(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)}
پاک ہے وہ
(اللہ) جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام
(بیت اللہ) سے مسجد اقصی
(بیت المقدس) تک، وہ جو برکت رکھی تھی ہم نے اس کے اردگردتاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی کچھ نشانیاں بلاشبہ وہی ہے خوب سننے والا ، دیکھنے والا
(1)
#
{1} ينزِّه تعالى نفسه المقدَّسة ويعظِّمها لأنَّ له الأفعال العظيمة والمنن الجسيمة التي من جملتها أنه {أسرى بعبدِهِ}: ورسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، {من المسجد الحرام}: الذي هو أجلُّ المساجد على الإطلاق، {إلى المسجد الأقصى}: الذي هو من المساجد الفاضلة، وهو محلُّ الأنبياء، فأسرى به في ليلة واحدةٍ إلى مسافة بعيدةٍ جدًّا، ورجع في ليلته، وأراه الله من آياته ما ازداد به هدىً وبصيرةً وثباتاً وفرقاناً، وهذا من اعتنائه تعالى به ولطفه؛ حيث يسَّره لليسرى في جميع أموره، وخوَّله نعماً فاق بها الأوَّلين والآخرين. وظاهر الآية أنَّ الإسراء كان في أول الليل، وأنَّه من نفس المسجد الحرام، لكن ثبت في الصحيح أنه أُسْرِيَ به من بيت أم هانئ ؛ فعلى هذا تكون الفضيلة في المسجد الحرام لسائر الحرم؛ فكلُّه تضاعف فيه العبادة كتضاعفها في نفس المسجد، وأنَّ الإسراء بروحه وجسده معاً، وإلاَّ لم يكن في ذلك آيةٌ كبرى ومنقبةٌ عظيمة.
وقد تكاثرت الأحاديث الثابتة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - في الإسراء وذكر تفاصيل ما رأى، وأنه أُسْرِيَ به إلى بيت المقدس، ثم عُرِج به من هناك إلى السماوات حتى وصل إلى ما فوق السماوات العُلى، ورأى الجنة والنار، والأنبياء على مراتبهم، وفُرِضَ عليه الصلواتُ خمسين، ثم ما زال يراجِعُ ربَّه بإشارة موسى الكليم حتى صارت خمساً في الفعل وخمسين في الأجر والثواب، وحاز من المفاخر تلك الليلة هو وأمتُه ما لا يعلم مقدارَه إلاَّ الله عز وجل. وذَكَرَهُ هنا وفي مقام الإنزال للقرآن ومقام التحدِّي بصفة العبوديَّة؛ لأنَّه نال هذه المقامات الكبار بتكميله لعبوديَّة ربه.
وقوله: {الذي بارَكْنا حوله}؛ أي: بكثرة الأشجار والأنهار والخصب الدائم، ومن بركته تفضيله على غيره من المساجد سوى المسجد الحرام ومسجد المدينة، وأنه يُطْلَبُ شدُّ الرحل إليه للعبادة والصلاة فيه، وأنَّ الله اختصَّه محلاًّ لكثيرٍ من أنبيائه وأصفيائه.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی تنزیہ و تعظیم بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے افعال بہت عظیم اور اس کے احسانات بہت جسیم ہیں ۔ اس کے جملہ افعال و احسانات میں سے ایک یہ ہے
﴿اَسْرٰؔى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا ﴾ ’’وہ رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو لے گیا۔‘‘ یعنی وہ اپنے رسول محمد مصطفیe کو راتوں رات لے گیا
﴿ مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾’’مسجد حرام سے‘‘ جو علی الاطلاق تمام مساجد میں جلیل ترین مسجد ہے۔
﴿ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا ﴾ ’’مسجد اقصیٰ تک‘‘ جو فضیلت والی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے اور وہ انبیاء کرام کی سرزمین ہے۔
جناب نبی مجتبیٰe کو ایک ہی رات میں بہت دور مسافت تک لے جایا گیا پھر اسی رات واپس لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں جن سے ہدایت، بصیرت، ثبات اور قوت تفریق و امتیاز میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی آپ پر عنایت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے تمام امور میں آپ کے لیے بھلائی کو آسان فرما دیا اور آپ کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کی بنا پر آپ نے تمام اولین و آخرین پر فوقیت حاصل کی۔ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’اسراء‘‘ کا یہ واقعہ رات کے ابتدائی حصے میں پیش آیا اور سفر مسجد حرام سے شروع ہوا مگر صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ کو حضرت ام ہانیr کے گھر سے رات کے اس سفر پر لے جایا گیا۔
(تفسیر طبری:9؍5) اس سے ظاہر ہوا کہ مسجد حرام کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ تمام حرم کے لیے ہے۔ حرم میں عبادات کا ثواب اسی طرح کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس طرح مسجد حرام میں عبادت کا ثواب کئی گنا ہو جاتا ہے، نیز یہ ’’اسراء‘‘
(معراج) کا واقعہ آپ کو بیک وقت جسم اور روح کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اگر آپ کو معراج جسم اور روح کے ساتھ نہ ہوئی ہوتی تو اس میں ’’آیت کبریٰ‘‘ کا کوئی مفہوم ہے نہ کسی بڑی منقبت کا کوئی پہلو ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب کان النبیﷺ تنام عینہ… الخ، حدیث:3570)
معراج کے واقعہ میں نبی اکرمe سے بہت سی صحیح احادیث منقول ہیں ان میں ان تمام امور کی تفاصیل مذکور ہیں جن کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا حتیٰ کہ آپ تمام آسمانوں کے اوپر چلے گئے۔ وہاں آپ نے جنت، جہنم اور تمام انبیاء کرام کو ان کے مراتب کے مطابق دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر پچاس نمازیں فرض کیں ، پھر آپ موسیٰu کے مشورے سے بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے حتیٰ کہ وہ بالفعل پانچ ہو گئیں مگر ان کا ثواب، پچاس نمازوں کا ہے۔ اس رات آپ کو اور آپ کی امت کو بہت سے مفاخر عطا كيے گئے جن کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں ، قرآن مجید کو نازل کرنے کے ذکر کے مقام پر
(سورۂ فرقان میں ) اور جہاں قرآن کی بابت چیلنج کیا گیا
(سورۂ بقرہ میں ) ،ان تینوں مقامات میں نبیe کی صفت عبودیت
(آپ کے بندے ہونے کی خوبی) کو بیان فرمایا، اس لیے کہ رسول اللہe نے یہ مقامات بلند اپنے رب کی عبودیت کی تکمیل کی وجہ ہی سے حاصل كيے ہیں ۔
﴿ الَّذِیْ بٰرَؔكْنَا حَوْلَهٗ ﴾ ’’وہ جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے‘‘ یعنی درختوں ، دریاؤں اور سدا بہار شادابی کے ذریعے سے برکت عطا کی اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی برکت ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا دیگر تمام مسجدوں پر فضیلت عطا کی گئی، نیز مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے دور سے سفر کر کے جانا مطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو اپنے نبیوں اور چنے ہوئے بندوں کے رہنے کے لیے مختص فرمایا۔
{وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا (2) ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا (3) وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا (4) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا (5) ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا (6) إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا (7) عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا (8)}.
او ر دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور بنایا ہم نے اسے ہدایت بنی اسرائیل کے لیے، یہ کہ نہ پکڑو تم سوائے میرے
(کسی کو بھی) کارساز
(2) (اے) اولاد ان لوگوں کی! جنھیں سوار کیا تھا ہم نے
(کشتی میں ) ساتھ نوح کے، بے شک وہ تھا بندہ نہایت شکر گزار
(3) اور فیصلہ سنا دیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب
(تورات) میں البتہ تم ضرور فساد کرو گے زمین میں دوباراور البتہ تم ضرور سرکشی کرو گے سرکشی بہت بڑی
(4) پھر جب آگیا وعدہ پہلا ان دونوں میں سے تو مسلط کردیے ہم نے تم پر بندے اپنے، لڑائی والے نہایت سخت، پس گھس گے و ہ درمیان شہروں کے
(قتل و غارت کے لیے) ،اور تھا یہ وعدہ
(پورا) کیا ہوا
(5) پھر دوبارہ دے دیا ہم نے تمھیں غلبہ ان پراور بڑھایا ہم نے تمھیں ساتھ مالوں اور بیٹوں کےاور کر دیا ہم نے تمھیں زیادہ تعداد میں
(6) اگر نیکی
(اچھائی) کرو گے تم تو نیکی کرو گے اپنے نفسوں کے لیےاور اگر برائی کرو گے تم تو
(وہ بھی) اسی کے لیے ہوگی پھر جب آیا وعدہ دوسرا
(تو مسلط کیے ہم نے اور بندے تم پر) تاکہ وہ بگاڑ دیں تمھارے چہرےاور تاکہ وہ داخل ہو جائیں مسجد
(اقصیٰ) میں جیسا کہ وہ داخل ہوئے تھے پہلی باراور تاکہ وہ تباہ کر دیں اس چیز کو جس پر غالب آئیں
(مکمل) تباہ کرنا
(7) قریب ہے تمھارا رب، یہ کہ وہ رحم کرے تم پراور اگر تم دوبارہ
(سرکشی) کرو گے تو ہم بھی دوبارہ
(سزا) دیں گےاور بنایا ہے ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ
(8)
#
{2} كثيراً ما يَقْرِنُ الباري بين نبوَّة محمد - صلى الله عليه وسلم - ونبوَّة موسى - صلى الله عليه وسلم - وبين كتابيهما وشريعتيهما؛ لأنَّ كتابيهما أفضل الكتب، وشريعتيهما أكمل الشرائع، ونبوَّتيهما أعلى النبوَّات، وأتباعهما أكثر المؤمنين، ولهذا قال هنا: {وآتينا موسى الكتابَ}: الذي هو التوراة، {وجَعَلْناه هدىً لبني إسرائيل}: يهتدونَ به في ظُلُمات الجهل إلى العلم بالحقِّ. {ألاَّ تتَّخذوا مِن دوني وكيلاً}؛ أي: وقلنا لهم ذلك، وأنزلنا إليهم الكتاب لذلك؛ ليعبدوا الله وحده، ويُنيبوا إليه، ويتَّخذوه وحدَه وكيلاً ومدبراً لهم في أمر دينهم ودُنياهم، ولا يتعلَّقوا بغيره من المخلوقين الذين لا يملكون شيئاً ولا ينفعونَهم بشيءٍ.
[2] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر نبوت محمدی اور نبوت موسوی، قرآن اور تورات اور دونوں کی شریعتوں کو مقرون
(ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے کیونکہ دونوں کی کتابیں سب سے افضل، دونوں کی شریعتیں سب سے کامل،
دونوں کی نبوتیں سب سے اعلیٰ اور دونوں کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں ۔ اس لیے یہاں فرمایا: ﴿ وَاٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب‘‘ یعنی تورات
﴿ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’اور کیا اس کو ہدایت واسطے بنی اسرائیل کے‘‘ یعنی بنی اسرائیل جہالت کی تاریکیوں میں علم حق تک پہنچنے کے لیے تورات سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا :
﴿ اَلَّا تَتَّؔخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَؔكِیْلًا﴾ ’’تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ بنانا‘‘ اور ہم نے اس مقصد کے لیے ان کی طرف کتاب نازل کی تاکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، صرف اسی کی طرف رجوع کریں ، اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اکیلے اسی کو اپنا کارساز اور مدبر بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مخلوق کے ساتھ الوہیت کاکوئی تعلق نہ رکھیں جو کسی چیز کی مالک نہیں اور نہ وہ انھیں کوئی نفع دے سکتی ہے۔
#
{3} {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مع نوح}؛ أي: يا ذُرِّيَّة مَنْ مَنَنَّا عليهم وحملناهم مع نوح. {إنَّه كان عبداً شكوراً}: ففيه التنويه بالثناء على نوح عليه السلام بقيامه بشكر الله واتِّصافه بذلك، والحثِّ لذُرِّيَّتِهِ أن يقتدوا به في شكره ويتابعوه عليه، وأن يتذكَّروا نعمةَ الله عليهم إذْ أبقاهم، واستخلفهم في الأرض، وأغرق غيرهم.
[3] ﴿ ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ﴾ ’’اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا۔‘‘ یعنی اے ان لوگوں کی اولاد جن پر ہم نے احسان کیا۔
﴿ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا﴾ ’’بلاشبہ وہ شکر گزار بندہ تھا‘‘ اس میں نوحu کی، ان کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور شکر گزاری کی صفت سے موصوف ہونے کی بنا پر مدح و ثنا ہے اور ان کی ذریت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ شکر کے بارے میں نوحu کی پیروی کریں اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کریں جس سے اس نے انھیں نوازا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا کر باقی رکھا اور ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو غرق کر دیا۔
#
{4} {وقَضَيْنا إلى بني إسرائيل}؛ أي: تقدَّمنا وعَهِدْنا إليهم وأخبرناهم في كتابهم أنهم لا بدَّ أن يقعَ: منهم إفسادٌ في الأرض مرتين بعمل المعاصي والبَطَر لنعم الله والعلوِّ في الأرض والتكبُّر فيها، وأنَّه إذا وقع واحدةٌ منهما؛ سلَّطَ الله عليهم الأعداء وانتقم منهم، وهذا تحذيرٌ لهم وإنذارٌ لعلَّهم يرجعون فيتذكَّرون.
[4] ﴿وَقَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’اور صاف کہہ سنایا ہم نے بنی اسرائیل کو‘‘ یعنی ہم نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا اور انھیں ان کی کتاب میں آگاہ کیا کہ وہ نافرمانیوں ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور زمین میں تکبر اور اقتدار کی بنا پر زمین میں دو بار فساد پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ جب ان کی طرف سے ایک فساد واقع ہوا تو ہم نے ان پر دشمنوں کو مسلط کر دیا جو ان سے انتقام لیتے تھے۔ یہ ان کے لیے تحذیر و انذار تھا شاید کہ وہ لوٹ آئیں اور نصیحت پکڑیں ۔
#
{5} {فإذا جاء وَعْدُ أولاهما}؛ أي: أولى المرتين اللتين يفسدون فيهما؛ أي: إذا وقع منهم ذلك الفسادُ، {بَعَثْنا عليكم}: بعثاً قدريًّا وسلَّطنا عليكم تسليطاً كونيًّا جزائيًّا، {عباداً لنا أولي بأسٍ شديدٍ}؛ أي: ذوي شجاعة وعددٍ وعُدَّةٍ، فنصرهم اللهُ عليكم، فقتلوكم وسَبَوْا أولادكم ونهبوا أموالكم، وجاسوا {خلالَ الدِّيار}: فهتكوا الدُّور، ودخلوا المسجد الحرام، وأفسدوه. {وكان وعداً مفعولاً}: لا بدَّ من وقوعه لوجود سببه منهم. واختلف المفسِّرون في تعيين هؤلاء المسلَّطين؛ إلاَّ أنَّهم اتَّفقوا على أنَّهم قومٌ كفارٌ: إمَّا من أهل العراق، أو الجزيرة، أو غيرها؛ سلَّطهم الله على بني إسرائيل لما كَثُرَتْ فيهم المعاصي وتركوا كثيراً من شريعتهم وطَغَوا في الأرض.
[5] ﴿ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰ٘ىهُمَا ﴾ ’’پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا۔‘‘ یعنی جب دو مرتبہ فساد کرنے کے وعدے میں سے پہلے وعدے کا وقت آ گیا یعنی ان سے فساد واقع ہوا
﴿ بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تو ہم نے تم پر مسلط کردیے۔‘‘ یعنی ہم نے تکوین، تقدیر اور جزا کے طور پر تم پر مسلط کر دیے
﴿ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَ٘اْسٍ شَدِیْدٍ﴾ ’’اپنے بندے سخت لڑائی والے‘‘ بہت کثیر تعداد میں بہادر بندے جن کو اللہ نے تم پر فتح و نصرت عطا کی، انھوں نے تمھیں قتل کیا، تمھاری اولاد کو غلام بنایا اور تمھارے مال و متاع کو لوٹا۔
﴿فَجَاسُوْا خِلٰ٘لَ الدِّیَ٘ارِ﴾ ’’پس وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔‘‘ یعنی وہ تمھارے گھروں میں گھس گئے اور ان کو تہس نہس کردیا۔ انھوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر مسجد کو بردباد کردیا۔
﴿ وَؔكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا ﴾ ’’اور وہ وعدہ ہونا ہی تھا‘‘ چونکہ انھوں نے اس وعدے کے پورے ہونے کے تمام اسباب مہیا کر دیے تھے، لہٰذا اس وعدے کا پورا ہونا ضروری تھا۔ اصحاب تفسیر کا مسلط ہونے والی قوم کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے البتہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کافر تھی۔ اس قوم کا تعلق یا تو عراق سے تھا یا وہ جزیرۃ العرب سے تھی یا ان کے علاوہ کوئی اور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل پر مسلط کر دیا کیونکہ ان کی نافرمانیاں بڑھ گئی تھیں ، انھوں نے شریعت کے اکثر احکام کو پس پشت ڈال دیا اور انھوں نے زمین میں سرکشی اختیار کر لی تھی۔
#
{6} {ثم رَدَدْنا لكمُ الكَرَّةَ عليهم}؛ أي: على هؤلاء الذين سُلطوا عليكم فأجْلَيْتموهم من دياركم، {وأمدَدْناكم بأموال وبنينَ}؛ أي: أكثرنا أرزاقكم وكثَّرناكم وقوَّيناكم عليهم، {وجعلناكُم أكثرَ نفيراً}: منهم، وذلك بسبب إحسانكم وخضوعكم لله.
[6] ﴿ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’پھر ہم نے پھیر دی تمھاری باری ان پر‘‘ یعنی پھر ہم نے تمھیں اس متغلب کافر قوم پر غلبہ عطا کیا اور تم نے انھیں اپنے شہروں سے نکال باہر کیا
﴿ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ ﴾ ’’اور قوت دی ہم نے تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے‘‘ یعنی ہم نے نہایت کثرت سے تمھیں رزق عطا کیا، تمھاری تعداد کو زیادہ کر دیا اور تمھیں ان کے مقابلے میں طاقتور بنا دیا۔
﴿ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا ﴾ ’’اور تمھاری نفری کو ان کے مقابلے میں بڑھا دیا‘‘ اور اس کا سبب تمھارے نیک کام اور اللہ کے سامنے تمھارا خشوع و خضوع تھا۔
#
{7} {إنْ أحسنتُم أحسنتُم لأنفسِكم}: لأنَّ النفع عائدٌ إليكم حتى في الدُّنيا كما شاهدتم من انتصِاركم على أعدائكم. {وإنْ أسأتُم فلها}؛ أي: فلأنفسكم يعود الضرر؛ كما أراكم الله من تسليط الأعداء. {فإذا جاء وعدُ الآخرة}؛ أي: المرَّة الأخرى التي تفسِدون فيها في الأرض؛ سلَّطْنا أيضاً عليكم الأعداء، {ليسوءوا وجوهكم}: بانتصارهم عليكم وسَبْيِكم، {ولِيَدْخُلوا المسجد كما دَخَلوه أوَّل مرَّةٍ}: والمراد بالمسجد مسجد بيت المقدس، {ولِيُتَبِّروا}؛ أي: يخرِّبوا ويدمِّروا {ما عَلَوْا}: عليه {تتبيراً}: فيخرِّبوا بيوتكم ومساجدكم وحروثكم.
[7] ﴿ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ﴾ ’’اگر بھلائی کی تم نے تو بھلائی کی اپنے لیے‘‘ یعنی تمھاری نیکی کا فائدہ تمھاری ہی طرف لوٹے گا حتیٰ کہ دنیا میں بھی تمھیں ہی فائدہ ہو گا، جیسا کہ تم نے مشاہدہ کر لیا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں تم فتح یاب ہوئے۔
﴿ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا﴾ ’’اور اگر برائی کی تو اپنے لیے‘‘ یعنی اگر تم برائی کا ارتکاب کرتے ہو تو اس کا نقصان بھی خود تمھاری طرف لوٹے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری بداعمالیوں کی پاداش میں تمھارے دشمنوں کو تم پر مسلط کر دیا تھا۔
﴿ فَاِذَا جَآءَؔ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’پس جب دوسرے وعدے کا وقت آیا‘‘ جس میں ذکر تھا کہ تم زمین میں فساد برپا کروگے، ہم نے تم پر دشمنوں کو مسلط کر دیا
﴿ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ ﴾ ’’تاکہ وہ تمھارے چہروں کو بگاڑ دیں ۔‘‘ یعنی وہ فتح یاب ہو کر تمھیں غلام بنائیں اور چہروں کو بگاڑ دیں ۔
﴿وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ’’اور گھس جائیں مسجد میں جیسے گھس گئے تھے وہ پہلی بار‘‘ یہاں مسجد سے مراد بیت المقدس ہے
﴿وَّلِیُتَبِّرُوْا﴾ ’’اور خراب کر دیں ‘‘ یعنی اجاڑ کر پیوند زمین کر دیں
﴿ مَا عَلَوْا ﴾ ’’جس جگہ پر وہ غالب آجائیں ۔‘‘
﴿ تَتْبِیْرًا ﴾ ’’پوری طرح خراب کرنا‘‘ پس وہ تمھارے گھروں ، تمھاری عبادت گاہوں اور تمھارے کھیتوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں ۔
#
{8} {عسى ربُّكم أن يرحَمَكم}: فيُديل لكم الكرة عليهم، فرحمهم وجعل لهم الدولة وتوعَّدهم على المعاصي، فقال: {وإنْ عُدتم}: إلى الإفساد في الأرض، {عُدْنا}: إلى عقوبتِكم، فعادوا لذلك، فسلَّط الله عليهم رسوله محمداً - صلى الله عليه وسلم -، فانتقم الله به منُهم؛ فهذا جزاء الدُّنيا، وما عند الله من النَّكال أعظمُ وأشنعُ، ولهذا قال: {وجَعَلْنا جهنَّم للكافرين حصيراً}: يصلونها ويلازِمونها لا يخرجون منها أبداً. وفي هذه الآيات التحذير لهذه الأمَّة من العمل بالمعاصي؛ لئلاَّ يصيبهم ما أصاب بني إسرائيل؛ فسنَّة الله واحدةٌ لا تبدَّل ولا تغيَّر، ومن نظر إلى تسليط الكفرة على المسلمين والظَّلَمة؛ عَرَفَ أنَّ ذلك من أجل ذنوبهم عقوبةً لهم، وأنَّهم إذا أقاموا كتاب الله وسنَّة رسوله؛ مكَّن لهم في الأرض، ونصرهم على أعدائهم.
[8] ﴿ عَسٰؔى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَؔكُمْ﴾ ’’بعید نہیں کہ تمھارا رب تم پر رحم کرے‘‘ یعنی ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمھیں ان پر فتح و نصرت عطا کرے،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے انھیں دوبارہ حکومت عطا کی اور انھیں نافرمانیوں پر وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِنْ عُدْتُّمْ ﴾ ’’اور اگر تم پھر وہی کرو گے‘‘ یعنی اگر تم زمین میں فساد برپا کرنے کا اعادہ کرو گے
﴿ عُدْنَا﴾ ’’تو ہم پھر وہی کریں گے‘‘ ہم بھی تمھیں دوبارہ سزا دیں گے۔ پس انھوں نے زمین میں دوبارہ فساد برپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول محمد مصطفیe کو مسلط کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سے ان سے انتقام لیا۔ یہ تو ہے دنیا کی سزا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو آخرت کی سزا ہے وہ اس سے زیادہ بڑی اور رسوا کن ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا ﴾ ’’اور کیا ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ‘‘ جس میں وہ جھونکے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی نہ نکلیں گے۔ ان آیات کریمہ میں اس امت کے لیے تحذیر و تخویف ہے کہ وہ معاصی سے بچیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی سزا دی جائے جو بنی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ سنت الٰہی ایک ہی ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آتا۔ جو کوئی اس بارے میں غوروفکر کرے کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر مسلط ہو ئے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ کیونکہ
(اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ) جب مسلمان قرآن اور سنت کو نافذ کریں گے تو وہ انھیں زمین کا اقتدار عطا کرے گا اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔
{إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا (9) وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (10)}.
بے شک یہ قرآن ہدایت دیتا ہے اس
(راہ) کی جو سب
(راہوں ) سے زیادہ سیدھی ہےاورخوشخبری دیتا ہے مومنوں کو، وہ لوگ جو عمل کرتے ہیں نیک، کہ بے شک ان کے لیے ہے اجر بہت بڑا
(9) اور
(یہ کہ) بلاشبہ وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آخرت کے، تیار کیا ہے ہم نے ان کے لیے عذاب بہت درد ناک
(10)
#
{9 ـ 10} يخبر تعالى عن شرف القرآن وجلالته وأنَّه {يهدي للتي هي أقومُ}؛ أي: أعدلُ وأعلى من العقائد والأعمال والأخلاق؛ فمن اهتدى بما يدعو إليه القرآنُ؛ كان أكملَ الناس وأقومَهم وأهداهم في جميع الأمور. {ويبشِّرُ المؤمنين الذين يعملونَ الصَّالحاتِ}: من الواجبات والسُّنن، {أنَّ لهم أجراً كبيراً}: أعدَّه الله لهم في دار كرامته لا يعلم وصفَه إلاَّ هو. {وأنَّ الذين لا يؤمنون بالآخرةِ أعْتَدْنا لهم عذاباً أليماً}؛ فالقرآنُ مشتملٌ على البشارة والنِّذارة وذِكْرِ الأسباب التي تُنال بها البشارة، وهو الإيمان والعمل الصالح، والتي تستحقُّ بها النذارة، وهو ضدُّ ذلك.
[10,9] اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم کے شرف اور اس کی جلالت شان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور یہ کہ وہ
﴿ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَ٘قْوَمُ﴾ ’’بتلاتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے‘‘ یعنی عقائد، اعمال اور اخلاق کے بارے میں زیادہ معتدل اور بلند موقف کا حامل ہے، لہٰذا جو کوئی ان امور سے راہنمائی حاصل کرتا ہے جن کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے تو وہ تمام امور میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل، سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے۔
﴿وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور خوش خبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں ‘‘ یعنی واجبات و سنن ادا کرتے ہیں
﴿اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًا﴾ ’’کہ ان کے لیے ہے بڑا ثواب‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے عزت والے گھر میں تیار کر رکھا ہے جس کے وصف کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
﴿وَّاَنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا ﴾ ’’اور یہ کہ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔‘‘ قرآن کریم تبشیر و انذار پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب ذکر فرما دیے ہیں جن کی بنا پر بشارت ملتی ہے اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح اور ان اسباب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو انذار کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح کے متضاد امور۔
{وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا (11)}.
اور دعا مانگتا ہے انسان برائی کی مانند دعا مانگنے اس کے بھلائی کی اور ہے انسان نہایت جلد باز
(11)
#
{11} وهذا من جهل الإنسان وعجلته؛ حيث يدعو على نفسه وأولاده بالشرِّ عند الغضب، ويبادِرُ بذلك الدعاء كما يبادِرُ بالدُّعاء في الخير، ولكنَّ الله من لطفه يستجيبُ له في الخير ولا يستجيبُ له بالشر، ولو يُعَجِّلُ الله للناس الشرَّ استعجالهم بالخير لَقُضي إليهم أجلهم.
[11] یہ انسان کی جہالت اور عجلت پسندی ہے کہ وہ غیظ و غضب کے وقت اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بددعا کرنے میں جلدی کرتا ہے جس طرح اچھی دعا کرنے میں جلدی کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اس کی اچھی دعا کو تو قبول کر لیتا ہے اور بددعا کو قبول نہیں کرتا۔
﴿ وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ۠ بِالْخَیْرِ لَ٘قُ٘ضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ﴾ (یونس : 10؍11) ’’اگر اللہ ان کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں اتنی ہی جلدی کرتا جیسے کہ وہ جلدی خیر مانگتے ہیں تو ان کی مدت مقررہ کے خاتمے کا فیصلہ کر دیا جاتا۔‘‘
{وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا (12)}.
اور بنایا ہم نے رات کو اوردن کو دو نشانیاں پھر مٹا دی ہم نے نشانی رات کی اور بنا دی ہم نے نشانی دن کی دکھلانے والی
(ہر چیز کو) تاکہ تم تلاش کرو فضل
(رزق) اپنے رب کااور تاکہ تم جان لو گنتی سالوں کی اور حساب، اور ہر چیز، خوب بیان کیا ہے ہم نے اس کو تفصیل کے ساتھ
(12)
#
{12} يقول تعالى: {وجعلنا الليلَ والنهار آيتينِ}؛ أي: دالَّتين على كمال قدرة الله وسَعَة رحمته وأنَّه الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له. {فَمَحَوْنا آية الليل}؛ أي: جعلناه مظلماً للسكون فيه والراحة. {وجعلنا آيةَ النهارِ مبصرةً}؛ أي: مضيئة، {لتبتغوا فَضْلاً من ربِّكم}: في معايشكم وصنائعكم وتجاراتكم وأسفاركم، {ولتعلموا}: بتوالي الليل والنهار واختلاف القمر {عَدَدَ السنين والحسابَ}: فتبنون عليها ما تشاؤون من مصالحكم. {وكلَّ شيءٍ فصَّلْناه تفصيلاً}؛ أي: بيَّنَّا الآيات، وصرَّفناه لتتميز الأشياء، ويتبيَّن الحقُّ من الباطل؛ كما قال تعالى: {ما فرَّطْنا في الكتاب من شيءٍ}.
[12] ﴿ وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّهَارَ اٰیَتَیْنِ ﴾ ’’اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا۔‘‘ یعنی یہ دن رات اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بے پایاں رحمت پر دلالت کرتے ہیں ، نیز یہ کہ صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔
﴿ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ ﴾ ’’پھر مٹا دیا ہم نے رات کی نشانی کو‘‘ یعنی ہم نے رات کو تاریک بنایا تاکہ لوگ اس میں سکون اور راحت حاصل کریں
﴿ وَجَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ﴾ ’’اور بنایا دن کی نشانی کو دکھلانے والی‘‘ یعنی روشن
﴿ لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ اپنی معاش، اپنی صنعت و حرفت، اپنی تجارت اور اپنے سفر میں اللہ کا فضل تلاش کرو۔
﴿ وَلِتَعْلَمُوْا ﴾ ’’اور تاکہ تم جان لو‘‘ رات اور دن کے پے درپے آنے جانے اور چاند کے گھٹنے بڑھنے سے
﴿ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ﴾ ’’برسوں کا شمار اور حساب‘‘ پس تم جیسے چاہتے ہو دنوں کے اس حساب و کتاب پر اپنے مصالح کی بنیاد رکھتے ہو۔
﴿ وَؔكُ٘لَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا ﴾ ’’اور ہر چیز کو ہم نے کھول کر بیان کر دیا ہے‘‘ یعنی ہم نے آیات کو واضح کر کے ان کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ چیزیں ایک دوسرے سے ممتاز ہوں اور باطل میں سے حق نمایاں اور واضح ہو جائے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ﴾ (الانعام : 6؍38) ’’ہم نے نوشتۂ تقدیر میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘
{وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (13) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (14)}.
اور ہر انسان، لازم کر دیا ہم نے اس کے لیے عمل اس کا اس کی گردن میں اور ہم نکالیں گے اس کے لیے دن قیامت کے ایک کتاب، وہ دیکھے گا اسے کھلی ہوئی
(13) (اسے کہا جائے گا) پڑھ لے اپنا اعمال نامہ، کافی ہے تیرا نفس ہی آج تجھ پر حساب لینے والا
(14)
#
{13 ـ 14} وهذا إخبارٌ عن كمال عدله: أنَّ كلَّ إنسان يُلْزِمُهُ طائِرَهُ في عنقِهِ؛ أي: ما عمل من خيرٍ وشرٍّ يجعله الله ملازماً له لا يتعدَّاه إلى غيره؛ فلا يحاسَبُ بعمل غيره ولا يحاسَبُ غيره بعمله. {ونخرِجُ له يوم القيامةِ كتاباً يلقاهُ منشوراً}: فيه عملُهُ من الخير والشرِّ حاضراً صغيرُهُ وكبيرُهُ، ويقال له: {اقرأ كتابَكَ كفى بنفسِكَ اليوم عليك حسيباً}: وهذا من أعظم العدل والإنصاف أن يقال للعبدِ: حاسِبْ نفسَكَ؛ ليعرف ما عليه من الحقِّ الموجب للعقاب.
[14,13] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عدل کامل کے بارے میں خبر ہے، نیز یہ کہ ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے، یعنی بندہ جو اچھا یا برا کام سرانجام دیتا ہے وہ اسی کے ساتھ لازم ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کی طرف متعدی نہیں ہوتا اور کسی دوسرے کے عمل کا حساب اس سے لیا جائے گا نہ اس کا حساب کسی اور سے لیا جائے گا۔
﴿ وَنُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا ﴾ ’’اور نکال دکھائیں گے ہم اس کو قیامت کے دن ایک کتاب، وہ دیکھے گا اس کو کھلی ہوئی‘‘ اس کتاب میں اس کے تمام اچھے اور برے،
چھوٹے اور بڑے تمام اعمال موجود ہوں گے اس سے کہا جائے گا: ﴿ اِقْ٘رَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَ٘فٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا﴾ ’’پڑھ لے اپنی کتاب تو ہی کافی ہے آج کے دن اپنا حساب لینے والا‘‘ یہ سب سے بڑا عدل و انصاف ہے کہ بندے سے کہا جائے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس کے ذمہ کون کون سے حقوق ہیں جو سزا کے موجب ہیں ۔
{مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (15)}
جس شخص نے ہدایت پائی تو یقینا وہ ہدایت پاتا ہے اپنے نفس ہی کے
(فائدے کے) لیےاورجو کوئی گمراہ ہوا تو یقینا وہ گمراہ ہوتا ہے اپنے نفس ہی پراور نہیں بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا، بوجھ کسی دوسرے کااور نہیں ہیں ہم عذاب دینے والے، جب تک کہ
(نہ) بھیجیں ہم کوئی رسول
(15)
#
{15} أي: هدايةُ كلِّ أحدٍ وضلاله لنفسه. لا يحمل أحدٌ ذنب أحدٍ، ولا يدفع عنه مثقالَ ذرَّة من الشرِّ، والله تعالى أعدل العادلين، لا يعذِّب أحداً حتى تقوم عليه الحجَّة بالرسالة ثم يعاند الحجَّة، وأما من انقاد للحجَّة أو لم تبلُغْه حجَّة الله تعالى؛ فإنَّ الله تعالى لا يعذِّب به. استدل بهذه الآية على أنَّ أهل الفترات وأطفال المشركين لا يعذِّبُهم الله حتى يبعثَ إليهم رسولاً؛ لأنَّه منزَّه عن الظُّلم.
[15] یعنی ہر نفس کی ہدایت اور گمراہی خود اس کے لیے ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ذرہ بھر تکلیف اس سے دور ہٹا سکے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب سے بڑا عادل ہے وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ اس پر رسالت کی حجت قائم نہ ہو جائے اور یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے اس حجت کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا۔ رہا وہ شخص جس نے رسالت کی اس حجت کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا یا اس کے پاس حجت پہنچی ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل فترت
(یعنی اس زمانے یا علاقے کے لوگ جن تک نبوت نہیں پہنچی) اور مشرکین کے بچوں کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ ان کی طرف رسول نہ بھیج لے کیونکہ وہ ظلم سے پاک اور منزہ ہے۔
{وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (16) وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (17)}
اور جب چاہتے ہیں ہم یہ کہ ہلاک کریں کسی بستی کو تو حکم دیتے ہیں ہم اس کے خوش حال لوگوں کو تو وہ نافرمانی کرتے ہیں اس میں پھر ثابت ہو جاتی ہے اس
(بستی) پر بات
(عذاب کی)، پس تباہ کر دیتے ہیں ہم اسے
(مکمل) برباد کرنا
(16) اور کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے قومیں بعد نوح کےاور کافی ہے آپ کا رب، اپنے بندوں کے گناہوں کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا
(17)
#
{16} يخبر تعالى أنه إذا أراد أن يُهْلِكَ قريةً من القرى الظالمة ويستأصلها بالعذاب؛ أمر مُتْرَفيها أمراً قدريًّا، ففسقوا فيها، واشتدَّ طغيانُهم؛ {فحقَّ عليها القولُ}؛ أي: كلمة العذاب التي لا مردَّ لها؛ {فدمَّرْناها تدميراً}
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جب کبھی وہ کسی ظالم بستی کو ہلاک کرنا اور عذاب کے ذریعے سے اس کا استیصال کرنا چاہتا ہے تو وہ اس میں رہنے والے خوشحال لوگوں کو حکم دیتا ہے… یعنی کونی و قدری حکم… وہ اس میں نافرمانیاں کرتے ہیں اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے۔
﴿ فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ ﴾ ’’تب ثابت ہو جاتی ہے ان پر بات‘‘ یعنی کلمۂ عذاب، جسے کوئی نہیں ٹال سکتا
﴿ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا ﴾ ’’پس اس بستی کو ہم ہلاک کر کے رکھ دیتے ہیں ۔‘‘
#
{17} وهؤلاء أمم كثيرةٌ أبادهم الله بالعذاب من بعد قوم نوح؛ كعاد وثمود وقوم لوط وغيرهم ممَّن عاقبهم الله لما كَثُر بغيُهم واشتدَّ كفرُهم؛ أنزل الله بهم عقابَه العظيم. {وكفى بربِّك بذُنوب عبادِهِ خبيراً بصيراً}: فلا يخافوا منه ظلماً، وأنه يعاقبهم على ما عملوه.
[17] نوحu کی قوم کے بعد بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا،
مثلاً:عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ۔ یہ وہ قومیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سزا دی کیونکہ جب ان کی بغاوت بہت زیادہ ہو گئی اور ان کا کفر بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا بڑا عذاب نازل کر دیا۔
﴿وَؔكَ٘فٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا ﴾ ’’اور کافی ہے آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے والا دیکھنے والا۔‘‘ پس بندوں کو اس کی طرف سے کسی ظلم کا خوف نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو صرف ان کے اپنے اعمال کی سزا دیتا ہے۔
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (19) كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (20) انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا (21)}.
جو چاہتا ہے جلدی والی
(دنیا) تو جلدی دے دیتے ہیں ہم اس کو، اس
(دنیا) میں جو ہم چاہتے ہیں ، جس کے لیے ہم چاہتے ہیں ، پھر ٹھہرا دیتے ہیں ہم اس کے لیے جہنم، وہ داخل ہوگا اس میں ملامت زدہ، دھتکارا ہوا
(18) اور جو کوئی چاہتا ہے آخرت اورکوشش کرتا ہے اس کے لیے، اس کے لائق کوشش، جبکہ وہ مومن بھی ہے، تو یہی لوگ ہیں کہ ہے کوشش ان کی قابل قدر
(19) ہر ایک کو، ہم نوازتے ہیں ، ان کو بھی اور ان کو بھی عطیے سے آپ کے رب کےاور نہیں ہے عطیہ آپ کے رب کا روکا ہوا
(کسی سے بھی) (20) دیکھیے! کس طرح فضیلت دی ہے ہم نے ان کے بعض کو اوپر بعض کے؟ اور البتہ آخرت تو بڑھ کر ہے درجوں میں اور بڑھ کر ہے باعتبار فضیلت کے
(21)
#
{18} يخبر تعالى أن {مَن كان يريدُ}: الدنيا {العاجلة} المنقضية الزائلة، فعمل لها وسعى، ونسي المبتدأ أو المنتهى: أنَّ الله يعجِّل له من حطامها ومتاعها ما يشاؤه ويريده، مما كَتَبَ الله له في اللوح المحفوظ، ولكنَّه متاعٌ غير نافع ولا دائم له، ثم يجعل له في الآخرة {جهنَّم يَصْلاها}؛ أي: يباشر عذابها، {مذموماً مدحوراً}؛ أي: في حالة الخِزْي والفضيحة والذمِّ من الله ومن خلقِهِ والبعد عن رحمةِ الله، فيجمعُ له بين العذاب والفضيحة.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے۔
﴿ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ ﴾ ’’جو شخص دنیا کا خواہش مند ہو۔‘‘ یعنی جو کوئی ختم اور زائل ہو جانے والی دنیا چاہتا ہے وہ اس کے لیے عمل اور کوشش کرتا ہے، اس کی ابتدا یا انتہا کو فراموش کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ جلدی سے دنیا کے وہ ٹکڑے اور اس کا مال و متاع اسے عطا کر دیتا ہے، جسے وہ چاہتا تھا اور اس کا ارادہ رکھتا تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ مگر یہ متاع دنیا فائدہ دینے والی ہے نہ ہمیشہ رہنے والی ہے، پھر آخرت میں اس کے لیے
﴿جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰ٘ىهَا ﴾ ’’جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوگا‘‘ یعنی اس کے عذاب میں ڈالا جائے گا۔
﴿ مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا﴾ ’’مذموم اور راندہ ہوکر۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی طرف سے مذمت، رسوائی اور فضیحت کی حالت میں ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہت دور ہو گا، اس کے لیے رسوائی اور عذاب کو جمع کر دیا جائے گا۔
#
{19} {ومن أراد الآخرةَ}: فرضِيَها وآثرها على الدُّنيا، {وسعى لها سَعْيَها}: الذي دعت إليه الكتب السماويَّة والآثار النبويَّة، فعمل بذلك على قدر إمكانه، {وهو مؤمنٌ}: بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر. {فأولئك كان سعيُهم مشكوراً}؛ أي: مقبولاً منمًّى مدَّخراً، لهم أجرهم وثوابهم عند ربهم.
[19] ﴿ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’جو آخرت چاہتا ہے‘‘ اس پر راضی ہے اور اسے دنیا کے مال و متاع پر ترجیح دیتا ہے
﴿ وَسَعٰى لَهَا سَعْیَهَا ﴾ ’’اور اس کے لیے اتنی کوشش کرتا ہے جتنی اسے لائق ہے۔‘‘ یعنی جس کی طرف تمام کتب سماوی اور آثار نبوت نے دعوت دی ہے اور امکان بھر اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔
﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ ’’اور وہ مومن بھی ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔
﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا﴾ ’’پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں نشوونما پا کر جمع ہوتی رہے گی۔ ان کا اجروثواب ان کے رب کے پاس ہو گا۔
#
{20} ومع هذا؛ فلا يفوتُهم نصيبُهم من الدُّنيا؛ فكلًّا يُمِدُّه الله منها؛ لأنَّه عطاؤه وإحسانه. {وما كان عطاءُ ربِّك محظوراً}؛ أي: ممنوعاً من أحدٍ، بل جميعُ الخلق راتِعون بفضلِهِ وإحسانِهِ.
[20] اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے حصے سے بھی محروم نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو سامان زیست عطا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کی عطا اور اس کا فضل و احسان ہے
﴿وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا ﴾ ’’اور تیرے رب کی عطا و بخشش رکی ہوئی نہیں۔‘‘ یعنی اللہ کی عطا کسی کے لیے ممنوع نہیں بلکہ تمام مخلوق اس کے فضل و کرم سے بہرہ ور ہو رہی ہے۔
#
{21} {انظرْ كيف فضَّلْنا بعضَهم على بعضٍ}: في الدُّنيا بسَعة الأرزاق وقلَّتها، واليُسْر والعُسْر، والعلم والجهل، والعقل والسَّفَه، وغير ذلك من الأمور التي فضَّل الله العباد بعضهم على بعض بها. {وللآخرةُ أكبرُ درجاتٍ وأكبرُ تفضيلاً}: فلا نسبة لنعيم الدُّنيا ولذَّاتها إلى الآخرة بوجه من الوجوه؛ فكم بين من هو في الغرف العاليات واللَّذَّات المتنوِّعات والسرور والخيرات والأفراح ممَّن هو يتقلَّب في الجحيم، ويعذَّب بالعذاب الأليم، وقد حلَّ عليه سَخَطُ الربِّ الرحيم، وكلٌّ من الدارين بين أهلها من التفاوت ما لا يمكنُ أحداً عدُّه.
[21] ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’دیکھو، کیسے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی‘‘ یعنی کیسے ہم نے ان کو دنیا میں رزق کی کشادگی اور کمی، آسانی اور تنگی، علم اور جہالت، عقل اور سفاہت وغیرہ امور میں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔
﴿ وَلَلْاٰخِرَةُ اَ كْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَ كْبَرُ تَفْضِیْلًا﴾ ’’اور آخرت کے گھر میں تو اور بڑے درجے ہیں اور بڑی فضیلت‘‘ دنیا کی لذتوں اور نعمتوں کو آخرت سے کسی لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔ کتنے ہی لوگ بلند و بالا محلوں ، مختلف انواع کی لذتوں ، فرحتوں ، خوبصورت چیزوں سے حظ اٹھاتے ہوں گے اور دوسری طرف وہ لوگ ہوں گے جن کو جہنم میں جھونک دیا گیا ہوگا، وہاں وہ دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے اور رب رحیم کی سخت ناراضی ان پر نازل ہوگی اور دنیا و آخرت کے لوگوں میں اس قدر تفاوت ہے کہ کسی کے لیے اس کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔
{لَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولًا (22)}.
نہ ٹھہرائیں آپ ساتھ اللہ کے معبود دوسرا، پھربیٹھ رہیں گے آپ ملامت زدہ، بے یارومددگار
(22)
#
{22} أي: لا تعتقدْ أنَّ أحداً من المخلوقين يستحقُّ شيئاً من العبادة، ولا تشركْ بالله أحداً منهم؛ فإنَّ ذلك داع للذمِّ والخذلان؛ فالله وملائكته ورسله قد نَهَوْا عن الشرك، وذمُّوا من عمله أشدَّ الذمِّ، ورتَّبوا عليه من الأسماء المذمومة والأوصاف المقبوحة ما كان به متعاطيه أشنعَ الخلق وصفاً وأقبحهم نعتاً، وله من الخِذْلان في أمر دينه ودنياه بحسب ما تركه من التعلُّق بربِّه؛ فمن تعلَّق بغيره؛ فهو مخذولٌ قد وُكِلَ إلى مَن تعلَّق به، ولا أحد من الخلق ينفع أحداً إلا بإذن الله؛ وكما أنَّ مَن جعل مع الله إلهاً آخر له الذمُّ والخذلان؛ فمن وحَّده وأخلص دينه لله، وتعلَّق به دون غيره؛ فإنَّه محمودٌ مُعانٌ في جميع أحواله.
[22] یعنی یہ اعتقاد نہ رکھ کہ مخلوق میں سے کوئی ہستی کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا کیونکہ شرک مذمت اور خذلان کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں نے شرک سے روکا ہے اور مشرک کی سخت مذمت کی ہے اور اسے اس شرک کی بنا پر انتہائی مذموم ناموں سے موسوم اور قبیح اوصاف سے موصوف کیا ہے۔ جو اس شرک کا مرتکب ہے، وہ بدترین اوصاف اور قبیح ترین صفات سے متصف ہے۔ وہ جتنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو ترک کرتا ہے، اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کے دینی اور دنیاوی معاملات میں اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ پس جو کوئی اس کے سوا کسی اور سے تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور اس کو اسی کے سپرد کر دیتا ہے جس کے ساتھ وہ تعلق جوڑتا ہے اور مخلوق میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو معبود بنا لیتا ہے وہ مذمت و خذلان کا مستحق ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو ایک گردانتا ہے، اس کے لیے اپنے دین کو خالص کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑتا ہے وہ قابل ستائش ہے اور اس کے تمام احوال میں اس کی دست گیری کی جاتی ہے۔
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24)}.
اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے یہ کہ نہ عبادت کرو تم مگر اسی کی اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اگر پہنچے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان دونوں میں سے یا
(وہ) دونوں ہی تو نہ کہہ تو ان سے’’اف‘‘بھی اور نہ جھڑک تو انھیں اور کہہ تو ان دونوں کے لیے بات نرم لہجے میں
(23) اور جھکائے رکھ تو ان دونوں کے لیے بازو عاجزی کا، نیاز مندی سےاور کہہ، اے رب! رحم فرما ان دونوں پر جیسا کہ پرورش کی انھوں نے میری بچپن میں
(24)
#
{23} لما نهى تعالى عن الشرك به؛ أمر بالتوحيد، فقال: {وقضى ربُّك}: قضاء دينيًّا، وأمر أمراً شرعيًّا {أن لا تعبُدوا}: أحداً من أهل الأرض والسماوات الأحياء والأموات، {إلاَّ إيَّاه}: لأنَّه الواحد الأحد، الفرد الصمد، الذي له كلُّ صفة كمال، وله من تلك الصفة أعظمها، على وجهٍ لا يشبهه أحدٌ من خلقه، وهو المنعِمُ بالنعم الظاهرة والباطنة، الدافع لجميع النِّقم، الخالق، الرازق، المدبِّر لجميع الأمور؛ فهو المتفرِّد بذلك كلِّه، وغيره ليس له من ذلك شيء. ثم ذكر بعد حقِّه القيام بحقِّ الوالدين، فقال: {وبالوالدين إحساناً}؛ أي: أحسنوا إليهما بجميع وجوه الإحسان القوليِّ والفعليِّ؛ لأنهما سببُ وجود العبد، ولهما من المحبَّة للولد والإحسان إليه، والقرب ما يقتضي تأكُّد الحقِّ ووجوب البرِّ. {إمَّا يَبْلُغَنَّ عندَكَ الكِبَرَ أحدُهما أو كلاهما}؛ أي: إذا وصلا إلى هذا السنِّ الذي تضعُفُ فيه قواهما ويحتاجان من اللُّطف والإحسان ما هو معروفٌ، {فلا تَقُلْ لهما أفٍّ}: وهذا أدنى مراتب الأذى، نبَّه به على ما سواه، والمعنى: لا تؤذِهِما أدنى أذيَّة، {ولا تَنْهَرْهُما}؛ أي: تزجُرهما وتتكلَّم لهما كلاماً خشناً. {وقلْ لهما قولاً كريماً}: بلفظٍ يحبَّانه، وتأدَّب وتلطَّف بكلام ليِّن حسن يلذُّ على قلوبهما، وتطمئنُّ به نفوسهما، وذلك يختلفُ باختلاف الأحوال والعوائد والأزمان.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک سے منع کرنے کے بعد توحید کا حکم دیا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقَ٘ضٰى رَبُّكَ﴾ ’’آپ کے رب نے
(دینی) فیصلہ کر دیا‘‘ اور شرعی حکم دے دیا ہے
﴿ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا ﴾ ’’کہ تم عبادت نہ کرو۔‘‘ یعنی زمین اور آسمان کے رہنے والوں ، زندوں یا مردوں میں سے کسی کی عبادت نہ کرو۔
﴿ اِلَّاۤ اِیَّاهُ ﴾ ’’مگر صرف اس کی‘‘ کیونکہ وہ واحد اور یکتا، فرد اور بے نیاز ہے۔ جو ہر صفت کمال کا مالک ہے۔ اس کی ہر صفت کامل ترین ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی اس کی کسی صفت میں کسی بھی پہلو سے مشابہت نہیں کر سکتی وہ منعم ہے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے وہی نوازتا ہے وہی تمام تکالیف کو دور کرتا ہے، وہ خالق،
رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ ان تمام اوصاف میں منفرد اور یکتا ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی ان اوصاف میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے حقوق کو قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ یعنی قول و فعل، ہر لحاظ سے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ والدین ہی بندے کے وجود میں آنے کا سبب ہیں ، وہ اولاد کے لیے محبت رکھتے ہیں ، اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اولاد کو قریب رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو جو کہ حق کی تاکید اور ان کے ساتھ بھلائی کے وجوب کا تقاضا ہے۔
﴿ اِمَّا یَبْلُ٘غَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰ٘هُمَا ﴾ ’’اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو، ان میں سے ایک یا دونوں ‘‘ یعنی جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں جس میں ان کے قوی کمزور پڑ جاتے ہیں اور وہ نرمی اور حسن سلوک کے محتاج ہوتے ہیں جو معروف ہے۔
﴿ فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ ﴾ ’’تو تو ان کو ہوں بھی نہ کہہ‘‘ یہ اذیت کا ادنی مرتبہ ہے اس کے ذریعے سے اذیت کی دیگر انواع پر تنبیہ کی ہے۔ معنیٰ یہ ہے کہ ان کو ادنیٰ اذیت بھی نہ پہنچاؤ۔
﴿ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا ﴾ ’’اور نہ ان کو جھڑکو‘‘ اور نہ ان سے سخت کلامی کرو۔
﴿ وَقُ٘لْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا﴾ ’’اور کہہ ان سے بات ادب کی‘‘ ان کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرو جن کو وہ پسند کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ نہایت ادب اور مہربانی سے پیش آؤ۔ انتہائی نرمی اور اچھے پیرائے میں بات کرو جس سے ان کے دل لذت محسوس کریں اور ان کو اطمینان حاصل ہو۔ یہ حسن سلوک احوال و عادات اور زمانے کے اختلاف کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔
#
{24} {واخفضْ لهما جناحَ الذُّلِّ من الرحمةِ}؛ أي: تواضع لهما ذُلًّا لهما ورحمةً واحتساباً للأجر، لا لأجل الخوف منهما أو الرجاء لما لهما ونحو ذلك من المقاصد التي لا يؤجَر عليها العبد. {وقل ربِّ ارحَمْهما}؛ أي: ادعُ لهما بالرحمة أحياءً وأمواتاً؛ جزاءً على تربيتهما إيَّاك صغيراً. وفُهِمَ من هذا أنَّه كلَّما ازدادت التربيةُ؛ ازداد الحقُّ. وكذلك من تولَّى تربية الإنسان في دينِهِ ودُنياه تربيةً صالحةً غير الأبوين؛ فإنَّ له على مَن ربَّاه حقَّ التربية.
[24] ﴿ وَاخْ٘فِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ﴾ ’’اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کے، نیاز مندی سے‘‘ یعنی ان کے سامنے تواضع، انکساری اور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے جھک کر رہو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید پر ہو نہ کہ ان سے ڈر کی بنا پر یا ان کے مال وغیرہ کے لالچ کی وجہ سے یا اس قسم کے دیگر مقاصد کی بنا پر جن پر بندے کو اجر نہیں ملتا۔
﴿ وَقُ٘لْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا ﴾ ’’اور کہہ، اے رب ان پر رحم فرما‘‘ یعنی ان کی زندگی میں اور ان کے وفات پا جانے کے بعد ان کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ انھوں نے بچپن میں تمھاری جو تربیت کی ہے یہ اس کا بدلہ ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تربیت جتنی زیادہ ہو گی والدین کا حق بھی اتنا ہی زیادہ ہو جائے گا۔ اسی طرح والدین کے سوا کوئی شخص دینی اور دنیاوی امور میں کسی کی نیک تربیت کرتا ہے تو تربیت کرنے والے شخص کا اس شخص پر حق ہے جس کی اس نے تربیت کی ہے۔
{رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (25)}
تمھارا رب خوب جانتا ہے اسے جو تمھارے دلوں میں ہے، اگر ہو گے تم صالح تو بلاشبہ وہ ہے
(اپنی طرف) رجوع کرنے والوں کے لیے بہت بخشنے والا
(25)
#
{25} أي: ربُّكم تعالى مطَّلع على ما أكنَّته سرائركم من خير وشرٍّ، وهو لا ينظر إلى أعمالكم وأبدانكم، وإنما ينظر إلى قلوبكم وما فيها من الخير والشر. {إن تكونوا صالحين}: بأن تكون إرادتُكم ومقاصدكم دائرةً على مرضاة الله، ورغبتكم فيما يقربكم إليه، وليس في قلوبكم إرادات مستقرة لغير الله. {فإنَّه كان للأوَّابين}؛ أي: الرجَّاعين إليه في جميع الأوقات؛ {غفوراً}: فمن اطَّلع الله على قلبه، وعلم أنه ليس فيه إلاَّ الإنابة إليه ومحبَّته ومحبَّة ما يقرِّب إليه؛ فإنَّه وإن جرى منه في بعض الأوقات ما هو مقتضى الطبائع البشريَّة؛ فإنَّ الله يعفو عنه، ويغفر له الأمور العارضة غير المستقرَّة.
[25] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے اچھے اور برے چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتا ہے۔ وہ تمھارے اعمال اور ابدان کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور ان کے اندر چھپے ہوئے خیر و شر پر نظر رکھتا ہے۔
﴿اِنْ تَكُوْنُوْا صٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اگر تم نیک ہو گے‘‘ یعنی اگر تمھارے ارادے اور مقاصد اللہ تعالیٰ کی رضا کے دائرے میں اور تمھاری رغبت صرف انھی امور پر مرتکز رہے جو اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور تمھارے دلوں میں غیراللہ کے ارادے براجمان نہ ہوں ۔
﴿فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ۠ ﴾ ’’تو وہ رجوع کرنے والوں کو۔‘‘ یعنی وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لیے
﴿ غَفُوْرًؔا﴾ ’’بخشنے والا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ جس کے دل میں جھانکتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس دل میں ، اللہ تعالیٰ کی طرف انابت، اس کی محبت اور ان امور کی محبت جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہیں، کے سوا کچھ بھی نہیں ، تب اگر اس بندے سے طبائع بشری کے تقاضے کے مطابق کوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان عارضی گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو مستقل طور پر جڑ نہیں پکڑتے۔
{وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27) وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا (28) وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (29) إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (30)}.
اور دے تو قرابت دار کو اس کا حق اورمسکین اور مسافر کو بھی اور نہ فضول خرچی کر فضول خرچی کرنا
(26)یقینا فضول خرچی کرنے والے ہیں بھائی شیطانوں کےاور ہے شیطان اپنے رب کا نہایت ناشکرا
(27) اور اگر اعراض کرے تو ان سے، انتظار میں رحمت کے اپنے رب کی کہ امید رکھتا ہے تو اس کی، تو کہہ تو واسطے ان کے بات آسان نرم
(28)اور نہ کر تو اپنا ہاتھ بندھا ہوا گردن کے ساتھ اور نہ کھول دے اسے بالکل کھول دینا، کہ بیٹھ رہے تو ملامت کیا ہوا، تھکا ماندہ
(29) بے شک آپ کا رب ہی فراخ کرتا ہے رزق جس کے لیے وہ چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے، بلاشبہ وہ ہے اپنے بندوں کی خوب خبر رکھنے والا،
(ان کو) دیکھنے والا
(30)
#
{26 ـ 27} يقول تعالى: {وآت ذا القُربى حقَّه}: من البرِّ والإكرام الواجب والمسنون، وذلك الحقُّ يتفاوت بتفاوت الأحوال والأقارب والحاجة وعدمها والأزمنة، {والمسكينَ}: آته حقَّه من الزَّكاة ومن غيرها؛ لتزول مسكنتُه، {وابنَ السبيل}: وهو الغريب المنقطع به عن بلده، فيُعْطى الجميع من المال، على وجهٍ لا يضرُّ المعطي، ولا يكون زائداً على المقدار اللائق؛ فإنَّ ذلك تبذيرٌ، قد نهى الله عنه وأخبر: إنَّ المبذِّرين {إخوانُ الشياطين}: لأنَّ الشيطان لا يدعو إلاَّ إلى كلِّ خَصلة ذميمةٍ، فيدعو الإنسان إلى البخل والإمساك؛ فإذا عصاه؛ دعاه إلى الإسراف والتبذير، والله تعالى إنَّما يأمُرُ بأعدل الأمور وأقسطِها، ويمدحُ عليه؛ كما في قوله عن عباد الرحمن الأبرار: {والذين إذا أنفقوا لم يُسْرِفوا ولم يَقْتُروا وكان بين ذلك قَواماً}.
[27,26] ﴿ وَاٰتِ ذَا الْ٘قُ٘رْبٰى حَقَّهٗ﴾ ’’اور دے رشتے دار کو اس کا حق‘‘ یعنی رشتہ دار کو واجب و مسنون حسن سلوک اور اکرام و تکریم میں سے اس کا حق ادا کرو اور یہ حق احوال، زمان و مکان، ضرورت اور عدم ضرورت اور اقارب میں تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتا ہے۔
﴿ وَالْمِسْكِیْنَ ﴾ ’’اور مسکین کو‘‘ یعنی زکٰوۃ وغیرہ میں سے مسکین کو اس کا حق ادا کرو تاکہ اس کی مسکینی دور ہو جائے۔
﴿ وَابْنَ السَّبِیْلِ ﴾ ’’اور مسافر کو‘‘ اس سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے جو اپنے شہر سے دور پھنس کر رہ گیا ہو۔
﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا﴾ ’’اور بے جا مت اڑا‘‘ پس مال اس طریقے سے عطا کیا جائے کہ عطا کرنے والے کو نقصان پہنچے نہ اس مقدار سے زائد ہو جو دی جانی چاہیے ورنہ یہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آئے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور بتلایا ہے کہ
﴿ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ۠ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰؔطِیْنِ﴾ ’’بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ‘‘ کیونکہ شیطان ہمیشہ ہر قسم کی مذموم خصلت ہی کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ انسان کو بخل اور مال روک رکھنے کی طرف دعوت دیتا ہے اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو وہ اسے اسراف اور تبذیر کی راہ پر لے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ معتدل اور مبنی برعدل رویے کا حکم دیتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَكَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾ (الفرقان : 25؍67) ’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔‘‘
#
{29} وقال هنا: {ولا تجعل يَدَكَ مغلولةً إلى عنقك}: كناية عن شدة الإمساك والبخل، {ولا تَبْسُطْها كلَّ البسط}: فتنفق فيما لا ينبغي أو زيادة على ما ينبغي، {فتقعدَ}: إن فعلت ذلك {مَلوماً}؛ أي: تُلام على ما فعلتَ، {مَحْسوراً}؛ أي: حاسر اليد فارغها؛ فلا بقي ما في يدك من المال، ولا خَلَفَه مدحٌ وثناءٌ.
[29] اور یہاں فرمایا:
﴿ وَلَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ ﴾ ’’اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ‘‘ یہ بخل اور خرچ نہ کرنے کے لیے کنایہ ہے۔
﴿ وَلَا تَبْسُطْهَا كُ٘لَّ الْبَسْطِ ﴾ ’’اور نہ کھول اسے بالکل کھول دینا‘‘ ایسا نہ ہو کہ تم ان معاملات میں خرچ کرنے لگو جہاں خرچ کرنا مناسب نہیں یا جتنا خرچ کرنا ہو اس سے زیادہ خرچ کرنے لگو۔
﴿ فَتَقْعُدَ ﴾ ’’پس تو بیٹھ رہے گا‘‘ اگر تو نے یہ کام کیا
﴿ مَلُوْمًا﴾ ’’الزام کھایا ہوا‘‘ یعنی اپنے كيے پر ملامت زدہ ہو کر
﴿مَّحْسُوْرًؔا ﴾ ’’ہارا ہوا‘‘ یعنی تم خالی ہاتھ ہوکر رہ جاؤ گے، تمھارے ہاتھ میں مال باقی بچے گا نہ اس کے پیچھے مدح و ثنا…
#
{28} وهذا الأمر بإيتاء ذي القربى مع القدرة والغنى، فأمَّا مع العُدْم أو تعسُّر النفقة الحاضرة؛ فأمر تعالى أن يُردُّوا ردًّا جميلاً، فقال: {وإمَّا تعرضَنَّ عنهم ابتغاءَ رحمةٍ من ربِّك ترجوها}؛ أي: تعرض عن إعطائِهِم إلى وقت آخر ترجو فيه من الله تيسير الأمر. {فقُلْ لهم قولاً ميسوراً}؛ أي: لطيفاً برفقٍ ووعد بالجميل عند سُنوح الفرصة واعتذارٍ بعدم الإمكان في الوقت الحاضر؛ لينقلبوا عنك مطمئنَّة خواطرهم؛ كما قال تعالى: {قولٌ معروفٌ ومغفرةٌ خيرٌ من صدقةٍ يَتْبَعُها أذى}: وهذا أيضاً من لطف الله تعالى بالعباد، أمرهم بانتظار الرحمة والرزق منه؛ لأنَّ انتظار ذلك عبادة، وكذلك وعدُهم بالصدقة والمعروف عند التيسُّر عبادةٌ حاضرةٌ؛ لأنَّ الهمَّ بفعل الحسنة حسنةٌ، ولهذا ينبغي للإنسان أن يفعل ما يَقْدِرُ عليه من الخير، وينوي فعل ما لم يقدِرْ عليه لِيُثاب على ذلك، ولعلَّ الله ييسِّر له بسبب رجائه.
[28] اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کا یہ حکم صرف قدرت اور غنا کی صورت میں ہے۔ رہی تنگدستی اور اخراجات میں عدم گنجائش تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کو نہایت اچھے طریقے سے جواب دیا جائے،
پس فرمایا: ﴿ وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا ﴾ ’’اگر تو اعراض کرے ان سے اپنے رب کی مہربانی کے انتظار میں جس کی تجھ کو امید ہے‘‘ یعنی اگر تم ان کو عطا نہیں کرتے اور تم اس کو کسی ایسے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہو جب اللہ تمھیں خوشحالی عطا کرے۔
﴿ فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًؔا ﴾ ’’تو کہہ ان کو نرم بات‘‘ یعنی ان سے نرم لہجے میں بات کرو اور اچھا وعدہ کہ جب بھی گنجائش ہوئی تو ان کو عطا کیا جائے گا اور اس وقت عطا کرنا ممکن نہ ہونے پر ان سے معذرت کرے تاکہ جب وہ تمھارے پاس سے واپس جائیں تو ان کے دل مطمئن ہوں ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى ﴾ (البقرۃ:2؍263) ’’صدقہ دینے کے بعد ایذا پہنچانے سے تو یہ بہتر ہے کہ نرم بات کہہ دی جائے اور کسی ناگوار بات پر چشم پوشی کی جائے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو رحمت اور رزق کا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ انتظار عبادت ہے۔ اسی طرح ضرورت مندوں کے ساتھ گنجائش اور فراخدستی کے وقت عطا کرنے کا وعدہ کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ نیک کام کا ارادہ بھی نیکی ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ مقدور بھر نیکی کرتا رہے اور جس نیک کام پر اسے قدرت نہیں اسے کرنے کی نیت رکھے تاکہ اسے ثواب ملتا رہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کی امید کے سبب سے اس کے لیے آسانی پیدا کر دے۔
#
{30} ثم أخبر تعالى: أنَّ اللهَ {يبسُطُ الرزق لمن يشاء}: من عباده ويقدِرُه ويضيِّقه على من يشاء حكمةً منه. {إنَّه كان بعبادِهِ خبيراً بصيراً}: فيَجْزيهم على ما يعلمُهُ صالحاً لهم، ويدبِّرهم بلطفه وكرمه.
[30] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے‘‘
﴿ وَیَقْدِرُؔ﴾ اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔
﴿ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا﴾ ’’وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ پس جو اس کے علم کے مطابق ان کے لیے درست ہے، اس پر انھیں جزا دے گا اور اپنے لطف و کرم سے ان کی تدبیر کرے گا۔
{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (31)}.
اور مت قتل کرو تم اپنی اولاد کو ڈرتے ہوئے مفلسی سے، ہم ہی رزق دیتے ہیں انھیں اور تمھیں بھی، بلاشبہ ان کو قتل کرنا ہے گناہ بہت بڑا
(31)
#
{31} وهذا من رحمته بعباده؛ حيث كان أرحم بهم من والديهم، فنهى الوالدين أن يقتُلوا أولادهم خوفاً من الفقر والإملاق، وتكفَّل برزق الجميع، وأخبر أنَّ: {قَتْلَهم كان خِطْئاً كبيراً}؛ أي: من أعظم كبائر الذنوب؛ لزوال الرحمة من القلب، والعقوق العظيم، والتجرِّي على قتل الأطفال الذين لم يجرِ منهم ذنبٌ ولا معصيةٌ.
[31] یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بے پایاں رحمت ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ان کے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھوک اور فقر کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا اور سب کی کفالت کا ذمہ لیا ہے اور آگاہ فرمایا ہے کہ اولاد کو قتل کرنا، بہت بڑی خطا اور کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اور اس کا سبب دل کا شفقت سے خالی ہونا اور بچوں کے قتل کی جسارت ہے جن سے کوئی گناہ اور معصیت سرزد نہیں ہوئی۔
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (32)}.
اور مت قریب جاؤ تم زنا کے، یقینا وہ ہے بے حیائی اور برا راستہ
(32)
#
{32} والنهي عن قربانه أبلغ من النهي عن مجرَّد فعله؛ لأنَّ ذلك يشمل النهي عن جميع مقدّماته ودواعيه؛ فإنَّ من حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه، خصوصاً هذا الأمر الذي في كثير من النفوس أقوى داع إليه، ووصف الله الزِّنا وقبْحه بأنه {كان فاحشةً}؛ أي: إثماً يُستفحش في الشرع والعقل والفِطَر؛ لتضمُّنه التجرِّي على الحرمة في حقِّ الله وحقِّ المرأة وحقِّ أهلها أو زوجها وإفساد الفراش واختلاط الأنساب وغير ذلك من المفاسد. وقوله: {وساء سبيلاً}؛ أي: بئس السبيل سبيلُ من تجرَّأ على هذا الذنب العظيم.
[32] زنا کے قریب جانے کی ممانعت، زنا کے مجرد فعل کی ممانعت سے زیادہ بلیغ ہے، اس لیے زنا کے قریب جانے کی ممانعت،
زنا کے تمام مقدمات اور اس کے اسباب کو شامل ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے آس پاس پھرتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ چراگاہ میں جا داخل ہو۔ خاص طور پر جبکہ بات یہ ہے کہ اکثر نفوس کے اندر زنا کا قوی ترین داعیہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے زنا کی برائیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿كَانَ فَاحِشَةً﴾ ’’وہ بے حیائی‘‘ یعنی زنا عقل، شریعت اور فطرت انسانی کے نزدیک بہت بڑی برائی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ، عورت، اس کے گھر والوں اور اس کے شوہر کے حق میں ہتک حرمت، شوہر کے بستر کو خراب کرنے اور انساب وغیرہ کے اختلاط اور دیگر مفاسد کو متضمن ہے۔
﴿ وَسَآءَ سَبِیْلًا ﴾ ’’اور بری راہ ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اس گناہ عظیم کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے اس کا یہ راستہ بہت ہی برا راستہ ہے۔
{وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا (33)}.
اور مت قتل کرو تم اس جان کو وہ جسے حرام کیا ہے اللہ نے مگر ساتھ حق کے اور جو کوئی قتل کیا جائے مظلوم تو تحقیق کر دیا ہے ہم نے اس کے وارث کے لیے غلبہ، پس نہ زیادتی کرے وہ قتل میں ، بے شک وہ
(وارث) ہے مدد دیا ہوا
(33)
#
{33} وهذا شاملٌ لكلِّ نفس حرَّم الله قتلَها من صغير وكبير وذكر وأنثى وحرٍّ وعبد ومسلم وكافرٍ له عهد، {إلاَّ بالحق}: كالنفس بالنفس، والزاني المحصن، والتارك لدينه المفارق للجماعة، والباغي في حال بغيه إذا لم يندفع إلاَّ بالقتل. {ومَن قُتِلَ مظلوماً}؛ أي: بغير حقٍّ، {فقد جَعَلْنا لوليِّه}: وهو أقرب عَصَباته وورثتِهِ إليه {سلطاناً}؛ أي: حجة ظاهرة على القصاص من القاتل، وجعلنا له أيضاً تسلُّطاً قدريًّا على ذلك، وذلك حين تجتمع الشروط الموجبة للقصاص؛ كالعمد العدوان والمكافأة. {فلا يسرفْ}: الولي {في القتل إنَّه كان منصوراً}: والإسراف مجاوزةُ الحدِّ: إما أن يمثِّل بالقاتل، أو يقتُله بغير ما قَتَلَ به، أو يَقْتُلَ غير القاتل. وفي هذه الآية دليلٌ إلى أنَّ الحقَّ في القتل للوليِّ؛ فلا يُقْتَص إلاَّ بإذنه، وإن عفا؛ سقط القصاص، وأنَّ وليَّ المقتول يُعينه الله على القاتل ومن أعانه، حتى يتمكَّن من قتله.
[33] اس آیت کریمہ کا حکم ہر اس جان کو شامل ہے جس کے قتل کو
﴿ حَرَّمَ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے‘‘ وہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام اور مسلم ہو یا کافر معاہد
﴿ اِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ’’سوائے اس
(قتل) کے جو برحق ہو‘‘مثلاً: مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو قتل کرنا، مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والے مرتد کو قتل کرنا اور باغی کو بغاوت کی حالت میں قتل کرنا جبکہ اس کو قتل كيے بغیر بغاوت پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو۔
﴿وَمَنْ قُ٘تِلَ مَظْلُوْمًا ﴾ ’’اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے۔‘‘ یعنی جسے ناحق قتل کیا گیا ہو
﴿ فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ ﴾ ’’تو کی ہم نے اس کے ولی کے لیے‘‘ یہاں ’’ولی‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مقتول کے ورثاء اور عصبہ میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب ہو۔
﴿ سُلْطٰنًا ﴾ ’’دلیل‘‘ یعنی ہم نے مقتول کے ولی کے لیے قاتل سے قصاص لینے کی ظاہری دلیل فراہم کر دی، نیز اسے قدری طور پر بھی قاتل پر اختیار عطا کر دیا ہے مگر یہ اس وقت ہے جب قصاص کی موجب تمام شرائط یکجا ہوں ،
مثلاً:ارادہ اور تعدی کے ساتھ قتل کرنا اور مقتول اور قاتل میں برابری وغیرہ۔
﴿ فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ﴾ ’’پس وہ قتل
(کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے۔‘‘ یعنی ولی قاتل کے قتل میں اسراف سے کام نہ لے۔ یہاں ’’اسراف‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مقتول کا ولی قاتل کو قتل کرنے میں حد سے تجاوز کرے۔
(اس اسراف کی تین صورتیں ہیں ۔)
(۱) ولی قاتل کا مثلہ کرے۔
(یعنی اسے ایذا دے دے کر مارے، ناک کاٹے، کان کاٹے، وغیرہ وغیرہ۔)
(۲) ولی قاتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے سے قتل کرے جس کے ذریعے سے مقتول کو قتل نہ کیا گیا ہو۔
(۳) قاتل کو چھوڑ کر کسی اور کو قتل کر دیا جائے۔
اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صرف ولی کو قصاص لینے کا حق ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر قصاص نہیں لیا جا سکتا۔ اگر ولی قاتل کو معاف کر دے تو قصاص ساقط ہو جاتا ہے، نیز اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قاتل اور اس کے مددگاروں کے مقابلے میں مقتول کے ولی کی مدد کرتا ہے۔
{وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34)}.
اور مت قریب جاؤ تم مال یتیم کے مگر ساتھ اس طریقے کے کہ وہ بہت ہی اچھا ہو، یہاں تک کہ پہنچ جائے یتیم اپنی جوانی کواور پورا کرو تم عہد کو، بلاشبہ عہد، ہوگی باز پرس
(اس کی بابت) (34)
#
{34} وهذا من لطفه ورحمته باليتيم الذي فَقَدَ والده وهو صغيرٌ غير عارف بمصلحة نفسه ولا قائمٌ بها أنْ أمر أولياءه بحفظه وحفظ ماله وإصلاحه وأنْ لا يَقْرَبوهُ {إلاَّ بالتي هي أحسنُ}: من التِّجارة فيه وعدم تعريضه للأخطار والحرص على تنميته، وذلك ممتدٌّ إلى أن يبلغَ اليتيمُ {أشدَّه}؛ أي: بلوغه وعقله ورشده؛ فإذا بَلَغَ أشدَّه؛ زالت عنه الولايةُ، وصار وليَّ نفسه، ودفع إليه ماله؛ كما قال تعالى: {فإنْ آنَسْتُم منهم رُشْداً فادْفَعوا إليهم أموالَهم}، {وأوفوا بالعهدِ}: الذي عاهدتم الله عليه، والذي عاهدتم الخلق عليه. {إنَّ العهد كان مَسْؤولاً}؛ أي: مسؤولين عن الوفاء به وعدمه؛ فإن وفيتم؛ فلكم الثواب الجزيل، وإن لم تفعلوا ؛ فعليكم الإثم العظيم.
[34] یہ اللہ تعالیٰ کا اس یتیم پر اپنی رحمت اور لطف وکرم کا اظہار ہے۔ جس کا باپ اس کی چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے اور وہ ابھی اپنے مفادات کی معرفت رکھتا ہو نہ ان کا انتظام کر سکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے سر پرستوں کو حکم دیا ہے کہ وہ یتیم اور اس کے مال کی حفاظت کریں اور اس کے مال کی اصلاح کریں اور یہ کہ اس کے قریب بھی نہ جائیں
﴿ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ ’’مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو‘‘ یعنی تم اس کے مال کو تجارت میں لگاؤ، اس کو اتلاف کے خطرے میں نہ ڈالو اور اس میں اضافے اور نشوونما کی خواہش رکھو اور یہ صورت حال اس وقت تک رہے یہاں تک کہ
﴿ یَبْلُ٘غَ اَشُدَّهٗ﴾ ’’وہ
(یتیم) جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘ یعنی بلوغت اور عقل و رشد کی عمر کو پہنچ جائے۔ پس جب وہ بالغ و عاقل ہو جائے تو اس سے سرپرستی زائل ہو جائے گی اور وہ اپنے معاملات کا خود سرپرست بن جائے گا اور اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے گا،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّؔنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ ﴾ (النساء : 4؍6) ’’پس اگر تم ان میں عقل کی پختگی پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔‘‘
﴿ وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ﴾ ’’اور عہد کو پورا کرو‘‘ جو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھا ہے، نیز اس عہد کو پورا کرو جو تم نے مخلوق کے ساتھ کیا ہے۔
﴿ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا﴾ ’’عہد کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘ یعنی ایفائے عہد کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا اگر تم نے عہد پورا کیا تو تمھارے لیے بہت بڑا ثواب ہے اور اگر تم نے عہد کو پورا نہ کیا تو تم پر بہت بڑا گناہ ہے۔
{وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (35)}.
اور پورا کرو تم ماپ کو جب ماپو تم اورتولو تم ساتھ ترازو سیدھی کے، یہ بہت ہی بہتر ہے اور بہت اچھا ہے با عتبار انجام کے
(35)
#
{35} وهذا أمرٌ بالعدل وإيفاء المكاييل والموازين بالقسط من غير بخسٍ ولا نقص. ويؤخذ من عموم المعنى، النهي عن كلِّ غشٍّ في ثمنٍ أو مثمَّنٍ أو معقودٍ عليه، والأمر بالنُّصح والصدق في المعاملة. {ذلك خيرٌ}: من عدمه، {وأحسنُ تأويلاً}؛ أي: أحسن عاقبة، به يسلم العبد من التَّبِعات، وبه تنزل البركة.
[35] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عدل اور ناپ تول کو بغیر کسی کمی کے انصاف کے ساتھ پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آیت کے عمومی معنی سے دھوکہ دہی، اندازے سے قیمت لگانے، کسی چیز کی قیمت طے ہونے کے بعد کسی دوسرے شخص کی طرف سے قیمت لگانے کی ممانعت اور معاملات میں خیرخواہی اور صداقت مستنبط ہوتی ہے۔
﴿ذٰلِكَ خَیْرٌ ﴾ ’’یہ بہتر ہے‘‘ اس کے نہ ہونے سے
﴿ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ ’’اور اس کا انجام اچھا ہے‘‘ یعنی یہ عدل انجام کے اعتبار سے بہتر ہے، بندہ تاوان اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے اور عدل و انصاف اور ناپ تول پورا کرنے سے برکت نازل ہوتی ہے۔
{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (36)}.
اور نہ پیچھا کریں آپ اس چیز کا کہ نہیں ہے آپ کو اس چیز کا کوئی علم، بلاشبہ کان اور آنکھ اور دل، ہر ایک
(کی بابت) ان میں سے، ہو گی اس سے باز پرس
(36)
#
{36} أي: ولا تتَّبع ما ليس لك به علم، بل تثبَّت في كلِّ ما تقوله وتفعله؛ فلا تظنَّ ذلك يذهب لا لك ولا عليك. {إنَّ السمع والبصر والفؤاد كلُّ أولئك كان عنه مسؤولاً}: فحقيق بالعبد الذي يعرف أنه مسؤول عما قاله وفعله وعما استعمل به جوارحه التي خلقها الله لعبادته أن يُعِدَّ للسؤال جواباً، وذلك لا يكون إلاَّ باستعمالها بعبوديَّة الله، وإخلاص الدِّين له، وكفِّها عما يكرهه الله تعالى.
[36] یعنی اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہیں بلکہ تم جو کچھ کہتے یا کرتے ہو، اس کے بارے میں پوری تحقیق کر لیا کرو اور یہ خیال نہ کرو کہ تمھارا قول و فعل یوں ہی ختم ہو جائے گا، تمھیں اس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا۔
﴿اِنَّ السَّمْعَ وَالْ٘بَصَرَ وَالْفُؤَادَؔ كُ٘لُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا﴾ ’’بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہوگی‘‘ پس جو بندہ یہ جانتا ہے کہ اس سے اس کے قول و فعل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس بارے میں اسے جواب دہی کرنی ہو گی کہ اس نے اپنے ان اعضاء کو کہاں کہاں استعمال کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے… اس پر لازم ہے کہ وہ اس سوال کا جواب تیار کر لے۔ ان امور کا جواب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس نے ان اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں استعمال نہ کیا ہو، دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص نہ کیا ہو اور ان باتوں سے باز نہ رہا ہو جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔
{وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (37) كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا (38) ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا (39)}.
اور مت چل تو زمین میں اتراتے ہوئے، بلاشبہ تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہر گز نہیں پہنچ سکے گا تو پہاڑوں کو لمبائی میں
(37) تمام یہ
(مذکورہ کام) ہے برائی ان کی نزدیک آپ کے رب کے ناپسند
(38) یہ اس میں سے ہے جو وحی کی ہے آپ کی طرف آپ کے رب نے حکمت سے اور نہ ٹھہراؤ ساتھ اللہ کے معبود دوسرا، پس ڈال دیے جاؤ گے جہنم میں ملامت زدہ، دھتکارے ہوئے
(39)
#
{37} يقول تعالى: {ولا تمشِ في الأرض مَرَحاً}؛ أي: كبراً وتيهاً وبطراً متكبِّراً على الحقِّ ومتعاظماً على الخلق. {إنَّك}: في فعلك ذلك {لن تَخْرِقَ الأرض ولن تبلُغَ الجبال طولاً}: في تكبُّرك بل تكون حقيراً عند الله، ومحتقراً عند الخلق، مبغوضاً، ممقوتاً، قد اكتسبت شرَّ الأخلاق، واكتسيت بأرذلها، من غير إدراك لبعض ما تروم.
[37] ﴿وَلَا تَ٘مْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا﴾ ’’اور زمین میں اتراتا ہوا مت چل‘‘ یعنی تکبر، غرور، اتراہٹ، حق کے سامنے استکبار اور تکبر کے ساتھ مخلوق سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے زمین پر مت چلو۔
﴿اِنَّكَ ﴾ ’’بے شک تو‘‘
﴿ لَ٘نْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَ٘نْ تَبْلُ٘غَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ ’’بے شک تو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کو اور نہ پہنچے گا پہاڑوں کو لمبا ہو کر‘‘ بلکہ اس کے برعکس تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت حقیر ہوگا اور مخلوق کے نزدیک بہت ذلیل، ناپسندیدہ اور مذموم ہوگا۔ بلاشبہ جن چیزوں کا تونے قصد کیا ہے ان میں بغیر سوچے سمجھے تو نے بدترین اور رذیل ترین اخلاق کا اکتساب کیا ہے۔
#
{38} {كل ذلك}: المذكور الذي نهى الله عنه فيما تقدَّم من قوله: {لا تَجْعَلْ مع الله إلهاً آخر}، والنهي عن عقوق الوالدين، وما عُطِف على ذلك، {كان سَيِّئُهُ عند ربِّك مكروهاً}؛ أي: كل ذلك يسوء العاملين ويضرُّهم والله تعالى يكرهه ويأباه.
[38] ﴿ كُ٘لُّ ذٰلِكَ ﴾ مذکورہ تمام امور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے جن کا ذکر گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ میں گزر چکا ہے، نیز والدین کی نافرمانی وغیرہ۔
﴿كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ ﴾ ’’اس کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘ یعنی ان میں سے ہر برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ یہ برائی برا سلوک کرے گی اور ان کو نقصان پہنچائے گی اور اللہ تعالیٰ اس برائی کو ناپسند کرتا اور اس کا انکار کرتا ہے۔
#
{39} {ذلك} الذي بيَّنَّاه ووضَّحناه من هذه الأحكام الجليلة، {مما أوحى إليك ربُّك من الحكمة}: فإنَّ الحكمة الأمر بمحاسن الأعمال ومكارم الأخلاق والنهي عن أراذل الأخلاق وأسوأ الأعمال. وهذه الأعمال المذكورة في هذه الآيات من الحكمة العالية التي أوحاها ربُّ العالمين لسيِّد المرسلين في أشرف الكتب ليأمر بها أفضل الأمم؛ فهي من الحكمة التي من أوتيها؛ فقد أوتي خيراً كثيراً. ثم ختمها بالنهي عن عبادة غير الله كما افتتحها بذلك، فقال: {ولا تَجْعَلْ مع الله إلهاً آخر فَتُلقى في جهنَّم}؛ أي: خالداً مخلَّداً؛ فإنَّه من يُشْرِك بالله فقد حرَّم الله عليه الجنة ومأواه النار. {مَلوماً مَدْحوراً}؛ أي: قد لحقتك اللائمة واللعنة والذمُّ من الله وملائكته والناس أجمعين.
[39] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ ہے‘‘ یعنی یہ احکام جلیلہ جن کو ہم نے واضح کر کے بیان کردیا ہے
﴿ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ﴾ ’’ان باتوں میں سے ہیں جو وحی بھیجی آپ کے رب نے آپ کی طرف حکمت کے کاموں سے‘‘ اور حکمت محاسن اعمال، مکارم اخلاق کے حکم اور اخلاق رذیلہ اور اعمال قبیحہ سے ممانعت کا نام ہے اور یہ اعمال جو ان آیات کریمہ میں مذکور ہیں ، حکمت عالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو رب کائنات نے، افضل ترین کتاب، قرآن کریم میں سیدالمرسلینe کی طرف وحی کیا تاکہ آپ بہترین امت کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیں اور جسے یہ حکمت عطا کر دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی،
پھر آیت کریمہ کو غیر اللہ کی عبادت کی ممانعت پر ختم کیا جیسا کہ غیر اللہ کی عبادت کی ممانعت سے اس کی ابتدا کی تھی۔ فرمایا: ﴿ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَ٘تُ٘لْ٘قٰى فِیْ جَهَنَّمَ﴾ ’’اور نہ ٹھہرا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، پھر پڑے گا تو جہنم میں ‘‘ یعنی ابد الآباد تک جہنم میں رہے گا۔ کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے
﴿ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًؔا ﴾ ’’ملامت زدہ دھتکارا ہوا‘‘ یعنی تیرے لیے ملامت اور لعنت ہوگی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے۔
{أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا (40)}.
کیا چن لیا ہے تمھیں تمھارے رب نے ساتھ بیٹوں کےاور بنا لیا
(خود) فرشتوں کو بیٹیاں ؟ بلاشبہ تم البتہ کہتے ہو بات بہت بڑی
(خطرناک) (40)
#
{40} وهذا إنكارٌ شديدٌ على من زَعَمَ أنَّ الله اتَّخذ من خلقه بنات، فقال: {أفأصفاكم ربُّكم بالبنين}؛ أي: اختار لكم الصَّفوة والقسم الكامل، {واتَّخذ}: لنفسه {من الملائكة إناثاً}: حيث زعموا أن الملائكة بنات الله. {إنَّكُم لَتَقُولُونَ قَولاً عَظِيماً}: فيه أعظم الجرأة على الله، حيث نسبتُم له الولد المتضمِّن لحاجته، واستغناء بعض المخلوقات عنه، وحكموا له بأردأ القسمين، وهن الإناث، وهو الذي خلقكم واصطفاكم بالذكور، فتعالى الله عما يقول الظالمون علوًّا كبيراً.
[40] یہ اس شخص پر نہایت شدت سے نکیر ہے جس کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض ہستیوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے بنابریں فرمایا:
﴿اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ ﴾ ’’کیا تمھارے رب نے تم کو لڑکے دیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے چن کر تمھارے لیے کامل ترین حصہ مقرر کر دیا اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا… کیونکہ مشرکین کا یہ خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔
﴿ اِنَّـكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا ﴾ ’’بے شک تم کہتے ہو بھاری بات۔‘‘ تمھارا یہ قول اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت ہے کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کر دی۔ تمھارا قول اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ محتاج ہے اور اس کی کچھ مخلوق اس سے بے نیاز ہے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے حق میں اولاد کی دونوں قسموں میں سے زیادہ ردی قسم کا فیصلہ کیا یعنی تم نے اس کی طرف بیٹیوں کو منسوب کر دیا، حالانکہ اس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھیں بیٹے عطا كيے۔ پس بہت بلند ہے اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں ۔
{وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا (41) قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا (42) سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (43) تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (44)}.
اور البتہ تحقیق پھیر پھیر کر بیان کیا ہم نے اس قرآن میں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور نہیں زیادہ کرتا یہ ان کو مگر نفرت ہی میں
(41) کہہ دیجیے، اگر ہوتے اللہ کے ساتھ اور معبود جیسا کہ کہتے ہیں وہ
(مشرک) تو اس وقت البتہ تلاش کرتے وہ
(معبود) طرف عرش والے
(اللہ) کے کوئی راستہ
(42) پاک ہے وہ اور برتر ہے ان سے جو وہ
(مشرک) کہتے ہیں ، برتر بہت زیادہ
(43) پاکیزگی بیان کرتے ہیں اس کی ساتوں آسمان اور زمین بھی اور جو
(مخلوق) ان میں ہے،اور نہیں ہے کوئی چیز مگر وہ تسبیح بیان کرتی ہے ساتھ اس کی حمد کے لیکن نہیں سمجھتے تم تسبیح ان کی، بلاشبہ وہ ہے نہایت حوصلے والا، بہت بخشنے والا
(44)
#
{41} يخبر تعالى أنه صرَّف لعباده في هذا القرآن؛ أي: نوَّع الأحكام ووضَّحها وأكثر من الأدلَّة والبراهين على ما دعا إليه، ووعظ وذكَّر لأجل أن يتذكَّروا ما ينفعهم فيَسْلُكوه وما يضرُّهم فيدعوه، ولكن أبى أكثر الناس {إلاَّ نفوراً} عن آيات الله؛ لبغضهم للحقِّ ومحبَّتهم ما كانوا عليه من الباطل، حتى تعصَّبوا لباطلهم، ولم يُعيروا آيات الله لهم سمعاً، ولا ألقَوْا لها بالاً.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لیے مختلف انواع کے احکام واضح کر کے بیان كيے ہیں اور اپنی دعوت کی حقانیت پر بہت سے دلائل اور براہین بیان كيے ہیں اور انھیں وعظ و نصیحت کی ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں جس سے انھیں فائدہ ہو اور اسے اپنا لائحہ عمل بنائیں اور جس سے نقصان ہو اسے چھوڑ دیں ۔ مگر اکثر لوگ باطل سے محبت اور حق کے خلاف بغض رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات سے بدک کر دور بھاگتے ہیں حتٰی کہ وہ باطل کے لیے تعصب میں مبتلا ہو گئے۔ انھوں نے آیات الٰہی کو سنا نہ ان کی کوئی پروا کی۔
#
{42} ومن أعظم ما صرَّف فيه الآيات والأدلَّة التَّوحيد الذي هو أصل الأصول، فأمر به ونهى عن ضدِّه وأقام عليه من الحجج العقليَّة والنقليَّة شيئاً كثيراً؛ بحيث إنَّ من أصغى إلى بعضها لا تَدَعُ في قلبه شكًّا ولا ريباً، ومن الأدلَّة على ذلك هذا الدليل العقليُّ الذي ذكره هنا، فقال: {قل}: للمشركين الذين يجعلون مع الله إلهاً آخر: {لو كان معه آلهةٌ كما يقولون}؛ أي: على موجب زعمهم وافترائهم؛ {إذاً لابْتَغَوا إلى ذي العرش سبيلاً}؛ أي: لاتَّخذوا سبيلاً إلى الله بعبادته والإنابة إليه والتقرُّب وابتغاء الوسيلة؛ فكيف يجعل العبد الفقير الذي يرى شدَّة افتقاره لعبوديَّة ربِّه إلهاً مع الله؟! هل هذا إلاَّ من أظلم الظلم وأسفه السَّفَه؛ فعلى هذا المعنى تكون هذه الآية كقوله تعالى: {أولئك الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة أيهم أقرب}: وكقوله تعالى: {ويوم يَحْشُرُهم وما يعبُدون من دون الله فيقول أأنتُم أضللتُم عبادي هؤلاء أم هُم ضلُّوا السبيل قالوا سبحانك ما كان ينبغي لنا أن نتَّخذ من دونِكَ من أولياءَ}.
ويُحتمل أنَّ المعنى في قوله: {قُلْ لو كان معه آلهةٌ كما يقولون إذاً لابْتَغَوْا إلى ذي العرش سبيلاً}؛ أي: لطلبوا السبيل وسَعَوْا في مغالبة الله تعالى، فإما أن يعلوا عليه فيكون مَنْ علا وقَهَرَ هو الربَّ الإله، فأما وقد علموا أنهم يقرُّون أنَّ آلهتهم التي يدعون من دون الله مقهورةٌ مغلوبةٌ ليس لها من الأمر شيء؛ فلم اتَّخذوها وهي بهذه الحال؟! فيكون هذا كقوله تعالى: {ما اتَّخَذَ اللهُ من ولدٍ وما كان معه من إلهٍ إذاً لَذَهَبَ كلُّ إلهٍ بما خَلَقَ ولعلا بعضهم على بعض}.
[42] جس موضوع پر اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ دلائل و براہین بیان كيے، وہ توحید ہے جو تمام اصولوں کی اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کی ضد سے روکا ہے اور اس پر بہت سے عقلی اور نقلی دلائل بیان كيے ہیں ۔ جو کوئی ان میں سے کسی پر توجہ دیتا ہے تو اس کے قلب میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔ ان دلائل میں سے ایک عقلی دلیل یہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے
﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی ان مشرکین سے کہہ دیجیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لیے ہیں
﴿ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’اگر اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں ‘‘ یعنی ان کے زعم اور افترا پردازی کے مطابق
﴿ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْ٘عَرْشِ سَبِیْلًا﴾ ’’تو نکالتے صاحب عرش کی طرف کوئی راستہ‘‘ یعنی وہ عبادت، انابت، تقرب اور وسیلے کے ذریعے سے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس وہ شخص جو اپنے آپ کو اپنے رب کی عبودیت کا نہایت شدت سے محتاج سمجھتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی سفاہت نہیں ہے؟
اس معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد جیسی ہے۔
﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَ٘قْ٘رَبُ ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍57) ’’جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اللہ کے ہاں تقرب کے حصول کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس کے قریب تر ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔
﴿ وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ۰۰قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ مَا كَانَ یَنْۢ٘بَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّؔتَّؔخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ ﴾ (الفرقان:25؍17۔18) ’’اور جس روز وہ ان لوگوں کو اکٹھا کرے گا اور ان کو بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں ، پھر ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود گمراہ ہو گئے تھے؟ وہ جواب دیں گے تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں ۔‘‘
اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر غالب آنے کے لیے کوشش کرتے اور کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس یا تو وہ اس پر غالب آ جاتے اور جو غالب آ جاتا وہی رب اور الٰہ ہوتا لیکن جیسا کہ انھیں علم ہے اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، مقہور و مجبور اور مغلوب ہیں انھیں کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں ، ان کا یہ حال ہوتے ہوئے پھر ان کو انھوں نے معبود کیوں بنایا ہے؟ تب اس معنیٰ کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مشابہ ہے۔
﴿ مَا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰ٘هٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُ٘لُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (المومنون : 23؍91) ’’اللہ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق لے کر الگ ہو جاتا پھر تمام ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے۔‘‘
#
{43} {سبحانه وتعالى}؛ أي: تقدَّس وتنزَّه وعلت أوصافه، {عما يقولون}: من الشرك به واتِّخاذ الأنداد معه، {علوًّا كبيراً}: فعلا قدرُه وعظُم وجلَّت كبرياؤه التي لا تُقادر أن يكون معه آلهة؛ فقد ضلَّ مَن قال ذلك ضلالاً مبيناً وظلم ظلماً كبيراً، لقد تضاءلتْ لعظمتِهِ المخلوقاتُ العظيمةُ، وصغُرَتْ لدى كبريائِهِ السماواتُ السبع ومن فيهن والأرضون السبع ومن فيهن، والأرض جميعاً قبضتُه يوم القيامة والسماواتُ مطوياتٌ بيمينه، وافتقر إليه العالمُ العلويُّ والسفليُّ فقراً ذاتيًّا لا ينفكُّ عن أحدٍ منهم في وقتٍ من الأوقات، هذا الفقر بجميع وجوهه؛ فقرٌ من جهة الخلق والرزق والتدبير، وفقرٌ من جهة الاضطرار إلى أن يكون معبودَه ومحبوبَه الذي إليه يتقرَّبون، وإليه في كل حال يفزعون.
[43] فرمایا:
﴿ سُبْحٰؔنَهٗ وَ تَ٘عٰ٘لٰ٘ى ﴾ ’’وہ پاک اور بلند ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ مقدس اور منزہ ہے اس کے اوصاف عالیشان ہیں
﴿ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’ان سے جو وہ کہتے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے اور ان کے اس کا ہمسر بنا لینے سے پاک ہے
﴿ عُلُوًّا كَبِیْرًؔا﴾ ’’بہت بلند۔‘‘ پس وہ عالی قدر اور عظیم الشان ہے اور اس کی کبریائی ظاہر ہے اس کی کبریائی برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہو۔ جو کوئی اس بات کا قائل ہے وہ صاف گمراہ اور بہت بڑا ظالم ہے۔ اس کی عظمت کے سامنے بڑی بڑی مخلوقات نہایت عاجز اور اس کی کبریائی کے سامنے بہت حقیر ہیں ۔ ساتوں آسمان اور جو کچھ ان کے اندر موجود ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان کے اوپر ہے، سب اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
﴿ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ﴾ (الزمر : 39؍67) ’’قیامت کے روز تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘
تمام عالم علوی اور عالم سفلی اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور یہ احتیاج کسی وقت بھی ان سے جدا نہیں ہوتی یہ فقرواحتیاج ہر لحاظ سے، تخلیق، رزق اور تدبیر کی احتیاج ہے نیز یہ اضطرای طور پر بھی فقرواحتیاج ہے کہ ان کا کوئی معبود و محبوب ہو جس کا وہ تقرب حاصل کریں اور ہر حال میں اس کی پناہ لیں ۔
#
{44} ولهذا قال: {تسبِّحُ له السمواتُ السبع والأرض ومن فيهن وإن من شيءٍ}: من حيوانٍ ناطق وغير ناطقٍ، ومن أشجار ونبات وجامد، وحيٍّ وميت، {إلاَّ يسبِّحُ بحمدِهِ}: بلسان الحال ولسان المقال، {ولكنْ لا تفقَهون تسبيحَهم}؛ أي: تسبيح باقي المخلوقات التي على غير لغتكم، بل يحيطُ بها علاَّم الغيوب. {إنَّه كان حليماً غفوراً}: حيثُ لم يعاجِلْ بالعُقوبة مَن قال فيه قولاً تكاد السماواتُ والأرض تنفَطِر منه وتَخِرُّ له الجبال، ولكنَّه أمهلهم، وأنعم عليهم، وعافاهم، ورزقهم، ودعاهم إلى بابِهِ ليتوبوا من هذا الذنب العظيم؛ ليعطيهم الثواب الجزيل، ويغفر لهم ذنبهم؛ فلولا حلمُهُ ومغفرته؛ لسقطت السماوات على الأرض، ولما ترك على ظهرها من دابَّةٍ.
[44] بنابریں فرمایا
﴿ تُ٘سَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ ﴾ ’’اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اور نہیں ہے کوئی چیز۔‘‘ یعنی حیوان ناطق، حیوان غیر ناطق، درخت، نباتات، جمادات، زندہ اور مردہ
﴿ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ﴾ ’’مگر تسبیح بیان کرتی ہے اس کی خوبیوں کے ساتھ‘‘ اپنی زبان حال اور زبان مقال سے
﴿ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ﴾ ’’لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے‘‘ یعنی تم باقی تمام مخلوقات کی تسبیح نہیں سمجھتے جن کی زبان تمھاری زبان سے مختلف ہے۔ مگر اللہ علام الغیوب ان سب کا احاطہ كيے ہوئے ہے۔
﴿ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًؔا﴾ ’’بے شک وہ بردبار اور بڑا بخشنے والا ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی فوراً سزا نہیں دیتا جو اس کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے کہ اس کی اس بات سے آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ انھیں مہلت دیتا ہے، انھیں نعمتوں سے نوازتا ہے، ان سے درگزر کرتا ہے، ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کو اپنے دروازے پر بلاتا ہے تاکہ وہ اس گناہ عظیم سے توبہ کریں اور وہ ان کو ثواب جزیل عطا کرے اور ان کے گناہ بخش دے۔ اگر اس کا حلم اور مغفرت نہ ہوتی تو آسمان زمین پر گر پڑتے اور زمین کی پیٹھ پر ایک جاندار بھی زندہ نہ بچتا۔
{وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا (45) وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا (46) نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا (47) انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (48)}.
اور جب پڑھتے ہیں آپ قرآن تو بنا دیتے ہیں ہم درمیان آپ کے اور درمیان ان لوگوں کے جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آخرت کے، ایک پردہ چھپا ہوا
(45) اور بنا دیے ہم نےاوپر ان کے دلوں کے پردے
(اس سے) کہ وہ سمجھیں اس کواور ان کے کانوں میں ڈاٹ ہیں اور جب ذکر کرتے ہیں آپ اپنے رب کا قرآن میں ، تنہا اسی کا تو پھر جاتے ہیں وہ اوپراپنی پیٹھوں کے، نفرت سے
(46) ہم خوب جانتے ہیں اس
(نیت) کو کہ سنتے ہیں وہ
(قرآن کو) ساتھ اس کے، جب کان لگاتے ہیں وہ آپ کی طرف اور جب وہ سرگوشیاں کرتے ہیں
(، یعنی ) جب کہتے ہیں ظالم لوگ، کہ نہیں پیروی کرتے تم مگر آدمی سحر زدہ کی
(47)دیکھیے! کس طرح بیان کرتے ہیں وہ آپ کے لیے مثالیں ؟ پس گمراہ ہو گئے وہ، سو نہیں پاسکتے وہ راستہ
(48)
#
{45} يخبر تعالى عن عقوبته للمكذِّبين بالحقِّ الذين ردُّوه وأعرضوا عنه أنَّه يَحول بينَهم وبين الإيمان، فقال: {وإذا قرأتَ القرآنَ}: الذي فيه الوعظُ والتَّذكير والهدى والإيمان والخير والعلم الكثيرُ؛ {جَعَلْنا بينَك وبين الذين لا يؤمنونَ بالآخرة حجاباً مستوراً}: يستُرهم عن فهمه حقيقةً وعن التحقُّق بحقائقه والانقياد إلى ما يدعو إليه من الخير.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ حق کی تکذیب کرنے والوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جنھوں نے حق کو ٹھکرایا اور اس سے روگردانی کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاِذَا قَ٘رَاْتَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ ﴾ ’’اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں ‘‘ جس کے اندر وعظ و تذکیر، ہدایت و ایمان، بھلائی اور علم کثیر ہے۔
﴿ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابً٘ا مَّسْتُوْرًؔا﴾ ’’تو ہم کر دیتے ہیں آپ کے اور ان کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ایک چھپا ہوا پردہ۔‘‘ جو انھیں اس کے حقیقی فہم، اس کے حقائق کے تحقق اور جس بھلائی کی طرف یہ دعوت دیتا ہے اس کی اطاعت سے محجوب
(آڑ) کر دیتا ہے۔
#
{46} {وجَعَلْنا على قلوبِهِم أكِنَّةً}؛ أي: أغطية وأغشية لا يفقهون معها القرآن، بل يسمعونه سماعاً تقوم به عليهم الحجَّة، {وفي آذانهم وَقْراً}؛ أي: صمماً عن سماعه، {وإذا ذكرتَ ربَّك في القرآن وحدَه}: داعياً لتوحيده، ناهياً عن الشرك به؛ {وَلَّوا على أدبارِهِم نُفوراً}: من شدَّة بُغضهم له ومحبَّتهم لما هم عليه من الباطل؛ كما قال تعالى: {وإذا ذُكِرَ اللهُ وحدَه اشمأزَّت قلوبُ الذين لا يؤمنون بالآخرةِ وإذا ذُكِرَ الذين من دونِهِ إذا هم يستبشرونَ}.
[46] ﴿ وَّجَعَلْنَا عَلٰى قُ٘لُوْبِهِمْ اَكِنَّةً ﴾ ’’اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں ‘‘ ان کے ہوتے ہوئے یہ اس قرآن کو سمجھنے سے عاری ہیں ، البتہ یہ اسے اس طرح سنتے ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہو جاتی ہے۔
﴿ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْ٘رًا﴾ ’’اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے‘‘ یعنی ان کے کان قرآن سننے سے بہرے ہیں ۔
﴿ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْ٘قُ٘رْاٰنِ وَحْدَهٗ ﴾ ’’اور جب آپ ذکر کرتے ہیں اپنے رب کا قرآن میں کہ وہ اکیلا ہے‘‘ یعنی توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے اور شرک سے روکتے ہوئے
﴿ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَ٘ارِهِمْ نُفُوْرًؔا ﴾ ’’تو بھاگ جاتے ہیں اپنی پیٹھ پر بدک کر‘‘ قرآن سے نہایت سخت بغض رکھنے اور اپنے باطل موقف سے محبت کی وجہ سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُ٘لُ٘وْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠﴾ (الزمر : 39؍45) ’’جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل کراہت کی وجہ سے منقبض ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا خود ساختہ خداؤں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوشی سے کھل جاتے ہیں ۔‘‘
#
{47} {نحنُ أعلم بما يستمعون به}؛ أي: إنَّما مَنَعْناهم من الانتفاع عند سماع القرآن لأنَّنا نعلم أن مقاصدهم سيِّئة؛ يريدون أن يعثروا على أقلِّ شيءٍ لِيَقْدَحوا به، وليس استماعُهم لأجل الاسترشاد وقَبول الحقِّ، وإنَّما هم معتمدون على عدم اتِّباعه، ومَنْ كان بهذه الحالة؛ لم يُفِدْهُ الاستماع شيئاً، ولهذا قال: {إذْ يستَمِعونَ إليك وإذْ هم نَجْوى}؛ أي: متناجين، {إذْ يقولُ الظالمونَ}: في مناجاتهم: {إنْ تَتَّبِعونَ إلاَّ رجلاً مسحوراً}: فإذا كانت هذه مناجاتُهم الظالمة فيما بينهم، وقد بَنَوْها على أنه مسحورٌ؛ فهم جازمون أنَّهم غير معتَبِرين لما قال، وأنَّه يَهْذي لا يدري ما يقول.
[47] ﴿ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ ﴾ ’’ہم خوب جانتے ہیں جس واسطے یہ سنتے ہیں ‘‘ یعنی ہم نے ان کو قرآن کے استماع کے وقت اس سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا ہے کیونکہ ہم ان کے برے ارادوں کا علم رکھتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی چھوٹی سی بات ہی ہاتھ آئے تاکہ اس کے ذریعے سے اس میں عیب جوئی کریں ۔ ان کا قرآن سننا طلب ہدایت اور قبول حق کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وہ تو اس کی عدم اطاعت کا تہیہ كيے ہوئے ہیں اور جن کا یہ حال ہو تو استماع قرآن ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا،
اس لیے فرمایا: ﴿ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَاِذْ هُمْ نَجْوٰۤى ﴾ ’’جب وہ کان لگاتے ہیں آپ کی طرف اور جب وہ مشاورت کرتے ہیں ‘‘ یعنی جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرتے ہیں ۔
﴿ اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’جبکہ ظالم کہتے ہیں ‘‘ اپنی سرگوشیوں میں :
﴿ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًؔا﴾ ’’جس کی تم پیروی کرتے ہو، وہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے۔‘‘ پس جب ان کی باہمی سرگوشی اس طرح کی بے انصافی پر مبنی ہوتی تھی جس کی بنیاد اس امر پر تھی کہ یہ شخص جادو زدہ ہے تو اس لیے وہ اس کے قول کا اعتبار نہیں کرتے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص نامعقول باتیں کرتا ہے اور اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
#
{48} قال تعالى: {انظر}: متعجباً {كيف ضربوا لك الأمثال}: التي هي أضلُّ الأمثال وأبعدُها عن الصواب، {فضَلُّوا}: في ذلك، أو فصارت سبباً لضلالهم؛ لأنَّهم بَنَوا عليها أمرهم، والمبنيُّ على فاسدٍ أفسدُ منه. فلا يهتدون {سبيلاً}؛ أي: لا يهتدون أيَّ اهتداءٍ، فَنَصِيبُهُم الضلال المحضُ والظُّلم الصرف.
[48] ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ ﴾ یعنی تعجب کے ساتھ ان کی طرف دیکھیے۔
﴿ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ ﴾ ’’کیسے بیان کرتے ہیں وہ آپ کے لیے مثالیں ‘‘ جو کہ گمراہ ترین اور حق و صواب سے سب سے زیادہ ہٹی ہوئی مثالیں ہیں
﴿ فَضَلُّوْا ﴾ ’’پس وہ گمراہ ہوگئے۔‘‘ یعنی اس بارے میں وہ گمراہ ہو گئے یا یہ ضرب الامثال ان کی گمراہی کا سبب بن گئیں کیونکہ انھوں نے اپنے معاملات کی بنیاد ان مثالوں پر رکھی اور کسی فاسد چیز پر رکھی ہوئی بنیاد اس سے زیادہ فاسد ہوتی ہے۔
﴿ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ سَبِیْلًا﴾ ’’پس وہ راہ نہیں پاسکتے‘‘ یعنی انھیں کسی طور بھی راستہ نہیں مل سکتا، اس لیے ان کے نصیب میں محض گمراہی اور صرف ظلم ہے۔
{وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (49) قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا (50) أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا (51) يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا (52)}.
اور کہا انھوں نے، کیا جب ہو جائیں گے ہم ہڈیاں اورچورا چورا تو کیا بے شک ہم البتہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے پیدا کر کے نئے سرے سے؟
(49)کہہ دیجیے! ہو جاؤ تم پتھر یا لوہا
(50) یا
(کوئی اور) مخلوق اس میں سے جو بڑی معلوم ہو تمھارے سینوں
(دلوں ) میں ، پھر عنقریب کہیں گے وہ، کون دوبارہ لوٹائے گا ہمیں ؟ آپ کہہ دیں ، وہی جس نے پیدا کیا تمھیں پہلی بار، پھر عنقریب وہ ہلائیں گے آپ کی طرف اپنے سر اور وہ کہیں گے کب ہو گا وہ؟ کہہ دیجیے! شاید کہ ہو وہ قریب ہی
(51) جس دن وہ
(اللہ) بلائے گا تمھیں تو تم تعمیل ارشاد کرو گے، حمد کرتے ہوئے اس کی اور تم گمان کرو گے کہ نہیں ٹھہرے تم مگر تھوڑا
(ساوقت) (52)
#
{49} يخبر تعالى عن قول المنكرين للبعث وتكذيبهم به واستبعادهم بقولهم: {أإذا كُنَّا عظاماً ورُفاتاً}؛ أي: أجساداً بالية. {أإنَّا لَمبعوثون خلقاً جديداً}؛ أي: لا يكون ذلك، وهو محالٌ بزعمهم، فجهلوا أشدَّ الجهل؛ حيثُ كذَّبوا رسل الله، وجَحَدوا آيات الله، وقاسوا قدرةَ خالق السماواتِ والأرضِ بِقُدَرِهِمُ الضعيفة العاجزة، فلما رأوا أنَّ هذا ممتنعٌ عليهم لا يقدرون عليه؛ جعلوا قدرة الله كذلك؛ فسبحان مَنْ جَعَلَ خلقاً من خلقه يزعُمون أنَّهم أولو العقول والألباب مثالاً في جهل أظهر الأشياء وأجلاها وأوضحها براهين وأعلاها؛ لِيُري عباده أنه ما ثَمَّ إلا توفيقه وإعانتُه أو الهلاك والضلال، {ربَّنا لا تُزِغْ قلوبنا بعد إذْ هَدَيْتَنا وَهَبْ لنا من لَدُنْك رحمةً إنَّك أنت الوهاب}.
[49] اللہ تبارک و تعالیٰ زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں ، اس کو جھٹلانے والوں اور اس کو بعید سمجھنے والوں کا یہ قول نقل کرتا ہے۔
﴿ وَقَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ﴾ ’’کیا جب ہم ہو جائیں گے ہڈیاں اور چورا چورا‘‘ یعنی جب ہم بوسیدہ ہو جائیں گے
﴿ ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُ٘وْنَ۠ خَلْقًا جَدِیْدًا ﴾ ’’کیا پھر ہم اٹھیں گے نئے بن کر؟‘‘ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا۔ ان کے زعم کے مطابق یہ بہت محال ہے۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کر کے اور اس کی آیات کو جھٹلا کر سخت جہالت کا ثبوت دیا ہے، خالق کائنات کی قدرت کو اپنی کمزور اور عاجز قدرت پر قیاس کیا ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں اور وہ اس پر قدرت نہیں رکھتے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بھی اسی پر قیاس کر لیا۔
پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو جہالت کی مثال بنایا ہے… اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں ، حالانکہ ان کی جہالت سب سے واضح، سب سے نمایاں ، دلائل و براہین کے اعتبار سے سب سے روشن اور سب سے بلند ہے… تاکہ وہ اپنے بندوں کو دکھائے کہ یہاں سوائے اس کی توفیق اور اعانت یا ہلاکت اور ضلالت کے کچھ بھی نہیں ۔
﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُ٘لُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران : 3؍8) ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت بخش دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر ہمیں اپنی رحمت سے نواز! بے شک تو بہت نوازنے والا ہے۔‘‘
#
{50 ـ 51} ولهذا أمر رسوله - صلى الله عليه وسلم - أن يقول لهؤلاء المنكرين للبعث استبعاداً: {قُلْ كونوا حجارة أو حديداً. أو خلقاً مما يكبر}؛ أي: يعظُم {في صدورِكم}: لتسلموا بذلك ـ على زعمكم ـ من أن تنالكم قدرة الله أو تنفذَ فيكم مشيئتُه؛ فإنكم غير معجزين الله في أيِّ حالة تكونون وعلى أيِّ وصفٍ تتحوَّلون، وليس لكم في أنفسكم تدبيرٌ في حالة الحياة وبعد الممات؛ فدعوا التدبير والتصريف لِمَنْ هو على كلِّ شيء قدير وبكلِّ شيء محيط. {فسيقولون}: حين تُقيم عليهم الحجَّة في البعث: {من يعيدنا قل الذي فَطَرَكم أول مرة}: فكما فطركم ولم تكونوا شيئاً مذكوراً؛ فإنَّه سيعيدكم خلقاً جديداً؛ {كما بَدَأنا أوَّلَ خلقٍ نعيدُه}، {فسيُنْغِضونَ إليك رؤوسهم}؛ أي: يهزُّونها إنكاراً وتعجُّباً مما قلت. {ويقولون متى هو}؛ أي: متى وقتُ البعث الذي تزعمه على قولك؟ لا إقراراً منهم لأصل البعث، بل ذلك سفهٌ منهم وتعجيزٌ. {قل عسى أن يكونَ قريباً}: فليس في تعيين وقتِهِ فائدةٌ، وإنَّما الفائدة والمدار على تقريره والإقرار به وإثباته، وإلاَّ؛ فكلُّ ما هو آتٍ؛ فإنَّه قريب.
[51,50] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ زندگی بعد موت کو بعید سمجھنے والوں سے کہہ دیں
﴿ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًاۙ ۰۰اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَكْبُرُ فِیْ صُدُوْرِكُمْ﴾ ’’تم ہو جاؤ پتھر یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جس کو تم مشکل سمجھو اپنے جی میں ‘‘ تاکہ تم اس طرح اپنے زعم کے مطابق اس بات سے محفوظ ہو جاؤ کہ تم قدرت الٰہی کی گرفت میں آؤ یا اس کی مشیت تمھاری بابت نافذ ہو۔ پس تم کسی بھی حالت میں اور کسی بھی وصف میں منتقل ہو کر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کر سکتے اور اس زندگی میں اور موت کے بعد تم اپنے بارے میں کسی تدبیر کا اختیار نہیں رکھتے، اس لیے تدبیر اور تصرف اس ہستی کے لیے چھوڑ دو جو ہر چیز پر قادر اور ہر چیز پر محیط ہے۔
﴿ فَسَیَقُوْلُوْنَ۠ ﴾ ’’پس وہ کہیں گے‘‘ یعنی جب آپ زندگی بعد موت کے بارے میں ان پر حجت قائم کرتے ہیں ۔
﴿ مَنْ یُّعِیْدُنَا١ؕ قُ٘لِ الَّذِیْ فَطَرَؔكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ ’’کون لوٹا کر لائے گا ہم کو؟ کہہ دیجیے! وہ جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔‘‘ یعنی جب تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے اس نے تمھیں پیدا کیا اسی طرح وہ تمھیں نئے سرے سے پیدا کرے گا۔
﴿ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْ٘قٍ نُّعِیْدُهٗ﴾ (الأنبیاء : 21؍104) ’’جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم تخلیق کا اعادہ کریں گے۔‘‘
﴿ فَسَیُنْغِضُوْنَ۠ اِلَیْكَ رُءُ٘وْسَهُمْ ﴾ ’’تو
(تعجب سے) تمھارے آگے سر ہلائیں گے۔‘‘ یعنی وہ آپ کی بات پر تعجب اور انکار سے سر ہلاتے ہیں
﴿ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ﴾ ’’اور کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟‘‘ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت کب ہو گا جیساکہ تم کہتے ہو۔ یہ ان کی طرف سے زندگی بعد موت کا اقرار نہیں بلکہ یہ ان کی سفاہت اور بزعم خود، دلیل میں بے بس کرنا ہے۔
﴿ قُ٘لْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَ٘رِیْبًا ﴾ ’’کہہ دیجیے! شاید یہ نزدیک ہی ہوگا‘‘ اس لیے اس کے وقت کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کا فائدہ اور اس کا دارومدار تو اس کے اقرار، اس کی تحقیق اور اس کے اثبات میں ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسے ضرور آنا ہے اس اعتبار سے وہ قریب ہی ہے۔
#
{52} {يوم يدعوكم}: للبعث والنُّشور وينفُخ في الصور، {فتستجيبونَ بحمدِهِ}؛ أي: تنقادون لأمرِهِ ولا تستعصونَ عليه. وقوله: {بحمده}؛ أي: هو المحمود تعالى على فعله، ويجزي به العباد إذا جمعهم ليوم التَّنادِ، {وتظنُّونَ إن لَبِثْتُم إلاَّ قليلاً}: من سرعة وقوعه، وأنَّ الذي مرَّ عليكم من النعيم كأنَّه ما كان؛ فهذا الذي يقول عنه المنكرون: متى هو؟ يندمون غاية الندم عند ورودِهِ، ويُقال لهم: هذا الذي كنتُم به تكذِّبون.
[52] ﴿ یَوْمَ یَدْعُوْؔكُمْ ﴾ ’’جس دن وہ تم کو پکارے گا‘‘ جب موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے اللہ تعالیٰ تمھیں پکارے گا اور صور پھونکا جائے گا۔
﴿فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ ﴾ ’’پس تم اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے چلے آؤ گے‘‘ یعنی تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے اور تم اس کی نافرمانی نہیں کر سکو گے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿ بِحَمْدِهٖ ﴾سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فعل پر قابل ستائش ہے۔ جب وہ اپنے بندوں کو قیامت کے روز اکٹھا کرے گا تو ان کو جزا دے گا۔
﴿ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’اور تم خیال کرو گے کہ تم
(دنیا میں ) تھوڑا ہی عرصہ ٹھہرے ہو‘‘ یعنی قیامت کے نہایت سرعت کے ساتھ واقع ہونے کی بنا پر اور جو نعمتیں تمھیں حاصل رہی ہیں ۔ گویا کہ یہ سب کچھ واقع ہوا ہی نہیں ۔ پس وہ لوگ جو قیامت کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے:
﴿مَتٰى هُوَ﴾ ’’قیامت کا دن کب ہو گا؟
‘‘ وہ قیامت کے ورود کے وقت بہت نادم ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا : ﴿ هٰؔذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ﴾ (المطففین : 83؍17) ’’یہ وہی دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
{وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا (53) رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ إِنْ يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا (54) وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (55)}.
اور کہہ دیجیے! میرے بندوں سے کہ وہ کہیں وہ بات کہ وہ بہت ہی اچھی ہو، بلاشبہ شیطان جھگڑا ڈلواتا ہے ان کے درمیان، بے شک شیطان، ہے واسطے انسان کے دشمن صریح
(53) تمھارا رب خوب جانتا ہے تمھیں ، اگر وہ چاہے تو رحم کرے تم پر یا اگر چاہے تو عذاب دے تمھیں اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ان پر ذمے دار
(بنا کر) (54) اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور البتہ تحقیق فضیلت دی ہم نے بعض نبیوں کو اوپر بعض کےاور دی ہم نے داود کو زبور
(55)
#
{53} وهذا من لطفِهِ بعباده؛ حيثُ أمرهم بأحسن الأخلاق والأعمال والأقوال الموجبة للسعادة في الدُّنيا والآخرة، فقال: {وقُلْ لعبادي يقولوا التي هي أحسنُ}: وهذا أمرٌ بكلِّ كلام يقرِّب إلى الله؛ من قراءةٍ وذكرٍ وعلم وأمرٍ بمعروف ونهي عن منكرٍ وكلام حسنٍ لطيفٍ مع الخلق على اختلاف مراتبهم ومنازلهم، وأنه إذا دار الأمر بين أمرين حسنين؛ فإنَّه يؤمَر بإيثار أحسَنِهما إن لم يمكن الجمعُ بينَهما، والقول الحسنُ داعٍ لكلِّ خلقٍ جميل وعمل صالح؛ فإنَّ مَن مَلَكَ لسانه؛ مَلَكَ جميع أمره. وقوله: {إنَّ الشيطانَ يَنْزَغُ بينهم}؛ أي: يسعى بين العباد بما يُفْسِدُ عليهم دينهم ودنياهم؛ فدواءُ هذا أن لا يُطيعوه في الأقوال غير الحسنة التي يدعوهم إليها، وأن يَلينوا فيما بينَهم؛ لينقمعَ الشيطانُ الذي ينزغ بينهم؛ فإنَّه عدوُّهم الحقيقيُّ الذي ينبغي لهم أن يحاربوه؛ فإنَّه يدعوهم ليكونوا من أصحاب السعير، وأما إخوانهم؛ فإنَّهم وإنْ نزغ الشيطان فيما بينهم وسعى في العداوة؛ فإنَّ الحزم كلَّ الحزم السعيُ في ضدِّ عدوِّهم، وأن يَقْمَعوا أنفسهم الأمَّارة بالسوء، التي يدخُل الشيطان من قِبَلِها؛ فبذلك يطيعون ربَّهم، ويستقيم أمرهم، ويُهْدَون لرشدهم.
[53] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انھیں بہتر اخلاق، اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقُ٘لْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ ’’کہہ دو، میرے بندوں سے، بات وہی کہیں جو اچھی ہو۔‘‘ یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے ،
مثلاً: قراء ت قرآن، ذکر الٰہی، حصول علم، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی وغیرہ۔ اگر دو اچھے امور در پیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے، اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں ہیں ۔
﴿ اِنَّ الشَّ٘یْطٰ٘نَ یَنْ٘زَغُ بَیْنَهُمْ﴾ ’’بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے‘‘ یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جو ان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے، اس لیے کہ شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں ، اس لیے کہ وہ تو انھیں دعوت دیتا رہتا ہے
﴿ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ ’’تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں ۔‘‘ اگرچہ شیطان ان کے درمیان فساد اور عداوت ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن اس بارے میں کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ اپنے دشمن شیطان کی مخالفت کی جائے، نفس امارہ کا قلع قمع کیا جائے جس کے راستے سے شیطان داخل ہوتا ہے، اس طرح وہ اپنے رب کی اطاعت کر سکیں گے، ان کا معاملہ درست رہے گا اور راہ ہدایت پا لیں گے۔
#
{54} {ربُّكم أعلم بكم}: من أنفسكم؛ فلذلك لا يريد لكم إلاَّ ما هو الخير، ولا يأمركم إلاَّ بما فيه مصلحة لكم، وقد تريدون شيئاً الخيرُ في عكسه. {إن يَشَأْ يَرْحَمْكُم أو إن يَشَأ يُعَذِّبْكم}: فيوفِّق مَن شاء لأسباب الرحمة، ويخذُلُ من شاء فَيَضِلُّ عنها فيستحقُّ العذاب. {وما أرسلناك عليهم وكيلاً}: تُدبِّرُ أمرهم وتقوم بمجازاتهم، وإنَّما الله هو الوكيل، وأنت مبلغٌ هادٍ إلى صراط مستقيم.
[54] ﴿ رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ﴾’’تمھارا رب تمھارے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہے‘‘ اس لیے تمھارے لیے وہی چاہتا ہے جس میں تمھاری بھلائی ہے اور تمھیں صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمھاری کوئی مصلحت ہے بسااوقات تم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہو مگر بھلائی اس کے برعکس کسی اور چیز میں ہوتی ہے۔
﴿ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْؔكُمْ﴾ ’’اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمھیں عذاب دے۔‘‘ پس جسے چاہتا ہے اسباب رحمت کی توفیق عطا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہو جاتا ہے۔ پس وہ اسباب رحمت سے محروم ہو کر عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔
﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَؔكِیْلًا﴾ ’’اور ہم نے آپ کو ان پر ذمے دار بنا کر نہیں بھیجا‘‘ کہ آپ ان کے معاملات کی تدبیر کریں اور ان کو جزا دیں ۔ وکیل اور کارساز تو صرف اللہ ہے اور آپ تو صرف صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں ۔
#
{55} {وربُّك أعلمُ بمن في السمواتِ والأرض}: من جميع أصناف الخلائق، فيعطي كلاًّ منهم ما يستحقُّه وتقتضيه حكمتُه، ويفضِّل بعضَهم على بعض في جميع الخصال الحسيَّة والمعنويَّة؛ كما فضَّل بعض النبيِّين المشتركين بوحيه على بعضٍ، بالفضائل والخصائص الرَّاجعة إلى ما مَنَّ به عليهم، من الأوصاف الممدوحة، والأخلاق المرضيَّة والأعمال الصالحة وكَثْرة الأتباع ونزول الكتب على بعضهم، المشتملة على الأحكام الشرعيَّة والعقائد المرضيَّة؛ كما أنزل على داود زَبوراً، وهو الكتاب المعروف؛ فإذا كان تعالى قد فضَّل بعضَهم على بعضٍ وآتى بعضهم كتباً؛ فِلمَ ينكِرُ المكذِّبون لمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - ما أنزله الله عليه وما فضَّله به من النبوَّة والكتاب؟
[55] ﴿ وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ‘‘ یعنی وہ تمام مخلوق کو جانتا ہے۔ پس ان میں سے جو کوئی جس چیز کا مستحق ہے اور اس کی حکمت جس کا تقاضا کرتی ہے اسے وہی عطا کرتا ہے اور وہ تمام حسی اور معنوی خصائل میں ان کو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کرتا ہے۔ جیسے اس نے بعض انبیاءo کو وحی میں ان کے اشتراک کے باوجود بعض فضائل اور خصائص میں ، جو محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، بعض پر فضیلت دی ہے،
مثلاً:اوصاف ممدوحہ، اخلاق جمیلہ، اعمال صالحہ، کثرت متبعین اور ان میں سے بعض پر کتابوں کا نزول جو عقائد اور احکام شریعت پر مشتمل ہیں ، جیسا کہ داؤدu پر زبور نازل فرمائی جو کہ ایک معروف آسمانی کتاب ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرامo کو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے اور ان میں سے بعض کو کتاب شریعت عطا کی تو پھر محمد رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے کفار اس کتاب اور نبوت کا کیوں انکار کرتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی اور اس فضیلت کا کیوں انکار کرتے ہیں جو آپ کو عطا کی گئی۔
{قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا (56) أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا (57)}.
کہہ دیجیے! بلاؤ ان کو جنھیں
(معبود) سمجھتے ہو تم سوائے اللہ کے، پس نہیں وہ اختیار رکھتے تکلیف ہٹانے کا تم سےاور نہ
(اسے) بدلنے ہی کا
(56) یہ لوگ جنھیں وہ
(مشرک) پکارتے ہیں ، تلاش کرتے ہیں وہ اپنے رب کی طرف ذریعۂ قرب کہ کون سا ان کا زیادہ قریب ہے
(اللہ سے)؟ اور امید رکھتے ہیں وہ اس کی رحمت کی اور ڈرتے ہیں وہ اس کے عذاب سے، بلاشبہ عذاب آپ کے رب کا
(واقعی) ہے ڈرنے کی چیز
(57)
#
{56} يقول تعالى: {قل} للمشركين بالله الذين اتَّخذوا من دونه أنداداً يعبُدونهم كما يعبدون الله، ويدعونهم كما يدعونَه ملزِماً لهم بتصحيح ما زعموه، واعتقدوه إن كانوا صادقين: {ادعوا الذين زعمتُم}: آلهة من دون اللَّه، فانظروا هل يَنْفَعونكم أو يدفَعون عنكم الضُّرَّ؟ فإنهم لا {يملِكونَ كشفَ الضُّرِّ عنكم}: من مرضٍ أو فقرٍ أو شدَّةٍ ونحو ذلك؛ فلا يدفعونَه بالكُلِّيَّة. ولا يملكون أيضاً تَحْويله من شخص إلى آخر، ومن شدَّة إلى ما دونها؛ فإذا كانوا بهذه الصفة؛ فلأيِّ شيءٍ تدعونَهم من دون الله؛ فإنَّهم لا كمالَ لهم ولا فعال نافعة؛ فاتِّخاذُهم نقصٌ في الدين والعقل وسَفَهٌ في الرأي.
ومن العجب أنَّ السَّفه عند الاعتياد والممارسة وتلقِّيه عن الآباء الضالِّين بالقبول يراه صاحبه هو الرأي السديد والعقل المفيد، ويرى إخلاصَ الدِّين لله الواحد الأحد الكامل المنعم بجميع النعم الظاهرة والباطنة هو السَّفه والأمر المتعجَّب منه؛ كما قال المشركون: {أجعلَ الآلهةَ إلهاً واحداً إنَّ هذا لشيءٌ عُجابٌ}.
[56] ﴿ قُ٘لِ﴾ ’’کہہ دیجیے۔‘‘ یعنی مشرکین سے ان کے اعتقاد کی صحت پر دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں ، جن کی یہ اسی طرح عبادت کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے، جن کو یہ اسی طرح پکارتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں … کہ اگر وہ سچے ہیں تو
﴿ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ﴾ ’’پکارو تم ان کو جن کو تم گمان کرتے ہو‘‘ یعنی جن کے بارے میں تم اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ معبود ہیں
﴿ مِّنْ دُوْنِهٖ﴾ ’’اللہ کو چھوڑ کر‘‘ پس غور کرو کہ آیا وہ تمھیں کوئی نفع دے سکتے ہیں یا تمھیں کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں ۔
﴿ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّ٘رِّ عَنْكُمْ﴾ ’’سو وہ نہیں اختیار رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا‘‘ یعنی یہ خود ساختہ معبود، فقر اور سختی وغیرہ کو بالکل دور نہیں کر سکتے۔
﴿ وَلَا تَحْوِیْلًا﴾ ’’اور نہ بدلنے کا‘‘ اور نہ یہ باطل معبود کسی سختی کو کسی ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہی کر سکتے ہیں ۔ پس جب ان باطل معبودوں کے یہ اوصاف ہیں تو تم اللہ کے سوا انھیں کس لیے پکارتے ہو؟ یہ کسی کمال کے مالک ہیں نہ افعال نافعہ کے۔ تب ان بے بس اور بے اختیار ہستیوں کو معبود بنانا عقل و دین کی کمی اور رائے کی سفاہت ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب انسان سفاہت میں تجربے کی وجہ سے اس کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کو اپنے گمراہ آباء و اجداد سے اخذ کرتا ہے تو اسی سفاہت کو انتہائی درست رائے اور عقل مندی سمجھنے لگتا ہے اور اس کے برعکس اللہ واحد کے لیے… جو تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے والا ہے… اخلاص کو سفاہت خیال کرتا ہے۔ یہ کتنا تعجب خیز معاملہ ہے،
جیسا کہ مشرکین کا قول ہے: ﴿ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ١ۖ ۚ اِنَّ هٰؔذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ﴾ (صٓ : 38؍5) ’’کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘
#
{57} ثم أخبر أيضاً أنَّ الذين يعبُدونهم من دون الله في شغل شاغل عنهم باهتمامهم بالافتقار إلى الله وابتغاء الوسيلة إليه؛ فقال: {أولئك الذين يَدْعونَ}: من الأنبياء والصالحين والملائكة، {يَبْتَغون إلى ربِّهم الوسيلةَ أيُّهم أقربُ}؛ أي: يتنافسون في القرب من ربِّهم، ويبذُلون ما يقدرون عليه من الأعمال الصالحة المقرِّبة إلى الله تعالى وإلى رحمتِه، {ويخافون عذابَه}: فيجتنبون كلَّ ما يوصِلُ إلى العذاب. {إنَّ عذاب ربِّك كان محذوراً}؛ أي: هو الذي ينبغي شدَّة الحذر منه والتوقِّي من أسبابه. وهذه الأمور الثلاثةُ الخوف والرجاء والمحبَّة التي وَصَفَ الله بها هؤلاء المقرَّبين عنده هي الأصل والمادَّة في كلِّ خير؛ فمن تَمَّتْ له؛ تَمَّتْ له أموره، وإذا خلا القلبُ منها؛ ترحَّلت عنه الخيرات، وأحاطت به الشرور.
وعلامة المحبَّة ما ذَكَرَهُ الله أن يجتهد العبدُ في كلِّ عَمَلٍ يقرِّبُه إلى الله، وينافس في قربه بإخلاص الأعمال كلِّها لله، والنُّصح فيها وإيقاعها في أكمل الوجوه المقدور عليها؛ فمن زعم أنه يحبُّ الله بغير ذلك؛ فهو كاذب.
[57] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اللہ کے سوا جن لوگوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ان سے بے خبر ہیں ،
وہ خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اوراس کی طرف وسیلہ کے متلاشی ہیں ۔ فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ﴾ ’’وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں ‘‘ یعنی انبیاء و صالحین اور فرشتے
﴿ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَ٘قْ٘رَبُ ﴾ ’’وہ ڈھونڈھتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ کون زیادہ نزدیک ہے‘‘ یعنی اپنے رب کے قرب کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مقدور بھر ایسے اعمال میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہیں
﴿وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ﴾ ’’اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ پس وہ ہر اس کام سے اجتناب کرتے ہیں جو عذاب کا موجب ہے۔
﴿ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًؔا﴾ ’’آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام اسباب سے بچا جائے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے موجب ہیں ۔
خوف، امید اور محبت، یہ تین امور جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مقربین کا وصف قرار دیا ہے، ہر بھلائی کی اساس ہیں ۔ جس نے ان تینوں امور کی تکمیل کر لی، اس کے تمام امور مکمل ہو گئے اور اگر قلب ان امور سے خالی ہے تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہو جائے گا اور برائیاں اس کو گھیر لیں گی اور اللہ تعالیٰ نے محبت الٰہی کی علامت یہ بتائی ہے کہ بندہ ہر اس کام میں جدوجہد کرتا ہے جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، خیرخواہی اور حتی المقدور ان کو بہترین طریقے سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے اس کے قرب کے حصول کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان تمام امور کے بغیر اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔
{وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (58)}.
اور نہیں کوئی بستی مگر ہم ہلاک کریں گے اسے پہلے دن قیامت سے یا عذاب دیں گے اسے عذاب شدید، ہے یہ کتاب میں لکھا ہوا
(58)
#
{58} أي: ما من قريةٍ من القُرى المكذِّبة للرسل إلاَّ لا بدَّ أن يصيبهم هلاكٌ قبل يوم القيامة أو عذابٌ شديدٌ، كتابٌ كتبه الله وقضاءٌ أبرمه لا بدَّ من وقوعه؛ فليبادر المكذِّبون بالإنابة إلى الله وتصديق رُسُلِهِ قبل أن تتمَّ عليهم كلمةُ العذاب ويحقَّ عليهم القول.
[58] یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلانے والی کوئی بستی ایسی نہیں جسے روز قیامت سے پہلے ہلاکت یا عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کی مقرر کردہ تقدیر ہے جس کا وقوع لازمی ہے، لہٰذا اس سے قبل کہ عذاب کا حکم آ جائے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو جائے تکذیب کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کے رسولوں کی تصدیق کریں ۔
{وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا (59) وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا (60)}.
اور نہیں منع کیا ہمیں
(اس سے) کہ بھیجیں ہم نشانیاں مگر
(اس بات نے) کہ جھٹلایا تھاان کو پہلے لوگوں نےاوردی تھی ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی
(نشانی) واضح، پس ظلم کیا انھوں نے اس کے ساتھ، اور نہیں بھیجتے ہم نشانیاں مگر ڈرانے کے لیے
(59) اور جب کہا ہم نے آپ سے ، کہ بے شک آپ کے رب نے گھیرا ہوا ہے لوگوں کواورنہیں بنایا ہم نے اس رؤیا
(دیکھنے) کو، وہ جو دکھایا ہم نے آپ کو مگر ایک آزمائش لوگوں کے لیےاور اس درخت
(زقوم) کو بھی جس پر لعنت کی گئی ہے قرآن میں، اور ہم ڈراتے ہیں انھیں ، پس نہیں بڑھاتا انھیں
(ہمارا ڈرانا) مگر زیادہ بڑی سرکشی ہی میں
(60)
#
{59} يذكر تعالى رحمته بعدم إنزاله الآيات التي يقترحُ بها المكذِّبون، وأنَّه ما منعه أن يرسِلَها إلاَّ خوفاً من تكذيبهم لها؛ فإذا كذَّبوا بها؛ عاجَلَهم العقابُ وحلَّ بهم من غير تأخيرٍ كما فعل بالأولين الذين كذبوا بها، ومن أعظم الآيات الآيةُ التي أرسلها الله إلى ثمود، وهي الناقة العظيمةُ الباهرة التي كانت تصدُرُ عنها جميع القبيلة بأجمعها، ومع ذلك كذَّبوا بها، فأصابهم ما قصَّ الله علينا في كتابه. وهؤلاء كذلك؛ لو جاءتهم الآيات الكبار؛ لم يؤمنوا؛ فإنَّه ما منعهم من الإيمان خفاءُ ما جاء به الرسول واشتباهه هل هو حقٌّ أو باطل؟ فإنه قد جاء من البراهين الكثيرة ما دلَّ على صحَّة ما جاء به الموجب لهداية مَنْ طلب الهداية؛ فغيرُها مثلُها، فلا بدَّ أن يسلكوا بها ما سلكوا بغيرها، فتركُ إنزالها والحالة هذه خيرٌ لهم وأنفع. وقوله: {وما نرسل بالآيات إلا تخويفاً}؛ أي: لم يكن القصدُ بها أن تكون داعيةً وموجبةً للإيمان الذي لا يحصُلُ إلاَّ بها، بل المقصود منها التخويف والترهيب؛ ليرتدِعوا عن ما هم عليه.
[59] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے اہل تکذیب کے مطالبے کے مطابق معجزات نازل نہیں فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے صرف اس وجہ سے معجزات ارسال نہیں فرمائے کہ وہ ان کو جھٹلا دیں گے اور جب یہ ان معجزات کو جھٹلا دیں گے تو ان پر بغیر کسی تاخیر کے فوراً عذاب نازل ہو جائے گا، جیسا کہ پہلے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا جنھوں نے معجزات کی تکذیب کی اور سب سے بڑا معجزہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ثمود کی طرف ارسال کیا وہ عظیم اونٹنی تھی کہ جس کے پانی پینے کے دن تمام قبیلے کو پانی نہ ملتا تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے اس کی تکذیب کی اور اس کی پاداش میں ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑا جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح اگر ان کے پاس بڑے بڑے معجزات آتے، تب بھی یہ ایمان نہ لاتے۔ اس لیے کہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ چیز ان سے اوجھل اور ان پر مشتبہ ہو گئی جو رسول لے کر آیا تھا کہ آیا یہ حق ہے یا باطل کیونکہ رسول تو ان کے پاس بے شمار دلائل و براہین لے کر آیا ہے جو اس کی دعوت کی حقانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ یہ دعوت اس شخص کی ہدایت کی موجب ہے جو ہدایت کا طلب گار ہے ان کے سوا دیگر معجزات و براہین بھی انھی دلائل کی مانند ہیں جو رسول اللہe پیش کر چکے ہیں انھوں نے جو سلوک ان کے ساتھ کیا تھا ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے اور ان کی حالت یہ ہو تو معجزات کا نازل نہ کرنا ان کے لیے بہتر اور فائدہ مند ہے۔
﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا﴾ ’’اور نہیں بھیجتے ہم نشانیاں مگر ڈرانے کے لیے‘‘ یعنی ان آیات کا یہ مقصد نہ تھا کہ یہ ایمان کی موجب اور اس کی طرف دعوت دیتی تھیں اور ایمان کا حصول ان کے بغیر ممکن نہ تھا بلکہ ان آیات کا مقصد صرف تخویف و ترہیب تھا تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں ۔
#
{60} {وإذ قلنا لك إنَّ ربَّك أحاط بالناس}: علماً وقدرةً؛ فليس لهم ملجأ يلجؤون إليه ولا ملاذٌ يلوذون به عنه، وهذا كافٍ لمن له عقلٌ في الانكفاف عما يكرهه الله الذي أحاط بالناس، {وما جَعَلْنا الرؤيا التي أرَيْناك}: أكثر المفسرين على أنَّها ليلة الإسراء، {والشجرةَ الملعونةَ}: التي ذكرت {في القرآن}: وهي شجرة الزقُّوم التي تَنْبُتُ في أصل الجحيم.
والمعنى: إذا كان هذان الأمران قد صارا فتنةً للناس، حتى استلجَّ الكفَّار بكفرهم وازداد شرُّهم، وبعض مَن كان إيمانُهُ ضعيفاً رجع عنه، بسبب أنَّ ما أخبرهم به من الأمور التي كانت ليلة الإسراء، ومن الإسراء من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى كان خارقاً للعادة، والإخبار بوجود شجرةٍ تَنْبُتُ في أصل الجحيم أيضاً من الخوارق؛ فهذا الذي أوجب لهم التكذيب؛ فكيفَ لو شاهدوا الآيات العظيمة والخوارق الجسيمة؟! أليس ذلك أولى أن يزداد بسببه شرُّهم؛ فلذلك رحمهم الله وصرفها عنهم. ومن هنا تعلمُ أنَّ عدم التصريح في الكتاب والسنة بذكر الأمورِ العظيمة التي حَدَثَتْ في الأزمنة المتأخِّرة أولى وأحسن؛ لأنَّ الأمور التي لم يشاهِدِ الناس لها نظيراً ربَّما لا تقبلها عقولُهم، [لو أُخْبِرُوا بها قبل وُقُوعِها] فيكون ذلك ريباً في قلوب بعض المؤمنين ومانعاً يمنعُ من لم يدخُل الإسلام ومنفراً عنه، بل ذكر الله ألفاظاً عامَّة تتناول جميع ما يكون. والله أعلم. {ونخوِّفُهم}: بالآيات، {فما يزيدهم}: التخويف {إلاَّ طغياناً كبيراً}: وهذا أبلغ ما يكون في التحلِّي بالشرِّ ومحبَّته وبغض الخير وعدم الانقياد له.
[60] ﴿ وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ﴾ ’’اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ پس ان کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں جہاں یہ چھپ سکیں اور کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں اللہ سے بھاگ کر پناہ لے سکیں اور یہ چیز عقل مند کے لیے ان امور سے باز رہنے کے لیے کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں جس نے تمام لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔
﴿ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَ٘ا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾ ’’اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے۔‘‘ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد شب معراج ہے۔
﴿ وَالشَّجَرَةَ الْ٘مَلْعُوْنَةَ فِی الْ٘قُ٘رْاٰنِ﴾ ’’اور
(ایسے ہی) وہ درخت جس پر قرآن میں پھٹکار ہے‘‘ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد زقوم
(تھوہر) کا پودا ہے جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے… معنی یہ ہے کہ یہ دونوں امور لوگوں کے لیے آزمائش بن گئے یہاں تک کہ کفار اپنے کفر پر جم گئے اور ان کا شر اور زیادہ ہو گیا جب آپ نے ان کو بعض امور کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ فرمایا تھا اور آپ نے خبر دی تھی کہ ’’مجھے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا‘‘ جو ایک خارق عادت واقعہ تھا تو بعض کمزور ایمان مومن اپنے ایمان سے پھر گئے۔ زقوم کے پودے کے بارے میں خبر دینا، جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے، یہ بھی ایک خارق عادت معاملہ ہے جو ان کے لیے تکذیب کا موجب بنا۔ پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں اور بڑے بڑے خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کر لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ اور اس کے سبب سے ان کے شر میں اضافہ نہ ہو جاتا؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان خوارق کو ان سے ہٹا دیا۔ یہیں سے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑے امور کا قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ مذکور نہ ہونا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ وہ امور جن کی نظیر کا لوگوں نے مشاہدہ نہ کیا ہو بسا اوقات ان کی عقل ان کو قبول نہیں کر پاتی اور یوں یہ چیز بعض اہل ایمان کے دلوں میں شکوک و شبہات کا باعث بنتی ہے اور ایسا مانع
(رکاوٹ) بن جاتی ہے جو لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتی ہے اور ان کو اسلام سے متنفر کرتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام الفاظ استعمال كيے ہیں جو تمام امور کو شامل ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
﴿ وَنُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا ﴾ ’’اور ہم ان کو ڈراتے ہیں
(نشانیوں کے ساتھ) تو وہ ان کو بڑی شرارتوں میں زیادہ ہی کرتی ہیں ۔‘‘ تخویف ان کی سرکشی کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے اور شر کی محبت اور خیر سے بغض رکھنے اور خیر کی عدم پیروی کے بارے میں یہ بلیغ ترین پیرایہ ہے۔
{وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا (61) قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا (62) قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا (63) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا (65)}.
اور جب کہا ہم نے فرشتوں سے، سجدہ کرو تم آدم کو تو سجدہ کیا انھوں نے سوائے ابلیس کے، اس نے کہا، کیا سجدہ کروں میں اسے جسے پیدا کیا ہے تو نے مٹی سے؟
(61)ابلیس نے کہا، دیکھ تو یہ شخص جسے بزرگی دی ہے تو نے مجھ پر البتہ اگر مہلت دی تو نے مجھے روز قیامت تک تو البتہ ضرور جڑ سے اکھیڑ دوں گا اس کی اولاد کو، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے
(62) اللہ نے فرمایا: جا، پھر جو کوئی پیروی کرے گا تیری ان میں سے، تو بلاشبہ جہنم ہی سزا ہے تمھاری، سزا پوری پوری
(63) اور بہکا لے جس کو تو استطاعت رکھتا ہے ان میں سے ، ساتھ اپنی آواز کےاورکھینچ لا ان پر سوار اپنے اور پیا دے اپنےاور شریک
(ساجھی) بن جا تو ان کا مالوں اور اولاد میں او روعدے دے انھیں
(جھوٹے)اور نہیں وعدہ دیتا انھیں شیطان مگر فریب ہی کا
(64) بے شک میرے بندے، نہیں ہے واسطے تیرے ان پر کوئی غلبہ اور کافی ہے آ پ کا رب بطور کارساز
(65)
#
{61} ينبِّه تبارك وتعالى عباده على شدَّة عداوة الشيطان وحرصه على إضلالهم، وأنَّه لما خَلَقَ الله آدم؛ استكبر عن السجود له و {قال} متكبِّراً: {أأسجُدُ لمن خلقتَ طيناً}؛ أي: من طين، وبزعمه أنَّه خيرٌ منه؛ لأنه خُلِقَ من نارٍ، وقد تقدَّم فساد هذا القياس الباطل من عدة أوجه.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کی سخت عداوت اور اس کی بندوں کو گمراہ کرنے کی بے پناہ حرص کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب اس نے آدمu کو تخلیق کیا تو شیطان نے تکبر کا اظہار کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
﴿ قَالَ﴾ اور نہایت تکبر سے کہا:
﴿ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ ’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی کا بنایا‘‘ یعنی جس کو تو نے گارے سے پیدا کیا اور بزعم خود وہ آدم سے بہتر ہے کیونکہ اسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ گزشتہ صفحات میں متعدد پہلوؤں سے اس قیاس باطل کی خرابی بیان کی جا چکی ہے۔
#
{62} فلما تبين لإبليس تفضيل الله لآدم؛ {قال} مخاطباً لله: {أرأيتَكَ هذا الذي كرَّمْتَ عليَّ لئنْ أخَّرْتَنِ إلى يوم القيامةِ لأحتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ}؛ أي: لأستأصلَنَّهم بالإضلال ولأغْوِيَنَّهم، {إلاَّ قليلاً}: عرف الخبيثُ أنَّه لا بدَّ أن يكون منهم من يعاديه ويعصيه.
[62] جب ابلیس پر واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدمu کو فضیلت بخشی ہے
﴿ قَالَ ﴾ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
﴿ اَرَءَیْتَكَ هٰؔذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ١ٞ لَىِٕنْ اَخَّ٘رْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَ٘نَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ ﴾ ’’بھلا یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے، اگر تو مجھے قیامت تک ڈھیل دے دے تو میں اس کی اولاد کو اپنے بس میں کر لوں گا‘‘ یعنی میں ضلالت کے ذریعے سے ضرور ان کو تباہ کروں گا اور ضرور ان کو سیدھے راستے سے بھٹکاؤں گا۔
﴿ اِلَّا قَلِیْلًا ﴾ ’’سوائے تھوڑے لوگوں کے‘‘ اس خبیث کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بنی آدم میں سے کچھ لوگ ضرور ایسے ہوں گے جو اس سے عداوت رکھیں گے اور اس کی بات نہیں مانیں گے۔
#
{63} فقال الله له: {اذهبْ فمن تبعك منهم}: واختارك على ربِّه ووليِّه الحقِّ. {فإنَّ جهنَّم جزاؤكم جزاءً موفوراً}؛ أي: مدَّخراً لكم موفَّراً جزاء أعمالكم.
[63] اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا:
﴿اذْهَبْ فَ٘مَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ ﴾ ’’جا، ان میں سے جس نے تیری پیروی کی‘‘ اور اپنے رب اور اپنے حقیقی سرپرست کو چھوڑ کر تجھے چن لیا۔
﴿فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءًؔ مَّوْفُوْرًؔا﴾ ’’پس تم سب کی سزا جہنم ہے، سزا پوری‘‘ یعنی تمھارے لیے تمھارے اعمال کی پوری پوری جزا جمع کر دی گئی ہے۔
#
{64} ثم أمره الله أن يفعلَ كلَّ ما يقدِرُ عليه من إضلالهم، فقال: {واستفزِزْ من استطعتَ منهم بصوتِكَ}: ويدخل في هذا كلُّ داعٍ إلى المعصية، {وأجْلِبْ عليهم بخيلِكَ ورَجِلكَ}: ويدخل فيه كلُّ راكبٍ وماشٍ في معصية الله؛ فهو من خيل الشيطان ورَجِلِهِ. والمقصود أنَّ الله ابتلى العباد بهذا العدوِّ المبين الداعي لهم إلى معصية الله بأقواله وأفعاله. {وشارِكْهم في الأموال والأولاد}: وذلك شاملٌ لكلِّ معصية تعلَّقت بأموالهم وأولادهم من منع الزكاة والكفَّارات والحقوق الواجبة، وعدم تأديب الأولاد وتربيتهم على الخير وترك الشرِّ، وأخذ الأموال بغير حقِّها أو وضعها بغير حقِّها أو استعمال المكاسب الرديَّة، بل ذَكَرَ كثيرٌ من المفسِّرين أنه يدخُلُ في مشاركة الشيطان في الأموال والأولادِ تركُ التسمية عند الطعام والشراب والجماع، وأنَّه إذا لم يُسَمِّ الله في ذلك؛ شارك فيه الشيطان؛ كما ورد فيه الحديث. {وعِدْهم}: الأوعادَ المزخْرَفَة التي لا حقيقة لها، ولهذا قال: {وما يَعِدُهُم الشيطانُ إلاَّ غروراً}؛ أي: باطلاً مضمحلًّا؛ كأن يزيِّن لهم المعاصي والعقائد الفاسدة، ويعدهم عليها الأجر؛ لأنَّهم يظنُّون أنَّهم على الحق، وقال تعالى: {الشيطان يَعِدُكُم الفقر ويأمُرُكم بالفحشاءِ والله يَعِدُكُم مغفرةً منه وفضلاً}.
[64] پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے پورا زور لگا لے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ﴾ ’’اور بہکا لے ان میں سے جس کو تو بہکا سکے اپنی آواز سے۔‘‘ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے۔
﴿ وَاَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَرَجِلِكَ﴾ ’’اور لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادے۔‘‘ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی معصیت میں سوار ہو کر یا پیدل بھاگ دوڑ کرتا ہے، شیطان کے سواروں اور پیادوں میں داخل ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کھلے دشمن کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے جو اپنے قول و فعل کے ذریعے سے ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے
﴿ وَشَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ﴾ ’’اور ساجھا کر ان سے مالوں میں اور اولاد میں ۔‘‘ اس میں ہر وہ معصیت شامل ہے جو ان کے مال اور اولاد سے متعلق ہے،
مثلاً:زکاۃ، کفارات، حقوق واجبہ ادا نہ کرنا، اولاد کی بھلائی اختیار کرنے اور شر کو ترک کرنے کی تربیت نہ کرنا، ناحق مال لینا یا مال کو ناحق خرچ کرنا اور روزگار میں حرام ذریعے اختیار کرنا وغیرہ بلکہ بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ کھانا کھاتے، پانی پیتے اور جماع کرتے وقت بسم اللہ سے ابتدا نہ کرنا، مال اور اولاد میں شیطان کو شریک کرنے میں داخل ہے کیونکہ حدیث
(صحیح البخاري، الأطعمۃ، باب التسمیۃ… الخ، حدیث: 5376) میں وارد ہے کہ ان مذکورہ کاموں میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس میں شیطان شریک ہو جاتا ہے۔
﴿ وَعِدْهُمْ﴾ یعنی ان کے ساتھ سجا سجا کر جھوٹے وعدے کر جن کی کوئی حقیقت نہیں ،
بنا بریں فرمایا: ﴿ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اِلَّا غُ٘رُوْرًؔا ﴾ ’’شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے، وہ فریب ہوتا ہے‘‘ یعنی شیطان ان کے ساتھ جو وعدہ کرتا ہے وہ محض جھوٹا اور انتہائی بودا ہوتا ہے، جیسے وہ ان کے سامنے معاصی اور عقائد فاسدہ کو سجا کر پیش کرتا ہے،
ان پر اجر کا وعدہ کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ اَلشَّ٘یْطٰ٘نُ یَعِدُؔكُمُ الْ٘فَقْ٘رَ وَیَ٘اْمُرُؔكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَاللّٰهُ یَعِدُؔكُمْ مَّغْفِرَةً مِّؔنْهُ وَفَضْلًا﴾ (البقرۃ:2؍268) ’’شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمھیں فحش کام کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمھیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘
#
{65} ولما أخبر عما يريد الشيطان أن يفعل بالعباد؛ ذَكَرَ ما يُعْتَصَمُ به من فتنته، وهو عبوديَّة الله والقيام بالإيمان والتوكُّل، فقال: {إنَّ عبادي ليس لك عليهم سلطانٌ}؛ أي: تسلُّط وإغواءٌ، بل الله يدفع عنهم بقيامهم بعبوديَّته كلَّ شرٍّ، ويحفظُهم من الشيطان الرجيم، ويقوم بكفايتهم. {وكفى بربِّك وكيلاً}: لمن توكَّل عليه، وأدَّى ما أمر به.
[65] یہ خبر دینے کے بعد کہ شیطان بندوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے سے اس کے فتنے سے بچا جا سکتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عبودیت، ایمان پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ پر توکل،
چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ عِبَادِیْ لَ٘یْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْ٘طٰ٘نٌ﴾ ’’بے شک میرے بندوں پر تجھے غلبہ نہیں ہوگا‘‘ یعنی تجھے ان پر کوئی تسلط ہو گا نہ تو ان کو بھٹکا سکے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے قیام عبودیت کی بنا پر ان سے ہر قسم کے شر کو دور ہٹا دے گا، شیطان مردود سے ان کی حفاظت کرے گا اور ان کے لیے کافی ہو جائے گا۔
﴿ وَكَ٘فٰى بِرَبِّكَ وَؔكِیْلًا ﴾ ’’اور آپ کا رب کافی ہے بطور کارساز‘‘ یعنی جو کوئی اس پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے تو آپ کا رب اس کا کارساز ہے اور اس کے لیے کافی ہے۔
{رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (66) وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا (67) أَفَأَمِنْتُمْ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا (68) أَمْ أَمِنْتُمْ أَنْ يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا (69)}.
تمھارا رب تو وہ ہے جو چلاتا ہے تمھارے لیے کشتیاں سمندر میں تاکہ تلاش کرو تم فضل
(رزق) اس کا بے شک وہ ہے تمھارے ساتھ بہت رحم کرنے والا
(66) اور جب پہنچتی ہے تمھیں تکلیف سمندر میں تو گم ہو جاتے ہیں وہ جنھیں تم پکارتے ہو سوائے اس ایک اللہ کے، پھر جب وہ نجات دیتا ہے تمھیں خشکی کی طرف تو منہ پھیر لیتے ہو تم اور ہے انسان نہایت ناشکرا
(67) کیا پس بے خوف ہو گئے ہو تم اس سے کہ وہ دھنسا دے تمھیں ایک جانب خشکی کے یا بھیج دے تم پر سنگ ریزوں والی سخت ہوا؟ پھر نہ پاؤ تم اپنے لیے کوئی کار ساز
(68) یا بے خوف ہو گئے ہو تم اس سے کہ و ہ لوٹا دے تمھیں اسی
(سمندر) میں دوسری بار، پھر وہ بھیجے تم پر توڑ پھوڑ دینے والی ہوا کہ وہ غرق کر دے تمھیں بوجہ اس کے کہ کفر کیا تم نے، پھر نہ پاؤ تم اپنے لیے ہم پر بدلے اس کے کوئی پیچھا کرنے والا؟
(69)
#
{66} يذكر تعالى نعمته على العباد بما سخَّر لهم من الفُلك والسفن والمراكب، وألهمهم كيفيَّة صنعتها وسخَّر لها البحر الملتطم يحملها على ظهره؛ لينتفع العباد بها في الركوب والحمل للأمتعة والتجارة، وهذا من رحمته بعباده؛ فإنَّه لم يزْل بهم رحيماً رءوفاً، يؤتيهم من كلِّ ما تعلَّقت به إرادتهم ومنافعهم.
[66] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کشتیوں ، سفینوں اور دیگر سواریوں کو مسخر کر دیا اور ان کو الہام کے ذریعے سے کشتی سازی کی صنعت ودیعت کی، موجیں مارتا ہوا سمندر ان کے لیے مسخر کر دیا جس کی پیٹھ پر یہ سفینے تیرتے پھرتے ہیں تاکہ بندے اس پر سوار ہوں اور اپنے مال ومتاع کی نقل و حمل میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت ہے وہ ہمیشہ سے ان پر بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ انھیں ہر وہ چیز عنایت کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتے ہیں اور جس کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔
#
{67} ومن رحمته الدالَّة على أنَّه وحده المعبود دون ما سواه أنَّهم إذا مسَّهم الضُّرُّ في البحر، فخافوا من الهلاك لتراكُم الأمواج؛ ضلَّ عنهم ما كانوا يدعون من دون الله في حال الرَّخاء من الأحياء والأموات، فكأنُّهم لم يكونوا يدعونهم في وقتٍ من الأوقات؛ لعلمهم أنَّهم ضعفاء عاجزون عن كشف الضُّرِّ، وصرخوا بدعوة فاطر الأرض والسماوات، الذي تستغيث به في شدائدها جميعُ المخلوقات، وأخلصوا له الدعاء والتضرُّع في هذه الحال، فلما كَشَفَ الله عنهم الضُّرَّ ونجَّاهم إلى البَرِّ؛ نسوا ما كانوا يدعون إليه من قبل، وأشركوا به مَنْ لا ينفع ولا يضرُّ ولا يعطي ولا يمنع، وأعرضوا عن الإخلاص لربِّهم ومليكهم.
وهذا من جهل الإنسان وكفرِهِ؛ فإنَّ الإنسان كفورٌ للنِّعم؛ إلاَّ مَن هدى الله فمنَّ عليه بالعقل السليم واهتدى إلى الصراط المستقيم؛ فإنَّه يعلم أنَّ الذي يكشف الشدائد، وينجِّي من الأهوال هو الذي يستحقُّ أن يُفْرَدَ، وتُخْلَصَ له سائر الأعمال في الشدَّة والرَّخاء واليُسر والعُسر، وأما من خُذِلَ ووُكِلَ إلى عقله الضعيف؛ فإنَّه لم يلحَظْ وقت الشدَّة إلاَّ مصلحته الحاضرة وإنجاءه في كلِّ تلك الحال، فلما حصلتْ له النجاةُ وزالت عنه المشقَّة؛ ظنَّ بجهله أنَّه قد أعجز الله، ولم يَخْطُرْ بقلبه شيء من العواقب الدنيويَّة فضلاً عن أمور الآخرة.
[67] اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جو یہ دلالت کرتی ہے کہ باطل معبودوں کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے۔ جب سمندر میں انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نیچے بلند ہوتی ہوئی موجوں کی وجہ سے جب وہ ہلاکت سے ڈرتے ہیں تو وہ ان تمام زندہ اور مردہ معبودوں کو بھول جاتے ہیں جنھیں وہ اپنی خوش حالی میں اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے… اس وقت تو ایسے لگتا ہے جیسے انھوں نے کسی وقت بھی ان کمزور معبودوں کو نہیں پکارا جو کسی قسم کی تکلیف دور کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کائنات کو پیدا کرنے والے کو پکارتے ہیں جس کو تمام مخلوق اپنی سختیوں میں مدد کے لیے پکارتی ہے اور وہ اس حال میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے اور اسی کی سامنے گڑگڑاتے ہیں ۔
پس جب اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت دور کر دیتا ہے اور انھیں صحیح سلامت کنارے پر لگا کر سمندر کی ہلاکت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں جو انھوں نے اللہ کو پکارا تھا، پھر وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کر سکتی ہیں نہ کسی کو محروم کر سکتی ہیں اور اپنے رب اور مالک سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ یہ انسان کی جہالت اور نا سپاسی ہے۔ بے شک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سخت ناسپاس ہے، سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ راہ راست دکھا دے۔ پس اسے عقل سلیم سے نواز دیتا ہے اور وہ راہ راست پر گامزن ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو مصیبتیں دور کرتا ہے، اہوال سے نجات دیتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ سختی اور نرمی میں ، خوشحالی اور تنگدستی میں تمام اعمال کو صرف اسی کے لیے خالص کیا جائے۔ رہا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ اس کی کمزور عقل کے حوالے کر دے تو وہ مصیبت اور سختی کے وقت صرف موجودہ اور عارضی مصلحت کو ملحوظ اور اس حال میں اپنی نجات کو مدنظر رکھتا ہے اور جب اسے اس مصیبت سے نجات حاصل ہوتی ہے اور اس سے سختی دور ہو جاتی ہے تو وہ اپنی حالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو بے بس کر دیا اور اس کے دل میں آخرت کا خیال تو کجا اسے اپنے دنیاوی انجام کے بارے میں بھی کبھی خیال نہیں آتا۔
#
{68 ـ 69} ولهذا ذكَّرهم الله بقولِهِ: {أفأمِنتُم أن يخسِفَ بكم جانبَ البَرِّ أو يرسلَ عليكم حاصباً}؛ أي: فهو على كل شيء قديرٌ، إن شاء أنزل عليكم عذاباً من أسفلَ منكم بالخسفِ، أو من فوقِكم بالحاصب، وهو العذابُ الذي يَحصُبُهم فيصبحوا هالكين؛ فلا تظنُّوا أنَّ الهلاك لا يكون إلا في البحر، وإنْ ظننتُم ذلك؛ فأنتم آمنون من {أن يعيدكم}: في البحر؛ {تارةً أخرى فيرسل عليكم قاصِفاً من الريح}؛ أي: ريحاً شديدةً جدًّا تقصف ما أتت عليه، {فيغرِقَكم بما كفرتم ثم لا تَجِدوا لكم علينا به تبيعاً}؛ أي: تبعة ومطالبة؛ فإنَّ الله لم يظلمْكُم مثقال ذرَّة.
[69,68] اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کہہ کر یاد دہانی کروائی ہے۔
﴿ اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْـبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ﴾ ’’کیا تم
(اس سے) بے خوف ہو کہ اللہ تمھیں خشکی کی طرف
(لے جا کر زمین میں ) دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کی بھری ہوئی آندھی چلادے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اگر وہ چاہے تو تمھیں عذاب کے طور پر زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی طوفانی ہوا بھیج دے اور یہ وہ عذاب ہے جو ان کو پہنچے گا اور وہ سب ہلاک ہو جائیں اس لیے یہ نہ سوچو کہ سمندر کے سوا کہیں اور عذاب نہیں آسکتا اور اگر تم یہی سمجھتے ہو تو کیا تم اس بات سے محفوظ ہو کہ
﴿ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰؔى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ ﴾ ’’وہ تمھیں پھر سمندر میں لے جائے دوسری مرتبہ، پھر بھیجے وہ تم پر سخت ہوا کا جھونکا‘‘ یعنی سخت تیز ہوا جو جہاں سے گزرے ہر چیز کو توڑ کر رکھ دے۔
﴿ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ١ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا ﴾ ’’پس وہ تمھیں تمھاری ناشکری کی وجہ سے غرق کر دے، پھر نہ پاؤ تم اپنی طرف سے ہم پر اس کا کوئی باز پرس کرنے والا‘‘ یعنی کوئی تاوان اور مطالبہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذرہ بھر تم پر ظلم نہیں کیا۔
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (70)}.
اور البتہ تحقیق عزت دی ہم نے بنی آدم کو اور سوار کیا ہم نے انھیں خشکی اور تری میں اور رزق دیا ہم نے ان کو پاکیزہ
(چیزوں ) سےاور فضیلت دی ہم نے ان کو اوپر بہت سی
(مخلوقات) کے ان میں سے جن کو پیدا کیا ہم نے، فضیلت بڑی
(70)
#
{70} وهذا من كرمِهِ عليهم وإحسانه الذي لا يقادَرُ قَدْرُهُ؛ حيث كرَّم بني آدم بجميع وجوه الإكرام، فكرَّمهم بالعلم والعقل وإرسال الرسل وإنزال الكتب، وجعل منهم الأولياءَ والأصفياء، وأنعم عليهم بالنِّعم الظاهرة والباطنة، {وحَمَلْناهم في البرِّ}: على الركاب من الإبل والبغال والحمير والمراكب البريَّة. وفي {البحر}: في السفن والمراكب، {ورَزَقْناهم من الطيبات}: من المآكل والمشاربِ والملابس والمناكح؛ فما من طيب تتعلَّق به حوائجهم إلاَّ وقد أكرمهم الله به ويسَّره لهم غاية التيسيرِ، {وفضَّلْناهم على كثيرٍ ممَّن خَلَقْنا تفضيلاً}: بما خصَّهم به من المناقب وفضَّلهم به من الفضائل التي ليست لغيرهم من أنواع المخلوقات، أفلا يقومون بشكر مَنْ أولى النعم ودَفَعَ النِّقم ولا تحجبهم النِّعم عن المنعم فيشتغلوا بها عن عبادة ربِّهم، بل ربَّما استعانوا بها على معاصيه؟!
[70] یہ اس کا بے پناہ کرم و احسان ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے بنی آدم کو ہر لحاظ سے عزت و تکریم سے نوازا۔ انھیں علم و عقل عطا کر کے، انبیاء و ورسل بھیج کراور ان پرکتابیں نازل کر کے اکرام بخشا، ان میں سے اپنے اولیاء اور دیگر چنے ہوئے بندے پیدا كيے اور ان کو اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔
﴿ وَحَمَلْنٰهُمْ فِی الْـبَرِّ ﴾ ’’اور ہم نے سواری دی ان کو خشکی میں ‘‘ یعنی ہم نے انھیں اونٹوں ، خچروں ، گدھوں اور دیگر زمینی سواریوں پر سوار کرایا۔
﴿وَالْبَحْرِ ﴾ ’’اور دریا میں ‘‘ یعنی ہم نے انھیں بحری جہازوں اور کشتیوں پر سوار کرایا۔
﴿ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ ﴾ ’’اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے روزی دی‘‘ یعنی ہم نے انھیں ماکولات، مشروبات، ملبوسات اور بیویاں عطا کیں ، چنانچہ ہر وہ پاک چیز جس کے ساتھ ان کی ضروریات وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ان کو مشرف فرمایا اور اس کا حصول ان کے لیے نہایت آسان کر دیا۔
﴿ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ ’’اور ہم نے بہت سی مخلوق پر ان کو بڑی فضیلت عطا کی‘‘ یعنی ہم نے انھیں بہت سے مناقب کے ذریعے سے خصوصی اعزاز بخشا اور انھیں بہت سے فضائل عطا كيے جو مختلف اقسام کی دیگر مخلوقات کو عطا نہیں كيے، پھر وہ اس ہستی کا شکر کیوں نہیں کرتے جس نے نعمتیں عطا کیں ، تکالیف دور کیں ؟ یہ نعمتیں انھیں اللہ تعالیٰ سے محجوب نہ کریں کہ وہ ان نعمتوں میں مشغول ہو کر اپنے رب کی عبادت سے غافل ہو جائیں بلکہ بسااوقات انھوں نے ان نعمتوں کو اپنے رب کی نافرمانی میں استعمال کیا۔
{يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (71) وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (72)}.
جس دن بلائیں گے ہم تمام انسانوں کو ان کے امام کے ساتھ، پس جو شخص کہ دیا گیا اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں ، سو یہی لوگ پڑھیں گے اعمال نامے اپنے اور نہ ظلم کیے جائیں گے وہ تاگے برابر بھی
(71) اور جو کوئی ہے اس
(دنیا) میں اندھا تو وہ ہو گا آخرت میں بھی اندھا اور بہت زیادہ بھٹکا ہوا راہ سے
(72)
#
{71} يخبر تعالى عن حال الخلق يوم القيامة، وأنه يدعو كلَّ أناس معهم إمامهم وهاديهم إلى الرُّشد، وهم الرسل ونوابهم، فتعرض كلُّ أمة، ويحضرها رسولهم الذي دعاهم، وتعرض أعمالهم على الكتاب الذي يدعو إليه الرسول هل هي موافقة له أم لا؟ فينقسمون بهذا قسمين: {فمن أوتي كتابه بيمينه}: لكونه اتَّبع إمامه الهادي إلى صراطٍ مستقيم، واهتدى بكتابه، فكثرت حسناتُه، وقلَّت سيئاتُه؛ {فأولئك يقرؤون كتابهم}: قراءة سرورٍ وبهجة على ما يرون فيها مما يفرِحُهم ويسرُّهم، {ولا يُظلمون فتيلاً}: ممّا عملوه من الحسنات.
[71] قیامت کے روز مخلوق کا جو حال ہو گا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو
(اپنی عدالت میں ) بلائے گا ان کے ساتھ ان کے امام اور رشد و ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے راہ نما یعنی انبیاء و مرسلین اور ان کے نائبین بھی ہوں گے۔ پس ہر امت اللہ کے حضور پیش ہو گی اور اس امت کو وہی رسول، اللہ کے حضور پیش کرے گا جس نے دنیا میں اسے دعوت توحید پیش کی تھی۔ ان کے اعمال اس کتاب کے سامنے پیش كيے جائیں گے، جسے لے کر رسول اس امت میں مبعوث ہوا تھا کہ آیا ان کے اعمال اس کتاب کے موافق ہیں یا نہیں ۔ تب یہ لوگ دو قسم کے گروہوں میں منقسم ہو جائیں گے۔
﴿ فَ٘مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ ﴾ ’’پس جس کو ملا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں ‘‘ کیونکہ اس نے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اپنے ہادی و راہنما کی پیروی کی تھی اور اس کی کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنایا تھا تب اس کی نیکیاں بڑھ گئیں اور اس کے گناہ کم ہو گئے۔
﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ یَقْرَءُوْنَؔ كِتٰبَهُمْ ﴾ ’’پس وہ
(خوش خوش) اپنے اعمال نامے کو پڑھیں گے‘‘ کیونکہ وہ اس اعمال نامے میں ایسی چیزیں دیکھیں گے جنھیں دیکھ کر انھیں فرحت و سرور حاصل ہو گا۔
﴿ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا ﴾ ’’اور ان پر ایک دھاگے برابر ظلم نہیں ہوگا‘‘ یعنی انھوں نے جو نیک عمل كيے ہیں اس بارے میں ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
#
{72} {ومن كان في هذه}: الدنيا {أعمى}: عن الحقِّ؛ فلم يقبَلْه ولم ينقدْ له، بل اتَّبع الضلال، {فهو في الآخرة أعمى}: عن سلوك طريق الجنَّة كما لم يسلكه في الدنيا، {وأضلُّ سبيلاً}: فإنَّ الجزاء من جنس العمل، وكما تَدين تُدان.
وفي هذه الآية دليل على أنَّ كلَّ أمة تُدعى إلى دينها وكتابها وهل عملت به أم لا؟ وأنهم لا يؤاخذون بشرع نبيٍّ لم يؤمروا باتِّباعه، وأنَّ الله لا يعذِّب أحداً إلاَّ بعد قيام الحجَّة عليه ومخالفته لها، وأنَّ أهل الخير يعطَوْن كتبهم بأيمانهم، ويحصُلُ لهم من الفرح والسرور شيءٌ عظيم، وأنَّ أهل الشرِّ بعكس ذلك، وأنهم لا يقدِرون على قراءة كتبهم من شدَّة غمِّهم وحزنهم وثبورهم.
[72] ﴿ وَمَنْ كَانَ فِیْ هٰؔذِهٖۤ ﴾ اور جو رہا اس دنیا میں
﴿ اَعْمٰؔى ﴾ ’’اندھا‘‘ یعنی حق کے دیکھنے سے۔ پس اس نے حق کو قبول کیا نہ اس کی پیروی کی بلکہ وہ گمراہی کے راستے پر چلتا رہا
﴿ فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰؔى ﴾ ’’تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا‘‘ یعنی جس طرح وہ دنیا میں جنت کے راستے پر گامزن نہ ہوا اسی طرح وہ آخرت میں بھی جنت کے راستے کو دیکھ نہ سکے گا
﴿ وَاَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ ’’اور بہت دور پڑا ہوا راستے سے‘‘ کیونکہ عمل کی جزا بھی اسی کی جنس سے ہوتی ہے، یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر امت کو اس کے دین اور کتاب کی طرف بلایا جائے گا کہ آیا اس نے اس کتاب کے مطابق عمل کیا یا نہیں ؟ ان کا کسی ایسے نبی کی شریعت کے مطابق مواخذہ نہیں کیا جائے گا جس کی اتباع کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کو صرف اسی وقت عذاب دیتا ہے جب اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو اور اس نے اس کی مخالفت کی ہو اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور انھیں بہت زیادہ فرحت و سرور حاصل ہو گا اور اس کے برعکس برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ غم زدہ ہوں گے وہ شدت حزن و غم اور ہلاکت کی وجہ سے اپنے اعمال ناموں کو پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔
{وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا (73) وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (74) إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا (75) وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا (76) سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (77)}.
اور بلاشبہ قریب تھا کہ وہ البتہ پھسلا دیتے آپ کو اس چیز سے جو وحی کی ہم نے آپ کی طرف تاکہ گھڑ لیں آپ ہم پر
(باتیں ) سوائے اس
(وحی) کے اور اس وقت ضرور بنا لیتے وہ آپ کو دوست
(73) اور اگر نہ ثابت
(قدم) رکھتے ہم آپ کو تو البتہ تحقیق قریب تھے آپ کہ جھک جاتے ان کی طرف کچھ تھوڑا سا
(74)اس وقت ضرور چکھاتے ہم آپ کو دگنا عذاب زندگی میں اور دگنا عذاب موت پر، پھر نہ پاتے آپ اپنے لیے ہمارے خلاف کوئی مدد گار
(75) اور بلاشبہ قریب تھے وہ کہ اکھاڑ دیں وہ آپ
(کے قدموں ) کو اس زمین
(مکہ) سےتاکہ نکال دیں وہ آپ کو اس سےاور اس وقت نہ ٹھہرتے وہ
(خود بھی) بعد آپ کے مگر تھوڑی ہی دیر
(76) (مانند) طریقے ان کے جنھیں بھیجا ہم نے پہلے آپ سے اپنے رسولوں میں سےاور نہیں پائیں گے آپ ہمارے طریقے
(قانون) میں کوئی تبدیلی
(77)
#
{73} يذكر تعالى منَّته على رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - وحفظه له من أعدائه الحريصين على فتنته بكل طريق، فقال: {وإن كادوا لَيَفْتِنونك عن الذي أوحينا إليك لتفتريَ علينا}؛ أي: قد كادوا لك أمراً لم يُدْرِكوه، وتحيَّلوا لك على أن تفتري على الله غير الذي أنزلنا إليك، فتجيء بما يوافقُ أهواءهم، وتدعُ ما أنزل الله إليك. {وإذاً}: لو فعلت ما يهوون؛ {لاتَّخذوك خليلاً}؛ أي: حبيباً صفيًّا أعزَّ عليهم من أحبابهم لما جَبَلَكَ الله عليه من مكارم الأخلاق ومحاسن الآداب المحبَّبة للقريب والبعيد والصديق والعدوِّ، ولكن لتعلم أنَّهم لم يعادوك وينابذوك العداوة إلاَّ للحقِّ الذي جئتَ به لا لِذَاتك؛ كما قال تعالى: {قد نعلمُ إنَّه لَيَحْزُنُك الذي يقولون فإنَّهم لا يكذِّبونَكَ ولكنَّ الظالمين بآيات الله يجحدونَ}.
[73] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیe پر اپنے احسان و نوازش اور آپ کے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا ذکر کرتا ہے جو ہر طریقے سے آپ کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ۠ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ﴾ ’’یقینا قریب تھا کہ وہ آپ کو بہکا دیتے اس وحی سے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی تاکہ آپ جھوٹ بنا لائیں ہم پر وحی کے سوا‘‘ یعنی وہ آپ کے خلاف ایک معاملے میں سازش کر چکے ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے انھوں نے آپ کے خلاف چال چلی تھی کہ آپ اس قرآن کے علاوہ، اللہ تعالیٰ پر کوئی اور بہتان گھڑیں جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور آپ اس چیز کو چھوڑ دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے۔
﴿ وَاِذًا ﴾ ’’اور تب‘‘ یعنی اگر آپ وہ کچھ کرتے جو وہ چاہتے ہیں تو
﴿ لَّاتَّؔخَذُوْكَ خَلِیْلًا ﴾ ’’وہ بنا لیتے آپ کو دوست‘‘ یعنی خاص دوست، جو ان کو ان کے دوستوں سے زیادہ عزیز ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکارم اخلاق اور محاسن آداب سے نوازا ہے جو قریب اور بعید، دوست اور دشمن سب کو پسند ہیں ۔ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ساتھ صرف اس حق کی وجہ سے عداوت رکھتے ہیں جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ،
ان کو آپe کی ذات کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ﴾ (الانعام:6؍33) ’’ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ یہ باتیں بناتے ہیں ان سے آپ کو دکھ ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔‘‘
#
{74} {و} مع هذا {لولا أن ثَبَّتْناك}: على الحقِّ وامتنَّنا عليك بعدم الإجابة لداعيهم، {لقد كدتَ تركنُ إليهم شيئاً قليلاً}: من كثرة المعالجة ومحبَّتك لهدايتهم.
[74] ﴿ وَلَوْلَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ ﴾ ’’اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے آپ کو سنبھالے رکھا‘‘ بایں ہمہ اگر ہم نے آپ کو حق پر ثابت قدم نہ رکھا ہوتا اور آپ کو گمراہی کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول نہ کر کے آپ پر احسان نہ کیا ہوتا
﴿ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْؔكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْـًٔؔا قَلِیْلًا﴾ ’’تو قریب تھا کہ آپ جھک جاتے ان کی طرف تھوڑا سا‘‘ یعنی ان کی ہدایت کی کوشش اور چاہت میں۔
#
{75} {إذاً}: لو ركنت إليهم بما يهوون، {لأذقناك ضعفَ الحياة وضعفَ المماتِ}؛ أي: لأصبناك بعذابٍ مضاعفٍ في الدُّنيا والآخرة، وذلك لكمال نعمة الله عليك وكمال معرفتك. {ثمَّ لا تَجِدُ لك علينا نصيراً}: ينقذك مما يحلُّ بك من العذاب، ولكن الله تعالى عَصَمَكَ من أسباب الشَّرِّ ومن الشَّرِّ، فثبَّتك وهداك الصراط المستقيم، ولم تركَنْ إليهم بوجه من الوجوه؛ فله عليك أتمُّ نعمةٍ وأبلغ منحةٍ.
[75] ﴿ اِذًا ﴾ ’’تب‘‘ یعنی اگر آپ ان کی خواہشات کی طرف مائل ہو جاتے
﴿ لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ﴾ ’’ہم ضرور چکھاتے آپ کو دگنا
(عذاب) زندگی میں اور دگنا مرنے میں ‘‘ یعنی ہم آپ کو دنیا و آخرت میں کئی گنا عذاب دیتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل ترین نعمتوں سے نوازا ہے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل ہے۔
﴿ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا ﴾ ’’پھر نہ پاتے آپ اپنے لیے ہم پر مدد کرنے والا‘‘ جو آپ کو نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آپ کو شر اور تمام اسباب شر سے محفوظ رکھا، آپ کو ثابت قدمی عطا کی اور صراط مستقیم کی طرف آپ کی راہنمائی فرمائی اور آپ کسی طرح بھی مشرکین کی طرف مائل نہ ہوئے۔ پس آپ کو اللہ تعالیٰ نے کامل ترین نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔
#
{76 ـ 77} {وإن كادوا لَيَسْتَفِزُّونك من الأرض لِيُخْرِجوك منها}؛ أي: من بغضهم لمقامك بين أظهرهم، قد كادوا أن يخرجوك من الأرضِ ويُجْلوك عنها، ولو فعلوا ذلك؛ لم يلبثوا بعدك فيها إلاَّ قليلاً، حتى تحلَّ بهم العقوبة؛ كما هي سنة الله التي لا تحول ولا تبدل في جميع الأمم، كل أمة كذبت رسولها وأخرجته؛ عاجلها الله بالعقوبة، ولمَّا مكر به الذين كفروا وأخرجوه؛ لم يلبثوا إلاَّ قليلاً حتَّى أوقع الله بهم ببدرٍ، وقَتَلَ صناديدهم، وفَضَّ بيضتهم؛ فله الحمد.
وفي هذه الآيات دليلٌ على شدة افتقار العبد إلى تثبيت الله إياه، وأنَّه [ينبغي له أن] لا يزال متملِّقاً لربِّه أن يثبته على الإيمان ساعياً في كلِّ سبب موصل إلى ذلك؛ لأنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - ـ وهو أكمل الخلق ـ قال الله له: {ولولا أن ثَبَّتْناك لقد كِدت تَرْكَنُ إليهم شيئاً قليلاً}؛ فكيف بغيره؟!
وفيها: تذكيرُ الله لرسوله منَّته عليه وعصمته من الشرِّ، فدلَّ ذلك على أنَّ الله يحبُّ من عباده أن يتفطَّنوا لإنعامه عليهم عند وجود أسباب الشرِّ بالعصمة منه والثبات على الإيمان.
وفيها: أنه بحسب علوِّ مرتبة العبد وتواتُرِ النِّعم عليه من الله يَعْظُمُ إثمُهُ ويتضاعفُ جرمُهُ إذا فعل ما يُلام عليه؛ لأنَّ الله ذكَّر رسوله لو فعل ـ وحاشاه من ذلك ـ بقوله: {إذاً لأذَقْناك ضعفَ الحياة وضعفَ الممات ثم لا تجِدُ لك علينا نصيراً}.
وفيها: أنَّ الله إذا أراد إهلاك أمَّة؛ تضاعف جُرمها وعَظُم وكَبُر، فيحقُّ عليها القولُ من الله، فيوقع بها العقاب؛ كما هي سنَّته في الأمم إذا أخرجوا رسولهم.
[77,76] ﴿ وَاِنْ كَادُوْا لَ٘یَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا ﴾ ’’اور یقینا قریب تھا کہ وہ پھسلا دیں آپ کو اس زمین سے تاکہ نکال دیں وہ آپ کو یہاں سے‘‘ یعنی آپ کے ساتھ ان کے درمیان رہنے پر بغض کے سبب سے آپ کو سرزمین مکہ سے نکالنے اور آپ کو جلا وطن کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے ہیں ۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو آپ کے بعد بہت تھوڑا عرصہ یہاں ٹھہر سکیں گے یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہو جائے جیسا کہ سنت الٰہی ہے اور تمام قوموں کے بارے میں سنت الٰہی میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوتا۔ جس قوم نے اپنے رسول کو جھٹلایا اور اس کو نکال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں اس پر عذاب نازل کر دیا۔ جب کفار مکہ نے آپ کے خلاف سازشیں کیں اور آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تو وہ کچھ زیادہ عرصہ مکہ میں نہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر میدان بدر میں عذاب نازل کر دیا،
ان کے تمام بڑے بڑے اور سرکردہ سردار قتل کر دیے گئے اور ان کی کمر توڑ دی گئی۔ فلہ الحمد۔
یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ بندہ اس بات کا شدید محتاج ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی سے نوازے رکھے اور یہ کہ بندہ گڑگڑا کر اپنے رب سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ایمان پر ثابت قدمی عطا کرے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام اسباب اختیار کرنے میں کوشاں رہے۔ نبی مصطفیe مخلوق میں سب سے کامل ہستی تھے بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا: ﴿ وَلَوْلَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْؔكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْـًٔؔا قَلِیْلًا ﴾ اور نبی اکرمe کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے تو دوسروں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
ان آیات کریمہ میں اللہ کی طرف سے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اس نے اپنے رسول پر احسان فرمایا اور اس کو شر سے محفوظ رکھا۔ پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے یہ امر پسند کرتا ہے کہ وہ اسباب شر کے وجود کے وقت اس کی نعمتوں کا ادراک کریں کہ اس نے ان کو شر سے بچایا اور ایمان پر ثبات عطا کیا۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بندے کے بلند مرتبے کے مطابق اس کو پے در پے نعمتیں عطا ہوتی ہیں ۔ اسی طرح جب وہ قابل ملامت فعل سرانجام دیتاہے تو اس کا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کا جرم کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس ارشاد کے ذریعے سے نصیحت فرمائی حالانکہ آپ ہر گناہ سے پاک اور معصوم ہیں ۔
﴿ اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا ﴾ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے جرائم بڑھ کر کئی گنا ہو جاتے ہیں ، ان پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حق ثابت ہو جاتا ہے، تب اللہ ان پر عذاب واقع کر دیتا ہے جیسا کہ قوموں کے بارے میں سنت الٰہی ہے جب وہ اپنے رسول کو اس کے وطن سے نکال دیتی ہیں۔
{أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (78) وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (79) وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا (80) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (81)}.
قائم کیجیے نماز وقت ڈھلنے سورج کے، رات کے اندھیرے تک اور نمازِ صبح بھی، بے شک نمازِ صبح ہے
(وقت فرشتوں کے) حاضر ہونے کا
(78) اور کچھ حصہ رات سے بھی، پس تہجد پڑھیں آپ ساتھ اس
(قرآن کے، یہ) زائد ہے آپ کے لیے، قریب ہے کہ کھڑا کرے آپ کو آپ کا رب، مقام محمود میں
(79) اور کہیے اے میرے رب! داخل کر مجھے داخل کرنا سچا اور نکال مجھے نکالنا سچااور کرمیرے لیے اپنی طرف سے غلبہ مدد دینے والا
(80) اور آپ کہہ دیجیے! آگیا حق اور مٹ گیا باطل، بلاشبہ باطل ہے ہی مٹنے والا
(81)
#
{78} يأمر تعالى نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم - بإقامة الصلاة تامَّة ظاهراً وباطناً في أوقاتها، {لِدُلوك الشمس}؛ أي: ميلانها إلى الأُفقِ الغربيِّ بعد الزوال، فيدخُلُ في ذلك صلاة الظهر وصلاة العصر {إلى غَسَقِ الليل}؛ أي: ظلمتِهِ، فدخل في ذلك صلاة المغرب وصلاة العشاء، {وقرآنَ الفجْرِ}؛ أي: صلاة الفجر، وسمِّيت قرآناً لمشروعيَّة إطالة القرآن فيها أطول من غيرها، ولفضل القراءة؛ حيث يشهدها الله وملائكةُ الليلِ وملائكة النهار.
ففي هذه الآية ذكرُ الأوقات الخمسة للصَّلوات المكتوبات، وأن الصَّلوات الموقعة فيه فرائضُ؛ لتخصيصها بالأمر.
وفيها أنَّ الوقت شرطٌ لصحَّة الصلاة، وأنَّه سببٌ لوجوبها؛ لأنَّ الله أمر بإقامتها لهذه الأوقات، وأنَّ الظهر والعصر يُجمعان، والمغرب والعشاء كذلك؛ للعذر؛ لأنَّ الله جمع وقتهما جميعاً.
وفيه فضيلةُ صلاة الفجر، وفضيلة إطالة القراءة فيها، وأنَّ القراءة فيها ركنٌ؛ لأنَّ العبادة إذا سُمِّيت ببعض أجزائها؛ دلَّ على فرضيَّة ذلك.
[78] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کو حکم دیتا ہے کہ وہ نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے اوقات میں مکمل طور پر قائم کریں
﴿ لِدُلُوْكِ الشَّ٘مْسِ ﴾ ’’سورج ڈھلنے سے‘‘ یعنی زوال کے بعد سورج کے مغربی افق کی طرف مائل ہو جانے سے لے کر، اس میں ظہر اور عصر کی نمازیں داخل ہیں
﴿ اِلٰى غَ٘سَقِ الَّیْلِ﴾ ’’رات کے اندھیرے تک‘‘ یعنی رات کی تاریکی میں اور اس میں مغرب اور عشاء کی نمازیں داخل ہیں ۔
﴿ وَقُ٘رْاٰنَ الْفَجْرِ﴾ ’’اور فجر کا قرآن پڑھنا‘‘ یعنی فجر کی نماز اور اسے ’’قرآن‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں قراء ت قرآن کی طوالت مشروع ہے۔ یہ قراء ت دوسری نمازوں کی قراء ت سے زیادہ لمبی ہوتی ہے نیز فجر کی نماز میں قراء ت کی فضیلت ہے کیونکہ اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں فرض نمازوں کے اوقات پنجگانہ کا ذکر ہے ان اوقات میں پڑھی جانے والی نمازیں فرض ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ا ن کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وقت، صحت نماز کے لیے شرط ہے اور دخول وقت، نماز کے واجب ہونے کا سبب ہے کیونکہ اس نے ان اوقات میں نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، نیز آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کو کسی عذر کی بناء پر جمع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو نمازوں کے اوقات کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ اس سے نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نماز فجر میں لمبی قراء ت کی فضیلت ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ قراء ت نماز کا رکن ہے کیونکہ جب عبادت کے کسی جز کو اس عبادت کے نام سے موسوم کر دیا جائے تو وہ اس جز کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے۔
#
{79} وقوله: {ومن الليل فتهجَّدْ به}؛ أي: صلِّ به في سائر أوقاته، {نافلةً لك}؛ أي: لتكون صلاة الليل زيادةً لك في علوِّ القدر ورفع الدرجات؛ بخلاف غيرك؛ فإنَّها تكون كفَّارة لسيِّئاته. ويُحتمل أن يكون المعنى أنَّ الصلوات الخمس فرضٌ عليك وعلى المؤمنين؛ بخلاف صلاة الليل؛ فإنها فرض عليك بالخصوص؛ لكرامتك على الله أن جَعَلَ وظيفتك أكثر من غيرك، وليكثر ثوابك، وتنال بذلك المقام المحمود، وهو المقام الذي يحمده فيه الأوَّلون والآخرون، مقام الشفاعة العظمى، حين يستشفع الخلائق بآدم ثم بنوح ثم إبراهيم ثم موسى ثم عيسى، وكلُّهم يعتذر ويتأخَّر عنها، حتى يستشفعوا بسيِّد ولد آدم ليرحمهم الله من همِّ الموقف وكربِهِ، فيشفع عند ربِّه، فيشفِّعه ويُقيمه مقاماً يغبطه به الأوَّلون والآخرون، وتكون له المنَّة على جميع الخلق.
[79] ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ ﴾ ’’اور رات کے ایک حصے میں آپ اس قرآن کے ساتھ جاگیے‘‘ یعنی اس کے تمام اوقات میں نماز پڑھیے
﴿ نَافِلَةً لَّكَ﴾ ’’آپ کے لیے زیادت ہے۔‘‘ یعنی تاکہ رات کی یہ نماز آپ کے لیے زیادہ ثواب، بلند مراتب اور بلند درجات کی باعث ہو، بخلاف دیگر اہل ایمان کے، کہ ان کے لیے یہ نماز ان کی برائیوں کا کفارہ ہے۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ پانچ نمازیں آپ پر اور تمام اہل ایمان پر فرض ہیں اور تہجد کی نماز خصوصی طور پر آپ پر فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تکریم بخشی کہ آپ کا وظیفۂ عبادت دوسرے مومنوں سے زیادہ مقرر فرمایا تاکہ وہ آپ کی عظمت شان کو سمجھیں اور آپ اس کے ذریعے سے مقام محمود پر فائز ہوں ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اولین و آخرین آپ کی ستائش کریں گے۔ یہ شفاعت عظمیٰ کا مقام ہے جب تمام خلائق حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور آخر میں حضرت عیسیٰo کے پاس شفاعت کروانے کے لیے جائیں گے تو یہ تمام رسول شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے اور پیچھے ہٹ جائیں گے تب لوگ بنی آدم کے سردار حضرت رسول اکرمe سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتے ہوئے اس مقام کی ہولناکیوں سے ان کو نجات دے۔ نبی مصطفیe اپنے رب کے پاس شفاعت کریں گے، اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور آپ کو ایسے مقام پر فائز کرے گا کہ اولین و آخرین آپ پر رشک کریں گے اور یوں تمام مخلوق آپ کی احسان مند ہوگی۔
#
{80} وقوله: {وقل ربِّ أدخِلْني مُدْخَلَ صدقٍ وأخرِجْني مُخْرَجَ صدقٍ}؛ أي: اجعل مداخلي ومخارجي كلَّها في طاعتك وعلى مرضاتك، وذلك لتضمُّنها الإخلاص وموافقته الأمر. {واجعل لي من لدنك سلطاناً نصيراً}؛ أي: حجة ظاهرة وبرهاناً قاطعاً على جميع ما آتيه وما أذره، وهذا أعلى حالة يُنْزِلُها الله العبد، أنْ تكون أحوالُهُ كلُّها خيراً ومقربةً له إلى ربِّه، وأن يكون له على كلِّ حالة من أحواله دليلٌ ظاهرٌ، وذلك متضمِّن للعلم النافع والعمل الصالح للعلم بالمسائل والدلائل.
[80] ﴿ وَقُ٘لْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اے میرے رب داخل کر مجھ کو سچا داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا‘‘ یعنی میرا داخل ہونا اور میرا باہر نکلنا تیری اطاعت میں اور تیری رضا کے مطابق ہو تاکہ داخل ہونا اور باہر نکلنا اخلاص کو متضمن اور امر کے موافق ہو
﴿وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ﴾ ’’اور کر دے میرے لیے اپنی طرف سے مدد کرنے والی دلیل‘‘ یعنی مجھے اپنی طرف سے ان تمام امور پر حجت ظاہرہ اور برہان قاطع عطا کر، جن کو میں اختیار کروں اور جن کو میں ترک کروں ۔ یہ بندے کا بلند ترین حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ اسے فائز کرتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ بندے کے تمام احوال بہترین احوال ہوں جو اسے اپنے رب کے قریب کریں اور بندے کے پاس اس کے ہر حال پر ایک ظاہری دلیل ہو اور یہ چیز علم نافع، عمل صالح اور مسائل و دلائل کے علم کو متضمن ہے۔
#
{81} وقوله: {وقل جاء الحقُّ وزَهَقَ الباطل}: والحقُّ هو ما أوحاه الله إلى رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، فأمره الله أن يقولَ ويعلِنَ: قد جاء الحقُّ الذي لا يقوم له شيءٌ، وزَهَقَ الباطلُ؛ أي: اضمحل وتلاشى. {إنَّ الباطل كان زَهوقاً}؛ أي: هذا وصف الباطل، ولكنَّه قد يكون له صولةٌ وروجان إذا لم يقابلْه الحقُّ، فعند مجيء الحقِّ؛ يضمحلُّ الباطل فلا يبقى له حراك، ولهذا لا يروج الباطل إلاَّ في الأزمان والأمكنة الخالية من العلم بآيات الله وبيناته. وقوله:
[81] ﴿ وَقُ٘لْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ ’’اور کہہ دیجیے! حق آ گیا اور باطل نکل بھاگا۔‘‘ حق وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفیe کی طرف نازل فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قول سے اس کا اعلان کر دیں کہ حق آ گیا ہے اس کے مقابلے میں کوئی چیز کھڑی نہیں رہ سکتی اور باطل چلا گیا، یعنی مضمحل ہو کر معدوم ہوگیا۔
﴿ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ﴾ ’’بے شک باطل ہے نکل بھاگنے والا‘‘ یعنی یہ باطل کا وصف ہے مگر کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر باطل کے مقابلے میں حق موجود نہ ہو تو باطل عروج پاکر مروج ہو جاتا ہے تاہم جب حق آجاتا ہے تو باطل مضمحل ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی حرکت باقی نہیں رہتی، اسی لیے باطل صرف انھی زمانوں اور انھی علاقوں میں رواج پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی بینات کے علم سے خالی ہوتے ہیں ۔
{وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (82)}.
اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن کہ وہ شفاء اور رحمت ہے مومنوں کے لیےاور نہیں زیادہ کرتا وہ ظالموں کو مگر خسارے ہی میں
(82)
#
{82} فالقرآن مشتملٌ على الشفاء والرحمة، وليس ذلك لكلِّ أحدٍ، وإنَّما ذلك للمؤمنين به المصدِّقين بآياته العالمين به، وأما الظَّالمون بعدم التصديق به أو عدم العمل به؛ فلا تزيدُهم آياته إلا خساراً؛ إذ به تقومُ عليهم الحجَّة؛ فالشفاء الذي تضمنَّه القرآن عامٌّ لشفاء القلوب من الشُّبه والجهالة والآراء الفاسدة والانحراف السيئ والقصود السيئة؛ فإنه مشتملٌ على العلم اليقيني الذي تزول به كلُّ شبهة وجهالة، والوعظ والتذكير الذي يزول به كلُّ شهوة تخالف أمر الله، ولشفاء الأبدان من آلامها وأسقامها، وأما الرحمة؛ فإنَّ ما فيه من الأسباب والوسائل التي يحثُّ عليها متى فعلها العبد، فاز بالرحمة والسعادة الأبديَّة والثواب العاجل والآجل.
[82] ﴿ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْ٘قُ٘رْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْ٘مُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًؔا﴾ ’’اور اتارتے ہیں ہم قرآن میں سے جس میں شفا ہے اور مومنوں کے لیے رحمت اور گناہ گاروں کا تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے‘‘ یعنی قرآن کریم شفا اور رحمت پر مشتمل ہے اور یہ شفا اور رحمت ہر ایک کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اہل ایمان کے لیے ہے جو اس کی آیات کی تصدیق کر کے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ رہے ظالم جو اس کی تصدیق نہیں کرتے یا اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس کی آیات ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرتی ہیں کیونکہ ان پر حجت قائم ہو جاتی ہے۔ پس وہ شفا جس کو قرآن متضمن ہے وہ قلوب کے لیے شفائے عام ہے اور قلوب کو شبہات، جہالت، آراء فاسدہ، انحراف مذموم اور گھٹیا مقاصد جیسے امراض کو دور کرتی ہے کیونکہ قرآن علم یقینی پر مشتمل ہے جو ہر قسم کی جہالت اور تمام شبہات کو زائل کر دیتا ہے۔ قرآن وعظ و تذکیر پر مشتمل ہے جو ہر شہوت کو ختم کر دیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت ہو۔ قرآن ابدان کے آلام و امراض سے شفا کو متضمن ہے۔
رہی رحمت تو قرآن کے اندر ایسے اسباب اور وسائل ذکر كيے گئے ہیں جن کو اختیار کرنے کی قرآن ترغیب دیتا ہے۔ جب بندہ ان کو اختیار کر لیتا ہے تو بے پایاں رحمت، ابدی سعادت، دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔
{وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا (83)}.
اور جب انعام کرتے ہیں ہم اوپر انسان کے تو وہ اعراض کرتا ہے اوردور کر لیتا ہے وہ پہلو اپنا اور جب پہنچتی ہے اسے تکلیف تو ہو جاتا ہے وہ ناامید
(83)
#
{83} هذه طبيعة الإنسان من حيث هو، إلاَّ مَن هداه الله؛ فإنَّ الإنسان عند إنعام الله عليه يفرح بالنِّعم، ويبطَرُ بها، ويعرِضُ، وينأى بجانبِهِ عن ربِّه؛ فلا يشكُرُه، ولا يذكُرُه. {وإذا مسَّه الشرُّ}: كالمرض ونحوه، {كان يؤوساً}: من الخير، قد قطع عن ربِّه رجاءه، وظنَّ أنَّ ما هو فيه دائمٌ أبداً، وأمَّا مَنْ هداه الله؛ فإنَّه عند النعم يخضعُ لربِّه، ويشكر نعمته، وعند الضرَّاء يتضرَّع، ويرجو من الله عافيته وإزالة ما يقعُ فيه، وبذلك يخفُّ عليه البلاء.
[83] انسان جہاں بھی ہے یہ اس کی فطرت ہے، سوائے اس کے جس کی اللہ راہنمائی فرمائے، کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ ان نعمتوں پر بہت خوش ہوتا ہے، ان پر اتراتا ہے، حق سے روگردانی کرتا ہے، اینٹھتا ہے اور اپنے رب سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے نہ اس کو یاد کرتا ہے۔
﴿ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ’’اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے‘‘مثلاً: بیماری وغیرہ
﴿ كَانَ یَ٘ـــُٔوْسًا ﴾ ’’تو مایوس ہوجاتا ہے۔‘‘ یعنی بھلائی سے بالکل مایوس ہو جاتا ہے، رب سے اپنی امید منقطع کر لیتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس حالت میں ہے ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ اور وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز دیتا ہے وہ نعمتیں میسر ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جاتا ہے اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ سختی اور مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے عافیت اور اس مصیبت کے دور ہونے کی امید رکھتا ہے اور اس سے اس کی مصیبت ہلکی ہو جاتی ہے۔
{قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا (84)}.
کہہ دیجیے! ہر شخص عمل کرتا ہے اوپر اپنے طریقے کے، پس تمھارا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو جو ہے زیادہ سیدھے راستے پر
(84)
#
{84} أي: {قل كُلٌّ}: من الناس، {يعملُ على شاكلتِهِ}؛ أي: على ما يَليق به من الأحوال: إن كانوا من الصفوة الأبرار؛ لم يشاكِلْهم إلا عملهم لربِّ العالمين، ومن كانوا من غيرِهِم من المخذولين؛ لم يناسِبْهم إلاَّ العمل للمخلوقين، ولم يوافِقْهم إلاَّ ما وافق أغراضهم. وربك {أعلم بمن هو أهدى سبيلاً}: فيعلمُ مَنْ يَصْلُحُ للهداية فيهديه، ومن لا يَصْلُحُ لها فيخذله ولا يهديه.
[84] ﴿ قُ٘لْ كُ٘لٌّ ﴾ ’’کہہ دیجیے ہر ایک‘‘ یعنی لوگوں میں سے۔
﴿ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ﴾ ’’کام کرتا ہے اپنے ڈھنگ پر‘‘ یعنی اس طریقے پر جو اس کے احوال کے لائق ہوتا ہے۔ اگر وہ نیک بندوں میں سے ہیں تو ان کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان کا عمل رب کائنات کی رضا کی خاطر ہوتا ہے اور اگر وہ نیک اور ابرار لوگوں کی بجائے ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے الگ ہو گیا ہو تو ان کے لیے صرف وہی عمل مناسب ہوتا ہے جو اس نے مخلوق کو خوش کرنے کے لیے کیا ہو اور ان کے موافق صرف وہی عمل ہوتا ہے جو ان کی اغراض کے موافق ہو۔
﴿ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰؔى سَبِیْلًا﴾ ’’پس تمھارا رب اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔‘‘ یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پس اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہے جو صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اسے اپنے حال پر چھوڑ کر ہدایت سے محروم کر دیتا ہے۔
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (85)}
اور پوچھتے ہیں وہ
(یہودی) آپ سے، روح کی بابت، کہہ دیجیے، روح امر ہے میرے رب کا اور نہیں دیے گئے تم علم سے مگر بہت ہی تھوڑا
(85)
#
{85} وهذا متضمِّن لردع من يسأل المسائل التي لا يُقْصَدُ بها إلاَّ التعنُّت والتَّعجيز، ويدع السؤال عن المهمِّ، فيسألون عن الرُّوح التي هي من الأمور الخفيَّة التي لا يتقنُ وصفها وكيفيتها كلُّ أحدٍ، وهم قاصرون في العلم الذي يحتاجُ إليه العباد، ولهذا أمر الله رسوله أن يُجيبَ سؤالهم بقوله: {قل الرُّوحُ من أمر ربِّي}؛ أي: من جملة مخلوقاته التي أمرها أن تكونَ فكانَتْ، فليس في السؤال عنها كبيرُ فائدةٍ مع عدم علمِكُم بغيرها.
وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّ المسؤول إذا سُئِلَ عن أمرٍ، الأَوْلَى بالسائل غيره أنْ يعرِضَ عن جوابه، ويدلَّه على ما يحتاجُ إليه، ويرشِدَه إلى ما ينفعه.
[85] یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کو باز رکھنے کو متضمن ہے جو ایسے سوالات پوچھتے ہیں جن سے ان کا مقصد محض تعنت اور مسئول کو لاجواب کرنا ہوتا ہے۔ درآں حالیکہ وہ اہم امور کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔ پس وہ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس کا تعلق مخفی امور سے ہے۔ کوئی شخص بھی روح کا وصف اور اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس علم میں بھی قاصر ہیں جس کے وہ محتاج ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe سے فرمایا کہ وہ ان کے سوال کا یہ جواب دیں ۔
﴿ قُ٘لِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے! روح میرے رب کے امر سے ہے‘‘ یعنی من جملہ مخلوقات سے ہے جن کے بارے میں میرے رب نے حکم دیا کہ ’’ہو جاؤ‘‘ اور وہ وجود میں آگئیں ، لہٰذا ان کے بارے میں سوال کرنا تمھارے لیے کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر امور میں بھی تمھارا علم معدوم ہے۔ اس آیت مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب مسئول سے کسی معاملے میں سوال کیا جائے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ
(لایعنی) سوال کا جواب دینے سے گریز کرے جو سائل نے پوچھا ہے اور اس امر میں اس کی راہنمائی کرے جس کا وہ محتاج ہے اور جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔
{وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا (86) إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا (87)}
اور البتہ اگر ہم چاہیں تو یقینا لے جائیں اس چیز
(قرآن) کو جو وحی کیا ہم نے آپ کی طرف ، پھر نہ پائیں گے آپ اپنے لیے اس
(قرآن کے لانے) پر ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی
(86) مگر مہربانی سے آپ کے رب کی، بلاشبہ فضل اس کا ہے آپ پر بہت بڑا
(87)
#
{86 ـ 87} يخبر تعالى أنَّ القرآن والوحي الذي أوحاه إلى رسوله رحمةٌ منه عليه وعلى عبادِهِ، وهو أكبر النعم على الإطلاق على رسوله؛ فإنَّ فضل الله عليه كبيرٌ لا يقادَرُ قدرُهُ؛ فالذي تفضَّل به عليك قادرٌ على أن يَذْهَبَ به ثم لا تجِدُ رادًّا يردُّه ولا وكيلاً يتوجَّه عند الله فيه؛ فَلْتَغْتَبِطْ به وتَقَرَّ به عينُك، ولا يحزنك تكذيبُ المكذبين واستهزاءُ الضالين؛ فإنَّهم عرضت عليهم أجلُّ النعم فردُّوها لهوانهم على الله وخِذْلانِهِ لهم.
[87,86] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن اور وحی جسے اس نے اپنے رسولe پر نازل کیا ہے وہ آپ پر اور بندوں پر رحمت اور احسان ہے قرآن اور وحی علی الاطلاق رسول اللہe کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے کیونکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ فضل و کرم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا… پس جس ہستی نے آپ پر یہ فضل و کرم کیا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اسے واپس لے لے پھر آپ کوئی ایسی ہستی نہیں پائیں گے جو یہ فضل و کرم واپس لا سکے اور آپ کو کوئی ایسا وکیل اور کارساز نہیں ملے گا جو اللہ کے حضور اس بارے میں بات کر سکے۔ پس آپ کو اس بارے میں خوش ہونا چاہیے اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رہنی چاہئیں اور تکذیب کرنے والوں کی تکذیب اور گمراہوں کا استہزا و تمسخر آپ کو غم زدہ نہ کرے۔ اس لیے کہ لوگوں کے سامنے جلیل ترین نعمت پیش کی گئی انھوں نے اسے ٹھکرا دیا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت حقیر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
{قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (88)}.
کہہ دیجیے! البتہ اگر جمع ہو جائیں
(تمام) انسان اور جن اوپر اس بات کے کہ
(بنا) لائیں وہ مثل اس قرآن کے تو نہ لاسکیں گے وہ مثل اس کے اگر چہ ہو ان کا بعض، بعض کا مدد گار ہی
(88)
#
{88} وهذا دليلٌ قاطعٌ وبرهانٌ ساطعٌ على صحَّة ما جاء به الرسول وصدقه؛ حيث تحدَّى الله الإنس والجنَّ أن يأتوا بمثله، وأخبر أنهم لا يأتون بمثله، ولو تعاونوا كلُّهم على ذلك؛ لم يقدِروا عليه، ووقع كما أخبر اللهُ؛ فإنَّ دواعي أعدائه المكذِّبين به متوفِّرة على ردِّ ما جاء به بأيِّ وجهٍ كان، وهُمْ أهلُ اللسان والفصاحة؛ فلو كان عندَهم أدنى تأهُّل وتمكُّن من ذلك؛ لفعلوه، فعُلِمَ بذلك أنهم أذعنوا غاية الإذعان طوعاً وكرهاً، وعَجَزوا عن معارضتِهِ، وكيف يقدِرُ المخلوق من ترابٍ، الناقصُ من جميع الوجوه، الذي ليس له علمٌ ولا قدرةٌ ولا إرادةٌ ولا مشيئةٌ ولا كلامٌ ولا كمالٌ إلاَّ من ربِّه؛ أن يعارِضَ كلامَ ربِّ الأرض والسماوات، المطَّلع على سائر الخفيَّات، الذي له الكمالُ المطلقُ والحمدُ المطلقُ والمجدُ العظيمُ، الذي لو أنَّ البحر يمدُّه من بعده سبعةُ أبحر مداداً والأشجارَ كلَّها أقلامٌ؛ لَنَفِدَ المداد وفنيتِ الأقلام ولم تَنْفَدْ كلماتُ الله؛ فكما أنَّه ليس أحدٌ من المخلوقين مماثلاً لله في أوصافه؛ فكلامُهُ من أوصافه التي لا يماثِلُه فيها أحدٌ؛ فليس كمثلِهِ شيءٌ في ذاتِهِ وأسمائِهِ وصفاتِهِ وأفعالِهِ تبارك وتعالى؛ فتبًّا لمن اشتبه عليه كلامُ الخالق بكلام المخلوقِ، وزعم أنَّ محمداً - صلى الله عليه وسلم - افتراه على الله، واختلقه من نفسه.
[88] یہ اس بات کی قطعی دلیل اور واضح برہان ہے کہ جو کچھ رسول اللہe لے کر آئے ہیں وہ صحیح اور صداقت پر مبنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جنوں اور انسانوں کو معارضے کی دعوت دی ہے کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ بھی فرما دیا کہ وہ اس جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ خواہ وہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کر لیں ۔ یہ سب کچھ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جھٹلانے والوں کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ وہ کسی طریقے سے اس دعوت کو جھوٹا ثابت کریں جسے رسول اللہe لے کر آئے اور وہ لغت عرب کے ماہر اور فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔ اگر ان میں اس دعوت کا مقابلہ کرنے کی ذرا سی بھی اہلیت ہوتی تو وہ ضرور اس کا مقابلہ کرتے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ انھوں نے طوعاً و کر ہاً اس بارے میں اپنی بے بسی کو تسلیم کر لیا اور قرآن کے معارضہ سے عاجز آ گئے… اور وہ مخلوق جو مٹی سے پیدا کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے، جو علم، قدرت، ارادہ اور مشیت سے محروم ہے، اس کا کلام اور کمال اس کے رب کا عطا کردہ ہے، رب کائنات کے کلام کا کس طرح مقابلہ کر سکتی ہے، جو تمام بھید کو جاننے والا ہے، جو کمال مطلق، حمد مطلق اور مجد عظیم کا مالک ہے، وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر سات سمندروں کو روشنائی اور تمام درختوں کے قلم بنا دیے جائیں تو تمام روشنائی ختم ہو جائے گی اور قلم فنا ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے۔
پس جیسے اللہ تعالیٰ کی صفات میں ، اس کی مخلوق میں سے کوئی اس کے مماثل نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام بھی… جو کہ اس کی صفت ہے… بے مثل ہے۔ اس کی ذات، اس کے اسماء، اس کی صفات اور اس کے افعال میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں ۔ تب ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو مخلوق کے کلام کو خالق کے کلام کے مشابہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ محمد
(e) نے اسے اپنے دل سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کی ہے۔
{وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا (89) وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (90) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (92) أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (93) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا (94) قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا (95) قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (96)}.
اور البتہ تحقیق پھیر پھیر کر بیان کی ہے ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر ایک مثال، پس انکار کیا اکثر لوگوں نے مگر کفر کرنے سے
(نہیں ) (89)اور کہا انھوں نے، ہرگز نہیں ایمان لائیں گے ہم تجھ پر، یہاں تک کہ جاری کرے تو ہمارے لیے زمین سے ایک چشمہ
(90) یا ہو واسطے تیرے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا، پھر جاری کردے تو نہریں اس
(باغ) کے درمیان
(جگہ جگہ) جاری کرنا
(91) یا گرادے تو آسمان، جیسا کہ دعویٰ کرتا ہے تو، ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا لے آ تو اللہ کو اور فرشتو ں کو سامنے
(92) یا ہو تیرے لیے ایک گھر سونے کا یا چڑھ جا تو آسمان میں اور ہرگز نہیں مانیں گے ہم تیرے چڑھ جانے کو، یہاں تک کہ اتار لائے تو ہم پر ایک کتاب کہ ہم پڑھیں اسے، آپ کہہ دیجیے! پاک ہے میرا رب، نہیں ہوں میں مگر صرف ایک بشر
(اور) رسول
(93) اور نہیں منع کیا لوگوں کو
(اس سے) کہ ایمان لائیں وہ، جب آگئی ان کے پاس ہدایت مگر اس بات نے کہ انھوں نے کہا، کیا بھیجا ہے اللہ نے ایک بشر کو رسول
(بنا کر)؟
(94) کہہ دیجیے! اگر ہوتے زمین میں فرشتے، وہ چلتے
( پھرتے) اطمینان سے تو البتہ نازل کرتے ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول
(بنا کر) (95) کہہ دیجیے! کافی ہے اللہ گواہ میرے درمیان اور تمھارے درمیان، بے شک وہ ہے اپنے بندوں سے خوب خبر دار، خوب دیکھنے والا
(96)
#
{89 ـ 93} يقول تعالى: {ولقد صرَّفْنا للناس في هذا القرآن من كلِّ مثل}؛ أي: نوَّعنا فيه المواعظ والأمثال، وثنَّيْنا فيه المعاني التي يضطرُّ إليها العبادُ لأجل أن يتذكَّروا ويتَّقوا، فلم يتذكَّر إلا القليلُ منهم، الذين سبقت لهم من الله سابقةُ السعادة، وأعانهم الله بتوفيقه، وأما أكثر الناس؛ فأبَوْا إلا كُفوراً لهذه النعمة التي هي أكبرُ من جميع النعم، وجعلوا يتعنَّتون عليه آياتٍ غيرَ آياتِهِ يخترِعونها من تِلقاء أنفسهم الظالمة الجاهلة، فيقولون لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذي أتى بهذا القرآن المشتمل على كل برهان وآية: {لن نؤمنَ لك حتَّى تَفْجُرَ لنا من الأرض يَنبوعاً}؛ أي: أنهاراً جاريةً، {أو تكونَ لك جنَّةٌ من نخيل وعنبٍ}: فتستغني بها عن المشي في الأسواق والذَّهاب والمجيء، {أو تُسْقِطَ السماء كما زَعَمْتَ علينا كِسَفاً}؛ أي: قطعاً من العذاب، {أو تأتيَ بالله والملائكةِ قَبيلاً}؛ أي؛ جميعاً أو مقابلةً ومعاينةً يشهدون لك بما جئت به، {أو يكونَ لك بيتٌ من زخرفٍ}؛ أي: مزخرف بالذهب وغيره، {أو تَرْقى في السماء}: رُقِيًّا حسيًّا. {و} مع هذا فلن {نؤمنَ لِرُقِيِّكَ حتى تنزِّلَ علينا كتاباً نقرَؤه}. ولما كانتْ هذه تعنُّتات وتعجيزات وكلام أسفه الناس وأظلمهم، المتضمِّنة لردِّ الحقِّ وسوء أدبٍ مع الله، وأن الرسول - صلى الله عليه وسلم - هو الذي يأتي بالآيات؛ أمره الله أن ينزِّهَهُ، فقال: {قل سبحانَ ربِّي}: عمَّا تقولون علواً كبيراً، وسبحانه أن تكونَ أحكامُهُ وآياتُهُ تابعةً لأهوائهم الفاسدة وآرائهم الضالَّة. {هل كنتُ إلاَّ بشراً رسولاً}: ليس بيده شيء من الأمر.
[93-89] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ مِنْ كُ٘لِّ مَثَلٍ ﴾ ’’اور ہم نے پھیر پھیر کر بیان کی واسطے لوگوں کے اس قرآن میں ہر مثال‘‘ یعنی ہم نے اس میں مختلف انواع کے مواعظ اور مثالیں بیان کی ہیں اور ان معانی و مضامین کو بار بار دہرایا ہے لوگ جن کے ضرورت مند ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور تقویٰ اختیار کریں مگر ان میں سے بہت کم لوگوں نے نصیحت پکڑی ہے، سوائے ان لوگوں کے، جن کے بارے میں پہلے ہی سے سعادت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق کے ذریعے سے ان کی اعانت فرمائی مگر اکثر لوگوں نے اس نعمت کی ناقدری کی جو تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے اور انھوں نے اپنی خواہشات کے مطابق معجزات و آیات کا مطالبہ کرکے تعنت کا مظاہرہ کیا اور وہ اپنے نفس کی طرف سے، جو ظالم اور جاہل ہے، آیات گھڑتے ہیں ۔ پس وہ رسول اللہe سے، جو یہ قرآن لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو ہر قسم کی دلیل اور برہان پر مشتمل ہے،
کہتے ہیں : ﴿٘لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًا﴾ ’’ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو جاری کر دے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ‘‘ یعنی بہتی ہوئی نہریں جاری کر دے۔
﴿ اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ ﴾ ’’یا ہو تیرے واسطے ایک باغ کھجور اور انگور کا‘‘ جن کی مدد سے تو بازاروں میں چلنے پھرنے اور آ نے جانے سے مستغنی ہو جائے۔
﴿ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَؔ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا ﴾ ’’یا گرا دے ہم پر آسمان، جیسا کہ تو کہا کرتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرکے‘‘ یعنی عذاب سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے
﴿ اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِیْلًا﴾ ’’یا لے آ اللہ کو اور فرشتوں کو سامنے‘‘ یعنی تمام فرشتے یا دوسرا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام فرشتے روبرو آجائیں اور وہ تیری نبوت کی گواہی دیں ۔
﴿ اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ ﴾ ’’یا ہو تیرے واسطے گھر سنہرا‘‘ یعنی سونے وغیرہ سے منقش اور آراستہ
﴿اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِ﴾ ’’یا تو آسمان پر چڑھ جا۔‘‘ یعنی حسی طور پر آسمان پر چڑھ جائے۔
﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ اس کے باوجود
﴿ لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّ٘قْ٘رَؤُهٗ﴾ ’’ہم نہیں مانیں گے تیرے چڑھ جانے کو، یہاں تک کہ لائے تو ہمارے پاس کتاب جسے ہم پڑھیں ‘‘ چونکہ یہ کلام محض تعنت اور رسول کو بے بس کرنے کی خواہش اور داعیہ ہے، یہ احمق ترین اور ظالم ترین لوگوں کا کلام ہے جو حق کو ٹھکرا دینے کو متضمن ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ کے حضور بے ادبی اور رسول اللہe کے بارے میں بے بنیاد دعویٰ ہے کہ آپ یہ آیات خود تصنیف کرتے ہیں … اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اللہ کی تنزیہ بیان کریں ۔
﴿قُ٘لْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے! پاک ہے میرا رب‘‘ یعنی جو کچھ تم اللہ کے بارے میں کہتے ہو وہ اس سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے احکام اور آیات ان کی خواہشات نفس اور گمراہ آراء و نظریات کے تابع ہوں ۔
﴿ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ﴾ ’’میں نہیں ہوں مگر ایک آدمی بھیجا ہوا‘‘ میرے ہاتھ میں کچھ بھی اختیار نہیں …
#
{94} وهذا السبب الذي منع أكثر الناس من الإيمان؛ حيث كانت الرسل التي تُرْسَلُ إليهم من جنسهم بشراً، وهذا من رحمته بهم أن أرسل إليهم بشراً منهم؛ فإنَّهم لا يطيقون التلقي من الملائكة.
[94] یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اکثر لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ ان کی طرف جو رسول اور نبی مبعوث كيے گئے وہ سب انھی کی جنس میں سے تھے، یعنی وہ سب بشر تھے۔یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا کیونکہ وہ فرشتوں سے بلاواسطہ احکام وصول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
#
{95} فلو {كانَ في الأرض ملائكةٌ يمشونَ مطمئنِّين}: يَثْبُتون على رؤية الملائكة والتلقيِّ عنهم؛ {لَنَزَّلْنا عليهم من السماءِ مَلَكاً رسولاً}: ليمكِنَهم التلقي عنه.
[95] اس لیے فرمایا:
﴿ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ۠ ﴾ ’’ اگر ہوتے زمین میں فرشتے پھرتے، بستے‘‘ یعنی اگر وہ فرشتوں کو دیکھ لینے اور ان سے احکام اخذ کرنے کی طاقت رکھتے ہوتے
﴿لَـنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا ﴾ ’’تو اتارتے ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ پیغام دے کر۔‘‘
#
{96} {قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم إنَّه كان بعبادِهِ خبيراً بصيراً}: فمن شهادتِهِ لرسولِهِ ما أيَّدَه به من المعجزات، وما أنزل عليه من الآيات، ونصره على مَنْ عاداه وناوأه؛ فلو تقوَّل عليه بعض الأقاويل؛ لأخَذَ منه باليمين، ثم لقطع منه الوتينَ؛ فإنَّه خبيرٌ بصيرٌ، لا تخفى عليه من أحوال العبادِ خافيةٌ.
[96] ﴿ قُ٘لْ كَ٘فٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًا﴾ ’’کہہ دیجیے اللہ کافی ہے بطور گواہ میرے اور تمھارے درمیان، بے شک وہ ہے اپنے بندوں سے خبردار، دیکھنے والا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول کے لیے گواہی یہ ہے کہ اس نے آیات اور معجزات کے ذریعے سے اس کی تائیدکی اور ان لوگوں کے خلاف آپ کو فتح و نصرت سے نوازا جنھوں نے آپ سے عداوت کی۔ اگر آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر آپ کی رگ جاں کاٹ دیتا۔ اللہ تعالیٰ باخبر اور دیکھنے والا ہے اور بندوں کے احوال میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
{وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (97) ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (98) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا (99) قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا (100)}.
اور جس کو ہدایت دے اللہ، پس وہی ہے ہدایت پانے والااور جسے وہ گمراہ کرے تو ہرگز نہیں پائیں گے آپ ان کے لیے کوئی دوست سوائے اس
(اللہ) کےاور ہم اکٹھا کریں گے ان کو دن قیامت کے ان کے منہ کے بل اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ٹھکانا ان کاجہنم ہے، جب وہ بجھنے لگے گی تو زیادہ کر دیں گے ہم ان کے لیے آگ کا بھڑکانا
(97) یہ سزا ہے ان کی بوجہ اس کے کہ بے شک انھوں نے کفر کیا ساتھ ہماری آیتوں کے، اور کہا، کیا جب ہو جائیں گے ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ تو کیا بلاشبہ ہم البتہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے پیدا کر کے نئے سرے سے؟
(98) کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک اللہ، جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو، قادر ہے اوپر اس کے کہ وہ پیدا کرے مثل ان کی اور مقرر کیا اس نے ان کے لیے ایک وقت
(معین)، کہ نہیں شک اس میں ، پس انکار کیا ظالموں نے مگر کفرکرنے سے
(نہیں )(99) کہہ دیجیے! اگر تم اختیار رکھتے خزانوں کا رحمت کے میرے رب کی تو اس وقت ضرور روک لیتے تم
(ان کو) خرچ ہو جانے کے ڈر سےاور ہے انسان نہایت ہی بخیل
(100)
#
{97} يخبر تعالى أنَّه المنفرد بالهداية والإضلال؛ فمن يهدِهِ فييسِّره لليسرى ويجنِّبه العسرى؛ فهو المهتدي على الحقيقة، ومن يُضْلِلْه فيخذله ويَكِله إلى نفسه: فلا هادي له من دون الله، وليس له وليٌّ ينصره من عذاب الله حين يحشُرُهم الله على وجوهِهِم، خزياً عُمياً وبُكماً، لا يبصرون، ولا ينطقون. {مأواهم}؛ أي: مقرُّهم ودارهم {جهنَّمُ}: التي جمعت كلَّ همٍّ وغمٍّ وعذابٍ. {كلَّما خَبَتْ}؛ أي: تهيّأت للانطفاء، {زِدْناهم سعيراً}؛ أي: سَعَّرْناها بهم، لا يُفَتَّرُ عنهم العذابُ، ولا يُقضى عليهم فيموتوا، ولا يخفف عنهم من عذابها.
[97] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ہدایت اور گمراہی صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ جسے ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے تو اسے آسان راہیں میسر کر دیتا ہے اور اس کو تنگی سے بچالیتا ہے اور وہی درحقیقت ہدایت یافتہ ہے اور جسے گمراہ کرتا ہے اسے اس کے نفس کے حوالے کر کے اس سے الگ ہو جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی راہ نہیں دکھا سکتا اور ان کا اس روز کوئی حمایتی نہیں ہوگا جو ان کی اللہ کے عذاب کے مقابلے میں مدد کر سکے جب اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کے چہروں کے بل، نہایت رسوائی کی حالت میں اندھے اور گونگے بنا کر اکٹھے کرے گا وہ دیکھ سکیں گے نہ بول سکیں گے۔
﴿ مَاْوٰىهُمْ ﴾ ’’ان کا ٹھکانا‘‘ یعنی ان کی جائے قرار اور ان کا گھر
﴿ جَهَنَّمُ﴾ ’’جہنم ہے‘‘ جہاں ہر قسم کا حزن و غم اور عذاب جمع ہے۔
﴿ كُلَّمَا خَبَتْ ﴾ ’’جب وہ بجھنے لگے گی‘‘
﴿زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا﴾ ’’تو ہم ان پر اس آگ کو اور بھڑکا دیں گے۔‘‘ عذاب ان پر سے منقطع نہ ہو گا۔ ان کو موت آئے گی نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی۔
#
{98} ولم يظلِمْهم الله تعالى، بل جازاهم بما كفروا بآياته وأنكروا البعثَ الذي أخبرت به الرُّسل، ونطقتْ به الكتب، وعجَّزوا ربَّهم؛ فأنكروا تمام قدرته، {وقالوا أإذا كنَّا عظامًا ورُفاتاً أإنَّا لَمَبْعوثونَ خلقاً جديداً}؛ أي: لا يكون هذا؛ لأنَّه في غاية البعد عند عقولهم الفاسدة.
[98] اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کی جزا دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے اور قیامت کے روز پر ایمان نہیں رکھتے تھے جس کے بارے میں تمام انبیاء و رسل نے آگاہ فرمایا اور تمام آسمانی کتابوں نے اس کے برپا ہونے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اپنے رب کو عاجز قرار دے کر اس کی قدرت کاملہ کا انکار کر دیا۔
﴿ وَقَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُ٘وْنَ۠ خَلْقًا جَدِیْدًا ﴾ ’’اور انھوں نے کہا، جب ہم ہو گئے ہڈیاں اور چورا چورا، کیا ہم اٹھائے جائیں گے نئے بنا کر‘‘ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا… وہ یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ ان کی فاسد عقل کے مطابق ایسا ہونا بہت بعید تھا۔
#
{99} {أوَلَمْ يَرَوْا أنَّ الله الذي خلق السمواتِ والأرض}: وهي أكبر من خلق الناس، {قادرٌ على أن يَخْلُقَ مثلَهم}: بلى إنَّه على ذلك قدير. {و} لكنه قد جَعَلَ لذلك {أجلاً لا رَيْبَ فِيهِ}: ولا شكَّ وإلا فلو شاء لجاءهم به بغتة ومع إقامته الحجج والأدلة على البعث؛ {فأبى الظَّالمونَ إلاَّ كُفوراً}: ظُلْماً منهم وافتراءً.
[99] اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین بنائے‘‘ جو کہ انسانوں کی تخلیق سے زیادہ مشکل امر ہے۔
﴿قَادِرٌؔ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ﴾ ’’وہ قادر ہے کہ پیدا کرے ان جیسوں کو‘‘ کیوں نہیں ! بے شک اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے
﴿ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ﴾ ’’اور اس نے ان کے لیے ایک مدت مقرر کر دی ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ‘‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس گھڑی کو اچانک لے آئے اور اس بات کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت پر دلائل و براہین قائم کر دیے ہیں ۔
﴿ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًؔا ﴾ ’’پھر بھی نہیں رہا جاتا ظالموں سے ناشکری کیے بغیر‘‘ ظلم کرتے اور افترا کرتے ہوئے۔
#
{100} {قل لو أنتم تملِكونَ خزائنَ رحمةِ ربِّي}: التي لا تَنْفَدُ ولا تبيد، {إذاً لأمْسَكْتم خشية الإنفاق}؛ أي: خشية أن يَنْفَدَ ما تنفِقون منه، مع أنَّه من المحال أن تَنْفَدَ خزائنُ الله، ولكنَّ الإنسان مطبوعٌ على الشحِّ والبخل.
[100] ﴿ قُ٘لْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر تمھارے ہاتھ میں ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانے‘‘ جو کبھی ختم ہوتے ہیں نہ تباہ ہوتے ہیں
﴿ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ﴾ ’’تو ضرور بند کر رکھتے، اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہو جائیں ‘‘ یعنی اس خوف سے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو کہیں ختم نہ ہو جائے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا ختم ہونا محال ہے مگر بخل اور کنجوسی انسان کی جبلت میں رکھ دیے گئے ہیں ۔
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَامُوسَى مَسْحُورًا (101) قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَافِرْعَوْنُ مَثْبُورًا (102) فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا (103) وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا (104)}.
اور البتہ تحقیق دیے تھے ہم نے موسیٰ کو نو معجزات واضح، پس پوچھ لیجیے آپ بنی اسرائیل سے جب آیا وہ
(موسیٰ) ان کے پاس تو کہا اس سے فرعون نے ، بے شک میں البتہ گمان کرتا ہوں تجھے اے موسی! سحر زدہ
(101) موسی نے کہا البتہ تحقیق جانتا ہے تو کہ نہیں نازل کیا ان کو مگر رب نے آسمانوں اور زمین کے، واسطے دکھانے کےاور بے شک میں البتہ گمان کرتا ہوں تجھے اے فرعون! ہلاک کیا ہوا
(102) پس ارادہ کیا فرعون نے، یہ کہ اکھاڑ دے ان کو اس زمین سے تو غرق کر دیا ہم نے اسےاور ان لوگوں کو جو ساتھ تھے اس کے، سب کو
(103) اور کہا ہم نے بعد اس کے بنی اسرائیل سے، رہو تم اس زمین میں ، پھر جب آئے گا وعدہ آخرت کا تو لے آئیں گے ہم تم
(سب) کو باہم اکٹھا
(104)
#
{101} أي: لستَ أيُّها الرسول المؤيَّد بالآيات أولَ رسول كذَّبه الناس؛ فلقد أرسلْنا قبلَكَ موسى بن عمران الكليم إلى فرعون وقومِهِ وَآتيناه {تسعَ آياتٍ بيِّناتٍ}: كلُّ واحدة منها تكفي لمن قصدُهُ اتِّباع الحقِّ كالحيَّة والعصا والطُّوفان والجرادِ والقُمَّل والضفادع والدَّم والرجز وفلق البحر؛ فإنْ شككتَ في شيء من ذلك؛ {فاسألْ بني إسرائيلَ إذْ جاءَهم فقال له فرعونُ}: مع هذه الآيات: {إني لأظنُّك يا موسى مسحوراً}.
[101] یعنی اے رسول! کہ جس کی آیات و معجزات کے ذریعے سے تائید کی گئی ہے… آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی لوگوں نے تکذیب کی۔ ہم نے آپe سے پہلے موسیٰ بن عمران
(u) کو رسول بنا کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا، ہم نے انھیں عطا کیے
﴿تِسْعَ اٰیٰتٍۭؔ بَیِّنٰتٍ ﴾ ’’نو معجزات‘‘ جو شخص حق کا قصد رکھتا ہے اس کے لیے ان میں سے ایک ہی معجزہ کافی ہے…جیسے اژدہا، عصا، طوفان، ٹڈی دل، جوئیں ، مینڈک، خون، یدبیضاء اور سمندر کا پھٹ جانا۔ اگر آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے
﴿ فَسْـَٔلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ ﴾ ’’تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب آئے موسیٰ ان کے پاس تو
(ان معجزات کے باوجود) فرعون نے کہا:
﴿ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰؔى مَسْحُوْرًا ﴾ ’’اے موسیٰ! میں سمجھتا ہوں ، تجھ پر ضرور جادو کر دیا گیا ہے۔‘‘
#
{102} فَـ {قَالَ} له موسى: {لقد علمتَ}: يا فرعونُ، {ما أنزلَ هؤلاء}: الآيات. {إلاَّ ربُّ السمواتِ والأرضِ بصائرَ}: منه لعباده؛ فليس قولُكَ هذا بالحقيقة، وإنَّما قلت ذلك ترويجاً على قومك واستخفافاً لهم. {وإنِّي لأظنُّك يا فرعونُ مَثْبوراً}؛ أي: ممقوتاً، مُلْقىً في العذاب، لك الويل والذمُّ واللعنة.
[102] ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے فرمایا: اے فرعون!
﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ ﴾ ’’تجھے علم ہے‘‘
﴿ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ ﴾ ’’نہیں نازل کیا ان معجزات کو‘‘
﴿ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ﴾ ’’مگر آسمان و زمین کے رب نے سمجھانے کو‘‘ اپنی طرف سے بندوں کے لیے۔ پس تیرا یہ قول حقیقت پر مبنی نہیں ۔ تیرا یہ قول اپنی قوم میں ابہام پیدا کرنے اور حق و صواب کی راہ سے ہٹانے کے لیے ہے۔
﴿ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْ٘بُوْرًؔا ﴾ ’’اے فرعون! میں خیال کرتا ہوں کہ تو ہلاک ہوجائے گا۔‘‘ یعنی اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ تو سخت مبغوض، مذموم، دھتکارا ہوا اور اللہ کے عذاب میں پھینکا جانے والا ہے۔
#
{103 ـ 104} {فأراد}: فرعون {أن يَسْتَفِزَّهم من الأرضِ}؛ أي: يُجْلِيَهم ويخرِجَهم منها، {فأغْرَقْناه ومن معه جميعاً}: وأورثنا بني إسرائيل أرضَهم وديارهم، ولهذا قال: {وقُلْنا من بعدِهِ لبني إسرائيلَ اسكُنوا الأرضَ فإذا جاء وعْدُ الآخرة جئنا بكم لفيفاً}؛ أي: جميعاً؛ لِيُجازِي كلَّ عامل بعمله.
[104,103] ﴿ فَاَرَادَ ﴾ پس فرعون نے ارادہ کیا
﴿ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ۠ مِّنَ الْاَرْضِ ﴾ ’’کہ وہ ان کو اس زمین
(مصر) سے نکال دے۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل کو سرزمین مصر سے نکال کر جلا وطن کر دے
﴿فَاَغْ٘رَقْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًا ﴾ ’’پس ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو سب کو غرق کر دیا‘‘ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو ان کی زمینوں اور گھروں کا وارث بنا دیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًا﴾ ’’اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا، رہو تم زمین میں ، پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے‘‘ یعنی تم سب کو لے کر آئیں گے اور پھر ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دیں گے۔
{وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (105)}.
اور ساتھ حق کے نازل کیا ہے ہم نے اس کواور ساتھ حق کے و ہ نازل ہوااور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوشخبری دینے اور ڈرانے والا
(105)
#
{105} أي: وبالحقِّ أنزلنا هذا القرآن الكريم لأمر العبادِ ونهيهم وثوابهم وعقابهم، {وبالحقِّ نزل}؛ أي: بالصدق والعدل والحفظ من كلِّ شيطان رجيم. {وما أرْسَلْناك إلاَّ مبشِّراً}: من أطاع الله بالثواب العاجل والآجل، {ونَذيراً}: لمن عصى الله بالعقاب العاجل والآجل، ويلزم من ذلك بيانُ ما يبشِّر به وينذر.
[105] یعنی ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ، اپنے بندوں کے لیے امرونہی اور ان کے عذاب و عقاب کی خاطر نازل کیا ہے
﴿ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ﴾ ’’اور حق کے ساتھ اترا‘‘ یعنی یہ قرآن صدق و عدل اور شیطان مردود کے ہر وسوسہ سے محفوظ نازل ہوا ہے
﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا ﴾ ’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوشخبری دینے والا بنا کر‘‘ یعنی ان لوگوں کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری دینے کے لیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی
﴿ وَّنَذِیْرًا ﴾ ’’اور ڈرانے والا‘‘ یعنی انھیں دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے کے لیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس سے ان امور کا بیان لازم آتا ہے جو تبشیر و انذار پر مبنی ہیں ۔
{وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا (106) قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا (108) وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (109)}.
اور قرآن، جدا جدا
(نازل) کیا ہم نے اس کوتاکہ آپ پڑھیں اس کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کراور اتارا ہم نے اسے اتارنا
(تھوڑ ا تھوڑا) (106) کہہ دیجیے! ایمان لاؤ تم ساتھ اس کے یا نہ ایمان لاؤ، بے شک وہ لوگ جو دیے گئے علم پہلے اس سے، جب پڑھا جاتا ہے ان پر تو وہ گر پڑتے ہیں ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہوئے
(107) اور وہ کہتے ہیں ، پاک ہے ہمارا رب، بلاشبہ ہے وعدہ ہمارے رب کا
(پورا) کیا ہوا
(108) اور وہ گر پڑتے ہیں ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئےاور زیادہ کرتا ہے
(قرآن) ان کو گڑگڑانے میں
(109)
#
{106} أي: وأنزلنا هذا القرآن مفرَّفاً فارِقاً بين الهدى والضَّلال والحقِّ والباطل؛ {لتقرأه على الناس على مكث}؛ أي: على مَهْل؛ ليتدبَّروه، ويتفكَّروا في معانيه ويستخرجوا علومَه، {ونزَّلْناه تنزيلاً}؛ أي: شيئاً فشيئاً مفرَّقاً في ثلاث وعشرين سنة. {ولا يأتونَكَ بمَثَلٍ إلاَّ جِئْناكَ بالحقِّ وأحسنَ تفسيراً}.
[106] یعنی ہم نے اس قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے جو ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل کے درمیان تفریق کرتا ہے
﴿ لِتَقْ٘رَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ ﴾ ’’تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ‘‘ تا کہ وہ اس کے معانی میں تدبر کریں اور اس میں سے اس کے مختلف علوم کا استخراج کریں ۔
﴿وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا ﴾ ’’اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے۔‘‘ یعنی اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے، ٹکڑوں میں تئیس
(۲۳) سال کے عرصہ میں نازل کیا ہے۔
﴿وَلَا یَ٘اْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ (الفرقان : 25؍33) ’’اور وہ جب کبھی آپ کے پاس کوئی پیچیدہ بات لے کر آئے تو ہم نے حق کے ساتھ اس کا جواب دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھول دیا۔‘‘
#
{107} فإذا تبيَّن أنَّه الحقُّ الذي لا شكَّ فيه ولا ريب بوجهٍ من الوجوه، فَـ {قُلْ} لمن كَذَّب به وأعرض عنه: {آمِنوا به أو لا تُؤمنوا}: فليس لله حاجةٌ فيكم ولستُم بضارِّيه شيئاً، وإنَّما ضرر ذلك عليكُم؛ فإنَّ لله عباداً غيركم، وهم الذين آتاهُمُ الله العلم النافع؛ {إذا يُتْلَى عَلَيْهِم يَخِرُّونَ للأذقَانِ سُجَّداً}؛ أي: يتأثرون به غاية التأثر ويخضعون له.
[107] پس جب حق واضح ہو جائے جس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک و شبہ نہیں
﴿ قُ٘لْ ﴾ تو ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے حق کو جھٹلایا اور اس سے منہ موڑا
﴿ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا﴾ ’’تم اس کے ساتھ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ‘‘ اللہ تعالیٰ کو تمھاری کوئی حاجت نہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس تکذیب کا نقصان تمھیں ہی پہنچے گا کیونکہ تمھارے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بندے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم نافع عطا کیا ہے۔
﴿ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ ’’جب پڑھا جاتا ہے ان پر تو وہ گر پڑتے ہیں ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے‘‘ یعنی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے سامنے نہایت عاجزی سے سرافگندہ ہوتے ہیں ۔
#
{108} {ويقولون سبحانَ ربِّنا}: عما لا يَليقُ بجلالِهِ مما نَسَبَهُ إليه المشركون. {إنْ كان وعدُ ربِّنا}: بالبعث والجزاء بالأعمال، {لَمَفْعولاً}: لا خُلْفَ فيه ولا شكَّ.
[108] ﴿ وَّیَقُوْلُوْنَ سُبْحٰؔنَ رَبِّنَاۤ ﴾ ’’اور کہتے ہیں پاک ہے ہمارا رب‘‘ وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں اور جو مشرکین نے ان کی طرف منسوب کر رکھی ہیں
﴿ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا ﴾ ’’اور بے شک ہمارے رب کا وعدہ‘‘ یعنی اس نے زندگی بعد موت اور اعمال کی جزا کا جو وعدہ کر رکھا ہے۔
﴿ لَمَفْعُوْلًا ﴾ ’’ہونے والا ہے‘‘ اس میں کوئی وعدہ خلافی ہے نہ اس میں کوئی شک ہے۔
#
{109} {ويخرون للأذقانِ}؛ أي: على وجوههم، {يبكونَ ويزيدُهُم}: القرآن {خشوعاً}: وهؤلاء كالذين منَّ الله عليهم من مؤمني أهل الكتاب؛ كعبد الله بن سلام، وغيره ممَّن أسلم في وقت النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وبعد ذلك.
[109] ﴿ وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ ﴾ ’’اور گرتے ہیں وہ ٹھوڑیوں پر‘‘ یعنی منہ کے بل
﴿ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ ﴾ ’’روتے ہوئے اور زیادہ کرتا ہے ان کو‘‘ یعنی قرآن
﴿ خُشُوْعًا﴾ ’’خشوع خضوع میں ۔‘‘ یہ اہل کتاب کے ان مومنین کی مانند ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور وہ نبی اکرمe کے زمانہ میں اور اس کے بعد ایمان لائے۔
{قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (110) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا (111)}.
کہہ دیجیے! پکارو تم اللہ یا پکارو تم رحمٰن
(کہہ کر) جس
(نام) کے ساتھ پکارو تم، سو اسی کے لیے ہیں
(سب) نام بہت اچھے اورمت بلند آواز کریں ساتھ اپنی نماز کےاور نہ بہت آہستہ
(کریں آواز) ساتھ اس کے اور تلاش کریں درمیان اس کے راستہ
(110) اور کہہ دیجیے! حمد اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جس نے نہیں بنائی کوئی اولاداور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں اور نہیں ہے اس کا کوئی حمایتی بوجہ ذلت
(کمزوری) کےاور بڑائی بیان کیجیے اس
(اللہ) کی خوب بڑائی بیان کرنا
(111)
#
{110} يقول تعالى لعباده: {ادعوا الله أوِ ادْعوا الرحمن}؛ أي: أيهما شئتم. {أيًّا ما تدعوا فله الأسماءُ الحسنى}؛ أي: ليس له اسمٌ غير حسنٍ؛ أي: حتى ينهى عن دعائه به؛ [بل] أيُّ اسم دعوتُموه به؛ حَصَلَ به المقصودُ، والذي ينبغي أن يُدعى في كلِّ مطلوب بما يناسِبُ ذلك الاسم. {ولا تَجْهَرْ بصلاتك}؛ أي: قراءتك، {ولا تُخافِتْ بها}؛ فإنَّ في كلٍّ من الأمرين محذوراً، أمّا الجهرُ؛ فإنَّ المشركين المكذِّبين به إذا سمعوه، سبُّوه، وسبُّوا مَنْ جاء به. وأما المخافتةُ؛ فإنَّه لا يحصُلُ المقصود لمن أراد استماعَه مع الإخفاء. {وابتغ بينَ ذلك}؛ أي: بين الجهر والإخفات {سبيلاً}؛ أي: تتوسَّط فيما بينهما.
[110] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے:
﴿ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ ’’تم پکارو اللہ کو یا پکارو رحمن کو‘‘ یعنی ان دونوں ناموں میں سے چاہے جس نام سے پکارو
﴿ اَ یًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰؔى ﴾ ’’جو کہہ کر پکارو گے، پس اسی کے ہیں سب نام اچھے‘‘ یعنی اس کا کوئی اسم مبارک ایسا نہیں جو اچھا نہ ہو اور اس کو اس نام سے پکارنے سے روکا گیا ہو۔ تم جس نام سے بھی اسے پکارو گے اس سے مقصد حاصل ہو جائے گا۔ مگر مناسب یہی ہے کہ اسے ہر مطلوب کی مناسبت سے، مطلوب کے مطابق نام سے پکارا جائے۔
﴿ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ ﴾ ’’اور پکار کر نہ پڑھیں اپنی نماز‘‘ یعنی بہت بلند آواز سے قراء ت نہ کیجیے
﴿وَلَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾ ’’اور نہ چپکے سے پڑھیں ‘‘ یعنی ان دونوں امور سے بچا جانا چاہیے۔ زیادہ بلند آواز میں قراء ت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ مشرکین قرآن مجید سن کر برا بھلا کہیں گے اور قرآن لانے والے کو سب و شتم کا نشانہ بنائیں گے اور بہت نیچی آواز میں قرآن پڑھنے سے اس شخص کا مقصد پورا نہ ہو سکے گا جو دھیمی آواز میں قرآن سننا چاہتا ہے۔
﴿ وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا﴾ ’’اور ڈھونڈ لیں اس کے درمیان راستہ‘‘ یعنی بہت زیادہ بلند آواز اور بہت زیادہ پست آواز کے بین بین اور ان دونوں کے درمیان متوسط راہ اختیار کیجیے۔
#
{111} {وقل الحمد لله}: الذي له الكمالُ والثناءُ والحمدُ والمجدُ من جميع الوجوه، المنزَّه عن كلِّ آفة ونقص. {الذي لم يتَّخِذْ ولداً ولم يكُن له شريكٌ في الملك}: بل الملكُ كلُّه لله الواحد القهار؛ فالعالم العلويُّ والسفليُّ كلُّهم مملوكون لله، ليس لأحدٍ من الملك شيء. {ولم يَكُن له وليٌّ من الذُّلِّ}؛ أي: لا يتولى أحداً من خلقه ليتعزز به ويعاونه، فإنه الغني الحميد، الذي لا يحتاج إلى أحدٍ من المخلوقات في الأرض ولا في السماوات، ولكنَّه يتخذ أولياءه إحساناً منه إليهم ورحمة بهم، {الله وليُّ الذينَ آمنوا يُخْرِجُهم من الظُّلُماتِ إلى النُّور}. {وكبِّرْه تكبيراً}؛ أي: عظِّمه وأجلَّه بالإخبار بأوصافه العظيمة، وبالثَّناء عليه بأسمائِهِ الحسنى، وبتمجيدِهِ بأفعاله المقدَّسة، وبتعظيمه وإجلاله بعبادتِهِ وحدَه لا شريك له، وإخلاص الدِّين كلِّه له.
[111] ﴿ وَقُ٘لِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ﴾ ’’اور کہہ دیجیے! تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ جو ہر لحاظ سے کمال، مدح و ثنا اور حمد و مجد کا مالک اور ہر آفت اور نقص سے پاک ہے۔
﴿ الَّذِیْ لَمْ یَتَّؔخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَؔكُ٘نْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ ﴾ ’’جو نہیں رکھتا اولاد اور نہیں اس کا کوئی شریک بادشاہی میں ‘‘ بلکہ تمام تر اقتدار کا مالک اللہ واحد و قہار ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی کے رہنے والے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں
﴿ وَلَمْ یَؔكُ٘نْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ ﴾ ’’اور نہیں ہے اس کا کوئی مددگار عاجزی کے وقت‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنا سرپرست نہیں بناتا کہ وہ اس کے تعاون کے ذریعے سے عزت و غلبہ حاصل کرے۔ پس وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے، وہ زمین اور آسمانوں میں اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں ۔ مگر وہ اپنے بندوں پر احسان کرتے اور ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپتے ہوئے ان کو اپنا دوست بناتا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰؔتِ اِلَى النُّوْرِ ﴾ (البقرۃ : 2؍257) ’’جو لوگ ایمان لائے، اللہ ان کا دوست ہے جو انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔‘‘
﴿ وَؔكَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا﴾ ’’اور اس کی بڑائی بیان کر بڑا جان کر‘‘ یعنی اس کے عظیم اوصاف کے بارے میں خبر دے کر، اس کے اسماء حسنیٰ کے ذریعے سے حمدوثنا کے ساتھ، اس کے افعال مقدسہ کے ذریعے سے ستائش کے ساتھ، صرف اس کے لیے عبادت کے ذریعے سے اس کی عظمت و جلال بیان کرتے ہوئے اس کی تعظیم و جلال کا اعتراف کیجیے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اخلاص دین صرف اسی کے لیے ہے۔