آیت:
تفسیر سورۂ مریم
تفسیر سورۂ مریم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{كهيعص (1) ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا (2) إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا (3) قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (6)}.
کٓھٰیٰعٓصٓ (1) (یہ) ذکر ہے رحمت کا آپ کے رب کی، اپنے بندے زکریا پر (2) جب پکارا تھا اس نے اپنے رب کو پکارنا آہستہ (13) زکریا نے کہا، اے میرے رب! بلاشبہ میں ، کمزور ہو گئی ہیں ہڈیاں میری اور بھڑک اٹھا ہے میر ا سر بڑھاپے سےاورنہیں ہوا میں (کبھی) تجھے پکار کر، اے میرے رب! محروم (4) اور بلاشبہ میں ڈرتا ہوں اپنے وارثوں سے، اپنے پیچھےاور ہے میری بیوی بانجھ، پس عطا کر تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث (5) کہ وہ وارث ہو میرااور وارث ہو آل یعقوب کااور تو بنا اسے، اے میرے رب! پسندیدہ (6)
#
{2} أي: هذا {ذِكْرُ رحمةِ ربِّك عبدَه زكريَّا}: سنقصُّه عليك، ونفصِّله تفصيلاً يُعرِّف به حالة نبيِّه زكريا وآثاره الصالحة ومناقبه الجميلة؛ فإنَّ في قصِّها عبرة للمعتبرين وأسوة للمقتدين، ولأنَّ في تفصيل رحمته لأوليائِهِ وبأيِّ سبب حصلت لهم مما يدعو إلى محبَّة الله تعالى والإكثار من ذكرِهِ ومعرفتِهِ والسبب الموصل إليه، وذلك أنَّ الله تعالى اجتبى واصطفى زكريَّا عليه السلام لرسالتِهِ، وخصَّه بوحيه، فقام بذلك قيام أمثاله من المرسلين، ودعا العباد إلى ربِّه، وعلَّمهم ما علَّمه الله، ونصح لهم في حياته وبعد مماتِهِ كإخوانه من المرسلين ومن اتَّبعهم.
[2] ﴿ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّ٘ا﴾ ’’یہ آپ کے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔‘‘ جو ہم آپ کے سامنے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کے نبی زکریاu کے احوال، ان کے آثار صالحہ اور مناقب جمیلہ کی معرفت حاصل ہو گی کیونکہ اس قصے میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت اور پیروی کرنے والوں کے لیے ایک نمونہ ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی اپنے دوستوں پر رحمت کا مفصل ذکر اور اس کے حصول کے اسباب کا بیان اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے ذکر کی کثرت، اس کی معرفت اور اس تک پہنچانے والے اسباب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت زکریاu کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا اورانھیں اپنی وحی کے لیے مختص کر لیا۔ انھوں نے اس ذمہ داری کو اسی طرح ادا کیا جس طرح دیگر انبیاء و مرسلین نے ادا کیا۔ بندوں کو اپنے رب کی طرف دعوت دی اور انھیں وہ تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی۔ اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد ان کی اسی طرح خیرخواہی کی جیسے ان کے برادران دیگر انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین نے کی تھی۔
#
{3 ـ 4} فلما رأى من نفسه الضعف، وخاف أن يموتَ، ولم يكن أحدٌ ينوب منابه في دعوة الخلق إلى ربِّهم والنُّصح لهم، شكا إلى ربِّه ضعفه الظاهر والباطن، وناداه نداء خفيًّا؛ ليكون أكمل وأفضل وأتمَّ إخلاصاً، فقال: {ربِّ إنِّي وَهَنَ العظمُ منِّي}؛ أي: وَهَى وضَعُفَ، وإذا ضعف العظم الذي هو عماد البدن؛ ضعف غيره. {واشتعل الرأس شيباً}؛ لأنَّ الشيب دليلُ الضعف والكبر ورسولُ الموت ورائدُه ونذيرُه، فتوسَّل إلى الله تعالى بضعفه وعجزه، وهذا من أحبِّ الوسائل إلى الله؛ لأنَّه يدلُّ على التبرِّي من الحول والقوة وتعلُّق القلب بحول الله وقوَّته. {ولم أكن بدعائِكَ ربِّ شقيًّا}؛ أي: لم تكن يا ربِّ تردُّني خائباً ولا محروماً من الإجابة، بل لم تزلْ بي حفيًّا ولدعائي مجيباً، ولم تزل ألطافُك تتوالى عليَّ وإحسانُك واصلاً إليَّ، وهذا توسُّل إلى الله بإنعامه عليه وإجابة دعواته السابقة، فسأل الذي أحسن سابقاً أن يتمِّم إحسانَه لاحقاً.
[4,3] جب انھوں نے اپنے آپ کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھا تو انھیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ وہ اس حال میں وفات پا جائیں گے کہ بندوں کو ان کے رب کی طرف دعوت دینے اور ان کے ساتھ خیرخواہی کرنے میں ان کی نیابت کرنے والا کوئی نہ ہو گا … تو انھوں نے اپنے رب کے پاس اپنی ظاہری اور باطنی کمزوری کا شکوہ کیا اور اسے چپکے چپکے پکارا تاکہ یہ دعا اخلاص کے لحاظ سے اکمل و افضل ہو۔ انھوں نے عرض کی: ﴿رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ﴾ ’’اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں ‘‘ اور جب ہڈیاں ، جو کہ بدن کا سہارا ہیں ، کمزور ہو جاتی ہیں تو دیگر تمام اعضاء بھی کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ ﴿ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا ﴾ ’’اور بھڑکا سر بڑھاپے سے‘‘ کیونکہ بڑھاپا ضعف اورکمزوری کی دلیل، موت کا ایلچی اور اس سے ڈرانے والا ہے۔ حضرت زکریاu نے اپنے ضعف اور عجز کو اللہ کی طرف وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ محبوب ترین وسیلہ ہے کیونکہ یہ بندے کے اپنی قوت و اختیار سے براء ت اور دل کے اللہ تعالیٰ کی قوت و اختیار پر بھروسہ کرنے کے اظہار پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ وَّلَمْ اَكُ٘نْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّا ﴾ ’’اور تجھ سے مانگ کر اے رب، میں کبھی محروم نہیں رہا‘‘ یعنی اے میرے رب! تو نے کبھی بھی میری دعا کو قبولیت سے محروم کر کے مجھے خائب و خاسر نہیں کیا بلکہ تو مجھے ہمیشہ عزت و اکرام سے نوازتا اور میری دعا کو قبول کرتا رہا ہے۔ تیرا لطف و کرم ہمیشہ مجھ پر سایہ فگن رہا اور تیرے احسانات مجھ تک پہنچتے رہے۔ یہ حضرت زکریا u نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی گزشتہ دعاؤں کی قبولیت کو بارگاہ الٰہی میں بطور وسیلہ پیش کیا۔ پس حضرت زکریا uنے اس ہستی سے سوال کیا جس نے ماضی میں ان کو احسانات سے نوازا کہ وہ آئندہ بھی انھیں اپنی عنایات سے نوازے۔
#
{5} {وإنِّي خفتُ المواليَ من ورائي}؛ أي: وإني خفتُ من يتولَّى على بني إسرائيل من بعد موتي أن لا يقوموا بدينك حقَّ القيام، ولا يدعوا عبادك إليك. وظاهر هذا أنَّه لم يَرَ فيهم أحداً فيه لياقةٌ للإمامة في الدين، وهذا فيه شفقةُ زكريَّا عليه السلام ونصحُه وأنَّ طلبه للولد ليس كطلب غيره؛ قصدُهُ مجردُ المصلحة الدنيويَّة، وإنَّما قصدُه مصلحة الدين والخوف من ضياعه، ورأى غيرَه غيرَ صالح لذلك، وكان بيتُه من البيوت المشهورة في الدِّين ومعدن الرسالة ومظنَّة للخير، فدعا الله أن يرزقَه ولداً يقوم بالدين من بعدِهِ، واشتكى أنَّ امرأته عاقر؛ أي: ليست تلدُ أصلاً، وأنَّه قد بلغ من الكبر عتيًّا؛ أي: عمراً يندُرُ معه وجود الشهوة والولد. {فهب لي من لَدُنكَ وليًّا}.
[5] ﴿ وَاِنِّیْ خِفْتُ الْ٘مَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ ﴾ ’’اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے‘‘ یعنی مجھے خدشہ ہے کہ میری موت کے بعد بنی اسرائیل پر کون مقرر ہو گا؟ وہ تیرے دین کو اس طرح قائم نہیں کر سکیں گے جس طرح قائم کرنے کا حق ہے اور وہ تیرے بندوں کو تیری طرف دعوت نہیں دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت زکریاu کو بنی اسرائیل میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آ رہا تھا جس میں یہ لیاقت ہو کہ وہ ان کی دینی سربراہی کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ اس سے حضرت زکریاu کی شفقت اور خیرخواہی کا اظہار ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ آپ کو بیٹے کی طلب عام لوگوں کے مانند نہ تھی، جس میں مجرد دنیاوی مصلحتیں مقصود ہوتی ہیں ۔ آپ کی طلب تو صرف دینی مصالح کی بنا پر تھی آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں دین ضائع نہ ہو جائے اورآپ کسی دوسرے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت زکریاu کا گھرانہ مشہور دینی گھرانوں میں سے تھا اور رسالت و نبوت کا گھر شمار ہوتا تھا اور اس گھرانے سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جاتی تھی، اس لیے حضرت زکریاu نے دعا کی کہ وہ انھیں بیٹا عطا کرے جو ان کے بعد دینی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کی بیوی بانجھ ہے اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں اور وہ خود بھی بہت بوڑھے ہو گئے ہیں اور ایسی عمر میں داخل ہو گئے ہیں کہ جس میں شہوت اور اولاد کا وجود بہت نادر ہے۔ انھوں نے عرض کی: ﴿ فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﴾ ’’سو عطا کر تو مجھ کو اپنی طرف سے ایک معاون‘‘
#
{6} وهذه الولاية ولاية الدين وميراث النبوَّة والعلم والعمل، ولهذا قال: {يرثني ويَرِثُ من آل يعقوبَ واجْعَلْه ربِّ رضيًّا}؛ أي: عبداً صالحاً ترضاه وتحبِّبه إلى عبادك. والحاصل أنَّه سأل الله ولداً ذكراً صالحاً يبقى بعد موته ويكون وليًّا من بعده ويكون نبيًّا مرضيًّا عند الله وعند خلقِهِ، وهذا أفضل ما يكون من الأولاد، ومن رحمة الله بعبدِهِ أنْ يرزقَه ولداً صالحاً جامعاً لمكارم الأخلاق ومحامد الشيم، فرحمه ربُّه واستجاب دعوته فقال:
[6] اور یہ ولایت، دینی ولایت ہے اور نبوت، علم اور عمل کی میراث ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖ ۗ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ﴾ ’’جو وارث ہو میرا اور وارث ہو یعقوب کی اولاد کا اور کر اس کو اے میرے رب پسندیدہ‘‘ یعنی اسے نیک بندہ بنا جس سے تو راضی ہو اور تو اسے اپنے بندوں کا محبوب بنا دے۔ غرضیکہ حضرت زکریاu نے اللہ تعالیٰ سے صالح بیٹے کی دعا کی جو ان کے مرنے کے بعد باقی رہے، جو ان کا ولی اور وارث بنے، اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور نبی ہو۔ یہ اولاد کی بہترین صفات ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بے پایاں رحمت ہے کہ وہ اسے ایسا نیک بیٹا عطا کرے جو مکارم اخلاق اور قابل ستائش عادات کا جامع ہو۔
آیت: 7 - 11 #
{يَازَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا (7) قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا (8) قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا (9) قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (10) فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (11)}.
اے زکریا! بے شک ہم خوشخبری دیتے ہیں تجھے ایک لڑکے کی، کہ نام اس کا ہے یحییٰ ، نہیں بنایا ہم نے اس کا، پہلے اس سے، کوئی ہم نام (7) زکریا نے کہا، اے میرے رب! کیسے ہوگا میرے لیے لڑکا جبکہ ہے میری بیوی بانجھ اور تحقیق پہنچ چکا ہوں میں بڑھاپے کی آخری حد کو؟ (8) کہا (فرشتے نے بات) اسی طرح ہے (لیکن) کہا تیرے رب نے، وہ مجھ پر آسان ہےاور تحقیق پیداکیا میں نے تجھے پہلے اس سے، درآنحالیکہ نہیں تھا تو کچھ بھی (9)زکریا نے کہا، اے میرے رب! ٹھہرا دے میرے لیے کوئی نشانی، فرمایا، نشانی تیری یہ ہے کہ نہ بات کر سکے گا تو لوگوں سے تین راتیں تندرستی کے باوجود (10)پس وہ نکلا اوپر اپنی قوم کے، حجرے سے تو اس نے اشارہ کیا ان کی طرف یہ کہ تم تسبیح بیان کرو صبح اورشام (11)
#
{7} أي: بشره الله تعالى على يد الملائكة بيحيى، وسمَّاه الله له يحيى، وكان اسماً موافقاً لمسمَّاه؛ يحيا حياة حسيَّةً فتتمُّ به المنَّة، ويحيا حياةً معنويَّة، وهي حياة القلب والروح بالوحي والعلم والدين. {لم نجعل له من قبلُ سميًّا}؛ أي: لم يسمِّ هذا الاسم قبله أحدٌ، ويُحتمل أنَّ المعنى: لم نجعلْ له من قبل مثيلاً ومسامياً؛ فيكون ذلك بشارةً بكماله واتِّصافه بالصفات الحميدة، وأنَّه فاق من قبله، ولكن على هذا الاحتمال؛ هذا العموم لا بدَّ أن يكون مخصوصاً بإبراهيم وموسى ونوح عليهم السلام ونحوهم ممَّن هو أفضلُ من يحيى قطعاً.
[7] یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کے توسط سے ’’یحییٰ‘‘ (u) کی خوشخبری سنائی اور اللہ تعالیٰ نے اس (بیٹے) کو ’’یحییٰ‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ اسم اپنے مسمی کے عین موافق تھا، چنانچہ یحییٰu نے حسی زندگی بسر کی جس سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کی تکمیل ہوئی اور آپ نے معنوی زندگی بھی بسر کی، وہ ہے وحی، علم اور دین کے ذریعے سے قلب وروح کی زندگی۔ ﴿ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ﴾ ’’نہیں کیا ہم نے پہلے اس نام کا کوئی‘‘ یعنی اس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں حضرت یحییٰu سے پہلے آپ جیسا کوئی نہیں بنایا، تب یہ ان کی کاملیت اور اوصاف حمیدہ سے ان کے متصف ہونے کی بشارت ہے، نیز یہ کہ حضرت یحییٰu اپنے سے پہلے تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں … مگر اس احتمال کے مطابق، اس عموم میں سے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت نوحo اور ان جیسے دیگر انبیاء کرام کو مخصوص کرنا ہو گا جو قطعی طور پر حضرت یحییٰu سے افضل ہیں ۔
#
{8} فحينئذٍ لما جاءته البشارة بهذا المولود الذي طلبه؛ استغربَ وتعجب وقال: {ربِّ أنَّى يكونُ لي غلام}: والحال أنَّ المانع من وجود الولد موجود بي وبزوجتي، وكأنَّه وقتَ دعائه لم يستحضرْ هذا المانع؛ لقوَّة الوارد في قلبه وشدَّة الحرص العظيم على الولد، وفي هذه الحال حين قُبِلَتْ دعوتُه؛ تعجَّب من ذلك.
[8] جب ان کے پاس اس مولود کے بارے میں ، جس کے لیے انھوں نے دعا مانگی تھی، خوشخبری آ گئی تو انھوں نے اس کو عجیب و غریب سمجھا اور تعجب کرتے ہوئے عرض کی: ﴿ قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُ٘وْنُ لِیْ غُلٰ٘مٌ ﴾ ’’اے رب! کہاں سے ہوگا میرے لیے لڑکا؟‘‘ اور حال یہ ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں بعض ایسے اسباب موجود ہیں جو اولاد کے وجود سے مانع ہیں ۔ گویا آپ کی دعا کے وقت آپ کے سامنے یہ مانع مستحضر نہ تھا اور اس کا سبب قلب میں وارد ہونے والے جذبے کی قوت اور بیٹے کی شدید خواہش تھی اور اس حال میں جب آپ کی دعا قبول ہو گئی تو آپ کو تعجب ہوا۔
#
{9} فأجابه الله بقوله: {كذلك قال ربُّكَ هو عليَّ هيِّنٌ}؛ أي: الأمر مستغربٌ في العادة، وفي سنة الله في الخليقة، ولكن قدرة الله تعالى صالحةٌ لإيجاده بدون أسبابها؛ فذلك هيِّن عليه، ليس بأصعب من إيجاده قبلُ، ولم يك شيئاً.
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿كَذٰلِكَ١ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ ﴾ ’’یوں ہی ہوگا، فرما دیا تیرے رب نے وہ مجھ پر آسان ہے‘‘ یعنی وہ امر جو عادۃً اور مخلوق میں سنت الٰہی کے مطابق ناممکن ہے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت تو اسے اسباب کے بغیر وجود میں لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے یہ اس کے لیے بہت آسان ہے۔ اس کو وجود میں لانا اس سے زیادہ مشکل نہیں جو اس سے قبل اس کو وجود میں لایا تھا، جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔
#
{10} {قال ربِّ اجعل لي آيةً}؛ أي: يطمئنُّ بها قلبي، وليس هذا شكًّا في خبر الله، وإنَّما هو كما قال الخليل عليه السلام: {ربِّ أرني كيفَ تُحيي الموتى قال أوَلَم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئنَّ قلبي}: فطلب زيادة العلم والوصول إلى عين اليقين بعد علم اليقين، فأجابه الله إلى طِلْبَتِهِ رحمةً به. {قال آيتُك أن لا تكلِّمَ الناس ثلاثَ ليال سويًّا}، وفي الآية الأخرى: {ثلاثةَ أيام إلاَّ رَمْزاً}، والمعنى واحد؛ لأنَّه تارةً يعبِّر بالليالي، وتارةً بالأيَّام، ومؤدَّاها واحدٌ، وهذا من الآيات العجيبة؛ فإنَّ منعَه من الكلام مدة ثلاثة أيام وعجزَه عنه من غير خرسٍ ولا آفةٍ بل كان سويًّا لا نقصَ فيه من الأدلة على قدرةِ الله الخارقةِ للعوائد، ومع هذا ممنوعٌ من الكلام الذي يتعلَّق بالآدميِّين وخطابهم، وأما التسبيح [والتهليل] والذكر ونحوه فغيرُ ممنوع منه، ولهذا قال في الآية الأخرى: {واذكُر ربَّك كثيراً وسبِّح بالعشيِّ والإبكار}.
[10] ﴿ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً﴾ ’’زکریا نے کہا: اے رب! ٹھہرا دے میرے لیے کوئی نشانی‘‘ یعنی جس سے میرا دل مطمئن ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک نہیں بلکہ یہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیمu نے عرض کی تھی ﴿ رَؔبِّ اَرِنِیْؔ كَیْفَ تُ٘حْیِ الْمَوْتٰى ١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُ٘ـؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرۃ:2؍260) ’’اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کی کیوں نہیں مگر یہ اس لیے پوچھا ہے تاکہ اطمینان قلب حاصل ہو۔‘‘ پس ان کو اپنے علم میں اضافہ کی طلب تھی، انھیں علم الیقین کے بعد عین الیقین کے مقام پر پہنچنے کی خواہش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰ٘ثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ﴾ ’’فرمایا: تیری نشانی یہ ہے کہ تو بات نہیں کرے گا لوگوں سے تین رات تک صحیح تندرست ہوتے ہوئے۔‘‘ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: ﴿ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰ٘ثَةَ اَ یَّامٍ اِلَّا رَمْزًا ﴾ (آل عمران : 3؍41) ’’تو بات نہیں کرے گا تین دن تک مگر اشارے سے‘‘ دونوں کا معنی ایک ہے کیونکہ کبھی رات سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی دن سے، دونوں کا مقصد ایک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعجب خیز نشانیوں میں سے ہے کیونکہ تین دن تک، بغیر کسی بیماری اور نقص کے اور بغیر گونگا ہوئے بلکہ صحیح سلامت حالت میں بولنے سے عاجز ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے جو فطرت کے قوانین عادیہ کو توڑ سکتی ہے۔ بایں ہمہ حضرت زکریاu صرف اس کلام سے عاجز تھے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ تسبیح اور ذکر وغیرہ سے یہ چیز مانع نہ تھی۔ بناء بریں ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّسَبِّحْ بِالْ٘عَشِیِّ وَالْاِبْكَارِ﴾ (آل عمران:3؍41) ’’نہایت کثرت سے صبح و شام اپنے رب کا ذکر اور تسبیح کر۔‘‘
#
{11} فاطمأنَّ قلبُه، واستبشر بهذه البشارة العظيمة، وامتثل لأمر الله له بالشكر بعبادته وذكرِهِ، فعكف في محرابه، وخرج على قومه منه {فأوحى إليهم}؛ أي: بالإشارة والرمز، {أن سبِّحوا بكرةً وعشيًّا}: لأنَّ البشارة بيحيى في حقِّ الجميع مصلحة دينية.
[11] پس ان کا دل مطمئن ہو گیا اور وہ اس عظیم بشارت سے خوش ہو گئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، اس کی عبادت اور ذکر کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیا۔ پس وہ اپنی محراب میں معتکف ہو گئے اور وہاں سے وہ اپنی قوم کے سامنے آئے ﴿ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ ﴾ اور انھیں حکم دیا یعنی اشارے اور رمز کے ساتھ: ﴿ اَنْ سَبِّحُوْا بُؔكْرَةً وَّعَشِیًّا ﴾ ’’کہ صبح اور شام اللہ کی پاکیزگی بیان کرو‘‘ کیونکہ یحییٰu کی بشارت تمام لوگوں کے حق میں دینی مصلحت تھی۔
آیت: 12 - 15 #
{يَايَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (12) وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا (13) وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا (14) وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (15)}.
(اللہ نے فرمایا) اے یحییٰ! پکڑ کتاب کو ساتھ قوت کے اور دیا ہم نے اسے حکم بچپن ہی میں (12) اور (دی ہم نے) شفقت اپنی طرف سے اور پاکیزگی اور تھا وہ نہایت پرہیز گار (13) اور نیکی کرنے والا ساتھ اپنے ماں باپ کےاور نہیں تھا وہ سرکش، نافرمان (14) اور اسلام ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا زندہ کر کے (15)
#
{12} دلَّ الكلام السابق على ولادة يحيى وشبابه وتربيته، فلما وصل إلى حالةٍ يفهم فيها الخطاب؛ أمره الله أنْ يأخذ الكتاب بقوَّة؛ أي: بجدٍّ واجتهادٍ، وذلك بالاجتهاد في حفظ ألفاظه وفهم معانيه والعمل بأوامره ونواهيه، هذا تمامُ أخذِ الكتاب بقوَّة، فامتثل أمر ربِّه، وأقبل على الكتاب فحفظه وفهمه، وجعل الله فيه من الذَّكاء والفطنة ما لا يوجد في غيره، ولهذا قال: {وآتَيْناه الحكم صبيًّا} [أي: معرفة أحكام اللَّه والحكم بها وهو في حال صغره وصباه].
[12] گزشتہ کلام، حضرت یحییٰu کی ولادت، ان کے شباب اور ان کی تربیت پر دلالت کرتا ہے۔ جب حضرت یحییٰu اس عمر کو پہنچ گئے جس عمر میں خطاب سمجھ میں آ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ قوت یعنی کوشش اور اجتہاد کے ساتھ کتاب اللہ کو پکڑے رکھیں یعنی اس کے الفاظ کی حفاظت، اسکے معانی کے فہم اور اس کے اوامرونواہی پر عمل میں پوری کوشش اور اجتہاد سے کام لیں … یہ ہے کتاب اللہ کو کامل طور پر پکڑنا۔ حضرت یحییٰu نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی، انھوں نے کتاب اللہ کی طرف توجہ کی، اسے حفظ کیا اور اس کا فہم حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی ذہانت و فطانت عطا کی جو کسی اور میں نہ تھی اس لیے فرمایا: ﴿وَاٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّا﴾ ہم نے اسے بچپن ہی سے احکام الٰہی اور ان کی حکمتوں کی معرفت سے نوازا۔
#
{13} وآتيناه أيضاً {حناناً من لَدُنّا}؛ أي: رحمة ورأفة تيسَّرتْ بها أموره، وصلحتْ بها أحواله، واستقامت بها أفعاله. {وزكاة}؛ أي: طهارة من الآفات والذنوب، فَطَهُرَ قلبُه وتزكَّى عقلُه، وذلك يتضمَّن زوال الأوصاف المذمومة والأخلاق الرديئة وزيادة الأخلاق الحسنة والأوصاف المحمودة، ولهذا قال: {وكان تَقِيًّا}؛ أي: فاعلاً للمأمور تاركاً للمحظور.
[13] نیز ﴿ وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا ﴾ ’’اور شفقت اپنی طرف سے‘‘ یعنی رحمت اور رافت عطا کی جس کی بنا پر ان کے تمام امور آسان ہوئے، ان کے احوال کی اصلاح ہوئی اور ان کے تمام اعمال درست ہوئے۔ ﴿وَزَؔكٰوةً﴾ ’’اور ستھرائی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں گناہوں اور آفات سے پاک کیا۔ پس ان کا قلب پاک اور ان کی عقل صیقل ہو گئی اور یہ چیز تمام اوصاف مذمومہ اور اخلاق قبیحہ کے زائل ہونے اور اوصاف محمودہ اور اخلاق حسنہ میں اضافے کو متضمن ہیں۔ ﴿وَؔكَانَ تَقِیًّا ﴾ ’’اور تھے وہ پرہیز گار‘‘ یعنی مامورات کی تعمیل کرنے والے اور محظورات کو ترک کرنے والے تھے۔
#
{14} ومن كان مؤمناً تقيًّا؛ كان لله وليًّا، وكان من أهل الجنة التي أُعدَّت للمتقين، وحصل له من الثواب الدنيويِّ والأخرويِّ ما رتَّبه الله على التَّقوى، وكان أيضاً {برًّا بوالديه}؛ أي: لم يكن عاقًّا ولا مسيئاً إلى أبويه، بل كان محسناً إليهما بالقول والفعل. {ولم يكن جباراً عَصِيًّا}؛ أي: لم يكن متجبراً متكبراً عن عبادة الله، ولا مترفِّعاً على عباد الله ولا على والديه، بل كان متواضعاً متذلِّلاً مطيعاً أوَّاباً لله على الدوام، فجمع بين القيام بحقِّ الله وحق خلقه.
[14] اور جو کوئی مومن اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی اور اہل جنت میں سے ہوتا ہے وہ جنت جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے اور مومن متقی کو دنیاوی اور اخروی ثواب حاصل ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر مرتب کر رکھا ہے۔﴿ وَّبَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ ﴾ ’’اور تھے وہ نیکی کرنے والے اپنے ماں باپ کے ساتھ‘‘ نیز یحییٰu اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے یعنی ان کی نافرمانی کرنے والے اور ان کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے نہ تھے بلکہ وہ قول و فعل کے ذریعے سے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ ﴿وَلَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴾ ’’اور نہ تھے وہ سرکش، خود سر‘‘ یعنی وہ تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی کرنے والے نہ تھے اور وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں سے بڑا سمجھتے تھے نہ اپنے والدین سے بلکہ وہ متواضع، عاجز، مطیع اور ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والے تھے۔ پس وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے۔
#
{15} ولهذا حصلت له السلامة من الله في جميع أحواله؛ مبادئها وعواقبها؛ فلذا قال: {وسلامٌ عليه يومَ وُلِدَ ويومَ يموتُ ويومَ يُبْعَثُ حيًّا}: وذلك يقتضي سلامته من الشيطان والشرِّ والعقاب في هذه الأحوال الثلاثة وما بينها، وأنَّه سالمٌ من النار والأهوال ومن أهل دار السلام؛ فصلوات الله وسلامه عليه وعلى والده وعلى سائر المرسلين، وجعلنا من أتباعِهِم إنَّه جوادٌ كريمٌ.
[15] اس لیے ان کو اپنے تمام احوال میں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی حاصل تھی۔﴿ وَسَلٰ٘مٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ﴾ ’’اور سلام ہو ان پر جس دن پیدا ہوئے اور جس دن مریں گے اور جس دن اٹھ کھڑے ہوں گے زندہ ہو کر‘‘ اور یہ ارشاد ان تینوں احوال میں شیطان، اس کے شر اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامتی کا تقاضا کرتا ہے، نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جہنم اور اس کی ہولناکیوں سے محفوظ اور اصحاب دارالسلام میں سے ہیں … اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں آپ پر، آپ کے والد پر اور تمام انبیاء و مرسلین پر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے متبعین میں شامل کرے، وہ بڑا سخی اور نہایت کرم کرنے والا ہے۔
آیت: 16 - 21 #
{وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (16) فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (17) قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا (18) قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (19) قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (20) قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا (21)}.
اور ذکر کیجیے کتاب میں مریم کا، جب علیحدہ ہوئی وہ اپنے گھر والوں سے ایسے مکان میں جو مشرقی جانب تھا(16) پھر بنا لیا مریم نے ان کے آگے سے ایک پردہ، پس بھیجا ہم نے اس کی طرف اپنی روح کو، سو شکل اختیار کی اس نے مریم کے سامنے ایک آدمی کامل کی (17) کہا مریم نے، بلاشبہ میں پناہ پکڑتی ہوں رحمٰن کے ساتھ، تجھ سے، اگر ہے تو ڈرنے والا (18) اس نے کہا، یقینا میں بھیجا ہوا ہوں تیرے رب کاتاکہ عطا کروں تجھے (اللہ کے حکم سے) ایک لڑکا پاکیزہ (19) مریم نے کہا، کیسے ہو گا میرے لیے لڑکا حالانکہ نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے ، اور نہیں ہوں میں بدکار (20)فرشتے نے کہا، اسی طرح ہے (تو بچہ جنے گی) کہا ہے تیرے رب نے وہ مجھ پر آسان ہےاور تاکہ بنائیں ہم اسے ایک نشانی لوگوں کے لیے اور رحمت اپنی طرف سے اور ہے (یہ) معاملہ طے شدہ (21)
#
{16} لما ذكر قصة زكريّا ويحيى، وكانت من الآيات العجيبة؛ انتقلَ منها إلى ما هو أعجب منها تدريجاً من الأدنى إلى الأعلى، فقال: {واذْكُرْ في الكتاب}: الكريم {مريمَ}: عليها السلام، وهذا من أعظم فضائلها؛ أنْ تُذْكَرَ في الكتاب العظيم الذي يتلوه المسلمون في مشارق الأرض ومغاربها؛ تُذْكَر فيه بأحسن الذكر وأفضل الثناء؛ جزاءً لعملها الفاضل وسعيها الكامل؛ أي: واذْكُرْ في الكتاب مريم في حالها الحسنة حين {انتبذت}؛ أي: تباعدت عن أهلها {مكاناً شرقيًّا}؛ أي: مما يلي الشرق عنهم.
[16] اللہ تبارک وتعالیٰ نے زکریا اور یحییٰi کا واقعہ بیان کرنے کے بعد … کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ہے … ایک اور قصہ بیان فرمایا جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف تدریج ہے۔ ﴿ وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ ﴾ ’’اور ذکر کر کتاب میں ‘‘ یعنی قرآن کریم میں ﴿ مَرْیَمَ﴾ مریم[ کا۔ یہ مریم[ کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ کتاب عظیم میں ان کا نام مذکور ہے جس کی مشرق و مغرب کے تمام مسلمان تلاوت کرتے ہیں ۔ اس کتاب عظیم میں بہترین پیرائے میں ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنابیان کی گئی ہے یہ ان کے اچھے اعمال اور کوشش کامل کی جزا ہے، یعنی کتاب عظیم میں ، حضرت مریم[ کے بہترین حال کا ذکر کیجیے۔ جب ﴿ اِذِ انْتَبَذَتْ ﴾ ’’وہ جدا ہوئی‘‘ یعنی جب مریم[ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ﴿ مَكَانًا شَرْقِیًّا ﴾ مشرقی جانب ایک مکان میں گوشہ نشیں ہو گئی تھیں ۔
#
{17} {فاتَّخذتْ من دونهم حجاباً}؛ أي: ستراً ومانعاً، وهذا التباعد منها واتِّخاذ الحجاب لتعتزل وتنفرد بعبادة ربِّها، وتقنت له في حالة الإخلاص والخضوع والذلِّ لله تعالى، وذلك امتثالٌ منها لقوله تعالى: {وإذْ قالتِ الملائكة يا مريمُ إنَّ الله اصطفاكِ وطهرك واصطفاك على نساءِ العالمينَ. يا مريمُ اقْنُتي لربِّكِ واسجُدي واركَعي مع الرَّاكعين}. وقوله: {فأرسَلْنا إليها روحنا}: وهو جبريلُ عليه السلام، {فتمثَّلَ لها بشراً سويًّا}؛ أي: كاملاً من الرجال في صورة جميلة وهيئةٍ حسنةٍ لا عيبَ فيه ولا نقص؛ لكونها لا تحتملُ رؤيته على ما هو عليه.
[17] ﴿ فَاتَّؔخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابً٘ا﴾ ’’پھر پکڑ لیا ان سے ورے ایک پردہ‘‘ یعنی ایک پردہ ڈال لیا تھا جو لوگوں کی ملاقات سے مانع تھا۔حضرت مریم[ کا گوشہ نشیں ہونا، پردہ لٹکا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے الگ تھلگ ہو جانا، اخلاص، خشوع و خضوع اور اللہ تعالیٰ کے لیے تذلل کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت دراصل اس ارشاد الٰہی کی تعمیل ہے۔ ﴿ وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْ٘عٰلَمِیْنَ۰۰یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِیْ وَارْكَ٘عِیْ مَعَ الرّٰؔكِعِیْنَ ﴾ (آل عمران:3؍42-43) ’’جب فرشتوں نے (جناب مریم سے) کہا اے مریم! اللہ نے تجھے چن لیا، تجھے پاکیزگی عطا کی اور تجھے تمام جہانوں کی عورتوں پر ترجیح دے کر چن لیا۔ اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کر، اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور جھکنے والوں کے ساتھ تو بھی جھک۔‘‘ ﴿ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا﴾ ’’پس بھیجی ہم نے ان کی طرف اپنی روح‘‘ یہاں روح سے مراد جبریلu ہیں ۔ ﴿ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا﴾ ’’پس وہ ان کے سامنے پورا آدمی بن کر آیا‘‘ یعنی ایک خوبصورت اور حسین و جمیل مرد کی شکل میں ظاہر ہوئے، جس میں کوئی عیب تھا نہ نقص کیونکہ حضرت مریم جبریلu کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی متحمل نہ تھیں ۔
#
{18} فلما رأته في هذه الحال، وهي معتزلة عن أهلها، منفردة عن الناس، قد اتَّخذت الحجاب عن أعزِّ الناس عليها، وهم أهلها؛ خافت أن يكون رجلاً قد تعرَّضَ لها بسوءٍ وطَمِعَ فيها، فاعتصمتْ بربِّها واستعاذتْ منه فقالتْ له: {إنِّي أعوذُ بالرحمنِ منك}؛ أي: ألتجئ به، وأعتصم برحمته أن تنالَني بسوءٍ، {إن كنتَ تقيًّا}؛ أي: إن كنت تخافُ الله وتعمل بتقواه؛ فاترك التعرُّض لي؛ فجمعت بين الاعتصام بربِّها وبين تخويفه وترهيبه وأمره بلزوم التقوى، وهي في تلك الحالة الخالية والشباب والبعد عن الناس، وهو في ذلك الجمال الباهر والبشريَّة الكاملة السويَّة، ولم ينطق لها بسوء أو يتعرَّض لها، وإنما ذلك خوف منها، وهذا أبلغ ما يكون من العفَّة والبعد عن الشرِّ وأسبابه، وهذه العفَّة خصوصاً مع اجتماع الدواعي، وعدم المانع مِن أفضل الأعمال، ولذلك أثنى الله عليها، فقال: {ومريمَ ابنةَ عمرانَ التي أحصنتْ فَرْجَها فَنَفَخْنا فيها من روحنا}، {والتي أحْصَنَتْ فرجَها فنَفَخْنا فيه من روحنا وجَعَلْناها وابنها آيةً للعالمين}؛ فأعاضها الله بعفَّتها ولداً من آيات الله، ورسولاً من رسله.
[18] جب مریم[ نے جبریلu کو اس حال میں دیکھا، جبکہ وہ اپنے گھر سے علیحدہ اور لوگوں سے الگ ہو کر گوشہ نشیں ہو گئی تھیں اور عزیز ترین لوگوں ، یعنی اپنے گھر والوں سے بھی پردہ کر لیا تھا… تو ڈر گئیں کہ وہ مرد ہے کہیں وہ ان کے بارے میں کوئی برا ارادہ نہ رکھتا ہو اور کہیں وہ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئے تو انھوں نے اس سے اللہ کی پناہ مانگی اور اس سے کہنے لگیں : ﴿ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ﴾ ’’میں رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں تجھ سے‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتی ہوں اور اس کی رحمت کے سائے میں آتی ہوں کہ کہیں تو مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ ﴿ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا ﴾ ’’اگر تم متقی ہو۔‘‘ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو اور اس کے تقویٰ کے مطابق عمل کرتے ہو تو مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ حضرت مریم[ نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی اور ساتھ ساتھ اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور اسے التزام تقویٰ کا حکم دیا اور وہ تنہائی کی حالت میں تھیں ، جوان تھیں اور لوگوں سے الگ تھلگ تھیں ۔ حضرت جبریلu بھی بشریت کے کامل روپ اور حیران کن حسن و جمال میں ظاہر ہوئے انھوں نے حضرت مریم[ سے کوئی تعرض کیا نہ کوئی ان سے بری بات کہی … یہ تو حضرت مریم[ سے خوف تھا اور یہ عفت کے بلند ترین درجے، شر اور اس کے اسباب سے بعد کی دلیل ہے۔ یہ عفت … خاص طور پر جبکہ تمام اسباب جمع ہوں اور گناہ سے کوئی مانع بھی موجود نہ ہو… بہترین عمل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی ستائش کی۔ فرمایا: ﴿ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا ﴾ (التحریم:66؍12) ’’اور مریم بنت عمران، جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی،ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَالَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ (الانبیاء:21؍91) ’’اور وہ (مریم[) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، پھر اسے اور اس کے بیٹے کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنا دیا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مریم[ کی عفت کے عوض انھیں ایک بیٹا عطا کیا جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول تھا۔
#
{19} فلما رأى جبريل منها الرَّوْع والخيفة؛ قال: {إنَّما أنا رسولُ ربِّك}؛ أي: إنما وظيفتي وشغلي تنفيذُ رسالة ربي فيك، {لأهَبَ لك غلاماً زكيًّا}: وهذه بشارةٌ عظيمةٌ بالولد وزكائه؛ فإنَّ الزكاء يستلزم تطهيره من الخصال الذَّميمة واتِّصافه بالخصال الحميدة.
[19] جب جبریلu نے حضرت مریم[ کی گھبراہٹ اور ان کا خوف دیکھا تو انھوں نے کہا: ﴿ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ﴾ ’’میں تو آپ کے رب کا قاصد ہوں ‘‘ یعنی میرا کام اور میرا شغل تو آپ کے بارے میں اپنے رب کے حکم کو نافذ کرنا ہے۔ ﴿ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰ٘مًا زَؔكِیًّا ﴾ ’’تاکہ دے جاؤں میں آپ کو ایک لڑکا ستھرا‘‘ یہ بیٹے اور اس کی پاکیزگی کی بہت بڑی بشارت ہے کیونکہ پاکیزگی، تمام خصائل مذمومہ سے تطہیر اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کو مستلزم ہے۔
#
{20} فتعجَّبت من وجود الولد من غير أبٍ، فقالت: {أنَّى يكونُ لي غلامٌ ولم يمسَسْني بشرٌ ولم أكُ بغيًّا}: والولد لا يوجد إلا بذلك.
[20] پس حضرت مریم[ باپ کے بغیر بیٹے کے وجود پر بہت متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں : ﴿ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰ٘مٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِیًّا ﴾ ’’کہاں سے ہو گا میرے لیے لڑکا اور نہیں چھوا مجھ کو آدمی نے اور میں بدکار بھی نہیں ہوں ‘‘ اور بیٹے کا وجود اس کے بغیر ممکن نہیں ۔
#
{21} {قال كذلكِ قال ربُّكِ هو عليَّ هيِّنٌ ولِنَجْعَلَه آيةً للناسِ}: تدلُّ على كمال قدرةِ الله تعالى وعلى أنَّ الأسباب جميعها لا تستقلُّ بالتأثير، وإنَّما تأثيرها بتقدير الله، فيُري عباده خرقَ العوائد في بعض الأسباب العاديَّة؛ لئلاَّ يقفوا مع الأسباب، ويقطعوا النظر عن مقدِّرها ومسبِّبها. {ورحمة منَّا}؛ [أي]: ولنجعله رحمةً منَّا به وبوالدته وبالناس: أما رحمةُ الله به؛ فَلِمَا خَصَّه الله بوحيه، ومنَّ عليه بما منَّ به على أولي العزم. وأما رحمتُهُ بوالدته؛ فَلِمَا حصل لها من الفخرِ والثناء الحسن والمنافع العظيمة. وأما رحمتُهُ بالناس؛ فإنَّ أكبر نعمه عليهم أن بَعَثَ فيهم رسولاً، يتلو عليهم آياته، ويزكيِّهم، ويعلِّمهم الكتاب والحكمة فيؤمنون به، ويطيعونه، وتحصُلُ لهم سعادةُ الدنيا والآخرة. {وكان}؛ أي: وجود عيسى عليه السلام على هذه الحالة {أمراً مقضِيًّا}: قضاء سابقاً؛ فلا بدَّ من نفوذ هذا التقدير والقضاء، فنفخ جبريل عليه السلام في جيبها.
[21] ﴿ قَالَ كَذٰلِكِ١ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ١ۚ وَلِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ﴾ ’’جبریل نے کہا: یوں ہی ہے، آپ کے رب نے کہا، یہ مجھ پر آسان ہے اور چاہتے ہیں ہم کہ بنائیں اس کو لوگوں کے لیے نشانی‘‘ کہ وہ نشانی اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرے، نیز اس امر پر بھی کہ اسباب کی کوئی مستقل تاثیر نہیں ، ان میں تاثیر صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے۔ پس وہ اپنے بندوں کو بعض اسباب کے خلاف خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کراتا ہے تاکہ وہ اسباب پر نہ ٹھہر جائیں اور مسبب الاسباب اور ان کو مقدر کرنے والی ہستی کے افعال میں غوروفکر ترک نہ کریں ۔ ﴿ وَرَحْمَةً مِّؔنَّا﴾ ’’اور اپنی طرف سے رحمت‘‘ تاکہ ہم اس کو خود اس کے لیے، اس کی والدہ کے لیے اور تمام لوگوں کے لیے رحمت بنائیں ۔ ان کا خود اپنے لیے رحمت ہونا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وحی کے لیے مختص کیا اور آپ کو اپنی عنایات سے نوازا جس طرح اس نے اولوالعزم انبیاء و مرسلین کو نوازا۔ آپ کی والدہ کے لیے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کی والدہ کو فخر، ثنائے حسن اور بڑے بڑے اخروی فوائد حاصل ہوئے۔ لوگوں کے لیے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کے اندر اپنا رسول مبعوث کیا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ ﴿وَؔكَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا﴾ ’’اور ہے یہ کام مقرر ہو چکا‘‘ یعنی حضرت عیسیٰu کا اس حالت میں وجود میں آنا، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے اور اس کی تقدیر کا نافذ ہونا ایک لابدی امر تھا۔ پس جبریلu نے حضرت مریم[ کے گریبان میں پھونک ماری۔
آیت: 22 - 26 #
{فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا (22) فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَالَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا (23) فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا (24) وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا (25) فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا (26)}.
پس حاملہ ہو گئی وہ ساتھ اس کے، پھر الگ ہو گئی وہ ساتھ اس کے ایک مکان دور والے میں (22) پس لے آیا اس (مریم) کو دردزہ طرف تنے کی کھجور کے تو اس نے کہا، اے کاش! میں مر جاتی پہلے اس سے اور ہو جاتی بھولی بسری (23) پس آواز دی فرشتے نے اسےاور اس کے نیچے سے، یہ کہ نہ غم کھا تو، تحقیق (جاری) کر دیا ہے تیرے رب نے، تیرے نیچے سے، ایک چشمہ(24) اور تو ہلا اپنی طرف تنے کو کھجورکے، وہ گرائے گا تجھ پر کھجور (عمدہ) تازہ پکی ہوئی (25) سو تو کھا اور پی اور ٹھنڈی کر آنکھیں (اپنی)، پس اگر دیکھے تو آدمیوں میں سے کسی کو تو کہہ دینا، بے شک میں نے نذر مانی ہے رحمٰن کے لیے روزے کی، پس ہرگز نہیں کلام کروں گی میں آج کسی انسان سے (بھی) (26)
#
{22} أي: لما حملتْ بعيسى عليه السلام؛ خافتْ من الفضيحة، فتباعدتْ عن الناس مكاناً قصيًّا.
[22] جب حضرت مریم[ کو حمل ٹھہر گیا تو وہ فضیحت اور رسوائی کے خوف سے لوگوں سے دور چلی گئیں ﴿ مَكَانًا قَصِیًّا﴾ ’’دور جگہ‘‘
#
{23} فلما قَرُبَ وِلادُها؛ ألجأها المخاضُ إلى جذع نخلةٍ، فلما آلمها وجع الولادة، ووجعُ الانفراد عن الطعام والشراب، ووجعُ قلبها من قالة الناس، وخافتْ عدمَ صبرِها؛ تمنَّتْ أنَّها ماتتْ قبل هذا الحادث وكانت نَسْياً منسيًّا؛ فلا تُذْكَر، وهذا التمنِّي بناءً على ذلك المزعج، وليس في هذه الأمنيَّة خيرٌ لها ولا مصلحةٌ، وإنَّما الخير والمصلحة بتقدير ما حَصَلَ.
[23] جب بچہ جننے کا وقت قریب آیا تو زچگی کی تکلیف نے ان کو کھجور کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ جب حضرت مریمu کو زچگی کی تکلیف برداشت کرنا پڑی، کھانے پینے کی عدم موجودگی کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں اور طعنوں سے دلی صدمہ پہنچا اور انھیں خوف ہوا کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے … تو انھوں نے تمنا کی کہ کاش وہ اس حادثہ سے پہلے ہی مر گئی ہوتیں ، ان کو بھلا دیا جاتا اور ان کا کہیں تذکرہ تک نہ ہوتا۔ حضرت مریم[ کی یہ تمنا ان کی گھبراہٹ کی بنا پر تھی اور اس آرزو اور تمنا میں ان کے لیے کوئی بھلائی تھی نہ مصلحت۔ بھلائی اور مصلحت تو صرف تقدیر کے مطابق اس چیز میں تھی جو انھیں حاصل ہوئی۔
#
{24} فحينئذٍ سكَّن المَلَكُ رَوْعها، وثبَّتَ جأشها، وناداها من تحتها؛ لعلَّه من مكان أنزل من مكانها، وقال لها: لا تَحْزني؛ أي: لا تجزعي ولا تهتمِّي؛ فـ {قد جعل ربُّك تحتك سريًّا}؛ أي: نهراً تشربين منه.
[24] اس وقت فرشتے نے ان کے دل کو تسلی دی اور اسے ثبات عطا کیا اور فرشتے نے ان کو نیچے سے پکارا۔ شاید یہ جگہ، جہاں سے فرشتے نے پکارا تھا، حضرت مریم[ کی جگہ سے زیادہ نیچے تھی۔ فرشتے نے کہا: مت گھبرا اور نہ غم کر ﴿ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا﴾ ’’تمھارے رب نے تمھارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے۔‘‘ یعنی تیرے نیچے نہر جاری کر دی ہے جس سے تو پانی پيے گی۔
#
{25} {وهُزِّي إليك بجذع النخلةِ تُساقِطْ عليك رُطَباً جنيًّا}؛ أي: طريًّا لذيذاً نافعاً.
[25] ﴿وَهُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا﴾ ’’اور ہلا اپنی طرف کھجور کا تنا، اس سے گریں گی تجھ پر پکی کھجوریں ‘‘ یعنی تازہ لذیذ اور فائدہ بخش کھجوریں ۔
#
{26} {فكُلي}: من التمر، {واشْربي}: من النهر، {وقَرِّي عَيْناً}: بعيسى؛ فهذا طمأنينتها من جهة السلامة من ألم الولادة وحصول المأكل والمشرب الهنيِّ، وأما من جهة قالة الناس؛ فأمرها أنَّها إذا رأت أحداً من البشر أنْ تقولَ على وجه الإشارة: {إنِّي نذرتُ للرحمن صوماً}؛ أي: سكوتاً، {فلن أكلِّمَ اليوم إنسيًّا}؛ أي: لا تخاطبيهم بكلام لتستريحي من قولهم وكلامهم، وكان معروفاً عندهم أنَّ السكوت من العبادات المشروعة. وإنَّما لم تؤمَرْ بمخاطبتهم في نفي ذلك عن نفسها، لأنَّ الناس لا يصدِّقونها، ولا فيه فائدة، وليكون تبرئتها بكلام عيسى في المهد أعظم شاهدٍ على براءتها؛ فإنَّ إتيان المرأة بولدٍ من دون زوج ودعواها أنَّه من غير أحدٍ من أكبر الدعاوى التي لو أقيم عدَّة من الشهود لم تصدَّق بذلك، فجُعِلَتْ بيِّنةُ هذا الخارق للعادة أمراً من جنسه، وهو كلام عيسى في حال صغره جدًّا، ولهذا قال تعالى:
[26] ﴿ فَكُلِیْ﴾ یعنی کھجوریں کھا ﴿ وَاشْ٘رَبِیْ﴾ ’’(اور اس نہر کا) پانی پی۔‘‘ ﴿ وَقَ٘رِّیْ عَیْنًا﴾ ’’(اور حضرت عیسیٰu کو دیکھ دیکھ کر) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔‘‘ یہ زچگی کی تکلیف سے سلامتی اور لذیذ و خوشگوار ماکول و مشروب کی فراہمی کے پہلو سے، حضرت مریم[ کے لیے اطمینان تھا۔ رہی لوگوں کی باتیں اور ان کے طعنے تو فرشتے نے حضرت مریم[ کو حکم دیا کہ وہ جب کسی آدمی کو دیکھیں تو اشارے سے اسے بتائیں : ﴿ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا ﴾ ’’میں نے نذر مانی ہے رحمٰن کے لیے روزے کی‘‘ یعنی خاموش رہنے کی۔ ﴿ فَلَ٘نْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا﴾ ’’پس میں آج بات نہیں کروں گی کسی آدمی سے‘‘ یعنی ان سے بات چیت نہ کرنا تاکہ تم ان کی باتوں سے بچ سکو۔ ان کے ہاں معروف تھا کہ خاموشی ایک عبادت مشروعہ ہے۔ ان کو اپنی طرف سے اس معاملے کی نفی کے سلسلے میں لوگوں سے گفتگو نہ کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ لوگ اس کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی فائدہ ہے، نیز یہ کہ ان کی براء ت کا اظہار پنگوڑے کے اندر حضرت عیسیٰu کے ذریعے سے ہونا ان کی براء ت کی سب سے بڑی شہادت بن جائے کیونکہ عورت کا شوہر کے بغیر کسی بچے کو جنم دینا اور پھر اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ بچہ کسی مرد کے چھوئے بغیر ہے، سب سے بڑا دعویٰ ہے۔ اگر اس دعویٰ کی تائید میں متعدد گواہ بھی موجود ہوں تب بھی اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اس خارق عادت واقعہ کی تائید کے لیے، اسی جیسا ایک اور خارق عادت واقعہ پیش آیا اور وہ ہے حضرت عیسیٰu کا اپنی انتہائی چھوٹی عمر میں کلام کرنا، بناء بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 27 - 33 #
{فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَامَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا (27) يَاأُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا (28) فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا (29) قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (30) وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31) وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (32) وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (33)}.
پس لے آئی مریم اس (بچے) کو اپنی قوم کے پاس، اسے اٹھائے ہوئے، انھوں نے کہا، اے مریم! تحقیق کیا ہے تو نے کام بہت برا (27) اے بہن ہارون کی! نہ تھا تیرا باپ برا آدمی اور نہ تھی تیری ماں بدکار (28) پس مریم نے اشارہ کیا اس (بچے) کی طرف، انھوں نے کہا، کیسے کلام کریں ہم اس سے جو ہے گود میں بچہ؟ (29) بچے نے کہا، بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے دی ہے مجھے کتاب اور اس نے بنایا ہے مجھے نبی (30) اور اس نے بنایا ہے مجھے بابرکت جہاں کہیں بھی میں ہوں اور اس نے وصیت کی ہے مجھے نماز اور زکاۃ کی، جب تک میں رہوں زندہ (31) اور (بنایا مجھے) نیکی کرنے والا ساتھ اپنی والدہ کے اور نہیں بنایا اس نے مجھے سرکش، بدبخت (32) اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں اٹھایا جاؤں گا زندہ کر کے (33)
#
{27} أي: فلما تعلَّت مريمُ من نفاسها؛ أتتْ بعيسى قومَها تحمِلُه، وذلك لعلمها ببراءة نفسها وطهارتها، فأتتْ غير مباليةٍ ولا مكترثةٍ، فقالوا: {لقد جئتِ شيئاً فَرِيًّا}؛ أي: عظيماً وخيماً، وأرادوا بذلك البغي حاشاها من ذلك.
[27] یعنی جب حضرت مریم[ اپنے نفاس سے پاک ہوئیں تو حضرت عیسیٰu کو لے کر اپنی قوم میں تشریف لائیں چونکہ انھیں اپنی براء ت اور اپنی طہارت نفس کا علم تھا اس لیے انھوں نے کسی کی پروا نہ کی۔ لوگوں نے باتیں بناتے ہوئے کہا: ﴿ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔؔا فَرِیًّا ﴾ ’’تو نے بڑا عجیب کام کیا‘‘ یعنی بہت نازیبا کام، اس سے ان کی مراد زنا تھا … حالانکہ وہ اس سے پاک تھیں ۔
#
{28} {يا أخت هارونَ}: الظاهر أنَّه أخٌ لها حقيقيٌّ فنسبوها إليه، [وكانوا يسمون بأسماء الأنبياء، وليس هو هارون بن عمران أخا موسى، لأن بينهما قروناً كثيرة]، {ما كان أبوك امرأ سَوْءٍ وما كانت أمُّك بغيًّا}؛ أي؛ لم يكن أبواك إلاَّ صالحينِ سالمينِ من الشرِّ، وخصوصاً هذا الشرَّ الذي يشيرون إليه، وقصدُهم: فكيف كنتِ على غير وصفهما وأتيتِ بما لم يأتيا به؟! وذلك أن الذُّرِّيَّة في الغالب بعضها من بعض في الصلاح وضدِّه، فتعجَّبوا بحسب ما قام بقلوبهم؛ كيف وقع منها؟!
[28] ﴿ یٰۤاُخْتَ هٰؔرُوْنَ﴾ ’’اے ہارون کی بہن۔‘‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مریم[ کا کوئی حقیقی بھائی تھا جس کی طرف ان کو منسوب کیا گیا۔ وہ انبیاء کے نام پر نام رکھا کرتے تھے۔ یہ ہارون، موسیٰu کے بھائی ہارون بن عمرانu نہیں ہیں کیوں کہ ان دونوں کی درمیان بہت صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ﴿مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّا﴾ ’’تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدکار‘‘ یعنی تمھارے والدین بہت نیک اور برائی سے بچے ہوئے تھے خاص طور پر اس برائی سے، جس کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے، محفوظ تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تو نے کیونکر اس فعل بد کا ارتکاب کیا جس سے تمھارے والدین محفوظ تھے اور یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ غالب حالات میں ، نیکی اور بدی کے معاملے میں ، اولاد اپنے والدین سے اثر پذیر ہوتی ہے، چنانچہ لوگوں کو، ان کے دلوں میں جو بات راسخ تھی، اس کی وجہ سے تعجب ہوا کہ حضرت مریم[ سے اس فعل بد کا کیسے ارتکاب ہو گیا؟
#
{29} {فأشارتْ} لهم {إليه}؛ أي: كلِّموه، وإنَّما أشارت لذلك لأنَّها أمرت عند مخاطبة الناس لها أن تقول: {إنِّي نذرتُ للرحمن صوماً فلن أكَلِّمَ اليوم إنسيًّا}، فلما أشارت إليهم بتكليمه؛ تعجَّبوا من ذلك، وقالوا: {كيف نكلِّمُ مَن كانَ في المهدِ صَبيًّا}؛ لأنَّ ذلك لم تجرِ به عادةٌ ولا حصل من أحدٍ في ذلك السنِّ.
[29] پس حضرت مریم[ نے حضرت عیسیٰu کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو اور انھوں نے اس لیے اس طرف اشارہ کیا کیونکہ حضرت مریم[ کو حکم دیا گیا تھا کہ جب لوگ ان سے مخاطب ہوں تو تم کہہ دینا: ﴿ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَ٘نْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا ﴾ ’’میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے روزے کی منت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی۔‘‘ جب انھوں نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اس (حضرت عیسیٰu) سے کلام کریں تو لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور انھوں نے کہا: ﴿ كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا ﴾ ’’ہم کیوں کر کلام کریں اس سے کہ ہے وہ گود میں بچہ‘‘ کیونکہ یہ عام طور پر عادت جاریہ نہیں اور نہ کسی نے اس عمر میں کلام کیا ہے۔
#
{30} فحينئذٍ قال عيسى عليه السلام وهو في المهد صبيٌّ: {إنِّي عبد الله آتانيَ الكتاب وجَعَلَني نبيًّا}: فخاطبهم بوصفه بالعبوديَّة، وأنه ليس فيه صفةٌ يستحقُّ بها أن يكون إلهاً أو ابناً للإله، تعالى الله عن قول النصارى المخالفين لعيسى في قوله: {إنِّي عبدُ الله}، ومدَّعون موافقته، {آتانيَ الكتابَ}؛ أي: قضى أن يؤتيني الكتابَ، {وجَعَلَني نبيًّا}: فأخبرهم بأنَّه عبدُ الله، وأنَّ الله علَّمه الكتاب وجعله من جملة أنبيائه؛ فهذا من كماله لنفسه.
[30] اس وقت حضرت عیسیٰu، پنگوڑے میں سے بولے: ﴿اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ﴾ ’’بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں ‘‘ آپu نے ان کو اپنے وصف عبودیت سے آگاہ فرمایا اور ان پر واضح کیا کہ وہ کسی ایسی صفت کے حامل نہیں جو انھیں الوہیت یا اللہ کا بیٹا ہونے کا مستحق بنا دے۔ اللہ تعالیٰ ان عیسائیوں کے قول سے بالا و برتر ہے۔ جو حضرت مسیحu کے ارشاد ﴿ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں ۔‘‘ کی صریحاً مخالفت کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آپu کی موافقت کرتے ہیں ۔ ﴿اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ ﴾ ’’دی اس نے مجھے کتاب‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ مجھے کتاب عطا کرے گا ﴿ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا﴾ ’’اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے‘‘ حضرت عیسیٰu نے آگاہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب کی تعلیم دی اور انھیں جملہ ا نبیاء میں شامل کیا اور یہ ان کا کمال نفس ہے۔
#
{31} ثم ذكر تكميلَه لغيره، فقال: {وجَعَلَني مباركاً أينما كنت}؛ أي: في أيِّ مكانٍ وأيِّ زمان؛ فالبركةُ جعلها الله فيَّ من تعليم الخير والدعوة إليه والنهي عن الشرِّ والدعوة إلى الله في أقوالِهِ وأفعالِهِ؛ فكلُّ من جالسه أو اجتمع به؛ نالتْه بركتُه وسَعِدَ به مصاحبه. {وأوصاني بالصَّلاة والزَّكاة ما دمتُ حيًّا}؛ أي: أوصاني بالقيام بحقوقه التي من أعظمها الصلاة، وحقوق عباده التي أجلُّها الزكاة؛ مدَّة حياتي؛ أي: فأنا ممتثلٌ لوصيَّة ربِّي، عاملٌ عليها، منفذٌ لها.
[31] پھر حضرت عیسیٰu کے ذریعے سے دوسروں کی تکمیل کا ذکر فرمایا: ﴿ وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَؔكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ﴾ ’’اور بنایا مجھ کو برکت والا، جس جگہ بھی میں ہوں ‘‘ یعنی ہر جگہ اور ہر زمانے میں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھلائی کی تعلیم، بھلائی کی طرف دعوت، شر سے ممانعت، اپنے اقوال و افعال میں اللہ تعالیٰ کی دعوت کی توفیق عطا فرما کر بابرکت بنایا ہے، لہٰذا جو کوئی حضرت عیسیٰu کی صحبت اختیار کرتا تھا وہ آپ کی برکت اور سعادت سے بہرہ ور ہوتا تھا۔ ﴿ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا ﴾ ’’اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکٰوۃ کی، جب تک ہوں میں زندہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے حقوق ادا کرنے کی وصیت کی ہے، جن میں سب سے بڑا حق نماز ہے اور بندوں کے حقوق پورا کرنے کی وصیت کی ہے جن میں سب سے زیادہ جلیل القدر حق زکٰوۃ ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں زندگی بھر یہ کام کرتا رہوں ۔ پس میں اپنے رب کا حکم مانتا، اس کی وصیت پر عمل کرتا اور اس کو نافذ کرتا رہوں گا۔
#
{32} وأوصاني أيضاً أن أبَرَّ والدتي فأحسِنَ إليها غايةَ الإحسان، وأقومَ بما ينبغي لها؛ لشرفِها وفضلِها، ولكونِها والدةً لها حقُّ الولادة وتوابعها. {ولم يَجْعَلْني جباراً}؛ أي: متكبراً على الله مترفِّعاً على عباده، {شقيًّا}: في دنياي وأخراي، فلم يجعلني كذلك، بل جعلني مطيعاً له خاضعاً خاشعاً متذللاً متواضعاً لعباد الله سعيداً في الدُّنيا والآخرة أنا ومن اتَّبعني.
[32] نیز اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ وصیت بھی کی ہے کہ میں اپنی ماں کی اطاعت کروں ، اس کے ساتھ خوب احسان کروں اور اس کے حقوق پورے کروں کیونکہ اسے شرف اور فضیلت حاصل ہے۔ وہ ماں ہے اس لیے وہ جنم دینے کی بنا پر مجھ پر ولادت کا حق اور اس کے تابع دیگر حقوق رکھتی ہے۔ ﴿وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًؔا ﴾ ’’اور نہیں بنایا اس نے مجھے سرکش‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے حضور تکبر کرنے والا اور بندوں سے اپنے آپ کو بڑا اور بلند سمجھنے والا نہیں ہوں ۔ ﴿ شَقِیًّا ﴾ یعنی میں دنیا و آخرت میں بدبخت نہیں ہوں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا اطاعت شعار، اپنے سامنے جھکنے والا، عاجزی اور تذلل اختیار کرنے والا، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش آنے والا اور دنیا و آخرت میں سعادت سے بہرہ مند ہونے والا بنایا۔ مجھے بھی اور میرے پیروکاروں کو بھی۔
#
{33} فلما تمَّ له الكمالُ ومحامد الخصال؛ قال: {وسلامٌ عليَّ يومَ ولِدْتُ ويوم أموتُ ويومَ أبعثُ حيًّا}؛ أي: من فضل ربي وكرمه حصلتْ لي السلامةُ يوم ولادتي ويوم موتي ويوم بعثي من الشرِّ والشيطان والعقوبة، وذلك يقتضي سلامته من الأهوال ودار الفجَّار، وأنَّه من أهل دار السلام؛ فهذه معجزةٌ عظيمة وبرهانٌ باهرٌ على أنَّه رسول الله وعبدُ الله حقًّا.
[33] پس جب حضرت عیسیٰu کے کمال اور ان کے قابل ستائش خصائل کی تکمیل ہو گئی تو انھوں نے فرمایا: ﴿ وَالسَّلٰ٘مُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴾ ’’اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن اٹھ کھڑا ہوں زندہ ہو کر‘‘ یعنی میرے رب کے فضل و کرم سے، جس روز میری ولادت ہوئی، جس روز میں مروں اور جس روز مجھے اٹھایا جائے گا، مجھے ہر قسم کے شر، شیطان اور عذاب سے سلامتی حاصل ہے۔ یہ سلامتی ہر قسم کے خوف، فاجروں کے گھر سے سلامتی اور دارالسلام کے مستحق ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ پس یہ ایک عظیم معجزہ اور اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ درحقیقت اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں ۔
آیت: 34 - 36 #
{ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ (34) مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (35) وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (36)}.
یہ ہے عیسیٰ بن مریم، بات حق کی، وہ جس میں وہ لوگ شک کرتے ہیں (34) نہیں ہے لائق واسطے اللہ کے، یہ کہ بنائے وہ کوئی اولاد، پاک ہے وہ ، جب فیصلہ کرتا ہے وہ کسی کام کا تو صرف یہی کہتا ہے اس کے لیے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے (35) اور بے شک اللہ ہی میرا رب ہے اور تمھارا رب تو تم اسی کی عبادت کرو، یہی ہے راہ سیدھی (36)
#
{34 ـ 35} أي: ذلك الموصوف بتلك الصفات عيسى ابن مريم من غير شكٍّ ولا مِريةٍ، بل {قول الحقِّ} وكلام الله الذي لا أصدقَ منه قيلاً ولا أحسن منه حديثاً؛ فهذا الخبر اليقينيُّ عن عيسى عليه السلام، وما قيل فيه ممَّا يخالفُ هذا؛ فإنَّه مقطوعٌ ببطلانه، وغايتُه أن يكون شكًّا من قائلِهِ لا علم له به، ولهذا قال: {الذي فيه يَمْتَرونَ}؛ أي: يشكُّون فيمارون بشكِّهم ويجادلون بِخَرْصِهِم؛ فمن قائل عنه: إنَّه الله، أو ابن الله، أو ثالث ثلاثة، تعالى الله عن إفكِهِم وتقوُّلهم علوًّا كبيراً؛ فـ {ما كان لله أن يتَّخذ من ولدٍ}؛ أي: ما ينبغي ولا يليق؛ لأنَّ ذلك من الأمور المستحيلة؛ لأنَّه الغنيُّ الحميد المالك لجميع الممالك؛ فكيف يتَّخذ من عبادِهِ ومماليكه ولداً. {سبحانه}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس عن الولد والنقص، {إذا قضى أمراً}؛ أي: من الأمور الصغار والكبار؛ لم يمتنعْ عليه ولم يستصعبْ، {فإنما يقول له كن فيكون}؛ فإذا كان قدرُهُ ومشيئتُهُ نافذاً في العالم العلويِّ والسفليِّ، فكيف يكون له ولدٌ؟! وإذا كان، إذا أراد شيئاً؛ قال له: كنْ فيكونُ؛ فكيف يُسْتَبْعَدُ إيجاده عيسى من غير أب؟!
[35,34] یعنی حضرت عیسیٰu ان صفات سے متصف ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ یہ قول حق اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس سے زیادہ سچی اور اچھی کسی اور کی بات نہیں ۔ پس حضرت عیسیٰu کی بابت دی ہوئی خبر، علم یقینی ہے اور اس کے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی طور پر باطل ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قائل کا محض شک ہے جو علم سے بے بہرہ ہے، اس لیے ارشاد فرمایا: ﴿ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ﴾ ’’جس میں لوگ جھگڑتے ہیں ‘‘ یعنی شک کرتے ہیں اور شک کی بنیاد پر جھگڑتے اور اندازوں کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں … ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰu اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں یا تین میں سے ایک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی افتراء پردازی سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ ﴿ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّؔتَّؔخِذَ مِنْ وَّلَدٍ﴾ ’’نہیں لائق اللہ کے کہ پکڑے وہ اولاد‘‘ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں کیونکہ یہ ایک امر محال ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور قابل ستائش ہے وہ تمام مملکتوں کا مالک ہے۔ پس وہ اپنے بندوں اور غلاموں کو کیسے اولاد بنا سکتا ہے؟ ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر نقص اور بیٹے کی حاجت سے پاک اور مقدس ہے۔ ﴿ اِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا﴾ یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ چھوٹے یا بڑے معاملے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ معاملہ اس کے لیے مشکل اور ممتنع نہیں ہوتا۔ ﴿ فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ﴾ ’’تو وہ صرف یہی کہتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے‘‘ جب اس کی قدرت اور مشیت تمام عالم علوی اور سفلی پر نافذ ہے تو اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟ اور جب وہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے (کُنْ) ’’ہو جا‘‘ (فَیَکُوْنُ) ’’تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔‘‘ تب حضرت عیسیٰu کو بغیر باپ کے وجود میں لانا کون سا مشکل کام ہے؟
#
{36} ولهذا أخبر عيسى أنَّه عبدٌ مربوب كغيره، فقال: {وإنَّ الله ربِّي وربُّكم}: الذي خلقنا وصوَّرنا ونَفَذَ فينا تدبيرُه وصَرَفَنا تقديرُه. {فاعبدوه}؛ أي: أخلصوا له العبادة واجتهدوا في الإنابة. وفي هذا الإقرار بتوحيد الربوبيَّة وتوحيد الإلهيَّة والاستدلال بالأول على الثاني، ولهذا قال: {هذا صراطٌ مستقيمٌ}؛ أي: طريق معتدلٌ موصلٌ إلى الله؛ لكونِهِ طريق الرسل وأتباعهم، وما عدا هذا؛ فإنَّه من طرق الغيِّ والضَّلال.
[36] اس لیے حضرت عیسیٰu نے اپنے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جس طرح دوسری مخلوق ہے۔ فرمایا: ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ ﴾ ’’بے شک اللہ رب ہے میرا اور رب ہے تمھارا‘‘ جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری صورت گری کی، ہم میں اس کی تدبیر نافذ ہوئی اور ہم میں اس کی تقدیر نے تصرف کیا۔ ﴿فَاعْبُدُوْهُ ﴾ ’’پس تم اسی کی عبادت کرو‘‘ یعنی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کرو اور اس کی طرف انابت اور رجوع میں جدوجہد کرو۔ اس میں توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا اقرار اور توحید ربوبیت کے ذریعے سے توحید الوہیت پر استدلال ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿هٰؔذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾ ’’یہ ہے راستہ سیدھا‘‘ یعنی یہی اعتدال کا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے کیونکہ یہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کا راستہ ہے اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔
آیت: 37 - 38 #
{فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ (37) أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (38)}.
پھر اختلاف کیا (ان) گروہوں نے آپس میں پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا حاضرى سے، بڑے دن (قیامت) کی (37) کیا ہی خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے وہ لوگ، جس دن وہ آئیں گے ہمارے پاس! لیکن (وہ) ظالم لوگ آج کے دن صریح گمراہی میں ہیں (38)
#
{37} لما بيَّن تعالى حال عيسى ابن مريم الذي لا يُشَكُّ فيها ولا يُمترى؛ أخبر أنَّ الأحزاب؛ أي: فرق الضلال من اليهود والنصارى وغيرهم على اختلاف طبقاتهم اختلفوا في عيسى عليه السلام؛ فمن غالٍ فيه وجافٍ؛ فمنهم من قالَ: إنه الله! ومنهم من قال: إنه ابن الله! ومنهم من قال: إنه ثالثُ ثلاثة! ومنهم من لم يجعلْه رسولاً، بل رماه بأنَّه ولد بغيٍّ كاليهود! وكل هؤلاء أقوالهم باطلةٌ، وآراؤهم فاسدةٌ مبنيَّة على الشكِّ والعناد والأدلَّة الفاسدة والشُّبه الكاسدة، وكلُّ هؤلاء مستحقُّون للوعيد الشديد، ولهذا قال: {فويلٌ للذين كفروا}: بالله ورسله وكتبه، ويدخُلُ فيهم اليهودُ والنصارى، القائلون بعيسى قول الكفر، {من مَشْهَدِ يوم عظيم}؛ أي: مشهد يوم القيامة، الذي يشهدُهُ الأوَّلون والآخرون، أهل السماوات وأهل الأرض، الخالق والمخلوق، الممتلئ بالزلازل والأهوال، المشتمل على الجزاء بالأعمال؛ فحينئذٍ يتبيَّن ما كانوا يُخفون، ويبُدون، وما كانوا يكتمون.
[37] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریمi کا حال بیان فرما دیا جس میں کوئی شک اور شبہ نہیں تو آگاہ فرمایا کہ یہودونصاریٰ اور دیگر فرقے اور گروہ جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں ، اپنے اپنے طبقات کے اختلاف کے مطابق، حضرت عیسیٰu کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ۔ اس بارے میں ایک گروہ افراط اور غلو میں مبتلا ہے تو دوسرا ان کی شان میں تنقیص اور تفریط کرنے والا ہے۔ پس ان میں سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰu کو اللہ مانتے ہیں ۔ بعض ان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ، بعض کہتے ہیں وہ تین میں سے ایک ہیں ، بعض ان کو رسول بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ بہتان طرازی کرتے ہیں کہ وہ (معاذ اللہ) ولدالزنا ہیں … مثلاً: یہودی وغیرہ۔ ان تمام گروہوں کے اقوال باطل اور ان کی آراء فاسد ہیں جو شک و عناد، بے بنیاد شبہات اور انتہائی بودے دلائل پر مبنی ہیں ۔ اس قبیل کے تمام لوگ انتہائی سخت وعید کے مستحق ہیں ، اسی لیے فرمایا: ﴿ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’پس ہلاکت ہے کافروں کے لیے‘‘ جو اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرتے ہیں ، ان میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں جو حضرت عیسیٰu کے بارے میں کفریہ کلمات کہتے ہیں : ﴿ مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’بڑے دن کی حاضری سے‘‘ یعنی قیامت کے روز جب اولین و آخرین سب حاضر ہوں گے، زمین اور آسمانوں کے تمام رہنے والے، خالق اور مخلوق موجود ہوں گے اس وقت بے شمار زلزلے ہوں گے اور اعمال کی جزا پر مشتمل ہولناک عذاب ہوں گے تب ان کا وہ سب کچھ ظاہر ہو جائے گا جو کچھ وہ چھپاتے یا ظاہر کیا کرتے تھے۔
#
{38} {أسمِعْ بهم وأبصِرْ يوم يأتوننا}؛ أي: ما أسمعهم وما أبصرهم في ذلك اليوم، فيقرُّون بكفرِهم وشركِهم وأقوالهم، ويقولون: {ربَّنا أبْصَرْنا وسَمِعْنا فارْجِعْنا نعملْ صالحاً إنَّا موقنونَ}: ففي القيامة يستيقنون حقيقة ما هم عليه. {لكنِ الظالمونَ اليوم في ضلال مبينٍ}: وليس لهم عذرٌ في هذا الضلال؛ لأنَّهم بين معاندٍ ضالٍّ على بصيرةٍ عارف بالحقِّ صادف عنه، وبين ضالٍّ عن طريق الحقِّ، متمكِّن من معرفة الحقِّ والصواب، ولكنَّه راضٍ بضلاله، وما هو عليه من سوء أعمالِهِ، غير ساعٍ في معرفة الحقِّ من الباطل. وتأمَّل كيف قال: {فويلٌ للذين كفروا}؛ بعد قوله: {فاختلف الأحزاب من بينهم}، ولم يقلْ: فويلٌ لهم؛ ليعود الضمير إلى الأحزاب؛ لأنَّ من الأحزاب المختلفين طائفةً [أصابت] ووافقت الحقَّ فقالت في عيسى: إنَّه عبدُ الله ورسولُه، فآمنوا به واتَّبعوه؛ فهؤلاء مؤمنون غير داخلين في هذا الوعيد؛ فلهذا خصَّ الله بالوعيد الكافرين.
[38] ﴿اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَ٘اْتُوْنَنَا ﴾ ’’کیا خوب وہ سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے جس دن آئیں گے وہ ہمارے پاس‘‘ اس روز وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے۔ پس وہ اپنے کفر وشرک پر مبنی اقوال و نظریات کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ:32؍12) ’’اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔ پس ہمیں دنیا میں واپس بھیج تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا۔‘‘ پس قیامت کے روز اس حقیقت کا یقین آجائے گا جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ ﴿لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’لیکن ظالم لوگ آج صریح گمراہی میں ہیں ۔‘‘ اس گمراہی کا ان کے پاس کوئی عذر نہ ہو گا کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ، بصیرت کے ساتھ حق کو پہچان کر عناد کی بنا پر روگردانی کرتے ہوئے گمراہ ہوئے ہیں اور کچھ لوگ حق و صواب کو پہچاننے کی قدرت رکھنے کے باوجود، راہ حق سے بھٹک گئے اور اپنی گمراہی اور بداعمالیوں پر راضی ہیں اور باطل میں سے حق کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ غور کیجیے اللہ تعالیٰ نے ﴿فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ﴾ کہنے کے بعد کیسے فرمایا: ﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ اور (فَوَیْلٌ لَّھُمْ) نہیں فرمایا کیونکہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ’’الاحزاب‘‘ ہوتا اورایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ حق و صواب پر تھا جو حضرت عیسیٰu کے بارے میں کہتا تھا: ’’وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔‘‘ پس وہ عیسیٰu پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی۔ یہ لوگ مومن ہیں اور اس وعید میں داخل نہیں ہیں ، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف کفار کو اس وعید کے ساتھ مختص فرمایا ہے۔
آیت: 39 - 40 #
{وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (39) إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ (40)}.
اور آپ ڈرائیں انھیں روز حسرت سے، جب فیصلہ کیا جائے گا (ہر) معاملے کا اور وہ غفلت میں ہیں اور وہ نہیں ایمان لاتے (39)بلاشبہ ہم ہی وارث ہوں گے زمین کے اور ان کے جو اس پر (رہنے والے) ہیں اور ہماری ہی طرف وہ لوٹائے جائیں گے (40)
#
{39 ـ 40} الإنذار: هو الإعلام بالمخوِّف على وجه الترهيب والإخبارُ بصفاته، وأحقُّ ما يُنْذَر به ويخوَّف به العباد يومُ الحسرةِ حين يُقْضى الأمر، فيُجْمع الأولون والآخرون في موقفٍ واحدٍ، ويُسألون عن أعمالهم؛ فمن آمن بالله واتَّبع رسله؛ سَعِدَ سعادةً لا يشقى بعدها، ومَنْ لم يؤمنْ بالله ويتَّبِع رسله؛ شقي شقاوةً لا يسعدُ بعدها، وخَسِرَ نفسَه وأهله؛ فحينئذٍ يتحسَّر ويندم ندامةً تنقطع منها القلوبُ، وتتصدَّع منها الأفئدة، وأيُّ حسرة أعظم من فوات رضا الله وجنَّتِهِ واستحقاق سخطِهِ والنار على وجهٍ لا يَتَمَكَّنُ من الرجوع لِيَسْتَأنِفَ العمل، ولا سبيل له إلى تغيير حالِهِ بالعَوْد إلى الدُّنيا؟! فهذا قدَّامهم، والحالُ أنَّهم في الدُّنيا في غفلة عن هذا الأمر العظيم؛ لا يخطر بقلوبهم، ولو خطر؛ فعلى سبيل الغفلةِ، قد عمَّتهم الغفلة، وشملتهم السكرةُ؛ فهم لا يؤمنون بالله، ولا يتَّبِعون رسله، قد ألهتهم دُنياهم، وحالتْ بينهم وبين الإيمان شهواتُهم المنقضية الفانية؛ فالدنيا وما فيها من أولها إلى آخرها ستذهبُ عن أهلها ويذهبون عنها، وسيرثُ الله الأرض ومَنْ عليها، ويرجعهم إليه، فيجازيهم بما عملوا فيها، وما خسروا فيها أو ربحوا؛ فمن عمل خيراً؛ فليحمدِ الله، ومن وَجَدَ غير ذلك؛ فلا يلومنَّ إلاَّ نفسه.
[40,39] کسی خوفناک معاملے میں ، ترہیب کے پہلو سے اس کی صفات بیان کر کے آگاہ کرنا ’’انذار‘‘ ہے۔ اور وہ معاملہ جس کے بارے میں بندوں کو سب سے زیادہ ڈرایا جانا چاہیے وہ ’’حسرت کا دن‘‘ ہے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ پس اولین وآخرین ایک ہی جگہ اکٹھے کیے جائیں گے اور ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جو کوئی اللہ پر ایمان لایا اور اس کے رسولوں کی اتباع کرتا رہا تو وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہو گا اس کے بعد کبھی اسے بدبختی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لایا اور اس کے رسولوں کی پیروی نہ کی تو وہ بدبختی میں پڑے گا اور اس کے بعد نیک بختی اس کے حصے میں نہیں آئے گی اور اس نے اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈال دیا۔ پس اس وقت حسرت اور ندامت سے دل پارہ پارہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت سے محرومی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کے استحقاق سے بڑھ کر کون سی حسرت ہو سکتی ہے، جہاں دوبارہ عمل کرنے کے لیے واپسی ممکن نہ ہو اور دنیا میں دوبارہ آ کر اپنے احوال کے بدلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ یہ سب کچھ انھیں پیش آئے گا مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس عظیم معاملے کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، اس کے بارے میں انھیں کبھی خیال ہی نہیں آیا اور اگر انھیں کبھی خیال آیا بھی ہے تو وہ بھی غفلت میں ۔ غفلت نے ان کو گھیر رکھا ہے اور مدہوشی ان پر غالب ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں نہ اس کے رسولوں کی اتباع کرتے ہیں ۔ ان کی دنیا نے ان کو غافل کر دیا، ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان ختم ہو جانے والی فانی شہوات حائل ہو گئیں ۔ یہ دنیا اور اول سے لے کر آخر تک دنیا کی تمام چیزیں دنیا داروں کوچھوڑ جائیں گی اور وہ دنیا کو چھوڑ کر چل دیں گے اور زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا وارث اللہ تعالیٰ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی طرف لوٹائے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ وہ ان اعمال میں خسارہ اٹھائیں گے یا نفع میں رہیں گے، لہٰذا جو کوئی نیک کام کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی حمدوستائش کرنی چاہیے اور جس کے اعمال اس سے مختلف ہیں اسے اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہیں کرنی چاہیے۔
آیت: 41 - 50 #
{وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (41) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَاأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا (42) يَاأَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (43) يَاأَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا (44) يَاأَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا (45) قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَاإِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا (46) قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا (47) وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا (48) فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا (49) وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا (50)}.
اورذکر کیجیے کتاب میں ابراہیم کا، بے شک وہ تھا نہایت سچا، نبی (41) جب اس نے کہا اپنے باپ سے، اے میرے باپ! کیوں عبادت کرتا ہے تو اس کی جو نہ سنے اور نہ دیکھے اور نہ وہ کام آئے تیرے کچھ بھی (42) اے میرے باپ! بے شک میں ، تحقیق آیا ہے میرے پاس وہ علم وہ نہیں آیا تیرے پاس، پس تو پیروی کر میری، میں بتلاؤں گا تجھے راہ سیدھی (43) اے میرے باپ! مت عبادت کر تو شیطان کی، بلاشبہ شیطان ہے رحمٰن کا بہت نافرمان (44) اے میرے باپ بے شک میں ڈرتا ہوں اس بات سے کہ پہنچے تجھے عذاب رحمٰن کی طرف سے، پس ہو جائے تو شیطان کا دوست (45) اس (آزر) نے کہا، کیا بے زغبتی کرتا ہے تو میرے معبودوں سے، اے ابراہیم؟ البتہ اگر نہ باز آیا تو اس سے تو البتہ ضرور سنگسار کر دوں گا میں تجھےاورچھوڑ جا مجھے لمبا عرصہ (46) ابراہیم نے کہا، سلام ہو تجھ پر ضرور بخشش مانگوں گا تیرے لیے، اپنے رب سے، بلاشبہ وہ ہے مجھ پر نہایت مہربان (47) میں کنارہ کش ہوتا ہوں تم سے اور ان سے جنھیں تم پکارتے ہو، سوائے اللہ کےاور میں پکارتا ہوں اپنے رب کو، امید ہے کہ نہیں ہوں گا میں پکار کر اپنے رب کو محروم (48) پس جب وہ کنارہ کش ہو گیا ان سے اوران سے بھی جن کی وہ عبادت کرتے تھے سوائے اللہ کے تو عطا کیے ہم نے اسے اسحٰق اور یعقوب اور ہر ایک کو بنایا ہم نے نبی (49) اور نوازا ہم نے انھیں اپنی رحمت سے اور کر دیا ہم نے ان کے لیے سچائی کی زبان (ان کے ذکر خیر) کو بلند (50)
تمام کتابوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے افضل اور سب سے زیادہ بلند مرتبے والی کتاب، یہ کتاب مبین اور ذکر حکیم یعنی قرآن مجید ہے۔ اگر اس میں خبریں بیان کی گئی ہیں تو یہ خبریں سب سے زیادہ سچی، سب سے زیادہ حق اور سب سے زیادہ نفع مند ہیں ۔ اگر اس میں اوامر و نواہی کا تذکرہ ہے تو یہ اوامر ونواہی سب سے زیادہ قدر و قیمت کے حامل اور سب سے زیادہ عدل و انصاف پر مبنی ہیں ۔ اگر اس میں سزا و جزا اور وعدے وعید کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ سب سے زیادہ سچی خبر اور سب سے زیادہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے عدل وفضل پر سب سے زیادہ دلالت کرتی ہے اور اگر اس میں انبیاء و مرسلین کا ذکر ہے تو اس میں مذکور یہ مقدس ہستیاں دیگر تمام لوگوں سے کامل اور افضل ہیں ۔ بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کے واقعات بیان کیے ہیں اور ان کا بار بار اعادہ کیا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں پر فضیلت عطا کی اور انھیں قدرومنزلت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت، اس کی طرف انابت، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس راستے میں اذیتوں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند درجات عطا کیے اور انھیں مقامات فاخرہ اور منازل عالیہ سے نوازا۔ پس اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کا ذکر فرمایا اور اپنے رسول (e) کو حکم دیا کہ وہ بھی ان کا ذکر کریں کیونکہ ان کے تذکرے میں اللہ تعالیٰ کی بھی تعریف ہے اور ان کی مدح ستائش کا اظہار اور ان پر اس کے فضل و کرم کا بیان بھی ہے، نیز اس میں ان پر ایمان لانے، ان کے ساتھ محبت کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی ترغیب ہے۔
#
{41} {واذْكُرْ في الكتاب إبراهيم إنَّه كان صديقاً نبيًّا}: جمع الله له بين الصديقيَّة والنبوَّة؛ فالصِّدِّيق كثيرُ الصدق؛ فهو الصادق في أقوالِهِ وأفعالِهِ وأحوالِهِ، المصدِّق بكل ما أُمِرَ بالتصديق به، وذلك يستلزمُ العلم العظيم، الواصل إلى القلب، المؤثِّر فيه، الموجب لليقين، والعمل الصالح الكامل، وإبراهيم عليه السلام هو أفضلُ الأنبياء كلِّهم بعد محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وهو الأب الثالثُ للطوائف الفاضلة، وهو الذي جعلَ الله في ذُرِّيَّتِهِ النبوَّة والكتاب، وهو الذي دعا الخلق إلى الله، وصبر على ما ناله من العذاب العظيم، فدعا القريب والبعيد، واجتهد في دعوة أبيه مهما أمكنه.
[41] فرمایا: ﴿ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰؔهِیْمَ١ؕ ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ﴾ ’’اور یاد کرو کتاب میں ابراہیم کو، بے شک وہ سچے نبی تھے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کو بیک وقت صدیقیت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ صدیق، بہت راست باز شخص کو کہا جاتا ہے۔ پس وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں سچا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کی بھی تصدیق کرتا ہے جس کی تصدیق کا اس کو حکم دیا جاتا ہے اور یہ خوبی مستلزم ہے اس عظیم علم کو جو دل کی گہرائیوں تک پہنچتا اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے، نیز یقین اور کامل عمل صالح کا موجب ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیمu، حضرت محمدe کے بعد تمام انبیاء ومرسلین میں افضل ہیں ۔ وہ تمام اصحاب فضیلت گروہوں کے تیسرے باپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت کو نبوت اور کتاب سے نوازا۔ حضرت ابراہیمu نے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی پھر اس راستے میں پیش آنے والی اذیتوں اور بڑی بڑی تعذیب پر صبر کیا۔ انھوں نے قریب اور بعید، سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اپنے باپ کو، جیسے بھی ممکن ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کی بھرپور جدوجہد کی۔
#
{42} وذكر الله مراجعته إيَّاه فقال: {إذْ قال لأبيه}: مهجِّناً له عبادة الأوثان: {يا أبتِ لم تعبدُ ما لا يسمعُ ولا يبصِرُ ولا يغني عنك شيئاً}؛ أي: لم تعبد أصناماً ناقصةً في ذاتها وفي أفعالها؛ فلا تسمع، ولا تبصر، ولا تملِكُ لعابدها نفعاً ولا ضرًّا، بل لا تملِكُ لأنفسها شيئاً من النفع، ولا تقدِرُ على شيءٍ من الدفع؟! فهذا برهانٌ جليٌّ دالٌّ على أنَّ عبادة الناقص في ذاته وأفعاله مستقبحٌ عقلاً وشرعاً، ودلَّ تنبيهه وإشارتُه أنَّ الذي يجبُ ويحسُنُ عبادةُ مَنْ له الكمالُ، الذي لا يَنال العبادُ نعمةً إلاَّ منه، ولا يدفعُ عنهم نقمةً إلاَّ هو، وهو الله تعالى.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کی اس بحث وتکرار کا ذکر کیا جو انھوں نے اپنے باپ سے کی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ ﴾ ’’جب انھوں نے کہا اپنے باپ سے‘‘ یعنی بتوں کی عبادت کی قباحت بیان کرتے ہوئے اپنے باپ سے کہا: ﴿ یٰۤاَ بَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی آپ ان بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو اپنی ذات اور افعال میں ناقص ہیں ، جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں ، جو اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان بلکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ اپنی ذات سے کوئی چیز دور ہٹانے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ پس یہ اس حقیقت پر ایک روشن دلیل ہے کہ ایسی ہستی کی عبادت کرنا، جو اپنی ذات اور اپنے افعال میں ناقص ہے، عقل اور شرع کے اعتبار سے قبیح ہے۔ اس کی تنبیہ اور اس کا اشارہ دلالت کرتا ہے کہ عبادت صرف اسی ہستی کی واجب اور مستحسن ہے جو کمال کی مالک ہے، جس کے سوا بندے کہیں سے نعمتیں حاصل نہیں کر سکتے، جس کے سوا کوئی اور ہستی ان سے کوئی تکلیف دور نہیں کر سکتی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات۔
#
{43} {يا أبت إني قد جاءني من العلم ما لم يأتك}؛ أي: يا أبت لا تَحْقِرْني وتقول: إنِّي ابنُك، وإنَّ عندك ما ليس عندي، بل قد أعطاني الله من العلم ما لم يُعْطِكَ، والمقصودُ من هذا قوله: {فاتَّبِعْني أهْدِكَ صراطاً سويًّا}؛ أي: مستقيماً معتدلاً، وهو عبادة الله وحدَه لا شريك له، وطاعتُهُ في جميع الأحوال. وفي هذا من لطف الخطاب ولينه ما لا يخفى، فإنَّه لم يقلْ: يا أبتِ أنا عالمٌ وأنت جاهلٌ، أو: ليس عندكَ من العلم شيءٌ، وإنَّما أتى بصيغة [تقتضي] أنَّ عندي وعندك علماً،، وأنَّ الذي وصل إليَّ لم يصِلْ إليكَ ولم يأتِكَ؛ فينبغي لك أن تَتَّبِعَ الحجة وتنقاد لها.
[43] ﴿ یٰۤاَ بَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَ٘اْتِكَ ﴾ یعنی ابا جان! مجھے حقیر نہ جانیں اور یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور یہ کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم عطا کیا ہے جو آپ کو عطا نہیں کیا اور حضرت ابراہیمu کے اس قول کا مقصد یہ کہنا تھا کہ: ﴿ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا﴾ ’’آپ میری پیروی کریں میں دکھلاؤں گا آپ کو سیدھا راستہ‘‘ یعنی سیدھا اور معتدل راستہ اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تمام احوال میں اس کی اطاعت کرنا۔ اس خطاب میں جو لطف و کرم اور جو نرمی ہے وہ مخفی نہیں ۔ آپu نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’ابا جان میں عالم ہوں اور آپ جاہل ہیں ‘‘ یا ’’آپ کے پاس کوئی علم نہیں ‘‘ آپu نے اس پیرائے میں گفتگو فرمائی ’’میرے پاس اور آپ کے پاس علم ہے مگر جو علم مجھ تک پہنچا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچا، اس لیے آپ کے لیے مناسب یہی ہے کہ آپ دلیل کی پیروی کریں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں ۔‘‘
#
{44} {يا أبتِ لا تعبُدِ الشيطانَ}: لأنَّ مَنْ عَبَدَ غير الله؛ فقد عبد الشيطان؛ كما قال تعالى: {ألم أعْهَدْ إليكُم يا بني آدمَ أن لا تعبُدوا الشيطانَ إنَّه لكم عدوٌّ مبينٌ}. {إنَّ الشيطان كانَ للرحمن عَصِيًّا}: فمن اتَّبع خطواتِهِ؛ فقد اتَّخذه وليًّا، وكان عاصياً لله بمنزلة الشيطان. وفي ذكر إضافة العصيان إلى اسم الرحمن إشارةٌ إلى أنَّ المعاصي تمنع العبدَ من رحمةِ الله وتُغْلِقُ عليه أبوابها؛ كما أنَّ الطاعة أكبر الأسباب لنيل رحمتِهِ.
[44] ﴿ یٰۤاَ بَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّ٘یْطٰ٘نَ﴾ ’’ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کریں ‘‘ کیونکہ جس نے غیر اللہ کی عبادت کی اس نے شیطان کی عبادت کی جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّ٘یْطٰ٘نَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (یٰسٓ:36؍60) ’’اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ ﴿ اِنَّ الشَّ٘یْطٰ٘نَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ﴾ ’’بے شک شیطان رحمٰن کا نافرمان ہے‘‘ پس جو کوئی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرتا ہے وہ شیطان کا دوست اور شیطان کی مانند اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ یہاں نافرمانی کو اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (رحمٰن) کی طرف مضاف کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نافرمانیاں بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر دیتی ہیں اور اس پر رحمت کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رحمت الٰہی کے حصول کا سب سے بڑا سبب ہے۔
#
{45} ولهذا قال: {يا أبتِ إنِّي أخافُ أن يمسَّكَ عذابٌ من الرحمن}؛ أي: بسبب إصرارك على الكفر، وتماديك في الطغيان، {فتكونَ للشَّيْطانِ وليًّا}؛ أي: في الدُّنيا والآخرة، فتنزل بمنازله الذَّميمة، وترتع في مراتعه الوخيمة، فتدرَّج الخليل عليه السلام بدعوة أبيه بالأسهل فالأسهل، فأخبره بعلمه، وأنَّ ذلك موجبٌ لاتِّباعك إيَّاي، وأنَّك إن أطعتني؛ اهتديتَ إلى صراط مستقيم. ثم نهاه عن عبادةِ الشيطان، وأخبره بما فيها من المضارِّ. ثم حذَّره عقاب الله ونقمته إنْ أقام على حاله، وأنَّه يكون وليًّا للشيطان.
[45] اس لیے فرمایا: ﴿ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ﴾ ’’ابا جان! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو کہیں رحمٰن کی طرف سے عذاب نہ آلے‘‘ یعنی کفر پر آپ کے اصرار اور سرکشی میں آپ کے بڑھتے چلے جانے کے سبب سے۔ ﴿ فَتَكُوْنَ لِلشَّ٘یْطٰ٘نِ وَلِیًّا ﴾ ’’پس آپ شیطان کے دوست ہو جائیں ‘‘ یعنی دنیا وآخرت میں ۔ پس آپ اس کے مذموم مقام و منزلت پر اتار دیے جائیں اور شیطان کی ضرر رساں اور گندی چراگاہ میں چریں ۔ اور یوں حضرت خلیلu نے اپنے باپ کو آسان سے آسان تر امر کی طرف دعوت دی۔ آپ نے اسے اپنے علم کے ذریعے سے بتایا کہ یہ چیز آپ پر میری اطاعت کی موجب ہے اگر آپ میری اطاعت کریں گے تو میں سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا، پھر آپ نے اسے شیطان کی عبادت سے منع فرمایا اور اسے ان مضرتوں کے بارے میں خبردار کیا جو شیطان کی عبادت میں پنہاں ہیں ، پھر اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنے اسی حال پر قائم رہا تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ شیطان کا دوست شمار ہو گا۔
#
{46} فلم ينجعْ هذا الدعاء بذلك الشقيِّ، وأجاب بجواب جاهل وقال: {أراغبٌ أنت عن آلهتي يا إبراهيمُ}: فتبجَّح بآلهته التي هي من الحجرِ والأصنام، ولَامَ إبراهيم عن رغبتِهِ عنها، وهذا من الجهل المفرِطِ والكفر الوخيم؛ يتمدَّح بعبادةِ الأوثانِ ويدعو إليها. {لئن لم تَنْتَهِ}؛ أي: عن شتم آلهتي ودعوتي إلى عبادة الله، {لأرجُمَنَّكَ}؛ أي: قتلاً بالحجارة، {واهْجُرْني ملياً}؛ أي: لا تكلِّمْني زماناً طويلاً.
[46] مگر یہ دعوت اس بدبخت کے کسی کام نہ آئی۔ اس نے ایک جاہل کی مانند جواب دیا: ﴿ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ﴾ ’’اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے اعراض کرتا ہے؟‘‘ اس نے اپنے معبودوں پر فخر کا اظہار کیا جو پتھر کے بنے ہوئے بت تھے۔ اور حضرت ابراہیمu کو ان معبودوں سے روگردانی کرنے پر ملامت کرنے لگا، یہ اس کی بہت بڑی جہالت اور بہت بڑا کفر تھا، وہ بتوں کی عبادت پر مدح چاہتا تھا اور اس عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا۔ ﴿لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ ﴾ یعنی اگر تو میرے معبودوں کو سب وشتم کرنے اور مجھے اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا ﴿ لَاَرْجُمَنَّكَ ﴾ یعنی میں تجھے پتھر مار مار کر قتل کر دوں گا ﴿ وَاهْجُرْنِیْ مَلِیًّا ﴾ ’’اور چھوڑ دے مجھ کو ایک مدت تک‘‘ یعنی طویل زمانے تک میرے ساتھ بات نہ کر۔
#
{47} فأجابه الخليل جوابَ عباد الرحمن عند خطاب الجاهلين، ولم يشتِمْه، بل صبر، ولم يقابل أباه بما يكره، وقال: {سلامٌ عليك}؛ أي: ستسلم من خطابي إياك بالشتم والسبِّ وبما تكره، {سأستغفر لك ربِّي إنَّه كان بي حَفِيًّا}؛ أي: لا أزال أدعو الله لك بالهداية والمغفرة بأن يهدِيَك للإسلام الذي به تحصُلُ المغفرة؛ فإنَّه كان بي حَفِيًّا؛ أي: رحيماً رءوفاً بحالي معتنياً بي، فلم يزلْ يستغفرُ الله له رجاء أن يهدِيَه الله، فلما تبيَّن له أنَّه عدوٌّ لله، وأنَّه لا يفيدُ فيه شيئاً؛ ترك الاستغفار له وتبرَّأ منه. وقد أمرنا الله باتِّباع ملَّة إبراهيم؛ فمن اتِّباع ملَّته سلوك طريقه في الدَّعوة إلى الله بطريق العلم والحكمة واللين والسهولة والانتقال من رتبةٍ إلى رتبةٍ ، والصبر على ذلك، وعدم السآمة منه، والصبر على ما ينال الداعي من أذى الخَلْق بالقول والفعل، ومقابلة ذلك بالصفح والعفو، بل بالإحسان القوليِّ والفعليِّ.
[47] حضرت خلیلu نے اپنے باپ کو اس طرح جواب دیا جس طرح رحمٰن کے بندے جہلاء کو جواب دیتے ہیں ۔ آپ اس سے سب و شتم سے پیش نہیں آئے بلکہ صبر سے کام لیا اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جو باپ کو ناگوار گزرتی۔ فرمایا: ﴿ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكَ ﴾ ’’سلام آپ پر‘‘ یعنی آپ میرے خطاب میں سب و شتم اور ناگوار باتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ﴿سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ﴾ یعنی میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا کہ وہ آپ کی اسلام کی طرف راہنمائی کرے جس کے ذریعے سے مغفرت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا ﴾ کیونکہ وہ میرے حال پر بہت رحیم اور مہربان ہے اور مجھے اپنے سایۂ اعتناء میں رکھتا ہے۔ پس حضرت ابراہیمu اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دے دے گا، اپنے باپ کے لیے استغفار کرتے رہے، پھر جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کے لیے استغفار کرنا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا تو اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا چھوڑ دی اور اس سے برا ء ت کا اظہار کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا ہے اور ان کی ملت کی پیروی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں ہم آپ کی راہ پر گامزن ہوں اور علم و حکمت اور نرم رویہ اپنائیں ۔ دعوت الی اللہ میں تدریج اور ترتیب کا طریقہ اختیار کریں ، اس پر صبر کریں اور اس سے ہرگز نہ اکتائیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کو، لوگوں کی طرف سے جن قولی اور فعلی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر صبر کرے اور عفو، درگزر، قولی اور فعلی حسن سلوک کے ساتھ ان اذیتوں کا مقابلہ کرے۔
#
{48} فلما أيس من قومه وأبيه؛ قال: {وأعتزِلُكم وما تدعونَ من دون الله}؛ أي: أنتم وأصنامكم، {وأدعو ربِّي}: وهذا شاملٌ لدعاء العبادة ودعاء المسألة، {عسى أن لا أكونَ بدُعاء ربِّي شَقِيًّا}؛ أي: عسى الله أن يسعِدَني بإجابة دعائي وقَبول أعمالي، وهذه وظيفةُ من أيس ممَّن دعاهم ـ فاتَّبعوا أهواءهم، فلم تنجَعْ فيهم المواعظُ، فأصرُّوا في طغيانهم يعمهون ـ أنْ يشتغلَ بإصلاح نفسه، ويرجو القبولَ من ربِّه، ويعتزل الشرَّ وأهله.
[48] جب ابراہیمu اپنی قوم اور اپنے باپ کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے تو کہنے لگے: ﴿ وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ یعنی میں تم سے اور تمھارے بتوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ﴿ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ﴾ ’’اور میں یہ دعا کروں گا اپنے رب سے‘‘ یہ دعائے عبادت اور دعائے سوال دونوں کو شامل ہے ﴿ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا﴾ ’’امید ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہ رہوں گا‘‘ یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا اور اعمال کو قبول فرما کر مجھے سعادت سے نواز دے۔ یہ اس داعی حق کا وظیفہ ہے جو ایسے لوگوں سے مایوس ہو گیا تھا جن کو اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی مگر وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے رہے اور وعظ و نصیحت نے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور وہ اپنی سرکشی میں اصرار کے ساتھ سرگرداں رہے۔ جو کوئی اس قسم کی صورت حال میں مبتلا ہو جائے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہے اور اپنے رب سے امید رکھے کہ وہ اس کی کوشش کو قبول فرمائے گا اور وہ شر اور اہل شر سے دور رہے۔
#
{49} ولما كان مفارقةُ الإنسان لوطنه ومألفه وأهله وقومه من أشقِّ شيءٍ على النفس لأمورٍ كثيرةٍ معروفةٍ، ومنها انفرادُه عمن يتعزَّز بهم ويتكثَّر، وكان مَنْ ترك شيئاً لله؛ عوَّضه الله خيراً منه، واعتزل إبراهيمُ قومه؛ قال الله في حقِّه: {فلمَّا اعتزَلَهم وما يعبُدون من دون الله وَهَبْنا له إسحاقَ ويعقوبَ وكلاًّ}: من إسحاقَ ويعقوبَ، {جَعَلْنا نبيًّا}: فحصل له ولهؤلاء الصالحين المرسلين إلى الناس، الذين خصَّهم الله بوحيه، واختارهم لرسالته، واصطفاهم من العالمين.
[49] انسان کے لیے اپنے وطن مالوف، اپنے اہل و عیال اور اپنی قوم سے جدا ہونا سب سے مشکل اور سب سے زیادہ شاق گزرنے والا کام ہے اور اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی وجہ سے باعزت اور کثرت والا ہوتا ہے اور جو کوئی اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عوض اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم u نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا: ﴿ فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۙ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ١ؕ وَكُلًّا﴾ ’’پس جب وہ (ابراہیمu) ان لوگوں سے اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے، ان سے الگ ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور سب کو۔‘‘ حضرت اسحاق اور یعقوبi دونوں کو ﴿ جَعَلْنَا نَبِیًّا ﴾ ’’ہم نے نبی بنایا۔‘‘ پس حضرت ابراہیم u اور ان تمام صالحین و مرسلین کو یہ شرف نبوت حاصل ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر لوگوں کی طرف بھیجا، انھیں اپنی وحی کے لیے مختص کیا، انھیں اپنی رسالت کے لیے تمام جہانوں میں سے چن لیا۔
#
{50} {ووهبنا لهم}؛ أي: لإبراهيم وابنيه إسحاق ويعقوب، {من رَحْمَتِنا}: وهذا يشمَلُ جميع ما وَهَبَ الله لهم من الرحمة من العلوم النافعة والأعمال الصالحة والذُّرِّيَّة الكثيرة المنتشرة، الذين قد كَثُر فيهم الأنبياء والصالحون، {وجَعَلْنا لهم لسانَ صدقٍ عليًّا}: وهذا أيضاً من الرحمة التي وَهَبَها لهم؛ لأنَّ الله وعد كلَّ محسن أن ينشُرَ له ثناءً صادقاً بحسب إحسانه، وهؤلاء من أئمة المحسنين، فنشر الله الثناء الحسن الصادق غير الكاذب العالي غير الخفيِّ، فِذكْرُهم ملأ الخافقين، والثناء عليهم ومحبَّتُهم امتلأت بها القلوب وفاضت بها الألسنةُ، فصار قدوةً للمقتدين وأئمة للمهتدينَ، ولا تزال أذكارُهم في سائر العصور متجدِّدة، وذلك فضلُ الله يؤتيه مَنْ يشاءُ، والله ذو الفضل العظيم.
[50] فرمایا ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُمْ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیمu اور ان کے دونوں بیٹوں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوبi کو ﴿مِّنْ رَّحْمَتِنَا ﴾ ’’اپنی رحمت سے نوازا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے بہرہ ور کیا، علوم نافعہ اور اعمال صالحہ عطا کیے اور انھیں بے شمار ذریت عطا کی جو ساری دنیا میں پھیلی اور ان کے اندر بکثرت انبیاء اور صالحین ہوئے۔ ﴿ وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا ﴾ ’’اور ان کے ذکر جمیل کو بلند کیا۔‘‘ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے ان کو بہرہ ور کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک کام کرنے والے ہر شخص سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کی نیکی کے مطابق اسے سچی شہرت عطا کرے گا۔ ان کا شمار تو ائمہ محسنین میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انھیں سچی، جس میں جھوٹ کا شائبہ نہیں ، ظاہر و باہر اور غیر مخفی ثنائے حسن عطا کی۔ ان کے ذکر خیر، ان کی ثنائے حسن اور ان کے ساتھ محبت نے مشرق و مغرب کو لبریز کر دیا ہے۔ خلائق کے دلوں میں ان کی محبت سما گئی، لوگوں کی زبان پر ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنا جاری ہو گئی۔ وہ پیروی کرنے والوں کے قائد اور راہنمائی حاصل کرنے والوں کے راہ نما بن گئے۔ ہر زمانے میں ان کا ذکر خیر نئے نئے اسالیب میں لوگوں کی زبانوں پر جای رہا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور اللہ تعالیٰ فضل عظیم کا مالک ہے۔
آیت: 51 - 53 #
{وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا (51) وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا (52) وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا (53)}.
اور ذکر کیجیے کتاب میں موسیٰ کا، بلاشبہ وہ تھا چنا ہوااور تھا رسول نبی (51) اور پکارا ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سےاور قریب کیا ہم نے اسے سرگوشی کرنے کے لیے (52) اور عطا کیا ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون نبی (بنا کر) (53)
#
{51} أي: واذكر في هذا القرآن العظيم موسى بن عمران على وجه التَّبْجيل له والتعظيم والتعريف بمقامه الكريم وأخلاقه الكاملة. {إنَّه كان مُخْلَصاً}: قُرئ بفتح اللام على معنى أنَّ الله تعالى اختاره، واستخلصه، واصطفاه على العالمين، وقرئ بكسرها على معنى أنَّه {مخلِصاً} لله تعالى في جميع أعماله وأقواله ونيَّاتِهِ، فوصفُهُ الإخلاص في جميع أحواله، والمعنيان متلازمان؛ فإنَّ الله أخلصه لإخلاصه، وإخلاصُه موجبٌ لاستخلاصه، وأجلُّ حالةٍ يوصَف بها العبدُ الإخلاص منه والاستخلاص من ربِّه. {وكان رسولاً نبيًّا}؛ أي: جمع الله له بين الرسالة والنبوَّة؛ فالرسالة تقتضي تبليغ كلام المرسِل وتبليغَ جميع ما جاء به من الشرع دقِّه وجِلِّه، والنبوَّة تقتضي إيحاءَ الله إليه وتخصيصه بإنزال الوَحْي إليه؛ فالنبوَّة بينه وبين ربِّه، والرسالة بينَه وبين الخَلْق.
[51] یعنی اس قرآن عظیم میں ، حضرت موسیٰ بن عمرانu کی تعظیم و توقیر، ان کے مقام عالی قدر اور اخلاق کاملہ کی تعریف کے طور پر، ان کا ذکر کیجیے۔ ﴿اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ﴾ (مُخْلَصًا) کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ u کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے پسند کر لیا اور اسے چن لیا۔ ایک دوسری قراء ت میں (مُخْلِصًا) کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے تب اس کا معنی یہ ہو گا کہ حضرت موسیٰ u اپنے تمام اعمال، اقوال اور نیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص تھے۔ ان کے تمام احوال میں اخلاص ان کا وصف تھا… دونوں معنی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ u کے اخلاص کی بنا پر ان کو چن لیا اور ان کا اخلاص اس بات کا موجب تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو چن لے اور بندۂ مومن کا جلیل ترین حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے لیے اخلاص کا حامل ہو اور اس کا رب اسے اپنے لیے چن لے۔ ﴿ وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں رسالت اور نبوت کو یکجا کر دیا۔ پس رسالت، بھیجنے والے کے کلام کی تبلیغ کا تقاضا کرتی ہے، نیز یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی جو بھی چھوٹی یا بڑی چیز آئی ہے اسے بندوں تک پہنچایا جائے… اور نبوت اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی آتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی تنزیل کے لیے اسے مختص کر لیا ہو۔ پس نبوت کا تعلق بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے اور رسالت کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے۔
#
{52} بل خصَّه الله من أنواع الوحي بأجلِّ أنواعه وأفضلها، وهو تكليمُه تعالى وتقريبُه مناجياً لله تعالى، وبهذا اختُصَّ من بين الأنبياء بأنَّه كليم الرحمن، ولهذا قال: {ونادَيْناه من جانب الطُّورِ الأيمن}؛ أي: الأيمن من موسى في وقت مسيرِه، أو: الأيمن؛ أي: الأبرك من اليُمْن والبركة، ويدلُّ على هذا المعنى قوله تعالى: {أن بورِكَ مَن في النار ومَنْ حولَها}. {وقرَّبَّناه نَجِيًّا}: والفرق بين النداء والنجاء: أنَّ النداء هو الصوتُ الرفيع، والنجاء ما دون ذلك. وفي هذا إثبات الكلام لله تعالى وأنواعه من النِّداء والنجاء؛ كما هو مذهبُ أهل السنة والجماعة؛ خلافاً لمن أنكر ذلك من الجهميَّة والمعتزلة، ومن نحا نحوهم.
[52] بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u کو وحی کی جلیل ترین اور سب سے افضل نوع کے ساتھ خاص فرمایا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام کرنا اور انھیں اپنی سرگوشی کے لیے اپنے قریب کرنا۔ انبیاء میں سے اس فضیلت کے ساتھ صرف موسیٰ uکو خاص کیا گیا کہ وہ رحمان کے کلیم ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ﴿وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ ﴾ یعنی حضرت موسیٰ u کی دائیں جانب سے، جب وہ سفر کر رہے تھے، ہم نے ان کو ندا دی۔ یا (اَلأَیْمن) سے مراد بابرکت ہے یعنی یہ (یُمْنٌ) ’’برکت‘‘ سے ہے اور اس معنیٰ پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ ﴿اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا﴾ (النمل:27؍8) ’’بابرکت ہے وہ ہستی جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے اردگرد ہے۔‘‘ ﴿وَقَ٘رَّبْنٰهُ نَؔجِیًّا﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ کو سرگوشی کے لیے اپنے قریب کیا۔‘‘ ندا اور مناجات میں فرق یہ ہے، کہ ندا بلند آواز میں ہوتی اور مناجات اس سے کم تر دھیمی آواز میں ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کی تمام انواع… مثلاً: ندا اور مناجات وغیرہ کا اثبات ہوتا ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔ اس کے برعکس جہمیہ، معتزلہ اور ان کے ہم مسلک گروہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں ۔
#
{53} وقوله: {ووهَبْنا له من رحمتنا أخاه هارونَ نبيًّا}: هذا من أكبر فضائل موسى وإحسانه ونصحِهِ لأخيه هارون: أنَّه سأل ربَّه أن يُشْرِكَه في أمرِهِ وأن يجعلَه رسولاً مثله، فاستجاب الله له ذلك، ووهب له من رحمتِهِ أخاه هارونَ نبيًّا؛ فنبوَّة هارونَ تابعةٌ لنبوَّة موسى عليهما السلام، فساعده على أمرِهِ وأعانه عليه.
[53] ﴿ وَوَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰؔرُوْنَ نَبِیًّا﴾ یہ حضرت موسیٰ u کی سب سے بڑی فضیلت ہے اور ان کا اپنے بھائی ہارونu کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خیر خواہی ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ ان کے بھائی حضرت ہارون u کو ان کی ذمہ داری میں شریک کر کے انھیں بھی ان کی مانند رسول بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو رسول بنا دیا… پس ہارون u کی نبوت حضرت موسیٰ u کی نبوت کے تابع ہے، حضرت ہارون u نبوت کے معاملات میں حضرت موسیٰu کی مدد اور اعانت کرتے تھے۔
آیت: 54 - 55 #
{وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا (54) وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا (55)}.
اور ذکر کیجیے کتاب میں اسمٰعیل کا، بلاشبہ وہ تھا سچا وعدے کااور تھا وہ رسول نبی(54) اور تھا وہ حکم کرتا اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کااور تھا وہ نزدیک اپنے رب کے پسندیدہ (55)
#
{54} أي: واذكر في القرآن الكريم هذا النبيَّ العظيم، الذي خَرَجَ منه الشعبُ العربيُّ، أفضل الشعوب وأجلُّها، الذين منهم سيِّد ولد آدم. {إنَّه كان صادقَ الوعدِ}؛ أي: لا يَعِدُ وعداً إلاَّ وَفَّى به، وهذا شاملٌ للوعد الذي يعقده مع الله أو مع العباد، ولهذا لما وعد من نفسِهِ الصبرَ على ذبح أبيه له؛ قال: {سَتَجِدني إن شاءَ الله من الصابرين}: وفَّى بذلك، ومكَّن أباه من الذبح الذي هو أكبر مصيبةٍ تصيبُ الإنسان. ثم وَصَفَه بالرسالة والنبوَّة التي هي أكبر منن الله على عبده، وجعله من الطَّبقة العليا من الخلق.
[54] یعنی قرآن کریم میں اس عظیم نبی (حضرت اسماعیلu) کا ذکر کیجیے جس سے عربی قبیلے کی نسل چلی جو سب سے افضل اور جلیل قبیلہ ہے، جس سے اولاد آدم کے سردار، حضرت محمد مصطفیe مبعوث ہوئے۔ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴾ یعنی وہ جو بھی وعدہ کرتے تھے اسے پورا کرتے تھے۔ اس میں وہ تمام وعدے شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کیے گئے اور جو بندوں سے کیے گئے… اسی لیے جب ان کے والد نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے اپنے آپ سے صبر کرنے کا وعدہ کیا، چنانچہ انھوں نے اپنے والد سے کہا ﴿سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰؔبِرِیْنَ﴾ (الصافات:37؍102) ’’اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ انھوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے والد کو پورا اختیار دیا کہ وہ ان کو ذبح کریں ، جو کہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو انسان کو پہنچ سکتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو رسالت اور نبوت سے متصف کیا جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر سب سے بڑا احسان ہے… اور انھیں مخلوق کے بلند ترین طبقے میں سے کیا۔
#
{55} {وكان يأمُرُ أهلَه بالصلاة والزكاة}؛ أي: كان مقيماً لأمر الله على أهله، فيأمرُهُم بالصلاة المتضمِّنة للإخلاص للمعبود، وبالزَّكاة المتضمِّنة للإحسان إلى العبيد؛ فكمَّل نفسه، وكمَّل غيره، وخصوصاً أخصَّ الناس عنده، وهم أهله؛ لأنَّهم أحقُّ بدعوته من غيرهم. {وكان عند ربِّه مَرْضِيًّا}: وذلك بسبب امتثالِهِ لمراضي ربِّه واجتهادِهِ فيما يُرضيه؛ ارتضاه اللَّه وجَعَلَه من خواصِّ عباده وأوليائهِ المقرَّبين؛ فرضي الله عنه، ورضي هو عن ربِّه.
[55] ﴿وَؔكَانَ یَ٘اْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰ٘وةِ وَالزَّكٰوةِ﴾ ’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے۔‘‘ یعنی اپنے گھر والوں پر اللہ کا حکم نافذ کرتے تھے۔ پس انھیں نماز کا حکم دیتے جو معبود کے لیے اخلاص کو متضمن ہے اور زکاۃ کا حکم دیتے جو بندوں کے ساتھ احسان کرنے کو متضمن ہے۔ یوں انھوں نے اپنے آپ کو بھی درجۂ کمال پر پہنچایا اور دوسروں کو بھی کامل بنایا، بالخصوص ان کو جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ ان کے نزدیک خاص تھے اور وہ ان کے اہل خانہ تھے کیونکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی دعوت و تبلیغ کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ ﴿وَؔكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا﴾ اور اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے اپنے رب کی مرضیات کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور ایسے امور سرانجام دینے میں کوشاں رہے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ اس نے ان کو اپنے خاص بندوں اور اولیائے مقربین میں سے کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگئے۔
آیت: 56 - 57 #
{وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (56) وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا (57)}.
اور ذکر کیجیے کتاب میں ادریس کا، بلاشبہ وہ تھا نہایت سچا، نبی (56) اور اٹھایا ہم نے اس کو مکان بلند میں (57)
#
{56} أي: اذكُر في الكتاب على وجه التَّعظيم والإجلال والوصف بصفات الكمال إدريس. {إنَّه كان صدِّيقاً نبيًّا}: جَمَعَ الله له بين الصِّدِّيقيَّة الجامعة للتصديق التامِّ والعلم الكامل واليقين الثابت والعمل الصالح، وبين اصطفائِهِ لوحيه واختياره لرسالتِهِ.
[56] یعنی اس کتاب کریم میں تعظیم و اجلال اور صفات کمال سے متصف ہونے کے اعتبار سے ادریس uکا ذکر کرو! ﴿اِنَّهٗ كَانَ صِدِّؔیْقًا نَّبِیًّا﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیک وقت صدیقیت… جو تصدیق تام، علم کامل، یقین ثابت اور عمل صالح کی جامع ہے… اور اپنی وحی اور رسالت کے لیے چن لیا۔
#
{57} {ورَفَعْناه مكاناً عليًّا}؛ أي: رفع الله ذكره في العالمين ومنزلته بين المقرَّبين، فكان عالي الذكر عالي المنزلة.
[57] ﴿ وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہانوں میں ان کا ذکر اور مقربین کے درمیان ان کا درجہ بلند کیا۔ پس وہ ذکر کے لحاظ سے بھی بلند تھے اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی بلند۔
آیت: 58 #
{أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا (58)}.
یہ (مذکورہ) وہ لوگ ہیں کہ انعام کیا اللہ نے ان پر، نبیوں میں سے، اولاد آدم سے اوران لوگوں (کی نسل) میں سے جنھیں اٹھایا (سوار کیا) تھا ہم نے ساتھ نوح کےاور اولاد سے ابراہیم اور اسرائیل (یعقوب) کی اور ان لوگوں میں سے کہ جنھیں ہدایت دی ہم نےاور چن لیا ہم نے، جب تلاوت کی جاتی تھیں ان پر آیتیں رحمٰن کی تو وہ گر پڑتے تھے سجدہ کرتے ہوئے اورروتے ہوئے (58)
#
{58} لما ذَكَرَ هؤلاء الأنبياء المُكْرَمين وخواصَّ المرسلين وذَكَرَ فضائِلَهم ومراتبهم؛ قال: {أولئك الذين أنعم الله عليهم من النبيِّين}؛ أي: أنعم الله عليهم نعمةً لا تُلحق ومنَّةً لا تُسْبَق؛ من النبوَّة والرسالة، وهم الذين أمِرْنا أن ندعُو الله أن يهدِيَنا صراط الذين أنعم عليهم، وأنَّ مَن أطاع الله كان {مع الذين أنعمَ الله عليهِمْ من النبيِّين ... } الآية، وأنَّ بعضهم {من ذُرِّيَّة آدم وممَّن حملنا مع نوح}؛ أي: من ذرِّيَّته. {ومن ذُرِّيَّة إبراهيم وإسرائيل}: فهذه خير بيوت العالم، اصطفاهم الله واختارهم واجتباهم، وكان حالهم عند تلاوة آيات الرحمن عليهم، المتضمِّنة للإخبار بالغُيوب وصفات عَلاَّم الغيوب والإخبار باليوم الآخر والوعد والوعيد؛ {خَرُّوا سُجَّداً وبُكِيًّا}؛ أي: خضعوا لآيات الله، وخشعوا لها، وأثَّرت في قلوبهم من الإيمان والرغبة والرهبة ما أوجب لهم البُكاء والإنابة والسُّجود لربِّهم، ولم يكونوا من الذين إذا سمعوا آيات الله؛ خَرُّوا عليها صُمًّا وعُمياناً. وفي إضافة الآيات إلى اسمه الرحمن دلالةٌ على أنَّ آياته من رحمتِهِ بعبادِهِ وإحسانِهِ إليهم؛ حيث هداهم بها إلى الحقِّ، وبصَّرهم من العمى، وأنقذهم من الضَّلالة، وعلَّمهم من الجهالة.
[58] جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے مکرمین اور خواصِ مرسلین کا ذکر فرمایا اور ان کے فضائل و مراتب کا تذکرہ کیا تو فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی نعمت عطا کی ہے جسے کوئی اور حاصل نہیں کر سکتا، نبوت اور رسالت عطا کر کے ان پر ایسا احسان کیا ہے جس میں کوئی سبقت نہیں کر سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان لوگوں کے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، نیز یہ کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا ﴿مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّؔیْقِیْنَ۠ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰؔلِحِیْنَ﴾ (النساء:4؍69) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ ان میں سے بعض ﴿ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَ١ۗ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ﴾ ’’آدم کی اولاد میں سے ہیں اور کچھ ان میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں ) سوار کر دیا۔‘‘ یعنی نوح کی ذریت میں سے ہیں ۔ ﴿ وَّمِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰؔهِیْمَ وَاِسْرَآءِیْلَ﴾ یہ گھرانے دنیا کے تمام گھرانوں سے بہتر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے لیے پسند کر لیا اور چن لیا۔ جب ان کے سامنے رحمٰن کی وہ آیات تلاوت کی جاتی تھیں جو غیب کی خبروں ، علام الغیوب کی صفات، روز آخرت کی خبروں اور وعدو وعید کو متضمن ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے۔ ﴿ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِیًّا﴾ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔ ان آیات نے ان کے دلوں کو ایمان اور رغبت و رہبت سے لبریز کر دیا جو ان کے لیے آہ و بکا، انابت اور اپنے رب کے حضور سجدے کی موجب ہیں ۔ وہ ان لوگوں کی مانند نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں تو ان پر اندھے بہرے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ آیات کی، اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (رحمان) کی طرف اضافت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے بندوں پر اس کی رحمت اور احسان ہے کیونکہ اس نے آیات کے ذریعے سے ان کی حق کی طرف راہنمائی کی، ان کی کورنگاہی کو دور کر کے بصیرت سے نوازا، انھیں گمراہی سے بچایا اور جہالت کی تاریکیوں میں انھیں علم کی روشنی عطا کی۔
آیت: 59 - 63 #
{فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا (60) جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا (61) لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (62) تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا (63)}.
پھر جانشین ہوئے بعد ان کے ناخلف (برے) لوگ، ضائع کر دیا انھوں نے نمازوں کو اور پیروی کی انھوں نے خواہشات کی، پس عنقریب ملیں گے وہ ہلاکت کو (59) مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اورعمل کیا اچھا تو یہی لوگ داخل ہوں گے جنت میں اور نہ ظلم کیے جائیں گے وہ کچھ بھی (60) (یعنی ) باغات ہمیشگی کے، وہ جن کا وعدہ کیا ہے (اللہ) رحمٰن نے اپنے بندوں سے بن دیکھے، بلاشبہ ہے وعدہ اس کا (ہر صورت) آنے والا (61)نہیں سنیں گے وہ اس جنت میں لغوبات مگر سلام ہی اور ان کے لیے رزق ہو گا ان کا اس میں صبح اور شام (62) یہی وہ جنت ہے جس کا وارث بنائیں گے ہم اپنے بندوں میں سے اس کو جو ہو گا پرہیز گار (63)
#
{59} لما ذَكَرَ تعالى هؤلاء الأنبياء [وهم] المخلصون ، المتَّبِعون لمراضي ربِّهم، المنيبونَ إليه؛ ذكر مَنْ أتى بعدَهم وبدَّلوا ما أمِروا به، وأنَّه خَلَفَ {من بعدِهم خَلْفٌ}: رجعوا إلى الخَلْفِ والوراء، فـ {أضاعوا الصَّلاة}: التي أمِروا بالمحافظة عليها وإقامتها، فتهاوَنوا بها وضيَّعوها، وإذا ضيَّعوا الصلاة التي هي عمادُ الدين وميزانُ الإيمان والإخلاص لربِّ العالمين، التي هي آكدُ الأعمال وأفضلُ الخصال؛ كانوا لما سواها من دينهم أضيعَ وله أرفضَ. والسبب الداعي لذلك أنَّهم اتَّبعوا شهواتِ أنفسهم وإراداتها، فصارت هممُهم منصرفةً إليها مقدِّمة لها على حقوق الله، فنشأ من ذلك التضييع لحقوقه والإقبال على شهواتِ أنفسهم مهما لاحتْ لهم حصَّلوها، وعلى أيِّ وجهٍ اتَّفقت تناولوها. {فسوف يَلْقَوْنَ غَيًّا}؛ أي: عذاباً مضاعفاً شديداً.
[59] جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرامo کا ذکر فرمایا جو مخلص، اپنے رب کی رضا کی پیروی کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو ان کے بعد آئے اور انھوں نے ان امور کو بدل دیا جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا، ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جو پیچھے لوٹ گئے۔ انھوں نے نماز کو ضائع کیا جس کی حفاظت اور اس کو قائم کرنے کا انھیں حکم دیا گیا تھا، انھوں نے نماز کو حقیر سمجھا اور اسے ضائع کر دیا۔ جب انھوں نے نماز کو ضائع کر دیا جو دین کا ستون، ایمان کی میزان اور رب العالمین کے لیے اخلاص ہے، جو سب سے زیادہ مؤکد عمل اور سب سے افضل خصلت ہے تو نماز کے علاوہ باقی دین کو ضائع کرنے اور اس کو چھوڑ دینے کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ شہوات نفس اور اس کے ارادوں کے پیچھے لگ گئے، اس لیے ان کی ہمتوں کا رخ ان شہوات کو طرف پھر گیا اور انھوں نے ان شہوات کو حقوق اللہ پر ترجیح دی۔ یہیں سے حقوق اللہ کو ضائع کرنے اور شہوات نفس پر توجہ دینے نے جنم لیا۔ یہ شہوات نفس جہاں کہیں بھی نظر آئیں اور جس طریقے سے بھی بَن پڑا، انھوں نے ان کو حاصل کیا۔ ﴿فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا﴾ ’’پس عنقریب ملیں گے وہ ہلاکت کو۔‘‘ یعنی کئی گنا سخت عذاب۔
#
{60} ثم استثنى تعالى فقال: {إلاَّ مَن تابَ}: عن الشرك والبدع والمعاصي، فأقلع عنها، وندم عليها، وعزم عزماً جازماً أن لا يعاوِدَها، {وآمَنَ}: بالّله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، {وعَمِلَ صَالِحاً}: وهو العمل الذي شرعه الله على ألسنةِ رسلِهِ إذا قصد به وجهه، {فأولئك}: الذين جمعوا بين التوبة والإيمان والعمل الصالح، {يدخُلون الجنَّة}: المشتملة على النعيم المقيم والعيش السليم وجوار الربِّ الكريم، {ولا يُظْلَمون شيئاً}: من أعمالهم، بل يجِدونها كاملةً، موفَّرة أجورها، مضاعفاً عددها.
[60] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثناء فرمایا ﴿ اِلَّا مَنْ تَابَ ﴾ یعنی جس نے شرک، بدعات اور معاصی سے توبہ کر لی، ان کو ترک کرکے ان پر نادم ہوا اور دوبارہ ان کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم کر لیا ﴿ وَاٰمَنَ ﴾ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان لایا ﴿ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ ’’اور نیک عمل کیے۔‘‘ اور عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا ہے جبکہ عمل کرنے والے کی نیت رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی جس نے توبہ، ایمان اور عمل صالح کو یکجا کر لیا ﴿ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ ﴾ ’’وہ جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ جو ہمیشہ رہنے والی نعمتوں ، ہر قسم کے تکدر سے سلامت زندگی اور رب کریم کے قرب پر مشتمل ہو گی۔ ﴿ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی ان کے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی بلکہ ان کو ان کے اعمال کا کئی گنا زیادہ اجر ملے گا۔
#
{61} ثم ذكر أنَّ الجنَّة التي وعدهم بدخولها ليست كسائر الجنات، وإنما هي {جَنَّاتِ عدنٍ}؛ أي: جنات إقامةٍ لا ظعن فيها ولا حِوَل ولا زوال، وذلك لسعتها وكثرة ما فيها من الخيرات والسرور والبهجة والحبور. {التي وَعَدَ الرحمن عباده بالغيب}؛ أي: التي وَعَدَها الرحمن، أضافها إلى اسمه الرحمن؛ لأنَّها فيها من الرحمة والإحسان ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خَطَرَ على قلب بشر، وسماها تعالى رَحْمَتَهُ، فقال: {وأمَّا الذين ابيضَّت وجوهُهم ففي رحمةِ الله هم فيها خالدونَ}. وأيضاً؛ ففي إضافتها إلى رحمته ما يدلُّ على استمرار سرورها، وأنَّها باقيةٌ ببقاء رحمتِهِ التي هي أثرُها وموجَبُها. والعبادُ في هذه الآية المرادُ عبادُ إلهيَّته، الذين عَبَدوه والتزموا شرائِعَه، فصارت العبوديَّة وصفاً لهم؛ كقوله: {وعبادُ الرحمن}، ونحوه؛ بخلاف عباده المماليك فقط، الذين لم يعبُدوه؛ فهؤلاء وإنْ كانوا عبيداً لربوبيَّته لأنَّه خلقهم ورزقهم ودبَّرهم؛ فليسوا داخلين في عبيد إلهيَّته، العبوديَّة الاختيارية التي يُمْدَحُ صاحبها، وإنَّما عبوديَّتهم عبوديَّة اضطرارٍ لا مدح لهم فيها. وقوله: {بالغيب}: يُحتمل أن تكون متعلِّقة بوعد الرحمن، فيكون المعنى على هذا: أنَّ الله وَعَدَهم إيَّاها وعداً غائباً لم يشاهِدوه، ولم يَرَوْه فآمنوا بها، وصدَّقوا غيبها، وسَعَوا لها سَعْيها مع أنَّهم لم يَرَوْها؛ فكيف لو رأوها؛ لكانوا أشدَّ لها طَلَباً وأعظم فيها رغبةً وأكثر لها سعياً، ويكون في هذا مدحٌ لهم بإيمانهم بالغيبِ، الذي هو الإيمان النافع. ويُحتمل أن تكونَ متعلِّقة بعبادِهِ؛ أي: الذين عبدوه في حال غيبهم وعدم رؤيتهم إيَّاه؛ فهذه عبادتُهم ولم يروه؛ فلو رأوه؛ لكانوا أشدَّ له عبادةً وأعظم إنابةً وأكثر حبًّا وأجلَّ شوقاً. ويحتمل أيضاً أنَّ المعنى: هذه الجناتُ التي وَعَدَها الرحمن عبادَه من الأمورِ التي لا تدرِكُها الأوصاف ولا يعلمُها أحدٌ إلاَّ الله؛ ففيه من التشويق لها والوصف المجمل ما يهيجُ النفوسَ، ويزعِجُ الساكن إلى طلبها، فيكون هذا مثل قوله: {فلا تعلم نفسٌ ما أخْفِيَ لهم من قُرَّةِ أعيُنٍ جزاءً بما كانوا يعملون}. والمعاني كلُّها صحيحةٌ ثابتةٌ، ولكن الاحتمال الأوَّل أولى؛ بدليل قوله: {إنَّه كان وعدُهُ مأتِيًّا}: لا بدَّ من وقوعه؛ فإنَّه لا يُخْلِفُ الميعاد، وهو أصدق القائلين.
[61] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جنت جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے عام باغات کی مانند نہیں بلکہ وہ تو ﴿ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ ’’ہمیشہ قیام والی جنتیں ہیں ‘‘ جہاں نازل ہونے والے کبھی کوچ کریں گے نہ کہیں اور منتقل ہوں گے اور نہ ان کی نعمتیں زائل ہوں گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جنتیں بہت وسیع ہوں گی اور ان میں بے شمار نعمتیں ، مسرتیں ، رونقیں اور خوش کن چیزیں ہوں گی۔ ﴿الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ ﴾ یعنی جس کا رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنے اسم مبارک (الرحمان) کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ ان میں ایسی رحمتیں اور ایسا حسن سلوک ہو گا کہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنی رحمت سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَ٘فِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ (آل عمران:3؍107) ’’اور جن کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ان کی اضافت، ان کی مسرتوں کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی باقی رہیں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار اور اس کی موجبات میں شمار ہوتی ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں (عباد) سے مراد اس کی الوہیت کے معتقد وہ بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی شریعت کا التزام کرتے ہیں ۔ پس عبودیت ان کا وصف بن جاتی ہے، مثلاً: (عباد الرحمن) وغیرہ بخلاف ان بندوں کے جو ملک کے اعتبار سے تو اس کے بندے ہیں مگر اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ بندے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا، وہ ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کی تدبیر کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بندے نہیں اور اس کی عبودیت اختیاری کے تحت نہیں آتے جس کو اختیار کرنے والا قابل مدح ہے۔ ان کی عبودیت تو عبودیت اضطراری ہے جو قابل مدح نہیں ۔ ارشاد مقدس ﴿بِالْغَیْبِ﴾ میں یہ احتمال ہے کہ ﴿وَعَدَ الرَّحْمٰنُ﴾ سے متعلق ہو تب اس احتمال کی صورت میں یہ معنیٰ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ان جنتوں کا غائبانہ وعدہ کیا ہے جن کا انھوں نے مشاہدہ کیا ہے نہ ان کو دیکھا ہے، وہ ان پر ایمان لائے، غائبانہ ان کی تصدیق کی اور ان کے حصول کے لیے کوشاں رہے، حالانکہ انھوں نے ان کو دیکھا ہی نہیں اور اگر وہ ان کو دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا، اس صورت میں ان کی شدید طلب رکھتے ہیں ، ان میں بہت زیادہ رغبت رکھتے اور ان کے حصول کے لیے سخت کوشش کرتے۔ اس میں ان کے ایمان بالغیب کی بنا پر ان کی مدح ہے، یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ دیتا ہے، نیز اس امر کا احتمال بھی ہے کہ (بالغیب) (عبادہ) سے متعلق ہو یعنی وہ لوگ جنھوں نے حالت غیب میں اور اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت کی۔ ان کی عبادت کا یہ حال ہے حالانکہ انھوں نے اس کو دیکھا نہیں اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو وہ اس کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور اس کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ان کے اندر بہت زیادہ محبت اور اشتیاق ہوتا۔ اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جنتیں ، جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے، ان کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جو اوصاف کے دائرۂ ادراک سے باہر ہیں ۔ جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔پس اس آیت کریمہ میں جنت کے لیے شوق ابھارا گیا ہے، نیز آیت کریمہ میں بیان کردہ مجمل وصف نفوس کو اس کے حصول اور ساکن کو اس کی طلب میں متحرک کرتا ہے اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ:32؍17) ’’کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کے لیے آنکھوں کی کون سی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔‘‘ مذکورہ تمام معانی صحیح اور ثابت ہیں ۔ البتہ پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے اوراس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا﴾ ’’بے شک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔‘‘ یعنی یہ ضرور ہوکر رہے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سچی ہستی ہے۔
#
{62} {لا يسمعون فيها لغواً}؛ أي: كلاماً لاغياً لا فائدة فيه ولا ما يؤثم؛ فلا يسمَعون فيها شتماً ولا عيباً ولا قولاً فيه معصية لله أو قولاً مكدراً، {إلاَّ سلاماً}؛ أي: [إلا] الأقوال السالمة من كلِّ عيب؛ من ذكرٍ لّله، وتحيَّة، وكلام سرورٍ وبشارةٍ، ومطارحة الأحاديث الحسنة بين الإخوان، وسماع خطاب الرحمن، والأصوات الشجيَّة من الحور والملائكة والولدان، والنغمات المطرِبة، والألفاظ الرخيمة؛ لأن الدار دار السلام؛ فليس فيها إلاَّ السلام التامُّ من جميع الوجوه. {ولهم رزقُهم فيها بُكرةً وعشيًّا}؛ أي: أرزاقهم من المآكل والمشارب وأنواع اللذَّات مستمرَّةٌ حيثما طلبوا وفي أيِّ وقت رغبوا، ومن تمامِها ولَذَّتها وحُسْنها أن تكونَ في أوقات معلومةٍ بُكرةً وعشيًّا؛ ليعظُم وقعها، ويتمَّ نفعها.
[62] ﴿ لَایَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا ﴾ یعنی وہ جنت میں کوئی ایسی لغو بات نہیں سنیں گے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات سنیں گے جس کا سننا گناہ ہو، لہٰذا وہ جنت میں کوئی سب و شتم، کوئی عیب جوئی اور نہ کوئی ایسی بات سنیں گے جس کے سننے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب ہوتا ہو اور نہ ہی تکدر پر مبنی کوئی بات ﴿اِلَّا سَلٰ٘مًا﴾ یعنی وہ صرف ایسی باتیں سنیں گے جو ہرعیب سے پاک ہوں گی، یعنی ذکر الٰہی، سلام، پر سرور باتیں ، بشارت، دوستوں کے درمیان خوبصورت اوراچھی اچھی باتیں ، رحمٰن کا خطاب، حوروں ، فرشتوں اور غلمان کی دل ربا آوازیں ، طرب انگیز نغمات اور نرم الفاظ سننے کو ملیں گے کیونکہ یہ سلامتی کا گھر ہے جہاں ہر لحاظ سے کامل سلامتی کے سوا کچھ نہیں ۔ ﴿ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا ﴾ ’’اور ان کے لیے ان کا رزق ہو گا اس میں ‘‘ یعنی ماکولات و مشروبات اور مختلف انواع کی لذات جب بھی وہ طلب کریں گے اور جب بھی رغبت کریں گے ہمیشہ موجود پائیں گے۔ ان کی تکمیل، ان کی لذت اور ان کا حسن یہ ہے کہ یہ معلوم اوقات میں ہوں گی ﴿ بُؔكْرَةً وَّعَشِیًّا ﴾ ’’صبح اور شام‘‘ تاکہ ان چیزوں کا وقوع باعظمت اور ان کا فائدہ کامل ہو۔
#
{63} فـ {تلك الجنةُ}: التي وصفناها بما ذكر {التي نورِثُ من عبادنا مَن كان تَقِيًّا}؛ أي: نورثها المتَّقين، ونجعلها منزلهم الدائم، الذي لا يظعَنون عنه ولا يَبْغون عنه حِوَلاً؛ كما قال تعالى: {وسارِعوا إلى مغفرةٍ من ربِّكم وجنَّةٍ عرضُها السمواتُ والأرضُ أعدَّت للمتَّقين}.
[63] وہ جنت جس کا ہم نے وصف بیان کیا ہے ﴿ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا ﴾ ہم اہل تقویٰ کو اس جنت کا وارث بنائیں گے، اس جنت کو ہم ان کا دائمی گھر بنائیں گے جہاں سے وہ کبھی کوچ کریں گے نہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہونا چاہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَسَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (آل عمران:3؍133) ’’دوڑ کر بڑھو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے جو اہل تقویٰ کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
آیت: 64 - 65 #
{وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا (64) رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (65)}.
اور نہیں اترتے ہم مگر آپ کے رب کے حکم سے، اسی کے لیے ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اورجو کچھ ہمارے پیچھے ہےاور جو کچھ اس کے درمیان ہےاور نہیں ہے آپ کا رب بھولنے والا (64) رب ہے آسمانوں اور زمین کااورجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے،پس آپ عبادت کریں اس کی اور قائم رہیں اس کی عبادت پر، کیا آپ جانتے ہیں اس کے لیے کوئی (اور اس کا)ہم نام؟ (65)
#
{64} استبطأ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - جبريل عليه السلام مرَّة في نزوله إليه، فقال له: لو تأتينا أكثرَ ممَّا تأتينا؛ شوقاً إليه وتوحُّشاً لفراقه وليطمئنَّ قلبُه بنزوله؛ فأنزلَ الله تعالى على لسان جبريل: {وما نَتَنَزَّلُ إلاَّ بأمرِ ربِّكَ}؛ أي: ليس لنا من الأمر شيءٌ، إن أمَرَنا؛ ابتدرْنا أمره ولم نعصِ له أمراً؛ كما قال عنهم: {لا يعصونَ الله ما أمَرَهم ويفعلونَ ما يُؤْمَرون}؛ فنحن عبيدٌ مأمورون. {له ما بين أيدينا وما خلفَنا وما بينَ ذلك}؛ أي: له الأمور الماضية والمستقبلة والحاضرة في الزمان والمكان؛ فإذا تبيَّن أنَّ الأمر كلَّه لله، وأننا عبيدٌ مدبَّرون، فيبقى الأمر دائراً بين هل تقتضيه الحكمةُ الإلهيَّةُ فَيُنْفِذهُ أم لا تقتضيه فيؤخِّره؟ ولهذا قال: {وما كان ربُّك نسيًّا}؛ أي: لم يكن الله لينساك ويهمِلَك؛ كما قال تعالى: {ما ودَّعَكَ ربُّك وما قَلى}: بل لم يَزَلْ معتنياً بأمورِك مجرِياً لك على أحسن عوائِدِه الجميلة وتدابيره الجميلة؛ أي: فإذا تأخَّر نزولنا عن الوقت المعتاد؛ فلا يَحْزُنْكَ ذلك ولا يَهُمُّك، واعلم أن الله هو الذي أراد ذلك؛ لما له من الحكمة فيه.
[64] ایک دفعہ جبریل u رسول اللہe پر دیر سے نازل ہوئے آپe نے جبریلu سے فرمایا ’’آپ جتنی بار ہمارے پاس آتے ہیں ، کاش اس سے زیادہ ہمارے پاس آئیں ‘‘ آپ نے یہ بات جبریلu کی طرف اشتیاق اور اس کی جدائی سے وحشت محسوس کرتے ہوئے کہی تاکہ اس کے نزول سے اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبریلu کی زبانی فرمایا: ﴿ وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ﴾ ’’ہم تو اپنے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں ‘‘ یعنی اس معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں اگر ہمیں نازل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے تو ہم اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ہم اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ﴾ (التحریم:66؍6) ’’اللہ جو حکم ان کو دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ ہم تو مامور و محکوم بندے ہیں ۔ ﴿ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِكَ﴾ ’’اسی کے لیے ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان میں ہے۔‘‘ یعنی وہی ہے جو ہر زمان و مکاں میں ، امور ماضی، امور حاضر اور امور مستقبل کا مالک ہے اور جب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ اختیار میں ہیں تو ہم محض اس کے بندے اور اس کی دست تدبیر کے تحت ہیں ، اس لیے تمام معاملہ ان دو باتوں کے مابین ہے۔ ۱۔ آیا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اسے نافذ فرمائے؟ ۲۔ یا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اسے مؤخر کر دے؟ اس لیے فرمایا: ﴿ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّا﴾ ’’اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔‘‘ یعنی آپ کا رب آپ کو فراموش کر کے مہمل نہیں چھوڑے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَ٘لٰى﴾ (الضحیٰ:93؍3) ’’آپ(e) کے رب نے آپe کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے ناراض ہے۔‘‘ بلکہ وہ اپنے بہترین قوانین جمیلہ اور تدابیر جلیلہ کے مطابق، آپ کے لیے احکام جاری کرتے ہوئے آپ کے تمام امور کو درخور اعتنا رکھتا ہے، یعنی جب ہم وقت معتاد سے تاخیر سے نازل ہوتے ہیں تو یہ چیز آپ(e) کو غمزدہ نہ کرے اور آپ(e) کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تاخیر کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے۔
#
{65} ثم علَّل إحاطة علمه وعدم نسيانه بأنه {رب السمواتِ والأرض}: فربوبيَّتُهُ للسماواتِ والأرض، وكونهما على أحسن نظام وأكمله، ليس فيه غفلةٌ ولا إهمالٌ ولا سدىً ولا باطلٌ: برهانٌ قاطعٌ على علمه الشامل؛ فلا تَشْغَلْ نفسَك بذلك، بل اشغَلْها بما ينفعُك ويعود عليك طائلُه، وهو عبادته وحدَه لا شريك له، {واصطَبِرْ لعبادتِهِ}؛ أي: اصبر نفسَك عليها، وجاهِدْها، وقُم عليها أتمَّ القيام وأكمله بحسب قدرتك، وفي الاشتغال بعبادة الله تسليةٌ للعابد عن جميع التعلُّقات والمشتهيات؛ كما قال تعالى: {ولا تَمُدَّنَّ عينيكَ إلى ما متَّعْنا به أزواجاً منهم زهرةَ الحياة الدُّنيا لنفتِنَهم فيه ... } إلى أن قال: {وأمُرْ أهلكَ بالصَّلاةِ واصطبِرْ عليها ... } الآية. {هل تعلم له سَمِيًّا}؛ أي: هل تعلم لله مسامياً ومشابهاً ومماثلاً من المخلوقين؟ وهذا استفهامٌ بمعنى النفي المعلوم بالعقل؛ أي: لا تعلم له مسامياً ولا مشابهاً؛ لأنَّه الربُّ وغيره مربوبٌ، الخالق وغيره مخلوقٌ، الغنيُّ من جميع الوجوه، وغيره فقيرٌ بالذات من كلِّ وجه، الكامل الذي له الكمال المطلق من جميع الوجوه، وغيره ناقصٌ ليس فيه من الكمال إلاَّ ما أعطاه الله تعالى؛ فهذا برهانٌ قاطعٌ على أنَّ الّلهَ هو المستحقُّ لإفرادِهِ بالعبوديَّة، وأنَّ عبادته حقٌّ، وعبادةُ ما سواه باطلٌ؛ فلهذا أمر بعبادِتِه وحدَه والاصطبارِ لها، وعلَّل [ذلك] بكماله وانفرادِهِ بالعظمة والأسماء الحسنى.
[65] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے احاطۂ علم اور عدم نسیان کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا۔‘‘ پس زمین اور آسمان میں اس کی ربوبیت اور ان کا بہترین اور کامل ترین نظام کے مطابق رواں دواں رہنا، جس میں غفلت کا کوئی شائبہ ہے نہ ان میں کوئی چیز بے فائدہ ہے اور نہ کوئی چیز باطل ہے… اس حقیقت پر قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو شامل ہے، لہٰذا آپe اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کریں بلکہ آپ ان امور میں اپنے آپ کو مشغول کریں جو آپ کو کوئی فائدہ دیتے ہیں اور جن کا فائدہ آپ کی طرف لوٹتا ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت جس کا کوئی شریک نہیں ۔ ﴿ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ﴾ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر کاربند رکھیے اس میں کوشاں رہیے اور مقدور بھر اس کو کامل ترین طریقے سے قائم کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغولیت عبادت گزار کو تمام تعلقات اور شہوات کے ترک کرنے میں تسلی کا باعث ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّؔنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِ١ؕ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى ۰۰وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰ٘وةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا ﴾ (طٰہ:20؍131-132) ’’ان کی اس دنیاوی شان و شوکت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو عطا کی ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے انھیں آزمائیں اور آپ کے رب کا عطا کردہ رزق بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے، اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے رہیے اور خود بھی اس کے پابند رہیے۔‘‘ ﴿ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا ﴾ کیا آپ تمام مخلوق میں اس کی کوئی ہم نام، کوئی مشابہت اور مماثلت رکھنے والی ہستی جانتے ہیں ؟ یہ استفہام نفی کا معنیٰ دیتا ہے جو عقلاً معلوم ہے، یعنی آپ کسی ایسی ہستی کو نہیں جانتے جو اللہ تعالیٰ کی برابری کرنے والی اس کے مشابہ اور مماثل ہو۔ کیونکہ وہ رب ہے اور دوسرے مربوب، وہ خالق ہے اور دیگر تمام مخلوق، وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور دیگر تمام ہر لحاظ سے بالذات محتاج ہیں ، وہ کامل ہے جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے دیگر تمام ناقص ہیں کسی میں کوئی کمال نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کر دیا۔ پس یہ اس حقیقت پر برہان قاطع ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عبودیت کا مستحق ہے۔ اس کی عبادت حق اور ماسوا کی عبادت باطل ہے، اس لیے اس نے صرف اپنی عبادت کرنے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا اور اس کی علت یہ بتلائی کہ وہ اپنے کمال، اپنی عظمت اور اسمائے حسنیٰ میں منفرد ہے۔
آیت: 66 - 67 #
{وَيَقُولُ الْإِنْسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا (66) أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا (67)}.
اور کہتا ہے انسان، کیا جب میں مر جاؤں گا تو البتہ نکالا جاؤں گا (قبر سے) زندہ (کر کے)؟ (66) کیا نہیں یاد کرتا انسان کہ بے شک ہم ہی نے پیدا کیا ہے اسے پہلے اس سے اور نہ تھا وہ کچھ بھی (67)
#
{66} المراد بالإنسان هاهنا كلُّ منكرٍ للبعث مستبعدٍ لوقوعه؛ فيقولُ مستفهماً على وجه النفي والعناد والكفر: {أإذا ما مِتُّ لسوفَ أُخْرَجُ حيًّا}؛ أي: كيف يعيدني الّله حيًّا بعد الموت وبعد ما كنتُ رميماً؟! هذا لا يكون ولا يُتَصَوَّر! وهذا بحسب عقله الفاسد ومقصده السيئ وعنادِهِ لرسل الله وكتبِهِ؛ فلو نَظَرَ أدنى نَظَرٍ وتأمَّل أدنى تأمُّل؛ لرأى استبعاده للبعث في غاية السخافة.
[66] یہاں (الانسان) سے مراد ہر وہ شخص ہے جو زندگی بعد موت کا منکر ہے اور وہ مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کو بعید سمجھتا ہے، چنانچہ وہ نفی، عناد اور کفر کی وجہ سے استفہامیہ اسلوب میں کہتا ہے: ﴿ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا ﴾ یعنی میرے مرنے کے بعد، جبکہ میں بوسیدہ ہو چکا ہوں گا، اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کی عقل فاسد، برے مقصد، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور کتابوں کے ساتھ اس کے عناد کے مطابق ہے۔ اگر اس نے تھوڑا سا بھی غوروفکر کیا ہوتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کا دوبارہ زندہ کیے جانے کو بعید سمجھنا بہت بڑی حماقت ہے۔
#
{67} ولهذا ذكر تعالى برهاناً قاطعاً ودليلاً واضحاً يعرفه كلُّ أحدٍ على إمكان البعث، فقال: {أوَلا يذكُرُ الإنسانُ أنَّا خَلَقْناهُ من قبلُ ولم يكُ شيئاً}؛ أي: أولا يلتفتُ نظره ويستذكِرُ حالته الأولى، وأنَّ الله خلقه أولَ مرَةٍ ولم يكُ شيئاً؟! فمن قَدَرَ على خلقه من العدم، ولم يكُ شيئاً مذكوراً؛ أليس بقادرٍ على إنشائِهِ بعدما تمزَّقَ، وجَمْعِهِ بعدما تفرَّق؟! وهذا كقوله: {وهو الذي يُبدئ الخلقَ ثم يعيدُهُ وهو أهونُ عليه}. وفي قوله: {أولا يذكُرُ الإنسان}: دعوةٌ للنظر بالدليل العقليِّ بألطف خطاب، وأنَّ إنكار من أنكَرَ ذلك مبنيٌّ على غفلةٍ منه عن حالِهِ الأولى، وإلاَّ؛ فلو تَذَكَّرها وأحضَرَها في ذهنِهِ؛ لم ينكرْ ذلك.
[67] بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی بعد موت کے امکان پر ایسی قطعی برہان اور واضح دلیل بیان فرمائی ہے جسے ہر شخص جانتا ہے۔ ﴿ اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَیْـًٔؔا ﴾ کیا وہ اس طرف التفات نہیں کرتا اور اپنی پہلی حالت کو یاد نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ پس جو ہستی اسے عدم سے وجود میں لانے کی قدرت رکھتی ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا، کیا وہ ہستی اسے اس کے ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے کی اور اس کے بکھر جانے کے بعد اس کو دوبار اکٹھا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِ ﴾ (الروم:30؍27) ’’وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اورپھر اس کا اعادہ کرتا ہے اور ایسا کرنا اس کے لیے آسان تر ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ ﴾ میں لطیف ترین پیرائے میں عقلی دلیل کے ذریعے سے غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے اس کا انکار، پہلی حالت کے بارے میں اس کی غفلت پر مبنی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اس کو یاد کر کے اپنے ذہن میں حاضر کرنے کی کوشش کرے تو وہ ہرگز انکار نہیں کرے گا۔
آیت: 68 - 70 #
{فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا (68) أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا (69) ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيًّا (70)}.
پس قسم ہے آپ کے رب کی، البتہ ہم ضرور اکٹھا کریں گے انھیں ہمراہ شیطانوں کے، پھر البتہ ہم ضرور حاضر کریں گے انھیں اردگرد جہنم کے، گھٹنوں کے بل (68) پھر البتہ ہم ضرور کھینچ لیں گے ہرگروہ میں سے جو نسا ان کا زیادہ سخت تھا، رحمٰن کے خلاف سرکشی میں (69) پھر یقینا ہم خوب جانتے ہیں ان لوگوں کو کہ وہ زیادہ لائق ہیں جہنم میں داخل ہونے کے (70)
#
{68} أقسم الله تعالى وهو أصدق القائلين بربوبيَّتِهِ لَيَحْشُرَ [نَّ] هؤلاء المنكرين للبعث هم وشياطينهم، فيجمعهم لميقاتِ يوم معلوم، {ثم لَنُحْضِرَنَّهم حول جهنم جِثِيًّا}؛ أي: جاثين على ركبهم من شدَّة الأهوال وكثرة الزلزال وفظاعة الأحوال، منتظرين لحكم الكبير المتعال.
[68] اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی قسم اٹھائی اور وہ سب سے سچی ہستی ہے کہ وہ زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں کو ضرور اکٹھا کرے گا، ان کو اور ان کے شیطانوں کو ایک مقررہ روز جمع کرے گا۔ ﴿ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا ﴾ یعنی ہولناکیوں کی شدت، زلزلے کی کثرت اور احوال کی خوفناکی کی وجہ سے وہ اپنے گھٹنوں کے بل آئیں گے اور بلند و برتر اللہ کے حکم کے منتظر ہوں گے۔
#
{69} ولهذا ذكر حكمه فيهم، فقال: {ثم لَنَنزِعَنَّ مِن كلِّ شيعةٍ أيُّهم أشدُّ على الرحمن عِتِيًّا}؛ أي: ثم لننزعنَّ من كلِّ طائفةٍ وفرقةٍ من الظالمين المشتركين في الظُّلم والكفر والعتوِّ أشدَّهم عتوًّا وأعظمهم ظلماً وأكبرهم كفراً، فيقدِّمهم إلى العذاب، ثم هكذا يقدِّم إلى العذاب الأغلظ إثماً فالأغلظ، وهم في تلك الحال متلاعِنون؛ يلعنُ بعضُهم بعضاً، ويقولُ أخراهم لأولاهم: {ربَّنا هؤلاء أضَلُّونا فآتِهِم عذاباً ضِعْفاً من النار [قال لكل ضعف ولكن لا تعلمون] وقالتْ أولاهم لأُخْراهم فما كان لَكُمْ علينا من فضلٍ ... }.
[69] اس لیے ارشاد فرمایا: ﴿ثُمَّ لَنَنْ٘زِعَنَّ مِنْ كُ٘لِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا ﴾ یعنی ہم ہر گروہ اور ہر فرقے سے ظالموں کو نکال لیں گے جو ظلم، کفر اور سرکشی میں اشتراک رکھتے ہیں اور (عُتُوّ) وہ شخص ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ سرکش، سب سے بڑا ظالم اور سب سے بڑا کافر ہے۔ پس اس کو عذاب کی طرف ان سب میں مقدم کیا جائے گا، پھر اسی طرح عذاب کی طرف اس کو مقدم کیا جائے گا جو گناہ میں اس سے کم تر ہو گا پھر اسے جو اس سے کم تر ہوگا علیٰ ہذا القیاس۔ اور وہ اس حال میں ایک دوسرے پر لعنت بھیج رہے ہوں گے۔ ان میں سے آخری گروہ اولین گروہ سے کہے گا: ﴿ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابً٘ا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ﴾(الاعراف:7؍38) ’’اے ہمارے رب! یہی لوگ تھے جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا پس انھیں جہنم کا دوگنا عذاب دے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَقَالَتْ اُوْلٰ٘ىهُمْ لِاُخْرٰؔىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ﴾ (الاعراف:7؍39) ’’پہلا گروہ آخری گروہ سے کہے گا تمھیں ہم پر کچھ بھی فضیلت حاصل نہیں ۔‘‘
#
{70} وكل هذا تابعٌ لعدله وحكمته وعلمه الواسع، ولهذا قال: {ثم لنحنُ أعلم بالذين هم أولى بها صِلِيًّا}؛ أي: علمنا محيطٌ بمن هو أولى صِلِيًّا بالنار، وقد علمناهم، وعلمنا أعمالهم واستحقاقها وقسطها من العذاب.
[70] اور یہ سب کچھ اس کے عدل و حکمت اور اس کے لامحدود علم کے تابع ہے۔ بناء بریں فرمایا: ﴿ ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا ﴾ یعنی ہمارا علم ہر اس شخص کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو آگ میں جھونکے جانے کا زیادہ مستحق ہے، ہمیں ان کے بارے میں علم ہے اور ہم ان کے اعمال، ان اعمال کے استحقاق اور ان کے عذاب کی مقدار بھی جانتے ہیں ۔
آیت: 71 - 72 #
{وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا (71) ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا (72)}.
اور نہیں ہے تم میں سے (کوئی بھی) مگر وہ وارد ہو گا اس میں ، ہے یہ آپ کے رب کے ذمے حتمی فیصل شدہ بات (71) پھر ہم نجات دیں گے ان لوگوں کو جنھوں نے تقویٰ اختیار کیااور ہم چھوڑ دیں گے ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے (72)
#
{71} وهذا خطابٌ لسائر الخلائق؛ بَرِّهم وفاجِرِهم، مؤمنهم وكافرهم؛ أنَّه ما منهم من أحدٍ إلاَّ سيرِدُ النار، حكماً حتَّمه الله على نفسِهِ، وأوعد به عباده؛ فلا بدَّ من نفوذِهِ، ولا محيدَ عن وقوعه. واختُلِفَ في معنى الورود: فقيل: ورودُها حضورُها للخلائق كلِّهم حتى يحصُل الانزعاج من كلِّ أحدٍ، ثم بعدُ يُنَجِّي الله المتَّقين. وقيل: ورودُها دخولُها، فتكون على المؤمنين برداً وسلاماً. وقيل: الورودُ هو المرور على الصراط الذي هو على متنِ جهنَّم، فيمرُّ الناس على قدرِ أعمالهم؛ فمنهم من يمرُّ كلمح البصر، وكالريح، وكأجاويد الخيل، وكأجاويد الركاب، ومنهم من يسعى، ومنهم يمشي مشياً، ومنهم من يزحفُ زحفاً، ومنهم من يُخْطَف فيلقى في النار؛ كلٌّ بحسب تقواه.
[71] یہ خطاب نیک و بد، مومن اور کافر، تمام خلائق کے لیے ہے، خلائق میں کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے اس کا نفاذ لابدی اور اس کا وقوع حتمی ہے، البتہ وارد ہونے کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ تمام مخلوق جہنم میں حاضر ہو گی حتیٰ کہ تمام لوگ گھبرا اٹھیں گے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو نجات دے دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وارد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ مگر اہل ایمان پر جہنم کی آگ سلامتی والی اور ٹھنڈی ہو جائے گی۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’وارد ہونے‘‘ سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو جہنم کے اوپر بنا ہوا ہو گا۔ لوگ اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق پل پر سے گزریں گے، بعض لوگ پلک جھپکتے گزر جائیں گے، بعض ہوا کی سی تیزی سے گزریں گے، بعض عمدہ گھوڑوں ، عمدہ سواریوں کی طرح اور بعض چلتے ہوئے، بعض گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جن کو اچک کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ اس کے تقویٰ کے مطابق معاملہ ہو گا۔
#
{72} ولهذا قال: {ثم ننجِّي الذين اتَّقَوْا}: الّله تعالى بفعل المأمور واجتناب المحظور. {ونَذَرُ الظالمين}: أنفسهم بالكفر والمعاصي {فيها جِثِيًّا}: وهذا بسبب ظلمهم وكفرهم، وجب لهم الخلودُ وحقَّ عليهم العذاب، وتقطَّعت بهم الأسباب.
[72] اس لیے فرمایا: ﴿ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ﴾ یعنی پھر ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر مامورات کی تعمیل کرتے اور محظورات سے اجتناب کرتے رہے ہوں گے۔ ﴿ وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور چھوڑ دیں گے ہم ظالموں کو۔‘‘ یعنی جنھوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿ فِیْهَا جِثِیًّا ﴾ ’’اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے۔‘‘ یہ سب عذاب ان کے ظلم اور کفر کے سبب سے ہو گا، جہنم میں ہمیشہ رہنا ان کا مقدربن جائے گا، وہ عذاب کے مستحق ہوں گے اور نجات کے تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔
آیت: 73 - 74 #
{وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا (73) وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا (74)}.
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں واضح تو کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان لوگوں سے جو ایمان لائے، کون سا دونوں فریقوں میں سے بہتر ہے باعتبار مقام کےاور زیادہ اچھا ہے باعتبار مجلس کے؟ (73) اور بہت سی ہلاک کیں ہم نے ان سے پہلے قومیں کہ وہ بڑھ کر تھیں (ان سے) باعتبار سازوسامان اور ظاہری ٹیپ ٹاپ کے (74)
#
{73} أي: وإذا تُتلى على هؤلاء الكفار آياتُنا بيناتٍ؛ أي: واضحات الدِّلالة على وحدانية الله وصدق رسله، توجِبُ لمن سَمِعَها صدقَ الإيمان وشدَّة الإيقان؛ قابلوها بضدِّ ما يجب لها، واستهزؤوا بها وبمن آمن بها، واستدلُّوا بحسن حالهم في الدُّنيا على أنَّهم خيرٌ من المؤمنين، فقالوا معارضين للحقِّ: {أيُّ الفريقين}؛ أي: نحن والمؤمنون {خيرٌ مقاماً}؛ أي: في الدُّنيا من كثرة الأموال والأولاد وتفوُّق الشهوات. {وأحسن نَدِيًّا}؛ أي: مجلساً؛ أي: فاستَنْتَجوا من هذه المقدِّمة الفاسدة بسبب أنَّهم أكثر مالاً وأولاداً، وقد حصلت [لهم] أكثرُ مطالبهم من الدُّنيا، ومجالسهم وأنديتهم مزخرفةٌ مزوَّقةٌ، والمؤمنون بخلاف هذه الحال؛ فهم خيرٌ من المؤمنين!!
[73] جب ان کفار کے سامنے ہماری آیات بینات کی تلاوت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی صداقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں اور جو کوئی ان کو سنتا ہے اس کے لیے صدق ایمان اور شدت ایقان کا موجب بنتی ہیں … تو یہ ان آیات کا متضاد امور اور استہزا کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور دنیا میں اپنی خوش حالی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں ۔پس وہ حق سے معارضہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ اَیُّ الْ٘فَرِیْقَیْنِ ﴾ ’’دونوں فریقوں میں سے کون۔‘‘ یعنی مومنین اور کفار میں سے ﴿خَیْرٌ مَّؔقَامًا﴾ ’’زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے‘‘ یعنی دنیا میں کثرت مال و اولاد اور تفوق شہوات کے اعتبار سے کون اچھے مقام پر ہے ﴿ وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ﴾ ’’اور کس کی مجلس اچھی ہے؟‘‘ یعنی انھوں نے دنیا میں اپنے مال اور اولاد کی کثرت اکثر آسائشوں کے حصول اور مجلس آرائیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے احوال اچھے ہیں اور اہل ایمان کا حال اس کے برعکس ہے، اس لیے وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں۔
#
{74} وهذا دليلٌ في غاية الفساد، وهو من باب قلب الحقائق، وإلاَّ؛ فكثرة الأموال والأولاد وحسنُ المنظر كثيراً ما يكون سبباً لهلاك صاحبِهِ وشقائِهِ وشرِّه، ولهذا قال تعالى: {وكم أهْلَكْنا قبلَهم من قرنٍ هم أحسنُ أثاثاً}؛ أي: متاعاً من أوانٍ وفرش وبيوت وزخارف، {ورِئْياً} ؛ أي: أحسن مرأى ومنظراً من غضارة العيش وسرور اللَّذَّات وحسن الصور؛ فإذا كان هؤلاء المهلَكون أحسنَ منهم أثاثاً ورئياً، ولم يمنعْهم ذلك من حلول العقاب بهم؛ فكيف يكونُ هؤلاء وهم أقلُّ منهم وأذلُّ معتصمين من العذاب، {أكفَّارُكم خيرٌ من أولئِكُم أم لكم براءةٌ في الزُّبُرِ}؟! وعُلِمَ مِن هذا أن الاستدلال على خير الآخرة بخير الدُّنيا من أفسدِ الأدلَّة وأنَّه من طرق الكفار.
[74] یہ انتہائی فاسد دلیل ہے یہ چیز تقلیب حقائق میں شمار ہوتی ہے۔ ورنہ کثرت مال و اولاد اور خوبصورت منظر میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان لوگوں کی ہلاکت، شر اور شقاوت کی باعث ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَ٘رْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا ﴾ ’’اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کردیں وہ زیادہ اچھے تھے مال و متاع کے اعتبار سے۔‘‘ یعنی برتن، بچھونے، گھر اور سامان آرائش وغیرہ کے اعتبار سے اچھے تھے۔ ﴿ وَّرِءْیً٘ا ﴾ ’’اور نام و نمود میں ۔‘‘ یعنی آسودہ زندگی، لذتوں کے سرور اور خوبصورت چہروں کے پرکشش مناظر کے اعتبار سے۔ پس جب وہ ہلاک شدگان جو بہترین اثاثے اور خوبصورت مناظر رکھتے تھے، ان چیزوں کے ذریعے عذاب سے نہ بچ سکے تو یہ لوگ کیسے بچ سکتے ہیں جو مال و متاع اور سہولتوں میں ان سے کمتر اور کمزور ہیں ۔ ارشاد فرمایا: ﴿ اَ كُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِ﴾ (القمر:54؍43) ’’کیا تمھارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا پہلی کتابوں میں تمھارے لیے براء ت لکھ دی گئی ہے۔‘‘ اس سے واضح ہو گیا کہ دنیاوی بہتری سے اخروی بہتری پر استدلال کرنا سب سے فاسد دلیل ہے اور یہ کفار کا طریق استدلال ہے۔
آیت: 75 #
{قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضْعَفُ جُنْدًا (75)}.
کہہ دیجیے! جو شخص ہے گمراہی میں تو ڈھیل دیتا ہے اسے رحمٰن (لمبی) ڈھیل دینا یہاں تک کہ جب وہ دیکھ لیں گے اس چیز کو جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں وہ یا عذاب اور یا قیامت تو ضرور جان لیں گے وہ کہ کون ہے کہ وہ بدتر ہے باعتبار مکان کے اورکمزور تر ہے باعتبار لشکر کے (75)
#
{75} لما ذكر دليلهم الباطل الدالَّ على شدَّة عنادهم وقوَّة ضلالهم؛ أخبر هنا أنَّ مَن كان في الضلالة؛ بأن رَضِيَها لنفسه، وسعى فيها؛ فإنَّ الله يمدُّه منها ويزيدُه فيها حبًّا؛ عقوبةً له على اختيارها على الهدى؛ قال تعالى: {فلمَّا زاغوا أزاغَ الله قلوبَهم}، {ونقلِّبُ أفئِدَتَهم وأبصارَهم كما لم يُؤْمِنوا به أوَّلَ مرَّةٍ ونذَرُهم في طغيانِهِم يعمهونَ}. {حتَّى إذا رأوا}؛ أي: القائلون: {أيُّ الفريقين خيرٌ مقاماً وأحسنُ نَدِيًّا}، {ما يوعدون إمَّا العذابَ}: بقتل أو غيره، {وإمَّا الساعة}: التي هي بابُ الجزاء على الأعمال. {فسيعلمونَ من هو شَرٌّ مكاناً وأضعفُ جُنداً}؛ أي: فحينئذٍ يتبيَّن لهم بطلانُ دعواهم، وأنَّها دعوى مضمحلَّة، ويتيقَّنون أنَّهم أهل الشرِّ وأضعفُ جنداً، ولكنْ لا يُفيدُهم هذا العلم شيئاً؛ لأنَّه لا يمكنهم الرجوع إلى الدُّنيا فيعملون غير عملهم الأول.
[75] جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی باطل دلیل کا ذکر کیا جو ان کے عناد کی شدت اور گمراہی کی قوت پر دلالت کرتی ہے، وہاں اس نے یہ بھی آگاہ فرما دیا کہ جو کوئی گمراہی میں مستغرق اور اس پر راضی ہے اور گمراہی کے لیے کوشاں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی کو اور زیادہ کر دیتا ہے اور گمراہی کے لیے اس کی چاہت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یہ اس کے لیے اس جرم کی سزا ہے کہ اس نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ﴾ (الانعام:6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے تو جیسے یہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر ایمان نہ لائیں گے) اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے۔‘‘ ﴿حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب وہ لوگ دیکھیں گے‘‘ جو کہتے تھے: ’’دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے اور کس کی مجلس اچھی ہے؟‘‘ ﴿ مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ ﴾ ’’جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا یا تو عذاب‘‘ یعنی قتل وغیرہ کے ذریعے ان کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿وَاِمَّا السَّاعَةَ﴾ ’’اور یا قیامت‘‘ جو اعمال کی جزا کا دروازہ ہے۔ ﴿ فَسَیَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدً ﴾ ’’پس عنقریب وہ جان لیں گے کہ کون بدتر ہے مقام کے لحاظ سے اور زیادہ کمزور ہے جتھے کے اعتبار سے۔‘‘ یعنی اس وقت ان کے دعوے کا بطلان ظاہر ہو گا تب یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ان کا دعویٰ کس قدر کمزور تھا اور انھیں یقین ہو جائے گا کہ واقعی وہ بدکار لوگ تھے۔ مگر یہ علم انھیں کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ اب ان کا دنیا میں واپس جانا ممکن نہیں کہ وہاں وہ پہلے اعمال کے برعکس اعمال بجا لائیں ۔
آیت: 76 #
{وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَرَدًّا (76)}.
اور زیادہ کرتا ہے اللہ، ان لوگوں کو جنھوں نے ہدایت پائی ، ہدایت میں اور باقی رہنے والی نیکیاں بہت بہتر ہیں نزدیک آپ کے رب کے باعتبار ثواب کے اور بہت بہتر ہیں باعتبار انجام کے (76)
#
{76} لما ذكر أنه يُمِدُّ للظالمين في ضلالهم؛ ذَكَرَ أنَّه يزيد المهتدين هدايةً من فضلِهِ عليهم ورحمتِهِ، والهدى يشمَلُ العلم النافع والعمل الصالح؛ فكلُّ مَنْ سَلَكَ طريقاً في العلم والإيمان والعمل الصالح؛ زاده الله منه، وسهَّله عليه، ويسَّره له، ووهب له أموراً أخر لا تدخُلُ تحت كسبِهِ، وفي هذا دليلٌ على زيادة الإيمان ونقصه؛ كما قاله السلف الصالح. ويدلُّ عليه قوله تعالى: {ليزدادَ الذين آمنوا إيماناً}، {وإذا تُلِيَتْ عليهم آياتُهُ زادتْهم إيماناً}. ويدلُّ عليه أيضاً الواقع؛ فإنَّ الإيمان قولُ القلب واللسان وعملُ القلب واللسان والجوارح، والمؤمنون متفاوتون في هذه الأمور أعظم تفاوتٍ. ثم قال: {والباقياتُ الصالحاتُ}؛ أي: الأعمال الباقية التي لا تنقطع إذا انقطع غيرها، ولا تضمحلُّ هي الصالحاتُ منها؛ من صلاة وزكاة وصوم وحجٍّ وعمرة وقراءة وتسبيح وتكبير وتحميد وتهليل وإحسانٍ إلى المخلوقين وأعمال قلبيَّة وبدنيَّة؛ فهذه الأعمال {خيرٌ عند ربِّك ثواباً وخيرٌ مَرَدًّا}؛ أي: خيرٌ عند الله ثوابها وأجرها، وكثيرٌ للعاملين نفعها وردُّها، وهذا من باب استعمال أفعل التفضيل في غير بابه؛ فإنَّه ما ثَمَّ غيرُ الباقيات الصالحات عملٌ ينفع ولا يبقى لصاحبِهِ ثوابُهُ ولا ينجَعُ، ومناسبتُهُ ذكر الباقيات الصالحات. والله أعلم: أنَّه لما ذَكَرَ أنَّ الظالمين جعلوا أحوال الدُّنيا من المال والولد وحسن المقام ونحو ذلك علامةً لحسن حال صاحبها؛ أخبر هنا أنَّ الأمر ليس كما زعموا، بل العمل الذي هو عنوانُ السعادةِ ومنشورُ الفلاح، هو العملُ بما يحبُّه الله ويرضاه.
[76] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد، کہ وہ ظالموں کی گمراہی کو اور زیادہ کر دیتا ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں ، اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مزید اضافہ کر دیتا ہے… اور ہدایت، علم نافع اور عمل صالح دونوں کو شامل ہے۔ پس ہر وہ شخص جو علم و ایمان اور عمل صالح کے راستے پرگامزن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ علم و ایمان عطا کرتا ہے اور اس راستے میں اس کے لیے آسانی کر دیتا ہے اور اسے بعض ایسے امور عطا کرتا ہے جو اس کے اپنے کسب کے تحت نہیں آتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ سلف صالح کا قول ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ ﴿ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِیْمَانًا ﴾ (المدثر:74؍31) ’’تاکہ جو لوگ ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا ﴾ (الانفال:8؍2) ’’جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘ نیز واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ ایمان دل اور زبان کے قول اور دل، زبان اور اعضاء کے عمل کا نام ہے اور ان امور میں تمام اہل ایمان ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں ۔ پھر فرمایا: ﴿ وَالْبٰؔقِیٰؔتُ الصّٰؔلِحٰؔتُ ﴾ یعنی باقی رہنے والے وہ اعمال جو کبھی منقطع نہیں ہوتے جبکہ دیگر اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور جو مضمحل نہیں ہوتے، یہ نیک اعمال ہیں ، مثلاً: نماز، زکٰوۃ، روزہ، حج، عمرہ، قراء ت قرآن، تسبیح و تکبیر، تحمید و تہلیل مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور دیگر تمام اعمال قلب اور اعمال بدن وغیرہ۔ پس یہ تمام اعمال ﴿ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابً٘ا وَّخَیْرٌ مَّرَدًّا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بہتر اجروثواب ہے، اہل اعمال کے لیے ان اعمال کا فائدہ اور اجر بہت زیادہ ہے۔ یہ اسم تفضیل کو کسی اور جگہ استعمال کرنے کے باب میں ہے کیونکہ وہاں باقیات صالحات کے سوا کوئی عمل صاحب عمل کو کوئی فائدہ دے گا نہ اس کا ثواب صاحب عمل کے لیے باقی رہے گا۔ یہاں باقیات صالحات کو ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے (واللّٰہ اعلم) چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ ظالم کفار اپنے مال و اولاد اور حسن مقام وغیرہ کے دنیاوی احوال کو اپنے حسن حال کی علامت قرار دیتے ہیں ، اس لیے یہاں آگاہ فرمایا کہ معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں بلکہ عمل، جو سعادت کا عنوان اور فلاح کا منشور ہے، ان امور کی تعمیل ہے جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان پر راضی ہے۔
آیت: 77 - 80 #
{أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا (77) أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا (78) كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا (79) وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا (80)}.
کیا پس آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے کفر کیا ساتھ ہماری آیتوں کےاور اس نے کہا، ضرور دیا جاؤں گا میں مال اور اولاد (77) کیا مطلع ہوا ہے وہ غیب پر یا لیا ہے اس نے رحمٰن کے ہاں سے کوئی عہد؟ (78) ہرگز نہیں ، ضرور لکھیں گے ہم جو کچھ وہ کہتا ہےاور بڑھا دیں گے ہم اس کے لیے عذاب (بہت) بڑھانا (79) اور ہم وارث ہوں گے ان چیزوں کے جو وہ کہتا ہےاور وہ آئے گا ہمارے پاس (روز قیامت) اکیلا ہی (80)
#
{77} أي: أفلا تعجبُ من حالة هذا الكافر الذي جمع بين كفره بآيات الّله ودعواه الكبيرة أنه سيُؤتى في الآخرة مالاً وولداً؛ أي: يكون من أهل الجنة، هذا من أعجب الأمور؛ فلو كان مؤمناً بالّله وادَّعى هذه الدَّعوى؛ لسهل الأمر. وهذه الآية وإنْ كانت نازلةً في كافرٍ معيَّن ؛ فإنَّها تشمل كلَّ كافرٍ زعم أنَّه على الحقِّ، وأنَّه من أهل الجنة.
[77] کیا اس کافر کی حالت پر تعجب نہیں ہوتا جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار کو اپنے بہت بڑے دعوے کے ساتھ یکجا کر دیا ہے کہ اس کو آخرت میں بھی مال و اولاد سے نوازا جائے گا، یعنی وہ اہل جنت میں سے ہو گا۔ اس کا یہ دعویٰ سب سے زیادہ تعجب انگیز امور میں سے ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہوتا اور پھر یہ دعوی کرتا تو معاملہ آسان تھا۔ یہ آیت کریمہ اگرچہ کسی معین کافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے تاہم یہ ہر کافر کو شامل ہے جو اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہ اہل جنت میں سے ہے۔
#
{78} قال الله توبيخاً له وتكذيباً: {أطَّلَعَ الغيبَ}؛ أي: أحاط علمُه بالغيب حتى عَلِمَ ما يكون، وأنَّ من جملة ما يكونُ أنَّه يُؤتى يوم القيامة مالاً وولداً. {أم اتَّخَذَ عند الرحمن عهداً}: أنَّه نائلٌ ما قاله؛ أي: لم يكنْ شيءٌ من ذلك، فعُلِمَ أنَّه متقوِّلٌ قائل ما لا علم له به. وهذا التقسيم والترديدُ في غاية ما يكون من الإلْزام وإقامة الحجَّة؛ فإنَّ الذي يزعم أنه حاصلٌ له خيرٌ عند الّله في الآخرة لا يخلو: إما أنْ يكونَ قولُهُ صادراً عن علم بالغيوب المستقبلة، وقد عُلِمَ أنَّ هذا لله وحده؛ فلا أحد يعلم شيئاً من المستقبلات الغيبيَّة إلاَّ ما أطلعه الله عليه من رسله. وإمَّا أن يكون متَّخِذاً عهداً عند الله بالإيمان به واتِّباع رسله الذين عَهِدَ الّله لأهلِهِ، وأوزَعَ أنَّهم أهل الآخرة، والناجون الفائزون؛ فإذا انتفى هذان الأمران؛ عُلِمَ بذلك بطلان الدعوى.
[78] اللہ تعالیٰ ان کی توبیخ و تکذیب کے طور پر فرماتا ہے: ﴿ اَ٘طَّ٘لَ٘عَ الْغَیْبَ ﴾ ’’کیا وہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے؟‘‘ یعنی کیا اس کے علم نے غیب کا احاطہ کر رکھا ہے حتیٰ کہ اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کیا کچھ ہو گا جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قیامت کے روز اسے مال و اولاد سے نوازا جائے گا ﴿ اَمِ اتَّؔخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا﴾ ’’یا اس نے رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے‘‘ کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کرے گا جن کا اس نے دعویٰ کیا ہے… یعنی کچھ بھی ایسے نہیں ہو گا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے اور ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے خود بھی علم نہیں ۔ اس تقسیم اور تردید کی غرض و غایت، الزامی جواب اور مخالف پر حجت قائم کرنا ہے۔ کیونکہ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بھلائی حاصل ہو گی اسے مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ضرور حاصل ہے۔ (۱) یا تو اس کا یہ قول، امور مستقبل کے بارے میں علم غیب سے صادر ہوا مگر ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ وحدہ کو ہے۔ مستقبل میں پیش آنے والے امور غیب کو کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے رسولوں میں سے جسے اللہ تعالیٰ مطلع کر دے۔ (۲) یا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ، اپنے ایمان باللہ اور اتباع رسل کے ذریعے سے عہد لے رکھا ہے، جن کے پیروکاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ آخرت میں نجات یافتہ اور کامیاب لوگ ہوں گے۔ جب ان دونوں امور کی نفی ہو گئی تو معلوم ہوا کہ دعویٰ باطل ہے۔
#
{79} ولهذا قال تعالى: {كلاَّ}؛ أي: ليس الأمر كما زعم؛ فليس للقائل اطِّلاعٌ على الغيب، لأنَّه كافرٌ ليس عنده من علم الرسائل شيءٌ، ولا اتَّخذ عند الرحمن عهداً؛ لكفرِهِ وعدم إيمانه ولكنَّه يستحقُّ ضدَّ ما تقوَّلَه، وإنَّ قوله مكتوبٌ محفوظٌ ليُجازى عليه ويعاقب، ولهذا قال: {سنكتُبُ ما يقولُ ونَمُدُّ له من العذاب مَدًّا}؛ أي: نزيده من أنواع العقوبات كما ازداد من الغي والضَّلال.
[79] اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كَلَّا١ؕ سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ ﴾ ’’ہرگز نہیں ، وہ جو کہتا ہے ہم لکھ رکھیں گے‘‘ یعنی اصل معاملہ یوں نہیں جس طرح وہ دعویٰ کرتا ہے کیونکہ اس کا قائل امور غیبیہ کی اطلاع نہیں رکھتا، اس لیے کہ وہ کافر ہے۔ اس کے پاس نبوت کا علم ہے نہ اس نے رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے کیونکہ وہ کافر ہے اور ایمان سے محروم ہے۔ بلکہ اس کے اس جھوٹ کے برعکس وہ جہنم کا مستحق ہے۔ اس کا یہ قول لکھ لیا گیا ہے اور اللہ کے ہاں محفوظ ہے، اسے اس کی سزا ملے گی اور اس کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا﴾ ’’اور ہم اس کے لیے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے۔‘‘ یعنی جس طرح یہ اپنی گمراہی میں بڑھتا گیا اسی طرح ہم اس کو دیے جانے والے مختلف اقسام کے عذاب میں اضافہ کریں گے۔
#
{80} {ونَرِثُهُ ما يقولُ}؛ أي: نرثه ماله وولده، فينتقلُ من الدُّنيا فرداً بلا مال ولا أهل ولا أنصارٍ ولا أعوان، {ويأتينا فرداً}: فيرى من وخيم العقابِ ما هو جزاءُ أمثالِهِ من الظالمين.
[80] ﴿وَّنَرِثُهٗ مَا یَقُوْلُ﴾ ’’اور ہم وارث ہوں گے اس کے جس کی بابت وہ کہہ رہا ہے۔‘‘ یعنی ہم اس کے مال اور اولاد کے وارث ہوں گے، چنانچہ وہ مال، اہل و عیال اور اعوان و انصار کے بغیر اس دنیا سے آخرت کے گھر کی طرف منتقل ہو گا ﴿ وَیَ٘اْتِیْنَا فَرْدًا﴾ ’’اور آئے گا وہ ہمارے پاس اکیلا ہی۔‘‘ پس وہ بدترین عذاب کا سامنا کرے گا جو اس جیسے ظالم لوگوں کی سزا ہے۔
آیت: 81 - 84 #
{[وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا (81) كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا (82)] أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا (83) فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا (84)}.
اور بنا لیے ہیں انھوں نے سوائے اللہ کے اور معبود تاکہ ہوں وہ ان کے لیے مدد گار (81) ہرگز نہیں ، عنقریب وہ خود ہی انکار کریں گے ان کی عبادت کااور وہ ہوں گے ان کے مخالف (82) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے بھیجا شیطانوں کو اوپر کافروں کے کہ وہ ابھاریں انھیں (گناہوں پر) ابھارنا (83) پس نہ جلدی کریں آپ ان پر، ہم گن رہے ہیں ان کے لیے گننا (84)
#
{83} وهذا من عقوبة الكافرين: أنَّهم لمَّا لم يعتصِموا بالله ولم يتمسَّكوا بحبل الّله، بل أشركوا به ووالوا أعداءه من الشياطين؛ سلَّطهم عليهم وقيَّضهم، فجعلت الشياطينُ تؤزُّهم إلى المعاصي أزًّا، وتزعِجُهم إلى الكفر إزعاجاً، فيوسوسون لهم، ويوحون إليهم، ويزيِّنون لهم الباطل، ويقبِّحون لهم الحقَّ، فيدخل حبُّ الباطل في قلوبهم ويتشرَّبها، فيسعى فيه سعي المحقِّ في حقِّه، فينصره بجهده، ويحارب عنه، ويجاهد أهل الحق في سبيل الباطل، وهذا كلُّه جزاءً له على تولِّيه من وليِّه وتولِّيه لعدوِّه؛ جَعَلَ له عليه سلطاناً، وإلاَّ؛ فلو آمن بالله وتوكَّل عليه؛ لم يكنْ له عليه سلطانٌ؛ كما قال تعالى: {إنَّه ليس له سلطانٌ على الذين آمنوا وعلى ربِّهم يتوكَّلون. إنَّما سلطانُهُ على الذين يَتَوَلَّوْنَه والذين هم به مشركونَ}.
[83] یہ کفار کی سزا ہے، اس لیے کہ جب انھوں نے اللہ کے حکموں کو نہیں مانا اور نہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا بلکہ اس کے برعکس انھوں نے شرک کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں یعنی شیاطین کے ساتھ موالات رکھی تو اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو ان پر مسلط کر دیا اور شیاطین نے ان کو ورغلا کر گناہوں پر آمادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ انھیں کفر کی ترغیب دیتے ہیں ، انھیں وسوسوں میں مبتلا کرتے ہیں ، ان پر القا کرتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کو مزین کر کے اور حق کو بدنما بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ پس باطل کی محبت ان کے دلوں میں داخل ہو کر جاگزیں ہو جاتی ہے، وہ باطل کی خاطر اسی طرح کوشش کرتا ہے جس طرح حق پرست حق کے لیے جدوجہد کرتا ہے ،وہ اپنی کوشش اورسعی سے باطل کی مدد کرتا ہے اور باطل کے راستے میں حق کے خلاف جدوجہد کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنے حقیقی دوست اور سرپرست سے منہ موڑ کر اپنے دشمن کو دوست بنا لیا اور اپنے آپ کو اس کے تسلط میں دے دیا۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتا اور اس پر بھروسہ کرتا تو شیطان اس پر کبھی تسلط قائم نہ کر سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ لَ٘یْسَ لَهٗ سُلْطٰ٘نٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَؔكَّلُوْنَ۰۰اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْ٘رِكُوْن ﴾ (النحل:16؍99-100) ’’اسے ان لوگوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اس کا بس تو صرف انھی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور ان پر جو اس (کے گمراہ کرنے) کی وجہ سے شرک کرتے ہیں ۔‘‘
#
{84} {فلا تَعْجَلْ عليهم}؛ أي: على هؤلاء الكفار المستعجلين بالعذاب، {إنَّما نَعُدُّ لهم عدًّا}؛ أي: إنَّ لهم أياماً معدودةً؛ لا يتقدَّمون عنها ولا يتأخَّرون، نُمْهِلُهم ونحلم عنهم مدَّة ليراجِعوا أمر الله؛ فإذا لم ينجَعْ فيهم ذلك؛ أخذْناهم أخذ عزيز مقتدر.
[84] ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ ﴾ یعنی آپ ان کفار کے بارے میں عجلت نہ کیجیے جو عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں ۔ ﴿ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا﴾ ’’ہم تو خود ہی ان کے لیے (مدت) شمار کر رہے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے لیے دن مقرر کر دیے گئے ہیں جن میں کوئی تقدیم ہو گی نہ تاخیر۔ ہم انھیں کچھ مدت کے لیے مہلت دے کر برد باری سے کام لے رہے ہیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں ۔ جب اس مہلت کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو ہم اسے ایک غالب اور مقتدر ہستی کی طرح اپنی گرفت میں لے لیں گے۔
آیت: 85 - 87 #
{يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا (85) وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا (86) لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا (87)}.
جس دن ہم اکٹھا کریں گے متقیوں کو رحمٰن کی طرف مہمان (بنا کر) (85) اور ہم ہانکیں گے مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے (86) نہیں اختیار رکھیں گے وہ سفارش کرنے کا مگر جس نے لیا رحمٰن (اللہ) کے ہاں سے عہد (87)
#
{85} يخبر تعالى عن تفاوت الفريقين: المتَّقين والمجرمين، وأنَّ المتَّقين له باتِّقاء الشرك والبدع والمعاصي، يحشُرُهم إلى موقف القيامة مكرمين مبجَّلين معظَّمين، وأنَّ مآلهم الرحمن، وقصدَهم المنان وفداً إليه، والوافد لا بدَّ أن يكونَ في قلبِهِ من الرجاء وحسن الظنِّ بالوافدِ إليه ما هو معلومٌ، فالمتَّقون يفدون إلى الرحمن راجين منه رحمته وعميم إحسانِهِ والفوز بعطاياه في دار رضوانه، وذلك بسبب ما قدَّموه من العمل بتقواه واتِّباع مراضيه، وأنَّ الله عَهِدَ إليهم بذلك الثواب على ألسنة رسله، فتوجَّهوا إلى ربِّهم مطمئنِّين به، واثقين بفضله.
[85] اللہ تبارک و تعالیٰ دونوں گروہوں ، یعنی متقین و مجرمین کے درمیان تفاوت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کو، ان کے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے بچنے کے سبب سے، قیامت کے روز، اکرام و تعظیم کے ساتھ اکٹھا کرے گا اور وہ وفود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ ان کی منزل اور ان کا مطلوب و مقصود رحمٰن و منان ہو گا اور یہ ضروری ہے کہ آنے والے کا دل امید سے لبریز ہو اور جس کے پاس آیا ہے اس پر حسن ظن ہو۔ پس اہل تقویٰ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے پایاں احسان کی امید رکھتے ہوئے اور اس کی رضا کے گھر میں اس کی نوازشوں سے فوزیاب ہوتے ہوئے، اس کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اس کا سبب ان کے وہ نیک اعمال ہوں گے جو انھوں نے آگے بھیجے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی رضاکی اتباع کی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر ان کے لیے اس ثواب کا عہد کر رکھا ہے۔ پس وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوں گے۔
#
{86} وأما المجرمون؛ فإنَّهم يُساقون {إلى جهنَّم وِرْداً}؛ أي: عطاشاً، وهذا أبشعُ ما يكون من الحالات سوقهم على وجهِ الذُّلِّ والصغار إلى أعظم سجن وأفظع عقوبةٍ، وهو جهنَّم، في حال ظمئهم ونصبهم؛ يستغيثون فلا يُغاثون، ويَدْعونَ فلا يُستجاب لهم، ويستشفعونَ فلا يُشفع لهم.
[86] رہے مجرم تو ان کو پیاسا ہی جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور یہ ان کی بدترین حالت ہو گی کہ ان کو انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ سب سے بڑے قید خانے اور بدترین عذاب میں ، یعنی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ وہ تھکے ماندے سخت پیاسے ہوں گے، وہ مدد کے لیے پکاریں گے مگر ان کی مدد نہ کی جائے گی، وہ دعائیں کریں گے مگر ان کی دعائیں قبول نہ ہوں گی اور وہ سفارش تلاش کریں گے مگر ان کی سفارش نہ کی جائے گی۔
#
{87} ولهذا قال: {لا يملكون الشفاعةَ}؛ أي: ليست الشفاعة ملكهم ولا لهم منها شيء، وإنَّما هي لله تعالى، {قل لله الشفاعةُ جميعاً}، وقد أخبر أنَّه لا تنفعُهم شفاعةُ الشافعين؛ لأنَّهم لم يتَّخذوا عنده عهداً بالإيمان به وبرسله، وإلاَّ؛ فمن اتَّخذ عنده عهداً، فآمن به وبرسله، واتَّبعهم؛ فإنَّه ممَّن ارتضاه الله وتحصُلُ له الشفاعة؛ كما قال تعالى: {ولا يشفعونَ إلاَّ لِمن ارْتَضى}. وسمى الله الإيمانَ به واتِّباع رسله عهداً؛ لأنَّه عهد في كتبه وعلى ألسنة رسله بالجزاء الجميل لمن اتَّبعهم.
[87] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ ﴾ یعنی وہ سفارش کے مالک ہوں گے نہ انھیں سفارش کا کوئی اختیار ہو گا۔ تمام تر سفارش کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہو گا۔ ﴿ قُ٘لْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًا ﴾ (الزمر:39؍44) ’’کہہ دیجیے سفارش سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا ہے کہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لا کر اس سے کوئی عہد نہیں لیا… ورنہ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے عہد لیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو وہ ان لوگوں میں شامل ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے اور اس کو سفارش حاصل ہو گی، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَلَا یَشْفَعُوْنَ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَ٘ضٰى ﴾ (الانبیاء:21؍28) ’’وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے وہ (اللہ تعالیٰ) راضی ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ اور اپنے رسولوں کی اتباع کو عہد قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں اور اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر عہد کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جزائے جمیل عطا کرے گا جو انبیاء و رسل کی اتباع کریں گے۔
آیت: 88 - 95 #
{وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (91) وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا (92) إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا (93) لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا (94) وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (95)}.
اور کہا انھوں نے، بنائی ہے رحمٰن نے اولاد (88) البتہ تحقیق آئے ہو تم ایک بات بڑی بھاری کو (89) قریب ہیں آسمان کہ پھٹ پڑیں اس (بات) سے اورشق ہو جائے زمین اور گر پڑیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر (90) (اس بات سے) کہ دعوی کیا کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا (91) اور نہیں لائق رحمٰن کے یہ کہ وہ بنائے اولاد (92) نہیں ہے کوئی بھی (مخلوق) آسمانوں اور زمین میں مگر آنے والی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر (93) البتہ تحقیق شمار کر رکھا ہے اس نے ان کواور گن رکھا ہے انھیں گننا (94) اور وہ سب آنے والے ہیں اللہ کے پاس دن قیامت کے تنہا تنہا(95)
#
{88} وهذا تقبيحٌ وتشنيعٌ لقول المعاندين الجاحدين، الذين زعموا أن الرحمن اتَّخذَ ولداً؛ كقول النصارى: المسيح ابن الله، واليهود: عزيز ابن الله، والمشركين: الملائكة بنات الله؛ تعالى الّله عن قولِهِم علوًّا كبيراً.
[88] یہ ان لوگوں کے قول کی قباحت کا بیان ہے جو عناد اور انکار پر جمے ہوئے ہیں اور اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ رحمٰن نے اپنا بیٹا بنایا ہے۔ جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں ﴿ الْ٘مَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ﴾ (التوبۃ:9؍30) ’’مسیح اللہ کا بیٹا ہے‘‘ یہودی کہتے ہیں ﴿ عُزَیْرُ ِ۟ ابْنُ اللّٰهِ ﴾ (التوبۃ:9؍30) ’’عزیر اللہ کا بیٹا ہے‘‘ اور مشرکین کہتے ہیں ’’فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ ان کی باتوں سے بہت بلند اور بڑا ہے۔
#
{89 ـ 91} {لقد جئتُم شيئاً إدًّا}؛ أي: عظيماً وخيماً من عظيم أمره أنَّه: {تكاد السمواتُ}: على عظمتها وصلابتها؛ {يَتَفَطَّرْنَ منه}؛ أي: من هذا القول، {وتنشقُّ الأرض}: منه؛ أي: تتصدَّع وتنفطر، {وتخرُّ الجبال هَدًّا}؛ أي: تندكُّ الجبال {أنْ دَعَوا للرحمن ولداً}؛ أي: من أجل هذه الدعوى القبيحة تكاد هذه المخلوقات أن يكون منها ما ذُكِرَ.
[91-89] ﴿ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی تم نے بدترین بات کہی ہے۔ یہ اتنی بڑی بات ہے کہ ﴿ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ ﴾ قریب تھا کہ آسمان اپنی عظمت اور صلابت کے باوصف ﴿یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ ﴾ اس قول سے پھٹ جاتے۔ ﴿وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ ﴾ اور زمین پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی۔ ﴿ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴾ اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر برابر ہو جاتے۔ ﴿ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا﴾ ’’اس بنا پر کہ انھوں نے رحمٰن کی اولاد ٹھہرائی۔‘‘ یعنی اس بدترین دعویٰ کی بنا پر ان تمام مخلوقات کی حالت یہ ہوتی جو ان آیات میں ذکر کی گئی ہے۔
#
{92} والحال أنه {ما يَنبغي}؛ أي: لا يليق ولا يكون {للرحمن أنْ يتَّخِذَ ولداً}: وذلك لأنَّ اتِّخاذه الولد يدلُّ على نقصه واحتياجه، وهو الغنيُّ الحميدُ، والولد أيضاً من جنس والدِهِ، والله تعالى لا شبيه له ولا مثل ولا سميَّ.
[92] جبکہ حال یہ ہے ﴿مَا یَنْۢ٘بَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ رحمان کے یہ لائق نہیں ہے اور نہ یہ ہو ہی سکتا ہے ﴿ اَنْ یَّؔتَّؔخِذَ وَلَدًا﴾ ’’کہ وہ اولاد بنائے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے لیے بیٹا بنانا اس میں نقص اور احتیاج پر دلالت کرتا ہے جبکہ وہ بے نیاز اور حمید ہے، نیز بیٹا اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی شبیہ ہے نہ مثیل اور نہ اس کی نظیر ہے۔
#
{93} {إنْ كلُّ مَن في السمواتِ والأرْضِ إلاَّ آتي الرحمن عبداً}؛ أي: ذليلاً منقاداً غير متعاصٍ ولا ممتنع، الملائكة والإنس والجنُّ وغيرهم، الجميع مماليك متصرَّف فيهم، ليس لهم من الملك شيءٌ، ولا من التدبير شيءٌ؛ فكيف يكون له ولدٌ وهذا شأنه وعظمة ملكه؟!
[93] ﴿ اِنْ كُ٘لُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا﴾ ’’آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں ، وہ سب رحمٰن کے غلام بن کر آنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی ذلیل اور مطیع ہو کر بغیر کسی نافرمانی کے رحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوں گے، فرشتے، جن و انس سب اللہ کے مملوک اور اس کے دست تصرف کے تحت ہیں ، اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ تدبیر کائنات میں ان کا کوئی اختیار ہے… جب اس کی شان اور اس کے اقتدار کی عظمت یہ ہو، تب اس کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟
#
{94} {لقد أحصاهم وعدَّهم عدًّا}؛ أي: لقد أحاط علمُهُ بالخلائق كلِّهم، أهل السماواتِ والأرض، وأحصاهم، وأحصى أعمالهم؛ فلا يضلُّ ولا ينسى ولا تخفى عليه خافيةٌ.
[94] ﴿ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا﴾ اس کا علم زمین اور آسمانوں کی تمام خلائق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اعمال کو شمار کر رکھا ہے وہ گمراہ ہوتا ہے نہ بھولتا ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
#
{95} {وكلُّهم آتيه يوم القيامةِ فَرْداً}؛ أي: لا أولاد ولا مال ولا أنصار، ليس معه إلاَّ عمله، فيجازيه الله ويوفِّيه حسابه، إن خيراً؛ فخير، وإن شرًّا فشرٌّ؛ كما قال تعالى: {ولقد جِئْتُمونا فُرادى كما خَلَقْناكم أوَّلَ مَرَّةٍ}.
[95] ﴿ وَؔكُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا﴾ ’’ہر ایک اس کے پاس قیامت کے دن اکیلا ہی آئے گا۔‘‘ یعنی اولاد، مال و دولت اور اعوان و انصار اس کے ساتھ نہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ اس کے عمل کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس کے اعمال کا بدلہ دے گا اور اس سے پورا پورا حساب لے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوں گے تو جزا بھی اچھی ہو گی اور اگر اعمال برے ہوں گے تو ان کی جزا بھی بری ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُ٘رَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام:6؍94) ’’تم اسی طرح ہمارے پاس تن تنہا آئے ہو جس طرح پہلی مرتبہ ہم نے تمھیں اکیلا پیدا کیا تھا۔‘‘
آیت: 96 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا (96)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، عنقریب پیدا کر دے گا ان کے لیے رحمٰن محبت (96)
#
{96} هذا من نعمه على عباده الذين جمعوا بين الإيمان والعمل الصالح: أنْ وَعَدَهُم أنْ يَجْعَلَ لهم ودًّا؛ أي: محبة ووداداً في قلوب أوليائِهِ وأهل السماء والأرض، وإذا كان لهم في القلوب ودٌّ؛ تيسَّر لهم كثيرٌ من أمورهم، وحصل لهم من الخيرات والدَّعوات والإرشاد والقبول والإمامة ما حَصَلَ، ولهذا ورد في الحديث الصحيح: «إنَّ الله إذا أحبَّ عبداً؛ نادى جبريلَ: إنِّي أحبُّ فلاناً؛ فأحبَّه. فيحبُّه جبريل، ثم ينادي في أهل السماء: إنَّ الله يحبُّ فلاناً؛ فأحبُّوه، فيحبُّه أهل السماء، ثم يوضَع له القَبول في الأرض» وإنَّما جَعَلَ الله لهم وُدًّا لأنه ودُّوه، وأحبُّوه، فودَّدهم إلى أوليائِهِ وأحبابِهِ.
[96] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ان بندوں پر انعام ہے جنھوں نے ایمان و عمل صالح کو جمع کیا… کہ وہ ان کے لیے اپنے اولیاء اور زمین و آسمان کے رہنے والوں کے دلوں میں محبت اور مودت ڈال دیتا ہے۔ جب ان کے بارے میں دلوں میں محبت ہوجاتی ہے تو ان کے اکثر معاملات ان کے لیے آسان ہوجاتے ہیں اور ان کو بھلائی، دعائیں ، راہنمائی اور امامت حاصل ہوجاتی ہے اس لیے ایک صحیح حدیث میں وارد ہے ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریلu کو پکار کر کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبریل آسمان والوں کو پکار کر کہتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، اس لیے تم بھی اسے محبوب رکھو، آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں میں اسے قبولیت عطا کی جاتی ہے‘‘(صحیح البخاري، الادب، باب المقۃ من اللہ تعالیٰ، ح:6040 و صحیح مسلم، البرو الصلۃ، باب اذا احب اللہ عبدا…، ح:2637) اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زمین و آسمان کے رہنے والوں کے دلوں میں محبت اس لیے پیدا کی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اور محبوب لوگوں کے نزدیک ان کو محبوب بنا دیا۔
آیت: 97 - 98 #
{فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا (97) وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا (98)}.
پس یقینا آسان کر دیا ہے ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں تاکہ آپ خوشخبری دیں اس کے ساتھ پرہیز گاروں کواور ڈرائیں اس کے ساتھ جھگڑالو قوم کو (97) اور کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے، پہلے ان سے قومیں ، کیا آپ محسوس کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو (آنکھ یا ہاتھ سے)؟ یا آپ سنتے ہیں ان کی کوئی بھنک بھی؟ (98)
#
{97} يخبر تعالى عن نعمتِهِ، وأنَّه يسَّر هذا القرآن الكريم بلسان الرسول محمدٍ صلّى الله عليه وسلّم؛ يسَّر ألفاظه ومعانيه؛ ليحصل المقصودُ منه والانتفاع به؛ {لِتُبَشِّرَ به المتَّقينَ}: بالترغيب في المبشَّر به من الثواب العاجل والآجل، وذِكْر الأسباب الموجبة للبشارة، {وتُنذِرَ به قوماً لُدًّا}؛ أي: شديدين في باطلهم، أقوياء في كفرهم، فتنذِرَهم، فتقوم عليهم الحجَّة، وتتبيَّن لهم المحجَّة، فيهلِك مَن هَلَك عن بيِّنة، ويحيا مَن حيَّ عن بيِّنة.
[97] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی نعمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے رسول اللہe کی زبان اقدس پر اس قرآن کریم کو آسان کیا۔ اس کے الفاظ و معانی کو عام فہم بنایا تاکہ مقصد حاصل ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ﴿ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ تاکہ آپ دنیاوی اور اخروی ثواب کی ترغیب کے ذریعے سے متقین کو بشارت دیں اور ان اسباب کا ذکر کریں جو بشارت کے موجب ہیں ۔ ﴿ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا﴾ تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جو اپنے باطل میں نہایت سخت اور اپنے کفر میں نہایت قوی ہیں ۔ اس طرح ان پر حجت قائم ہو گی اور ان کے سامنے صراط مستقیم واضح ہو جائے گی۔ تب جو کوئی ہلاک ہو گا تو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو گا اور جو کوئی زندہ رہے گا تو دلیل کی طاقت سے زندہ رہے گا۔
#
{98} ثم توعَّدهم بإهلاك المكذِّبين قبلهم، فقال: {وكم أهْلَكْنا قبلَهم من قرنٍ}: من قوم نوح وعاد وثمود وفرعون وغيرهم من المعانِدين المكذِّبين، لما استمرُّوا في طغيانِهِم؛ أهلكهم الله؛ فليس لهم من باقيةٍ. {هل تُحِسُّ منهم من أحدٍ أو تسمعُ لهم رِكْزاً}: والرِّكْزُ: الصوتُ الخفيُّ؛ أي: لم يبقَ منهم عينٌ ولا أثرٌ، بل بقيتْ أخبارُهم عبرةً للمعتبرين، وأسمارُهم عظةً للمتعظين.
[98] پھر ان کو پہلے لوگوں کی، جنھوں نے انبیاء و مرسلین کو جھٹلایا، ہلاکت کا ذکر کر کے ڈرایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَؔكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَ٘رْنٍ ﴾ ’’ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی امتوں کو ہلاک کر دیا۔‘‘ یعنی قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود وغیرہ جو انبیا کے ساتھ عناد رکھتے اور ان کی تکذیب کرتے تھے۔ جب وہ اپنی سرکشی میں جمے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا اور ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ ﴿هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَ٘سْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا ﴾ یہاں (رکز) سے مراد خفیہ آواز ہے یعنی ان لوگوں کے آثار تک باقی نہ رہے۔ بس ان کے قصے باقی رہ گئے جو عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت ہیں اور ان کی کہانیاں باقی رہ گئیں جو نصیحت کے متلاشی لوگوں کے لیے نصیحت ہیں ۔