آیت:
تفسیر سورۂ رعد
تفسیر سورۂ رعد
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 #
{المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (1)}.
الٓـمّٓرٰ، یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور وہ جو نازل کیا گیا آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے، حق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں ایمان لاتے (1)
#
{1} يخبر تعالى أنَّ هذا القرآن هو آيات الكتاب الدالَّة على كلِّ ما يحتاج إليه العباد من أصول الدين وفروعه، وأن الذي أُنزلَ إلى الرسول من ربِّه هو الحقُّ المُبين؛ لأنَّ أخباره صدق وأوامره ونواهيه عدلٌ مؤيَّدة بالأدلَّة والبراهين القاطعة؛ فمن أقبل عليه وعلى علمه؛ كان من أهل العلم بالحقِّ الذي يوجب لهم علمهم العمل بما أحب الله. {ولكنَّ أكثر الناس [لا يؤمنون]}: بهذا القرآن: إمّا جهلاً وإعراضاً عنه وعدم اهتمام به، وإما عناداً وظلماً؛ فلذلك أكثر الناس غير منتفعين به؛ لعدم السبب الموجب للانتفاع.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، کتاب اللہ کی آیات ہیں جو دین کے اصول و فروع میں ہر اس چیز کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جس کے بندے محتاج ہیں اور یہ قرآن جو رسول اللہe پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا وہ واضح حق ہے کیونکہ اس کی خبریں صدق پر مبنی اور اس کے اوامر و نواہی سراسر عدل ہیں اور قطعی دلائل و براہین ان کی تائید کرتے ہیں ۔ جو کوئی اس کے علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہی حقیقی اہل علم میں شمار ہوتا ہے اور اس کا علم اس کے لیے عمل کا موجب بنتا ہے۔ ﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَؔ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ یعنی اکثر لوگ یا تو اپنی جہالت، اس سے روگردانی اور اس کی طرف عدم توجہ کی بناء پر یا محض عناد اور ظلم کی و جہ سے، اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ بنا بریں اکثر لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اس کی و جہ اس سبب کا معدوم ہونا ہے جو فائدہ اٹھانے کا موجب ہے۔
آیت: 2 - 4 #
{اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ (2) وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (3) وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (4)}
اللہ وہ ذات ہے جس نے بلند کیے آسمان بغیر ستونوں کے، تم دیکھتے ہو ان کو، پھر مستوی ہوا وہ اوپرعرش کےاور کام میں لگا دیا سورج اورچاند کو، ہر ایک چل رہا ہے واسطے وقت مقرر کے، وہ تدبیر کرتا ہے کام کی ، تفصیل سے بیان کرتا ہے نشانیاں (اپنی) تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو (2) اور وہی ہے (اللہ) جس نے بچھائی زمین اور بنائے اس میں پہاڑ اورنہریں اور ہر قسم کے پھلوں سے بنائے اس میں جوڑے، دو دو، ڈھانپتا ہے رات سے دن کو، بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں واسطے ان لوگوں کے جو غورو فکر کرتے ہیں (3) اور زمین میں ٹکڑے ہیں ایک دوسرے کے قریب قریب اور (اسی طرح) باغات ہیں انگوروں کے اور کھیتیاں ہیں اور کھجوریں ہیں جڑ سے ملی ہوئی اور جدا جدا، سیراب کی جاتی ہیں ساتھ ایک ہی پانی کےاور ہم فضیلت دیتے ہیں بعض کو بعض پھلوں (کے ذائقے) میں ، بے شک اس میں البتہ نشانیاں ہیں واسطے ان لوگوں کے جو عقل رکھتے ہیں (4)
#
{2} يخبر تعالى عن انفراده بالخلق والتدبير والعظمة والسلطان الدالِّ على أنه وحده المعبود الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له، فقال: {الله الذي رفعَ السموتِ}: على عظمها واتِّساعها بقدرته العظيمة، {بغير عَمَدٍ تَرَوْنها}؛ أي: ليس لها عَمَدٌ من تحتها؛ فإنَّه لو كان لها عَمَدٌ؛ لرأيتُموها، {ثم}: بعدما خلق السماواتِ والأرض، {استوى على العرش}: العظيم، الذي هو أعلى المخلوقات، استواءً يَليق بجلاله ويناسب كماله. {وسخَّر الشمس والقمر}: لمصالح العباد ومصالح مواشيهم وثمارهم. {كلٌّ}: من الشمس والقمر، {يَجْري}: بتدبير العزيز العليم {إلى أجل مسمّى}: بسير منتظم لا يفتُران ولا يَنِيان حتى يجيء الأجل المسمَّى، وهو طيُّ الله هذا العالم ونقلهم إلى الدار الآخرة التي هي دار القرار؛ فعند ذلك يطوي الله السماواتِ ويبدِّلها ويُغَيِّر الأرض ويبدِّلها، فتكوَّر الشمس والقمر و [يُجمع] بينهما فيلقيانِ في النار؛ ليرى من عبدهما أنَّهما غير أهل للعبادة، فيتحسَّر بذلك أشدَّ الحسرة، وليعلم الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين. وقوله: {يدبِّر الأمر يفصِّلُ الآياتِ}: هذا جمعٌ بين الخلق والأمر؛ أي: قد استوى الله العظيم على سرير الملك؛ يدبِّر الأمور في العالم العلويِّ والسفليِّ، فيخلق ويرزق، ويغني ويُفْقِر، ويرفع أقواماً ويضع آخرين، ويعزُّ ويذلُّ، ويَخْفِضُ ويرفعُ، ويَقيلُ العثراتِ، ويفرِّجُ الكربات، وينفذُ الأقدار في أوقاتها التي سبق بها علمهُ وجرى بها قلمه، ويرسل ملائكته الكرام لتدبير ما جعلهم على تدبيرِهِ، وينزِّل الكتب الإلهية على رسله، ويبين ما يحتاجُ إليه العباد من الشرائع والأوامر والنواهي، ويفصِّلها غايةَ التفصيل ببيانها وإيضاحها وتمييزها. {لعلَّكم}: بسبب ما أخرج لكم من الآيات الأفقيَّة والآيات القرآنيَّة، {بلقاء ربِّكم توقنون}: فإنَّ كثرة الأدلَّة وبيانها ووضوحها من أسباب حصول اليقين في جميع الأمور الإلهيَّة، خصوصاً في العقائد الكبار؛ كالبعث والنشور والإخراج من القبور. وأيضاً؛ فقد عُلم أنَّ الله تعالى حكيمٌ؛ لا يخلُق الخلق سدىً، ولا يتركهم عبثاً؛ فكما أنَّه أرسل رسله وأنزل كتبه لأمر العباد ونهيهم؛ فلا بدَّ أن ينقلَهم إلى دار يحلُّ فيهم جزاؤه؛ فيجازي المحسنين بأحسن الجزاء، ويجازي المسيئين بإساءتهم.
[2] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تخلیق و تدبیر اور عظمت و سلطان میں منفرد ہے اس کی یہ وحدانیت دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرنی چاہیے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَ٘عَ السَّمٰوٰتِ ﴾ ’’اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا۔‘‘ آسمانوں کے بہت بڑے اور بہت وسیع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند کر رکھا ہے۔ ﴿ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ﴾ ’’ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔‘‘ یعنی آسمانوں کو سہارا دینے کے لیے ان کے نیچے کوئی ستون نہیں اور ان کو ستون نے سہارا دیا ہوتا تو وہ تمھیں ضرور دکھائی دیتے۔ ﴿ ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ وہ عرش عظیم جو اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔ استواء کی کیفیت وہ ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کے کمال کے مناسب ہے۔ ﴿ وَسَخَّرَ الشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ﴾ ’’اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا۔‘‘ بندوں کے مصالح نیز ان کے مویشیوں ، باغات اور کھیتیوں کے مصالح کی خاطر۔ ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ ’’ہر ایک‘‘ یعنی چاند اور سورج ﴿ یَّجْرِیْ ﴾ ’’چل رہا ہے۔‘‘ یعنی غالب اور علم والی ہستی کے مقرر کردہ اندازے پر چل رہا ہے۔ ﴿لِاَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ دونوں ایک منظم رفتار سے چل رہے ہیں جس میں کوئی فرق آتا ہے نہ ان کی رفتار میں کوئی سستی آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت مقرر آ جائے گا اور اللہ اس جہان آب و گل کی بساط لپیٹ دے گا اور بندوں کو دارآخرت میں منتقل کر دے گا۔ جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ تب اس وقت اللہ تعالیٰ ان آسمانوں کو لپیٹ دے گا اور ان کو اور ہی آسمانوں سے بدل دے گا اور اسی طرح اس زمین کو دوسری زمین سے بدل دے گا۔ سورج اور چاند بے نور کر دیے جائیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والے دیکھ لیں کہ وہ عبادت کے مستحق نہ تھے تاکہ وہ سخت حسرت زدہ ہوں اور کفار کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ ﴿ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’تدبیر کرتا ہے کام کی، وہ کھول کر بیان کرتا ہے آیتوں کو‘‘ یہاں خلق و امر کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ عظمت والا تخت اقتدار پر مستوی ہے اور وہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کر رہا ہے، پس وہی پیدا کرتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے، وہی غنی کرتا اور محتاج کرتا ہے، وہ کچھ قوموں کو سربلند کرتا ہے اور کچھ قوموں کو قعر مذلت میں گرا دیتا ہے، وہی عزت عطا کرتا ہے وہی ذلت سے ہمکنار کرتا ہے، وہی گراتا ہے اور وہی رفعتیں عطا کرتا ہے، وہی لغزشوں پر عذر قبول کرتا ہے، وہی مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، وہی تقدیر کو اس کے وقت مقرر پر نافذ کرتا ہے، جو اس کے احاطۂ علم میں ہے اور جس پر اس کا علم جاری ہو چکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان فرشتوں کو تدبیر کائنات کے لیے بھیجتا ہے جن کو اس تدبیر کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ وہ کتب الٰہی کو اپنے رسولوں پر نازل فرماتا ہے، احکام شریعت اور اوامر و نواہی کو جن کے بندے سخت محتاج ہیں ، کھول کھول کر بیان کرتا ہے توضیح، تبیین اور تمییز کے ذریعے سے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’شاید کہ تم‘‘ یعنی اس سبب سے کہ اس نے تمھیں آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں اور تم پر آیات قرآنیہ نازل فرمائیں ﴿ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَؔ ﴾ ’’اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو‘‘ کیونکہ دلائل کی کثرت اور ان کی توضیح و تبیین تمام امور الٰہیہ میں ، خاص طور پر بڑے بڑے عقائد ، مثلاً: زندگی بعد موت اور قبروں سے نکلنے میں یقین کے حصول کا سبب بنتی ہے۔ نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿حَکِیْمٌ﴾ ’’حکمت والا‘‘ ہے وہ مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کرتا نہ وہ ان کو عبث چھوڑے گا۔ پس جیسے اس نے انبیاء و مرسلین مبعوث کیے اور بندوں کے لیے اوامر و نواہی کی خاطر کتابیں نازل فرمائیں ۔ تب یہ ضروری ٹھہرا کہ وہ بندوں کو ایک ایسے جہاں میں منتقل کرے جہاں انھیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے۔ نیکوکاروں کو بہترین بدلہ اور بدکاروں کو ان کی بدی کا بدلہ۔
#
{3} {وهو الذي مدَّ الأرض}؛ أي: خلقها للعباد ووسَّعها وبارك فيها ومهَّدَها للعباد وأودعَ فيها من مصالحهم ما أودع، {وجعل فيها رواسيَ}؛ أي: جبالاً عظاماً؛ لئلاَّ تميدَ بالخلق؛ فإنَّه لولا الجبال؛ لمادت بأهلها؛ لأنها على تيار ماء لا ثبوت لها ولا استقرار إلا بالجبال الرَّواسي التي جعلها الله أوتاداً لها. {و} جعل فيها {أنهاراً} تسقي الآدميين وبهائمهم وحروثهم؛ فأخرج بها من الأشجار والزروع والثمار خيراً كثيراً، ولهذا قال: {ومن كلِّ الثمرات جعل فيها زوجين اثنينِ}؛ أي: صنفين مما يحتاج إليه العباد. {يُغشي الليل النهار}: فتظلم الآفاق، فيسكن كلُّ حيوان إلى مأواه، ويستريحون من التعب والنصب في النهار، ثم إذا قَضَوْا مآربهم من النوم؛ غشي النهارُ الليلَ؛ فإذا هم مصبحون [منتشرون] في مصالحهم وأعمالهم في النهار، {ومن رحمتِهِ جعل لكم الليلَ والنَّهار لتسكُنوا فيه ولِتَبْتَغوا من فضلِهِ ولعلَّكم تشكُرون}. {إنَّ في ذلك لآياتٍ}: على المطالب الإلهيَّة {لقوم يتفكَّرون}: فيها وينظرون فيها نظر اعتبارٍ دالَّة على أن الذي خلقها ودبَّرها وصرَّفها هو الله الذي لا إله إلاَّ هو، ولا معبود سواه، وأنَّه عالم الغيب والشهادة الرحمن الرحيم، وأنَّه القادر على كل شيء، الحكيم في كلِّ شيء، المحمود على ما خَلَقَه وأمر به، تبارك وتعالى.
[3] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ ﴾ ’’وہی ہے جس نے پھیلائی زمین‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اپنے بندوں کے لیے تخلیق کیا، اس کو وسعت بخشی، اس میں برکت عطا کی، اپنے بندوں کے لیے اس کو پھیلایا اور اس کے اندران کے لیے فوائد و مصالح ودیعت کیے۔ ﴿ وَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ ﴾ ’’اور رکھے اس میں پہاڑ‘‘ یعنی زمین پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیے تاکہ زمین مخلوق کے ساتھ ڈھلک نہ جائے۔ اس لیے اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین اپنے رہنے والوں کے ساتھ ایک طرف جھک جاتی کیونکہ زمین پانی کی سطح پر تیر رہی ہے جس کو ثبات و استقرار نہیں ۔ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے پہاڑوں کے ذریعے سے اس میں توازن پیدا کیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے میخیں بنایا ہے۔ ﴿ وَاَنْ٘هٰرًا﴾ ’’اور دریا‘‘ یعنی زمین کے اندر دریا بنائے جو انسانوں ، ان کے مویشیوں اور ان کے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں ۔ پس ان دریاؤں کے ذریعے سے درخت، کھیتیاں اور باغات اگائے اور ان کے ذریعے سے خیر کثیر برآمد کیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَمِنْ كُ٘لِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ﴾ ’’اور ہر پھل کے رکھے اس میں جوڑے، دو دو قسم‘‘ یعنی ان میں دو اصناف پیدا کیں جن کے بندے محتاج ہوتے ہیں ۔ ﴿ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ ﴾ ’’ڈھانکتا ہے دن پر رات کو‘‘ وہ دن پر رات کو طاری کر دیتا ہے جس سے تمام آفاق پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور ہر جاندار اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر دن بھر کی مشقت اور تھکن کو دور کرنے کے لیے آرام کرتا ہے۔ جب وہ اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں تو دن رات پر چھا جاتا ہے تو لوگ دن کے وقت پھیل کر اپنے مصالح کے حصول اور اپنے کام کاج میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (القصص: 28؍73) ’’اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لیے دن اور رات بنائے تاکہ تم اس میں آرام کرو اور تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ ﴾ ’’اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘ یعنی اس میں مطالب الہیہ پر دلائل ہیں ﴿ لِّقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّرُوْنَؔ۠ ﴾ ’’غوروفکر کرنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے جو ان آیات و دلائل میں غور و فکر کرتے ہیں ، انھیں عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اس ہستی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جس نے ان کو تخلیق کیا، ان کی تدبیر کی اور ان میں تصرف کیا۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ وہ غائب اور موجود ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہ مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے، اپنے خلق و امر میں قابل تعریف، نہایت بابرکت اور بہت بلند ہستی ہے۔
#
{4} {و} من الآيات على كمال قدرتِهِ وبديع صنعته أن جعل {في الأرض قِطَعٌ متجاوراتٌ وجناتٌ}: فيها أنواع الأشجار: من الأعنابٍ والنخل والزَرْع، وغير ذلك، والنخيل التي بعضها {صنوان}؛ أي: عدة أشجار في أصل واحدٍ. {وغيرُ صِنْوانٍ}: بأن كان كل شجرة على حدتها، والجميع {يُسْقى بماء واحدٍ}: وأرضُه واحدةٌ. {ونُفضِّل بعضَها على بعضٍ في الأُكُل}: لوناً وطعماً ونفعاً ولذَّةً؛ فهذه أرض طيِّبة تنبت الكلأ والعشب الكثير والأشجار والزروع، وهذه أرضٌ تلاصِقُها لا تنبتُ كلأً ولا تمسك ماءً، وهذه تمسك الماء ولا تنبت الكلأ، وهذه تنبِتُ [الزروع] والأشجار ولا تنبِتُ الكلأ، وهذه الثمرةُ حلوةٌ وهذه مرَّةٌ وهذه بين ذلك؛ فهل هذا التنوُّع في ذاتها وطبيعتها أم ذلك تقدير العزيز الرحيم؟ {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يعقلونَ}؛ أي: لقوم لهم عقولٌ تهديهم إلى ما ينفعُهم وتقودهم إلى ما يرشدون ويعقلون عن الله وصاياه وأوامره ونواهيه، وأما أهلُ الإعراض وأهل البلادة؛ فهم في ظُلُماتهم يعمَهون وفي غيِّهم يتردَّدون، لا يهتدون إلى ربِّهم سبيلاً ولا يعون له قيلاً.
[4] ﴿ وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰؔوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ ﴾ ’’اور زمین میں کئی طرح کے قطعات ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باغات۔‘‘ اس کے کمال قدرت اور انوکھی صنعت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ زمین میں الگ الگ مگر ایک دوسرے سے متصل خطے پائے جاتے ہیں اور اس کے اندر باغات ہیں جن میں انواع و اقسام کے درخت ہیں ﴿ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ ﴾ ’’انگور کے باغ، کھیتیاں اور کھجور کے باغ ہیں ‘‘ اور دیگر پھل اور کھجور کے باغات جن میں سے بعض ﴿ صِنْوَانٌ ﴾ ’’ایک کی جڑ دوسری سے ملی ہوئی‘‘ یعنی متعدد درخت ایک ہی جڑ سے پھوٹے ہیں ﴿ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّ٘سْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ﴾ ’’اور بعض بن ملی، ان کو پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے‘‘ یعنی تمام درخت ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور ایک ہی زمین میں اگے ہوئے ہیں ۔ ﴿ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُ٘لِ﴾ ’’اور فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر میووں میں ‘‘ یعنی رنگ، ذائقہ، فوائد اور لذت میں بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ پس یہ اچھی اور زرخیز زمین ہے جس میں بکثرت سرسبز گھاس، بیل بوٹے، درخت اور کھیتیاں اگتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ملی ہوئی زمین کی ایک قسم وہ ہے جس میں گھاس اگتی ہے نہ وہ پانی کو روک کر اس کا ذخیرہ کر سکتی ہے۔ زمین کی ایک قسم وہ ہے جو پانی کو روک کر ذخیرہ کرتی ہے مگر اس میں ہریالی نہیں اگتی، ایک زمین وہ ہے جس میں درخت اور کھیتیاں اگتی ہیں مگر گھاس نہیں ہوتی۔ کوئی پھل شیریں ہے، کوئی تلخ اور کسی کا ذائقہ ان کے بین بین ہے۔ کیا یہ تنوع ان کا ذاتی اور طبعی ہے یا غالب اور رحم کرنے والی ہستی کی مقرر کردہ تقدیر ہے؟ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾ ’’بے شک اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘ یعنی اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایسی عقل سے بہرہ ور ہیں جو ان کی ان امور کی طرف راہنمائی کرتی ہے جو ان کے لیے مفید ہیں یہ عقل ان امور کی طرف لے چلتی ہے جن کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے اوامر و نواہی کو سمجھتے ہیں ۔ رہے روگرداں اور بلیدالذہن لوگ تو وہ اپنے نظریات کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں اور اپنی گمراہی میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ اپنے رب کی طرف انھیں کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ اس کی بات کو یاد رکھتے ہیں ۔
آیت: 5 #
{وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (5)}.
او ر اگر تعجب کریں آپ تو عجیب ہے بات ان کی کہ کیا جب ہو جائیں گے ہم مٹی تو کیا ہم ، البتہ نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا ساتھ اپنے رب کےاور یہی لوگ ہیں کہ طوق ہوں گے ان کی گردنوں میں اور یہی لوگ دوزخی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (5)
#
{5} يحتمل أنَّ معنى قوله: {وإن تَعْجَبْ}: من عظمة الله تعالى وكثرة أدلَّة التوحيد؛ فإنَّ العجب مع هذا إنكار المكذِّبين وتكذيبهم بالبعث وقولهم: {أإذا كُنَّا تراباً أإنّا لفي خلقٍ جديدٍ}؛ أي: هذا بعيدٌ في غاية الامتناع بزعمهم أنَّهم بعدما كانوا تراباً أن الله يُعيدهم؛ فإنَّهم من جهلهم قاسوا قدرة الخالق بقدرة المخلوق، فلما رأوا هذا ممتنعاً في قدرة المخلوق، ظنُّوا أنه ممتنعٌ على قدرة الخالق، ونسوا أنَّ الله خلقهم أول مرَّة ولم يكونوا شيئاً. ويُحتمل أنَّ معناه: وإنْ تعجَبْ من قولهم وتكذيبهم للبعث؛ فإنَّ ذلك من العجائب؛ فإنَّ الذي تُوَضَّح له الآيات ويرى منها الأدلة القاطعة على البعث ما لا يقبل الشكَّ والريبَ ثم ينكِرُ ذلك؛ فإنَّ قوله من العجائب، ولكن ذلك لا يُستغرب على {الذين كفروا بربهم}: وجَحَدوا وحدانيَّته، وهي أظهرُ الأشياء وأجلاها. {وأولئك الأغلالُ}: المانعة لهم من الهدى {في أعناقِهِم}: حيث دُعُوا إلى الإيمان فلم يؤمنوا، وعُرِضَ عليهم الهدى فلم يهتدوا، فقلِبَت قلوبهم وأفئدتهم عقوبةً على أنهم لم يؤمنوا به أول مرة. {وأولئك أصحابُ النار هم فيها خالدون}: لا يخرجون منها أبداً.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاِنْ تَعْجَبْ ﴾ ’’اور اگر آپ تعجب کریں ‘‘ میں احتمال ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے دلائل کی کثرت پر تعجب ہو۔ اس لیے کہ اس کے باوجود جھٹلانے والوں کا انکار اور ان کا روز قیامت کی تکذیب کرنا عجیب بات ہے۔ کہتے ہیں : ﴿ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبً٘ا ءَاِنَّا لَ٘فِیْ خَلْ٘قٍ جَدِیْدٍ﴾ ’’کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے، کیا نئے سرے سے بنائے جائیں گے؟‘‘ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق یہ بہت بعید اور ممتنع ہے کہ جب وہ مٹی میں رل مل جائیں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ زندہ کرے۔ انھوں نے بربنائے جہالت خالق کی قدرت کو مخلوق کی قدرت پر قیاس کر لیا ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ یہ مخلوق کی قدرت سے باہر ہے تو انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ خالق کے لیے بھی ممتنع ہے۔ حالانکہ وہ فراموش کر بیٹھے کہ ان کو پہلی بار اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھے۔ آیت کریمہ میں اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے اگر آپ ان کی بات اور ان کی ان کے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی تکذیب پر تعجب کرتے ہیں تو واقعی ان کی یہ بات عجائبات میں شمار ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ شخص جس کے سامنے آیات الٰہی بیان کی جائیں ، جو زندگی بعد موت پر ایسے قطعی دلائل دیکھتا ہو جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اس کے بعد وہ انکار کر دے تو یہ عجیب بات ہے۔ مگر ان کی یہ بات کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا‘‘ اور اس کی وحدانیت کو جھٹلایا حالانکہ توحید سب سے زیادہ واضح اور سب سے زیادہ روشن چیز ہے۔ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ الْاَغْ٘لٰ٘لُ ﴾ ’’اور وہی لوگ، طوق ہیں ‘‘ جو ان کو راہ ہدایت سے روکتے ہیں ﴿ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ﴾ ’’ان کی گردنوں میں ‘‘ کیونکہ انھیں ایمان کی طرف بلایا گیا مگر وہ ایمان نہ لائے، ان کے سامنے ہدایت پیش کی گئی مگر انھوں نے اسے قبول نہ کیا۔ لہذا سزا کے طور پر ان کے دل پلٹ دیے گئے کیونکہ یہ لوگ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے۔ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’یہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ یعنی وہ جہنم سے کبھی نہیں نکلیں گے۔
آیت: 6 #
{وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ (6)}.
اور وہ جلدی طلب کرتے ہیں آپ سے برائی (عذاب) پہلے بھلائی (رحمت) سےاور تحقیق گزر چکی ہیں پہلے ان سے مثالیں (عذاب کی)اور بلاشبہ آپ کا رب ، البتہ مغفرت والا ہے واسطے لوگوں کے باوجود ان کے ظلم کےاور بے شک آپ کا رب ، البتہ سخت سزا والا ہے (6)
#
{6} يخبر تعالى عن جهل المكذِّبين لرسوله، المشركين به، الذين وُعظوا فلم يتَّعظوا، وأُقيمت عليهم الأدلَّة فلم ينقادوا لها، بل جاهروا بالإنكار، واستدلُّوا بحِلْم الله الواحد القهار عنهم وعدم معاجلتهم بذنوبهم أنهم على حقٍّ، وجعلوا يستعجلون الرسول بالعذاب، ويقول قائلهم: {اللهمَّ إن كان هذا هو الحقَّ من عندِكَ فأمطِرْ علينا حجارةً من السماء أو ائتِنا بعذابٍ أليم}! {و} الحال أنَّه {قد خَلَتْ من قبلهم المَثُلاتُ}؛ أي: وقائع الله وأيامه في الأمم المكذبين، أفلا يتفكَّرون في حالهم ويتركون جهلهم؟! {وإنَّ ربَّك لذو مغفرةٍ للناس على ظلمِهِم}؛ أي: لا يزال خيره إليهم وإحسانُه وبرُّه وعفوه نازلاً إلى العباد، وهم لا يزال شِرْكهم وعصيانهم إليه صاعداً؛ يعصونه فيدعوهم إلى بابه، ويجرِمون فلا يحرِمُهم خيره وإحسانه؛ فإنْ تابوا إليه؛ فهو حبيبُهم؛ لأنَّه يحبُّ التوَّابين ويحبُّ المتطهِّرين، وإن لم يتوبوا؛ فهو طبيبُهم؛ يبتليهم بالمصائب ليطهِّرهم من المعايب: {قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنَطوا من رحمةِ الله إنَّ الله يغفرُ الذُّنوب جميعاً إنَّه هو الغفور الرحيم}. {وإنَّ ربَّك لشديدُ العقابِ}: على من لم يزلْ مصرًّا على الذُّنوب، قد أبى التوبة والاستغفار والالتجاء إلى العزيز الغفار؛ فليحذرِ العبادُ عقوباتِهِ بأهل الجرائم؛ فإنَّ أخذَه أليم شديدٌ.
[6] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کو جھٹلانے والے مشرکین کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جن کو نصیحت کی گئی مگر انھوں نے نصیحت حاصل نہ کی۔ ان پر دلائل قائم کیے گئے مگر انھوں نے ان دلائل کو نہ مانا بلکہ اس کے برعکس انھوں نے کھلم کھلا انکار کیا انھوں نے اللہ واحد و قہار کے حلم اور ان کے گناہوں پر فوری طور پر گرفت نہ ہونے کی و جہ سے استدلال کیا کہ وہ حق پر ہیں ۔ انھوں نے رسول اللہe سے کہنا شروع کر دیا کہ وہ جلدی سے عذاب لے آئیں اور ان میں سے بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ (الانفال: 8؍32) ’’اے اللہ! اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔‘‘ ﴿ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ﴾ ’’اور گزر چکی ہیں ان سے پہلے مثالیں ‘‘ اور حال یہ ہے کہ جھٹلانے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے کے واقعات گزر چکے ہیں کیا وہ اپنے حال پر غور و فکر کر کے اپنی جہالت کو چھوڑ نہیں سکتے؟ ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ﴾ ’’اور آپ کا رب لوگوں کو ان کے ظلم کے باوجود معاف کرنے والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی بھلائی، اس کا احسان، اس کا کرم اور اس کا عفوودرگزر اس کے بندوں پر ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے اور بندوں کی طرف سے ان کا شرک و عصیان اس کی طرف بلند ہوتا ہے، اس کے بندے اس کی نافرمانی کرتے ہیں وہ ان کو اپنے دروازے کی طرف بلاتا ہے، وہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں مگر وہ انھیں اپنے فضل و احسان سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر وہ توبہ کر لیں تو وہ ان کا دوست ہے کیونکہ وہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو وہ ان کا طبیب ہے، وہ ان کو مصائب میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ ان کو گناہوں سے پاک کردے۔ وہ کہتا ہے: ﴿قُ٘لْ یٰؔعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر:39؍53) ’’کہہ دیجیے! اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘ ان لوگوں کو جو اپنے گناہوں پر مصر رہتے ہیں ، جو اللہ غالب اور بخشنے والے کے پاس توبہ، استغفار اور التجا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ پس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی ان سزاؤں سے ڈرنا چاہیے جو وہ اہل جرائم کو دیتا ہے، اس کی پکڑ نہایت سخت اور دردناک ہے۔
آیت: 7 #
{وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (7)}.
اور کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کیوں نہیں نازل کی گئی اوپر اس (رسول) کے کوئی نشانی (معجزہ) اس کے رب کی طرف سے؟ (اے پیغمبر!) آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور واسطے ہر قوم کے ایک راہ دکھانے والاہوتا ہے (7)
#
{7} أي: ويقترح الكفارُ عليك من الآيات التي يُعَيِّنُونَها ويقولون: {لولا أنزِلَ عليه آيةٌ من ربِّه}، ويجعلون هذا القول منهم عُذراً لهم في عدم الإجابة إلى الرسول، والحال أنَّه منذرٌ، ليس له من الأمر شيءٌ، والله هو الذي ينزِّل الآيات، وقد أيَّده بالأدلَّة البيِّنات التي لا تخفى على أولي الألباب، وبها يهتدي من قصدُهُ الحقُّ، وأما الكافر الذي مِنْ ظلمه وجهله يقترح على الله الآيات؛ فهذا اقتراحٌ منه باطلٌ وكذبٌ وافتراءٌ ؛ فإنَّه لو جاءته أيُّ آية كانت؛ لم يؤمن ولم ينقد؛ لأنَّه لم يمتنع من الإيمان لعدم ما يدلُّه على صحته، وإنَّما ذلك لهوى نفسه واتِّباع شهوته. {ولكلِّ قوم هادٍ}؛ أي: داعٍ يدعوهم إلى الهدى من الرسل وأتباعهم، ومعهم من الأدلَّة والبراهين ما يدلُّ على صحَّة ما معهم من الهدى.
[7] یعنی کفار آپe سے بغیر سوچے سمجھے اور اپنی خواہشات کے مطابق معین آیات و معجزات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ ’’کیوں نہیں اتاری گئی آپ پر کوئی نشانی، آپ کے رب کی طرف سے‘‘ معجزات کے مطالبے کا جواب نہ ملنے پر رسول اللہe کے سامنے عذر پیش کرتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہe تو محض ڈرانے والے ہیں آپ کو کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو آیات و معجزات نازل فرماتا ہے۔ اس نے ایسے واضح دلائل کے ساتھ رسول کی تائید فرمائی جو عقل مندوں پر مخفی نہیں ہیں اور طالب حق ان دلائل کے ذریعے سے راہ راست پا سکتا ہے۔ رہا منکر حق، جو اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے آیات و معجزات کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ مطالبہ باطل جھوٹ اور بہتان طرازی ہے کیونکہ اس کے پاس جو بھی معجزہ اور نشانی آئے گی وہ اس پر ایمان لائے گا نہ اس کی اطاعت کرے گا کیونکہ اس کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کی صحت پر دلائل نہیں بلکہ اس کے ایمان نہ لانے کی وجہ صرف خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی ہے۔ ﴿ وَّلِكُ٘لِّ قَوْمٍ هَادٍ ﴾ ’’اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہوا کرتا ہے۔‘‘ یعنی ہر قوم کے پاس انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین میں سے ایک داعی آتا ہے جو انھیں ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ ان کے پاس دلائل و براہین ہوتے ہیں جو اس ہدایت کی صحت پر دلالت کرتے ہیں ۔
آیت: 8 - 11 #
{اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (8) عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ (9) سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (10) لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (11)}.
اللہ جانتا ہے جو کچھ اٹھاتی ہے (پیٹ میں ) ہر ایک مادہ،اور جو کچھ کم کرتے ہیں رحم اور جو کچھ زیادہ کرتے ہیں اورہر ایک چیز اس کے ہاں ساتھ ایک اندازے کے ہے(8) وہ جاننے والا ہے پوشیدہ اور ظاہر کا، بہت بڑا، نہایت بلند (9) برابر ہے (اللہ کے علم میں ) تم میں سے جو کوئی آہستہ کہے بات کو یا بلندآواز سے کہے اسےاورجو شخص کہ وہ چھپنے والا ہے رات (کے اندھیرے) میں اور جو چلنے والا ہے دن (کی روشنی) میں (10) واسطے اس (انسان) کے باری بار ی آنے والے فرشتے ہیں اس کے آگے سے اور اس کے پیچھے سے، وہ حفاظت کرتے ہیں اس کی اللہ کے حکم سے، بے شک اللہ نہیں بدلتا اس نعمت کو جو کسی قوم کے پاس ہے یہاں تک کہ وہ (خود) بدل لیں اپنی اس کیفیت کو جو ان کے دلوں میں ہےاور جب ارادہ کرتا ہے اللہ ساتھ کسی قوم کے برائی (عذاب) کا تو نہیں کوئی پھیرنے والا اس کواور نہیں واسطے ان (لوگوں ) کے سوائے اللہ کے کوئی کار سا ز(11)
#
{8 ـ 9} يخبر تعالى بعموم علمه وسعة اطَّلاعه وإحاطته بكلِّ شيء، فقال: {الله يعلمُ ما تحمِلُ كلُّ أنثى}: من بني آدم وغيرهم، {وما تَغيضُ الأرحامُ}؛ أي: تَنْقُصُ مما فيها، إما أن يَهْلِكَ الحمل أو يتضاءل أو يضمحلَّ، {وما تزدادُ}: الأرحام وتكبر الأجنَّة التي فيها. {وكلُّ شيءٍ عنده بمقدارٍ}: لا يتقدَّم عليه ولا يتأخَّر ولا يزيد ولا يَنْقُص إلاَّ بما تقتضيه حكمته وعلمه؛ فإنَّه {عالمُ الغيب والشهادةِ الكبيرُ}: في ذاته وأسمائه وصفاته، {المتعالِ}: على جميع خلقه بذاتِهِ وقدرته وقهره.
[9,8] اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کا علم سب کو شامل، اس کی اطلاع بہت وسیع اور اس نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُ٘لُّ اُنْثٰى﴾ ’’اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ‘‘ یعنی انسان اورجانوروں میں سے ﴿ وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ ﴾ ’’اور جو کم کرتے ہیں پیٹ‘‘ یعنی رحم میں موجود حمل میں جو کمی ہوتی ہے یا وہ ہلاک ہوجاتے ہیں یا وہ سکڑ کر مضمحل ہو جاتے ہیں ﴿ وَمَا تَزْدَادُ﴾ ’’اور جو وہ زیادہ کرتے ہیں ‘‘ اور ان میں موجود بچے بڑے ہوجاتے ہیں ۔ ﴿ وَكُ٘لُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ﴾ ’’اور ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ ہے‘‘ کوئی چیز اس مقدار سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ اس مقدار سے زیادہ ہو سکتی نہ کم مگر جس کا تقاضا اس کی حکمت اور علم کرے۔ ﴿ عٰؔلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ ﴾ ’’وہ نہاں اور آشکار کا جاننے والا اور بڑا ہے۔‘‘ یعنی وہ عالم غیب اور عالم ظاہر کا علم رکھتا ہے وہ اپنی ذات اور اپنے اسماء و صفات میں بڑا ہے۔ ﴿ الْمُتَعَالِ ﴾ ’’عالی رتبہ ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنی ذات، قدرت اور غلبہ کے اعتبار سے تمام مخلوق پر بلند ہے۔
#
{10} {سواءٌ منكم}: في علمه وسمعه وبصره، {مَنْ أسرَّ القول ومن جَهَرَ به ومن هو مستخفٍ بالليل}؛ أي: مستقرٌّ بمكان خفي فيه، {وساربٌ بالنهار}؛ أي: داخل سربه في النهار، والسربُ هو ما يستخفي فيه الإنسان: إما جوف بيته، أو غار، أو مغارة، أو نحو ذلك.
[10] ﴿ سَوَؔآءٌ مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’برابر ہے تم میں سے‘‘ یعنی اس کے علم اور سمع و بصر میں ﴿ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭؔ بِالَّیْلِ ﴾ ’’جو آہستہ بات کہے اور جو پکار کر کہے اور جو چھپنے والا ہے رات میں ‘‘ یعنی رات کے وقت کسی خفیہ مقام پر ٹھہرا ہوا ہے ﴿ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ﴾ ’’اور جو دن میں چلنے والا ہے‘‘ یعنی دن کے وقت اپنی پناہ گاہ کے اندر ہے اور (اَلسَّرَب) اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان چھپتا ہے، خواہ یہ جگہ گھر کے اندر ہو، کوئی غار ہو یا کوئی کھوہ وغیرہ ہو۔
#
{11} {له}؛ أي: للإنسان {معقباتٌ}: من الملائكة يتعاقبون في الليل والنهار، {من بين يديهِ ومن خلفِهِ يحفظونَه من أمر الله}؛ أي: يحفظون بدنه وروحه من كلِّ مَن يريده بسوء، ويحفظون عليه أعماله، وهم ملازمون له دائماً؛ فكما أنَّ علم الله محيطٌ به؛ فالله قد أرسل هؤلاء الحفظة على العباد بحيث لا تَخْفى أحوالهم ولا أعمالهم ولا يُنسَى منها شيء. {إنَّ الله لا يغيِّر ما بقوم}: من النعمة والإحسان ورَغَدِ العيش، {حتَّى يغيِّروا ما بأنفسِهم}: بأن ينتقلوا من الإيمان إلى الكفر، ومن الطاعة إلى المعصية، أو من شكر نعم الله إلى البطر بها، فيسلُبُهم الله عند ذلك إياها، وكذلك إذا غير العباد ما بأنفسهم من المعصية، فانتقلوا إلى طاعة الله؛ غيَّر الله عليهم ما كانوا فيه من الشقاء إلى الخير والسرور والغبطة والرحمة. {وإذا أراد الله بقوم سوءاً}؛ أي: عذاباً وشدَّة وأمراً يكرهونه؛ فإنَّ إرادته لا بدَّ أن تنفذ فيهم، فإنه {لا مردَّ له}، ولا أحد يمنعهم منه، {وما لهم من دونِهِ من والٍ}: يتولَّى أمورهم، فيجلب لهم المحبوبَ، ويدفع عنهم المكروهَ. فَلْيَحْذروا من الإقامة على ما يكره الله؛ خشية أن يحلَّ بهم من العقاب ما لا يُرَدُّ عن القوم المجرمين.
[11] ﴿لَهٗ ﴾ ’’اس کے لیے۔‘‘ یعنی انسان کے لیے ﴿مُعَقِّبٰؔتٌ ﴾ ’’پہرے دار ہیں ‘‘ یعنی فرشتے جو شب و روز ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں ﴿ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ﴾ ’’بندے کے آگے سے اور اس کے پیچھے سے، اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ‘‘ یعنی یہ فرشتے اس کے جسم و روح کی ہر اس چیز سے حفاظت کرتے ہیں جو اس کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، وہ اس کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں ۔ پس جیسے اللہ تعالیٰ کے علم نے انسان کا احاطہ کر رکھا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے یہ فرشتے بھیج رکھے ہیں جبکہ انسان کے اعمال اور احوال اللہ تعالیٰ سے اوجھل ہیں نہ وہ ان میں سے کچھ بھولتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ ﴾ ’’بے شک اللہ، وہ نہیں بدلتا جو لوگوں کو حاصل ہے‘‘ یعنی نعمت، احسان اور اسباب زیست کی فراوانی ﴿ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ﴾ ’’جب تک وہ خود اس چیز کو نہ بدل دیں ‘‘ یعنی جب تک کہ وہ ایمان سے کفر، اطاعت سے نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر سے ناشکری کی طرف منتقل نہیں ہوتے، تب اس صورت میں اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمتیں سلب کر لیتا ہے اور اسی طرح جب بندے اپنی حالت کو بدل لیتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر اطاعت کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو پھر ان کی بدبختی کی حالت کو بھلائی، مسرت، خوشی اور رحمت کی حالت میں بدل دیتا ہے۔ ﴿ وَاِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا﴾ ’’اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کے لیے کسی عذاب، سختی یا کسی ایسے امر کا ارادہ کرتا ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں تو اس کا ارادہ ان پر ضرور نافذ ہوتا ہے۔ ﴿ فَلَا مَرَدَّ لَهٗ﴾ اسے کوئی رد نہیں کرسکتا، یعنی اس سے انھیں کوئی بچا نہیں سکتا۔ ﴿ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ ﴾ ’’اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ‘‘ یعنی جو ان کے معاملات کی سرپرستی کر کے ان کے لیے ان کی محبوب و مرغوب اشیاء مہیا کرے اور ناپسندیدہ چیزوں کو ان سے دور کرے۔ پس لوگ ان امور پر قائم رہنے سے بچیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں مباداکہ ان پر وہ عذاب نازل ہو جائے جو مجرموں پر سے ہٹایا نہیں جاتا۔
آیت: 12 - 13 #
{هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ (12) وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ (13)}
وہی ہے (اللہ) جو دکھاتا ہے تمھیں بجلی ڈرانے اور امید دلانے کے لیےاور وہی پیدا کرتا ہے بادل بھاری (12)اور تسبیح بیان کرتی ہے گرج ساتھ اس کی حمد کےاور فرشتے بھی اس کے خوف سےاور وہ بھیجتا ہے کڑکتی بجلیاں ، پھر پہنچاتا (گراتا) ہے وہ بجلیاں جس پر چاہتا ہےاور وہ (کافر) جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی بابت اور وہ شدید قوت والا ہے (13)
#
{12} يقول تعالى: {هو الذي يُريكم البرقَ خوفاً وطمعاً}؛ أي: يُخاف منه الصواعق والهدم وأنواع الضَّرر على بعض الثمار ونحوها، ويُطمع في خيره ونفعه، {ويُنشِئ السَّحاب الثِّقال}: بالمطر الغزير الذي به نفعُ العباد والبلاد.
[12] ﴿ هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْـبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾ ’’وہی ہے جو دکھاتا ہے تم کو بجلی، ڈرانے کے لیے اور امید دلانے کے لیے‘‘ یعنی اس بجلی (کے گرنے) کی وجہ سے کڑک اور عمارتوں کے منہدم ہونے کا نیز باغات اور کھیتیوں کے پھلوں پر مختلف اقسام کے ضرر رساں اثرات کا خدشہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں بھلائی اور فائدے کی امید بھی ہوتی ہے۔ ﴿ وَّیُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ﴾ ’’اور وہ بارش سے لدے ہوئے بھاری بھاری بادل اٹھاتا ہے۔‘‘ یہ بارش بندوں کو اور زمین کو فائدہ دیتی ہے
#
{13} {ويسبِّح الرعدُ بحمده}: وهو الصوت الذي يُسمع من السحاب المزعج للعباد؛ فهو خاضعٌ لربِّه، مسبِّح بحمده، {و} تسبِّح {الملائكةُ من خِيفتِهِ}؛ أي: خُشَّعاً لربهم خائفين من سطوتِهِ، {ويرسل الصواعقَ}: وهي هذه النار التي تخرج من السحاب. {فيصيبُ بها مَن يشاءُ}: من عباده بحسب ما شاءه وأراده. {وهو شديدُ المحال}؛ أي: شديد الحَوْل والقوَّة؛ فلا يريد شيئاً إلاَّ فعله، ولا يتعاصى عليه شيءٌ، ولا يفوتُه هاربٌ. فإذا كان هو وحده الذي يسوق للعباد الأمطار والسحب التي فيها مادة أرزاقهم، وهو الذي يدبِّر الأمور وتخضع له المخلوقاتُ العظام التي يُخاف منها وتزعِجُ العباد، وهو شديد القوة؛ فهو الذي يستحقُّ أن يُعْبَدَ وحده لا شريك له، ولهذا قال:
[13] ﴿ وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ ﴾ ’’اور تسبیح بیان کرتا ہے گرجنے والا، اس کی خوبیوں کی‘‘ (اَلرَّعْد) سے مراد بجلی کی کڑک کی آواز ہے جو بادلوں سے سنائی دیتی ہے اور بندوں کو ڈرا دیتی ہے۔ یہ کڑک اپنے رب کے سامنے جھکی ہوئی، اس کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرتی ہے۔ ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ﴾ ’’اور سب فرشتے اس کے ڈر سے‘‘ یعنی اپنے رب کے سامنے فروتنی کے ساتھ اور اس کی سطوت سے ڈرتے ہوئے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ﴿وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ﴾ ’’اور بھیجتا ہے وہ کڑکتی بجلیاں ‘‘ اس سے مراد وہ آگ ہے، جو بادلوں سے نکلتی ہے ﴿ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’پھر ڈالتا ہے ان کو جس پر چاہے‘‘ وہ یہ کڑکتی ہوئی بجلیاں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے اور جب ارادہ کرتا ہے گرا دیتا ہے ﴿ وَهُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ١ۚ وَهُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ ﴾ ’’اور وہ جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں اور اس کی گرفت سخت ہے‘‘ وہ بہت زیادہ قوت و اختیار کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے کوئی اس کے سامنے دم مار سکتا ہے نہ بھاگ کر بچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اکیلا ہی، بندوں کے لیے بادل اور بارش لاتا ہے جس کے اندر ان کے رزق کا مادہ ہے، وہی ہے جو تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، بڑی سے بڑی مخلوق اس کے خوف سے نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے سرافگندہ ہے، بندے اس کے خوف سے لرزاں ہیں اور وہ بہت بڑی قوت کا مالک ہے… تب وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔
آیت: 14 #
{لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (14)}
اسی کے لیے ہے پکارنا سچا اور جنھیں وہ (مشرک) لوگ پکارتے ہیں سوائے اللہ کے، نہیں جواب دیتے وہ ان کو کچھ بھی مگر مانند (اس شخص کے جو) پھیلانے والا ہے دونوں ہتھیلیاں اپنی، پانی کی طرف تاکہ پہنچے وہ( پانی) اس شخص کے منہ میں حالانکہ نہیں ہے وہ پہنچنے والا اس (کے منہ) تک اور نہیں ہے پکارنا کافروں کا مگر گمراہی میں (14)
#
{14} أي: لله وحده {دعوةُ الحقِّ}: وهي عبادته وحده لا شريك له، وإخلاص دعاء العبادة ودعاء المسألة له تعالى؛ أي: هو الذي ينبغي أن يُصرف له الدعاء والخوف والرجاء والحبُّ والرغبة والرهبة والإنابة؛ لأنَّ ألوهيَّته هي الحقُّ، وألوهيَّة غيره باطلة. فَـ {الذينَ يدعونَ من دونه}: من الأوثان والأنداد التي جعلوها شركاء لله، {لا يستجيبون لهم}؛ أي: لمن يَدْعوها ويعبُدها بشيء قليل ولا كثير، لا من أمور الدُّنيا ولا من أمور الآخرة. {إلاَّ كباسط كفَّيه إلى الماء}: الذي لا تناله كفَّاه لبعدِهِ؛ {ليبلغَ}: ببسط كفَّيه إلى الماء {فاه}؛ فإنَّه عطشان، ومن شدَّة عطشه يتناول بيده ويبسطها إلى الماء الممتنع وصولها إليه؛ فلا يصلُ إليه؛ كذلك الكفار الذين يدعون معه آلهةً لا يستجيبون لهم بشيء ولا ينفعونهم في أشدِّ الأوقات إليهم حاجةً؛ لأنَّهم فقراء؛ كما أنَّ من دعوهم فقراء {لا يملكون مثقال ذرَّة في السموات ولا في الأرض وما لهم فيهما من شِرْك وما له منهم من ظهير}، {وما دعاءُ الكافرين إلاَّ في ضلال}: لبطلان ما يَدْعون من دون الله، فبطلت عبادتُهم ودعاؤُهم؛ لأنَّ الوسيلة تَبْطُلُ ببطلان غايتها، ولما كان اللهُ تعالى هو الملك الحق المبين؛ كانت عبادتُه حقًّا متَّصلة النفع بصاحبها في الدنيا والآخرة. وتشبيه دعاء الكافرين لغير الله بالذي يبسط كفَّيه إلى الماء ليبلغ فاه من أحسن الأمثلة؛ فإنَّ ذلك تشبيهٌ بأمرٍ مُحال؛ فكما أن هذا محالٌ؛ فالمشبَّه به محالٌ، والتعليق على المحال من أبلغ ما يكون في نفي الشيء؛ كما قال تعالى: {إنَّ الذين كفروا وكذَّبوا بآياتنا لا تُفَتَّحُ لهم أبوابُ السماء ولا يدخلونَ الجنَّةَ حتى يَلِجَ الجَمَلُ في سَمِّ الخِياط}.
[14] ﴿ لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ﴾ ’’سود مند پکارنا تو اسی کا ہے۔‘‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے دعوت حق ہے۔ دعوت حق سے سے مراد، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کو صرف اسی کے لیے خالص کرنا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو پکارا جائے، اس سے ڈرا جائے، اس پر امیدیں باندھی جائیں ، اس سے محبت کی جائے، اس کی طرف رغبت رکھی جائے، اس سے خوف کھایا جائے اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ اسی کی الوہیت حق ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ﴾ ’’اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو، جن کو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے، پکارتے ہیں ﴿ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ۠ لَهُمْ بِشَیْءٍ ﴾ ’’وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتے۔‘‘ یعنی یہ خود ساختہ معبود ان کو تھوڑا یا بہت کوئی جواب نہیں دے سکتے جو ان کو پکارتے اور عبادت کرتے ہیں خواہ اس پکار کا تعلق امور دنیا سے ہو یا آخرت سے ﴿ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ ﴾ ’’مگر جیسے کسی نے پھیلائے دونوں ہاتھ پانی کی طرف‘‘ یعنی وہ شخص جس کے ہاتھ دور ہونے کی بنا پر پانی تک پہنچ نہیں سکتے ﴿ لِیَبْلُ٘غَ ﴾ ’’کہ آپہنچے وہ پانی‘‘ یعنی اپنے ہاتھوں کو پانی کی طرف پھیلانے کی وجہ سے ﴿ فَاهُ ﴾ ’’اس کے منہ تک‘‘ کیونکہ وہ پیاسا ہے اور شدت پیاس کی وجہ سے اپنا ہاتھ پانی کی طرف بڑھاتا ہے مگر وہ پانی اس تک پہنچ نہیں پاتا۔ اسی طرح کفار جو اللہ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہیں ، یہ معبود ان کو کوئی جواب دے سکتے ہیں نہ ان کی حاجت کے شدید ترین اوقات میں ان کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ خود اسی طرح محتاج ہیں جس طرح ان کو پکارنے والے محتاج ہیں ۔ وہ زمین و آسمان میں ذرہ بھر کسی چیز کے مالک نہیں نہ وہ ان میں شریک ہیں اور نہ ان میں کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ ﴿ وَمَا دُعَآءُ الْ٘كٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰ٘لٍ ﴾ ’’اور کافروں کی ساری پکار گمراہی میں ہے‘‘ کیونکہ جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، باطل ہیں ۔ پس ان کی عبادت کرنا اور ان کو پکارنا سب باطل ٹھہرا، مقاصد کے بطلان کے ساتھ وسائل بھی باطل ہو جاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی واضح حقیقی بادشاہ ہے، اس لیے اس کی عبادت حق ہے اور عبادت گزار کو دنیا و آخرت میں نفع پہنچاتی ہے۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کفار کی پکار کو اس شخص سے تشبیہ دینا جو پانی کی طرف ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے… ایک بہترین تشبیہ ہے کیونکہ یہ ایک امر محال سے تشبیہ ہے جس طرح یہ امر محال ہے اس لیے مشبہ بہ بھی محال ہے۔ کسی چیز کی نفی کے لیے اس کو امر محال پر معلق ٹھہرانا، نفی کا بلیغ ترین پیرا یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَؔكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُ٘فَ٘تَّ٘حُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْؔخِیَاطِ﴾ (الاعراف: 7؍40) ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تکبر سے پیش آئے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی محال ہو گا جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا۔‘‘
آیت: 15 #
{وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ (15)}.
اور واسطے اللہ ہی کے سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی سے اور ناخوشی سے اور ان کے سائے بھی صبح اور شام کے وقت (15)
#
{15} أي: جميع ما احتوت عليه السماوات والأرض كلُّها خاضعةٌ لربِّها، تسجد له {طوعاً وكرهاً}: فالطَّوْع لمن يأتي بالسجود والخضوع اختياراً كالمؤمنين، والكَرْهُ لمن يستكبر عن عبادة ربِّه، وحالُه وفطرتُه تكذِّبه في ذلك. {وظلالُهم بالغُدُوِّ والآصال}؛ أي: ويسجد له ظلال المخلوقات أوَّلَ النهار وآخره، وسجودُ كلِّ شيء بحسب حاله؛ كما قال تعالى: {وإن مِن شيءٍ إلاَّ يسبِّحُ بحمدِهِ ولكن لا تفقهونَ تسبيحَهم}؛ فإذا كانت المخلوقات كلُّها تسجد لربِّها طوعاً وكرهاً؛ كان هو الإله حقًّا، المعبود المحمود حقًّا، وإلهيَّة غيره باطلة، ولهذا ذكر بطلانها وبرهن عليه بقوله:
[15] یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کی مطیع اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے ﴿ طَوْعًا وَّكَرْهًا ﴾ ’’خوشی سے اور ناخوشی سے‘‘ (طَوْعاً) اس شخص کے لیے جو اختیاری طور پر اللہ کے سامنے جھکتا اور اسے سجدہ کرتا ہے جیسے اہل ایمان اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتے ہیں (کَرْھاً) اس شخص کے لیے استعمال ہوا ہے جو تکبر کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا مگر خود اس کی فطرت اور اس کا حال اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿ وَّظِلٰ٘لُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ﴾ ’’اور ان کی پرچھائیاں صبح اور شام‘‘ یعنی تمام مخلوقات کے سائے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہر چیز کا سجدہ اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل: 17؍44) ’’اس جہان ہست و بود میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ۔‘‘ جب صورت حال یہ ہے کہ تمام کائنات طوعاً و کرہاً اپنے رب کے سامنے سرافگندہ ہے تو معلوم ہوا کہ وہی الٰہ حقیقی اور وہی معبود حقیقی ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی الوہیت کے بطلان کا ذکر کرتے ہوئے دلیل دی ہے۔
آیت: 16 #
{قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (16)}.
کہہ دیجیے (پوچھیے) کون ہے رب آسمانوں اور زمین کا؟ کہہ دیجیے، اللہ! کہیے، کیا پس پکڑے ہیں تم نے سوائے اس کے ایسے حمایتی کہ نہیں اختیاررکھتے وہ واسطے اپنے نفسوں کے (بھی) نفع کا اور نہ نقصان کا، کہہ دیجیے، کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا؟ یا کیا برابر ہوتے ہیں اندھیرے اور روشنی؟ کیا بنائے ہیں انھوں نے واسطے اللہ کے ایسے شریک کہ پیدا کیا انھوں نے مانند پیدا کرنے اللہ کے، پس مشتبہ ہو گئی پیدائش ان پر؟ کہہ دیجیے، اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کااور وہ یکتاہے نہایت غالب ہے (16)
#
{16} أي: قل لهؤلاء المشركين به أوثاناً وأنداداً؛ يحبُّونها كما يحبُّون الله، ويبذُلون لها أنواع التقرُّبات والعبادات: أفتاهتْ عقولكم حتى اتَّخذتم من دونه أولياء تتولَّوْنهم بالعبادة وليسوا بأهل لذلك؛ فإنَّهم {لا يملِكون لأنفسهم نفعاً ولا ضَرًّا}، وتتركون ولاية من هو كامل الأسماء والصفات، المالك للأحياء والأموات، الذي بيده الخَلْق والتدبير والنفع والضُّرُّ؛ فما تستوي عبادة الله وحده وعبادة المشركين به، كما لا يستوي الأعمى والبصير، وكما لا {تستوي الظلماتُ والنور}: فإنْ كان عندهم شكٌّ واشتباهٌ وجعلوا له شركاء، زعموا أنَّهم خلقوا كخَلْقه، وفعلوا كفعله؛ فأزِلْ عنهم هذا الاشتباه واللَّبس بالبرهان الدالِّ على تَوَحُّدِ الإله بالوحدانيَّة، فقل لهم: اللهُ خالقُ كلِّ شيء؛ فإنه من المحال أن يَخْلُقَ شيءٌ من الأشياء نفسَه، ومن المحال أيضاً أن يوجدَ مِن دون خالقٍ، فتعيَّن أنَّ لها إلهاً خالقاً لا شريك له في خلقه؛ لأنَّه الواحدُ القهَّارُ؛ فإنَّه لا توجد الوحدة والقهر إلاَّ لله وحده؛ فالمخلوقات كلُّ مخلوق فوقه مخلوقٌ يقهره، ثم فوق ذلك القاهر قاهرٌ أعلى منه، حتى ينتهي القهر للواحد القهار؛ فالقهر والتوحيد متلازمان متعيِّنان لله وحده، فتبيَّن بالدليل العقليِّ القاهر أنَّ ما يُدعى من دون الله ليس له شيء من خَلْق المخلوقات، وبذلك كانت عبادته باطلة.
[16] یعنی ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کے ساتھ ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کے تقرب کے لیے مختلف انواع کی عبادت ان کو پیش کرتے ہیں ۔ کیا تمھاری عقل ماری گئی ہے کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے تم ان کی عبادت کرتے ہو حالانکہ وہ عبادت کے مستحق نہیں ہیں ؟ ﴿ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ﴾ ’’وہ اپنے نفسوں کے لیے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے‘‘ اور تمھارا حال یہ ہے کہ تم نے اس ہستی کی سرپرستی کو چھوڑ دیا جو اسماء و صفات میں کامل، زندوں اور مردوں کی مالک ہے، جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تخلیق و تدبیر اور نفع و نقصان ہے۔ پس اللہ وحدہ کی عبادت اور خودساختہ شریکوں کی عبادت برابر نہیں ہو سکتی۔ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ١ۙ۬ اَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ﴾ ’’کہہ دیجیے، کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہو سکتی ہے؟‘‘ اگر انھیں کوئی شک و شبہ ہے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے معبود بھی پیدا کر سکتے ہیں جیسے اللہ پیدا کرتا ہے ان کے معبود بھی وہ کام کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلیل قائم کر کے ان کا شک و شبہ زائل کر دیجیے۔ پس ان سے کہہ دیجیے ﴿ اللّٰهُ خَالِقُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے‘‘ پس یہ محال ہے کہ کوئی چیز اپنے آپ کو پیدا کر سکتی ہے اور یہ بھی محال ہے کہ کوئی چیز خالق کے بغیر وجود میں آ جائے اور تب یہ حقیقت متعین ہو گئی کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو کائنات کی خالق اور الٰہ ہے، اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں کیونکہ وہ واحدوقہار ہے اور وحدانیت اور غلبہ یہ باہم لازم ہیں اور یہ اکیلے اللہ کے لیے متعین ہیں ۔ تمام کائنات میں ہر مخلوق کے اوپر ایک اور مخلوق ہے جو اس پر غالب ہے پھر اس غالب مخلوق پر فوقیت رکھنے والی ایک اور مخلوق ہے حتیٰ کہ یہ سلسلہ اس واحد و قہار ہستی پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ غلبہ اور توحید لازم و ملزوم اور اللہ واحد کے لیے متحقق اور متعین ہیں … تب ناقابل تردید عقلی دلیل کے ذریعے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارا جاتا ہے انھوں نے ان مخلوقات میں سے کسی چیز کو بھی تخلیق نہیں کیا اور اس طرح یہ بات متحقق ہو گئی کہ ان ہستیوں کی عبادت باطل ہے۔
آیت: 17 #
{أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ (17)}.
اللہ نے نازل کیا آسمان سے پانی، پس بہہ پڑیں (اس سے) وادیاں ساتھ اپنے اندازے کے، پھر اٹھا لیا سیلاب نے جھاگ ابھرا ہوااور ان چیزوں میں بھی کہ تپاتے ہیں انھیں وہ آگ میں ، واسطے تلاش کرنے زیور یا سامان کے، جھاگ ہے ماننداس (آب رواں کے) جھاگ کے، اسی طرح مثال بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کی، پس لیکن جو جھاگ ہے تو وہ چلا جاتا ہے خشک ہو کراور لیکن جو چیز نفع دیتی ہے لوگوں کو تو وہ ٹھہرتی ہے زمین میں ، اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں (17)
#
{17} شبَّه تعالى الهدى الذي أنزل على رسوله لحياة القلوب والأرواح بالماء الذي أنزله لحياة الأشباح. وشبَّه ما في الهدى من النفع العام الكثير الذي يضطرُّ إليه العباد بما في المطر من النفع العامِّ الضروريِّ. وشبَّه القلوب الحاملة للهدى وتفاوتها بالأودية التي تسيل فيها السيول؛ فَوَادٍ كبيرٌ يَسَعُ ماءً كثيراً كقلبٍ كبيرٍ يسعُ علماً كثيراً، ووادٍ صغيرٌ يأخذ ماءً قليلاً كقلبٍ صغيرٍ يسعُ علماً قليلاً ... وهكذا. وشبَّه ما يكون في القلوب من الشهوات والشُّبهات عند وصول الحقِّ إليها بالزَّبد الذي يعلو الماءَ ويعلو ما يوقَدُ عليه النار من الحلية التي يُراد تخليصُها وسبكها، وأنها لا تزال فوق الماء طافيةً مكدِّرةً له حتى تذهب وتضمحلَّ، ويبقى ما ينفع الناس من الماء الصافي والحلية الخالصة، كذلك الشبهاتُ والشَّهوات لا يزال القلب يكرهها ويجاهدها بالبراهين الصادقة والإرادات الجازمة حتى تذهب وتضمحلَّ ويبقى القلبُ خالصاً صافياً ليس فيه إلاَّ ما ينفعُ الناس من العلم بالحقِّ وإيثاره والرغبة فيه؛ فالباطل يذهبُ ويَمْحَقُهُ الحقُّ؛ {إنَّ الباطل كان زهوقاً}، وقال هنا: {كذلك يضرِبُ الله الأمثال}: ليتَّضح الحقُّ من الباطل والهدى من الضلال.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہدایت کو جسے قلب و روح کی زندگی کے لیے اپنے رسولe پر نازل فرمایا، پانی سے تشبیہ دی ہے جسے اس نے بدن کی زندگی کے لیے نازل فرمایا۔ ہدایت الٰہی میں جو عام اور کثیر نفع ہے اور بندے جس کے محتاج ہیں ، اس کو بارش میں موجود اس نفع عام سے تشبیہ دی ہے جو بندوں کے لیے بہت ضروری ہے اور ہدایت کے حامل قلوب اور ان کے تفاوت (باہمی فرق) کو ان وادیوں سے تشبیہ دی ہے جن کے اندر سیلاب بہتے ہیں ۔ پس بڑی وادی، جس میں بہت زیادہ پانی سما جاتا ہے اس بڑے دل کی مانند ہے جو بہت زیادہ علم سے لبریز ہے اور چھوٹی وادی جو تھوڑے سے پانی کی متحمل ہوتی ہے اس چھوٹے دل کی مانند ہوتی ہے جس میں بہت تھوڑا علم سماتا ہے۔ وصول حق کے وقت دلوں کے اندر جو شہوات و شبہات ہوتے ہیں ان کو اس جھاگ سے تشبیہ دی ہے جو سیلاب کے پانی کی سطح پر آ جاتا ہے اور یہ جھاگ اس وقت بھی اوپر آجاتا ہے جب زیور کو کھوٹ سے خالص کرنے کے لیے آگ میں تپایا جاتا ہے اور جھاگ برابر پانی کے اوپر رہتا ہے اور پانی کو مکدر کرنے والا میل کچیل پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مضمحل ہو کر ختم ہو جاتا ہے اور صاف پانی اور خالص زیور باقی رہ جاتا ہے جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہی حال شبہات و شہوات کا ہے قلب ان شبہات و شہوات کو ناپسند کرتا ہے، وہ دلائل و براہین اور پختہ ارادے کے ذریعے سے ان کے خلاف جدوجہد کرتا ہے حتیٰ کہ یہ شبہات و شہوات مضمحل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں اور قلب پاک صاف اور خالص ہو جاتا ہے اور حق کے علم، اس کو ترجیح دینے اور اس کی رغبت کے سوا اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ باطل زائل ہو جاتا ہے اور حق اس کو مٹا دیتا ہے۔ ﴿اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍81) ’’بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ﴾ ’’اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں ‘‘ تاکہ باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت واضح ہو جائے۔
آیت: 18 #
{لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (18)}.
واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے قبول کیا (حکم) اپنے رب کا، بھلائی ہے۔ اور وہ لوگ جنھوں نے نہیں قبول کیا (حکم) اس کا، اگر بے شک ہو واسطے ان کے جو کچھ زمین میں ہے سارا اور اس کی مثل (اور) اس کے ساتھ تو ضرور بدلے میں دے دیں وہ اسے، یہی لوگ ہیں واسطے ان کے سخت حساب ہے اور ٹھکانا ان کا جہنم ہےاور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے (18)
#
{18} لما بيَّن تعالى الحقَّ من الباطل؛ ذَكَرَ أنَّ الناس على قسمين: مستجيب لربِّه فذكر ثوابه، وغير مستجيب فذكر عقابه، فقال: {للذين استجابوا لربِّهم}؛ أي: انقادت قلوبُهم للعلم والإيمان، وجوارحُهم للأمر والنهي، وصاروا موافقين لربِّهم فيما يريده منهم؛ فلهم {الحسنى}؛ أي: الحالة الحسنة والثواب الحسن؛ فلهم من الصفات أجلُّها، ومن المناقب أفضلُها، ومن الثواب العاجل والآجل ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر. {والذين لم يستجيبوا له}: بعدما ضَرَبَ لهم الأمثال وبيَّن لهم الحقَّ لهم الحالةُ غير الحسنة. فَـ {لو أنَّ لهم ما في الأرض جميعاً}: من ذهب وفضةٍ وغيرهما، {ومثلَه معه لافتَدَوْا به}: من عذاب يوم القيامة؛ ما تُقُبِّلَ منهم. وأنَّى لهم ذلك؟! {أولئك لهم سوء الحساب}: وهو الحساب الذي يأتي على كلِّ ما أسلفوه من عمل سيئ وما ضيعوه من حقوق الله وحقوق عباده، قد كُتِبَ ذلك وسُطِرَ عليهم: {وقالوا يا وَيْلَتَنا مالِ هذا الكتابِ لا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلا أحصاها ووَجَدوا ما عملوا حاضراً ولا يظلمُ ربُّك أحداً}. {و} بعد هذا الحساب السيئ، {مأواهم جهنَّم}: الجامعة لكلِّ عذابٍ من الجوع الشديد والعطش الوجيع والنار الحامية والزقُّوم والزمهرير والضَّريع، وجميع ما ذكره الله من أصناف العذاب. {وبئس المهادُ}؛ أي: المَقَرُّ والمسكن مسكنهم.
[18] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق کو باطل سے واضح کر دیا تو اب فرما رہا ہے کہ لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں ۔ (۱) اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ثواب کا ذکر فرمایا۔ (۲) اپنے رب کی دعوت پر لبیک نہ کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کا ذکر فرمایا۔ ﴿لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اپنے رب کا حکم مانا‘‘ یعنی جن کے دل علم و ایمان کے سامنے سرافگندہ ہیں اور ان کے جوارح امرونہی پر عمل پیرا ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ چاہتا ہے وہ اس کی مراد کی موافقت کرتے ہیں ۔ ﴿الْحُسْنٰى﴾ ’’بھلائی ہے‘‘، یعنی اچھی حالت اور اچھا ثواب ان کی صفات جلیل ترین، ان کے مناقب بہترین اور ان کے لیے دنیاوی اور اخروی ثواب ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ﴾ ’’اور جنھوں نے اس کا حکم نہ مانا‘‘ یعنی ان کے سامنے مثالیں بیان کرنے اور حق واضح کرنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے رب کی آواز پر لبیک نہ کہا، ان کی حالت اچھی نہ ہو گی۔ ﴿ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ﴾ ’’اگر ان کے پاس ہو جو کچھ کہ زمین میں ہے سارا‘‘ یعنی زمین کا تمام سونا چاندی وغیرہ ﴿ وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ﴾ ’’اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور تو سب دے ڈالیں اپنے بدلے میں ‘‘ یعنی قیامت کے روز کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں ۔ تو ان سے یہ سب کچھ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ اور یہ مال انھیں حاصل بھی کہاں سے ہو گا؟ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ﴾ ’’ان کے لیے ہے برا حساب‘‘ یعنی یہ حساب ہر اس بداعمالی کے بارے میں ہو گا جس کا انھوں نے دنیا میں ارتکاب کیا تھا اور بندوں کے جو حقوق ضائع کیے تھے، ان کی تمام بداعمالیاں لکھ کر محفوظ کر لی گئی ہیں ۔ وہ پکار اٹھیں گے ﴿یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکھف: 18؍49) ’’ہاے ہماری بدبختی! یہ کیسی کتاب ہے جو کسی چھوٹی بات کو لکھنے سے چھوڑتی ہے نہ کسی بڑی بات کو اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے جو انھوں نے سرانجام دیے ہوں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ یعنی اس برے حساب کتاب کے بعد ﴿ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ﴾ ’’ان کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘ جس میں ہر قسم کا عذاب جمع ہے، مثلاً: شدید بھوک، دردناک پیاس، بھڑکتی ہوئی آگ، کھانے کو تھوہر، ٹھٹھرا دینے والی سردی، خاردار جھاڑ اور عذاب کی وہ تمام اقسام جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ﴿ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ ’’اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ یعنی ان کا مسکن اور ٹھکانا بدترین ہو گا۔
آیت: 19 - 24 #
{أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (19) الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)}.
کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ یقینا جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف، آپ کے رب کی طرف سے وہ حق ہے، مانند اس شخص کے (ہو سکتا ہے) جو اندھا ہے؟ یقینا نصیحت حاصل کرتے ہیں عقل والے ہی (19) وہ لوگ جو پورا کرتے ہیں عہد اللہ کا اور نہیں توڑتے وہ پختہ عہد کو (20) اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں اس چیز کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے اس کی بابت کہ ملایا جائے (اسے)اور وہ ڈرتے ہیں اپنے رب سےاور ڈرتے ہیں وہ سخت حساب سے (21) اور وہ لوگ کہ جنھوں نے صبر کیاواسطے تلاش کرنے کے رضا مندی اپنے رب کی اور انھوں نے قائم کی نماز اور خرچ کیا اس میں سے جو رزق دیا ہم نے انھیں پوشیدہ اور ظاہر اور وہ دور کرتے ہیں ساتھ اچھائی کے برائی کو، یہی لوگ ہیں واسطے ان کے (بہتر) انجام ہے آخرت کا (22) باغات ہیں ہمیشہ رہنے کے، وہ داخل ہوں گے ان میں اور وہ بھی جو نیک ہیں ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سےاور فرشتے داخل ہوں گے اوپر ان کے (جنت کے) ہر دروازے سے (23)(اورکہیں گے) سلام ہو تم پر بوجہ اس کے کہ صبر کیا تم نے، سو بہت ہی اچھا انجام ہے آخرت کا (24)
#
{19 ـ 20} يقول تعالى: مفرقاً بين أهل العلم والعمل وبين ضدِّهم: {أفَمَن يعلمُ أنَّما أنزِلَ إليك من ربِّك الحقُّ}: ففهم ذلك وعمل به. {كَمَنْ هو أعمى}: لا يعلم الحقَّ ولا يعمل به؛ فبينهما من الفرق كما بين السماء والأرض؛ فحقيقٌ بالعبد أن يتذكَّر ويتفكَّر، أيُّ الفريقين أحسن حالاً وخير مآلاً، فيؤثر طريقها، ويسلك خلف فريقها، ولكن ما كلُّ أحدٍ يتذكَّر ما ينفعه ويضره. {إنَّما يتذكَّر أولو الألباب}؛ أي: أولو العقول الرزينة والآراء الكاملة، الذين هم لبُّ العالم وصفوةُ بني آدم. فإن سألتَ عن وصفِهم؛ فلا تجدُ أحسن من وصف الله لهم بقوله: {الذين يُوفونَ بعهدِ اللهِ}: الذي عَهِدَهُ إليهم والذي عاهدهم عليه من القيام بحقوقه كاملة موفرة؛ فالوفاء بها توفيتها حقَّها من التتميم لها والنصح فيها، ومن تمام الوفاء بها أنَّهم {لا ينقُضون الميثاقَ}؛ أي: العهد الذي عاهدوا الله عليه، فدخل في ذلك جميع المواثيق والعهود والأيمان والنُّذور التي يعقِدُها العباد، فلا يكون العبد من أولي الألباب الذين لهم الثواب العظيم إلا بأدائها كاملةً وعدم نقضها وبخسها.
[20,19] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل علم و عمل اور غیر اہل علم لوگوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَفَ٘مَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ ﴾ ’’بھلا جو شخص جانتا ہے کہ جو کچھ اترا آپ پر آپ کے رب کی طرف سے، حق ہے‘‘ پس اس حق کو خوب سمجھ لیا اور اس پر عمل پیرا ہوا ﴿ كَ٘مَنْ هُوَ اَعْمٰى ﴾ ’’برابر ہو سکتا ہے اس کے جو کہ اندھا ہے‘‘ اور وہ حق کا علم رکھتا ہے نہ حق پر عمل کرتا ہے، دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ پس بندے پر لازم ہے کہ وہ غور کرے کہ فریقین میں سے کس کا حال اچھا اور کس کا انجام بہتر ہے، پھر اسے چاہیے کہ اسی راستے کو ترجیح دے اور اسی گروہ کی پیروی میں رواں دواں رہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص غوروفکر نہیں کرتا کہ اس کے لیے کیا چیز فائدہ مند اور کیا چیز نقصان دہ ہے؟ ﴿ اِنَّمَا یَتَذَكَّـرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ ’’عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ‘‘ یعنی جو پختہ عقل اور کامل رائے رکھتے ہیں یہ لوگ کائنات کا لب لباب اور بنی آدم میں چنے ہوئے لوگ ہیں ۔ اگر آپ ان کے اوصاف کے بارے میں سوال کریں تو آپ ان اوصاف سے بڑھ کر کوئی وصف نہیں پائیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں ‘‘ وہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کی تھی اور وہ عہد جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا یعنی اس کے حقوق کو کامل طور پر قائم کرنا، ان کو پوری طرح ادا کرنا یعنی ان حقوق کی نشوونما اور ان میں خیر خواہی کرنا۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ ان حقوق کی تکمیل یہ ہے کہ وہ ﴿ لَا یَنْقُ٘ضُوْنَ الْمِیْثَاقَ ﴾ ’’وہ اقرار کو نہیں توڑتے۔‘‘ یعنی اس عہد کو نہیں توڑتے جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے۔ اس آیت کریمہ کے حکم میں ہر قسم کا معاہدہ، عہد، قسم اور نذر وغیرہ داخل ہیں جنھیں بندے اپنے آپ پر لازم کرتے ہیں ۔ اس عہد اور میثاق کو بتمام پورا کیے بغیر بندہ، عقل مندوں میں شمار نہیں ہو سکتا جن کے لیے ثواب عظیم ہے۔
#
{21} {والذين يصِلونَ ما أمرَ اللهُ به أن يوصَلَ}: وهذا عامٌّ في كلِّ ما أمر الله بوصله من الإيمان به وبرسوله ومحبَّته ومحبَّة رسوله والانقياد لعبادته وحده لا شريك له ولطاعة رسوله، ويصلون آباءهم وأمهاتهم ببرِّهم بالقول والفعل وعدم عقوقهم، ويصلون الأقارب والأرحام بالإحسان إليهم قولاً وفعلاً، ويصلون ما بينَهم وبين الأزواج والأصحاب والمماليك بأداء حقِّهم كاملاً موفَّراً من الحقوق الدينيَّة والدنيويَّة. والسبب الذي يجعل العبد واصلاً ما أمر الله به أن يوصَلَ خشيةُ الله وخوفُ يوم الحساب، ولهذا قال: {ويَخْشَوْنَ ربَّهم}؛ أي: يخافونه، فيمنعهم خوفُهم منه ومن القدوم عليه يوم الحساب أن يتجرَّؤوا على معاصي الله أو يقصروا في شيء ممَّا أمر الله به؛ خوفاً من العقاب ورجاءً للثواب.
[21] ﴿ وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ ﴾ ’’اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا‘‘ یہ ان تمام امور کے لیے عام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ملانے کا حکم دیا ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe پر ایمان، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت، اللہ تعالیٰ وحدہ کی عبادت اور اس کے رسولe کی اطاعت کے لیے سرتسلیم خم کرنا۔ سب اس میں داخل ہے۔ یہ لوگ اپنے ماں باپ کے ساتھ قولی اور فعلی حسن سلوک کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتے ہیں اور ان کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اسی طرح اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اپنے قول و فعل میں حسن سلوک کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ اپنی بیویوں ، اپنے دوستوں ، ساتھیوں اور اپنے غلاموں کے دین اور دنیاوی حقوق کی کامل ادائیگی کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ اور وہ سبب جس کی بنا پر بندہ ان امور کو ملاتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ملانے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ اور روز حساب کا خوف ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَیَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ﴾ ’’اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن اس کے حضور پیش ہونے کا ڈر انھیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ارتکاب اور اس کے احکام میں کوتاہی سے بچاتا ہے، ان کا یہ رویہ عذاب کے ڈر اور ثواب کی امید کی بنا پر ہے۔
#
{22} {والذين صبروا}: على المأمورات بالامتثال، وعن المنهيَّات بالانكفاف عنها والبعد منها، وعلى أقدار الله المؤلمة بعدم تسخُّطها، ولكن بشرط أن يكون ذلك الصبر {ابتغاءَ وجهِ ربِّهم}: لا لغير ذلك من المقاصد والأغراض الفاسدة؛ فإنَّ هذا الصبر النافع، الذي يَحْبِسُ به العبد نفسه طلباً لمرضاة ربِّه ورجاءً للقرب منه والحظوة بثوابه، وهو الصبر الذي من خصائص أهل الإيمان، وأما الصبر المشترك الذي غايتُهُ التجلُّد ومنتهاه الفخر؛ فهذا يصدُرُ من البَرِّ والفاجر والمؤمن والكافر؛ فليس هو الممدوح على الحقيقة. {وأقاموا الصَّلاة}: بأركانها وشروطها ومكمِّلاتها ظاهراً وباطناً. {وأنفقوا مما رزقْناهم سرًّا وعلانية}: دخل في ذلك النفقات الواجبة كالزكوات والكفارات والنفقات المستحبَّة، وأنهم ينفقون حيث دعت الحاجةُ إلى النفقة سرًّا وعلانيةً. {ويدرؤونَ بالحسنةِ السيئةَ}؛ أي: مَن أساء إليهم بقول أو فعل؛ لم يقابلوه بفعله، بل قابلوه بالإحسان إليه، فيعطون من حَرَمَهم، ويعفون عمَّن ظَلَمهم، ويصِلون من قَطَعهم، ويحسِنون إلى مَن أساء إليهم، وإذا كانوا يقابلون المسيء بالإحسان؛ فما ظنُّك بغير المسيء. {أولئك}: الذين وُصِفَتْ صفاتهم الجليلة ومناقبهم الجميلة؛ {لهم عُقبى الدار}.
[22] ﴿ وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا﴾ ’’اور جو صبر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو مامورات کی تعمیل اور منہیات سے بچنے اور ان سے دور رہنے اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضاوقدر پرعدم ناراضی کے ساتھ صبر کرتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ صبر ﴿ ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ﴾ صرف ’’اپنے رب کی رضا کی خاطر ہو‘‘ کسی فاسد اغراض و مقاصد کے لیے نہ ہو۔ یہی وہ صبر ہے جو فائدہ مند ہے جو بندے کو اپنے رب کی رضا کی طلب اور اس کے قرب کی امید کا پابند اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتا ہے اور یہی وہ صبر ہے جو اہل ایمان کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے۔ وہ صبر جو بہت سے لوگوں میں مشترک ہوتا ہے اس کی غایت و انتہا استقلال اور فخر ہے یہ صبر نیک اور بد، مومن اور کافر، ہر قسم کے لوگوں سے صادر ہو سکتا ہے صبر کی یہ قسم درحقیقت ممدوح نہیں ہے۔ ﴿ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ﴾ ’’اور نماز قائم کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط اور ظاہری و باطنی تکمیل کے ساتھ قائم کرتے ہیں ، ﴿ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً ﴾ ’’اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں ‘‘ اس میں تمام نفقات واجبہ ، مثلاً: زکٰوۃ اور کفارہ اور نفقات مستحبہ داخل ہیں ۔ یہ کھلے چھپے ان تمام مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں ضرورت تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّؔیِّئَةَ ﴾ ’’اور وہ برائی کے مقابلے میں بھلائی کرتے ہیں ‘‘ یعنی جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ برے طریقے سے پیش نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک سے پیش آتے ہیں ۔ پس جو کوئی انھیں محروم کرتا ہے یہ اسے عطا کرتے ہیں ، جو کوئی ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کر دیتے ہیں ، جو کوئی ان سے قطع تعلق کرتا ہے یہ اس سے جڑتے ہیں اور جو کوئی ان سے برا سلوک کرتا ہے یہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں …جب برا سلوک کرنے والوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی یہ کیفیت ہے تو اس شخص کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی کیا کیفیت ہو گی جس نے ان کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی‘‘ یعنی وہ لوگ جو ان صفات جلیلہ اور مناقب جمیلہ کے حامل ہیں ﴿ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ﴾ ’’انھی کے لیے آخرت کا گھر ہے۔‘‘
#
{23 ـ 24} فسَّرها بقوله: {جناتُ عدنٍ}؛ أي: إقامةٍ لا يزولون عنها ولا يبغون عنها حِوَلاً؛ لأنَّهم لا يرون فوقها غايةً؛ لما اشتملت عليه من النعيم والسرور، الذي تنتهي إليه المطالب والغايات، ومن تمام نعيمهم وقرَّة أعينهم أنَّهم {يدخُلونها وَمَن صَلَحَ من آبائهم وأزواجهم وذرِّيَّاتهم}: من الذكور والإناث وأزواجهم؛ أي: الزوج أو الزوجة، وكذلك النظراء والأشباه والأصحاب والأحباب؛ فإنَّهم من أزواجهم وذُرِّيَّاتهم. {والملائكةُ يدخُلون عليهم من كلِّ بابٍ}: يهنونهم بالسلامة وكرامة الله لهم، ويقولون: {سلامٌ عليكم}؛ أي: حلَّت عليكم السلامة والتحيَّة من الله وحَصَلَت لكم، وذلك متضمِّنٌ لزوال كلِّ مكروه ومستلزمٌ لحصول كل محبوب {بما صبرتُم}؛ أي: صبركم هو الذي أوصلكم إلى هذه المنازل العالية والجنان الغالية. {فنعم عُقبى الدار}: فحقيقٌ بمن نصح نفسه، وكان لها عنده قيمة أن يجاهِدَها لعلَّها تأخُذُ من أوصاف أولي الألباب بنصيب، ولعلها تحظى بهذه الدار التي هي مُنْيَةُ النفوسِ وسرورُ الأرواحِ الجامعة لجميع اللَّذَّات والأفراح؛ فلمِثْلها فليعمل العاملون، وفيها فليتنافس المتنافسون.
[24,23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ ﴾ ’’باغ ہیں ہمیشہ رہنے کے‘‘ یعنی وہ ان جنتوں میں قیام کریں گے وہ کبھی ان سے دور نہ ہوں گے اور نہ وہ ان جنتوں سے منتقل ہونا چاہیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی منزل نہیں … کیونکہ یہ جنتیں ایسی نعمت اور مسرت پر مشتمل ہیں جو مطلوب و مقصود ہے۔ اور ان کے لیے نعمت کی تکمیل اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہے کہ ﴿ یَّدْخُلُوْنَهَا۠ وَمَنْ صَلَ٘حَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ ﴾ ’’وہ اس (جنت) میں داخل ہوں گے اور جو نیک ہوئے ان کے باپ دادا میں سے، (مردوں اور عورتوں میں سے) اور ان کی بیویوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے۔‘‘ اور اسی طرح ان جیسے دیگر لوگ، ان کے دوست، ہم نشین، ان کے ساتھی۔ اس لیے کہ یہ سب ان کی ازواج اور اولاد کی قبیل ہی میں شمار ہوں گے ﴿وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُ٘لِّ بَ٘ابٍ ﴾ ’’اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے‘‘ وہ انھیں سلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام و تکریم کے ذریعے سے ہدیہ تہنیت پیش کریں گے۔ اور کہیں گے ﴿ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تم پر سلامتی ہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر سلامتی اور سلام کا ہدیہ ہے جو تمھیں پیش کیا گیا ہے اور یہ سلام ہر ناخوشگوار کے زائل ہونے کو متضمن اور ہر محبوب چیز کے حصول کو مستلزم ہے ﴿ بِمَا صَبَرْتُمْ ﴾ ’’تمھارے صبر کے سبب سے‘‘ یہ صبر ہی ہے جس نے تمھیں ان مقامات بلند اور جنت عالیشان میں پہنچایا ﴿ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ ’’سو کیا خوب ہے عاقبت کا گھر‘‘ پس جو کوئی اپنے نفس کا خیرخواہ ہے اور اس کے نزدیک اس کی قدروقیمت ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے تزکیہ کے لیے پوری جدوجہد کرے شاید وہ عقل مندوں کے اوصاف سے بہرہ ور ہو سکے اور شاید اسے آخرت کے گھر سے کوئی حصہ مل سکے جو دلوں کی آرزو اور روح کا سرور ہے جو ہر قسم کی لذتوں اور فرحتوں کا جامع ہے۔ پس اس قسم کی منزل کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے اور اس قسم کے مقام کے لیے سبقت کرنی چاہیے۔
آیت: 25 #
{وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (25)}.
اور وہ لوگ جو توڑتے ہیں عہد اللہ کا بعد پختہ کرنے کے اس کواور قطع کرتے ہیں اس چیز کو کہ حکم دیا اللہ نے اس کی بابت کہ ملایا جائے (اسے) اور وہ فساد کرتے ہیں زمین میں ، یہی لوگ ہیں واسطے ان کے لعنت اورواسطے انھی کے بہت برا گھر ہے (آخرت کا) (25)
#
{25} لما ذكر حال أهل الجنة؛ ذكر أنَّ أهل النار بعكس ما وصفهم به، فقال عنهم: {والذين ينقُضون عهد الله من بعد ميثاقِهِ}؛ أي: من بعدما أكَّده عليهم على أيدي رسله وغلَّظ عليهم، فلم يقابلوه بالانقياد والتسليم، بل قابلوه بالإعراض والنقض. {ويقطَعون ما أمر الله به أن يوصَلَ}: فلم يَصِلوا ما بينهم وبين ربِّهم بالإيمان والعمل الصالح، ولا وصلوا الأرحام، ولا أدَّوا الحقوق، بل أفسدوا في الأرض بالكفر والمعاصي والصدِّ عن سبيل الله وابتغائها عوجاً. {أولئك لهم اللعنةُ}؛ أي: البعد والذمُّ من الله وملائكته وعباده المؤمنين. {ولهم سوء الدار}: وهي الجحيم بما فيها من العذاب الأليم.
[25] اہل جنت کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کے ایسے احوال بیان فرمائے ہیں جو اہل جنت کے اوصاف کے برعکس ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ ﴾ ’’وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اس کو مضبوط کرنے کے بعد‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے اس عہد کو مؤکد اور پکا کرنے کے بعد انھوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور اطاعت و تسلیم سے اس عہد کو پورا نہ کیا بلکہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے اس کو توڑ دیا۔ ﴿ وَیَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ ﴾ ’’اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا‘‘ پس انھوں نے ایمان و عمل کے ذریعے سے اپنے اور اپنے رب کے مابین تعلق کو قائم کیا، نہ انھوں نے صلہ رحمی کی اور نہ انھوں نے حقوق ادا کیے بلکہ اس کے برعکس انھوں نے کفرومعاصی کا ارتکاب کرکے، لوگوں کو اللہ کے راستے سے روک کر اور اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنے کی کوششوں کے ذریعے سے، زمین میں فساد پھیلایا۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ ﴾ ’’ایسوں پر لعنت ہے۔‘‘ یعنی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور اس کے فرشتوں اور اس کے مومن بندوں کی طرف سے مذمت ہے ﴿ وَلَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ ﴾ ’’اور ان کے لیے گھر بھی برا ہے۔‘‘ اس سے مراد جہنم ہے کیونکہ اس میں ان کے لیے المناک عذاب ہو گا۔
آیت: 26 #
{اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ (26)}.
اللہ کشادہ کرتا ہے رزق واسطے جس کے چاہے اور تنگ کرتا ہے (جس کے لیے چاہے) اور وہ کافر اتراتے ہیں ساتھ زندگانی دنیا کے اور نہیں ہے زندگانی دنیا آخرت (کے مقابلے) میں مگر متاع (حقیر) (26)
#
{26} أي: هو وحده يوسِّع الرزق ويبسُطُه على من يشاء ويَقْدِره ويضيِّقه على مَن يشاء. {وفرحوا}؛ أي: الكفار {بالحياة الدنيا}: فرحاً أوجب لهم أن يطمئنُّوا بها ويغفلوا عن الآخرة، وذلك لنقصان عقولهم. {وما الحياة الدُّنيا في الآخرة إلاَّ متاعٌ}؛ أي: شيء حقيرٌ يُتَمَتَّع به قليلاً ويفارق أهله وأصحابه ويُعْقِبُهم وَيلاً طويلاً.
[26] یعنی وہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے۔ رزق وسیع کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے نپاتلا رزق عطا کر کے اس پر رزق کو تنگ کردیتا ہے ﴿ وَفَرِحُوْا ﴾ ’’اور وہ خوش ہورہے ہیں ۔‘‘ یعنی کفار خوش ہیں ﴿ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’دنیا کی زندگی پر‘‘ انھیں ایسی خوشی ہے جو ان کے لیے دنیا پر اطمینان اور آخرت سے غفلت کی موجب ہے اور یہ ان کی کم عقلی ہے۔ ﴿ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں مگر حقیر سامان‘‘ یعنی دنیا کی زندگی ایک حقیر سی چیز ہے جس سے بہت کم فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور جو فائدہ اٹھانے والے دنیا داروں سے جدا ہو جائے گی اور اپنے پیچھے ایک طویل ہلاکت چھوڑ جائے گی۔
آیت: 27 - 29 #
{وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ (27) الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28) الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ (29)}.
اور کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کیوں نہیں نازل کی گئی آپ پر کوئی (بڑی) نشانی آپ کے رب کی طرف سے؟ کہہ دیجیے، بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس شخص کو جو (اس کی طرف) رجوع کرے (27) وہ لوگ جو ایمان لائے اور مطمئن ہوتے ہیں دل ان کے ساتھ اللہ کے ذکر کے، آگاہ رہو! اللہ کے ذکر کے ساتھ ہی مطمئن ہوتے ہیں دل (28)وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، راحت و فرحت ہے ان کے لیے اور اچھا ٹھکانا ہے (29)
#
{27} يخبر تعالى أنَّ الذين كفروا بآيات الله يتعنَّتون على رسول الله ويقترحون ويقولون: {لولا أنزِلَ عليه آيةٌ من ربِّه}: وبزعمهم أنها لو جاءت لآمنوا، فأجابهم الله بقوله: {قل إنَّ الله يُضِلُّ مَن يشاء ويهدي إليه من أنابَ}؛ أي: طلب رضوانه، فليست الهداية والضلال بأيديهم حتى يجعلوا ذلك متوقِّفاً على الآيات، ومع ذلك؛ فهم كاذبون فـ {لو أننا نزَّلنا إليهم الملائكة وكلَّمهم الموتى وحَشَرْنا عليهم كلَّ شيءٍ قُبُلاً ما كانوا لِيُؤمنوا إلاَّ أنْ يشاء الله ولكنَّ أكثرهم يجهلونَ}. ولا يلزمُ أن يأتي الرسولُ بالآية التي يعيِّنونها ويقترحونها، بل إذا جاءهم بآيةٍ تبيِّنُ ما جاء به من الحقِّ؛ كفى ذلك وحصل المقصودُ وكان أنفع لهم من طلبهم الآيات التي يعيِّنونها؛ فإنَّها لو جاءتهم طِبْقَ ما اقترحوا، فلم يؤمنوا بها؛ لعاجلهم العذاب.
[27] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ، اللہ کے رسول سے بطریق تلبیس بے سوچے سمجھے سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ ’’کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے‘‘ یعنی ان کے زعم کے مطابق، اگر ان کے پاس معجزہ آ گیا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا ﴿ قُ٘لْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ دکھلاتا ہے اپنی طرف اس کو جس نے رجوع کیا‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہوا۔ پس ہدایت اور گمراہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ اسے آیات و معجزات پر موقوف قرار دیں ۔ بایں ہمہ وہ سخت جھوٹے ہیں ۔ اگر ہم ان پر فرشتے نازل کر دیں ، ان کے ساتھ مردے ہم کلام ہوں اور ان کے سامنے ہر چیز اکٹھی کر دیں تب بھی یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں ۔ یہ لازم نہیں کہ رسول ان کے پاس وہی متعین معجزہ لے کر آئے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں بلکہ وہ جو نشانی لے کر آئے جس سے حق واضح ہو جائے تو کافی ہے اور اس سے مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور ان کے لیے ان کے متعین معجزات کے طلب کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ اگر ان کے مطالبے کے مطابق نشانی آ جائے اور وہ اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیں تو بہت جلد ان کو اللہ تعالیٰ کا عذاب آ لے گا۔
#
{28} ثم ذكر تعالى علامة المؤمنين، فقال: {الذين آمنوا وتطمئنُّ قلوبُهم بذكر الله}؛ أي: يزول قلقها واضطرابها، وتحضُرُها أفراحها ولذَّاتها. {ألا بذكرِ الله تطمئنُّ القلوب}؛ أي: حقيق بها وحريٌّ أن لا تطمئنَّ لشيءٍ سوى ذكره؛ فإنَّه لا شيء ألذُّ للقلوب ولا أشهى ولا أحلى من محبة خالقها والأنس به ومعرفته، وعلى قَدْرِ معرفتها بالله ومحبَّتها له يكون ذِكْرُها له، هذا على القول بأنَّ ذكرَ الله ذِكْرُ العبد لربِّه من تسبيح وتهليل وتكبير وغير ذلك، وقيل: إن المراد بذِكْر الله كتابُه الذي أنزله ذكرى للمؤمنين؛ فعلى هذا معنى طمأنينة القلب بذكر الله أنها حين تَعْرِفُ معاني القرآن وأحكامه تطمئنُّ لها؛ فإنَّها تدل على الحقِّ المبين المؤيَّد بالأدلة والبراهين، وبذلك تطمئنُّ القلوب؛ فإنَّها لا تطمئنُّ إلا باليقين والعلم، وذلك في كتاب الله مضمونٌ على أتمِّ الوجوه وأكملها، وأما ما سواه من الكتب التي لا ترجِعُ إليه؛ فلا تطمئنُّ بها، بل لا تزال قلقةً من تعارض الأدلَّة وتضادِّ الأحكام، {ولو كان من عندِ غيرِ الله لَوَجَدوا فيه اختلافاً كثيراً}، وهذا إنما يعرفه من خَبَرَ كتابَ الله، وتدبَّره، وتدبَّر غيره من أنواع العلوم؛ فإنَّه يجد بينها وبينه فرقاً عظيماً.
[28] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُ٘لُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ﴾ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کا قلق اور اضطراب دور ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ فرحت اور لذت آ جاتی ہے۔ فرمایا ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ ’’سنو! اللہ کے ذکر سے ہی دل چین پاتے ہیں ‘‘ دلوں کے لائق اور سزا وار بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن نہ ہوں کیونکہ دلوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ اور شیریں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی مقدار کے مطابق دل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس قول کے مطابق یہاں ذکر سے مراد بندے کا اپنے رب کا ذکر کرنا ہے ، مثلاً: تسبیح اور تکبیر و تہلیل وغیرہ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یاد دہانی کے لیے نازل فرمائی ہے۔ تب ذکر الٰہی کے ذریعے سے اطمینان قلب کے معنی یہ ہوں گے کہ دل جب قرآن کے معانی اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں تو اس پرمطمئن ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن کے معانی حق مبین پر دلالت کرتے ہیں اور دلائل و براہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ علم اور یقین کے بغیر دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور کتاب اللہ کامل ترین وجوہ کے ساتھ علم اور یقین کو متضمن ہے۔ کتاب اللہ کے سوا دیگر کتب علم و یقین کی طرف راجع نہیں ہوتیں اس لیے دل ان پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ اس کے برعکس وہ، دلائل کے تعارض اور احکام کے تضاد کی بنا پر ہمیشہ قلق کا شکار رہتے ہیں ﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا﴾ (النساء: 4؍82) ’’اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘ اور یہ چیز کتاب اللہ کی دی ہوئی خبر، کتاب اللہ میں تدبیر اور دیگر مختلف علوم میں غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے پس (طالب حق) ان کتب علوم اور کتاب اللہ کے درمیان بہت بڑا فرق پائے گا۔
#
{29} ثم قال تعالى: {الذين آمنوا وعملوا الصالحات}؛ أي: آمنوا بقلوبهم بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، وصدَّقوا هذا الإيمان بالأعمال الصالحة؛ أعمال القلوب كمحبة الله وخشيته ورجائه، وأعمال الجوارح كالصلاة ونحوها. {طوبى لهم وحسنُ مآب}؛ أي: لهم حالةٌ طيبةٌ ومرجع حسنٌ، وذلك بما ينالون من رضوان الله وكرامته في الدنيا والآخرة، وإنَّ لهم كمال الراحة وتمام الطمأنينة، ومن جملة ذلك شجرةُ طوبى التي في الجنة، التي يسير الراكب في ظلِّها مائة عام ما يقطعُها؛ كما وردت بها الأحاديث الصحيحة.
[29] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔‘‘ یعنی جو اپنے دل سے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے، اعمال صالحہ یعنی اعمال قلوب ، مثلاً: محبت الٰہی، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ پر امید وغیرہ اور اعمال جوارح ، مثلاً: نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کرے۔ ﴿ طُوْبٰى لَهُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ ﴾ ’’ان کے لیے خوش حالی اور عمدہ ٹھکانا ہے۔‘‘ یعنی ان کا حال پاک صاف اور ان کا انجام اچھا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ انھیں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی طرف سے اکرام و تکریم حاصل ہے اور انھیں کامل راحت اور پورا اطمینان قلب عطا کیا گیا ہے۔ ان جملہ نعمتوں میں ، جنت کا ’’شجر طوبیٰ‘‘ بھی شامل ہے کہ ایک سوار اس درخت کے سائے میں ایک سو سال تک چلتا رہے گا مگر سایہ ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے۔(مسند أحمد، (3؍71)
آیت: 30 #
{كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ (30)}.
(جیسے پہلے رسول بھیجے تھے) اسی طرح بھیجا ہم نے آپ کو ایسی امت میں کہ گزر چکی ہیں پہلے اس سے کئی امتیں تاکہ آپ پڑھیں اوپر ان کے وہ (قرآن) جو وحی کیا ہم نے آپ کی طرف اور وہ کفر کرتے ہیں ساتھ رحمن کے، کہہ دیجیے وہ میرا رب ہے، نہیں کوئی معبود (برحق) مگر وہی، اسی پر بھروسہ کیا میں نے اور اسی کی طرف ہے لوٹنا میرا (30)
#
{30} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {كذلك أرسلناك}: إلى قومك تدعوهم إلى الهدى، {قد خَلَتْ من قبلها أممٌ}: أرسلنا فيهم رسلنا، فلستَ ببدع من الرسل حتى يستنكروا رسالتك، ولستَ تقول من تلقاءِ نفسك، بل تتلو عليهم آياتِ الله، التي أوْحاها الله إليك، التي تطهِّر القلوب وتزكِّي النفوس، والحال أنَّ قومك يكفرون بالرحمن، فلم يقابلوا رحمته وإحسانه ـ التي أعظمها أنْ أرسلناك إليهم رسولاً وأنزلنا عليك كتاباً ـ بالقبول والشكر، بل قابلوها بالإنكار والردِّ؛ أفلا يعتبرون بمَنْ خلا من قبلهم من القرون المكذِّبة كيف أخذهم الله بذنوبهم؟ {قل هو ربِّي لا إله إلاَّ هو}: وهذا متضمِّن [للتوحيدين]: توحيد الألوهيَّة وتوحيد الربوبيَّة؛ فهو ربي الذي رَبَّاني بنعمِهِ منذ أوجدني، وهو إلهي الذي {عليه توكلتُ} في جميع أموري وإليه أنيب ؛ أي: أرجع في جميع عباداتي وفي حاجاتي.
[30] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمدe سے فرماتا ہے ﴿كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ﴾ ’’اسی طرح ہم نے آپ کوبھیجا۔‘‘ یعنی ہم نے آپe کو آپ کی قوم کی طرف مبعوث کیا تاکہ آپ ان کو ہدایت کی طرف دعوت دیں ﴿فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ ﴾ ’’ایک امت میں کہ اس سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں ‘‘ جن کے اندر ہم نے اپنے رسول بھیجے، لہٰذا آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں کہ وہ آپ کی رسالت کو اوپرا سمجھیں اور نہ آپ اپنی طرف سے کوئی بات کرتے ہیں ۔ بلکہ آپ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی ہیں جو دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ کرتی ہیں اور آپ کی قوم کا حال یہ ہے کہ وہ رحمان کا انکار کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت اور احسان سے نوازا اور سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ ہم نے آپ کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی مگر انھوں نے شکر گزاری کے ساتھ اس کو قبول کرنے کی بجائے اس کا انکار کر کے اسے ٹھکرا دیا۔ پس انھوں نے تکذیب کرنے والی ان قوموں سے عبرت حاصل نہ کی جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔ ﴿ قُ٘لْ هُوَ رَبِّیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’کہہ دیجیے! وہ میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ یہ آیت کریمہ دو قسم کی توحید کو متضمن ہے توحید الوہیت اور توحید ربوبیت۔ پس وہ میرا رب ہے اور جب سے وہ مجھے وجود میں لایا ہے اس وقت سے میری پرورش کر رہا ہے اور وہی میرا معبود ہے ﴿ عَلَیْهِ تَوَؔكَّؔلْتُ ﴾ ’’میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں اپنے تمام امور میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں ﴿ وَاِلَیْهِ مَتَابِ ﴾ ’’اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں اپنی تمام عبادات اور حاجات میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
آیت: 31 #
{وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (31)}.
اوراگر بے شک ہوتا کوئی قرآن کہ چلائے جاتے اس کے ذریعے سے پہاڑ یا قطع کی جاتی اس کے ذریعے سے زمین یا بلوائے جاتے اس کے ذریعے سے مردے (تو وہ یہی قرآن ہوتا )بلکہ واسطے اللہ ہی کے ہے معاملہ (اختیار)سارا، کیا پس (ابھی تک) نہیں جانا ان لوگوں نے جو ایمان لائے کہ اگر چاہتا اللہ تو ، البتہ ہدایت دیتا لوگوں کو سب کواور ہمیشہ رہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا پہنچے گی انھیں بوجہ اس کے جو انھوں نے کیا، سخت آفت یا وہ اترے گی قریب ان کے گھروں کے یہاں تک کہ آجائے وعدہ اللہ کا، بے شک اللہ نہیں خلاف کرتا (اپنے )وعدے کے (31)
#
{31} يقول تعالى مبيِّناً فضل القرآن الكريم على سائر الكتب المنزَّلة: {ولو أنَّ قرآناً}: من الكتب الإلهيَّة، {سُيِّرتْ به الجبال}: عن أماكنها، و {قُطِّعت به الأرضُ}: جناناً وأنهاراً، و {كُلِّم به الموتى}: لكان هذا القرآن. {بل لله الأمرُ جميعاً}: فيأتي بالآيات التي تقتضيها حكمته؛ فما بال المكذبين يقترحون من الآيات ما يقترحون؟! فهل لهم ولغيرهم من الأمر شيء؟! {أفلم ييأسِ الذين آمنوا أن لو يشاءُ الله لهدى الناسَ جميعاً}: فليعلموا أنَّه قادرٌ على هدايتهم جميعاً، ولكنه لا يشاء ذلك، بل يهدي مَنْ يشاء ويُضِلُّ من يشاء. {ولا يزالُ الذين كفروا}: على كفرهم لا يعتبرون ولا يتَّعظون، والله تعالى يوالي عليهم القوارعَ التي تصيبُهم في ديارهم أو تَحُلُّ قريباً منها وهم مصرُّون على كفرهم. {حتى يأتي وعدُ الله}: الذي وَعَدَهم به لنزول العذاب المتَّصل الذي لا يمكن رفعُه. {إنَّ الله لا يخلِفُ الميعاد}: وهذا تهديدٌ لهم وتخويفٌ من نزول ما وعدهم الله به على كفرهم وعنادهم وظلمهم.
[31] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام کتب منزلہ پر قرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ اَنَّ قُ٘رْاٰنًا ﴾ ’’اور اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا۔‘‘ یعنی کتب الٰہیہ میں سے کوئی قرآن ایسا ہوتا ﴿ سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ ﴾ ’’کہ اس کے ذریعے سے پہاڑوں کو (اپنی جگہ سے) ہلا دیا جاتا‘‘ ﴿ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ ﴾ ’’یا ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی اس سے زمین‘‘ اور اس کے ذریعے سے زمین پھٹ جاتی اور وہ باغات اور دریاؤں میں تبدیل ہو جاتی ﴿ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى﴾ ’’اور اس کے ذریعے سے مردے بولنے لگتے‘‘ تو وہ یہی قرآن ہوتا ﴿ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا ﴾ ’’بلکہ سب کام تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں ‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ صرف وہی معجزے دکھاتا ہے جن کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے۔ تب ان جھٹلانے والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی خواہش سے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ پس کیا ان کو یا کسی اور کو آیات و معجزات پر کوئی اختیار ہے؟ ﴿ اَفَلَمْ یَ٘ایْـ٘ـَٔسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا﴾ ’’کیا ایمان والوں کو اس بات پر اطمینان نہیں کہ اللہ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت سے نواز دے‘‘ پس انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہدایت دینے پر قادر ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ ﴿ وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور کفار اپنے کفر پر جمے رہیں گے‘‘ یعنی وہ عبرت حاصل کریں گے نہ نصیحت حاصل کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے شہروں پر پے درپے ہلاکتیں اور عذاب نازل فرماتا ہے یا ان کے قریب علاقوں پر مصائب نازل ہوتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کفر پر مصر ہیں ﴿ حَتّٰى یَ٘اْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِ﴾ ’’یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آپہنچے۔‘‘ یعنی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فوری نزول عذاب کے وعدے کا وقت آ جائے جس کو روکنا ممکن نہیں ۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ﴾ ’’بے شک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول عذاب کے بارے میں تہدید و تخویف ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر، عناد اور ظلم کی بنا پر وعدہ کر رکھا ہے۔
آیت: 32 #
{وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (32)}.
اور البتہ تحقیق استہزاء کیا گیا ساتھ رسولوں کے آپ سے پہلے تو مہلت دی میں نے واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، پھر پکڑا میں نے ان کو، پس کیسا (شدید) تھا عذاب میرا؟ (32)
#
{32} يقول تعالى لرسوله مثبِّتاً له ومسلياً: {ولقد استُهْزِئ برسل من قبلِكَ}: فلستَ أوَّلَ رسول كُذِّب وأوذِيَ. {فأمليتُ للذين كفروا}: برسلهم؛ أي: أمهلتهم مدة حتى ظنُّوا أنَّهم غيرُ معذَّبين، {ثم أخذتُهم}: بأنواع العذاب. {فكيف كان عقابِ}: كان عقاباً شديداً وعذاباً أليماً؛ فلا يغترَّ هؤلاء الذين كذَّبوك واستهزؤوا بك بإمهالنا؛ فلهم أسوةٌ فيمن قبلهم من الأمم، فليحذَروا أن يُفْعَلَ بهم كما فُعِلَ بأولئك.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کو ثبات کی تلقین کرتے اور تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’اور ٹھٹھا کیا گیا آپ سے پہلے کتنے رسولوں کے ساتھ‘‘ یعنی آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی تکذیب کی گئی اور جسے ایذا پہنچائی گئی ہو۔ ﴿ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’پس میں نے کافروں کو ڈھیل دی‘‘ یعنی جنھوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا، میں نے ایک مدت تک ان کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا ہو گئے کہ ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا ﴿ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ﴾ ’’پھر میں نے ان کو (مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے سے) پکڑ لیا‘‘ ﴿ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ’’پس کیسا تھا میرا عقاب‘‘ اللہ تعالیٰ کی سزا بڑی سخت اور اس کا عذاب بڑا درد ناک ہے۔ وہ لوگ جو آپ کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کا تمسخر اڑاتے ہیں ، ہماری دی ہوئی مہلت سے دھوکے میں مبتلا نہ ہوں ، ان کے سامنے ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کا نمونہ موجود ہے۔ لہذا انھیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو گزشتہ نافرمان قوموں کے ساتھ کیا گیا۔
آیت: 33 - 34 #
{أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (33) لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ (34)}.
کیا پس وہ ذات جو نگہبان ہے ہر نفس پر، ساتھ اس کے جو اس نے کمایا (مانند اس کے ہے جو ایسا نہیں ؟) اور بنائے انھوں نے اللہ کے لیے شریک، کہہ دیجیے، تم نام تو لو ان کےبلکہ تم خبر دیتے ہو اللہ کو ان چیزوں کی کہ نہیں جانتا وہ (انھیں ) زمین میں ؟بلکہ (تم شریک قرار دیتے ہو ان کو) ظن باطل سےبلکہ مزین کر دیا گیا واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، مکران کااور وہ روکے گئے راہ حق سےاور جسے گمراہ کرے اللہ تو نہیں ہے واسطے اس کے کوئی بھی ہدایت دینے والا (33) ان کے لیے عذاب ہے زندگانی دنیا میں اور البتہ عذاب آخرت کا سخت ترین ہے اور نہیں ہے واسطے ان کے اللہ (کے عذاب) سے (کوئی بھی) بچانے والا (34)
#
{33} يقول تعالى: {أفمن هو قائمٌ على كلِّ نفس بما كسبتْ}: بالجزاء العاجل والآجل، بالعدل والقسط، وهو الله تبارك وتعالى؛ كمن ليس كذلك. ولهذا قال: {وجعلوا للهِ شركاءَ}: وهو اللهُ الأحدُ الفردُ الصمدُ الذي لا شريك له ولا ندَّ ولا نظير. {قل}: لهم إن كانوا صادقين: {سموهم}: لِتَعْلَمَ حالَهم. {أم تنبِّئونَه بما لا يعلم في الأرض}: فإنَّه إذا كان عالم الغيب والشهادة، وهو لا يعلم له شريكاً؛ عُلِمَ بذلك بطلان دعوى الشريك له، وأنَّكم بمنزلة الذي يُعْلِمُ الله أنَّ له شريكاً وهو لا يعلمه، وهذا أبطل ما يكون! ولهذا قال: {أم بظاهرٍ من القول}؛ أي: غاية ما يمكن من دعوى الشريك له تعالى أنه بظاهر أقوالكم، وأما في الحقيقة؛ فلا إله إلا الله، وليس أحدٌ من الخلق يستحقُّ شيئاً من العبادة. ولكن {زُيِّنَ للذين كفروا مكرُهم}: الذي مكروه، وهو كفرهم وشركهم وتكذيبهم لآيات الله. {وصدُّوا عن السبيل}؛ أي: عن الطريق المستقيمة الموصلة إلى الله وإلى دار كرامته. {ومن يُضْلِل الله فما له من هادٍ}: لأنه ليس لأحدٍ من الأمر شيءٌ.
[33] ﴿ اَفَ٘مَنْ هُوَ قَآىِٕمٌ عَلٰى كُ٘لِّ نَ٘فْ٘سٍۭؔ بِمَا كَسَبَتْ﴾ ’’تو کیا جو ہر متنفس کے اعمال کانگران ہے۔‘‘ یعنی کیا وہ ہستی جو دنیاوی اور اخروی جزا اور عدل و انصاف کے ساتھ ہر متنفس کے عمل کو دیکھ رہی ہے… اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ… اس ہستی کی مانند ہو سکتی ہے جو اس جیسی نہیں ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ﴾ ’’اور انھوں نے اللہ کے شریک ٹھہرا لیے‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، وہ یکتا اور بے نیاز ہے، جس کا کوئی شریک ہے نہ ہمسر اور نظیر۔ ﴿ قُ٘لْ ﴾ اگر وہ سچے ہیں تو ان سے کہہ دیجیے ﴿ سَمُّوْهُمْ﴾ ’’ان کے نام لو‘‘ تاکہ ہمیں ان کا حال معلوم ہو ﴿ اَمْ تُنَبِّـُٔوْنَهٗ۠ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’یا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو وہ نہیں جانتا زمین میں ‘‘ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ غائب اور حاضر ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کے علم میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کی شریک ہو تو ان کے اس دعویٰ کا بطلان واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہے اور تم اس شخص کی مانند ہو جو اللہ تعالیٰ کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہے اور یہ باطل ترین قول ہے اس لیے فرمایا: ﴿ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ﴾ ’’یا کرتے ہو اوپر ہی اوپر باتیں ‘‘ تمھارے دعویٰ، کہ اللہ تعالیٰ کا شریک ہے، کی انتہا یہ ہے کہ یہ تمھاری خالی خولی باتیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو کچھ بھی عبادت کی مستحق ہو۔ ﴿ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ ﴾ ’’بلکہ خوب صورت کر دیے گئے ہیں کافروں کے لیے ان کے فریب‘‘ وہ چال جو انھوں نے چلی، یعنی ان کا کفر، شرک اور آیات الٰہی کو جھٹلانا ﴿ وَصُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ﴾ ’’اور وہ (ہدایت کے) راستے سے روک لیے گئے ہیں ۔‘‘ یعنی انھیں صراط مستقیم سے روک دیا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے کرامت کے گھر تک پہنچاتا ہے ﴿ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ﴾ ’’اور جس کو گمراہ کر دے اللہ، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ‘‘ کیونکہ کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ۔
#
{34} {لهم عذابٌ في الحياة الدنيا ولعذابُ الآخرة أشقُّ}: من عذاب الدُّنيا؛ لشدَّته ودوامه. {وما لهم من الله من واقٍ}: يقيهم من عذابِ [اللهِ]؛ فعذابُهُ إذا وجَّهه إليهم لا مانع منه.
[34] ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ﴾ ’’ان کے لیے عذاب ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے‘‘ یعنی آخرت کا عذاب اپنی شدت اور دوام کی بنا پر دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔ ﴿ وَمَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ ﴾ ’’اور ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ‘‘ جو انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے، جب اس کے عذاب کا رخ ان کی طرف پھیر دیا جائے گا تو اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔
آیت: 35 #
{مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا وَعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ (35)}
صفت اس جنت کی جس کا وعدہ دیے گئے ہیں متقی لوگ (یہ ہے کہ) بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں ، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ بھی، یہ انجام ہے ان لوگوں کا جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور انجام کافروں کا آگ ہے (35)
#
{35} يقول تعالى: {مَثَلُ الجنة التي وُعِدَ المتَّقون}: الذين تركوا ما نهاهم الله عنه، ولم يقصِّروا فيما أمرهم به؛ أي: صفتها وحقيقتها، {تجري من تحتها الأنهار}: أنهار العسل وأنهار الخمر وأنهار اللبن وأنهار الماء التي تجري في غير أخدودٍ، فتسقي تلك البساتين والأشجار، فتحمل جميع أنواع الثمار. {أكُلُها دائمٌ وظلُّها}: دائمٌ أيضاً. {تلك عُقبى الذين اتَّقوا}؛ أي: عاقبتهم ومآلهم التي إليها يصيرون. {وعُقبى الكافرين النار}: فكم بين الفريقين من الفرق المبين؟
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْ٘مُتَّقُوْنَ﴾ ’’جنت کا حال، جس کا وعدہ پرہیز گاروں سے ہے‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے نواہی کو ترک کر دیا اور اس کے اوامر کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی، ان کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ اس جنت کا وصف اور اس کی حقیقت یہ ہے ﴿ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں ‘‘ یعنی شہد، شراب، دودھ اور پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں گڑھے نہ ہوں گے۔ یہ نہریں جنت کے باغات اور درختوں کو سیراب کریں گی، یہ باغات اور درخت ہر قسم کے پھل اٹھائیں گے۔ ﴿ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّظِلُّهَا﴾ ’’ان کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان کا سایہ بھی لازوال ہے‘‘ ﴿ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ﴾ ’’یہ انجام ہے ان لوگوں کا جو ڈرتے رہے‘‘ یعنی ان کا انجام اور ان کی عاقبت جس کی طرف یہ رواں دواں ہیں ﴿ وَّعُقْبَى الْ٘كٰفِرِیْنَ النَّارُ ﴾ ’’اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔‘‘ پس دیکھ لو! دونوں فریقوں کے درمیان کتنا واضح فرق ہے۔
آیت: 36 #
{وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَنْ يُنْكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ (36)}.
اور وہ لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب، وہ خوش ہوتے ہیں ساتھ اس (قرآن) کے جو اتارا گیا ہے آپ کی طرف اور کچھ گروہ وہ ہیں جو انکار کرتے ہیں اس کے بعض (احکام) کا، کہہ دیجیے مجھے تو حکم دیا گیا ہے اس کا کہ میں عبادت کروں صرف اللہ ہی کی اور نہ شریک ٹھہراؤں ساتھ اس کے (کسی کو بھی) اسی کی طرف بلاتا ہوں میں اور اسی کی طرف واپسی ہے میری (36)
#
{36} يقول تعالى: {والذين آتَيْناهم الكتابَ}؛ أي: مننَّا عليهم به وبمعرفته، {يفرحون بما أنزل إليك}: فيؤمنون به ويصدِّقونه ويفرحون بموافقة الكتب بعضها لبعض وتصديق بعضها بعضاً، وهذه حال مَنْ آمن مِنْ أهل الكتابين. {ومن الأحزاب مَن ينكِرُ بعضه}؛ أي: ومن طوائف الكفار المتحزبين على الحقِّ من ينكر بعض هذا القرآن ولا يصدقه؛ فمن اهتدى فلنفسه، ومن ضلَّ؛ فإنما يضلُّ عليها، إنما أنت يا محمد منذرٌ تدعو إلى الله. {قل إنَّما أمِرْتُ أن أعبدَ الله ولا أشرك به}؛ أي: بإخلاص الدين لله وحده. {إليه أدعو وإليه مآبِ}؛ أي: مرجعي الذي أرجع به إليه، فيجازيني بما قمتُ به من الدعوة إلى دينه والقيام بما أمرت به.
[36] ﴿وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ﴾ ’’اور وہ لوگ جن کو دی ہم نے کتاب‘‘ یعنی ہم نے ان کو کتاب اللہ اور اس کی معرفت سے نوازا ﴿ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ﴾ ’’وہ خوش ہوتے ہیں اس پر جو نازل ہوا آپ پر‘‘ پس وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کتب الٰہیہ کی ایک دوسری کے ساتھ موافقت اور ایک دوسری کی تصدیق کرنے کی بنا پر خوش ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کا حال ہے جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے۔ ﴿ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْؔكِرُ بَعْضَهٗ﴾ ’’اور بعض گروہ وہ ہیں جو اس کی بعض باتوں کا انکار کرتے ہیں ‘‘ یعنی کفار کے، حق سے منحرف، گروہ اس قرآن کے کچھ حصے کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ ﴿مَنِ اهْتَدٰؔى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍15) ’’جو کوئی راہ راست پر چلتا ہے تو اس کی راست روی اس کے اپنے لیے فائدہ مند ہے۔ اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی کا وبال بھی اسی پر ہے۔‘‘اے محمد! (e) آپ تو صرف ڈرانے والے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں ۔ ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ﴾ ’’کہہ دیجیے! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ‘‘ یعنی مجھے صرف اللہ وحدہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا حکم دیا گیا ہے ﴿ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَاِلَیْهِ مَاٰبِ ﴾ ’’اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے‘‘ یعنی وہی میرا مرجع ہے جس کی طرف میں لوٹوں گا وہ مجھے اس بات کی جزا دے گا کہ میں نے اس کے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور مجھے جو حکم دیا گیا میں نے اس کی تعمیل کی۔
آیت: 37 #
{وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ (37)}
اور اسی طرح نازل کیا ہم نے اس (قرآن) کو حکم عربی زبان میں اور البتہ اگر پیروی کی آپ نے ان کی خواہشوں کی بعد اس کے کہ آیا آپ کے پاس علم تو نہیں ہو گا واسطے آپ کے اللہ (کے عذاب) سے کوئی حمایتی اور نہ کوئی بچانے والا (37)
#
{37} أي: ولقد أنزلنا هذا القرآن والكتاب {حُكْماً عربيًّا}؛ أي: محكماً متقناً بأوضح الألسنة وأفصح اللغات؛ لئلاَّ يقع فيه شكٌّ واشتباهٌ، وليوجب أن يُتَّبع وحدَه ولا يُداهن فيه ولا يتَّبع ما يضادُّه ويناقضه من أهواء الذين لا يعلمون، ولهذا توعَّد رسوله ـ مع أنه معصومٌ ـ ليمتنَّ عليه بعصمته، ولتكون أمَّتُه أسوتَه في الأحكام، فقال: {ولئن اتَّبعتَ أهواءهم بعدما جاءك من العلم}: البيِّن، الذي ينهاك عن اتِّباع أهوائهم. {ما لك من الله من وليٍّ}: يتولاَّك فيحصل لك الأمر المحبوب. {ولا واقٍ}: يقيك من الأمر المكروه.
[37] یعنی ہم نے اس قرآن اور اس کتاب کو فرمان عربی بنا کر نازل کیا ہے یعنی واضح ترین اور فصیح ترین زبان کے ذریعے سے اسے محکم اور پختہ بنا کر نازل کیا ہے تاکہ اس میں کوئی شک و شبہ واقع نہ ہو تاکہ یہ اس امر کا موجب ہو کہ صرف اسی کی اتباع کی جائے، اس میں مداہنت نہ کی جائے اور بے علم لوگوں کی خواہشات نفس میں سے اس کے متضاد اور متناقض امور کی پیروی نہ کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو… درآں حالیکہ آپ معصوم ہیں … وعید سنائی تاکہ آپ کو آپ کی عصمت یاد دلائے اور تاکہ تمام احکام میں آپ امت کے لیے نمونہ بنیں ۔ فرمایا: ﴿ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَؔآءَؔهُمْ بَعْدَ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ’’اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کے پاس پہنچا‘‘ واضح علم، جو آپ کو ان کی خواہشات نفس کی پیروی سے روکتا ہے ﴿ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ ﴾ ’’تو نہیں ہو گا آپ کے لیے اللہ کے مقابلے میں کوئی حمایتی‘‘ جو آپ کی سرپرستی کرے اور آپ کو آپ کا امر محبوب عطا کرے ﴿وَّلَا وَاقٍ ﴾ ’’اور نہ کوئی بچانے والا‘‘ جو آپ کو امر مکروہ سے بچا سکے۔
آیت: 38 - 39 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (38) يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ (39)}.
اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے کئی رسول آپ سے پہلےاور کیں ہم نے واسطے ان کے بیویاں اور اولاداور نہیں ہے (اختیار) واسطے کسی رسول کے یہ کہ وہ لے آئے کوئی نشانی (معجزہ) مگر ساتھ اللہ کے حکم کے، ہر مقررہ وعدے کے لیے لکھا ہوا (وقت) ہے (38) مٹاتا ہے اللہ جو چاہتا ہے اور ثابت رکھتا ہے (جو چاہے)اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب(39)
#
{38} أي: لست أول رسول أرسل إلى الناس حتى يستغربوا رسالتك. فقد {أرسَلْنا رسلاً من قبلِكَ وجَعَلْنا لهم أزواجاً وذُرِّيَّةً}: فلا يعيبك أعداؤك بأن يكون لك أزواجٌ وذُرِّيَّة كما كان لإخوانك المرسلين؛ فلأيِّ شيء يقدحون فيك بذلك وهم يعلمون أن الرسل قبلك كذلك إلاَّ لأجل أغراضهم الفاسدة وأهوائهم، وإن طلبوا منك آيةً اقترحوها؛ فليس لك من الأمر شيء. فما {كان لرسول أن يأتي بآيةٍ إلاَّ بإذنِ الله}: والله لا يأذن فيها إلاَّ في وقتها الذي قدَّره وقضاه. {لكلِّ أجل كتابٌ}: لا يتقدم عليه ولا يتأخَّر عنه، فليس استعجالهم بالآيات أو بالعذاب موجباً لأنْ يقدِّم الله ما كتب أنه يؤخَّر، مع أنَّه تعالى فعَّالٌ لما يريد.
[38] یعنی آپe پہلے رسول نہیں ہیں جن کو لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ کی رسالت کو کوئی انوکھی چیز سمجھیں ۔ فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً﴾ ’’اور آپ سے پہلے ہم نے کئی رسول بھیجے اور دیں ہم نے ان کو بیویاں اور اولاد‘‘ اس لیے آپe کے دشمن اس وجہ سے آپ کی عیب چینی نہ کریں کہ آپ کے بیوی بچے ہیں ۔ آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کے بھی بیوی بچے تھے۔ تب وہ آپ میں کس بات پر جرح و قدح کرتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ سے قبل انبیاء و رسل بھی اسی طرح تھے۔ ان کی یہ عیب چینی اپنی اغراض فاسدہ اور خواہشات نفس کی خاطر ہے… اگر وہ آپ سے کوئی معجزہ طلب کرتے ہیں تو اپنی خواہش کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں ۔ آپ کو کسی چیز کا بھی اختیار نہیں ۔ ﴿ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’اور کسی رسول سے یہ نہیں ہوا کہ وہ لے آئے کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے‘‘ اور اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے کی تب اجازت دیتا ہے جب اس کی قضا و قدر کے مطابق مقرر کیا ہوا وقت آ جاتا ہے۔ ﴿ لِكُ٘لِّ اَجَلٍ كِتَابٌ ﴾ ’’ہر ایک وعدہ لکھا ہوا ہے‘‘ اور یہ مقرر کیا ہوا وقت آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ لہذا ان کا آیات و معجزات اور عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقررکردہ وقت کو آگے کر دے جس کو اس نے اپنی تقدیر میں موخر کر رکھا ہے۔ بایں ہمہ کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
#
{39} {يمحو الله ما يشاءُ}: من الأقدار، {ويُثْبِتُ}: ما يشاء منها، وهذا المحو والتغيير في غير ما سبق به علمُه وكَتَبَه قلمُه؛ فإنَّ هذا لا يقع فيه تبديلٌ ولا تغييرٌ؛ لأنَّ ذلك محالٌ على الله أن يقع في علمِهِ نقصٌ أو خللٌ، ولهذا قال: {وعنده أمُّ الكتاب}؛ أي: اللوح المحفوظ الذي ترجِعُ إليه سائر الأشياء؛ فهو أصلها، وهي فروعٌ [له] وشعبٌ؛ فالتغيير والتبديل يقع في الفروع والشعب؛ كأعمال اليوم والليلة التي تكتبها الملائكة ويجعل الله لثبوتها أسباباً ولمحوها أسباباً، لا تتعدَّى تلك الأسباب ما رُسِم في اللوح المحفوظ؛ كما جعل الله البرَّ والصلة والإحسان من أسباب طول العمر وسعة الرزق، وكما جعل المعاصي سبباً لمحق بركة الرزق والعمر، وكما جعل أسباب النجاة من المهالك والمعاطب سبباً للسلامة، وجعل التعرُّض لذلك سبباً للعطب؛ فهو الذي يدبِّر الأمور بحسب قدرته وإرادته، وما يدبِّره منها لا يخالف ما قد علمه وكتبه في اللوح المحفوظ.
[39] ﴿ یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ ﴾ ’’اللہ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنی مقرر کردہ تقدیر میں سے جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے ﴿وَیُثْبِتُ﴾ ’’اور قائم رکھتا ہے۔‘‘ یعنی اس تقدیر میں سے جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور یہ تغیر اور محو کرنا ان امور کے علاوہ ہے جن کو اس کا قلم تقدیر لکھ چکا ہے۔ پس ان امور میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ محال ہے کہ اس کے علم میں کوئی نقص یا خلل ہو۔ اس لیے فرمایا ﴿وَعِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔‘‘ یعنی اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔ جس کی طرف تمام اشیاء لوٹتی ہیں یہ اصل ہے اور باقی تمام اشیاء اس کی فروع ہیں ۔ پس تغیر و تبدل فروع میں واقع ہوتا ہے ، مثلاً: روز و شب کے اعمال جن کو فرشتے لکھ لیتے ہیں اور ان اعمال کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اسباب فراہم کرتا ہے اور ان کو محو کرنے کے لیے بھی اسباب مہیا کرتا ہے اور یہ اسباب اس نوشۂ تقدیر سے تجاوز نہیں کرتے جو لوح محفوظ میں مرقوم ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے نیکی، صلہ رحمی اور احسان کو لمبی عمر اور کشائش رزق کے لیے اسباب بنایا ہے، جیسے گناہوں کو رزق اور عمر میں بے برکتی کا سبب بنایا ہے۔ اور جیسے ہلاکت سے نجات کے اسباب کو سلامتی کا سبب بنایا اور جیسے ہلاکت کے مواقع میں پڑنے کو ہلاکت کا سبب بنایا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور ارادے کے مطابق تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، اس کی تدبیر اس کے مخالف نہیں ہوتی جسے اس نے اپنے علم کے مطابق لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔
آیت: 40 - 41 #
{وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (40) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (41)}.
اور اگر ہم دکھائیں آپ کو بعض وہ (عذاب) جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں ان سے یا ہم وفات دے دیں آپ کو، پس آپ پر توصرف پہنچانا ہی ہےاور ہم پر ہے حساب (لینا) (40)کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک ہم چلے آتے ہیں (ان کی) زمین کو، کم کرتے ہوئے اسے اس کے اطراف سےاور اللہ حکم کرتا ہے، نہیں ہے کوئی رد کرنے والا اس کے حکم کواور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے (41)
#
{40} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: لا تعجل عليهم بإصابة ما يوعَدون [به] من العذاب؛ فهم إن استمرُّوا على طغيانهم وكفرهم؛ فلا بدَّ أن يصيبَهم ما وُعِدوا به: إما أنْ نرينَّك إيَّاه في الدنيا فَتَقَرَّ بذلك عينك، أو نتوفَّيَنَّكَ قبل إصابتهم؛ فليس ذلك شغلاً لك. {فإنما عليك البلاغ}: والتبيين للخلق، {وعلينا الحسابُ}: فنحاسب الخلق على ما قاموا به مما عليهم وضيَّعوه، ونثيبهم أو نعاقبهم.
[40] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرمایا ہے کہ کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی گئی ہے آپ اس کے بارے میں جلدی نہ کریں ۔ اگر وہ اپنی سرکشی اور کفر پر جمے رہے تو وہ عذاب ان کو ضرور آئے گا جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿ وَاِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ ﴾ ’’اگر دکھلا دیں ہم آپ کو‘‘ یعنی ان کو عذاب دیا جانا ہم آپ کو دنیا ہی میں دکھا دیں جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ یہ نزول عذاب اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور اس کی حمد و ثنا پر مبنی ہے کوئی اس میں نقص اور خامی تلاش نہیں کر سکتا اور نہ اس میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ ﴿ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ۠ ﴾ ’’یا آپ کو اٹھا لیں ‘‘ یعنی ان پر نزول عذاب سے قبل اگر ہم آپ کو وفات دے دیں پس آپ اس میں مشغول نہ ہوں ۔ ﴿ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْ٘بَلٰ٘غُ٘ ﴾ ’’آپ کے ذمہ تو پہنچا دینا ہے۔‘‘ اور مخلوق کے سامنے بیان کر دینا ہے ﴿ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ﴾ ’’اور حساب لینا ہمارے ذمے ہے‘‘ ہم مخلوق سے ان کی ذمہ داریوں کا حساب لیں گے کہ انھوں نے ان کو پورا کیا ہے یا ضائع کیا ہے، پھر ہم انھیں ثواب سے نوازیں گے یا عذاب میں مبتلا کریں گے۔
#
{41} ثم قال متوعِّداً للمكذبين: {أو لم يروا أنا نأتي الأرضَ ننقُصُها من أطرافها}: قيل: بإهلاك المكذبين واستئصال الظالمين، وقيل: بفتح بلدان المشركين ونقصهم في أموالهم وأبدانهم، وقيل غير ذلك من الأقوال. والظاهر ـ والله أعلم ـ أنَّ المراد بذلك أنَّ أراضي هؤلاء المكذِّبين جعل الله يفتحها ويجتاحها ويُحِلُّ القوارع بأطرافها تنبيهاً لهم قبل أن يجتاحهم النقص ويوقع الله بهم من القوارع ما لا يردُّه أحدٌ، ولهذا قال: {والله يحكم لا مُعَقِّبَ لحكمِهِ}: ويدخل في هذا حكمه الشرعيُّ والقدريُّ والجزائيُّ؛ فهذه الأحكام التي يحكم الله فيها توجد في غاية الحكمة والإتقان، لا خلل فيها ولا نقص، بل هي مبنيَّة على القسط والعدل والحمد؛ فلا يتعقَّبها أحدٌ، ولا سبيل إلى القدح فيها؛ بخلاف حكم غيره؛ فإنَّه قد يوافق الصواب وقد لا يوافقه. {وهو سريع الحساب}؛ أي: فلا يستعجلوا بالعذاب؛ فإنَّ كل ما هو آتٍ فهو قريبٌ.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا﴾ ’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں ‘‘ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور ظالموں کے استیصال کے ذریعے سے زمین کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ نیز اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرکین کے شہروں کی فتح، ان کے مال اور بدن میں کمی کے ذریعے سے چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا جا رہا ہے… اس کی تفسیر میں بعض دیگر اقوال بھی ہیں ۔ اس کے ظاہر معنی یہ ہیں...واللہ تعالیٰ اعلم… کہ اللہ تعالیٰ نے ان جھٹلانے والوں کی اراضی کی حالت یہ بنا دی کہ وہ فتح ہو رہی ہیں اور چھینی جا رہی ہیں ، ان پر چاروں طرف سے مصائب ٹوٹ رہے ہیں ، ان کی جان و مال میں کمی سے پہلے یہ ان کے لیے تنبیہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان پر ایسے عذاب نازل کر رہا ہے جسے کوئی رد کرنے پر قادر نہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ﴾ ’’اور اللہ، فیصلہ کرتا ہے، اس کے فیصلے کو کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں ‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم شرعی، حکم کونی و قدری اور حکم جزائی داخل ہے۔ یہ تمام احکام، جن کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے، حکمت اور پختگی کے بلند ترین درجے پر پائے جاتے ہیں جن میں کوئی نقص اور کوئی خلل نہیں ۔ بلکہ یہ تمام احکام عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا پر مبنی ہیں کوئی ان فیصلوں میں خامی اور نقص تلاش نہیں کر سکتا اور نہ ان میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ اس کے برعکس دیگر ہستیوں کے فیصلے کبھی حق و صواب کے موافق ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ ﴿وَهُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ ’’اور وہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘ یعنی وہ عذاب کے مطالبے میں جلدی نہ مچائیں کیونکہ ہر وہ چیز جسے آنا ہے وہ قریب ہوتی ہے۔
آیت: 42 - 43 #
{وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ (42) وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (43)}.
اور تحقیق تدبیریں کی تھیں (انبیاء کے خلاف) ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے،پس واسطے اللہ ہی کے ہیں تدبیریں ساری، وہ جانتا ہے جو کچھ کماتا ہے ہر نفساور عن قریب جان لیں گے کافر، کس کے لیے ہے (اچھا) انجام آخرت کا؟ (42) اور کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، نہیں ہے تو رسول، آپ کہہ دیجیے، کافی ہے اللہ گواہ میرے درمیان اور تمھارے درمیاناور وہ شخص (بھی) کہ اس کے پاس ہے علم کتاب کا (43)
#
{42} يقول تعالى: {وقد مكر الذين من قبلهم}: برسلهم وبالحقِّ الذي جاءت به الرسل، فلم يُغْنِ عنهم مكرهم، ولم يصنعوا شيئاً؛ فإنَّهم يحاربون الله ويبارزونه. {فلله المكرُ جميعاً}؛ أي: لا يقدر أحدٌ أن يمكر مكراً إلاَّ بإذنه وتحت قضائه وقدره؛ فإذا كانوا يمكرون بدينه؛ فإنَّ مكرهم سيعود عليهم بالخيبة والندم؛ فإنَّ الله {يعلم ما تكسِبُ كلُّ نفسٍ}؛ أي: همومها وإراداتها وأعمالها الظاهرة والباطنة، والمكر لا بدَّ أن يكون من كسبها؛ فلا يخفى على الله مكرهم، فيمتنع أن يمكروا مكراً يضرُّ الحقَّ وأهله ويفيدهم شيئاً. {وسيعلم الكفَّار لمن عُقبى الدار}؛ أي: أَلَهُمْ أَوْ لِرُسُلِه؟ ومن المعلوم أنَّ العاقبةَ للمتَّقِينَ لِلْكُفْرِ، وَأَعْمَالِه.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَقَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’ان سے پہلے لوگوں نے بھی چال چلی۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنے رسولوں اور اس حق کے خلاف سازشیں کیں جنھیں لے کر رسول آئے تھے مگر ان کی چالیں اور سازشیں کسی کام نہ آئیں اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ کیونکہ وہ اللہ کے خلاف جنگ کرتے ہیں ۔ ﴿ فَلِلّٰهِ الْمَؔكْرُ جَمِیْعًا﴾ ’’پس اللہ کے ہاتھ میں ہے سب تدبیر‘‘ یعنی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی چال چلنے پر قادر نہیں اور یہ چال اللہ تعالیٰ کی قضاوقدر کے تحت آتی ہے۔ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں لہذا ان کی سازش اور چال ناکامی اور ندامت کا داغ لے کر انھی کی طرف لوٹے گی۔ ﴿ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُ٘لُّ نَ٘فْ٘سٍ﴾ ’’وہ جانتا ہے جو کماتا ہے ہر نفس‘‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر جان کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے کیا کمائی کی، یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک نفس کے عزم و ارادے اور ظاہری اور باطنی اعمال کو خوب جانتا ہے۔ مکر اور سازش بھی لازمی طور پر انسان کے اکتساب میں شمار ہوتے ہیں ، پس ان کا مکر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ۔ اس لیے یہ ممتنع ہے کہ ان کی چال حق اور اہل حق کو نقصان پہنچا کر ان کو کوئی فائدہ دے۔ فرمایا: ﴿ وَسَیَعْلَمُ الْ٘كُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ ’’اور عنقریب جان لیں گے کافر کہ کس کے لیے ہے گھر عاقبت کا‘‘ یعنی اچھا انجام کفار کے لیے ہے یا اللہ کے رسولوں کے لیے؟ اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ اہل تقویٰ کی عاقبت اچھی ہے۔ کفر اور اہل کفر کی عاقبت اچھی نہیں ہے۔
#
{43} {ويقول الذين كفروا لستَ مرسلاً}؛ أي: يكذِّبونك ويكذِّبون ما أرسلت به. {قل} لهم إن طلبوا على ذلك شهيداً: {كفى بالله شهيداً بيني وبينَكم}: وشهادته بقوله وبفعله وإقراره: أما قوله؛ فبما أوحاه الله إلى أصدق خلقه مما يُثْبِتُ به رسالته. وأما فعله؛ فلأنَّ الله تعالى أيَّد رسوله ونصره نصراً خارجاً عن قدرته وقدرة أصحابه وأتباعه، وهذا شهادةٌ منه له بالفعل والتأييد، وأما إقراره؛ فإنَّه أخبر الرسول عنه أنه رسول ، وأنه أمر الناس باتباعه؛ فمن اتَّبعه؛ فله رضوانُ الله وكرامته، ومن لم يتَّبعه؛ فله النار والسخط، وحلَّ له مالُه ودمه، والله يقرُّه على ذلك؛ فلو تقوَّل عليه بعض الأقاويل؛ لعاجله بالعقوبة. {ومَنْ عندَه علمُ الكتاب}: وهذا شاملٌ لكلِّ علماء أهل الكتابين؛ فإنَّهم يشهدون للرسول، من آمن واتَّبع الحقَّ، صرَّح بتلك الشهادة التي عليه، ومن كتم ذلك؛ فإخبار الله عنه أنَّ عنده شهادةً أبلغ من خبره، ولو لم يكن عنده شهادةٌ؛ لردَّ استشهاده بالبرهان؛ فسكوته يدلُّ على أن عنده شهادةً مكتومةً، وإنَّما أمر الله باستشهاد أهل الكتاب لأنَّهم أهل هذا الشأن، وكلُّ أمر إنما يُستشهد فيه أهله ومن هم أعلم به من غيرهم؛ بخلاف مَنْ هو أجنبيٌّ عنه؛ كالأميِّين من مشركي العرب وغيرهم؛ فلا فائدة في استشهادهم؛ لعدم خبرتهم ومعرفتهم. والله أعلم.
[43] ﴿ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا﴾ ’’اور کافر کہتے ہیں کہ آپ بھیجے ہوئے نہیں ہیں ‘‘ یعنی کفار آپe کی اور اس حق کی تکذیب کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ قُ٘لْ﴾ اگر وہ آپ سے گواہ طلب کریں تو ان سے کہہ دیجیے ﴿ كَ٘فٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ﴾ ’’اللہ میرے اور تمھارے درمیان گواہ کافی ہے‘‘ اور اس کی گواہی اس کے قول و فعل اور اقرار کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ قول کے ذریعے سے اس کی شہادت یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن مخلوق میں سب سے سچی ہستی پر نازل فرمایا جو آپe کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور آپ کو ایسی فتح و نصرت عطا کی جو آپ کی، آپ کے اصحاب اور آپ کے متبعین کی قدرت اختیار سے باہر تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فعل و تائید کے ذریعے سے شہادت ہے۔ اقرار کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ رسول اللہe نے لوگوں کو خبر دی کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کریں ۔ پس جو کوئی آپ کی اطاعت کرتا ہے اس کے لیے اللہ کی رضامندی اور اس کی کرامت ہے اور جو کوئی آپ کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دعوے پر برقرار رکھتا ہے۔ اگر رسول اللہe نے اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آپ کو عذاب دے دیتا۔ ﴿ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اور جس کو خبر ہے کتاب کی‘‘ یہ آیت کریمہ اہل کتاب کے تمام علماء کو شامل ہے۔ کیونکہ ان میں سے جو کوئی ایمان لا کر حق کی اتباع کرتا ہے وہ رسول اللہe کی گواہی دیتا ہے اور نہایت صراحت سے آپ کے حق میں شہادت دیتا ہے اور ان میں سے جو کوئی گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خبر کہ اس کے پاس شہادت ہے، اس کی خبر سے زیادہ بلیغ ہے۔ اگر اس کے پاس شہادت نہ ہوتی تو دلیل کے ساتھ اپنے طلب شہادت کو رد کر دیتا۔ پس اس کا سکوت دلالت کرتا ہے کہ اس کے پاس رسول کے حق میں شہادت موجود ہے جو اس نے چھپا رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل کتاب سے گواہی لینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ وہ گواہی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ہر معاملے میں صرف اسی شخص سے گواہی لی جانی چاہیے جو اس کا اہل ہو اور دوسروں کی نسبت اس بارے میں زیادہ علم رکھتا ہو۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس معاملے میں بالکل اجنبی ہوں ، مثلاً:ان پڑھ مشرکین عرب وغیرہ تو ان سے شہادت طلب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھیں اس معاملے کی کوئی خبر ہے نہ انھیں اس کی معرفت ہی حاصل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔