آیت:
تفسیر سورۂ کہف
تفسیر سورۂ کہف
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (1) قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا (2) مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا (3) وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا (4) مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (5) فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6)}
تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے نازل کی اپنے بندے پر کتاب اور نہیں رکھی اس میں کوئی کجی (1) اس حال میں کہ وہ سیدھی ہے، تاکہ ڈرائے وہ عذاب سخت سے، اس (اللہ) کی طرف سےاور (تاکہ) وہ خوشخبری دے مومنوں کو، وہ لوگ جو عمل کرتے ہیں نیک، بے شک ان کے لیے اجر ہے اچھا (2)اس حال میں کہ وہ رہنے والے ہوں گے اس میں ہمیشہ ہی (3)اور (تاکہ) وہ ڈرائے ان لوگوں کو جنھوں نے کہا، بنائی ہے اللہ نے اولاد (4) نہیں ہے ان کو ساتھ اس (دعویٰ) کے کوئی علم اور نہ ان کے باپ دادا ہی کو ، بڑی ہی خطرناک بات ہے جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے، نہیں کہتے وہ مگر جھوٹ ہی (5) پس شاید کہ آپ ہلاک کرنے والے ہیں اپنے آپ کو پیچھے ان کے، اگر نہ ایمان لائیں وہ ساتھ اس بات (قرآن) کے ، غم کے مارے (6)
#
{1} {الحمد}: هو الثناء عليه بصفاته التي هي كلُّها صفات كمال، وبنعمه الظاهرة والباطنة، الدينيَّة والدنيويَّة، وأجلُّ نعمه على الإطلاق إنزالُه الكتاب العظيم على عبده ورسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، فحمد نفسه، وفي ضمنه إرشادُ العباد ليحمدوه على إرسال الرسول إليهم، وإنزال الكتاب عليهم. ثم وَصَفَ هذا الكتاب بوصفين مشتملين على أنَّه الكامل من جميع الوجوه، وهما: نفي العِوَج عنه، وإثباتُ أنَّه مقيمٌ مستقيمٌ: فنفي العِوَج يقتضي أنَّه ليس في أخباره كذبٌ، ولا في أوامره ونواهيه ظلمٌ ولا عَبَثٌ. وإثبات الاستقامة يقتضي أنَّه لا يخبر ولا يأمر إلاَّ بأجلِّ الإخبارات، وهي الأخبار التي تملأ القلوب معرفةً وإيماناً وعقلاً؛ كالإخبار بأسماء الله وصفاته وأفعاله، ومنها الغيوب المتقدِّمة والمتأخِّرة، وأنَّ أوامره ونواهيه تزكِّي النفوس وتطهِّرها وتنمِّيها وتكمِّلها؛ لاشتمالها على كمال العدل والقِسْط والإخلاص والعبوديَّة لله ربِّ العالمين وحده لا شريكَ له. وحقيقٌ بكتابٍ موصوفٍ بما ذُكِر أن يَحْمَدِ الله نفسَه على إنزالِهِ، وأن يتمدَّح إلى عباده به.
[1] حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے سے، جو کہ صفت کمال ہیں ، نیز اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی اور دینی و دنیاوی نعمتوں کے اظہار و اعتراف کے ذریعے سے اس کی ثنا بیان کرنا… اور علی الاطلاق اللہ تعالیٰ کی جلیل ترین نعمت اپنے بندے اور رسول محمدe پر قرآن نازل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد بیان کی اور اس ضمن میں بندوں کے لیے اس امر کی طرف راہنمائی ہے کہ وہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کریں کہ اس نے ان کی طرف اپنا رسول بھیجا اور کتاب نازل کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی دو خوبیاں بیان فرمائیں جو اس بات پر مشتمل ہیں کہ یہ کتاب ہر لحاظ سے کامل ہے۔ یہ دو صفات مندرجہ ذیل ہیں ۔ (۱) اس کتاب عظیم سے کجی کی نفی۔ (۲) اس بات کا اثبات کہ یہ کتاب کجی دور کرنے والی اور راہ راست پر مشتمل ہے۔ کجی کی نفی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کتاب میں کوئی جھوٹی خبر ہو نہ اس کے اوامر ونواہی میں ظلم کا کوئی پہلو ہو اور نہ کوئی عبث بات ہو۔ استقامت کا اثبات اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ کتاب جلیل ترین امور کا حکم دیتی اور جلیل ترین خبروں سے آگاہ کرتی ہے اور یہ وہ خبریں ہیں جو قلوب انسانی کو معرفت الٰہی اور ایمان و عقل سے لبریز کر دیتی ہیں ، مثلاً:اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کے بارے میں خبریں ، نیز گزرے ہوئے اور آئندہ آنے والے غیبی معاملات کی خبریں ۔ اس کتاب کی استقامت کا اثبات اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اوامر و نواہی نفوس انسانی کا تزکیہ، ان کی نشوونما اور ان کی تکمیل کرتے ہیں کیونکہ یہ اوامر و نواہی کامل عدل و انصاف، اخلاص اور اکیلے اللہ رب العالمین کے لیے عبودیت پر مشتمل ہیں ۔ یہ کتاب، جس کے مذکورہ بالا اوصاف بیان كيے گئے ہیں ، اس بات کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نازل کرنے پر اپنی حمد بیان کرے اور اپنے بندے سے اپنی حمد و ستائش کا مطالبہ کرے۔
#
{2} وقوله: {لينذِرَ بأساً شديداً من لَدُنْه}؛ أي: لينذر بهذا القرآن الكريم عقابَه الذي عنده؛ أي: قدره وقضاه على من خالف أمره، وهذا يشمَلُ عقاب الدُّنيا وعقاب الآخرة. وهذا أيضاً من نعمه أنْ خوَّف عباده وأنذرَهم ما يضرُّهم ويُهلكهم؛ كما قال تعالى لما ذَكَرَ في هذا القرآن وصف النار؛ قال: {ذلك يُخَوِّفُ الله به عبادَه يا عبادِ فاتَّقونِ}؛ فمن رحمته بعباده أن قيَّضَ العقوباتِ الغليظةَ على من خالف أمره وبيَّنها لهم وبيَّن لهم الأسباب الموصلة إليها. {ويبشِّر المؤمنين الذين يعملونَ الصَّالحاتِ أنَّ لهم أجراً حسناً}؛ أي: وأنزل الله على عبدِهِ الكتاب ليبشِّر المؤمنين به وبرسلِهِ وكتبِهِ الذين كمل إيمانهم، فأوجب لهم عمل الصالحات، وهي الأعمال الصالحة من واجبٍ ومستحبٍّ، التي جمعت الإخلاص والمتابعة: {أنَّ لهم أجراً حسناً}: وهو الثوابُ الذي رتَّبه الله على الإيمان والعمل الصالح، وأعظمُهُ وأجلُّه الفوز برضا الله ودخول الجنة التي فيها ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خَطَرَ على قلب بشر. وفي وصفه بالحُسْنِ دلالةٌ على أنَّه لا مكدِّر فيه ولا منغِّص بوجه من الوجوه؛ إذْ لو وُجِدَ فيه شيءٌ من ذلك؛ لم يكن حسنُهُ تامًّا.
[2] ﴿ لِّیُنْذِرَ بَ٘اْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ﴾ ’’تاکہ وہ اپنی طرف سے ڈرائے سخت عذاب سے‘‘ یعنی اس قرآن کریم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے ہاں موجود عذاب سے ڈرائے، یعنی اس شخص کو اپنی اس قضا و قدر سے ڈرائے جو اس کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ہے۔ یہ دنیاوی عذاب اور اخروی عذاب دونوں کو شامل ہے، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو خوف دلایا ہے اوران کو ان امور سے ڈرایا ہے جو ان کے لیے نقصان اور ہلاکت کا باعث ہیں ۔ جیسا کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آگ کا وصف بیان کیا تو فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ١ؕ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ ﴾ (الزمر : 39؍16) ’’اللہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرو۔‘‘ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں جو اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان سزاؤں کو ان کے سامنے بیان کر دیا اور ان اسباب کو بھی واضح کر دیا جو ان سزاؤں کے موجب ہیں۔ ﴿ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور خوشخبری دے مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی تاکہ اس کے ذریعے سے، نیز اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے، ان لوگوں کو خوشخبری سنائے جو اس کتاب پر ایمان لا کر اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ۔ پس اس نے اپنے بندوں پر نیک اعمال واجب كيے اور اس سے مراد واجبات و مستحبات پر مشتمل نیک اعمال ہیں ، جن میں اخلاص اور اتباع رسول جمع ہوں ۔ ﴿ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًا ﴾ ’’کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے‘‘ اس سے مراد وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح پر مترتب کیا ہے۔ سب سے بڑا اور جلیل ترین ثواب، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے تصور میں اس کا گزر ہوا ہے…اور اس اجر کو ’’حسن‘‘ کے وصف کے ساتھ موصوف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تکدر نہ ہو گا۔ کیونکہ اگر اس میں کسی قسم کا تکدر پایا جائے تو یہ اجر مکمل طور پر حسن نہیں ہے۔
#
{3} ومع ذلك؛ فهذا الأجر الحسن {ماكثينَ فيه أبداً}: لا يزول عنهم ولا يزولون عنه، بل نعيمُهم في كلِّ وقت متزايدٌ. وفي ذكر التبشير ما يقتضي ذِكْر الأعمال الموجبة للمبشَّر به، وهو أنَّ هذا القرآن قد اشتمل على كل عمل صالح موصل لما تستبشرُ به النفوس، وتفرحُ به الأرواح.
[3] اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ اچھا اجر ہے۔ ﴿ مَّؔاكِثِیْنَ فِیْهِ اَبَدًا﴾ ’’وہ اس میں ابد الآباد تک رہیں گے۔‘‘ یہ اجروثواب کبھی ان سے زائل ہو گا نہ یہ اس سے دور كيے جائیں گے بلکہ ان کی یہ نعمتیں ہر وقت بڑھتی ہی رہیں گی۔ تبشیر کا ذکر تقاضا کرتا ہے کہ ان اعمال کا ذکر کیا جائے جو بشارت کے موجب ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم تمام اعمال صالحہ پر مشتمل ہے جو اس اجروثواب کا سبب ہیں جس سے نفس خوش ہوں گے اور روحوں کو فرحت حاصل ہو گی۔
#
{4 ـ 5} {وينذرَ الذين قالوا اتَّخذ اللهُ ولداً}: من اليهود والنَّصارى والمشركين، الذين قالوا هذه المقالة الشنيعة؛ فإنَّهم لم يقولوها عن علم ولا يقين؛ لا علم منهم ولا علم من آبائهم الذين قلَّدوهم واتَّبعوهم، بل إن يتَّبعون إلاَّ الظنَّ وما تَهْوى الأنفُسُ. {كَبُرَتْ كلمةً تخرُجُ من أفواههم}؛ أي: عَظُمت شناعتُها واشتدَّت عقوبتُها، وأيُّ شناعة أعظم من وصفه بالاتِّخاذ للولد الذي يقتضي نقصه ومشاركة غيره له في خصائص الربوبيَّة والإلهيَّة والكذب عليه؟! {فمن أظلمُ ممَّن افترى على الله كذباً}؟! ولهذا قال هنا: {إن يقولون إلاَّ كَذِباً}؛ أي: كذباً محضاً ما فيه من الصدق شيء. وتأمَّل كيف أبطل هذا القول بالتدريج والانتقال من شيء إلى أبطل منه: فأخبر أولاً أنه {ما لهم به مِن علم ولا لآبائهم}: والقول على الله بلا علم لا شكَّ في منعه وبطلانه. ثم أخبر ثانياً أنَّه قولٌ قبيحٌ شنيعٌ، فقال: {كَبُرَتْ كلمةً تخرج من أفواههم}. ثم ذكر ثالثاً مرتبته من القُبح، وهو الكذب المنافي للصدق.
[5,4] ﴿ وَّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا﴾ ’’اور ان لوگوں کو ڈرائے جنھوں نے کہا اللہ اولاد رکھتا ہے‘‘ یعنی یہود و نصاریٰ اور مشرکین، جن کا یہ بدترین قول ہے اور ان کا یہ قول کسی علم و یقین پر مبنی نہیں ہے۔ وہ اس کے بارے میں خود کوئی علم رکھتے ہیں نہ ان کے آباء و اجداد کے پاس کوئی علم تھا جن کی یہ تقلید کرتے ہیں بلکہ یہ تو محض ظن و گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں ۔ ﴿ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ﴾ ’’بڑی ہے بات جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے‘‘ یعنی ان کی اس بات کی قباحت بہت زیادہ اور اس کی سزا بہت سخت ہے اور اس شخص کے اس قول کی قباحت سے بڑھ کر اور کون سی قباحت ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹا منسوب کرتا ہے حالانکہ یہ نسبت اس کی ذات میں نقص اور خصائص ربوبیت و الوہیت میں غیر اللہ کی شراکت اور اس پر بہتان طرازی کی مقتضی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا ﴾ (الانعام: 6؍21) ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا: ﴿ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبً٘ا﴾ ’’یہ لوگ محض جھوٹ بولتے ہیں ‘‘ جس میں صداقت کا ذرہ بھر شائبہ نہیں ۔ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح بتدریج ان کے قول کا ابطال کیا ہے اور کم تر باطل چیز سے زیادہ باطل چیز کی طرف انتقال کیا ہے، چنانچہ پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی: ﴿ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَآىِٕهِمْ﴾ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا ممنوع اور باطل ہے پھر دوسرے مرحلے میں فرمایا کہ یہ انتہائی قبیح قول ہے، فرمایا: ﴿ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ﴾ پھر قباحت کے تیسرے مرتبے میں فرمایا کہ یہ محض جھوٹ ہے جو صدق کے منافی ہے۔
#
{6} ولما كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - حريصاً على هداية الخلق، ساعياً في ذلك أعظم السعي، فكان - صلى الله عليه وسلم - يفرح ويسرُّ بهداية المهتدين، ويحزن ويأسفُ على المكذِّبين الضالِّين؛ شفقةً منه - صلى الله عليه وسلم - عليهم، ورحمةً بهم؛ أرشده الله أن لا يَشْغَلَ نفسه بالأسف على هؤلاء الذين لا يؤمنون بهذا القرآن؛ كما قال في [الآية] الأخرى: {لعلَّك باخعٌ نفسَكَ أن لا يكونوا مؤمنين}، وقال: {فلا تذهب نفسك عليهم حسراتٍ}، وهنا قال: {فلعلَّك باخعٌ نفسَك}؛ أي: مهلكها غمًّا وأسفاً عليهم، وذلك أنَّ أجرك قد وَجَبَ على الله، وهؤلاء لو عَلِمَ اللهُ فيهم خيراً لهداهم، ولكنَّه علم أنهم لا يَصْلُحون إلا للنار؛ فلذلك خَذَلَهم فلم يهتدوا؛ فإشغالك نفسك غمًّا وأسفاً عليهم ليس فيه فائدةٌ لك. وفي هذه الآية ونحوها عبرةٌ؛ فإنَّ المأمور بدعاء الخلق إلى الله عليه التبليغ والسعي بكلِّ سبب يوصِلُ إلى الهداية، وسدِّ طرق الضَّلال والغواية، بغاية ما يمكِنُه، مع التوكُّل على الله في ذلك؛ فإن اهتدوا؛ فبها ونعمت، وإلاَّ؛ فلا يحزنْ ولا يأسفْ؛ فإنَّ ذلك مضعفٌ للنفس، هادمٌ للقُوى، ليس فيه فائدةٌ، بل يمضي على فعلِهِ الذي كُلِّف به وتوجَّه إليه، وما عدا ذلك؛ فهو خارجٌ عن قدرته. وإذا كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يقولُ الله له: {إنَّك لا تَهْدي مَنْ أحببتَ}، وموسى عليه السلام يقول: {ربِّ إني لا أملِكُ إلاَّ نَفْسي وأخي ... } الآية؛ فمن عداهم من باب أولى وأحرى؛ قال تعالى: {فذكِّرْ إنَّما أنتَ مُذَكِّرٌ لست عليهم بمصيطرٍ}.
[6] چونکہ نبی اکرمe خلائق کی ہدایت کی بے انتہا خواہش رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ آپ دین اسلام اختیار کرنے والے کے ہدایت قبول کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ تکذیب کرنے والے گمراہ لوگوں پر رحم و شفقت کی بنا پر متاسف اور غم زدہ ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے رویے پر افسوس اور تاسف میں مشغول نہ ہوں جو اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے: ﴿ لَعَلَّكَ بَ٘اخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ (الشعراء : 26؍3) ’’شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کر لیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ﴾ (فاطر : 35؍8) ’’پس ان لوگوں کے غم میں آپ کی جان نہ گھلے۔‘‘ یہاں فرمایا: ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ’’کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے۔‘‘ یعنی ان کے غم میں ، حالانکہ آپ کا اجروثواب تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہو چکا ہے اگر ان لوگوں کی کوئی بھلائی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی تو وہ ضرور ان کو ہدایت سے نواز دیتا۔ مگر اسے معلوم ہے کہ یہ لوگ آگ کے سوا، کسی چیز کے قابل نہیں ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ راہ راست نہ پا سکے۔ آپ کا ان کے غم اور تاسف میں اپنے آپ کو مشغول کرنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ میں عبرت ہے۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے پر مامور شخص پر تبلیغ دعوت، ان تمام اسباب کے حصول میں کوشاں رہنا جو ہدایت کی منزل پر پہنچاتے ہیں ، امکان بھر گمراہی کے راستوں کو مسدود کرنا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر توکل فرض ہے۔ پس اگر وہ راہ راست پر گامزن ہو جائیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ان کے افسوس میں گھلنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ چیز نفس کو کمزور اور قویٰ کو منہدم کر دیتی ہے۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسا کرنے سے وہ مقصد فوت ہو جائے گا جس پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ تبلیغ دعوت اور کوشش کے سوا ہر چیز اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی اکرمe سے فرماتا ہے: ﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾ (القصص : 28؍56) ’’آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہتے ہیں ۔‘‘ حضرت موسیٰu نے اعتراف کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ ﴾ (المائدۃ : 5؍25) ’’اے میرے رب! میں اپنے آپ پر اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ تو انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بدرجہ اولیٰ کسی کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَذَكِّ٘رْ١ؕ۫ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّ٘رٌؕ۰۰لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ ﴾ (الغاشیۃ : 88؍21، 22) ’’آپ نصیحت کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں ، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔‘‘
آیت: 7 - 8 #
{إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (7) وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا (8)}.
بے شک ہم نے بنایا اس کو جو کچھ اوپر زمین کے ہے زینت اس کے لیےتاکہ ہم آزمائیں انھیں کہ کون ان میں سے زیادہ اچھا ہے عمل میں (7) اور بلاشبہ ہم البتہ بنا ڈالنے والے ہیں اس کو جو کچھ اوپر اس (زمین) کے ہے صاف چٹیل میدان (8)
#
{7} يخبر تعالى أنه جعل جميع ما على وجه الأرض من مآكل لذيذةٍ ومشاربَ وملابسَ طيبةٍ وأشجارٍ وأنهارٍ وزروع وثمارٍ ومناظرَ بهيجةٍ ورياضٍ أنيقةٍ وأصواتٍ شجيَّةٍ وصورٍ مليحةٍ وذهبٍ وفضةٍ وخيلٍ وإبلٍ ونحوها؛ الجميع جعله الله زينةً لهذه الدار فتنةً واختباراً؛ {لِنَبْلُوَهم أيُّهم أحسنُ عملاً}؛ أي: أخلصه وأصوبه.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کو، لذت بھرے ماکولات و مشروبات، خوبصورت ملبوسات، اشجار و انہار، کھیتیوں ، باغات، دلفریب مناظر، خوش منظر باغیچوں ، سحر انگیز آوازوں ، خوبصورت چہروں ، سونے چاندی، اونٹوں اور گھروں ، ان سب کو دنیا کی زینت، فتنہ اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ ﴿ لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ’’تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ کون ان میں اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘ یعنی کون زیادہ خالص اور زیادہ صحیح اعمال پیش کرتا ہے ۔
#
{8} ومع ذلك سيجعلُ الله جميع هذه المذكورات فانيةً مضمحلَّةً وزائلةً منقضيةً، وستعود الأرض {صعيداً جُرزاً}: قد ذهبت لذَّاتها وانقطعتْ أنهارُها واندرستْ آثارُها وزال نعيمُها. هذه حقيقة الدُّنيا، قد جلاَّها الله لنا كأنَّها رأي عين، وحذَّرنا من الاغترار بها، ورغَّبنا في دارٍ يدوم نعيمها ويسعدُ مقيمها، كلُّ ذلك رحمةً بنا، فاغترَّ بزُخْرُفِ الدُّنيا وزينتها مَنْ نَظَرَ إلى ظاهر الدُّنيا دون باطنها، فصحبوا الدُّنيا صحبة البهائم، وتمتَّعوا بها تمتُّع السوائم، لا ينظُرون في حقِّ ربِّهم، ولا يهتمُّون لمعرفته، بل همُّهم تناول الشهوات من أيِّ وجهٍ حصلت وعلى أيِّ حالةٍ اتَّفقت؛ فهؤلاء إذا حضر أحدَهم الموتُ، قلق لخراب ذاتِهِ وفوات لذَّاتِهِ، لا لما قدَّمت يداه من التفريط والسيئات. وأمَّا من نَظَرَ إلى باطن الدُّنيا وعلم المقصود منها ومنه؛ فإنَّه تناول منها ما يستعين به على ما خُلِقَ له، وانتهز الفرصة في عمره الشريف، فجعل الدُّنيا منزل عبورٍ لا محلَّ حبور، وشُقَّة سفرٍ لا منزل إقامةٍ، فبذل جهدَهُ في معرفة ربِّه وتنفيذ أوامره وإحسان العمل؛ فهذا بأحسن المنازل عند الله، وهو حقيقٌ منه بكلِّ كرامة ونعيم وسرورٍ وتكريم، فنظر إلى باطن الدُّنيا حين نظر المغترُّ إلى ظاهرها، وعمل لآخرتِهِ حين عملَ البطَّال لدُنياه، فشتَّان ما بين الفريقين! وما أبعد الفرقَ بين الطائفتين!
[8] اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام چیزوں کو مضمحل ہونے والی، فانی اور زائل ہو جانے والی بنایا ہے۔ عنقریب یہ زمین بے آب و گیاہ اور بنجر ہو جائے گی، اس کی تمام لذتیں ناپید ہو جائیں گی، اس کے دریا خشک ہو جائیں گے، اس کے تمام آثار مٹ جائیں گے اور اس کی نعمتیں زائل ہو جائیں گی۔ یہ ہے اس دنیا کی حقیقت، اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو ہمارے سامنے اس طرح بیان کر دیا ہے گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا سے دھوکہ کھانے سے بچنے کے لیے کہا ہے اور ہمیں اس گھر کے حصول کی ترغیب دی ہے جس کی نعمتیں دائمی اور جہاں کے رہنے والے بہت خوش بخت ہیں ۔ یہ سب کچھ ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جن لوگوں کا باطن گناہوں کے میل کچیل سے آلودہ ہے اور وہ دنیا کی ظاہری شکل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ دنیا کی زیب و زینت سے فریب کھا جاتے ہیں تب وہ دنیا میں بہائم کی طرح رہتے ہیں ، مویشیوں کی طرح اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، اپنے رب کے حق میں غور کرتے ہیں نہ اس کی معرفت کے حصول کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ان کے ارادے صرف شہوات کے حصول پر مرتکز ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی حالت میں حاصل ہوں ۔ جب ان لوگوں کی موت کا وقت آتا ہے تو انھیں اپنی ذات کے ویران ہونے اور لذتوں کے چھوٹ جانے پر بہت قلق ہوتا ہے۔ اس قلق کا سبب یہ نہیں کہ وہ کوتاہی اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اور جو اس دنیا کے باطن پر نظر ڈالتا ہے اور اسے دنیا اور خود اپنے مقاصد کا علم ہوتا ہے وہ اس دنیا سے صرف اتنا سا استفادہ کرتا ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں مدد لے سکے جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے اور اپنی عمر میں فرصت کو غنیمت جانتا ہے وہ دنیا کو راہ گزر سمجھتا ہے، آرام کی منزل نہیں ۔ وہ اسے انتہائی دشوار اور تکلیف دہ سفر سمجھتا ہے، عیش و آرام کا گھر نہیں ۔ پس وہ اپنے رب کی معرفت کے حصول اس کے احکام کے نفاذ اور اپنے اعمال کو مقام احسان پر پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کرتا ہے۔ یہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین منازل میں قیام کرے گا وہ ہر قسم کے اکرام و تکریم، نعمتوں اور مسرتوں کا مستحق ہو گا۔ جب فریب خوردہ لوگ دنیا کے ظاہر کو دیکھتے تھے تو اس شخص کی نظر دنیا کے باطن پر تھی، جب لوگ حصول دنیا کے لیے کام کرتے تھے تو یہ اپنی آخرت کے لیے کام کرتا تھا۔ دونوں فریقوں میں بہت بڑا فرق اور دونوں گروہوں کے درمیان بہت بڑا تفاوت ہے۔
آیت: 9 - 12 #
{أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (9) إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (10) فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (11) ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا (12)}.
کیا خیال کیا ہے آپ نے کہ بلاشبہ غار اور رقیم والے، تھے وہ ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب (نشانی)؟ (9)جب پناہ لی ان نوجوانوں نے غار کی طرف تو انھوں نے کہا، ہمارے رب! تو دے ہمیں اپنی طرف سے رحمت اورآسان کر دے ہمارے لیے ہمارے کام میں بھلائی کا راستہ (10) پس ڈال دیا ہم نے ان کے کانوں پر (پردہ)، غار میں کئی سال تک گنتی کے (11) پھر اٹھایا ہم نے ان کو تاکہ جان لیں ہم کہ کون دو گروہوں میں سے زیادہ یاد رکھنے والا ہے، اس کو کہ ٹھہرے رہے وہ اس مدت تک (12)
#
{9} وهذا الاستفهام بمعنى النفي والنهي؛ أي: لا تظنَّ أنَّ قصَّة أصحاب الكهف وما جرى لهم غريبةٌ على آيات الله وبديعةٌ في حكمته، وأنَّه لا نظير لها ولا مجانس لها، بل لله تعالى من الآيات العجيبة الغريبة ما هو كثيرٌ من جنس آياتِهِ في أصحاب الكهف وأعظم منها، فلم يزل الله يُري عباده من الآيات في الآفاق وفي أنفسهم ما يتبيَّن به الحقُّ من الباطل والهدى من الضلال. وليس المراد بهذا النفي عن أن تكون قصَّة أصحاب الكهف من العجائب، بل هي من آيات الله العجيبة، وإنَّما المرادُ أن جنسها كثيرٌ جدًّا؛ فالوقوف معها وحدها في مقام العَجَبِ والاستغراب نقصٌ في العلم والعقل، بل وظيفةُ المؤمن التفكُّر بجميع آيات الله التي دعا الله العبادَ إلى التفكُّر فيها؛ فإنَّها مفتاحُ الإيمان وطريقُ العلم والإيقان. وإضافتهم إلى الكهف الذي هو الغارُ في الجبل، {والرقيم}؛ أي: الكتاب الذي قد رُقِمَتْ فيه أسماؤهم وقصَّتُهم لملازمتهم له دهراً طويلاً.
[9] یہ استفہام، نفی اور نہی کے معنیٰ میں ہے، یعنی اصحاب کہف کے قصہ اور ان کے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے انہونی بات، اس کی حکمت میں انوکھا واقعہ نہ سمجھو اور نہ یہ سمجھو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار تعجب خیز معجزات ہیں جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں ۔ نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس سے اور بہت سے معجزات ہیں ، اس لیے صرف اس ایک معجزے پر تعجب کے ساتھ ٹھہر جانا علم و عقل میں نقص ہے۔ بندۂ مومن کا وظیفہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان تمام آیات میں غور و فکر کرے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے کیونکہ غور و فکر ایمان کی کلید اور علم و ایقان کا راستہ ہے۔ اصحاب کہف کو (الکہف) اور (الرقیم) کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ کہف سے مراد پہاڑ کے اندر ایک غار ہے اور رقیم سے مراد کتبہ ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کا واقعہ درج تھا کہ وہ طویل زمانے تک اس غار میں پڑے رہے ہیں ۔
#
{10} ثم ذكر قصَّتهم مجملةً فصَّلها بعد ذلك فقال: {إذ أوى الفتيةُ}؛ أي: الشباب {إلى الكهف}: يريدون بذلك التحصُّن والتحرُّز من فتنة قومهم لهم، {فقالوا ربَّنا آتنا من لدُنك رحمةً}؛ أي: تُثَبِّتنا بها وتحفظُنا من الشرِّ وتوفِّقنا للخير، {وهيِّئ لنا من أمرِنا رَشَداً}؛ أي: يسِّر لنا كلَّ سببٍ موصل إلى الرشد، وأصلحْ لنا أمر ديننا ودُنيانا؛ فجمعوا بين السعي والفرار من الفتنة إلى محلٍّ يمكن الاستخفاء فيه، وبين تضرُّعهم وسؤالهم لله تيسير أمورهم وعدم اتِّكالهم على أنفسهم وعلى الخلق.
[10] اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ نہایت مجمل طور پرذکر کیااور پھر اس کی تفصیل بیان کی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ ﴾ ’’جب جا بیٹھے وہ نوجو ان غار میں ‘‘ اور یہ نوجوان اس غار میں پناہ گزین ہو کر اپنی قوم کی تعذیب اور فتنے سے بچنا چاہتے تھے۔ ﴿ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ﴾ ’’پس انھوں نے کہا، اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے‘‘ یعنی اپنی رحمت کے ذریعے سے ہمیں ثابت قدمی عطا کر، شر سے محفوظ رکھ اور ہمیں نیکی کی توفیق دے۔ ﴿ وَّهَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ﴾ ’’اور ہمارے کام میں درستی پیدا کر۔‘‘ یعنی رشد و ہدایت تک پہنچانے والا ہر راستہ ہمارے لیے آسان فرما دے اور ہمارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کر۔ پس وہ کوشش کے ساتھ اپنی قوم کی تعذیب اور فتنہ سے فرار ہو کر ایسے محل و مقام کی طرف بھاگے جہاں ان کے لیے چھپنا ممکن تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور اپنے نفس اور مخلوق پر بھروسہ كيے بغیر، اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے آسانی کا سوال کرتے رہے۔
#
{11} فلذلك استجاب الله دعاءهم، وقيَّض لهم ما لم يكن في حسابهم؛ قال: {فضَرَبْنا على آذانهم في الكهف}؛ أي: أنمناهم {سنينَ عدداً}: وهي ثلاثمائة سنة وتسع سنين، وفي النوم المذكور حفظٌ لقلوبهم من الاضطراب والخوف وحفظٌ لهم من قومهم، [وليكون آية بينة].
[11] اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ان کے لیے ایک ایسا امر مقررکر دیا جو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ فرمایا: ﴿ فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ ﴾ ’’پس تھپک دیے ہم نے ان کے کان اس غار میں ‘‘ یعنی ہم نے انھیں سلا دیا ﴿ سِنِیْنَ عَدَدًا﴾ ’’چند سال گنتی کے‘‘ اور یہ تین سو نو سال کا عرصہ ہے۔ اس نیند میں ان کے دلوں کے لیے اضطراب اور خوف سے اور ان کی قوم سے حفاظت تھی۔
#
{12} {ثم بعثْناهم}؛ أي: من نومهم، {لنعلم أيُّ الحزبينِ أحصى لما لَبِثوا أمداً}؛ أي: لنعلم أيُّهم أحصى لمقدار مدَّتهم؛ كما قال تعالى: {وكذلك بَعَثْناهم ليتساءلوا بينهم ... } الآية، وفي العلم بمقدار لَبْثِهِم ضبطٌ للحساب، ومعرفةٌ لكمال قدرة الله تعالى وحكمتِهِ ورحمتِهِ؛ فلو استمرُّوا على نومهم؛ لم يحصُل الاطلاع على شيء من ذلك من قصتهم.
[12] ﴿ ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ ﴾ ’’پھر ہم نے ان کو اٹھایا‘‘ یعنی پھر ہم نے ان کو ان کی نیند سے بیدار کیا ﴿ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰؔى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا ﴾ ’’تاکہ ہم جانیں کہ دونوں گروہوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے وہ مدت، جس میں وہ ٹھہرے رہے‘‘ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ ان میں سے اپنی مدت کی مقدار کو کون ٹھیک طرح سے شمار کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ ﴾ (الکہف : 18؍19) ’’اور اس طرح ہم نے انھیں دوبارہ اٹھایا تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں ۔‘‘ یعنی اپنے سوئے رہنے کی مدت کی مقدار، ضبط حساب اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ، اس کی حکمت اور رحمت کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں … اور اگر وہ دائمی طور پر سوئے رہتے تو ان کے واقعہ کی کسی کو کوئی اطلاع نہ ہوتی۔
آیت: 13 - 14 #
{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى (13) وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا (14)}.
ہم بیان کرتے ہیں آپ پر حال ان کا ساتھ حق کے، بے شک وہ چند نوجوان تھے ایمان لائے تھے وہ ساتھ اپنے رب کےاور زیادہ کیا تھا ہم نے ان کوہدایت میں (13) اور مضبوط کر دیا ہم نے ان کے دلوں کو، جب کھڑے ہوئے وہ تو کہا انھوں نے، ہمارا رب تو رب ہے آسمانوں اور زمین کا، ہرگز نہیں پکاریں گے ہم سوائے اس کے کسی اور معبود کو البتہ تحقیق کہی ہم نے اس وقت ظلم و زیادتی والی بات (14)
#
{13} هذا شروعٌ في تفصيل قصَّتهم، وأنَّ الله يقصُّها على نبيِّه بالحقِّ والصدق الذي ما فيه شكٌّ ولا شبهةٌ بوجه من الوجوه. {إنَّهم فتيةٌ آمنوا بربِّهم}: وهذا من جموع القلَّة، يدلُّ ذلك على أنَّهم دون العشرة، آمنوا بالله وحدَه لا شريك له من دون قومهم، فشكر اللهُ لهم إيمانَهم، فزادهم هدىً؛ أي: بسبب أصل اهتدائهم إلى الإيمان زادهم الله من الهدى الذي هو العلم النافع والعمل الصالح؛ كما قال تعالى: {ويزيدُ الله الذين اهتَدَوْا هدىً}.
[13] یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصے کو حق اور صداقت کے ساتھ اپنے نبیe پر بیان کرتا ہے جس میں کسی لحاظ سے کوئی شک و شبہ نہیں ۔ ﴿ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے‘‘ (فِتْیَۃٌ)جمع قلت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ نوجوان تعداد میں دس سے کم تھے۔ وہ اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے مگر ان کی قوم ایمان نہ لائی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی قدر کی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے راہ ایمان پر گامزن ہونے کے سبب سے ان کی ہدایت کو اور زیادہ کر دیا۔ ہدایت سے مراد علم نافع اور عمل صالح ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى ﴾ (مریم : 19؍76) ’’جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی راست روی اور زیادہ بڑھاتا ہے۔‘‘
#
{14} {وربطنا على قلوبهم}؛ أي: صبَّرناهم وثبَّتناهم وجعلنا قلوبهم مطمئنَّة في تلك الحالة المزعجة، وهذا من لطفِهِ تعالى بهم وبرِّه أنْ وفَّقهم للإيمان والهدى والصبر والثبات والطمأنينة. {إذْ قاموا فقالوا ربُّنا ربُّ السمواتِ والأرض}؛ أي: الذي خَلَقَنا ورَزَقَنا ودبَّرنا وربَّانا هو خالق السماواتِ والأرض، المنفرد بخلق هذه المخلوقات العظيمة، لا تلك الأوثان والأصنام، التي لا تَخْلُق ولا ترزُقُ ولا تملِكُ نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، فاستدلوا بتوحيد الربوبيَّة على توحيد الإلهيَّة. ولهذا قالوا: {لن نَدْعُوَ من دونِهِ إلهاً}؛ أي: من سائر المخلوقات، {لقد قُلْنا إذاً} ـ أي: إن دَعَوْنا معه آلهةً بعدما علمنا أنَّه الربُّ الإله الذي لا تجوز ولا تنبغي العبادة إلاَّ له ـ {شططاً}؛ أي: ميلاً عظيماً عن الحقِّ، وطريقاً بعيدة عن الصواب، فجمعوا بين الإقرار بتوحيد الربوبيَّة وتوحيد الإلهيَّة والتزام ذلك وبيان أنَّه الحقُّ وما سواه باطلٌ، وهذا دليلٌ على كمال معرفتهم بربِّهم وزيادة الهدى من الله لهم.
[14] ﴿وَّرَبَطْنَا عَلٰى قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’اور گرہ لگا دی ہم نے ان کے دلوں پر‘‘ یعنی ہم نے انھیں صبر عطا کیا اور ان کو ثابت قدم رکھا اور ان کو اس انتہائی پریشان کن حالت میں اطمینان قلب سے نوازا۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو ایمان اور ہدایت کی توفیق عطا کی اور ان کو صبر و ثبات اور طمانیت قلب سے نوازا۔ ﴿ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’جب وہ کھڑے ہوئے، پس انھوں نے کہا ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے‘‘ یعنی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری پرورش کی اور جو ہمیں رزق عطا کرتا ہے اور ہماری تدبیر کرتا ہے وہی تمام کائنات کو پیدا کرنے والا ہے۔ وہ ان عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ یہ بت اور خود ساختہ معبود اس کائنات کے خالق نہیں ہیں جو کسی چیز کو پیدا کر سکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں ، وہ کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات کے اور نہ موت کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں ۔ پس انھوں نے توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کیا اور کہا: ﴿ لَ٘نْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا ﴾ ’’ہم اس کے سوا کسی کو معبود نہ پکاریں گے۔‘‘ یعنی ہم تمام مخلوقات میں سے کسی کو الہ نہیں بنائیں گے۔ ﴿لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذً ﴾ ’’تحقیق کہی ہم نے بات اس وقت‘‘ یعنی یہ جان لینے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہمارا پروردگار اور معبود حقیقی ہے اس کے سوا کسی اور کے لیے عبادت جائز ہے نہ مناسب ہے ﴿ شَطَطًا ﴾ ’’عقل سے دور‘‘ یعنی حق و صواب سے دور۔ پس انھوں نے توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کے اقرار اور التزام کو جمع کیا اور واضح کر دیا کہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اپنے رب کی مکمل معرفت حاصل تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ہدایت عطا کی گئی تھی۔
آیت: 15 #
{هَؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا (15)}.
یہ ہماری قوم، بنا لیے ہیں انھوں نے سوائے اللہ کے کئی معبود، کیوں نہیں لاتے وہ ان (کی عبادت) پر کوئی دلیل واضح؟ پس کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے باندھا اوپر اللہ کے جھوٹ؟ (15)
#
{15} لما ذكروا ما مَنَّ الله به عليهم من الإيمان والهدى والتقوى؛ التفتوا إلى ما كان عليه قومُهم من اتِّخاذ الآلهة من دون الله، فمقتوهم، وبيَّنوا أنهم ليسوا على يقينٍ من أمرهم، بل هم في غاية الجهل والضلال، فقالوا: {لولا يأتونَ عليهم بسلطانٍ بيِّن}؛ أي: بحجَّة وبرهان على ما هُمْ عليه من الباطل، ولا يستطيعون سبيلاً إلى ذلك، وإنَّما ذلك افتراءٌ منهم على الله وكذبٌ عليه، وهذا أعظم الظُّلم، ولهذا قال: {فمن أظْلَمُ ممَّنِ افترى على الله كَذِباً}.
[15] یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان، ہدایت اور تقویٰ سے نوازا، وہ اپنی قوم کے شرک کی طرف متوجہ ہوئے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کے نظریات پر ناراضی کا اظہار کیا اور ان پر واضح کیا کہ ان کے مشرکانہ عقائد یقین پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ جہالت اور ضلالت میں مبتلا ہیں ، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ لَوْلَا یَ٘اْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰ٘نٍۭؔ بَیِّنٍ﴾ ’’کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی واضح دلیل‘‘ یعنی وہ اپنے باطل عقائد پر کوئی حجت و برہان پیش نہیں کر سکتے نہ ان کے پاس اس کا کوئی چارہ ہے یہ تو ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان طرازی ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا﴾ ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔‘‘
آیت: 16 #
{وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرْفَقًا (16)}.
اور جب الگ ہو گئے ہو تم ان سے اور جن کی وہ عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے تو پناہ لو تم اس غار کی طرف، پھیلا دے گا تم پر تمھارا رب اپنی رحمت اورمہیا کر دے گا تمھارے لیے تمھارے کام میں آسانی (16)
#
{16} أي: قال بعضهم لبعض: إذ حَصَلَ لكم اعتزالُ قومكم في أجسامكم وأديانكم؛ فلم يَبْقَ إلاَّ النجاء من شرِّهم والتسبُّب بالأسباب المفضية لذلك؛ لأنَّه لا سبيل لهم إلى قتالهم ولا بقائهم بين أظهرهم وهم على غير دينهم. {فأوُوا إلى الكهفِ}؛ أي: انضمُّوا إليه واختفوا فيه، {يَنْشُرْ لكم ربُّكم من رحمتِهِ ويهيِّئْ لكم من أمرِكُم مِرْفَقاً}: وفيما تقدَّم أخبر أنهم دَعَوْه بقولهم: {ربَّنا آتنا من لَدُنْكَ رحمةً وهَيِّئ لنا من أمرنا رَشَداً}؛ فجمعوا بين التبرِّي من حولهم وقوَّتهم والالتجاء إلى الله في صلاح أمرهم ودعائه بذلك، وبين الثقة بالله أنه سيفعل ذلك، لا جَرَمَ أنَّ الله نَشَرَ لهم من رحمتِهِ وهيَّأ لهم من أمرهم مِرْفَقاً؛ فحفظ أديانهم وأبدانهم، وجعلهم من آياته على خلقه، ونشر لهم من الثناء الحسن ما هو من رحمته بهم، ويسَّر لهم كلَّ سبب، حتَّى المحلَّ الذي ناموا فيه كان على غايةِ ما يمكنُ من الصيانة؛ ولهذا قال:
[16] یعنی انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ چونکہ تم جسمانی اور دینی طور پر اپنی قوم سے الگ ہو گئے ہو، اس لیے اب ان کے شر سے نجات پانا اور اس کے لیے اسباب اختیار کرنا باقی ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں نہ اس بنا پر ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں کہ ان کا دین ان کی قوم کے دین سے مختلف ہے۔ ﴿فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ ﴾ ’’پس جگہ پکڑ و غار کی طرف‘‘ یعنی غار میں جا کر چھپ جاؤ۔ ﴿ یَنْشُ٘رْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَیُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا﴾ ’’پھیلا دے گا تم پر تمھارا رب اپنی رحمت اور مہیا کرے گا تمھیں تمھارے کام میں آسانی‘‘ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس دعا کے بارے میں خبر دی تھی۔ ﴿ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا﴾ انھوں نے اپنی قوت و اختیار سے براء ت کا اظہار کیا، اپنے معاملے کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کے حضور ملتجی ہوئے اور اس پر بھروسہ کیا کہ وہ ان کے معاملے کی اصلاح کرے گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی بے پایاں رحمت سے ڈھانپ لیا اور ان کے معاملے میں آسانی پیدا کر دی۔ ان کی زندگی اور ان کے دین کی حفاظت کی اور خلائق کے لیے انھیں ایک بڑا معجزہ بنا دیا اور ان کی ثنائے حسن کو دنیا میں پھیلا دیا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ان کے لیے ہر سبب آسان کر دیا حتیٰ کہ وہ جگہ جہاں وہ سوتے رہے ممکن حد تک محفوظ تھی۔
آیت: 17 - 18 #
{وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا (17) وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا (18)}.
اور تو دیکھے گا سورج کو، جب طلوع ہوتا ہے وہ تو جھک (ہٹ) جاتا ہے ان کے غار سے دائیں طرف کواور جب غروب ہوتا ہے وہ تو کترا (کر نکل) جاتا ہے ان کی بائیں طرف سےاور وہ کھلی جگہ میں ہیں اس (غار) سے، یہ (واقعہ) نشانیوں میں سے ہے اللہ کی، جسے ہدایت دے اللہ تو وہی ہے ہدایت پانے والااور جسے وہ گمراہ کر دے تو ہرگز نہیں پائیں گے آپ اس کے لیے کوئی دوست راہ نمائی کرنے والا (17) اور آپ خیال کریں گے انھیں بیدار حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم کروٹیں بدلتے ہیں ان کی دائیں طرف اور بائیں طرف اور کتا ان کا پھیلائے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دہلیز پر، اگر آپ جھانکیں ان پر تو آپ پیٹھ پھیر لیں ان سے بھاگتے ہوئے اور بھر جائے آپ میں ان کی دہشت (18)
#
{17} أي: حفظهم الله من الشمس، فيسَّر لهم غاراً إذا طلعت الشمسُ؛ تميلُ عنه يميناً، وعند غروبها تميلُ عنه شمالاً؛ فلا ينالُهم حرُّها فتفسدُ أبدانُهم بها. {وهم في فجوةٍ منه}؛ أي: من الكهف؛ أي: مكان متَّسع، وذلك ليطرُقَهم الهواءُ والنسيمُ، ويزولُ عنهم الوخم والتأذِّي بالمكان الضيِّق، خصوصاً مع طول المكث، و {ذلك من آيات الله}: الدالَّة على قدرته ورحمته وإجابة دعائهم وهدايتهم حتى في هذه الأمور، ولهذا قال: {مَن يَهْدِ الله فهو المهتدِ}؛ أي: لا سبيل إلى نيل الهداية إلاَّ من الله؛ فهو الهادي المرشدُ لمصالح الدارين. {ومَن يُضْلِلْ فلن تَجِدَ له وليًّا مرشداً}؛ أي: لا تجد من يتولاَّه ويدبِّره على ما فيه صلاحُه، ولا يرشِدُه إلى الخير والفلاح؛ لأنَّ الله قد حَكَمَ عليه بالضَّلال، ولا رادَّ لحكمِهِ.
[17] یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج کی تمازت سے ان کی حفاظت کی۔ انھیں ایک ایسا غار مہیا کیا کہ جب سورج طلوع ہوتا تو اس کی دائیں طرف سے گزر جاتا اور جب غروب ہوتا تو اس کی بائیں طرف سے گزر جاتا اس طرح سورج کی تمازت ان تک نہ پہنچ پاتی، جو ان کے ابدان کو خراب کرتی۔ ﴿ وَهُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّؔنْهُ﴾ ’’اور وہ اس کے میدان میں تھے۔‘‘ یعنی وہ غار کے اندر ایک کھلی جگہ میں لیٹے ہوئے تھے تاکہ وہاں تازہ ہوا کا گزر ہو اور یوں وہ گھٹن اور بدن کے خراب ہونے سے بچے رہیں خاص طور پر جبکہ انھوں نے طویل عرصہ تک پڑے رہنا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے جو اس کی قدرت اور رحمت پر دلالت کرتی ہے، نیز ان کی دعا کے قبول ہونے اور ان کے ہدیت یافتہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ﴾ ’’جس کو ہدایت دے اللہ، پس وہی ہدایت پر ہے‘‘ یعنی اللہ کے سوا ہدایت کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ، دین و دنیا کے مصالح کے لیے اللہ تعالیٰ ہی ہادی اور راہنما ہے۔ ﴿ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَ٘نْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا﴾ ’’اور جس کو وہ گمراہ کر دے، پس آپ اس کے لیے ہرگز رہنمائی کرنے والا رفیق نہیں پائیں گے۔‘‘ یعنی آپ کوئی ایسی ہستی نہیں پائیں گے جو اس کی سرپرستی کرے اور اس کے معاملے کی اس طرح تدبیر کرے جو اس کے لیے درست ہے اور نہ کوئی ایسی ہستی پائیں گے جو نیکی اور فلاح کی طرف اس کی راہ نمائی کر سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گمراہی کا فیصلہ کر دیا ہے اور اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔
#
{18} {وتحسبهم أيقاظاً وهم رقودٌ}؛ أي: تحسبهم أيها الناظر إليهم كأنَّهم أيقاظٌ، والحالُ أنَّهم نيامٌ. قال المفسرون: وذلك لأنَّ أعينَهم منفتحةٌ لئلاَّ تفسدَ؛ فالناظرُ إليهم يحسبهم أيقاظاً وهم رقودٌ. {ونقلِّبُهم ذات اليمين وذات الشمال}: وهذا أيضاً من حفظه لأبدانهم؛ لأنَّ الأرض من طبيعتها أكلُ الأجسام المتَّصلة بها؛ فكان من قَدَرِ الله أن قلَّبهم على جنوبِهِم يميناً وشمالاً بقدر ما لا تُفْسِدُ الأرض أجسامهم، والله تعالى قادرٌ على حفظهم من الأرض من غير تقليبٍ، ولكنَّه تعالى حكيمٌ، أراد أن تجرِيَ سنَّته في الكون ويربُطَ الأسباب بمسبّباتها. {وكلبُهُم باسطٌ ذراعية بالوصيد}؛ أي: الكلب الذي كان مع أصحابِ الكهف أصابَهُ ما أصابَهم من النوم وقتَ حراستِهِ، فكان باسطاً ذراعيه بالوصيد؛ أي: الباب أو فنائه. هذا حفظُهم من الأرض، وأما حفظُهم من الآدميين؛ فأخبر أنَّه حماهم بالرُّعب الذي نَشَرَهُ الله عليه؛ فلو اطَّلع عليهم أحدٌ؛ لامتلأ قلبه رعباً وولَّى منهم فراراً، وهذا الذي أوجب أن يبقَوْا كلَّ هذه المدَّة الطويلة وهم لم يعثر عليهم أحدٌ مع قربهم من المدينة جدًّا، والدليل على قربهم أنَّهم لما استيقظوا؛ أرسلوا أحدَهم يشتري لهم طعاماً من المدينة، وبقوا في انتظاره، فدلَّ ذلك على شدَّة قربهم منها.
[18] ﴿وَتَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌؔ﴾ ’’اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں ۔‘‘ یعنی اے ان کی طرف دیکھنے والے شخص! تجھے ان کے بارے میں یوں لگے گا جیسے کہ وہ جاگ رہے، حالانکہ وہ سو رہے ہیں ۔ مفسرین کہتے ہیں: اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں تاکہ خراب نہ ہوں ، اس لیے ان کو دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ محو خواب تھے۔ ﴿ وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ﴾ ’’اور کروٹیں دلاتے ہیں ہم ان کو دائیں اور بائیں جانب۔‘‘ یہ انتظام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جسموں کی حفاظت کے لیے تھا کیونکہ یہ زمین کی خاصیت ہے کہ جو چیز اس کے ساتھ پیوست رہتی ہے یہ اس کو کھا جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تھی کہ وہ ان کو دائیں پہلو پر اور کبھی بائیں پہلو پر پلٹتا رہتا تھا تاکہ زمین ان کے جسم کو خراب نہ کرے اور اللہ تعالیٰ تو اس پر بھی قادر ہے کہ وہ ان کے پہلوؤں کو ادل بدل كيے بغیر ہی ان کے جسموں کی حفاظت کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس نے ارادہ فرمایا کہ وہ اس تکوینی قوانین میں اپنی سنت کو جاری و ساری کرے اور اسباب کو ان کے مسببات کے ساتھ مربوط کرے۔ ﴿ وَكَلْبُهُمْ بَ٘اسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ﴾ ’’اور ان کا کتا اپنے بازو پھیلائے ہوئے تھا چوکھٹ پر‘‘ یعنی وہ کتا جو اصحاب کہف کے ساتھ تھا ان کی چوکیداری کے وقت، اس پر بھی وہی نیند طاری ہوئی جو ان پر طاری ہو گئی تھی وہ اس وقت اپنی اگلی ٹانگیں زمین پر بچھائے غار کے دہانے پر بیٹھا تھا یا وہ غار میں کھلی جگہ پر بیٹھا تھا، یہ انتظام توان کو زمین سے بچانے کے لیے تھا۔ رہا لوگوں سے ان کی حفاظت کرنا تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ رعب کے ذریعے سے ان کی حفاظت کی جو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہیئت میں رکھ دیا تھا۔ اگر کوئی شخص غار کے اندر جھانک کر دیکھے تو اس کا دل رعب سے بھر جائے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے۔ یہی وہ چیز تھی جو اس امر کی موجب تھی کہ وہ طویل مدت تک صحیح سلامت باقی رہیں ۔ اور شہر سے بہت قریب ہونے کے باوجود کسی کو ان کے بارے میں علم نہ ہوا اور شہر سے ان کے قرب کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ شہر سے کھانا خرید کر لائے اور دوسرے لوگ اس کا انتظار کرتے رہے یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ شہر ان سے بہت قریب تھا۔
آیت: 19 - 20 #
{وَكَذَلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا (19) إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا (20)}.
اور اسی طرح دوبارہ اٹھایا ہم نے ان کو تاکہ وہ سوال کریں آپس میں ، کہا ایک کہنے والے نے ان میں سے، کتنا (عرصہ) ٹھہرے ہو تم؟ انھوں نے کہا، ٹھہرے ہیں ہم ایک دن یا کچھ حصہ دن کا، انھوں نے کہا، تمھارا رب خوب جانتا ہے جتنا ٹھہرے ہو تم، پس بھیجو تم اپنے ایک آدمی کو ساتھ اپنی اس چاندی کے، شہر کی طرف، پس چاہیے کہ دیکھے وہ کون سا ان میں زیادہ پاکیزہ ہے کھانا، پھر چاہیے کہ لے آئے وہ تمھارے پاس کھانا اس میں سےاور چاہیے کہ وہ نرمی (سے بات) کرےاور نہ آگاہ کر دے وہ تمھارے معاملے سے کسی کو (19) بلاشبہ وہ اگر مطلع ہو گئے تم پر تو سنگسار کر دیں وہ تمھیں یا لوٹا دیں گے تم کو اپنے دین میں اور ہرگز نہیں فلاح پاؤ گے تم اس وقت کبھی بھی (20)
#
{19} يقول تعالى: {وكذلك بَعَثْناهم}: من نومهم الطويل، {ليتساءلوا بينَهم}؛ أي: ليتباحثوا للوقوف على الحقيقة من مدَّة لبثهم. {قال قائلٌ منهم كم لبِثْتُم قالوا لَبِثنا يوماً أو بعض يوم}: وهذا مبنيٌّ على ظنِّ القائل، وكأنَّهم وقع عندهم اشتباهٌ في طول مدَّتهم؛ فلهذا {قالوا ربُّكم أعلمُ بما لَبِثْتُم}: فردُّوا العلم إلى المحيط علمُهُ بكلِّ شيءٍ جملةً وتفصيلاً، ولعلَّ الله تعالى بعد ذلك أطلعهم على مدَّة لبثهم؛ لأنَّه بَعَثَهم ليتساءلوا بينَهم، وأخبر أنَّهم تساءلوا وتكلَّموا بمبلغ ما عندَهم وصار آخر أمرهم الاشتباه؛ فلا بدَّ أن يكون قد أخبرهم يقيناً؛ عَلِمْنا ذلك من حكمته في بعثهم، وأنه لا يفعل ذلك عبثاً، ومن رحمته بمن طلبَ علم الحقيقة في الأمور المطلوب علمُها وسعى لذلك ما أمكنه؛ فإن الله يوضِّح له ذلك، وبما ذَكرَ فيما بعده من قوله: {وكذلك أعْثَرْنا عليهم ليَعْلَموا أنَّ وعد الله حقٌّ وأنَّ الساعةَ لا رَيْبَ فيها}؛ فلولا أنَّه حصل العلم بحالهم؛ لم يكونوا دليلاً على ما ذكر. ثم إنَّهم لما تساءلوا بينهم، وجرى منهم ما أخبر الله به؛ أرسلوا أحدَهم بوَرِقِهم؛ أي: بالدراهم التي كانت معهم؛ ليشتري لهم طعاماً يأكلونه من المدينة التي خرجوا منها، وأمروه أن يتخيَّر من الطعام أزكاه؛ أي: أطيبه وألذَّه، وأن يتلطَّف في ذهابه وشرائه وإيابه، وأن يختفي في ذلك، ويُخفي حال إخوانه، ولا يُشْعِرَنَّ بهم أحداً.
[19] ﴿ وَؔكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے ان کو ان کی طویل نیند سے بیدار کیا ﴿ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ﴾ ’’تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں ۔‘‘ یعنی سونے کی مدت کے بارے میں حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھیں ۔ ﴿ قَالَ قَآىِٕلٌ مِّؔنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ﴾ ’’ان میں سے ایک نے کہا، تم کتنی مدت ٹھہرے؟ انھوں نے کہا، ہم ٹھہرے ایک دن یا ایک دن سے کم۔‘‘ یہ قائل کے ظن پر مبنی ہے گویا ان کواپنی مدت کی طوالت کے بارے میں اشتباہ واقع ہو گیا تھا، اس لیے ﴿ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ﴾ ’’انھوں نے کہا تمھارا رب ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے‘‘ پس انھوں نے اپنے علم کو اس ہستی کی طرف لوٹا دیا جس کا علم اجمالاً اور تفصیلاً ہر چیز کا احاطہ كيے ہوئے ہے۔ شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے ان کو مطلع کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیاتھا تاکہ وہ اس مدت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انھوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور اپنے اپنے مبلغ علم کے مطابق انھوں نے کلام کیا اور ان کی آپس میں بحث کا نتیجہ یہ رہا کہ ان کے سونے کی مدت کا معاملہ مشتبہ ہی رہا۔ یہ لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یقینی طور پر آگاہ کیا ہو گا اور ہمیں یہ بات ان کے بیدار كيے جانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے معلوم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو کوئی ان معاملات میں حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے جن کا جاننا مطلوب ہے اور اس کے لیے امکان بھر کوشش بھی کرتا ہے تواللہ تعالیٰ ان معاملات کو اس پر واضح کر دیتا ہے اور بعد میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ﴿ وَؔكَذٰلِكَ اَعْثَ٘رْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا﴾ (الکہف:18؍21) ’’اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور بے شک قیامت کی گھڑی ضرور آئے گی۔‘‘ اگر ان کے حال کے بارے میں آگاہی نہ ہوئی ہوتی تو ان کے لیے مذکورہ واقعہ میں کوئی دلیل نہ ہوتی، پھر جب انھوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور ان کے درمیان وہ سوال جواب ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تو انھوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کچھ سکے، یعنی دراہم دے کر، جو ان کے پاس تھے، کھانا خرید کر لانے کے لیے اس شہر میں بھیجا جہاں سے وہ نکل کر آئے تھے اور اس سے کہا کہ وہ اچھا اور لذیذ ترین کھانا منتخب کر کے لائے، نیز وہ اپنے شہر جانے، کھانا خریدنے اور واپس لوٹنے میں ایسا نرم رویہ اختیار کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی چھپائے اور اپنے بھائیوں کے حال کو بھی مخفی رکھے اور کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔
#
{20} وذكروا المحذور من اطِّلاع غيرهم عليهم وظهورهم عليهم أنَّهم بين أمرين: إما الرَّجم بالحجارة فيقتلونهم أشنع قِتلة لِحِنْقهم عليهم وعلى دينهم، وإما أن يفتنوهم عن دينهم ويردُّوهم في ملَّتهم، وفي هذه الحال لا تفلحون أبداً، بل يخسرون في دينهم ودُنياهم وأخراهم. وقد دلَّت هاتان الآيتان على عدة فوائد: منها: الحثُّ على العلم وعلى المباحثة فيه؛ لكون الله بعثهم لأجل ذلك. ومنها: الأدب فيمن اشتبه عليه العلم أن يردَّه إلى عالمه، وأن يَقِفَ عند حدِّه. ومنها: صحة الوكالة في البيع والشراء وصحَّة الشركة في ذلك. ومنها: جواز أكل الطيِّبات والمطاعم اللَّذيذة إذا لم تخرُجْ إلى حدِّ الإسراف المنهيِّ عنه؛ لقوله: {فَلْيَنظُرْ أيُّها أزكى طعاماً فليأتِكُم برزقٍ منه}: وخُصوصاً إذا كان الإنسان لا يلائمه إلا ذلك، ولعلَّ هذا عمدة كثير من المفسِّرين القائلين بأنَّ هؤلاء أولاد ملوك؛ لكونهم أمروه بأزكى الأطعمة التي جرت عادة الأغنياء الكبار بتناولها. ومنها: الحثُّ على التحرُّز والاستخفاء والبعد عن مواقع الفتن في الدين واستعمال الكِتْمان في ذلك على الإنسان وعلى إخوانه في الدين. ومنها: شدة رغبة هؤلاء الفتية في الدين وفرارهم من كلِّ فتنةٍ في دينهم وتركُهم أوطانَهم في الله. ومنها: ذِكْر ما اشتمل عليه الشرُّ من المضارِّ والمفاسد الداعية لبغضِهِ وتركِهِ، وأنَّ هذه الطريقة هي طريقة المؤمنين المتقدِّمين والمتأخِّرين؛ لقولهم: {ولن تُفْلِحوا إذاً أبداً}.
[20] ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی تو اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہو گا وہ ان دو امور میں سے ایک ہو گا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انھیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انھیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین، دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (۱) حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی کی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (۲) جب بندے پر علم مشتبہ ہو جائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (۳) خریدوفروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (۴) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَلْیَنْظُ٘رْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّؔنْهُ ﴾ ’’پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمھارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔‘‘ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں ۔ (۵) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے، چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (۶) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دین کے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انھوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔ (۷) ان آیات کریمہ میں اس شر کا ذکر ہے جو ضرر اور ان مفاسد پر مشتمل ہے جو اس کی ناپسندیدگی کا باعث اور اس کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ کہ یہ طریقہ تمام متقدمین اور متاخرین اہل ایمان کا طریقہ ہے کیونکہ اہل کہف نے کہا تھا: ﴿ وَ لَ٘نْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا ﴾ اگر وہ تمھیں اپنی ملت میں واپس لوٹا دیں تو تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے۔
آیت: 21 #
{وَكَذَلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (21)}.
اور اسی طرح مطلع کر دیا ہم نے ان پر (لوگوں کو) تاکہ وہ جان لیں کہ بلاشبہ اللہ کا وعدہ حق ہےاور بلاشبہ قیامت، نہیں کوئی شک اس میں ، جب وہ ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے باہم ان کے معاملے میں سو کہا انھوں نے، بناؤ ان پر ایک عمارت، ان کا رب خوب جانتا ہے ان کو، کہا ان لوگوں نے جو غالب آئے تھے اوپر ان کے معاملے کے، البتہ ضرور بنائیں گے ہم ان پر مسجد (21)
#
{21} يخبر تعالى أنَّه أطْلَعَ الناس على حال أهل الكهف، وذلك ـ والله أعلم ـ بعدما استيقظوا وبعثوا أحدهم يشتري لهم طعاماً وأمروه بالاستخفاء والإخفاء، فأراد الله أمراً فيه صلاحٌ للناس وزيادةُ أجرٍ لهم، وهو أنَّ الناس رأوا منهم آيةً من آيات الله المشاهَدَةِ بالعيان على أنَّ وعدَ الله حقٌّ لا شكَّ فيه ولا مِرْيةَ ولا بُعْدَ بعدما كانوا يتنازعون بينَهم أمرَهم؛ فمن مثبتٍ للوعد والجزاء ومن نافٍ لذلك، فجعل قصَّتَهم زيادةَ بصيرةٍ ويقينٍ للمؤمنين وحجَّةً على الجاحدين، وصار لهم أجرُ هذه القضيَّة، وشهَّر الله أمرهم، ورفع قدرهم، حتى عظَّمهم الذين اطَّلعوا عليهم؛ قالوا: {ابنوا عليهم بُنياناً}: الله أعلمُ بحالهم ومآلهم! وقال مَنْ غَلَبَ على أمرهم ـ وهم الذين لهم الأمرُ ـ: {لَنَتَّخِذَنَّ عليهم مسجداً}؛ أي: نعبد الله تعالى فيه ونتذكَّر به أحوالهم وما جرى لهم. وهذه الحالة محظورةٌ نهى عنها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - وذمَّ فاعليها، ولا يدلُّ ذكرها هنا على عدم ذمِّها؛ فإنَّ السياق في شأن أهل الكهف والثناء عليهم، وأنَّ هؤلاء وصلت بهم الحالُ إلى أن قالوا ابنوا عليهم مسجداً بعد خوف أهل الكهف الشديد من قومهم وحَذَرِهم من الاطِّلاع عليهم، فوصلت الحال إلى ما ترى. وفي هذه القصة دليلٌ على أنَّ من فرَّ بدينه من الفتن؛ سلَّمه الله منها، وأنَّ مَن حرص على العافية؛ عافاه الله، ومن أوى إلى الله؛ آواه الله وجعله هدايةً لغيره، ومن تحمل الذُّلَّ في سبيله وابتغاء مرضاته؛ كان آخرُ أمره وعاقتبه العز العظيم من حيث لا يحتسب، وما عند الله خيرٌ للأبرار.
[21] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اصحاب کہف کے احوال سے مطلع کیا اور یہ اطلاع یوں ہوئی (واللہ اعلم) کہ اصحاب کہف جب اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ خود اپنے آپ کو اور ان کے معاملے کو چھپائے رکھے۔ مگر اللہ تعالیٰ ایک ایسا معاملہ چاہتا تھا جس میں لوگوں کی بھلائی اور ان کے لیے زیادہ اجر تھا۔ انھوں نے اصحاب کہف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اس بات کی نشانی کا عینی مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کا وعدہ سچا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس کا آنا بعید نہیں ۔ اس سے پہلے وہ اس امر میں اختلاف کیا کرتے تھے۔ بعض لوگ قیامت اور جزائے اعمال کو مانتے تھے اور بعض اس کا انکار کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو اہل ایمان کے لیے ان کے یقین و بصیرت میں اضافے اور منکرین کے خلاف حجت و برہان کا باعث بنایا اور اس تمام قضیے کا اجر اصحاب کہف کو حاصل ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو تشہیر بخشی، ان کی قدر و منزلت بلند کی یہاں تک کہ ان لوگوں کی بھی عظمت بیان کی جو ان کے احوال پر مطلع ہوئے۔ ﴿ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا﴾ ’’پس انھوں نے کہا، بناؤ ان پر ایک عمارت۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے حال و مآل کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ وہ لوگ جو ان کے معاملے میں اختیار رکھتے تھے، یعنی اصحاب اقتدار وہ کہنے لگے: ﴿ لَنَتَّؔخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا﴾ ’’ہم بنائیں گے ان کی جگہ پر ایک مسجد‘‘ یعنی ہم اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس مسجد کی وجہ سے ان کے حالات و واقعات کو یاد رکھیں گے۔ مگر یہ حالت ممنوع اور حرام ہے۔ رسول اللہe نے اس سے منع کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے۔(صحیح البخاري، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور، حدیث: 1330) یہاں اس کا ذکر کرنا اس کے مذموم نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ آیات کا سیاق اصحاب کہف کی شان اور ان کی مدح و ثنا کے بارے میں ہے، یعنی اصحاب کہف کے بارے میں اطلاع پا کر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ ان پر ایک مسجد تعمیر کر دو۔ کہاں تو اصحاب کہف کو اپنی قوم سے شدید خوف اور اپنے بارے میں اطلاع ہونے کا ڈر تھا اور کہاں یہ حالت تھی جو آپ کے سامنے ہے۔ (۱) یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے فرار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (۲) جو کوئی عافیت کی خواہش رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا کرتا ہے۔ (۳) جو اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پناہ دیتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنا دیتا ہے۔ (۴) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر ذلت اٹھاتا ہے انجام کار اسے بہت زیادہ عزت نصیب ہوتی ہے اور اسے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ﴾ (آل عمران: 3؍198) ’’جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکو کار لوگوں کے لیے بہت بہتر ہے۔‘‘
آیت: 22 #
{سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا (22)}.
عنقریب کہیں گے (لوگ) وہ تین تھے، چوتھا ان کا، کتا تھا ان کا، اور کہیں گے، (وہ) پانچ تھے، چھٹا ان کا، کتا تھا ان کا، (یہ تو) رائے زنی کرنا ہے بغیر علم کے اور کہیں گے، (وہ) ساتھ تھے، آٹھواں ان کا، کتا تھا ان کا، آپ کہہ دیجیے، میرا رب خوب جانتا ہے ان کی تعداد، نہیں جانتے ان (کے حال) کو مگر بہت تھوڑے لوگ ہی، سو نہ جھگڑا کریں آپ ان کی بابت مگر جھگڑا سرسری اور نہ پوچھیے آپ ان کے بارے میں ، ان میں سے کسی سے بھی (22)
#
{22} يخبر تعالى عن اختلاف أهل الكتاب في عدَّة أصحاب الكهف اختلافاً صادراً عن رجمهم بالغيب وتقوُّلهم بما لا يعلمون، وأنَّهم فيهم على ثلاثة أقوال: منهم من يقولُ: {ثلاثةٌ رابُعهم كلبهم}، ومنهم من يقول: {خمسةٌ سادسُهم كلبُهم}، وهذان القولان ذكر الله بعدهما أنَّ هذا رجمٌ منهم بالغيب، فدلَّ على بطلانهما، ومنهم من يقول: {سبعةٌ وثامِنُهم كلبُهم}، وهذا ـ والله أعلم ـ هو الصوابُ؛ لأنَّ الله أبطل الأوَّلَيْن ولم يبطِلْه، فدلَّ على صحَّته، وهذا من الاختلاف الذي لا فائدة تحته، ولا يحصُلُ بمعرفة عددهم مصلحةٌ للناس دينيَّة ولا دنيويَّة، ولهذا قال تعالى: {قل ربِّي أعلمُ بعِدَّتِهم لا يعلمُهُم إلاَّ قليلٌ}: وهم الذين أصابوا الصوابَ وعلموا إصابتهم. {فلا تمارِ}: تجادل وتُحاج {فيهم إلاَّ مراء ظاهرا}؛ أي: مبنياً على العلم واليقين، ويكون أيضاً فيه فائدةٌ، وأما المماراة المبنيَّة على الجهل والرجم بالغيب أو التي لا فائدةَ فيها: إما أنْ يكونَ الخصمُ معانداً، أو تكون المسألةُ لا أهميَّة فيها ولا تحصُلُ فائدةٌ دينيَّةٌ بمعرفتها؛ كعدد أصحاب الكهف ونحو ذلك؛ فإنَّ في كثرة المناقشات فيها والبحوث المتسلسلة تضييعاً للزَّمان وتأثيراً في مودَّة القلوب بغير فائدة. {ولا تَسْتَفْتِ فيهم}؛ أي: في شأن أهل الكهف {منهم}؛ أي: من أهل الكتاب، {أحداً}: وذلك لأنَّ مبنى كلامهم فيهم على الرجم بالغيب والظنِّ الذي لا يُغني من الحقِّ شيئاً؛ ففيها دليلٌ على المنع من استفتاء مَنْ لا يَصْلُحُ للفتوى: إما لقصوره في الأمر المستفتى فيه، أو لكونه لا يبالي بما تكلَّم به، وليس عنده ورعٌ يحجُزُه، وإذا نُهي عن استفتاءِ هذا الجنس؛ فنهيُهُ هو عن الفتوى من باب أولى وأحرى. وفي الآية أيضاً دليلٌ على أن الشخص قد يكون منهيًّا عن استفتائه في شيء دون آخر، فيُسْتَفْتى فيما هو أهلٌ له بخلاف غيره؛ لأنَّ الله لم يَنْهَ عن استفتائهم مطلقاً، إنَّما نهى عن استفتائهم في قصَّةِ أصحاب الكهف وما أشبهها.
[22] اللہ تبارک و تعالیٰ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اہل کتاب کے اختلاف کا ذکر فرماتا ہے ان کا اختلاف محض اٹکل پچو اور بے تکی باتیں تھیں ۔ انھوں نے بغیر کسی علم کے یہ باتیں گھڑ لی تھیں ۔ ان کی تعداد کے متعلق اہل کتاب کے تین اقوال تھے: (۱) ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ اصحاب کہف تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ (۲) بعض کی رائے تھی کہ وہ پانچ آدمی تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا… یہ دو قول ہیں جن کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ﴿ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِ﴾ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان دونوں اقوال کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ (۳) بعض کہتے ہیں کہ وہ تعداد میں سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا اور یہی قرین صواب ہے۔ (واللہ اعلم) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دو اقوال کا ابطال کیا ہے مگر اس قول کا ابطال نہیں کیا جو اس کی صحت کی دلیل ہے۔ تاہم یہ ایسا اختلاف ہے جس کے تحت کوئی فائدہ نہیں ، نہ ان کے عدد کی معرفت سے لوگوں کو کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ﴾’’کہہ دیجیے! میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کی تعداد کو، تھوڑے لوگ ہی ان کا علم رکھتے ہیں ۔‘‘ اور یہ وہ لوگ ہیں جو صواب تک پہنچ گئے اور انھیں اپنی اصابت کا علم بھی ہو گیا۔ ﴿ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ﴾ ’’لہٰذا ان کے بارے میں جھگڑا نہ کیجیے‘‘ ﴿ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا﴾ ’’مگر سرسری گفتگو‘‘ یعنی ایسی بحث جو علم و یقین پر مبنی ہو اس میں فائدہ بھی ہو۔ رہی وہ بحث اور مجادلہ جو جہالت اور اٹکل پچو دلائل پر مبنی ہو یا اس بحث میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو یا مدمقابل عناد رکھتا ہو یا زیربحث مسئلہ کی کوئی اہمیت نہ ہو، اس کی معرفت سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو، مثلاً:اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ… تو اس قسم کے امور میں کثرت سے بحث مباحثہ کرنا تضییع اوقات ہے اور یہ بحث مباحثہ باہمی مودت و محبت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ﴿ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ﴾ ’’اور نہ پوچھیے ان کے بارے میں ‘‘ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں ﴿ مِّؔنْهُمْ﴾ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿ اَحَدًا﴾ ’’کسی سے بھی ‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلام محض اندازوں اور وہم و گمان پر مبنی ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو فتویٰ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس سے استفتاء نہ کیا جائے، خواہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس امر کے بارے میں فتویٰ پوچھا جا رہا ہے وہ اس میں کوتاہ علم ہے یا اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بولتے وقت اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ وہ کیا بول رہا ہے اور وہ ورع سے بھی خالی ہے جو اسے لایعنی کلام سے روک دے۔ جب اس قسم کے امور میں استفتاء ممنوع ہے تو فتویٰ دینا تو بدرجہ اولی ممنوع ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان کو بسا اوقات کسی ایک امر میں استفتاء کرنے سے روکا گیا مگر کسی دوسرے معاملے میں استفتاء کی اجازت ہوتی ہے۔ پس وہ ایسے شخص سے فتویٰ طلب کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فتویٰ پوچھنے سے علی الاطلاق منع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اصحاب کہف کے قصے میں اور اس قسم کے دیگر واقعات میں فتویٰ پوچھنے سے روکا ہے۔(صحیح البخاري، کتاب الجنائز، باب مایکرہ من اتخاذ… الخ، حدیث: 1330)
آیت: 23 - 24 #
{وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا (24)}.
اور قطعاً نہ کہیں آپ کسی چیز کے متعلق کہ بے شک میں کرنے والا ہوں یہ کل (23) مگر یہ کہ چاہے اللہ اور یاد کریں اپنے رب کو جب بھول جائیں آپ اور کہیے! امید ہے کہ ہدایت دے دے مجھے میرا رب قریب تر راستے کی اس سے، بھلائی کے (24)
#
{23} هذا النهيُ كغيرِهِ، وإنْ كان لسببٍ خاصٍّ وموجه للرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ الخطاب عامٌّ للمكلَّفين؛ فنهى الله أن يقولَ العبدُ في الأمور المستقبلة: {إنِّي فاعلٌ ذلك}: من دون أن يقرِنَه بمشيئة الله، وذلك لما فيه من المحذورِ، وهو الكلامُ على الغيوب المستقبلة التي لا يَدْري هل يفعلُه أم لا؟ وهل تكون أم لا؟ وفيه ردُّ الفعل إلى مشيئة العبد استقلالاً، وذلك محذورٌ محظورٌ؛ لأنَّ المشيئة كلها لله، {وما تشاؤون إلاَّ أنْ يشاءَ اللهُ ربُّ العالمين}، ولما في ذكر مشيئة الله من تيسير الأمر وتسهيلِهِ وحصول البركةِ فيه والاستعانةِ من العبد لربِّه.
[23] یہ نہی دیگر نواہی کی مانند (عام) ہے اگرچہ یہ ایک خاص سبب کی بنا پر ہے اور اس کے مخاطب رسول اللہe ہیں مگر اس کا خطاب عام مکلفین کے لیے بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے روک دیا ہے کہ بندۂ مومن، مستقبل کے امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ملائے بغیر کہے ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور یہ اس لیے کہ اس میں خطرات ہیں اور وہ ہے مستقبل کے غیبی معاملات کے بارے میں کلام کرنا، جن کے بارے میں بندہ نہیں جانتا کہ وہ ان پر عمل کر سکے گا یا نہیں یا وہ ہو گا یا نہیں ؟ اس طرح کہنے میں فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ مستقل طورپر بندے کی طرف لوٹانا ہے، حالانکہ یہ قابل احتراز شے اور ممنوع ہے کیونکہ مشیت تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (التکویر:81؍29) ’’تم نہیں چاہتے مگر جو اللہ جہانوں کا رب چاہتا ہے۔‘‘ اپنے کسی امر میں اللہ کی مشیت کے ذکر کرنے میں اس امر کی آسانی، تسہیل، اس میں برکت کا حصول اور بندے کی اپنے رب سے مدد کی طلب ہے۔
#
{24} ولما كان العبد بشراً لا بدَّ أن يسهو عن ذكر المشيئة ؛ أمَرَه الله أن يستثني بعد ذلك إذا ذَكَرَ؛ ليحصُلَ المطلوب ويندفِعَ المحذورُ. ويؤخَذُ من عموم قوله: {واذكُرْ رَبَّك إذا نسيتَ}: الأمرُ بذِكْر الله عند النسيان؛ فإنَّه يزيله ويذكِّر العبدَ ما سها عنه. وكذلك يؤمَرُ الساهي الناسي لذِكْرِ الله أن يَذْكُرَ ربَّه ولا يكوننَّ من الغافلين. ولما كان العبدُ مفتقراً إلى الله في توفيقه للإصابة وعدم الخطأ في أقواله وأفعاله؛ أمره الله أن يقول: {عسى أن يَهْدِيَني ربِّي لأقربَ من هذا رَشَداً}: فأمره أن يدعو الله ويرجوه ويَثِقَ به أنْ يَهْدِيَه لأقرب الطرق الموصلة إلى الرشد، وحريٌّ بعبد تكون هذه حاله، ثم يبذل جهده، ويستفرغُ وسعه في طلب الهدى والرشد، أن يُوَفَّق لذلك، وأن تأتِيَه المعونةُ من ربِّه، وأن يسدِّدَه في جميع أموره.
[24] علاوہ ازیں بندہ ایک بشر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ذکر کو بھول جانا ایک لابدی امر ہے اس لیے اس نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ جب اسے یاد آئے وہ استثناء کر لیا کرے (یعنی ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ لیا کرے) تاکہ مطلوب و مقصود حاصل ہو اور محذور سے بچا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ ﴾ ’’جب تو بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر‘‘ کے عموم سے بھی یہ حکم اخذ کیا جاتا ہے کہ نسیان کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نسیان کو زائل کر دیتا ہے اور بندے کو وہ امر یاد دلا دیتا ہے جو اسے بھول گیا تھا۔ اسی طرح اللہ کا ذکر بھول جانے اور نسیان کا شکار ہو جانے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کو یاد کرے اور اور غافلوں میں شامل نہ ہو۔ چونکہ بندہ اصابت کی توفیق اور اپنے اقوال و افعال میں عدم خطا کے لیے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ کہے ﴿ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰؔذَا رَشَدًا ﴾ ’’امید ہے کہ دکھائے مجھے میرا رب اس سے زیادہ نزدیک نیکی کی راہ‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے، اسی سے امید وابستہ کرے اور اسی پر اس بارے میں بھروسہ کرے کہ وہ اس کی رشد و ہدایت کے لیے قریب ترین راستہ کی طرف اس کی راہنمائی کرے گا۔ جس بندے کا حال یہ ہو، پھر وہ رشد و ہدایت کی طلب میں اپنی کوشش اور جہد صرف کرے، وہ اس لائق ہے کہ اس کو رشد و ہدایت کی توفیق عطا ہو اس کے پاس اس کے رب کی مدد آئے اور اس کے تمام امور میں اسے درستی و راستی عطا ہو۔
آیت: 25 - 26 #
{وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا (25) قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (26)}.
اور ٹھہرے وہ اپنے غار میں تین سو سال اور زیادہ رہے (اس سے) نوسال (25) آپ کہہ دیجیے! اللہ ہی خوب جانتا ہے اس مدت کو کہ جو وہ ٹھہرے، اسی کے لیے ہے غیب آسمانوں اور زمین کا، کیا ہی خوب دیکھنے والا ہے وہ اور کیا ہی خوب سننے والا ہے، نہیں ہے ان کے لیے سوائے اس (اللہ) کے کوئی دوست اور نہیں شریک کرتا وہ اپنے حکم میں کسی کو بھی (26)
#
{25 ـ 26} لمَّا نهاه الله عن استفتاء أهل الكتاب في شأن أهل الكهف لعدم علمهم بذلك، وكان الله عالم الغيب والشهادة العالم بكلِّ شيء؛ أخبره الله بمدَّة لَبثهم، وأنَّ علم ذلك عنده وحدَه؛ فإنَّه من غيب السماواتِ والأرض، وغيبُها مختصٌّ به؛ فما أخبر به عنها على ألسنةِ رُسُلِهِ؛ فهو الحقُّ اليقين الذي لا يُشَكُّ فيه، وما لا يُطْلِعُ رسلَه عليه؛ فإنَّ أحداً من الخلق لا يعلمه. وقوله: {أبصِرْ به وأسمعْ}: تعجُّبٌ من كمال سمعه وبصره وإحاطتهما بالمسموعات والمبصَرات بعدما أخبر بإحاطة علمِهِ بالمعلومات، ثم أخبر عن انفراده بالولاية العامَّة والخاصَّة؛ فهو الوليُّ الذي يتولَّى تدبير جميع الكون، والوليُّ لعباده المؤمنين؛ يخرِجُهم من الظُّلمات إلى النور، وييسِّرهم لليسرى، ويجنِّبهم العسرى، ولهذا قال: {ما لهم من دونِهِ من وليٍّ}؛ أي: هو الذي تولَّى أصحاب الكهف بلطفِهِ وكرمِهِ، ولم يَكِلْهم إلى أحدٍ من الخلق. {ولا يُشْرِكُ في حكمِهِ أحداً}: وهذا يشمَلُ الحكمَ الكونيَّ القدريَّ والحكم الشرعيَّ الدينيَّ؛ فإنَّه الحاكم في خلقه قضاءً وقدراً وخلقاً وتدبيراً، والحاكم فيهم بأمرِهِ ونهيِهِ وثوابِهِ وعقابِهِ. ولما أخبر أنه تعالى له غيب السماواتِ والأرض؛ فليس لمخلوقٍ إليها طرها طريقٌ إلاَّ عن الطريق التي يُخبر بها عبادَه، وكان هذا القرآن قد اشتمل على كثيرٍ من الغُيوب؛ أمر تعالى بالإقبال عليه، فقال:
[26,25] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں اہل کتاب سے سوال کرنے سے منع کر دیا ہے کیونکہ انھیں اس کے متعلق کچھ علم نہیں ، اللہ تعالیٰ ہی غیب اور حاضر کا علم رکھتا ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے… اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے آگاہ فرمایا۔ اس مدت کو وہ اکیلا ہی جانتا ہے کیونکہ اس کا تعلق آسمانوں اور زمین کے غیبی امور سے ہے اور غیبی امور کا علم اللہ تعالیٰ سے مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور کے بارے میں اپنے رسولوں کی زبانی آگاہ فرمایا ہے وہی حق یقینی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور وہ امور جن کے بارے میں وہ اپنے انبیاء و رسل کو مطلع نہیں کرتا مخلوق میں سے کوئی بھی ان کو نہیں جان سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ اَبْصِرْ بِهٖ وَاَسْمِعْ﴾ ’’کیا ہی خوب وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔‘‘ تمام معلومات پر اپنے علم کے احاطہ کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد کامل سمع و بصر، تمام مسموعات و مبصرات پر اس سمع و بصر کے محیط ہونے پر تعجب کا اظہار ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ولایت عامہ اور ولایت خاصہ میں وہی منفرد ہے وہی ولی اور مددگار ہے جو تمام کائنات کی تدبیر کرتا ہے اپنے مومن بندوں کا دوست اور مددگار ہے وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ فرمایا: ﴿ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ﴾ ’’نہیں ہے واسطے ان کے، اس کے سوا، کوئی دوست، کار ساز‘‘ یعنی وہی ہے جس نے اپنے لطف و کرم سے اصحاب کہف کی سرپرستی فرمائی اور ان کے معاملے کو اپنی مخلوق میں سے کسی پر نہیں چھوڑا۔ ﴿ وَّلَا یُ٘شْ٘رِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا﴾ ’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘ اور یہ حکم کونی و قدری اور حکم دینی و شرعی دونوں کو شامل ہے وہی قضا و قدر اور تخلیق و تدبیر کے ذریعے سے اور امرونہی اور ثواب و عقاب کے ذریعے سے اپنی مخلوق میں اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ آسمانوں اور زمین کے تمام غیبی امور کو وہ جانتا ہے تو مخلوق کے لیے ان کو جاننے کا اس طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ، جو اس نے اپنے بندوں کو بتایا ہے۔ یہ قرآن کریم بہت سے غیبی امور پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 27 #
{وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا (27)}.
اور تلاوت کیجیے اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف، کتاب میں سے آپ کے رب کی، نہیں کوئی بدلنے والا اس کی باتوں کواور ہرگز نہیں پائیں گے آپ سوائے اس کے کوئی جائے پناہ (27)
#
{27} التلاوة: هي الاتِّباع؛ أي: اتَّبع ما أوحى الله إليك بمعرفة معانيه وفهمها وتصديق أخباره وامتثال أوامره ونواهيه؛ فإنَّه الكتاب الجليل، الذي لا مبدِّل لكلماته؛ أي: لا تُغَيَّر ولا تُبَدَّل لصدقها وعدلها وبلوغها من الحسن فوق كلِّ غاية، {وَتَمَّتْ كلمةُ ربِّك صدقاً وعدلاً}؛ فلكمالها استحال عليها التغييرُ والتبديل، فلو كانت ناقصةً؛ لَعَرَضَ لها ذلك أو شيءٌ منه. وفي هذا تعظيم للقرآن في ضمنه الترغيبُ على الإقبال عليه. {وَلَن تَجِدَ من دونه مُلْتَحَداً}؛ أي: لن تجد من دون ربِّك ملجأ تلجأ إليه ولا مَعاذًا تعوذ به؛ فإذا تعيَّن أنَّه وحده الملجأ في كلِّ الأمور؛ تعيَّن أن يكون هو المألوه المرغوب إليه في السرَّاء والضرَّاء، المفتَقر إليه في جميع الأحوال، المسؤول في جميع المطالب.
[27] تلاوت سے مراد اتباع کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپe کی طرف جو وحی بھیجی ہے اس کے معانی کی معرفت اور ان کا فہم حاصل کر کے، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل کر کے اس کی اتباع کیجیے کیونکہ یہ بہت ہی جلیل القدر کتاب ہے جس کی باتوں کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، ان کلمات کے صدق و عدل اور حسن میں ہر غایت و انتہا سے بڑھ جانے کی وجہ سے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا: ﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ (الانعام:6؍115) ’’آپ کے رب کی بات صدق و عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔‘‘ پس اپنے کمال کی وجہ سے ان باتوں میں تغیر و تبدل محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے کلمات ناقص ہوتے تو ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا۔ اس میں قرآن کریم کی عظمت کا اظہار ہے اور اسی ضمن میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب ہے۔ ﴿ وَلَ٘نْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ ’’اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤگے۔‘‘ یعنی آپ کے رب کے سوا کہیں آپ کو کوئی ٹھکانا ملے گا جہاں آپ چھپ سکیں نہ پناہ گاہ ملے گی جہاں پناہ لے سکیں ۔ پس جب یہ حقیقت متعین ہو گئی کہ تمام امور میں وہی ملجاوماوی ہے تو یہ بات بھی متعین ہو گئی کہ وہی الٰہ ہے، خوشحالی اور بدحالی میں اسی کی طرف رغبت کی جائے، لوگ اپنے تمام احوا ل میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنے تمام مطالب میں اسی سے سوال کیا جائے۔
آیت: 28 #
{وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (28)}.
اور روک رکھیے اپنے آپ کو ساتھ ان لوگوں کے جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام، وہ چاہتے ہیں چہرہ اس (اللہ) کااور نہ تجاوز کریں آپ کی آنکھیں ان سے، ارادہ کرتے ہیں آپ زینت کا زندگانیٔ دنیا کی اور مت اطاعت کریں آپ اس شخص کی کہ غافل کر دیا ہم نے اس کے دل کو اپنے ذکر سے اور پیروی کی اس نے اپنی خواہش کی اور ہے معاملہ اس کا حد سے بڑھا ہوا (28)
#
{28} يأمر تعالى نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم -، وغيره أسوته في الأوامر والنواهي أن يصبر نفسه مع المؤمنين العُبَّاد المنيبين. {الذين يَدْعونَ ربَّهم بالغداة والعشيِّ}؛ أي: أول النهار وآخره؛ يريدون بذلك وجه الله، فوصفهم بالعبادة والإخلاص فيها؛ ففيها الأمر بصحبة الأخيار ومجاهدة النفس على صحبتهم ومخالطتهم، وإنْ كانوا فقراء؛ فإنَّ في صحبتهم من الفوائد ما لا يُحصى. {ولا تَعْدُ عيناك عنهم}؛ أي: لا تجاوزهم بصرك وترفع عنهم نظرك؛ {تريد زينةَ الحياةِ الدُّنيا}؛ فإنَّ هذا ضارٌّ غير نافع، قاطعٌ عن المصالح الدينيَّة؛ فإنَّ ذلك يوجب تعلُّق القلب بالدُّنيا، فتصير الأفكار والهواجس فيها، وتزول من القلب الرغبةُ في الآخرة؛ فإنَّ زينة الدُّنيا تروق للناظر وتَسْحَر القلب ، فيغفل القلب عن ذكر الله، ويُقْبِلُ على اللَّذَّات والشهوات، فيضيع وقته، وينفرط أمره، فيخسر الخسارة الأبديَّة والندامة السرمديَّة، ولهذا قال: {ولا تُطِعْ من أغْفَلْنا قلبه عن ذكرنا}: غَفَلَ عن الله فعاقبه بأن أغْفَلَه عن ذكره، {واتَّبَع هواه}؛ أي: صار تبعاً لهواه؛ حيث ما اشتهتْ نفسُه فعله، وسعى في إدراكه، ولو كان فيه هلاكه وخُسرانه؛ فهو قد اتَّخذ إلهه هواه؛ كما قال تعالى: {أفرأيتَ مَنِ اتَّخذ إلهه هواه وأضلَّه الله على علم ... } الآية. {وكان أمرُهُ}؛ أي: مصالح دينه ودنياه {فُرُطاً}؛ أي: ضائعة معطَّلة؛ فهذا قد نهى الّله عن طاعته؛ لأن طاعته تدعو إلى الاقتداء به، ولأنَّه لا يدعو إلاَّ لما هو متَّصف به. ودلَّت الآية على أنَّ الذي ينبغي أن يُطاع، ويكون إماماً للناس مَن امتلأ قلبُه بمحبَّة الله، وفاض ذلك على لسانه، فلهج بذكر الله، واتَّبع مراضي ربِّه، فقدَّمها على هواه، فحفظ بذلك ما حَفِظَ من وقته، وصلحت أحوالُه، واستقامت أفعاله، ودعا الناس إلى ما منَّ الله به عليه؛ فحقيقٌ بذلك أن يُتَّبع، ويُجعل إماماً. والصبر المذكور في هذه الآية هو الصبر على طاعة الله، الذي هو أعلى أنواع الصبر، وبتمامه يتمُّ باقي الأقسام. وفي الآية استحبابُ الذِّكر والدُّعاء والعبادة طرفي النهار؛ لأنَّ الله مدحهم بفعله، وكلُّ فعل مَدَحَ الله فاعله؛ دلَّ ذلك على أن الله يحبُّه؛ وإذا كان يحبه فإنَّه يأمر به ويرغِّب فيه.
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe کو اور دوسروں کو، جو اوامر و نواہی میں آپ کے نمونہ پر عمل پیرا ہیں ، حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مومنوں کے ساتھ جوڑے رکھیں جو اللہ کے بندے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ۔ ﴿ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰؔوةِ وَالْ٘عَشِیِّ ﴾ ’’جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح وشام‘‘ یعنی دن کے پہلے اور آخری حصے میں ، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بندگی اور اس میں ان کے اخلاص کو بیان کیا ہے۔ پس اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے، ان کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اختلاط میں نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے۔ خواہ یہ نیک لوگ فقرا ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی صحبت میں اتنے فوائد ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ﴿ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ﴾ ’’اور تمھاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں ۔‘‘ یعنی آپe کی نظریں ان سے تجاوز کریں نہ آپ اپنی نظروں کو ان سے ہٹائیں۔ ﴿ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’دنیا کی زندگی کی رونق کی تلاش میں ‘‘ کیونکہ یہ چیز نقصان دہ ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ تمام دینی مصالح کی قاطع ہے یہ دنیا سے دل کے تعلق کی موجب بنتی ہے، دل میں اندیشے اور وسوسے جاگزیں ہو جاتے ہیں اور دل سے آخرت کی رغبت زائل ہو جاتی ہے۔ دنیا کی زیب و زینت دیکھنے والے کو بہت خوش کن نظر آتی ہے، قلب پر جادو کر دیتی ہے جس سے قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو کر لذات و شہوات میں مگن ہو جاتا ہے تب وہ اپنے وقت کو ضائع کرکے اپنے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ دائمی خسارے میں پڑ جاتا ہے اور ابدی ندامت اس کا نصیب بن جاتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا تُ٘طِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا﴾ ’’اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو سزا دی کہ اسے اپنے ذکر سے غافل کر دیا۔ ﴿ وَاتَّ٘بَعَ هَوٰىهُ ﴾ ’’اور وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا‘‘ اس کے نفس نے جو چاہا وہ کیا اور اس کو پالینے کی کوشش کرنے لگا خواہ اس میں اس کی ہلاکت اور اس کے لیے خسارہ ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّؔخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ (الجاثیۃ:45؍23) ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا۔‘‘ ﴿ وَؔكَانَ اَمْرُهٗ﴾ ’’اور اس کا کام ہے‘‘ یعنی اس کے دین و دنیا کے مصالح ﴿ فُ٘رُطًا ﴾ ’’حد سے نکل جانا‘‘ یعنی ضائع اور معطل ہونے والے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی اطاعت سے روکا ہے کیونکہ اس کی اطاعت اس کی پیروی کرنے کی دعوت دیتی ہے، نیز اس لیے کہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے وہ خود متصف ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہی شخص اطاعت کے لائق اور لوگوں کا امام بننے کے قابل ہے جس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہو اور اس کی زبان پر محبت الٰہی کا فیضان ہو، وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو، اپنے رب کی رضا کی پیروی کرتا ہو اور اسے اپنے نفس کی خواہشات پر مقدم رکھتا ہو۔ پس اس طرح وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے گا، اس کے تمام احوال درست اور تمام افعال ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دے گا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ پس یہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور اس کو امام بنایا جائے۔ آیت مقدسہ میں جس صبر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر ہے۔ یہ صبر کی بلند ترین قسم ہے اس کی تکمیل سے صبر کی باقی تمام اقسام کی تکمیل ہوتی ہے۔ آیت مبارکہ سے ذکر الٰہی، دعا اور دن کے دونوں حصوں میں عبادت کا استحباب مستفاد ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی مدح کی ہے اور جس فعل پر اللہ تعالیٰ فاعل کی مدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے تو اس کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے۔
آیت: 29 - 31 #
{وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (29) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا (30) أُولَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا (31)}.
اور کہہ دیجیے! حق تو ہے تمھارے رب کی طرف سے، سو جو چاہے تو ایمان لائے وہ اور جو چاہے تو کفر کرے، بلاشبہ ہم نے تیار کی ہے ظالموں کے لیے ایسی آگ کہ گھیرا ہوا ہے ان کو اس کی قناتوں نےاور اگر وہ فریاد کریں گے تو فریاد رسی کیے جائیں گے ساتھ ایسے پانی کے جو مانند تیل کی تلچھٹ کے ہو گا، وہ بھون ڈالے گا چہرے (ان کے)، برا پینا ہے وہ اور بری آرام گاہ ہے وہ (29) بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اورانھوں نے عمل کیے نیک، بلاشبہ ہم نہیں ضائع کرتے اجر اس شخص کا جس نے اچھا عمل کیا (30) یہی لوگ، انھی کے لیے ہیں باغات ہمیشگی کے، بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں ، وہ زیور پہنائے جائیں گے اس میں ، کنگن سونے کےاور وہ پہنیں گے کپڑے سبز رنگ کے، باریک اور موٹے ریشم کے اس حال میں کہ ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے وہ ان میں اوپر تختوں کے، اچھا بدلہ ہے (جنت)اور اچھی آرام گاہ ہے (31)
#
{29} أي: {قل} للناس يا محمدُ: هو {الحقُّ من ربِّكم}؛ أي: قد تبيَّن الهدى من الضلال، والرُّشد من الغيِّ، وصفات أهل السعادة وصفات أهل الشقاوة، وذلك بما بيَّنه الله على لسان رسوله؛ فإذا بان واتَّضح ولم يبقَ فيه شبهةٌ؛ {فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر}؛ أي: لم يبق إلاَّ سلوكُ أحد الطريقين بحسب توفيق العبد وعدم توفيقه، وقد أعطاه الله مشيئةً بها يقدِرُ على الإيمان والكفر والخير والشرِّ؛ فمن آمن؛ فقد وُفِّق للصواب، ومن كَفَرَ؛ فقد قامت عليه الحجَّة، وليس بمكرهٍ على الإيمان؛ كما قال تعالى: {لا إكْراهَ في الدِّينِ قد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَيِّ}، [وليس في قوله: {فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر} الإذن في كلا الأمرين وإنما ذلك تهديد ووعيد لمن اختار الكفر بعد البيان التام كما ليس فيها تركه قتال الكافرين]. ثم ذكر تعالى مآل الفريقين، فقال: {إنَّا أعْتَدْنا للظالمين}: بالكفر والفسوق والعصيان، {ناراً أحاطَ بهم سُرادِقُها}؛ أي: سورها المحيط بها؛ فليس لهم منفذٌ ولا طريقٌ ولا مخلصٌ منها، تصلاهم النار الحامية. {وإن يَسْتغيثوا}؛ أي: يطلبوا الشراب ليطفئ ما نزل بهم من العطش الشديد؛ {يُغاثوا بماءٍ كالمهل}؛ أي: كالرصاص المذاب أو كعكر الزيت من شدَّة حرارته. {يَشْوي الوجوهَ}؛ أي: فكيف بالأمعاء والبطون؟! كما قال تعالى: {يُصْهَرُ به ما في بطونِهِم والجلودُ. ولهم مَقامِعُ من حديدٍ}. {بئس الشرابُ}: الذي يُراد ليطفئ العطش ويدفع بعض العذابِ فيكون زيادةً في عذابهم وشدَّة عقابهم، {وساءت}: النار {مرتفقاً}: وهذا ذمٌّ لحالة النار؛ أنَّها ساءت المحلَّ الذي يرتفق به؛ فإنَّها ليس فيها ارتفاقٌ؛ وإنَّما فيها العذاب العظيم الشاقُّ الذي لا يُفَتَّر عنهم ساعةً، وهم فيه مُبْلِسونَ، قد أيسوا من كلِّ خيرٍ، ونسيهم الرحيم في العذاب كما نسوه.
[29] اے محمد (e)! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ یہ تمھارے رب کی طرف سے حق ہے، یعنی ضلالت میں سے ہدایت، گمراہی میں سے راہ راست اور اہل شقاوت واہل سعادت کی صفات واضح ہو گئی ہیں اور یہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو اپنے رسولe کی زبان پر واضح کر دیا اور جب حق واضح ہو گیا تو اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا۔ ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْ٘یَكْ٘فُ٘رْ﴾ ’’پھر جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے‘‘ یعنی دو راستوں میں سے ایک راستے کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ۔ جس پر بندہ توفیق اور عدم توفیق کے مطابق گامزن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ارادے کی آزادی عطا کی ہے، اس آزادی کی بنا پر بندہ ایمان لانے، کفر کرنے اور خیروشر کے ارتکاب کی قدرت رکھتا ہے۔ پس جو کوئی ایمان لے آتا ہے اسے حق و صواب کی توفیق عطا ہوتی ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اس پر حجت قائم ہو جاتی ہے۔ اسے ایمان پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْ٘غَیِّ ﴾ (البقرۃ:2؍256) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ، ہدایت گمراہی سے واضح ہو گئی ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے انجام کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’بے شک ہم نے ظالموں کے لیے تیار کی ہے‘‘ یعنی جنھوں نے کفر، فسق اور معصیت کے ذریعے سے ظلم کا ارتکاب کیا ﴿نَارًا١ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا﴾ ’’آگ، جن کو گھیر رہی ہیں اس کی قناتیں ‘‘ یعنی آگ کی بڑی بڑی دیواریں ہیں جنھوں نے ان ظالموں کو گھیر رکھا ہے۔ وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہو گا نہ نجات کا کوئی ذریعہ، وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ ﴿ وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا۠﴾ ’’اور اگر وہ فریاد کریں گے‘‘ یعنی اگر وہ اپنی سخت پیاس بجھانے کے لیے پانی مانگیں گے ﴿ یُغَاثُ٘وْا بِمَآءٍ كَالْ٘مُهْلِ﴾ ’’تو ملے گا ان کو پانی، جیسے پیپ‘‘ یعنی انھیں پگھلے ہوئے سیسے یا تیل کی تلچھٹ جیسا پانی پلایا جائے گا۔ ﴿ یَشْوِی الْوُجُوْهَ﴾ ’’جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔‘‘ یعنی جو شدت حرارت کی وجہ سے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا، تب انتڑیوں اور پیٹ کا کیا حال ہو گا؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ یُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُؕ۰۰وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ ﴾ (الحج:22؍20، 21) ’’اس گرم پانی سے ان کے پیٹ اور ان کی کھالیں گل جائیں گی اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔‘‘ ﴿ بِئْسَ الشَّرَابُ﴾ ’’کیا برا پینا ہے‘‘ وہ جس سے پیاس بجھانا اور پیاس کے اس عذاب کو دور کرنا مقصود ہو گا مگر اس کے برعکس ان کے عذاب میں اضافہ اور ان کی عقوبت میں شدت ہو گی۔ ﴿ وَسَآءَتْ مُرْتَفَقًا﴾ ’’اور کیا بری (یہ آگ) آرام گاہ ہے‘‘ یہ آگ کے احوال کی مذمت ہے یعنی یہ آرام کی بدترین جگہ ہو گی۔ کیونکہ یہاں آرام نہیں بلکہ عذاب عظیم ہو گا جو بہت ہی تکلیف دہ ہو گا۔ گھڑی بھر کے لیے بھی یہ عذاب ان سے دور نہیں ہو گا اور وہ سخت مایوسی کے عالم میں ہوں گے۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے جس طرح انھوں نے مہربان اللہ کو فراموش کر دیا ،وہ بھی انھیں فراموش کر دے گا۔
#
{30} ثم ذكر الفريق الثاني، فقال: {إنَّ الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ}؛ أي: جمعوا بين الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقَدَر خيره وشرِّه وعمل الصالحات من الواجبات والمستحبات. {إنَّا لا نُضيعُ أجْرَ مَنْ أحسنَ عملاً}: وإحسانُ العمل أن يريدَ العبدُ العمل لوجه الله متبعاً في ذلك شرع الله؛ فهذا العمل لا يضيِّعه الله ولا شيئاً منه، بل يحفظُه للعاملين، ويوفِّيهم من الأجر بحسب عملهم وفضله وإحسانه.
[30] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فریق ثانی ،یعنی اہل ایمان کا ذکر فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ، یوم آخرت اور اچھی، بری تقدیر پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ نیک کام یعنی واجبات و مستحبات پر عمل کیا ﴿ اِنَّا لَا نُ٘ضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا﴾ ’’بے شک ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے عمل کرتے ہیں ۔‘‘ عمل میں احسان یہ ہے کہ اس عمل میں بندے کے پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور یہ عمل شریعت کی اتباع میں ہو۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرے گا بلکہ اسے عمل کرنے والوں کے لیے محفوظ رکھے گا اور اپنے فضل و کرم سے ان کے عمل کے مطابق انھیں پورا پورا اجر عطا کرے گا۔
#
{31} وذكر أجرهم بقوله: {أولئك لهم جناتُ عَدْنٍ تجري من تحتها الأنهار يُحَلَّوْن فيها من أساورَ من ذهبٍ ويلبسون ثياباً خضراً من سُنْدُسٍ وإسْتَبْرَقٍ متَّكئين فيها على الأرائك}؛ [أولئك] أي: أولئك الموصوفون بالإيمان والعمل الصالح، لهم الجناتُ العالياتُ التي قد كَثُرَتْ أشجارُها فأجَنَّتْ مَنْ فيها، وكثرت أنهارُها، فصارت تجري من تحت تلك الأشجار الأنيقة والمنازل الرفيعة، وحليتُهم فيها الذهب، ولباسُهم فيها الحرير الأخضر من السُّندس، وهو الغليظُ من الدِّيباج، والإستبرق وهو ما رَقَّ منه، متَّكئين فيها على الأرائك، وهي السرر المزيَّنة المجمَّلة بالثياب الفاخرة؛ فإنَّها لا تسمَّى أريكة حتى تكون كذلك، وفي اتِّكائهم على الأرائك ما يدلُّ على كمال الراحة وزوال النَّصب والتعب وكون الخدم يسعَوْن عليهم بما يشتهون، وتمام ذلك الخلود الدائم والإقامة الأبديَّة؛ فهذه الدار الجليلة، {نعم الثوابُ}: للعاملين، {وحَسُنَتْ مرتَفَقاً}: يرتَفِقون بها، ويتمتَّعون بما فيها مما تشتهيه الأنفسُ، وتلذُّ الأعينُ من الحبرة والسرور والفرح الدائم واللَّذَّات المتواترة والنعم المتوافرة، وأيُّ مرتَفَقٍ أحسنُ من دارٍ، أدنى أهلها يسير في مُلكِهِ ونعيمه وقصورِهِ وبساتينه ألفي سنة؟ ولا يرى فوقَ ما هو فيه من النعيم، قد أعْطِيَ جميعَ أمانيه ومطالبِهِ، وزيد من المطالب ما قَصَّرَتْ عنه الأماني، ومع ذلك؛ فنعيمُهم على الدوام، متزايدٌ في أوصافه وحسنه، فنسأل الله الكريم أنْ لا يحرِمَنا خيرَ ما عنده من الإحسان بشرِّ ما عندنا من التقصير والعصيان. ودلت الآية الكريمة وما أشبهها على أن الحِلْيَةَ عامَّةٌ للذكور والإناث؛ كما ورد في الأخبار الصحيحة؛ لأنَّه أطلقها في قوله: {يُحَلَّوْنَ}، وكذلك الحرير ونحوه.
[31] اور ان الفاظ میں ان کے اجر کا ذکر فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْ٘هٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّیَلْبَسُوْنَ ثِیَابً٘ا خُ٘ضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّـكِــِٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ﴾ ’’ایسے لوگوں کے لے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن میں ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے اور تختوں پر تکیے لگا کر بیٹھا کریں گے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کی صفات سے موصوف ہیں ان کے لیے بلند باغات ہوں گے جن میں بکثرت درخت ہوں گے جو جنت کے رہنے والوں پر سایہ کناں ہوں گے، ان میں بکثرت دریا ہوں گے جو ان خوبصورت درختوں اور عالیشان محلوں کے نیچے بہہ رہے ہوں گے۔ جنت میں ان کے لیے سونے کے زیورات ہوں گے، ان کے ملبوسات سبز ریشم کے بنے ہوئے ہوں گے (سندس) سے مراد دبیز ریشم اور (استبرق) سے مراد باریک ریشم جو عصفر سے رنگا ہوا ہو۔ وہ قیمتی کپڑوں سے آراستہ كيے ہوئے اور سجائے ہوئے تختوں پر براجمان ہوں گے۔ (اریکۃ) کو اس وقت تک (اریکۃ) نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ وہ مذکورہ صفات سے متصف نہ ہو۔ ان تختوں پر سہارا لگا کر بیٹھے ہوئے کی کیفیت دلالت کرتی ہے کہ وہ کامل راحت میں ہوں گے اور ہر قسم کی تکان ان سے دور ہوگی، خدام ان کی دل پسند چیزوں کے ساتھ ان کی خدمت میں مصروف ہوں گے اور ان تمام امور کی تکمیل اس طرح ہو گی کہ انھیں جنتوں میں دائمی خلود اور ابدی قیام حاصل ہو گا۔ پس یہ جلیل القدر گھر ﴿ نِعْمَ الثَّوَابُ﴾ ’’کیا خوب بدلہ ہے‘‘ نیک عمل کرنے والوں کے لیے ﴿ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا﴾ ’’اور کیا خوب آرام کی جگہ ہے‘‘ جس میں یہ آرام کریں گے اور اس کی چیزوں سے متمتع ہوں گے جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے، آنکھیں لذت اٹھائیں گی، یعنی خوشی، مسرت، دائمی فرحت، کبھی ختم نہ ہونے والی لذتیں اور وافر نعمتیں ۔ اس گھر سے بہتر آرام کرنے کی جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے کہ اس کے رہنے والوں میں سے سب سے ادنیٰ شخص اپنی ملکیت اور اپنی نعمتوں میں ، اپنے محلوں اور باغوں میں دو ہزار سال چلے پھرے گا اور وہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دیکھے گا۔ اس کی تمام آرزوئیں اور اس کے تمام مقاصد پورے ہوں گے۔ جہاں اس کی آرزوئیں پہنچنے سے قاصر ہوں گی وہاں ان کے مطالب میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں کا دوام ان کے اوصاف اور حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے شر، ہماری تقصیر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں اپنے اس احسان سے محروم نہ کرے جو اس کے پاس ہے۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جنت میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے زیورات ہوں گے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ یُحَلَّوْنَ﴾ ’’زیور پہنائے جائیں گے‘‘ علی الاطلاق بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح ریشم کے ملبوسات بھی سب کے لیے ہوں گے۔
آیت: 32 - 0 #
{وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا (32) كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا (33) وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ}.
اور بیان کیجیے ان کے لیے مثال دو آدمیوں کی، کہ بنائے (تھے) ہم نے ایک کے لیے ان میں سے دو باغ انگوروں کےاور باڑ لگا دی ہم نے دونوں کے گرد کھجوروں کے درختوں کی اور کی ہم نے درمیان ان کے کھیتی (32) دونوں باغوں نے دیا اپنا پھل اور نہ کم کیا اس میں سے کچھ بھی اور جاری کر دی ہم نے درمیان ان دونوں کے ایک نہر (33) اور تھے اس کے لیے پھل،
#
{32} يقول تعالى لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: اضرِبْ للناس مَثَلَ هذين الرجلين: الشاكر لنعمة الله، والكافر لها، وما صدر من كلٍّ منهما من الأقوال والأفعال، وما حصل بسبب ذلك من العقاب العاجل والآجل والثواب؛ ليعتبروا بحالهما، ويتَّعظوا بما حصل عليهما، وليس معرفة أعيان الرجلين وفي أيِّ زمان أو مكانٍ هما فيه فائدة أو نتيجة؛ فالنتيجة تحصُلُ من قصتهما فقط، والتعرُّض لما سوى ذلك من التكلُّف. فأحدُ هذين الرجلين الكافر لنعمة الله الجليلة جعل الله له جنتين؛ أي: بستانَيْنِ حسنَيْنِ {من أعناب وحفَفْناهما بنخل}؛ أي: في هاتين الجنتين من كل الثمرات، وخصوصاً أشرف الأشجار العنب والنخل؛ فالعنب وسطها، والنخل قد حفَّ بذلك ودار به، فحصل فيه من حسن المنظر وبهائه وبروز الشجر والنخل للشمس والرياح التي تكمُلُ بها الثمار وتنضج وتتجوهر، ومع ذلك جعل بين تلك الأشجار زَرْعاً.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے کہ ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کر دیجیے، ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے دوسرا وہ جو ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا ناشکر گزار ہے اور ان دونوں سے جس قسم کے اقوال وافعال صادر ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر انھیں جو دنیاوی اور اخروی عذاب اور ثواب حاصل ہوگا تاکہ یہ لوگ ان دونوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں اور انھیں جو عذاب یا ثواب حاصل ہوا اس سے نصیحت پکڑیں ۔ ان دونوں آدمیوں کی متعین طور پر معرفت حاصل کرنے اور یہ معلوم کرنے میں کہ وہ کس زمانے اور کون سی جگہ کے لوگ ہیں ؟ کوئی فائدہ نہیں ۔ فائدہ اور نتیجہ صرف ان کے واقعہ کو بیان کرنے میں ہے۔ ان کے قصہ کے علاوہ دیگر امور میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ پس ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو باغ عطا كيے، یعنی انگوروں کے دو خوبصورت باغ ﴿ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ﴾ ’’اور ان دونوں کے گرد کھجوروں کے درخت تھے‘‘ یعنی ان باغات میں ہر قسم کے پھل تھے خاص طور پر انگور اور کھجور کے درخت جو سب سے افضل درخت ہیں ۔ باغ کے وسط میں انگور کی بیلیں تھیں کھجور کے درختوں نے اس کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اس طرح وہ بہت خوبصورت نظر آتا تھا انگور کی بیلوں اور کھجور کے درختوں کو بکثرت ہوا اور سورج کی وافر روشنی حاصل ہوتی تھی، ہوا اور روشنی پھل کی تکمیل اور اس کے پکنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درختوں کے درمیان کھیتی کاشت کی ہوئی تھی۔
#
{33} فلم يبق عليهما إلا أن يقالَ: كيف ثمارُ هاتين الجنتين؟ وهل لهما ماءٌ يكفيهما؟ فأخبر تعالى أنَّ كلًّا من {الجنتين آتت أكُلَها}؛ أي: ثمرها وزرعها ضعفين؛ أي: متضاعفاً، وأنها {لم تظلم منه شيئاً}؛ أي: لم تنقص من أُكُلِها أدنى شيء، ومع ذلك فالأنهار في جوانبها سارحة كثيرة غزيرة.
[33] پس ان کے لیے اس کے سوا کچھ باقی نہ تھا کہ ان سے کہا جاتا کہ ان دونوں باغوں کے پھل کیسے ہیں ۔ کیا ان کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی موجود ہے؟اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ دونوں باغوں میں سے ہر باغ کا پھل اور اس کی فصل کئی گنا ہوتی تھی ﴿ وَلَمْ تَظْلِمْ مِّؔنْهُ شَیْـًٔؔا﴾ ’’اور وہ نہیں گھٹاتے تھے اس میں سے کچھ‘‘ یعنی پھل لانے میں تھوڑی سی بھی کسر نہ چھوڑی اور اس کے ساتھ ساتھ دریا پانی سے لبریز اس کے چاروں جانب بہہ رہے تھے۔
#
{34} {وكان له}؛ أي: لذلك الرجل {ثمرٌ}؛ أي: عظيم؛ كما يفيده التنكير؛ أي: قد استكملت جنتاه ثمارهما، وارجحنَّت أشجارهما ولم تعرض لهما آفةٌ أو نقصٌ، فهذا غاية منتهى زينة الدُّنيا في الحرث، ولهذا اغترَّ هذا الرجل وتبجَّح وافتخر، ونسي آخرته.
[34] ﴿وَّكَانَ لَهٗ ثَمَرٌ﴾ اور اس شخص کا باغ بہت پھل لایا تھا جیسا کہ لفظ (ثمر) کے نکرہ ہونے سے مستفاد ہوتا ہے۔ اس کے باغوں کا پھل پوری طرح پک گیا تھا ان کے درخت پھل کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔ ان پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پس یہ کھیتی باڑی کے پہلو سے دنیا کی زیب و زینت کی انتہا ہے، اس وجہ سے وہ شخص دھوکے میں پڑ گیا، تکبر کرنے اور اترانے لگا اور اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھا۔
آیت: 34 - 36 #
{فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا (34) وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا (35) وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا (36)}.
پس کہا اس نے اپنے ساتھی سے جبکہ وہ گفتگو کر رہا تھا اس سے، میں زیادہ ہوں تجھ سے مال میں اور زیادہ باعزت ہوں تجھ سے باعتبار جتھے کے (34) اور وہ داخل ہوا اپنے باغ میں جبکہ وہ ظلم کرنے والا تھا اپنے آپ پر، اس نے کہا، نہیں گمان کرتا میں یہ کہ تباہ ہو گا یہ، یہ (باغ) کبھی بھی (35) اور نہیں گمان کرتا میں قیامت کو قائم ہونے والی اور البتہ اگر (بالفرض) لوٹایا گیا میں اپنے رب کی طرف تو ضرور پاؤں گا میں بہتر ان باغوں سے بھی، لوٹ کر جانے کی جگہ (36)
#
{34} أي: فقال صاحب الجنتين لصاحبه المؤمن وهما يتحاوران؛ أي: يتراجعان بينهما في بعض الماجريات المعتادة مفتخراً عليه: {أنا أكثرُ منك مالاً وأعزُّ نفراً}: فَخَرَ بكثرة مالِهِ وعزَّةِ أنصاره من عبيدٍ وخدمٍ وأقارب، وهذا جهلٌ منه، وإلاَّ؛ فأيُّ افتخار بأمر خارجيٍّ ليس فيه فضيلةٌ نفسيَّة ولا صفةٌ معنويَّة، وإنَّما هو بمنزلة فخر الصبيِّ بالأماني التي لا حقائق تحتها؟!
[34] ان باغوں کے مالک نے اپنے صاحب ایمان ساتھی سے نہایت فخر سے کہا جبکہ وہ دونوں روز مرہ کے بعض معاملات میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے: ﴿اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا﴾ ’’میرے پاس تجھ سے زیادہ مال ہے اور زیادہ آبرو والے لوگ‘‘ اس نے اپنے مال کی کثرت اور اپنے اعوان و انصار، یعنی اپنے غلام و خدام اور عزیز و اقارب کی طاقت پر فخر کا اظہار کیا۔ یہ اس کی جہالت تھی ورنہ ایک ایسے خارجی امر میں کون سی فخر کی بات ہے جس میں کوئی نفسی فضیلت ہے نہ معنوی صفت۔ یہ تو ایک بچے کا سا فخر ہے جو محض اپنی آرزوؤں پر فخر کرتا ہے جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
#
{35 ـ 36} ثم لم يكفِهِ هذا الافتخار على صاحبه، حتى حَكَمَ بجهله وظلمه، وظنَّ لما دخل جنته، {فقال ما أظنُّ أن تبيدَ}؛ أي: تنقطعَ وتضمحلَّ {هذه أبداً}: فاطمأنَّ إلى هذه الدنيا، ورضي بها، وأنكر البعث، فقال: {وما أظنُّ الساعة قائمةً ولئن رُدِدتُّ إلى ربِّي}: على ضرب المثل؛ {لأجِدَنَّ خيراً منها مُنْقَلَباً}؛ أي: ليعطيني خيراً من هاتين الجنتين! وهذا لا يخلو من أمرين: إمَّا أن يكون عالماً بحقيقة الحال، فيكون كلامُهُ هذا على وجه التهكُّم والاستهزاء، فيكون زيادةَ كفرٍ إلى كفرِهِ. وإما أن يكون هذا ظنَّه في الحقيقة، فيكون من أجهل الناس وأبخسهم حظًّا من العقل؛ فأيُّ تلازم بين عطاء الدُّنيا وعطاء الآخرة حتى يظنَّ بجهله أنَّ من أُعْطِي في الدنيا أُعْطِيَ في الآخرة؟! بل الغالب أنَّ الله تعالى يَزْوي الدُّنيا عن أوليائِهِ وأصفيائِهِ، ويوسِّعها على أعدائه، الذين ليس لهم في الآخرة نصيبٌ. والظاهر أنَّه يعلم حقيقة الحال، ولكنَّه قال هذا الكلام على وجه التهكُّم والاستهزاء؛ بدليل قوله: {وَدَخَلَ جنَّته وهو ظالمٌ لنفسِهِ}: فإثْبات أنَّ وصفه الظلم في حال دخوله الذي جرى منه من القول ما جرى، يدلُّ على تمرُّده وعناده.
[36,35] پھر اس نے صرف اپنے ساتھی پر فخر کے اظہار ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر حکم لگایا اور جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے گمان کو الفاظ کا پیرایہ دیا: ﴿قَالَ مَاۤ اَظُ٘نُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰؔذِهٖۤ اَبَدًا﴾ ’’اس نے کہا، میں نہیں خیال کرتا کہ یہ (باغ) کبھی تباہ ہو۔‘‘ یعنی یہ باغ کبھی ختم اور مضمحل نہ ہو گا۔ وہ اس دنیا پر مطمئن ہو کر اسی پر راضی ہو گیا اور اس نے آخرت کا انکار کر دیا، کہنے لگا: ﴿ وَّمَاۤ اَظُ٘نُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً١ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ﴾ ’’اور نہیں خیال کرتا میں کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا‘‘ یعنی فرض کیا قیامت قائم ہوتی ہے ﴿ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّؔنْهَا مُنْقَلَبًا ﴾ ’’تو پاؤں گا اس سے بہتر وہاں پہنچ کر‘‘ یعنی اللہ مجھے ان باغوں سے بہتر ٹھکانا عطا کرے گا، اس کی یہ بات دو امور سے خالی نہیں : (۱) یا تو وہ حقیقت حال کا علم رکھتا ہے تب اس کا یہ کلام ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر ہے یہ اس کے کفر میں اضافے کا باعث ہے۔ (۲) یا وہ حقیقت میں یہی سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا تب وہ دنیا کا جاہل ترین شخص اور عقل سے بے بہرہ ہے۔ دنیا کی عطا اور آخرت کی عطا میں کون سا تلازم ہے کہ کوئی جاہل شخص اپنی جہالت کی بنا پر یہ سمجھے کہ جسے اس دنیا میں عطا کر دیا گیا ہے اسے آخرت میں بھی عطا کیا جائے گا بلکہ غالب طور پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء اور خاص بندوں سے دنیا کو دور ہٹا دیتا اور اپنے دشمنوں کو دنیا عطا کرتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو حقیقت کا علم تھا مگر اس نے بات محض ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر کہی تھی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾ ’’اور وہ اپنے باغ میں گیا، جبکہ وہ اپنے ساتھ ظلم کر رہا تھا‘‘ پس باغ میں داخل ہوتے وقت اس سے صادر ہونے والے کلمات سے اس کے وصف ظلم کا اثبات، اس کے تمرد اور عناد پر دلالت کرتا ہے۔
آیت: 37 - 0 #
{قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا (37) لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا (38) وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ}.
کہا اس سے، اس کے (مومن) ساتھی نے، جبکہ وہ گفتگو کر رہا تھا اس سے، کیا کفر کیا ہے تو نے ساتھ اس ذات کے، جس نے پیدا کیا تجھے مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر ٹھیک اور درست بنایا تجھے مرد؟ (37) لیکن (میں تو کہتا ہوں ) وہی اللہ میرا رب ہے اور نہیں شریک ٹھہراتا میں اپنے رب کے ساتھ، کسی کو بھی (38) اور کیوں نہیں ، جب داخل ہوا تو اپنے باغ میں ، کہا تو نے، جو چاہے اللہ (وہی ہو گا)؟ نہیں کوئی قوت مگر ساتھ اللہ ( کی توفیق) کے،
#
{37} أي: قال له صاحبُهُ المؤمنُ ناصحاً له ومذكِّراً له حاله الأولى التي أوجده الله فيها في الدُّنيا {من ترابٍ ثم من نطفةٍ ثم سوَّاك رَجُلاً}؛ فهو الذي أنعم عليك بنعمة الإيجاد والإمداد، وواصَلَ عليك النعم، ونقلك من طَوْرٍ إلى طَوْرٍ، حتى سوَّاك رجلاً كامل الأعضاء والجوارح المحسوسة والمعقولة، وبذلك يسَّر لك الأسباب وهيَّأ لك ما هيَّأ من نعم الدنيا، فلم تحصُل لك الدُّنيا بحولك وقوَّتك، بل بفضل الله تعالى عليك؛ فكيف يَليقُ بك أن تكفُرَ بالله الذي خلقك من ترابٍ ثم من نطفةٍ ثم سوَّاك رجلاً، وتجهل نعمته، وتزعم أنَّه لا يبعثك، وإن بعثك أنَّه يعطيك خيراً من جنتك؟! هذا ممَّا لا ينبغي ولا يليقُ.
[37] یعنی اس کے صاحب ایمان ساتھی نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے اور اس کو اس کی ابتدائی حالت یاد دلاتے ہوئے جس حالت میں اللہ تعالیٰ اسے وجود میں لایا تھا، کہا: ﴿ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا﴾ ’’کیا تو نے اس ذات کا انکار کیا جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے، پھر قطرے سے، پھر پورا کر دیا تجھ کو مرد۔‘‘ پس وہی ہے جس نے تجھے وجود بخشا اور تجھ تک اپنی نعمتیں پہنچائیں ، تجھے ایک ہیئت سے دوسری ہیئت میں منتقل کیا یہاں تک کہ تجھے کامل اعضائے محسوسہ و معقولہ کے ساتھ آدمی بنا کر پیدا کیا، تیرے لیے اسباب میں آسانی پیدا کی اور تجھے دنیا کی نعمتیں مہیا کیں ۔ تو اپنی قوت و اختیار سے کبھی یہ دنیا حاصل نہ کر سکتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر فضل و کرم کیا ہے۔ تب تیرے لیے کیونکر یہ مناسب ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے جنم دیا اور نک سک درست کر کے آدمی بنایا اور تو اس کی نعمت کو جھٹلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تیرے مرنے کے بعد وہ تجھ کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور اگر اس نے تجھے دوبارہ زندہ کیا تو تجھے تیرے اس باغ سے بہتر باغ عطا کرے گا اور یہ ایسی بات ہے جو تیرے لیے مناسب اور تیرے لائق نہیں ۔
#
{38} ولهذا لما رأى صاحبُهُ المؤمن حاله واستمراره على كفرِهِ وطغيانه؛ قال مخبراً عن نفسه على وجه الشُّكر لربِّه والإعلان بدينِهِ عند ورود المجادلات والشُّبه: {لكنَّاْ هو الله ربِّي ولا أشرِكُ بربِّي أحداً}: فأقرَّ بربوبيَّة ربِّه وانفراده فيها والتزام طاعته وعبادته، وأنَّه لا يشرك به أحداً من المخلوقين.
[38] جب اس کے مومن ساتھی نے دیکھا کہ وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جما ہوا ہے تو اس نے مجادلات و شبہات کے وارد ہونے کے وقت اپنے رب کی شکر گزاری اور اپنے دین کا اعلان کرتے ہوئے بتایا: ﴿ لٰكِنَّاۡ هُوَ اللّٰهُ رَبِّیْ وَلَاۤ اُشْ٘رِكُ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا ﴾ ’’میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ میرا رب ہے، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔‘‘ پس اس نے اپنے رب کی ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کی یکتائی اور اس کی اطاعت وعبادت کے ضروری ہونے کا اقرار کیا اور یہ کہ وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائے گا، پھر اس نے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان اور اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اگرچہ اس کے پاس مال اور اولاد قلیل ہے لیکن حقیقی نعمت ایمان اور اسلام ہی ہے اور ان کے سوا ہر چیز زائل ہو جانے والی، سزا اورعقوبت کی باعث ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 39 - 44 #
{إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَوَلَدًا (39) فَعَسَى رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِنْ جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا (40) أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا (41) وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَالَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا (42) وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا (43) هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا (44)}.
اگر تو دیکھتا ہے مجھے، کہ میں کم تر ہوں تجھ سے مال میں اور اولاد میں (39) تو امید ہے کہ میرا رب، یہ کہ دے وہ مجھے زیادہ بہتر تیرے باغ سےاور بھیجے اوپر اس (تیرے باغ)کے کوئی عذاب آسمان سے، پھر ہو جائے وہ (باغ) چٹیل میدان پھسلنے والا (40) یا ہو جائے پانی اس کا گہرا، پس ہرگز نہ اسطاعت رکھے تو اسے ڈھونڈ لانے کی (41) اور گھیر لیا (تباہ کر دیا) گیا پھل اس کا، سو ہو گیا وہ ملتا تھا دونوں ہتھیلیاں اپنی (افسوس سے) اوپر اس کے جو خرچ کیا تھا اس نے اس میں ، جبکہ وہ (باغ) گرا ہوا تھا اوپر اپنی چھتریوں کے اور وہ کہتا تھا، کاش نہ شریک ٹھہراتا میں ساتھ اپنے رب کے کسی کو بھی (42) اور نہ ہوئی اس کے لیے کوئی جماعت، کہ وہ مدد کرتی اس کی سوائے اللہ کے،اور نہ ہوا وہ (خود) بدلہ لینے والا (ہم سے) (43) وہاں تو تمام اختیار اللہ سچے ہی کا ہے، وہی ہے بہتر ثواب (دینے) میں اور بہتر ہے اچھے انجام سے بہرہ ور کرنے میں (44)
#
{39} أي: قال للكافر صاحبُهُ المؤمنُ: أنت وإن فخرتَ عليَّ بكثرة مالك وولدك، ورأيتني {أقلَّ منك مالاً وولداً}؛ فإنَّ ما عند الله خيرٌ وأبقى، وما يُرجى من خيره وإحسانه أفضلُ من جميع الدُّنيا التي يتنافس فيها المتنافسون.
[39] یعنی صاحب ایمان شخص نے اس کافر سے کہا کہ تو اگرچہ کثرت مال و اولاد کی بنا پرمجھ پر فخر جتاتا ہے اور تو سمجھتا ہے کہ میں مال و اولاد کے لحاظ سے تجھ سے کم تر ہوں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور جو امید اللہ تعالیٰ کی نوازش اور احسان پر رکھی جا سکتی ہے وہ اس دنیا و مافیہا سے بہتر ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
#
{40} {فعسى ربِّي أن يُؤْتِيَني خيراً من جنَّتك ويرسلَ عليها}؛ أي: على جنَّتك التي طغيتَ بها وغَرَّتْك، {حُسباناً من السماء}؛ أي: عذاباً بمطر عظيم أو غيره. {فتصبحَ}: بسبب ذلك {صعيداً زَلَقاً}؛ أي: قد اقتلعت أشجارها، وتلفت ثمارها وغرق زرعُها، وزال نفعُها.
[40] ﴿ فَعَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَیُرْسِلَ عَلَیْهَا ﴾ ’’پس امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا کرے گا اور بھیجے گا اس پر‘‘ یعنی اس باغ پر جس کی بنا پر تو نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور اس باغ نے تجھے دھوکے میں مبتلا کر دیا، ﴿ حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’عذاب آسمان سے‘‘ یعنی طوفانی بارش یا اور کسی قسم کا عذاب ﴿فَ٘تُصْبِحَ ﴾ ’’پس اس سبب سے وہ ہو جائے‘‘ ﴿ صَعِیْدًا زَلَقًا﴾ ’’میدان صاف‘‘ کہ اس کے تمام درخت جڑوں سے اکھڑ جائیں، اس کا پھل تلف ہو جائے، اس کی کھیتی تباہ ہو جائے اور اس کا فائدہ مفقود ہو کر رہ جائے۔
#
{41} {أو يصبحَ ماؤها} الذي مادتُها منه {غوراً}؛ أي: غائراً في الأرض. {فلنْ تستطيعَ له طَلَباً}؛ أي: غائراً لا يُستطاع الوصول إليه بالمعاول ولا بغيرها، وإنَّما دعا على جنته المؤمن غضباً لربِّه؛ لكونها غرَّته وأطغتْه واطمأنَّ إليها؛ لعلَّه ينيبُ، ويراجع رُشده، ويبصر في أمره.
[41] ﴿ اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا ﴾ ’’یا ہو جائے پانی اس کا‘‘ یعنی باغ کے پانی کا سرچشمہ ﴿ غَوْرًا ﴾ ’’زمین میں اور گہرا‘‘ ﴿ فَلَ٘نْ تَ٘سْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا ﴾ ’’پس ہرگز نہیں لاسکے گا تو اسے ڈھونڈ کر‘‘ یعنی اتنی گہرائی میں چلا جائے کہ تم کھدائی کے آلات کے ذریعے سے بھی وہاں تک نہ پہنچ سکو۔ اس صاحب ایمان شخص نے صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر غضبناک ہوکر اس کے باغ کے لیے بددعا کی تھی کیونکہ اس باغ نے اس کو دھوکے اور سرکشی میں مبتلا کر دیا تھا اور وہ اس باغ پر مطمئن ہوکر رہ گیا تھا۔ اس بد دعا کا مقصد یہ تھا کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کی رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئے اور اپنے بارے میں وہ خوب غور و فکر کرے۔
#
{42} فاستجاب الله دعاءه، {وأحيطَ بثمرِهِ}؛ أي: أصابه عذابٌ أحاط به واستهلكه فلم يبقَ منه شيءٌ، والإحاطة بالثمر يستلزمُ تَلَفَ جميع أشجارِهِ وثمارِهِ وزرعِهِ، فندم كلَّ الندامة، واشتدَّ لذلك أسفه. {فأصبحَ يقلِّبُ كفَّيْه على ما أنفق فيها}؛ أي: على كثرة نفقاته الدنيويَّة عليها، حيث اضمحلَّت وتلاشت، فلم يبق لها عوضٌ، وندم أيضاً على شِرْكِه وشرِّه، ولهذا قال: {ويقولُ يا ليتني لم أشرِكْ بربِّي أحداً}.
[42] پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ وَاُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ ﴾ ’’اور سمیٹ لیا گیا اس کا سارا پھل‘‘ یعنی اس کے پھل پر عذاب نازل ہو گیا، اس نے اس کا احاطہ کر کے اس کو تباہ کر دیا اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھل کا احاطہ کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے باغ کے تمام درخت، ان کا تمام پھل اور زمین میں کاشت کی ہوئی تمام فصل سب کچھ تباہ ہو گیا۔ پس وہ بے حد نادم ہوا اور اسے سخت افسوس ہوا۔ ﴿ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا﴾ ’’پس رہ گیا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیرتا ہوا، اس مال پر جو اس نے اس باغ میں لگایا تھا‘‘ یعنی اس نے اپنے باغ پر جو دنیاوی اخراجات كيے تھے وہ سب ضائع ہو گئے اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا اور اس کا کوئی عوض باقی نہ رہا، نیز وہ اپنے شرک اور اپنی بدی پر بھی پشیمان ہوا، اس لیے وہ کہنے لگا: ﴿ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْ٘رِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا﴾ ’’کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔‘‘
#
{43} قال الله تعالى: {ولم تكُن له فئةٌ ينصُرونَه من دونِ الله وما كان منتصراً}؛ أي: لما نزل العذاب بجنَّته؛ ذهب عنه ما كان يفتخرُ به من قوله لصاحبه: {أنا أكثرُ منك مالاً وأعزُّ نفراً}، فلم يدفعوا عنه من العذاب شيئاً أشدَّ ما كان إليهم حاجةً، وما كان بنفسه منتصراً، وكيف ينتصر أو يكون له انتصارٌ على قضاء الّله وقدرِهِ الذي إذا أمضاه وقدَّره لو اجتمع أهلُ السماء والأرض على إزالة شيءٍ منه لم يقدروا؟! ولا يُستبعد من رحمة الله ولطفِهِ أنَّ صاحب هذه الجنَّة التي أحيط بها تحسَّنت حاله، ورزقه الله الإنابة إليه وراجع رشدَه، وذهب تمرُّدُه وطغيانه؛ بدليل أنَّه أظهر النَّدم على شركه بربِّه، وأنَّ الله أذهب عنه ما يُطغيه وعاقبه في الدُّنيا، وإذا أراد الله بعبدٍ خيراً عجَّل له العقوبة في الدُّنيا، وفضلُ الله لا تحيطُ به الأوهام والعقول، ولا ينكِرُه إلاَّ ظالمٌ جهولٌ.
[43] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَمْ تَكُ٘نْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مُنْ٘تَصِرًا﴾ ’’اور نہ ہوئی اس کی کوئی جماعت کہ وہ اس کی مدد کرے اور نہ ہوا وہ خود بدلہ لینے والا‘‘ یعنی جب اس کے باغ پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو ہر چیز اس کے ہاتھوں سے نکل گئی جس پر وہ فخر کیا کرتا تھا جس کے زعم پر کہا کرتا تھا: ﴿ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا ﴾ یہ اعوان و انصار اس سے کچھ بھی عذاب دور نہ کر سکے جبکہ اسے ان کی سخت ضرورت تھی اور وہ خود بھی اپنی مدد نہ کر سکا اور وہ اس عذاب سے کیسے بچ سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے مقابلے میں کون اس کی مدد کر سکتا تھا جس کا فیصلہ جب اللہ تعالیٰ جاری فرما دیتا ہے تو زمین و آسمان کے تمام رہنے والے مل کر بھی اس میں سے کسی چیز کو زائل کرنا چاہیں تو وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم سے بعید نہیں کہ اس شخص نے جس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تھی، اپنے احوال کی اصلاح کر لی ہو، وہ اپنے رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آیا ہوا اور اس کا تمام تکبر اور اس کی سرکشی ختم ہو گئی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے شرک پر ندامت کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے تمرد اور سرکشی کو دور کر کے اس کو دنیا ہی میں سزا دے دی ہو کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ عقل و وہم اللہ تعالیٰ کے فضل کا احاطہ نہیں کر سکتے اور اس کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ظالم اورسخت جاہل ہے۔
#
{44} {هنالك الوَلايةُ لله الحقِّ هو خيرٌ ثواباً وخيرٌ عقباً}؛ أي: في تلك الحال التي أجرى الله فيها العقوبة على من طغى وآثر الحياة الدُّنيا، والكرامة لمن آمن وعمل صالحاً وشكر الله ودعا غيره لذلك؛ تبيَّن وتوضَّح أن الولاية الحق لله وحده ؛ فمن كان مؤمناً به تقيًّا؛ كان له وليًّا، فأكرمه بأنواع الكرامات، ودَفَعَ عنه الشرور والمَثُلات ـ ومن لم يؤمنْ بربِّه ويتولاَّه؛ خَسِرَ دينه ودُنياه ـ فثوابُهُ الدنيويُّ والأخرويُّ خيرُ ثواب يُرجى ويؤمَّل. ففي هذه القصة العظيمة اعتبارٌ بحال الذي أنعم الله عليه نعماً دنيويَّة، فألهتْه عن آخرته، وأطغتْه، وعصى الله فيها، أنَّ مآلها الانقطاع والاضمحلال، وأنَّه وإنْ تمتَّع بها قليلاً؛ فإنَّه يحرمها طويلاً، وأنَّ العبد ينبغي له إذا أعجبه شيءٌ من مالِهِ أو ولدِهِ أن يضيفَ النعمة إلى موليها ومُسْديها، وأن يقولَ: ما شاء اللهُ، لا قوَّة إلاَّ بالله؛ ليكون شاكراً [لله] متسبِّباً لبقاء نعمته عليه؛ لقوله: {ولولا إذْ دخلتَ جنَّتَك قلتَ ما شاء اللهُ لا قوَّةَ إلاَّ بالله}. وفيها: الإرشاد إلى التسلِّي عن لذَّات الدُّنيا وشهواتها بما عند الله من الخير؛ لقوله: {إنْ تَرَنِ أنا أقلَّ منك مالاً وولَداً فعسى ربِّي أن يُؤْتِيَني خيراً من جنَّتك}. وفيها: أنَّ المال والولد لا ينفعانِ إنْ لم يُعينا على طاعة الله؛ كما قال تعالى: {وما أموالكم ولا أولادُكم بالتي تُقَرِّبُكم عندنا زُلفى إلاَّ مَنْ آمنَ وعملَ صالحاً}. وفيه: الدُّعاء بِتَلَفِ مال مَنْ كان مالُهُ سببَ طغيانِهِ وكفره وخسرانِهِ، خصوصاً إنْ فضَّل نفسه بسببهِ على المؤمنين، وفَخَرَ عليهم. وفيها: أنَّ ولاية الله وعدمها إنما تتَّضح نتيجتها إذا انجلى الغبار وحقَّ الجزاء، ووجد العاملونَ أجرهم؛ فـ {هنالِكَ الوَلاية لله الحقِّ هو خيرٌ ثواباً وخيرٌ عُقْباً}؛ أي: عاقبةً ومآلاً.
[44] ﴿ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ١ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ﴾ ’’وہاں سب اختیار اللہ برحق کا ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے‘‘ یعنی اس حال میں جس میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے کا حکم جاری کرتا ہے جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی۔ اور عزت وتکریم اس شخص کے لیے جس نے ایمان لا کر نیک عمل كيے، اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا رہا اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتا رہا۔ اس بنا پر واضح ہو گیا کہ حقیقی ولایت کا مالک صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ولی اور دوست ہے، وہ اسے مختلف اقسام کی کرامات کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے اور اس کو شر اورتمام آفتوں سے بچاتا ہے۔ جو اپنے رب پر ایمان نہیں رکھتا اور نہ اسے اپنا والی اور سرپرست بناتا ہے، وہ دین و دنیا میں خسارہ اٹھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب بہترین ثواب ہے جس پر امیدوں کو مرتکز ہونا چاہیے۔ اس عظیم قصے میں اس شخص کے حال میں جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں عنایت کیں مگر ان نعمتوں نے اسے آخرت سے غافل کر کے سرکش بنا دیا اور وہ ان میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگا، لوگوں کے لیے عبرت ہے کہ ان نعمتوں کا انجام زوال اور اضمحلال ہے اگر بندہ ان نعمتوں سے تھوڑا فائدہ اٹھاتا ہے تو طویل عرصے تک محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بندۂ مومن کے لیے مناسب یہی ہے کہ جب اسے اپنے مال اور اولاد میں سے کچھ اچھا لگے تو وہ اس نعمت کو نعمت عطا کرنے والے کی طرف منسوب کرے اور یہ کہے: ﴿ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ تاکہ وہ شکر گزار بنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بقا کے لیے سبب بننے والا بنے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْلَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُ٘وَّ٘ةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ ’’کیوں نہ، جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں ، کہا تو نے، جو چاہے اللہ سو وہ ہو۔ طاقت نہیں مگر جو دے اللہ۔‘‘ ان آیات کریمہ میں لذات دنیا اور اس کی شہوات کے بدلے میں ان بہتر چیزوں کے ذریعے تسلی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ۔ فرمایا: ﴿اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًاۚ۰۰فَعَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ ﴾ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ مال اور اولاد اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مددگار نہ بنیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿ وَمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُؔكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْ٘فٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ (سبا: 34؍37) ’’تمھارا مال اور تمھاری اولاد نہیں، جو تمھیں ہم سے قریب کرتی ہو مگر وہی قریب ہوتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔‘‘ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص کا مال اس کی سرکشی، کفر اور اس کے لیے اخروی خسارے کا سبب ہو اس مال کے تلف ہونے کی دعا کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر جبکہ وہ اس مال کی بنا پر اپنے آپ کو اہل ایمان سے افضل سمجھتا ہو اور ان پر فخر کا اظہار کرتا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت اور عدم ولایت، اس وقت ظاہر ہو گی جب غبار چھٹ جائے گا، جزا و سزا ثابت ہو گی اور عمل کرنے والے اپنا اجر پا لیں گے: ﴿ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ١ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ﴾ ’’اس وقت معلوم ہو گا کہ کار سازی تو اللہ برحق کے اختیار میں ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے۔‘‘
آیت: 45 - 46 #
{وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا (45) الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (46)}.
اور بیان کیجیے ان کے لیے مثال زندگانیٔ دنیا کی، وہ مانند اس پانی کے ہے کہ اتارا ہم نے اسے آسمان سے، پس مل جل گئی ساتھ اس کے روئیدگی زمین کی، پھر ہوگئی وہ (روئیدگی) چورا چورا، اڑا لے جاتی ہیں اس کوہوائیں اور ہے اللہ اوپر ہرچیزکے قادر (45) یہ مال اور بیٹے تو زینت ہیں زندگانیٔ دنیا کی اور باقی رہنے والی نیکیاں بہت بہتر ہیں آپ کے رب کے ہاں ثواب میں اور بہت بہتر ہیں باعتبار امید کے (46)
#
{45} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم - أصلاً ولمن قام بوراثته بعده تبعاً: اضرب للناس {مَثَلَ الحياة الدنيا}؛ ليتصوَّروها حقَّ التصوُّر ويعرِفوا ظاهرها وباطنها، فيقيسوا بينها وبين الدار الباقية، ويؤثروا أيَّهما أولى بالإيثار. وإنَّ مَثَلَ هذه الحياة الدُّنيا كمثل المطر؛ ينزِلُ على الأرض، فيختلط نباتها، تُنْبِتُ من كلِّ زوج بهيج، فبينا زهرتُها وزُخرفها تسرُّ الناظرين، وتفرِحُ المتفرِّجين، وتأخذُ بعيون الغافلين؛ إذ أصبحتْ {هشيماً تذروه الرياح}: فذهب ذلك النبات الناضر والزهر الزاهر والمنظر البهيُّ، فأصبحت الأرض غبراء تراباً قد انحرف عنها النظرُ، وصرف عنها البصرُ، وأوحشت القلبَ؛ كذلك هذه الدُّنيا؛ بينما صاحبها قد أعْجِبَ بشبابِهِ، وفاق فيها على أقرانِهِ وأترابِهِ، وحصَّل درهمَها ودينارَها، واقتطف من لذَّتِهِ أزهارها، وخاض في الشهوات في جميع أوقاته، وظنَّ أنَّه لا يزال فيها سائر أيامه؛ إذْ أصابه الموتُ أو التلفُ لماله، فذهب عنه سرورُهُ، وزالت لذَّتُه وحبوره، واستوحش قلبُه من الآلام، وفارق شبابَه وقوتَه ومالَه، وانفرد بصالح أو سيئ أعماله، هنالك يعضُّ الظالم على يديه حين يعلم حقيقةَ ما هو عليه ويتمنَّى العَوْدَ إلى الدُّنيا، لا ليستكمل الشهوات، بل ليستدركَ ما فرط منه من الغفلات؛ بالتوبة والأعمال الصالحات، فالعاقل الحازمُ الموفَّق يعرِضُ على نفسِهِ هذه الحالة، ويقول لنفسه: قدِّري أنَّك قد متِّ، ولا بدَّ أن تموتي؛ فأيُّ الحالتين تختارين: الاغترار بزخرِف هذه الدار، والتمتُّع بها كتمتُّع الأنعام السارحة، أم العمل لدارٍ أكُلُها دائمٌ وظلُّها، وفيها ما تشتهيه الأنفسُ وتلذُّ الأعين؛ فبهذا يُعْرَفُ توفيقُ العبد من خذلانِهِ، وربحُهُ من خسرانِهِ.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی سے اصلاً اور ان لوگوں سے تبعاً فرماتا ہے جو آپ کے بعد آپ کے قائم مقام ہیں کہ لوگوں کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کر دیجیے تاکہ وہ اس زندگی کا اچھی طرح تصور کر لیں اور اس کے ظاہر و باطن کی معرفت حاصل کر لیں ۔ پس وہ دنیاوی زندگی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے درمیان تقابل کریں اور ان میں جو ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے اسے ترجیح دیں ۔ اس دنیاوی زندگی کی مثال بارش کی سی ہے جو آسمان سے زمین پر برستی ہے جس سے زمین کی روئیدگی بہت گھنی ہو جاتی ہے اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگ آتی ہیں۔ پس اس وقت کہ جب اس کی خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھنے والوں کو خوش کن لگتی ہے، لوگ اس سے فرحت حاصل کرتے ہیں اور زمین کا یہ حسن غافل لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے کہ اچانک نباتات بھس بن کر رہ جاتی ہیں اور ہوائیں اسے اڑائے لے جاتی ہیں ۔ پس وہ تروتازہ، خوبصورت اور خوش منظر روئیدگی ختم ہو جاتی ہے، زمین چٹیل میدان بن جاتی ہے جہاں خاک اڑتی ہے جس سے نظریں دور ہٹ جاتی ہیں اور دل وحشت محسوس کرتے ہیں ۔ دنیا کی زندگی کا بھی یہی حال ہے دنیا کی زندگی میں مگن شخص کواپنا شباب بہت اچھا لگتا ہے، وہ اس زندگی میں اپنے ساتھیوں اور ہم جولیوں سے آگے نکل جاتا ہے، اس کے درہم و دینار کے حصول میں لگا رہتا ہے، اس کی لذت سے خوب حظ اٹھاتا ہے، ہر وقت اس کی شہوات کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ زندگی بھر اس دنیا کی لذتیں اور شہوتیں زائل نہ ہوں گی کہ اچانک موت اسے آ لیتی ہے یا اس کا مال تلف ہو جاتا ہے۔ خوشیاں اس سے روٹھ جاتی ہیں ، اس کی لذتیں اس سے چھن جاتی ہیں ، اس کا قلب مصائب وآلام سے وحشت کھاتا ہے، اس کی جوانی، اس کی طاقت اور اس کا مال سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ نیک یا برے اعمال کے ساتھ اکیلا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی وہ حال ہے کہ جب ظالم کو اس کی حقیقت کا علم ہو گا تو اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔ وہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں واپس بھیجا جائے، اس لیے نہیں کہ وہ ان شہوات کو پورا کرے جو نامکمل رہ گئی تھیں بلکہ اس لیے کہ اس سے غفلت میں جو کوتاہیاں صادر ہوئیں توبہ و استغفار اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تلافی کر سکے، لہٰذا عقل مند اور پختہ ارادے والا شخص، جسے توفیق سے نوازا گیا ہو، اپنے آپ پر یہی حالت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے: ’’فرض کر لو کہ تم مر چکے ہو‘‘ اور موت ایک یقینی امر ہے۔ پس مذکورہ دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت کو تو اختیار کرتا ہے؟ اس دنیا کی زیب و زینت سے دھوکہ کھانا، اس سے اس طرح فائدہ اٹھانا جس طرح چراگاہ میں مویشی چرتے ہیں یا ایسی جنت کے حصول کی خاطر عمل کرنا جس کے پھل ہمیشہ رہنے والے، اس کے سائے بہت گھنے ہیں ۔ وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو دل چاہے گا اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔پس یہی وہ حالت ہے جس کے ذریعے سے یہ معرفت حاصل ہوتی کہ بندے کو توفیق الٰہی سے نوازا گیا ہے یا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ اسے نفع حاصل ہوا ہے یا خسارہ؟
#
{46} ولهذا أخبر تعالى أنَّ المال والبنين {زينةُ الحياة الدُّنيا}؛ أي: ليس وراء ذلك شيءٌ، وأنَّ الذي يبقى للإنسان وينفعُهُ ويسرُّه الباقيات الصالحات، وهذا يَشْمَلُ جميع الطاعات الواجبات والمستحبَّة من حقوق الله وحقوق عبادِهِ من صلاةٍ وزكاةٍ وصدقةٍ وحجٍّ وعمرةٍ وتسبيح وتحميدٍ وتهليل [وتكبير] وقراءةٍ وطلب علم نافع وأمرٍ بمعروفٍ ونهي عن منكرٍ وصلة رحم وبرِّ والدين وقيام بحقِّ الزوجات والمماليك والبهائم وجميع وجوه الإحسان إلى الخلق، كلُّ هذا من الباقيات الصالحات؛ فهذه خيرٌ عند الله ثواباً وخيرٌ أملاً؛ فثوابُها يبقى ويتضاعفُ على الآباد، ويؤمَّل أجرُها وبرُّها ونفعها عند الحاجة؛ فهذه التي ينبغي أن يَتَنافَس بها المتنافسون، ويستبقَ إليها العاملون، ويجدَّ في تحصيلها المجتهدون. وتأمَّل كيف لما ضَرَبَ الله مثل الدُّنيا وحالها واضمحلالها؛ ذَكَرَ أنَّ الذي فيها نوعان: نوعٌ من زينتها يُتمتَّع به قليلاً ثم يزول بلا فائدةٍ تعود لصاحبه، بل ربَّما لحقته مضرَّته، وهو المال والبنون. ونوعٌ يبقى لصاحبِهِ على الدَّوام، وهي الباقياتُ الصالحاتُ.
[46] اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں ۔ انسان کے لیے جو کچھ باقی رہ جاتا اور جو اسے فائدہ اور خوشی دیتا ہے وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں اور وہ واجب اور مستحب نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہیں ، مثلاً: حقوق اللہ، حقوق العباد، نماز، زکاۃ، صدقہ، حج، عمرہ، تسبیح، تحمید، تہلیل، قراء ت قرآن، طلب علم، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، صلہ رحمی، وا لدین کے ساتھ حسن سلوک، بیویوں کے حقوق پورے کرنا، غلاموں اور جانوروں کے حقوق کا احترام کرنا اور مخلوق کے ساتھ ہر لحاظ سے اچھا سلوک کرنا، یہ تمام باقی رہنے والی نیکیاں ہیں یہی وہ نیکیاں ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور انھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔ ان کا اجروثواب باقی رہتا ہے اور ابد الآباد تک بڑھتا ہے۔ ان کے اجر و ثواب اور نفع کی ضرورت کے وقت امید کی جا سکتی ہے۔ پس یہی وہ کام ہیں کہ سبقت کرنے والوں کو ان کی طرف سبقت کرنی چاہیے، عمل کرنے والوں کو انھی کے لیے آگے بڑھنا چاہیے اور جدو جہد کرنے والوں کو ان کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کے حال اور اس کے اضمحلال کی مثال دی تو اس کی دو قسمیں بیان کیں : (۱) دنیاوی زندگی کی زیب وزینت، جس سے انسان بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے، پھر بغیر کسی فائدے کے یہ دنیا زائل ہو جاتی ہے اور اس کا نقصان انسان کی طرف لوٹتا ہے بلکہ بسااوقات اس کا نقصان اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔ یہ مال اور بیٹے ہیں ۔ (۲) دوسری قسم وہ ہے جو انسان کے لیے ہمیشہ باقی رہتی ہے اور وہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں ۔
آیت: 47 - 49 #
{وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا (47) وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفًّا لَقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَكُمْ مَوْعِدًا (48) وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَاوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (49)}.
اور جس دن چلائیں گے ہم پہاڑوں کو اور آپ دیکھیں گے زمین کو صاف کھلی ہوئی اور اکٹھا کریں گے ہم ان کو، پس نہ چھوڑیں گے ہم ان میں سے کسی کو (47) اور پیش کیے جائیں گے وہ آپ کے رب پر صفیں بنائے ہوئے (کہا جائے گا) البتہ تحقیق آئے ہو تم ہمارے پاس جیسے پیدا کیا ہم نے تمھیں پہلی باربلکہ تم تو خیال کرتے تھے کہ ہرگز نہیں مقرر کریں گے ہم تمھارے لیے وعدہ گاہ (48)اوررکھے جائیں گے نامۂ اعمال، پس دیکھیں گے آپ مجرموں کو کہ وہ ڈرنے والے ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہےاور کہیں گے، ہائے ہماری کم بختی! کیاہے اس نامۂ اعمال کو نہیں چھوڑ رہا کسی چھوٹے (عمل) کو اور نہ بڑے کو مگر اس نے شمار کر رکھا ہے اس کو،اور وہ پائیں گے ، جو عمل کیے تھے انھوں نے، حاضر۔ نہیں ظلم کرے گاآپ کا رب کسی پر بھی (49)
#
{47 ـ 48} يخبر تعالى عن حال يوم القيامة وما فيه من الأهوال المقلقة والشَّدائد المزعجة، فقال: {ويومَ نُسَيِّرُ الجبالَ}؛ أي: يزيلها عن أماكنها؛ يجعلها كثيباً، ثم يجعلها كالعهن المنفوش، ثم تضمحلُّ وتتلاشى وتكون هباءً منبثًّا، وتبرز الأرض فتصير قاعاً صفصفاً لا عوج فيه ولا أمتاً، ويحشُرُ الله جميع الخَلْق على تلك الأرض؛ فلا يغادِرُ منهم أحداً، بل يجمع الأولين والآخرين من بطون الفلوات وقعور البحار، ويجمعهم بعدما تفرَّقوا، ويعيدهم بعدما تمزَّقوا خلقاً جديداً، فَيُعْرَضونَ عليه صفًّا ليستعرِضَهم وينظرَ في أعمالهم ويحكم فيهم بحكمه العدل الذي لا جَوْر فيه ولا ظُلْم، ويقول لهم: {لقد جِئْتُمونا كما خَلَقْناكم أولَ مرةٍ}؛ أي: بلا مال ولا أهل ولا عشيرة، ما معهم إلا الأعمال التي عملوها والمكاسب في الخير والشرِّ التي كسبوها؛ كما قال تعالى: {ولقد جِئْتمونا فُرادى كما خَلَقْناكم أولَ مرَّة وتركتُم ما خوَّلْناكم وراءَ ظهورِكُم وما نَرى معكم شفعاءَكم الذين زعمتُم أنَّهم فيكم شركاءُ}، وقال هنا مخاطباً للمنكرين للبعث وقد شاهدوه عياناً: {بل زعمتُم أن لن نجعلَ لكم موعداً}؛ أي: أنكرتُم الجزاء على الأعمال ووعدَ الله ووعيده؛ فها قد رأيتُموه وذقتموه.
[48,47] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کا حال بیان کرتا ہے کہ اس میں پریشان کن ہولناکیاں اور تڑپا دینے والی سختیاں ہو گی، چنانچہ فرمایا: ﴿وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ ﴾ ’’اور جس دن ہم چلائیں گے پہاڑ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ان کی جگہ سے ہٹا کر ان کو ریت کے ٹیلے بنا دے گا، پھر ان کو دھنکی ہوئی اون کی مانند کر دے گا پھر وہ مضمحل ہو کر غبار کی مانند اڑ جائیں گے اور زمین ایک ہموار میدان نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس زمین پر تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ وہ اگلوں پچھلوں سب کو صحراؤں کے پیٹوں سے اور سمندروں کی گہرائیوں سے نکال کر ایک جگہ اکٹھا کرے گا۔ جب ان کے اجزا بکھر چکے ہوں گے اور وہ پارہ پارہ ہو چکے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو نئی زندگی عطا کرے گا۔ پس لوگ صفیں باندھے اس کے سامنے پیش ہوں گے تاکہ وہ ان سے جوابدہی کرے، ان کے اعمال دیکھ کر ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ کرے گا جس میں کوئی ظلم وجور نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: ﴿لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُ٘رَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ’’تم اسی طرح ہمارے سامنے تن تنہا حاضر ہوگئے ہو، جس طرح ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ (اکیلا اکیلا) پیدا کیا تھا۔‘‘ یعنی لوگ مال و متاع، اہل و عیال اور قبیلے کنبے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ ان کے ساتھ صرف وہی اعمال ہوں گے جو وہ کرتے رہے تھے اور نیکی اور بدی ساتھ ہو گی جس کا اکتساب کرتے رہے ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُ٘رَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَؔكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَؔ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَمَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَؔكٰٓؤُا ﴾ (الانعام:6؍94) ’’تم اسی طرح ہمارے سامنے تن تنہا حاضر ہو گئے ہو جس طرح ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ (اکیلا اکیلا) پیدا کیا تھا اورجو کچھ ہم نے تمھیں عطا کیا تھا تم اسے اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو اور ہمیں تمھارے ساتھ تمھارے وہ سفارشی بھی نظر نہیں آتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے شریک ہیں ۔‘‘ اس مقام پر اللہ تعالیٰ منکرین آخرت سے مخاطب ہو کر فرمائے گا جبکہ وہ اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کر لیں گے: ﴿ بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّ٘نْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا ﴾ ’’لیکن تم نے یہ خیال کررکھا تھا کہ ہم نے تمھارے لیے کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا۔‘‘ یعنی تم اعمال کی سزا و جزا کا انکار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے ساتھ اس جزا و سزا کا وعدہ کر رکھا تھا، لو! اس کا وعدہ آ گیا تم نے اسے دیکھ لیا اور اس کا مزا چکھ لیا۔
#
{49} فحينئذٍ تُحْضَرُ كتب الأعمال التي كتبها الملائكة الأبرار ، فتطير لها القلوبُ، وتَعْظُم من وقعها الكروبُ، وتكاد لها الصمُّ الصلاب تذوبُ، ويشفق منها المجرمون؛ فإذا رأوها مسطرةً عليهم أعمالهم محصى عليهم أقوالهم وأفعالهم؛ قالوا: {يا وَيْلَتَنا مالِ هذا الكتابِ لا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها}؛ أي: لا يترك خطيئة صغيرة ولا كبيرة إلاَّ وهي مكتوبةٌ فيه محفوظة لم ينس منها عملُ سرٍّ ولا علانية ولا ليل ولا نهار. {ووجدوا ما عَمِلوا حاضراً}: لا يقدرون على إنكارِهِ، {ولا يظلم ربُّك أحداً}: فحينئذٍ يجازَوْن بها ويُقَرَّرون بها ويُخْزَون ويحقُّ عليهم العذاب، {ذلك بما قدَّمتْ أيديهم وأنَّ الله ليس بظلاَّم للعبيدٍ}: بل هم غيرُ خارجين عن عدلِهِ وفضلِهِ.
[49] اس وقت وہ ا عمال نامے حاضر كيے جائیں گے جن کو کراماً کاتبین لکھا کرتے تھے۔ ان کو دیکھ کر دل اڑنے لگیں گے ان کے وقوع سے غم اور مشقتیں بڑھ جائیں گی۔ جن کو دیکھ کر ٹھوس اور سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں گی اور مجرم ڈریں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان اعمال ناموں میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اور ان کے تمام اقوال و افعال ان اعمال ناموں میں محفوظ ہیں تو بول اٹھیں گے: ﴿یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا ﴾ ’’ہائے افسوس! کیسی ہے یہ کتاب، نہیں چھوڑا اس نے چھوٹی بات کو نہ بڑی بات کو مگر اس نے ان کو شمار کر لیا۔‘‘ یعنی کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ ایسا نہیں جو اس میں لکھا ہوا اور محفوظ نہ ہو اور کوئی کھلا یا چھپا، رات کے وقت کیا ہوا یا دن کے وقت کیا ہوا گناہ ایسا نہیں جو بھولے سے لکھنے سے رہ گیا ہو۔ ﴿ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا﴾ ’’اور پائیں گے جو کچھ انھوں نے کیا، سامنے۔‘‘ وہ اس کا انکار نہیں کر سکیں گے ﴿ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ ’’اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ اس وقت ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی، وہ ان اعمال کا اقرار کریں گے، ان اعمال کی بنا پر رسوا ہوں گے اور ان پر عذاب واجب ہو جائے گا۔ ﴿ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَ٘یْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾ (آل عمران:3؍182، الانفال:8؍51) ’’یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا ہے جو تم نے آگے بھیجے تھے اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔‘‘ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و عدل سے باہر نہیں نکلیں گے۔
آیت: 50 #
{وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا (50)}.
اور (یاد کرو) جب کہا ہم نے فرشتوں سے، سجدہ کرو تم آدم کو تو سجدہ کیا انھوں نے مگر ابلیس نے (نہ کیا)، تھا وہ جنوں میں سے، پس نافرمانی کی اس نے حکم کی، اپنے رب کے، کیا پھر (بھی) بناتے ہو تم اسے اور اس کی اولاد کودوست میرے سوا؟ حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں ، برا ہے ظالموں کے لیے ازروئے بدل کے (50)
#
{50} يخبر تعالى عن عداوة إبليس لآدم وذُرِّيَّته، وأنَّ الله أمر الملائكة بالسجودِ لآدم إكراماً وتعظيماً وامتثالاً لأمر الله، فامتثلوا ذلك؛ {إلاَّ إبليس كان من الجِنِّ فَفَسَقَ عن أمرِ ربِّه}، وقال: {أأسجدُ لمن خَلَقْتَه طيناً}. وقال: {أنا خيرٌ منه}،، فتبيَّن بهذا عداوته لله ولأبيكم؛ فكيف تتَّخذونه {وذُرِّيَّته}؛ أي: الشياطين {أولياء من دوني وهم لكم عدُوٌّ بئس للظالمينَ بدلاً}؛ أي: بئس ما اختاروا لأنفسهم من ولاية الشيطان الذي لا يأمرهم إلاَّ بالفحشاء والمنكر عن ولاية الرحمن الذي كلُّ السعادة والفلاح والسرور في ولايته. وفي هذه الآية الحثُّ على اتِّخاذ الشيطان عدوًّا والإغراء بذلك وذِكْرُ السبب الموجب لذلك، وأنَّه لا يفعل ذلك إلاَّ ظالمٌ، وأيُّ ظلم أعظم من ظلم من اتَّخذ عدوَّه الحقيقي وليًّا وترك الوليَّ الحميد؟! قال تعالى: {اللهُ وليُّ الذين آمنوا يُخْرِجُهُم من الظُّلماتِ إلى النُّورِ والذين كَفَروا أولياؤُهُم الطَّاغوتُ يُخْرِجونَهم من النُّورِ إلى الظُّلُماتِ}، وقال تعالى: {إنَّهم اتَّخذوا الشياطين أولياءَ مِنْ دونِ الله}.
[50] اللہ تبارک و تعالیٰ آدمu اوران کی اولاد کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا ذکر کرتا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدمu کی تعظیم و تکریم اور اپنے حکم کی تعمیل کے لیے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں ۔ پس انھوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ﴿اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ كَانَ مِنَ الْ٘جِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ﴾ ’’سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی‘‘ اور کہنے لگا ﴿ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍61) ’’کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پید کیا۔‘‘ اور کہا: ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّؔنْهُ ﴾ (الاعراف:7؍12) ’’میں اس سے بہتر ہوں ۔‘‘ اس سے واضح ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور تمھارے جدامجد سے عداوت رکھتا ہے، پھر کیسے تم اس کو اور اس کی ذریت کو دوست بناتے ہو؟ ﴿ بِئْ٘سَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا ﴾ ’’برا ہے ظالموں کے لیے بدلہ‘‘ یعنی کتنی بری ہے شیطان کی دوستی اور سرپرستی جو انھوں نے اپنے لیے چنی ہے، جو انھیں صرف فحش اور برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور رب رحمن کی دوستی اور سرپرستی چھوڑ دی جس کی دوستی میں ہر قسم کی سعادت، فلاح اور سرور ہے۔ اس آیت کریمہ میں پرزور ترغیب ہے کہ شیطان کو دشمن سمجھا جائے اور وہ سبب بھی بیان کر دیا گیا جو اس کو دشمن قرار دینے کا موجب ہے، نیز یہ بھی واضح کر دیا کہ صرف ظالم شخص ہی اس کو اپنا دوست قرار دیتا ہے اور اس شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہو سکتا ہے جو اپنے حقیقی دشمن کو دوست سمجھے اور اپنے حقیقی اور قابل تعریف دوست کو چھوڑ دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰؔتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ۬ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓؔــُٔـهُمُ۠ الطَّاغُ٘وْتُ١ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ۠ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰؔتِ﴾ (البقرۃ:2؍257) ’’اللہ ان لوگوں کا دوست اور مددگار ہے جو ایمان لائے، وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے والی اور مددگار طاغوت ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّهُمُ اتَّؔخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَؔ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ (الاعراف:7؍30) ’’انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو دوست اور سرپرست بنا لیا ہے۔‘‘
آیت: 51 - 52 #
{مَا أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنْفُسِهِمْ وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا (51) وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَوْبِقًا (52)}.
نہیں گواہ بنایا تھا میں نے ان کو پیدائش میں آسمانوں اور زمین کی اور نہ پیدائش میں ان کی اپنی ہی اور نہیں میں بنانے والا گمراہ کرنے والوں کو بازو (مددگار) (51) اور جس دن کہے گا اللہ، بلاؤ تم میرے ان شریکوں کو جن کا دعویٰ کرتے تھے تم تو وہ بلائیں گے انھیں ، سو نہیں جواب دیں گے وہ ان کواور بنا دیں گے ہم ان کے درمیان ہلاکت گاہ (52)
#
{51} يقول تعالى: ما أشهدتُ الشياطين وهؤلاء المضلِّين خَلْقَ السماواتِ والأرض ولا خَلْقَ أنفسِهِم؛ أي: ما أحضرتهم ذلك ولا شاورتهم عليه؛ فكيف يكونون خالقين لشيء من ذلك، بل المتفرِّد بالخلق والتدبير والحكمة والتقدير هو الله، خالقُ الأشياء كلِّها، المتصرِّف فيها بحكمته؛ فكيف يُجعلُ له شركاءُ من الشياطين يوالَوْن ويُطاعون كما يُطاع الله وهم لم يخلُقوا ولم يشهدوا خلقاً ولم يعاونوا الله تعالى، ولهذا قال: {وما كُنْتُ مُتَّخِذَ المُضِلِّين عَضُداً}؛ أي: معاونين مظاهرين لله على شأن من الشؤون؛ أي: ما ينبغي ولا يليق بالله أن يجعل لهم قسطاً من التَّدبير؛ لأنهم ساعون في إضلال الخلق والعداوة لربهم؛ فاللائقُ أن يُقْصِيَهم ولا يُدنيهم.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے شیاطین (اور ان گمراہی پھیلانے والوں ) کو گواہ نہیں بنایا‘‘ ﴿ خَلْ٘قَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’آسمانوں ، زمین اور ان کی اپنی تخلیق پر۔‘‘ یعنی میں نے ان کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا نہ ان سے مشورہ لیا، پھر وہ ان میں سے کسی چیز کے خالق کیسے کہلا سکتے ہیں ؟ بلکہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر اور حکمت و تقدیر میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام اشیاء کا خالق ہے اور وہی اپنی حکمت سے ان میں تصرف کرتا ہے پس کیسے شیاطین کو اللہ کے شریک ٹھہرایا جاتا ہے ان کو والی و مددگار بنایا جاتا ہے اور ان کی اسی طرح اطاعت کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے، حالانکہ انھوں نے کچھ پیدا کیا ہے نہ کائنات کی پیدائش پر وہ حاضر تھے اور نہ کائنات کی پیدائش پر اللہ تعالیٰ کے معاون و مددگار تھے؟ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَمَا كُنْتُ مُتَّؔخِذَ الْمُضِلِّ٘یْ٘نَ عَضُدًا﴾ ’’اور نہیں ہوں میں کہ گمراہ کرنے والوں کو مدد گار بناؤں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام میں معاونین کا ہونا، اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ وہ تدبیر کائنات کا کچھ حصہ ان کے سپرد کر دے کیونکہ وہ تو مخلوق کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے رب کی عداوت پر کمربستہ رہتے ہیں ، اس لیے وہ اسی لائق ہیں کہ وہ ان کو دور رکھے اوراپنے قریب نہ آنے دے۔
#
{52} ولما ذكر حال من أشرك به في الدُّنيا، وأبطل هذا الشرك غاية الإبطال، وحكم بجهل صاحبه وسفَّهه؛ أخبر عن حالهم مع شركائهم يوم القيامة، وأنَّ الله يقول لهم: نادوا شُرَكائِيَ بزعمكم؛ أي: على موجب زعمكم الفاسد، وإلاَّ؛ فبالحقيقة ليس لله شريكٌ في الأرض ولا في السماء؛ أي: نادوهم لينفعوكم ويخلِّصوكم من الشدائد. {فَدَعَوْهم فلم يستجيبوا لهم}: لأنَّ الحكم والملك يومئذٍ لّله، لا أحد يملِكُ مثقال ذرَّة من النفع لنفسه ولا لغيره. {وجعلنا بينهم}؛ أي: بين المشركين وشركائهم {موبقاً}؛ أي: مهلكاً يفرِّق بينهم وبينهم، ويبعِدُ بعضهم من بعض، ويتبيَّن حينئذٍ عداوة الشركاء لشركائهم، وكفرهم بهم، وتبرِّيهم منهم؛ كما قال تعالى: {وإذا حُشِرَ الناسُ كانوا لهم أعداءً وكانوا بعبادتِهم كافرينَ}.
[52] جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جنھوں نے دنیا میں اس کے ساتھ شرک کیا تھا اور ان کے شرک کا پوری طرح ابطال کیا اور مشرک پر جہالت اور سفاہت کا حکم لگایا تو قیامت کے روز ان کے خود ساختہ شریکوں کی معیت میں ان کا جو حال ہوگا وہ بھی بیان کر دیا، چنانچہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا: ﴿ نَادُوْا شُ٘رَؔكَآءِیَ ﴾ ’’پکارو میرے شریکوں کو۔‘‘ یعنی تمھارے اپنے زعم باطل کے مطابق میرے جو شریک ہیں ان سب کو بلا لو۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں یعنی اب ان خود ساختہ شریکوں کو بلا لو تاکہ تمھیں کوئی فائدہ دے سکیں اور تمھیں ان سختیوں سے نجات دلا سکیں ۔ ﴿ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ ﴾ ’’پس یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو جواب نہ دیں گے۔‘‘ اس لیے کہ اس روز اقتدار اور فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہو گا کسی ہستی کے پاس ذرہ بھر بھی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکے: ﴿ وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ ﴾ ’’اور کر دیں گے ہم ان کے درمیان‘‘ یعنی مشرکین اور ان کے شریکوں کے درمیان ﴿ مَّوْبِقًا ﴾ ’’ہلاکت کا سامان‘‘ یعنی ہلاکت کا گڑھا ان کے درمیان حائل کر دیں گے جو ان کو جدا کر دے گا اور ان کو ایک دوسرے سے دور کر دے گا۔ اس وقت ان کی ایک دوسرے کے ساتھ عداوت ظاہر ہو جائے گی، ان کے خود ساختہ شرکاء ان کا انکار کریں گے اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءًؔ وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ ﴾ (الاحقاف:46؍6) ’’جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔‘‘
آیت: 53 #
{وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُمْ مُوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا (53)}.
اور دیکھیں گے مجرم لوگ آگ کو تو گمان کریں گے وہ کہ بے شک وہ گرنے والے ہیں اس میں اور نہیں پائیں گے وہ اس سے ، پھرنے (بچنے) کی جگہ (53)
#
{53} أي: لما كان يوم القيامة، وحصل من الحساب ما حصل، وتميَّز كلُّ فريق من الخلق بأعمالهم، وحقَّت كلمة العذاب على المجرمين، فرأوا جهنَّم قبل دخولها، فانزعجوا، واشتدَّ قلقهم لظنِّهم أنهم مواقعوها، وهذا الظنُّ قال المفسرون: إنَّه بمعنى اليقين، فأيقنوا أنَّهم داخلوها، {ولم يجدوا عنها مصرِفاً}؛ أي: معدلاً يعدلون إليه، ولا شافع لهم من دون إذنه. وفي هذا من التخويف والترهيب ما ترعد له الأفئدة والقلوب.
[53] جب قیامت کے روز حساب کتاب ختم ہو جائے گا اور مخلوق میں سے ہر گروہ اپنے اعمال کی بنا پر علیحدہ ہو جائے گا اور مجرموں کے بارے میں عذاب کا وعدہ پورا ہو جائے گا۔ پس وہ جہنم میں داخل ہونے سے قبل جہنم کو دیکھیں گے اور گھبرا جائیں گے اور یہ یقین کر کے کہ ان کو اس میں پھینکا جائے گا ان کا قلق بڑھ جائے گا۔ آیت کریمہ میں مذکور (ظن) کے بارے میں اہل تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں (ظن) سے مراد یقین ہے۔ پس انھیں یقین ہو جائے گا کہ وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے۔ ﴿ وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا ﴾ ’’اور نہیں پائیں گے وہ اس سے پھر جانے کی جگہ‘‘ یعنی کوئی جائے پناہ نہیں جہاں وہ پناہ لے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی ان کی سفارش نہیں کر سکے گا۔ اس آیت کریمہ میں تخویف و ترہیب ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔
آیت: 54 #
{وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (54)}.
اور البتہ تحقیق پھیر پھیر کر بیان کی ہے ہم نے، اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثال اور ہے انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو (54)
#
{54} يخبر تعالى عن عظمة القرآن وجلالته وعُمومه، وأنَّه صرَّف فيه {من كلِّ مَثَل}؛ أي: من كلِّ طريق موصل إلى العلوم النافعة والسعادة الأبديَّة وكل طريق يعصِمُ من الشرِّ والهلاك؛ ففيه أمثالُ الحلال والحرام، وجزاء الأعمال، والترغيب والترهيب، والأخبار الصادقة النافعة للقلوب؛ اعتقاداً وطمأنينةً ونوراً، وهذا مما يوجب التسليم لهذا القرآن وتلقِّيه بالانقياد والطَّاعة وعدم المنازعة له في أمر من الأمور، ومع ذلك؛ كان كثير من الناس يجادلونَ في الحقِّ بعدما تبيَّن، ويجادلون بالباطل ليُدْحِضوا به الحقَّ، ولهذا قال: {وكانَ الإنسانُ أكثر شيءٍ جَدَلاً}؛ أي: مجادلةً ومنازعةً فيه، مع أنَّ ذلك غير لائقٍ بهم، ولا عدل منهم، والذي أوجب له ذلك، وعدم الإيمان بالله، إنَّما هو الظلم والعناد، لا لقصور في بيانِهِ وحجَّته وبرهانه، وإلاَّ؛ فلو جاءهم العذاب وجاءهم ما جاء قبلهم؛ لم تكن هذه حالهم، ولهذا قال:
[54] اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی عظمت وجلالت اور اس کے عموم کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثال بیان کی ہے یعنی ہر وہ راستہ واضح کر دیا ہے جو علوم نافعہ اور سعادت ابدیہ تک پہنچاتا ہے اور ہر اس طریق سے آگاہ فرما دیا ہے جو انسان کو شر اور ہلاکت سے بچاتا ہے۔ پس اس قرآن کریم میں حلال و حرام، جزائے اعمال، ترغیب و ترہیب کی مثالیں ہیں ، سچی خبریں ہیں جو اعتقاد، طمانینت اور روشنی کے اعتبار سے دلوں کے لیے فائدہ مند ہیں ۔ یہ چیز واجب ٹھہراتی ہے کہ قرآن کریم کو اطاعت و انقیاد اور کسی بھی امر میں عدم منازعت کے ساتھ تسلیم کیا جائے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ، حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی، باطل دلائل کے ساتھ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ ﴿ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ ﴾ (الکہف:18؍56) ’’تاکہ حق کو نیچا دکھائیں ۔‘‘ بنابریں فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا﴾ ’’اور ہے انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑالو‘‘ یعنی بہت جھگڑالو اور بحثیں کرنے والا ہے، حالانکہ یہ اس کے لائق ہے نہ یہ قرین انصاف ہے اور اس کا اللہ پر ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں کہ اس کو بیان کرنے اور اس کی حجت و برہان کو واضح کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے بلکہ ظلم و عناد، ان کے اس رویے کا موجب ہے۔ ورنہ اگر ان پر عذاب اور وہ سختیاں اور مصیبتیں آ جاتیں جو پہلے لوگوں پر آئی تھیں تو ان کا یہ حال نہ ہوتا، اس لیے فرمایا:
آیت: 55 #
{وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا (55)}.
اور نہیں منع کیا لوگوں کو (اس سے) کہ ایمان لائیں وہ، جب آگئی ان کے پاس ہدایت اور مغفرت طلب کریں اپنے رب سے مگر (اس بات نے) کہ (پیش) آئے ان کو معاملہ پہلے لوگوں کا (سا) یا آئے ان کے پاس عذاب مختلف قسم کا (55)
#
{55} أي: ما منع الناس من الإيمان ـ والحالُ أنَّ الهدى الذي يحصُلُ به الفرق بين الهدى والضلال والحقِّ والباطل قد وَصَلَ إليهم وقامت عليهم حُجَّة الله، فلم يمنعهم عدم البيان، بل منعهم الظُّلم والعدوان عن الإيمان، فلم يبقَ إلاَّ أن تأتيهم سنَّة الله وعادتُه في الأولين، من أنَّهم إذا لم يؤمنوا؛ عوجلوا بالعذاب، أو يرونَ العذاب قد أقبل عليهم، ورأوه مقابلةً ومعاينةً؛ أي: فَلْيخافوا من ذلك، ولْيتوبوا من كفرهم؛ قبل أن يكون العذاب الذي لا مردَّ له.
[55] یعنی لوگوں کو ایمان لانے سے کس چیز نے منع کیا ہے حالانکہ ہدایت… جس سے راہ راست اور گمراہی، حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے… ان تک پہنچ چکی ہے اور ان پر حجت قائم ہو چکی ہے… ان کے ایمان نہ لانے کی یہ وجہ بھی نہیں کہ حق واضح نہیں ہوا بلکہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی ہے۔ پس اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ سنت الٰہی کے مطابق وہی عذاب آ جائے جو پہلی قوموں پر آیا تھا؟ جب وہ ایمان نہ لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا یا عذاب ان کے سامنے آ جاتا اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے… مطلب یہ ہے کہ پس انھیں ڈرنا چاہیے اور اپنے کفر سے توبہ کرلینی چاہیے قبل اس کے کہ ان پر عذاب ٹوٹ پڑے جسے روکا نہیں جا سکتا۔
آیت: 56 #
{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنْذِرُوا هُزُوًا (56)}.
اور نہیں بھیجتے ہم رسولوں کو مگر خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے (بنا کر ہی) اور جھگڑا کرتے ہیں ، وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ساتھ باطل کےتاکہ باطل کردیں ساتھ اس کے حق کواور بنا لیا انھوں نے میری آیتوں کو اور اس چیز کو ڈرائے گئے تھے وہ اس سے، ٹھٹھا مذاق (56)
#
{56} أي: لم نرسل الرُّسُلَ عَبَثاً، ولا ليتَّخذهم الناس أرباباً، ولا ليدعوا إلى أنفسهم، بل أرسلناهم يدعون الناس إلى كلِّ خير، وينهَوْن عن كلِّ شرٍّ، ويبشرونهم على امتثال ذلك بالثواب العاجل والآجل، وينذرونهم على معصية ذلك بالعقاب العاجل والآجل، فقامت بذلك حجة الله على العباد، ومع ذلك يأبى الظالمون الكافرون إلاَّ المجادلة بالباطل لِيُدْحِضوا به الحقَّ، فسَعَوا في نصر الباطل مهما أمكنهم، وفي دحض الحقِّ وإبطاله، واستهزؤوا برسل الله وآياته، وفرحوا بما عندهم من العلم، {ويأبى اللهُ إلاَّ أن يُتِمَّ نورَه ولو كره الكافرون}، ويظهر الحق على الباطل، {بل نقذف بالحقِّ على الباطل فيدمَغُه فإذا هو زاهِقٌ}، ومن حكمة الله ورحمته أنَّ تقييضه المبطِلين المجادلين الحقَّ بالباطل من أعظم الأسباب إلى وضوح الحقِّ وتبيُّن شواهده وأدلَّته وتبيُّن الباطل وفساده؛ فبضدِّها تتبيَّن الأشياء.
[56] یعنی ہم رسولوں کو عبث اور بے فائدہ نہیں بھیجتے نہ ان کو اس لیے مبعوث کرتے ہیں کہ لوگ ان کو معبود بنا لیں اور نہ اس لیے کہ وہ خود معبود ہونے کا دعویٰ کریں بلکہ ہم نے انھیں صرف اس لیے مبعوث کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہر بھلائی کی طرف بلائیں اور ہر برائی سے روکیں ، اطاعت کرنے پر ان کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنائیں اور نافرمانی کرنے پر دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرائیں ۔ پس رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر حجت قائم ہو گئی۔ بایں ہمہ ظالم کفار باطل ہتھکنڈوں کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑتے ہیں ۔ پس جہاں تک ممکن ہوا کفار حق کے ابطال اور اس کے نیچا دکھانے کے لیے باطل کی مدد میں کوشاں رہے، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی آیات کا تمسخر اڑایا اور ان کے پاس جو کچھ علم تھا اسی پر اتراتے رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل كيے بغیر نہیں رہتا اگرچہ کفار کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو، وہ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ ﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ﴾ (الانبیاء:21؍18) ’’بلکہ ہم تو باطل پر حق کے ذریعے سے چوٹ لگاتے ہیں جو اس کو نیست و نابود کر دیتی ہے اور باطل دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتا ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت ہے کہ اس کا باطل ہتھکنڈوں کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑنے والے باطل پسندوں کو مقرر کرنا، حق کے ظہور اور اس کے شواہد و دلائل کی توضیح، باطل اور اس کے فساد کے ظاہر ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ کیونکہ: (بضد ھا تتبین الاشیاء) ’’اشیاء اپنی ضد ہی سے واضح ہوتی ہیں ۔‘‘
آیت: 57 - 59 #
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِنْ تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَى فَلَنْ يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا (57) وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدٌ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا (58) وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَوْعِدًا (59)}.
اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے کہ وہ نصیحت کیا گیا ساتھ آیات کے اپنے رب کی تو اعراض کیا اس نے ان سےاور بھول گیا وہ، جو کچھ کہ آگے بھیجا تھااس کے دونوں ہاتھوں نے، بلاشبہ ہم نے کردیے اوپر ان کے دلوں کے پردے (اس سے) کہ وہ سمجھیں اس (قرآن) کواور ان کے کانوں میں ڈاٹ اور اگر آپ بلائیں ان کو ہدایت کی طرف تو ہرگز نہ ہدایت پائیں گے وہ اس وقت کبھی بھی (57) اور آپ کا رب تو بہت بخشنے والا، رحمت والا ہے، اگر وہ پکڑے ان کو بسبب ان کے جو (عمل) کمائے انھوں نے تو یقینا جلدی لے آئے ان پر عذاب بلکہ ان کے لیے ایک مقررہ وقت ہے، ہرگز نہیں پائیں گے وہ سوائے اس کے کوئی جائے پناہ (58) اور یہ بستیاں ، ہلاک کیا ہم نے ان (کے باشندوں ) کو، جب انھوں نے ظلم کیااور کر دیا ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک مقرر وقت (59)
#
{57} يخبر تعالى أنَّه لا أعظم ظلماً ولا أكبر جرماً من عبدٍ ذُكِّر بآيات الله وبُيِّن له الحقُّ من الباطل والهدى من الضلال، وخُوِّف ورُهِّب ورُغِّب، فأعرض عنها، فلم يتذكَّر بما ذُكِّر به، ولم يرجِعْ عما كان عليه، {ونسي ما قدَّمت يداه} من الذُّنوب، ولم يراقب علاَّم الغيوب؛ فهذا أعظم ظلماً من المعرض الذي لم تأتِهِ آياتُ الله ولم يُذَكَّرْ بها، ـ وإن كان ظالماً ـ؛ فإنَّه أشدُّ ظلماً من هذا؛ لكون العاصي على بصيرةٍ وعلم أعظم ممَّن ليس كذلك، ولكنَّ الله تعالى عاقبه بسبب إعراضِهِ عن آياته ونسيانِهِ لذنوبه ورضاه لنفسه حالة الشرِّ مع علمه بها، أن سدَّ عليه أبواب الهداية بأنْ جَعَلَ على قلبِهِ أكنَّةً؛ أي: أغطية محكمةً تمنعه أن يفقه الآيات وإن سمعها؛ فليس في إمكانه الفقهُ الذي يصل إلى القلب. {وفي آذانهم وقراً}؛ أي: صمماً يمنعهم من وصول الآيات ومن سماعها على وجه الانتفاع، وإنْ كانوا بهذه الحالة؛ فليس لهدايتهم سبيلٌ. {وإن تَدْعُهُم إلى الهدى فلن يَهْتَدوا إذاً أبداً}: لأنَّ الذي يُرجى أن يجيبَ الداعي للهدى من ليس عالماً، وأما هؤلاء الذين أبصروا ثم عَموا، ورأوا طريق الحقِّ فتركوه، وطريق الضلال فسلكوه، وعاقبهم الّله بإقفال القلوب والطَّبْع عليها؛ فليس في هدايتهم حيلةٌ ولا طريقٌ. وفي هذه الآية من التخويف لمن ترك الحقَّ بعد علمه أن يُحالَ بينه وبينه، ولا يتمكَّن منه بعد ذلك ما هو أعظم مرهبٍ وزاجرٍ عن ذلك.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس بندے سے بڑھ کر کوئی ظالم اور اس سے بڑا کوئی مجرم نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے، اس کے سامنے حق اور باطل، ہدایت اور ضلالت کو واضح کر دیا گیا ہو، اسے برے انجام سے ڈرایا گیا اور آخرت کے ثواب کی ترغیب دی گئی ہو… اور وہ روگردانی کرے، نصیحت نہ پکڑے، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے اور ان گناہوں کو فراموش نہ کرے جن کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور علام الغیوب ہستی پر نظر نہ رکھے۔ پس یہ اس روگرداں شخص کے ظلم سے بڑا ظلم ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں پہنچیں اور اس کو ان آیات کے ذریعے سے نصیحت نہیں کی گئی… یہ بھی اگرچہ ظالم ہے مگر وہ پہلا شخص اس سے زیادہ بڑا ظالم ہے کیونکہ علم اور بصیرت رکھتے ہوئے گناہ کرنے والا لاعلمی سے گناہ کرنے والے سے زیادہ بڑا گناہ گار ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے، آیات الٰہی سے اس کے اعراض، اپنے گناہوں کو بھول جانے اور حالت شر پر راضی رہنے کے سبب سے اس کو سزا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے علم ہے کہ ہدایت کے دروازے اس پر بند ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے قلب پر پردے ڈال دیے ہیں یعنی مضبوط پردوں نے اس کو آیات الٰہی کے تفقہ سے محروم کر رکھا ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتا ہے مگر ان میں ایسا تفقہ حاصل کرنا جو قلب کی گہرائی میں اتر جائے اس کے بس کی بات نہیں ۔ ﴿ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْ٘رًا﴾ ’’اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے‘‘ یعنی ان کے کانوں میں گرانی ہے جو ان کو آیات الٰہی کے فائدہ مند سماع سے محروم کر دیتی ہے اور اگر وہ اسی حالت میں رہیں تو ان کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں ۔ ﴿ وَاِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰؔى فَلَ٘نْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا ﴾ ’’اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو ہرگز ہدایت پر نہ آئیں اس وقت کبھی‘‘ کیونکہ داعئ ہدایت کی دعوت پر اسی شخص کے لبیک کہنے کی امید ہوتی ہے جو علم نہیں رکھتا۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے آیات الٰہی کو خوب دیکھا، بھالا پھر اندھے پن کا مظاہرہ کیا، انھوں نے راہ حق کو پہچان لیا مگر اسے چھوڑ دیا اور گمراہی کی راہ پر گامزن ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر تالے ڈال دیے اور ان پر مہر لگا دی… تو ان لوگوں کی ہدایت کا کوئی راستہ اور کوئی حیلہ نہیں ۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تخویف و ترہیب ہے جو حق کو پہچان لینے کے بعد اسے ترک کر دے اور یہ کہ اس کے اور حق کے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے اور اس کے بعد اس کے لیے کوئی چیز ایسی نہ رہے جو اس کے حق میں اس سے بڑھ کر ڈرانے والی اور اس غلط روی سے اسے روکنے والی ہو۔
#
{58} ثم أخبر تعالى عن سعة مغفرته ورحمته، وأنَّه يغفر الذنوب ويتوب الله على من يتوب فيتغمده برحمته ويشمله بإحسانه، وأنه لو آخذ العباد على ما قدَّمت أيديهم من الذُّنوب؛ لعجَّل لهم العذاب، ولكنَّه تعالى حليمٌ لا يَعْجَلُ بالعقوبة، بل يُمْهِلُ ولا يُهْمِلُ، والذُّنوب لا بدَّ من وقوع آثارها، وإنْ تأخَّرت عنها مدة طويلة، ولهذا قال: {بل لهم موعدٌ لن يَجِدوا من دونِهِ موئلاً}؛ أي: لهم موعد يجازون فيه بأعمالهم، لا بدَّ لهم منه، ولا مندوحة لهم عنه، ولا ملجأ ولا محيد عنه.
[58] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بے پایاں مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اسے اپنے احسان میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ان کے گناہوں پر گرفت کرے تو ان پر فوراً عذاب بھیج دے مگر وہ حلم والا ہے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا… گناہوں کے آثار کا واقع ہونا ضروری امر ہے اگرچہ اس میں طویل مدت تک تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّ٘نْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا﴾ ’’بلکہ ان کے لیے ایک وعدہ ہے، ہرگز نہیں پائیں گے اس سے ورے سرک جانے کو جگہ‘‘ یعنی ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس میں انھیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی۔ یہ جزا انھیں ضرور ملے گی اور اس جزا و سزا سے بچنے کی ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ اس سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کوئی جائے فرار…
#
{59} وهذه سنَّته في الأولين والآخرين، أن لا يعاجِلَهم بالعقاب، بل يستدعيهم إلى التوبة والإنابة؛ فإنْ تابوا وأنابوا؛ غَفَرَ لهم ورحمهم وأزال عنهم العقاب، وإلاَّ؛ فإن استمرُّوا على ظلمهم وعنادهم، وجاء الوقتُ الذي جعله موعداً لهم؛ أنزل بهم بأسه، ولهذا قال: {وتلك القرى أهلكناهم لما ظلموا}؛ أي: بظلمهم، لا بُظلم منَّا. {وجعلنا لمهلكهم موعداً}؛ أي: وقتاً مقدَّراً لا يتقدَّمون عنه ولا يتأخَّرون.
[59] اولین و آخرین میں یہی سنت الٰہی ہے کہ وہ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ انھیں توبہ اور انابت کی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے رجوع کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے اور ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے کر ان سے عذاب کو ہٹا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ظلم اور عناد پر جمے رہیں اور وقت مقررہ آ جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کر دیتا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَتِلْكَ الْ٘قُ٘رٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا ﴾ ’’اور یہ بستیاں ، ہم نے ان کو ہلاک کر دیا جب انھوں نے ظلم کیا‘‘ یعنی ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود ان کے ظلم کی بنا پر ہم نے انھیں ہلاک کیا۔ ﴿ وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا ﴾ ’’اور مقرر کیا تھا ہم نے ان کی ہلاکت کا ایک وعدہ‘‘ یعنی ایک وقت مقرر جس سے وہ آگے ہوئے نہ پیچھے۔
آیت: 60 - 82 #
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا (60) فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا (61) فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا (62) قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا (63) قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا (64) فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا (65) قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا (66) قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا (67) وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا (68) قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا (69) قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا (70) فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا (71) قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا (72) قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا (73) فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا (74) قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا (75) قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا (76) فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا (77) قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا (78) أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا (79) وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (80) فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا (81) وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا (82)}.
اور (یاد کرو!) جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان (یوشع) سے، میں ہمیشہ (چلتا ہی) رہوں گا یہاں تک کہ پہنچ جاؤں میں مجمع البحرین پر یا چلتا رہوں گا میں مدت ہائے دراز تک (60) پس جب وہ دونوں پہنچے ملنے کی جگہ پر دونوں (سمندروں ) کی تو وہ دونوں بھول گئے مچھلی اپنی سو بنا لیا اس نے اپنا راستہ سمندر میں سرنگ (کی مثل) lپس جب آگے گزر گئے وہ دونوں تو موسیٰ نے کہا اپنے جوان سے، دے ہمیں ہمارا ناشتہ، البتہ تحقیق دوچار ہوئے ہیں ہم اپنے اس سفر میں تھکاوٹ سے (62) اس نے کہا، بھلا دیکھا تو نے؟ جب ٹھہرے تھے ہم چٹان کے پاس تو بلاشبہ بھول گیا میں (وہ)مچھلی اور نہیں بھلوایا مجھے اس کو مگر شیطان ہی نے، یہ کہ یاد کروں میں اسےاور بنایا اس نے راستہ اپنا سمندر میں عجیب طرح (63) موسیٰ نے کہا، یہی تو ہے وہ جو کچھ تھے ہم چاہتے، پس واپس لوٹے وہ اپنے نشانات پر، ان کا اتباع کرتے ہوئے (64) پس پایا ان دونوں نے ایک بندے (خضر) کو ہمارے بندوں میں سے، دی تھی ہم نے اسے رحمت اپنی طرف سےاور سکھایا تھا ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک (خاص) علم (65)کہااس (خضر) سے موسیٰ نے، کیا میں پیروی کر سکتا ہوں تیری اس (شرط) پر کہ تو سکھائے مجھے اس سے جو سکھائی گئی ہے تجھے بھلائی؟(66) اس نے کہا، بلاشبہ تو نہیں استطاعت رکھے گا میرے ساتھ صبر کی (67) اور کس طرح تو صبر کرے گا اس چیز پر کہ نہیں احاطہ کیا تو نے اس کا باعتبار علم کے؟ (68) موسیٰ نے کہا، یقینا تو پائے گا مجھے، اگر چاہا اللہ نے ، صبر کرنے والااور نہیں نافرمانی کروں گا میں تیری کسی حکم کی بھی (69) خضر نے کہا، پس اگر تو پیروی کرنا چاہتا ہے میری تو مت سوال کرنا مجھ سے کسی چیز کی بابت، یہاں تک کہ میں (خود ہی) کروں تیرے لیے اس کا ذکر (70)پس چلے وہ دونوں ، یہاں تک کہ جب سوار ہوئے وہ دونوں کشتی میں تو اس (خضر) نے شگاف کر دیا اس میں ، موسیٰ نے کہا، کیا تو نے شگاف کیا ہے اس میں تاکہ غرق کر دے اس کشتی والوں کو؟ تحقیق آیا ہے تو بہت ہولناک کام کو (71) خضر نے کہا، کیا نہیں کہا تھا میں نے، کہ بے شک تو ہرگز نہیں استطاعت رکھے گا میرے ساتھ صبر کی؟ (72) موسیٰ نے کہا، نہ مؤاخذہ کر تو میرا اس پر جو بھول گیا میں اور نہ ڈال تو مجھ پر میرے (اس) معاملے میں تنگی (73) پھر چلے وہ دونوں ، یہاں تک کہ جب وہ ملے ایک لڑکے کو تو قتل کر دیا اسے اس (خضر) نے، موسیٰ نے کہا، کیا قتل کر دیا تو نے ایک نفس پاک (بے گناہ) کو؟ تحقیق آیا ہے تو نہایت ہی برے کام کو (74) خضر نے کہا، کیا نہیں کہا تھا میں نے تجھ سے کہ بلاشبہ تو ہرگز نہیں کر سکے گا میرے ساتھ صبر (75) موسیٰ نے کہا، اگر سوال کروں میں تجھ سے کسی چیز کی بابت اس کے بعد تو نہ ساتھ رکھنا مجھے، تحقیق پہنچ گیا تو میری طرف سے عذر کو (76) پھر چلے وہ دونوں ، یہاں تک کہ جب آئے وہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس تو انھوں نے کھانا مانگا اس بستی والوں سے، پس انھوں نے انکار کر دیا ان دونوں کی مہمان نوازی سے، پھر پائی ان دونوں نے اس میں ایک دیوار، وہ چاہتی (قریب) تھی کہ گر جائے تو اس (خضر) نے سیدھا کر دیا اسے، موسی نے کہا، اگر چاہتا تو، تو البتہ لیتا اس پر اجرت (77) خضر نے کہا، یہ جدائی ہے میرے درمیان اور تیرے درمیان، اب بتاؤں گا میں تجھے حقیقت ان باتوں کی، کہ نہیں استطاعت رکھی تو نے ان پر صبر کرنے کی (78) لیکن کشتی، سو تھی وہ (چند) مسکینوں کی، وہ کام کرتے تھے سمندر میں ، پس چاہا میں نے یہ کہ عیب دار کر دوں میں اسے، جبکہ تھا ان کے آگے ایک بادشاہ، لے لیتا تھا وہ ہر کشتی کو زبردستی (79) اور لیکن (وہ) لڑکا تو تھے ماں باپ اس کے مومن، پس ڈرے ہم اس سے کہ وہ آمادہ کر دے گا ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں (80) پس چاہا ہم نے یہ کہ بدلے میں دے ان دونوں کو ان کا رب بہتر اس سے پاکیزگی میں اور قریب تر شفقت میں (81) اور لیکن (وہ) دیوار، سوتھی وہ واسطے (ان) دو لڑکوں کے کہ یتیم تھے وہ (اس) شہر میں اور تھا نیچے اس کے خزانہ ان دونوں کے لیےاور تھا باپ ان دونوں کا صالح تو چاہا تیرے رب نے یہ کہ پہنچیں وہ دونوں اپنی جوانی کو اور نکالیں اپنا خزانہ مہربانی سے تیرے رب کی اور نہیں کیا میں نے یہ کام اپنی رائے سے، یہ ہے حقیقت ان باتوں کی کہ نہیں استطاعت رکھی تو نے ان پر صبر کرنے کی (82)
#
{60} يخبر تعالى عن نبيِّه موسى عليه السلام وشدَّة رغبته في الخير وطلب العلم أنَّه قال لفتاه؛ أي: خادمه الذي يلازمه في حضره وسفره، وهو يُوشَعُ بن نون، الذي نبَّأه الّله بعد ذلك: {لا أبْرَحُ حتى أبْلُغَ مجمع البحرين}؛ أي: لا أزال مسافراً وإن طالت عليَّ الشُّقة ولحقتني المشقَّة حتى أصل إلى مجمع البحرين، وهو المكان الذي أوحي إليه أنَّك سَتَجِد فيه عبداً من عباد الله العالمين، عنده من العلم ما ليس عندك، {أو أمضيَ حُقُباً}؛ أي: مسافة طويلة. المعنى أنَّ الشوق والرغبة حَمَلَ موسى أن قال لفتاه هذه المقالة.
[60] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی موسیٰu اور بھلائی اور طلب علم میں ان کی شدید رغبت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنے خادم سے فرمایا جو سفر و حضر میں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ یوشع بن نونu تھے جن کو بعد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا: ﴿ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُ٘غَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ ﴾ ’’جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں ۔‘‘ یعنی میں سفر کرتا رہوں گا خواہ مسافت کتنی ہی طویل اور مشقت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو یہاں تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں ۔ یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کی طرف وحی کی تھی کہ وہاں آپ کو اللہ تعالیٰ کا علم رکھنے والے بندوں میں سے ایک بندہ ملے گا جس کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ۔ ﴿ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا ﴾ ’’خواہ برسوں چلتا رہوں ۔‘‘ یعنی طویل مسافت تک چلتا چلا جاؤں گا۔ معنی یہ ہے کہ موسیٰu نے شوق اور رغبت کی بنا پر اپنے نوجوان خادم سے یہ بات کہی اور یہ ان کا عزم جازم تھا جس کی بنا پر انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔
#
{61} وهذا عزمٌ منه جازم، فلذلك أمضاه، {فلما بلغا}؛ أي: هو وفتاه {مَجْمَعَ بينهما نسيا حوتَهما}: وكان معهما حوتٌ يتزوَّدان منه ويأكلان، وقد وُعِدَ أنَّه متى فقد الحوت؛ فثمَّ ذلك العبد الذي قصدته. {فاتَّخذ}: ذلك الحوت {سبيلَه}؛ أي: طريقه {في البحر سَرَباً}. وهذا من الآيات، قال المفسرون: إنَّ ذلك الحوت الذي كانا يتزوَّدان منه لما وصلا إلى ذلك المكان أصابه بللُ البحر، فانسرب بإذن الله في البحر، وصار مع حيواناته حيًّا.
[61] ﴿ فَلَمَّا بَلَغَا ﴾ ’’پھر جب دونوں پہنچے‘‘ یعنی حضرت موسیٰu اور ان کا خادم ﴿ مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا ﴾ ’’دونوں دریاؤں کے ملاپ تک تو بھول گئے اپنی مچھلی‘‘ ان کے ساتھ مچھلی تھی جو ان کے لیے زاد راہ تھی جسے وہ تناول کرتے تھے، اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ جہاں یہ مچھلی غائب ہو جائے گی وہیں وہ بندہ رہتا ہے جس کے پاس جانے کا آپ قصد رکھتے ہیں ۔ مچھلی نکل کر دریا میں چلی گئی یہ ایک معجزہ تھا۔ مفسرین نے کہا ہے کہ وہ مچھلی جسے انھوں نے زاد راہ کے طور پر لیا تھا، وہ جب اس مقام پر پہنچے تو اسے دریا کی نمی پہنچی اور وہ اللہ کے حکم سے کھسک کر دریا میں چلی گئی اور زندہ ہو کر دیگر حیوانات میں شامل ہو گئی۔
#
{62} فلما جاوز موسى وفتاه مجمعَ البحرين؛ قال موسى لفتاه: {آتِنا غداءنا لقد لَقينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً}؛ أي: لقد تعبنا من هذا السفر المجاوز فقط، وإلاَّ؛ فالسفر الطويل الذي وصلا به إلى مجمع البحرين لم يجدا من التعب فيه، وهذا من الآيات والعلامات الدالَّة لموسى على وجود مطلبِهِ، وأيضاً؛ فإنَّ الشوق المتعلِّق بالوصول إلى ذلك المكان سهَّل لهما الطريق، فلمَّا تجاوزا غايتهما؛ وجدا مسَّ التعب.
[62] جب موسیٰu اور ان کا نوجوان خادم اس سنگم سے آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰu نے اپنے خادم سے کہا: ﴿ اٰتِنَا غَدَآءَؔنَا١ٞ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰؔذَا نَصَبًا ﴾ ’’لا ہمارے پاس ہمارا کھانا، تحقیق ہم نے پائی اس سفر میں تکلیف‘‘ یعنی ہم اس سفر سے، جواس سنگم سے متجاوز سفر تھا، تھک گئے ہیں ورنہ اتنا طویل سفر جو انھوں نے دونوں دریاؤں کے سنگم تک کیا، اس میں نہیں تھکے تھے۔ یہ ایک علامت اور نشانی تھی جو موسیٰu کے لیے دلیل تھی کہ انھوں نے اپنا مقصد پا لیا ہے، نیز اس منزل پر پہنچنے کے شوق نے ان کے لیے سفر کو آسان بنا دیا، جب وہ اس مقام سے آگے بڑھ گئے تو انھوں نے تھکاوٹ محسوس کی۔
#
{63} فلما قال موسى لفتاه هذه المقالة؛ قال له فتاه: {أرأيتَ إذْ أوَيْنا إلى الصخرة فإنِّي نسيتُ الحوتَ} [أي: ألم تعلم حين آوانا الليل إلى تلك الصخرة المعروفة بينهما فإني نسيت الحوت]، {وما أنسانيهُ إلاَّ الشيطانُ}: لأنَّه السببُ في ذلك، {واتَّخذ سبيلَه في البحر عَجَباً}؛ أي: لما انسرب في البحر ودخل فيه؛ كان ذلك من العجائب. قال المفسرون: كان ذلك المسلك للحوت سرباً ولموسى وفتاه عجباً.
[63] جب موسیٰu نے اپنے خادم سے یہ بات کہی تو اس نے جواب دیا: ﴿ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ١ٞ وَمَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَنْ اَذْكُرَهٗ﴾ ’’کیا دیکھا آپ نے جب ہم نے جگہ پکڑی اس پتھر کے پاس، سو میں بھول گیا مچھلی اور یہ شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر کرنے سے بھلا دیا۔‘‘ کیونکہ وہ بھول جانے کا سبب بنا۔ ﴿ وَاتَّؔخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ ١ۖ ۗ عَجَبًا ﴾ ’’اور پکڑا اس نے اپنا راستہ دریا میں عجیب طرح‘‘ یعنی جب مچھلی دریا میں چلی گئی تو یہ چیز عجائبات میں سے تھی۔مفسرین کہتے ہیں کہ مچھلی کا پانی میں چلے جانا موسیٰu اور ان کے خادم کے لیے بڑا تعجب خیز تھا۔
#
{64} فلما قال له الفتى هذا القول، وكان عند موسى وعدٌ من الله أنَّه إذا فَقَدَ الحوت؛ وَجَدَ الخَضِرَ، فقال موسى: {ذلك ما كُنَّا نَبْغ}؛ أي: نطلب. {فارْتَدَّا}؛ أي: رجعا {على آثارِهما قصصاً}؛ أي: رجعا يَقُصَّان أثرهما [إلى المكان] الذي نسيا فيه الحوت.
[64] جب موسیٰu کے خادم نے یہ بات کہی… اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ جہاں مچھلی غائب ہو جائے گی، وہیں حضرت خضر کو پائیں گے… تو موسیٰu نے کہا: ﴿ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ﴾ ’’یہی تو ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے۔‘‘ یعنی یہی جگہ مطلوب تھی۔ ﴿ فَارْتَدَّا ﴾ ’’پھر الٹے پھرے وہ دونوں ‘‘ یعنی واپس لوٹے ﴿ عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًا﴾ ’’اپنے پاؤں کے نشان پہچانتے ہوئے‘‘ یعنی اپنے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے واپس اس جگہ پہنچے جہاں مچھلی بھول گئے تھے۔
#
{65} فلما وصلا إليه؛ {وجدا عبداً من عبادنا}: وهو الخضر، وكان عبداً صالحاً لا نبيًّا على الصحيح. {آتيْناه رحمةً من عندنا}؛ أي: أعطاه الله رحمةً خاصَّة، بها زاد علمه وحسن عمله، {وعلَّمناه من لَدُنَّا}؛ أي: من عندنا {عِلْماً}: وكان قد أُعطي من العلم ما لم يعطَ موسى، وإنْ كان موسى عليه السلام أعلمَ منه بأكثر الأشياء وخصوصاً في العلوم الإيمانيَّة والأصوليَّة؛ لأنَّه من أولي العزم من المرسلين، الذين فضَّلهم الله على سائر الخلق بالعلم والعمل وغير ذلك.
[65] جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا اور وہ خضرu تھے، وہ ایک صالح شخص تھے اور صحیح مسلک یہ ہے کہ وہ نبی نہ تھے۔﴿ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا ﴾ ’’جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ علم اور حسن عمل سے بہرہ ور تھے۔ ﴿ وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ﴾ ’’اور سکھایا تھا اس کو اپنے پاس سے ایک علم۔‘‘ حضرت خضر کو وہ علم عطا کیا گیا تھا جو موسیٰu کو عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ موسیٰu بہت سے امور میں ان سے زیادہ علم رکھتے تھے خاص طور پر علوم ایمانیہ اور علوم اصولیہ کیونکہ حضرت موسیٰ اولوالعزم رسولوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کے ذریعے سے تمام مخلوق پر فضیلت سے نوازا تھا۔
#
{66} فلما اجتمع به موسى؛ قال له على وجه الأدب والمشاورة والإخبار عن مطلبه: {هل أتَّبعُك على أن تُعَلِّمنَي مما عُلِّمْتَ رُشداً}؛ أي: هل أتَّبِعك على أن تُعَلِّمني مما علَّمك الله ما به أسترشدُ وأهتدي وأعرف به الحقَّ في تلك القضايا، وكان الخضر قد أعطاه الله من الإلهام والكرامة ما به يحصُلُ له الاطلاع على بواطن كثيرٍ من الأشياء التي خَفِيَتْ حتى على موسى عليه السلام.
[66] جب موسیٰu حضرت خضر سے ملے تو ازراہ ادب و مشاورت اور اپنا مقصد بیان کرتے ہوئے ان سے کہا: ﴿ هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُ٘عَ٘لِّ٘مَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾ یعنی کیا میں آپ کی پیروی کروں کہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کر رکھا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے میں رشد و ہدایت کی راہ پاسکوں اور اس علم کے ذریعے سے ان تمام قضیوں میں حق کو پہچان سکوں ؟ خضرu کو اللہ تعالیٰ نے الہام و کرامت سے نوازا ہوا تھا جس کی وجہ سے انھیں بہت سی چیزوں کے اسرار نہاں کی، جو دوسرے لوگوں پر مخفی تھے حتیٰ کہ موسیٰu پر بھی مخفی تھے، اطلاع ہو جاتی تھی۔
#
{67} فقال الخضر لموسى: لا أمتنع من ذلك، ولكنَّك {لَنْ تَسْتطيعَ معيَ صبراً}؛ أي: لا تقدر على اتِّباعي وملازمتي؛ لأنَّك ترى ما لا تقدر على الصبر عليه من الأمور، التي ظاهرها المنكَر وباطنها غيرُ ذلك.
[67] خضرu نے موسیٰu سے کہا کہ میں ایسا کرنے سے انکار نہیں کرتا لیکن ﴿ لَ٘نْ تَ٘سْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا ﴾ ’’آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر پائیں گے۔‘‘ یعنی آپ کو میرے ساتھ رہنے اور میری پیروی کرنے کی قدرت حاصل نہیں کیونکہ آپ ایسے امور ملاحظہ کریں گے جن کا ظاہر برا اور باطن اس کے برعکس ہو گا۔
#
{68} ولهذا قال: {وكيفَ تصبر على ما لم تُحِطْ به خُبْراً}؛ أي: كيف تصبر على أمرٍ ما أحطتَ بباطنه وظاهره وعلمتَ المقصودَ منه ومآله.
[68] بنا بریں خضرu نے فرمایا: ﴿ وَؔكَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا ﴾ ’’اور کیوں کر صبر کریں گے آپ ایسی چیز پر کہ جس کا سمجھنا آپ کے بس میں نہیں ۔‘‘ یعنی آپ کسی ایسے معاملے میں کیسے صبر کر سکتے ہیں جس کے ظاہر و باطن کا آپ کو علم ہے نہ اس کے مقصد و مآل کا۔
#
{69} فقال موسى: {سَتَجِدُني إن شاء اللهُ صابراً ولا أعصي لك أمراً}: وهذا عزمٌ منه قبل أن يوجد الشيء الممتَحَن به، والعزمُ شيء ووجودُ الصبر شيء آخر؛ فلذلك ما صَبَرَ موسى عليه السلام حين وقع الأمر.
[69] موسیٰu نے کہا: ﴿ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّلَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا ﴾ ’’اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ جس چیز کے بارے میں امتحان تھا، اس کے سامنے آنے سے پہلے یہ حضرت موسیٰu کے عزم کا اظہار تھا۔ عزم ایک الگ چیز ہے اور صبر کا وجود ایک دوسری چیز ہے، اس لیے جب وہ امر واقع ہوا تو موسیٰu اس پر صبر نہ کر سکے۔
#
{70} فحينئذٍ قال له الخضر: {فإنِ اتَّبَعْتَني فلا تَسْألْني عن شيءٍ حتَّى أحدِثَ لك منه ذِكْراً}؛ أي: لا تبتدئني بسؤال منك وإنكارٍ حتى أكون أنا الذي أخبرك بحالِهِ في الوقت الذي ينبغي إخبارُك به، فنهاه عن سؤالِهِ، ووعَدَه أن يوقفه على حقيقة الأمر.
[70] اس وقت خضرu نے حضرت موسیٰu سے کہا: ﴿ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْـَٔلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰۤى اُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ﴾ ’’پس اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو مت پوچھنا مجھ سے کسی چیز کی بابت، جب تک کہ میں شروع نہ کروں آپ کے سامنے اس کا ذکر‘‘ یعنی مجھ سے کوئی سوال کرنے میں پہل کرنا نہ میرے کسی فعل پر مجھ پر کوئی نکیر کرنا جب تک کہ میں خود ہی آپ کو مناسب وقت پر اس کے حال کے بارے میں نہ بتا دوں ۔ یہ گویا حضرت خضر نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ بالآخر حقیقت حال سے انھیں آگاہ کریں گے۔
#
{71} {فانطلقا حتى إذا رَكِبا في السفينةِ خَرَقَها}؛ أي: اقتلع الخضِرُ منها لوحاً، وكان له مقصودٌ في ذلك سيبيِّنه، فلم يصبرْ موسى عليه السلام؛ لأنَّ ظاهره أنه منكرٌ؛ لأنَّه عَيْبٌ للسفينة وسببٌ لغرق أهلها، ولهذا قال موسى: {أخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أهلها لقد جئتَ شيئاً إمْراً}؛ أي: عظيماً شنيعاً، وهذا من عدم صبره عليه السلام.
[71] ﴿ فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا رَؔكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَا﴾ ’’پس وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس کو پھاڑ ڈالا‘‘ یعنی حضرت خضرu نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا اور اس کے پیچھے ایک مقصد تھا جس کو وہ عنقریب بیان کریں گے۔ موسیٰu اس پر صبر نہ کر سکے کیونکہ ظاہری طور پر یہ ایک برا فعل تھا۔ خضرu نے کشتی میں عیب ڈال دیا تھا جو کشتی میں سوار لوگوں کے ڈوبنے کا باعث ہو سکتا تھا۔ اس لیے موسیٰu نے کہا: ﴿ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا١ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَیْـًٔؔا اِمْرًا ﴾ ’’کیا آپ نے اس کو پھاڑ دیا تاکہ ڈبو دیں اس کے لوگوں کو، البتہ کی آپ نے ایک چیز انوکھی‘‘ یعنی آپ نے بہت برا کام سرانجام دیا ہے۔ اس بولنے کا سبب موسیٰu کا عدم صبر تھا۔
#
{72} فقال له الخضر: {ألم أقُلْ إنَّك لن تستطيعَ معي صبراً}؛ أي: فوقع كما أخبرتك.
[72] خضرu نے ان سے کہا: ﴿ اَلَمْ اَقُ٘لْ اِنَّكَ لَ٘نْ تَ٘سْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا ﴾ ’’کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے‘‘ یعنی بالکل اسی طرح واقع ہوا جیسا میں نے آپ سے کہا تھا۔
#
{73} وكان هذا من موسى نسياناً، فقال: {لا تؤاخِذْني بما نسيتُ ولا تُرْهِقْني من أمري عُسراً}؛ أي: لا تُعَسِّرْ عليَّ الأمر، واسمح لي؛ فإنَّ ذلك وقع على وجه النسيان، فلا تؤاخِذْني في أول مرة، فجمع بين الإقرار به والعذر منه، وأنَّه ما ينبغي لك أيُّها الخضر الشدَّة على صاحبك، فسمح عنه الخضر.
[73] یہ موسیٰu سے بھول کر صادر ہوا تھا، اس لیے انھوں نے کہا: ﴿ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلَا تُرْهِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا ﴾ ’’میری بھول پر آپ مجھے نہ پکڑیں اور نہ ڈالیں مجھ پر میرا کام مشکل‘‘ یعنی مجھے مشکل میں نہ ڈالیے، میرے ساتھ نرمی کیجیے کیونکہ بھول میں مجھ سے ایسا ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ میری گرفت نہ کیجیے۔ پس انھوں نے اقرار اور عذر کو اکٹھا کر دیا۔ اے خضر! اپنے ساتھی پر سختی کرنا آپ کے شایان شان نہیں ، چنانچہ حضرت خضر نے ان سے درگزر کیا۔
#
{74} {فانطلقا حتَّى إذا لقيا غُلاماً}؛ أي: صغيراً، {فقَتَلَه}: الخضر، فاشتدَّ بموسى الغضب، وأخذتْه الحميَّة الدينيَّة حين قتل غلاماً صغيراً لم يُذْنِبْ. {قال أقتلتَ نفساً زكِيَّةً بغير نفسٍ لقد جئتَ شيئاً نُكْراً}: وأيُّ نُكْرٍ مثل قتل الصغير الذي ليس عليه ذنبٌ ولم يقتلْ أحدا؟! وكان الأول من موسى نسياناً، وهذه غير نسيانٍ، ولكن عدم صبرٍ.
[74] ﴿ فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُ٘لٰ٘مًا ﴾ ’’پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک بچے کو ملے‘‘ یعنی چھوٹا سا بچہ ﴿ فَقَتَلَهٗ﴾ ’’پس (حضرت خضر نے) اس کو قتل کر ڈالا‘‘اس پر موسیٰu سخت ناراض ہوئے۔ جب خضرu نے اس چھوٹے سے بچے کو قتل کر دیا جس سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوا تو جناب موسیٰ کی حمیت دینی نے جوش مارا اور کہنے لگے: ﴿ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَؔكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَ٘فْ٘سٍ١ؕ لَقَدْ جِئْتَ شَیْـًٔؔا نُّكْرًا ﴾ ’’کیا آپ نے ایک ستھری جان بغیر عوض کسی جان کے مار ڈالی، بے شک آپ نے ایک نامعقول کام کیا۔‘‘ چھوٹے سے معصوم بچے کے قتل جیسا برا کام اور کون سا ہو سکتا ہے، جس کا کوئی جرم نہیں اور نہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔پہلی مرتبہ حضرت موسیٰu کا اعتراض ان کے نسیان کا نتیجہ تھا۔ دوسری مرتبہ اعتراص نسیان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کا سبب عدم صبر تھا۔
#
{75} فقال له الخضرُ معاتباً ومذكِّراً: {ألم أقُلْ لكَ إنكَ لن تستطيعَ معيَ صبراً}؟
[75] اس لیے حضرت خضرu نے عتاب کرتے ہوئے اور ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا: ﴿قَالَ اَلَمْ اَ٘قُ٘لْ لَّكَ اِنَّكَ لَ٘نْ تَ٘سْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا ﴾ ’’کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے‘‘
#
{76} فَـ {قال} له موسى: {إن سألتُكَ عن شيءٍ} بعد هذه المرة؛ {فلا تصاحِبْني}؛ أي: فأنت معذور بذلك وبترك صحبتي، {قد بَلَغْتَ من لَدُنِّي عُذْراً}؛ أي: أعذرت مني، ولم تقصر.
[76] موسیٰu نے کہا: ﴿ قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭؔ بَعْدَهَا ﴾ ’’اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی چیز کی بابت پوچھا‘‘ یعنی اس مرتبہ کے بعد ﴿ فَلَا تُصٰحِبْنِیْ﴾ ’’تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں ‘‘ یعنی آپ مجھے مصاحبت میں نہ رکھنے پر معذور ہیں ۔ ﴿ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًؔا﴾ ’’آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے‘‘ یعنی آپ میری طرف سے معذور ہیں اور آپ نے کوتاہی نہیں کی۔
#
{77} {فانطلقا حتى إذا أتيا أهل قريةٍ استطعما أهلها}؛ أي: استضافاهم فلم يُضَيِّفوهُما، {فوجدا فيها جداراً يريدُ أن ينقضَّ}؛ أي: [قد] عاب واستهدم، {فأقامَهُ}: الخضرُ؛ أي بناه وأعاده جديداً، فَـ {قال} له موسى: {لو شئتَ لاتَّخَذْتَ عليه أجراً}؛ أي: أهل هذه القرية لم يضيفونا مع وجوب ذلك عليهم، وأنت تبنيه من دون أجرةٍ، وأنت تقدِرُ عليها؟!
[77] ﴿ فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَ٘رْیَةِنِ اسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا﴾ ’’پس وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب آئے وہ ایک بستی کے لوگوں تک تو کھانا مانگا بستی کے لوگوں سے‘‘ یعنی بستی والوں سے مہمان کے طور پر ٹھہرانے کی استدعا کی۔ ﴿فَاَ بَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًؔا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَ٘ضَّ ﴾ ’’پس انھوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا تو انھوں نے ایک دیوار کو دیکھا جو گرا چاہتی تھی‘‘ یعنی وہ منہدم ہوا چاہتی تھی: ﴿ فَاَقَامَهٗ ﴾ ’’پس اس کو سیدھا کر دیا‘‘ یعنی حضرت خضر نے اسے تعمیر کر کے دوبارہ نیا بنا دیا۔ جناب موسیٰu نے ان سے کہا: ﴿قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّؔخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا﴾ ’’اگر آپ چاہتے تو اس بستی والوں سے اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔‘‘ بستی والوں نے ہمیں مہمان نہیں ٹھہرایا تھا اور آپ ہیں کہ بغیر کسی اجرت کے ان کی دیوار تعمیر کر رہے ہیں ، حالانکہ آپ ان سے اجرت طلب کر سکتے ہیں ۔
#
{78} فحينئذٍ لم يفِ موسى عليه السلام بما قال، واستعذر الخضرُ منه، فَـ {قال} له: {هذا فراقُ بيني وبينكَ}: فإنَّك شرطتَ ذلك على نفسك، فلم يبقَ الآن عذرٌ ولا موضعٌ للصُّحبة. {سأنبِّئك بتأويل ما لم تستطِعْ عليه صبراً}؛ أي: سأخبرك بما أنكرتَ عليَّ وأنبِّئك بأنَّ لي في ذلك من المآرب وما يؤول إليه الأمر.
[78] اس وقت موسیٰu وہ شرط پوری نہ کر سکے جس کا انھوں نے وعدہ کیا تھا۔ اس پر حضرت خضر نے ان کی رفاقت سے معذرت کر لی اور ان سے کہا: ﴿ قَالَ هٰؔذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِكَ﴾ ’’اب جدائی ہے میرے اور آپ کے درمیان‘‘ کیونکہ جو شرائط آپ نے خود اپنے آپ پر عائد کی تھیں (ان کو آپ پورا نہ کر سکے) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا اور نہ مصاحبت کی کوئی وجہ۔ ﴿ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَ٘سْتَطِعْ عَّؔلَیْهِ صَبْرًا ﴾ ’’اب میں آپ کو بتاؤں گا ان چیزوں کی حقیقت، جن پر آپ صبر نہ کر سکے‘‘ یعنی میں ان امور کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا جن کے بارے میں آپ نے مجھ پر نکیر کی اور آپ کو بتاؤں گا کہ ان تمام کاموں کے پیچھے کچھ مقاصد تھے جن پر معاملہ مبنی تھا۔
#
{79} {أما السفينة}: التي خرقتها، {فكانتْ لمساكينَ يعملون في البحر}: يقتضي ذلك الرِّقَّة عليهم والرأفة بهم، {فأردتُ أن أَعِيبها وكان وراءَهُم مَلِكٌ يأخذ كلَّ سفينة غَصْباً}؛ أي: كان مرورهم على ذلك الملك الظالم؛ فكلُّ سفينة صالحةٍ تمرُّ عليه ما فيها عيبٌ غَصَبها وأخَذَها ظلماً، فأردتُ أن أخْرِقها ليكونَ فيها عيبٌ فتسلم من ذلك الظالم.
[79] ﴿ اَمَّا السَّفِیْنَةُ ﴾ یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کر دیا تھا ﴿ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ ﴾ ’’وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے‘‘ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ ﴿ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَؔكَانَ وَرَآءَؔهُمْ مَّؔلِكٌ یَّ٘اْخُذُ كُ٘لَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا ﴾ ’’تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر‘‘ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہذا اگر کشتی صحیح سالم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کر لیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لیے سوراخ کر دیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہو جائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔
#
{80} {وأما الغلامُ}: الذي قتلتُه؛ {فكان أبواه مؤمِنَيْنِ فخشينا أن يُرهِقَهما طغياناً وكفراً}: وكان ذلك الغلام قد قُدِّر عليه أنَّه لو بَلَغَ لأرهق أبويه طغياناً وكفراً؛ أي: لحملهما على الطغيان والكفر: إمَّا لأجل محبَّتهما إيَّاه، أو للحاجة إليه؛ أو يحملهما على ذلك؛ أي: فقتلته؛ لاطِّلاعي على ذلك؛ سلامةً لدين أبويه المؤمِنَيْنِ، وأيُّ فائدة أعظمُ من هذه الفائدة الجليلة؟!
[80] ﴿ وَاَمَّا الْغُلٰ٘مُ ﴾ ’’رہا وہ لڑکا‘‘ یعنی وہ لڑکا جس کو میں نے قتل کیا تھا: ﴿ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّكُفْرًا﴾ ’’پس اس کے ماں باپ مومن تھے، پھر ہم کو اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو مجبور کر دے گا سرکشی اور کفر اختیار کرنے پر۔‘‘ یعنی اس لڑکے کے بارے میں یہ مقدر تھا کہ اگر وہ بالغ ہوجاتا تو اپنے والدین کو کفر اور سرکشی پر مجبور کرتا۔ یا تو ان دونوں کی اس سے محبت کی بنا پر یا اس سبب سے کہ دونوں اس کے ضرورت مند ہوں گے اور ضرورت ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دے گی، یعنی میں اس بچے کے بارے میں مطلع تھا اس لیے میں نے اس کے والدین کے دین کی حفاظت کے لیے اس کو قتل کر دیا۔ اس جلیل القدر فائدے سے بڑھ کر اور کون سا فائدہ ہو سکتا ہے۔
#
{81} وهو وإن كان فيه إساءةٌ إليهما وقطعٌ لذُرِّيَّتهما؛ فإنَّ الله تعالى سيعطيهما من الذُّرِّيَّة ما هو خيرٌ منه، ولهذا قال: {فأرَدْنا أن يُبْدِلهَما ربُّهما خيراً منه زكاةً وأقربَ رُحْماً}؛ أي: ولداً صالحاً زكيًّا واصلاً لرحِمِهِ؛ فإنَّ الغلام الذي قُتِلَ لو بلغ لَعَقَّهما أشدَّ العقوق بحملهما على الكفر والطغيان.
[81] اگرچہ اس بچے کے قتل کرنے میں ان کے لیے تکلیف اور ان کی نسل کا انقطاع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو اور اولاد عطا کرے گا جو اس سے بہتر ہو گی بناء بریں فرمایا: ﴿ فَاَ رَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّؔنْهُ زَؔكٰوةً وَّاَ٘قْ٘رَبَ رُحْمًا﴾ ’’پس ہم نے چاہا کہ بدلہ دے ان کو ان کا رب اس سے بہتر پاکیزگی میں اور نزدیک تر شفقت میں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایسا بیٹا عطا کرے گا جو نیک، پاک اور صلہ رحمی کرنے والا ہو گا کیونکہ وہ بچہ جس کو قتل کردیا گیا تھا اگر بالغ ہو جاتا تو وہ والدین کا سخت نافرمان ہوتا اور وہ ان کو کفر اور سرکشی پر مجبور کر دیتا۔
#
{82} {وأمَّا الجدارُ}: الذي أقمته؛ {فكان لِغُلامين يتيمينِ في المدينةِ وكان تحتهَ كنزٌ لهما وكان أبوهما صالحاً}؛ أي: حالهما تقتضي الرأفة بهما ورحمتهما؛ لكونِهِما صغيرين، عدما أباهما، وحفظهما الله أيضاً بصلاح والدهما. {فأراد ربُّك أن يَبْلُغا أشدَّهما ويستخْرِجا كَنْزَهُما}؛ أي: فلهذا هدمتُ الجدار واستخرجتُ ما تحتَهُ من كنزِهِما ورددتُهُ وأعدتُه مجاناً؛ {رحمةً من ربِّك}؛ أي: هذا الذي فعلتُه رحمةٌ من الله آتاها الله عبدَه الخضر. {وما فعلتُهُ عن أمري}؛ أي: ما أتيت شيئاً من قِبَلِ نفسي ومجرَّد إرادتي، وإنَّما ذلك من رحمةِ الله وأمره. {ذلك}: الذي فسَّرتُه لك {تأويلُ ما لم تَسْطِعْ عليه صبراً}. وفي هذه القصة العجيبة الجليلة من الفوائد والأحكام والقواعد شيءٌ كثيرٌ ننبِّه على بعضه بعون الله: فمنها: فضيلة العلم والرِّحلة في طلبه، وأنَّه أهمُّ الأمورِ؛ فإنَّ موسى عليه السلام رحل مسافةً طويلةً، ولقي النَّصب في طلبه، وترك القعود عند بني إسرائيل لتعليمهم وإرشادهم، واختار السفر لزيادة العلم على ذلك. ومنها: البداءةُ بالأهمِّ فالأهمِّ؛ فإنَّ زيادة العلم وعلم الإنسان أهمُّ من تَرْكِ ذلك والاشتغال بالتعليم من دون تزوُّد من العلم، والجمعُ بين الأمرين أكمل. ومنها: جواز أخذِ الخادم في الحضَرِ والسفر؛ لكفاية المؤن وطلب الراحة؛ كما فعل موسى. ومنها: أنَّ المسافر لطلب علم أو جهادٍ أو نحوه، إذا اقتضتِ المصلحةُ الإخبار بمطلبه وأين يريدُه؛ فإنَّه أكمل من كتمه؛ فإنَّ في إظهاره فوائدَ من الاستعداد له عدَّته وإتيان الأمر على بصيرةٍ وإظهار الشوق لهذه العبادة الجليلة؛ كما قال موسى: {لا أبرحُ حتى أبلغَ مجمع البحرين أو أمضيَ حُقُباً}، وكما أخبر النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - أصحابه حين غزا تبوك بوجهه مع أنَّ عادته التَّورية، وذلك تَبَعٌ للمصلحة. ومنها: إضافةُ الشرِّ وأسبابه إلى الشيطان على وجه التسويل والتزيين، وإنْ كان الكلُّ بقضاء الله وقدره؛ لقول فتى موسى: {وما أنسانيهُ إلاَّ الشيطانُ أنْ أذْكُرَهُ}. ومنها: جواز إخبار الإنسان عمَّا هو من مقتضى طبيعة النفس من نَصَبٍ أو جوع أو عطش إذا لم يكنْ على وجه التسخُّط وكان صدقاً؛ لقول موسى: {لقد لقينا من سَفَرِنا هذا نَصَباً}. ومنها: استحبابُ كون خادم الإنسان ذكيًّا فطناً كيِّساً؛ ليتمَّ له أمره الذي يريده. ومنها: استحباب إطعام الإنسان خادمه من مأكله وأكلهما جميعاً؛ لأنَّ ظاهر قوله: {آتنا غداءنا}: إضافة إلى الجميع: أنَّه أكل هو وهو جميعاً. ومنها: أنَّ المعونة تنزل على العبد على حسب قيامه بالمأمور به، وأنَّ الموافق لأمر الله يُعان ما لا يُعان غيره؛ لقوله: {لقد لَقينا من سَفَرِنا هذا نَصَباً}، والإشارة إلى السفر المجاوز لمجمع البحرين، وأما الأول؛ فلم يَشْتكِ منه التعب مع طولِهِ؛ لأنَّه هو السفر على الحقيقة، وأما الأخير؛ فالظاهر أنه بعض يوم؛ لأنَّهم فقدوا الحوتَ حين أووا إلى الصخرة؛ فالظاهر أنَّهم باتوا عندها، ثم ساروا من الغد، حتى إذا جاء وقتُ الغداء؛ قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا؛ فحينئذٍ تذكَّرَ أنَّه نَسِيَهُ في الموضع الذي إليه منتهى قصده. ومنها: أنَّ ذلك العبد الذي لقياه ليس نبيًّا، بل عبداً صالحاً؛ لأنَّه وصفه بالعبوديَّة، وذكر منَّة الله عليه بالرحمة والعلم، ولم يَذْكُر رسالته ولا نبوَّته، ولو كان نبيًّا؛ لذكر ذلك كما ذكر غيره. وأما قوله في آخر القصة: {وما فعلتُهُ عن أمري}؛ فإنَّه لا يدلُّ على أنَّه نبيٌّ، وإنَّما يدلُّ على الإلهام والتحديث؛ كما يكون لغير الأنبياء؛ كما قال تعالى: {وأوْحَيْنا إلى أمِّ موسى أنْ أرْضِعيه}، {وأوْحى ربُّك إلى النَّحْل أنِ اتَّخِذي من الجبال بيوتاً}. ومنها: أنَّ العلم الذي يعلِّمه الله لعبادِهِ نوعان: علمٌ مكتسبٌ يدرِكُه العبد بجدِّه واجتهاده، ونوعٌ: علمٌ لَدُنِّيٌّ يهبُه الله لمن يمنُّ عليه من عباده؛ لقوله: {وعلَّمْناه من لَدُنَّا علماً}. ومنها: التأدب مع المعلِّم وخطاب المتعلِّم إيَّاه ألطف خطاب؛ لقول موسى عليه السلام: {هل أتَّبِعُك على أن تُعَلِّمني مما عُلِّمْتَ رُشْداً}: فأخرج الكلام بصورة الملاطفة والمشاورة، وأنَّك هل تأذنُ لي في ذلك أم لا؟ وإقرارُهُ بأنَّه يتعلَّم منه؛ بخلاف ما عليه أهل الجفاء أو الكِبْر، الذي لا يُظْهِر للمعلِّم افتقاره إلى علمه، بل يدَّعي أنَّه يتعاون هو وإيَّاه، بل ربَّما ظنَّ أنه يعلِّم معلِّمه وهو جاهلٌ جدًّا؛ فالذُّلُّ للمعلم وإظهارُ الحاجة إلى تعليمه من أنفع شيء للمتعلم. ومنها: تواضع الفاضل للتعلُّم ممَّن دونه؛ فإنَّ موسى بلا شكٍّ أفضل من الخضر. ومنها: تعلُّم العالم الفاضل للعلم الذي لم يتمهَّر فيه ممَّن مَهَرَ فيه، وإنْ كان دونَه في العلم بدرجاتٍ كثيرةٍ؛ فإنَّ موسى عليه السلام من أولي العزم من المرسلين، الذين منحهم الله وأعطاهم من العلم ما لم يعطِ سواهم، ولكن في هذا العلم الخاصِّ كان عند الخضر ما ليس عنده؛ فلهذا حرص على التعلُّم منه؛ فعلى هذا لا ينبغي للفقيه المحدِّث إذا كان قاصراً في علم النحو أو الصرف أو نحوه من العلوم أن لا يتعلَّمه ممَّن مَهَرَ فيه، وإنْ لم يكنْ محدِّثاً ولا فقيهاً. ومنها: إضافة العلم وغيره من الفضائل لله تعالى، والإقرار بذلك، وشكر الله عليها؛ لقوله: {تُعَلِّمَني مما عُلِّمْتَ}؛ أي: مما علمك الله تعالى. ومنها: أن العلم النافع هو العلم المرشد إلى الخير، فكلُّ علم يكون فيه رشد وهداية لطريق الخير وتحذيرٌ عن طريق الشرِّ أو وسيلة لذلك؛ فإنَّه من العلم النافع، وما سوى ذلك؛ فإمَّا أن يكون ضارًّا أو ليس فيه فائدةٌ؛ لقوله: {أن تُعَلِّمَني مما عُلِّمْتَ رُشْداً}. ومنها: أن من ليس له قوَّة الصبر على صحبة العالم والعلم وحسن الثَّبات على ذلك؛ أنَّه [يفوته بحسب عدم صبره كثير من] العلم؛ فمن لا صبر له؛ لا يدرِكُ العلم، ومن استعمل الصبر ولازمه؛ أدرك به كل أمرٍ سعى فيه؛ لقول الخضر يتعذر من موسى بذكر المانع لموسى من الأخذ عنه: إنَّه لا يصبر معه. ومنها: أن السبب الكبير لحصول الصبر إحاطةُ الإنسان علماً وخبرةً بذلك الأمر الذي أمِرَ بالصبر عليه، وإلاَّ؛ فالذي لا يدريه أو لا يدري غايته ولا نتيجته ولا فائدته وثمرته ليس عنده سببُ الصبر؛ لقوله: {وكيف تصبِرُ على ما لم تُحِطْ به خُبْراً}؛ فجعل الموجب لعدم صبرِهِ عدم إحاطته خُبراً بالأمر. ومنها: الأمر بالتأنِّي والتثبُّت وعدم المبادرة إلى الحكم على الشيء حتى يعرفَ ما يُراد منه وما هو المقصود. ومنها: تعليقُ الأمور المستقبلة التي من أفعال العباد بالمشيئة، وأن لا يقولَ الإنسان للشيء: إني فاعل ذلك في المستقبل إلاَّ أن يقول إن شاء الله. ومنها: أن العزم على فعل الشيء ليس بمنزلة فعله؛ فإنَّ موسى قال: {سَتَجِدُني إن شاء الله صابراً}: فوطَّن نفسه على الصبر ولم يفعل. ومنها: أنَّ المعلِّم إذا رأى المصلحة في إيزاعه للمتعلِّم أن يترك الابتداء في السؤال عن بعض الأشياء حتى يكون المعلِّم هو الذي يوقفه عليها؛ فإنَّ المصلحة تتَّبع؛ كما إذا كان فهمه قاصراً، أو نهاه عن الدقيق في سؤال الأشياء التي غيرها أهمُّ منها أو لا يدرِكُها ذهنُه، أو يسأل سؤالاً لا يتعلَّق في موضع البحث. ومنها: جواز ركوب البحر في غير الحالة التي يخاف منها. ومنها: أنَّ الناسي غير مؤاخذٍ بنسيانه؛ لا في حقِّ الله، ولا في حقوق العبادِ؛ لقوله: {لا تؤاخِذْني بما نسيتُ}. ومنها: أنَّه ينبغي للإنسان أن يأخُذَ من أخلاق الناس ومعاملاتهم العفوَ منها وما سمحتْ به أنفسُهم، ولا ينبغي له أن يكلِّفَهم ما لا يطيقون أو يشقَّ عليهم ويرهِقَهم؛ فإنَّ هذا مدعاةٌ إلى النفور منه والسآمة، بل يأخذ المتيسِّر ليتيسر له الأمر. ومنها: أنَّ الأمور تجري أحكامها على ظاهرها، وتُعَلَّقُ بها الأحكام الدنيويَّة في الأموال والدماء وغيرها؛ فإنَّ موسى عليه السلام أنكر على الخضِرِ خرقَه السفينة وقتلَ الغلام، وأنَّ هذه الأمور ظاهرها أنَّها من المنكر، وموسى عليه السلام لا يَسَعُهُ السكوتُ عنها في غير هذه الحال التي صَحِبَ عليها الخضر، فاستعجل عليه السلام، وبادَرَ إلى الحكم في حالتها العامَّة، ولم يلتفتْ إلى هذا العارض الذي يوجب عليه الصبر وعدم المبادرةِ إلى الإنكار. ومنها: القاعدة الكبيرة الجليلة، وهو أنَّه يُدْفَعُ الشرُّ الكبير بارتكاب الشرِّ الصغير، ويُراعى أكبر المصلحتين بتفويت أدناهما؛ فإنَّ قتل الغلام شرٌّ، ولكنَّ بقاءه حتى يفتن أبويه عن دينهما أعظمُ شرًّا منه، وبقاء الغلام من دون قتل وعصمته وإن كان يظنُّ أنه خيرٌ؛ فالخير ببقاء دين أبويه وإيمانهما خيرٌ من ذلك؛ فلذلك قَتَلَهُ الخضر. وتحت هذه القاعدة من الفروع والفوائد ما لا يدخُلُ تحت الحصر، فتزاحُمُ المصالح والمفاسدِ كلِّها داخلٌ في هذا. ومنها: القاعدة الكبيرة أيضاً، وهي أنَّ عمل الإنسان في مال غيره إذا كان على وجه المصلحة وإزالةِ المفسدةِ أنَّه يجوزُ، ولو بلا إذنٍ، حتى ولو ترتَّب على عمله إتلافُ بعض مال الغير؛ كما خَرَقَ الخضر السفينةَ لتعيبَ فتسلمَ من غَصْب الملك الظالم؛ فعلى هذا: لو وقع حرقٌ أو غرق أو نحوهما في دار إنسانٍ أو ماله، وكان إتلافُ بعض المال أو هدمُ بعض الدار فيه سلامةٌ للباقي؛ جاز للإنسان، بل شُرِعَ له ذلك؛ حفظاً لمال الغير. وكذلك لو أراد ظالمٌ أخذَ مال الغير، ودفع إليه إنسانٌ بعض المال افتداءً للباقي؛ جاز، ولو من غير إذن. ومنها: أن العمل يجوز في البحر كما يجوز في البرِّ؛ لقوله: {يعملون في البحر}، ولم ينكر عليهم عملهم. ومنها: أنَّ المسكين قد يكون له مالٌ لا يبلُغ كفايته ولا يخرجُ بذلك عن اسم المسكنة؛ لأنَّ الله أخبر أنَّ هؤلاء المساكين لهم سفينة. ومنها: أنَّ القتل من أكبر الذنوب؛ لقوله في قتل الغلام: {لقد جئتَ شيئا نُكْراً}. ومنها: أنَّ القتل قصاصاً غير مُنْكَرٍ؛ لقوله: {بغيرِ نفسٍ}. ومنها: أنَّ العبد الصالح يحفظُهُ الله في نفسه وفي ذُرِّيَّتِهِ. ومنها: أن خدمة الصالحين أو مَنْ يتعلَّق بهم أفضل من غيرها؛ لأنَّه علَّل استخراج كنزهما وإقامة جدارهما بأنَّ أباهما صالح. ومنها: استعمال الأدب مع الله تعالى في الألفاظ؛ فإنَّ الخضر أضاف عَيْبَ السفينة إلى نفسه؛ بقوله: {فأردتُ أن أعيبها}، وأما الخيرُ؛ فأضافه إلى الله تعالى؛ لقوله: {فأراد ربُّك أن يَبْلُغا أشدَّهما ويستخرِجا كَنزَهما رحمةً من ربِّك}؛ كما قال إبراهيم عليه السلام: {وإذا مرضْتُ فهو يشفينِ}، وقالت الجنُّ: {وأنَّا لا ندري أشرٌّ أريدَ بِمَن في الأرض أم أرادَ بهم ربُّهم رَشَداً}؛ مع أنَّ الكلَّ بقضاء الله وقدره. ومنها: أنَّه ينبغي للصاحب أن لا يفارِقَ صاحبه في حالةٍ من الأحوال ويترك صحبتَهُ حتى يُعْتِبَه ويُعْذِرَ منه؛ كما فعل الخضر مع موسى. ومنها: أن موافقة الصاحب لصاحبه في غير الأمور المحذورة مدعاةٌ وسببٌ لبقاء الصحبة وتأكُّدها؛ كما أنَّ عدم الموافقة سببٌ لقطع المرافقة. [ومنها: أن هذه القضايا التي أجراها الخضر هي قدر محض، أجراها اللَّه وجعلها على يد هذا العبد الصالح ليستدل العباد بذلك على ألطافه في أقضيته، وأنه يقدر على العبد أموراً يكرهها جداً وهي صلاح دينه، كما في قضية الغلام، أو وهي صلاح دنياه كما في قضية السفينة، فأراهم نموذجاً من لطفه وكرمه ليعرفوه، ويرضوا غاية الرضا بأقداره الكريهة].
[82] ﴿ وَاَمَّا الْجِدَارُ ﴾ ’’وہ دیوار‘‘ جس کو میں نے سیدھا کر دیا تھا ﴿ فَكَانَ لِغُلٰ٘مَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَؔكَانَ تَحْتَهٗؔ كَنْ٘زٌ لَّهُمَا وَؔكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا﴾ ’’تو وہ دو یتیموں کی تھی اس شہر میں اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا‘‘ یعنی ان کا حال ان پر رافت و رحمت کا تقاضا کرتا تھا کیونکہ وہ دونوں بہت چھوٹے تھے اور باپ سے محروم تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کی نیکی کی بنا پر ان دونوں کی حفاظت فرمائی۔ ﴿ فَاَ رَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَیَسْتَخْرِجَا كَنْ٘زَهُمَا﴾ ’’پس آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا مدفون خزانہ نکالیں ‘‘ یعنی اس لیے میں نے دیوار منہدم کر دی اور اس کے نیچے سے ان کا خزانہ نکال لیا اور خزانے کو دوبارہ دفن کر کے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ تعمیر کر دیا۔ ﴿ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ یعنی یہ جو میں نے افعال سرانجام دیے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے اس نے اپنے بندے خضر کو نوازا ہے۔ ﴿ وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ﴾ ’’اور میں نے اسے اپنی طرف سے نہیں کیا‘‘ یعنی میں نے ان میں سے کوئی کام اپنی طرف سے مجرد اپنے ارادے سے نہیں کیا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حکم تھا۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ جو میں نے آپ کے سامنے وضاحت کی ہے ﴿ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَ٘سْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا ﴾ ’’یہ حقیقت ہے ان تمام واقعات کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔‘‘ اس تعجب خیز اور جلیل القدر قصے میں بہت سے فوائد، احکام اور قواعد ذکر کیے گئے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : (۱) اس قصے سے علم اور طلب علم کے لیے رحلت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز یہ کہ طلب علم اہم ترین معاملہ ہے۔ حضرت موسیٰu نے طلب علم کے لیے طویل سفر کیا اور تکالیف برداشت کیں ۔ بنی اسرائیل کو تعلیم دینے اور ان کی راہ نمائی کے لیے ان کے پاس بیٹھنا ترک کرکے علم میں اضافے کے لیے سفر اختیار کیا۔ (۲) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اہم کام سے ابتداء کی جائے۔ انسان کا علم اور اس علم میں اضافہ کرنا اس کو ترک کرنے اور علم حاصل کیے بغیر تعلیم میں مشغول رہنے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ مگر دونوں امور کا یکجا ہونا زیادہ کامل اور افضل ہے۔ (۳) سفر و حضر میں ، کام کاج اور راحت کے حصول کے لیے خادم رکھنا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰu نے کیا تھا۔ (۴) اگر کوئی شخص طلب علم یا جہاد وغیرہ کے لیے سفر کرتا ہے اور مصلحت کے تقاضے کے مطابق اگر وہ اپنے مقصد اور منزل کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ اس کو چھپانے سے بہتر ہے کیونکہ اس کو ظاہر کرنے میں بہت سے فوائد ہیں ، مثلاً:اس سفر کی تیاری، سامان مہیا کرنے، اس کام کو دیکھ بھال کر احسن طریقے سے سرانجام دینے کا اہتمام اور اس جلیل القدر عبادت کے لیے شوق کا اظہار وغیرہ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰu نے کہا تھا: ﴿ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُ٘غَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا ﴾ ’’میں اس وقت تک سفر کرتا رہوں گا جب تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ، ورنہ میں برسوں چلتا رہوں گا۔‘‘ اور جیسے نبی اکرمe نے جب غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کرام y کو اس کے بارے میں آگاہ فرما دیا تھا حالانکہ ایسے امور میں توریہ کرنا آپ کی عادت مبارکہ تھی۔ یہ چیز مصلحت کے تابع ہے۔ (۵) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر اور اس کے اسباب کو اس لحاظ سے شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ بہکاتا ہے اور شر کو مزین کرتا ہے اگرچہ خیروشر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدرسے واقع ہوتی ہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰu کے خادم نے کہا: ﴿ وَمَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَنْ اَذْكُرَهٗ﴾ ’’شیطان نے مجھے بھلا دیا اس کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔‘‘ (۶) انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضوں ، مثلاً:تھکاوٹ، بھوک اور پیاس وغیرہ کے بارے میں اطلاع دے، جبکہ اس میں صداقت ہو اور اس میں (اللہ تعالیٰ اور تقدیر پر) ناراضی کے اظہار کا کوئی پہلو نہ ہو۔ موسیٰu نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰؔذَا نَصَبًا﴾ ’’ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ لاحق ہوئی ہے۔‘‘ (۷) خادم کا ذہین و فطین اور سمجھ دار ہونا پسندیدہ ہے تاکہ انسان اپنے مطلوبہ ارادوں کی بہتر طریقے سے تکمیل کر سکے۔ (۸) انسان کا اپنے خادم کو اپنے کھانے سے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا مستحب ہے۔ حضرت موسیٰu کے قول سے یہی ظاہر ہوتا ہے فرمایا: ﴿ اٰتِنَا غَدَآءَؔنَا ﴾ ’’لاؤ ہمارے پاس ہمارا کھانا‘‘ یہ اضافت سب کی طرف ہے، کہ حضرت موسیٰu اور ان کے خادم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ (۹) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندے پر، اللہ تعالیٰ کے احکام کو قائم کرنے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرنے والے کی جو مدد کی جاتی ہے وہ کسی اور کی نہیں کی جاتی۔ موسیٰu نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰؔذَا نَصَبًا ﴾ ’’اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی۔‘‘ یہ دریاؤں کے سنگم سے متجاوز سفر کی طرف اشارہ ہے۔ دریاؤں کے سنگم سے ماقبل سفر کے بارے میں حضرت موسیٰu نے تھکاوٹ کی شکایت نہیں کی، حالانکہ وہ بہت طویل سفر تھا کیونکہ یہی حقیقی سفر تھا۔ (لیکن اللہ کی مدد کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہوا) رہا دریاؤں کے سنگم کے بعد والا سفر تو ظاہر ہے کہ وہ سفر کا کچھ حصہ یعنی دن کا ایک حصہ تھا کیونکہ جب انھوں نے چٹان پر بیٹھ کر آرام کیا تھا وہاں مچھلی غائب ہوئی تھی، ظاہر ہے وہاں چٹان کے پاس ہی انھوں نے رات بسر کی پھر اگلی صبح سفر پر روانہ ہوئے۔ حتیٰ کہ جب صبح کے کھانے کا وقت ہوا تو حضرت موسیٰu نے اپنے خادم سے کہا: ﴿ اٰتِنَا غَدَآءَؔنَا ﴾ ’’ہمارے لیے کھانا لاؤ۔‘‘ یہاں آ کر خادم کو یاد آیا کہ اسے اس مقام پر مچھلی کے غائب ہونے کے بارے میں ذکر کرنا بھول گیا جو ان کی منزل اور مقصود سفر تھا۔(لیکن اس تھوڑے سے سفر میں انھیں تھکاوٹ ہو گئی تھی) (۱۰) اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ جس سے ان دونوں نے ملاقات کی تھی، نبی نہیں تھا بلکہ ایک صالح بندہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عبودیت کی صفت سے موصوف کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رحمت اور علم سے نوازا تھا مگر رسالت اور نبوت کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر جناب خضر نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی نبوت کا ضرور ذکر کرتا جیسا کہ دوسرے انبیاء و مرسلین کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ جہاں تک قصے کے آخر میں ان کے اس قول ﴿ وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ﴾ کا تعلق ہے تو یہ ان کے نبی ہونے کی دلیل نہیں ۔ یہ تو الہام اور تحدیث کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ غیر انبیا کو الہام سے نوازا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ﴾ (القصص :28؍ 7) ’’ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف الہام کیا کہ اس کو دودھ پلا۔‘‘ اسی طرح ارشاد ہے : ﴿ وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّؔخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا ﴾ (النحل:16؍68) ’’آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنائے۔‘‘ (۱۱) وہ علم جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، اس کی دو اقسام ہیں : (ا) علم اکتسابی: جسے بندہ اپنی جدوجہد اور اجتہاد سے حاصل کرتا ہے۔ (ب) علم لدنی: اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر کرم نوازی کرتا ہے اسے یہ علم عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ﴾ ’’ہم نے انھیں اپنی طرف سے ایک خاص علم سے نوازا تھا۔‘‘ (۱۲) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ معلم کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور متعلم کو چاہیے کہ وہ نہایت لطیف طریقے سے معلم سے مخاطب ہو۔ حضرت موسیٰu نے حضرت خضر سے اس طرح عرض کی تھی: ﴿ هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُ٘عَ٘لِّ٘مَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾ (الکہف: 66/18) ’’کیا میں آپ کے پیچھے آ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم و دانش سکھائیں جو آپ کو عطا کی گئی ہے۔‘‘ چنانچہ موسیٰu نے ملاطفت اور مشاورت کے اسلوب میں بات کی گویا عرض کی کہ کیا آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں گے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ اقرار کیا کہ وہ متعلم ہیں ۔ بے ادب اور متکبر لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے جو معلم پر یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ اس کے علم کے محتاج ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حصول علم میں وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں بلکہ بسااوقات ان میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معلم کو تعلیم دے رہے ہیں ۔ ایسا شخص سخت جاہل ہے۔ معلم کے سامنے تذلل اور انکساری اور معلم کے علم کا محتاج ہونے کا اظہار متعلم کے لیے بہت فائدہ مند چیز ہے۔ (۱۳) اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک عالم اور صاحب فضیلت شخص کو بھی علم حاصل کرتے وقت تواضع اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے، چاہے اس کا استاذ اس سے درجے میں کمتر ہی ہو کیونکہ حضرت موسیٰu بلاشبہ حضرت خضرu سے افضل تھے۔ (۱۴) اس واقعے سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ عالم فاضل شخص کسی علم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے جس میں وہ ماہر نہیں ، اس شخص سے علم حاصل کرے جو اس علم میں مہارت رکھتا ہے اگرچہ وہ علم و فضل میں اس سے بدرجہا کمتر کیوں نہ ہو۔ حضرت موسیٰu اولوالعزم رسولوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا مگر یہ خاص علم جو حضرت خضر کے پاس تھا، آپ اس سے محروم تھے اس لیے اس علم کو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ بناء بریں ایک محدث و فقیہ کے لیے مناسب نہیں … جبکہ وہ علم صرف و نحو وغیرہ میں کم مایہ ہو… کہ وہ اس شخص سے یہ علم سیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اس میں ماہر ہے اگرچہ وہ محدث اور فقیہ نہ ہو۔ (۱۵) ان آیات کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علم اوردیگر فضائل کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے، اس کا اقرار کرنا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ تُ٘عَ٘لِّ٘مَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ ﴾(الکہف: 66/18) ’’آپ مجھے سکھائیں اس میں سے جو آپ کو سکھایا گیا ہے‘‘ یعنی اس علم سے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ (۱۶) علم نافع وہ علم ہے جو خیر کی طرف راہنمائی کرے، ہر وہ علم جس میں رشدوہدایت اور خیر کے راستے کی طرف راہنمائی ہو، شر کے راستے سے ڈرایا گیا یا ان مقاصد کے حصول کا وسیلہ ہو، وہ علم نافع ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علوم، وہ یا تو نقصان دہ ہوتے ہیں یا ان میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جیسے فرمایا: ﴿ اَنْ تُ٘عَ٘لِّ٘مَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾ (الکہف: 68/18) (۱۷) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص میں عالم اور علم کی صحبت کے لیے قوت صبر اور حسن ثبات نہیں وہ علم حاصل کرنے کا اہل نہیں ۔ جو صبر سے محروم ہے وہ علم حاصل نہیں کر سکتا۔ جو شخص صبر کو کام میں لاتا اور اس کا التزام کرتا ہے وہ جس امر میں بھی کوشش کرے گا اس کو حاصل کر لے گا۔ حضرت خضرu نے حضرت موسیٰu سے معذرت کرتے ہوئے اس مانع کا ذکر کیا تھا جو ان کے لیے حصول علم سے مانع تھا اور وہ تھا جناب خضر کی معیت میں ان کا عدم صبر۔ (۱۸) اس قصے سے ثابت ہوا کہ حصول صبر کا سب سے بڑا سبب، اس امر میں اس کا علم و آگہی ہے جس میں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس وہ شخص جو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، نہ اس کے غرض و غایت، اس کے نتیجہ، اس کے فوائد و ثمرات کا اسے علم ہے وہ صبر کے اسباب سے بے بہرہ ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَؔكَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا ﴾ (الکہف: 68/18)’’جس چیز کے بارے میں آپ کو کوئی خبر نہ ہو آپ اس بارے میں کیسے صبر کر سکتے ہیں ۔‘‘ پس جناب خضر نے اس چیز کے بارے میں عدم علم کو بے صبری کا سبب قرار دیا۔ (۱۹) اس قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ جب تک کسی چیز کے مقصد اور اس بات کی معرفت حاصل نہ ہو جائے کہ اس سے کیا مراد ہے تو اس وقت تک اس پر خوب غوروفکر کیا جائے اور اس پر حکم لگانے میں جلدی نہ کی جائے۔ (۲۰) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستقبل میں واقع ہونے والے بندوں کے افعال کو مشیت الٰہی سے معلق کیا جائے۔ جب بندہ کسی چیز کے بارے میں کہے کہ وہ مستقبل میں یہ کرے گا تو اس کے ساتھ ان شاء اللہ ’’اگر اللہ نے چاہا‘‘ ضرور کہے۔ (۲۱) کسی چیز کے فعل کا عزم، اس فعل کے قائم مقام نہیں ۔ حضرت موسیٰu نے کہا تھا: ﴿ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا ﴾ (الکہف: 69/18)’’اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘ پس انھوں نے اپنے نفس کو صبر پر مجبور کیا مگر صبر نہ کر سکے۔ (۲۲) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اگر معلم اس امر میں مصلحت سمجھتا ہو کہ متعلم بعض چیزوں کے متعلق سوال میں ابتدا نہ کرے جب تک کہ معلم خود اسے ان چیزوں سے واقف نہ کرائے … تو مصلحت ہی کی پیروی جائے، مثلاً: اگر معلم سمجھے کہ متعلم کم فہم ہے یا معلم متعلم کو زیادہ باریک سوال کرنے سے روک دے جبکہ اس کے علاوہ دیگر امور زیادہ اہم ہوں یا متعلم کا ذہن اس کا ادراک نہ کر سکتا ہو یا وہ کوئی ایسا سوال کرے جو زیر بحث موضوع سے متعلق نہ ہو۔ (۲۳) اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں سمندر میں سفر کرنا جائز ہے جبکہ خوف نہ ہو۔ (۲۴) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بھول جانے والے شخص کا اس کے نسیان کی بنا پر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی مواخذہ نہیں اور اس کی دلیل موسیٰu کا یہ قول ہے: ﴿ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ ﴾ ’’میری بھول پر مجھے نہ پکڑيے۔‘‘ (۲۵) انسان کوچاہیے کہ وہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں عفو سے کام لے۔ ان کے ساتھ رویہ نرم رکھے ان کو ایسے امور کا مکلف نہ کرے جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں یا ان پر شاق گزرتے ہوں یا ایسا کرنا ان پر ظلم کا باعث ہو کیونکہ یہ چیز نفرت اور اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ وہ طریقہ اختیار کرے جو آسان ہو تاکہ اس کا کام آسان ہو جائے۔ (۲۶) تمام معاملات میں ان کے ظاہر پر حکم لگایا جاتا ہے، مال اور خون وغیرہ کے دنیاوی معاملات میں ان کے ظاہر کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، اس لیے کہ جناب موسیٰu نے خضرu کے کشتی میں سوراخ کرنے اور بچے کے قتل کرنے پر نکیر فرمائی کیونکہ یہ دونوں ایسے امور ہیں جو بظاہر منکر ہیں ۔ جناب خضر کی مصاحبت کے علاوہ کوئی اور صورت حال ہوتی تو موسیٰu خاموش نہ رہ سکتے تھے۔ اس لیے آنجناب نے اس پر عام معاملات کے مطابق حکم لگانے میں جلدی کی اور اس عارض کی طرف التفات نہ کیا جو آپ پر صبر اور انکار میں عدم عجلت کو واجب کرتا ہے۔ (۲۷) اس قصے سے ایک نہایت جلیل القدر قاعدہ مستنبط ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’چھوٹی برائی کے ارتکاب کے ذریعے سے بڑی برائی کا سدباب کیا جائے‘‘ اور چھوٹی مصلحت کو ضائع کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی جائی۔ معصوم بچے کا قتل یقینا بہت بڑی برائی ہے مگر اس کے زندہ رہنے سے ماں باپ کا دین کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونا اس سے زیادہ بڑی برائی ہے، بچے کا قتل نہ ہونا اور اس کا باقی رہنا اگرچہ بظاہر نیکی ہے مگر اس کے والدین کے دین و ایمان کا باقی رہنا زیادہ بڑی نیکی ہے اسی وجہ سے خضرu نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس قاعدے کے بہت سے فوائد اور بہت سی فروع ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پس تمام مصالح اور مفاسد جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں سب اسی زمرے میں آتے ہیں ۔ (۲۸) اس واقعے سے ایک اور جلیل القدر قاعدہ مستفاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ’’کسی شخص کے مال میں کسی دوسرے شخص کا ایسا عمل جو کسی مصلحت یا ازالہ مفسدہ کی خاطر ہو وہ جائز ہے، خواہ وہ بغیر اجازت ہی کیوں نہ ہو، خواہ اس سے کسی کے مال میں کچھ اتلاف ہی کیوں نہ واقع ہو۔‘‘ جیسے جناب خضرu نے کشتی میں سوراخ کر کے اس میں عیب ڈال دیا تھا اور اس طرح وہ اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچ گئی۔ اسی طرح کسی شخص کے گھر یا مال کے ڈوبنے یا آگ لگنے کی صورت میں اگر کچھ مال کو تلف کر کے باقی مال یا گھر کے کچھ حصہ کو منہدم کر کے باقی گھر کو بچایا جا سکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے بلکہ دوسرے کے مال کو بچانے کے لیے ایسا کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم شخص کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا چاہتا ہے، کوئی دوسرا شخص جو مال کا مالک نہیں ، اصل مالک کی اجازت کے بغیر، مال کا کچھ حصہ ظالم اور غاصب شخص کو دے کر باقی مال کو بچا لے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (۲۹) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سمندر میں کام کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح خشکی میں ۔ ارشاد فرمایا: ﴿ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ ﴾ اور یہ فرمانے کے بعد ان کے عمل پر نکیر نہیں فرمائی۔ (۳۰) کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مسکین کچھ مال رکھتا ہے مگر وہ اس کے لیے کافی نہیں ہوتا اس لیے وہ ’’مسکین‘‘ کے نام کے اطلاق سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان مساکین کے پاس ایک کشتی تھی۔ (۳۱) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ اس بچے کے قتل کے بارے میں حضرت موسیٰu نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ جِئْتَ شَیْـًٔؔا نُّكْرًا﴾ ’’آپ نے ایک بہت برا کام کیا‘‘ (۳۲) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصاص کے طورپر قتل کرنا برائی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ بِغَیْرِ نَ٘فْ٘سٍ ﴾ (۳۳) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جان اور اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ (۳۴) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ صالحین یا ان کے متعلقین کی خدمت کرنا کسی اور کی خدمت کرنے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان یتیموں کے مدفون خزانہ کو باہر نکالنے اور پھر ان کی دیوار تعمیر کر دینے میں یہ علت بیان فرمائی ہے کہ ان کا باپ ایک صالح شخص تھا۔ (۳۵) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں الفاظ استعمال کرتے وقت ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، چنانچہ جناب خضرu نے کشتی کو عیب دار کرنے کے فعل کی اضافت اپنی طرف کی: ﴿ فَاَ رَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا﴾ ’’میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں ‘‘ اور خیر کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کی۔ فرمایا: ﴿فَاَ رَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَیَسْتَخْرِجَا كَنْ٘زَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ اور جیسا کہ حضرت ابراہیمu نے فرمایا: ﴿ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ﴾ (الشعراء:26؍80) ’’جب میں بیمار پڑ جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا عطا کرتا ہے۔‘‘ اور جنات نے کہا تھا: ﴿ وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْۤ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا﴾ (الجن:72؍10) ’’اور ہم نہیں جانتے کہ زمین پر رہنے والوں کے لیے کوئی برا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے بارے میں ان کے رب نے اچھا ارادہ کیا ہے۔‘‘ حالانکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضاء وتقدیر سے ہوتا ہے۔ (۳۶) کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے ساتھی سے علیحدہ ہو جائے اور اس کی صحبت کو ترک کر دے جب تک کہ اس کی سرزنش نہ کرے اور اس کا عذر نہ سن لے جیسا کہ خضرu نے حضرت موسیٰu کے ساتھ کیا تھا۔ (۳۷) ان امور میں جو ناجائز نہیں ، ایک ساتھی کی دوسرے ساتھی سے موافقت کرنا مطلوب اور دوستی کی بقا کا سبب ہے۔ اسی طرح عدم موافقت رشتۂ دوستی کے منقطع ہونے کا سبب ہے۔
آیت: 83 - 88 #
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا (83) إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (84) فَأَتْبَعَ سَبَبًا (85) حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَاذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا (86) قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكْرًا (87) وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا (88)}.
اور وہ (یہودی) پوچھتے ہیں آپ سے ذوالقرنین کی بابت، کہہ دیجیے! عنقریب پڑھوں گا میں تم پر اس کا کچھ ذکر (83) بلاشبہ ہم نے قدرت دی تھی اسے زمین میں اوردیا تھاہم نے اسے ہر چیز (قسم) سے سازوسامان (84) پس پیچھے لگا وہ ایک راہ کے (85) یہاں تک کہ جب پہنچا وہ جائے غروب پر سورج کی تواس نے پایا اس کو کہ وہ غروب ہو رہا ہے ایک چشمے میں سیاہ کیچڑ کے اور پائی اس نے نزدیک اس (چشمے) کے ایک قوم، کہا ہم نے، اے ذوالقرنین! یا تو یہ کہ تو سزا دے اور یا یہ کہ اختیار کرے تو ان کی بابت اچھائی (86) اس نے کہا لیکن جو شخص ظالم ہے تو عنقریب ہم سزا دیں گے اس، پھر وہ لوٹا دیا جائے گا اپنے رب کی طرف، پس و ہ عذاب دے گا اسے عذاب سخت (87) اور لیکن وہ شخص جو ایمان لایا اور عمل کیے نیک تو اس کے لیے ہے بدلہ اچھااور عنقریب ہم کہیں گے (حکم دیں گے) اسے اپنے کام سے آسانی والا (88)
#
{83} كان أهل الكتاب أو المشركون سألوا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - عن قصَّة ذي القرنين، فأمره الله أن يقول: {سأتلو عليكم منه ذِكْراً}: فيه نبأٌ مفيدٌ وخطابٌ عجيبٌ؛ أي: سأتلو عليكم من أحواله ما يُتَذَكَّر فيه ويكون عبرةً، وأما ما سوى ذلك من أحواله؛ فلم يَتْلُه عليهم.
[83] اہل کتاب تھے یا مشرکین انھوں نے رسول اللہ e سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں : ﴿ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّؔنْهُ ذِكْرًا﴾ ’’میں پڑھتا ہوں تم پر اس کا کچھ حال‘‘ جس میں نہایت مفید مگر تعجب خیز خبر ہے، یعنی میں تمھیں ذوالقرنین کے صرف وہی احوال سناؤں گا جن میں نصیحت اور عبرت ہے۔ ان کے علاوہ دیگر احوال تو وہ ان کو نہیں سنائے گئے۔
#
{84 ـ 85} {إنَّا مَكَّنَّا له في الأرض}؛ أي: مَلَّكَهُ الله تعالى ومكَّنه من النفوذ في أقطار الأرض وانقيادهم له. {وآتَيْناه من كلِّ شيءٍ سبباً. فأتبع سبباً}؛ أي: أعطاه الله من الأسباب الموصلة له لما وَصَلَ إليه ما به يستعين على قهر البلدان وسهولة الوصول إلى أقاصي العمران، وعَمِلَ بتلك الأسباب التي أعطاه الله إياها؛ أي: استعملها على وجهها؛ فليس كلُّ من عنده شيءٌ من الأسباب يسلُكُه، ولا كلُّ أحدٍ يكون قادراً على السبب؛ فإذا اجتمع القدرةُ على السبب الحقيقيِّ والعملُ به؛ حصل المقصودُ، وإن عُدِما أو أحدُهما؛ لم يحصُل، وهذه الأسبابُ التي أعطاه الله إيَّاها لم يُخْبِرْنا الله ولا رسولُهُ بها، ولم تتناقَلْها الأخبارُ على وجهٍ يفيدُ العلم؛ فلهذا لا يَسَعُنا غير السكوت عنها وعدم الالتفات لما يَذْكُرُهُ النقلة للإسرائيلياتِ ونحوها، ولكنَّنا نعلم بالجملة أنَّها أسبابٌ قويَّة كثيرةٌ داخليةٌ وخارجيةٌ، بها صار له جندٌ عظيمٌ ذو عَددٍ وعُددٍ ونظام، وبه تمكَّن من قهر الأعداء ومن تسهيل الوصول إلى مشارق الأرض ومغاربها وأنحائها.
[85,84] ﴿ اِنَّا مَكَّـنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’ہم نے اس کو قوت عطا کی تھی زمین میں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے بادشاہی سے نوازا اور زمین کے گوشوں پر اس کے حکم کو نافذ کیا اور لوگوں کو اس کا مطیع بنایا۔ ﴿ وَاٰتَیْنٰهُ مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ فَاَتْ٘بَعَ سَبَبًا﴾ ’’اور دیا ہم نے اس کو ہر چیز کا سامان پھر پیچھے پڑا وہ ایک سامان کے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے وہ تمام اسباب مہیا کیے جن کے ذریعے سے وہ ہر اس جگہ پہنچا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا، جن کے ذریعے سے اس نے شہروں پر غلبہ حاصل کیا اور نہایت سہولت کے ساتھ دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ اس نے وہ تمام اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیے تھے بہتر طریقے سے استعمال کیے۔ پس ہر شخص کو اسباب مہیا نہیں ہوتے اور نہ ہر شخص اسباب مہیا کرنے کی قدرت ہی رکھتا ہے۔ پس جب سبب حقیقی اور اس کو عمل میں لانے کی قدرت یکجا ہو جائے تو مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور اگر دونوں یا کوئی ایک معدوم ہو تو مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور وہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیے تھے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ فرمایا نہ اس کے رسولe نے اور نہ اس بارے میں کوئی ایسی اخبار منقول ہیں جو افادہ علم کی موجب ہوں ، اس لیے اس بارے میں سکوت اور ان اسرائیلیات کی طرف عدم التفات کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کو ناقلین روایت کرتے ہیں ۔ مگر ہم اجمالی طور پر یہ ضرور جانتے ہیں کہ داخلی اور خارجی طور پر یہ اسباب نہایت قوی تھے جن کی بنا پر اس کے پاس ایک عظیم فوج تیار ہو گئی تھی جو اپنی عددی قوت، سامان حرب اور نظم کے اعتبار سے ایک بہت بڑی فوج تھی۔ اس فوج کی مدد سے اس نے اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا اور زمین کے مشرق و مغرب اور اس کے دور دراز گوشوں تک پہنچنے کی سہولت حاصل ہوئی۔
#
{86} فأعطاه الله ما بلغ به {مغربَ الشمس}، حتى رأى الشمس في مرأى العين كأنها {تَغْرُبُ في عينٍ حمئةٍ}؛ أي: سوداء، وهذا المعتاد لمن كان بينه وبين أفُقِ الشمس الغربيِّ ماءٌ؛ رآها تغرُبُ في نفس الماء، وإنْ كانت في غاية الارتفاع. {ووجَدَ عندها}؛ أي: عند مغربها {قوماً قُلْنا يا ذا القرنينِ إمَّا أن تُعَذِّبَ وإمَّا أن تَتَّخِذَ فيهم حُسْناً}؛ أي: إما أن تعذبهم بقتل أو ضرب أو أسرٍ ونحوه، وإما أن تُحْسِنَ إليهم؛ فخُيِّرَ بين الأمرين؛ لأنَّ الظاهر أنهم [إما] كفارٌ أو فساقٌ أو فيهم شيءٌ من ذلك؛ لأنَّهم لو كانوا مؤمنين غير فساق؛ لم يرخَّصْ له في تعذيبهم.
[86] پس اللہ تعالیٰ نے اسے وہ اسباب عطا کیے جن کے ذریعے سے وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ گیا جہاں اس نے چشمے میں سورج کا عکس دیکھا گویا کہ وہ گدلے یعنی سیاہ پانی میں ڈوب رہا تھا۔ یہ منظر اس شخص کے لیے عام ہے، جس کے اور مغربی افق کے درمیان پانی ہو۔ اسے ایسے نظر آئے گا گویا سورج پانی کے اندر غروب ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہ بہت بلندی پر ہو۔ اور مغرب کی سمت میں ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔ ﴿ قُلْنَا یٰذَا الْ٘قَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّاۤ اَنْ تَتَّؔخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا ﴾ ’’ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! یا تو لوگوں کو تکلیف دے یا ان میں (اپنی بابت) خوبی رکھ‘‘ یعنی خواہ تو ان کو قتل و ضرب یا قیدی بنا کر عذاب میں مبتلا کر یا ان پر احسان کر۔ ذوالقرنین کو ان دو امور میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ کفار یا فساق کی قوم تھی یا ان میں کچھ کفر اور فسق موجود تھا کیونکہ اگر وہ غیر فاسق مومن ہوتے تو ان کو عذاب دینے کی اجازت نہ دی جاتی۔
#
{87} فكان عند ذي القرنين من السياسة الشرعيَّة ما استحقَّ به المدح والثناء؛ لتوفيق الله له لذلك، فقال: سأجعلهم قسمين: {أمَّا مَنْ ظَلَمَ}: بالكفر، {فسوف نعذِّبُه ثم يردُّ إلى ربِّه فيعذِّبه عذاباً نُكْراً}؛ أي: تحصُلُ له العقوبتان؛ عقوبة الدنيا، وعقوبة الآخرة.
[87] پس ذوالقرنین کو سیاست شرعیہ کا کچھ حصہ ملا تھا، جس کے ذریعے سے اس نے اللہ کی توفیق سے ایسے کام کیے جن پر وہ مدح وستائش کا مستحق ٹھہرا، چنانچہ اس نے کہا: ان کو دو قسموں میں تقسیم کر دوں گا۔ ﴿ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ ﴾ ’’جس نے ظلم کیا‘‘ یعنی کفر کیا۔ ﴿ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابً٘ا نُّكْرًا ﴾ ’’سو ہم اس کو سزا دیں گے، پھر لوٹ جائے گا وہ رب کے پاس، پس وہ عذاب دے گا اس کو برا عذاب‘‘ یعنی اسے دو سزائیں ملیں گی، ایک سزا اس دنیا میں اور ایک سزا آخرت میں ۔
#
{88} {وأمَّا مَنْ آمن وعمل صالحاً فله جزاء الحُسْنى}؛ أي: فله الجنة والحالة الحسنة عند الله جزاءً يوم القيامة. {وسنقولُ له من أمرِنا يُسْراً}؛ أي: وسنُحْسِنُ إليه ونَلْطُفُ له بالقول ونيسِّر له المعاملة. وهذا يدلُّ على كونه من الملوك الصالحين [و] الأولياء العادلين العالمين؛ حيث وافق مرضاةَ الله في معاملة كلِّ أحدٍ بما يليق بحاله.
[88] ﴿ وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَؔ اِ۟ الْحُسْنٰى﴾ ’’اور جو کوئی ایمان لایا اور کیا اس نے بھلا کام، سو اس کا بدلہ بھلائی ہے۔‘‘ یعنی اس کو جزا کے طور پر قیامت کے دن جنت عطا ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھے احوال سے نوازا جائے گا۔ ﴿ وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا﴾ ’’اور ہم حکم دیں گے اس کو اپنے کام میں آسانی کا‘‘ یعنی ہم اس سے اچھا سلوک کریں گے، ہم اس سے نرم بات اور آسان معاملہ کریں گے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذوالقرنین نیک بادشاہوں ، اولیائے صالحین اور عدل کرنے والوں میں سے تھا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی موافقت کرتے ہوئے ہر شخص کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کے وہ لائق تھا۔
آیت: 89 - 98 #
{ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا (89) حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا (90) كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا (91) ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا (92) حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا (93) قَالُوا يَاذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (94) قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا (95) آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا (96) فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا (97) قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا (98)}.
پھر پیچھے لگا وہ (اور) راہ کے (89) یہاں تک کہ جب وہ پہنچا جائے طلوع پر آفتاب کی تو پایا اسے کہ وہ طلوع ہو رہا ہے ایسی قوم پر کہ نہیں بنایا ہم نے ان کے لیے سورج کے اس طرف کوئی پردہ (90) اسی طرح تھااور تحقیق احاطہ کر لیا تھا ہم نے اس کا جو کچھ کہ اس کے پاس تھا باعتبار علم کے (91) پھر پیچھے لگا وہ ایک راہ کے (92) یہاں تک کہ جب وہ پہنچا درمیان دو دیواروں کے تو پایا اس نے ان دونوں کے اس طرف ایک قوم کو کہ نہیں قریب تھی کہ سمجھ سکتی وہ کوئی بات (93) انھوں نے کہا، اے ذوالقرنین! بلاشبہ یاجوج اور ماجوج فساد کرنے والے ہیں زمین میں تو کیا مقرر کریں ہم تیرے لیے کچھ مال اوپر اس (شرط) کے کہ بنا دے تو درمیان ہمارے اوردرمیان ان کے ایک بند (94) اس نے کہا، جو قدرت دی ہے مجھے اس میں میرے رب نے، بہت بہتر ہے، پس تم مدد کرو میری، ساتھ قوت کے تو بنا دوں گا میں تمھارے درمیان اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار (95) تم لادو مجھے تختے لوہے کے، یہاں تک کہ جب اس نے برابر کر دیا دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان تو کہا، دھونکو (پھونکو) تم، یہاں تک کہ جب اس نے بنا دیا اسے آگ تو کہا، لاؤ میرے پاس، میں ڈال دوں اس پر پگھلا ہوا تانبا (96) پس نہ تو وہ استطاعت رکھتے تھے یہ کہ چڑھ جائیں اس پر اور نہ استطاعت رکھتے تھے اس میں سوراخ کرنے کی (97) ذوالقرنین نے کہا، یہ رحمت ہے میرے رب کی، پس جب آجائے گا وعدہ میرے رب کا تو وہ کر دے گا اسے ہموار (زمین) اور ہے وعدہ میرے رب کا حق (98)
#
{89} أي: لما وصل إلى مغرب الشمس؛ كرَّ راجعاً، قاصداً مطلعها، متَّبعاً للأسباب التي أعطاه الله.
[89] یعنی جب وہ غروب آفتاب کی حدود تک پہنچ گیا تو واپس لوٹا اور ان اسباب کے ذریعے سے جو اللہ نے اسے عطا کررکھے تھے طلوع آفتاب کی حدود کا قصد کیا۔
#
{90} فوصل إلى مطلع الشمس فـ {وجدها تطلُعُ على قومٍ لم نجعل لهم من دونِها سِتْراً}؛ أي: وجدها تطلُعُ على أناس ليس لهم سترٌ من الشمس: إما لعدم استعدادِهم في المساكن، وذلك لزيادة همجيَّتهم وتوحُّشهم وعدم تمدُّنهم، وإما لكون الشمس دائمة عندهم لا تغرُبُ [عنهم] غروباً يُذكر؛ كما يوجد ذلك في شرقيِّ إفريقيا الجنوبي، فوصل إلى موضع انقطع عنه علمُ أهل الأرض فضلاً عن وصولهم إياه بأبدانهم.
[90] پس وہ طلوع آفتاب کی حدود میں پہنچ گیا تو ﴿ وَجَدَهَا تَ٘طْلُ٘عُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا ﴾ ’’پایا سورج کو کہ وہ ایسی قوم پر نکلتا ہے کہ نہیں بنایا ہم نے ان کے لیے آفتاب کے ورے کوئی پردہ‘‘ یعنی اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ جس کے پاس دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی سامان نہ تھا یا تو اس بنا پر کہ وہ بنانے کی استعداد نہ رکھتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ یکسر وحشی اور غیر متمدن تھے … یا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس سورج غروب نہیں ہوتا تھا ہمیشہ نظر آتا رہتا تھا۔ جیسا کہ جنوبی افریقہ کے مشرقی حصوں میں ہوتا ہے۔ ذوالقرنین اس مقام پر پہنچ گیا جہاں کسی انسان کا اپنے ظاہری بدن کے ساتھ پہنچنا تو کجا انسان کو ان علاقوں کے بارے میں علم تک نہ تھا …
#
{91} ومع هذا؛ فكلُّ هذا بتقدير الله له وعلمه به، ولهذا قال: {كذلك وقَدْ أَحَطْنا [بما لديه خبراً}؛ أي:] بما عنده من الخير والأسباب العظيمة، وعِلْمُنا معه حيثما توجَّه وسار.
[91] بایں ہمہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے علم کے مطابق تھا۔ اس لیے فرمایا: ﴿كَذٰلِكَ١ؕ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْهِ خُبْرًا ﴾ ’’یونہی ہے اور تحقیق ہم نے گھیر لیا تھا اس کے پاس کی تمام خبروں کو‘‘ یعنی ذوالقرنین کے پاس جو بھلائی اور عظیم اسباب تھے اور جہاں کہیں وہ جاتا تھا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا۔
#
{92 ـ 93} {ثم أتبع سبباً. حتى إذا بلغ بين السَّدَّيْن}: قال المفسِّرون: ذهب متوجِّهاً من المشرق قاصداً للشمال، فوصل إلى ما بين السدَّيْن، وهما سدَّان كانا معروفين في ذلك الزمان، سدَّان من سلاسل الجبال المتَّصلة يمنةً ويسرةً، حتى تتصل بالبحار ، بين يأجوجَ ومأجوجَ وبين الناس، {وجد}: من دون السدين {قوماً لا يكادون يفقهون قولاً}؛ لعُجْمَةِ ألسنتهم واستعجام أذهانِهِم وقلوبهم.
[93,92] ﴿ ثُمَّ اَ٘تْ٘بَعَ سَبَبًا حَتّٰۤى اِذَا بَلَ٘غَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ ﴾ ’’پھر لگا وہ ایک سامان کے پیچھے، یہاں تک کہ جب پہنچا وہ دو پہاڑوں کے درمیان‘‘ اصحاب تفسیر کہتے ہیں کہ وہ مشرق سے شمال کی طرف روانہ ہوا اور وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا اور یہ دونوں اس زمانے میں معروف تھے۔ یہ دائیں بائیں دو بندوں کی مانند دو پہاڑی سلسلے تھے اور دونوں پہاڑ یاجوج وماجوج اور لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھے۔ ذوالقرنین کو ان پہاڑی سلسلوں کے اس طرف ایک ایسی قوم ملی جو اپنی اجنبی زبان اور اذہان و قلوب میں ابہام ہونے کی وجہ سے کوئی بات سمجھنے سے قاصر تھی۔
#
{94} وقد أعطى الله ذا القرنين من الأسباب العلميَّة ما فقه به ألسنة أولئك القوم وفقههم وراجعهم وراجعوه، فاشْتَكَوا إليه ضرر يأجوج ومأجوج، وهما أمَّتان عظيمتان من بني آدم، فقالوا: {إنَّ يأجوج ومأجوجَ مفسدون في الأرض}: بالقتل وأخذ الأموال وغير ذلك. {فهل نَجْعَلُ لك خَرْجاً}؛ أي: جُعْلاً؛ {على أن تجعلَ بيننا وبينَهم سدًّا}: ودلَّ ذلك على عدم اقتدارهم بأنفسهم على بنيان السدِّ، وعرفوا اقتدار ذي القرنين عليه، فبذلوا له أجرةً ليفعل ذلك، وذكروا له السببَ الداعي، وهو إفسادهم في الأرض.
[94] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذوالقرنین کو ایسے علمی اسباب مہیا کر رکھے تھے جن کی بنا پر وہ اس اجنبی قوم کی زبان سمجھ سکتا تھا، ان سے بات چیت کر سکتا تھا اور وہ اس سے بات کر سکتے تھے۔ پس ان لوگوں نے اس کے سامنے یاجوج وماجوج کی مار دھاڑ کی شکایت کی۔ یاجوج وماجوج آدمu کی نسل سے دو بہت بڑے گروہ تھے … ان لوگوں نے ذوالقرنین کے پاس شکایت کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّ یَ٘اْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’یاجوج وماجوج زمین میں فساد مچاتے ہیں ‘‘ یعنی قتل و غارت اور لوٹ مار کے ذریعے سے زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ ﴿فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا ﴾ ’’پس (تو کہے) تو ہم مقرر کر دیں تیرے واسطے کچھ محصول‘‘ یعنی خراج ﴿ عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ سَدًّا ﴾ ’’اس شرط پر کہ تو بنا دے ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہ بند بنانے کی خود قدرت نہ رکھتے تھے اور انھیں علم تھا کہ ذوالقرنین یہ دیوار تعمیر کروا سکتا ہے۔ پس انھوں نے ذوالقرنین کو اجرت ادا کرنے کی پیشکش کی تاکہ وہ ان کے لیے دیوار تعمیر کروا دے اور انھوں نے ذوالقرنین کو وہ سبب بھی بتایا جو دیوار تعمیر کرنے کا داعی تھا … اور وہ تھا یاجوج ماجوج کا ان کے علاقے میں مار دھاڑ کرنا اور فساد پھیلانا۔
#
{95} فلم يكن ذو القرنين ذا طمع ولا رغبةٍ في الدُّنيا ولا تاركاً لإصلاح أحوال الرعيَّة، بل قصدُهُ الإصلاح؛ فلذلك أجاب طلبتهم؛ لما فيها من المصلحة، ولم يأخذ منهم أجرةً، وشَكَرَ ربَّه على تمكينه واقتداره، فقال لهم: {ما مَكَّنِّي فيه ربِّي خيرٌ}؛ أي: مما تبذلون لي وتعطوني، وإنَّما أطلب منكم أن تعينوني بقوَّةٍ منكم بأيديكم؛ {أجْعَلْ بينَكم وبينهم رَدْماً}؛ أي: مانعاً من عبورهم عليكم.
[95] ذوالقرنین لالچی تھا نہ دنیا کی اسے کوئی رغبت تھی اور نہ وہ رعایا کی اصلاح احوال کے لیے کوشش ترک کرنے والا تھا بلکہ اس کا مقصد تو محض اصلاح تھا، اس لیے اس نے ان کا مطالبہ مان لیا کیونکہ اس میں مصلحت تھی اور ان سے دیوار تعمیر کروانے کی اجرت نہ لی، اس نے بس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اسے دیوار بنانے کی طاقت اور قدرت عطا کی چنانچہ ذوالقرنین نے ان سے کہا: ﴿مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ ﴾ ’’مجھے میرے رب نے جو قوت عطا کی ہے، وہ بہتر ہے‘‘ یعنی جو بھلائی مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم مجھے عطا کرنا چاہتے ہو، البتہ میں چاہتا ہوں کہ تم افرادی قوت اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے سے میری مدد کرو۔ ﴿ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُمْ رَدْمًا﴾ ’’میں بنا دیتا ہوں تمھارے اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار‘‘ یعنی میں ایسی رکاوٹ تعمیر کیے دیتا ہوں جسے وہ عبور کر کے تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں گے۔
#
{96} {آتوني زُبَرَ الحديدِ}؛ أي: قطع الحديد، فأعْطَوْه ذلك، {حتى إذا ساوى بين الصَّدَفين}؛ أي: الجبلين اللذين بُني بينهما السدُّ، {قال انفُخوا}: النار؛ أي أوقدوها إيقاداً عظيماً واستعملوا لها المنافيخ لتشتدَّ فتذيبَ النحاس، فلما ذاب النحاس الذي يريُد أن يُلْصِقَهُ بين زُبَرِ الحديد، {قال آتوني أفْرِغْ عليه قِطْراً}؛ أي: نحاساً مذاباً، فأفرغ عليه القطر، فاستحكم السدُّ استحكاماً هائلاً، وامتنع به من وراءه من الناس من ضرر يأجوج ومأجوج.
[96] ﴿ اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ﴾ ’’لادو تم مجھے لوہے کے تختے‘‘ یعنی لوہے کے ٹکڑے۔ پس انھوں نے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دیے۔ ﴿ حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ ﴾ ’’حتیٰ کہ جب اس نے دونوں کناروں تک برابر کر دیا‘‘ یعنی جب دیوار ان دو پہاڑوں کے برابر ہو گئی جن کے درمیان یہ دیوار بنائی گئی تھی۔ ﴿ قَالَ انْفُخُوْا﴾ ’’کہا دھونکو‘‘ یعنی بہت بڑا الاؤ جلاؤ اس کے لیے بڑی بڑی دھونکنی استعمال کرو تاکہ آگ کی تپش بہت شدید ہو جائے اور تانبا اچھی طرح پگھل جائے۔ جب تانبا پگھل گیا جس کو وہ فولاد کے تختوں کے درمیان ڈالنا چاہتا تھا۔ ﴿ قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًا ﴾ تو ’’کہا لاؤ میرے پاس کہ ڈالوں اس پر پگھلا ہوا تانبا۔‘‘ پس اس نے پگھلا ہوا تانبا دیوار پر ڈالا جس سے دیوار بے پناہ مضبوط ہو گئی اور یوں دیوار سے ادھر رہنے والے لوگ یاجوج اور ماجوج کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو گئے۔
#
{97} {فما اسطاعوا أن يظهروه وما استطاعوا له نَقْباً}؛ أي: فما لهم استطاعةٌ ولا قدرةٌ على الصعود عليه؛ لارتفاعِهِ، ولا على نقبِهِ؛ لإحكامِهِ وقوَّته.
[97] ﴿ فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّ٘ظْ٘هَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا ﴾ یعنی وہ اس دیوار پر چڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہ بہت بلند تھی اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے کیونکہ یہ بے حد مضبوط تھی۔
#
{98} فلما فَعَلَ هذا الفعل الجميل والأثر الجليل؛ أضاف النعمةَ إلى موليها، وقال: {هذا رحمةٌ من ربِّي}؛ أي: من فضله وإحسانه عليَّ، وهذه حال الخلفاء والصالحين إذا منَّ الله عليهم بالنِّعم الجليلة؛ ازدادَ شكرُهُم وإقرارُهُم واعترافُهم بنعمة الله؛ كما قال سليمانُ عليه السلام لما حَضَرَ عنده عرشُ ملكة سبأ مع البعد العظيم؛ قال: {هذا من فضل ربِّي لِيَبْلُوَني أأشكُرُ أم أكْفُرُ}؛ بخلاف أهل التجبُّر والتكبُّر والعلوِّ في الأرض؛ فإنَّ النعم الكبار تزيدُهم أشراً وبطراً؛ كما قال قارونُ لما آتاه الله من الكنوز ما إنَّ مفاتِحَهُ لتنوءُ بالعُصْبَةِ أولي القوَّة؛ قال: {إنَّما أوتيتُهُ على علم عندي}. وقوله: {فإذا جاء وعدُ ربِّي}؛ أي: لخروج يأجوج ومأجوج. {جَعَلَه}؛ أي: ذلك السدَّ المحكم المتقن {دَكَّاءَ}؛ أي: دكَّه فانهدم، واستوى هو والأرض، {وكان وعدُ ربِّي حقًّا}.
[98] جب وہ اس اچھے اور جلیل القدر کام سے فارغ ہوا تو اس نے اس نعمت کی اضافت نعمت عطا کرنے والے کی طرف کی۔ اس نے کہا: ﴿ قَالَ هٰؔذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ﴾ ’’یہ ایک مہربانی ہے میرے رب کی‘‘ یعنی یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ اور یہ صالح خلفاء کا حال ہے، جب اللہ تعالیٰ انھیں جلیل القدر نعمتوں سے نوازتا ہے تو ان کے شکر، اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اقرار اور اعتراف میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت سلیمانu نے … جب اتنی دور سے ملکہء سبا کا تخت ان کی خدمت میں حاضر کیا گیا تھا … اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا: ﴿ هٰؔذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ ﴾ (النمل:27؍40)’ ’یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں ۔‘‘ اس کے برعکس جابر، متکبر اور زمین پر عام غالب لوگوں کو بڑی بڑی نعمتیں اور زیادہ متکبر اور مغرور بنا دیتی ہیں ، جیسا کہ قارون نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے خزانے عطا کیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت اٹھاتی تھی، کہا تھا: ﴿ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ ﴾ (القصص :28؍ 78) ’’یہ دولت مجھے اس علم کی بنا پر دی گئی ہے جو مجھے حاصل ہے۔‘‘ ﴿ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ ﴾ ’’پس جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا‘‘ یعنی یاجوج وماجوج کے خروج کا وعدہ﴿ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ﴾ ’’اس کو برابر کردے گا۔‘‘ یعنی اس مضبوط اور مستحکم دیوار کو گرا کر منہدم کر دے گا اور وہ زمین کے ساتھ برابر ہو جائے گی۔ ﴿ وَؔكَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا﴾ ’’اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔‘‘
آیت: 99 #
{وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (99)}.
اور چھوڑیں گے ہم ان کے بعض کو اس دن، وہ گھس جائیں گے بعض میں اور پھونکا جائے گا صور میں ، پھر جمع کریں گے ہم ان سب کو (99) اور سامنے لے آئیں گے ہم جہنم کو اس دن، کافروں کے روبرو (100)وہ لوگ کہ تھیں آنکھیں ان کی پردے میں میری یاد سےاور تھے وہ نہیں استطاعت رکھتے سننے کی (101)
#
{99} يحتمل أنَّ الضمير يعودُ إلى يأجوج ومأجوج، وأنَّهم إذا خرجوا على الناس من كثرتهم واستيعابهم للأرض كلِّها يموجُ بعضُهم ببعضٍ؛ كما قال تعالى: {حتَّى إذا فُتِحَتْ يأجوجُ ومأجوجُ وهم من كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلونَ}، ويُحتمل أن الضمير يعود إلى الخلائق يوم القيامة، وأنَّهم يجتمعون فيه، فيكثرون، ويموجُ بعضهم ببعض من الأهوال والزلازل العظام؛ بدليل قوله:
[99] ﴿ وَتَرَؔكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ ﴾ ’’اور چھوڑ دیں گے ہم ان کے بعض کو اس دن ایک دوسرے میں گھستے‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ ضمیر یاجوج وماجوج کی طرف لوٹتی ہو۔ جب وہ اپنے علاقوں سے نکل کر لوگوں پر حملہ آور ہوں گے تو اپنی کثرت اور تمام زمین پر پھیل جانے اور اس کو بھر دینے کی وجہ سے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَ٘اْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُ٘لِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ﴾ (الانبیاء:21؍96) ’’یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلند جگہ سے اتر پڑیں گے۔‘‘ اور یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر خلائق کی طرف لوٹتی ہو یہ کہ لوگ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے وہ بہت زیادہ ہوں گے اور اضطراب، ہول اور زلزلوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکم پیل کر رہے ہوں گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ: ﴿ وَّنُ٘فِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىِٕذٍ لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ عَرْضَا ِ۟ ۰۰الَّذِیْنَ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ وَؔكَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ سَمْعًا ﴾ یعنی جب اسرافیلu صور پھونکیں گے تو اللہ تعالیٰ تمام ارواح کو جسموں میں واپس لوٹا دے گا، پھر تمام اولین و آخرین، کفار اور مومنین کو اکٹھا کر کے میدان قیامت میں جمع کرے گا تاکہ ان سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے، ان کا محاسبہ کیا جائے اور ان کے اعمال کی جزا دی جائے۔
#
{100} فأما الكافرون على اختلافهم؛ فإنَّ جهنم جزاؤهم خالدين فيها أبداً، ولهذا قال: {وعَرَضْنا جهنَّم يومئذٍ للكافرينَ عرضاً}؛ كما قال تعالى: {وإذا الجحيمُ سعرت}؛ أي: عُرِضَتْ لهم لتكون مأواهم ومنزلهم، وليتمتَّعوا بأغلالها وسعيرها وحميمها وزمهريرها، وليذوقوا من العقاب ما تبكم له القلوبُ، وتصمُّ الآذان.
[100] پس کفار کو، ان کے کفر کے مطابق، جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ اسی لیے فرمایا:﴿ وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىِٕذٍ لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ عَرْضًا﴾ ’’اور دکھلا دیں گے ہم جہنم اس دن کافروں کو سامنے‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ ﴾ (الشعراء:26؍91) ’’اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لایا جائے گا۔‘‘ یعنی کفار کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ یہ ان کا ٹھکانا بنے اور تاکہ کفار جہنم کی بیڑیوں اس کی بھڑکتی ہوئی آگ، اس کے ابلتے ہوئے پانی اور اس کی ناقابل برداشت سردی سے متمتع ہوں اور اس کے عذاب کا مزا چکھیں جس سے دل گونگے اور کان بہرے ہو جائیں گے۔
#
{101} وهذا آثار أعمالهم وجزاء أفعالهم؛ فإنَّهم في الدُّنيا كانت أعينُهم في غطاءٍ عن ذكر الله؛ أي: معرضين عن الذكر الحكيم والقرآن الكريم، {وقالوا قلوبُنا في أكِنَّةٍ مما تَدْعونا إليه}، وفي أعينهم أغطيةٌ تمنعهم من رؤية آيات الله النافعة؛ كما قال تعالى: {وعلى أبصارِهم غِشاوةٌ}. {وكانوا لا يستطيعونَ سمعاً}؛ أي: لا يقدرون على سمع آيات الله، الموصلة إلى الإيمان؛ لبغضهم القرآن والرسول؛ فإنَّ المبغِضَ لا يستطيع أن يلقي سمعه إلى كلام من أبغضه؛ فإذا انحجبتْ عنهم طرقُ العلم والخير؛ فليس لهم سمعٌ ولا بصرٌ ولا عقلٌ نافعٌ؛ فقد كفروا بالله، وجحدوا آياته، وكذَّبوا رسله، فاستحقُّوا جهنَّم، وساءت مصيراً.
[101] یہ ان کے اعمال کا نتیجہ اور ان کے افعال کی جزا ہے۔یہ لوگ دنیا میں اس حال میں تھے: ﴿ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ ﴾ ’’ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا میری یاد سے‘‘ یعنی یہ لوگ ذکر حکیم اور قرآن کریم سے روگردانی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے: ﴿ قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَ كِنَّةٍ مِّؔمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ ﴾ (حمٓ السجدۃ:41؍5) ’’جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔‘‘ اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ کی فائدہ مند نشانیوں کو دیکھنے سے روکتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾ (البقرۃ:2؍7) ’’اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔‘‘ ﴿ وَؔكَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ سَمْعًا ﴾ ’’اور وہ نہیں طاقت رکھتے تھے سننے کی‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو، جو ایمان تک پہنچاتی ہیں ، قرآن اور رسول (e) کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے سن نہیں سکتے کیونکہ بغض رکھنے والا شخص جس کے خلاف بغض رکھتا ہے اس کی بات کو غور سے سن نہیں سکتا۔ جب وہ علم اور بھلائی کے راستوں سے محجوب ہو جاتے ہیں تب ان کے پاس سننے کے لیے کان ہوتے ہیں نہ دیکھنے کے لیے آنکھیں اور نہ سمجھنے کے لیے عقل نافع۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کفر کیا، اس کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا، اس لیے وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
آیت: 102 #
{أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا (102)}
کیا پس گمان کیا ہے ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، یہ کہ ٹھہرائیں وہ میرے بندوں کو، سوائے میرے، کارساز؟ بلاشبہ ہم نے تیار کیا ہے جہنم کو کافروں کے لیے بطور مہمانی (102)
#
{102} وهذا برهانٌ وبيانٌ لبطلان دعوى المشركين الكافرين، الذين اتَّخذوا بعض الأنبياء والأولياء شركاء لله يعبُدونهم، ويزعمون أنَّهم يكونون لهم أولياء، ينجُّونهم من عذاب الله، ويُنيلونهم ثوابه، وهم قد كفروا بالله وبرسوله ، يقول الله لهم على وجه الاستفهام والإنكار المتقرِّر بطلانه في العقول: {أفَحَسِبَ الذين كفروا أن يَتَّخِذوا عبادي من دوني أولياءَ}؛ أي: لا يكون ذلك، ولا يوالي وليُّ الله معادياً لله أبداً؛ فإنَّ الأولياء موافقون لله في محبَّته ورضاه وسخطه وبغضه، فيكون على هذا المعنى مشابهاً لقوله تعالى: {ويوم يَحْشُرُهم جميعاً ثم يقولُ للملائكةِ أهؤلاءِ إيَّاكُم كانوا يعبُدونَ * قالوا سبحانك أنت وَلِيُّنا من دونِهِم}؛ فمن زعم أنه يتَّخِذُ وليَّ الله وليًّا له وهو معادٍ لله؛ فهو كاذبٌ. ويُحتمل ـ وهو الظاهر ـ أنَّ المعنى: أفحسِبَ الكفارُ بالله المنابذون لرسلِهِ أن يتَّخذوا من دونِ الله أولياء ينصرونهم وينفعونهم من دونِ الله ويدفعونَ عنهم الأذى؟ هذا حسبانٌ باطلٌ وظنٌّ فاسدٌ؛ فإنَّ جميع المخلوقين ليس بيدهم من النفع والضرِّ شيءٌ، ويكون هذا كقوله تعالى: {قل ادْعوا الذين زَعَمْتُم من دونِهِ فلا يملِكونَ كَشْفَ الضُّرِّ عنكم ولا تحويلاً}، {ولا يملِكُ الذين يدعونَ من دونِهِ الشفاعةَ}. ونحو ذلك من الآيات التي يَذْكُرُ الله فيها أن المتَّخِذ من دونه وليًّا ينصُرُه ويواليه ضالٌّ خائبُ الرجاء غير نائل لبعض مقصودِهِ. {إنَّا أعْتَدْنا جهنَّمَ للكافرين نُزُلاً}؛ أي: ضيافة وقِرىً؛ فبئس النُّزل نُزُلهم، وبئست جهنم ضيافتهم.
[102] یہ مشرکین اور کافروں کے دعوے کے بطلان کی دلیل ہے جنھوں نے بعض انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا، وہ ان کی عبادت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اولیائے کرام ان کے مددگار ہوں گے جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلائیں گے اور ثواب عطا کریں گے، حالانکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے کفر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ استفہام اور انکار کے پیرائے میں ، جس سے ان کے اس عقیدے کا عقلی طور پر بطلان متحقق ہوتا ہے… فرماتا ہے: ﴿ اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّؔتَّؔخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ ﴾ ’’کیا سمجھتے ہیں کافر لوگ کہ ٹھہرائیں میرے بندوں کو میرے سوا دوست‘‘ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا اور کوئی ولی اللہ، اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کو اپنا دوست نہیں بنا سکتا کیونکہ تمام اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، اس کی رضا، اس کی ناراضی اور اس کے بغض کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی موافقت کرتے ہیں ۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، اس کے اس ارشاد کے مشابہہ ہے۔ ﴿ وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اَهٰۤؤُلَآءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۰۰ قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ﴾ (سبا:34؍40-41) ’’جس روز اللہ تمام لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے (ان مشرکین کے متعلق) پوچھے گا کیا یہی وہ لوگ ہیں جو تمھاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے تو پاک ہے ان کی بجائے تو ہمارا ولی (دوست) ہے۔‘‘ پس جو کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ اس نے ولی اللہ کو اپنا دوست بنا لیا ہے جبکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ تو وہ سخت جھوٹا ہے … ظاہر میں اس آیت میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ کیا کفار نے، جو اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے رسولوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں یہ گمان کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی و مددگار بنا لیں گے جو ان کی مدد کریں گے، ان کو فائدہ پہنچائیں گے اور ان سے تکلیفوں کو دور کریں گے؟ یہ ان کا باطل خیال اور فاسد گمان ہے کیونکہ مخلوق میں سے کسی کے قبضہء قدرت میں نفع ونقصان نہیں ۔ یہ معنیٰ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مشابہت رکھتا ہے۔ ﴿ قُ٘لِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّ٘رِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِیْلًا ﴾ (بنی اسرائیل:17؍56) ’’کہہ دیجیے کہ تم پکار دیکھو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کو جن کو تم اللہ کے سوا کارساز سمجھتے ہو تو (یاد رکھو) وہ تمھاری تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں نہ بدلنے کی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مشابہہ ہے۔ ﴿ وَلَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ ﴾ (الزخرف:43؍86) ’’وہ لوگ جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، سفارش کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات جن میں اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی کو ولی و مددگار بناتا ہے تاکہ وہ اس کی مدد کرے اور اس سے موالات رکھے وہ گمراہ ہے، وہ خائب و خاسر ہے اس کی امید پوری نہیں ہو گی اور نہ وہ اپنے مقصد کو پا سکے گا۔ ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ نُزُلًا ﴾ ’’بے شک ہم نے تیار کیا ہے جہنم کو کافروں کی مہمانی کے لیے۔‘‘ یعنی ہم نے کفار کی ضیافت اور مہمانی کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ پس کیا بدترین قیام گاہ ان کا مسکن ہے اور کیا بدترین جہنم ان کی مہمانی ہے!
آیت: 103 - 106 #
{قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا (104) أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (105) ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا (106)}.
کہہ دیجیے! کیا ہم خبردیں تمھیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی عملوں کے اعتبار سے؟ (103) وہ لوگ ضائع ہوگئی کوشش ان کی زندگانیٔ دنیا میں ، جبکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھا کر رہے ہیں کام (104) یہی لوگ ہیں جنھوں نے انکار کیا آیات کا اپنے رب کی اور اس کی ملاقات کا، پس برباد ہو گئے عمل ان کے، سو نہیں قائم کریں گے ہم ان کے لیے دن قیامت کے کوئی وزن (105) یہ، سزا ان کی جہنم ہے بوجہ اس کے کفر کیا انھوں نےاور بنایا انھوں نے میری آیتوں کو اور میرے رسولوں کو ٹھٹھا (106)
#
{103} أي: قل يا محمدُ للناس على وجه التحذير والإنذار: هل أخبِرُكُم بأخسر الناس {أعمالاً} على الإطلاق؟
[103] اے محمد!(e) لوگوں کو ڈرانے کے لیے کہہ دیجیے ! کیا میں تمھیں اس شخص کے بارے میں آگاہ کروں جو علی الاطلاق، اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خائب و خاسر ہے؟
#
{104} {الذين ضلَّ سعيُهم في الحياة الدُّنيا}؛ أي: بطل واضمحلَّ كلُّ ما عملوه من عمل، {وهم يحسبون أنَّهم} محسنونَ في صنعه؛ فكيف بأعمالهم التي يعلمون أنها باطلةٌ وأنَّها محادَّةٌ لله ورسله ومعاداة؟!
[104] ﴿اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’وہ لوگ جن کی کوششیں رائیگاں گئیں دنیا کی زندگی میں ۔‘‘ یعنی انھوں نے جو بھی عمل کیا سب باطل ہو کر رائیگاں گیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں ۔ تب ان اعمال کا کیا حال ہو گا جن کے بارے میں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ باطل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت ہے؟
#
{105} فمن هم هؤلاء الذين خسرت أعمالُهم فخسروا أنفسهم يوم القيامة وأهليهم يوم القيامة ألا ذلك هو الخسران المبين؟ {أولئك الذين كفروا بآياتِ ربهم ولقائِهِ}؛ أي: جحدوا الآيات القرآنيَّة والآيات العيانيَّة الدالَّة على وجوب الإيمان به وملائكته ورسله وكتبه واليوم الآخر. {فحبِطَت}: بسبب ذلك {أعمالُهم فلا نقيمُ لهم يوم القيامة وَزْناً}: لأنَّ الوزن فائدته مقابلةُ الحسناتِ بالسيئاتِ والنظر في الراجح منها والمرجوح، وهؤلاء لا حسنات لهم؛ لعدم شرطها، وهو الإيمان؛ كما قال تعالى: {ومَن يعملْ من الصالحاتِ وهو مؤمنٌ فلا يخافُ ظلماً ولا هضماً}، لكنْ تعدُّ أعمالهم، وتُحصى ويقرَّرون بها، ويُخْزَوْن بها على رؤوس الأشهاد ثم يعذَّبون عليها.
[105] پس یہ کون لوگ ہیں جن کے اعمال رائیگاں گئے، جو قیامت کے روز خود اور ان کے اہل و عیال سب خائب و خاسر ہوئے۔ آگاہ رہو، یہ تو کھلا خسارہ ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَآىِٕهٖ﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا‘‘ یعنی جنھوں نے آیات قرآنی اور آیات عیانی، جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں اور یوم آخرت پر ایمان کی موجب ہیں … کا انکار کیا ﴿ فَحَبِطَتْ ﴾ ’’پس برباد ہو گئے‘‘ اس انکار کے باعث ﴿ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا ﴾ ’’ان کے عمل، پس نہیں قائم کریں گے ہم ان کے لیے قیامت کے روز کوئی تول۔‘‘ وزن کا فائدہ تو نیکیوں اور برائیوں کے مقابلے کے وقت ہوتا ہے تاکہ راجح اور مرجوح کو دیکھا جا سکے اور ان لوگوں کے پاس تو نیکیاں سرے سے ہیں ہی نہیں کیونکہ ان میں نیکیوں کے معتبر ہونے کی شرط معدوم ہے اور وہ ہے ایمان۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰؔلِحٰؔتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰؔفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا﴾ (طٰہ:20؍112) ’’جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو اسے کسی ظلم اور حق تلفی کا خوف نہ ہو گا۔‘‘ لیکن ان کے اعمال کو شمار کیا جائے گا اور وہ اپنے اعمال کا اقرار کریں گے اور وہ گواہوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوں گے اور پھر ان اعمال کی پاداش میں انھیں عذاب دیا جائے گا۔
#
{106} ولهذا قال: {ذلك جزاؤُهم}؛ أي: حبوط أعمالهم، وأنَّه لا يُقام لهم يوم القيامة وزنٌ؛ لحقارتهم وخسَّتهم بكفرهم بآيات الله واتِّخاذهم آياتِهِ ورسلِهِ هزواً يستهزئون بها ويسخَرون [منها] ، مع أنَّ الواجب في آيات الله ورسله الإيمانُ التامُّ بها والتعظيم لها والقيام بها أتمَّ القيام، وهؤلاء عكسوا القضيَّة، فانعكس أمرُهم وتعسوا وانتكسوا في العذاب.
[106] اس لیے فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ﴾ ’’یہ بدلہ ہے ان کا‘‘ یعنی ان کے اعمال کا ضائع جانا ان کے کرتوتوں کا بدلہ ہے، قیامت کے روز ان کی حقارت اور خساست کی وجہ سے ان کے اعمال کا کوئی وزن ہی نہیں ہو گا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزا کیا اور ان کا تمسخر اڑایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں پر کامل طور پر ایمان لانا، ان آیات کی تعظیم کرنا اور انھیں پوری طرح قائم کرنا فرض ہے۔ مگر اس قضیے میں ان کا عمل اس کے برعکس ہے اس لیے وہ ہلاک ہوئے اور اوندھے منہ جہنم میں جا گرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار اور ان کے اعمال کا انجام کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان اور ان کے اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 107 - 108 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا (107) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا (108)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ہوں گے ان کے لیے باغات فردوس کے بطور مہمانی کے (107) اس حال میں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں ، نہیں چاہیں گے وہ اس سے جگہ بدلنا (108)
#
{107} أي: {إنَّ الذين آمنوا}: بقلوبهم، {وعملوا الصالحات}: بجوارحهم، وشمل هذا الوصف جميع الدين؛ عقائده وأعماله، أصوله وفروعه الظاهرة والباطنة؛ فهؤلاء على اختلاف طبقاتهم من الإيمان والعمل الصالح، {لهم جناتُ الفردوس}: يُحتمل أن المراد بجنات الفردوس أعلى الجنة ووسطها وأفضلها، وأنَّ هذا الثواب لمن كمَّل الإيمان والعمل الصالح، وهم الأنبياء والمقرَّبون، ويُحتمل أن يُراد بها جميع منازل الجنان، فيشمل هذا الثواب جميع طبقات أهل الإيمان من المقرَّبين والأبرار والمقتصدين؛ كلٌّ بحسب حاله، وهذا [أَوْلى] المعنيين؛ لعمومه، ولذكر الجنة بلفظ الجمع المضاف إلى الفردوس، وأنَّ الفردوس يُطلق على البستان المحتوي على الكرم أو الأشجار الملتفَّة، وهذا صادق على جميع الجنة؛ فجنَّة الفردوس نُزُلٌ وضيافةٌ لأهل الإيمان والعمل الصالح، وأيُّ ضيافة أجلُّ وأكبر وأعظم من هذه الضيافة، المحتوية على كلِّ نعيم للقلوب والأرواح والأبدان؟! وفيها ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعينُ، من المنازل الأنيقة والرياض الناضرة والأشجار المثمرة والطيور المغرِّدة المشجية والمآكل اللذيذة والمشارب الشهيَّة والنساء الحسان والخدم والولدان والأنهار السارحة والمناظر الرائقة والجمال الحسيِّ والمعنويِّ والنعمة الدائمة، وأعلى ذلك وأفضله وأجلُّه التنعُّم بالقرب من الرحمن ونيل رضاه الذي هو أكبر نعيم الجنان، والتمتُّع برؤية وجهه الكريم وسماع كلام الرءوف الرحيم فلله تلك الضيافة؛ ما أجلها وأجملها وأدومها وأكملها! وهي أعظم من أن يحيطَ بها وصفُ أحدٍ من الخلائق، أو تخطر على القلوب؛ فلو عَلِمَ العبادُ بعض ذلك النعيم علماً حقيقياً يصل إلى قلوبهم لطارت إليها قلوبُهم بالأشواق، ولتقطَّعت أرواحهم من ألم الفراق، ولساروا إليها زرافاتٍ ووحداناً، ولم يؤثروا عليها دنيا فانيةً ولذاتٍ منغصةً متلاشيةً، ولم يفوِّتوا أوقاتاً تذهب ضائعةً خاسرةً، يقابل كلَّ لحظة منها من النعيم من الحقب آلافٌ مؤلَّفة، ولكنَّ الغفلة شملت، والإيمان ضَعُف، والعلم قلَّ، والإرادة وَهَتْ ، فكان ما كان؛ فلا حول ولا قوَّةَ إلاَّ بالله العليِّ العظيم.
[107] یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے جوارح سے نیک عمل کیے اور یہ وصف تمام دین، یعنی اس کے عقائد و اعمال اور اس کے ظاہری اور باطنی اصول و فروع سب کو شامل ہے۔ تمام اہل ایمان کو، ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے مراتب کے مطابق، جنت فردوس کے مختلف طبقات عطا ہوں گے۔ ’’جنات الفرودس‘‘ میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اس سے مراد جنت کا بلند ترین ، بہترین اور افضل درجہ ہو اور یہ ثواب ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی تکمیل کی اور وہ ہیں انبیائے کرام اور مقربین۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے جنت کی تمام منازل اور اس کے تمام درجے مراد ہوں اور یہ ثواب جنت کے تمام طبقات، یعنی مقربین، ابرار اور متوسطین ان کے حسب حال سب کوشامل ہو اور یہی معنیٰ زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ معنی عام ہے، نیز اس لیے کہ جنت کو جمع کے لفظ کے ساتھ ’’فردوس‘‘ کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فردوس کا اطلاق اس باغ پر ہوتا ہے جو انگور کی بیلوں اور گنجان درختوں پر مشتمل ہو تب یہ لفظ تمام جنت پر صادق آتا ہے۔ پس جنت فردوس ان لوگوں کے لیے مہمانی اور ضیافت کی جگہ ہے جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نیک عمل کیے۔ اس ضیافت سے بڑی، زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل القدر کون سی ضیافت ہو سکتی ہے جو قلب و روح اور بدن کے لیے ہر نعمت پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر وہ نعمت موجود ہے جس کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، مثلاً:خوبصورت گھر، سرسبز باغات، پھل دار درخت، سحرانگیز گیت، گاتے ہوئے پرندے، لذید ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویاں ، خدمت گزار لڑکے، بہتی ہوئی نہریں ، دلکش مناظر، حسی اور معنوی حسن و جمال اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ۔ اس سے بھی افضل اور جلیل القدر نعمت، رحمٰن کا تقرب، اس کی رضا کا حصول جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار اور رؤف و رحیم کے کلام سے لطف اندوز ہونا … اللہ کی قسم! یہ ضیافت کتنی جلیل القدر کتنی خوبصورت، ہمیشہ رہنے والی اور کتنی کامل ہو گی۔ یہ ضیافت اس سے بہت بڑی ہے کہ مخلوق میں سے کوئی شخص اس کا وصف بیان کر سکے یا دلوں میں اس کے تصور کا گزر ہو سکے۔ اگر بندوں کو ان میں سے کچھ نعمتوں کا حقیقی علم حاصل ہو کر ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے تو دل شوق سے اڑنے لگیں گے، جدائی کے درد سے روح لخت لخت ہو جائے گی اور بندے اکیلے اکیلے اور گروہ در گروہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ وہ اس کے مقابلے میں دنیائے فانی اور اس کی ختم ہو جانے والی لذات کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیں گے۔ وہ اپنے اوقات کو ضائع نہیں کریں گے کہ یہ اوقات خسارے اور ناکامی کا باعت بنیں کیونکہ اس جنت کا ایک لمحہ دنیا کی ہزاروں سال کی نعمتوں کے برابر ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ غفلت نے گھیر رکھا ہے، ایمان کمزور پڑ گیا اور ارادہ اضمحلال کا شکار ہو گیا ہے، پس اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا، فلاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم.
#
{108} وقوله: {خالدين فيها}: هذا هو تمام النعيم، أنَّ فيها النعيم الكامل، ومن تمامه أنه لا ينقطع، {لا يبغون عنها حِوَلاً}؛ أي: تحوُّلاً ولا انتقالاً؛ لأنَّهم لا يرون إلاَّ ما يعجِبُهم ويبهِجُهم ويسرُّهم ويفرحهم، ولا يرون نعيماً فوق ما هم فيه.
[108] اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ یہ تکمیل نعمت ہے۔ جنت میں کامل نعمتیں عطا ہوں گی اور ان نعمتوں کی تکمیل یہ ہے کہ وہ کبھی منقطع نہیں ہوں گی۔ ﴿ لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا ﴾ ’’نہیں چاہیں گے وہ وہاں سے جگہ بدلنی‘‘ یعنی وہ ان نعمتوں سے منتقل ہونا نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دیکھیں گے جو انھیں پسند آئے اور اچھی لگے، جس سے وہ خوش ہوں اور فرحت حاصل کریں اور اس سے بڑھ کر انھیں کوئی نعمت نظر نہیں آئے گی جس سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
آیت: 109 #
{قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (109)}.
کہہ دیجیے، اگر ہو جائے سمندر (کا پانی) سیاہی، باتیں لکھنے کے لیے میرے رب کی تو ا لبتہ ختم ہو جائے سمندر پہلے اس سے کہ ختم ہوں باتیں میرے رب کی، اگر چہ لے آئیں ہم مثل اس کے (اور) بطور مدد کے (109)
#
{109} أي: قل لهم مخبراً عن عظمة الباري وسعةِ صفاتِهِ وأنها لا يحيطُ العباد بشيء منها: {لو كان البحرُ}؛ أي: هذه الأبحر الموجودة في العالم {مداداً لكلماتِ ربِّي}؛ أي: وأشجارُ الدُّنيا من أولها إلى آخرها من أشجار البلدان والبراري والبحار أقلامٌ، {لَنَفِدَ البحرُ}: وتكسرت الأقلام {قبل أن تنفَدَ كلماتُ ربِّي}: وهذا شيءٌ عظيمٌ لا يحيط به أحدٌ، وفي الآية الأخرى: {ولو أنَّ ما في الأرض من شجرةٍ أقلامٌ والبحرُ يمدُّه من بعدِهِ سبعةُ أبحرٍ ما نَفِدَتْ كلماتُ الله إنَّ الله عزيزٌ حكيمٌ}: وهذا من باب تقريب المعنى إلى الأذهان؛ لأنَّ هذه الأشياء مخلوقةٌ، وجميع المخلوقات منقضيةٌ منتهيةٌ، وأما كلام الله؛ فإنَّه من جملة صفاتِهِ، وصفاتُهُ غير مخلوقة ولا لها حدٌّ ولا منتهى؛ فأيُّ سعة وعظمة تصورتْها القلوب؛ فالله فوق ذلك، وهكذا سائر صفات الله تعالى؛ كعلمه وحكمته وقدرته ورحمته؛ فلو جُمِعَ علمُ الخلائق من الأوَّلين والآخرين أهل السماوات وأهل الأرض؛ لكان بالنسبة إلى علم العظيم أقلَّ من نسبة عصفورٍ وقع على حافَّة البحر، فأخذ بمنقارِهِ من البحر بالنسبة للبحر وعظمتِهِ، ذلك بأنَّ الله له الصفات العظيمة الواسعة الكاملة، وأنَّ إلى ربِّك المنتهى.
[109] یعنی انھیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی لامحدود صفات کے متعلق آگاہ کر دیجیے، نیز ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ بندے ان صفات کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے۔ ﴿ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ ﴾ ’’اگر ہوں سمندر‘‘ یعنی اس دنیا میں موجود تمام سمندر ﴿ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ ﴾ ’’میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے روشنائی‘‘ یعنی روز اول سے لے کر آخرتک شہروں اور صحراؤں کے تمام درختوں کی قلمیں بن جائیں اور سمندر روشنائی میں تبدیل ہو جائیں ۔ ﴿ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ﴾ تو سمندر ختم ہو جائیں گے اور قلم (لکھتے لکھتے گھس کر) ٹوٹ جائیں گے۔ ﴿ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ ﴾ ’’پہلے اس کے کہ ختم ہوں میرے رب کی باتیں ‘‘ اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ مخلوق میں سے کوئی ہستی اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌؔ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ (لقمان:31؍27) ’’زمین پر جتنے بھی درخت ہیں ، اگر وہ سب قلم بن جائیں ، سمندر، جیسے سات سمندر روشنائی مہیا کریں ، دوات بن جائیں تب بھی اللہ کی باتیں لکھتے لکھتے ختم نہ ہوں گی، بے شک اللہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ یہ معانی کو ذہن کے قریب تر کرنے کا ایک اسلوب ہے کیونکہ یہ تمام اشیاء مخلوق ہیں اور تمام مخلوقات ختم ہونے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی جملہ صفات میں شمار ہوتا ہے اور اس کی صفات غیر مخلوق ہیں جن کی کوئی حدو انتہا نہیں ۔ پس جتنی بھی عظمتیں اور وسعتیں ہیں ، جن کا تصور دلوں میں آ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی باقی صفات کامعاملہ ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کا علم، اس کی حکمت، اس کی قدرت اور اس کی رحمت … اگر زمین اور آسمان کی مخلوق میں سے تمام اولین و آخرین کے علم کو اکٹھا کر لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم کے مقابلے میں اتنا ہی قلیل ہے جتنا ایک چڑیا کی چونچ میں وہ پانی جو وہ ایک سمندر سے لیتی ہے۔ اس قطرہ آب کو جو نسبت عظیم سمندر سے ہے، وہی نسبت عام انسانوں کی صفت کو اللہ کی عظیم صفات سے ہے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عظیم، لامحدود اور کامل صفات کا مالک ہے اور ہر چیز کی انتہا اللہ ہی کے پاس ہے۔
آیت: 110 #
{قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (110)}.
(اے پیغمبر!) کہہ دیجیے، یقینا میں تو بشر ہوں تمھاری ہی طرح، وحی کی جاتی ہے میری طرف یہ کہ بلاشبہ تمھارا معبود، معبود ہے ایک ہی پس جو شخص ہے امید رکھتا ملاقات کی اپنے رب سے تو چاہیے کہ وہ عمل کرے عمل صالح اور نہ شریک ٹھہرائے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی (110)
#
{110} أي: قل يا محمدُ للكفار وغيرهم: {إنَّما أنا بشرٌ مثلُكم}؛ أي: لست بإله، ولا لي شركةٌ في الملك، ولا علمٌ بالغيب، ولا عندي خزائن الله، وإنَّما أنا بشرٌ مثلكم، عبدٌ من عبيد ربي. {يوحى إليَّ أنَّما إلهكم إلهٌ واحدٌ}؛ أي: فُضِّلْتُ عليكم بالوحي الذي يوحيه الله إليَّ، الذي أجلُّه الإخبار لكم، {أنَّما إلهكم إلهٌ واحدٌ}؛ أي: لا شريك له ولا أحد يستحقُّ من العبادة مثقال ذرَّة [غيره]، وأدعوكم إلى العمل الذي يقرِّبُكم منه ويُنيلكم ثوابه ويدفع عنكم عقابه، ولهذا قال: {فَمَن كان يَرْجو لقاءَ ربِّه فليعملْ عملاً صالحاً}: وهو الموافق لشرع الله من واجب ومستحبٍّ، {ولا يُشْرِكْ بعبادةِ ربِّه أحداً}؛ أي: لا يرائي بعمله، بل يعمله خالصاً لوجه الله تعالى؛ فهذا الذي جمع بين الإخلاص والمتابعة هو الذي ينال ما يرجو ويطلب، وأما مَنْ عدا ذلك؛ فإنَّه خاسرٌ في دنياه وأخراه، وقد فاته القرب من مولاه ونيل رضاه.
[110] ﴿ قُ٘لْ ﴾ اے محمد (e) ان کفار سے کہہ دیجیے! ﴿ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ ﴾ ’’میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم‘‘ یعنی میں معبود نہیں ، اقتدار الٰہی میں میرا کوئی حصہ ہے نہ میرے پاس کوئی علم عیب ہے اور نہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہی ہیں : ﴿ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ ﴾ میں اپنے رب کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں ۔ ﴿ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ ﴾ ’’وحی آتی ہے مجھ پر کہ تمھارا معبود ایک معبود ہے‘‘ یعنی مجھے تم پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے اور جلیل ترین وحی یہ ہے کہ اس نے تمھیں آگاہ کیا ہے کہ تمھارا معبود ایک ہے، یعنی اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ کوئی ذرہ بھر عبادت کا مستحق ہے اور میں تمھیں ان اعمال کی دعوت دیتا ہوں جو تمھیں اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتے ہیں اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرتے ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْ٘یَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا ﴾ ’’پس جس کو امید ہو اپنے رب سے ملاقات کی، سو وہ کرے نیک عمل۔‘‘ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو واجب اور مستحب ہیں ۔ ﴿ وَّلَا یُشْ٘رِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا ﴾ ’’اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘ یعنی اپنے اعمال میں ریا سے کام نہ لے بلکہ اس کے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں ۔ یہی وہ چیز ہے جو اخلاص اور اتباع کی جامع ہے اور اسی سے مطلوب ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔ اس طریقے کے سوا دیگر طریقوں کو اختیار کرنے والے لوگ اپنی دنیا و آخرت میں خائب و خاسر لوگ ہیں ۔ جو اپنے آقا و مولا کے قرب اور اس کی رضا کے حصول سے محروم ہوں گے۔