آیت:
تفسیر سورۂ نحل
تفسیر سورۂ نحل
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 2 #
{أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (1) يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ (2)}
آپہنچا حکم اللہ کا سو نہ جلدی طلب کرو تم اسے، پاک ہے وہ اور برتر ہے ان سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں (1) وہی نازل کرتا ہے فرشتوں (جبریل) کو ساتھ روح (وحی) کے، اپنے حکم سے، اوپر جس کے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے، یہ کہ ڈراؤ تم (لوگوں کو) کہ بے شک نہیں کوئی معبود مگر میں ہی، سو تم ڈرو مجھ ہی سے (2)
#
{1} يقول تعالى مقرِّباً لما وعد به محققاً لوقوعه: {أتى أمرُ الله فلا تستعجلوه}: فإنه آتٍ، وما هو آتٍ فإنَّه قريبٌ. {سبحانه وتعالى عما يشركون}: من نسبة الشريك والولد والصاحبة والكفؤ وغير ذلك مما نسبه إليه المشركون مما لا يليق بجلاله أو ينافي كماله.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کو قریب بتلاتے ہوئے اور اس کے وقوع کو متحقق کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۠﴾ ’’اللہ کا حکم آپہنچا، پس آپ اس میں جلدی نہ کریں ‘‘ کیونکہ یہ وعدہ ضرور آئے گا اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ وَتَ٘عٰ٘لٰ٘ى عَمَّا یُشْرِكُوْنَؔ﴾ ’’وہ پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک بناتے ہیں ‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ شریک، بیٹے، بیوی اور ہمسر وغیرہ کی نسبت سے بالکل پاک ہے جن کو یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے جلال کے لائق نہیں اور اس کے کمال کے منافی ہے۔
#
{2} ولما نزَّه نفسَه عما وَصَفَهُ به أعداؤه؛ ذَكَرَ الوحي الذي ينزِّله على أنبيائه مما يجب اتباعه في ذكر ما يُنسب لله من صفات الكمال، فقال: {ينزِّلُ الملائكة بالرُّوح من أمره}؛ أي: بالوحي الذي به حياة الأرواح، {على مَن يشاءُ من عبادِهِ}: ممَّن يعلمه صالحاً لتحمُّل رسالته. وزبدة دعوة الرسل كلِّهم ومدارها على قوله: {أنْ أنذروا أنَّه لا إله إلاَّ أنا} ؛ أي: على معرفة الله تعالى، وتوحُّده في صفات العظمة، التي هي صفات الألوهيَّة، وعبادته وحده لا شريك له؛ فهي التي أنزل بها كتبه، وأرسل رسله، وجعل الشرائع كلها تدعو إليها، وتحثُّ، وتجاهد مَنْ حاربها، وقام بضدِّها.
[2] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ان سے منزہ قرار دیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کو اس کے دشمنوں نے متصف کیا ہے۔ اس لیے اس وحی کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین پر نازل فرمائی جس کی اتباع کو وہ پسند فرماتا ہے۔ اس وحی میں ان صفات کمال کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جانا چاہیے۔ فرمایا: ﴿ یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ﴾ ’’وہ اتارتا ہے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے‘‘ یعنی اس وحی کے ساتھ، جس پر روح کی زندگی کا دارومدار ہے ﴿ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ ﴾ ’’اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے‘‘ یعنی ان بندوں پر وحی نازل فرماتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت کا لب لباب اور اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ہے: ﴿ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا ﴾ ’’انھیں خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ یعنی انھیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور صفات عظمت میں اس کی وحدانیت کے بارے میں ڈراؤ، جو کہ درحقیقت صفات الوہیت ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاؤ جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے رسول مبعوث کیے۔ تمام شرائع اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر زور دیتی ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی مخالفت کرتا اور اس کے متضاد کام کرتا ہے یہ شرائع اس کے خلاف جہاد کرتی ہیں ۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے دلائل و براہین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 3 - 9 #
{خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (3) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (4) وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (5) وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ (6) وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَى بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (7) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (8) وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (9)}.
اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے، وہ برتر ہے ان سے جو وہ (اس کے) شریک ٹھہراتے ہیں (3) اس نے پیدا کیا انسان کو نطفے سے، پس ناگہاں (ہو گیا) وہ جھگڑنے والا صریح (4) اور چوپائے بھی، اسی نے پیدا کیا ان کو، تمھارے لیے ان میں گرماؤ ہے او رکئی فائدے ہیں اور بعض ان میں سے تم کھاتے ہو (5) اور تمھارے لیے ان (چوپایوں ) میں رونق بھی ہے، جب شام کے وقت تم چرا کر لاتے ہواور جب صبح کے وقت تم چرانے لے جاتے ہو (6) اور وہ اٹھالے جاتے ہیں بوجھ تمھارے طرف اس شہر کی کہ نہیں تھے تم پہنچنے والے اس (شہر) کو مگر ساتھ (سخت) مشقت جسمانی کے، بلاشبہ تمھارا رب بہت ہی شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (7) اور (اسی نے پیدا کیے) گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم سوار ہو ان پراورواسطے زینت کےاور وہ پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے (8) اور اوپر اللہ ہی کے (پہنچتی) ہے سیدھی راہ اور کچھ ان (راہوں ) میں سے ٹیڑھی ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ہدایت دیتا تم کو سب کو (9)
اس سورۂ مبارکہ کو ’’سورۃ النعم‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے اصول اور اس کے قواعد بیان کیے ہیں اور اس کے آخر میں وہ امور بیان کیے ہیں جو ان کی تکمیل کرتے ہیں ۔
#
{3} فأخبر أنه {خلق السموات والأرض بالحقِّ}؛ ليستدلَّ بهما العبادُ على عظمة خالقهما وما له من نعوت الكمال، ويعلموا أنه خلقهما مسكناً لعباده الذين يعبدونه بما يأمرهم به من الشرائع التي أنزلها على ألسنة رسله، ولهذا نزَّه نفسه عن شرك المشركين به، فقال: {تعالى عما يشركون}، أي: تنزَّه وتعاظم عن شركهم؛ فإنه الإله حقًّا، الذي لا تنبغي العبادة والحبُّ والذُّلُّ إلا له تعالى.
[3] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے زمین اور آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا تاکہ بندے اس کے ذریعے سے ان کے خالق کی عظمت اور اس کی صفات کمال پر استدلال کریں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اپنے ان بندوں کے رہنے کے لیے پیدا کیا ہے جو اس کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح اس نے اپنی شرائع میں ان کو حکم دیا ہے جن کو اس نے اپنے رسولوں کی زبان پر نازل فرمایا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو مشرکین کے شرک سے منزہ قرار دیا۔ فرمایا: ﴿ تَ٘عٰ٘لٰ٘ى عَمَّا یُشْرِكُوْنَؔ ﴾ ’’یہ لوگ جو شریک بناتے ہیں وہ اس سے بالاتر ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بہت بڑا ہے۔ وہی معبود حقیقی ہے جس کے سوا کسی اور کی عبادت، کسی اور سے محبت اور کسی اور کے سامنے عاجزی کا اظہار مناسب نہیں ۔
#
{4} ولما ذكر خلق السماوات [والأرض] ؛ ذكر خَلْقَ ما فيهما، وبدأ بأشرف ذلك، وهو الإنسان، فقال: {خلق الإنسان من نُطفةٍ}: لم يزل يدبِّرها ويرقيها وينمِّيها حتى صارت بشراً تامًّا كامل الأعضاء الظاهرة والباطنة، قد غمره بنعمه الغزيرة، حتى إذا استتمَّ فَخَرَ بنفسه وأُعْجِب بها. {فإذا هو خصيمٌ مبينٌ}: يُحتمل أن المراد: فإذا هو خصيمٌ لربِّه؛ يكفر به، ويجادل رسلَه، ويكذِّب بآياته، ونسي خلقَه الأوَّل، وما أنعم الله عليه به من النعم، فاستعان بها على معاصيه. ويُحتمل أنَّ المعنى أنَّ الله أنشأ الآدميَّ من نطفةٍ، ثم لم يزل ينقله من طَوْرٍ إلى طَوْرٍ، حتى صار عاقلاً، متكلِّماً، ذا ذهن ورأي، يخاصم ويجادل؛ فليشكرِ العبدُ ربَّه الذي أوصله إلى هذه الحال، التي ليس في إمكانه القدرة على شيء منها.
[4] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا ذکر کرنے کے بعد زمین و آسمان کی مخلوق کا ذکر فرمایا اور اشرف المخلوقات یعنی انسان سے اس کی ابتدا کی، چنانچہ فرمایا: ﴿ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ ﴾ ’’اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا‘‘ اللہ تعالیٰ اس نطفہ کی تدبیر کرتا رہا اور اس کو نشوونما دیتا رہا یہاں تک کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کامل اعضاء کے ساتھ کامل انسان بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بے شمار نعمتوں سے نوازا یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو گئی تو اپنے آپ پر فخر کرنے لگا اور خودپسندی کا شکار ہو گیا۔ فرمایا: ﴿ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’پھر جبھی ہو گیا وہ علانیہ جھگڑا کرنے والا۔‘‘ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ اپنے رب کی مخالفت کرنے لگا، اس کا انکار کرنے لگا، اس کے انبیاء و رسل سے جھگڑنے لگا اور اس کی آیات کی تکذیب کرنے لگا۔ اس نے اپنی تخلیق کے اولین مراحل اور اس کی نعمتوں کو فراموش کر دیا اور ان نعمتوں کو نافرمانی میں استعمال کیا۔ اور اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو نطفہ (بوند) سے پیدا کیا، پھر اس کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ وہ ایک کلام کرنے والا، ذہین، صاحب رائے، عقل مند انسان بن گیا تو جھگڑے اور بحث کرنے لگ گیا۔ پس بندے کو اپنے رب کا شکر ادا کرناچاہیے جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا۔ جس حالت تک پہنچنا کسی طرح بھی اس کی قدرت اور اختیار میں نہ تھا۔
#
{5} {والأنعامَ خلقها لكم}؛ أي: لأجلكم ولأجل منافعكم ومصالحكم، من جملة منافعها العظيمة، أنَّ {لكم فيها دفءٌ}: مما تتَّخذون من أصوافها وأوبارها وأشعارها وجلودِها من الثياب والفرش والبيوت. {و} لكم فيها {منافعُ}: غيرُ ذلك، {ومنها تأكلون}.
[5] ﴿ وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا﴾ ’’اور چوپایوں کو بھی اس نے تمھارے لیے پیدا کیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کو تمھاری خاطر، تمھارے فوائد اور مصالح کی خاطر تخلیق فرمایا۔ ان کے جملہ بڑے بڑے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے ﴿ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ ﴾ ’’ان میں تمھارے لیے گرمی ہے‘‘ جو تم ان کی صوف، ان کی پشم، ان کے بالوں سے لباس، بچھونے اور خیمے بنا کر حاصل کرتے ہو۔ ﴿ وَّمَنَافِعُ ﴾ اس کے علاوہ تمھارے لیے دیگر فوائد ہیں ﴿ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَؔ﴾ ’’اور ان (جانوروں ) میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔‘‘
#
{6} {ولكُم فيها جمالٌ حين تُريحونَ وحين تَسْرَحون}؛ أي: في وقت رواحها وراحتها وسكونها ووقت حركتها وسرحها، وذلك أنَّ جمالها لا يعود إليها منه شيءٌ؛ فإنَّكم أنتم الذين تتجمَّلون بها كما تتجملون بثيابكم وأولادكم وأموالكم وتُعْجَبون بذلك.
[6] ﴿ وَلَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَ٘سْرَحُوْنَ﴾ ’’اور تمھارے واسطے ان میں خوب صورتی ہے جب شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو‘‘ یعنی شام کے وقت ان مویشیوں کے گھر لوٹنے اور آرام کرنے اور صبح کے وقت چرنے کے لیے باہر جانے میں تمھارے لیے خوبصورتی ہے۔ ان چوپایوں کی خوبصورتی کا ان کے لیے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ تم ہی ہو جو ان مویشیوں کو، اپنے لباس، اپنی اولاد اور اپنے مال کو اپنے جمال کا ذریعہ بناتے ہو اور یہ چیزیں تمھیں اچھی لگتی ہیں ۔
#
{7} {وتحملُ أثقالَكم}: من الأحمال الثقيلة، بل وتحملكم أنتم، {إلى بلدٍ لم تكونوا بالغيه إلاَّ بِشِقِّ الأنفس}: ولكن الله ذلَّلها لكم؛ فمنها ما تركبونه، ومنها ما تحملون عليه ما تشاؤون من الأثقال إلى البلدان البعيدة والأقطار الشاسعة. {إنَّ ربَّكم لرءوفٌ رحيمٌ}: إذ سخَّر لكم ما تضطرُّون إليه وتحتاجونه؛ فله الحمدُ كما ينبغي لجلال وجهه وعظيم سلطانه وسعة جوده وبرِّهِ.
[7] ﴿ وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ﴾ ’’اور وہ تمھارے بوجھ اٹھاتے ہیں ۔‘‘ یعنی یہ چوپائے تمھارے بھاری بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں بلکہ وہ تمھیں بھی اٹھاتے ہیں ۔ ﴿اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْ٘فُ٘سِ﴾ ’’ان شہروں تک کہ تم نہ پہنچتے وہاں مگر جان مار کر‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمھارے مطیع بنا دیا۔ ان میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور بعض جانوروں پر تم جو چاہتے ہو بوجھ لادتے ہو اور دور دراز شہروں اور ملکوں تک لے جاتے ہو۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’بے شک تمھارا رب بڑا شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ اس نے تمھارے لیے ان تمام چیزوں کو مسخر کر دیا جن کی تمھیں ضرورت اور جن کی تمھیں حاجت تھی۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے، جیسا کہ اس کے جلال، اس کی عظمت سلطنت اور اس کے بے پایاں جودوکرم کے لائق ہے۔
#
{8} {والخيلَ والبغالَ والحميرَ}: سخَّرناها لكم؛ {لتَرْكَبوها وزينةً}؛ أي: تارة تستعملونها للضرورة في الركوب، وتارة لأجل الجمال والزينة، ولم يذكر الأكل؛ لأنَّ البغال والحمير محرَّم أكلها، والخيل لا تستعمل في الغالب للأكل، بل يُنهى عن ذبحها لأجل الأكل خوفاً من انقطاعها، وإلاَّ؛ فقد ثبت في «الصحيحين» أنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - أذن في لحوم الخيل. {ويخلق ما لا تعلمونَ}: مما يكون بعد نزول القرآن من الأشياء التي يركبها الخلقُ في البَرِّ والبحرِ والجوِّ ويستعملونها في منافعهم ومصالحهم؛ فإنَّه لم يذكُرْها بأعيانها؛ لأنَّ الله تعالى لم يذكر في كتابه إلا ما يعرفُهُ العباد أو يعرفون نظيرَه، وأمَّا ما ليس له نظيرٌ؛ فإنَّه لو ذُكِرَ؛ لم يعرِفوه ولم يفهموا المراد منه، فيَذْكُرُ أصلاً جامعاً يدخُلُ فيه ما يعلمون وما لا يعلمون؛ كما ذكر نعيم الجنة، وسمَّى منه ما نعلم ونشاهد نظيره؛ كالنخل والأعناب، والرمَّان وأجمل ما لا نعرف له نظيراً في قوله: {فيهما من كلِّ فاكهةٍ زوجانِ}؛ فكذلك هنا ذكر ما نعرفه من المراكب؛ كالخيل والبغال والحمير والإبل والسفن، وأجمل الباقي في قوله: {ويَخْلُقُ ما لا تعلمون}.
[8] ﴿ وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ﴾ ’’اور گھوڑے، خچر اور گدھے‘‘ یعنی ہم نے ان تمام چوپایوں کو تمھارے قابو میں دے دیا ﴿ لِـتَرْؔكَبُوْهَا وَزِیْنَةً﴾ ’’تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے‘‘ یعنی کبھی تو تم انھیں سواری کی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہو اور کبھی خوبصورتی اور زینت کی خاطر تم انھیں پالتے ہو۔ یہاں ان کو کھانے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہے۔ گھوڑوں کو بھی غالب طور پر کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس اس کو کھانے کی غرض سے ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں ان کی نسل منقطع نہ ہو جائے۔ ورنہ صحیحین میں حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہe نے گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ ﴿ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ﴾ ’’اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے‘‘ نزول قرآن کے بعد بہت سی ایسی چیزیں وجود میں آئیں جن پر انسان بحروبر اور فضا میں سواری کرتے ہیں اور جنھیں وہ اپنے فوائد اور مصالح کے لیے اپنے کام میں لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعیان کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صرف ایسی ہی چیزوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو اس کے بندے جانتے ہوں یا جن کی نظیر کو وہ جانتے ہوں اور جس کی نظیر ان کے زمانے میں دنیا میں موجود نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتا تو لوگ اس چیز کو نہ پہچان سکتے اور یہ نہ سمجھ سکتے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ صرف جامع اصول ذکر فرماتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جنھیں لوگ جانتے ہیں اور جنھیں لوگ نہیں جانتے۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں ان چیزوں کا نام لیا ہے جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کی نظیر کا مشاہدہ کرتے ہیں ، مثلاً:کھجور، انگور اور انار وغیرہ اور جس کی کوئی نظیر ہم نہیں جانتے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر مجمل طور پر اپنے اس ارشاد میں کیا ہے۔ ﴿ فِیْهِمَا مِنْ كُ٘لِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰؔنِ﴾ (الرحمن:55؍52) ’’ان میں سب میوے دودو قسم کے ہوں گے۔‘‘ اسی طرح یہاں بھی صرف انھی سواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ہم متعارف ہیں ، مثلاً:گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ اور بحری جہاز وغیرہ اور باقی کو اس نے اس قول ﴿ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ﴾ میں مجمل رکھا۔
#
{9} ولما ذكر تعالى الطريق الحسيَّ، وأنَّ الله قد جعل للعباد ما يقطعونه به من الإبل وغيرها؛ ذكر الطريق المعنويَّ الموصل إليه، فقال: {وعلى الله قَصْدُ السبيل}؛ أي: الصراط المستقيم، الذي هو أقرب الطرق وأخصرها، موصل إلى الله وإلى كرامته، وأما الطريقُ الجائر في عقائده وأعماله، وهو كلُّ ما خالف الصراط المستقيم؛ فهو قاطعٌ عن الله، موصلٌ إلى دار الشقاء، فسلك المهتدون الصراط المستقيم بإذن ربِّهم، وضلَّ الغاوون عنه، وسلكوا الطرق الجائرة. {ولو شاء لهداكم أجمعين}: ولكنه هدى بعضاً كرماً وفضلاً، ولم يهدِ آخرين حكمةً منه وعدلاً.
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں حسی راستے کا ذکر فرمایا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ عنایت فرمائی کہ وہ اس راستے کو اونٹوں اور دیگر سواریوں کے ذریعے سے طے کرتے ہیں … وہاں اس معنوی راستے کا بھی ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ ﴾ ’’اور اللہ تک پہنچتا ہے سیدھا راستہ‘‘ یعنی صراط مستقیم جو قریب ترین اور مختصر ترین راستہ ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ رہا عقائد و اعمال میں ظلم کا راستہ تو اس سے مراد ہر وہ راستہ ہے جو صراط مستقیم کی مخالفت کرتا ہے یہ راستہ اللہ تعالیٰ سے منقطع کر کے شقاوت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔ پس ہدایت یافتہ لوگ اپنے رب کے حکم سے صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگ ظلم و جور کے راستوں کو اختیار کرتے ہیں ﴿وَلَوْ شَآءَ لَهَدٰؔىكُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’اور اگر وہ چاہے تو سب کو ہدایت دے دے‘‘ مگر اللہ تعالیٰ بعض کو اپنے فضل و کرم سے ہدایت عطا کرتا ہے اور بعض کو اپنے عدل و حکمت کی بنا پر گمراہ کرتا ہے۔
آیت: 10 - 11 #
{هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَكُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ (10) يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (11)}.
وہی ہے جس نے نازل کیا آسمان سے پانی تمھارے لیے، اسی میں سے ہے پینااور اسی سے (ہوتے) ہیں درخت، ان میں تم چراتے ہو (جانور) (10) وہی اگاتا ہے تمھارے لیے ساتھ اس(پانی) کے کھیتی اور زیتون اور کھجور اورانگور اور ہر قسم کے پھل، بے شک اس میں (بڑی) نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں (11)
#
{10 ـ 11} بذلك على كمال قدرة الله الذي أنزل هذا الماء من السحابِ الرقيق اللطيف ورحمته، حيث جعل فيه ماء غزيراً منه يشربون، وتشربُ مواشيهم، ويسقون منه حروثَهم، فتخرج لهم الثمرات الكثيرة والنعم الغزيرة.
[11,10] اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں اپنی عظمت اور قدرت کے بارے میں انسان کو آگاہ فرماتا ہے اور ان آیات کے اختتام پر ﴿ لِّقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّـرُوْنَ۠﴾ ’’غوروفکر کرنے والوں کے لیے۔‘‘ کہہ کر اپنی قدرت کاملہ پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی ہے، جس نے اپنی قدرت کاملہ سے اس رقیق و لطیف بادل سے پانی برسایا، یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے بکثرت پانی نازل کیا جسے وہ خود پیتے ہیں ، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہیں اور اس سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں ، پس ان کھیتوں سے بے شمار پھل اوردیگر نعمتیں پیدا ہوتی ہیں ۔
آیت: 12 #
{وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (12)}.
اور تابع کر دیے اس نے واسطے تمھارے رات اوردن اور سورج اورچانداور ستارے بھی تابع کر دیے گئے ہیں ساتھ اسی کے حکم کے، بے شک اس میں ، البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں (12)
#
{12} أي: سخَّر لكم هذه الأشياء لمنافعكم وأنواع مصالحكم؛ بحيث لا تستغنون عنها أبداً؛ فبالليل تسكنون وتنامون وتستريحون، وبالنهار تنتشرون في معايِشِكم ومنافع دينكم ودنياكم، وبالشمس والقمر من الضياء والنور والإشراق وإصلاح الأشجار والثمار والنبات وتجفيف الرطوبات وإزالة البرودة الضارَّة للأرض وللأبدان وغير ذلك من الضروريَّات والحاجيات التابعة لوجود الشمس والقمر، وفيهما وفي النُّجوم من الزينة للسماء والهداية في ظلمات البرِّ والبحر ومعرفة الأوقات وحساب الأزمنة ما تتنوَّع دلالاتها وتتصرَّف آياتها، ولهذا جمعها في قوله: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يعقلونَ}؛ أي: لمن لهم عقولٌ يستعملونها في التدبُّر والتفكُّر فيما هي مهيئة له مستعدَّة، تعقِل ما تراه وتسمعُه، لا كنظر الغافلين الذين حظُّهم من النظر حظُّ البهائم التي لا عقل لها.
[12] یعنی یہ تمام چیزیں تمھارے فوائد اور تمھارے مختلف مصالح کے لیے مسخر کی ہیں کیونکہ تم ان چیزوں سے کبھی بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ رات کے وقت تم سوتے ہو، سکون اور آرام حاصل کرتے ہو، دن کے وقت تم اپنی معاش اور اپنے دینی اور دنیاوی مفادات کے حصول کی خاطر زمین میں پھیل جاتے ہو۔ سورج اور چاند سے تمھیں روشنی، نور اور اجالا حاصل ہوتا ہے، اس سے درختوں ، پھلوں اور نباتات کی اصلاح ہوتی ہے۔ زمین کی مختلف رطوبتوں میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس برودت کا ازالہ ہوتا ہے جو زمین اور حیوانی ابدان کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے… اور اس قسم کی دیگر ضروریات و حوائج جن کا دارومدار سورج اور چاند کے وجود پر ہے۔ علاوہ ازیں چاند، سورج اور ستارے آسمان کی زینت ہیں ، بحروبر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے سے راستے تلاش کیے جاتے ہیں ، اوقات معلوم کیے جاتے ہیں اور زمانوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔ جن سے مختلف انواع کے دلائل حاصل ہوتے ہیں اور آیات میں تصرف ہوتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان سب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ﴾ ’’بے شک ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں ‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں اور جس مقصد کے لیے یہ اشیاء بنائی اور تیار کی گئی ہیں اس میں غوروفکر اور تدبر کرتے ہوئے وہ اس عقل کو استعمال کرے ہیں اور عقل جس چیز کو بھی دیکھتی یا سنتی ہے اسے سمجھتی ہے۔ نہ کہ غافلوں کی مانند نظر رکھنا، جو دیکھنے سے اتنے ہی بہرہ ور ہوتے ہیں جتنے وہ جانور جو عقل و فہم سے عاری ہیں ۔
آیت: 13 #
{وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ (13)}.
اور (تابع کیں ) وہ چیزیں جو اس نے پیدا کیں تمھارے لیے زمین میں ، اس حال میں کہ مختلف ہیں رنگ ان کے، بے شک اس میں ، البتہ (بڑی) نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں (13)
#
{13} أي: فيما ذرأ الله ونشر للعباد من كلِّ ما على وجه الأرض من حيوان وأشجار ونبات وغير ذلك مما تختلفُ ألوانه وتختلف منافعه آيةٌ على كمال قدرة الله وعميم إحسانِهِ وسَعَةِ برِّه وأنَّه الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له وحدَه لا شريك له. {لقوم يذكرونَ}؛ أي: يستحضرون في ذاكرتهم ما ينفعُهم من العلم النافع ويتأمَّلون ما دعاهم الله إلى التأمُّل فيه حتى يتذكَّروا بذلك ما هو دليل عليه.
[13] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف انواع کے جو حیوانات، نباتات اور شجر وغیرہ پیدا کیے ہیں ، جن کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف اور جن کے فوائد بہت متنوع ہیں اور ان کو بندوں کے استفادے کے لیے زمین پر پھیلایا ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت، بے پایاں احسان اور بے حساب فضل و کرم کی نشانیاں ہیں ، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ﴿ لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّـرُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے نشانی ہیں جو سوچتے ہیں ‘‘ یعنی وہ لوگ جو اپنے حافظے میں علم نافع کو محفوظ رکھتے ہیں ، پھر ان امور پر غوروفکر کرتے ہیں جن پر غوروفکر کرنے کی اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے یہاں تک کہ وہ اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں جس پر یہ علم دلالت کرتا ہے۔
آیت: 14 #
{وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (14)}.
اور وہی ہے (اللہ) جس نے مسخر کیا سمندر کو تاکہ تم کھاؤ اس میں سے گوشت تروتازہ (مچھلی کا)اور (تاکہ) نکالو تم اس میں سے زیور کہ پہنتے ہو تم اس کواور تو دیکھتا ہے کشتیوں کو کہ پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتی ہیں اس میں اور تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل (رزق)اور تاکہ تم شکر کرو (14)
#
{14} أي: [و] هو وحده لا شريك له {الذي سخَّر البحر}: وهيَّأه لمنافعكم المتنوِّعة؛ {لتأكلوا منه لحماً طريًّا}: وهو السمك والحوتُ الذي يصطادونه منه، {وتستخرِجوا منه حِلْيَةً تلبسَونها}: فتزيدُكم جمالاً وحُسناً إلى حسنكم. {وترى الفُلْكَ}؛ أي: السفن والمراكب {مواخِرَ فيه}؛ أي: تَمْخَرُ البحر العجاجَ الهائلَ بمقَدَّمها حتى تسلك فيه من قطرٍ إلى آخر تحمل المسافرين وأرزاقهم وأمتعتهم وتجاراتهم التي يطلبون بها الأرزاق وفضل الله عليهم. {ولعلَّكم تشكُرون}: الذي يسَّر لكم هذه الأشياء وهيَّأها وتُثنون على الله الذي مَنَّ بها؛ فلله تعالى الحمدُ والشكر والثناء؛ حيث أعطى العباد من مصالحهم ومنافعهم فوق ما يطلبون وأعلى مما يتمنَّوْن وآتاهم من كلِّ ما سألوه لا نحصي ثناء عليه، بل هو كما أثنى على نفسه.
[14] وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ ﴾ ’’جس نے سمندر کو مسخر کیا‘‘ اور تمھارے مختلف انواع کے فوائد کے لیے اسے تیار کیا۔ ﴿ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا ﴾ ’’تاکہ کھاؤ تم اس سے تازہ گوشت‘‘ اس سے مراد مچھلی وغیرہ ہے جسے تم شکار کرتے ہو۔ ﴿ وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا﴾ ’’اور نکالو تم اس سے زیور جو تم پہنتے ہو‘‘ جو تمھارے حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں ۔ ﴿ وَتَرَى الْفُلْكَ ﴾ ’’اور تم دیکھتے ہو کشتیاں ‘‘ یعنی جہاز اور کشتیاں وغیرہ ﴿ مَوَاخِرَ فِیْهِ﴾ ’’چلتی ہیں اس میں پانی پھاڑ کر‘‘ یعنی موجیں مارتے ہوئے ہولناک سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی کشتیاں ایک ملک سے دوسرے ملک تک جاتی ہیں جو مسافروں ، ان کا رزق، ان کا مال اسباب اور ان کا سامان تجارت لے کر چلتی ہیں ۔ سامان تجارت سے وہ رزق اور اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں ۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اور تاکہ تم شکر کرو‘‘ یعنی اس ہستی کا شکر ادا کرو جس نے تمہائے لیے یہ تمام چیزیں تیار کر کے تمھیں میسر کیں اور تم اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرو جس نے تمھیں ان چیزوں سے نوازا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی شکر کا مستحق ہے اور اس کے لیے حمدوثنا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندوں کو ان کی طلب سے زیادہ اور ان کی آرزؤں سے بڑھ کر مصالح اور فوائد عطا کیے۔ اس کی حمدوثنا کا شمار نہیں جا سکتا بلکہ وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے اپنی ثناخود بیان کی۔
آیت: 15 - 16 #
{وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (15) وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ (16)}.
اور اس نے گاڑ دیے زمین میں مضبوط پہاڑ تاکہ (نہ) جھک پڑے وہ (کسی ایک طرف) تمھیں لے کراور (بنائیں اس میں ) نہریں اور راستے تاکہ تم راہ پاؤ (15) اور (بنائیں ) نشانیاں (بھی) اور ساتھ ستاروں کے بھی وہ راہ پاتے ہیں (16)
#
{15 ـ 16} أي: {وألقى}: الله تعالى لأجل عباده {في الأرض رواسيَ}: وهي الجبال العظام؛ لئلاَّ تميدَ بهم وتضطربَ بالخلق، فيتمكَّنون من حرث الأرض والبناء والسير عليها، ومن رحمته تعالى أنْ جعل فيها أنهاراً يسوقها من أرض بعيدةٍ إلى أرض مضطرَّة إليها؛ لسقيهم وسقي مواشيهم وحروثهم؛ أنهاراً على وجه الأرض وأنهاراً في بطنها يستخرجونها بحفرها حتى يصلوا إليها فيستخرجونها بما سخَّر الله لهم من الدوالي والآلات ونحوها، ومن رحمته أنْ جعلَ في الأرض سُبُلاً؛ أي: طرقاً توصِلُ إلى الديار المتنائية. {لعلَّكم تهتدونَ}: السبيل إليها، حتى إنك تجدُ أرضاً مشتبكةً بالجبال مسلسلةً فيها، وقد جعل الله فيما بينها منافذ ومسالك للسالكين.
[16,15] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَلْ٘قٰى ﴾ ’’اور رکھ دیے اس نے‘‘ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی خاطر ﴿ فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ ﴾ ’’زمین میں بوجھ‘‘ اس سے مراد بڑے بڑے پہاڑ ہیں تاکہ زمین مخلوق کے ساتھ ڈھلک نہ جائے اور تاکہ زمین پر کھیتی باڑی کر سکیں ، اس پر عمارتیں بنا سکیں اور اس پر چل پھر سکیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے زمین پر دریاؤں کو جاری کر دیا، وہ ان دریاؤں کو دوردراز زمین سے بہا کر اس زمین تک لاتا ہے جو ان کے پانی کی ضرورت مند ہے تاکہ وہ خود، ان کے مویشی اور کھیت سیراب ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ دریا سطح زمین پر اور کچھ دریا سطح زمین کے نیچے جاری کیے، لوگ کنویں کھودتے ہیں یہاں تک کہ وہ زیر زمین بہنے والے دریاؤں تک پہنچ جاتے ہیں تب وہ رہٹ اور دیگر آلات کے ذریعے سے، جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مسخر کر دیا ہے… ان زمینی دریاؤں (کے پانی) کو باہر نکالتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے کراں رحمت ہی ہے کہ اس نے زمین میں تمھارے لیے راستے بنا دیے جو دوردراز شہروں تک لے جاتے ہیں ۔ ﴿ لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ شاید کہ تم ان راستوں کے ذریعے سے اپنی منزل مقصود کو پالو، حتیٰ کہ تم ایسا علاقہ بھی پاؤ گے جو پہاڑوں کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑوں میں لوگوں کے لیے درے اور راستے بنا دیے ہیں ۔
آیت: 17 - 23 #
{أَفَمَنْ يَخْلُقُ كَمَنْ لَا يَخْلُقُ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (17) وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (18) وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (19) وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (20) أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (21) إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ (22) لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ (23)}.
کیا پس وہ (اللہ) جو (سب کچھ) پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو (کچھ بھی) پیدا نہیں کرتا؟ کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟ (17) اور اگر گنو تم نعمتیں اللہ کی تو نہ گن سکو گے تم ان کو، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (18) اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو (19) اوروہ لوگ جن کو وہ پکارتے ہیں سوائے اللہ کے، نہیں پیدا کر سکتے وہ کوئی چیز بھی جبکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں (20) (وہ) مردے ہیں ، نہیں ہیں زندہ اور نہیں شعور رکھتے وہ کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے (21) معبود تمھارا، معبود ایک ہی ہے، پس وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آخرت کے، ان کے دل ہی انکاری ہیں (توحید کے) اور وہ تکبر کرتے ہیں (22) یقینا بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا تکبر کرنے والوں کو (23)
#
{17} لما ذكر تعالى ما خَلَقَهُ من المخلوقات العظيمة وما أنعم به من النعم العميمة؛ ذكر أنه لا يشبهه أحدٌ، ولا كفء له ولا ندَّ له، فقال: {أفمن يَخْلُقُ}: جميع المخلوقات، وهو الفعَّال لما يريد، {كمن لا يَخْلُقُ}: شيئاً لا قليلاً ولا كثيراً. {أفلا تَذَكَّرونَ}: فتعرفون أن المنفرد بالخلق أحقُّ بالعبادة كلِّها؛ فكما أنه واحدٌ في خلقه وتدبيره؛ فإنَّه واحدٌ في إلهيَّتِه وتوحيده وعبادته، وكما أنَّه ليس له مشاركٌ إذ أنشأكم وأنشأ غيركم؛ فلا تجعلوا له أنداداً في عبادته، بل أخلصوا له الدين.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو تخلیق کیا اور اس نے تمھیں لامحدود نعمتیں عطا کیں … فرمایا کہ کوئی ہستی اس کے مشابہ ہے نہ اس کی برابری کر سکتی ہے اور نہ اس کی ہمسر ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَفَ٘مَنْ یَّخْلُقُ﴾ ’’پس کیا وہ ہستی جو تمام مخلوقات کو پیدا کرتی ہے‘‘ اور وہ جو ارادہ کرتی ہے اسے کر گزرتی ہے۔ ﴿ كَ٘مَنْ لَّا یَخْلُقُ﴾ ’’اس ہستی کی مانند ہو سکتی ہے جو (کم یا زیادہ) کچھ بھی پیدا کرنے پر قادر نہیں ۔‘‘ ﴿ اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’کیا تم (اتنا) نہیں سمجھتے‘‘ کہ تم پہچان سکو کہ وہ ہستی جو تخلیق میں یکتا ہے، وہی ہر قسم کی عبودیت کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی تخلیق و تدبیر میں یکتا ہے اسی طرح وہ اپنی الوہیت، وحدانیت اور عبادت میں بھی یکتا ہے اور جس طرح اس وقت اس کا کوئی شریک نہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے تمھیں اور دیگر چیزوں کو پیدا کیا۔ پس اس کی عبادت میں اس کے ہم سر نہ بناؤ بلکہ دین کو اس کے لیے خالص رکھو۔
#
{18} {وإن تَعُدُّوا نعمة الله}: عدداً مجرداً عن الشكر، {لا تُحصوها}: فضلاً عن كونكم تشكُرونها؛ فإنَّ نعمه الظاهرة والباطنة على العباد بعدد الأنفاس واللحظات، من جميع أصناف النعم، مما يعرف العباد ومما لا يعرفون، وما يدفع عنهم من النقم؛ فأكثر من أن تحصى. {إنَّ الله لغفورٌ رحيمٌ}: يرضى منكم باليسير من الشكر مع إنعامه الكثير.
[18] ﴿ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمتوں کو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف تعداد کے اعتبار سے ﴿ لَا تُحْصُوْهَا ﴾ ’’تو تم ان کو شمار نہیں کر سکو گے‘‘ یعنی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو کجا تم ان کو شمار بھی نہیں کر سکتے اس لیے کہ ہر قسم کی ظاہری و باطنی نعمتیں ، جو اس نے سانسوں اور لحظوں کی تعداد میں بندوں پر کی ہیں ، جن میں سے کچھ کو وہ جانتے ہیں اور کچھ کو نہیں جانتے، اسی طرح جو تکلیفیں وہ ان سے دور فرماتا رہتا ہے، یہ سب اتنی زیادہ ہیں کہ حیطۂ شمار سے باہر ہیں ۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘ وہ معمولی سے شکر کو بھی قبول کر لیتا ہے باوجود اس بات کے کہ اس کے انعامات بہت زیادہ ہیں ۔
#
{19 ـ 20} وكما أن رحمته واسعةٌ وجوده عميمٌ ومغفرته شاملةٌ للعباد؛ فعلمه محيطٌ بهم، يعلم ما يسرُّون وما يعلنون بخلاف مَنْ عُبِد من دونه فإنهم {لا يَخْلُقون شيئاً}: قليلاً ولا كثيراً. {وهم يُخْلَقون}؛ فكيف يَخْلُقون شيئاً مع افتقارهم في إيجادهم إلى الله تعالى؟!
[20,19] اور جیسے اس کی رحمت بے پایاں ، اس کا جودوکرم لا محدود اور اس کی مغفرت تمام بندوں کو شامل ہے، ایسے ہی اس کا علم ان سب کو محیط ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُ٘سِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ﴾ ’’وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘ اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے، وہ اس کے برعکس ہیں یعنی وہ کچھ نہیں جانتے۔ کیونکہ ﴿ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’وہ (کم یا زیادہ) کچھ بھی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں‘‘ ﴿ وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَؔ﴾ ’’اور ان کو پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ یعنی حالت یہ ہے کہ خود ان کو پیدا کیا گیا ہے وہ ہستیاں جو خود اپنے وجود کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوں وہ کیسے کوئی چیز پیدا کر سکتی ہیں۔
#
{21 ـ 22} ومع هذا؛ ليس فيهم من أوصاف الكمال شيء لا علمٌ ولا غيره. {أمواتٌ غير أحياء}: فلا تسمع ولا تُبْصِر ولا تَعْقِلُ شيئاً، أفتُتَّخَذُ هذه آلهة من دون ربِّ العالمين؟! فتبًّا لعقول المشركين ما أضلَّها وأفسدَها؛ حيث ضلَّت في أظهر الأشياء فساداً، وسوَّوا بين الناقص من جميع الوجوه؛ فلا أوصاف كمال، ولا شيء من الأفعال! وبين الكامل من جميع الوجوه الذي له كلُّ صفة كمال وله من تلك الصفة أكملها وأعظمها؛ فله العلم المحيطُ بكلِّ الأشياء والقدرةُ العامَّة والرحمة الواسعة التي ملأت جميع العوالم والحمدُ والمجدُ والكبرياء والعظمة التي لا يقدر أحدٌ من الخلق أن يحيطَ ببعض أوصافه، ولهذا قال: {إلهكم إلهٌ واحدٌ}: وهو الله الأحد الفرد الصمد، الذي لم يلدْ، ولم يولدْ، ولم يكنْ له كفواً أحدٌ؛ فأهل الإيمان والعقول أجلَّتْه قلوبُهم، وعظَّمته، وأحبَّته حبًّا عظيماً، وصرفوا له كلَّ ما استطاعوا من القربات البدنيَّة والماليَّة وأعمال القلوب وأعمال الجوارح، وأثنَوْا عليه بأسمائِهِ الحسنى وصفاتِهِ وأفعاله المقدسة. و {الذين لا يؤمنونَ بالآخرة قلوبُهُم مُنْكِرَةٌ}: لهذا الأمر العظيم، الذي لا ينكِرُه إلاَّ أعظم الخَلْق جهلاً وعناداً، وهو توحيد الله. {وهم مستكبرونَ}: عن عبادته.
[22,21] اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام اوصاف کمال اور علم وغیرہ سے محروم ہیں ۔ ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ﴾ ’’وہ مردہ ہیں ، زندہ نہیں ‘‘ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ وہ کچھ عقل رکھتے ہیں ۔ کیا تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر ان کو خدا بناتے ہو؟ پس مشرکین کی مت ماری گئی ہے، ان کی عقل کتنی گمراہ اور کتنی فاسد ہے کہ وہ ان اشیاء میں بھی بہک گئی جن کا فساد بالکل واضح اور اظہر ہے۔ انھوں نے ان لوگوں کو جو ہر لحاظ سے ناقص، اوصاف کمال سے عاری اور افعال سے محروم ہیں … اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دے دیا ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے۔ وہ ہر صفت کمال کا مالک ہے اور یہ صفت اس میں سب سے کامل اور سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کا علم کامل تمام اشیاء پر محیط، اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی رحمت بے حدوحساب ہے جو تمام کائنات پر سایہ کناں ہے۔ وہ حمدوثنا، مجدو کبریاء اور عظمت کا مالک ہے، اس کی مخلوق میں کوئی بھی اس کی کسی صفت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اِلٰهُكُمْ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ﴾ ’’تمھارا معبود، ایک معبود ہے‘‘ اور وہ ہے اللہ جو ایک اور یکتا ہے اور وہ بے نیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ اس کو کسی نے جنم دیا ہے اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ۔ پس عقل مند اور اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ اور اس کی عظمت کو اپنے دلوں میں بسا لیا ہے، ان کے دل اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، بدنی اور مالی عبادات، اعمال قلوب اور اعمال جوارح میں سے جو کچھ بھی ان کی استطاعت میں ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کرتے ہیں اور اس کے اسمائے حسنیٰ، صفات علیا اور افعال مقدسہ کے ذکر کے ذریعے سے اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں ۔ ﴿ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُ٘لُوْبُهُمْ مُّؔنْؔكِرَةٌ ﴾ ’’پس وہ لوگ، جن کو آخرت کا یقین نہیں ، ان کے دل نہیں مانتے‘‘ یعنی ان کے دل اس امر عظیم کے منکر ہیں اور اس کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جن میں جہالت اور عناد بہت زیادہ ہو اور یہ امر عظیم اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ ﴿ وَّهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ مغرور ہیں ‘‘ اور وہ تکبر کی وجہ ہی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار کرتے ہیں ۔
#
{23} {لا جَرَمَ}؛ أي: حقًّا لا بدَّ {أنَّ الله يعلم ما يُسِرُّون وما يُعْلِنون}: من الأعمال القبيحة. {إنَّه لا يحبُّ المستكبرين}: بل يبغضهم أشدَّ البغض، وسيجازيهم من جنس عملهم. {إنَّ الذين يستكبِرون عن عبادتي سيدخلون جهنَّم داخرين}.
[23] ﴿ لَاجَرَمَ ﴾ ’’کوئی شک نہیں ۔‘‘ یعنی یہ ایک اٹل حقیقت ہے ﴿ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ’’جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں بے شک اللہ اس کو جانتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے کھلے چھپے قبیح اعمال کو جانتا ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ﴾ ’’بے شک وہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے سخت ناراض ہوتا ہے وہ ان کو ان کے عمل کی جنس کے مطابق جزا دے گا ۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾ (غافر:40؍60) ’’وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر میری عبادت سے انکار کرتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
آیت: 24 - 29 #
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (24) لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ (25) قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (26) ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ (27) الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (28) فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (29)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ کیا ہے جو نازل کیا تمھارے رب نے؟ تو وہ کہتے ہیں ، قصے کہانیاں پہلے لوگوں کی (24) تا کہ وہ اٹھائیں اپنے بوجھ پورے، دن قیامت کےاور بوجھ ان لوگوں کے بھی جنھیں وہ گمراہ کرتے ہیں بغیر علم کے، آگاہ رہو! بہت ہی برا ہے جو کچھ وہ اٹھا رہے ہیں (25)تحقیق مکر کیا تھا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس آیا اللہ (کا عذاب) ان کی عمارت کو (تباہ کرنے) بنیادوں سے، پس گر پڑی ان پرچھت ان کے اوپر سے، اور آیا ان کے پاس عذاب جہاں سے نہیں شعور رکھتے تھے وہ (26) ، پھر دن قیامت کے اللہ رسوا کرے گا انھیں اور کہے گا، کہاں ہیں میرے شریک وہ جو تھے تم جھگڑا کرتے ان کی بابت (مومنوں سے)؟ کہیں گے وہ لوگ جو دیے گئے علم، بلاشبہ رسوائی آج کے دن اور برائی (عذاب) ہے اوپر کافروں کے (27) وہ لوگ کہ قبض کرتے ہیں ان کی روحیں فرشتے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والے تھے اپنی جانوں پر، پس پیش کریں گے وہ صلح (موت کے وقت یہ کہتے ہوئے )، کہ نہیں تھے ہم عمل کرتے کوئی بھی برا، (کہتے ہیں فرشتے) کیوں نہیں ؟ بے شک اللہ خوب جانتا ہے ساتھ اس چیز کے کہ تھے تم عمل کرتے (28) (انھیں کہا جائے گا) پس داخل ہو جاؤ تم دروازوں میں جہنم کے، ہمیشہ رہو گے اس میں ، پس ، البتہ بہت ہی برا ہے ٹھکانا تکبر کرنے والوں کا (29)
#
{24} يقول تعالى مخبراً عن شدَّة تكذيب المشركين بآيات الله: {وإذا قيلَ لهم ماذا أنْزَلَ ربُّكم}؛ أي: إذا سئلوا عن القرآنِ والوحي الذي هو أكبر نعمةٍ أنعم الله بها على العباد؛ فماذا قولكم به؟ وهل تشكرون هذه النعمة وتعترفون بها أم تكفرون وتعاندون؟ فيكون جوابهم أقبحَ جواب وأسمجه، فيقولون عنه: إنَّه {أساطيرُ الأولين}؛ أي: كذبٌ اختلقه محمدٌ على الله، وما هو إلاَّ قَصَصُ الأوَّلين التي يتناقلها الناس جيلاً بعد جيل، منها الصدق ومنها الكذب.
[24] اللہ تبارک و تعالیٰ آیات الٰہی کے بارے میں مشرکین کی شدت تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّاذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ﴾ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے، تمھارے رب نے کیا اتارا ہے؟‘‘ یعنی جب ان سے قرآن اور وحی، جو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے… کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے… کہ تمھارا اس کی بابت کیا جواب ہے؟ کیا تم اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے شکر ادا کرتے ہو یا اس کی ناشکری کرتے ہوئے عناد رکھتے ہو؟ تو وہ بدترین جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں یہ ﴿ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ‘‘ یعنی یہ جھوٹ ہے جسے محمد (e) نے گھڑ لیا ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جنھیں لوگ نسل در نسل نقل کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان میں کچھ قصے سچے ہیں اور بعض محض جھوٹے ہیں ۔
#
{25} فقالوا هذه المقالة، ودعوا أتباعهم إليها، وحَمَلوا وِزْرهم ووِزْرَ من انقاد لهم إلى يوم القيامة، وقوله: {ومِنْ أوزار الذين يُضِلُّونهم بغير علم}؛ أي: من أوزار المقلِّدين الذين لا علم عندَهم إلاَّ ما دَعَوْهم إليه، فيحملون إثم ما دَعَوْهم إليه وأما الذين يعلمون؛ فكلٌّ مستقلٌّ بِجُرمه؛ لأنَّه عرف ما عرفوا. {ألا ساء ما يَزِرونَ}؛ أي: بئس ما حملوا من الوزر المثقِلِ لظهورهم من وِزْرهم ووِزْر من أضلُّوه.
[25] یہ ان کا نظریہ تھا اور انھوں نے اپنے پیروکاروں کو اس نظریہ کے قبول کرنے کی دعوت دی اور اس طرح انھوں نے ان کا بوجھ اٹھایا اور قیامت تک کے لیے ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھا لیا جو ان کی پیروی کریں گے۔﴿وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾ ’’اور ان لوگوں کا بوجھ، جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں بغیر علم کے‘‘ یعنی اپنے مقلدین کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہیں سوائے اس کے جس کی طرف یہ قائدین بلاتے ہیں ۔ پس یہ قائدین ان کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ان کے باطل ہونے کا علم رکھتے ہیں تو ان میں ہر ایک مستقل مجرم ہے کیونکہ وہ ان کے باطل نظریات کو جانتے ہیں جس طرح وہ خود جانتے ہیں ۔ ﴿ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ﴾ ’’سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں ، برے ہیں ۔‘‘ یعنی کتنا برا ہے وہ بھاری بوجھ جو انھوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھا رکھا ہے۔ خود ان کے اپنے گناہوں کا اور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ جن کو انھوں نے گمراہ کیا۔
#
{26 ـ 27} {قد مَكَرَ الذين من قبلهم}: برسلهم، واحتالوا بأنواع الحيل على ردِّ ما جاؤوهم به، وبنوا من مكرهم قصوراً هائلةً، {فأتى الله بنيانَهم من القواعِدِ}؛ أي: جاءها الأمر من أساسها وقاعدتها، {فخرَّ عليهم السقفُ من فوقِهِم}: فصار ما بَنَوْه عذاباً عُذِّبوا به. {وأتاهُمُ العذابُ من حيثُ لا يشعرونَ}: وذلك أنَّهم ظنُّوا أن هذا البنيان سينفعهم ويقيهم العذاب، فصار عذابُهم فيما بَنَوْه وأصَّلوه. وهذا من أحسن الأمثال في إبطال الله مَكْرَ أعدائه؛ فإنَّهم فكَّروا وقدَّروا فيما جاءت به الرسل لما كذَّبوه وجعلوا لهم أصولاً وقواعدَ من الباطل يرجعون إليها ويردُّون بها ما جاءت به الرسل، واحتالوا أيضاً على إيقاع المكروه والضرر بالرسل ومَنْ تَبِعَهم، فصار مكرُهم وبالاً عليهم، فصار تدبيرهم فيه تدميرهم، ذلك لأنَّ مكرهم سيِّئٌ، ولا يَحيق المكر السيِّئ إلاَّ بأهله. هذا في الدُّنيا، ولعذاب الآخرة أخزى، ولهذا قال: {ثم يوم القيامةِ يُخزيهم}؛ أي: يفضحُهم على رؤوس الخلائق ويبيِّن لهم كَذِبَهم وافتراءهم على الله. {ويقول أين شركائيَ الذين كنتُم تُشاقُّون فيهم}؛ أي: تحاربون وتعادون الله وحِزْبه لأجلهم تزعمون أنَّهم شركاء لله؛ فإذا سألهم هذا السؤال؛ لم يكن لهم جواب إلاَّ الإقرار بضلالهم والاعتراف بعنادهم، فيقولون: {ضَلُّوا عنَّا وَشَهِدوا على أنفِسِهم أنَّهم كانوا كافرينَ}: {قال الذين أوتوا العلم}؛ أي: العلماء الربانيُّون: {إنَّ الخِزْيَ اليومَ}؛ أي: يوم القيامة، [{والسوء}؛ أي]: العذاب {على الكافرين}. وفي هذا فضيلة أهل العلم، وأنَّهم الناطقون بالحقِّ في هذه الدُّنيا ويوم يقوم الأشهاد، وأنَّ لقولهم اعتباراً عند الله وعند خلقه.
[27,26] ﴿ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ ’’تحقیق سازش کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے‘‘ یعنی جنھوں نے اپنے رسولوں کے خلاف سازشیں کیں اور ان کی دعوت کو ٹھکرانے کے لیے مختلف قسم کے حیلے ایجاد کیے اور اپنے مکروفریب کی اساس اور بنیاد پر خوفناک عمارت اور محل تعمیر کیے۔ ﴿ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ﴾یعنی اللہ کے عذاب نے ان کے مکر و فریب (کی عمارتوں) کو بنیادوں اور جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ﴿ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ﴾ ’’پس گر پڑی ان پر چھت‘‘ سازشوں کا تانا بانا بن کر انھوں نے مکرو فریب کی جو عمارت کھڑی کی تھی ان کے لیے عذاب بن گئی جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا۔ ﴿وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اور آیا ان کے پاس عذاب، جہاں سے ان کو خبر نہ تھی‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سمجھا کہ یہ عمارت ان کو فائدہ دے گی اور ان کو عذاب سے بچا لے گی مگر اس کے برعکس انھوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ ان کے لیے عذاب بن گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے مکروفریب کے ابطال میں بہترین مثال دی ہے کیونکہ جب انھوں نے رسولوں کی دعوت کی تکذیب کی تو انھوں نے خوب سوچ سمجھ کر ان کی تکذیب کی انھوں نے کچھ باطل اصول و قواعد وضع کیے جن کی طرف یہ رجوع کرتے تھے اور ان خود ساختہ اصولوں کی بنا پر رسولوں کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، نیز انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کو نقصان اور تکالیف پہنچانے کے لیے حیلے وضع کرتے تھے۔ پس ان کا مکروفریب ان کے لیے وبال بن گیا اور ان کی تدبیریں خود ان کی تباہی کا باعث بن گئیں ۔ کیونکہ ان کا مکروفریب انتہائی برا کام تھا ﴿ وَلَا یَحِیْقُ الْمَؔكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ٘﴾ (فاطر:35؍43) ’’اورمکروفریب کا وبال انھی پر پڑتا ہے جومکروفریب کرتے ہیں ۔‘‘ یہ تو ہے دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے زیادہ رسوا کن ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ ﴾ ’’پھر قیامت کے دن رسوا کرے گا ان کو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ برسرعام خلائق کے سامنے ان کو رسوا کرے گا، ان کے جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر ان کی افترا پردازی کو آشکارا کرے گا۔ ﴿ وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُ٘رَؔكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ﴾ ’’اور کہے گا، کہاں ہیں میرے وہ شریک جن پر تم کو بڑی ضدتھی‘‘ یعنی جن کی خاطر تم اللہ تعالیٰ اور حزب اللہ سے عداوت اور ان سے جنگ کرتے اور ان کے بارے میں یہ زعم باطل رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کرے گا تو ان کے پاس اپنی گمراہی کے اقرار اور اپنے عناد کے اعتراف کے سوا کوئی جواب نہ ہو گا۔ پس وہ کہیں گے: ﴿ ضَلُّوْا عَنَّا وَشَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ ﴾ (الاعراف7؍37) ’’وہ سب غائب ہو گئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ واقعی وہ حق کا انکار کیا کرتے تھے۔‘‘ ﴿ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ﴾ ’’وہ لوگ کہیں گے جن کو علم دیا گیا تھا‘‘ یعنی علمائے ربانی ﴿ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ﴾ ’’بے شک رسوائی آج کے دن‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ وَالسُّوْٓءَ ﴾ ’’اور برائی‘‘ یعنی بہت برا عذاب ﴿ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’کافروں پر ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں اہل علم کی فضیلت کا بیان ہے کہ وہ اس دنیا میں حق بولتے ہیں اور اس روز بھی حق بات کہیں گے جس روز گواہ کھڑے ہوں گے اور ان کی بات اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک قابل اعتبار ہو گی۔
#
{28} ثم ذكر ما يفعل بهم عند الوفاةِ وفي القيامة، فقال: {الذين تتوفَّاهم الملائكةُ ظالمي أنفُسِهِم}؛ أي: تتوفَّاهم في هذه الحال التي كَثُر فيها ظلمُهم وغيُّهم، وقد علم ما يلقى الظلمة في ذلك المقام من أنواع العذاب والخزي والإهانة. {فألقَوُا السَّلَم}؛ أي: استسلموا وأنكروا ما كانوا يعبُدونهم من دون الله، وقالوا: {ما كُنَّا نعملُ مِنْ سوءٍ}: فيُقال لهم: {بلى}: كنتُم تعملون السوءَ. فَـ {إنَّ الله عليم بما كنتُم تعملون}: فلا يُفيدكم الجحود شيئاً. وهذا في بعض مواقف القيامة؛ ينكرون ما كانوا عليه في الدُّنيا؛ ظنًّا أنه ينفعهم؛ فإذا شهدت عليهم جوارِحُهم، وتبيَّن ما كانوا عليه؛ أقرُّوا واعترفوا، ولهذا لا يدخلون النار حتى يعترِفوا بذُنوبهم.
[28] پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان کی وفات کے وقت اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کیا سلوک کرے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں جبکہ وہ اپنے ہی حق میں ظلم کرنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی فرشتے اس حال میں ان کی جان قبض کر رہے ہوں گے کہ ان کا ظلم اور ان کی گمراہی اپنے عروج پر ہو گی اور ظالم لوگ جس طرح وہاں ، مختلف قسم کے عذاب، رسوائی اور اہانت سے دوچار ہوں گے، معلوم ہو جائے گا۔ ﴿ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ ﴾ ’’تب وہ ظاہر کریں گے فرماں برداری‘‘ یعنی اس وقت وہ بڑی فرماں برداری کا اظہار اور اپنے ان معبودوں کا انکار کریں گے جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے اور کہیں گے: ﴿ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ﴾ ’’ہم کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔‘‘ ان سے کہا جائے گا: ﴿ بَلٰۤى ﴾ ’’کیوں نہیں ‘‘ تم برائی کیا کرتے تھے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’یقینا اللہ، تم جو کچھ کرتے تھے، جانتا ہے‘‘ پس تمھارا انکار تمھیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ ان کے یہ احوال قیامت کے بعض مقامات پر ہوں گے۔ وہ یہ گمان کرتے ہوئے، دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا انکار کر دیں گے کہ ان کا یہ انکار ان کو کچھ فائدہ دے گا۔ مگر جب ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر جوارح ان کے خلاف گواہی دیں گے اور ان کے اعمال لوگوں کے سامنے آشکارا ہو جائیں گے تو اپنے کرتوتوں کا اقرار اور اعتراف کر لیں گے، اس لیے وہ اس وقت تک جہنم میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف نہ کر لیں گے۔
#
{29} فإذا دخلوا أبواب جهنَّم، كلُّ أهل عمل يدخُلون من الباب اللائق بحالهم؛ فبئسَ {مثوى المتكبِّرين}: نار جهنم؛ فإنَّها مثوى الحسرة والندم، ومنزل الشقاء والألم، ومحلُّ الهموم والغموم، وموضعُ السَّخَط من الحيِّ القيُّوم، لا يُفَتَّر عنهم من عذابها، ولا يُرْفَع عنهم يوماً من أليم عقابها، قد أعرض عنهم الربُّ الرحيم، وأذاقهم العذاب العظيم.
[29] جب وہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوں گے تو تمام گناہ گار اپنے گناہ کے مطابق اور اپنے حسب حال دروازوں میں سے داخل ہوں گے۔ ﴿ فَ٘لَ٘بِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ ﴾ ’’پس کیا برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا‘‘ یعنی جہنم کی آگ کیونکہ یہ حسرت و ندامت کا ٹھکانا، الم و شقاوت کی منزل، رنج و غم کا مقام اور اللہ حیی و قیوم کی سخت ناراضی کا موقع ہو گا۔ جہنم کا عذاب ان سے دور نہ کیا جائے گا، جہنم کے عذاب کی المناکی کو ان سے ایک دن کے لیے بھی رفع نہ کیا جائے گا۔ رب رحیم ان سے منہ پھیر لے گا اور ان کو عذاب عظیم کا مزا چکھائے گا۔
آیت: 30 - 32 #
{وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ (30) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ كَذَلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ (31) الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (32)}.
اور (جب) کہا جاتا ہے ان لوگوں سے جو پرہیز گار ہوئے، کیا چیز ہے جو نازل کی تمھارے رب نے؟ تو وہ کہتے ہیں ، خیر، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے نیکی کی اس دنیا میں ، (بدلہ ہے) اچھااور البتہ گھر آخرت کا بہترین ہےاور یقینا بہت ہی اچھا ہے گھر پرہیز گاروں کا (30) (، یعنی ) باغات ہمیشہ کے، وہ داخل ہوں گے ان میں ، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، واسطے ان کے ہو گا ان میں جو کچھ وہ چاہیں گے، اس طرح ہی جزاء دیتا ہے اللہ متقی لوگوں کو (31) وہ لوگ کہ قبض کرتے ہیں ان کی روحیں فرشتے، درآنحالیکہ وہ پاک ہوتے ہیں (کفر وشرک سے) تو کہتے ہیں (فرشتے) سلام ہو تم پر، داخل ہو جاؤ تم جنت میں بوجہ ان کے جو تھے تم عمل کرتے (32)
#
{30} لما ذَكَرَ الله قيل المكذبين بما أنزل الله؛ ذَكَرَ ما قاله المتَّقون، وأنَّهم اعترفوا وأقرُّوا بأنَّ ما أنزل الله نعمةٌ عظيمةٌ وخيرٌ عظيمٌ امتنَّ الله به على العباد، فقبلوا تلك النعمة، وتلقَّوْها بالقَبول والانقياد، وشكروا الله عليها، فعَلِموها وعملوا بها. {للذين أحسنوا}: في عبادة الله تعالى وأحسنوا إلى عباد الله؛ فلهم {في هذه الدُّنيا حسنةٌ}: رزقٌ واسعٌ وعيشةٌ هنيَّةٌ وطمأنينةُ قلبٍ وأمنٌ وسرورٌ. {ولدار الآخرة خيرٌ}: من هذه الدار وما فيها من أنواع اللذَّات والمشتهيات؛ فإنَّ هذه نعيمها قليلٌ محشوٌّ بالآفات منقطع؛ بخلاف نعيم الآخرة، ولهذا قال: {ولنعم دارُ المتَّقين}.
[30] جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی کو جھٹلایا، ان کے قول کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے قول کا ذکر فرمایا کہ انھوں نے اس بات کا اقرار و اعتراف کیا کہ اللہ نے جو کتاب نازل فرمائی ہے، وہ ایک عظیم نعمت اور بڑی بھلائی ہے جس کے ذریعے سے اللہ نے بندوں پر احسان فرمایا۔ (ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے) پس انھوں نے اس نعمت کا قبولیت اور اطاعت کے جذبے کے ساتھ استقبال کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پس انھوں نے اسے جانا اور اس پر عمل کیا۔ ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا ﴾ ’’ان کے لیے جو نیکوکار ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر فائز ہوئے اور انھوں نے اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کی ﴿ فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ﴾ ’’اس دنیا میں بھلائی ہے‘‘ یعنی اس دنیا میں ان کے لیے وسیع رزق، بہترین زندگی، اطمینان قلب اور امن و سرور ہے۔ ﴿ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ﴾ ’’اور آخرت کا گھر بہت ہی اچھا ہے۔‘‘ یعنی آخرت کا گھر دنیا کے گھر اور اس میں موجود لذات و شہوات سے بہتر ہے کیونکہ دنیا کی نعمتیں بہت کم، مختلف قسم کی آفات سے گھری ہوئی اور آخر کار ختم ہو جانے والی ہیں ۔ اس کے برعکس آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’ اور کیا خوب گھر ہے پرہیز گاروں کا ‘‘
#
{31 ـ 32} {جناتُ عَدْنٍ يدخلونها تجري من تحتها الأنهار لهم فيها ما يشاؤون}؛ أي: مهما تمنَّته أنفسهم وتعلَّقت به إراداتهم؛ حصل لهم على أكمل الوجوه وأتمِّها؛ فلا يمكنُ أن يطلُبوا نوعاً من أنواع النعيم الذي فيه لَذَّةُ القلوب وسرور الأرواح؛ إلاَّ وهو حاضرٌ لديهم، ولهذا يُعطي الله أهل الجنة كلَّ ما تمنَّوْه عليه، حتى إنَّه يذكِّرهم أشياء من النعيم لم تخطر على قلوبهم؛ فتبارك الذي لا نهاية لكرمِهِ ولا حدَّ لجوده، الذي ليس كمثله شيءٌ في صفات ذاته وصفات أفعاله وآثار تلك النعوت وعظمةِ الملك والملكوت. {كذلك يَجْزي الله المتَّقين}: لِسَخَطِ الله وعذابِهِ؛ بأداء ما أوجبه عليهم من الفروض والواجبات المتعلقة بالقلب والبدن واللسان من حقِّه وحقِّ عباده، وترك ما نهاهم الله عنه. {الذين تتوفَّاهم الملائكةُ}: مستمرِّين على تقواهم، {طيبين}؛ أي: طاهرين مطهَّرين من كل نقص ودنَس يتطرَّق إليهم ويُخِلُّ في إيمانهم، فطابت قلوبهم بمعرفة الله ومحبَّته، وألسنتهم بذكرِهِ والثناء عليه، وجوارِحُهم بطاعته والإقبال عليه. {يقولون سلامٌ عليكم}؛ أي: التحية الكاملة حاصلةٌ لكم، والسلامة من كلِّ آفة، وقد سلمتُم من كلِّ ما تكرهون. {ادخُلوا الجنَّة بما كنتُم تعملونَ}: من الإيمان بالله والانقياد لأمرِهِ؛ فإنَّ العمل هو السبب والمادة والأصلُ في دخول الجنة والنجاة من النار، وذلك العمل حصل لهم برحمة الله ومنَّته، لا بحولهم وقوَّتهم.
[32,31] ﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا۠ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ﴾ ’’ باغ ہیں ہمیشہ رہنے کے، جن میں وہ داخل ہوں گے، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، ان کے لیے وہاں وہ ہے جو وہ چاہیں گے‘‘ یعنی جب بھی ان کے دل کسی چیز کی آرزو اور اس کا ارادہ کریں گے تو وہ چیز انھیں اپنی کامل ترین شکل میں حاصل ہو جائے گی، یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ کوئی ایسی نعمت طلب کریں جس میں ان کے دلوں کی لذت اور روح کا سرور ہو اور وہ حاضر نہ ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ اہل جنت کو ہر وہ چیز عطا کرے گا جس کی وہ تمنا کریں گے حتیٰ کہ وہ ان کو ایسی ایسی نعمتیں یاد دلائے گا جو کبھی ان کے خواب و خیال میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس کے کرم کی کوئی انتہا اور اس کی سخاوت کی کوئی حد نہیں ۔ اس کی صفات ذات، صفات افعال، ان صفات کے آثار اور اس کے اقتدار اور بادشاہی کی عظمت و جلالت میں ، کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے ﴿ كَذٰلِكَ یَجْزِی اللّٰهُ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’اللہ پرہیز گاروں کو اسی طرح جزا دیتا ہے‘‘ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ان فرائض کو ادا کرتے ہیں جو ان کے ذمے عائد ہیں ، یعنی وہ فرائض و واجبات جو قلب، بدن، زبان اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں اور ان تمام امور کو ترک کر دینا جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ ﴿الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’وہ لوگ، فرشتے جن کی جان قبض کرتے ہیں ‘‘ اس حالت میں کہ وہ دائمی طور پر تقویٰ کا التزام کرتے ہیں ۔ ﴿طَیِّبِیْنَ﴾ ’’وہ پاکیزہ ہیں ‘‘ یعنی وہ ہر نقص اور گندگی سے پاک صاف رہتے ہیں جو ایمان میں خلل انداز ہوتی ہے۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت سے، ان کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر و ثنا سے اور ان کے جوارح اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے شاد کام ہوتے ہیں ۔ ﴿ یَقُوْلُوْنَ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمُ﴾ ’’فرشتے کہتے ہیں ، تم پر سلامتی ہو‘‘ تمھارے لیے خاص طور پر کامل سلام اور ہر آفت سے سلامتی اور تم ہر ناپسندیدہ چیز سے محفوظ ہو۔ ﴿ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے حکم کی تعمیل کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ کیونکہ عمل ہی دراصل جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات کا سبب ہے اور اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ انسانوں کی قوت و اختیار سے۔
آیت: 33 - 34 #
{هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (33) فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (34)}.
نہیں انتظار کرتے وہ مگر یہ کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے حکم آپ کے رب کا، اس طرح ہی کیا تھا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھےاور نہیں ظلم کیا تھا ان پر اللہ نے لیکن تھے وہ (خود ہی) اپنے نفسوں پر ظلم کرتے (33) پس پہنچی ان کو (جزاء) ان برائیوں کی جن کا ارتکاب انھوں نے کیااور گھیر لیا ان کو اس عذاب نے کہ تھے وہ ساتھ اس کے استہزاء کرتے (34)
#
{33} يقول تعالى: هل ينظُرُ هؤلاء الذين جاءتهم الآيات فلم يؤمنوا وذُكِّروا فلم يتذكَّروا، {إلاَّ أن تأتِيَهُمُ الملائكةُ}: لقبض أرواحهم، {أو يأتي أمرُ ربِّك}: بالعذاب الذي سيحِلُّ بهم؛ فإنَّهم قد استحقُّوا لوقوعه فيهم. {كذلك فَعَلَ الذين من قبلهم}: كذَّبوا وكفروا، ثم لم يؤمنوا، حتى نزل بهم العذاب. {وما ظلمهم الله}؛ إذ عذَّبهم، {ولكن كانوا أنفسَهم يظلِمونَ}؛ فإنَّها مخلوقةٌ لعبادة الله؛ ليكونَ مآلُها إلى كرامة الله، فظلموها وتركوا ما خُلِقَتْ له وعرَّضوها للإهانة الدائمة والشقاء الملازم.
[33] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیتیں آئیں مگر وہ ایمان نہ لائے انھیں نصیحت کی گئی مگر انھوں نے نصیحت نہ پکڑی… اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ؟ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’کہ فرشتے (ان کی روح قبض کرنے کے لیے) ان کے پاس آئیں ۔‘‘ ﴿ اَوْ یَاْ٘تِیَ اَمْرُ رَبِّكَ﴾ ’’یا تمھارے رب کا حکم (عذاب) نازل ہو جائے‘‘ کیونکہ انھوں نے اپنے آپ کو عذاب کے وقوع کا مستحق بنا لیا ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’اسی طرح کیا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے‘‘ انھوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کا انکار کیا، پھر وہ اس وقت تک ایمان نہ لائے جب تک ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہ ہوا۔ ﴿ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور نہیں ظلم کیا ان پر اللہ نے‘‘ یعنی جب ان پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا۔ ﴿ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَؔ ﴾ ’’لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے‘‘ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں تاکہ ان کا انجام اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا حصول ہو۔ پس انھوں نے ظلم کیا اور اس چیز کو ترک کر دیا جس کے لیے ان کو پیدا کیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے نفوس کو دائمی اہانت اور پیچھا نہ چھوڑنے والی بدبختی کے سامنے پیش کر دیا۔
#
{34} {فأصابهم سيِّئاتُ ما عملوا}؛ أي: عقوبات أعمالهم وآثارها، {وحاق بهم}؛ أي: نزل {ما كانوا به يستهزئون}: فإنهم كانوا إذا أخبرتهم رسلُهم بالعذاب؛ استهزؤوا به، وسخروا ممَّن أخبر به، فحلَّ بهم ذلك الأمر الذي سخروا منه.
[34] ﴿ فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا ﴾ ’’پھر پڑے ان کے سر ان کے برے کام‘‘ یعنی ان کے اعمال بد کے اثرات اور ان کی سزا ﴿ وَحَاقَ بِهِمْ ﴾ ’’اور الٹ پڑا ان پر‘‘ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہوا ﴿ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’جس کے ساتھ وہ ٹھٹھا کرتے تھے‘‘ کیونکہ ان کے رسولوں نے جب انھیں عذاب سے ڈرایا تو انھوں نے ان سے استہزا کیا اورجو خبر انھوں نے دی اس کا تمسخر اڑایا آخر ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑا جس کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔
آیت: 35 #
{وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (35)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے شریک ٹھہرائے، اگر چاہتا اللہ تو نہ عبادت کرتے ہم سوائے اللہ کے کسی (اور) چیز کی، ہم اور نہ ہمارے باپ دادا ہی اور نہ حرام کرتے ہم بغیر اس (کے حکم) کے کسی چیز کو، اس طرح ہی کیا تھا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس نہیں ہے اوپر رسولوں کے (کچھ اور) مگر پہنچا دینا صریح (35)
#
{35} أي: احتجَّ المشركون على شركهم بمشيئة الله، وأنَّ الله لو شاء ما أشركوا ولا حرَّموا شيئاً من الأنعام التي أحلَّها؛ كالبحيرة والوصيلة والحام ونحوها من دونه، وهذه حجَّةٌ باطلةٌ؛ فإنَّها لو كانت حقًّا؛ ما عاقب الله الذين من قبلهم حيث أشركوا به، فعاقبهم أشدَّ العقاب؛ فلو كان يحبُّ ذلك منهم؛ لما عذَّبهم. وليس قصدهم بذلك إلاَّ ردَّ الحقِّ الذي جاءت به الرسل، وإلاَّ؛ فعندهم علمٌ أنه لا حجَّة لهم على الله؛ فإنَّ الله أمرهم ونهاهم، ومكَّنهم من القيام بما كلَّفهم، وجعل لهم قوَّة ومشيئة تصدُر عنها أفعالهم؛ فاحتجاجُهم بالقضاء والقَدَر من أبطل الباطل، هذا وكل أحدٍ يعلم بالحسِّ قدرة الإنسان على كُلِّ فعلٍ يريده من غير أن ينازِعَه منازِعٌ؛ فجمعوا بين تكذيب الله وتكذيب رسُلِهِ وتكذيب الأمور العقليَّة والحسيَّة. {فهل على الرُّسل إلاَّ البلاغُ المبين}؛ أي: البيِّن الظاهر الذي يَصِلُ إلى القلوب ولا يبقى لأحدٍ على الله حجَّة؛ فإذا بَلَّغَتْهُمُ الرسل أمرَ ربِّهم ونهيَه ـ واحتجُّوا عليهم بالقَدَر ـ؛ فليس للرسل من الأمر شيء، وإنما حسابُهم على الله عزَّ وجلَّ.
[35] مشرکین اپنے شرک پر مشیت الٰہی کو دلیل بناتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ کبھی شرک نہ کرتے اور نہ وہ ان مویشیوں کو حرام ٹھہراتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، مثلاً:بحیرہ، وصیلہ اور حام وغیرہ… مگر ان کی یہ دلیل باطل ہے اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان سے پہلے لوگوں کو ان کے شرک کی پاداش میں کبھی عذاب نہ دیتا اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے شرک کو پسند کرتا تو ان کو کبھی عذاب نہ دیتا۔ دراصل حق کو، جسے رسول لے کر آئے، رد کرنے کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو امرونہی کا پابند بنایا ہے، ان کو اسی چیز کا مکلف ٹھہرایا ہے جس پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی ان کو قوت عطا کی ہے جس سے ان کے افعال صادر ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کا قضاء و قدر کو دلیل بنانا سب سے بڑا باطل ہے اور ہر شخص حسی طور پر جانتا ہے کہ انسان جس فعل کا ارادہ کرتا ہے، اسے اس کو کرنے کی قدرت حاصل ہوتی ہے، اس میں کوئی نزاع نہیں ہے، پس انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب اور عقلی اور حسی امور کی تکذیب کا ارتکاب کیا۔ ﴿فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ ﴾ ’’پس رسولوں کی ذمے داری، کھول کر پہنچا دینا ہے‘‘ یعنی واضح اور ظاہر ابلاغ جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جائے اور کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی حجت نہ رہے۔ جب انبیاء و رسل ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامر و نواہی پہنچا دیتے ہیں اور وہ اس کے مقابلے میں تقدیر کا بہانہ کرتے ہیں تو رسولوں کے اختیار میں کچھ نہیں ، ان کا حساب اللہ عزوجل کے ذمے ہے۔
آیت: 36 - 37 #
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36) إِنْ تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (37)}.
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے ہر امت میں رسول یہ کہ عبادت کروتم اللہ کی او ربچو تم طاغوت سے، پھر بعض ان میں سے وہ تھے جنھیں ہدایت دی اللہ نےاور بعض ان میں سے وہ تھے کہ ثابت ہو گئی ان پر گمراہی، پس سیر کرو تم زمین میں ، پھر دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا؟ (36) اگر حرص کریں آپ ان کو ہدایت پر لانے کی تو بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا اس کو جسے وہ گمراہ کرتا ہےاور نہیں ہے ان کے لیے کوئی مدد گار (37)
#
{36} يخبر تعالى أن حجَّته قامت على جميع الأمم، وأنَّه ما من أمَّة متقدِّمة أو متأخِّرة إلاَّ وبعث الله فيها رسولاً، وكلُّهم متَّفقون على دعوةٍ واحدةٍ ودينٍ واحدٍ، وهو عبادةُ الله وحدَه لا شريك له. {أنِ اعبُدوا الله واجتَنِبوا الطاغوت}: فانقسمت الأمم بحسب استجابتها لدعوة الرسل وعدمها قسمين: {فمنهم مَنْ هَدى الله}: فاتَّبعوا المرسَلين علماً وعملاً، {ومنهم مَنْ حَقَّتْ عليه الضَّلالة}: فاتَّبع سبيل الغيِّ. {فسيروا في الأرض}: بأبدانِكم وقلوبِكم، {فانظُروا كيف كانَ عاقبةُ المكذِّبين}: فإنَّكم سترون من ذلك العجائب؛ فلا تجدُ مكذِّباً إلاَّ كان عاقبته الهلاك.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ تمام قوموں میں اس کی حجت قائم ہو چکی ہے، نیز یہ کہ متقدمین یا متاخرین میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول مبعوث نہ فرمایا ہو اور تمام رسول ایک دعوت اور ایک دین پر متفق تھے اور وہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، ﴿ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُ٘وْتَ﴾ ’’صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (غیر اللہ کی عبادت) سے بچو۔‘‘ پس قومیں ، انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے اور رد کرنے کی بنیاد پر دو گروہوں میں منقسم ہو گئیں ۔ ﴿ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ ﴾ ’’بعض ان میں سے وہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی‘‘ پس انھوں نے علم و عمل کے لحاظ سے رسولوں کی اتباع کی ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰ٘لَةُ﴾ ’’اور بعض ان میں سے وہ ہیں جن پر گمراہی ثابت ہو گئی‘‘ پس انھوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔ ﴿ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’پس تم (اپنے قلب و بدن کے ساتھ) زمین پر چلو پھرو۔‘‘ ﴿ فَانْظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠ ﴾ ’’اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا‘‘ پس تم روئے زمین پر بڑی بڑی عجیب چیزوں کا مشاہدہ کرو گے۔ تم جھٹلانے والا کوئی ایسا شخص نہیں پاؤ گے جس کا انجام ہلاکت نہ ہو۔
#
{37} {إن تحرِصْ على هداهم}: وتبذل جهدك في ذلك، {فإنَّ الله لا يَهْدي من يُضِلُّ}: ولو فعل كلَّ سببٍ؛ لم يهده إلاَّ الله. {وما لهم من ناصرينَ}: ينصُرونهم من عذاب الله، ويَقونَهم بأسَه.
[37] ﴿ اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰؔىهُمْ ﴾ ’’اگر آپ خواہش رکھیں ان کی ہدایت کی‘‘ اور اس بارے میں آپ اپنی جدوجہد صرف کریں ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ ﴾ ’’تو اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جس کو وہ گمراہ کر دے‘‘ اگرچہ وہ ہدایت کا ہر سبب ہی کیوں نہ استعمال کر لے، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نہ نوازے گا۔ ﴿ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰ٘صِرِیْنَ﴾ ’’اور ان کے لیے کوئی مددگار نہیں ‘‘ جو اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ان کی مدد کر سکیں اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکیں ۔
آیت: 38 - 40 #
{وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ بَلَى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (38) لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ (39) إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (40)}.
اور قسمیں کھائیں انھوں نے اللہ کی، اپنی پختہ قسمیں ، کہ نہیں دوبارہ اٹھائے گا اللہ اس کو جو مر جاتا ہے، کیوں نہیں ؟ (ضرور اٹھائے گا) وعدہ ہے اس کے ذمے سچا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (38) تاکہ واضح کرے ان کے لیے وہ چیز کہ اختلاف کرتے تھے وہ اس میں اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کہ بے شک وہی تھے جھوٹے (39) یقینا ہمارا کہنا کسی بھی چیز کے لیے، جب ارادہ کریں ہم اس کا، ( یہ ہوتا ہے) کہ ہم کہتے ہیں اس کو’’ ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے (40)
#
{38} يخبر تعالى عن المشركين المكذِّبين لرسوله أنَّهم {أقسموا بالله جَهْدَ أيمْانِهِم}؛ أي: حلفوا أيماناً مؤكَّدة مغلَّظة على تكذيب الله وأن الله لا يَبْعَثُ الأموات ولا يقدِرُ على إحيائهم بعد أن كانوا تراباً. قال تعالى مكذِّباً لهم: {بلى} سيبعثُهم ويجمعُهم ليوم لا ريبَ فيه. {وعداً عليه حقًّا}: لا يُخْلِفُه ولا يغيِّره. {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمونَ}: ومن جهلهم العظيم إنكارُهم البعث والجزاء.
[38] اپنے رسولوں کو جھٹلانے والے مشرکین کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاَقْ٘سَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ﴾ ’’اور یہ اللہ کی بڑی پکی قسمیں کھاتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب پر بہت پکی قسمیں کھاتے ہیں اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا نہ وہ ان کے مٹی ہو جانے کے بعد ان کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے: ﴿ بَلٰى﴾ ’’کیوں نہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر انھیں ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ﴿ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا ﴾ ’’اس پر وعدہ ہو چکا ہے پکا‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف کرتا ہے نہ اسے تبدیل کرتا ہے ﴿ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی اور جزا سزا کو جھٹلانا ان کی سب سے بڑی جہالت ہے۔
#
{39 ـ 40} ثم ذكر الحكمة في الجزاء والبعث، فقال: {ليبيِّنَ لهم الذي يختلفونَ فيه}: من المسائل الكبار والصغار، فيبيِّن حقائقها ويوضِّحها، {ولِيَعْلَمَ الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين}: [حين] يَرَوْن أعمالهم حَسَراتٍ عليهم، وما نفعتهم آلهتُهم التي يَدْعون مع الله من شيء لمَّا جاء أمرُ ربِّك، وحين يَرَوْنَ ما يعبُدون حطباً لجهنَّم، وتكوَّر الشمس والقمر، وتتناثر النُّجوم، ويتَّضح لمن يعبُدُها أنها عبيدٌ مسخَّرات، وأنهنَّ مفتقراتٌ إلى الله في جميع الحالات، وليس ذلك على الله بصعبٍ ولا شديدٍ؛ فإنَّه إذا أراد شيئاً قال له كن فيكون من غير منازعةٍ ولا امتناع، بل يكون على طِبْقِ ما أراده وشاءه.
[40,39] پھر اللہ تعالیٰ زندگی بعد موت اور سزا و جزا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ ﴾ ’’تاکہ وہ ان کے سامنے واضح کرے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ‘‘ وہ مسائل بڑے ہوں یا چھوٹے۔ پس وہ ان کے حقائق کو بیان کرے گا۔ ﴿ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ﴾ ’’اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔‘‘ حتیٰ کہ وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے اعمال ان کے لیے حسرت کا باعث ہیں اور جب آپ کے رب کا حکم آ گیا تو ان کے خود ساختہ معبود ان کی کوئی مدد نہ کرسکے جن کو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارا کرتے تھے اور اس وقت وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں اور سورج اور چاند بے نور کر دیے جائیں گے، ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے اور جو لوگ سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کیا کرتے تھے ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غلام اور اس کے سامنے مسخر ہیں اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے بغیر اس کے کہ کوئی جھگڑا ہو یا کوئی رکاوٹ بلکہ وہ چیز اس کے ارادے اور مشیت کے مطابق ہی ہوتی ہے۔
آیت: 41 - 42 #
{وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (41) الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (42)}
اور وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اللہ کی راہ میں بعد اس کے کہ وہ ظلم کیے گئے ، البتہ ضرور ٹھکانا دیں گے ہم ان کو دنیا میں اچھااور البتہ اجر آخرت کا تو بہت ہی بڑا ہے، کاش! کہ ہوتے وہ جانتے (41) وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور وہ اوپر اپنے رب کے بھروسہ کرتے ہیں (42)
#
{41} يخبر تعالى بفضل المؤمنين الممتحنين، {الذين هاجروا في الله}؛ أي: في سبيله وابتغاء مرضاته، {من بعدِ ما ظُلِموا}: بالأذيَّة والمحنة من قومهم، الذين يفتِنونَهم ليردُّوهم إلى الكفر والشرك، فتركوا الأوطان والخُلاَّن، وانتقلوا عنها لأجل طاعة الرحمن، فذكر لهم ثوابين: ثواباً عاجلاً في الدُّنيا من الرزق الواسع والعيش الهنيء الذي رأوه عياناً بعدما هاجروا وانتصروا على أعدائهم وافتتحوا البلدان وغَنِموا منها الغنائم العظيمة فتموَّلوا وآتاهم الله في الدُّنيا حسنةً. {ولأجْرُ الآخرة}: الذي وَعَدَهم على لسان رسوله خيرٌ و {أكبرُ} من أجر الدنيا؛ كما قال تعالى: {الذين آمنوا وهاجَروا وجاهدوا في سبيل الله أعظمُ درجةً عند الله وأولئك هم الفائزونَ. يبشِّرُهم ربُّهم برحمةٍ منه ورضوانٍ وجناتٍ لهم فيها نعيم مقيمٌ. خالدينَ فيها أبداً إنَّ الله عندَه أجرٌ عظيمٌ}. وقوله: {لو كانوا يعلمون}؛ أي: لو كان لهم علمٌ ويقينٌ بما عند الله من الأجِر والثواب لِمَنْ آمنَ به وهاجرَ في سبيله؛ لم يتخلَّفْ عن ذلك أحدٌ.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ ان اہل ایمان کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے جن کو امتحان میں ڈالا گیا تھا، چنانچہ فرمایا ﴿ وَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ ﴾ ’’جنھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر (اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) ہجرت کی‘‘ ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ﴾ ’’بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا‘‘ یعنی ان کی قوم کی طرف سے اذیت اور تعذیب کے ذریعے سے ان پر ظلم کیا گیا، کفر اور شرک کی طرف واپس لانے کے لیے ان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈالا گیا۔ پس انھوں نے اپنے وطن اور دوست احباب کو اللہ رحمن کی اطاعت کی خاطر چھوڑ دیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ثواب کی دو اقسام بیان کی ہیں : (۱) دنیاوی ثواب : یعنی کشادہ رزق اور خوشحال زندگی۔ اس ثواب کا انھوں نے ہجرت کے بعد اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ انھوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت حاصل کی، ان کے شہر فتح کیے، انھیں غنیمت میں بہت سا مال ہاتھ آیا جس سے وہ مال دار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا ہی میں بھلائی سے نواز دیا۔ (۲) اخروی ثواب : ﴿ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور آخرت کا اجر‘‘ یعنی وہ ثواب جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے، ﴿ اَكْبَرُ﴾ ’’(دنیا کے ثواب سے) بہت بڑا ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ١ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠۰۰ یُبَشِّ٘رُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّؔنْهُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ۰۰خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴾ (التوبۃ: 9؍20۔22) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کیا، ان کے لیے اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا رب انھیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ ﴿ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’کاش وہ جانتے۔‘‘ یعنی کاش انھیں اس اجر و ثواب کا علم اور یقین ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے اور اس کی راہ میں ہجرت کی اور ہجرت کرنے سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔
#
{42} ثم ذَكَرَ وصف أوليائه، فقال: {الذين صَبَروا}: على أوامر الله، وعن نواهيه، وعلى أقدار الله المؤلمة، وعلى الأذيَّة فيه والمحن. {وعلى ربِّهم يتوكَّلون}؛ أي: يعتمدون عليه في تنفيذ محابِّه لا على أنفسهم، وبذلك تنجحُ أمورُهم وتستقيم أحوالُهم؛ فإنَّ الصبر والتوكُّل ملاكُ الأمور كلِّها؛ فما فات أحداً شيءٌ من الخير إلا لعدم صبرِهِ وبَذْلِ جهدِهِ فيما أريد منه أو لعدم توكُّله واعتماده على الله.
[42] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا﴾ ’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی، اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضاوقدر اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اذیتوں پر صبر کرتے ہیں ﴿ وَعَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَؔكَّلُ٘وْنَ ﴾ ’’اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب امور کے نفاذ میں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے تمام معاملات سرانجام پاتے ہیں اور ان کے احوال درست رہتے ہیں کیونکہ صبر اور توکل تمام امور کا سرمایہ ہے۔ جب بھی کوئی شخص کسی بھلائی سے محروم ہوتا ہے تو عدم صبر اور اپنے مقصود میں عدم جہد کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں کرتا۔
آیت: 43 - 44 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (43) بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (44)}
اور نہیں بھیجے ہم نے پہلے آپ سے مگر مرد ہی، ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف ، پس پوچھو تم اہل کتاب سے اگر ہو تم نہیں جانتے (43) (ہم نے بھیجا تھا انھیں ) ساتھ دلیلوں اور کتابوں کےاور نازل کیا ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن) تاکہ بیان کریں آپ لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے ان کی طرف اور تاکہ وہ بھی غوروفکر کریں (44)
#
{43} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {وما أرسْلنا من قبلِكَ إلاَّ رجالاً}؛ أي: لستَ ببدع من الرسل، فلم نرسِلْ قبلَكَ ملائكةً، بل رجالاً كاملين لا نساءً. {نوحي إليهم}: من الشرائع والأحكام ما هو من فضلِهِ وإحسانِهِ على العبيد، من غير أن يأتوا بشيءٍ من قِبَل أنفسهم. {فاسألوا أهل الذِّكْر}؛ أي: الكتب السابقة {إنْ كنتُم لا تعلمونَ}: نبأ الأوَّلين، وشكَكْتم، هل بَعَثَ الله رجالاً؟ فاسألوا أهل العلم بذلك، الذين نزلتْ عليهم الزُّبر والبيِّنات، فعلموها وفهموها؛ فإنَّهم كلهم قد تقرَّر عندهم أنَّ الله ما بعث إلاَّ رجالاً يوحي إليهم من أهل القرى. وعموم هذه الآية فيها مدحُ أهل العلم، وأنَّ أعلى أنواعه العلم بكتاب الله المنزل؛ فإنَّ الله أمر مَنْ لا يعلم بالرجوع إليهم في جميع الحوادث، وفي ضمنه تعديلٌ لأهل العلم وتزكيةٌ لهم؛ حيث أمر بسؤالهم، وأنّ بذلك يخرج الجاهل من التَّبِعة، فدلَّ على أنَّ الله ائتمنهم على وحيه وتنزيله، وأنهم مأمورون بتزكية أنفسهم والاتصاف بصفات الكمال.
[43] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا ﴾ ’’نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے مگر مردوں ہی کو‘‘ یعنی آپe کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں ۔ پس آپ سے پہلے ہم نے فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ کامل ترین انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور اسی طرح عورتوں میں سے بھی کسی عورت کو رسول نہیں بنایا۔ ﴿ نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’وحی کرتے تھے ہم ان کی طرف‘‘ ہم ان رسولوں کی طرف شریعت اور احکام وحی کرتے تھے جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ ﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ ﴾ ’’پس پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے‘‘ یعنی اہل کتاب سے ﴿ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اگر تم نہیں جانتے۔‘‘ یعنی اگر تمھیں گزشتہ امتوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں اور تمھیں شک ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رسول بنایا ہے یا نہیں تو تم ان لوگوں سے پوچھ لو جو اس کا علم رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور معجزات نازل ہوئے جنھوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور سمجھا۔ ان سب کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بستیوں میں سے صرف انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت کریمہ کا عموم اہل علم کی مدح پر دلالت کرتا ہے، نیز علم کی تمام انواع میں کتاب اللہ کا علم بلند ترین علم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو علم نہیں رکھتا حکم دیا ہے کہ وہ تمام حوادث میں اہل علم کی طرف رجوع کرے۔ یہ آیت کریمہ اہل علم کی تعدیل اور ان کے تزکیہ کو بھی متضمن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے، نیز جاہل آدمی اہل علم سے سوال کرنے پر گرفت سے نکل جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اپنی وحی اور تنزیل کا امین بنایا ہے اور وہ تزکیہ اور صفات کمال سے متصف ہونے پر مامور ہیں۔
#
{44} وأفضل أهل الذكر أهل هذا القرآن العظيم؛ فإنهم أهل الذكر على الحقيقة، وأولى من غيرهم بهذا الاسم، ولهذا قال تعالى: {وأنْزَلْنا إليك الذِّكر}؛ أي: القرآن الذي فيه ذِكْر ما يحتاج إليه العباد من أمور دينهم ودنياهم الظاهرة والباطنة، {لِتُبَيِّنَ للناس ما نُزِّلَ إليهم}: وهذا شاملٌ لتبيين ألفاظه وتبيين معانيه. {ولعلَّهم يتفكَّرون}: فيه، فيستخرجون من كنوزه وعلومه بحسب استعدادهم وإقبالهم عليه.
[44] اور اہل ذکر میں بہترین لوگ اہل قرآن ہیں کیونکہ وہی درحقیقت اہل ذکر ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ اس نام کے مستحق ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ﴾ ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا‘‘ یعنی قرآن جس میں ہر وہ چیز مذکور ہے، جس کی بندوں کو ظاہری اور باطنی طور پر اپنے دینی اور دنیاوی امور میں سخت ضرورت ہے۔ ﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان باتوں کی وضاحت کریں جو ان کی طرف نازل کی گئیں ‘‘ اور یہ تبیین، الفاظ اور معانی دونوں کو شامل ہے۔ ﴿ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَؔكَّـرُوْنَ ﴾ ’’اور تاکہ وہ غوروفکر کریں ‘‘ پس وہ اس میں غوروفکر کر کے اپنی استعداد اور اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کے مطابق، اس کے علوم میں سے معانی کے خزانوں کا استخراج کریں ۔
آیت: 45 - 47 #
{أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (45) أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ (46) أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (47)}.
کیا پس بے خوف ہو گئے ہیں وہ لوگ جنھوں نے تدبیریں کیں بری (اس بات سے) کہ دھنسا دے اللہ ان کو زمین میں ؟ یا آئے ان پر عذاب جہاں سے نہ شعور رکھتے ہوں وہ؟ (45) یا وہ پکڑ لے ان کو ان کے چلتے ، پھرتے (کی حالت ) میں پس نہیں وہ عاجز کر سکتے (اللہ کو) (46) یا وہ پکڑ لے ان کو اوپر ان کی خوف زدگی کے، پس بے شک تمھارا رب ، البتہ بہت ہی شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (47)
#
{45 ـ 47} هذا تخويفٌ من الله تعالى لأهل الكفر والتكذيب وأنواع المعاصي من أن يأخذَهم بالعذاب على غِرَّة وهم لا يشعرون: إمَّا أن يأخُذَهم العذاب من فوقهم، أو من أسفل منهم بالخَسْفِ وغيره، وإما في حال تقلُّبهم وشغلهم وعدم خطور العذاب ببالهم، وإما في حال تخوُّفهم من العذاب؛ فليسوا بمعجزِين الله في حالة من هذه الأحوال، بل هم تحت قبضته، ونواصيهم بيده، ولكنه رءوف رحيم، لا يعاجل العاصين بالعقوبة، بل يمهلهم ويعافيهم ويرزقهم، وهم يؤذونه ويؤذون أولياءه، ومع هذا يَفْتَحُ لهم أبواب التوبة، ويدعوهم إلى الإقلاع عن السيئات التي تضرُّهم، ويَعِدُهم بذلك أفضلَ الكرامات ومغفرةَ ما صدر منهم من الذنوب؛ فليستحِ المجرمُ من ربِّه أن تكون نعمُ اللهِ عليه نازلةً في جميع [اللحظات] ومعاصيه صاعدة إلى ربِّه في كلِّ الأوقات، وليعلم أنَّ الله يمهلُ ولا يهملُ، وأنه إذا أخذ العاصي؛ أخذه أَخْذَ عزيزٍ مقتدرٍ؛ فليتبْ إليه، وليرجعْ في جميع أموره إليه؛ فإنَّه رءوف رحيم؛ فالبدارَ البدارَ إلى رحمته الواسعة، وبرِّه العميم، وسلوك الطرق الموصلة إلى فضل الربِّ الرحيم، ألا وهي تقواه، والعمل بما يحبُّه ويرضاه.
[47-45] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکار کرنے والوں ، جھٹلانے والوں اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے تخویف ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب انھیں غفلت میں نہ آپکڑے اور انھیں شعور تک نہ ہو۔ یہ عذاب ان پر یا تو اوپر سے نازل ہو یا نیچے سے پھوٹ پڑے، جیسے زمین میں دھنس جانے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہو یا یہ عذاب ان پر اس وقت نازل ہو، جب وہ زمین پر چل پھر رہے ہوں اور اپنے کاروبار میں مصروف ہوں اور عذاب کا نازل ہونا ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو یا اس حال میں ان پر عذاب نازل ہوکہ وہ عذاب سے خائف ہوں ۔ پس وہ کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کر سکتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور ان کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور بہت رحیم ہے، وہ گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے اور ان کو معاف کر دیتا ہے، وہ ان کو رزق سے نوازتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اسے اور اس کے اولیاء کو ایذا پہنچاتے ہیں ۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے توبہ کے دروازے کھول رکھے ہیں ، وہ انھیں گناہوں کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو ان کے لیے سخت ضرر رساں ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اس کے بدلے میں بہترین اکرام و تکریم اور ان کے گناہوں کو بخش دینے کا وعدہ کرتا ہے… پس مجرم کو اپنے رب سے شرمانا چاہیے کہ اس کی نعمتیں ہر حال میں اس پر نازل ہوتی رہتی ہیں اور اس کے بدلے میں اس کی طرف سے ہر وقت نافرمانیاں اپنے رب کی طرف بلند ہوتی ہیں ۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا اور جب وہ گناہ گار نافرمان کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایک غالب اور مقتدر ہستی کی پکڑ ہے۔ پس اسے توبہ کرنی چاہیے اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ بس اس کی بے پایاں رحمت اور اس کے لامحدود احسان کے سائے کے نیچے آ جاؤ اور جلدی سے اس راستے پر گامزن ہو جاؤ جو رب رحیم کے فضل و کرم کی منزل تک پہنچاتا ہے اور یہ راستہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس کے محبوب اور پسندیدہ امور پر عمل کرنے سے عبارت ہے۔
آیت: 48 - 50 #
{أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ (48) وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (49) يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (50)}.
کیا نہیں دیکھا انھوں نے اس بات کو کہ جو بھی پیدا کی اللہ نے کوئی چیز، جھکتا ہے سایا اس کا دائیں اوربائیں طرف سے، سجدہ کرتے ہوئے اللہ کواور وہ ( اس کے سامنے) عاجز ہیں (48) اورواسطے اللہ ہی کے سجدہ کرتی ہے جو چیز ہے آسمانوں میں اور جو چیز ہے زمین پر چلنے والوں میں سے اور فرشتے بھی اور نہیں وہ تکبر کرتے (49) وہ ڈرتے ہیں اپنے رب سے، اپنے اوپر سےاور وہ کرتے ہیں (وہی کچھ) جو وہ حکم دیے جاتے ہیں (50)
#
{48} يقول تعالى: {أولم يروا}؛ أي: الشاكُّون في توحيد ربِّهم وعظمته وكماله، {إلى ما خَلَقَ الله من شيء}؛ أي: إلى جميع مخلوقاته، وكيف تتفيَّأ أظلتها {عن اليمين والشمائل سُجَّداً لله}؛ أي: كلها ساجدةٌ لرِّبها خاضعة لعظمته وجلاله، {وهم داخِرونَ}؛ أي: ذليلون تحت التسخير والتدبير والقهر، ما منهم أحدٌ إلاَّ وناصيته بيد الله وتدبيره عنده.
[48] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا۔‘‘ یعنی کیا اپنے رب کی توحید، اس کی عظمت اور اس کے کمال میں شک کرنے والوں نے نہیں دیکھا؟ ﴿ اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ﴾ ’’ان چیزوں کی طرف، جن کو اللہ نے پیدا کیا‘‘ یعنی تمام مخلوقات کی طرف ﴿ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ ﴾ کہ ’’ان کے سائے لوٹتے رہتے ہیں ‘‘ ﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآىِٕلِ سُجَّؔدًؔا لِّلّٰهِ ﴾ ’’ان کی دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے، اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے‘‘ یعنی تمام اشیا کے سائے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ جھکے رہتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل، مسخر اور اس کے دست تدبیر کے تحت مقہور ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی پیشانی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں اور اس کی تدبیر اس کے پاس نہ ہو۔
#
{49} {ولله يسجد ما في السمواتِ وما في الأرضِ من دابَّة}: من الحيوانات الناطقة والصامتة، {والملائكةُ}: الكرام، خصَّهم بعد العموم لفضلهم وشرفهم وكثرة عبادتهم، ولهذا قال: {وهم لا يستكْبِرونَ}؛ أي: عن عبادته؛ على كثرتهم وعظمة أخلاقهم وقوَّتهم؛ كما قال تعالى: {لن يستنكفَ المسيحُ أن يكون عبداً لله ولا الملائكة المقربون}.
[49] ﴿ وَلِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ﴾ ’’اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے جانداروں میں سے‘‘ یعنی تمام انسانوں اور حیوانات میں سے ﴿ وَّالْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’اور فرشتے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے مکرم فرشتے، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فضیلت، ان کے شرف اور ان کی کثرت عبادت کی وجہ سے، تمام مخلوقات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد ان کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ یعنی وہ اپنی کثرت، عظمت اخلاق اور قوت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار نہیں کرتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ لَ٘نْ یَّسْتَنْكِفَ الْ٘مَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَلَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ الْ٘مُقَ٘رَّبُوْنَ۠ ﴾ (النساء: 4؍ 172) ’’مسیح (عیسیٰu) اور مقرب فرشتے اس بات کو عار نہیں سمجھتے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔‘‘
#
{50} {يخافون ربَّهم من فوقهم}: لمَّا مدحَهم بكَثْرَةِ الطاعة والخضوع لله؛ مدحَهم بالخوفِ من الله الذي هو فوقهم بالذات والقهر وكمال الأوصاف؛ فهم أذلاَّء تحت قهره. {ويفعلون ما يؤمرون}؛ أي: مهما أمرهم الله تعالى؛ امتثلوا لأمره طوعاً واختياراً. وسجود المخلوقات لله تعالى قسمان: سجودُ اضطرار ودلالةٍ على ما له من صفات الكمال، وهذا عامٌّ لكل مخلوق من مؤمنٍ وكافرٍ وبَرٍّ وفاجرٍ وحيوانٍ ناطقٍ وغيرِه. وسجودُ اختيارٍ يختصُّ بأوليائه وعباده المؤمنين من الملائكة وغيرهم من المخلوقات.
[50] ﴿ یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ﴾ ’’ڈر رکھتے ہیں وہ اپنے رب کا اپنے اوپر سے‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی کثرت اطاعت اور ان کے خشوع و خضوع پر ان کی مدح کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ سے ان کے خوف پر ان کی مدح فرمائی ہے، جو بالذات ان کے اوپر، ان پر غالب اور کامل اوصاف کا مالک ہے اور وہ اس کے دست قدرت کے تحت ذلیل اور مقہور ہیں ۔ ﴿ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ ’’جو ان کو ارشاد ہوتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی انھیں حکم دیتا ہے وہ خوشی اور پسندیدگی سے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے مخلوق کے سجدے کی دو اقسام ہیں ۔ (۱) سجدۂ اضطراری : یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اس سجدہ میں مومن اور کافر، نیک اور بد،انسان اور حیوان سب شامل ہیں ۔ (۲) سجدۂ اختیاری : جو اس کے اولیاء، اس کے مومن بندوں ، فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے مختص ہے۔
آیت: 51 - 55 #
{وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (51) وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ (52) وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ (53) ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (54) لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (55)}.
اور کہا اللہ نے، مت بناؤ تم معبود دو، یقینا وہ تو معبود ہے ایک ہی، سو مجھ ہی سے پس ڈرو تم (51) اور اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہےاوراسی کے لیے ہے اطاعت ہمیشہ، کیا پس غیر اللہ سے ڈرتے ہو تم؟ (52) اور جو کچھ تمھارے پاس ہے کوئی نعمت تو (وہ) اللہ ہی کی طرف سے ہے، پھر جب پہنچتی ہے تمھیں تکلیف تو اسی کی طرف آہ وزاری کرتے ہو تم (53) پھر جب وہ ہٹا دیتا ہے تکلیف تم سے تو اسی وقت ایک فریق تم میں سے اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگ جاتا ہے (54) تاکہ وہ ناشکری کریں ان (نعمتوں ) کی جو ہم نے دیں ان کو، سو تم فائدہ اٹھا لو، پس عنقریب تم جان لو گے (انجام) (55)
#
{51} يأمر تعالى بعبادته وحده لا شريك له، ويستدلُّ على ذلك بانفراده بالنعم [والوحدانية]، فقال: و {لا تتَّخذوا إلهين اثنين}؛ أي: تجعلون له شريكاً في إلهيَّته، وهو {إنَّما هو إلهٌ واحدٌ}: متوحِّد في الأوصاف العظيمة، متفرِّد بالأفعال كلِّها؛ فكما أنَّه الواحد في ذاته وأسمائِهِ ونعوته وأفعاله؛ فَلْتُوحِّدوه في عبادته، ولهذا قال: {فإيَّايَ فارْهَبونِ}؛ أي: خافوني، وامتثلوا أمري، واجتنبوا نهيي من غير أن تشركوا شيئاً من المخلوقات؛ فإنَّها كلها لله تعالى مملوكة.
[51] اللہ تعالیٰ صرف اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ وہی یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس پر وہ اس بات سے استدلال کرتا ہے کہ نعمتیں عطا کرنے والا صرف وہی اکیلا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ لَا تَتَّؔخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ ﴾ ’’نہ بناؤ تم معبود دو‘‘ یعنی تم ان کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔ ﴿ اِنَّمَا هُوَ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ﴾ ’’وہ صرف ایک ہی معبود ہے‘‘ وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں متفرد ہے۔ پس جس طرح وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور افعال میں ایک ہے، اسی طرح ان کو چاہیے کہ وہ عبادت میں بھی اس کو ایک مانیں ۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ فَاِیَّ٘ایَ فَارْهَبُوْنِ ﴾ ’’پس مجھ ہی سے ڈرو‘‘ میرے حکم کی تعمیل اور میرے نواہی سے اجتناب کرو اور میرے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ تمام مخلوق تو اللہ تعالیٰ کی مملوک ہے۔
#
{52} فـ {لَه ما في السموات والأرضِ وله الدِّينُ واصِباً}؛ أي: الدين والعبادة والذُّلُّ في جميع الأوقاتِ لله وحدَه على الخلق أن يُخْلِصوه لله ويَنْصَبِغوا بعبوديَّته. {أفغير الله تتَّقونَ}: من أهل الأرض أو أهل السماوات؛ فإنَّهم لا يملِكون لكم ضرًّا ولا نفعاً، والله المنفرد بالعطاء والإحسان.
[52] ﴿ وَلَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًا﴾ ’’اور اسی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہے ہمیشہ‘‘ یعنی اطاعت، عبادت اور تذلل دائمی طور پر ہر وقت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں اور اس کی عبودیت میں رنگے جائیں ۔ ﴿ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’کیا اللہ کے سوا اوروں سے تم ڈرتے ہو‘‘ زمین والوں میں سے یا آسمان والوں میں سے؟ وہ تمھارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ اپنی نوازشات اور احسانات میں یکتا ہے۔
#
{53} {وما بكم من نعمةٍ}: ظاهرةٍ وباطنةٍ {فمِنَ الله}: لا أحد يَشْرَكُه فيها، {ثم إذا مسَّكُم الضُّرُّ}: من فقر ومرض وشدَّة {فإليه تجأرونَ}؛ أي: تضجُّون بالدُّعاء والتضرُّع لعلمكم أنَّه لا يدفعُ الضرَّ والشدَّة إلاَّ هو؛ فالذي انفرد بإعطائكم ما تحبُّون، وصرف ما تكرهون، هو الذي لا تنبغي العبادة إلا له وحده.
[53] ﴿ وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ ﴾ ’’اور جو کچھ تمھارے پاس ہے نعمت‘‘ ظاہری اور باطنی ﴿ فَ٘مِنَ اللّٰهِ ﴾ ’’پس وہ اللہ کی طرف سے ہے‘‘ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو یہ نعمتیں عطا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی شریک ہو۔ ﴿ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّ٘رُّ ﴾ ’’پس جب پہنچتی ہے تمھیں کوئی تکلیف‘‘ یعنی محتاجی، بیماری یا کوئی اور مصیبت ﴿ فَاِلَیْهِ تَجْـَٔـرُوْنَ﴾ ’’تو تم اسی سے فریاد کرتے ہو۔‘‘ یعنی گڑگڑا کر آہ و زاری کرتے ہوئے دعا کرتے ہو کیونکہ تم جانتے ہو کہ نقصان اور مصیبت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا۔ پس وہ اللہ جو تمھاری پسندیدہ اشیاء عطا کرنے اور ناپسندیدہ امور کو تم سے دور کرنے میں متفرد (یکتا) ہے تو اس اکیلے کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں ۔
#
{54 ـ 55} ولكنَّ كثيراً من الناس يظلمون أنفسهم ويجحدون نعمةَ الله عليهم إذا نجَّاهم من الشدَّة ـ فصاروا في حال الرخاء ـ؛ أشركوا به بعض مخلوقاته الفقيرة، ولهذا قال: {ليكفروا بما آتيناهم}؛ أي: أعطيناهم؛ حيث نَجَّيْنَاهم من الشدة، وخلَّصناهم من المشقَّة. {فتمتَّعوا}: في دُنياكم قليلاً {فسوف تعلمونَ}: عاقبة كفرِكُم.
[55,54] مگر بہت سے لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ ان کو مصیبت سے نجات دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر حمدوثنا بیان کرتے ہیں ۔ مگر جب وہ آرام اور خوشحالی کی حالت میں آ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی محتاج مخلوق کو شریک ٹھہرا دیتے ہیں ، اسی لیے فرمایا: ﴿ لِیَكْ٘فُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ﴾ ’’تاکہ انکار کریں وہ اس چیز کا جو ہم نے ان کو دی‘‘ یعنی جو کچھ ہم نے انھیں عطا فرمایا۔ کیونکہ ہم ہی نے انھیں سختیوں سے نجات دلائی اور مشقت سے چھڑا یا۔ ﴿ فَتَمَتَّعُوْا﴾ ’’پس فائدہ اٹھا لو تم‘‘ اپنی دنیا میں تھوڑا سا۔ ﴿ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ﴾ تمھیں عنقریب اپنے کفر کا انجام معلوم ہو جائے گا۔
آیت: 56 - 60 #
{وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ (56) وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ (57) وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (59) لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (60)}.
اور ٹھہراتے ہیں وہ واسطے ان (معبودوں ) کے جن کی بابت وہ نہیں جانتے، ایک حصہ اس میں سے جو ہم نے رزق دیا انکو، قسم اللہ کی! ، البتہ ضرور پوچھے جاؤ گے تم اس چیز کی بابت جو تھے تم (اللہ پر) افترا باندھتے (56) اور ٹھہراتے ہیں وہ اللہ کے لیے بیٹیاں ، پاک ہے وہ (اولاد سے) اور ان کے لیے وہ ، جووہ چاہتے ہیں (یعنی بیٹے) (57) اور جب خوشخبری دی جاتی ہے ایک کو ان میں سے بیٹی کی (پیدائش کی) تو ہو جاتا ہے اس کاچہرہ سیاہ جبکہ وہ غم و غصہ سے بھرا ہوتا ہے (58) چھپتا پھرتا ہے لوگوں سے بوجہ اس عار کے کہ جو خوشخبری دیا گیا وہ ساتھ اس کے، کیا روک (باقی) رکھے اسے اوپر ذلت کے یا گاڑ (دبا) دے اس کو مٹی میں ؟ آگاہ رہو! بہت ہی برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں (59) ان لوگوں کے لیے جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آخرت کے ، مثال ہے بری اور اللہ کے لیے ہے مثال سب سے اونچی اور وہی ہے بڑا غالب، خوب حکمت والا (60)
#
{56} يخبر تعالى عن جهل المشركين وظلمهم وافترائهم على الله الكذب، وأنَّهم يجعلون لأصنامهم التي لا تعلمُ ولا تنفعُ ولا تضرُّ نصيباً مما رزقهم الله وأنعم به عليهم، فاستعانوا برزقِهِ على الشرك به، وتقرَّبوا به إلى أصنام منحوتةٍ؛ كما قال تعالى: {وجعلوا لله مما ذَرَأ من الحَرْث والأنعام نصيباً فقالوا هذا لله بزعمِهِم وهذا لشركائِنا فما كانَ لشرَكائِهِم فلا يَصِلُ إلى الله ... } الآية. {تالله لَتُسْألُنَّ عما كنتُم تفترون}: ويُقال: {آللهُ أمركم بهذا أم على الله تفترون}؟ وما ظنُّ الذين يفترون على الله الكذب يوم القيامة؟! فيعاقبهم على ذلك أشدَّ العقوبة.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت، ان کے ظلم اور اللہ تبارک و تعالیٰ پر ان کی افترا پردازی کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز وہ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے ان بتوں کو… جو کوئی علم رکھتے ہیں ، نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں … اس رزق میں حصہ دار بناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کیا اور جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق سے اس کا شریک بنانے میں مدد حاصل کی اور خود ساختہ اور گھڑے ہوئے بتوں کے تقرب کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس رزق کو پیش کرتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰؔذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهٰؔذَا لِشُ٘رَؔكَآىِٕنَا۠١ۚ فَمَا كَانَ لِشُ٘رَؔكَآىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِ … الآیۃ ﴾ (الانعام: 6؍ 136) ’’ان مشرکین نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کر دیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے خود ساختہ شریکوں کے لیے ہے پھر جو حصہ ان کے شریکوں کے لیے ہے، وہ اللہ تک نہیں پہنچتا…‘‘ ﴿ تَاللّٰهِ لَ٘تُ٘سْئَلُ٘نَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اللہ کی قسم! تم جو افترا پردازی کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔‘‘ فرمایا ﴿ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ ﴾ (یونس: 10؍59) ’’کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَمَا ظَ٘نُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ (یونس: 10؍60) ’’اور ان لوگوں کا کیا خیال ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ قیامت کے روز ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟‘‘ اس افترا پردازی پر انھیں سخت عذاب دیا جائے گا۔
#
{57 ـ 59} {ويجعلون لله البناتِ}: حيث قالوا عن الملائكةِ العبادِ المقرَّبين: إنَّهم بناتُ الله، {ولهم ما يشتهونَ}؛ أي: لأنفسهم الذُّكور، حتى إنهم يكرهون البنات كراهةً شديدةً؛ فكان أحدهم {إذا بُشِّرَ بالأنثى ظلَّ وجهُهُ مسودًّا}: من الغمِّ الذي أصابه، {وهو كظيمٌ}؛ أي: كاظم على الحزن والأسف إذ بُشِّرَ بأنثى، وحتى إنه يُفْتَضَح عند أبناء جنسه، ويتوارى منهم من سوء ما بُشِّرَ به، ثم يُعْمِلُ فكرَه ورأيَه الفاسد فيما يصنع بتلك البنت التي بُشِّرَ بها: {أيُمْسِكُه على هُوْنٍ}؛ أي: يتركها من غير قتل على إهانةٍ وذلٍّ، {أم يدسُّه في التُّراب}؛ أي: يدفنها وهي حيَّة، وهو الوأدُ الذي ذمَّ الله به المشركين. {ألا ساء ما يحكُمون}: إذ وصفوا الله بما لا يَليق بجلاله من نسبة الولد إليه، ثم لم يكفِهِم هذا حتى نسبوا له أردأ القسمين، وهو الإناث اللاتي يأنفون بأنفسهم عنها ويكرهونها؛ فكيف ينسبونها لله تعالى؟! فبئس الحكم حكمهم.
[59-57] ﴿ وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰؔنَهٗ﴾ ’’اور ٹھہراتے ہیں وہ اللہ کے لیے بیٹیاں ، وہ اس سے پاک ہے‘‘ کیونکہ انھوں نے فرشتوں کے بارے میں ، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں ، کہا تھا کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ﴿ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے لیے وہ ہے جو وہ چاہتے ہیں ‘‘ یعنی خود اپنے لیے بیٹے چاہتے ہیں حتیٰ کہ بیٹیوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ پس ان کا یہ حال تھا کہ ﴿ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا﴾ ’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری ملتی تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا‘‘ اس کرب و غم سے جو اس کو پہنچتا۔ ﴿ وَّهُوَؔ كَظِیْمٌ﴾ ’’اور وہ جی میں گھٹتا‘‘ یعنی جب اسے بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو وہ حزن و غم کے مارے خاموش ہو جاتا حتیٰ کہ وہ اس خبر سے اپنے ابنائے جنس میں اپنی فضیحت محسوس کرتا اور اس خبر پر وہ عار کی وجہ سے منہ چھپاتا پھرتا، پھر وہ اپنی اس بیٹی کے بارے میں جس کی اس کو خوش خبری ملتی، اپنی فکر اور فاسد رائے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہو جاتا کہ وہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے؟ ﴿ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ ﴾ ’’کیا اسے رہنے دے، ذلت قبول کر کے‘‘ یعنی آیا اہانت اور ذلت برداشت کر کے اسے قتل نہ کرے اور زندہ چھوڑ دے۔ ﴿اَمْ یَدُسُّهٗ فِی الـتُّ٘رَابِ﴾ ’’یا اس کو داب دے مٹی میں ‘‘ یعنی اسے زندہ دفن کر دے۔ یہی وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی سخت مذمت کی ہے۔ ﴿ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ ﴾ ’’خبردار، برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف کیا جو اس کے جلال کے لائق نہ تھیں ، یعنی اس کی طرف اولاد کو منسوب کرنا، پھر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دونوں قسموں میں سے اس بدتر قسم کو اللہ کی طرف منسوب کیا جس کو خود اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے اسے منسوب کر دیتے تھے؟ پس بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے۔
#
{60} ولما كان هذا من أمثال السَّوْء التي نسبها إليه أعداؤه المشركون؛ قال تعالى: {للذين لا يؤمنون بالآخرة مَثَلُ السَّوْء}؛ أي: المثل الناقص والعيب التامُّ. {ولله المَثَل الأعلى}: وهو كلُّ صفة كمال، وكلُّ كمال في الوجود فالله أحقُّ به من غير أن يستلزم ذلك نقصاً بوجه، وله المثل الأعلى في قلوب أوليائه، وهو التعظيم والإجلال والمحبَّة والإنابة والمعرفة. {وهو العزيزُ}: الذي قَهَرَ جميع الأشياء، وانقادت له المخلوقاتُ بأسرها. {الحكيمُ}: الذي يَضَعُ الأشياء مواضِعَها فلا يأمر ولا يفعل إلا ما يُحمد عليه، ويُثنى على كماله فيه.
[60] چونکہ یہ بری مثال تھی جس کو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں ، مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ﴾ ’’ان لوگوں کے واسطے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، بری مثال ہے‘‘ ناقص مثال اور کامل عیب ﴿ وَلِلّٰهِ الْ٘مَثَلُ الْاَعْلٰى ﴾ ’’اور اللہ کے لیے مثال ہے سب سے بلند‘‘ اس سے مراد ہر وصف کمال ہے اور تمام کائنات میں جو بھی صفت کمال پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے اور کسی بھی پہلو سے کسی نقص کو مستلزم نہیں ہے اور اس کے اولیاء کے دلوں میں بھی مثل اعلیٰ یعنی اس کی تعظیم، اجلال، محبت، اس کی طرف انابت اور اس کی معرفت جاگزیں ہے۔ ﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ﴾ ’’اور وہ زبردست ہے‘‘ جو تمام اشیاء پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے ﴿ الْحَكِیْمُ ﴾ ’’حکمت والا ہے‘‘ جو تمام اشیاء کو ان کے لائق محل و مقام پر رکھتا ہے۔ وہ جو بھی حکم دیتا ہے اور جو بھی فعل سرانجام دیتا ہے، اس پر اس کی ستائش کی جاتی ہے اور اس کے کمال پر اس کی ثنا بیان کی جاتی ہے۔
آیت: 61 #
{وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (61)}.
اور پکڑتا اللہ لوگوں کو بوجہ ان کے ظلم (کرنے) کے تو نہ چھوڑتا اوپر اس (زمین) کے کوئی چلنے والا (جاندار) لیکن وہ مہلت دیتا ہے ان کو ایک وقت مقرر تک، پھر جب آجاتا ہے وقت (مقرر) ان کا تو نہیں پیچھے رہ سکتے وہ لمحہ بھر اور نہ آگے ہی بڑھ سکتے ہیں (اس وقت سے) (61)
#
{61} لما ذكر تعالى ما افتراه الظالمون عليه؛ ذَكَرَ كمال حلمِهِ وصبرِهِ، فقال: {ولو يؤاخِذُ الله الناس بظلمِهِم}: من غير زيادة ولا نقص، {ما تَرَكَ} على ظهرها {من دابَّة}؛ أي: لأهلك المباشرين للمعصية وغيرهم من أنواع الدوابِّ والحيوانات؛ فإنَّ شؤم المعاصي يَهْلِكُ به الحرث والنسل. {ولكن يؤخِّرُهم}: عن تعجيل العقوبة عليهم، {إلى أجل مسمًّى}: وهو يوم القيامة. {فإذا جاء أجلُهم لا يستأخِرونَ ساعةً ولا يستقدِمونَ}: فليَحْذَروا ما داموا في وقتِ الإمهال قبل أن يجيء الوقتُ الذي لا إمهالَ فيه.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ظالموں کی افترا پردازی بیان کرنے کے بعد اپنا کامل حلم و صبر ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ﴾ ’’اگر پکڑے اللہ لوگوں کو ان کی بے انصافی پر‘‘ بغیر کسی کمی یا زیادتی کے ﴿ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآ بَّةٍ ﴾ ’’نہ چھوڑے وہ زمین پر ایک بھی چلنے والا‘‘ یعنی معصیت کا ارتکاب کرنے والوں کے علاوہ چوپایوں اور حیوانات میں سے بھی کچھ نہ بچتا کیونکہ گناہوں کی نحوست کھیتیوں اور نسل کو ہلاک کر دیتی ہے۔ ﴿ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّ٘رُهُمْ ﴾ ’’لیکن وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے‘‘ یعنی انھیں جلدی سزا نہیں دیتا بلکہ ایک مقرر مدت یعنی قیامت کے روز تک موخر کر دیتا ہے ﴿ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۠ ﴾ ’’پس جب ان کا مقرر وقت آجائے گا تو پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی نہ آگے سرک سکیں گے‘‘ اس لیے جب تک انھیں مہلت کا وقت حاصل ہے، اس سے پہلے کہ وہ وقت آن پہنچے جب کوئی مہلت نہ ہو گی، انھیں ڈر جانا چاہیے۔
آیت: 62 - 63 #
{وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَى لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ (62) تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (63)}.
اور وہ ٹھہراتے ہیں اللہ کے لیے وہ چیز کہ وہ (خود اسے) ناپسند کرتے ہیں اور بیان کرتی ہیں زبانیں ان کی جھوٹ، کہ بے شک ان کے لیے اچھا (انجام) ہے، یقینا بلاشبہ ان کے لیے آگ ہے اور بلاشبہ وہ (اس میں ) سب سے آگے بھیجے جائیں گے (62) قسم اللہ کی! البتہ تحقیق بھیجے ہم نے (رسول) طرف کئی امتوں کی آپ سے پہلے، پس آراستہ کر دیے ان کے لیے شیطان نے اعمال ان کے، سو وہی (شیطان) دوست ہے ان کا آج بھی اور ان کے لیے عذاب ہے بہت درد ناک (63)
#
{62} يخبر تعالى أنَّ المشركين {يجعلون لله ما يكرهون}: من البنات ومن الأوصاف القبيحة، وهو الشرك؛ بصرف شيء من العبادات إلى بعض المخلوقات التي هي عبيدٌ لله؛ فكما أنهم يكرهون ولا يرضَوْن أن يكونَ عبيدُهم ـ وهم مخلوقون من جنسِهم ـ شركاءَ لهم فيما رزقهم الله؛ فكيف يَجْعَلون له شركاءَ من عبيده؟ {و}: هم مع هذه الإساءة العظيمةِ، {تَصِفُ ألسنتُهم الكَذِبَ أنَّ لهم الحسنى}؛ أي: أن لهم الحالة الحسنة في الدنيا والآخرة؛ ردَّ عليهم بقوله: {لا جَرَمَ أنَّ لهم النارَ وأنَّهم مُفْرَطونَ}: مقدمون إليها، ماكثون فيها، غير خارجين منها أبداً.
[62] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے: ﴿ وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَؔكْرَهُوْنَ ﴾ ’’اور وہ کرتے ہیں اللہ کے لیے وہ، جسے خود پسند نہیں کرتے‘‘ یعنی خود بیٹیوں اور دیگر اوصاف قبیحہ کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اس سے مراد شرک ہے، یعنی عبادات میں بعض ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی غلام ہیں … جس طرح ان کو یہ پسند نہیں کہ ان کے غلام… حالانکہ وہ بھی انھی جیسی مخلوق ہیں … اس رزق میں ان کے برابر کے شریک ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، پھر وہ بعض مخلوق ہستیوں کو کیسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی غلام ہیں ۔ ﴿ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى﴾ ’’اور ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے‘‘ وہ اس عظیم برائی کے ساتھ ساتھ یہ جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ ﴾ ’’یقینا ان کے لیے آگ ہے اور وہ (اس کی طرف) بڑھائے جارہے ہیں ‘‘ یعنی وہ جہنم میں داخل ہوں گے، جہنم میں رہیں گے اور اس سے کبھی نہیں نکلیں گے۔
#
{63} بين تعالى لرسوله - صلى الله عليه وسلم - أنه ليس هو أول رسول كُذِّب، فقال تعالى: {تاللهِ لقد أرسَلْنا إلى أمم من قبلِكَ}: رسلاً يدعونَهم إلى التوحيد، {فزيَّنَ لهم الشيطانُ أعمالَهم}: فكذَّبوا الرسل، وزعموا أنَّ ما هم عليه هو الحقُّ المنجِّي من كلِّ مكروه، وأنَّ ما دعت إليه الرسل؛ فهو بخلاف ذلك، فلما زيَّن لهم الشيطان أعمالَهم؛ صار {وليُّهم}: في الدنيا، فأطاعوه واتَّبعوه وتولَّوْه، {أفتتَّخِذونَهُ وذُرِّيَّتَهُ أولياء من دوني وهم لكم عدوٌّ بئسَ للظالمينَ بدلاً}. {ولهم عذابٌ أليمٌ}: في الآخرة؛ حيث تولَّوا عن ولاية الرحمن ورَضُوا بولاية الشيطان، فاستحقُّوا لذلك عذاب الهوان.
[63] اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے رسولe کے سامنے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پہلے رسول نہیں ہیں جن کو جھٹلایا گیا ہے۔ ﴿ تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’اللہ کی قسم! ہم نے آپ سے پہلے، مختلف امتوں کی طرف رسول بھیجے۔‘‘ ایسے رسول، جو انھیں توحید کی دعوت دیتے تھے۔ ﴿ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَعْمَالَهُمْ ﴾ ’’پس اچھے کر کے دکھلائے ان کو شیطان نے ان کے کام‘‘ پس انھوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور انھوں نے یہ باطل گمان کیا کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہی حق اور ہر دکھ سے نجات دینے والا ہے اور جس راستے کی طرف انبیاء و رسل بلاتے ہیں وہ اس کے برعکس ہے۔ پس جب شیطان نے ان کے سامنے ان کے اعمال مزین کر دیے ﴿ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ ﴾ ’’تو وہ آج ان کا دوست ہے‘‘ دنیا میں ۔ پس وہ اس کی اطاعت کرنے لگے اور انھوں نے اس کو اپنا دوست بنا لیا۔ ﴿ اَفَتَتَّؔخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ١ؕ بِئْ٘سَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا﴾ (الکھف: 18؍50) ’’کیا تم اسے اور اس کی ذریت کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں اور یہ ظالموں کے لیے بہت برا بدل ہے۔‘‘ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور (آخرت میں) ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ کیونکہ وہ اللہ رحمان کی دوستی سے منہ موڑ کر شیطان کی دوستی پر راضی ہو گئے۔ بنا بریں وہ رسوا کن عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
آیت: 64 - 65 #
{[وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (64)]}. {وَاللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (65)}.
اور نہیں نازل کی ہم نے آپ پر کتاب (قرآن) مگر تاکہ آپ بیان کریں واسطے ان لوگوں کے وہ چیز کہ اختلاف کیا انھوں نے اس میں اور(تاکہ ہو) ہدایت اوررحمت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (64) اور اللہ نے نازل کیا آسمان سے پانی ، پھر زندہ کیا اس نے ساتھ اس کے زمین کو بعد اس کی موت کے، بے شک اس میں ، البتہ نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں (غور سے) (65)
#
{65} عن الله مواعظه وتذكيره، فيستدلُّون بذلك على أنَّه وحده المعبود، الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له وحده؛ لأنَّه المنعم بإنزال المطر وإنبات جميع أصناف النبات، وعلى أنه على كلِّ شيءٍ قديرٌ، وأنَّ الذي أحيا الأرض بعد موتها قادرٌ على إحياء الأموات، وأن الذي نشر هذا الإحسان لذو رحمةٍ واسعةٍ وجودٍ عظيمٍ.
[65] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سب سے بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعظ و تذکیر کو سمجھیں اور وہ اس حقیقت پر استدلال کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ بارش نازل کر کے اور مختلف اصناف کی نباتات اگا کر بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس پر بھی استدلال کریں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کیا، وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اور وہ ہستی جس نے ان احسانات کو عام کیا ہے، وہ بے کراں رحمت اور عظیم سخاوت کی مالک ہے۔
آیت: 66 - 67 #
{وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ (66) وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (67)}
اور بے شک تمھارے لیے چوپایوں میں ، البتہ غور کا سامان ہے، ہم پلاتے ہیں تمھیں اس میں سے جو پیٹوں میں ہے ان کے (یعنی) درمیان میں سے گوبر اورخون کے، دودھ خالص، آسانی سے گزر جانے والا ہے حلق سے واسطے پینے والوں کے (66) اور کچھ پھلوں میں سے کھجوروں اور انگوروں کے (وہ ہیں کہ) بناتے ہو تم اس میں سے نشہ (آور شراب) اور رزق اچھا، بلاشبہ اس میں ، البتہ نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں (67)
#
{66} أي: {إنَّ لكُم في الأنعام}: التي سخَّرها الله لمنافعكم، {لعبرةً}: تستدلُّون بها على كمال قدرة الله وسعة إحسانه؛ حيث أسقاكم من بطونها المشتملة على الفَرْث والدَّم، فأخرج من بين ذلك لبناً خالصاً من الكدر سائغاً للشاربين للذَّته ولأنه يُسقي ويغذي؛ فهل هذه إلاَّ قدرة إلهيَّة لا أمور طبيعيَّة؟! فأي شيء في الطبيعة يقلب العلف الذي تأكُلُه البهيمة والشراب الذي تشربه من الماء العذب والملح لبناً خالصاً سائغاً للشاربين؟!
[66] ﴿ وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ﴾ ’’اور بے شک تمھارے لیے چوپایوں میں ‘‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے فوائد کے لیے مسخر کیا ﴿ لَعِبْرَةً﴾ ’’سوچنے کی جگہ ہے‘‘ جس سے تم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور وسعت احسان پر استدلال کر سکتے ہو کیونکہ اس نے تمھیں ان مویشیوں کے پیٹ سے (دودھ) پلایا جس کا مادہ گوبر اور خون پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گوبر اور خون سے ایسا دودھ نکالا جو ہر قسم کی آلائش سے پاک اور اپنی لذت کی بنا پر پینے والوں کے لیے انتہائی خوش ذائقہ ہے، نیز یہ کہ اس کو پیا جاتا ہے اور اس سے غذا حاصل کی جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ طبیعی امور کی بجائے قدرت الٰہیہ نہیں ہے؟ اس عالم طبیعیات میں کون سی چیز ہے جو اس چارے کو جسے چوپائے کھاتے ہیں اور اس میٹھے یا کھارے پانی کو جسے یہ چوپائے پیتے ہیں ، پینے والوں کے لیے خالص اور لذیذ دودھ میں بدل دیتی ہے۔
#
{67} وجعل تعالى لعباده من ثمرات النخيل والأعناب منافع للعباد ومصالح من أنواع الرزق الحسن الذي يأكُلُه العباد طريًّا ونضيجاً وحاضراً ومدَّخراً وطعاماً وشراباً يُتَّخَذُ من عصيرها ونبيذها ومن السَّكَر الذي كان حلالاً قبل ذلك، ثمَّ إن الله نَسَخَ حِلَّ المسكرات وأعاض عنها بالطيِّبات من الأنبذة وأنواع الأشربة اللذيذة المباحة، ولهذا قال من قال: إنَّ المراد بالسَّكَر هنا الطعام والشراب اللذيذ، وهو أولى من القول الأول. {إنَّ في ذلك لآية لقوم يعقلونَ}: عن الله كمال اقتداره؛ حيث أخرجها من أشجارٍ شبيهةٍ بالحطب، فصارت ثمرةً لذيذةً وفاكهةً طيبةً، وعلى شمول رحمته؛ حيث عمَّ بها عباده، ويسَّرها لهم، وأنَّه الإله المعبود وحَده؛ حيثُ إنه المنفردُ بذلك.
[67] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کھجور اور انگور پیدا کیے، نیز بندوں کے فوائد کے لیے رزق حسن کی مختلف انواع پیدا کی ہیں جن کو وہ تازہ بتازہ اور ان کے پکنے کے بعد کھاتے ہیں ، انھیں ذخیرہ کرتے ہیں ، انھیں کھانے پینے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں ، ان سے رس نچوڑ کر نبیذ اور دیگر نشہ آور مشروبات بناتے ہیں جو اس سے قبل ان کے لیے حلال تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمام نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض انھیں پھلوں سے نچوڑے ہوئے پاک و صاف رس، نبیذ اور مختلف اقسام کے لذیذ اور مباح مشروبات عطا کیے۔ اس لیے جن مفسرین کا قول یہ ہے کہ ’’یہاں نشہ آور چیزوں سے مراد، لذیذ مطعومات و مشروبات ہیں ‘‘ وہ پہلے قول سے زیادہ قرین صواب ہے۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾ ’’جو لوگ عقل رکھتے ہیں ان کے لیے ان (چیزوں ) میں نشانی ہے۔‘‘ یعنی اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اس کی قدرت کاملہ کو خوب سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے درختوں پر ایندھن سے مشابہت رکھنے والی چیزیں پیدا کیں جو ایک لذید پھل اور خوش ذائقہ میوہ بن جاتی ہیں ۔ اس کی رحمت عام اور بے پایاں ہے جو اس کے تمام بندوں پر سایہ کناں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس رحمت کو سب کے لیے آسان کر دیا… نیز وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے کیونکہ ان نعمتوں کو عطا کرنے میں وہ یکتا ہے۔
آیت: 68 - 69 #
{وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ (68) ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (69)}.
اور الہام کیا آپ کے رب نے شہد کی مکھی کو یہ کہ بنا تو پہاڑوں میں گھر اوردرختوں میں اور ان میں جو (بلند)چھتریاں بناتے ہیں لوگ (68) پھر کھا تو (یعنی رس چوس) ہر قسم کے پھلوں سے، پھر چل تو راستوں پر اپنے رب کے ، آسان کیے ہوئے، نکلتی ہے ان کے پیٹوں سے پینے کی چیز (شہد) مختلف ہیں رنگ اس کے ، اس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے ، بلاشبہ اس میں ، البتہ نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں (69)
#
{68 ـ 69} في خلق هذه النَّحلة الصغيرة، التي هداها الله هذه الهداية العجيبة، ويَسَّر لها المراعي، ثم الرجوع إلى بيوتها التي أصلحتها بتعليم الله لها وهدايته لها، ثم يخرج من بطونها هذا العسل اللذيذ مختلف الألوان بحسب اختلاف أرضها ومراعيها؛ فيه شفاء للناس من أمراض عديدة؛ فهذا دليلٌ على كمال عناية الله تعالى وتمام لطفه بعباده، وأنَّه الذي لا ينبغي أن يُحَبَّ غيره، ويُدْعى سواه.
[69,68] اس چھوٹی سی شہد کی مکھی میں بھی غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طریقے سے راہنمائی کی اور اسے (پھولوں کا رس چوسنے کے لیے) پھلواریاں مہیا کیں ، پھر ان گھروں کی طرف واپس لوٹنے کے لیے وحی کی جو اس نے اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے تیار کیے تھے۔ وہ شہد کی اس مکھی کے پیٹ سے نہایت لذیذ شہد نکالتا ہے جو زمین اور پھلواری کے مطابق مختلف رنگوں کا ہوتا ہے۔ شہد میں لوگوں کے لیے متعدد امراض سے شفا رکھ دی گئی ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی لامحدود عنایت اور اپنے بندوں پر اس کے کامل لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے سوا کسی سے محبت کی جائے نہ اس کے سوا کسی کو پکارا جائے۔
آیت: 70 #
{وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (70)}.
اور اللہ نے پیدا کیا تمھیں ، پھر وہ وفات دیتا ہے تمھیں اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو لوٹائے جاتے ہیں طرف ناکارہ عمر کی تاکہ نہ جانیں وہ، بعد جان لینے کے، کچھ بھی۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا، نہایت قدرت والا ہے (70)
#
{70} يخبر تعالى أنه الذي خَلَقَ العباد ونقلهم في الخليقة طوراً بعد طور، ثم بعد أن يستكملوا آجالهم يتوفَّاهم، ومنهم من يُعَمِّرُهُ حتى يُرَدَّ {إلى أرذل العُمُر}؛ أي: أخسّه، الذي يبلغ به الإنسان إلى ضَعْف القوى الظاهرة والباطنة، حتى العقل الذي هو جوهر الإنسان يزيد ضَعْفُهُ، حتى إنَّه ينسى ما كان يعلمه، ويصير عقلُهُ كعقل الطفل، ولهذا قال: {لِكَيْ لا يعلم بعدَ علم شيئاً إنَّ الله عليمٌ قديرٌ}؛ أي: قد أحاط علمه وقدرته بجميع الأشياء، ومن ذلك ما يُنَقِّلُ به الآدميَّ من أطوار الخلقة خلقاً بعد خلقٍ؛ كما قال تعالى: {الله الذي خَلَقَكُم من ضَعْفٍ ثم جعل من بعدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثم جعل من بعد قُوَّةٍ ضعفاً وشيبةً يَخْلُقُ ما يشاء وهو العليم القديرُ}.
[70] اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہی ہے جس نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کو تخلیق کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل کیا اور جب وہ اپنی مدت مقررہ پوری کر لیتے میں تو اللہ تعالیٰ ان کو وفات دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ طویل عمر عطا کرتا ہے حتیٰ کہ ﴿ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْ٘عُمُرِ ﴾ ’’اس کو بدترین عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے‘‘ اس عمر میں انسان ظاہری اور باطنی قوی کی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے یہاں تک کہ عقل بھی، جو کہ انسان کا جوہر ہے، اس سے متاثر ہوتی ہے، اس کی عقل کی کمزوری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ ان تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے جو اسے معلوم تھیں ، اس کی عقل بچے کی عقل کی مانند ہو جاتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ لِكَؔیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْـًٔؔا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ ﴾ ’’تاکہ سمجھنے کے بعد اب کچھ نہ سمجھے، اللہ تعالیٰ جاننے والا، قدرت والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کے دست قدرت کے تحت ہی ہے کہ آدمی تخلیق کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُ٘وَّ٘ةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُ٘وَّ٘ةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً١ؕ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ١ۚ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ ﴾ (الروم: 30؍54) ’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمھیں کمزور حالت میں پید کیا پھر کمزوری کے بعد اس نے تمھیں قوت عطا کی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دے دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ علم اور قدرت والا ہے۔‘‘
آیت: 71 #
{وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (71)}.
اور اللہ نے فضیلت دی تمھارے بعض کو اوپر بعض کے رزق میں ، پس نہیں ہیں وہ لوگ جو فضیلت دیے گئے (رزق میں ) لوٹانے والے اپنا رزق اوپر ان (غلاموں ) کے کہ مالک ہیں (جن کے) دائیں ہاتھ ان کے، کہ ہو جائیں وہ اس (رزق میں ) میں (ایک دوسرے کے) برابر، کیا پس اللہ کی نعمت کا وہ انکار کرتے ہیں ؟(71)
#
{71} وهذا من أدلة توحيده وقبح الشرك به؛ يقول تعالى: كما أنكم مشتركون بأنَّكم مخلوقون مرزوقون؛ إلاَّ أنَّه تعالى {فضَّلَ بعضَكم على بعض في الرزق}: فجعل منكم أحراراً لهم مالٌ وثروةٌ، ومنكم أرقَّاء لهم لا يملكونَ شيئاً من الدنيا؛ فكما أن سادتهم الذين فضَّلهم الله عليهم بالرزق ليسوا {برادِّي رزقِهِم على ما مَلَكَتْ أيمانُهم فهم فيه سواءٌ}: ويرون هذا من الأمور الممتنعة؛ فكذلك مَنْ أشركتُم بها مع الله؛ فإنَّها عبيدٌ ليس لها من الملك مثقال ذَرَّةٍ؛ فكيف تجعلونها شركاء لله تعالى؟! هل هذا إلاَّ مِنْ أعظم الظُّلم والجحود لنعم الله، ولهذا قال: {أفبنعمةِ الله يَجْحَدُونَ}؛ فلو أقرُّوا بالنعمة ونسبوها إلى مَنْ أولاها؛ لما أشركوا به أحداً.
[71] یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل اور شرک کی قباحت پر برہان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب اس بات میں مشترک ہو کہ تم مخلوق اور مرزوق ہو ﴿ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ﴾ ’’ (البتہ اللہ تعالیٰ نے) رزق کے معاملے میں تمھیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے‘‘ تم میں سے بعض کو آزاد بنایا، ان کو مال و دولت اور ثروت سے نوازا اور تم میں بعض کو ان کا غلام بنا دیا، وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور جس طرح ان غلاموں کے وہ آقا جن کو اللہ تعالیٰ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ ﴿ بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَؔآءٌ ﴾ ’’وہ روزی پہنچانے والے نہیں ان کو جن کے ان کے دائیں ہاتھ مالک ہوئے کہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں ‘‘ اور وہ اس امر کو محال سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح وہ ہستیاں جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں وہ کسی ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں … پھر تم ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک کیسے ٹھہراتے ہو؟ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار نہیں ؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ﴾ ’’کیا پس وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ؟‘‘ اگر انھوں نے ان نعمتوں کا اقرار کیا ہوتا اور ان کو اس ہستی کی طرف منسوب کیا ہوتا جو اس کی مستحق ہے تو یہ کبھی شرک نہ کرتے۔
آیت: 72 #
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ (72)}.
اور اللہ نے بنائیں واسطے تمھارے تم ہی میں سے بیویاں اور اسی نے بنائے واسطے تمھارے تمھاری بیویوں سے بیٹے اور پوتےاور اسی نے رزق دیا تمھیں پاکیزہ (نفیس) چیزوں سے، کیا ، پھر بھی باطل پر تو وہ ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی وہ ناشکری کرتے ہیں ؟ (72)
#
{72} يخبر تعالى عن منَّته العظيمة على عباده؛ حيث جعل لهم أزواجاً ليسكنُوا إليها، وجعل لهم من أزواجهم أولاداً تَقَرُّ بهم أعينُهم ويخدِمونهم ويقضونَ حوائِجَهم وينتفعونَ بهم من وجوهٍ كثيرةٍ، ورزَقَهم من الطيبات من المآكل والمشارب والنِّعم الظاهرة التي لا يقدِرُ العبادُ أن يُحْصوها. {أفبالباطلِ يؤمنونَ وبنعمةِ الله هم يكفُرون}؛ أي: أيؤمنون بالباطل الذي لم يكن شيئاً مذكوراً، ثم أوجَدَه الله، وليس له من وجوده سوى العدم؟ فلا تَخْلُقُ ولا تَرْزُقُ ولا تدبِّرُ من الأمور شيئاً، وهذا عامٌّ لكلِّ ما عُبِدَ من دون الله؛ فإنَّها باطلةٌ؛ فكيف يتَّخذها المشركون من دون الله. {وبنعمة الله هم يكفرون}: يجحَدونها، يستعينون بها على معاصي الله والكفر به، هل هذا إلاَّ من أظلم الظُّلم وأفجر الفجور وأسفه السَّفَه؟!
[72] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان عظیم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ان کی بیویاں بنائیں تاکہ وہ ان بیویوں کے پاس سکون حاصل کریں اور ان بیویوں سے ان کو اولاد عطا کی تاکہ ان سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ، یہ اولاد ان کی خدمت کرے اور ان کی مختلف حوائج پوری کرے اور وہ متعدد پہلوؤوں سے اپنی اولاد سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو پاک مطعومات و مشروبات سے نوازا اور دیگر ظاہری نعمتیں عطا کیں جن کو شمار کرنا بندوں کے بس میں نہیں ۔ ﴿اَفَبِالْبَاطِلِ۠ یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’کیا پس وہ باطل کو مانتے ہیں ؟‘‘ یعنی کیا یہ لوگ باطل پر ایمان رکھتے ہیں جو کوئی قابل ذکر چیز تھا ہی نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود عطا کیا اور اس کا وجود عدم کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ پس یہ باطل معبود تخلیق، رزق اور تدبیر کسی چیز پر بھی قادر نہیں اور یہ بات ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے کیونکہ وہ باطل ہے۔ تب مشرکین اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو معبود کیسے بنا لیتے ہیں ؟ ﴿ وَبِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ یَكْ٘فُ٘رُوْنَ﴾ ’’اور وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور کفر میں اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم، سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی حماقت نہیں ؟
آیت: 73 - 76 #
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ (73) فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (74) ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (75) وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (76)}.
اور عبادت کرتے ہیں وہ سوائے اللہ کے ان کی کہ نہیں اختیار رکھتے وہ ان کے لیے رزق کا آسمانوں سے اور زمین سے کچھ بھی اور نہ وہ (اس کی) استطاعت ہی رکھتے ہیں (73)پس مت بیان کروتم اللہ کے لیے مثالیں ، بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے(74) بیان کی اللہ نے ایک مثال، ایک غلام مملوک کی، نہیں قدرت رکھتا وہ اوپر کسی چیزکےاور(دوسرا) وہ شخص کہ دیا ہم نے اسے اپنی طرف سے رزق اچھا، پس وہ خرچ کرتا ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر اور ظاہر (بھی)، کیا وہ دونوں برابر ہیں ؟ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہےبلکہ اکثر ان کے نہیں جانتے(75) اور بیان کی اللہ نے ایک (اور) مثال دو مردوں کی، ایک ان میں سے گونگا ہے، نہیں قدرت رکھتا روہ اوپر کسی چیز کےاور وہ (نرا) بوجھ ہے اوپر اپنے مالک کے، جہاں کہیں وہ بھیجتا ہے اسے نہیں لاتا کوئی بھلائی، کیا برابر ہے وہ اور (دوسرا) وہ شخص جو حکم درتا ہے ساتھ انصاف کےاور ہے وہ اوپر راہ راست کے؟ (76)
#
{73 ـ 74} يخبر تعالى عن جهل المشركين وظلمهم، أنَّهم يعبدون من دونه آلهة اتَّخذوها شركاءَ لله، والحال أنَّهم لا يملكون لهم رزقاً من السماوات والأرض؛ فلا يُنْزِلون مطراً ولا رزقاً، ولا يُنْبِتون من نبات الأرض شيئاً، ولا يملِكون مثقال ذرَّةٍ في السماواتِ والأرض، ولا يستطيعون لو أرادوا؛ فإنَّ غير المالك للشيء ربَّما كان له قوَّة واقتدارٌ على ما ينفع من يتَّصل به، وهؤلاء لا يملكون ولا يقدرون؛ فهذه صفة آلهتهم؛ كيف جعلوها مع الله وشبَّهوها بمالك الأرض والسماوات الذي له الملك كلُّه والحمد كلُّه والقوة كلُّها، ولهذا قال: {فلا تضرِبوا لله الأمثالَ}: المتضمِّنة للتسوية بينه وبين خلقه. {إنَّ الله يعلمُ وأنتمُ لا تعلمونَ}: فعلينا أن لا نقولَ عليه بلا علم، وأن نسمعَ ما ضَرَبُه العليم من الأمثال؛ فلهذا ضَرَبَ تعالى مَثَلَيْنِ له ولمن يُعْبَدُ من دونِهِ:
[74,73] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت اور ان کے ظلم کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جن کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیا ہے اور ان باطل معبودوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان کے لیے زمین و آسمان میں رزق کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ بارش برسا سکتے ہیں نہ رزق عطا کر سکتے ہیں اور نہ ہی زمین میں نباتات اگا سکتے ہیں ، وہ زمین و آسمان میں کسی ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں بلکہ اگر وہ چاہیں بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں بن سکتے کیونکہ بسا اوقات کسی چیز کا غیر مالک بھی اس چیز پر، جو نفع دے سکتی ہو، قدرت اور اختیار رکھتا ہے… مگر یہ خود ساختہ معبود کسی چیز کے مالک ہیں نہ قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ ہیں ان کے خود ساختہ معبودوں کے اوصاف، کیسے انھوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا لیا، مالک ارض و سماء کے ساتھ تشبیہ دے دی جو تمام تر اقدار کا مالک، ہر قسم کی حمد و ثنا کا مستحق ہے اور تمام قوت اسی کے پاس ہے؟ اسی لیے فرمایا: ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ﴾ ’’اللہ کے لیے مثالیں بیان مت کرو‘‘ جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان مساوات کو متضمن ہیں ۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلا علم کوئی بات نہ کہیں اور ان مثالوں کو غور سے سنیں جن کو اللہ علیم و خبیر نے بیان کیا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو مثالیں بیان کی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ۔
#
{75} أحدهما: عبدٌ مملوكٌ؛ أي: رقيق لا يملك نفسَه ولا يملكُ من المال والدُّنيا شيئاً، والثاني: حرٌّ غنيٌّ قد رزقه الله منه رزقاً حسناً من جميع أصناف المال، وهو كريمٌ محبٌّ للإحسان؛ فهو ينفِقُ منه سرًّا وجهراً؛ هل يستوي هذا وذاك؟! لا يستويانِ؛ مع أنَّهما مخلوقان، غير محال استواؤُهما؛ فإذا كانا لا يستويان؛ فكيف يستوي المخلوقُ العبدُ الذي ليس له ملكٌ ولا قدرةٌ ولا استطاعةٌ، بل هو فقير من جميع الوجوه، بالربِّ الخالق المالك لجميع الممالك، القادر على كلِّ شيءٍ؟! ولهذا حمد نفسه واختصَّ بالحمدِ بأنواعه، فقال: {الحمدُ لله}: فكأنَّه قيلَ: إذا كان الأمرُ كذلك؛ فلم سوَّى المشركون آلهتهم بالله؟! قال: {بل أكثرُهم لا يعلمونَ}: فلو علموا حقيقة العلم؛ لم يتجرَّؤوا على الشرك العظيم.
[75] پہلی مثال ایک غلام کی ہے جو کسی دوسرے کی غلامی میں ہے جو مال کا مالک ہے نہ دنیا کی کسی چیز کا جبکہ دوسرا ایک آزاد اور دولت مند شخص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال کی تمام اصناف میں سے بہترین رزق سے نوازا ہے وہ سخی اور بھلائی کو پسند کرنے والا شخص ہے۔ وہ اس مال میں سے کھلے چھپے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ مرد آزاد اور وہ غلام برابر ہو سکتے ہیں ؟ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں اور ان کے درمیان مساوات محال نہیں ہے۔ پس جب یہ دونوں مخلوق ہوتے ہوئے برابر نہیں ہو سکتے تو ایک مخلوق اور غلام ہستی، جو کسی چیز کی مالک ہے نہ کوئی قدرت اور اختیار رکھتی ہے بلکہ وہ ہر لحاظ سے محتاج ہے، رب تعالیٰ کے برابر کیسے ہو سکتی ہے جو تمام سلطنتوں کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی اور حمد و ستائش کی تمام انواع سے اپنے آپ کو متصف کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ﴾ ’’تمام تعریف اللہ کے لیے ہے‘‘ گویا کہ یوں کہا گیا کہ جب معاملہ یہ ہے تو مشرکین نے اپنے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کیوں ٹھہرا دیا؟ اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’بلکہ ان کے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے‘‘ پس اگر انھیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اس شرک عظیم کے ارتکاب کی کبھی جرأت نہ کرتے۔
#
{76} والمثل الثاني: مَثَلُ {رجلين أحدُهما أبكمُ}: لا يسمعُ ولا ينطِقُ، و {لا يقدِرُ على شيءٍ}: لا قليل ولا كثير، {وهو كَلٌّ على مولاه}؛ أي: يخدمه مولاه ولا يستطيع هو أن يخدِمَ نفسه؛ فهو ناقصٌ من كلِّ وجه، فهل يَسْتَوي هذا ومَنْ كان {يأمُرُ بالعدل وهو على صراطٍ مستقيم}: فأقوالُهُ عدلٌ وأفعاله مستقيمةٌ؛ فكما أنهما لا يستويان؛ فلا يستوي مَنْ عُبِدَ من دون الله وهو لا يقدِرُ على شيء من مصالحه؛ فلولا قيامُ الله بها؛ لم يستطعْ شيئاً منها، لا يكون كفواً ولا ندًّا لمن لا يقولُ إلاَّ الحقَّ، ولا يفعلُ إلاَّ ما يُحْمَدُ عليه.
[76] دوسری مثال یہ ہے ﴿ رَّجُلَیْ٘نِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ ﴾ ’’دو آدمی ہیں ، ایک ان میں سے گونگا ہے‘‘ جو سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے ﴿ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ ﴾ ’’جو (قلیل یا کثیر) کسی چیز پر قادر نہیں ‘‘ ﴿ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰ٘ىهُ﴾ ’’اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے‘‘ وہ خود اپنی خدمت کرنے پر قادر نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کا مالک اس کی خدمت کرتا ہے اور وہ ہر لحاظ سے ناقص ہے۔ ﴿ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَمَنْ یَّ٘اْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’کیا برابر ہے وہ اور ایک وہ شخص جو انصاف کے ساتھ حکم کرتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر ہے‘‘ پس اس کے اقوال عدل پر مبنی اور اس کے افعال درست ہیں تو جس طرح یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے، اسی طرح وہ ہستی جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے درآں حالیکہ وہ اپنے مصالح پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ اس کے مصالح کا انتظام نہ کرے تو وہ ان میں سے کسی چیز پر بھی قادر نہیں ۔ ایسا شخص اس شخص کی برابری کر سکتا ہے نہ اس کا ہمسر ہو سکتا ہے جو حق کے سوا کچھ نہیں بولتا اور وہ صرف وہی فعل سرانجام دیتا ہے جو قابل ستائش ہے۔
آیت: 77 #
{وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (77)}.
اور اللہ ہی کے لیے غیب آسمانوں اور زمین کااور نہیں ہے معاملہ قیامت کا مگر مانند جھپکنے آنکھ کے یا (بلکہ) وہ اس سے بھی قریب تر ہے، بے شک اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے (77)
#
{77} أي: هو تعالى المنفرد بغيبِ السماوات والأرض؛ فلا يعلم الخفايا والبواطنَ والأسرارَ إلاَّ هو، ومن ذلك علمُ الساعة؛ فلا يدري أحدٌ متى تأتي إلا اللهُ؛ فإذا جاءت وتجلَّت؛ لم تكنْ {إلاَّ كلمح البصرِ أو هو أقربُ}: من ذلك، فيقومُ الناس من قبورِهم إلى يوم بعثِهِم ونُشورِهم، وتفوتُ الفرصُ لمَنْ يريد الإمهال. {إنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فلا يُستغرب على قدرته الشاملة إحياؤه للموتى.
[77] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کا علم رکھنے میں منفرد اور یکتا ہے، پس چھپی ہوئی باطن کی باتیں اور اسرارنہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، قیامت کی گھڑی کا علم بھی اسی زمرے میں آتا ہے، چنانچہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی۔ جب قیامت کی گھڑی نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی تو یہ ﴿ اِلَّا كَ٘لَ٘مْحِ الْ٘بَصَرِ اَوْ هُوَ اَ٘قْ٘رَبُ﴾ ’’آنکھ جھپکنے یا اس سے بھی کم وقت میں آ جائے گی۔‘‘ پس لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور محشر کی طرف دوڑیں گے اور جو لوگ مہلت چاہیں گے ان کے لیے مہلت کا وقت ختم ہو جائے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے، جو ہر چیز کو شامل ہے، مردوں کو زندہ کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ۔
آیت: 78 #
{وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (78)}.
اور اللہ نے نکالا تمھیں پیٹوں سے تمھاری ماؤں کے، نہیں جانتے تھے تم کچھ بھی، اور اسی نے بنائے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم شکر کرو (78)
#
{78} أي: هو المنفرد بهذه النِّعم؛ حيث {أخرجكم من بطون أمَّهاتِكم لا تعلمونَ شيئاً}: ولا تقدِرون على شيءٍ. ثم إنَّه {جَعَلَ لكم السمعَ والأبصارَ والأفئدةَ}: خصَّ هذه الأعضاء الثلاثة لشرفِها وفضلِها ولأنَّها مفتاحٌ لكلِّ علم؛ فلا وَصَلَ للعبد علمٌ إلاَّ مِنْ أحدِ هذه الأبواب الثلاثة، وإلاَّ؛ فسائر الأعضاء والقوى الظاهرة والباطنة هو الذي أعطاهم إيَّاها وجعل يُنَمِّيها فيهم شيئاً فشيئاً إلى أن يصل كلُّ أحدٍ إلى الحالة اللائقة به، وذلك لأجل أن يشكروا الله باستعمال ما أعطاهم من هذه الجوارح في طاعة الله؛ فمن استعملها في غير ذلك؛ كانتْ حجَّةً عليه، وقابل النعمة بأقبح المعاملة.
[78] یعنی اللہ تعالیٰ یہ نعمتیں عطا کرنے میں متفرد اور یکتا ہے۔ ﴿ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰؔتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔؔا﴾ ’’اس نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، تم کچھ نہیں جانتے تھے‘‘ اور نہ کسی چیز پر قدرت رکھتے تھے۔ اور اس نے ﴿ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَ﴾ ’’تمھارے کان، آنکھیں اور دل بنائے‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں اعضاء کا ان کے فضل و شرف کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ہے، نیز اس خصوصیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تینوں اعضاء ہر علم کی کلید ہیں ۔ صرف یہی تین دروازے ہیں جن کے ذریعے سے علم انسان تک پہنچتا ہے ورنہ تمام اعضاء اور تمام ظاہری اور باطنی قوی اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نشوونما دیتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں جو انسان کے لائق ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس لیے عطا کیا ہے کہ وہ ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔ پس جو کوئی ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے علاوہ کہیں اور استعمال کرتا ہے تو یہ جوارح اس کے خلاف حجت ہوں گے کیونکہ وہ اللہ کی نعمت کا بدترین رویے سے مقابلہ کرتا ہے۔
آیت: 79 #
{أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (79)}.
کیا نہیں دیکھا انھوں نے طرف پرندوں کی کہ تابع فرمان ہیں فضائے آسمان میں ، نہیں روکتا ان کو(فضاء میں ) مگر اللہ ہی، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (79)
#
{79} أي: لأنهم المنتفعون بآيات الله، المتفكِّرون فيما جُعِلَتْ آيةٌ عليه، وأما غيرهم؛ فإنَّ نظرهم نظرُ لهوٍ وغفلةٍ. ووجه الآية فيها أنَّ الله تعالى خَلَقَها بخلقةٍ تَصْلُحُ للطيران، ثم سخَّر لها هذا الهواء اللطيف، ثم أودعَ فيها من قوَّة الحركة ما قدرت به على ذلك، وذلك دليلٌ على حكمتِهِ وعلمِهِ الواسع وعنايتِهِ الربانيَّة بجميع مخلوقاتِهِ وكمال اقتدارِهِ؛ تبارك ربُّ العالمين.
[79] کیونکہ اہل ایمان آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آیات الٰہی میں غوروفکر کرتے ہیں ۔ رہے کفار تو وہ آیات الٰہی کو لہو و لعب اور غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی ہیئت میں پیدا کیا ہے جو ان کے اڑنے کے لیے درست ہے، پھر ان کے لیے اس لطیف ہوا کو مسخر کر دیا، پھر ان پرندوں میں حرکت کرنے کی قوت اور وہ چیز ودیعت کی جن کے ذریعے سے وہ اڑنے پر قادر ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت، لامحدود علم، تمام مخلوق پر اس کی عنایت ربانی اور اس کے اقتدار کامل کی دلیل ہے۔ نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
آیت: 80 - 83 #
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ (80) وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ (81) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (82) يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ (83)}.
اور اللہ نے بنائے تمھارے لیے تمھارے گھر جائے سکونت اور اسی نے بنائے تمھارے لیے چمڑوں سے چوپایوں کے ایک قسم کے گھر (خیمے) کہ تم ہلکا سمجھتے ہو ان کو اپنے کوچ کے دن اور اپنی اقامت کے دن اور(بنایا) ان (بھیڑوں ) کی اون سےاور ان (اونٹوں ) کی پشم سےاور ان (بکریوں ) کے بالوں سے، گھر کا سامان اور کئی فائدے (کی چیزیں )، ایک وقت تک (80) اور اللہ ہی نے بنائے تمھارے لیے، ان چیزوں سے جو اس نے پیدا کیں ، سائے اور اسی نے بنائیں تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں (غاریں) اور اسی نے بنائیں تمھارے لیے قمیصیں ، وہ بچاتی ہیں تمھیں گرمی (اور سردی) سےاور قمیصیں (زر ہیں )، وہ بچاتی ہیں تمھیں تمھاری لڑائی میں ، اسی طرح اللہ پوری کرتا ہے نعمت اپنی تم پرتاکہ تم مطیع ہو جاؤ (81) پھر اگر وہ منہ پھیریں (اسلام سے) تو یقینا آپ تو صرف پہنچا دینا ہے صریح طور پر (82) وہ پہچانتے ہیں اللہ کی نعمت کو ، پھر وہ انکار کرتے ہیں اس کااور اکثر ان کے کافر ہیں (83)
#
{80} يذكِّر تعالى عبادَه نعمه، ويستدعي منهم شكرها والاعتراف بها، فقال: {والله جعل لكم من بيوتِكُم سَكَناً}: في الدُّور والقصور ونحوها، تُكِنُّكم من الحرِّ والبرد، وتستُركم أنتم وأولادكم وأمتعتكم، وتتَّخذون فيها البيوت والغرف، والبيوت التي هي لأنواع منافعكم ومصالحكم، وفيها حفظٌ لأموالكم وحُرَمِكم وغيرِ ذلك من الفوائد المشاهدة. {وجعلَ لكُم من جلودِ الأنعام}: إما من الجلدِ نفسِهِ، أو مما نَبَتَ عليه من صوفٍ وشعرٍ ووبرٍ، {بيوتاً تَسْتَخِفُّونها}؛ أي: خفيفة الحمل تكون لكم في السفر، والمنازل التي لا قَصْدَ لكم في استيطانها، فتقيكم من الحرِّ والبرد والمطرِ، وتقي متاعكم من المطر. {و} جعل لكم {من أصوافِها}؛ أي: الأنعام، {وأوبارِها وأشعارِها أثاثاً}: وهذا شاملٌ لكلِّ ما يُتَّخذ منها من الآنية والأوعية والفُرُش والألبسة والأجِلَّة وغير ذلك. {ومتاعاً إلى حينٍ}؛ أي: تتمتَّعون بذلك في هذه الدُّنيا وتنتفعون بها؛ فهذا مما سخَّر الله العباد لصنعته وعمله.
[80] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ان سے ان نعمتوں کے اعتراف اور ان پر شکر کا مطالبہ کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا ﴾ ’’اور اللہ ہی نے تمھارے لیے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے گھر اور بڑے بڑے محل بنائے جو تمھیں گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں ، تمھیں ، تمھاری اولاد اور تمھارے مال و متاع کو ٹھکانا مہیا کرتے ہیں ۔ تم ان گھروں میں ، اپنے مختلف اقسام کے فوائد اور مصالح کے لیے کمرے اور بالا خانے بناتے ہو۔ ان گھروں میں تمھارے مال و متاع اور تمھاری عزت و ناموس کی حفاظت ہے اور اس قسم کے دیگر فوائد جن کا روز مشاہدہ ہوتا ہے۔ ﴿ وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’اور بنا دیے تمھارے لیے چو پاؤں کی کھالوں سے‘‘ یعنی یا تو خود ان چوپایوں کی کھال سے یا اس کھال پر اگنے والے بالوں اور اون سے ﴿ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا ﴾ ’’ڈیرے، جو ہلکے رہتے ہیں تم پر‘‘ یعنی جن کے بوجھ کو اٹھانا تمھارے لیے بہت آسان ہوتا ہے ﴿ یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَیَوْمَ اِقَامَتِكُمْ﴾ ’’سفر اور حضر میں ۔‘‘ یعنی وہ سفر اور ان منزلوں میں تمھارے ساتھ ہوتے ہیں جہاں گھر بنانا تمھارا مقصد نہیں ہوتا۔ پس یہ خیمے تمھیں گرمی، سردی اور بارش سے بچاتے ہیں اور تمھارے مال و متاع کو بھی بارشوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے بنائے ﴿ مِنْ اَصْوَافِهَا ﴾ ’’ان کی اون سے۔‘‘ یعنی ان چوپایوں کی پشم سے ﴿ وَاَوْبَ٘ارِهَا وَاَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا ﴾ ’’اور اونٹوں کی پشم سے اور بکریوں کے بالوں سے کتنے اسباب‘‘ (اثاث) کا لفظ برتنوں ، خرجیوں ، بچھونوں ، لباس اور اوپر اوڑھنے والے کپڑوں وغیرہ سب کو شامل ہے ﴿ وَّمَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ ﴾ ’’اور استعمال کی چیزیں ایک وقت مقرر تک‘‘ یعنی ان چیزوں کو اس دنیا میں استعمال کرتے ہو اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہو۔ پس یہ ان چیزوں میں سے ہے جن کی صنعت و حرفت کے لیے اللہ نے بندوں کو مقرر کر دیا ہے۔
#
{81} {واللهُ جَعَلَ لكم مما خَلَقَ}؛ أي: من مخلوقاته التي لا صنعةَ لكم فيها، {ظلالاً}: وذلك كأظِلَّة الأشجار والجبال والآكام ونحوِهِا. {وجعل لكُم من الجبال أكناناً}؛ أي: مغارات تُكِنُّكم من الحرِّ والبرد والأمطار والأعداء. {وجَعَلَ لكم سرابيلَ}؛ أي: ألبسة وثياباً، {تقيكُمُ الحرَّ}: ولم يذكُرِ الله البردَ؛ لأنَّه قد تقدَّم أنَّ هذه السورة أولها في أصول النعم وآخرها في مكمِّلاتها ومتمِّماتها، ووقاية البرد من أصول النِّعم؛ فإنَّه من الضرورة وقد ذكره في أولها في قوله: {لكُم فيها دِفْءٌ ومنافعُ}. و {تقيكُم بأسَكُم}؛ أي: وثياباً تَقيكم وقت البأس والحرب من السلاح، وذلك كالدُّروع والزُّرود ونحوها. {كذلك يُتِمُّ نعمتَه عليكم}: حيث أسبغَ عليكم من نعمِهِ ما لا يدخُلُ تحت الحصر. {لعلَّكم}: إذا ذكرتُم نعمة الله ورأيتموها غامرةً لكم من كلِّ وجه؛ {تُسْلِمونَ}: لعظمتِهِ وتنقادون لأمرِهِ وتصرفونها في طاعة مُوليها ومُسْديها؛ فكثرةُ النعم من الأسباب الجالبة من العباد مزيدَ الشُّكر والثناء بها على الله تعالى.
[81] ﴿وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ﴾ ’’اور بنا دیے اللہ نے تمھارے واسطے ان میں سے جن کو پیدا کیا‘‘ یعنی جن میں تمھارے لیے کوئی صنعت نہیں ہے۔ ﴿ظِلٰ٘لًا﴾ ’’سائے‘‘ ، مثلاً: درختوں پہاڑوں اور ٹیلوں کے سائے۔ ﴿ وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا ﴾ ’’اور بنا دیں تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ‘‘ یعنی غار اور کھوہ بنائے جہاں تم گرمی، سردی، بارش اور اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیے پناہ لیتے ہو ﴿ وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ ﴾ ’’اور بنا دیے تمھارے لیے کرتے‘‘ یعنی لباس اور کپڑے ﴿ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ ﴾ ’’وہ تمھیں گرمی سے بچاتے ہیں ‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سردی کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کی ابتداء میں اصولی نعمتوں کا ذکر ہے اور اس کے آخر میں ان امور کا ذکر ہے جو ان نعمتوں کی تکمیل کرتے ہیں ۔ سردی سے بچاؤ ایک بنیادی نعمت اور ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتداء میں اس کا ان لفاظ میں ذکر فرمایا ہے:﴿ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ ﴾ (النحل: 16؍5) ’’جن میں تمھارے لیے جاڑے کا سامان ہے اور فائدے ہیں ‘‘ ﴿ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَ٘اْسَكُمْ﴾ ’’اور کرتے جو تمھیں لڑائی سے محفوظ رکھیں ۔‘‘ یعنی وہ لباس جو جنگ اور لڑائی کے وقت تمھیں ہتھیاروں کی زد سے بچاتے ہیں ، مثلاً: زرہ، بکتر وغیرہ۔ ﴿ كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ﴾ ’’اسی طرح پوری کرتا ہے وہ اپنی نعمت‘‘ اس نے تمھیں لامحدود نعمتوں سے نوازا ہے جن کا شمار ممکن نہیں ۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تم‘‘ جب اللہ کی نعمت کو یاد کرو اور دیکھو کہ اس نعمت نے تمھیں ہر لحاظ سے ڈھانپ رکھا ہے۔ ﴿ تُ٘سْلِمُوْنَ ﴾ ’’فرماں بردار بن جاؤ‘‘ تب شاید تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرو اور اس کے حکم کی تعمیل کرو اور اس نعمت کو تم اس کے والی اور عطا کرنے والے کی اطاعت میں صرف کرو۔ پس نعمتوں کی کثرت بندوں کی طرف سے ایسے اسباب کی باعث بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمدوثنا میں اضافے کا موجب ہیں ۔
#
{82} ولكنْ أبى الظالمونَ إلاَّ تمرُّداً وعناداً، ولهذا قال الله عنهم: {فإنْ تَوَلَّوا}: عن الله وعن طاعته بعدما ذُكِّروا بنعمه وآياته، {فإنَّما عليك البلاغُ المبين}: ليس عليك من هدايتهم وتوفيقهم شيءٌ، بل أنت مطالَبٌ بالوعظ والتَّذْكير والإنذار والتحذير.
[82] مگر ظالموں نے تکبر اور عناد ہی کا مظاہرہ کیا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا ﴾ ’’پھر اگر وہ پھر جائیں ‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آیات کے ذریعے سے تذکیر کے بعد بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی اطاعت سے روگردانی کریں ﴿ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ ﴾ ’’تو آپ کا کام صرف کھول کر سنا دینا ہے‘‘ ان کی ہدایت و توفیق آپ کے ذمے نہیں ہے بلکہ آپ سے صرف وعظ و تذکیر اور انذار و تحذیر کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
#
{83} فإذا أدَّيْت ما عليك؛ فحسابُهم على الله؛ فإنَّهم يَرَوْنَ الإحسان ويعرفون نعمةَ الله، ولكنَّهم يُنْكِرونَها ويَجْحَدونها. {وأكثرُهُم الكافرونَ}: لا خير فيهم، وما ينفعهم توالي الآيات؛ لفساد مشاعرهم وسوء قصودهم، وسيَرَوْنَ جزاء الله لكلِّ جبارٍ عنيدٍ كفورٍ للنعم متمرِّدٍ على الله وعلى رسله.
[83] جب آپ نے یہ فرض ادا کر دیا تو ان کا حساب اللہ کے پاس ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو دیکھ رہے ہیں اور اس کی نعمت کو پہنچانتے ہیں مگر اس کا انکار کر دیتے ہیں ۔ ﴿ وَاَكْثَرُهُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے اکثر لوگ انکار کرنے والے ہیں ‘‘ ان میں کوئی بھلائی نہیں ، آیات الٰہی کا بار بار آنا بھی انھیں کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ ان کی عقل فساد کا اور ان کا قصد برائی کا شکار ہیں ، وہ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ عناد رکھنے والے جابر، اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والے کو سزا دے گا۔
آیت: 84 - 87 #
{وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (84) وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (85) وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِنْ دُونِكَ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ (86) وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (87)}.
اور (یاد کرو!) جس دن ہم کھڑا کریں گے ہر امت میں سے ایک گواہ، پھر نہ اجازت دی جائے گی ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفرکیااورنہ ان سے توبہ ہی کا مطالبہ کیا جائے گا (84) اور جب دیکھیں گے وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، عذاب کو تو نہ کم کیا جائے گا ان سے اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے (85) اور جب دیکھیں گے وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا، اپنے (ٹھہرائے ہوئے) شریکوں کو تو کہیں گے، اے ہمارے رب! یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنھیں تھے ہم پکارتے تیرے سوا، پس وہ پھینک ماریں گے ان کی طرف یہ بات (اور کہیں گے) بلاشبہ تم یقینا جھوٹے ہو (86) اور وہ پیش کریں گے اللہ کی بارگاہ میں ، اس دن فرماں برداری (عاجزی) اور گم ہو جائے گا ان سے وہ جو تھے وہ افترا باندھتے (87)
#
{84 ـ 85} يخبر تعالى عن حال هؤلاء الذين كفروا في يوم القيامة، وأنَّه لا يُقبل لهم عذرٌ ولا يُرْفَعُ عنهم العقاب، وأنَّ شركاءهم تتبرَّأ منهم، ويقرُّون على أنفسهم بالكفر والافتراء على الله، فقال: {ويومَ نبعثُ من كلِّ أمةٍ شهيداً}: يشهدُ عليها بأعمالهم وماذا أجابوا به الدَّاعي إلى الهدى، وذلك الشهيد الذي يبعثُهُ الله أزكى الشهداء وأعدلهم، وهم الرسل الذين إذا شهدوا؛ تمَّ عليهم الحكم. {ثم لا يؤذَنُ للذين كفروا}: في الاعتذار؛ لأنَّ اعتذارهم بعدما علموا يقيناً بطلانَ ما هم عليه اعتذارٌ كاذبٌ لا يفيدُهم شيئاً، وإنْ طَلَبوا أيضاً الرجوع إلى الدُّنيا ليستدركوا؛ لم يُجابوا ولم يُعْتَبوا، بل يبادِرُهم العذاب الشديد الذي لا يخفَّف عنهم من غير إنظارٍ ولا إمهالٍ من حين يرونه؛ لأنَّهم لا حسنات لهم، وإنَّما تعدُّ أعمالهم وتُحصى ويوقَفون عليها، ويُقَرَّرُون بها، ويُفْتَضَحون.
[85,84] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کفار کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس روز ان سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ ان سے عذاب کو رفع کیا جائے گا اور ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور وہ اقرار کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اس پر افترا پردازی کیا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُ٘لِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا﴾ ’’اور جس دن کھڑا کریں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا‘‘ جو ان کے اعمال پر گواہی دے گا کہ انھوں نے داعی ہدایت کو کیا جواب دیا تھا اور یہ گواہ جس کو اللہ گواہی کے لیے کھڑا کرے گا، وہ سب سے پاک اور سب سے عادل گواہ ہو گا اور یہ گواہ رسول ہی ہوں گے۔ جب وہ گواہی دیں گے تو لوگوں کے خلاف فیصلہ مکمل ہو جائے گا۔ ﴿ ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی‘‘ یعنی کفار کو معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان کو اپنے موقف کے بطلان کے معلوم ہونے کے بعد ان کا عذر، محض جھوٹا عذر ہو گا، جو ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اگر وہ دنیا میں واپس جانا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کر سکیں تو انھیں واپس جانے کی اجازت ملے گی نہ ان سے ناراضی کو دور کیا جائے گا بلکہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو ان کو جلدی سے عذاب میں دھکیل دیا جائے گا، وہ عذاب جس میں کوئی تخفیف کی جائے گی نہ ان کو کوئی ڈھیل دی جائے گی اور نہ مہلت کیونکہ ان کے دامن میں کوئی نیکی نہ ہو گی۔ ان کے اعمال کوشمار کر کے ان کے سامنے کیا جائے گا وہ اس کا اقرار کریں گے اور شرمسار ہوں گے۔
#
{86} {وإذا رأى الذين أشركوا شركاءهم}: يوم القيامة، وعلموا بطلانها، ولم يمكِنْهم الإنكار، {قالوا ربَّنا هؤلاء شركاؤنا الذين كُنَّا ندعو من دونِكَ}: ليس عندها نفعٌ ولا شفعٌ، فنوَّهوا بأنفسهم ببطلانها، وكفروا بها، وبدت البغضاءُ والعداوةُ بينَهم وبينَها، {فألقَوْا إليهم القول}؛ أي: ردَّتْ عليهم شركاؤهم عليهم قولهم، فقالت لهم: {إنَّكم لكاذبون}: حيثُ جعلتُمونا شركاء لله وعبدتُمونا معه، فلم نأمُرْكم بذلك، ولا زَعَمْنا أنَّ فينا استحقاقاً للألوهيَّة؛ فاللوم عليكم.
[86] ﴿ وَاِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا شُ٘رَؔكَآءَهُمْ ﴾ ’’اور جب دیکھیں گے مشرک اپنے شریکوں کو‘‘ یعنی قیامت کے روز جب وہ اپنے خود ساختہ شریکوں کو دیکھیں گے اور ان کا بطلان ان پر واضح ہو جائے گا اور ان کے لیے انکار ممکن نہیں رہے گا۔ ﴿ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُ٘رَؔكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ﴾ ’’تو کہیں گے، اے ہمارے رب! یہ ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے تھے۔‘‘ یہ کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ سفارش کر سکتے ہیں ۔ وہ خود پکار پکار کر ان خود ساختہ معبودوں کے بطلان کا اعلان کر کے ان کا انکار کریں گے اور ان کے اور ان کے معبودوں کے درمیان عداوت ظاہر ہو جائے گی۔ ﴿ فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ ﴾ ’’پس ڈالیں گے وہ ان کی طرف بات‘‘ یعنی ان کے خود ساختہ معبود ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ اِنَّـكُمْ لَكٰذِبُوْنَ﴾ ’’بے شک تم جھوٹے ہو‘‘ کیونکہ تم نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہماری بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ پس ہم نے تمھیں عبادت کا حکم دیا تھا نہ ہم نے کبھی الوہیت کے استحقاق کا دعویٰ کیا تھا، اس لیے اپنے آپ کو کوسو۔
#
{87} فحينئذٍ استسلموا لله، وخضعوا لحكمه، وعلموا أنهم مستحقون للعذاب، {وضلَّ عنهم ما كانوا يفترون}: فدخلوا النارَ وقد امتلأت قلوبُهم من مَقْتِ أنفسهم ومن حَمْدِ ربِّهم، وأنَّه لم يعاقِبْهم إلاَّ بما كسبوا.
[87] تب اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے شرک کو تسلیم کر لیں گے اور اس کے فیصلے کے سامنے جھک جائیں گے اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں ﴿ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ﴾ ’’اور ان سے گم ہو جائیں گے جو جھوٹ وہ باندھتے تھے‘‘ پس وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور ان کے دل خود اپنے آپ پر غصے اور اپنے رب کی حمد و ستائش سے لبریز ہوں گے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں انھی بداعمالیوں کی سزا دی ہے جن کا انھوں نے ارتکاب کیا۔
آیت: 88 #
{الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ (88)}.
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور روکا اللہ کی راہ سے، زیادہ دیں گے ہم انھیں عذاب اوپر عذاب کے، بوجہ اس کے جو تھے وہ فساد کرتے (88)
#
{88} حيث كفروا بأنفسهم، وكذَّبوا بآيات الله، وحاربوا رُسُلَه، وصدُّوا الناس عن سبيل الله، وصاروا دعاةً إلى الضلال، فاستحقُّوا مضاعفة العذاب كما تضاعَفَ جرمُهم، وكما أفسدوا في أرض الله.
[88] اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں مجرموں کے انجام کا ذکر فرماتا ہے کہ انھوں نے کفر کیا، آیات الٰہی کی تکذیب کی، انبیاء و رسل کے خلاف جنگ کی، لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا اور گمراہی کے داعی بن گئے، اس لیے وہ کئی گنا عذاب کے مستحق قرار پائے، جس طرح ان کا جرم کئی گنا ہے اور جس طرح انھوں نے اللہ کی زمین میں فساد برپا کیا۔
آیت: 89 #
{وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلَاءِ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (89)}.
اور (یاد کرو) جس دن ہم کھڑا کریں گے ہر امت میں سے ایک گواہ ان پر انھی میں سےاور لائیں گے ہم آپ کو گواہ اوپر ان لوگوں کےاور نازل کی ہم نے آپ پر یہ کتاب (قرآن)، کھول کر بیان کرنے والی ہرچیز کو، ہدایت اور رحمت اورخوش خبری واسطے مسلمانوں کے (89)
#
{89} لما ذَكَرَ فيما تقدَّم أنه يبعث في كلِّ أمةٍ شهيداً؛ ذكر ذلك أيضاً هنا، وخصَّ منهم هذا الرسول الكريم، فقال: {وجئنا بك شهيداً على هؤلاء}؛ أي: على أمَّتك تشهد عليهم بالخير والشرِّ، وهذا من كمال عدل الله تعالى؛ أنَّ كلَّ رسول يشهدُ على أمَّته؛ لأنَّه أعظمُ اطِّلاعاً من غيره على أعمال أمته، وأعدل وأشفقُ من أن يشهدَ عليهم إلاَّ بما يستحقُّون، وهذا كقوله تعالى: {وكذلك جَعَلْناكم أمَّةً وسطاً لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيداً}، وقال تعالى: {فكيف إذا جِئْنا من كلِّ أمَّةٍ بشهيدٍ وجئنا بك على هؤلاء شهيداً. يومئذٍ يَوَدُّ الذين كفروا وعَصَوُا الرسولَ لو تُسَوَّى بهم الأرضُ}. وقوله: {ونزَّلْنا عليك الكتابَ تبياناً لكلِّ شيءٍ}: في أصول الدين وفروعه، وفي أحكام الدارين، وكل ما يحتاج إليه العبادُ؛ فهو مبيَّن فيه أتمُّ تبيين، بألفاظ واضحةٍ ومعانٍ جليَّةٍ، حتى إنَّه تعالى يُثَنِّي فيه الأمور الكبار التي يحتاجُ القلب لمرورها عليه كلَّ وقتٍ وإعادتها في كلِّ ساعةٍ ويعيدُها ويُبديها بألفاظٍ مختلفةٍ وأدلَّةٍ متنوعةٍ لتستقرَّ في القلوب فتثمرَ من الخير والبرِّ بحسب ثبوتها في القلب، وحتى إنه تعالى يجمع في اللفظ القليل الواضح معاني كثيرةً يكون اللفظُ لها كالقاعدة والأساس. واعتبر هذا بالآية التي بعد هذه الآية، وما فيها من أنواع الأوامر والنواهي التي لا تُحصر. فلما كان هذا القرآن تبياناً لكلِّ شيءٍ؛ صار حجَّة الله على العباد كلِّهم، فانقطعت به حجَّةُ الظالمين، وانتفع به المسلمونَ، فصار هدىً لهم يهتدون به إلى أمر دينهم ودُنياهم ورحمةً ينالون به كلَّ خير في الدُّنيا والآخرة؛ فالهدى ما نالوا به من علم نافع وعمل صالح، والرحمة ما ترتَّب على ذلك من ثواب الدُّنيا والآخرة؛ كصلاح القلب وبرِّه وطمأنينتِهِ، وتمام العقل الذي لا يتمُّ إلاَّ بتربيتِهِ على معانيه التي هي أجلُّ المعاني وأعلاها، والأعمال الكريمة والأخلاق الفاضلة والرزق الواسع والنصر على الأعداء بالقَوْل والفعل ونَيْل رضا الله تعالى وكرامتِهِ العظيمة التي لا يعلم ما فيها من النعيم المقيم إلاَّ الربُّ الرحيم.
[89] گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر امت میں ایک گواہ کھڑاکرے گا۔ ﴿ فِیْ كُ٘لِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ﴾ یہاں بھی گواہ کھڑا کرنے کا ذکر کیا ہے اور رسول کریمe کے گواہ ہونے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ﴾ ’’اور لائیں گے ہم آپ کو ان پر گواہ‘‘ یعنی آپe اپنی امت کے خیروشر پر گواہ ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال عدل ہے کہ ہر رسول اپنی امت پر گواہی دے گا کیونکہ وہ اپنی امت کے اعمال کے بارے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ اطلاع رکھتا ہے، وہ اتنا عادل اور اپنی امت کے بارے میں اتنا شفیق ہوتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں صرف اسی چیز کی گواہی دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول ہے: ﴿ وَؔ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰؔكُمْ اُمَّؔةً وَّسَطًا لِّتَكُ٘وْ٘نُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُ٘وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا﴾ (البقرۃ:2؍ 143) ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول(e) تم پر گواہی دیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ﴿ فَكَـیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُ٘لِّ اُمَّؔةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا ۰۰یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ ﴾ (النساء:4؍4 1۔42) ’’اس وقت ان کا کیسا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر آپ کو گواہ بنائیں گے۔ اس روز کافر اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ زمین میں سما جائیں اور ان پر مٹی برابر کر دی جائے۔‘‘ ﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّ٘كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور اتاری ہم نے آپ پر کتاب، کھلا بیان ہر چیز کا‘‘ دین کے اصول و فروع، دنیا و آخرت کے احکام اور ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہیں اس کتاب میں واضح الفاظ و معانی کے ساتھ مکمل طور پر بیان کر دی گئی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کریم میں بڑے بڑے امور کو بتکرار بیان کرتا ہے جن کے بارے میں قلب کو ہر وقت اور ہر گھڑی تکرار اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا مختلف عبارات اور متنوع دلائل کے ساتھ اعادہ کرتا رہتا ہے تاکہ وہ دلوں کی گہرائی میں اتر کر اچھی طرح جاگزیں ہو جائیں ۔ پس یہ دل میں جس طرح راسخ ہوتے ہیں اس کے مطابق خیروشر کی صورت میں ثمرات حاصل ہوتے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نہایت قلیل اور واضح الفاظ میں بہت سے معانی جمع کر دیتا ہے، الفاظ ان معانی کے لیے بنیاد اور اساس کا کام دیتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کے بعد آنے والی آیت اور اس میں جو اوامرونواہی ہیں ، جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا، اس پر غور کریں تو یہ نکتہ واضح ہوجائے گا۔ چونکہ یہ قرآن عظیم ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اس لیے تمام انسانوں پر حجت ہے۔ اس کے خلاف ظالموں کی حجت منقطع ہو گئی۔ مسلمانوں نے اس سے استفادہ کیا اور وہ ان کے لیے راہ نما بن گیا۔ وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں ۔ وہ ان کے لیے رحمت ہے جس کے ذریعے سے وہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے ذریعے سے جو وہ علم نافع اور عمل صالح حاصل کرتے ہیں ، وہی ہدایت ہے۔ دنیا و آخرت کا جو ثواب اس پر مترتب ہوتا ہے، مثلاً:اصلاح قلب، اطمینان قلب اور نیکی وغیرہ، وہی رحمت ہے۔ قرآن عظیم کے معانی کے مطابق، جو کہ بلندترین معانی ہیں … تربیت کے بغیر عقل کی تکمیل نہیں ہوتی… اس کے معانی کے مطابق تربیت کے بغیر اعمال کریمہ، اخلاق فاضلہ، رزق کشادہ، قول و فعل کے ذریعے سے دشمنوں پر فتح و نصرت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی عزت و اکرام والی جنت حاصل نہیں ہوتی جس میں ہمیشہ رہنے والی ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کو رب رحیم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
آیت: 90 #
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90)}
بلاشبہ اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کرنےاور (امداد) دینے کا قرابت داروں کواور وہ روکتا ہے بے حیائی اور برے کام اور سرکشی سے، وہ نصیحت کرتا ہے تمھیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (90)
#
{90} فالعدل الذي أمر الله به يشملُ العدلَ في حقِّه وفي حقِّ عباده؛ فالعدلُ في ذلك أداءُ الحقوق كاملةً موفورةً؛ بأن يؤدِّيَ العبد ما أوجب الله عليه من الحقوق الماليَّة والبدنيَّة والمركَّبة منهما في حقِّه وحقِّ عباده، ويعامل الخلق بالعدل التامِّ، فيؤدِّي كلُّ والٍ ما عليه تحت ولايتِهِ، سواء في ذلك ولاية الإمامة الكبرى وولاية القضاء ونواب الخليفة ونواب القاضي. والعدل: هو ما فَرَضَه الله عليهم في كتابه وعلى لسان رسوله وأمرهم بسلوكه، ومن العدل في المعاملات أن تعامِلَهم في عقود البيع والشراء وسائر المعاوضات بإيفاء جميع ما عليك؛ فلا تبخسُ لهم حقًّا، ولا تغشُّهم ولا تخدعُهم وتظلِمُهم؛ فالعدل واجبٌ، والإحسان فضيلةٌ مستحبٌّ، وذلك كنفع الناس بالمال والبدن والعلم وغير ذلك من أنواع النفع، حتى يدخلَ فيه الإحسان إلى الحيوان البهيم المأكول وغيره، وخصَّ الله إيتاء ذي القُربى وإن كان داخلاً في العموم؛ لتأكُّد حقِّهم وتعيُّن صلتهم وبرِّهم والحرص على ذلك، ويدخل في ذلك جميع الأقارب؛ قريبهم وبعيدهم، لكن كلُّ مَن كان أقربَ كان أحقَّ بالبرِّ. وقوله: {وينهى عن الفحشاءِ}: وهو كلُّ ذنبٍ عظيم استفحشته الشرائعُ والفِطَر؛ كالشركِ بالله والقتل بغير حقٍّ والزِّنا والسرقة والعُجب والكِبْر واحتقار الخلق وغير ذلك من الفواحش، ويدخل في المنكر كلُّ ذنبٍ ومعصيةٍ متعلِّق بحقِّ الله تعالى، وبالبغي كلُّ عدوان على الخلق في الدِّماء والأموال والأعراض. فصارت هذه الآية جامعةً لجميع المأمورات والمنهيَّات، لم يبقَ شيءٌ إلاَّ دخل فيها. فهذه قاعدةٌ ترجع إليها سائر الجزئيَّات؛ فكلُّ مسألة مشتملة على عدل أو إحسان أو إيتاء ذي القربى؛ فهي مما أمر الله به، وكلُّ مسألةٍ مشتملة على فحشاء أو منكَر أو بغي؛ فهي مما نهى الله عنه، وبها يُعْلَمُ حُسنُ ما أمر الله به وقُبح ما نهى عنه، وبها يُعتبر ما عند الناس من الأقوال، وتردُّ إليها سائر الأحوال؛ فتبارَكَ مَن جعل في كلامِهِ الهدى والشفاء والنور والفرقان بين جميع الأشياء، ولهذا قال: {يعظِكُم}؛ به، أي: بما بيَّنه لكم في كتابه بأمركم بما فيه غاية صلاحكم ونهيكم عما فيه مضرَّتكم. {لعلَّكم تذكَّرون}: ما يعظِكُم به فتفهمونه وتعقِلونه؛ فإنَّكم إذا تذكَّرتموه وعقلتموه؛ عملتم بمقتضاه، فسعدتُم سعادةً لا شقاوة معها.
[90] اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس عدل کا حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں عدل اور بندوں کے حقوق کے بارے میں عدل کو شامل ہے۔ عدل یہ ہے کہ تمام حقوق کو پوری طرح ادا کیا جائے۔ بندہ مالی، بدنی اور ان دونوں پر مبنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیے ہیں ۔ مخلوق کے ساتھ کامل انصاف پر مبنی معاملہ کیا جائے۔ پس ہر ولی اپنی ولایت کے تحت آنے والے ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لے، خواہ یہ ولایت امامت کبریٰ (خلافت و امارت) یا ولایت قضا یا خلیفہ کی نیابت یا قاضی کی نیابت ہو، اس معاملے میں سب برابر ہیں ۔ عدل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول (e) کے توسط سے اہل ایمان پر فرض کیا ہے اور عدل کے راستے پر گامزن رہنے کا حکم دیا ہے۔ معاملات میں عدل یہ ہے کہ خرید و فروخت اور تمام معاوضات میں آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کریں کہ آپ کے ذمہ جو کچھ ہے اسے پوری طرح ادا کریں ۔ آپ ان کے حق میں کمی کریں نہ دھوکہ دیں نہ ان کے ساتھ فریب کاری کریں اور نہ ان پر ظلم کریں ۔ عدل کرنا فرض ہے، احسان سے پیش آنا فضیلت اور مستحب ہے، مثلاً:لوگوں کو مال، بدن، علم اور دیگر مختلف قسم کی منفعتوں کے ذریعے سے فائدہ پہنچانا حتیٰ کہ اس جانور کے ساتھ احسان کرنا بھی اس میں داخل ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے یا نہیں کھایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو عطا کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے… اگرچہ وہ (احسان کرنے کے) عمومی حکم میں داخل ہیں … کیونکہ ان کا حق موکد، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی متعین ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس حکم میں ، قریب اور دور کے تمام رشتہ دار داخل ہیں مگر جو رشتہ میں زیادہ قریب ہے وہ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ ﴿ وَیَنْ٘هٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ ﴾ ’’اور وہ فحشاء سے منع کرتا ہے‘‘ (الفحشاء) ہر اس بڑے گناہ کو کہتے ہیں جس کو شریعت اور فطرت سلیم برا سمجھتی ہو، مثلاً:شرک، قتل ناحق، زنا، چوری، خودپسندی، تکبر اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آنا وغیرہ۔ (المنکر) میں ہر وہ گناہ اور معصیت داخل ہے جس کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ہو۔ (البغی) سے مراد ہے لوگوں کے جان، مال اور ناموس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا… اس طرح یہ آیت کریمہ تمام مامورات و منہیات کی جامع ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ یہ ایک اصول ہے جس کی طرف تمام جزئیات لوٹتی ہیں۔ پس ہر مسئلہ جو عدل، احسان یا قرابت داروں کو عطا کرنے پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ مسئلہ جو فواحش، منکرات یا ظلم اور زیادتی پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے حسن و قبح کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی کے ذریعے سے لوگوں کے اقوال کو جانچا جاتا ہے اور اسی کی طرف تمام احوال لوٹتے ہیں ۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفا، روشنی اور تمام اشیاء کو پرکھنے کے لیے فرقان بنایا۔ اسی لیے فرمایا: ﴿یَعِظُكُمْ ﴾ ’’وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان امور کے ذریعے سے تمھیں نصیحت کرتا ہے جن کو اس نے تمھارے لیے اپنی کتاب میں واضح فرمایا۔ وہ تمھیں اس چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمھاری بھلائی ہے اور اس چیز سے روکتا ہے جو تمھارے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم نصیحت پکڑو‘‘ جس چیز کی تمھیں نصیحت کی گئی ہے۔ پس تم اس کو سمجھو کیونکہ جب تم اس سے نصیحت حاصل کر کے اس کو سمجھ لو گے تب تم اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرو گے اور تم ایسی سعادت سے فیض یاب ہو گے جس کے اندر شقاوت کا شائبہ نہیں ہوتا۔
پس جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کا حکم دیا جو اصل شریعت میں واجب ہیں تو اس نے ان امور کے پورا کرنے کا بھی حکم دیا جن کو بندہ خود اپنے آپ پر واجب کرتا ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 91 - 92 #
{وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (91) وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَى مِنْ أُمَّةٍ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (92)}.
اور پورا کرو تم عہد اللہ کا جب آپس میں عہدو پیماں کرو تم اور نہ توڑو تم قسمیں (اپنی) بعد پختہ کر لینے کے ان کو، جبکہ بنالیا تم نے اللہ کو اوپر اپنے (عہدو پیماں کے) ضامن، بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو (91) اور نہ ہو تم مانند اس عورت کی جس نے توڑ ڈالا کاتا ہوا سوت اپنا بعد مضبوطی (سے کاتنے) کے، ٹکڑے ٹکڑے کر کے، کہ بناؤ تم اپنی قسموں کو دھوکا دینے کا ذریعہ آپس میں ، اس لیے کہ ہو ایک جماعت بڑھی ہوئی (مال و افراد میں ) دوسری جماعت سے، یقینا آزماتا ہے تمھیں اللہ ساتھ اس (عہد و پیماں ) کےاور البتہ ضرور بیان کرے گا وہ تمھارے لیے دن قیامت کے وہ چیز کہ تھے تم اس میں اختلاف کرتے (92)
#
{91} وهذا يشمَلُ جميع ما عاهد العبدُ عليه ربَّه من العبادات والنذور والأيمان التي عقدها إذا كان الوفاء بها برًّا، ويشمل أيضاً ما تعاقد عليه هو وغيره؛ كالعهود بين المتعاقدين، وكالوعد الذي يعده العبدُ لغيره ويؤكِّده على نفسه؛ فعليه في جميع ذلك الوفاء وتتميمها مع القدرة، ولهذا نهى الله عن نقضِها، فقال: {ولا تنقُضوا الأيمان بعد توكيدها}: بعقدها على اسم الله تعالى. {وقد جعلتُمُ الله عليكم}: أيها المتعاقدون، {كفيلاً}: فلا يَحِلُّ لكم أن لا تُحْكِموا ما جعلتم الله عليكم كفيلاً، فيكون ذلك تركُ تعظيم الله واستهانةٌ به، وقد رضي الآخر منك باليمين والتوكيد الذي جعلتَ الله فيه كفيلاً؛ فكما ائتمنك وأحسن ظنَّه فيك؛ فَلْتَفِ له بما قلت وأكَّدته. {إنَّ الله يعلم ما تفعلونَ}: فيجازي كلَّ عامل بعمله على حسب نيَّته ومقصدِهِ.
[91] یہ آیت کریمہ ان تمام عہدوں کو شامل ہے جو بندے نے اپنے رب کے ساتھ کیے ہیں ، مثلاً:عبادات، نذریں اور قسمیں وغیرہ جن کو بندے نے اپنے آپ پر لازم کیا ہو جبکہ وہ صحیح اور جائز ہوں اور یہ اس معاہدے کو بھی شامل ہے جو دو بندوں کے درمیان ہو، مثلاً:لین دین کرنے والے دو اشخاص کے درمیان معاہدہ اور وہ وعدہ جو بندہ کسی اور کے ساتھ کرتا ہے اور اپنے آپ پر اس کو لازم قرار دے لیتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں قدرت رکھتے ہوئے معاہدوں اور وعدوں کو پورا کرنا واجب ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے سے روکا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْؔكِیْدِهَا﴾ ’’اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو مت توڑو۔‘‘ یعنی اللہ کے نام پر قسمیں کھانے کے بعد ان کو مت توڑو۔ ﴿ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ﴾ ’’اور تم نے کیا ہے اللہ کو اپنا‘‘ اے معاہدہ کرنے والو! ﴿كَفِیْلًا﴾ ’’ضامن‘‘ اس لیے تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم اس کے مطابق عمل نہ کرو جس پر تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن مقرر کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کو ترک کرنا اور اس کی استہانت ہے۔ حالانکہ دوسرا فریق تم سے حلف لینے اور اس تاکید پر راضی ہو گیا جس میں تم نے اللہ تعالیٰ کو ضامن بنایا۔ جس طرح اس نے تمھیں امین بنایا اور تم پر اپنے حسن ظن کا اظہار کیا ہے اسی طرح تم بھی اپنے الفاظ اور تاکید کی پاسداری کرو۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ ’’تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ جانتا ہے‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کو اس کی نیت اور قصد کے مطابق جزا دے گا۔
#
{92} {ولا تكونوا}: في نقضِكُم للعهودِ بأسوأ الأمثال وأقبحها وأدلِّها على سفه متعاطيها، وذلك {كالتي} تَغْزِلُ غزلاً قويًّا؛ فإذا استحكم وتمَّ ما أريد منه؛ نَقَضَتْه فجعلتْه {أنْكاثاً}: فتعبت على الغزل، ثم على النقض، ولم تستفدْ سوى الخيبة والعناء وسفاهة العقل ونقص الرأي؛ فكذلك مَنْ نَقَضَ ما عاهد عليه؛ فهو ظالمٌ جاهلٌ سفيهٌ ناقص الدين والمروءة. وقوله: {تتَّخذون أيمانكم دَخَلاً بينَكم أن تكونَ أمَّةٌ هي أربى من أمَّةٍ}؛ أي: لا تنبغي هذه الحالة منكم؛ تعقدون الأيمان المؤكَّدة، وتنتظِرون فيها الفرصَ: فإذا كان العاقدُ لها ضعيفاً غير قادرٍ على الآخر؛ أتمَّها لا لتعظيم العقد واليمين، بل لعجزِهِ. وإن كان قويًّا يرى مصلحتَهَ الدنيويَّة في نقضِها؛ نَقَضَها غيرَ مبالٍ بعهدِ الله ويمينِه، كلُّ ذلك دَوَراناً مع أهوية النفوس وتقديماً لها على مراد الله منكم وعلى المروءة الإنسانيَّة والأخلاق المرضيَّة؛ لأجل أن تكون أمة أكثر عدداً وقوَّة من الأخرى. وهذا ابتلاء من الله وامتحان يبتليكم [الله] به؛ حيث قيَّضَ من أسباب المِحَنِ الذي يُمْتَحَنُ به الصادق الوفيُّ من الفاجر الشقيِّ. {وليبيِّننَّ لكم يومَ القيامةِ ما كنتُم فيه تختلفونَ}: فيجازي كلًّا بعمله ، ويخزي الغادرَ.
[92] ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْا﴾ اپنے عہد توڑنے میں بدترین مثال نہ بنو جو بدعہدی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والوں کی صفت پر دلالت کرتی ہے ﴿ كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَ٘زْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُ٘وَّ٘ةٍ اَنْكَاثًا﴾ ’’اس عورت کی مانند، جس نے مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔‘‘ یعنی پہلے اس نے محنت سے سوت کاتا، جب وہ مضبوط اور اس کی خواہش کے مطابق ہوگیا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، گویا اس نے پہلے کاتنے کی محنت کی، پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں محنت کی۔ پس ناکامی، تھکاوٹ، حماقت اور عقل کی کمی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اسی طرح جو کوئی عہد کو توڑتا ہے وہ ظالم، جاہل اور احمق ہے، اس کے دین اور مروت میں نقص ہے۔ ﴿ تَتَّؔخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ﴾ ’’کہ ٹھہراؤ اپنی قسموں کو دخل دینے کا بہانہ آپس میں ، اس واسطے کہ ایک فرقہ ہو چڑھا ہوا دوسرے سے‘‘ یعنی تمھاری یہ حالت نہیں ہونی چاہیے کہ موکد اور پختہ قسمیں اٹھاؤ، پھر موقع اور حالات کی تلاش میں رہو۔ پس ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر معاہدہ کرنے والا کمزور ہو اور مخالف فریق پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاہدے کو پورا کرے مگر قسم اور معاہدے کی حرمت اور تعظیم کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بے بسی کی بنا پر اور اگر معاہدہ کرنے والا طاقتور ہو اور معاہدہ توڑنے میں اسے کوئی دنیاوی مصلحت نظر آتی ہو تو اسے توڑ ڈالے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے عہد کی پروا نہ کرے۔ یہ سب کچھ خواہشات نفس کے تابع ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی مراد، مروت انسانی اور اخلاق فاضلہ پر مقدم رکھا گیا ہو اور یہ اس لیے کہ ایک قوم عدد اور طاقت کے لحاظ سے دوسری قوم سے بڑی ہے۔ ﴿ اِنَّمَا یَبْلُوْؔكُمُ اللّٰهُ بِهٖ﴾ ’’یہ تو اللہ پرکھتا ہے تم کو اس کے ذریعے سے‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے مصیبتوں کے اسباب مقرر کرتا ہے جس سے سچا اور وفادار شخص بدعہد اور بدبخت شخص سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ ﴿ وَلَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ﴾ ’’اور آئندہ کھول دے گا اللہ تمھارے لیے قیامت کے دن جس بات میں تم جھگڑتے تھے‘‘ پس وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دے گا اور بدعہدی کرنے والے کو رسوا کرے گا۔
آیت: 93 #
{وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (93)}.
اور اگر چاہتا اللہ تو بنا دیتا تمھیں امت ایک ہی لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہےاور البتہ ضرور سوال کیے جاؤ گے تم ان (اعمال) کی بابت جو تھے تم کرتے (93)
#
{93} أي: {لو شاء الله} لجَمَعَ الناس على الهدى، وجعلهم {أمَّةً واحدةً}: ولكنَّه تعالى المنفرد بالهداية والإضلال، وهدايتُهُ وإضلالُهُ من أفعاله التابعة لعلمِهِ وحكمتِهِ، يعطي الهداية من يستحقُّها فضلاً، ويمنعُها مَنْ لا يستحقُّها عدلاً {ولَتُسْألُنَّ عما كُنتم تعملونَ}: من خيرٍ وشرٍّ، فيجازيكم عليها أتمَّ الجزاء وأعدله.
[93] ﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہے‘‘ تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کر دے اور ﴿ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’تم کو ایک امت بنا دے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ ہدایت دینے اور گمراہ کرنے میں یکتا ہے اور اس کا ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اس کے ایسے افعال ہیں جو اس کے علم و حکمت کے تابع ہیں ، وہ اپنے فضل و کرم سے ایسے شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو اس کا مستحق ہے اور اپنے عدل کی بنا پر ایسے شخص کو ہدایت سے محروم کر دیتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ۔ ﴿ وَ لَ٘تُ٘سْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور جو عمل تم کرتے ہو ان کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔‘‘ یعنی تمھارے اچھے برے اعمال کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ تمھیں اسکی پوری پوری جزا دے گا۔
آیت: 94 #
{وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (94)}.
اور مت بناؤ تم اپنی قسموں کو دھوکا دینے کا ذریعہ آپس میں ، کہ ڈگمگا جائے قدم (اسلام سے) بعد اس کے جمنے کےاورچکھو تم سزا (دنیا میں ) بوجہ اس کے کہ روکا تم نے اللہ کی راہ سےاور ہو گا تمھارے لیے عذاب بہت بڑا (آخرت میں ) (94)
#
{94} أي: {ولا تتَّخذوا أيمانكم}: وعهودكم ومواثيقكم تَبَعاً لأهوائِكم، متى شئتُم وفَّيْتُم بها، ومتى شئتُم نَقَضْتُموها؛ فإنَّكم إذا فعلتُم ذلك؛ تَزِلُّ أقدامُكم بعد ثبوتها على الصِّراط المستقيم. {وتذوقوا السُّوء}؛ أي: العذاب الذي يسوؤكم ويَحْزُنكم. {بما صدَدتُم عن سبيل الله}: حيث ضللتُم وأضللتُم غيركم. {ولكم عذابٌ عظيمٌ}: مضاعف.
[94] ﴿ وَلَا تَتَّؔخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ﴾ ’’اور نہ ٹھہراؤ تم اپنی قسموں کو‘‘ یعنی اپنے عہد اور میثاق کو ﴿ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ﴾ ’’آپس میں دھوکے کا ذریعہ‘‘ یعنی اپنی خواہشات نفس کا تابع نہ بناؤ کہ جب چاہو پورا کر دو اور جب چاہو توڑ دو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو صراط مستقیم پر سے تمھارے قدم پھسل جائیں گے۔ ﴿ وَتَذُوْقُوا السُّوْٓءَ ﴾ ’’اور چکھو گے تم سزا‘‘ یعنی تم ایسے عذاب کا مزا چکھو گے جو بہت برا اور غمزدہ کر دینے والا عذاب ہو گا ﴿ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اس بات پر کہ تم نے اللہ کے راستے سے روکا‘‘ کیونکہ تم خود بھی راہ راست سے بھٹکے اور دوسروں کو بھی بھٹکا دیا۔ ﴿ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور تمھارے لیے عذاب ہے بڑا‘‘ یعنی کئی گنا۔
آیت: 95 - 97 #
{وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (95) مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (96) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (97)}.
اور نہ خریدو تم بدلے میں اللہ کے عہد کے قیمت تھوڑی (دنیوی فائدہ) یقینا جو (اجر) اللہ کے ہاں ہے وہ بہت ہی بہتر ہے واسطے تمھارے، اگر ہو تم جانتے (95) جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ فنا ہو جائے گا اور جو (ثواب) اللہ کے پاس ہے وہ (ہمیشہ) باقی رہنے والا ہےاور البتہ ضرور ہم بدلہ (میں ) دیں گے ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، اجروثواب ان کا زیادہ اچھا اس سے جو تھے وہ عمل کرتے (96) جس نے عمل کیا نیک، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو زندگی بخشیں گے ہم اس کو (دنیا میں ) زندگی پاکیزہ اور البتہ ضرور بدلہ (میں ) دیں گے ان کو اجروثواب ان کا، زیادہ اچھا اس سے جو تھے وہ عمل کرتے (97)
#
{95} يحذِّر تعالى عباده من نقض العهود والأيمان لأجل مَتاع الدُّنيا وحطامها، فقال: {ولا تشتروا بعهِد الله ثَمَناً قليلاً}: تنالونه بالنَّقْض وعدم الوفاء. {إنَّما عند الله}: من الثواب العاجل والآجل لمن آثر رضاه وأوفى بما عاهد عليه الله، {هو خيرٌ لكم}: من حطام الدُّنيا الزائلة {إن كنتم تعلمونَ}.
[95] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو متاع دنیا اور اس کے چند ٹکڑوں کی خاطر عہد اور قسم کو توڑتے ہیں ۔ فرمایا: ﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’اور نہ لو تم اللہ کے عہد پر تھوڑا سا مول‘‘ یعنی وہ متاع دنیا جو تم بدعہدی کے ذریعے سے حاصل کرتے ہو۔ ﴿ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’بے شک جو اللہ کے ہاں ہے‘‘ دنیوی اور اخروی ثواب، اس شخص کے لیے جو اللہ کی رضا کو ترجیح دیتا اور اس عہد کو پورا کرتا ہے جو اللہ نے اس سے لیا۔ ﴿ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ﴾ ’’وہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘ اور وہ زائل ہو جانے والی دنیا کی متاع سے کہیں بہتر ہے۔
#
{96} فآثِروا ما يبقى على ما يفنى؛ فإنَّ الذي {عندكم}: ولو كَثُر جدًّا لا بدَّ أن ينفدَ ويفنى، {وما عند الله باقٍ}: ببقائِهِ، لا يفنى ولا يزول؛ فليس بعاقل من آثر الفاني الخسيس على الباقي النفيس، وهذا كقولِهِ تعالى: {بل تؤثِرون الحياةَ الدُّنيا والآخرة خيرٌ وأبقى}. {وما عندَ الله خيرٌ للأبرار}. وفي هذا الحث والترغيب على الزُّهد في الدنيا، خصوصاً الزُّهد المتعيِّن، وهو الزُّهد فيما يكون ضرراً على العبد ويوجب له الاشتغال عما أوجب الله عليه وتقديمه على حقِّ الله؛ فإنَّ هذا الزُّهد واجبٌ. ومن الدواعي للزُّهد أن يقابلَ العبد لَذَّاتِ الدُّنيا وشهواتها بخيرات الآخرة؛ فإنَّه يجد من الفرق والتفاوت ما يدعوه إلى إيثار أعلى الأمرين، وليس الزُّهد الممدوح هو الانقطاع للعبادات القاصرة؛ كالصلاة والصيام والذِّكْر ونحوها، بل لا يكون العبدُ زاهداً زهداً صحيحاً حتَّى يقوم بما يقدِرُ عليه من الأوامر الشرعيَّة الظاهرة والباطنة، ومن الدعوة إلى الله وإلى دينه بالقول والفعل؛ فالزهدُ الحقيقيُّ هو الزهد فيما لا ينفعُ في الدين والدُّنيا، والرغبةُ والسعي في كلِّ ما ينفع. {ولنجزينَّ الذين صبروا}: على طاعة الله وعن معصيته، وفَطَموا أنفسَهم عن الشهوات الدنيويَّة المضرَّة بدينهم؛ {أجْرَهم بأحسنِ ما كانوا يعملون}: الحسنةُ بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة؛ فإنَّ الله لا يضيع أجر من أحسن عملاً.
[96] پس انھوں نے باقی رہنے والی چیز کو ختم ہو جانے والی چیز پر ترجیح دی ہے۔ ﴿مَا عِنْدَكُمْ﴾ ’’جو کچھ تمھارے پاس ہے‘‘ خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو ﴿یَنْفَدُ﴾ ’’وہ ختم (ہو کر فنا) ہو جائے گا‘‘ ﴿ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَ٘اقٍ﴾ ’’اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ باقی رہے گا‘‘ کیونکہ وہ خود باقی رہنے والا ہے، اسے فنا اور زوال نہیں ۔ پس وہ شخص عقل مند نہیں جو فانی اور خسیس چیز کو ہمیشہ رہنے والی نفیس چیز پر ترجیح دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاٞۖ۰۰وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى﴾ (الاعلیٰ : 87؍ 16۔ 17) ’’مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔‘‘ ﴿وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ﴾ (آل عمران : 3؍ 198) ’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر زہد متعین اور اس سے مراد ان چیزوں میں بے رغبتی اور ان سے پہلو بچانا ہے جو بندے کے لیے ضرر رساں ہیں اور اس بات کی موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی واجب کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان دنیاوی چیزوں میں مشغول ہو جائے اور حقوق اللہ پر ان دنیاوی چیزوں کو ترجیح دینے لگے، اس لیے کہ یہ زہد فرض ہے۔ زہد کے اسباب میں سے ایک داعیہ (سبب) یہ ہے کہ بندہ دنیا کی ناپائیدار لذات و شہوات کا آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ تقابل کرے۔ وہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق اور تفاوت پائے گا اور یہ تفاوت اسے بلند تر چیز کو ترجیح دینے پر آمادہ کرے گا۔ اور عبادات ، مثلاً: نماز، روزے اور ذکر اذکار وغیرہ پر توجہ مرکوز کر کے دنیا سے منقطع ہوجانا، زہد ممدوح نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں زاہد بننا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بندہ مقدور بھر شریعت کے ظاہری اور باطنی احکام کی تعمیل نہ کرے اور قول و فعل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت نہ دے۔ پس حقیقی زہد یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز سے منہ موڑ لے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں اور ہر اس چیز کے حصول کے لیے رغبت کے ساتھ کوشش کرے جو دین و دنیا میں فائدہ مند ہے۔ ﴿ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا﴾ ’’اور ہم بدلے میں دیں گے صبر کرنے والوں کو‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اور اس نافرمانی سے باز رہ کر صبر کرتے ہیں اور دنیاوی شہوات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو ان کے دین کے لیے مضر ہیں ۔ ﴿ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ۔‘‘ یعنی نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک۔ کیونکہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
#
{97} ولهذا ذكر جزاء العاملين في الدُّنيا والآخرة فقال: {مَنْ عمل صالحاً من ذَكَرٍ أو أنثى وهو مؤمنٌ}: فإنَّ الإيمان شرطٌ في صحَّة الأعمال الصالحة وقَبولها، بل لا تسمَّى أعمالاً صالحة إلاَّ بالإيمان، والإيمان مقتضٍ لها؛ فإنَّه التصديق الجازم المثمِرُ لأعمال الجوارح من الواجبات والمستحبَّات؛ فمَنْ جَمَعَ بين الإيمان والعمل الصالح؛ {فَلَنُحْيِيَنَّهُ حياةً طيبةً}: وذلك بطمأنينة قلبه وسكون نفسه وعدم التفاتِهِ لما يُشَوِّش عليه قلبه ويرزُقُه الله رزقاً حلالاً طيّباً من حيث لا يحتسب. {ولنجزِيَنَّهم}: في الآخرة {أجرَهم بأحسنِ ما كانوا يعملونَ}: من أصناف اللذَّات؛ ممَّا لا عينٌ رأتْ، ولا أذنٌ سمعتْ، ولا خطرَ على قلب بشر، فيؤتيه الله في الدُّنيا حسنةً وفى الآخرة حسنةً.
[97] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والوں کے لیے دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ﴾ ’’جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو‘‘ اس لیے کہ ایمان، اعمال صالحہ کی صحت اور ان کی قبولیت کے لیے شرط ہے بلکہ اعمال صالحہ کو ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ ایمان، اعمال صالحہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ایمان تصدیق جازم کا نام ہے۔ واجبات و مستحبات پر مشتمل اعمال جوارح ایمان کا ثمرہ ہیں ۔ پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کر لیتا ہے ﴿ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً﴾ ’’تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی‘‘ یہ زندگی اطمینان قلب، سکون نفس اور ان امور کی طرف عدم التفات پر مشمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ﴿ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ﴾ ’’اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو‘‘ یعنی آخرت میں ﴿ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ انھیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انھیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔
آیت: 98 - 100 #
{فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (98) إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (99) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ (100)}.
پس جب آپ پڑھنے لگیں قرآن تو پناہ طلب کریں اللہ کی، شیطان مردود سے (98) بلاشبہ وہ (شیطان) نہیں ہے اس کے لیے کوئی غلبہ اوپر ان لوگوں کے جو ایمان لائےاور اوپر اپنے رب کے وہ بھروسہ کرتے ہیں (99) یقینا اس کا غلبہ تو اوپر ان لوگوں کے ہے جو دوستی کرتے ہیں اس سےاور (ان پر) جو اس (اللہ) کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں (100)
#
{98 ـ 100} أي: فإذا أردت القراءة لكتاب الله الذي هو أشرفُ الكُتُب وأجلُّها، وفيه صلاحُ القلوب والعلوم الكثيرة؛ فإنَّ الشيطان أحرصُ ما يكون على العبد عند شروعِهِ في الأمور الفاضلة، فيسعى في صرفِهِ عن مقاصدِها ومعانيها؛ فالطريق إلى السلامة من شرِّه الالتجاءُ إلى الله والاستعاذة به من شرِّه، فيقول القارئ: أعوذُ بالله من الشيطان الرجيم؛ متدبِّراً لمعناها، معتمداً بقلبه على الله في صرفه عنه، مجتهداً في دفع وسواسه وأفكاره الرَّديئة، مجتهداً على السبب الأقوى في دفعه، وهو التحلِّي بحِلْية الإيمان والتوكُّل؛ فإنَّ الشيطان {ليس له سلطانٌ}؛ أي: تسلُّط {على الذين آمنوا وعلى ربِّهم}: وحده لا شريك له، {يتوكَّلونَ}: فيدفع الله عن المؤمنين المتوكِّلين عليه شرَّ الشيطان ولا يبقى له عليهم سبيلٌ. {إنَّما سلطانُه}؛ أي: تسلُّطه {على الذين يَتَوَلَّوْنه}؛ أي: يجعلونه لهم وليًّا، وذلك بتخلِّيهم عن ولاية الله، ودخولهم في طاعة الشيطان، وانضمامهم لحزبه؛ فهم الذين جعلوا له ولايةً على أنفسهم، فأزَّهم إلى المعاصي أزًّا، وقادهم إلى النار قَوْداً.
[100-98] یعنی جب آپ کتاب اللہ کی قرأت کا ارادہ کریں ، جو تمام کتابوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل اور جلیل ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں دلوں کی اصلاح اور بہت سے علوم پنہاں ہیں ۔ بندہ جب فضیلت والے امور کی ابتداء کرتا ہے تو شیطان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بندے کو ان کے مقاصد اور معانی سے دور کر دے۔ شیطان کے شر سے سلامتی کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے لیے التجا کرے، چنانچہ کتاب اللہ کی قرأت کرنے والا تعوذ کے معانی میں تدبر کے ساتھ (أعوذ باللٰہ من الشیطان الرجیم) پڑھے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے کہ وہ شیطان کے شر کو اس سے دور رکھے گا۔ وہ شیطان کے وسوسوں اور ردی افکار کو دور جھٹکنے کی پوری کوشش کرے اور ان وسوسوں کو دفع کرنے کے لیے مضبوط ترین سبب استعمال کرے اور وہ ہے ایمان اور توکل کے زیور سے آراستہ ہونا اس لیے کہ شیطان ﴿ لَ٘یْسَ لَهٗ سُلْطٰ٘نٌ ﴾ ’’اسے کوئی تسلط حاصل نہیں ‘‘ ﴿ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰى رَبِّهِمْ﴾ ’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر‘‘ جس کا کوئی شریک نہیں ﴿ یَتَوَؔكَّلُوْنَ﴾ ’’بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ توکل کرنے والے اہل ایمان سے شیطان کے شر کو دور ہٹا دیتا ہے اور شیطان کو ان پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ ﴿ اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ ﴾ یعنی شیطان کا تسلط ﴿ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ ﴾ ’’صرف انھی لوگوں پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں ‘‘ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس کے گروہ میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو شیطان کی سرپرستی میں دے دیتے ہیں ۔ شیطان ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ابھارتا رہتا ہے اور انھیں جہنم کے راستوں پر لے جاتا ہے۔
آیت: 101 - 102 #
{وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101) قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (102)}.
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو بجائے (دوسری) آیت کے اور اللہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو وہ نازل کرتا ہے تو کہتے ہیں وہ (کافر) یقینا تو خود گھڑ لانے والا ہےبلکہ اکثر ان کے نہیں جانتے (101) آپ کہہ دیجیے، نازل کیا ہے اس (قرآن) کو جبریل نے آپ کے رب کی طرف سے ساتھ حق کےتاکہ ثابت (قدم) رکھے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائےاورہدایت اور خوشخبری ہے واسطے مسلمانوں کے (102) اور البتہ تحقیق ہم جانتے ہیں کہ بے شک وہ (کفار) کہتے ہیں کہ یقینا سکھاتا ہے اس کو (قرآن) ایک آدمی، (حالانکہ) زبان اس شخص کی کہ غلط نسبت کرتے ہیں وہ (قرآن کی) اس کی طرف، عجمی (غیر فصیح) ہےاور یہ (قرآن تو) زبان عربی ہے واضح (103)
#
{101} يذكُر تعالى أنَّ المكذِّبين بهذا القرآن يتتبَّعون ما يَرَوْنَه حجَّة لهم، وهو أنَّ الله تعالى هو الحاكم الحكيم، الذي يَشْرَع الأحكام ويبدِّل حكماً مكان آخر؛ لحكمته ورحمته؛ فإذا رأوه كذلك؛ قدحوا في الرسول وبما جاء به، و {قالوا إنما أنت مُفْتَرٍ}، قال الله تعالى: {بل أكثُرهم لا يعلمونَ}: فهم جهالٌ، لا علم لهم بربِّهم ولا بشرعِهِ، ومن المعلوم أن قدح الجاهل بلا علم لا عبرةَ به؛ فإنَّ القدح في الشيء فرعٌ عن العلم به وما يشتمل عليه مما يوجب المدح والقدح.
[101] اللہ تبارک و تعالیٰ اس قرآن کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم میں ایسے امور کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے لیے حجت ہوں حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ حاکم اور حکمت والا ہے، جو احکام کو مشروع کرتا ہے اور اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر کسی حکم کو بدل کر اس کی جگہ کسی دوسرے حکم کو لے آتا ہے۔ پس جب وہ اس قسم کی تبدیلی دیکھتے ہیں تو رسول اللہe اور قرآن کریم میں عیب چینی کرتے ہیں ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ﴾ ’’تو کہتے ہیں کہ تو افترا پرداز ہے‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’بلکہ ان میں سے اکثر نادان ہیں ۔‘‘ پس وہ جاہل ہیں جنھیں اپنے رب کے بارے میں کچھ علم ہے نہ شریعت کے بارے میں اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جاہل کی جرح و قدح کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ کسی چیز کے بارے میں جرح و قدح اس کے بارے میں علم کی ایک شاخ ہے جو مدح اور قدح کی موجب ہے۔
#
{102} ولهذا ذكر تعالى حكمته في ذلك، فقال: {قل نَزَّلَه رُوحُ القُدُس}: وهو جبريلُ الرسول المقدَّس المنزَّه عن كلِّ عيب وخيانةٍ وآفةٍ، {بالحقِّ}؛ أي: نزوله بالحقِّ، وهو مشتملٌ على الحقِّ في أخباره وأوامره ونواهيه؛ فلا سبيل لأحدٍ أن يَقْدَحَ فيه قدحاً صحيحاً؛ لأنَّه إذا عُلِمَ أنَّه الحقُّ؛ عُلِمَ أنَّ ما عارَضَه وناقَضَه باطلٌ. {ليثبِّتَ الذين آمنوا}: عند نزول آياتِهِ وتوارُدِها عليهم وقتاً بعد وقتٍ؛ فلا يزال الحقُّ يصلُ إلى قلوبهم شيئاً فشيئاً، حتى يكون إيمانهم أثبتَ من الجبال الرواسي. وأيضاً؛ فإنَّهم يعلمون أنَّه الحقُّ، وإذا شرع حكماً من الأحكام، ثم نَسَخَه؛ علموا أنه أبدله بما هو مثلُه أو خيرٌ منه لهم، وأنَّ نسخَه هو المناسب للحكمة الربانيَّة والمناسبة العقليَّة. {وهدىً وبشرى للمسلمين}؛ أي: يهديهم إلى حقائق الأشياء، ويبيِّن لهم الحقَّ من الباطل والهدى من الضَّلال، ويبشِّرهم أنَّ لهم أجراً حسناً ماكثين فيه أبداً. وأيضاً؛ فإنه كلَّما نزل شيئاً فشيئاً؛ كان أعظم هدايةً وبشارةً لهم مِنْ لو أتاهم جملةً واحدةً وتفرَّق الفكرُ فيه، بل يُنْزِلُ الله حكماً وتارة أكثر؛ فإذا فهِموه وعَقَلوه وعَرَفوا المراد منه وتروَّوْا منه؛ أنزل نظيره ... وهكذا. ولذلك بلغ الصحابة رضي الله عنهم به مبلغاً عظيماً، وتغيَّرت أخلاقهم وطبائعهم، وانتقلوا إلى أخلاق وعوائد وأعمال فاقوا بها الأوَّلين والآخرين، وكان أعلى وأولى لمن بعدَهم أن يتربَّوا بعلومه، ويتخلَّقوا بأخلاقه، ويستضيئوا بنورِهِ في ظُلمات الغيِّ والجهالات، ويجعلوه إمامهم في جميع الحالات. فبذلك تستقيم أمورهم الدينيَّة والدنيويَّة.
[102] اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ﴾ ’’کہہ دیجیے! اس کو روح القدس نے اتارا‘‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرشتے جناب جبریلu ہیں جو نہایت مقدس اور ہر عیب، خیانت اور آفت سے پاک ہیں ۔ ﴿مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ﴾ ’’آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی خبریں اور اس کے اوامر و نواہی حق پر مشتمل ہیں ۔ پس کسی کے لیے گنجائش نہیں کہ اس میں بامعنی جرح و قدح کر سکے کیونکہ جب اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ حق ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ جو چیز اس کے متناقض اور معارض ہے، وہ باطل ہے۔ ﴿ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’تاکہ ثابت کرے ایمان والوں کو‘‘ وقتاً فوقتاً اس کی آیات کے نزول اور ان پر توارد کے وقت۔ اور یوں رفتہ رفتہ حق ان کے دلوں میں جا گزیں ہو کر پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ حق ہے اور جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم مشروع کر کے اسے منسوخ کر دیتا ہے تو انھیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اسی جیسے یا اس سے بہتر کسی اور حکم سے بدل دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا کسی حکم کو منسوخ کرنا حکمت ربانی اور عقلی مناسبت رکھتا ہے۔ ﴿ وَهُدًى وَّبُشْرٰؔى لِلْ٘مُسْلِمِیْنَ۠ ﴾ ’’اور ہدایت اور خوش خبری ہے واسطے مسلمانوں کے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اشیاء کے حقائق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے، ان کے سامنے باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتا ہے اور وہ انھیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے، نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے احکام کو رفتہ رفتہ نازل کرنا اہل ایمان کے لیے زیادہ ہدایت اور بشارت کا باعث بنتا ہے۔ یک بارگی نازل کرنے سے فکر تفرق اور تشتت کا شکار ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ حکم اور بشارت کو زیادہ کثرت سے نازل کرتا ہے۔ جب اہل ایمان ایک حکم کو سمجھ کر اس کی فہم حاصل کر لیتے ہیں ، انھیں اس کی مراد کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے مفاہیم و معانی سے خوب سیراب ہو جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اس جیسا ایک اور حکم نازل کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامy کتاب اللہ پر عمل کر کے بہت بڑے مقام پر پہنچ گئے، ان کی عادات اور طبائع بدل گئیں اور انھوں نے ایسے اخلاق، عادتیں اور اعمال اختیار کر لیے جن کی بنا پر وہ تمام اولین و آخرین سے بڑھ گئے۔ ان کے بعد آنے والوں کے لیے زیادہ مناسب یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے علوم کے ذریعے سے اپنی تربیت کریں ، اس کے اخلاق کو اپنائیں ، گمراہی اور جہالتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اس کے نور سے روشنی حاصل کریں اور تمام حالات میں اس کو اپنا راہنما بنائیں پس اس طرح ہی ان کے دینی اور دنیاوی معاملات درست رہیں گے۔
آیت: 103 - 105 #
{وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ (103) إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ لَا يَهْدِيهِمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (104) إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ (105)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آیات الٰہی کے، نہیں ہدایت دیتا انھیں اللہ اور ان کے لیے عذاب ہے بہت درد ناک (104) یقینا باندھتے ہیں جھوٹ تو صرف وہی لوگ جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آیات الٰہی کےاور وہ لوگ، وہی ہیں جھوٹے (105)
#
{103} يخبر تعالى عن قِيل المشركين المكذِّبين لرسوله: {أنَّهم يقولونَ إنَّما يعلِّمُه}: هذا الكتاب الذي جاء به، {بَشَرٌ}: وذلك البشرُ الذي يشيرون إليه أعجميُّ اللسان. {وهذا}: القرآن {لسانٌ عربيٌّ مبينٌ}: هل هذا القول ممكنٌ أو له حظٌّ من الاحتمال؟! ولكن الكاذب يكذِبُ ولا يفكِّر فيما يؤول إليه كذبه، فيكون في قوله من التناقض والفساد ما يوجب ردَّه بمجرَّد تصوُّره.
[103] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کی تکذیب کرنے والے مشرکین کے قول کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ ﴿ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ ﴾ ’’وہ کہتے ہیں کہ اس کو تو سکھلاتا ہے‘‘ یعنی یہ قرآن جسے رسول اللہe لے کر آئے ہیں ﴿بَشَرٌ﴾ ’’ایک آدمی‘‘ اور وہ شخص جس کی طرف یہ لوگ اشارہ کرتے ہیں عجمی زبان رکھتا ہے ﴿وَهٰؔذَا ﴾ اور یہ قرآن ﴿ لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’زبان عربی ہے صاف‘‘ کیا یہ بات ممکن ہے؟ کیا اس بات کا ذرا بھی احتمال ہو سکتا ہے؟ مگر جھوٹا شخص جھوٹ بولتا ہے اور وہ نہیں سوچتا کہ اس کا جھوٹ اسی کی طرف لوٹ آئے گا۔ اس کی بات ایسے تناقض اور فساد کی حامل ہو گی جو محض تصور ہی سے اس بات کی تردید کا موجب ہو گا۔
#
{104} {إنَّ الذين لا يؤمنون بآيات الله}: الدالَّة دلالة صريحةً على الحقِّ المبين فيردُّونها ولا يقبلونها، {لا يهديهِمُ الله}: حيث جاءهم الهدى فردُّوه فعوقِبوا بحِرْمانِهِ وخِذْلان الله لهم. {ولهم}: في الآخرة {عذابٌ أليمٌ}.
[104] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے‘‘ جو نہایت صراحت کے ساتھ حق مبین پر دلالت کرتی ہیں ۔ پس یہ لوگ ان آیات کریمہ کو ٹھکراتے ہیں اور انھیں قبول نہیں کرتے۔ ﴿ لَا یَهْدِیْهِمُ اللّٰهُ ﴾ ’’ان کو اللہ ہدایت نہیں دیتا‘‘ کیونکہ ان کے پاس ہدایت آئی مگر انھوں نے اسے ٹھکرا دیا اس لیے ان کو یہ سزا دی گئی کہ ان کو ہدایت سے محروم کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ﴿ وَلَهُمْ﴾ ’’اور ان کے واسطے‘‘ یعنی آخرت میں ﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’دردناک عذاب ہے۔‘‘
#
{105} {إنما يفتري الكذب}؛ أي: إنما يصدُرُ افتراء الكذب من {الذين لا يؤمنون بآيات الله}: كالمعاندين لرسولِهِ من بعد ما جاءتهم البيناتُ. {وأولئك هم الكاذبونَ}؛ أي: الكذب منحصرٌ فيهم، وعليهم أولى بأن يطلق من غيرهم. وأما محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - المؤمن بآيات الله الخاضع لربِّه؛ فمُحالٌ أن يكذِبَ على الله، ويتقوَّل عليه ما لم يَقُلْ، فأعداؤه رَمَوْه بالكذب الذي هو وصفُهم، فأظهر الله خِزْيهم وبيَّن فضائحهم؛ فله تعالى الحمد.
[105] ﴿ اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ ﴾ یعنی جھوٹ اور افترا پردازی ان لوگوں سے صادر ہوتی ہے ﴿ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ﴾ ’’جو آیات الٰہی پر ایمان نہیں رکھتے‘‘ ، مثلاً: وہ لوگ جو واضح دلائل آ جانے کے بعد بھی رسول اللہe سے عناد رکھتے ہیں ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’اور وہی لوگ جھوٹے ہیں ‘‘ یعنی جھوٹ ان میں منحصر ہے اور دوسروں کی بجائے وہی جھوٹ کے اطلاق کے زیادہ مستحق ہیں ۔ رہے محمد مصطفیe تو وہ آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکتے ہیں اس لیے محال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں اور اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی بات منسوب کریں جو اس نے نہیں کہی۔ پس آپ کے دشمنوں نے آپ پر جھوٹ کا الزام لگایا، حالانکہ جھوٹ خود ان کا اپنا وصف تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی رسوائی کو ظاہر اور ان کی فضیحت کو واضح کر دیا۔ پس ہر قسم کی ستائش اسی کے لیے ہے۔
آیت: 106 - 109 #
{مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (106) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (107) أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (108) لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (109)}.
جو شخص کفر کرے ساتھ اللہ کے بعد اپنے ایمان کے ، سوائے اس شخص کے جو مجبور کیاجائے اور دل اس کا مطمئن ہو ایمان پر لیکن وہ شخص جس نے کھول دیا ساتھ کفر کے سینہ (اپنا) تو ایسے لوگوں پر غضب ہے اللہ کا اور ان کے لیے عذاب ہے بہت بڑا (106) یہ، اس لیے کہ انھوں نے پسند کیا زندگانئ دنیا کو اوپر آخرت کےاور بے شک اللہ، نہیں ہدایت دیتا کافروں کی قوم کو (107) یہ وہ لوگ ہیں کہ مہر لگا دی ہے اللہ نے اوپر ان کے دلوں کے اور ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں کےاور یہ لوگ، وہی ہیں غافل (108) یقینا بلاشبہ یہی لوگ آخرت میں خسارہ پانے والے ہیں (109)
#
{106 ـ 108} يخبر تعالى عن شناعة حال مَن كَفَرَ به من بعد إيمانه فعمي بعدما أبصر، ورجع إلى الضلال بعدما اهتدى، وشَرَحَ صدرَه بالكفر راضياً به مطمئنًّا: أنَّ لهم الغضبَ الشديدَ من الربِّ الرحيم، الذي إذا غَضِبَ؛ لم يَقُمْ لغضبِهِ شيء وغضب عليهم كلُّ شيء. {ولهم عذابٌ عظيمٌ}؛ أي: في غاية الشدَّة، مع أنَّه دائمٌ أبداً. وذلك أنَّهم {استحبُّوا الحياة الدُّنيا على الآخرة}: حيث ارتدُّوا على أدبارهم؛ طمعاً في شيء من حطام الدُّنيا، ورغبةً فيه، وزهداً في خير الآخرة. فلمَّا اختاروا الكفر على الإيمان؛ منعهم الله الهداية، فلم يهدِهم؛ لأنَّ الكفر وصفُهم، فطبع على قلوبهم؛ فلا يدخُلُها خيرٌ، وعلى سمعهم وعلى أبصارهم؛ فلا ينفذُ منها ما ينفعهم ويصل إلى قلوبهم، فشملتْهم الغفلةُ وأحاط بهم الخِذْلان وحُرِموا رحمة الله التي وسعت كلَّ شيء، وذلك أنَّها أتتهم فردُّوها وعُرِضَتْ عليهم فلم يقبَلوها.
[108-106] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کے احوال بد کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ ﴿ مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ ﴾ ’’جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اس پر ایمان لانے کے بعد‘‘ یعنی چشم بینا سے حقائق کو دیکھ لینے کے بعد بھی اندھا ہی رہا، راہ پا لینے کے بعد گمراہی کی طرف لوٹ گیا اور اس نے برضا و رغبت، شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ کفر کو اختیار کر لیا۔ ایسے لوگوں پر رب رحیم سخت غضب ناک ہوگا۔ وہ جب ناراض ہوتا ہے تو دنیا کی کوئی چیز اس کے غضب کے سامنے نہیں ٹھہرتی اور ہر چیز ان سے ناراض ہو جاتی ہے۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘ یعنی یہ عذاب اپنی انتہائی شدت کے ساتھ ساتھ دائمی بھی ہو گا۔ ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’یہ اس واسطے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو پسند کیا آخرت پر‘‘ کیونکہ وہ دنیا کے چند ٹکڑوں میں طمع اور رغبت کی بنا پر اور آخرت کی بھلائی سے روگردانی کر کے الٹے پاؤں پھر گئے۔ پس جب انھوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو چن لیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے محروم کر دیا اور ان کی راہنمائی نہ کی کیونکہ کفر ان کا وصف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ پس کسی قسم کی بھلائی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے کوئی ایسی چیز ان میں نفوذ نہیں کر سکتی جو ان کے لیے فائدہ مند ہو اور ان کے دلوں تک پہنچ سکے۔ پس غفلت ان پر طاری ہو گئی، رسوائی نے ان کا احاطہ کر لیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گئے جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے پاس آئی انھوں نے اس کو ٹھکرا دیا اور وہ ان پر پیش کی گئی مگر انھوں نے اس کو قبول نہ کیا۔
#
{109} {لا جرم أنهم في الآخرة هم الخاسرون}: الذين خسروا أنفسهم وأموالهم وأهليهم يوم القيامة، وفاتهم النعيمُ المقيمُ، وحصلوا على العذاب الأليم، وهذا بخلاف من أُكْرِه على الكفر وأُجْبِر عليه، وقلبُهُ مطمئنٌ بالإيمان راغبٌ فيه؛ فإنَّه لا حرج عليه ولا إثم، ويجوزُ له النُّطق بكلمة الكفر عند الإكراه عليها. ودلَّ ذلك على أنَّ كلام المكره على الطلاق أو العتاق أو البيع أو الشراء أو سائر العقود أنَّه لا عبرةَ به ولا يترتَّب عليه حكمٌ شرعيٌّ؛ لأنَّه إذا لم يعاقَبْ على كلمة الكفر إذا أكره عليها؛ فغيرُها من باب أولى وأحرى.
[109] ﴿ لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ ﴾ ’’یقینا وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں ‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو قیامت کے روز اپنی جان، مال اور اہل و عیال کے بارے میں گھاٹے میں پڑ گئے، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے محروم ہو گئے اور ان کو دردناک عذاب میں ڈال دیا گیا۔ اس کے برعکس جس شخص کو جبر کے ساتھ کفر پر مجبور کیا گیا مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے اور ایمان میں پوری رغبت رکھتا ہے تو اس پر کوئی حرج ہے نہ گناہ۔ ایسے شخص کے لیے جبرواکراہ کے تحت کلمۂ کفر کہنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جبرو اکراہ کے تحت دی گئی طلاق، غلام کی آزادی، خریدوفروخت اور تمام معاہدوں کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ان امور پر کوئی شرعی حکم مترتب ہوتا ہے کیونکہ جب جبرواکراہ کی صورت میں کلمہء کفر کہنے پر اس پر کوئی گرفت نہیں تو دوسرے امور زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ جبر کی صورت میں ان پر گرفت نہ ہو۔
آیت: 110 - 111 #
{ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (110) يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (111)}.
پھر بلاشبہ آپ کا رب، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ وہ آزمائے گئے، پھر انھوں نے جہاد کیا اور صبر کیا، بے شک آپ کا رب بعد اس کے ، البتہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (110) (یاد کرو!) جس دن آئے گا ہر نفس جھگڑتا ہوا اپنی بابت اور پورا پورا (بدلہ) دیا جائے گا ہرنفس کو اس کا جو اس نے عمل کیااور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے (111)
#
{110} أي: ثم {إنَّ ربَّك}: الذي ربَّى عباده المخلصين بلطفه وإحسانه {لغفور رحيمٌ} لمن هاجر في سبيله، وخلَّى دياره وأمواله طالباً لمرضاةِ الله، وفُتِنَ على دينه ليرجعَ إلى الكفر، فثبت على الإيمان، وتخلَّص ما معه من اليقين، ثم جاهد أعداء الله لِيُدْخِلَهم في دين الله بلسانِهِ ويدِهِ، وصَبَرَ على هذه العبادات الشاقَّة على أكثر الناس؛ فهذه أكبرُ الأسباب التي تُنال بها أعظم العطايا وأفضل المواهب، وهي مغفرة الله للذنوب صغارها وكبارها، المتضمِّن ذلك زوال كلِّ أمرٍ مكروه، ورحمته العظيمة التي بها صلحت أحوالهم واستقامت أمور دينهم ودنياهم؛ فلهم الرحمة من الله في يوم القيامة.
[110] یعنی پھر بلاشبہ آپ کا رب جس نے اپنے مخلص بندوں کی، اپنے لطف و احسان کے ذریعے سے تربیت کی اس شخص کے لیے بہت غفور و رحیم ہے جو اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنا گھر بار اور مال اسباب سب چھوڑ دیتا ہے، دین کی وجہ سے اسے ستایا جاتا ہے تاکہ وہ کفر کی طرف دوبارہ لوٹ آئے مگر وہ ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور اپنے یقین کو بچا لیتا ہے، پھر وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتا ہے تاکہ ان کو اللہ کے دین میں داخل کرے اور وہ ان عبادات پر صبر کرتا ہے جو اکثر لوگوں پر بہت شاق گزرتی ہیں ۔ یہ سب سے بڑے اسباب ہیں جن کے ذریعے سے سب سے بڑے عطیات اور بہترین مواہب حاصل ہوتے ہیں اور وہ عطیات و مواہب یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ہر امر مکروہ کو اس سے دور کر دیتا ہے اور وہ اپنی عظیم رحمت سے اسے ڈھانپ لیتا ہے جس سے بندوں کے احوال صحیح اور ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں ۔ پس قیامت کے روز ان کے لیے رحمت ہے۔
#
{111} حين {تأتي كلُّ نفس تجادِلُ عن نفسها}: كلٌّ يقول: نفسي نفسي، لا يهمُه سوى نفسه؛ ففي ذلك اليوم يفتقر العبدُ إلى حصول مثقال ذرَّة من الخير. {وتُوفَّى كلُّ نفس ما عملت}: من خيرٍ وشرٍّ. {وهم لا يُظْلَمونَ}: فلا يزادُ في سيئاتهم، ولا يُنْقَصُ من حسناتهم. {فاليوم لا تُظْلَمُ نفسٌ شيئاً ولا تُجْزَوْن إلاَّ ما كنتُم تعملونَ}.
[111] ﴿ یَوْمَ تَاْتِیْ كُ٘لُّ نَفْ٘سٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا ﴾ ’’جس دن آئے گا ہر نفس جھگڑا کرتا ہوا اپنی طرف سے‘‘ یعنی ہر شخص (نفسی نفسی) پکارے گا اور اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا، پس اس روز بندہ ذرہ بھر نیکی کے حصول کا بھی محتاج ہو گا۔ ﴿ وَتُوَفّٰى كُ٘لُّ نَفْ٘سٍ مَّا عَمِلَتْ ﴾ ’’اور پورا ملے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا‘‘ یعنی نیک یا بد جو بھی عمل کیا ہو گا ﴿ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کے گناہوں میں اضافہ کیا جائے گا نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی۔ ﴿ فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ شَیْـًٔؔا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (یٰسٓ:36؍54) ’’آج کسی جان پر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمھیں ویسی ہی جزا دی جائے گی جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔‘‘
آیت: 112 - 113 #
{وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (112) وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ (113)}.
اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی کہ تھی وہ بستی امن والی، چین والی، آتا تھا اس کے پاس رزق اس کا بافراغت ہرجگہ سے، پس ناشکری کی اس (کے باشندوں ) نے اللہ کی نعمتوں کی تو چکھایا انھیں اللہ نے لباس بھوک اور خوف کا بوجہ اس کے جو تھے وہ کرتے (112) اور البتہ تحقیق آیا ان کے پاس ایک رسول انھی میں سے، پس انھوں نے جھٹلایا اس کو تو آپکڑا ان کو عذاب نے اور وہ ظالم تھے (113)
#
{112 ـ 113} وهذه القرية هي مكَّة المشرَّفة التي كانت آمنةً مطمئنةً لا يُهاج فيها أحدٌ، وتحترِمها الجاهليَّةُ الجَهْلاءُ، حتى إنَّ أحدهم يجد قاتلَ أبيه وأخيه فلا يَهيجُهُ مع شدَّة الحميَّة فيهم والنعرة العربيَّة، فحصل لها من الأمن التامِّ ما لم يحصلْ لسواها، وكذلك الرزق الواسع، كانت بلدة ليس فيها زرعٌ ولا شجرٌ، ولكنْ يسَّرَ الله لها الرزقَ يأتيها من كلِّ مكان، فجاءهم رسولٌ منهم يعرِفون أمانته وصدقَه؛ يدعُوهم إلى أكمل الأمور، وينهاهم عن الأمور السيِّئة، فكذَّبوه وكفروا بنعمة الله عليهم، فأذاقهم الله ضدَّ ما كانوا فيه، وألبسهم {لباس الجوع} الذي هو ضدُّ الرَّغَدِ، {والخوفِ} الذي هو ضدُّ الأمن، وذلك بسبب صنيعهم وكفرِهم وعدم شُكْرِهم، وما ظَلَمَهُمُ الله ولكنْ كانوا أنفسَهم يظلمِونَ.
[113,112] اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جو امن کا گہوارہ اور اطمینان کی جگہ تھی، اس بستی میں کسی کو پریشان نہیں کیا جاتا تھا۔ بڑے بڑے جہلاء بھی اس کا احترام کرتے تھے حتیٰ کہ اس بستی میں کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو بھی دیکھتا تو اس کا جذبۂ انتقام جوش نہیں مارتا تھا، حالانکہ ان میں عربی حمیت و تکبر بہت زیادہ تھا۔ مگر مکہ مکرمہ میں کامل امن تھا جو کسی اور شہر میں نہ تھا۔ اسی طرح اس کو کشادہ رزق سے بھی نوازا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ ایسا شہر تھا جہاں کھیتیاں تھیں نہ باغات بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رزق کو آسان کر دیا تھا، ہر سمت سے ان کو رزق پہنچتا تھا۔ پس ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا، جس کی صداقت اور امانت کو وہ خوب جانتے تھے جو انھیں کامل ترین امور کی طرف دعوت دیتا تھا اور انھیں بری باتوں سے روکتا تھا۔ مگر انھوں نے اسے جھٹلایا اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو امن و اطمینان کے برعکس بدامنی کا مزہ چکھایا، انھیں بھوک کا لباس پہنا دیا جو خوشحالی کی ضد ہے اور ان پر خوف طاری کر دیا جو امن کی ضد ہے۔ یہ سب ان کی بداعمالیوں ، ان کے کفر اور ان کی ناشکری کی پاداش میں تھا۔ ﴿ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَؔ﴾ (النحل : 16؍33) ’’اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔‘‘
آیت: 114 - 118 #
{فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (114) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (115) وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (116) مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (117) وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (118)}.
پس کھاؤتم اس میں سے جو رزق دیا تمھیں اللہ نے حلال پاکیزہ اور شکر کرو تم اللہ کی نعمت کا، اگر ہو تم خاص اسی عبادت کرتے (114) یقینا اللہ نے حرام کیا ہے تم پر مردار اور خون اور گوشت خنزیر کا اور وہ چیز کو نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا اس پر، پس جو شخص لاچار ہو جائے، نہ ہو وہ سرکش اور نہ حد سے بڑھنے والا تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (115)اور نہ کہو تم اس کو کہ بیان کرتی ہیں (اس کی بابت) تمھاری زبانیں جھوٹ، کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہےتاکہ باندھو تم اوپر اللہ کے جھوٹ، بے شک وہ لوگ جو باندھتے ہیں اوپر اللہ کے جھوٹ، نہیں فلاح پائیں گے وہ (116) (ان کے لیے) فائدہ ہے تھوڑا سا اور واسطے ان کے عذاب ہے بہت درد ناک (117) اور اوپر ان لوگوں کے جو یہودی ہوئے، حرام کیا تھا ہم نے جو کچھ کہ بیان کیا ہے ہم نے آپ پر اس سے پہلےاور نہیں ظلم کیا ہم نے ان پر لیکن تھے وہ (خود) اپنے نفسوں پر ظلم کرتے (118)
#
{114} يأمر عباده بأكل ما رزقهم الله من الحيوانات والحبوب والثمار وغيرها. {حلالاً طيِّباً}؛ أي: حالة كونها متَّصفة بهذين الوصفين؛ بحيث لا تكون مما حرَّم الله أو أثراً من غَصْبٍ ونحوه؛ فتمتَّعوا بما خَلَقَ الله لكم من غير إسرافٍ ولا تَعَدٍّ. {واشكُروا نعمةَ الله}: بالاعتراف بها بالقلب، والثناء على الله بها، وصرفها في طاعة الله. {إن كنتُم إيَّاه تعبُدون}؛ أي: إن كنتُم مخلصين له العبادةَ؛ فلا تشكُروا إلاَّ إيَّاه، ولا تنسَوا المنعم.
[114] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں سے حیوانات، غلہ جات اور میوہ جات وغیرہ کھائیں ۔ ﴿ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ ’’حلال اور پاکیزہ‘‘ یعنی اس رزق کو اس حالت میں کھائیں کہ وہ مذکورہ دو اوصاف سے متصف ہو یعنی یہ ان چیزوں میں سے نہ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ رزق کسی غصب کے نتیجے میں حاصل ہوا ہو۔ پس بغیر کسی اسراف اور زیادتی کے اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ اٹھاؤ ﴿ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو‘‘ قلب کے ذریعے سے اس نعمت کا اعتراف کر کے، اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کر کے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کر کے ﴿ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مخلص ہو تو صرف اسی کا شکر ادا کرو اور نعمتیں عطا کرنے والے کو فراموش نہ کرو۔
#
{115} {إنَّما حرَّم عليكم}: الأشياء المضرَّة تنزيهاً لكم، وذلك: كالميتة، ويدخُلُ في ذلك كلُّ ما كان موته على غير ذكاةٍ مشروعة، ويُستثنى منه ميتة الجرادِ والسمكِ. {والدَّمَ}: المسفوح، وأما ما يبقى في العروق واللحم؛ فلا يضرُّ. {ولحم الخنزير}: لقذارتِهِ وخبثِهِ، وذلك شامل للحمه وشحمه وجميع أجزائه. {وما أُهِلَّ لغير الله به}: كالذي يذبح للأصنام والقبور ونحوها؛ لأنه مقصودٌ به الشرك. {فمن اضْطُرَّ}: إلى شيء من المحرَّمات؛ بأن حملته الضرورةُ وخاف إن لم يأكُلْ أن يَهْلِكَ؛ فلا جناحَ عليه إذا لم يكن باغياً أو عادياً؛ أي: إذا لم يُرِدْ أكل المحرَّم، وهو غير مضطرٍّ ولا متعدٍّ الحلال إلى الحرام أو متجاوزٍ لما زادَ على قَدْرِ الضرورة؛ فهذا الذي حرَّمه الله من المباحات.
[115] ﴿ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ ﴾ ’’اس نے تم پر صرف حرام کردیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھاری پاکیزگی کی خاطر ضرر رساں چیزوں کو تم پر حرام ٹھہرا دیا ہے۔ ﴿الْمَیْتَةَ ﴾ ’’مردار۔‘‘ یعنی ان چیزوں میں ایک مردار ہے اس میں ہر وہ جانور داخل ہے جس کی موت مشروع طریقے سے ذبح کیے بغیر واقع ہوئی ہو۔ ٹڈی اور مچھلی کا مردار اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ﴿ وَالدَّمَ ﴾ ’’اور خون‘‘ یعنی بہایا ہوا، (جو ذبح کے وقت بہتا ہے) اور وہ خون جو ذبح کرنے کے بعد رگوں اورگوشت میں باقی رہ جائے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ﴿ وَلَحْمَ الْخِنْ٘زِیْرِ ﴾ ’’اور خنزیر کا گوشت‘‘ یہ اس کی گندگی اور ناپاکی کی وجہ سے حرام ہے اور یہ حکم اس کے گوشت، اس کی چربی اور اس کے تمام اجزا کو شامل ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ﴾ ’’اور جس پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا۔‘‘ ، مثلاً: وہ جانور جو بتوں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیا جائے کیونکہ اس کا مقصد شرک ہے۔ ﴿ فَ٘مَنِ اضْطُرَّ ﴾ ’’پس جو شخص مجبور ہو جائے‘‘ ان محرمات میں سے کسی چیز کے استعمال کرنے پر، یعنی ضرورت اسے اس کے استعمال پر مجبور کر دے اور اسے ڈر ہو کہ اگر وہ یہ حرام چیز نہیں کھائے گا تو مر جائے گا تو اس حرام چیز کو کھا لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ ﴿ غَیْرَ بَ٘اغٍ وَّلَا عَادٍ ﴾ ’’نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ زیادتی کرنے والا‘‘ یعنی جب وہ مجبور نہ ہو تو حرام چیز کھانے کا ارادہ رکھتا ہو نہ حلال کو چھوڑ کر حرام کی طرف جاتا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ حرام چیز کو استعمال میں لاتا ہو۔ یہ وہ محرمات ہیں جن کو اضطراری حالت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے۔
#
{116} {ولا تقولوا لما تَصِفُ ألسنتُكم الكَذِبَ هذا حلالٌ وهذا حرامٌ}؛ أي: لا تحرِّموا وتحلِّلوا من تلقاء أنفسكم كذباً وافتراءً على الله وتقوُّلاً عليه؛ {لتَفْتَروا على الله الكذِبَ إنَّ الذين يفترونَ على الله الكَذِبَ لا يفلِحونَ}: لا في الدُّنيا ولا في الآخرة، ولا بدَّ أن يُظْهِرَ الله خِزْيَهم.
[116] ﴿ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰؔذَا حَلٰ٘لٌ وَّهٰؔذَا حَرَامٌ ﴾ ’’اور نہ کہو تم جن کو تمھاری زبانیں جھوٹ بنا لیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے اور افترا پردازی کرتے ہوئے خود اپنی طرف سے حلال اور حرام کے ضابطے نہ بناؤ۔ ﴿ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم اللہ پر بہتان باندھو۔ بے شک جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے‘‘ دنیا میں نہ آخرت میں ۔
#
{117} وإن تمتَّعوا في الدُّنيا؛ فإنَّه {متاعٌ قليلٌ}: ومصيرهم إلى النار، {ولهم عذابٌ أليمٌ}.
[117] اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ضرور ذلیل و رسوا کرے گا، اگر انھوں نے اس دنیا سے فائدہ اٹھایا بھی ﴿ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ﴾ ’’تو یہ بہت ہی قلیل متاع ہے‘‘ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ﴿ وَّلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘
#
{118} فالله تعالى ما حرَّم علينا إلاَّ الخبيثات تفضُّلاً منه وصيانةً عن كلِّ مستقذرٍ، وأما الذين هادوا؛ فحرَّم الله عليهم طيباتٍ أُحِلَّت لهم بسبب ظُلْمِهم عقوبةً لهم؛ كما قَصَّه في سورة الأنعام في قوله: {وعلى الذين هادوا حَرَّمْنا كلَّ ذي ظُفُرٍ ومن البقر والغنم حرَّمْنا عليهم شحومَهُما إلاَّ ما حَمَلَتْ ظهورُهما أوِ الحوايا أو ما اختلَطَ بعظمٍ ذلك جزيناهم ببغيهم وإنَّا لصادقونَ}.
[118] پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان کی بنا پر ہمیں گندگی سے بچانے کے لیے ہمارے لیے صرف ناپاک چیزوں کو حرام کیا ہے لیکن یہودیوں پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم کی سزا کے طور پر طیبات کو حرام ٹھہرا دیا تھا جو ان کے لیے حلال تھیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں ان الفاظ میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ وَعَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُ٘لَّ٘ ذِیْ ظُ٘فُرٍ١ۚ وَمِنَ الْ٘بَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ١ؕ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ١ۖٞ وَاِنَّا لَصٰؔدِقُوْنَ﴾ (الانعام : 6؍ 146) ’’اور یہودیوں پر ہم نے ناخن والے جانور حرام کر دیے، گائے اور بکری کی چربی بھی حرام ٹھہرا دی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی انتڑیوں یا ہڈی کے ساتھ لگی ہوئی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی اور بے شک ہم سچے ہیں ۔‘‘
آیت: 119 #
{ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (119)}.
پھر بے شک آپ کا رب، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے عمل کیے برے بوجہ جہالت کے، پھر توبہ کی انھوں نے بعد اس کے اور (اپنی) اصلاح کر لی، بے شک آپ کا رب بعد اس(توبہ) کے یقینا بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (119)
#
{119} وهذا حضٌّ منه لعبادِهِ على التوبة ودعوةٌ لهم إلى الإنابة، فأخبر أنَّ من عمل سوءاً {بجهالةٍ}: بعاقبةٍ ما تَجْني عليه، ولو كان متعمِّداً للذنب؛ فإنَّه لا بدَّ أن ينقص ما في قلبه من العلم وقتَ مقارفة الذنب؛ فإذا تاب وأصلح بأنْ تَرَكَ الذنب وندم عليه وأصلح أعمالَه؛ فإنَّ الله يغفر له ويرحمُه ويتقبَّل توبتَه ويعيدُه إلى حالته الأولى أو أعلى منها.
[119] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو توبہ کی ترغیب اور انابت کی طرف دعوت ہے۔ اس لیے آگاہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص گناہ کے انجام سے لاعلمی کی بنا پر گناہ کر بیٹھتا ہے، خواہ یہ گناہ عمداً ہی کیوں نہ کیا ہو تو گناہ کے ارتکاب کے وقت اس کے قلب میں لازمی طور پر علم کم ہو جاتا ہے۔ جب وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے، یعنی ترک گناہ کے بعد گناہ پر نادم ہوتا ہے اور اپنے اعمال کی اصلاح کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے، اس پر رحم کرتا ہے، اس کی توبہ قبول کر کے اس کو اس کی پہلی حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے یا پہلے سے بھی بلند تر مقام عطا کرتا ہے۔
آیت: 120 - 123 #
{إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (120) شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (121) وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (122) ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (123)}.
بلاشبہ ابراہیم تھا ایک امت، فرماں بردار اللہ کا، حق کا پرستاراور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے (120) شکر کرنے والا اللہ کی نعمتوں کا، چن لیا تھا اسے اللہ نےاور اس نے ہدایت دی تھی اس کو صرف راہ راست کی (121) اور دی ہم نے اسے دنیا میں نیکی (اچھائی)اور بلاشبہ وہ آخرت میں یقینا صالح لوگوں میں سے ہو گا (122) پھر وحی کی ہم نے آپ کی طرف یہ کہ پیروی کریں آپ ملت ابراہیم کی جو حق کا پرستار تھااور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے (123)
#
{120} يخبر تعالى عمَّا فَضَّلَ به خليلَه إبراهيم عليه الصلاة والسلام وخصَّه به من الفضائل العالية والمناقب الكاملة، فقال: {إنَّ إبراهيم كان أمَّةً}؛ أي: إماماً جامعاً لخصال الخير هادياً مهتدياً، {قانتاً لله}؛ أي: مديماً لطاعة ربِّه مخلصاً له الدين، {حنيفاً}: مقبلاً على الله بالمحبَّة والإنابة والعبوديَّة، معرضاً عمَّن سواه. {ولم يَكُ من المشركين}: في قولِهِ وعمله وجميع أحواله؛ لأنَّه إمام الموحدين الحنفاء.
[120] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیمu کو فضیلت بخشی اور انھیں فضائل عالیہ اور مناقب کاملہ سے مختص کیا۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً ﴾ ’’بے شک ابراہیم ایک امت تھے‘‘ یعنی امام، بھلائی کے خصائل کے جامع، ہدایت یافتہ اور راہنما تھے۔ ﴿ قَانِتًا لِّلّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے فرماں بردار‘‘ اپنے رب کے دائمی مطیع اور اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے۔ ﴿ حَنِیْفًا﴾ ’’سب سے ایک طرف ہو کر‘‘ یعنی محبت، انابت اور عبودیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے والے اور ماسوا سے منہ موڑنے والے: ﴿ وَلَمْ یَكُ مِنَ الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ ’’اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘ اپنے قول و عمل اور اپنے تمام احوال میں مشرکین میں سے نہ تھے کیونکہ وہ یک سو موحدین کے امام تھے۔
#
{121} {شاكراً لأنعمِهِ}؛ أي: آتاه الله في الدُّنيا حسنةً، وأنعم عليه بنعمٍ ظاهرةٍ وباطنةٍ، فقام بشكرها، فكان نتيجةُ هذه الخصال الفاضلة أنِ {اجتباه} ربُّه واختصَّه بخلَّته وجعله من صفوة خلقِهِ وخيار عباده المقرَّبين. {وهداه إلى صراطٍ مستقيم}: في علمه وعمله، فعلم بالحقِّ وآثره على غيره.
[121] ﴿ شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهِ ﴾ ’’اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے والے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیمu کو دنیا میں بھلائی عطا کی، ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا اور انھوں نے ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان تمام اچھی خصلتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ﴿ اِجْتَبٰؔىهُ ﴾ ’’ان (ابراہیمu) کے رب نے ان کو چن لیا‘‘ انھیں اپنا خلیل بنایا اور انھیں اپنی مخلوق میں سے چنے ہوئے مقرب بندوں میں شامل کیا۔ ﴿ وَهَدٰؔىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’اور انھیں (اپنے علم و عمل میں ) صراط مستقیم پر گامزن کیا‘‘ یعنی انھوں نے حق کو جان لیا اور اسے دیگر ہر چیز پر ترجیح دی۔
#
{122} {وآتيناه في الدُّنيا حسنةً}: رزقاً واسعاً، وزوجةً حسناء، وذرِّيَّة صالحين، وأخلاقاً مرضية. {وإِنَّه في الآخرة لمنَ الصَّالحين}: الذين لهم المنازل العاليةُ والقُرْبُ العظيم من الله تعالى.
[122] ﴿ وَاٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾ ’’اور دی ہم نے ان کو دنیا میں بھلائی‘‘ یعنی ہم نے انھیں دنیا میں کشادہ رزق، خوبصورت و نیک سیرت بیوی، نیک اولاد اور اچھے اخلاق و عادات سے نوازا ﴿ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَ٘مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت میں اچھے لوگوں میں سے ہیں ‘‘ یعنی وہ لوگ جنھیں عالی قدر منزلت اور اللہ تعالیٰ کا قرب عظیم حاصل ہے۔
#
{123} ومن أعظم فضائله أنَّ الله أوحى لسيِّد الخلق وأكملِهِم أن يتَّبع ملَّة إبراهيم ويقتدي به هو وأمَّته.
[123] حضرت ابراہیمu کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدالوریٰ اور کامل ترین ہستی، نبی مصطفیe کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت ابراہیمu کی ملت کی اتباع کریں ، آپ اور آپ کی امت ان کی پیروی کریں ۔
آیت: 124 #
{إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (124)}.
یقینا بنایا گیا تھا ہفتے کا دن (قابل تعظیم) صرف ان لوگوں پر جنھوں نے اختلاف کیا تھا اس میں اور بے شک آپ کا رب ، البتہ فیصلہ کرے گا درمیان ان کے دن قیامت کے، اس چیز کی بابت کہ تھے وہ اس میں اختلاف کرتے (124)
#
{124} يقول تعالى: {إنَّما جُعِلَ السَّبْتُ}؛ أي: فرضاً {على الذين اختلفوا فيه}: حين ضلُّوا عن يوم الجمعة، وهم اليهود، فصار اختلافهم سبباً لأن يجب عليهم في السبتِ احترامه وتعظيمه، وإلاَّ؛ فالفضيلةُ الحقيقيَّة ليوم الجمعة، الذي هدى الله هذه الأمة إليه. {وإنَّ ربَّك لَيحكُمُ بينهم يوم القيامة فيما كانوا فيه يختلفون}: فيبيِّن لهم المحقَّ من المبطِل والمستحقَّ للثواب ممن استحقَّ العذاب.
[124] ﴿ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ ﴾ ہفتے کا دن فرض کیا گیا ﴿ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ﴾ ’’صرف انھی پر جو اس میں اختلاف کرتے تھے‘‘ یعنی جب وہ جمعہ کے دن کے بارے میں بھٹک گئے… مراد یہود ہیں … ان کا اختلاف اس بات کا سبب بنا کہ اللہ ہفتے کے دن کا احترام اور تعظیم ان پر واجب کر دے ورنہ حقیقی فضیلت تو جمعہ کے دن ہی کو حاصل ہے۔ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس امت کی راہنمائی فرمائی۔ ﴿وَاِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ ’’بے شک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے‘‘ پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے سامنے حق پسند اور باطل پسند کے درمیان فرق واضح کر دے گا اور ظاہر کر دے گا کہ ثواب کا مستحق کون ہے اور عذاب کا مستحق کون ہے۔
آیت: 125 #
{ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (125)}.
(اے پیغمبر!) بلایے (لوگوں کو) طرف راسیت کی اپنے رب کے، ساتھ حکمت اور اچھی نصیحت کےاور بحث کیجیے ان سے ساتھ اس طریقے کے کہ وہ بہت اچھا ہو، بلاشبہ آپ کا رب، وہی خوب جانتا ہے اس شخص کو جو گمراہ ہوا اس کی راہ سےاور وہی خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو (125)
#
{125} أي: ليكن دعاؤك للخلق مسلمهم وكافرهم إلى سبيل ربِّك المستقيم المشتمل على العلم النافع والعمل الصالح، {بالحكمة}؛ أي: كل أحدٍ على حسب حاله وفَهْمه وقَبوله وانقياده، ومن الحكمة الدعوةُ بالعلم لا بالجهل، والبدأة بالأهمِّ فالأهمِّ، وبالأقربِ إلى الأذهان والفهم، وبما يكون قَبوله أتمَّ، وبالرفق واللين؛ فإنِ انقاد بالحكمة، وإلاَّ؛ فينتقل معه بالدعوة بالموعظة الحسنة، وهو الأمر والنهي المقرون بالترغيب والترهيب: إما بما تشتمل عليه الأوامر من المصالح وتعدادها والنواهي من المضار وتعدادها، وإما بذكر إكرام من قامَ بدين الله وإهانةِ من لم يقُم به، وإما بذكر ما أعدَّ الله للطائعين من الثواب العاجل والآجل وما أعدَّ للعاصين من العقاب العاجل والآجل؛ فإن كان المدعوُّ يرى أن ما [هو] عليه حقٌّ، أو كان داعيةً إلى الباطل؛ فيجادَلُ بالتي هي أحسن، وهي الطُّرق التي تكون أدعى لاستجابته عقلاً ونقلاً، ومن ذلك الاحتجاج عليه بالأدلَّة التي كان يعتقدها؛ فإنَّه أقرب إلى حصول المقصود وأن لا تؤدِّي المجادلة إلى خصام أو مشاتمةٍ تذهب بمقصودها ولا تحصُل الفائدة منها، بل يكون القصدُ منها هداية الخلق إلى الحقِّ لا المغالبة ونحوها. وقوله: {إنَّ ربَّك هو أعلم بمن ضلَّ عن سبيله}؛ علم السبب الذي أدَّاه إلى الضلال، وعلم أعماله المترتِّبة على ضلالته، وسيجازيه عليها. {وهو أعلم بالمهتدين}: علم أنَّهم يَصْلُحون للهداية فهداهم، ثم منَّ عليهم فاجتباهم.
[125] یعنی تمام مخلوق کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، آپ کی اپنے رب کے سیدھے راستے کی طرف دعوت، علم نافع اور عمل صالح پر مشتمل ہونی چاہیے ﴿بِالْحِكْمَةِ﴾ ’’حکمت کے ساتھ‘‘ یعنی ہر ایک کو اس کے حال، اس کی فہم اور اس کے اندر قبولیت اور اطاعت کے مادے کے مطابق دعوت دیجیے۔ حکمت یہ ہے کہ جہل کی بجائے علم کے ذریعے سے دعوت دی جائے اور اس چیز سے ابتدا کی جائے جو سب سے زیادہ اہم، عقل اور فہم کے سب سے زیادہ قریب ہو اور ایسے نرم طریقے سے دعوت دی جائے کہ اسے کامل طور پر قبول کر لیا جائے۔ اگر حکمت کے ساتھ دی گئی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم کر دے تو ٹھیک ورنہ اچھی نصیحت کے ذریعے سے دعوت کی طرف منتقل ہو جائے اور اس سے مراد امرو نہی ہے جو ترغیب و ترہیب سے مقرون ہو… یا تو ان متعدد مصالح کا ذکر کرے جن پر اوامر مشتمل ہیں اور ان متعدد مضرتوں کو بیان کرے جو نواہی میں پنہاں ہیں یا ان لوگوں کی اللہ کے ہاں تکریم کو بیان کرے جنھوں نے اللہ کے دین کو قائم کیا اور ان لوگوں کی اہانت کا تذکرہ کرے جنھوں نے اللہ کے دین کو قائم نہیں کیا یا اس دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرے جو اس نے اپنے اطاعت کیش بندوں کے لیے تیار کررکھا ہے اور اس دنیاوی اور اخروی عذاب کا ذکر کرے جو اس نے نافرمانوں کے لیے تیار کیا ہوا ہے۔ اگر وہ شخص جس کو دعوت دی گئی ہے، یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف برحق ہے یا داعی باطل کی طرف دعوت دینے والا ہے تو اس کے ساتھ احسن طریقے سے بحث کی جائے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جو عقلاً اور نقلاً دعوت کی قبولیت کا زیادہ موجب ہے، مثلاً:اس شخص سے ایسے دلائل کے ساتھ بحث کی جائے جن کو وہ خود تسلیم کرتا ہو یہ حصول مقصد کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ یہ بحث جھگڑے اور گالی گلوچ تک نہ پہنچے ورنہ مقصد فوت ہو جائے گا اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔ بحث کا مقصد تو لوگوں کی حق کی طرف راہنمائی کرنا ہے نہ کہ بحث میں جیتنا وغیرہ۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ٘ ﴾ ’’آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے‘‘ یعنی آپ کا رب اس سبب کو زیادہ جانتا ہے جس نے اسے گمراہی میں مبتلا کیا ہے اور وہ اس کے ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو اس کی گمراہی پر مترتب ہوئے ہیں وہ عنقریب ان کو ان اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ ﴾ ’’اور وہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے نوازا، پھر ان پر احسان کرتے ہوئے انھیں چن لیا۔
آیت: 126 - 128 #
{وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (126) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (127) إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (128)}.
اور اگر بدلہ لو تم تو بدلہ لو برابر اس (تکلیف) کے جو ایذاء دیے گئے ہو تم ساتھ اس کےاور البتہ اگر صبر کرو تم تو وہ (صبر) بہت بہتر ہے صبر کرنے والوں کے لیے (126) اور آپ صبر کیجیے اور نہیں ہے صبر کرنا آپ کا مگر اللہ (کی توفیق) سے ہی اور نہ غم کریں آپ ان پر اور نہ ہوں آپ تنگی میں اس سے جو وہ سازشیں کرتے ہیں (127) بلاشبہ اللہ ساتھ ہے ان لوگوں کے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیااور ان لوگوں کے کہ وہ نیکی کرنے والے ہیں (128)
#
{126} يقول تعالى مبيحاً للعدل ونادباً للفضل والإحسان: {وإنْ عاقَبْتُم}: مَنْ أساء إليكم بالقول والفعل، {فعاقِبوا بمثل ما عُوقِبْتُم به}: من غير زيادةٍ منكم على ما أجراه معكم. {ولَئِن صبرتُم}: عن المعاقبة وعفوتُم عن جرمهم، {لهو خيرٌ للصَّابرينَ}: من الاستيفاء، وما عند الله خيرٌ لكم وأحسن عاقبةً؛ كما قال تعالى: {فمن عفا وأصْلَحَ فأجْرُهُ على الله}.
[126] اللہ تبارک وتعالیٰ عدل کو مباح کرتے اور فضل و احسان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ ﴾ ’’اور اگر تم بدلہ لو‘‘ اگر تم اس شخص کا مواخذہ کرنا چاہو جس نے تمھیں قول و فعل کے ذریعے سے برے سلوک کا نشانہ بنایا ہے ﴿ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ﴾ ’’تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم تکلیف پہنچائی گئی‘‘ یعنی تمھارے ساتھ جو معاملہ کیا گیا ہے، بدلہ لیتے وقت تمھاری طرف سے اس میں زیادتی نہ ہو۔ ﴿ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ ﴾ ’’اور اگر تم صبر کر لو‘‘ یعنی بدلہ نہ لو اور ان کا جرم معاف کر دو تو ﴿ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘ یعنی یہ بدلہ لینے سے بہتر ہے اور جو اجروثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تمھارے لیے بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ﴾ (الشوریٰ:42؍40) ’’جو معاف کر کے معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
#
{127 ـ 128} ثم أمر رسوله بالصبر على دعوةِ الخلق إلى الله والاستعانة بالله على ذلك وعدم الاتِّكال على النفس، فقال: {واصْبِرْ وما صَبْرُكَ إلاَّ بالله}: هو الذي يُعينك عليه ويُثَبِّتُك. {ولا تَحْزَنْ عليهم}: إذا دعوتَهم فلم تَرَ منهم قَبولاً لدعوتِكَ؛ فإنَّ الحزن لا يُجْدي عليك شيئاً. {ولا تَكُ في ضَيْقٍ}؛ أي: شدَّة وحَرَج {مما يمكُرون}: فإنَّ مكرهم عائدٌ إليهم، وأنت من المتَّقين المحسنين، والله مع المتقين المحسنين بعونه وتوفيقه وتسديده، وهم الذين اتَّقوا الكفر والمعاصي، وأحسنوا في عبادة الله؛ بأن عبدوا الله كأنَّهم يرونَه؛ فإنْ لَم يكُونوا يَرَوْنه فإنَّه يراهم، والإحسان إلى الخلق ببذل النفع لهم من كل وجه. نسأل الله أن يَجْعَلَنا من المتقين المحسنين.
[128,127] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا ہے کہ وہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور نفس پر بھروسہ نہ کریں چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ ’’اور صبر کیجیے اور آپ کے لیے صبر ممکن نہیں مگر اللہ ہی کی مدد سے‘‘ وہی صبر پر آپ کی مدد کرتا ہے اور آپ کو ثابت قدم رکھتا ہے ﴿ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کے بارے میں غم نہ کرو۔‘‘ یعنی جب آپ ان کو دین کی دعوت دیں اور دیکھیں کہ وہ اس دعوت کو قبول نہیں کر رہے تو غمزدہ نہ ہوں کیونکہ حزن و غم آپ کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ﴿ وَلَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ ﴾ ’’اور تنگ دل نہ ہوں ۔‘‘ یعنی آپ کسی سختی اور حرج میں نہ پڑیں ۔ ﴿ مِّؔمَّا یَمْؔكُرُوْنَ ﴾ ’’ان کی چالوں سے‘‘ کیونکہ ان کے مکروفریب کا وبال انھی پر لوٹے گا اور آپ تو پرہیز گاروں اور نیکوکاروں میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی معونت توفیق اور تسدید کے ذریعے سے پرہیز گاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کفر اور معاصی سے اجتناب کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مقام احسان پر فائز ہیں یعنی وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں اگر ان پر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو انھیں یہ یقین حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ تو انھیں دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے فائدہ پہنچایا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پرہیزگاروں اور احسان کرنے والوں میں شامل کرے۔