی ہم نے اس میں ارادے کی پختگی
(115)
#
{115} أي: ولقد وصَّينا آدم وأمرناه وعَهِدْنا إليه عهداً ليقوم به، فالتزَمَه وأذعن له وانقادَ وعزمَ على القيام به، ومع ذلك نَسِيَ ما أُمِرَ به، وانتقضت عزيمتُه المحكمة، فجرى عليه ما جرى، فصار عبرةً لذرِّيَّته، وصارت طبائعُهم مثل طبيعة آدم؛ نسي فنسيت ذُرِّيَّتُه، وخَطِئ فخطئوا، ولم يثبت على العزم المؤكَّد وهم كذلك، وبادر بالتوبة من خطيئته، وأقرَّ بها، واعترفَ فغُفِرَتْ له، ومن يشابِهْ أباه فما ظلم.
[115] یعنی ہم نے آدمu کو وصیت کی، اسے حکم دیا اور اس سے عہد لیا کہ وہ اس پر قائم رہے۔ اس نے اس وصیت کا التزام کیا، اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور اس کو قائم کرنے کا عزم کیا مگر اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی وصیت کو بھول گیا اور اس کا مضبوط عزم ٹوٹ گیا تب اس سے ایسی لغزش صادر ہوئی جسے سب جانتے ہیں ۔ پس وہ اپنی اولاد کے لیے عبرت بن گیا اور اولاد آدم کی طبیعت اور فطرت آدمu کی طرح ہو گئی، آدمu سے بھول ہو گئی، اس کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہو گئی، آدمu سے خطا ہوئی اور اولاد بھی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے۔ آدمu اپنے عزم پر قائم نہ رہ سکا اسی طرح اس کی اولاد اپنے عزم کو توڑ بیٹھتی ہے، آدمu نے اپنی خطا کا اعتراف اور اقرار کر کے فوراً توبہ کر لی اور اس کی خطا کو بخش دیا گیا، جو کوئی اپنے باپ کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس پر ظلم نہیں کیا جاتا،
پھر اس اجمال کی تفیصل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى (116) فَقُلْنَا يَاآدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى (117) إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (118) وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (119) فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَاآدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى (120) فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى (121) ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى (122)}.
اور
(یاد کرو!) جب کہا ہم نے فرشتوں سے سجدہ کرو تم آدم کو تو سجدہ کیا انھوں نے سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا
(116) پس ہم نے کہا، اے آدم! بلاشبہ یہ
(ابلیس) دشمن ہے تیرا اور تیری بیوی کا، سو وہ نہ نکلوا دے تم دونوں کو جنت سے کہ تو مشقت میں پڑ جائے
(117) بلاشبہ تیرے لیے ہے
(یہ فائدہ) کہ نہ بھوکا ہو گا تو اس میں اور نہ ننگا
(118) اور بے شک تو نہ پیاسا ہو گا اس میں اور نہ تجھے دھوپ لگے گی
(119)پس وسوسہ ڈالا اس کی طرف شیطان نے ، اس نے کہا، اے آدم! کیا دلالت کروں میں تجھے اوپر ہمیشگی کے درخت اورایسی بادشاہی کے جو پرانی نہ ہو؟
(120) پس کھایا ان دونوں نے اس میں سے تو ظاہر ہو گئی ان پر شرم گاہ ان دونوں کی اور شروع ہوئے وہ دونوں چپکاتے تھے اپنے اوپر پتے جنت کےاور نافرمانی کی آدم نے اپنے رب کی، پس وہ بھٹک گیا
(121) پھر برگزیدہ کیااسے اس کے رب نے اور توجہ کی اس پر اور ہدایت دی اسے
(122)
#
{116} أي: لما أكمل خلقَ آدم بيدِهِ، وعلَّمه الأسماء، وفضَّله وكرَّمه؛ أمر الملائكة بالسجود له إكراماً وتعظيماً وإجلالاً، فبادروا بالسُّجود ممتثلين، وكان بينهم إبليسُ، فاستكبر عن أمرِ ربِّه، وامتنع من السجود لآدم، وقال: {أنا خيرٌ منه خَلَقْتَني من نارٍ وخَلَقْتَه من طينٍ}.
[116] یعنی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے آدم u کی تخلیق کو مکمل کیا، انھیں اشیاء کے نام سکھائے،
انھیں فضیلت اور تکریم بخشی اور ان کے اکرام و تعظیم اور ان کی جلالت شان کو تسلیم کروانے کے لیے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرشتے اس حکم کو مانتے ہوئے فوراً سجدہ ریز ہو گئے۔ ان فرشتوں کے اندر ابلیس بھی تھا اس نے تکبر کی وجہ سے اپنے رب کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور آدمu کو سجدہ نہ کیا۔ اس نے کہا: ﴿اَنَا خَیْرٌ مِّؔنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف:7؍12) ’’میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے۔‘‘
#
{117 ـ 118} فتبينتْ حينئذٍ عداوتُه البليغةُ لآدم وزوجِهِ لما كان عدوًّا لله، وظهر من حسده ما كان سبب العداوة، فحذَّر الله آدم وزوجه منه، وقال: لا {يُخْرِجَنَّكُما من الجنَّةِ فَتَشْقى}: إذا أخرِجْتَ منها؛ فإنَّ لك فيها الرزق الهني والراحة التامة، {إنَّ لَكَ ألاَّ تَجُوعَ فِيهَا ولا تَعْرَى. وأنَّك لا تَظمَأُ فِيهَا ولا تَضْحَى}؛ أي: تصيبُك الشمس بحرِّها، فضَمِنَ له استمرار الطعام والشراب والكسوة والماء وعدم التعب والنَّصَب، ولكنَّه نهاه عن أكل شجرةٍ معيَّنة، فقال: {ولا تَقْرَبا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين}.
[118,117] تب آدم اور ان کی بیوی کے ساتھ حد کو پہنچی ہوئی اس کی عداوت ظاہر ہوئی۔ چونکہ شیطان اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کا وہ حسد بھی ظاہر ہو گیا جو اس عداوت کا سبب تھا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدمu اور ان کی بیوی کو اس سے چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ فرمایا: ﴿فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا۠ مِنَ الْجَنَّةِ فَ٘تَ٘شْ٘قٰى ﴾ اگر تمھیں جنت سے نکال دیا گیا تو تم بدنصیب ٹھہرو گے کیونکہ جنت میں تمھارے لیے لا محدود رزق اور راحت کامل ہے۔
﴿ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَلَا تَعْرٰىۙ وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَلَا تَضْحٰؔى ﴾ یعنی وہاں تجھے سورج کی دھوپ نہیں لگے گی۔ وہاں دائمی طور پر مطعومات و مشروبات، لباس اور پانی کی فراہمی، تکان وغیرہ کی عدم موجودگی کی ضمانت ہو گی،
البتہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک معین درخت کے قریب جانے سے روک دیا۔ فرمایا: ﴿وَلَا تَ٘قْ٘رَبَ٘ا هٰؔذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُ٘وْ٘نَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (البقرۃ:2؍35) ’’تم دونوں اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالموں میں ہو جاؤ گے۔‘‘
#
{120} فلم يزل الشيطانُ يوسوسُ لهما ويُزيِّن أكل الشجرة ويقولُ: {هل أدُلُّك على شجرةِ الخُلْدِ}؛ أي: [الشجرة] التي مَنْ أكل منها خَلَدَ في الجنة، {ومُلْكٍ لا يَبْلى}؛ أي: لا ينقطع إذا أكلتَ منها.
[120] شیطان ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہا اور ان کے سامنے اس درخت کے پھل کے کھانے کو مزین کرتا رہا،
چنانچہ وہ ان سے کہتا: ﴿ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ ﴾ یعنی جو کوئی اس کو کھائے گا وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔
﴿وَمُلْكٍ لَّا یَبْلٰى ﴾ اور جب وہ اس درخت کا پھل کھا لے گا تو ایسی بادشاہت حاصل ہو گی جو کبھی منقطع نہ ہو گی۔
#
{121} فأتاه بصورة ناصح، وتلطَّف له في الكلام؛ فاغترَّ به آدمُ، فأكلا من الشجرةِ، فسُقِطَ في أيديهما وسَقَطَتْ كسوتُهما، واتَّضحت معصيتُهما، وبدا لكلٍّ منهما سوأة الآخر بعد أن كانا مستورَيْن، وجعلا يَخْصِفان على أنفسهما من ورق أشجار الجنَّة؛ ليستَتِر بذلك، وأصابهما من الخجل ما الله به عليم. {وعصى آدم ربه فغوى}: فبادرا إلى التوبة والإنابة وقالا:
[121] شیطان آدمu کے پاس ایک ناصح کی صورت میں آیا بڑی نرمی اور حیلہ سازی کے ساتھ آدمu سے بات چیت کی۔ آدم u اس کے فریب میں آ گئے اور یوں آدم اور حواءi نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ اس پر ان کو سخت ندامت ہوئی، ان کا لباس اتر گیا اور ان کی نافرمانی ان کے سامنے واضح ہو گئی ایک دوسرے کے سامنے ان کے ستر کھل گئے، حالانکہ اس سے قبل وہ دونوں ستر پوش تھے۔ انھوں نے جنت کے درختوں کے پتوں کے ذریعے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کیا تاکہ اس طرح وہ سترپوشی کر سکیں ۔ اس پر انھیں اس قدر خجالت ہوئی جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
﴿وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى﴾ ’’اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گیا۔‘‘ پس انھوں نے فوراً توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور عرض کیا:
#
{122} {ربَّنا ظَلَمْنا أنفُسنا وإن لم تَغْفِرْ لنا وترحَمْنا لَنَكونَنَّ من الخاسرينَ}: فاجتباه ربُّه واختاره ويَسَّرَ له التوبة، فتاب عليه وهدى، فكان بعد التوبة أحسنَ منه قبلَها، ورجع كيدُ العدوِّ عليه، وبَطَلَ مكرُهُ، فتمَّت النعمة عليه وعلى ذُرِّيَّته، ووجب عليهم القيام بها والاعتراف وأنْ يكونوا على حَذَرٍ من هذا العدوِّ المرابط الملازم لهم ليلاً ونهاراً، {يا بني آدمَ لا يَفْتِنَنَّكُم الشيطانُ كما أخرجَ أبَوَيْكُم من الجنَّة ينزعُ عنْهما لباسَهما ليُرِيَهما سوآتهما إنه يراكم هو وقبيلُهُ [من حيث لا ترونهم] إنا جعلنا الشياطين أولياء للذين لا يؤمنون}.
[122] ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍23) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں بخش نہ دے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ پس حضرت آدمu کو ان کے رب نے چن لیا اور ان کو توبہ کی توفیق سے نوازا۔
﴿ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدٰؔى ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کی اور حضرت آدمu کا توبہ کے بعد کا حال توبہ سے پہلے کے حال سے بہتر تھا۔ دشمن کا مکروفریب اسی کی طرف پلٹ گیا اس کی چال الٹ گئی اور حضرت آدم u اور ان کی اولاد پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوگیا اور ان پر واجب ہو گیا کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور اس کا اعتراف کریں ،
نیز وہ اپنے دشمن سے بچتے رہیں جو دن رات ان کی تاک میں رہتا ہے۔ فرمایا: ﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْ٘زِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُ٘رِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا١ؕ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ١ؕ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَؔ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف:7؍27) ’’اے بنی آدم! دیکھنا کہیں شیطان تمھیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے جیسے اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا، یعنی ان کا لباس اتروایا تاکہ ان کے سامنے ان کا ستر کھول دے۔ وہ اور اس کے بھائی بند تمھیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطان کو ان لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
{قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (123) وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (124) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا (125) قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (126) وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى (127)}.
اللہ نے کہا، اتر جاؤ تم دونوں اس سے اکٹھے تمھارا ایک، دوسرے کے لیے دشمن ہے، پس اگر آئے تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت تو جس شخص نے پیروی کی میری ہدایت کی، سو نہ گمراہ ہو گا وہ اور نہ وہ مشقت میں پڑے گا
(123) اور جس نے اعراض کیا میری یاد سے تو بلاشبہ اس کے لیے گزر ان ہوگی تنگ اور ہم اٹھائیں گے اسے دن قیامت کے اندھا
(کر کے) (124) وہ کہے گا، اے میرے رب! کیوں اٹھایا ہے تو نے مجھے اندھا حالانکہ تھا میں
(دنیا میں ) دیکھنے والا؟
(125) اللہ کہے گا، اسی طرح آئی تھیں تیرے پاس نشانیاں ہماری، پس بھول گیا تھا تو انھیں اور اسی طرح آج کے دن بھلا دیا جائے گا تو بھی
(126) اور اسی طرح سزا دیں گے ہم اس شخص کو جو حد سے بڑھ گیا اور نہ ایمان لایا وہ آیتوں پر اپنے رب کی اور البتہ عذاب آخرت کا زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے
(127)
#
{123} يخبر تعالى أنَّه أمر آدم وإبليس أن يَهْبِطا إلى الأرض، وأن يتَّخذوا الشيطان عدوًّا لهم، فيأخذوا الحذر منه، ويُعِدُّوا له عدَّته، ويحارِبوه، وأنَّه سيُنْزِل عليهم كتباً ويرسل إليهم رسلاً يبيِّنون لهم الطريق المستقيم الموصلة إليه وإلى جنته، ويحذِّرونهم من هذا العدوِّ المبين، وأنَّهم أيَّ وقتٍ جاءهم ذلك الهدى الذي هو الكتب والرسل؛ فإنَّ من اتَّبعه؛ اتَّبع ما أمِرَ به، واجتنب ما نُهِيَ عنه؛ فإنَّه لا يضلُّ في الدُّنيا ولا في الآخرة ولا يشقى فيهما، بل قد هُدِيَ إلى صراط مستقيم في الدُّنيا والآخرة، وله السعادة والأمن في الآخرة. وقد نفى عنه الخوف والحزن في آية أخرى بقوله: {فَمَن اتَّبَع هُدايَ فلا خوفٌ عليهم ولا هُمْ يَحْزَنونَ}، واتِّباع الهدى بتصديق الخبرِ وعدم معارضتِهِ بالشُّبه، وامتثال الأمرِ بأن لا يعارِضَه بشهوة.
[123] اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے آدم u اور ابلیس کو حکم دیا کہ وہ ز مین پر اتر جائیں ، آدم اور ان کی اولاد شیطان کو اپنا دشمن سمجھیں اور اس سے بچیں اس کا مقابلہ کرنے اور جنگ کے لیے تیار رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان پر کتابیں نازل کرے گا ان کی طرف رسول بھیجے گا جو ان کے سامنے صراط مستقیم کو واضح کریں گے جو ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے، نیز وہ ان کو ان کے دشمن سے متنبہ اور چوکنا کریں گے، لہٰذا ان کے پاس جس وقت بھی یہ ہدایت آ جائے… یعنی کتاب اور انبیاء و مرسلین… پس اگر کسی نے اس کتاب کی اتباع کی، ان امور پر عمل کیا جن کا اس نے حکم دیا اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اس نے منع کیا تو ایسا شخص دنیا میں گمراہ ہو گا نہ آخرت میں اور نہ وہ دنیا و آخرت میں تکلیف میں پڑے گا بلکہ دونوں جہاں میں ان کی سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کی جائے گی اور آخرت میں ان کو امن اور سعادت سے نوازا جائے گا۔ ایک اور آیت کریمہ میں وارد ہے کہ آخرت میں حزن و خوف ان سے دور رہے گا۔
﴿فَ٘مَنْ تَ٘بِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (البقرۃ:2؍38) ’’پس جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لیے کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ کی پیروی یہ ہے کہ رسول کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی جائے، شبہات کے ذریعے سے اس کے ساتھ معارضہ نہ کیا جائے، اس کے حکم کی اس طرح تعمیل کی جائے کہ کسی قسم کی خواہش اس کی معارض نہ ہو۔
#
{124} {ومَنْ أعرضَ عن ذِكْري}؛ أي: كتابي الذي يُتَذَكَّر به جميع المطالب العالية، وأن يتركه على وجه الإعراض عنه أو ما هو أعظم من ذلك؛ بأن يكون على وجه الإنكار له والكفر به. {فإنَّ له معيشةً ضنكاً}؛ أي: فإنَّ جزاءه أن نَجْعَلَ معيشَته ضيقةً مشقَّةً، ولا يكون ذلك إلاَّ عذاباً. وفُسِّرت المعيشةُ الضَّنْك بعذاب القبر، وأنَّه يُضَيَّقُ عليه قبرُه، ويُحْصَرُ فيه، ويعذَّبُ جزاءً لإعراضِهِ عن ذِكْرِ ربِّه، وهذه إحدى الآيات الدالَّة على عذاب القبر.
والثانية: قوله تعالى: {ولو تَرَى إذِ الظالمونَ في غَمَراتِ الموتِ والملائكةُ باسطو أيديهم ... } الآية.
والثالثة: قوله: {وَلَنُذيقَنَّهم من العذابِ الأدنى دونَ العذابِ الأكبرِ}.
والرابعة: قوله عن آل فرعون: {النارُ يُعْرَضونَ عليها غُدُوًّا وعَشِيًّا ... } الآية.
والذي أوجب لمن فسرها بعذاب القبر فقط من السلف وقصروها على ذلك ـ والله أعلم ـ آخر الآية، وأنَّ الله ذَكَرَ في آخرها عذابَ يوم القيامة.
وبعض المفسِّرين يرى أن المعيشة الضَّنْكَ عامَّة في دار الدنيا؛ بما يُصيبُ المعرِضَ عن ذِكْرِ ربِّه من الهموم والغموم والآلام، التي هي عذابٌ معجَّل، وفي دار البرزخ، وفي الدار الآخرة؛ لإطلاق المعيشة الضَّنْكِ وعدم تقييدها. {ونحشُرُه}؛ أي: هذا المعرض عن ذِكْر ربِّه {يومَ القيامةِ أعمى}: البصر على الصحيح؛ كما قال تعالى: {ونحشُرُهم يومَ القِيامة على وجوهِهِم عُمْياً وبُكْماً وصُمًّا}.
[124] ﴿ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ﴾ یعنی جس کسی نے میری کتاب کریم سے اعراض کیا جس سے تمام مطالب عالیہ حاصل کیے جاتے ہیں اور اس سے روگردانی کر کے اس کو چھوڑ دیا یا اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر بھی برا سلوک کیا، یعنی اس کا انکار کر کے کفر کا ارتکاب کیا
﴿ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا ﴾ یعنی اس کی سزا یہ ہو گی کہ ہم اس کی معیشت کو تنگ اور نہایت پر مشقت بنا دیں گے اور یہ معیشت اس کے لیے محض ایک عذاب ہو گی۔
’’تنگ معیشت‘‘ کی تفسیر بیان کی جاتی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے، یعنی اس کے لیے اس کی قبر کو تنگ کر دیا جائے گا وہ اس میں گھٹ کر رہ جائے گا اور اس کو عذاب دیا جائے گا یہ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنے رب کے ذکر سے روگردانی کی تھی۔ یہ ان آیات میں سے ایک آیت ہے جو عذاب قبر پر دلالت کرتی ہیں ۔
دوسری آیت کریمہ یہ ہے۔
﴿وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَ٘مَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَ٘اسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَؔكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ (الانعام:6؍93) ’’کاش آپ ان ظالموں کو اس وقت دیکھیں ، جب یہ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے۔
(اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جان آج تمھیں انتہائی رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی اس کا سبب یہ ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں کے ساتھ تکبر کیا کرتے تھے۔‘‘
تیسری آیت کریمہ یہ ہے۔
﴿وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (السجدۃ:32؍21) ’’ہم ان کو قیامت کے بڑے عذاب سے کمتر عذاب کا مزا بھی چکھائیں گے، شاید کہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘
چوتھی آیت کریمہ یہ ہے
﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا١ۚ وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المؤمن:40؍46) ’’انھیں صبح و شام آگ کے عذاب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہو گی اس روز کہا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کر دو۔‘‘
جو چیز سلف میں سے بعض مفسرین کے لیے، اس آیت کریمہ کو عذاب قبر پر محمول کرنے اورصرف اسی پر اقتصار کرنے کی موجب بنی… واللہ تعالیٰ اعلم… وہ ہے آیت کریمہ کا آخر۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کے آخر میں قیامت کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔
اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ ’’تنگ معیشت‘‘ عام ہے یعنی اپنے رب کے ذکر سے روگردانی کرنے والوں پر دنیا میں غم و ہموم اور مصائب و آلام کے جو پہاڑ ٹوٹتے ہیں ، وہ عذاب معجل ہے۔ برزخ میں بھی ان کو عذاب میں ڈالا جائے گا اور آخرت میں بھی عذاب میں داخل ہوں گے کیونکہ ’’تنگ معیشت‘‘ کو بغیر کسی قید کے مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے۔
﴿ وَّنَحْشُرُهٗ ﴾ ’’اور اکٹھا کریں گے ہم اس کو۔‘‘ یعنی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے اس شخص کو
﴿ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى ﴾ قیامت کے روز اندھا اٹھائیں گے… اور صحیح تفسیر یہی ہے… جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَنَحْشُ٘رُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا﴾ (بنی اسرائیل:17؍97) ’’اور قیامت کے روز ان لوگوں کو، اندھے، گونگے اور بہرے ہونے کی حالت میں ، اوندھے منہ اکٹھا کریں گے۔‘‘
#
{125} {قال}: على وجه الذُّلِّ والمراجعة والتألُّم والضجر من هذه الحالة: {ربِّ لمَ حشرتَني أعمى وقد كنتُ}: في دار الدُّنيا {بصيراً}: فما الذي صيَّرني إلى هذه الحالة البشعة؟
[125] وہ نہایت ذلت،
الم اور اس حالت پر تنگ دلی کے ساتھ کہے گا: ﴿ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا ﴾ ’’اے میرے رب! کس بنا پر میری یہ بری حالت ہے میں تو دنیا میں آنکھوں والا تھا؟‘‘
#
{126} {قال كذلك أتَتْكَ آياتُنا فنسيتَها}: بإعراضِكَ عنها، {وكذلك اليومَ تُنسى}؛ أي: تُتْرَكُ في العذاب؛ فأجيب بأنَّ هذا هو عينُ عملك، والجزاء من جنس العمل؛ فكما عَميتَ عن ذِكْر ربِّك، وعشيتَ عنه، ونسيتَه ونسيت حظَّك منه؛ أعمى اللهُ بَصَرَكَ في الآخرة، فحُشِرْتَ إلى النار أعمى أصمَّ أبكم، وأعرضَ عنك، ونَسِيَكَ في العذاب.
[126] ﴿ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا﴾ ’’اللہ کہے گا، اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں آئی تھیں تو تو نے ان کو بھلا دیا تھا۔‘‘ یعنی تو نے روگردانی کے ذریعے سے ان کو فراموش کر دیا۔
﴿وَؔكَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُ٘نْ٘سٰى ﴾ ’’اور اسی طرح آج تجھے بھلا دیا جائے گا۔‘‘ یعنی تجھے عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔ پس جواب دیا گیا کہ یہ بعینہ تیرا عمل ہے کیونکہ جزا عمل ہی کی جنس سے ہوتی ہے۔ جس طرح تو نے اپنے رب کے ذکر کے بارے میں اندھے پن کا مظاہرہ کر کے اس سے منہ موڑا، اسے فراموش کیا اور اس میں سے اپنے حصے کو بھول گیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے آخرت میں اندھا کر دیا ہے، تجھے اندھا بہرہ اور گونگا بنا کر جہنم کی طرف لے جایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے تجھے جہنم میں جھونک کر تجھ سے منہ پھیر لیا۔
#
{127} {وكذلك}؛ أي: هذا الجزاء نجزيه {مَنْ أسرف}: بأن تعدَّى الحدود وارتكب المحارم وجاوز ما أُذِنَ له، {ولم يؤمن بآيات ربِّه}: الدالَّة على جميع مطالب الإيمان دلالةً واضحةً صريحةً؛ فالله لم يَظْلِمْه ولم يَضَع العقوبة في غير محلِّها، وإنَّما السبب إسرافُه وعدم إيمانه. {ولعذابُ الآخرةِ أشدُّ}: من عذاب الدُّنيا أضعافاً مضاعفةً، {وأبقى}: لكونِهِ لا ينقطعُ؛ بخلاف عذاب الدُّنيا؛ فإنَّه منقطع؛ فالواجب الخوف والحذر من عذابِ الآخرة.
[127] ﴿ وَؔكَذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ جزا
﴿ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ ﴾ اس شخص کے لیے ہے جس نے حدود سے تجاوز کیا اور جن امور کی اجازت دی گئی ہے ان سے آگے بڑھ کر محرمات کا مرتکب ہوا
﴿ وَلَمْ یُؤْمِنْۢ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ﴾ اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لایا جو تمام مطالب ایمان پر واضح طور پر اور صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس پر ہرگز ظلم نہیں کیا اور نہ غیر مستحق کو سزا دی ہے بلکہ اس کا سبب تو صرف اس کا اسراف اور عدم ایمان ہے۔
﴿وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ ﴾ دنیا کے عذاب کے برعکس آخرت کا عذاب کئی گنا زیادہ سخت ہو گا۔
﴿ وَاَبْقٰى ﴾ اور دنیا کے عذاب کے برعکس آخرت کا عذاب کبھی ختم نہ ہو گا کیونکہ دنیا کا عذاب تو کبھی نہ کبھی منقطع ہو جاتا ہے۔ پس آخرت کے عذاب سے ڈرنا اور اس سے بچنا واجب ہے۔
{أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (128)}.
کیا پس نہیں رہنمائی کی ان کی
(اس چیز نے) کہ کتنی ہلاک کیں ہم نے ان سے پہلے قومیں ، کہ وہ لوگ چلتے ہیں ان کے مکانوں میں، بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں اہل عقل کے لیے
(128)
#
{128} أي: {أفلم يَهْدِ}: لهؤلاء المكذِّبين المعرضين ويدلُّهم على سلوك طريق الرشاد وتجنُّب طريق الغيِّ والفسادِ ما أحلَّ الله بالمكذبين قبلَهم من القرون الخالية والأمم المتتابعة، الذين يعرِفون قَصَصهم، ويتناقلون أسمارهم، وينظرون بأعينهم مساكِنَهم من بعدهم؛ كقوم هودٍ وصالح ولوطٍ وغيرهم، وأنَّهم لما كذَّبوا رُسُلَنا وأعرضوا عن كُتُبِنا؛ أصبْناهم بالعذاب الأليم؛ فما الذي يؤمِّنُ هؤلاء أن يَحِلَّ بهم ما حلَّ بأولئك؟ {أكُفَّارُكُم خيرٌ من أولئِكُم أم لكم براءةٌ في الزُّبُر أم يقولونَ نحنُ جميعٌ مُنْتَصِرٌ}: لا شيء من هذا كلِّه، فليس هؤلاء الكفار خيراً من أولئك حتى يُدْفَع عنهم العذاب بخيرهم، بل هم شرٌّ منهم، لأنَّهم كفروا بأشرف الرسل وخير الكتب، وليس لهم براءةٌ مزبورةٌ وعهدٌ عند الله، وليسوا كما يقولون إنَّ جَمْعَهم ينفعهم ويدفَعُ عنهم، بل هم أذلُّ وأحقر من ذلك؛ فإهلاك القرون الماضية بذنوبهم من أسباب الهدايةِ؛ لكونِها من الآيات الدالَّة على صحَّة رسالة الرسل الذين جاؤوهم وبطلان ما هم عليه، ولكن ما كلُّ أحدٍ ينتفع بالآيات، إنَّما ينتفعُ بها أولو النُّهى؛ أي: العقول السليمة والفطر المستقيمة، والألباب التي تَزْجُرُ أصحابَها عمَّا لا ينبغي.
[128] ان جھٹلانے والوں اور آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والوں کو، اس عذاب نے راہ ہدایت پر گامزن ہونے، گمراہی اور فساد کی راہ سے اجتناب کرنے پر آمادہ نہیں کیا، جو گزشتہ قوموں اور ایک دوسرے کے پیچھے آنے والی امتوں پر نازل ہوا؟ یہ ان کے واقعات کو خوب جانتے ہیں ، ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آ رہے ہیں اور ان قوموں کے مسکن اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ،
مثلاً:ہود، صالح اور لوطo کی قوموں کے اجڑے ہوئے مسکن۔ انھوں نے جب ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہماری کتابوں سے روگردانی کی تو ہم نے ان پر دردناک عذاب نازل کر دیا۔
کس چیز نے ان کو بے خوف کیا ہے کہ جو عذاب ان قوموں پر نازل ہوا تھا ان پر نازل نہیں ہو گا؟
﴿اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِۚ۰۰اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ﴾ (القمر:54؍43-44) ’’کیا تمھارے کفار ان گزرے ہوئے لوگوں سے بہتر ہیں یا تمھارے لیے
(گزشتہ) کتابوں میں براء ت لکھ دی گئی ہے یا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے مضبوط ہیں ۔‘‘ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی ان پر صادق نہیں آتی۔ یہ کفار ان کافروں سے کسی لحاظ سے بھی بہتر نہیں کہ ان سے عذاب کو ٹال دیا جائے بلکہ یہ ان سے زیادہ شریر اور برے لوگ ہیں کیونکہ انھوں نے افضل ترین رسولe اور بہترین کتاب کی تکذیب کی ہے اور نہ ان کے پاس کوئی تحریری براء ت نامہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد نامہ ہے… اور ایسا بھی نہیں ہو سکتا جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کی قوم انھیں کوئی فائدہ دے گی اور ان سے عذاب کو دور کر دے گی بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ ان سے زیادہ ذلیل اور ان سے زیادہ حقیر ہیں ۔
پس گزشتہ قوموں کو ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ہلاک کرنا، ہدایت کے اسباب میں سے ہے کیونکہ یہ ان رسولوں کی رسالت کی، جو ان کے پاس آئے، صداقت کی اور ان قوموں کے موقف کے بطلان کی دلیل ہے۔ مگر ہر شخص آیات الٰہی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا صرف وہی لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کو عقل و دانش سے نوازا گیا ہے، یعنی عقل سلیم، فطرت مستقیم اور ذہن جو انسان کو ان امور سے روکتے ہیں جو اس کے لیے مناسب نہیں ۔
{وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى (129) فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى (130)}.
اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے
(طے) ہو چکی ہے آپ کے رب کی طرف سے تو البتہ ہو جاتا
(عذاب) چمٹنے والااور
(اگر نہ ہوتی) میعاد مقرر
(129) پس صبر کیجیے اوپر ان باتوں کے جو وہ
(کافر) کہتے ہیں اور تسبیح کیجیے ساتھ حمد کے اپنے رب کی پہلے طلوع آفتاب سے اور پہلے اس کے غروب ہونے سےاور کچھ اوقات میں رات کے، پس تسبیح کیجیےاور
(دونوں ) حصوں میں دن کے بھی تاکہ آپ راضی ہو جائیں
(130)
#
{129} هذه تسليةٌ للرسول وتصبيرٌ له عن المبادرة إلى إهلاك المكذِّبين المعرضين، وأنَّ كفرَهم وتكذيبَهم سببٌ صالحٌ لحلول العذاب بهم ولزومِهِ لهم؛ لأنَّ الله جَعَلَ العقوبات سبباً وناشئاً عن الذُّنوب ملازماً لها، وهؤلاء قد أتَوْا بالسبب، ولكنَّ الذي أخَّره عنهم كلمةُ ربِّك المتضمِّنة لإمهالهم وتأخيرهم وضربِ الأجل المسمَّى؛ فالأجل المسمَّى ونفوذُ كلمة الله هو الذي أخَّر عنهم العقوبة إلى إبَّانِ وقتها، ولعلَّهم يراجعون أمر الله فيتوب عليهم ويرفع عنهم العقوبة إذا لم تحقَّ عليهم الكلمة.
[129] یہ رسول اللہ e کے لیے تسلی اور صبر کی ترغیب ہے کہ وہ ان جھٹلانے اور روگردانی کرنے والوں کے لیے جلدی ہلاکت کی خواہش نہ کریں ۔ ان کا کفر اور تکذیب، ان پر عذاب نازل ہونے کے لیے ایک معقول سبب ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سزاؤں کے لیے سبب مقرر کیا ہے جو گناہوں سے جنم لیتا ہے اور ان لوگوں نے نزول عذاب کے اسباب پیدا کر دیے ہیں مگر جس چیز نے اس عذاب کو مؤخر کر رکھا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جو مہلت دینے اور وقت مقرر کرنے کو متضمن ہے۔ وقت کا مقرر ہونا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ، نزول عذاب کو اس وقت کے آنے تک کے لیے مؤخر کر دیتا ہے۔ شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع کریں ، اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر لے اور عذاب کو ان سے دور کر دے جب تک کہ اللہ کا کلمہ ان پر ثابت نہ ہو جائے۔
#
{130} ولهذا أمر الله رسولَه بالصبر على أذيَّتِهم بالقول، وأمره أن يتعوَّض عن ذلك وليستعين عليه بالتسبيح {بحمدِ} ربِّه في هذه الأوقات الفاضلة؛ {قبلَ طلوعِ الشمس وقبل غروبها}، وفي أطراف النهار أوله وآخره؛ عموم بعد خصوص، وأوقات {الليلِ} وساعاته، لعلَّك إنْ فعلتَ ذلك ترضى بما يعطيك ربُّك من الثواب العاجل والآجل، وليطمئنَّ قلبُك، وتَقَرَّ عينُك بعبادة ربِّك، وتتسلَّى بها عن أذيَّتِهِم؛ فيخفَّ حينئذٍ عليك الصبر.
[130] اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ ان کی قولی اذیتوں پر صبر کرے اور اس کے مقابلے میں ان اوقات فاضلہ میں رب کی تسبیح و تحمید سے مدد لے… یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب، دن کے کناروں پر، یعنی اس کے اوائل اور اواخر میں … یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے… نیز رات کے اوقات اور اس کی گھڑیوں میں ۔ اگر آپe اس پر عمل پیرا ہوئے تو شاید آپe اپنے رب کے عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب پر راضی ہو جائیں ، آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو، اپنے رب کی عبادت سے آپ آنکھیں ٹھنڈی کریں اور ان کی اذیت رسانی پر اس عبادت کے ذریعے سے دل کو تسلی ہو تب آپe کے لیے صبر بہت آسان ہو جائے گا۔
{وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى (131)}.
اور نہ دراز کریں آپ اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف کہ فائدہ دیا ہم نے ان کے ساتھ کئی قسم کے لوگوں کو ان میں سے، رونق کا زندگانیٔ دنیا کی تاکہ ہم آزمائیں انھیں اس میں اور رزق آپ کے رب کا بہت بہتر اور دیرپا ہے
(131)
#
{131} أي: ولا تمدَّ {عَيْنَيْكَ} معجباً ولا تكرِّر النظر مستحسناً إلى أحوال الدُّنيا والممتَّعين بها من المآكل والمشارب اللذيذة والملابس الفاخرة والبيوت المزخرفة والنساء المجمَّلة؛ فإنَّ ذلك كلَّه زهرةُ {الحَياةِ الدُّنيا}؛ تبتهج بها نفوسُ المغترين، وتأخُذُ إعجاباً بأبصار المعرِضين، ويتمتَّع بها بقطع النظرِ عن الآخرة القومُ الظالمون، ثم تذهب سريعاً وتمضي جميعاً، وتقتلُ محبِّيها وعشَّاقَها فيندمون حيث لا تنفع الندامة، ويعلمون ما هم عليه إذا قدِموا يوم القيامة، وإنَّما جعلها الله فتنةً واختباراً ليعلمَ من يَقِفُ عندها ويغترُّ بها ومَنْ هو أحسنُ عملاً. كما قال تعالى: {إنا جَعلنَا ما على الأرضِ زينَة لها لنَبلوهم أيُّهُم أحَسنُ عَملاً وإنَّا لجاعلونَ ما عَلَيْها صعيداً جُرُزاً}. {ورزقُ ربِّك}: العاجل من العلم والإيمان وحقائق الأعمال الصالحة، والآجل من النعيم المقيم والعيش السليم في جوار الربِّ الرحيم، {خيرٌ}: مما متَّعنا به أزواجاً في ذاته وصفاته، {وأبقى}: لكونِهِ لا ينقطع أكُلُها دائمٌ وظلُّها؛ كما قال تعالى: {بل تؤثِرونَ الحياة الدُّنيا. والآخرةُ خيرٌ وأبقى}.
وفي هذه الآية إشارةٌ إلى أنَّ العبد إذا رأى من نفسِهِ طموحاً إلى زينة الدُّنيا وإقبالاً عليها أنْ يُذَكِّرَها ما أمامها من رزقِ ربِّه، وأنْ يوازِنَ بين هذا وهذا.
[131] یعنی دنیا اور اس کی متاع،
مثلاً:لذیذ ماکولات و مشروبات، ملبوسات فاخرہ، آراستہ کیے ہوئے گھروں اور حسین و جمیل عورتوں سے حظ اٹھانے والوں کے احوال کو استحسان اور پسندیدگی کی نظر سے دوبارہ نہ دیکھیں ، اس لیے کہ یہ سب کچھ دنیا کی خوبصورتی ہے اور اس سے صرف فریب خوردہ لوگ ہی خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنے والوں کی نظریں ہی اسے پسندیدگی سے دیکھتی ہیں ۔ آخرت سے قطع نظر کر کے، صرف ظالم لوگ ہی اس سے متمتع ہوتے ہیں ، پھر یہ دنیا سب کی سب، تیزی سے گزر جاتی ہے،
اپنے چاہنے والوں اور عشاق کو بے موت مار دیتی ہے۔ پس دنیا سے محبت کرنے والے لوگ اس وقت نادم ہوں گے جب ندامت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تب انھیں اپنی بے مائیگی کا علم ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے تو اس دنیا کو فتنہ اور آزمائش بنایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون اس کے پاس ٹھہرتا اور اس کے فریب میں مبتلا ہوتا ہے اور کون اچھے عمل کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰۰وَاِنَّا لَجٰؔعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًا﴾ (الکہف:18؍7-8) ’’جو کچھ زمین پر موجود ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے کام کرتا ہے، پھر جو کچھ اس زمین پر ہے ہم سب کو ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں ۔‘‘
﴿وَرِزْقُ رَبِّكَ ﴾ ’’اور تیرے رب کا رزق‘‘ دنیاوی رزق یعنی علم، ایمان اور اعمال صالحہ کے حقائق، اخروی رزق یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور رب رحیم کے جوار رحمت میں سلامتی سے بھرپور زندگی۔
﴿ خَیْرٌ ﴾ اپنی ذات و صفات میں اس زندگی سے بہتر ہے جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے
﴿وَّاَبْقٰى﴾ ’’اور پائدار ہے‘‘ کیونکہ اس کے پھل کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کے سائے دائمی ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاٞۖ۰۰وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى ﴾ (الاعلی:87؍16۔17) ’’مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب دیکھے کہ اس کا نفس سرکشی اختیار کر کے دنیا کی زیب و زینت کی طرف مائل اور متوجہ ہے تو وہ اپنے رب کے اس رزق کو یاد کرے جو آئندہ زندگی میں اسے عطا ہونے والا ہے، پھر ان دونوں کے درمیان موازنہ کرے۔
{وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (132)}.
اور حکم دیجیے اپنے گھر والوں کو نماز
(پڑھنے) کااور
(خود بھی) ثابت رہیے اس پر، نہیں سوال کرتے ہم آپ سے رزق کا، ہم ہی رزق دیتے ہیں آپ کواور
(بہترین) انجام تو تقوی
(والوں ) ہی کا ہے
(132)
#
{132} أي: حُثَّ أهلك على الصلاة، وأزْعِجْهم إليها من فرض ونفل، والأمرُ بالشيء أمرٌ بجميع ما لا يتمُّ إلاَّ به، فيكون أمراً بتعليمهم ما يُصْلِحُ الصلاة ويفسِدُها ويُكْمِلُها. {واصْطَبِرْ عليها}؛ أي: على الصلاة بإقامتها بحدودها وأركانها [وآدابها] وخشوعها؛ فإنَّ ذلك مشقٌّ على النفس، ولكنْ ينبغي إكراهها وجهادُها على ذلك والصبر معها دائماً؛ فإنَّ العبد إذا أقام صلاته على الوجه المأمور به؛ كان لما سِواها من دينِهِ أحفظَ وأقوم، وإذا ضيَّعها؛ كان لما سِواها أضيعَ. ثم ضَمِنَ تعالى لرسولِهِ الرزقَ، وأنْ لا يَشْغَلَه الاهتمام به عن إقامة دينِهِ، فقال: {نحن نرزُقُك}؛ أي: رزقُك علينا، قد تكفَّلْنا به كما تكفَّلْنا بأرزاقِ الخلائق كلِّهم؛ فكيف بمن قام بأمرِنا واشتغل بذِكْرِنا؟! ورزقُ الله عامٌّ للمتَّقي وغيره؛ فينبغي الاهتمام بما يجلبُ السعادة الأبديَّة، وهو التقوى، ولهذا قال: {والعاقبةُ}: في الدُّنيا والآخرة {للتَّقْوى}: التي هي فعل المأمور وتركُ المنهيِّ؛ فمن قام بها؛ كان له العاقبةُ؛ كما قال تعالى: {والعاقبةُ للمتَّقين}.
[132] اپنے گھر والوں کو نماز کی ترغیب دیجیے، انھیں فرض اور نفل نماز پڑھنے کا حکم دیتے رہیے اور کسی چیز کا حکم دینا ان تمام امور کو شامل ہے جن کے بغیر اس چیز کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پس یہ حکم ، اپنے گھر والوں کو نماز کے بارے میں ان امور کی تعلیم دینا ہے جو نماز کی اصلاح کرتے ہیں ، جو نماز کو فاسد کرتے ہیں اور جو نماز کی تکمیل کرتے ہیں ۔
﴿ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا ﴾ ’’اور خود بھی اس پر جمے رہیے۔‘‘ یعنی نماز پر، اس کی تمام حدود، اس کے ارکان، اس کے آداب اور اس کے خشوع و خضوع کے ساتھ۔ کیونکہ اس میں نفس کے لیے مشقت ہے۔ تاہم مناسب یہی ہے کہ دائمی طور پر نفس کو نماز پڑھنے پر مجبور اور اس کے ساتھ جہاد کرتے رہنا چاہیے اور اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ بندۂ مومن جب اس طریقے سے نماز قائم کرتا ہے جس طریقے سے قائم کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے تو نماز کے علاوہ دیگر دین کی حفاظت کرنے اور اس کو قائم کرنے کی اس سے زیادہ توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ نماز کو ضائع کرتا ہے تو دیگر دین کو زیادہ برے طریقے سے ضائع کر سکتا ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو رزق کی ضمانت دی اور ترغیب دی کہ آپ اقامت دین کو چھوڑ کر حصول رزق میں مشغول نہ ہوں ،
چنانچہ فرمایا: ﴿ نَحْنُ نَرْزُقُكَ﴾ یعنی آپ کا رزق ہمارے ذمہ ہے ہم نے جس طرح تمام خلائق کے رزق کی کفالت اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح آپ کے رزق کی کفالت بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اس شخص کے رزق کی ذمہ داری ہم پر کیسے نہ ہو جو ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور ہمارے ذکر میں مشغول رہتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا رزق متقی اور غیر متقی سب کے لیے عام ہے، اس لیے ان امور کا اہتمام کرنا چاہیے جن پر ابدی سعادت کا دارومدار ہے اور وہ ہے تقویٰ،
لہٰذا فرمایا: ﴿وَالْعَاقِبَةُ ﴾ یعنی دنیا و آخرت کا انجام
﴿ لِلتَّقْوٰى ﴾ تقویٰ کے لیے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے مامورات کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب۔ اور جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے،
انجام اسی کا اچھا ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿وَالْعَاقِبَةُ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍128) ’’اور اچھا انجام متقین کا ہے۔‘‘
{وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِنْ رَبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى (133) وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى (134) قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى (135)}.
اور انھوں نے کہا، کیوں نہیں لاتا وہ ہمارے پاس کوئی نشانی اپنے رب کی طرف سے؟ کیا نہیں آئی ان کے پاس دلیل اس چیز کی جوکچھ پہلے صحیفوں میں ہے؟
(133) اور اگر بے شک ہم ہلاک کر دیتے ان کو ساتھ عذاب کے پہلے اس رسول سے تو البتہ کہتے وہ لوگ، اے ہمارے رب! کیوں نہیں بھیجا تو نے ہماری طرف کوئی رسول پس ہم پیروی کرتے تیری آیتوں کی پہلے اس سے کہ ہم ذلیل اور رسوا ہوتے؟
(134) آپ کہہ دیجیے! ہر ایک انتظار کرنے والا ہے سو تم بھی انتظار کرو، پس عنقریب تم جان لو گے کہ کون ہیں حامل، راہ راست کے اور کس نے ہدایت کو اپنایا؟
(135)
#
{133} أي: قال المكذِّبون للرسول - صلى الله عليه وسلم -: هلاَّ يأتينا بآيةٍ من ربِّه؛ يعنونَ آيات الاقتراح؛ كقولهم: {وقالوا لَن نؤمنَ لك حتى تَفْجُرَ لنا من الأرضِ يَنبوعاً أو تكونَ لك جَنَّةٌ من نخيل وعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأنهار خلالها تَفْجِيرا. أو تسقِطَ السماء كما زعمتَ علينا كِسَفاً أو تأتيَ بالله والملائكةِ قَبيلاً}، وهذا تعنُّت منهم وعنادٌ وظلمٌ؛ فإنَّهم هم والرسول بشرٌ عبيدٌ لله؛ فلا يليقُ منهم الاقتراح بحسب أهوائهم، وإنَّما الذي ينزِلُها ويختارُ منها ما يختارُ بحسب حكمتِهِ هو الله، ولما كان قولهم: {لولا يأتينا بآية من ربِّه}: يقتضي أنَّه لم يأتِهِم بآيةٍ على صدقِهِ ولا بيِّنة على حقِّه، وهذا كذبٌ وافتراء؛ فإنه أتى من المعجزات الباهرات والآيات القاهرات ما يحصُلُ ببعضه المقصودُ، ولهذا قال: {أَوَلَمْ [تأتِهم]}: إن كانوا صادقينَ في قولهم، وأنهم يطلبُون الحقَّ بدليله، {بيِّنَةُ ما في الصُّحف الأولى}؛ أي: هذا القرآن العظيم، المصدِّق لما في الصحف الأولى من التوراة والإنجيل والكتب السابقة، المطابق لها، المخبر بما أخبرت به، وتصديقُهُ أيضاً مذكورٌ فيها، ومبشَّر بالرسول بها، وهذا كقولِهِ تعالى: {أَوَلَم يكفِهِم أنَّا أنزلنا عليك الكتابَ يُتلى عليهم إنَّ في ذلك لرحمةً وذِكْرى لقوم يؤمنونَ}؛ فالآياتُ تنفعُ المؤمنين ويزداد بها إيمانُهم وإيقانُهم، وأما المعرضونَ عنها المعارضون لها؛ فلا يؤمنونَ بها ولا ينتفعونَ بها. {إنَّ الذين حقَّتْ عليهم كلمةُ ربِّك لا يؤمنون. ولو جاءَتْهم كلُّ آيةٍ حتى يَرَوُا العذابَ الأليم}.
[133] رسول اللہ e کی تکذیب کرنے والے آپ سے کہتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ نشانی سے ان کی مراد معجزات ہیں ۔ یہ بات ان کے اس قول کی مانند ہے
﴿وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًاۙ۰۰اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْ٘هٰرَ خِلٰ٘لَهَا تَفْجِیْرًاۙ۰۰اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَؔ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍90-92) ’’انھوں نے کہا کہ ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے چشمہ جاری نہ کرے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس باغ کے درمیان نہریں جاری کر دے یا تو آسمان کو… جیسا کہ تو دعویٰ کرتا ہے… ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے یا تو اللہ اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لے آئے۔‘‘ یہ ان کی طرف سے محض تعنت، عناد اور ظلم ہے۔ کیونکہ رسول اور وہ خود محض بشر اور اللہ کے بندے ہیں ۔ ان کا اپنی خواہشات کے مطابق معجزات کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی حکمت کے مطابق آیات و معجزات کا انتخاب کر کے نازل کرتا ہے۔
چونکہ ان کا قول
﴿ لَوْلَا یَ٘اْتِیْنَا بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ تقاضا کرتا ہے کہ ان کے پاس رسول اللہe کی صداقت پر کوئی نشانی اور آپ کے حق ہونے پر دلیل نازل نہیں ہوئی… حالانکہ یہ جھوٹ اور بہتان ہے کیونکہ آپ بڑے بڑے معجزات اور ناقابل تردید دلائل لے کر آئے کہ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سے مقصود حاصل ہو سکتا ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ تَاْتِهِمْ ﴾ ’’کیا ان کے پاس نہیں آئی۔‘‘ اگر وہ اپنی بات میں سچے ہیں اور دلیل کے ذریعے سے وہ حق کے متلاشی ہیں
﴿ بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ﴾ ’’وہ دلیل جو پہلے صحیفوں میں ہے؟‘‘ یعنی یہ قرآن عظیم ان تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو گزشتہ صحیفوں ، یعنی تورات، انجیل اور دیگر کتابوں میں نازل ہوئی ہیں اور انھی امور کے بارے میں خبر دیتا ہے جن کے بارے میں ان گزشتہ کتابوں نے خبر دی ہے۔ ان گزشتہ کتب اور صحیفوں میں اس قرآن عظیم کی تصدیق بھی موجود ہے اور اس کو لانے والے رسول کی بشارت بھی دی گئی ہے۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔
﴿اَوَلَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّـاۤ٘ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ (العنکبوت:29؍51) ’’کیا ان کے لیے یہی کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب عظیم نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں ۔‘‘ آیات الٰہی اہل ایمان کو فائدہ دیتی ہیں ، ان کی تلاوت سے ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن آیات الٰہی سے اعراض کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان پر ایمان رکھتے ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ ہی اٹھاتے ہیں ۔
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ۰۰وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُ٘لُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ (یونس:10؍96-97) ’’بلاشبہ وہ لوگ جن پر تیرے رب کا حکم قرار پا چکا ہے خواہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے، وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔‘‘
#
{134} وإنَّما الفائدةُ في سوقها إليهم ومخاطبتهم بها لتقومَ عليهم حجَّة الله، ولئلاَّ يقولوا حين ينزلُ بهم العذاب: {لولا أرسلتَ إلَيْنا رسولاً فنتَّبعَ آياتِك من قبل أن نَذِلَّ ونَخْزى}: بالعقوبة؛ فها قد جاءكم رسولي ومعه آياتي وبراهيني؛ فإنْ كنتُم كما تقولون؛ فصدِّقوه.
[134] ان آیات کو ان کی طرف بھیجنے اور ان کے ذریعے سے ان سے مخاطب ہونے کا پس ایک ہی فائدہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جاتی ہے تاکہ جب ان پر دردناک عذاب نازل ہو تو ان کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے:
﴿ لَوْلَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَ٘نَ٘تَّ٘بِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى ﴾ ’’کیوں نہیں بھیجا تو نے ہماری طرف کوئی رسول، پس ہم تیری آیات کی پیروی کرتے قبل اس کے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔‘‘ یعنی عقوبت کے ذریعے… لو تمھارے پاس، میری آیات و براہین کے ساتھ، میرا رسول آ گیا ہے اگر بات ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اٹھو اس کی تصدیق کرو۔
#
{135} {قل}: يا محمد مخاطباً للمكذِّبين لك الذين يقولونَ تربَّصوا به ريَبْ المنون: {قُلْ كلٌّ متربِّصٌ}: فتربَّصوا بي الموت، وأنا أتربَّص بكم العذاب، {قل هل تَرَبَّصون بنا إلا إحدى الحُسْنَيَيْنِ}؛ أي: الظفر أو الشهادة؛ فنحن نتربَّص بكم أن يصيبَكم اللهُ بعذابٍ من عنده أو بأيدينا. {فَتَرَبَّصوا فستعلمونَ مَنْ أصحابُ الصِّراطِ السويِّ}؛ أي: المستقيم، {ومَنِ اهْتَدى}: بسلوكِهِ أنا أم أنتُم؛ فإنَّ صاحبه هو الفائزُ الراشدُ الناجي المفلحُ، ومَنْ حادَ عنه خاسرٌ خائبٌ معذَّب. وقد عُلِمَ أنَّ الرسول هو الذي بهذه الحالة، وأعداؤه بخلافه. والله أعلم.
[135] اے محمد!
(e) ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو آپ کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو‘‘
﴿ قُ٘لْ كُ٘لٌّ مُّؔتَرَبِّصٌ﴾ ’’کہہ دیجیے! ہم میں سے ہر ایک منتظر ہے۔‘‘ تم میری موت کا انتظار کرو میں تم پر عذاب الٰہی کے ٹوٹ پڑنے کا انتظار کرتا ہوں ۔
﴿قُ٘لْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ﴾ (التوبۃ:9؍52) ’’کہہ دیجیے کیا تم ہمارے متعلق دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی کے منتظر ہو؟‘‘ یعنی کامیابی یا شہادت
﴿وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا﴾ (التوبۃ:9؍52) ’’اور ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے یا ہمارے ہاتھوں تمھیں کوئی سزا دے۔‘‘
﴿ فَتَرَبَّصُوْا١ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ اَصْحٰؔبُ الصِّ٘رَاطِ السَّوِیِّ﴾ ’’پس تم انتظار کرو جلد ہی تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھے راستے
(یعنی صراط مستقیم) والے کون ہیں ؟‘‘
﴿ وَمَنِ اهْتَدٰؔى ﴾ ’’اور کون ہدایت یافتہ ہے؟‘‘ یعنی اپنے طرز عمل کے اعتبار سے، میں یا تم؟ کیونکہ اس راستے پر چلنے والا شخص ہی صاحب رشد و ہدایت، فوزوفلاح سے بہرہ ور اور نجات یافتہ ہے اور جو کوئی اس راستے سے منہ موڑتا ہے وہ خائب و خاسر اور عذاب کا مستحق ہے اور یہ حقیقت واضح طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہe صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور آپ کے دشمن اس کے برعکس راستوں پر چل رہے ہیں ۔ واللہ اعلم۔