{الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (1) إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (2) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ (3)}.
الٓرٰ، یہ آیتیں ہیں کتاب واضح کی
(1) بلاشبہ ہم نے نازل کیا ہے اس کو قرآن عربی
(زبان میں ) تا کہ تم سمجھو
(2) ہم بیان کرتے ہیں آپ پر بہترین بیان بذریعہ اپنے وحی کرنے کے آپ کی طرف یہ قرآن، جبکہ یقینا تھے آپ پہلے اس سے البتہ بے خبروں میں سے
(3)
#
{1} يخبر تعالى أن آيات القرآن هي {آياتُ الكتاب المُبين}؛ أي: البيِّن الواضحة ألفاظه ومعانيه.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قرآن کی آیات کتاب مبین کی آیات ہیں ، یعنی جس کے الفاظ اور معانی واضح ہیں ۔
#
{2} ومن بيانه وإيضاحه أنَّه أنزله باللسان العربيِّ، أشرف الألسنة وأبينها، المبين لكلِّ ما يحتاجه الناس من الحقائق النافعة، وكلُّ هذا الإيضاح والتبيين {لعلَّكم تعقِلون}؛ أي: لتعقلوا حدوده وأصوله وفروعه وأوامره ونواهيه؛ فإذا عَقَلْتم ذلك بإيقانكم، واتَّصفت قلوبُكم بمعرفتها؛ أثمر ذلك عمل الجوارح والانقياد إليه، و {لعلَّكم تعقلون}؛ أي: تزداد عقولكم بتكرُّر المعاني الشريفة العالية على أذهانكم، فتنتقلون من حال إلى أحوال أعلى منها وأكمل.
[2] اس کے واضح اور بین ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا جو سب سے زیادہ فضیلت کی حامل اور سب سے زیادہ واضح زبان ہے۔
(المُبِین) سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب مقدس ان تمام حقائق نافعہ کو بیان کرتی ہے جن کے لوگ حاجت مند ہیں اور یہ سب ایضاح و تبیین ہے
﴿ لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؔ﴾ ’’تاکہ تم سمجھو‘‘ یعنی تاکہ اس کی حدود، اس کے اصول و فروع اور اس کے اوامر و نواہی کو سمجھ سکو جب تم اس کو ایقان کے ساتھ سمجھ لو گے اور تمھارے دل اس کی معرفت سے لبریز ہو جائیں گے تو اس کے ثمرات، جوارح کے عمل اور اطاعت کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور
﴿ لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؔ﴾ یعنی تمھارے اذہان میں عالی شان معانی کی تکرار سے تمھاری عقل میں اضافہ ہوگا اور تم ادنیٰ حال سے اعلیٰ و اکمل احوال میں منتقل ہو جاؤ گے۔
#
{3} {نحن نقصُّ عليك أحسن القصص}؛ وذلك لصدقها وسلاسة عبارتها ورَوْنق معانيها، {بما أوحَيْنا إليك هذا القرآن}؛ أي: بما اشتمل عليه هذا القرآن الذي أوحَيْناه إليك وفضَّلناك به على سائر الأنبياء، وذاك محضُ منَّة من الله وإحسان. {وإن كنتَ من قبلِهِ لمن الغافلين}؛ أي: ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان قبل أن يوحي الله إليك، ولكنْ جَعَلْناه نوراً نهدي به مَن نشاءُ مِن عبادنا.
ولما مدح ما اشتمل عليه هذا القرآن من القصص وأنها أحسن القصص على الإطلاق؛ فلا يوجد من القصص في شيء من الكتب مثل هذا القرآن؛ ذكر قصة يوسف وأبيه وإخوته، القصة العجيبة الحسنة فقال:
[3] ﴿نَحْنُ نَقُ٘صُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْ٘قَ٘صَصِ ﴾ ’’ہم آپ پر بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں ‘‘ یعنی یہ قصہ اپنی صداقت، اپنی عبارت کی سلاست اور اپنے معانی کی خوبصورتی کی وجہ سے سب سے اچھا قصہ ہے۔
﴿ بِمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنَ﴾ ’’اس واسطے کہ بھیجا ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن‘‘ یعنی وہ امور جن پر یہ قرآن مشتمل ہے جس کی ہم نے آپe کی طرف وحی کی اور اس کے ذریعے سے ہم نے آپ کو تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت بخشی۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔
﴿ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ لَ٘مِنَ الْغٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور یقینا اس سے پہلے آپ بے خبروں میں سے تھے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نزول وحی سے قبل آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے؟ مگر ہم نے اسے روشنی بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ ہدایت دکھاتے ہیں ۔
چونکہ یہ قرآن کریم جن قصوں پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح فرمائی نیز ذکر فرمایا کہ یہ قصہ علی الاطلاق بہترین قصہ ہے اور تمام کتابوں میں کوئی قصہ ایسا نہیں ملتا جیسا اس قرآن میں پایا جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوسفu، ان کے والد یعقوبu اور ان کے بھائیوں کا نہایت خوبصورت اور تعجب انگیز قصہ ذکر فرمایا۔
{إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَاأَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (4) قَالَ يَابُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ (5) وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (6)}.
(یاد کرو!) جس وقت کہا یوسف نے اپنے باپ سے، اے ابا جان! بے شک میں نے دیکھا گیارہ ستاروں کو اور سورج اورچاند کو، دیکھا میں نے ان کو اپنے واسطے سجدہ کرتے ہوئے
(4) اس
(یعقوب) نے کہا، اے میرے عزیز بیٹے! مت بیان کرنا خواب اپنا اوپر اپنے بھائیوں کے، پس وہ تدبیر کریں گے واسطے تیرے کوئی تدبیر
(بری)، بے شک شیطان ہے واسطے انسان کے دشمن ظاہر
(5) اور اسی طرح برگزیدہ کرے گا تجھے تیرا رب اور سکھائے گا تجھے حقیقت
(تعبیر) باتوں
(خواب) کی اور پوری کرے گا اپنی نعمت اوپر تیرے اور اوپر آل ِیعقوب کے، جس طرح اس نے پورا کیا تھا اسے اوپر تیرے باپ دادا کے پہلے اس سے
(اوپر) ابراہیم اور اسحٰق کے، بے شک تیرا رب خوب جاننے والا ، حکمت والاہے
(6)
معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اس کتاب کریم میں اپنے رسولe پر بہترین قصہ بیان فرمایا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور اس قصے کے متعلق تمام واقعات ذکر کیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ نہایت کامل اور بہت خوبصورت ہے۔ جو کوئی اس قصہ کی ان اسرائیلیات کے ذریعے سے تکمیل اور اس کو مزین کرنا چاہتا ہے، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے اور ان کو روایت کرنے والے کا نام تک معلوم نہیں ۔ جن میں سے اکثر جھوٹ پر مبنی ہیں … وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ پر استدراک کرنا چاہتا ہے۔ وہ بزعم خود ناقص اور نامکمل چیز کی تکمیل کرتا ہے اور آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی برائی اس حد تک پہنچتی ہے اس لیے کہ بہت سی کتب تفسیر اس سورۂ مبارکہ سے کئی گنا زیادہ جھوٹے قصے کہانیوں اور انتہائی قبیح امور سے، جو اللہ کے بیان کردہ واقعات کے متناقض ہیں … لبریز ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اکثر باتوں کو بیان نہیں فرمایا۔ اس لیے بندے پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ واقعات کو خوب اچھی طرح سمجھ لے اور ان تمام قصے کہانیوں کو چھوڑ دے جو رسول اللہe سے منقول نہیں ہیں ۔
#
{4} فقوله تعالى: {إذ قال يوسُفُ لأبيه}: يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم الخليل عليهم الصلاة والسلام، {يا أبتِ إنِّي رأيتُ أحد عشر كوكباً والشمسَ والقمرَ رأيتُهم لي ساجدين}: فكانت هذه الرؤيا مقدِّمة لما وصل إليه يوسفُ عليه السلام من الارتفاع في الدُّنيا والآخرة، وهكذا إذا أراد الله أمراً من الأمور العظام؛ قدَّم بين يديه مقدِّمة توطئةً له وتسهيلاً لأمره، واستعداداً لما يَرِدُ على العبد من المشاق، ولطفاً بعبده وإحساناً إليه فأوَّلَها يعقوب بأن الشمسَ أمُّه والقمرَ أبوه والكواكبَ إخوتُه، وأنَّه ستنتقل به الأحوال إلى أن يصير إلى حال يخضعون له ويسجُدون له إكراماً وإعظاماً، وأن ذلك لا يكون إلا بأسباب تتقدَّمه من اجتباء الله له واصطفائه له وإتمام نعمتِهِ عليه بالعلم والعمل والتمكين في الأرض، وأن هذه النعمة ستشمل آل يعقوب الذين سجدوا له، وصاروا تَبَعاً له فيها.
[4] ﴿ اِذْ قَالَ یُوْسُفُ﴾ ’’جب یوسف
(u) نے کہا۔‘‘ یعنی جب یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیمo نے کہا:
﴿ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَؔ كَوْؔكَبًا وَّالشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰؔجِدِیْنَ ﴾ ’’ابا جان! میں نے دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں ‘‘ یہ خواب یوسفu کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مقدمہ ہے جن کی بنا پر وہ دنیا و آخرت میں بلند مقام پر فائز ہوئے۔ اسی طرح جب اللہ بڑے بڑے اصولی امور کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے پہلے تقدیم پیش کرتا ہے جو اس امر کے لیے تمہید اور تسہیل کا کام دیتی ہے اور بندے کو ان مشقوں کے لیے تیار کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کے طور پر بندے پر وارد ہوتی ہیں ۔
یعقوبu نے اس خواب کی یہ تاویل کی، کہ سورج سے مراد یوسفu کی والدہ، چاند سے مراد والد اور ستاروں سے مراد ان کے بھائی ہیں ۔ نیز یہ کہ یہ حالات ایسے حالات میں بدل جائیں گے کہ مذکورہ تمام لوگ یوسفu کے مطیع ہوں گے اور ان کی تعظیم و تکریم کے لیے ان کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے۔ یہ سب کچھ صرف ان اسباب کی بنا پر ہوگا جو یوسفu کو پیش آئیں گے، اللہ تعالیٰ یوسفu کو اپنے فضل و کرم کے لیے چن لے گا اور علم و عمل کی نعمت سے ان کو مالا مال فرمائے گا اور زمین میں اقتدار عطا کر کے آپ پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرے گا اور اقتدار کی یہ نعمت تبعاً تمام آل یعقوب کو شامل ہوگی جو یوسفu کے سامنے سرافگندہ ہوں گے۔
#
{6} ولهذا قال: {وكذلك يَجْتبيك ربُّك}؛ أي: يصطفيك ويختارك بما منَّ به عليك من الأوصاف الجليلة والمناقب الجميلة، {ويعلِّمُكَ من تأويل الأحاديث}؛ أي: من تعبير الرؤيا وبيان ما تؤول إليه الأحاديث الصادقة كالكتب السماوية ونحوها، {ويتمُّ نعمَته عليك}: في الدنيا والآخرة؛ بأنْ يُؤتيك في الدنيا حسنةً وفي الآخرة حسنةً، {كما أتمَّها على أبويك من قبلُ إبراهيم وإسحاق}: حيث أنعم الله عليهما بنعم عظيمةٍ واسعةٍ دينيَّة ودنيويَّة. {إنَّ ربَّك عليمٌ حكيمٌ}؛ أي: عِلمه محيطٌ بالأشياء وبما احتوت عليه ضمائر العباد من البرِّ وغيره، فيعطي كلاًّ ما تقتضيه حكمته وحمده؛ فإنَّه حكيمٌ يضع الأشياء مواضعها، وينزلها منازلها.
[5] جب یعقوبu نے حضرت یوسفu کے خواب کی تعبیر مکمل کر لی تو حضرت یعقوبu نے حضرت یوسفu سے فرمایا:
﴿ یٰبُنَیَّ لَا تَقْ٘صُصْ رُءْیَ٘اكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًا﴾ ’’اے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا پھر وہ بنائیں گے تیرے واسطے کچھ فریب‘‘ یعنی تمھارے ساتھ اپنے حسد کی وجہ سے تمھارے خلاف کوئی چال چلیں گے کہ کہیں تم ان کے سردار اور سربراہ نہ بن جاؤ۔
﴿ اِنَّ الشَّ٘یْطٰ٘نَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘ دہ دن رات اور کھلے چھپے اس پر وار کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ اس لیے ان اسباب سے دور رہنا بہتر ہے جن کے ذریعے سے وہ بندے پر تسلط حاصل کرتا ہے۔ یوسفu نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور انھوں نے اپنے بھائیوں کو اس خواب کے بارے میں کچھ نہ بتایا بلکہ اس کو چھپائے رکھا۔
#
{5} ولما تمَّ تعبيرُها ليوسف؛ قال له أبوه: {يا بنيَّ لا تَقْصُصْ رؤياك على إخوتك فيكيدوا لك كيداً}؛ أي: حسداً من عند أنفسهم؛ بأن تكون أنت الرئيس الشريف عليهم. {إنَّ الشيطانَ للإنسان عدوٌّ مبينٌ}: لا يفتر عنه ليلاً ولا نهاراً ولا سرًّا ولا جهاراً؛ فالبعدُ عن الأسباب التي يتسلَّط بها على العبد أولى. فامتثل يوسفُ أمر أبيه، ولم يخبِرْ إخوته بذلك، بل كَتَمَها عنهم.
[6] ﴿وَؔكَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ ﴾ ’’اور اسی طرح چن لے گا تجھ کو تیرا رب‘‘ یعنی اللہ جل شانہ تجھ کو اوصاف جلیلہ اور مناقب جمیلہ کی نعمتوں سے نواز کر چن لے گا۔
﴿وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ﴾ ’’اور سکھلائے گا تجھ کو ٹھکانے پر لگانا باتوں کا‘‘ یعنی خوابوں کی تعبیر اور کتب سماویہ میں وارد ہونے والے سچے واقعات کی تاویل وغیرہ۔
﴿ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ ﴾ ’’اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا۔‘‘ اور دنیا و آخرت میں تجھ پر اپنی نعمت کی تکمیل کرے گا، یعنی وہ دنیا میں بھی تجھ کو بھلائی عطا کرے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔
﴿ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰؔهِیْمَ وَاِسْحٰؔقَ﴾ ’’جیسے اس نے پورا کیا اس نعمت کو اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر‘‘ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم اور جناب اسحٰقi کو عظیم اور بے پایاں دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا
﴿ اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک تیرا رب جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم تمام اشیاء اور بندوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اچھے برے خیالات کو محیط ہے۔ پس وہ سب کو اپنی حمد و حکمت کے مطابق عطا کرتا ہے۔ وہ حکمت والا ہے اور تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔
{لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7) إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (8) اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ (9)}.
البتہ تحقیق تھیں یوسف اور اس کے بھائیوں
(کے واقعے) میں نشانیاں سوال کرنے والوں کے لیے
(7) جب کہا انھوں نے
(آپس میں ) ، البتہ یوسف اور اس کا بھائی
(بنیامین) زیادہ پیارے ہیں طرف ہمارے باپ کی ہم سے حالانکہ ہم ایک
(طاقتور) جماعت ہیں ، بے شک ہمارا باپ غلطی میں ہے جو کہ واضح ہے
(8) تم قتل کر دو یوسف کو یا پھینک دو اسے کسی زمین میں ، کہ خالی ہو جائے تمھارے لیے چہرہ تمھارے باپ کااور تم ہو جانا بعد اس کے نیک لوگ
(9)
#
{7} يقول تعالى: {لقدْ كان في يوسُفَ وإخوتِهِ آياتٌ}؛ أي: عبر وأدلَّة على كثير من المطالب الحسنة، {للسائلين}؛ أي: لكلِّ من سأل عنها بلسان الحال أو بلسان المقال؛ فإنَّ السائلين هم الذين ينتفعون بالآيات والعبر، وأما المعرِضون؛ فلا ينتفعون بالآيات ولا بالقصص والبيِّنات.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ ﴾ ’’یقینا یوسف اور ان کے بھائیوں
(کے قصہ) میں نشانیاں ہیں ۔‘‘ یعنی قصۂ یوسف میں عبرتیں اور بہت سے مطالب حسنہ پر دلائل ہیں
﴿ لِّلسَّآىِٕلِیْ٘نَ ﴾ ’’پوچھنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی ہر اس شخص کے لیے جو زبان حال یا زبان قال کے ذریعے سے اس قصے کے بارے میں سوال کرتا ہے کیونکہ سوال کرنے والے لوگ ہی آیات الٰہی اور عبرتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور رہے روگردانی کرنے والے تو وہ آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، نہ قصوں اور واضح دلائل سے۔
#
{8} {إذ قالوا}: فيما بينهم: {لَيوسُفُ وأخوه}: بنيامينُ؛ أي: شقيقه، وإلاَّ فكلُّهم إخوةٌ، {أحبُّ إلى أبينا منا ونحن عصبةٌ}؛ أي: جماعة، فكيف يفضلهما [علينا] بالمحبة والشفقة. {إنَّ أبانا لفي ضلال مبين}؛ أي: لفي خطأٍ بيِّن حيث فضَّلهما علينا من غير موجب نراه، ولا أمر نشاهده.
[8] ﴿ اِذْ قَالُوْا ﴾ ’’جب انھوں نے کہا۔‘‘ یعنی جب انھوں نے آپس میں کہا:
﴿ لَیُوْسُفُ وَاَخُوْهُ ﴾ ’’یوسف اور اس کا بھائی۔‘‘ یعنی یوسفu اور ان کے حقیقی بھائی بنیا مین، ورنہ تو وہ سب ان کے بھائی تھے
﴿ اَحَبُّ اِلٰۤى اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ﴾ ’’ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں ‘‘ یعنی حالانکہ ہم بھائی ایک جماعت ہیں پھر وہ اپنی محبت اور شفقت میں ان دونوں کو کیوں فضیلت دیتے ہیں ؟
﴿ اِنَّ اَبَ٘انَا لَ٘فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِيْنٍ﴾ ’’یقینا ہمارا باپ واضح غلطی پر ہے‘‘ کیونکہ اس نے بغیر کسی موجب کے جس کو ہم دیکھ سکیں اور بغیر کسی ایسے سبب کے جس کا ہم مشاہدہ کر سکیں ، ان دونوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔
#
{9} {اقتُلوا يوسفَ أو اطرحوه أرضاً}؛ أي: غيِّبوه عن أبيه في أرض بعيدة لا يتمكَّن من رؤيته فيها؛ فإنكم إذا فعلتُم أحد هذين الأمرين؛ {يَخْلُ لكم وجهُ أبيكم}؛ أي: يتفرَّغ لكم، ويُقْبِلُ عليكم بالشفقة والمحبَّة؛ فإنَّه قد اشتغل قلبه بيوسف شغلاً لا يتفرَّغ لكم. {وتكونوا من بعده}؛ أي: من بعد هذا الصنيع قوماً صالحين؛ أي: تتوبون إلى الله وتستغفرونه من بعد ذنبكم، فقدَّموا العزم على التوبة قبل صدور الذنب منهم؛ تسهيلاً لفعله، وإزالةً لشناعته، وتنشيطاً من بعضهم لبعض.
[9] ﴿ اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا ﴾ ’’یوسف کو مار ڈالو یا اس کو پھینک دو کسی زمین میں ‘‘ یعنی کہیں دور علاقے میں لے جا کر اس کو باپ کی نظروں سے دور کر دو جہاں وہ اپنے باپ کو نظر نہ آسکے۔ اگر تم نے ان دونوں امور میں سے کسی ایک پر عمل کر لیا
﴿ یَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِیْكُمْ ﴾ ’’تو خالص ہو جائے گی تمھارے باپ کی توجہ تمھارے لیے‘‘ یعنی وہ تمھارے لیے فارغ ہوگا اور تمھارا باپ تمھارے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے گا کیونکہ وہ اس وقت یوسف کی محبت میں مشغول ہے تمھاری محبت کے لیے اس کے پاس فراغت نہیں ۔
﴿ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ ﴾ ’’اور ہو جانا تم اس کے بعد‘‘ یعنی یہ کام کرنے کے بعد
﴿ قَوْمًا صٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’نیک لوگ‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر لینا اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگ لینا۔ انھوں نے گناہ کے صدور سے پہلے ہی توبہ کا عزم کیا تاکہ گناہ کا ارتکاب آسان ہو، اس کی برائی زائل ہو اور اس گناہ پر آمادہ کرنے کے لیے ایک دوسرے میں حوصلہ پیدا کریں ۔
{قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (10)}.
کہا ایک کہنے والے نے ان میں سے، نہ قتل کرو تم یوسف کو اور ڈال دو تم اسے تہ میں کنویں کی، کہ اٹھالے جائے اسے کوئی مسافر، اگر ہو تم کرنے والے ہی
(10)
#
{10} أي: {قال قائلٌ}: من إخوة يوسف الذين أرادوا قتله أو تبعيده: {لا تقتُلوا يوسُفَ}: فإنَّ قتله أعظمُ إثماً وأشنعُ، والمقصود يحصُلُ بتبعيده عن أبيه من غير قتل، ولكن توصَّلوا إلى تبعيده بأن تلقوه {في غَيابَةِ الجُبِّ}: وتتوعَّدوه على أنه لا يخبر بشأنكم، بل على أنَّه عبدٌ مملوك آبقٌ [منكم] لأجل أن يلتقِطَه {بعضُ السيَّارة}: الذين يريدون مكاناً بعيداً فيحتفظون فيه، وهذا القائل أحسنهم رأياً في يوسف وأبرُّهم وأتقاهم في هذه القضية؛ فإنَّ بعضَ الشرِّ أهونُ من بعض، والضرر الخفيف يُدفع به الضررُ الثقيل. فلما اتفقوا على هذا الرأي:
[10] ﴿ قَالَ قَآىِٕلٌ مِّؔنْهُمْ﴾’’ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔‘‘ یعنی یوسفu کے بھائیوں میں سے کسی نے کہا جنھوں نے یوسفu کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا
﴿ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ﴾ ’’یوسف کو قتل نہ کرو‘‘ کیونکہ اس کو قتل کرنا بہت بڑی برائی اور بہت بڑا گناہ ہے اور یہ مقصد کہ یوسفu کو اس کے باپ سے دور کردیا جائے، یوسف کو قتل کیے بغیر حاصل ہوجائے گا، اس لیے تم یہ کرو کہ باپ سے دور کرنے کے لیے اسے اندھے کنویں میں ڈال دو اور یوسف کو دھمکی دو کہ وہ بھائیوں کی اس کارستانی کے بارے میں کسی کو آگاہ نہ کرے اور اپنے بارے میں یہی بتائے کہ وہ بھاگا ہوا ایک غلام ہے۔ اس وجہ سے کہ
﴿ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ ﴾ ’’کوئی قافلے والا نکال کر اسے لے جائے گا۔‘‘ جو کہیں دور جا رہے ہوں گے اور وہ یوسفu کو ساتھ لے جائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ اس قول کا قائل جناب یوسفu کے بارے میں سب سے اچھی رائے رکھنے والا اور اس پورے قضیے میں سب سے زیادہ نیک اور تقویٰ پر مبنی رویے کا حامل تھا کیونکہ کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں اور کم تر نقصان کے ذریعے سے بڑے نقصان کو دور کرلیا جاسکتا ہے۔ پس جب وہ اس رائے پر متفق ہوگئے۔
{قَالُوا يَاأَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ (11) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (12) قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ (13) قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ (14)}.
انھوں نے کہا، اے ابا جان! کیا ہے تجھے کہ نہیں امین سمجھتا تو ہمیں یوسف پر؟ حالانکہ یقینا ہم اس کے خیر خواہ ہیں
(11) تو بھیج اسے ہمارے ساتھ کل، کہ وہ
(فراخی سے) کھائے اور کھیلے کودے اور ہم اس کی یقینا حفاظت کرنے والے ہیں
(12) یعقوب نے کہا، بے شک مجھے تو البتہ رنج میں ڈالتی ہے یہ بات کہ تم لے جاؤ اسےاور ڈرتا ہوں میں یہ کہ کھا جائے اسے بھیڑیا اور تم اس سے غافل ہو
(13)انھوں نے کہا ، البتہ اگر کھاجائے اسے بھیڑیا، جبکہ ہم ایک
(طاقتور) جماعت ہیں ، بلاشبہ ہم اس وقت یقینا خسارہ پانے والے ہوں گے
(14)
#
{11} أي: قال إخوة يوسف متوصِّلين إلى مقصدهم لأبيهم: {يا أبانا ما لكَ لا تأمَنَّا على يوسُفَ وإنَّا له لناصحونَ}؛ أي: لأيِّ شيءٍ يَدْخُلُكَ الخوفُ منَّا على يوسف من غير سبب ولا موجب، والحال أنَّا {له لناصحونَ}؛ أي: مشفقون عليه نودُّ له ما نودُّ لأنفسنا.
وهذا يدلُّ على أن يعقوب عليه السلام لا يترك يوسُفَ يذهب مع إخوته للبريَّة ونحوها.
[11] یعنی جناب یوسفu کے بھائیوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنے باپ سے کہا:
﴿ یٰۤاَبَانَا مَا لَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰى یُوْسُفَ ﴾ ’’اباجان! کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے۔‘‘ یعنی کون سی چیز بغیر کسی سبب اور موجب کے یوسفu کے بارے میں آپ کو ہم سے خائف کر رہی ہے اور حال یہ ہے کہ
﴿ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَؔ ﴾ ’’ہم اس کے خیرخواہ ہیں ‘‘ یعنی ہم اس پر شفقت رکھتے ہیں اور ہم اس کے لیے وہی کچھ چاہتے ہیں جو اپنے لیے چاہتے ہیں ۔ برادران یوسف کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ یعقوبu حضرت یوسفu کو ان کے بھائیوں کے ساتھ جنگل وغیرہ کی طرف نہیں جانے دیا کرتے تھے۔
#
{12} فلما نَفَوا عن أنفسهم التُّهمة المانعة لعدم إرساله معهم؛ ذكروا له من مصلحة يوسف وأنسه الذي يحبُّه أبوه له ما يقتضي أن يسمح بإرساله معهم، فقالوا: {أرسِلْه معنا غداً يَرْتَعْ ويلعبْ}؛ أي: يتنزَّه في البريَّة ويستأنس، {وإنَّا له لحافظون}؛ أي: سنراعيه، ونحفظه من أذى يريده.
[12] جب انھوں نے اپنے آپ سے اس تہمت کو رفع کر دیا جو یوسفu کو ان کے ساتھ بھیجنے سے مانع تھی تو انھوں نے یوسفu کے بارے میں اس مصلحت کا ذکر کیا جسے یعقوبu پسند کرتے تھے اور اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ وہ یوسفu کو ان کے ساتھ بھیج دیں تو کہنے لگے:
﴿ اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ﴾ ’’بھیج دو اس کو ہمارے ساتھ کل کو، خوب کھائے اور کھیلے‘‘ یعنی وہ جنگل میں تفریح کر کے وحشت دور کر لے۔
﴿ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰؔفِظُوْنَؔ ﴾ ’’اور ہم اس کے نگہبان ہیں ‘‘ یعنی ہم اس کا دھیان رکھیں گے اور ہر تکلیف دہ چیز سے اس کی حفاظت کریں گے۔
#
{13} فأجابهم بقوله: {إنِّي ليحزُنُني أن تذهبوا به}؛ أي: مجرَّد ذهابكم به يحزنني ويشقُّ عليَّ؛ لأنني لا أقدر على فراقه، ولو مدة يسيرة؛ فهذا مانع من إرساله.
{و} مانعٌ ثانٍ، وهو أني {أخاف أن يأكله الذئب وأنتُم عنه غافلون}؛ أي: في حال غفلتكم عنه؛ لأنه صغيرٌ لا يمتنع من الذئب.
[13] یعقوبu نے جواب میں ان سے فرمایا:
﴿ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْۤ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ﴾’’تمھارا اس
(یوسف) کو محض ساتھ لے جانا ہی مجھے غم زدہ کرتا ہے‘‘ اور مجھ پر شاق گزرتا ہے کیونکہ میں اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا خواہ یہ تھوڑے سے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو اور یہ چیز یوسفu کو تمھارے ساتھ بھیجنے سے مانع ہے اور دوسرا مانع یہ ہے
﴿وَاَخَافُ اَنْ یَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَؔ﴾ ’’مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ تم اس سے غافل ہوجاؤ اور اسے بھیڑیا کھاجائے۔‘‘ تمھارے اس سے غفلت کرنے کی وجہ سے کیونکہ وہ چھوٹا ہے اور اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔
#
{14} {قالوا لئنْ أكلَهُ الذئبُ ونحن عصبةٌ}؛ أي: جماعة حريصون على حفظه؛ {إنَّا إذاً لخاسرون}؛ أي: لا خير فينا ولا نفع يُرجى منَّا إن أكله الذئب وغلبنا عليه.
فلما مهَّدوا لأبيهم الأسباب الداعية لإرساله وعدم الموانع؛ سَمَحَ حينئذ بإرساله معهم لأجل أنسه.
[14] ﴿ قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ﴾ ’’انھوں نے کہا، اگر اس کو بھیڑیا کھا گیا اور ہم ایک قوی جماعت ہیں ‘‘ یعنی ہم ایک جماعت ہیں اور اس کی حفاظت کے حریص ہیں ۔
﴿ اِنَّـاۤ٘ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَؔ﴾ ’’تب تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والے ہیں ‘‘ یعنی اگر بھیڑیا یوسفu کو ہم سے چھین کر کھا جائے تب تو ہم میں کوئی بھلائی اور کوئی نفع نہیں جس کی امید کی جا سکے۔ جب انھوں نے اپنے باپ کے سامنے ان تمام اسباب کو تمہید کے ساتھ بیان کیا جو یوسفu کو ساتھ بھیجنے کے داعی تھے اور عدم موانع کا ذکر کیا تو یعقوبu نے حضرت یوسفu کو تفریح کے لیے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
{فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (15) وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ (16) قَالُوا يَاأَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ (17) وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (18)}.
پھر جب وہ لے گئے اسےاور عزم کرلیا انھوں نے یہ کہ ڈال دیں وہ اسے تہ میں کنویں کی اور وحی کی ہم نے اس کی طرف کہ تو ضرور خبر دے گا انھیں ان کے اس کام کی جبکہ وہ نہیں سمجھتے ہوں گے
(15) اور آئے وہ اپنے باپ کے پاس عشاء کے وقت روتے ہوئے
(16)انھوں نے کہا، ابا جان! بے شک گئے تھے ہم مقابلہ کرتے تھے ہم دوڑ کا اور چھوڑ دیا تھا ہم نے یوسف کو نزدیک اپنے سامان کے، پس کھا گیا اسے بھیڑیااور نہیں تو یقین کرنے والا ہماری بات کا اگر چہ ہوں ہم سچے
(17) اور
(لگا) لائے وہ اوپر اس کی قمیص کے خون جھوٹا، یعقوب نے کہا،
(حقیقت یہ نہیں )بلکہ بنا دی ہے تمھارے لیے تمھارے نفسوں نے ایک بات، سو صبر ہی بہتر ہےاور اللہ
(اسی سے) مدد طلب کی جاتی ہے اس پر جو تم بیان کرتے ہو
(18)
#
{15} أي: لما ذهب إخوةُ يوسف بيوسف بعدما أذن له أبوه، وعزموا أن يجعلوه في غيابة الجبِّ كما قال قائلُهم السابقُ ذكره، وكانوا قادرين على ما أجمعوا عليه، فنفذوا فيه قدرتهم، وألقوه في الجبِّ، ثم إن الله لطف به بأن أوحى إليه وهو بتلك الحال الحرجة: {لَتُنَبِّئَنَّهُم بأمرِهِم هذا وهم لا يشعُرونَ}؛ أي: سيكون منك معاتبة لهم وإخبارٌ عن أمرهم هذا وهم لا يشعرون بذلك الأمر. ففيه بشارة له بأنه سينجو مما وقع فيه، وأن الله سيجمعه بأهله وإخوته على وجه العزِّ والتمكين له في الأرض.
[15] یعنی جب وہ باپ کی اجازت کے بعد یوسفu کو ساتھ لے گئے اور انھوں نے اپنے میں سے ایک کی رائے کے مطابق، جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے، یوسفu کو اندھے کنویں میں پھینکنے کا عزم کرلیا اور اب وہ اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی قدرت رکھتے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے یوسفu کو اندھے کنویں میں پھینک دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب یوسفu کو… جو کہ اس وقت سخت خوف کی حالت میں تھے… اپنے لطف و کرم سے نوازتے ہوئے، ان کی طرف وحی کی
﴿ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ هٰؔذَا وَهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’کہ تو جتائے گا ان کو ان کا یہ کام اور وہ تجھ کو نہ جانیں گے‘‘ یعنی آپ عنقریب اس معاملے میں ان پر عتاب کریں گے اور ان کو اس بارے میں آگاہ کریں گے اور انھیں اس معاملے کا شعور تک نہ ہوگا۔ اس میں جناب یوسفu کے لیے بشارت تھی کہ وہ اس مصیبت سے ضرور نجات پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں ان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ اکٹھا کرے گا کہ عزت اور ملک کا اقتدار ان کے پاس ہوگا۔
#
{16} {وجاؤوا أباهم عشاءً يبكون}: ليكون إتيانُهم متأخِّراً عن عادتهم، وبكاؤهم دليلاً لهم وقرينة على صدقهم.
[16] ﴿ وَجَآءُوْۤ اَبَاهُمْ عِشَآءً یَّبْكُوْنَؔ ﴾ ’’اور وہ اندھیرا پڑتے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے‘‘ تاکہ ان کے معمول کے مطابق آنے کے وقت سے تاخیر کر کے اور ان کا روتے دھوتے آنا ان کے حق میں دلیل اور ان کی صداقت کا قرینہ ہو۔
#
{17} فقالوا متعذرين بعذرٍ كاذب: {يا أبانا إنَّا ذهبنا نَسْتَبِقُ}: إما على الأقدام أو بالرمي والنضال، {وتركْنا يوسف عند متاعنا}: توفيراً له وراحة، {فأكله الذئبُ}: في حال غيبتنا عنه واستباقنا. {وما أنت بمؤمنٍ لنا ولو كنَّا صادقينَ}؛ أي: تعذرنا بهذا العذر، والظاهر أنك لا تصدقنا؛ لما في قلبك من الحزن على يوسف والرقة الشديدة عليه، ولكن عدم تصديقك إيَّانا لا يمنعُنا أن نعتذر بالعذر الحقيقي. وكلُّ هذا تأكيدٌ لعذرهم.
[17] وہ جھوٹا عذر پیش کرتے ہوئے بولے:
﴿یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ﴾ ’’اباجان! ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے۔‘‘ ابا جان! ہم مقابلہ کرنے لگ گئے تھے۔ یہ ’’مقابلہ‘‘ یا تو دوڑ کا مقابلہ تھا یا تیر اندازی اور نیزہ بازی کا۔
﴿ وَتَرَؔكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا ﴾ ’’اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔‘‘ ہم نے سامان کی حفاظت اور یوسفu کے آرام کی خاطر اسے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا
﴿ فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ﴾ ’’تو اسے بھیڑیا کھاگیا۔‘‘ جب ہم مقابلہ کر رہے تھے تو ہماری عدم موجودگی میں اسے بھیڑیا کھا گیا
﴿ وَمَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْؔ كُنَّا صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچے بھی ہوں ، باور نہیں کریں گے۔‘‘ یعنی ہم یہ عذر پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ ہماری بات نہیں مانیں گے کیونکہ آپ کا دل یوسفu کے بارے میں سخت غم زدہ ہے۔ مگر آپ کا ہماری بات کو نہ ماننا اس بات سے مانع نہیں کہ ہم آپ کے سامنے حقیقی عذر پیش کریں اور یہ سب کچھ ان کے اپنے عذر پر تاکید کے لیے تھا۔
#
{18} {و} مما أكَّدوا به قولهم أنهم: {جاؤوا على قميصه بدم كذبٍ}: زعموا أنَّه دمُ يوسف حين أكله الذئب، فلم يصدِّقْهم أبوهم بذلك، و {قال بل سوَّلت لكم أنفسُكم أمراً}؛ أي: زينت لكم أنفسكم أمراً قبيحاً في التفريق بيني وبينه؛ لأنه رأى من القرائن والأحوال ومن رؤيا يوسف التي قصها عليه ما دلَّه على ما قال. {فصبرٌ جميلٌ والله المستعانُ على ما تصفونَ}؛ أي: أمَّا أنا؛ فوظيفتي سأحرص على القيام بها، وهي أني أصبر على هذه المحنة صبراً جميلاً سالماً من السخط والتشكي إلى الخلق، وأستعين الله على ذلك لا على حولي وقوتي، فوعد من نفسه هذا الأمر، وشكا إلى خالقه في قوله: {إنَّما أشكو بثِّي وحُزْني إلى الله}: لأنَّ الشكوى إلى الخالق لا تنافي الصبر الجميل؛ لأنَّ النبيَّ إذا وعد وفى.
[18] ﴿ وَ﴾ اور انھوں نے اپنی بات کو اس طرح مؤکد کیا
﴿ جَآءُوْ عَلٰى قَمِیْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ﴾ ’’وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لائے‘‘ اور دعویٰ کیا کہ یہ یوسفu کا خون ہے اور یہ خون اس وقت لگا تھا جب بھیڑیے نے یوسفu کو کھایا تھا۔ مگر ان کے باپ نے ان کی بات کو تسلیم نہ کیا
﴿ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا﴾ ’’انھوں
(یعقوب) نے کہا بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو۔‘‘ یعنی تمھارے نفس نے میرے اور یوسفu کے درمیان جدائی ڈالنے کے لیے ایک برے کام کو تمھارے سامنے مزین کر دیا کیونکہ قرائن و احوال اور یوسفu کا خواب، یعقوبu کے اس قول پر دلالت کرتے تھے۔
﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ١ؕ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَؔ﴾ ’’اچھا صبر
(کہ وہی) خوب
(ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔‘‘ یعنی رہا میں تو میرا وظیفہ… جس کو قائم رکھنا چاہتا ہوں … یہ ہے کہ میں اس آزمائش پر صبر جمیل سے کام لوں گا۔ مخلوق کے پاس اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہیں کروں گا۔ میں اپنے اس وظیفے پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں ۔ میں اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہیں کرتا۔ جناب یعقوبu نے اپنے دل میں اس امر کا وعدہ کیا اور اپنے خالق کے پاس اپنے اس صدمے کی شکایت ان الفاظ میں کی
﴿ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ (یوسف: 12؍86) ’’میں تو اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ کے پاس کرتا ہوں ۔‘‘ کیونکہ خالق کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں اور نبی جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔
{وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَابُشْرَى هَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (19) وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ (20)}.
اور آیا قافلہ پس بھیجا انھوں نے اپنا پانی لانے والا، پس لٹکایا اس نے اپنا ڈول تو کہا اس نے، واہ خوش خبری ہے! یہ تو لڑکا ہےاورچھپایا انھوں نے اسے پونجی سمجھ کر اور اللہ خوب جانتا تھا اسے جو وہ کر رہے تھے
(19) اور بیچ ڈالا انھوں نے اسے بہ قیمت ناقص،
(،یعنی ) چند درہموں میں گنتی کے اور تھے وہ اس کی بابت بے رغبت
(20)
#
{19} أي: مكث يوسف في الجبِّ ما مكث، حتى {جاءت سيَّارةٌ}؛ أي: قافلة تريد مصر، {فأرسلوا وارِدَهم}؛ أي: فرطهم ومقدَّمهم الذي يعسُّ لهم المياه ويسبرها ويستعد لهم بتهيئة الحياض ونحو ذلك، {فأدلى}: ذلك الواردُ {دَلْوَهُ}: فتعلَّق فيه يوسف عليه السلام وخرج، فقال: {يا بُشرى هذا غلامٌ}؛ أي: استبشر وقال: هذا غلامٌ نفيسٌ، {وأسَرُّوه بضاعةً}.
[19] جناب یوسفu کچھ عرصہ اس اندھے کنویں میں پڑے رہے
﴿ وَجَآءَتْ سَیَّارَةٌ ﴾ ’’ایک قافلہ آوارد ہوا۔‘‘ یہاں تک کہ ایک قافلہ آیا جو مصر جا رہا تھا
﴿ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ﴾ ’’انھوں نے اپنے ہراول سقے کو بھیجا‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قافلے کے لیے پانی تلاش کرتا ہے اور ان کے لیے حوض وغیرہ تیار کرتا ہے۔
﴿ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ﴾ ’’پس اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔‘‘ یعنی پانی تلاش کرنے والے اس سقے نے کنویں میں اپنا ڈول ڈالا تو یوسفu اس ڈول سے چمٹ کر باہر آگئے
﴿ قَالَ یٰبُشْ٘رٰى هٰؔذَا غُلٰ٘مٌ﴾ یعنی وہ بہت خوش ہوا اور بولا ’’یہ تو قیمتی غلام ہے‘‘
﴿ وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً﴾ ’’اور اس کو تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا‘‘
#
{20} وكان إخوته قريباً منه، فاشتراه السيارةُ منهم {بثمنٍ بخسٍ}؛ أي: قليل جدًّا، فسَّره بقوله: {دراهمَ معدودةٍ وكانوا فيه من الزَّاهدينَ}: لأنه لم يكن لهم قصدٌ إلا تغييبه وإبعاده عن أبيه، ولم يكن لهم قصدٌ في أخذ ثمنه. والمعنى في هذا أنَّ السيارة لما وجدوه؛ عزموا أن يُسِرُّوا أمره، ويجعلوه من جملة بضائعهم التي معهم، حتى جاءهم إخوته، فزعموا أنَّه عبدٌ أبق منهم، فاشتروه منهم بذلك الثمن، واستوثقوا منهم فيه لئلا يهربَ. والله أعلم.
[20] یوسفu کے بھائی بھی کہیں قریب ہی تھے۔ قافلے والوں نے یوسفu کو ان کے بھائیوں سے خرید لیا
﴿ بِثَ٘مَنٍۭؔ بَخْسٍ﴾ ’’بہت ہی معمولی قیمت میں ‘‘پھر اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی:
﴿ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ١ۚ وَكَانُوْا فِیْهِ مِنَ الزَّاهِدِیْنَ﴾ ’’چند درہموں میں اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے‘‘ کیونکہ ان کا مقصد تو صرف یوسفu کو غائب کر کے اپنے باپ سے جدا کرنا تھا۔ ان کا مقصد یوسفu کی قیمت حاصل کرنا نہ تھا۔
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب یوسفu اس قافلے کے ہاتھ لگ گئے تو قافلے والوں نے ان کے معاملے کو چھپانے کا عزم کر لیا تاکہ وہ انھیں بھی اپنے سامان تجارت میں شامل کر لیں ، حتیٰ کہ ان کے بھائی آگئے اور انھوں نے یوسفu کے بارے میں ظاہر کیا کہ وہ ان کا بھاگا ہوا غلام ہے۔ پس قافلے والوں نے انھیں اس معمولی قیمت پر خرید لیا اور انھوں نے قافلے والوں سے یقین حاصل کیا کہ وہ بھاگ نہ جائے۔ واللہ اعلم۔
{وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (21)}.
اور کہا اس شخص نے جس نے خریدا تھا یوسف کو مصر میں ، اپنی بیوی سے، اچھی طرح سے کرنا دیکھ بھال اس کی، امید ہے کہ وہ نفع دے ہمیں یا یہ کہ بنا لیں ہم اسے بیٹااور اسی طرح قوت دی ہم نے یوسف کوزمین
(مصر) میں اور تاکہ ہم سکھائیں اسے کچھ تعبیر کرنا باتوں
(خواب) کی اور اللہ غالب ہے اوپر اپنے
(ہر) کام کے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
(21)
#
{21} أي: لما ذهب به السيارةُ إلى مصر وباعوه بها، فاشتراه عزيزُ مصر، فلما اشتراه؛ أعجبَ به ووصَّى عليه امرأتَه وقال: {أكرِمي مثواه عسى أن يَنفَعَنا أو نتَّخِذَه ولداَ}؛ أي: إما أن ينفعنا كنفع العبيد بأنواع الخدم، وإما أن نستمتع فيه استمتاعنا بأولادنا، ولعلَّ ذلك أنَّه لم يكن لهما ولدٌ. {وكذلك مكَّنَّا ليوسفَ في الأرض}؛ أي: كما يسَّرْنا أنْ يشترِيَه عزيز مصر ويكرِمَه هذا الإكرام؛ جَعَلْنا هذا مقدمة لتمكينه في الأرض من هذا الطريق. {ولِنُعَلِّمَهُ من تأويل الأحاديث}: إذا بقي لا شغل له ولا همَّ له سوى العلم؛ صار ذلك من أسباب تعلُّمه علماً كثيراً من علم الأحكام وعلم التعبير وغير ذلك. {والله غالبٌ على أمرِهِ}؛ أي: أمره تعالى نافذٌ لا يبطله مبطلٌ ولا يغلبه مغالبٌ. {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمون}: فلذلك يجري منهم، ويصدُرُ ما يصدُرُ في مغالبة أحكام الله القدريَّة، وهم أعجز وأضعف من ذلك.
[21] یعنی قافلہ یوسفu کو لے کر مصر چلا گیا اور وہاں جا کر ان کو فروخت کر دیا اور عزیز مصر نے انھیں خرید لیا۔ جب عزیز مصر نے یوسفu کو خریدا تو وہ ان کو اچھے لگے،
چنانچہ اس نے یوسفu کے بارے میں اپنی بیوی کو وصیت کرتے ہوئے کہا: ﴿اَكْرِمِ٘یْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّؔخِذَهٗ وَلَدًا﴾ ’’اس کو عزت سے رکھ، شاید یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں ‘‘ یعنی یہ ہمیں یا تو اس طرح فائدہ دے گا جس طرح خدمت کے ذریعے سے غلام فائدہ دیتے ہیں یا ہم اس سے اس انداز سے فائدہ اٹھائیں گے جیسے اولاد سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات اس نے اس لیے کہی کہ شاید ان کے ہاں اولاد نہ تھی۔
﴿وَؔ كَذٰلِكَ مَكَّـنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اسی طرح ہم نے جگہ دی یوسف کو اس ملک میں ‘‘ یعنی جس طرح ہم نے نہایت آسان کر دیا کہ عزیز مصر یوسفu کو خرید لے اور آپ کو عزت و تکریم دے تو اسی طریقے سے ہم نے یوسفu کے اقتدار عطا کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔
﴿وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ﴾ ’’اور اس واسطے کہ اس کو سکھائیں کچھ ٹھکانے پر بٹھانا باتوں کا‘‘ یعنی انھیں کوئی شغل اور کوئی ہم و غم لاحق نہ رہا سوائے حصول علم کے اور یہ چیز ان کے لیے علم الاحکام اور علم التعبیر وغیرہ کے حصول کا باعث بن گئی۔
﴿ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم نافذ ہے کوئی ہستی اسے باطل کر سکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر غالب آسکتی ہے۔
﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اسی وجہ سے ان سے اللہ تعالیٰ کے احکام قدریہ کے مقابلے میں افعال سرزد ہوتے ہیں حالانکہ وہ انتہائی عاجز اور انتہائی کمزور ہیں ، کوئی مقابلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ پر غالب نہیں آسکتا۔
{وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (22)}.
اور جب پہنچا یوسف اپنی جوانی کو تو دیا ہم نے اسے حکم اور علم، اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو
(22)
#
{22} أي: {لما بلغ} يوسف {أشُدَّه}؛ أي: كمال قوته المعنويَّة والحسيَّة وصَلَحَ لأن يتحمَّل الأحمال الثقيلة من النبوة والرسالة؛ {آتَيْناه حكماً وعلماً}؛ أي: جعلناه نبيًّا رسولاً وعالماً ربانيًّا. {وكذلك نجزي المحسنين}: في عبادة الخالق ببذل الجهد والنُّصح فيها، وإلى عباد الله ببذل النفع والإحسان إليهم؛ نؤتيهم من جملة الجزاء على إحسانهم علماً نافعاً. ودلَّ هذا على أن يوسف وَفَّى مقام الإحسان، فأعطاه الله الحكم بين الناس والعلم الكثير والنبوة.
[22] ﴿وَلَمَّا بَلَ٘غَ اَشُدَّهٗۤ ﴾ ’’اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے۔‘‘ یعنی جب جناب یوسفu کے قوائے حسیہ اور قوائے معنویہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے اور ان میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ نبوت اور رسالت کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں ۔
﴿اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ ’’تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو نبی، رسول اور عالم ربانی بنا دیا۔
﴿وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو‘‘ یعنی جو پوری کوشش اور خیر خواہی سے خالق کی عبادت میں ’’احسان‘‘ سے کام لیتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو نفع پہنچا کر ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ہم ان کو ان کے اس احسان کے بدلے علم نافع عطا کرتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یوسفu مقام احسان پر فائز تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت، علم کثیر اور نبوت عطا کی۔
{وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ (24) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (25) قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (26) وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ (27) فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (28) يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (29)}.
اور پھسلایا اس نے اس کو کہ تھا وہ
(یوسف) اس کے گھر میں ، اس کے نفس سےاور بند کر دیے اس
(عورت) نے دروازےاور کہا،لو آجاؤ! یوسف نے کہا، اللہ کی پناہ! وہ
(عزیز) تو میرا آقا ہے، اچھا کیا اس نے میرا ٹھکانا، بے شک نہیں فلاح پاتے ظالم لوگ
(23) اور البتہ تحقیق ارادہ کیا اس عورت نے یوسف کا اور وہ بھی ارادہ کر لیتا اس کا اگر نہ ہوتی یہ بات کہ دیکھ لی تھی اس نے برہان اپنے رب کی، اسی طرح
(اسے برہان دکھائی) تاکہ ہم پھیر دیں اس سے برائی اور بے حیائی کو، بے شک یوسف ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں میں سے تھا
(24) اور دوڑے وہ دونوں دروازے کواور پھاڑ دی اس نے قمیص یوسف کی پیچھے سےاور پایا دونوں نے اس کے خاوند کو نزدیک دروازے کے، کہا اس عورت نے، کیا سزا ہے اس کی جو ارادہ کر ے تیری بیوی سے برائی کا، سوائے اس کے کہ وہ قید کیا جائے یا
(دیا جائے) عذاب درد ناک
(25) یوسف نے کہا، اسی نے ورغلایا مجھے میرے نفس سے اور گواہی دی ایک شاہد نے اس عورت کے خاندان میں سے کہ اگر ہے قمیص یوسف کی پھٹی ہوئی آگے
(کی طرف) سے تو وہ عورت سچی ہے اوریوسف جھوٹوں میں سے ہے
(26) اور اگر ہے قمیص یوسف کی پھٹی ہوئی پیچھے سے تو جھوٹی ہے وہ عورت اور یوسف سچوں میں سے ہے
(27) پھر جب دیکھی عزیز نے اس کی قمیص کہ وہ پھٹی ہوئی تھی پیچھے سے تو کہا عزیز نے، بے شک یہ تم عورتوں کے مکرو فریب سے ہے، بلاشبہ تم عورتوں کا مکروفریب بہت بڑا ہے
(28)اے یوسف! درگزر کر اس
(بات) سےاور
(بیوی سے کہا) تو مغفرت طلب کر واسطے اپنے گناہ کے، بلاشبہ تو ہی ہے خطا کاروں میں سے
(29)
یہ عظیم آزمائش اس سے بہت بڑی تھی جو جناب یوسفu کو اپنے بھائیوں کی طرف سے پیش آئی اور اس پر ان کا صبر کرنا بہت بڑے اجر کا موجب بنا کیونکہ اس قبیح فعل کے وقوع کے لیے کثیر اسباب کے باوجود انھوں نے صبر کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ان اسباب پر مقدم رکھا۔ اس لیے ان کا یہ صبر اختیاری تھا اور ان کو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جو آزمائش پیش آئی وہاں ان کا صبر اضطراری تھا۔ جیسے مرض اور دیگر تکالیف بندے کے اختیار کے بغیر اسے لاحق ہوتی ہیں جن میں طوعاً یا کرہاً صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
#
{23 ـ 24} وذلك أنَّ يوسف عليه الصلاة والسلام بقي مكرَّماً في بيت العزيز، وكان له من الجمال والكمال والبهاء ما أوجب ذلك أن {راوَدَتْه التي هو في بيتها عن نفسه}؛ أي: هو غلامها وتحت تدبيرها والمسكن واحدٌ يتيسَّر إيقاع الأمر المكروه من غير شعور أحدٍ ولا إحساس بشرٍ. {و} زادتِ المصيبةُ بأن {غَلَّقَتِ الأبوابَ}: وصار المحلُّ خالياً، وهما آمنان من دخول أحدٍ عليهما بسبب تغليق الأبواب. وقد دعتْه إلى نفسها، فقالتْ: {هَيْتَ لك}؛ أي: افعل الأمر المكروه وأقبلْ إليَّ! ومع هذا؛ فهو غريبٌ لا يحتشم مثله ما يحتشمه إذا كان في وطنه وبين معارفه، وهو أسيرٌ تحت يدها، وهي سيدتُه، وفيها من الجمال ما يدعو إلى ما هنالك، وهو شابٌّ عَزَبٌ، وقد توعدته إن لم يفعل ما تأمره به بالسجن أو العذاب الأليم، فصبر عن معصية الله مع وجود الداعي القويِّ فيه؛ لأنَّه قد همَّ فيها همًّا تَرَكَهُ لله، وقدَّم مراد الله على مراد النفس الأمَّارة بالسوء، ورأى من برهان ربِّه ـ وهو ما معه من العلم والإيمان الموجب لِتَرْكِ كلِّ ما حرَّم الله ـ ما أوجب له البعد والانكفاف عن هذه المعصية الكبيرة، و {قال معاذَ الله}؛ أي: أعوذ باللَّه أن أفعل هذا الفعلَ القبيح؛ لأنَّه مما يُسْخِطُ الله ويُبْعِدُ عنه، ولأنَّه خيانةٌ في حقِّ سيِّدي الذي أكرم مثواي؛ فلا يَليقُ بي أن أقابِلَه في أهله بأقبح مقابلة، وهذا من أعظم الظُّلم، والظالم لا يفلحُ.
والحاصل أنَّه جعل الموانع له من هذا الفعل: تَقْوى الله، ومراعاة حقِّ سيِّده الذي أكرمه، وصيانة نفسه عن الظُّلم الذي لا يفلح مَن تعاطاه، وكذلك ما منَّ الله عليه من برهان الإيمان الذي في قلبه يقتضي منه امتثالَ الأوامر واجتنابَ الزواجر، والجامعُ لذلك كلِّه أنَّ الله صرف عنه السوءَ والفحشاءَ؛ لأنَّه من عباده المخلصين له في عباداتهم، الذين أخلصهم الله واختارهم واختصَّهم لنفسه، وأسدى عليهم من النِّعم، وصرف عنهم من المكاره ما كانوا به من خيار خلقه.
[24,23] اور آزمائش کا یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت یوسفu عزیز مصر کے گھر میں نہایت عزت و اکرام کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ کامل حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور یہی چیز ان کی آزمائش کا موجب بنی۔
﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔‘‘ یعنی یوسفu جس عورت کے غلام اور اس کے زیردست تھے اس نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جہاں کسی شعور اور احساس کے بغیر اس مکروہ فعل کے مواقع میسر تھے اور اس سے بھی بڑھ کر مصیبت یہ نازل ہوئی کہ
﴿وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ ﴾ ’’اس نے دروازے بند کر دیے‘‘ اور مکان خالی ہو گیا اور دروازوں کو بند کر دینے کی بنا پر کسی کے وہاں آنے کا ڈر نہ رہا۔ اس عورت نے جناب یوسفu کو اپنے ساتھ بدکاری کی دعوت دی۔
﴿وَقَالَتْ هَیْتَ لَكَ﴾ ’’کہنے لگی، جلدی آؤ۔‘‘ یعنی میرے پاس آؤ اور میرے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دو۔
اس کے باوجود کہ یوسفu ایک غریب الوطن شخص تھے اور ایسا شخص اس طرح اپنے غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتا جس طرح وہ اپنے وطن میں جان پہچان کے درمیان ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس عورت کے غلام تھے اور وہ عورت ان کی آقا تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عورت میں حسن و جمال تھا۔ یوسفu خود جوان اور غیر شادی شدہ تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت دھمکی دے رہی تھی کہ اگر یوسف
(u) نے اس کی خواہش پوری نہ کی تو وہ انھیں قید خانے میں بھجوا دے گی یا انھیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گی۔
مگر بایں ہمہ، جناب یوسفu اپنے اندر اس فعل کا قوی داعیہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکے رہے کیونکہ جس فعل کا ارادہ انھوں نے کر لیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو اپنے نفس کی مراد پر مقدم رکھا جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے۔ انھیں اپنے رب کی برہان نظر آئی، یعنی ان کے پاس جو علم و ایمان تھا وہ اس بات کا موجب تھا کہ وہ ہر اس چیز کو ترک کر دیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے یہ برہان حق ان کو اس بڑے گناہ سے دور رکھنے کی باعث تھی۔
﴿قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اللہ کی پناہ‘‘ یعنی میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ کیونکہ یہ ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور کر دیتا ہے، نیز یہ فعل اپنے آقا کے حق میں خیانت ہے جس نے مجھے عزت و تکریم سے نوازا۔ پس مجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی بیوی کے ساتھ اس بدترین فعل کے ذریعے سے اس کے احسانات کا بدلہ دوں ۔ یہ تو سب سے بڑا ظلم ہے اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یوسفu نے اس قبیح فعل سے جن امور کو موانع قرار دیا وہ تھے تقوائے الٰہی، اپنے آقا کے حق کی رعایت جس نے ان کو عزت و اکرام سے نوازا تھا اور اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچانا جس کا مرتکب کبھی فلاح نہیں پاتا۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب یوسفu کو ایمان کی برہان حق سے نوازا جو ان کے قلب میں جاگزیں تھا جو ان سے اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتا تھا… اس پورے معاملے میں جامع بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوسفu سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیا تھا کیونکہ وہ ان بندوں میں سے تھے جو اپنی عبادات میں اخلاص سے کام لیتے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنے لیے خاص کر لیا اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دی اور تمام ناپسندیدہ امور کو ان سے دور کر دیا۔ بنابریں وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق میں سے تھے۔
#
{25} ولما امتنع من إجابة طلبها بعد المراودة الشديدة؛ ذهب ليهربَ منها ويبادِرَ إلى الخروج من الباب ليتخلَّص ويهرب من الفتنة، فبادرتْه إليه وتعلَّقت بثوبِهِ، فشقَّت قميصَه، فلمَّا وصلا إلى الباب في تلك الحال؛ ألْفَيا سيِّدَها ـ أي: زوجها ـ لدى الباب، فرأى أمراً شقَّ عليه، فبادرتْ إلى الكذب، وأن المراودة قد كانت من يوسف، وقالت: {ما جزاءُ مَنْ أراد بأهلك سوءاً}: ولم تقلْ: من فعل بأهلك سوءاً؛ تبرئةً لها وتبرئةً له أيضاً من الفعل، وإنما النِّزاع عند الإرادة والمراودة، {إلاَّ أن يُسْجَنَ أو عذابٌ أليم}؛ أي: أو يعذَّب عذاباً أليماً.
[25] جب حضرت یوسفu اس عورت کی طرف سے بدی کی سخت ترغیب کے باوجود اس کی خواہش پوری کرنے سے ممتنع رہے اور وہ اس عورت سے اپنے آپ کو چھڑا کر دروازے کی طرف تیزی سے بھاگے تاکہ وہ بھاگ کر اس فتنہ سے بچ کر نکل جائیں تو وہ عورت بھی ان کی پیچھے بھاگی اور پیچھے سے ان کی قمیص کا دامن پکڑ لیا اور ان کی قمیص پھاڑ ڈالی۔ جب وہ دونوں اس حالت میں دروازے پر پہنچے تو انھوں نے دروازے پر عورت کے خاوند کو موجود پایا اس نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے سخت شاق گزرا۔ اس عورت نے فوراً جھوٹ گھڑ لیا اور دعویٰ کیا کہ یوسف اس کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتا تھا اور کہنے لگی:
﴿ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْٓءًا﴾ ’’اس شخص کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے‘‘ اور یہ نہیں کہا
﴿من فعل باھلک سوء ا﴾ ’’جس نے تیری بیوی کے ساتھ برائی کی‘‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اور یوسفu کو اس فعل سے بری ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ تمام نزاع تو صرف برائی کے ارادے اور ڈورے ڈالنے کے بارے میں تھا۔
﴿ اِلَّاۤ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’مگر یہی کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے یا اسے دردناک سزا دی جائے۔‘‘
#
{26} فبرَّأ نفسه مما رمته به، و {قال هي راوَدَتْني عن نفسي}: فحينئذٍ احتملتِ الحالُ صدقَ كلِّ واحد منهما، ولم يعلم أيهما، ولكنَّ الله تعالى جعل للحقِّ والصدق علاماتٍ وأماراتٍ تدلُّ عليه، قد يعلَمُها العبادُ وقد لا يعلمونَها؛ فمنَّ الله [تعالى] في هذه القضية بمعرفة الصادق منهما تبرئةً لنبيِّه وصفيِّه يوسف عليه السلام، فانبعث شاهد من أهل بيتها يشهدُ بقرينةٍ مَنْ وجدت معه فهو الصادق، فقال: {إن كان قميصُهُ قُدَّ من قُبُل فصَدَقَتْ وهو من الكاذبين}؛ لأن ذلك يدلُّ على أنه هو المقبل عليها المراوِدُ لها المعالج، وأنها أرادت أن تدفعه عنها، فشقَّت قميصه من هذا الجانب.
[26] یوسفu نے اس الزام سے، جو اس عورت نے لگایا تھا،
اپنے آپ کو بری کرتے ہوئے کہا: ﴿هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّ٘فْ٘سِیْ﴾ ’’اسی نے مجھ کو مائل کرنا چاہا تھا۔‘‘ اس صورت حال میں دونوں کی صداقت کا احتمال تھا مگر یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ دونوں میں سے کون سچا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور صداقت کی کچھ علامات اور نشانیاں مقرر فرمائی ہیں ۔ جو حق کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں جنھیں بسااوقات بندے جانتے ہیں اور بسا اوقات نہیں جانتے، چنانچہ اس قضیہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے کی پہچان سے نوازا تاکہ اس کے نبی اور چنیدہ بندے،
جناب یوسفu کی براء ت کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے گھر والوں میں سے ایک شاہد کو کھڑا کر دیا اور اس نے قرینے کی گواہی دی کہ جس کے پاس یہ قرینہ موجود ہوگا وہی سچا ہے۔ اس گواہ نے کہا: ﴿ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُ٘بُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو وہ عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے‘‘ کیونکہ یہ صورت حال دلالت کرتی ہے کہ یوسف ہی بڑھ کر اس عورت پر ہاتھ ڈالنے والے، اس کو پھسلانے والے اور زور آزمائی کرنے والے تھے اور وہ عورت تو بس اپنی مدافعت کر رہی تھی اور اس نے اپنی مدافعت کی حالت میں اس جانب سے یوسف کا کرتہ پھاڑ ڈالا۔
#
{27} {وإن كان قميصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فكذبتْ وهو من الصادقين}: لأنَّ ذلك يدلُّ على هروبه منها؛ وأنَّها هي التي طلبتْه، فشقَّت قميصَه من هذا الجانب.
[27] ﴿ وَاِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو وہ عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے‘‘ کیونکہ یہ صورت حال جناب یوسفu کے اپنے آپ کو چھڑا کر بھاگنے پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ یہ عورت ہی ہے جس نے یوسفu پر ڈورے ڈالنے چاہے اور اس طرح کرتہ اس جانب سے پھٹ گیا۔
#
{28} {فلما رأى قميصَه قُدَّ من دُبُرٍ}: عَرَفَ بذلك صدق يوسف وبراءته وأنَّها هي الكاذبة، فقال لها سيدها: {إنَّه مِن كيدِكُنَّ إنَّ كَيْدَكُنَّ عظيمٌ}: وهل أعظم من هذا الكيد الذي برَّأت به نفسها ممَّا أرادتْ وفعلتْ ورمتْ به نبيَّ الله يوسف عليه السلام؟!
[28] ﴿ فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ ﴾ ’’پس جب عزیز مصر نے ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا‘‘ تو اسے جناب یوسفu کی صداقت اور ان کی براء ت کا یقین ہوگیا،
نیز یہ کہ عورت جھوٹی ہے تو عورت کے شوہر نے اس سے کہا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ كَیْدِكُ٘نَّ١ؕ اِنَّ كَیْدَكُ٘نَّ عَظِیْمٌ﴾ ’’یہ ایک فریب ہے تم عورتوں کا، یقینا تمھارا فریب بڑا ہے‘‘ اس سے بڑھ کر کوئی اور فریب ہو سکتا ہے کہ اس عورت نے بدی کا ارادہ کیا، اس کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی پھر اپنے آپ کو بری قرار دے کر اپنا کرتوت اللہ تعالیٰ کے نبی جناب یوسفu کے سر تھوپ دیا۔
#
{29} ثم إنَّ سيدَها لما تحقَّق الأمر؛ قال ليوسف: {يوسُفُ أعرِضْ عن هذا}؛ أي: اترك الكلام فيه وتناسَهُ ولا تذكُره لأحدٍ طلباً للستر على أهله. {واستغفِري}: أيتها المرأة، {لذنبِكِ إنَّك كنتِ من الخاطئين}: فأمر يوسف بالإعراض، وهي بالاستغفارِ والتوبة.
[29] جب اس عورت کے شوہر کے سامنے سارا معاملہ متحقق ہوگیا تو اس نے حضرت یوسفu سے کہا
﴿ یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰؔذَا﴾ ’’یوسف! جانے دو اس ذکر کو‘‘ یعنی اس واقعہ کے بارے میں کوئی بات نہ کرو، اسے بھول جاؤ اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرو۔ وہ اپنی بیوی کے فعل پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا۔
﴿وَاسْتَغْفِرِیْ﴾ ’’اے عورت! بخشش مانگ‘‘
﴿ لِذَنْۢبِكِ١ۖ ۚ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕیْنَ ﴾ ’’اپنے گناہ پر، بے شک تو ہی گناہ گار تھی‘‘ اس شخص نے یوسفu کو اس تمام معاملے کو نظر انداز کرنے کی درخواست کی اور اس عورت کو توبہ و استغفار کا حکم دیا۔
{وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (30) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ (31) قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ (32) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ (33) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (34) ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ (35)}.
اور کہا عورتوں نے شہر
(مصر) میں کہ عزیز مصر کی بیوی نے پھسلایا
(ورغلایا) اپنے غلام کو اس کے نفس سے، تحقیق غالب آگیا ہے یوسف اس پر ازروئے محبت کے، بے شک ہم البتہ دیکھتی ہیں اسے گمراہی ظاہر میں
(30) پس جب اس عورت نے سنی ملامت ان کی تو اس نے
(پیغام) بھیجا ان کی طرف
(بلانے کو) اور تیار کیں ان کے لیے نشست گاہیں اور دی اس نے ہر ایک عورت کو ان میں سے ایک چھری اور کہا
(یوسف سے) نکل ان پر، پس جب ان عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو بہت بڑا جانا اسے اور کاٹ لیے اپنے ہاتھ اور بولیں ، حاشاللہ!
(پاکیزگی اللہ کی)، نہیں ہے یہ بشر، نہیں ہے یہ مگر فرشتہ نہایت معزز
(31) اس نے کہا، پس یہی تو ہے وہ شخص کہ ملامت کی تم نے مجھے اس کے بارے میں اور البتہ تحقیق ورغلایا تھا میں نے اسے اس کے نفس سے، پس وہ بچ گیا اور البتہ اگر نہ کیا اس نے جو حکم دیتی ہوں میں اسے تو ضرور قید کیا جائے گا اور یقینا ہو گا بے عزت ہونے والوں میں سے
(32) یوسف نے کہا، اے رب! قید خانہ زیادہ پسند ہے مجھے اس سے کہ بلاتی ہیں یہ عورتیں مجھے اس کی طرف اور اگر نہ پھیرے گا تو مجھ سے ان کا مکر تو مائل ہو جاؤں گا میں طرف ان کی اور ہو جاؤں گا میں جاہلوں میں سے
(33) پس قبول کر لی
(دعا) اس کی اس کے رب نے، سو پھیر دیا اس نے اس سے مکران عورتوں کا، بے شک وہی ہے خوب سننے والا، خوب جاننے والا
(34) پھر ظاہر ہو اواسطے ان کے بعد اس کے کہ دیکھ لیں انھوں نے نشانیاں کہ بہر صورت قید کریں وہ لوگ اس
(یوسف) کو کچھ وقت تک
(35)
#
{30} يعني: أن الخبر اشتهر وشاع في البلد، وتحدَّث به النسوة، فجعلن يَلُمْنها ويَقُلْنَ: {امرأةُ العزيز تراوِدُ فتاها عن نفسه قد شغفها حبًّا}؛ أي: هذا أمرٌ مستقبَحٌ! هي امرأةٌ كبيرةُ القدر وزوجها كبيرُ القدر ومع هذا لم تزلْ تراوِدُ فتاها الذي تحت يدها وفي خدمتها عن نفسه، ومع هذا؛ فإنَّ حبَّه قد بلغ من قلبها مبلغاً عظيماً. {قد شَغَفَها حبًّا}؛ أي: وصل حبُّه إلى شغاف قلبها، وهو باطنه وسويداؤه، وهذا أعظم ما يكون من الحب. {إنَّا لنراها في ضلال مبينٍ}: حيث وجدت منها هذه الحالة التي لا ينبغي منها، وهي حالة تحطُّ قدرها وتضعه عند الناس.
[30] یعنی اس واقعے کی خبر مشہور ہوگئی اور تمام شہر میں پھیل گئی اور اس بارے میں عورتوں نے چہ میگوئیاں کیں اور عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کرنے لگیں اور کہنے لگیں :
﴿ امْرَاَتُ الْ٘عَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’عزیز کی بیوی، پھسلاتی ہے اپنے غلام کو اس کے جی سے، اس کا دل اس کی محبت میں فریفتہ ہو گیا ہے‘‘ یہ کام بہت برا ہے۔ عورت ایک انتہائی معزز شخص کی معزز بیوی ہے، بایں ہمہ وہ اپنے غلام پر ڈورے ڈالتی رہی جو زیردست اور اس کی خدمت پر مامور تھا، اس عورت کے دل میں اس غلام کی محبت جاگزیں ہوگئی
﴿ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ﴾ ’’اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی۔‘‘ یعنی یوسفu کی محبت عورت کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ محبت کا انتہائی درجہ ہے۔
﴿ اِنَّا لَـنَرٰىهَا فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’یقینا ہم اس کو کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں ‘‘ یہ عورت اس حالت کو پہنچ گئی ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ، یہ حالت لوگوں کے ہاں اس کی قدر و قیمت گھٹا دے گی۔
#
{31} وكان هذا القول منهنَّ مكراً ليس المقصودُ به مجردَ اللَّوم لها والقدح فيها، وإنَّما أرَدْنَ أن يتوصَّلْن بهذا الكلام إلى رؤية يوسف الذي فُتِنَتْ به امرأة العزيز لتَحْنَقَ امرأةُ العزيز وتريهنَّ إيَّاه ليعذِرْنها، ولهذا سمَّاه مكراً، فقال: {فلما سمعتْ بمكرِهِنَّ أرسلت إليهنَّ}: تدعوهنَّ إلى منزلها للضيافة، {وأعتدتْ لهن متَّكأ}؛ أي: محلاًّ مهيئاً بأنواع الفرش والوسائد وما يُقصد بذلك من المآكل اللَّذيذة، وكان في جملة ما أتت به وأحضرته في تلك الضيافة طعامٌ يحتاجُ إلى سكينٍ: إمَّا أُترُجٌّ أو غيره. {وآتت كلَّ واحدة منهنَّ سكِّيناً}: ليقطِّعْن فيها ذلك الطعام، {وقالتْ} ليوسفَ: {اخرجْ عليهنَّ }: في حالة جماله وبهائه، {فلما رأيْنَهُ أكْبَرْنَهُ}؛ أي: أعظمنه في صدورهنَّ ورأين منظراً فائقاً لم يشاهِدْنَ مثله؛ {وقطَّعْن}: من الدَّهَش {أيدِيَهُنَّ}: بتلك السكاكين اللاتي معهن، {وقلنَ حاش لله}؛ أي: تنزيهاً لله، {ما هذا بشراً إنْ هذا إلاَّ مَلَكٌ كريمٌ}: وذلك أن يوسف أعطي من الجمال الفائق والنور والبهاء ما كان به آيةً للناظرين وعبرةً للمتأملين.
[31] ان عورتوں کا اس قول سے مجرد ملامت اور محض لعن طعن مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ان کی ایک چال تھی۔ وہ درحقیقت یہ بات کہہ کر جناب یوسفu تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھیں جن کی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی فتنے میں پڑ گئی… تاکہ یہ بات سن کر عزیز مصر کی بیوی غصے میں آئے اور ان کے سامنے آپ کو معذور ظاہر کرنے کے لیے یوسفu کا دیدار کروا دے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو مکر قرار دیا۔
چنانچہ فرمایا:
﴿ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَؔكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَ٘یْهِنَّ ﴾ ’’جب اس نے ان کا فریب سنا تو ان کو بلوا بھیجا‘‘ ان کو اپنے گھر ایک ضیافت پر بلایا
﴿ وَاَعْتَدَتْ لَ٘هُنَّ مُتَّكَاً ﴾ ’’اور ان کے لیے ایک مجلس تیار کی‘‘ ان کے لیے ایک ایسی جگہ تیار کی جہاں مختلف اقسام کے فرش بچھے ہوئے تھے جن پر تکیے لگے ہوئے تھے اور کھانے سجے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں اس ضیافت میں عزیز مصر کی بیوی نے کچھ ایسے کھانے بھی پیش کیے جن میں چھری کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے،
مثلاً:لیموں وغیرہ۔
﴿ وَّاٰتَتْ كُ٘لَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا ﴾ ’’اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دی‘‘ تاکہ اس چھری سے وہ مخصوص کھانا کاٹ سکیں۔
﴿ وَّقَالَتِ ﴾ اور یوسفu سے بولی:
﴿ اخْرُجْ عَلَ٘یْهِنَّ﴾ ’’ان کے سامنے نکل آؤ‘‘ اپنے پورے جمال اور رعنائیوں کے ساتھ ان عورتوں کے سامنے آؤ۔
﴿فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ ﴾ ’’پس جب انھوں نے اسے دیکھا تو اسے بہت بڑا سمجھا‘‘ یعنی اپنے دل میں اسے بہت بڑا سمجھا اور انھیں ایک نہایت عمدہ اور سحر انگیز منظر نظر آیا کہ اس سے پہلے انھوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔
﴿وَقَ٘طَّ٘عْنَ ﴾ ’’اور کاٹ لیے انھوں نے‘‘ یعنی تحیر اور مدہوشی میں
﴿ اَیْدِیَهُنَّ ﴾ ’’اپنے ہاتھ‘‘ ان چھریوں سے جو ان کے پاس تھیں اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔
﴿ وَقُ٘لْ٘نَ حَاشَ لِلّٰهِ ﴾ ’’اور کہنے لگیں اللہ تعالیٰ پاک ہے۔‘‘
﴿ مَا هٰؔذَا بَشَرًا١ؕ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ﴾ ’’یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب یوسفu کو بے پناہ حسن و جمال، نورانیت اور مردانہ وجاہت عطا کی گئی تھی جو دیکھنے والوں کے لیے ایک نشانی اور غور کرنے والوں کے لیے عبرت تھی۔
#
{32} فلما تقرَّر عندهنَّ جمالُ يوسف الظاهر، وأعجبهنَّ غايةً، وظهر منهنَّ من العذر لامرأة العزيز شيءٌ كثيرٌ؛ أرادت أن تُرِيَهُنَّ جماله الباطن بالعفة التامَّة، فقالت معلنة لذلك ومبيِّنة لحبِّه الشديد غير مبالية ولأن اللَّوم انقطع عنها من النسوة: {ولقد راودتُه عن نفسه فاستعصمَ}؛ أي: امتنع، وهي مقيمة على مراودته، لم تزدها مرور الأوقات إلاَّ محبَّةً وشوقاً وقلقاً لوصاله وتوقاً، ولهذا قالت له بحضرتهنَّ: {ولئن لم يفعلْ ما آمرُهُ ليسجننَّ وليكونًا من الصَّاغرينَ}: لتلجِئَه بهذا الوعيد إلى حصول مقصودها منه.
[32] جب ان عورتوں کے سامنے یوسفu کا ظاہری جمال متحقق ہوگیا اور یوسفu ان کو بہت ہی اچھے لگے تو عزیز مصر کی بیوی پر ان کا بہت کچھ عذر ظاہر ہوگیا،
پھر اس نے چاہا کہ وہ ان عورتوں کو یوسفu کے باطنی جمال… یعنی عفت کامل… کا نظارہ کروائے چنانچہ اس عورت نے کسی چیز کی پروا کیے بغیر کیونکہ آج عورتوں کی طرف سے ملامت منقطع ہو گئی تھی… یوسفu سے اپنی شدید محبت کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ﴿ قَالَتْ فَذٰلِكُ٘نَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ﴾ ’’یہ وہی ہے کہ طعنہ دیا تھا تم نے مجھ کو اس کے بارے میں اور میں نے پھسلایا تھا اس کو اس کے جی سے، پس اس نے اپنے کو بچا لیا‘‘ یعنی اس نے اپنے آپ کو بچا لیا گویا وہ اب بھی یوسفu کو پھسلانے کے موقف پر قائم تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے قراری، محبت اور شوق وصال میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا،
لہٰذا اس نے ان عورتوں کی موجودگی میں یوسفu سے کہا: ﴿وَلَىِٕنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَاۤ اٰمُرُهٗ لَیُسْجَنَ٘نَّ وَلَیَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَؔ﴾ ’’اگر اس نے وہ کام نہ کیا، جس کا حکم میں اس کو دے رہی ہوں تو یہ یقینا قید کر دیا جائے گا اور بے عزت ہو گا‘‘ تاکہ وہ اس دھمکی کے ذریعے سے جناب یوسفu سے اپنا مقصد حاصل کر سکے۔
#
{33} فعند ذلك اعتصم يوسف بربِّه، واستعان به على كيدهِنَّ و {قال ربِّ السجنُ أحبُّ إليَّ مما يدعونني إليه}: وهذا يدلُّ على أن النسوة جعلن يُشِرْن على يوسف في مطاوعة سيدته، وجعلن يَكِدْنَه في ذلك، فاستحبَّ السجن والعذاب الدنيويَّ على لذَّة حاضرة توجب العذاب الشديد. {وإلاَّ تصرِفْ عنِّي كيدَهُنَّ أصبُ إليهنَّ}؛ أي: أَمِل إليهنَّ؛ فإني ضعيفٌ عاجز إن لم تدفعْ عنِّي السوء؛ صبوتُ إليهنَّ، {وأكن من الجاهلينَ}: فإنَّ هذا جهلٌ؛ لأنَّه آثر لذَّة قليلة منغَّصة على لذات متتابعات وشهوات متنوعات في جنات النعيم، ومَنْ آثر هذا على هذا؛ فمن أجهلُ منه؟! فإنَّ العلم والعقل يدعو إلى تقديم أعظم المصلحتين وأعظم اللذَّتين، ويؤثِرُ ما كان محمودَ العاقبة.
[33] تب یوسفu نے اپنے رب سے پناہ مانگی اور ان عورتوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد کے طلب گار ہوئے
﴿ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے رب! مجھے قید اس سے زیادہ پسند ہے جس طرف یہ مجھے بلا رہی ہیں ‘‘ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان عورتوں نے یوسفu کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی مالکہ کا حکم مانیں اور ان عورتوں نے یوسفu کو فریب سے پھسلانا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے یوسفu نے اس لذت کے مقابلے میں ، جو اخروی عذاب کی موجب ہے، قید خانے اور دنیاوی عذاب کو پسند کیا۔
﴿ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْؔ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَ٘یْهِنَّ ﴾ ’’اور اگر تو نے ان عورتوں کی چالوں اور مکر و فریب کو مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر ان کے دام میں پھنس جاؤں گا‘‘ کیونکہ میں تو ایک عاجز اور کمزور بندہ ہوں
﴿ وَاَكُ٘نْ مِّنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور میں جاہلوں سے ہو جاؤں گا‘‘ کیونکہ یہ سب جہالت کا کام ہے کیونکہ جاہل ختم ہو جانے والی قلیل لذت کو جنت میں حاصل ہونے والی دائمی لذات اور انواع و اقسام کی شہوات پر ترجیح دیتا ہے اور جو دنیا کی اس لذت کو جنت کی لذتوں پر ترجیح دیتا ہے اس سے بڑھ کر جاہل کون ہے؟ علم و عقل ہمیشہ بڑی مصلحت اور دائمی لذت کو مقدم رکھنے اور ان امور کو ترجیح دینے کی دعوت دیتے ہیں جن کا انجام قابل ستائش ہوتا ہے۔
#
{34} {فاستجابَ له ربُّه}: حين دعاه، {فصرف عنه كَيْدَهُنَّ}: فلم تزلْ تراوِدُه وتستعين عليه بما تقدِرُ عليه من الوسائل حتى أيَّسَها وصَرَفَ الله عنه كيدها. {إنَّه هو السميع}: لدعاء الداعي، {العليمُ}: بنيَّته الصالحة وبنيَّته الضعيفة المقتضية لإمداده بمعونته ولطفه، فهذا ما نجَّى اللهُ به يوسفَ من هذه الفتنة الملمَّة والمحنة الشديدة.
[34] ﴿ فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ﴾ ’’تو اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی۔‘‘ جب یوسفu نے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا
﴿ فَصَرَفَ عَنْهُؔ كَیْدَهُنَّ﴾ ’’پس ان سے ان عورتوں کا فریب پھیر دیا‘‘ وہ عورت جناب یوسفu پر ڈورے ڈال کر ان کو اپنے دام فریب میں پھانسنے کی کوشش کرتی رہی اور اس سلسلے میں وہ تمام وسائل استعمال کرتی رہی جو اس کی قدرت و اختیار میں تھے۔ یہاں تک کہ یوسفu نے اس کو مایوس کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس مکر و فریب کو یوسفu سے رفع کر دیا۔
﴿ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ ﴾ اللہ تعالیٰ دعا مانگنے والے کی دعا کو سنتا ہے
﴿الْعَلِیْمُ﴾ اور اس کی نیک نیت اور کمزور نیت کو خوب جانتا ہے جو اس کی مدد، معاونت اور اس کے لطف و کرم کا تقاضا کرتی ہے۔ پس یہ دعا تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے جناب یوسفu کو اس فتنہ اور بہت بڑی آزمائش سے نجات دی۔
#
{35} وأما أسيادُه؛ فإنَّه لما اشتهر الخبر وبان وصار الناس فيها بين عاذرٍ ولائم وقادح، {بدا لهم}؛ أي: ظهر لهم {من بعد ما رأوا الآيات}: الدالَّة على براءته، {لَيَسْجُنُنَّه حتى حين}؛ أي: لينقطع بذلك الخبر ويتناساه الناس؛ فإنَّ الشيء إذا شاع؛ لم يزلْ يذكر، ويشاع مع وجود أسبابه؛ فإذا عدمت أسبابه؛ نُسِي، فرأوا أنَّ هذا مصلحة لهم، فأدخلوه في السجن.
[35] رہے ان کے آقا تو جب یہ خبر مشہور ہوئی اور بات کھل گئی تو لوگوں میں سے کسی نے ان کو معذور سمجھا، کسی نے ملامت کی اور کسی نے جرح و قدح کی۔
﴿ بَدَا لَهُمْ﴾ ’’ان پر ظاہر ہوا۔‘‘
﴿ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ ﴾ ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد جو یوسفu کی براء ت پر دلالت کرتی تھیں
﴿ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ﴾ ’’کہ ایک وقت تک ان کو قید میں رکھیں ‘‘ تاکہ اس طرح خبر منقطع ہو جائے اور لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں کیونکہ جب کوئی خبر شائع ہو جاتی ہے تو اس کا ذکر عام ہونے لگتا ہے اور وجود اسباب کے باعث یہ خبر پھیلتی چلی جاتی ہے۔ جب اسباب معدوم ہو جاتے ہیں تو اس واقعہ کو بھلا دیا جاتا ہے… چنانچہ انھوں نے اس میں یہی مصلحت دیکھی اور یوسفu کو قید خانے میں ڈال دیا۔
{وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (36) قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (37) وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (38) يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40) [يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ (41)] }.
اور داخل ہوئے اس کے ساتھ قید خانے میں دو جوان، ان میں سے ایک نے کہا، بے شک میں دیکھتا ہوں اپنے آپ کو کہ نچوڑ رہا ہوں میں شراب،اورکہا دوسرے نے بے شک میں دیکھتا ہوں اپنے آپ کو اٹھا رہا ہوں میں اوپر اپنے سر کے روٹی، کھا رہے ہیں پرندے اس میں سے ، بتلا تو ہمیں تعبیر اس کی، بے شک ہم دیکھتے ہیں تجھے احسان کرنے والوں میں سے
(36) یوسف نے کہا، نہیں آئے گا تم دونوں کے پاس کھانا جو دیے جاتے ہو تم وہ مگر بتلا دوں گا میں تمھیں تعبیر اس کی پہلے اس سے کہ وہ آئے تمھارے پاس، یہ ان چیزوں میں سے ہے جو سکھائیں مجھے میرے رب نے، یقینا میں نے چھوڑ دیا دین ان لوگوں کا جو نہیں ایمان لاتے اللہ کے ساتھ اور وہ ساتھ آخرت کے بھی کفر کرنے والے ہیں
(37) اور میں نے پیروی کی دین کی اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے، نہیں جائز واسطے ہمارے یہ کہ شریک ٹھہرائیں ہم ساتھ اللہ کے کسی چیز کو، یہ ہے فضل سے اللہ کے اوپر ہمارے اور اوپر تمام لوگوں کے لیکن اکثر لوگ نہیں شکر کرتے
(38) اے میرے دونوں ساتھیو قید خانے کے! کیا معبود متفرق بہتر ہیں یا اللہ ایک نہایت غالب؟
(39) نہیں عبادت کرتے تم سوائے اس کے مگر چند ناموں کی جو نام رکھے ہیں خود ہی تم نے وہ، تم نے اور تمھارے باپ دادا نے، نہیں نازل کی اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں ہے حکم مگر اللہ ہی کا، اس نے حکم دیا یہ کہ نہ عبادت کروتم مگر صرف اسی کی، یہی ہے دین سیدھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
(40) اے میرے دونوں ساتھیو قید خانے کے! لیکن ایک تو تم دونوں میں سے پس وہ پلائے گا اپنے مالک کو شراب اور لیکن دوسرا، سو وہ سولی دیا جائے گا اورکھائیں گے پرندے اس کے سر میں سے، فیصلہ کیا گیا ہے اس معاملے کا، وہ جس کی بابت تم مجھ سے پوچھتے تھے
(41)
#
{36} أي: {و} لما دخل يوسف السجن؛ كان في جملة من {دخل معه السجنَ فتيانِ}؛ أي: شابان، فرأى كلُّ واحدٍ منهما رؤيا، فقصَّها على يوسف ليعبرها، {قال أحدُهما إني أراني أعصِرُ خمراً، وقال الآخرُ إنِّي أراني أحمل فوقَ رأسي خبزاً}: وذلك الخبز {تأكُلُ الطيرُ منه نبِّئْنا بتأويلِهِ}؛ أي: بتفسيره وما يؤول إليه أمرهما. وقولهما: {إنا نراك من المحسنين}؛ أي: من أهل الإحسان إلى الخلق؛ فأحسِنْ إلينا في تعبيرك لرؤيانا كما أحسنتَ إلى غيرنا، فتوسَّلا ليوسف بإحسانه.
[36] ﴿ وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ﴾ ’’اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے۔‘‘ جب یوسفu قید خانے میں ڈالے گئے تو ان کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قید کیے گئے۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے خواب دیکھا، انھوں نے تعبیر پوچھنے کی غرض سے اپنا اپنا خواب یوسفu کو سنایا
﴿ قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًا١ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا﴾ ’’ان میں سے ایک نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھا رہا ہوں ‘‘ اور یہ روٹی
﴿ تَاْكُ٘لُ الطَّیْرُ مِنْهُ﴾ ’’پرندے کھا رہے ہیں ۔‘‘
﴿ نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِهٖ٘﴾ ’’ہمیں اس کی تعبیر بتا دیجیے۔‘‘ یعنی اس کی تفسیر سے ہمیں آگاہ کیجیے کہ اس خواب کا انجام کیا ہوگا۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے کہا:
﴿ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’بے شک ہم آپ کو بھلائی کرنے والا دیکھتے ہیں ‘‘ یعنی آپ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہیں ۔ آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتا کر ہم پر احسان کیجیے جیسا کہ آپ نے دوسرے لوگوں پر احسان کیا ہے۔ انھوں نے یوسفu کے احسان کو وسیلہ بنایا۔
#
{37} فَـ {قَالَ} لهما مجيباً لطلبهما: {لا يأتِيكما طعامٌ ترزقانِهِ إلاَّ نبأتُكما بتأويله قبلَ أن يأتيكما}؛ أي: فلتطمئنَّ قلوبُكما فإني سأبادر إلى تعبير رؤياكما، فلا يأتيكما غداؤكما أو عشاؤكما أول ما يجيء إليكما؛ إلاَّ نبأتُكما بتأويله قبل أن يأتِيكما، ولعلَّ يوسف عليه الصلاة والسلام قصد أن يدعوهما إلى الإيمان في هذه الحال التي بَدَتْ حاجتُهما إليه؛ ليكون أنجعَ لدعوته وأقبل لهما. ثم قال: {ذلِكما}: التعبير الذي سأعبره لكما، {مما علَّمني ربي}؛ أي: هذا من علم الله علَّمنيه وأحسن إليَّ به. وذلك {إنِّي تركتُ مِلَّة قوم لا يؤمنون بالله وهم بالآخرة هم كافرونَ}: والترك كما يكون للداخل في شيء ثم ينتقل عنه يكون لمن لم يدخُلْ فيه أصلاً؛ فلا يُقال: إنَّ يوسف كان من قبلُ على غير ملَّة إبراهيم.
[37] ﴿ قَالَ ﴾ یوسفu نے ان کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ لَا یَ٘اْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ٘ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَا﴾ ’’جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو ان کی تعبیر بتادوں گا۔‘‘ یعنی تمھیں دلی اطمینان ہونا چاہیے کہ میں تمھیں تمھارے خواب کی تعبیر ضرور بتاؤں گا میں تمھارا کھانا آنے سے بھی پہلے تمھیں تمھارے خواب کی تعبیر بتادوں گا۔
شاید یوسفu یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس حال میں ، جبکہ ان قیدیوں نے حضرت یوسفu کی حاجت محسوس کی وہ ان قیدیوں کو ایمان کی دعوت دیں تاکہ یہ حال ان کی دعوت کے لیے زیادہ مفید اور ان قیدیوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہو،
پھر یوسفu سے فرمایا: ﴿ذٰلِكُمَا﴾ یعنی یہ تعبیر جو میں تم دونوں کو بتاؤں گا
﴿ مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ﴾ ’’یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیا ہے۔‘‘ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ احسان یہ ہے
﴿اِنِّیْ تَرَؔكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَؔ بِاللّٰهِ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ﴾ ’’میں نے اس قوم کا دین چھوڑا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتی اور وہ آخرت کے منکر ہیں ‘‘
(ترک) کا اطلاق جس طرح اس داخل ہونے والے پر ہوتا ہے جو داخل ہونے کے بعد وہاں سے منتقل ہو جاتا ہے اسی طرح اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اصلاً اس میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے پہلے یوسفu ملت ابراہیمu کے علاوہ کسی اور ملت پر تھے۔
#
{38} {واتَّبعت مِلَّةَ آبائي إبراهيم وإسحاق ويعقوبَ}: ثم فسَّر تلك الملة بقوله: {ما كان لنا}؛ [أي: ما ينبغي ولا يليق بنا] {أن نُشْرِكَ بالله من شيءٍ}: بل نُفْرِدُ الله بالتوحيد ونُخْلِصُ له الدين والعبادة. {ذلك من فضل الله علينا وعلى الناس}؛ أي: هذا من أفضل [مننِه] وإحسانه وفضله علينا وعلى مَنْ هداه الله كما هدانا؛ فإنَّه لا أفضل من منَّة الله على العباد بالإسلام والدين القويم؛ فمن قبله وانقاد له؛ فهو حظُّه، وقد حصل له أكبر النعم وأجلُّ الفضائل. {ولكنَّ أكثرَ الناس لا يشكرونَ}: فلذلك تأتيهم المنَّة والإحسان فلا يقبلونَها ولا يقومون لله بحقِّه. وفي هذا من الترغيب للطريق التي هو عليها ما لا يخفى؛ فإنَّ الفتيين لما تقرَّر عنده أنهما رأياه بعين التعظيم والإجلال وأنه محسنٌ معلِّم؛ ذكر لهما أنَّ هذه الحالة التي أنا عليها كلّها من فضل الله وإحسانه، حيث منَّ عليَّ بترك الشرك وباتباع ملة آبائي ؛ فبهذا وصلتُ إلى ما رأيتما، فينبغي لكما أن تَسْلُكا ما سلكتُ.
[38] ﴿ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ﴾ ’’اور میں نے پیروی کی اپنے باپ دادا کی ملت کی، ابراہیم،
اسحٰق اور یعقوب کی‘‘ اس کے بعد یوسفu نے ملت ابراہیمu کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْ٘رِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’ہمارے لائق نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں ‘‘ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور اسی کے لیے دین اور عبودیت کو خالص کرتے ہیں ۔
﴿ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَعَلَى النَّاسِ ﴾ ’’یہ ہم پر اللہ کی بہترین نوازش اور اس کا فضل و احسان ہے۔‘‘ یہ احسان ان لوگوں پر بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرح راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے کیونکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی اس نوازش اور عنایت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ وہ ان کو اسلام اور دین قویم سے نواز دے۔
پس جو کوئی اسے قبول کر لیتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے وہ سب سے بڑی نعمت اور جلیل ترین فضیلت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے
﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘ اسی لیے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور احسانات آتے ہیں مگر وہ انھیں قبول نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے کسی حق کو قائم کرتے ہیں ۔
یہ بات مخفی نہیں کہ اس میں اس راستے کی اتباع کی ترغیب ہے جس پر خود جناب یوسفu گامزن تھے۔ یوسفu نے چونکہ ان نوجوانوں کے بارے میں یہ چیز محسوس کر لی تھی کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یوسفu ایک اچھے اور تعلیم دینے والے شخص ہیں … اس لیے جناب یوسفu نے ان دونوں کو بتایا کہ میری یہ حالت، جس پر میں اس وقت ہوں ، یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں شرک سے بچ گیا اور میں نے اپنے آباء و اجداد کی ملت کی اتباع کی اور میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تم مجھے دیکھ رہے ہو تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم بھی اس راستے پر چلو جس پر میں چل رہا ہوں ۔
#
{39} ثم صرح لهما بالدعوة فقال: {يا صاحبي السجنِ أأربابٌ متفرِّقونَ خيرٌ أم الله الواحد القهار}؛ أي: أأربابٌ عاجزة ضعيفة لا تنفع ولا تضرُّ ولا تعطي ولا تمنع وهي متفرِّقة ما بين أشجار وأحجار وملائكة وأموات وغير ذلك من أنواع المعبودات التي يتَّخذها المشركون، أتلك خيرٌ أم الله الذي له صفات الكمال الواحد في ذاته وصفاته وأفعاله؟ فلا شريكَ له في شيء من ذلك، القهَّار الذي انقادت الأشياء لقهرِهِ وسلطانِهِ؛ فما شاء كان، وما لم يشأ لم يكنْ، ما من دابَّة إلاَّ هو آخذٌ بناصيتها.
[39] پھر یوسفu نے نہایت صراحت کے ساتھ ان دونوں کو توحید کی دعوت دی۔ فرمایا:
﴿ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ۠ؔ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ ’’اے قید کے ساتھیو! کیا متفرق معبود بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ‘‘ یعنی عاجز اور کمزور معبود جو کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کر سکتے ہیں نہ محروم کر سکتے ہیں یہ معبود شجر و حجر، فرشتوں ، مردہ ہستیوں اور دیگر مختلف قسم کے معبودوں میں بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں جن کو ان مشرکین نے معبود بنا رکھا ہے کیا یہ معبودان اچھے ہیں
﴿ اَمِ اللّٰهُ ﴾ ’’یااللہ‘‘ جو صفات کمال کا مالک ہے
﴿ الْوَاحِدُ ﴾ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔
﴿ الْقَهَّارُ ﴾ اس کے قہر اور تسلط کے سامنے تمام کائنات سرافگندہ ہے وہ جو چیز چاہتا ہے ہو جاتی ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتی۔
﴿ مَؔا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا ﴾ (ھود: 11؍56) ’’جو بھی چلنے پھرنے والا جاندار ہے اس کی پیشانی اس کے قبضۂ اختیار میں ہے۔‘‘
#
{40} ومن المعلوم أنَّ مَن هذا شأنه ووصفه خيرٌ من الآلهة المتفرِّقة التي هي مجرَّد أسماء لا كمال لها ولا فعال لديها، ولهذا قال: {ما تعبُدون من دونِهِ إلاَّ أسماءً سمَّيْتُموها أنتم وآباؤكم}؛ أي: كسوتُموها أسماءً [و] سمَّيتموها آلهة، وهي لا شيء، ولا فيها من صفات الألوهيَّة شيء. {ما أنزل الله بها من سلطانٍ}: بل أنزل الله السلطان بالنهي عن عبادتها وبيان بطلانها، وإذا لم يُنْزِلِ الله بها سلطاناً؛ لم يكنْ طريقٌ ولا وسيلةٌ ولا دليلٌ لها. لأن الحكمَ {لله}: وحدَه؛ فهو الذي يأمُرُ وينهى ويشرِّعُ الشرائع ويسنُّ الأحكام، وهو الذي أمركم {أن لا تعبُدوا إلاَّ إيَّاه ذلك الدين القيِّمُ}؛ أي: المستقيم الموصل إلى كلِّ خير، وما سواه من الأديان؛ فإنَّها غير مستقيمة، بل معوجَّة توصل إلى كلِّ شرٍّ. {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمونَ}: حقائق الأشياء، وإلاَّ؛ فإنَّ الفرق بين عبادة الله وحده لا شريك له وبين الشرك به أظهر الأشياء وأبينها، ولكن لعدم العلم من أكثر الناس بذلك حَصَلَ منهم ما حصل من الشرك. فيوسف عليه السلام دعا صاحبي السجنِ لعبادة الله وحده وإخلاص الدِّين له، فيُحتمل أنهما استجابا وانقادا فتمَّت عليهما النعمة، ويُحتمل أنَّهما لم يزالا على شركهما، فقامت عليهما بذلك الحجة.
[40] یہ بات معلوم ہے کہ جس ہستی کی یہ شان اور یہ وصف ہو وہ ان متفرق معبودوں سے بہتر ہے جو محض گھڑے ہوئے نام ہیں جو کسی کمال اور فعل سے عاری ہیں ۔بنابریں یوسفu نے فرمایا:
﴿ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو، وہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ‘‘ یعنی تم نے ان کو معبود کا نام دے دیا ہے حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں اور نہ ان میں الوہیت کی صفات میں سے کوئی صفت ہے۔
﴿ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ ’’اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی‘‘ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کی ممانعت نازل کر کے ان کا باطل ہونا واضح کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان معبودان باطل کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی اس لیے کوئی طریقہ، کوئی وسیلہ اور کوئی دلیل ایسی نہیں جس سے ان کا استحقاق عبودیت ثابت ہوتا ہو۔
﴿ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ﴾ ’’اللہ اکیلے کے سوا کسی کا حکم نہیں۔‘‘ وہی ہے جو حکم دیتا ہے اور منع کرتا ہے، وہی ہے جو تمام شرائع اور احکام کو مشروع کرتا ہے اور وہی ہے
﴿ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾ ’’اس نے حکم دیا کہ عبادت صرف اسی کی کرو، یہی سیدھا مضبوط دین ہے‘‘ یعنی یہی صراط مستقیم ہے جو ہر بھلائی کی منزل تک پہنچاتا ہے، دیگر تمام ادیان سیدھی راہ سے محروم ہیں بلکہ یہ ٹیڑھے راستے ہیں اور ہر برائی تک پہنچاتے ہیں ۔
﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ مگر اکثر لوگ اشیاء کے حقائق کو نہیں جانتے۔ ورنہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور اس کے ساتھ شرک میں فرق سب سے زیادہ واضح اور نمایاں چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ علم سے محروم ہونے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
#
{41} ثم إنه عليه السلام شَرَعَ يعبر رؤياهما بعدما وعدهما ذلك، فقال: {يا صاحبي السجن أما أحَدُكُما}: وهو الذي رأى أنه يعصِرُ خمراً؛ فإنَّه يخرج من السجن، ويسقي {ربَّه خمراً}؛ أي: يسقي سيده الذي كان يخدمه خمراً، وذلك مستلزم لخروجه من السجن. {وأما الآخر}: وهو الذي رأى أنَّه يحمل فوق رأسه خبزاً تأكل الطير منه، {فيُصْلَبُ فتأكلُ الطير من رأسه}: فإنَّه عبر عن الخبز الذي تأكله الطير بلحم رأسه وشحمه وما فيه من المخِّ، وأنَّه لا يقبر ويستر عن الطيور، بل يُصلب ويُجعل في محلٍّ تتمكَّن الطيور من أكله، ثم أخبرهما بأنَّ هذا التأويل الذي تأوَّله لهما أنَّه لا بدَّ من وقوعه، فقال: {قُضِيَ الأمرُ الذي فيه تستفتيان}؛ أي: تسألان عن تعبيره وتفسيره.
[41] پس یوسفu نے قید کے دونوں ساتھیوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور اخلاص کی طرف دعوت دی تو یہ احتمال بھی ہے کہ ان دونوں ساتھیوں نے یوسفu کی دعوت قبول اور آپ کی اطاعت اختیار کر لی ہو اور اللہ کی نعمت کا ان پر اتمام ہو گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے شرک پر جمے رہے ہوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہو،
پھر یوسفu نے ان دونوں کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کے مطابق ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کی۔ فرمایا: ﴿یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا ﴾ ’’میرے جیل خانے کے رفیقو! تم میں سے ایک ۔‘‘ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نکال رہا ہے۔ اس کے بارے میں یوسفu نے بتایا کہ وہ قید سے آزاد ہوگا
﴿فَ٘یَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًا﴾ ’’پس وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔‘‘ یعنی وہ اپنے آقا کو جس کی وہ خدمت کیا کرتا تھا شراب پلائے گا اور یہ تعبیر اس کے قید سے نکلنے کو مستلزم تھی۔
﴿وَاَمَّا الْاٰخَرُ ﴾ ’’رہا دوسرا قیدی‘‘ جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہے اور پرندے روٹیاں کھا رہے ہیں
﴿فَیُصْلَبُ فَتَاْكُ٘لُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖ﴾ ’’وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھاجائیں گے۔‘‘ یوسفu نے روٹیاں سر پر اٹھانے کی جن کو پرندے کھا رہے ہوں ، یہ تعبیر بتلائی کہ اس کا سر قلم کیا جائے گا۔ اس کے سر کا گوشت، چربی اور مغز جدا کیے جائیں گے، اس کو دفن نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے پرندوں سے بچایا جائے گا بلکہ اسے ایسی جگہ صلیب پر لٹکایا جائے گا جہاں پرندے اس کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ جناب یوسفu نے آگاہ فرمایا کہ خواب کی یہ تعبیر جو انھوں نے ان کو بتائی ہے، پوری ہو کر رہے گی۔ فرمایا
﴿قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ﴾ ’’جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے، اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔‘‘ یعنی جس معاملے کی تعبیر و تفسیر کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے اس کا فیصلہ ہو چکا۔
{وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ (42)}.
اور کہا اسے کہ گمان کیا تھا
(اس کو) کہ وہ نجات پانے والا ہے ان دونوں میں سے تو ذکر کرنا میر ااپنے مالک کے ہاں ، پس بھلوا دیا اسے شیطان نے ذکر کرنا اپنے مالک کے پاس ، سو ٹھہرا رہا یوسف قید خانے میں کئی سال
(42)
#
{42} أي: {وقال} يوسفُ عليه السلام {للذي ظنَّ أنَّه ناج منهما}: وهو الذي رأى أنه يعصِرُ خمراً: {اذْكُرْني عند ربِّك}؛ أي: اذكر له شأني وقصَّتي لعله يَرقُّ لي فيخرجني مما أنا فيه، {فأنساه الشيطانُ ذِكْرَ ربِّه}؛ أي: فأنسى الشيطان ذلك الناجي ذكر الله تعالى وذكر ما يُقَرِّبُ إليه ومن جملة ذلك نسيانه ذِكْرَ يوسف الذي يستحقُّ أن يُجازى بأتمِّ الإحسان، وذلك ليتمَّ الله أمره وقضاءه. {فلَبِثَ في السجن بضعَ سنين}: والبضع من الثلاث إلى التسع، ولهذا قيل: إنه لبث سبع سنين.
ولما أراد الله أن يُتِمَّ أمره ويأذن بإخراج يوسف من السجن؛ قدَّر لذلك سبباً لإخراج يوسف وارتفاع شأنه وإعلاء قَدْره وهو رؤيا الملك.
[42] ﴿وَقَالَ ﴾ یعنی یوسفu نے فرمایا:
﴿ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّؔنْهُمَا ﴾ ’’اس شخص سے جس کی بابت انھوں نے گمان کیا تھا کہ وہ بچے گا‘‘ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب پلارہا ہے۔
﴿ اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ﴾ ’’اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا‘‘ یعنی اس کے پاس میرے قصے اور میرے معاملے کاذکر کرنا شاید وہ نرم پڑ جائے اور مجھے اس قید خانے سے نکال دے۔
﴿ فَاَنْسٰىهُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ ذِكْرَ رَبِّهٖ﴾ ’’لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا۔‘‘ یعنی قید سے نجات پانے والے اس شخص کو شیطان نے اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرا دیا۔[
( فاضل مصنف کے برعکس اکثر مفسرین نے (ذکر ربہ) میں رب سے آقا، یعنی بادشاہ وقت مراد لیا ہے، یعنی نجات پانے والے کو شیطان نے بھلا دیا اور اس نے حضرت یوسفu کی خواہش کے مطابق بادشاہ سے آکر ان کے جیل میں محبوس رہنے کا ذکر نہیں کیا۔
(ص ۔ ی)] اور نیز ہر اس چیز کو فراموش کرا دیا جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا باعث تھی اور انھی چیزوں میں یوسفu کا تذکرہ بھی تھا جو اس چیز کے مستحق تھے کہ بہترین اور کامل ترین بھلائی کے ساتھ ان کو بدلہ دیا جاتا۔ یہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کا حکم پورا ہو۔
﴿ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْ٘عَ سِنِیْنَ ﴾ ’’پس ٹھہرے رہے یوسفu جیل میں کئی سال‘‘
(بضع) کا اطلاق تین سے لے کر نو تک کے عدد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات برس تک قید میں رہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ اس کا حکم پورا ہو اور یوسفu کو قید سے نکالنے کا اذن دے تو اس نے یوسفu کو قید سے نکالنے، ان کی شان بلند کرنے اور ان کی قدر و منزلت نمایاں کرنے کے لیے ایک سبب مقدر کر دیا… وہ تھا بادشاہ کا خواب دیکھنا۔
{وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ (43) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ (44) وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ (45) يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ (46) قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ (47) ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ (48) ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ (49)}.
اور کہا بادشاہ نے، بے شک میں دیکھتا ہوں
(خواب میں ) ساتھ گائیں موٹی کہ کھا رہی ہیں انھیں سات دبلی اور ساتھ بالیاں سبز اور دوسری خشک، اے درباریو! تعبیر بتلاؤ تم مجھے میرے خواب کی اگر ہو تم خواب کی تعبیر کر سکتے
(43) انھوں نے کہا،
(یہ ہیں ) پریشان خواب اورنہیں ہیں ہم تعبیر ایسے خوابوں کی جاننے والے
(44) اور کہا اس شخص نے جس نے نجات پائی تھی ان دونوں میں سےاور یاد آیا اسے بعد مدت کے، میں خبر دوں گا تمھیں اس کی تعبیر کے پس تم بھیجو مجھے
(45) (اس نے جا کر کہا) اے یوسف! اے بہت ہی سچے! تعبیر بتلا ہمیں سات گائیوں کی بابت جو موٹی ہیں کہ کھا رہی ہیں انھیں سات دبلی اور ساتھ بالیاں سبز اوردوسری خشک تاکہ میں لوٹوں طرف لوگوں کی
(اور) تاکہ وہ جان لیں
(46) یوسف نے کہا، کاشت کرو گے تم سات سال لگاتار، پس جو کاٹو تم تو چھوڑ دو اسے اس کی بالی ہی میں مگر تھوڑا سا اس میں سے جو کھاؤ تم
(47) پھر آئیں گے اس کے بعد سات سال سخت، وہ کھا جائیں گے اسے جو پہلے
(ذخیرہ) کیا تم نے واسطے ان کے مگر تھوڑا سا اس
(ذخیرے) میں سے جو محفوظ رکھو گے تم
(بیج کے لیے) (48) پھر آئے گا اس
(قحط سالی) کے بعد ایسا سال کہ اس میں بارش دیے جائیں گے لوگ اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے
(49)
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسفu کو قید خانے سے نکالنا چاہا تو بادشاہ کو ایک عجیب و غریب خواب دکھایا۔ جس کی تعبیر تمام قوم کو متاثر کرتی تھی… تاکہ یوسفu اس خواب کی تعبیر بتائیں اور یوں ان کا علم و فضل ظاہر ہو اور دین و دنیا میں ان کو رفعت حاصل ہو۔ اس میں تقدیر کی مناسبت یہ ہے کہ بادشاہ نے… جو رعایا کے تمام امور کا ذمہ دار ہوتا ہے… یہ خواب دیکھا کیونکہ قوم کے مصالح کا تعلق بادشاہ سے ہوتا ہے۔ اس بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس نے بادشاہ کو خوف زدہ کر دیا۔ اس نے اپنی قوم کے اہل علم اور اصحاب الرائے کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا:
#
{43} {إني أرى سبعَ بقراتٍ سمانٍ يأكُلُهُنَّ سبعٌ}؛ أي: سبعٌ من البقرات {عجافٌ}: وهذا من العجب أنَّ السبع العجافَ الهزيلات اللاتي سقطتْ قوَّتُهن يأكُلْنَ السبع السمان التي كنَّ نهايةً في القوة. {و} رأيتُ {سبعَ سُنْبُلاتٍ خضرٍ} يأكلهن سبعُ سنبلاتٍ يابساتٍ؛ {يا أيُّها الملأ أفتوني في رؤيايَ}: لأنَّ تعبير الجميع واحدٌ وتأويلهنَّ شيءٌ واحدٌ، {إن كنتُم للرؤيا تَعْبُرون}.
[43] ﴿ اِنِّیْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُ٘لُ٘هُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ﴾ ’’میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ، ان کو کھاتی ہیں سات کمزور اور لاغر گائیں ۔‘‘ یہ عجیب بات ہے کہ لاغر اور کمزور گائیں ، جن میں قوت ختم ہو چکی ہے وہ ایسی سات موٹی گایوں کو کھا جائیں جو انتہائی طاقتور ہوں ۔
﴿وَ﴾ اور میں نے دیکھا ہے
﴿ سَبْعَ سُنْۢبـُلٰتٍ خُ٘ضْرٍ وَّاُخَرَ یٰـبِسٰتٍ﴾ ’’سات خوشے سبز ہیں اور سات خشک۔‘‘ یعنی ان سات ہری بالیوں کو سوکھی بالیاں کھا رہی ہیں ۔
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَ٘ایَ ﴾ ’’اے دربار والو! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ‘‘ کیونکہ سب کی تعبیر ایک تھی اس خواب کی تاویل بھی ایک ہی چیز تھی۔
﴿ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْیَ٘ا تَعْبُرُوْنَؔ ﴾ ’’اگر ہو تم خواب کی تعبیر کرنے والے۔‘‘
#
{44} فتحيَّروا ولم يعرفوا لها وجهاً؛ {وقالوا أضغاثُ أحلام}؛ أي: أحلام لا حاصلَ لها ولا لها تأويلٌ. وهذا جزمٌ منهم بما لا يعلمون وتعذُّرٌ منهم بما ليس بعذرٍ. ثم قالوا: {وما نحنُ بتأويل الأحلام بعالِمينَ}؛ أي: لا نَعْبُرُ إلا الرؤيا وأمَّا الأحلام التي هي من الشيطان أو من حديث النفس فإنَّا لا نعبرها. فجمعوا بين الجهل والجزم بأنها أضغاث أحلام والإعجاب بالنفس بحيثُ إنَّهم لم يقولوا: لا نعلمُ تأويلها! وهذا من الأمور التي لا تنبغي لأهل الدين والحِجا. وهذا أيضاً من لطف الله بيوسف عليه السلام؛ فإنَّه لو عَبَرَها ابتداءً قبل أن يعرِضَها على الملأ من قومه وعلمائهم فيعجزوا عنها؛ لم يكنْ لها ذلك الموقع، ولكن لما عرضها عليهم، فعجزوا عن الجواب، وكان الملك مهتمًّا لها غايةً، فعبرها يوسفُ؛ وقعتْ عندهم موقعاً عظيماً.
وهذا نظيرُ إظهار الله فضلَ آدم على الملائكة بالعلم بعد أن سألهم فلم يعلموا، ثم سأل آدم فعلَّمهم أسماء كلِّ شيءٍ، فحصل بذلك زيادة فضله. وكما يُظْهِرُ فضلَ أفضل خلقِهِ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - في القيامة أن يُلْهِمَ اللهُ الخلقَ أن يتشفَّعوا بآدم ثم بنوح ثم إبراهيم ثم موسى ثم عيسى عليهم السلام، فيعتذِرون عنها، ثم يأتون محمداً - صلى الله عليه وسلم -، فيقول: «أنا لها، أنا لها» ، فيشفع في جميع الخلق، وينال ذلك المقامَ المحمودَ الذي يغبِطُه به الأولون والآخرون؛ فسبحان من خَفِيَتْ ألطافُه ودقَّت في إيصاله البر والإحسان إلى خواصِّ أصفيائه وأوليائه.
[44] پس وہ سخت حیران ہوئے اور اس خواب کی کوئی تعبیر نہ کر سکے۔ کہنے لگے:
﴿اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ﴾ ’’یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔‘‘ یعنی یہ ایسا پریشان خواب ہے جس کا کوئی حاصل ہے نہ اس کی کوئی تعبیر۔ یہ ان کی اس بارے میں حتمی رائے تھی جس کے بارے میں وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے اور انھوں نے ایسی چیز کو عذر بنایا جو درحقیقت عذر ہی نہیں ،
پھر انھوں نے کہا: ﴿ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔‘‘ یعنی ہم تو صرف خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں ۔ رہے پریشان خواب جو شیطانی وسوسوں اور نفس کی خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں تو ہم ان کی تفسیر نہیں جانتے۔
پس انھوں نے جہالت، حتمی رائے کہ یہ پریشان خواب ہیں اور خود پسندی کو ایک جگہ کر دیا کیونکہ انھوں نے یہ نہ کہا کہ ہم اس خواب کی تعبیر نہیں جانتے اور یہ ایسا رویہ ہے جو اہل دین اور عقل مندوں کو زیب نہیں دیتا… نیز یہ یوسفu پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی ہے کیونکہ اگر شروع ہی سے، بادشاہ کے اعیان سلطنت اور ان کے علماء کے سامنے یہ خواب پیش ہونے اور ان کے اس کی تعبیر بتانے سے عاجز ہوئے بغیر، جناب یوسفu نے اس خواب کی تعبیر بتائی ہوتی تو ان کی تعبیر کی اتنی وقعت نہ ہوتی۔ مگر جب بادشاہ نے یہ خواب علماء اور اعیان سلطنت کے سامنے پیش کیا اور وہ اس کی تعبیر بتانے سے عاجز آگئے اور بادشاہ کو خواب نے بہت زیادہ فکر میں ڈال دیا تھا، پس جب یوسفu نے اس خواب کی تعبیر بتا دی تو ان کے ہاں یوسفu کی قدر اور وقعت بہت بڑھ گئی۔ یہ اس واقعہ کی نظیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر علم کے ذریعے سے جناب آدمu کی فضیلت ظاہر کی۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا، وہ جواب نہ دے سکے، پھر آدمu سے سوال کیا انھوں نے فرشتوں کو ہر چیز کا نام بتا دیا اور اس طرح فرشتوں پر آدمu کی فضیلت ثابت ہوگئی۔
اسی طرح قیامت کے روز، اللہ کی مخلوق میں بہترین ہستی، جناب محمد مصطفیe کی فضیلت ظاہر ہوگی، اللہ مخلوق کو الہام کرے گا اور تمام مخلوق جناب آدم، پھر جناب نوح، پھر جناب ابراہیم، پھر جناب موسیٰ اور پھر جناب عیسیٰ
(o) سے شفاعت کی درخواست کرے گی مگر وہ معذرت کر دیں گے، پھر تمام مخلوق نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی استدعا کرے گی جسے قبول کرتے ہوئے رسول اللہe فرمائیں گے ’’ہاں میں شفاعت کروں گا‘‘ ’’میں اس کا مستحق ہوں ‘‘… اور یوں آپ تمام مخلوق کی شفاعت کریں گے اور اس طرح وہ اس مقام محمود پر فائز ہوں گے جس پر اولین و آخرین رشک کریں گے۔ پاک ہے وہ ذات جس کا لطف و کرم مخفی ہے اور وہ اپنے اولیاء و اصفیاء اور اپنے خاص بندوں کو نہایت دقیق طریقے سے اپنے فضل و احسان سے نوازتی ہے۔
#
{45} {وقال الذي نجا منهما}؛ أي: من الفتيين، وهو الذي رأى أنَّه يعصِرُ خمراً، وهو الذي أوصاه يوسف أن يذكُرَه عند ربِّه، {وادَّكَرَ بعد أُمَّةٍ}؛ أي: وتذكَّر يوسف وما جرى له في تعبيره لرؤياهما وما وصَّاه به وعلم أنه كفيلٌ بتعبير هذه الرؤيا بعد مدَّةٍ من السنين، فقال: {أنَا أنبِّئكم بتأويلِهِ فأرسلونِ}: إلى يوسفَ لأسأله عنها.
[45] ﴿ وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا ﴾ ’’ان دو نوجوانوں میں سے جو بچ گیا تھا، اس نے کہا‘‘ اور یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نچوڑ رہا ہے جس سے یوسفu نے کہا تھا کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے
﴿ وَادَّؔكَرَ بَعْدَ اُمَّؔةٍ ﴾ ’’اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔‘‘ یعنی کئی سال کی مدت کے بعد اسے یوسفu اور ان کا ان دونوں قیدیوں کے خواب کی تعبیر بتانا اور یوسفu کا وصیت کرنا یاد آیا اور اسے معلوم تھا کہ اس خواب کی تعبیر صرف یوسفu ہی بتا سکتے ہیں ۔ اس لیے وہ کہنے لگا:
﴿ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِیْلِهٖ٘ فَاَرْسِلُوْنِ ﴾ ’’میں بتاؤں تم کو اس کی تعبیر، پس تم مجھے بھیجو‘‘ یعنی مجھے یوسفu کے پاس بھیجو تاکہ میں ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھ سکوں ۔
#
{46} فأرسلوه، فجاء إليه، ولم يعنِّفْه يوسفُ على نسيانه، بل استمع ما يسأله عنه، وأجابه عن ذلك، فقال: {يوسفُ أيُّها الصديقُ}؛ أي: كثير الصدق في أقواله وأفعاله، {أفْتِنا في سبعِ بقراتٍ سمانٍ يأكُلُهُنَّ سبعٌ عجافٌ وسبعِ سنبلات خضرٍ وأخَرَ يابساتٍ لعلِّي أرجِعُ إلى الناس لعلَّهم يعلمونَ}: فإنَّهم متشوِّفون لتعبيرها، وقد أهمَّتْهم.
[46] انھوں نے اسے بھیج دیا وہ یوسفu کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یوسفu نے اس کے فراموش کر دینے پر اس پر عتاب نہیں فرمایا بلکہ اس نے جو کچھ پوچھا یوسفu نے اسے نہایت غور سے سنا اور اس کے سوال کا جواب دیا۔ اس شخص نے کہا تھا:
﴿یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ﴾ ’’اے یوسف، اے سچے! ‘‘ یعنی اپنے اقوال و افعال میں بہت ہی سچے شخص۔
﴿ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُ٘لُ٘هُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبـُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰـبِسٰتٍ١ۙ لَّ٘عَلِّیْۤ اَرْجِـعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلاؤ، کہ سات موٹی گائیں ، ان کو سات کمزور گائیں کھا جاتی ہیں اور سات ہری بالیاں ، دوسری خشک بالیوں کو تاکہ میں لوگوں کی طرف واپس جاؤں شاید ان کو معلوم ہو‘‘ کیونکہ اس خواب نے ان لوگوں کو سخت پریشان کر رکھا ہے اور وہ اس خواب کی تعبیر جاننے کے لیے سخت بے تاب ہیں ۔
#
{47} فعبر يوسفُ السبعَ البقراتِ السمانَ والسبعَ السنبلاتِ الخضر بأنهنَّ سبع سنين مخصبات، والسبع البقرات العجاف والسبع السنبلات اليابساتِ بأنَّهنَّ سنين مجدباتٌ، ولعلَّ وجهَ ذلك ـ والله أعلم ـ أنَّ الخصب والجدب لما كان الحرث مبنيًّا عليه، وأنَّه إذا حصل الخصبُ؛ قويتِ الزروع والحروثُ وحَسُنَ منظرُها وكثُرت غلالها، والجدب بالعكس من ذلك، وكانت البقر هي التي تُحرث عليها الأرض وتُسقى عليها الحروث في الغالب، والسنبلاتُ هي أعظم الأقوات وأفضلها؛ عبرها بذلك لوجود المناسبة، فجمع لهم في تأويلها بين التعبير والإشارة لما يفعلونه ويستعدُّون به من التدبير في سني الخصب إلى سني الجَدْب، فقال: {تزرعونَ سبعَ سنينَ دأباً}؛ أي: متتابعاتٍ، {فما حصدتُم}: من تلك الزروع، {فذَروه}؛ أي: اتركوه {في سُنبُلِهِ}: لأنَّه أبقى له وأبعد من الالتفات إليه، {إلاَّ قليلاً مما تأكلون}؛ أي: دبِّروا [أيضًا] أكلكم في هذه السنين الخصبة، وليكن قليلاً؛ ليكثر ما تدَّخرون، ويعظُم نفعُه ووقعه.
[47] یوسفu نے اس خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ سات موٹی تازی گایوں اور سات ہری بالیوں سے سات آئندہ سالوں کی سرسبزی و شادابی کی طرف اشارہ ہے اور سات لاغر اور کمزور گایوں اور سات سوکھی بالیوں سے شادابی کے بعد آنے والی خشک سالی اور قحط کے سات سالوں کی طرف اشارہ ہے۔ اس تعبیر کا پہلو غالباً یہ ہے… اللہ اعلم… چونکہ کھیتی کا دارومدار شادابی اور خشک سالی پر ہے، جب شادابی آتی ہے تو کھیتیوں اور فصلوں کو طاقت ملتی ہے، وہ خوشنما نظر آتی ہیں ، غلے کی بہتات ہوتی ہے، قحط سالی میں کھیتیوں کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ گیہوں کی بالیاں سب سے اچھی اور سب سے بڑی خوراک لیے ہوئے ہوتی ہیں ، وجود مناسبت کی بنا پر یوسفu نے تعبیر بیان کی۔
اس خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ جناب یوسفu نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ شادابی کے سالوں کے دوران قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں کیسے تیاری کرنی چاہیے اور کیا کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ،
چنانچہ فرمایا: ﴿ تَزْرَعُوْنَؔ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبً٘ا﴾ ’’تم لگاتار سات سال تک
(شادابی کی وجہ سے) کھیتی باڑی کرتے رہو گے‘‘
﴿ فَمَا حَصَدْتُّمْ ﴾ ’’پس جو فصلیں تم کاٹو‘‘
﴿ فَذَرُوْهُ﴾ ’’تو اس
(فصل) کو چھوڑ دو۔‘‘
﴿ فِیْ سُنْۢبُلِهٖ٘ۤ ﴾ ’’اس کے خوشوں میں ‘‘ کیونکہ اس سے غلہ زیادہ عرصہ تک باقی رہ سکتا ہے اور تلف ہونے کا امکان بعید تر ہوتا ہے
﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔمَّا تَاْكُلُوْنَ ﴾ ’’تھوڑے غلے کے سوا جو تم کھاتے ہو۔‘‘ یعنی شادابی کے ان دنوں میں اپنی خوراک کا اس طرح انتظام کرو کہ کم سے کم خوراک استعمال کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ خوراک کا ذخیرہ کر سکو۔ جس کا فائدہ اور وقعت زیادہ ہوگی۔
#
{48} {ثم يأتي من بعد ذلك}؛ أي: بعد تلك السنين السبع المخصبات، {سبعٌ شِدادٌ}؛ أي: مجدباتٌ، {يأكُلْن ما قدَّمتم لهنَّ}؛ أي: يأكلن جميع ما ادَّخرتموه ولو كان كثيراً، {إلاَّ قليلاً مما تُحْصِنونَ}؛ أي: تمنعونه من التقديم لهنَّ.
[48] ﴿ ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ﴾ ’’پھر اس کے بعد آئیں گے۔‘‘ یعنی شادابی کے ان سات سالوں کے بعد
﴿ سَبْعٌ شِدَادٌ ﴾ ’’خشک سالی اور سخت قحط کے سات سال آئیں گے۔‘‘
﴿ یَّاْكُ٘لْ٘نَ مَا قَدَّمْتُمْ لَ٘هُنَّ ﴾ ’’
(یعنی قحط کے یہ سات سال) وہ سب کچھ کھا جائیں گے جو کچھ تم نے ذخیرہ کیا ہوگا‘‘ خواہ کتنا ہی زیادہ ذخیرہ کیوں نہ کیا ہو۔
﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔمَّا تُحْصِنُوْنَؔ﴾ ’’مگر تھوڑا سا جو روک رکھو گے تم بیج کے واسطے‘‘ یعنی جنھیں تم اصلی فصل کی تیاری کے لیے روک کر رکھو گے۔
#
{49} {ثم يأتي من بعد ذلك}؛ أي: السبع الشداد {عامٌ فيه يُغاث الناس وفيه يعصِرونَ}؛ أي: فيه تكثُر الأمطار والسيول، وتكثُر الغلاتُ، وتزيد على أقواتهم حتَّى إنَّهم يعصِرون العنب ونحوه زيادةً على أكلهم، ولعلَّ استدلاله على وجودِ هذا العام الخصب مع أنه غير مصرَّح به في رؤيا الملك؛ لأنَّه فهم من [التقدير] بالسبع الشِّداد أنَّ العام الذي يليها يزولُ به شدَّتُها، ومن المعلوم أنَّه لا يزولُ الجَدْبُ المستمرُّ سبع سنين متوالياتٍ إلا بعام مُخْصِبٍ جدًّا، وإلاَّ؛ لَمَا كان للتقدير فائدة.
فلما رجع الرسول إلى الملك والناس، وأخبرهم بتأويل يوسف للرؤيا؛ عجبوا من ذلك، وفرِحوا بها أشدَّ الفرح.
[49] ﴿ ثُمَّ یَ٘اْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ﴾ ’’پھر اس کے بعد آئے گا۔‘‘ یعنی سخت قحط سالی کے ان سات سالوں کے بعد
﴿ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیْهِ یَعْصِرُوْنَ ﴾ ’’ایک سال، اس میں لوگوں پر بارش ہو گی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے‘‘ یعنی اس سال بہت کثرت سے بارشیں ہوں گی، بہت زیادہ سیلاب آئیں گے۔ کثرت سے غلہ پیدا ہوگا جو ان کی خوراک کی ضروریات سے زیادہ ہوگا، حتیٰ کہ وہ انگوروں کا رس نچوڑیں گے جو ان کے کھانے سے زیادہ ہوں گے۔
شاید اس شادابی اور سرسبز سال پر استدلال اس لیے کیا… حالانکہ بادشاہ کے خواب میں اس سال کی صراحت نہیں تھی… کہ یوسفu نے سات سالہ قحط کی تعبیر سے سمجھا کہ ان کے بعد آنے والے سال میں قحط کی شدت زائل ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ سات سال کا لگاتار قحط بکثرت شادابی کے ذریعے ہی سے ختم ہو سکتا ہے ورنہ اندازے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
{وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ (50) قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (51) ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ (52) وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (53) وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ (54) قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ (55) وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (56) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (57)}.
اور کہا بادشاہ نے، لے آؤ تم میرے پاس اس کو، پھر جب آیا اس کے پاس قاصد تو کہا یوسف نے، لوٹ جا طرف اپنے مالک اور پوچھ اس سے کہ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنھوں نے کاٹ لیے تھے ہاتھ اپنے؟ بے شک میرا رب ان کے مکر کو خوب جاننے والا ہے
(50) کہا بادشاہ نے، کیا حال ہے تمھارا جب پھسلایا
(ورغلایا) تھا تم نے یوسف کو اس کے نفس سے؟ انھوں نے کہا حاشا للہ، نہیں جانی ہم نے اس کے ذمے کوئی برائی، کہا عزیز
(مصر) کی بیوی نے، اب واضح ہو گیا ہے حق ، میں نے ہی ورغلایا تھا اسے اس کے نفس سےاور بلاشبہ وہ البتہ سچوں میں سے ہے
(51) یہ اس لیے تاکہ وہ جان لے کہ بے شک میں نے نہیں خیانت کی تھی اس کی پیٹھ پیچھےاور یہ کہ بے شک اللہ نہیں چلنے دیتا مکر خیانت کرنے والوں کا
(52) اور نہیں بری کرتا میں اپنے نفس کو، بے شک نفس تو یقینا بہت حکم دینے والا ہے برائی ہی کا مگر جس پررحم کرے میرا رب بے شک میرا رب بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے
(53) اور کہا بادشاہ نے، لاؤ تم میرے پاس اس کو ، خالص کروں گا میں اسے واسطے اپنی ذات کے، پھر جب بادشاہ نے بات چیت کی یوسف سے تو کہا، بے شک تو آج ہمارے ہاں مرتبے والا، امین ہے
(54) یوسف نے کہا، بنا دے مجھے خزانوں
(پیداوار) پر زمین کے
(نگران)، بے شک میں نہایت نگہبانی کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں
(55) اور اسی طرح اقتدار دیا ہم نے یوسف کو زمین
(مصر) میں ، جگہ پکڑتا تھا اس
(ملک) میں جہاں چاہتا، ہم پہنچاتے ہیں رحمت اپنی جسے چاہیں اور نہیں ضائع کرتے ہم اجر نیکی کرنے والوں کا
(56) اور یقینا اجر آخرت کا بہت بہتر ہے واسطے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور رہے وہ ڈرتے
(57)
#
{50} يقول تعالى: {وقال المَلِكُ} لمن عنده: {ائتوني به}؛ أي: بيوسف عليه السلام بأن يخرِجوه من السجن ويحضِروه إليه. فلمَّا جاء يوسفَ الرسولُ، وأمره بالحضور عند الملك؛ امتنع عن المبادرة إلى الخروج حتَّى تتبيَّن براءتُه التامَّةُ، وهذا من صبره وعقله ورأيه التامِّ، فقال للرسولِ: {ارجعْ إلى ربِّك}؛ يعني به: الملك، {فاسْألْه ما بالُ النسوةِ اللاتي قطَّعْن أيدِيَهُنَّ}؛ أي: اسأله ما شأنهن وقصتهن؛ فإنَّ أمرهن ظاهرٌ متَّضح. {إنَّ ربِّي بكيدِهِنَّ عليمٌ}.
[50] جب قاصد بادشاہ اور لوگوں کے پاس واپس پہنچا اور انھیں یوسفu کی تعبیر کے بارے میں آگاہ کیا تو انھیں تعبیر سن کر تعجب ہوا اور بے حد خوش ہوئے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَقَالَ الْمَلِكُ﴾ ’’بادشاہ نے
(وہاں موجود لوگوں سے) کہا‘‘
﴿ ائْتُوْنِیْ بِهٖ﴾ ’’اسے میرے پاس لاؤ‘‘یعنی یوسفu کو قید خانے سے نکال کر میرے سامنے حاضر کرو۔
﴿ فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ ﴾ ’’پس جب بادشاہ کا ایلچی جناب یوسفu کے پاس آیا‘‘ اور اسے بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لیے کہا تو انھوں نے اس وقت تک قید خانے سے باہر آنے سے انکار کر دیا جب تک کہ ان کی براء ت مکمل طور پر لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہو جاتی۔ یہ چیز ان کے صبر، عقل اور اصابت پر دلالت کرتی ہے۔
﴿ قَالَ﴾ اس وقت انھوں نے بادشاہ کے ایلچی سے کہا:
﴿ ارْجِـعْ اِلٰى رَبِّكَ ﴾ ’’بادشاہ کے پاس واپس جا‘‘
﴿فَسْـَٔؔلْهُ مَا بَ٘الُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَ٘طَّ٘عْنَ اَیْدِیَهُنَّ﴾ ’’بادشاہ سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔‘‘ کیونکہ ان کا معاملہ بالکل ظاہر اور واضح ہے
﴿ اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ ﴾ ’’میرا رب تو ان کا فریب، سب جانتا ہے۔‘‘
#
{51} فأحضرهنَّ الملك وقال: {ما خطبُكُنَّ}؛ أي: شأنكُن، {إذ راودتُنَّ يوسفَ عن نفسِهِ}: فهل رأيتُن منه ما يريب؟! فبرَّأنَه و {قلن حاشَ لله ما علِمْنا عليه من سوءٍ}؛ أي: لا قليل ولا كثير؛ فحينئذ زال السببُ الذي تُبْنَى عليه التُّهمة، ولم يبقَ إلاَّ ما عند امرأة العزيز، فقالتِ {امرأة العزيز الآنَ حَصْحَصَ الحقُّ}؛ أي: تمحَّص وتبيَّن بعدما كنَّا نُدْخِل معه من السوء والتُّهمة ما أوجب السجن ليوسف ، {أنا راودتُه عن نفسِهِ وإنَّه لمن الصادقينَ}: في أقواله وبراءته.
[51] بادشاہ نے ان عورتوں کو بلوایا اور ان سے پوچھا
﴿مَا خَطْبُكُ٘نَّ﴾ ’’تمھارا کیا معاملہ ہے؟‘‘
﴿ اِذْ رَاوَدْتُّ٘نَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلانا چاہا تھا؟‘‘ کیا تم نے یوسف میں کوئی برائی دیکھی؟
ان عورتوں نے یوسفu کی براء ت کا اقرار کیا اور کہنے لگیں : ﴿ قُ٘لْ٘نَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍ﴾ ’’حاشا للہ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔‘‘ یعنی تھوڑا یا بہت ہم نے اس میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔ تب وہ سبب زائل ہوگیا جس پر تہمت کا دارومدار تھا۔ اب کوئی سبب باقی نہ بچا سوائے اس الزام کے جو عزیز مصر کی بیوی نے لگایا تھا۔
﴿ قَالَتِ امْرَاَتُ الْ٘عَزِیْزِ الْ٘ـٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ﴾ ’’عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق واضح ہو گیا ہے‘‘ یعنی حق واضح ہوگیا ہے جبکہ ہم نے یوسف کو برائی اور تہمت میں ملوث کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی جو اس کو محبوس کرنے کا باعث بنا۔
﴿ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَ٘مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’میں نے ہی اس کو اس کے جی سے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور وہ یقینا سچا ہے‘‘ یعنی یوسفu اپنے اقوال اور اپنی براء ت کے دعوے میں سچے ہیں ۔
#
{52} {ذلك}: الإقرارُ الذي أقررتُ أني راودتُ يوسفَ ، {ليعلم أني لم أخُنْهُ بالغيبِ}: يُحتمل أنَّ مرادها بذلك زوجها؛ أي: ليعلم أني حين أقررتُ أني راودتُ يوسف أنِّي لم أخُنْهُ بالغيبِ؛ أي: لم يَجْرِ منِّي إلاَّ مجرَّد المراودة، ولم أفسِدْ عليه فراشه. ويُحتمل أنَّ المراد بذلك: ليعلم يوسفُ حين أقررتُ أنِّي أنا الذي راودتُه، وأنَّه صادقٌ أني لم أخُنْه في حال غيبته عنِّي. {وأنَّ الله لا يَهْدي كيد الخائنين}: فإنَّ كلَّ خائنٍ لا بدَّ أن تعود خيانته ومكره على نفسه، ولا بدَّ أن يتبيَّن أمره.
[52] ﴿ ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ اقرار جس میں ، میں نے تسلیم کیا ہے کہ میں نے ہی یوسف پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
﴿ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ﴾ ’’تاکہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد عورت کا خاوند ہے، یعنی یہ اقرار میں نے اس لیے کیا تاکہ میرا خاوند جان لے کہ میں نے یوسف پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی مگر میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ خیانت نہیں کی۔ میں نے مجرد اس کو پھسلانے کی کوشش کی مگر میں نے عزیز مصر کے بستر کو خراب نہیں کیا۔
اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یوسفu ہوں ، یعنی تاکہ یوسفu جان لے کہ وہ سچا ہے اور میں نے ہی اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ جب وہ میرے پاس موجود نہیں تھا تو میں نے اس کے ساتھ خیانت نہیں کی۔
﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىِٕنِیْنَ۠ ﴾ ’’اور یہ کہ اللہ دغابازوں کا فریب نہیں چلنے دیتا‘‘ یہ لازمی امر ہے کہ ہر خائن کی خیانت اور اس کی سازش کا وبال آخر کار اسی کی طرف پلٹے گا اور حقیقت حال ضرور واضح ہوگی۔
#
{53} ثم لما كان في هذا الكلام نوعُ تزكيةٍ لنفسها وأنه لم يجر منها ذنبٌ في شأن يوسف استدركت فقالت: {وما أُبَرِّئُ نَفْسِي}؛ أي: من المراودة والهمِّ والحرص الشديد والكيد في ذلك. {إنَّ النفس لأمارةٌ بالسوءِ}؛ أي: لكثيرة الأمر لصاحبها بالسوء؛ أي: الفاحشة وسائر الذنوب؛ فإنَّها مركَبُ الشيطان، ومنها يدخُلُ على الإنسان. {إلاَّ ما رَحِمَ ربي}: فنجَّاه من نفسه الأمَّارة حتى صارت نفسُهُ مطمئنةً إلى ربِّها منقادة لداعي الهدى متعاصية عن داعي الرَّدى؛ فذلك ليس من النفس، بل من فضل الله ورحمته بعبده. {إنَّ ربِّي غفورٌ رحيم}؛ أي: هو غفور لمن تجرَّأ على الذُّنوب والمعاصي إذا تاب وأناب، رحيمٌ بقَبول توبته وتوفيقه للأعمال الصالحة.
وهذا هو الصوابُ أنَّ هذا من قول امرأة العزيز لا من قول يوسُفَ؛ فإنَّ السياق في كلامها، ويوسُفُ إذ ذاك في السجن لم يحضُرْ.
[53] چونکہ اس کلام میں عورت کے اپنے لیے تزکیہ کے دعوے کا شائبہ پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ بھی پایا جاتا ہے کہ یوسفu کے معاملے میں اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس لیے عورت نے استدراک کے طور پر کہا:
﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ﴾ ’’اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتی۔‘‘ یعنی میں نے یوسف کو پھسلانے، اس کے ساتھ برائی کے ارادے اور اس کی شدید حرص اور اس کے بارے میں سازش کرنے میں اپنے آپ کو بری قرار نہیں دیتی۔
﴿اِنَّ النَّ٘فْ٘سَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ ﴾ ’’کیونکہ نفس امارہ
(انسان کو) برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔‘‘ یعنی نفس انسان کو بہت کثرت سے برائی، یعنی بے حیائی اور دیگر تمام گناہوں کا حکم دیتا ہے۔ نفس شیطان کی سواری ہے اور شیطان نفس کے راستے سے انسان میں داخل ہوتا ہے۔
﴿اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ﴾ ’’سوائے اس شخص کے جس پر میرا رب رحم کر دے‘‘ اور اسے اس کے نفس امارہ سے نجات دے دے اور اس طرح اس کا نفس امارہ نفس مطمئنہ میں بدل جائے۔ ہلاکت کے داعی کی نافرمانی کر کے ہدایت کے داعی کی آواز پر لبیک کہے۔ اس میں نفس کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اللہ کا اپنے بندے پر بے انتہا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت ہے۔
﴿اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ﴾ ’’بے شک میرا رب بخشنے والا۔‘‘ جب کوئی گناہ اور معاصی کے ارتکاب کی جرأت کرنے کے بعد توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔
﴿رَّحِیْمٌ ﴾ ’’رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر کے اور اسے نیک اعمال کی توفیق عطا کر کے اس پر رحم کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں قرین صواب یہی ہے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے یوسفu کا نہیں کیونکہ یہ بات عورت کے کلام کے سیاق میں آئی ہے اور یوسفu تو اس وقت قید میں تھے۔
#
{54} فلما تحقق الملك والناس براءة يوسف التامَّة؛ أرسل إليه الملك، وقال: {ائتوني به أستَخْلِصْه لنفسي}؛ أي: أجعله خصيصة لي ومقرَّباً لديَّ. فأتَوه به مكرماً محترماً، {فلمَّا كلَّمه}؛ أعجبه كلامه، وزاد موقعُه عنده، فقال له: {إنَّك اليوم لدينا}؛ أي: عندنا {مكينٌ أمينٌ}؛ أي: متمكِّن أمينٌ على الأسرار.
[54] جب بادشاہ اور لوگوں کے پاس یوسفu کی کامل براء ت متحقق ہوگئی تو بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا:
﴿ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْ﴾ ’’اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔‘‘ یعنی میں اس کو مقربین خاص میں شامل کر لوں گا اسے میرے پاس نہایت عزت و احترام سے لے کر آؤ۔
﴿فَلَمَّا كَلَّمَهٗ ﴾ ’’پس جب اس نے ان سے گفتگو کی۔‘‘ یعنی جب بادشاہ نے یوسف،
سے گفتگو کی تو اسے ان کی باتیں اچھی لگیں اور اس کے ہاں ان کی وقعت اور زیادہ ہوگئی۔ اس نے یوسفu سے کہا: ﴿ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا ﴾ ’’بے شک آپ آج ہمارے ہاں ‘‘
﴿ مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ ﴾ ’’صاحب منزلت اور صاحب اعتبار ہیں ۔‘‘ یعنی آپ ہمارے ہاں بلند مرتبہ کے مالک اور ہمارے رازوں کے امین ہیں ۔
#
{55} فقال يوسف طلباً للمصلحة العامة: {اجعلْني على خزائن الأرض}؛ أي: على خزائن جبايات الأرض وغلالها وكيلاً حافظاً مدبِّراً. {إنِّي حفيظٌ عليمٌ}؛ أي: حفيظ للَّذي أتولاَّه؛ فلا يضيعُ منه شيءٌ في غير محلِّه، وضابطٌ للداخل والخارج، عليمٌ بكيفيَّة التدبير والإعطاء والمنع والتصرُّف في جميع أنواع التصرُّفات. وليس ذلك حرصاً من يوسف على الولاية، وإنما هو رغبةٌ منه في النفع العام، وقد عرف من نفسه من الكفاية والأمانة والحفظ ما لم يكونوا يعرفونه؛ فلذلك طلب من الملك أن يجعلَه على خزائن الأرض، فجعله الملك على خزائن الأرض وولاَّه إيَّاها.
[55] ﴿ قَالَ ﴾ یوسفu نے مصلحت عامہ کی خاطر بادشاہ سے مطالبہ کیا۔
﴿ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ﴾ ’’مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجیے۔‘‘ یعنی مجھے زمین کی پیداوار، اس کے محاصل کا نگران، محافظ اور منتظم مقرر کر دیں
﴿ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف بھی ہوں ۔‘‘ یعنی جس چیز کا آپ مجھے نگران بنائیں گے میں اس کی حفاظت کروں گا اس میں سے کچھ بھی بے محل استعمال ہو کر ضائع نہیں ہوگی، میں ان محاصل کے داخل خارج کو منضبط کر سکتا ہوں میں ان کے انتظام کی کیفیت کا پورا علم رکھتا ہوں ۔ میں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ کسے عطا کرنا ہے کسے محروم رکھنا ہے اور ان میں تصرفات کی پوری طرح دیکھ بھال کر سکتا ہوں ۔ یوسفu کی طرف سے اس عہدے کا مطالبہ، عہدے کی حرص کی وجہ سے نہ تھا بلکہ نفع عام میں رغبت کی وجہ سے تھا۔ یوسفu اپنے بارے میں اپنی کفایت اور حفظ و امانت کے متعلق جو کچھ جانتے تھے وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ بنابریں یوسفu نے بادشاہ مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں زمین کے محاصل کے خزانوں کے انتظام پر مقرر کر دے، چنانچہ بادشاہ نے انھیں زمین کے محاصل کے خزانوں کا والی اور منتظم مقرر کر دیا۔
#
{56 ـ 57} قال تعالى: {وكذلك}؛ أي: بهذه الأسباب والمقدّمات المذكورة، {مَكَّنَّا ليوسفَ في الأرض يتبوَّأ منها حيثُ يشاء}: في عيش رغدٍ ونعمة واسعةٍ وجاه عريض، {نصيبُ برحمتنا مَن نشاءُ}؛ أي: هذا من رحمة الله بيوسف التي أصابه بها وقدَّرها له، وليست مقصورةً على نعمة الدنيا. فإن الله لا يضيعُ أجر المحسنينَ، ويوسف عليه السلام من سادات المحسنين؛ فله في الدُّنيا حسنةٌ وفي الآخرة حسنةٌ، ولهذا قال: {ولأجرُ الآخرة خيرٌ} ـ من أجر الدُّنيا ـ {للذين آمنوا وكانوا يتَّقونَ}؛ أي: لمن جمع بين التقوى والإيمان؛ فبالتَّقوى تُتْرَكُ الأمور المحرمة من كبائر الذنوب وصغائرها، وبالإيمان التامِّ يحصُلُ تصديق القلب بما أمر الله بالتصديق به وتتبعُهُ أعمال القلوب وأعمال الجوارح من الواجبات والمستحبَّات.
[57,56] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَؔكَذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح‘‘ یعنی ان مذکورہ اسباب اور مقدمات کے ذریعے سے
﴿ مَكَّـنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ١ۚ یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُ﴾ ’’ہم نے یوسف کو جگہ دی اس ملک میں ، وہ اس میں جہاں چاہتے، جگہ پکڑتے‘‘ وہ نہایت آسودہ زندگی، بے شمار نعمتوں اور بے پناہ جاہ و جلال میں رہنے لگے۔
﴿ نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ ﴾ ’’ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں ، پہنچا دیتے ہیں ‘‘ یوسفu پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی جو اس نے ان کے لیے مقدر کر رکھی تھی جو صرف دنیاوی نعمتوں پر ہی مشتمل نہ تھی۔
﴿ وَلَا نُ٘ضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’اور ہم محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتے‘‘ اور یوسفu کا شمار تو سادات محسنین میں ہوتا ہے۔ ان کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہے۔ اس لیے فرمایا:
﴿ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ ﴾ ’’آخرت کا اجر
(دنیا کے اجر سے) بہتر ہے۔‘‘
﴿ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَؔكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے‘‘ یعنی جن لوگوں میں تقویٰ اور ایمان جمع ہے۔ پس تقویٰ کے ذریعے سے حرام امور، یعنی کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو ترک کیا جاتا ہے اور ایمان کامل کے ذریعے سے ان امور میں تصدیق قلب حاصل ہوتی ہے جن امور کی تصدیق کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور فرض و مستحب، اعمال قلوب اور اعمال جوارح، تصدیق قلب کی پیروی کرتے ہیں ۔
{وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (58) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (59) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ (60) قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ (61) وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (62) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُوا يَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (63) قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنْتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِنْ قَبْلُ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (64) وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُوا يَاأَبَانَا مَا نَبْغِي هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ (65) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ (66) وَقَالَ يَابَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (68)}.
اور آئے بھائی یوسف کے تو وہ داخل ہوئے اس پر، پس اس نے پہچان لیا ان کو جبکہ وہ
(بھائی) اسے پہچاننے والے نہ تھے
(58)اور جب تیار کر دیا یوسف نے ان کے لیے سامان ان کا تو کہا، تم لانا میرے پاس بھائی اپنا جو تمھارے باپ کی طرف سے ہے، کیا نہیں دیکھتے تم کہ بے شک میں پورا دیتا ہوں ماپ؟ اور میں بہترین مہمان نوازی کرنے والا ہوں
(59) پس اگر نہ لائے تم میرے پاس اس کو تو نہیں کوئی ماپ
(غلہ) تمھارے لیے میرے پاس اور نہ تم قریب آنا میرے
(60) انھوں نے کہا ضرور مطالبہ کریں گے ہم اس کا اس کے باپ سےاور بے شک ہم یہ کام ضرور کرنے والے ہیں
(61)اور یوسف نے کہا اپنے جوانوں
(خادموں ) میں سے، رکھ دو تم پونجی
(نقدی) ا ن کی ان کے سامان میں تاکہ وہ پہچان لیں اسے جب وہ لوٹ کر جائیں طرف اپنے گھر والوں کی شاید کہ وہ پھر لوٹ آئیں
(62)پس جب لوٹے وہ طرف اپنے باپ کی تو انھوں نے کہا، اے ہمارے باپ! روکا گیا ہے ہم سے
(آئندہ) ماپ
(غلہ) پس تو بھیج ہمارے ساتھ ہمارا بھائی
(بنیا مین تاکہ) غلہ لائیں ہم اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں
(63) یعقوب نے کہا، نہیں امین سمجھتا میں تمھیں اس پر مگر جیسا کہ امین سمجھا تھا میں نے تمھیں اوپر اس کے بھائی کے ، اس سے پہلے، پس اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہی سب مہربانوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
(64)اور جب کھولا انھوں نے سامان اپنا تو پائی انھوں نے پونجی اپنی کہ واپس کر دی گئی ہے طرف ان کی، انھوں نے کہا، اے ہمارے باپ!
(اور) کیا چاہتے ہیں ہم؟ یہ ہماری پونجی ہے واپس کردی گئی ہے ہماری طرف اور ہم غلہ لائیں گے اپنے اہل و عیال کے لیےاورحفاظت کریں گے اپنے بھائی کی اور ہم زیادہ لائیں گے ماپ
(غلہ) ایک اونٹ کا یہ ماپ
(غلہ لانا تو) بہت آسان ہے
(65) یعقوب نے کہا، ہرگز نہیں بھیجوں گا میں اسے تمھارے ساتھ یہاں تک کہ تم دو مجھے پختہ وعدہ اللہ کا کہ تم ضرور لاؤ گے میرے پاس اسے مگر یہ کہ گھیرے جاؤ تم
(سب)، پھر جب انھوں نے دیا اس کو اپنا پختہ وعدہ تو اس نے کہا، اللہ اوپر اس کے جو ہم کہتے ہیں نگہبان ہے
(66)اور یعقوب نے کہا، اے میرے بیٹو! مت داخل ہونا تم ایک ہی دروازے سے اورداخل ہونا تم متفرق دروازوں سےاور نہیں کفایت کر سکتا میں تم سے اللہ
(کے فیصلے) سے کچھ، نہیں ہے حکم مگر اللہ ہی کا، اوپر اسی کے بھروسہ کیا ہے میں نےاور اوپر اسی کے پس چاہیے کہ بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے
(67) اور جب داخل ہوئے وہ جہاں سے حکم دیا تھا انھیں ان کے باپ نے، نہیں تھا وہ
(یعقوب) کفایت
(دفع) کر سکتا ان سے اللہ
(کے فیصلے) سے کچھ بھی مگر ایک حاجت
(تمنا) تھی دل میں یعقوب کے کہ اس نے پورا کیا اسےاور بے شک وہ ، البتہ صاحب علم تھا بوجہ اس کے جو سکھایا تھا ہم نے اسے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
(68)
جب یوسفu زمین کے محاصل کے ذخیرہ کے منتظم بن گئے تو انھوں نے بہترین طریقے سے ان کا انتظام کیا۔ انھوں نے شادابی کے سالوں میں مصر کی تمام قابل کاشت زمین میں غلہ کاشت کر دیا اور اس غلہ کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے مکانات بنوائے۔ خراج اور لگان میں بہت سا غلہ جمع کیا، اس کی حفاظت کی اور اس کا بہترین انتظام کیا۔ جب قحط سالی شروع ہوئی اور قحط تمام علاقوں میں پھیل گیا حتیٰ کہ فلسطین بھی قحط کی لپیٹ میں آگیا جہاں یعقوب اور ان کے بیٹے رہتے تھے تو حضرت یعقوبu نے اپنے بیٹوں کو اناج کے لیے مصر بھیجا۔
#
{58} فجاء {إخوةُ يوسفَ فدخلوا عليه فعرفهم وهم له منكرون}؛ أي: لم يعرفوه.
[58] چنانچہ
﴿ وَجَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْؔكِرُوْنَ ﴾ ’’یوسف کے بھائی آئے اور ان کے دربار میں داخل ہوئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا، جبکہ وہ ان کو نہیں پہچانتے تھے‘‘ یعنی انھوں نے یوسفu کو نہ پہچانا۔
#
{59} {ولما جهَّزهم بجهَازهم}؛ أي: كال لهم كما كان يَكيلُ لغيرِهم، وكان من تدبيرِهِ الحسن أنَّه لا يَكيل لكلِّ واحدٍ أكثر من حِمْل بعير، وكان قد سألهم عن حالهم، فأخبروه أنَّ لهم أخاً عند أبيه، وهو بنيامين، فقال لهم: {ائتوني بأخٍ لكم من أبيكم}: ثم رغَّبهم في الإتيان به، فقال: {ألا تَرَوْنَ أنِّي أوفي الكيلَ وأنا خيرُ المنزِلين}: في الضيافة والإكرام.
[59] ﴿وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ﴾ ’’اور جب تیار کر دیا ان کو ان کا اسباب‘‘ یعنی جب یوسفu نے ان کو اناج ناپ کر دے دیا جیسا کہ وہ دوسروں کو ناپ کر دیا کرتے تھے۔ یہ ان کا حسن انتظام تھا کہ وہ کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ اناج نہیں دیا کرتے تھے۔ حضرت یوسفu نے ان سے ان کا حال احوال پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک اور بھائی ہے، جو اپنے باپ کے پاس ہے اس کا نام بنیامین ہے۔
﴿ قَالَ﴾ حضرت یوسفu نے ان سے کہا:
﴿ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّـكُمْ مِّنْ اَبِیْكُمْ﴾ ’’اپنے بھائی کو میرے پاس لاؤ جو تمھارے باپ کی طرف سے ہے‘‘ پھر آنجناب نے اپنے بھائی کو مصر لانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا:
﴿اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْ٘نَ ﴾ ’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ میں ماپ بھی پورا دیتا ہوں اور خوب مہمان نواز بھی ہوں ۔‘‘ یعنی مہمان نوازی اور عزت و اکرام کرنے میں سب سے بہتر ہوں ۔
#
{60} ثمَّ رهَّبهم بعدم الإتيان به، فقال: {فإن لم تأتوني به فلا كَيْلَ لكُم عندي ولا تَقْرَبونِ}: وذلك لعلمه باضطرارهم إلى الإتيان إليه، وأنَّ ذلك يحملهم على الإتيان به.
[60] پھر حضرت یوسفu نے ان کو اپنا بھائی ساتھ نہ لانے کی صورت میں ڈراتے ہوئے کہا:
﴿ فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ ﴾ ’’پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو تمھارے لیے میرے پاس کوئی ماپ نہیں ہے اور میرے پاس نہ آنا‘‘ یہ بات حضرت یوسفu نے اس لیے کہی کیونکہ انھیں علم تھا کہ وہ مصر ان کے پاس ضرور آئیں گے اور اپنے بھائی کو ساتھ لانے پر مجبور ہوں گے۔
#
{61} فقالوا: {سنراوِدُ عنه أباه}: دلَّ هذا على أن يعقوب عليه السلام كان مولَعاً به لا يصبِرُ عنه، وكان يتسلَّى به بعد يوسف؛ فلذلك احتاج إلى مراودةٍ في بعثه معهم، {وإنَّا لفاعلونَ}: لما أمرتنا به.
[61] ﴿ قَالُوْا سَنُ٘رَاوِدُ عَنْهُ اَبَ٘اهُ ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم ضرور خواہش کریں گے اس کی بابت اس کے باپ سے‘‘ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یعقوبu بنیامین سے بے حد محبت کرتے تھے اور حضرت یوسفu کی جدائی کے بعد بنیامین ہی ان کے لیے تسلی کا باعث تھے۔ اس لیے یوسفu نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بلوانے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی
﴿ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَؔ﴾ ’’اور ہم
(یہ کام) کرکے رہیں گے۔‘‘ یعنی جو کچھ آپ نے کہا ہے ہم اس پر ضرور عمل کریں گے۔
#
{62} {وقال} يوسفُ {لفتيانِهِ} الذين في خدمتِهِ: {اجعَلوا بضاعَتَهم}؛ أي: الثمن الذي اشتروا به منه الميرة، {في رحالهم لعلَّهم يعرِفونها}؛ أي: بضاعتهم إذا رأوها بعد ذلك في رحالهم؛ {لعلَّهم يرجِعون}: لأجل التحرُّج من أخذها على ما قيل. والظاهر أنَّه أراد أن يرغِّبهم في إحسانه إليهم بالكيل لهم كيلاً وافياً ثم إعادة بضاعتهم إليهم على وجه لا يحسُّون بها ولا يشعرون لما يأتي؛ فإنَّ الإحسان يوجب للإنسان تمام الوفاء للمحسن.
[62] ﴿وَقَالَ ﴾ یوسفu نے فرمایا:
﴿ لِفِتْیٰنِهِ﴾ ’’اپنے خدام سے۔‘‘ یعنی اپنے کارندوں سے جو ان کی خدمت میں موجود تھے۔
﴿ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ ﴾ ’’رکھ دو ان کی پونجی‘‘ یعنی وہ قیمت جس کے بدلے انھوں نے اناج خریدا تھا۔
﴿ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ۠ ﴾ ’’ان کے اسباب میں ، شاید وہ اس کو پہچان لیں ‘‘ یعنی جب وہ اپنے مال کو جو انھوں نے قیمت کے طور پر ادا کیا تھا، واپس اپنے اپنے کجاووں میں دیکھیں گے
﴿ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَؔ ﴾ ’’شاید یہ پھر یہاں آئیں۔‘‘ یعنی شاید وہ اپنے مال کی واپسی کو گناہ سمجھتے ہوئے اسے لوٹانے کے لیے مصر واپس آئیں ۔
ظاہر ہے یوسفu نے ان کے ساتھ پورے تول کے ذریعے سے نیکی کی تھی، پھر ان کی قیمت بھی ان کو اس طرح واپس لوٹا دی تھی کہ اس کی واپسی کا انھیں پتہ بھی نہ چلا کیونکہ احسان انسان کے لیے واجب ٹھہراتا ہے کہ محسن کے لیے پوری وفاداری کی جائے۔
#
{63} {فلمَّا رجعوا إلى أبيهم قالوا يا أبانا مُنِعَ منا الكيلُ}؛ أي: إن لم ترسلْ معنا أخانا، {فأرسِلْ معنا أخانا نَكْتَلْ}؛ أي: ليكون ذلك سبباً لكيلنا. ثم التزموا له بحفظه فقالوا: {وإنَّا له لحافظونَ}: من أن يعرض له ما يكره.
[63] ﴿ فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْهِمْ قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ﴾ ’’پس جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹے تو بولے، ابا جان روک دی گئی ہے ہم سے ماپ‘‘ یعنی اگر آپ ہمارا بھائی ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو ہمیں اناج نہیں ملے گا۔
﴿ فَاَرْسِلْ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكْ٘تَلْ﴾ ’’پس ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیجیں کہ ہم ماپ لے کر آئیں ‘‘ یعنی تاکہ اناج حاصل کرنے میں ہمارا بھائی ہمارے لیے سبب بن سکے،
پھر انھوں نے اپنے بھائی کی حفاظت کا ذمہ اٹھاتے ہوئے کہا: ﴿ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُ٘وْنَؔ﴾ ’’اور ہم اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘ یعنی ہم کسی ناخوشگوار صورت حال میں اس کی حفاظت کریں گے۔
#
{64} {قال} لهم يعقوبُ عليه السلام: {هل آمنُكم عليه إلاَّ كما أمِنتُكم على أخيه من قبلُ}؛ أي: قد تقدَّم منكم التزام أكثر من هذا في حفظ يوسف، ومع هذا؛ فلم تَفوا بما عقدتم من التأكيد؛ فلا أثق بالتزامكم وحفظكم، وإنما أثقُ بالله تعالى. {فالله خيرٌ حافظاً وهو أرحمُ الراحمين}؛ أي: يعلم حالي وأرجو أن يرحمني، فيحفظه ويردُّه عليَّ، وكأنَّه في هذا الكلام قد لان لإرساله معهم.
[64] ﴿ قَالَ ﴾ یعقوبu نے ان سے کہا:
﴿ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’کیا میں تمھارا اسی طرح اعتبار کروں جیسے اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملے میں اعتبار کیا تھا؟‘‘ یعنی یوسف کی حفاظت کے بارے میں تم اپنی ذمہ داری کے التزام کا وعدہ اس سے پہلے بھی کر چکے ہو۔ بایں ہمہ تم نے اس کی حفاظت کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا، لہٰذا مجھے تمھارے اس عہد پر کوئی بھروسہ نہیں کہ تم اس کی حفاظت کا التزام کرو گے۔ مجھے تو بس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔
﴿ فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا١۪ وَّهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ ’’سو اللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ میرے حال کو جانتا ہے مجھے امید ہے کہ وہ مجھ پر رحم کرے گا اس کی حفاظت کر کے اسے میرے پاس واپس لائے گا۔ گویا انھوں نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے کے لیے اپنی گفتگو میں نرمی کا مظاہرہ کیا۔
#
{65} ثم إنهم {لما فَتَحوا متاعَهم وَجَدوا بضاعتهم رُدَّتْ إليهم}: هذا دليلٌ على أنَّه قد كان معلوماً عندهم أن يوسف قد ردَّها عليهم بالقصد، وأنَّه أراد أن يملِّكهم إياها، فقالوا لأبيهم ترغيباً في إرسال أخيهم معهم: {يا أبانا ما نَبْغي}؛ أي: أيُّ شيء نطلب بعد هذا الإكرام الجميل حيثُ وفَّى لنا الكيل، وردَّ علينا بضاعتنا على [هذا] الوجه الحسن المتضمِّن للإخلاص ومكارم الأخلاق؟! {هذه بضاعتُنا رُدَّتْ إلينا ونَميرُ أهلنا}؛ أي: إذا ذهبنا بأخينا؛ صار سبباً لكَيْلِهِ لنا، فَمِرْنا أهلنا، وأتينا لهم بما هم مضطرُّون إليه من القوت، {ونحفظُ أخانا ونزدادُ كَيْلَ بعيرٍ}: بإرساله معنا؛ فإنه يكيل لكلِّ واحدٍ حِمْل بعير. {ذلك كيلٌ يسيرٌ}؛ أي: سهل لا ينالك ضررٌ؛ لأن المدة لا تطول، والمصلحة قد تبيَّنت.
[65] ﴿ وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ اِلَیْهِمْ﴾ ’’اور جب انھوں نے اپنا سامان کھولا تو انھوں نے پایا کہ ان کا مال بھی واپس کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ یوسفu نے یہ مال قصداً واپس کیا تھا اور وہ اس مال کا واپس بھائیوں کو مالک بنانا چاہتے تھے۔
﴿ قَالُوْا ﴾ انھوں نے بھائی کو ساتھ بھیجنے کے لیے ترغیب دیتے ہوئے باپ سے کہا :
﴿ یٰۤاَ بَانَا مَا نَ٘بْغِیْ﴾ ’’اباجان! ہمیں
(اور) کیا چاہیے۔‘‘ یعنی اس بہترین اکرام و تکریم کے بعد ہمیں اور کیا چاہیے جبکہ بادشاہ نے ہمیں اناج پورا دیا ہے اور نہایت خوبصورت طریقے سے ہمارا مال بھی واپس لوٹا دیا ہے اور یہ بات اخلاص اور مکارم اخلاق پر دلالت کرتی ہے۔
﴿ هٰؔذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا١ۚ وَنَمِیْرُ اَهْلَنَا ﴾ ’’یہ ہے ہماری پونجی جو ہمیں واپس کر دی گئی ہے، اب جائیں تو غلہ لے کر آئیں اپنے گھر والوں کے لیے‘‘ یعنی جب ہم اپنے بھائی کو ساتھ لے کر جائیں گے تو ہم اس کے حصے کا غلہ حاصل کر سکیں گے اور اپنے گھر والوں کے لیے غلہ لا سکیں گے کیونکہ وہ خوراک کے سخت محتاج ہیں ۔
﴿ وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ كَیْلَ بَعِیْرٍ﴾ ’’اور ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کی بھرتی بھی زیادہ لیں گے‘‘ یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجنے کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ ملے گا کیونکہ ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دیا جاتا تھا۔
﴿ ذٰلِكَ كَیْلٌ یَّسِیْرٌ ﴾ ’’اور وہ بھرتی آسان ہے‘‘ یہ بڑا آسان سا کام ہے اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ کوئی زیادہ لمبی مدت نہیں اور اس میں جو مصلحت ہے وہ بھی آپ کے سامنے واضح ہے۔
#
{66} فقال لهم يعقوب: {لن أرسِلَه معكم حتى تؤتوني مَوْثِقاً من الله}؛ أي: عهداً ثقيلاً وتحلفون بالله {لتأتُنَّني به إلاَّ أن يُحاطَ بكم}؛ أي: إلاَّ أن يأتيكم أمرٌ لا قَبِلَ لكم به ولا تقدرون دفعه، {فلمَّا آتَوْه مَوْثِقهم}: على ما قال وأراد؛ {قال: الله على ما نقولُ وكيلٌ}؛ أي: تكفينا شهادتُه علينا وحفظه وكفالته.
[66] ﴿ قَالَ ﴾ یعقوبu نے ان سے کہا:
﴿ لَ٘نْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’میں ہرگز اس کو تمھارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، یہاں تک کہ دو تم مجھے عہد اللہ کا‘‘ یعنی جب تک تم اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر پکا عہد نہ کرو۔
﴿ لَتَاْتُنَّنِیْ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّحَاطَ بِكُمْ﴾ ’’کہ تم ضرور اس کو میرے پاس پہنچا دو گے مگر یہ کہ گھیرے جاؤ تم سب‘‘ یعنی سوائے کسی ایسی صورت حال کے جو تمھیں پیش آجائے جس پر تمھارا کوئی اختیار نہ ہو اور تم اس کو ہٹانے کی قدرت نہ رکھتے ہو۔
﴿ فَلَمَّاۤ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ ﴾ ’’پس جب انھوں نے ان سے عہد کرلیا۔‘‘ یعنی جب یعقوبu کی خواہش کے مطابق انھوں نے عہد و پیمان دے دیا۔
﴿ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَؔكِیْلٌ﴾ ’’حضرت یعقوب نے کہا، اللہ ہماری باتوں پر نگہبان ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی گواہی، اس کی حفاظت اور اس کی کفایت ہمارے لیے کافی ہے۔
#
{67} ثم لما أرسله معهم؛ وصَّاهم إذا هم قدموا مصر أن لا يَدْخلوا {من بابٍ واحد وادخُلوا من أبواب متفرِّقة}: وذلك أنه خاف عليهم العين؛ لكثرتهم وبهاء منظرهم؛ لكونهم أبناء رجل واحد، وهذا سبب، {و} إلا فَ {مَا أغني عنكم من الله}: شيئاً؛ فالمقدَّر لا بدَّ أن يكون. {إن الحكمُ إلا لله}؛ أي: القضاء قضاؤه والأمر أمره؛ فما قضاه، وحكم به لا بدَّ أن يقع. {عليه توكلتُ}؛ أي: اعتمدت على الله لا على ما وصَّيتكم به من السبب. {وعليه فليتوكَّل المتوكِّلون}: فإنَّ بالتوكُّل يحصُل كل مطلوب، ويندفع كل مرهوب.
[67] پھر جب یعقوبu نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا تو ان کو وصیت کی کہ جب وہ مصر پہنچیں تو
﴿ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَ٘ابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ﴾ ’’ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں ‘‘ یعنی وہ ان کے ایک ہی شخص کے بیٹے ہوتے ہوئے ان کی کثرت اور ان کے حسن منظر کی وجہ سے ان کو نظر لگنے سے ڈرتے تھے۔ یہ تو محض سبب ہے جو میں اختیار کر رہا ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے
﴿ وَمَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’میں تم کو اللہ کی کسی بات سے نہیں بچا سکتا‘‘ پس جو چیز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے وہ ہو کر رہے گی۔
﴿ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ﴾ ’’حکم تو اللہ ہی کا ہے۔‘‘ یعنی فیصلہ وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے اور حکم وہی ہے جو اس کا حکم ہے۔ پس جس چیز کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کر دے وہ ضرور واقع ہوتا ہے۔
﴿ عَلَیْهِ تَوَكَّؔلْتُ﴾ ’’اسی پر میرا بھروسہ ہے‘‘ یعنی جن اسباب کو اختیار کرنے کی میں نے تمھیں وصیت کی ہے، میں اس پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں ۔
﴿وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَؔكِّلُوْنَؔ ﴾ ’’اور اسی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے‘‘ کیونکہ توکل ہی کے ذریعے سے ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور توکل ہی کے ذریعے سے ہر خوف کو دور کیا جاتا ہے۔
#
{68} {ولما} ذهبوا و {دَخَلوا من حيث أمرهم أبوهم ما كان}: ذلك الفعل {يُغْني عنهم من الله من شيءٍ إلاَّ حاجةً في نفس يعقوب قضاها}: وهو موجب الشفقة والمحبة للأولاد، فحصل له في ذلك نوعُ طمأنينةٍ وقضاءٍ لما في خاطره، وليس هذا قصوراً في علمه؛ فإنه من الرسل الكرام والعلماء الربانيين، ولهذا قال عنه: {وإنَّه لذو علم}؛ أي: لصاحب علم عظيم، {لما علَّمْناه}؛ أي: لتعليمنا إيَّاه، لا بحوله وقوَّته أدركه، بل بفضل الله وتعليمه. {ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمون}: عواقب الأمور ودقائق الأشياء، وكذلك أهل العلم منهم يخفى عليهم من العلم وأحكامه ولوازمه شيء كثيرٌ.
[68] ﴿ وَلَمَّا﴾ ’’اور جب‘‘ یعنی جب وہ روانہ ہوگئے۔
﴿ دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْ١ؕ مَا كَانَ یُغْنِیْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْ٘سِ یَعْقُوْبَ قَضٰىهَا﴾ ’’
(اور) داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو حکم دیا تھا،
(ان کا یہ فعل) ان کو اللہ کی کسی بات سے نہ بچا سکتا تھا مگر ایک خواہش تھی یعقوب کے جی میں ، سو وہ اس نے پوری کر لی۔‘‘ اور وہ تھا اولاد کے لیے شفقت اور محبت کا موجب،
ایسا کرنے سے ان کو ایک قسم کا اطمینان حاصل ہوگیا تھا اور ان کے دل میں جو خیال گزرا تھا وہ بھی پورا ہوگیا اور یہ یعقوبu کے علم کی کوتاہی نہیں کیونکہ وہ انبیائے کرام اور علمائے ربانی میں سے تھے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے یعقوبu کی مدافعت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ ﴾ ’’وہ علم عظیم کے مالک تھے۔‘‘
﴿ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ﴾ ’’کیونکہ ہم نے ان کو تعلیم دی تھی۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنی قوت و اختیار سے اس کا ادراک نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا عطا کردہ علم کارفرما تھا۔
﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ یعنی مگر اکثر لوگ معاملات کے انجام اور اشیاء کی باریکیوں کو نہیں جانتے۔ اسی طرح اہل علم پر بھی علم، احکام اور اس کے لوازم میں سے بہت کچھ مخفی رہ جاتا ہے۔
{وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (69) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ (70) قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ (71) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ (72) قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ (73) قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ كُنْتُمْ كَاذِبِينَ (74) قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (75) فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ (76) قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ (77) قَالُوا يَاأَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (78) قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ (79)}.
اور جب وہ داخل ہوئے اوپر یوسف کے تو اس نے جگہ دی اپنے پاس اپنے بھائی کو
(اور) کہا، بلاشبہ میں بھائی ہوں تیرا، سو نہ غم کھا تو بوجہ اس کے جو تھے وہ عمل کرتے
(69) ، پھر جب تیار کر دیا یوسف نے ان کے لیے سامان ان کا تو رکھ دیا مرصع پیالہ سامان میں اپنے بھائی کے، پھر اعلان کیا ایک اعلان کرنے والے نے، اے قافلہ والو! بے شک تم لوگ تو چور ہو
(70) انھوں نے کہااور وہ متوجہ ہوئے ان کی طرف، کیا چیز گم پاتے ہو تم؟
(71) انھوں نے کہا، گم پاتے ہیں ہم پیالہ بادشاہ کااور واسطے اس شخص کے جو لائے گا اسے، ایک بار شتر ہے
(غلہ) اور میں ساتھ اس
(وعدے) کے ضامن ہوں
(72) انھوں نے کہا، اللہ کی قسم! البتہ تحقیق جانتے ہو تم کہ نہیں آئے ہم تاکہ فساد کریں ہم اس زمین میں اور نہیں ہیں ہم چور
(73) انھوں نے کہا، پھر کیا سزا ہے اس
(چور) کی اگر ہو تم جھوٹے؟
(74) انھوں نے کہا، سزا اس کی یہ ہے، جو شخص کہ پایا جائے وہ
(پیالہ) اس کے سامان میں پس وہی شخص ہے بدلہ اس کا، اسی طرح ہم سزا دیتے ہیں ظالموں کو
(75) پس شروع ہوا
(لگا) یوسف
(تلاشی لینے) ان کے بوروں کی پہلے اپنے بھائی کے بورے کے ، پھر نکال لیا وہ
(پیالہ) بورے سے اپنے بھائی کے، اسی طرح تدبیر کی ہم نے واسطے یوسف کے، نہیں تھا یوسف کہ وہ لے سکتا اپنے بھائی کو قانون میں اس بادشاہ کے مگر یہ کہ چاہے اللہ، بلند کرتے ہیں ہم درجے جس کے چاہیں ،اور اوپر ہر صاحب علم کے ایک زیادہ علم والا ہے
(76) انھوں نے کہا، اگر اس نے چوری کی ہے تو تحقیق چوری کی تھی ایک بھائی نے اس کے، اس سے پہلے، پس چھپایا اس
(بات) کو یوسف نے اپنے دل میں اور نہ ظاہر کیااس نے اسے واسطے ان کے، کہا
(دل میں ) تم بدترین ہو مرتبے میں اور اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو تم بیان کرتے ہو
(77) انھوں نے کہا، اے عزیز! بے شک ان
(بنیا مین) کا باپ ہے بوڑھا بڑی عمر والا، پس آپ لے لیں کسی ایک کو ہم میں سے اس کی جگہ، بے شک ہم دیکھتے ہیں آپ کو احسان کرنے والوں میں سے
(78)یوسف نے کہا، پناہ اللہ کی اس بات سے کہ لیں ہم
(کسی اور کو) سوائے اس شخص کے کہ پایا ہم نے سامان اپنا اس کے پاس،
(ایسا کیا تو) بلاشبہ ہم اس وقت ، البتہ ظالم ہوں گے
(79)
#
{69} أي: لما دخل إخوة يوسف على يوسف؛ {آوى إليه أخاه}؛ أي: شقيقه، وهو بنيامين، الذي أمرهم بالإتيان به وضمَّه إليه، واختصَّه من بين إخوته، وأخبره بحقيقة الحال، و {قال إنِّي أنا أخوك؛ فلا تبتئسْ}؛ أي: لا تحزن. {بما كانوا يعملون}: فإنَّ العاقبة خيرٌ لنا، ثم خبره بما يريد أن يصنع ويتحيَّل لبقائِهِ عنده إلى أن ينتهي الأمر.
[69] جب یوسفu کے بھائی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
﴿ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَخَاهُ﴾’’تو اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی‘‘ یوسفu نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو جس کو لانے کے لیے انھوں نے اپنے بھائیوں کو حکم دیا تھا… پاس بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا اور بھائیوں سے اس کو الگ کر لیا اور اسے تمام حقیقت حال سے آگاہ کر دیا۔
﴿ قَالَ اِنِّیْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ﴾ ’’اس سے کہا، میں تیرا بھائی ہوں ، پس غمگین مت ہو‘‘ یعنی غم زدہ نہ ہو
﴿ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَؔ ﴾ ’’ان کاموں سے جو یہ کرتے رہے ہیں ‘‘ کیونکہ ہماری عاقبت اچھی ہے، پھر انھوں نے بنیامین کو اپنے اس منصوبے اور حیلے سے آگاہ کیا جس کے مطابق یوسفu بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے جب تک کہ معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتا۔
#
{70} {فلما جهَّزهم بجهَازهم}؛ أي: كال لكلِّ واحدٍ من إخوته، ومن جملتهم أخوه هذا، {جعل السِّقايةَ}: وهو الإناء الذي يُشرب به ويُكال فيه {في رحل أخيه ثم}: أوعوا متاعهم، فلما انطلقوا ذاهبين؛ {أذَّن مؤذِّنٌ أيتها العيرُ إنكم لسارقون}: ولعل هذا المؤذِّن لم يعلم بحقيقة الحال.
[70] ﴿ فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ﴾ ’’پس جب تیار کر دیا ان کے واسطے ان کا اسباب‘‘ یعنی جب یوسفu نے اپنے بھائیوں میں سے ہر ایک کو غلہ ناپ کر دے دیا، ان میں ان کا حقیقی بھائی بنیامین بھی شامل تھا۔
﴿ جَعَلَ السِّقَایَةَ ﴾ ’’تو رکھ دیا پینے کا پیالہ‘‘ اس سے مراد وہ پیالہ ہے جس میں پانی پیا جاتا ہے اور اس میں اناج وغیرہ بھی ناپا جاتا ہے
﴿ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ﴾ ’’اپنے بھائی کے سامان میں ، پھر‘‘ یعنی پیالہ بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔ پس جب وہ کوچ کرنے لگے تو
﴿ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌؔ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّـكُمْ لَسٰرِقُوْنَؔ﴾ ’’اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے قافلے والو! تم تو چور ہو‘‘ شاید اعلان کرنے والے کو حقیقت حال کا علم نہیں تھا۔
#
{71} {قالوا}؛ أي: إخوة يوسف، {وأقبلوا عليهم}: لإبعاد التُّهمة؛ فإنَّ السارق ليس له همٌّ إلا البعد والانطلاق عمَّن سرق منه؛ لتسلم له سرقته، وهؤلاء جاؤوا مقبلين إليهم، ليس لهم همٌّ إلا إزالة التهمة التي رُموا بها عنهم، فقالوا في هذه الحال: {ماذا تفقِدون}؟ ولم يقولوا: ما الذي سَرَقْنا؟ لجزمهم بأنهم بُرآء من السرقة.
[71] ﴿ قَالُوْا﴾ یوسفu کے بھائیوں نے کہا:
﴿ وَاَ٘قْبَلُوْا عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کی طرف متوجہ ہوئے‘‘ تہمت کو دور کرنے کے لیے کیونکہ چور ہمیشہ اس شخص سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہو تاکہ اس کی چوری پکڑی نہ جائے اور یہ لوگ ان کے پاس واپس آگئے، تہمت کے ازالے کے سوا ان کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس صورت میں انھوں نے اعلان کرنے والوں سے پوچھا
﴿ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَؔ ﴾ ’’تمھاری کیا چیز گم ہوگئی ہے؟‘‘ انھوں نے یہ نہیں پوچھا ’’ہم نے تمھاری کیا چیز چرا لی ہے؟‘‘ کیونکہ وہ چوری کے اس الزام سے اپنے آپ کو یقینی طور پر بری سمجھتے تھے۔
#
{72} {قالوا نفقِدُ صُواعَ الملك ولمن جاء به حِمْلُ بعيرٍ}؛ أي: أجرة له على وجدانه، {وأنا به زعيمٌ}؛ أي: كفيل. وهذا يقوله المؤذِّن المتفقِّد.
[72] ﴿ قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ ﴾ ’’ہم نہیں پاتے بادشاہ کا پیمانہ اور جو کوئی اس کو لائے گا، اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے‘‘ یعنی اس کو ڈھونڈنے کی اجرت میں ایک بار شتر اناج ملے گا
﴿ وَّاَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ﴾ ’’اور میں اس کا ضامن ہوں ۔‘‘ یعنی یہ اناج دلانے کا میں ذمہ لیتا ہوں ، یہ بات تلاش کرنے والے نے کہی تھی۔
#
{73} {قالوا تالله لقد علمتُم ما جئنا لِنُفْسِدَ في الأرض}: بجميع أنواع المعاصي، {وما كنَّا سارقين}: فإنَّ السرقة من أكبر أنواع الفساد في الأرض. وإنما أقسموا على علمهم أنَّهم ليسوا مفسدين ولا سارقين؛ لأنَّهم عرفوا أنهم سَبَروا من أحوالهم ما يدلُّهم على عفَّتهم وورعهم وأنَّ هذا الأمر لا يقع منهم بعلم من اتَّهموهم، وهذا أبلغ في نفي التُّهمة من أنْ لو قالوا: تاللهِ لم نُفْسِدْ في الأرض ولم نسرِقْ.
[73] ﴿ قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’انھوں نے کہا، اللہ کی قسم، تم جانتے ہو، ہم ملک میں بگاڑ ڈالنے کے لیے نہیں آئے‘‘ گناہوں کی تمام اقسام کے ذریعے سے
﴿ وَمَا كُنَّا سٰؔرِقِیْنَ ﴾ ’’اور نہ ہم چور ہی ہیں ‘‘ کیونکہ چوری فساد فی الارض کی سب سے بڑی قسم ہے۔
انھوں نے قسم اس لیے اٹھائی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ فساد پھیلانے والے ہیں نہ چور۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے احوال کی خوب جانچ پڑتال ہوئی ہے جو ان کی پاکیزگی اور پرہیزگاری پر دلالت کرتی ہے اور یہ کام ان کے علم سے نہیں ہو سکتا جن پر وہ چوری کی تہمت لگا رہے ہیں … یہ پیرایہ چوری کی تہمت کی نفی میں اس فقرے سے زیادہ بلیغ ہے
(تَاللہِ لَمْ نُفْسِدْ فِیْ الْاَرْضِ وَلَمْ نَسْرِقْ) ’’اللہ کی قسم ہم نے زمین میں فساد کیا ہے نہ ہم نے چوری کی ہے۔‘‘
#
{74} {قالوا فما جزاؤه}؛ أي: جزاء هذا الفعل، {إن كنتُم كاذبين}: بأنْ كان معكم.
[74] ﴿قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُهٗۤ ﴾ ’’انھوں نے کہا تو اس کی جزا کیا ہے۔‘‘ یعنی اس فعل کی جزا کیا ہوگی
﴿ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِیْنَ﴾ ’’اگر تم جھوٹے ہوئے‘‘ یعنی اگر بادشاہ کا پیمانہ تمھارے پاس ہوا؟
#
{75} {قالوا جزاؤه مَن وُجِدَ في رحله فهو}؛ أي: الموجود في رحله، {جزاؤُهُ}: بأن يتملَّكه صاحب السرقة، وكان هذا في دينهم؛ أنَّ السارق إذا ثبتت عليه السرقة؛ كان ملكاً لصاحب المال المسروق، ولهذا قالوا: {كذلك نَجْزي الظالمين}.
[75] ﴿ قَالُوْا جَزَآؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِهٖ٘ فَهُوَ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اس کی جزا یہی ہے کہ جس کے سامان میں وہ پیالہ پایا جائے تو وہی‘‘ یعنی جس کے سامان میں موجود ہوگا
﴿ جَزَآؤُهٗ﴾ ’’اس کی جزا ہے‘‘ یعنی جس کی چوری کی گئی ہے وہ اس کا مالک بن جائے گا،
ان کے دین میں چوری کی سزا یہ تھی کہ اگر اس پر چوری کا الزام ثابت ہو جاتا تو وہ مال مسروقہ کے مالک کی ملکیت بن جاتا۔ اسی لیے انھوں نے کہا: ﴿ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ہم ظالموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
#
{76} فبدأ المفتش بأوعيتهم قبل وعاء أخيه، وذلك لتزول الرِّيبة التي يظنُّ أنها فعلت بالقصد. فلما لم يَجِدْ في أوعيتهم شيئاً، {استَخْرَجها من وعاء أخيه}: ولم يَقُلْ: وجدها أو سرقها أخوه مراعاةً للحقيقة الواقعة؛ فحينئذٍ تمَّ ليوسف ما أراد من بقاء أخيه عنده على وجهٍ لا يشعر به إخوته. قال تعالى: {كذلك كِدْنا ليوسُفَ}؛ أي: يسَّرْنا له هذا الكيد الذي توصَّل به إلى أمرٍ غير مذموم. {ما كان لِيأخُذَ أخاه في دينِ الملكِ}: لأنَّه ليس من دينه أنْ يُتَمَلَّك السارق، وإنَّما له عندهم جزاء آخر؛ فلو رُدَّتِ الحكومة إلى دين الملك؛ لم يتمكَّنْ يوسُفُ من إبقاء أخيه عنده، ولكنَّه جعل الحكم منهم؛ ليتمَّ له ما أراد. قال تعالى: {نرفعُ درجاتٍ من نشاء}: بالعلم النافع ومعرفة الطرق الموصلة إلى مقصدها؛ كما رَفَعْنا درجاتِ يوسف. {وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ}؛ فكل عالم فوقه من هو أعلم منه حتى ينتهي العلم إلى عالم الغيب والشهادة.
[76] ﴿ فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ۠ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ﴾ ’’پھر انھوں نے اپنے بھائی کے سامان سے پہلے ان کے سامان کو دیکھنا شروع کیا۔‘‘ یعنی تلاشی لینے والے نے پہلے یوسفu کے بھائیوں کی خرجیوں کی تلاشی لی تاکہ وہ شک زائل ہو جائے کہ سب کچھ قصداً کیا گیا ہے۔
﴿ ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘یعنی جب بھائیوں کی خرجیوں سے کچھ نہ ملا
﴿ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِ﴾ ’’اس برتن کو نکال لیا اپنے بھائی کی خرجی سے‘‘ یعنی حقیقت واقعہ کی رعایت رکھتے ہوئے
(وَجَدَھَا) یا
(سَرَقَھَا) نہیں کہا۔
اس طرح یوسفu کے اس منصوبے کی تکمیل ہوگئی جس کے مطابق وہ اپنے بھائی کو اس طرح اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے کہ ان کے بھائیوں کو اصل صورت حال کا علم نہ ہو۔ فرمایا:
﴿ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ﴾ ’’اس طرح تدبیر کی ہم نے یوسف کے لیے‘‘ یعنی ہم نے یوسفu کے لیے اس تدبیر کو آسان کر دیا جس کے ذریعے سے وہ غیر مذموم طریقے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
﴿ مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ﴾ ’’وہ اپنے بھائی کو نہیں لے سکتا تھا اس بادشاہ کے دین میں ‘‘ یعنی بادشاہ کے قانون کے مطابق مال مسروقہ کے مالک کو یہ اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ چور کا مالک بن سکے۔ ان کے ہاں چوری کی کوئی اور سزا تھی۔ اگر فیصلہ بادشاہ کے قانون کے مطابق ہوتا تو یوسفu اپنے بھائی کو اپنے پاس نہ رکھ سکتے۔ اس لیے حضرت یوسفu نے اپنے بھائیوں سے فیصلہ کروایا تاکہ ان کے منصوبے کی تکمیل ہو۔
﴿ نَرْفَ٘عُ دَرَجٰؔتٍ مَّنْ نَّشَآءُ﴾ ’’ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں ‘‘ یعنی علم نافع اور اس راستے کی معرفت عطا کر کے جو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ جیسے ہم نے حضرت یوسفu کے درجات بلند کیے۔
﴿ وَفَوْقَ كُ٘لِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔‘‘ یعنی ہر صاحب علم کے اوپر ایک شخص ہوتا ہے جو اس سے زیادہ علم رکھتا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ غائب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی تک جا پہنچتا ہے۔
#
{77} فلما رأى إخوةُ يوسف ما رأوا؛ {قالوا إن يَسْرِقْ}: هذا الأخ؛ فليس هذا غريباً منه، {فقد سَرَقَ أخٌ له من قبلُ}؛ يعنون: يوسف عليه السلام، ومقصودُهم تبرئةُ أنفسهم، وأنَّ هذا وأخاه قد يصدُرُ منهم ما يصدُرُ من السرقة، وهما ليسا شقيقين لنا، وفي هذا من الغضِّ عليهما ما فيه، ولهذا {أسرَّها يوسُفُ في نفسه ولم يُبْدِها لهم}؛ أي: لم يقابِلْهم على ما قالوه بما يكرهون، بل كَظَمَ الغيظَ وأسرَّ الأمر في نفسه، و {قال} في نفسه: {أنتم شَرٌّ مكاناً}: حيث ذممتمونا بما أنتُم على أشرٍّ منه. {والله أعلم بما تصفون}: مِنَّا من وصفنا بسرقة يعلم الله أنا برآء منها.
[77] جب یوسفu کے بھائیوں نے یہ معاملہ دیکھا تو
﴿ قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ﴾ ’’انھوں نے کہا، اگر اس
(بھائی) نے چوری کی ہے‘‘ تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
﴿ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی‘‘ ان کی مراد یوسفu تھے۔ ان کا مقصود خود اپنی براء ت کا اظہار کرنا تھا۔ نیز یہ کہ بنیامین اور اس کے بھائی سے چوری صادر ہوئی ہے اور یہ دونوں ہمارے حقیقی بھائی نہیں ہیں ۔ یہ ان کی طرف سے یوسفu اور ان کے بھائی بنیامین کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش تھی۔ اس لیے یوسفu نے اس کے جواب کو اپنے دل میں رکھا۔
﴿ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ﴾ ’’اور اس کو ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا‘‘ اس لیے ان کی اس بات پر کسی ایسے ردعمل کا اظہار نہ کیا جو انھیں ناگوار گزرے بلکہ وہ اپنے غصے کو پی گئے اور تمام معاملے کو اپنے دل میں چھپا لیا۔
﴿ قَالَ ﴾ حضرت یوسف نے اپنے دل میں کہا:
﴿ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا﴾ ’’تم بدتر ہو درجے میں ‘‘ کیونکہ تم نے ایک بے بنیاد بات پر ہماری مذمت کی ہے اور خود اس سے بھی بدتر اعمال کے مرتکب ہو۔
﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ﴾ ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘ ہماری بابت، جو تم ہمیں سرقہ سے متصف کرتے ہو اللہ تبارک و تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم چوری کے بہتان سے بری ہیں ۔
#
{78} ثم سلكوا معه مسلك التملُّق لعله يسمح لهم بأخيهم، فَـ {قَالوا يا أيُّها العزيز إنَّ له أباً شيخاً كبيراً}؛ أي: وإنه لا يصبر عنه، وسيشقُّ عليه فراقه. {فَخُذْ أحدَنا مكانه إنَّا نراك من المحسنين}: فأحسنْ إلينا وإلى أبينا بذلك.
[78] پھر انھوں نے یوسفu کی خوشامد شروع کر دی شاید کہ وہ ان کے بھائی کے بارے میں نرمی سے کام لیں ۔ پس
﴿ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْ٘عَزِیْزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبً٘ا شَیْخًا كَبِیْرًا﴾ ’’انھوں نے کہا، اے عزیز! اس کا باپ بوڑھا ہے، بڑی عمر کا‘‘ یعنی وہ اس کی جدائی پر صبر نہیں کر سکے گا، اس کی جدائی اس پر بہت شاق گزرے گی۔
﴿فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ١ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لے، یقینا ہم تجھے احسان کرنے والا دیکھتے ہیں ‘‘ پس ہم پر اور ہمارے باپ پر احسان کیجیے۔
#
{79} فقال يوسُفُ: {معاذَ الله أن نأخُذَ إلاَّ مَن وجدْنا متاعنا عنده}؛ أي: هذا ظلمٌ منا لو أخذنا البريء بذنب من وَجَدْنا متاعنا عنده، ولم يقلْ: من سرق. كلُّ هذا تحرُّزٌ من الكذب. {إنَّا إذاً}؛ أي: إن أخذنا غير من وجد في رحله، {لظالمونَ}: حيثُ وَضَعْنا العقوبة في غير موضعها.
[79] ﴿ قَالَ ﴾ یوسفu نے کہا:
﴿ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤ﴾ ’’اللہ پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا کسی اور کو پکڑ لیں ۔‘‘ یعنی ہماری طرف سے یہ بہت بڑا ظلم ہوگا اگر ہم اس شخص کے بدلے جس کے پاس سے ہمارا مال برآمد ہوا ہے… ایک بے گناہ شخص کو پکڑ لیں ۔ یوسفu نے یہ نہیں کہا ’’جس نے چوری کی‘‘ یہ جھوٹ سے احتراز ہے۔
﴿ اِنَّـاۤ٘ اِذًا﴾ ’’ہم تو پھر‘‘ یعنی اگر ہم اس شخص کو پکڑنے کی بجائے جس کے سامان سے ہمارا مال برآمد ہوا ہے کسی اور شخص کو پکڑ لیں
﴿ لَّظٰلِمُوْنَؔ ﴾ ’’ظالم ہوں گے‘‘ کیونکہ اس طرح ہم ایسے شخص کو سزا دیں گے جو سزا کا مستحق نہیں ۔
{فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُمْ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (80) ارْجِعُوا إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ (81) وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (82) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (83)}.
پس جب وہ ناامید ہو گئے اس سے تو الگ ہوئے وہ
(اور لگے) باہم مشورہ کرنے، کہا ان کے بڑے نے ، کیا نہیں جانتے تم کہ بے شک تمھارے باپ نے لیا ہے تم سے پختہ وعدہ اللہ کا؟اور
(کیا نہیں جانتے) اس سے پہلے جو کوتاہی کر چکے ہو تم یوسف کی بابت؟ پس ہرگز نہیں چھوڑوں گا میں تو اس زمین
(مصر) کو یہاں تک کہ اجازت دے میرے لیے میرا باپ یا فیصلہ کردے اللہ میرے لیےاور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
(80) (اے بھائیو!) تم واپس جاؤ طرف باپ اپنے کی اور کہو، اے ہمارے باپ! بے شک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور نہیں گواہی دی ہم نے مگر ساتھ اس چیز کے جس کاعلم تھا ہمیں اور نہیں تھے ہم غیب کے یاد رکھنے والے
(81) اور پوچھ لیجیے اس بستی
(والوں ) سے کہ تھے ہم اس میں اور اس قافلہ
(والوں ) سے
(بھی) کہ آئے ہیں ہم اس میں اور بے شک ہم ، البتہ سچے ہیں
(82) یعقوب نے کہا،
(حقیقت یہ نہیں )بلکہ بنا لی ہے تمھارے لیے تمھارے نفسوں نے ایک بات، پس صبر ہی بہتر ہے امید ہے اللہ، یہ کہ لے آئے میرے پاس ان کو اکٹھا، بے شک وہی ہے خوب جاننے والا، خوب حکمت والا
(83)
#
{80} أي: فلما استيأس إخوة يوسف من يوسف أن يسمحَ لهم بأخيهم، {خَلَصوا نَجيًّا}؛ أي: اجتمعوا وحدهم ليس معهم غيرهم، وجعلوا يَتَناجَوْن فيما بينهم، فَـ {قَالَ كبيرُهم ألم تعلموا أنَّ أباكم قد أخذ عليكم مَوْثِقاً من الله}: في حفظه وأنَّكم تأتون به إلاَّ أن يُحاط بكم، {ومِن قبلُ ما فرَّطتُم في يوسفَ}: فاجتمع عليكم الأمران: تفريطُكم في يوسفَ السابق، وعدمُ إتيانِكم بأخيه باللاحق؛ فليس لي وجهٌ أواجه به أبي. {فلنْ أبرحَ الأرضَ}؛ أي: سأقيم في هذه الأرض ولا أزال بها، {حتَّى يأذنَ لي أبي أو يحكمَ اللهُ لي}؛ أي: يقدِّرُ لي المجيء وحدي أو مع أخي، {وهو خير الحاكمين}.
[80] جب یوسفu کے بھائی اس بارے میں مایوس ہو گئے کہ وہ ان کے بھائی کے معاملے میں نرمی اختیار کریں ۔
﴿ خَلَصُوْا نَجِیًّا﴾ ’’تو وہ علیحدگی میں اکٹھے ہوئے اور صلاح کرنے لگے۔‘‘ جہاں کوئی اور موجود نہ تھا انھوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا۔
﴿ قَالَ كَبِیْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’ان کے بڑے نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمھارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا‘‘ یعنی تم سے اس کی حفاظت کرنے اور ساتھ لے کر آنے کا عہد لیا تھا سوائے اس کے کہ تم کسی مصیبت میں گھر کر بے بس ہو جاؤ۔
﴿ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَ﴾ ’’اور اس سے پہلے تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کر چکے ہو۔‘‘ پس تم میں دو امور اکٹھے ہوگئے ہیں ۔
(۱) یوسفu کے بارے میں تمھاری گزشتہ کوتاہی۔
(۲) اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ نہ لانا… میرے پاس تو ایسی کوئی دلیل نہیں جس کے ذریعے سے میں اپنے باپ کا سامنا کر سکوں ۔
﴿ فَلَ٘نْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ ﴾ پس میں تو یہیں مقیم رہوں گا اور یہاں سے نہیں جاؤں گا
﴿ حَتّٰى یَ٘اْذَنَ لِیْۤ اَبِیْۤ اَوْ یَحْكُمَ اللّٰهُ لِیْ﴾ ’’یہاں تک کہ حکم دے مجھ کو میرا باپ یا اللہ میری بابت فیصلہ کر دے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ میرے لیے اکیلے یا بھائی کے ساتھ آنا مقدر کر دے۔
﴿ وَهُوَ خَیْرُ الْحٰؔكِمِیْنَ ﴾ اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
#
{81} ثم وصَّاهم ما يقولون لأبيهم، فقال: {ارجِعوا إلى أبيكم فقولوا يا أبانا إنَّ ابنك سرقَ}؛ أي: وأخذ بسرقته، ولم يحصل لنا أن نأتيك به مع ما بذلنا من الجهد في ذلك، والحال أنَّا ما شَهِدْنا بشيء لم نعلَمْه، وإنَّما شهِدْنا بما علمنا؛ لأنَّنا رأينا الصُّواع استُخْرِج من رحله. {وما كنَّا للغيب حافظين}؛ أي: لو كنا نعلم الغيبَ؛ لما حَرَصْنا وبذَلْنا المجهود في ذَهابه معنا، ولمَا أعطيناك عهودنا ومواثيقنا، فلم نظنَّ أن الأمر سيبلغ ما بلغ.
[81] پھر اس نے اپنے بھائیوں کو وصیت کی کہ انھیں اپنے باپ سے جا کر کیا کہنا ہے۔
﴿ اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ فَقُوْلُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ﴾ ’’اپنے باپ کے پاس جاؤ اور کہو، ابا جان، آپ کے بیٹے نے تو چوری کی‘‘ یعنی وہ چوری کے جرم میں دھر لیا گیا ہے اس کے باوجود کہ ہم نے اس کے بارے میں بھرپور کوشش کی مگر ہم اس کو ساتھ نہ لا سکے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کی گواہی نہیں دیتے جو ہمارے سامنے نہ تھی ہم تو صرف اسی چیز کا مشاہدہ کر سکتے تھے جو ہمارے سامنے تھی کیونکہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کا پیمانہ بنیامین کی خرجی سے برآمد ہوا۔
﴿ وَمَا كُنَّا لِلْغَیْبِ حٰؔفِظِیْنَ ﴾ ’’اور ہم کو غیب کی بات کا دھیان نہ تھا‘‘ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو ہم اسے اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش کرتے نہ اس کو ساتھ لے جانے کے لیے اتنی کوشش کرتے اور نہ آپ کو کوئی عہد دیتے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔
#
{82} {واسأل}: إن شككْتَ في قولنا {القريةَ التي كنَّا فيها والعير التي أقبلنا فيها} فاطَّلعوا على ما أخبرناك به، {وإنَّا لصادقونَ}: لم نكذِبْ، ولم نغيِّر، ولم نبدِّل، بل هذا الواقع.
[82] ﴿ وَسْـَٔلِ﴾ ’’اور دریافت کرلیجیے۔‘‘ یعنی اگر آپ کو ہماری بات میں کوئی شک ہے۔ تو
﴿ الْ٘قَرْیَةَ الَّتِیْ كُنَّا فِیْهَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْۤ اَقْبَلْنَا فِیْهَا﴾ ’’اس بستی سے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے جس میں ہم آئے ہیں ‘‘ ہم نے جو آپ کو خبر سنائی ہے وہ اس کے بارے میں پوری اطلاع رکھتے ہیں ۔
﴿ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَؔ﴾ ’’اور ہم البتہ سچے ہیں ‘‘ ہم نے جھوٹ بولا ہے نہ ہم نے تغیر و تبدل کیا ہے بلکہ یہی واقعات ہیں ۔
(جو ہم آپ کو بتا رہے ہیں )
#
{83} فلما رجعوا إلى أبيهم وأخبروه بهذا الخبر؛ اشتدَّ حزنُه وتضاعف كَمَدُهُ واتَّهمهم أيضاً في هذه القضيَّة كما اتَّهمهم في الأولى و {قال بل سوَّلَتْ لكم أنفسُكم أمراً فصبرٌ جميلٌ}؛ أي: ألجأ في ذلك إلى الصبر الجميل الذي لا يصحَبُه تسخُّط ولا جزعٌ ولا شكوى للخلق. ثم لجأ إلى حصول الفرج لما رأى أنَّ الأمر اشتدَّ والكربة انتهت، فقال: {عسى اللهُ أن يأتيني بهم جميعاً}؛ أي: يوسف وبنيامين وأخوهم الكبير الذي أقام في مصر. {إنَّه هو العليم}: الذي يعلم حالي واحتياجي إلى تفريجه ومنَّته واضطراري إلى إحسانه، {الحكيم}: الذي جعل لكلِّ شيءٍ قَدَراً، ولكلِّ أمرٍ منتهىً بحسب ما اقتضته حكمته الربانيَّة.
[83] جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچے اور انھیں ان واقعات سے آگاہ کیا تو یعقوبu بہت غم زدہ ہوئے اور ان کی اداسی کئی گنا بڑھ گئی۔ پہلے کی طرح اس واقعہ میں بھی حضرت یعقوبu نے ان کو متہم قرار دیا اور ان سے کہا:
﴿ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا١ؕ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ﴾ ’’بلکہ بنا لی ہے تمھارے جی نے ایک بات، پس اب صبر ہی بہتر ہے‘‘ یعنی میں اس معاملے میں صبر جمیل کی پناہ لیتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناراضی ہے،
نہ بے صبری کا مظاہرہ اور نہ مخلوق کے پاس شکوہ۔ اور جب انھوں نے دیکھا کہ غم و کرب بہت شدید ہوگیا تو انھوں نے سکون کا سہارا لینے کے لیے کہا: ﴿ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِهِمْ جَمِیْعًا﴾ ’’شاید اللہ لے آئے میرے پاس ان سب کو‘‘ یعنی یوسف، بنیامین اور سب سے بڑا بھائی، جو مصر میں رہ پڑا تھا۔
﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ﴾ ’’بے شک وہ جاننے والا ہے۔‘‘ جو میرے حال کو جانتا ہے، جو یہ بھی جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے کشادگی اور نوازش کا محتاج اور اس کے احسان کا ضرورت مند ہوں ۔
﴿ الْحَكِیْمُ﴾ ’’وہ دانا ہے۔‘‘ جس نے اپنی حکمت ربانی کے تقاضے کے مطابق ہر چیز کا اندازہ اور اس کا منتہا مقرر کیا ہے۔
{وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَاأَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ (84) قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ (85) قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (86)}.
اور اس نے منہ پھیرا ان سے اور کہا ہائے افسوس اوپر یوسف کے اور سفید ہو گئیں آنکھیں اس کی غم سے اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
(84)انھوں نے کہا، قسم اللہ کی! تو سدا یاد کرتا رہے گا یوسف کو یہاں تک کہ ہو جائے تو
(غم میں ) گھل جانے والا یا ہو جائے تو ہلاک ہونے والوں سے
(85)اس نے کہا، میں تو شکایت کرتا ہوں اپنی بے قراری اور اپنے غم کی صرف اللہ کی طرف اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو نہیں جانتے تم
(86)
#
{84} أي: وتولَّى يعقوبُ عليه الصلاة والسلام عن أولاده بعدما أخبروه هذا الخبر، واشتدَّ به الأسف والأسى، وابيضَّتْ عيناه من الحزن الذي في قلبه والكمد الذي أوجب له كثرةَ البُكاء حيث ابيضَّت عيناه من ذلك؛ {فهو كظيمٌ}؛ أي: ممتلئ القلب من الحزن الشديد، {وقال يا أسفى على يوسف}؛ أي: ظهر منه ما كَمَنَ من الهمِّ القديم والشوق المقيم، وذكَّرَتْه هذه المصيبة الخفيفة بالنسبة للأولى، المصيبةَ الأولى.
[84] یعنی جب یعقوبu کے بیٹوں نے انھیں یہ خبر سنائی تو انھوں نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا، ان پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، دل میں چھپے ہوئے غم اور کرب کی وجہ سے رو رو کر ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں ۔
﴿ فَهُوَ كَظِیْمٌ ﴾ ’’سو وہ اپنے آپ کو گھونٹ رہا تھا‘‘ یعنی ان کا دل حزن و غم سے لبریز تھا۔
﴿ وَقَالَ یٰۤاَسَفٰى عَلٰى یُوْسُفَ ﴾ ’’اور کہا، اے افسوس یوسف پر‘‘ یعنی پرانا حزن و غم اور نہ ختم ہونے والا اشتیاق جو حضرت یعقوبu نے اپنے دل میں چھپا رکھا تھا، ظاہر ہوگیا اور اس نئی اور پہلی مصیبت کی نسبت قدرے ہلکی مصیبت نے پہلی مصیبت کی یاد تازہ کر دی۔
#
{85} فقال له أولادُه متعجِّبين من حاله: {تالله تفتأُ تَذْكُرُ يوسفَ}؛ أي: لا تزال تذكر يوسفَ في جميع أحوالك، {حتى تكون حَرَضاً}؛ أي: فانياً لا حَراك فيك ولا قدرة لك على الكلام، {أو تكونَ من الهالكين}؛ أي: لا تترك ذكره مع قدرتك على ذكره أبداً.
[85] یعقوبu کے بیٹوں نے ان کے حال پر تعجب کرتے ہوئے کہا:
﴿تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ یُوْسُفَ ﴾ ’’اللہ کی قسم! آپ اسی طرح یوسف کو یاد کرتے رہیں گے۔‘‘ یعنی آپ اپنے تمام احوال میں یوسفu کو یاد کرتے رہیں گے۔
﴿ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا ﴾ ’’یہاں تک کہ آپ فنا ہو جائیں گے‘‘ آپ حرکت تک نہیں کر سکیں گے اور آپ میں بولنے کی قدرت نہیں رہے گی۔
﴿اَوْ تَكُوْنَؔ مِنَ الْهٰؔلِكِیْنَ ﴾ ’’یا ہو جائیں گے آپ ہلاک‘‘ یعنی آپ یوسفu کو یاد کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے اس کو یاد کرنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
#
{86} فقال يعقوب: {إنَّما أشكو بثِّي}؛ أي: ما أبثُّ من الكلام، {وحُزْني}: الذي في قلبي. {إلى الله}: وحدَه لا إليكم ولا إلى غيركم من الخلق؛ فقولوا ما شئتم، {وأعلمُ من الله ما لا تعلمونَ}: من أنَّه سيردُّهم عليَّ ويقرُّ عيني بالاجتماع بهم.
[86] ﴿ قَالَ ﴾ یعقوبu نے کہا:
﴿ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ ﴾ ’’میں تو کھولتا ہوں اپنا اضطراب‘‘ یعنی میں جو بات کرتا ہوں
﴿ وَحُزْنِیْۤ ﴾ ’’اور اپنا غم‘‘ وہ جو میرے دل میں پوشیدہ ہے
﴿ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے سامنے‘‘ یعنی میں اپنے حزن و غم کا شکوہ تمھارے پاس یا کسی اور کے پاس نہیں کرتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس کرتا ہوں ۔ اس لیے تم جو چاہو کہتے رہو۔
﴿ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ ﴾ ’’اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے‘‘ یعنی میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور انھیں میرے پاس لوٹائے گا اور ان سب کو میرے پاس اکٹھا کر کے میری آنکھیں ٹھنڈی کرے گا۔
{يَابَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (87) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَاأَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ (88) قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ (89) قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (90) قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ (91) قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (92)}.
اے میرے بیٹو! تم جاؤ اور تلاش کرو یوسف اور اس کے بھائی کواور نہ مایوس ہو اللہ کی رحمت سے، بے شک نہیں مایوس ہوتے اللہ کی رحمت سے مگر کافر لوگ ہی
(87) پھر جب وہ داخل ہوئے یوسف پر تو انھوں نے کہا، اے عزیز! پہنچی ہے ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو تکلیف اور لائے ہیں ہم پونجی ناقص، پس آپ پورادیجیے ہمارے لیے ماپ
(غلے کا) اور صدقہ خیرات کیجیے ہم پر، بے شک اللہ جزا دیتا ہے صدقہ خیرات کرنے والوں کو
(88) یوسف نے کہا، کیا معلوم ہے تمھیں جو کچھ کیا تم نے ساتھ یوسف اور اس کے بھائی کے جب تھے تم نادان؟
(89) انھوں نے کہا، کیاواقعی تو یوسف ہی ہے؟ اس نے کہا،
(ہاں ) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، تحقیق احسان کیاہے اللہ نے ہم پر، بے شک جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو بلاشبہ اللہ نہیں ضائع کرتا اجر نیکی کرنے والوں کا
(90) انھوں نے کہا، قسم اللہ کی! یقینا فضیلت دی تجھے اللہ نے ہم پراور بلاشبہ ہم ہی تھے خطا کار
(91) اس نے کہا، نہیں کوئی ملامت اوپر تمھارے آج، معاف کرے اللہ تمھیں اوروہی سب مہربانوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
(92)
#
{87} أي: قال يعقوب عليه السلام لبنيه: {يا بَنِيَّ اذهبوا فتحسَّسوا من يوسف وأخيه}؛ أي: احرصوا واجتهدوا على التفتيش عنهما، {ولا تيأسوا من رَوْح الله}: فإنَّ الرجاء يوجِبُ للعبد السعي والاجتهاد فيما رجاه، والإياس يوجِبُ له التثاقل والتباطؤ، وأولى ما رجا العبادُ فضل الله وإحسانه ورحمته وروحه. {إنَّه لا ييأسُ من رَوْح الله إلاَّ القومُ الكافرون}: فإنَّهم لكفرِهم يستبعدون رحمتَه، ورحمتُه بعيدةٌ منهم؛ فلا تتشبَّهوا بالكافرين. ودلَّ هذا على أنَّه بحسب إيمان العبد يكون رجاؤه لرحمةِ الله ورَوْحه.
[87] یعنی یعقوبu نے اپنے بیٹوں سے کہا:
﴿ یٰبَنِیَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْهِ ﴾ ’’اے بیٹو! جاؤ اور تلاش کرو یوسف اور اس کے بھائی کو‘‘ یعنی پوری حرص اور کوشش کے ساتھ دونوں کو تلاش کرو۔
﴿ وَلَا تَایْ٘ــَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کے فیض سے ناامید نہ ہو‘‘ کیونکہ امید بندے کو اپنے مقصد کے لیے کوشش اور جدوجہد کے لیے آمادہ کرتی ہے اور مایوسی اسے سست اور کاہل بنا دیتی ہے اور سب سے بہترین چیز جس کی بندے کو امید رکھنی چاہیے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و مہربانی۔
﴿ اِنَّهٗ لَا یَ٘ایْ٘ــَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ کے فیض سے کافر ہی ناامید ہوتے ہیں ‘‘ کیونکہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے دور ہے، اس لیے کفار کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنے ایمان کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کی امید رکھتا ہے۔
#
{88} فذهبوا. فلما دخلوا على يوسف، {قالوا}: متضرِّعين إليه: {يا أيُّها العزيز مسَّنا وأهلَنا الضُّرُّ وجئنا ببضاعةٍ مُزْجاةٍ فأوْفِ لنا الكيلَ وتصدَّقْ علينا}؛ أي: قد اضطررنا نحنُ وأهلُنا {وجئْنا ببضاعةٍ مُزْجاةٍ}؛ أي: مدفوعة مرغوب عنها لقلَّتها وعدم وقوعها الموقع؛ {فأوفِ لنا الكيل}؛ أي: مع عدم وفاء العوض، وتصدَّقْ علينا بالزيادة عن الواجب. {إنَّ الله يَجْزي المتصدِّقين}: بثواب الدنيا والآخرة.
[88] پس وہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔
﴿ فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْهِ ﴾ ’’جب وہ اس کے پاس گئے۔‘‘ یعنی جب وہ یوسفu کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
﴿ قَالُوْا﴾ تو انھوں نے عاجزی کے ساتھ عرض کیا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْ٘عَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّ٘رُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰؔىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا﴾ ’’اے عزیز! پڑی ہے ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر سختی اور ہم ناقص پونجی لے کر آئے ہیں ، سو ہمیں بھرتی پوری دیں اور ہم پر خیرات کریں ‘‘ یعنی ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت محتاج ہو گئے ہیں ۔
﴿ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰؔىةٍ ﴾ ’’اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم ایسا مال لے کر آئے ہیں جو قلیل، بے وقعت ہونے کی بنا پر کسی اہمیت کا حامل نہیں ۔
﴿ فَاَوْفِ لَنَا الْكَیْلَ﴾ ’’پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے۔‘‘ یعنی ہمارے پاس قیمت کم ہونے کے باوجود، ہمیں قیمت سے زیادہ غلہ عنایت کر کے ہم پر صدقہ کیجیے۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ صدقہ کرنے والوں کو ثواب دیتاہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو دنیا و آخرت کا ثواب عطا کرتا ہے۔
#
{89} فلما انتهى الأمر وبلغ أشدَّه؛ رقَّ لهم يوسفُ رقَّةً شديدةً، وعرَّفهم بنفسه، وعاتبهم فقال: {هل علمتْم ما فعلتُم بيوسف وأخيه}: أما يوسفُ؛ فظاهرٌ فعلُهم فيه، وأما أخوه؛ فلعلَّه ـ والله أعلم ـ قولهم: {إن يَسْرِقْ فقد سَرَقَ أخٌ له من قبلُ}، أو أن السبب الذي فرَّق بينه وبين أبيه هم السبب فيه والأصل الموجب له. {إذ أنتُم جاهلونَ}: وهذا نوع اعتذارٍ لهم بجهلهم أو توبيخ لهم إذْ فعلوا فعل الجاهلين، مع أنَّه لا ينبغي ولا يَليق منهم.
[89] جب معاملہ اپنی انتہا اور شدت کو پہنچ گیا تو یوسفu نرم پڑ گئے اور انھوں نے ان کو اپنا تعارف کرایا اور ان پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْهِ ﴾ ’’کیا تمھیں معلوم ہے، تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا‘‘ رہے یوسفu تو ان کے ساتھ ان کا سلوک ظاہر ہے اور رہا ان کا بھائی بنیامین تو شاید… واللہ اعلم… اس سے مراد بھائیوں کا یہ قول ہے
﴿ اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ﴾ (یوسف: 77/12) یا اس سے مراد وہ حادثہ ہے جس کی بنا پر باپ اور بیٹے میں جدائی واقع ہوئی اور اس جدائی کے اصل سبب اور موجب وہی تھے۔
﴿ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ ﴾ ’’جب تم ناسمجھ تھے‘‘ یہ ان کی جہالت پر ایک قسم کا اعتذار ہے یا ان پر زجر و توبیخ ہے کیونکہ انھوں نے جاہلوں کا سا کام کیا، حالانکہ یہ کام ان کے شایان شان نہیں تھا۔
#
{90} فعرفوا أن الذي خاطبهم هو يوسفُ، فقالوا: {أإنَّك لأنت يوسفُ قال أنا يوسفُ وهذا أخي قد منَّ الله علينا}: بالإيمان والتقوى والتمكين في الدُّنيا، وذلك بسبب الصبر والتقوى، فَـ {إنَّه من يتَّقِ ويَصْبِرْ}؛ أي: يتَّقي فعل ما حرَّم الله ويصبر على الآلام والمصائب وعلى الأوامر بامتثالها. {فإنَّ الله لا يُضيع أجر المحسنين}: فإنَّ هذا من الإحسان، والله لا يُضيعُ أجرَ من أحسنَ عملاً.
[90] انھوں نے پہچان لیا کہ جو شخص ان سے مخاطب ہے وہ یوسف ہے اس لیے انھوں نے پوچھا:
﴿ ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ١ؕ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَهٰؔذَاۤ اَخِیْ١ٞ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا﴾ ’’کیا آپ یوسف ہیں ؟ انھوں نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے‘‘ کہ اس نے ہمیں ایمان، تقویٰ اور زمین میں اقتدار سے نوازا۔ یہ سب کچھ صبر اور تقویٰ کا ثمرہ ہے۔
﴿ اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ ﴾ ’’بے شک جو شخص اللہ سے ڈرتا اور صبر کرتاہے۔‘‘ یعنی جو کوئی فعل حرام سے پرہیز کرتا ہے، آلام و مصائب پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے۔
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’تو اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ یہ تمام امور احسان کے زمرے میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال حسنہ کو ضائع نہیں کرتا۔
#
{91} {قالوا تالله لقد آثرك الله علينا}؛ أي: فضَّلك علينا بمكارم الأخلاق ومحاسن الشيم، وأسأنا إليك غاية الإساءة، وحرصْنا على إيصال الأذى إليك والتبعيد لك عن أبيك، فآثرك الله تعالى ومكَّنك مما تريد [وإن كُنّا لخاطئين، وهذا غاية الاعتراف منهم بالجرم الحاصل منهم على يوسف].
[91] ﴿قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا ﴾ ’’انھوں نے کہا، اللہ کی قسم، اللہ نے آپ کو ہمارے مقابلے میں پسند کر لیا ہے‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو مکارم اخلاق اور محاسن عادات کے ذریعے سے ہم پر فضیلت سے نوازا۔ ہم نے آپ کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا، ہم نے آپ کو تکلیف پہنچانے اور آپ کو اپنے باپ سے دور کرنے کی خواہش کی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت بخشی اور ان امور کو آپ کے لیے ممکن بنا دیا جو آپ چاہتے تھے۔
﴿ وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــِٕیْنَ﴾ ’’اور بلاشبہ ہم خطا کار تھے۔‘‘
#
{92} فقال لهم يوسف عليه السلام كرماً وجوداً: {لا تَثْريبَ عليكم اليومَ}؛ أي: لا أثرِّبُ عليكم ولا ألومكم، {يَغفِرُ اللهُ لَكُم وهُوَ أرحَمُ الرَّاحِمِينَ}؛ فسمح لهم سماحاً تامًّا من غير تعيير لهم على ذكر الذَّنب السابق، ودعا لهم بالمغفرةِ والرحمةِ، وهذا نهاية الإحسان الذي لا يتأتَّى إلا من خواصِّ الخلق وخيار المصطَفَيْن.
[92] ﴿ قَالَ ﴾ یوسفu نے اپنے جود و کرم کی بنا پر ان سے کہا:
﴿ لَا تَثْ٘رِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ﴾ ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں ‘‘ یعنی میں تمھارا کوئی مواخذہ اور تم پر کوئی ملامت نہیں کرتا۔
﴿ یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ١ٞ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ﴾ ’’اللہ تمھیں معاف کرے، وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یوسفu نے اپنے بھائیوں کے گزشتہ جرائم پر عار دلائے بغیر ان کے ساتھ انتہائی نرمی اور فراخ دلی کا سلوک کیا اور ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی، یہ احسان کی انتہا ہے، اس سلوک کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے خاص اور چنے ہوئے بندے ہی کر سکتے ہیں ۔
{اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ (93) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ (94) قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ (95) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (96) قَالُوا يَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ (97) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (98)}
لے جاؤ تم قمیص میری یہ پس ڈال دو اسے اوپر چہرے میرے باپ کے، ہو جائے گا وہ دیکھنے والا اور لے آؤ تم میرے پاس اپنے اہل و عیال کو سب کو
(93) اور جب نکلا قافلہ
(مصر سے) تو کہا ان کے باپ نے، بے شک میں پاتا ہوں مہک یوسف کی، اگر نہ بہکا ہوا کہو تم مجھے
(94) انھوں نے کہا! قسم اللہ کی، بے شک تو البتہ اپنی پرانی غلطی میں ہے
(95) پس جب آیا خوشخبری دینے والا تو ڈالی اس نے وہ قمیص اوپر اس کے چہرے کے تو پھر سے ہو گیا وہ دیکھنے والا، یعقوب نے کہا، کیا نہیں کہا تھا میں نے تم سے بے شک میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ جو نہیں جانتے تم
(96) انھوں نے کہا، اے ہمارے باپ! مغفرت طلب کر ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی بے شک ہم ہی تھے خطا کار
(97) اس نے کہا، عنقریب میں مغفرت طلب کرو ں گا تمھارے لیے اپنے رب سے بے شک وہی غفور ہے رحیم ہے
(98)
#
{93} أي: قال يوسف عليه السلام لإخوته: {اذهَبوا بقميصي هذا فألقوه على وجه أبي يأتِ بَصيراً}: لأنَّ كلَّ داءٍ يداوى بضدِّه؛ فهذا القميصُ لما كان فيه أثرُ ريح يوسف الذي أوْدَعَ قلبَ أبيه من الحزن والشوق ما الله به عليم؛ أراد أن يَشُمَّه فترجِعَ إليه روحه وتتراجع إليه نفسُه ويرجعَ إليه بصرُه، ولله في ذلك حِكَمٌ وأسرارٌ لا يطَّلع عليها العباد، وقد اطَّلع يوسفُ من ذلك على هذا الأمر. {وأتوني بأهلِكُم أجمعين}؛ أي: أولادكم وعشيرتكم وتوابعكم كلُّهم؛ ليحصلَ تمامُ اللقاء ويزولَ عنكم نَكَدُ المعيشة وضَنْكُ الرزقِ.
[93] یوسفu نے اپنے بھائیوں سے کہا:
﴿ اِذْهَبُوْا بِقَ٘مِیْصِیْ هٰؔذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَ٘اْتِ بَصِیْرًا﴾ ’’تم میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ آنکھوں سے دیکھتا ہوا آئے گا‘‘ کیونکہ ہر بیماری کا علاج اس کی ضد کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ اس قمیص میں چونکہ یوسفu کی خوشبو کا اثر تھا جس کی جدائی نے اپنے باپ کے دل کو اس قدر حزن و غم سے لبریز کر دیا تھا… جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے… حضرت یوسفu چاہتے تھے کہ یہ قمیص ان کے باپ کو سونگھائی جائے تو ان کی روح ان کا نفس اور ان کی بصارت لوٹ آئے گی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہیں جن کو بندے نہیں جانتے مگر اس معاملے پر یوسفu کو مطلع کیا گیا۔
﴿ وَاْتُوْنِیْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’اور میرے پاس اپنا سارا گھر لے آؤ‘‘ یعنی اپنے بال بچوں ، قبیلے والوں اور دیگر تمام متعلقہ لوگوں کو میرے پاس لاؤ تاکہ ملاقات کی تکمیل ہو اور تمھاری معاشی بدحالی اور رزق کی تنگی دور ہو۔
#
{94} {ولما فصلت العير}: عن أرض مصر مقبلةً إلى أرض فلسطين؛ شمَّ يعقوبُ ريح القميص، فقال: {إنِّي لأجِدُ ريح يوسفَ لولا أن تُفَنِّدونِ}؛ أي: تسخرون منِّي، وتزعُمون أنَّ هذا الكلام صدر منِّي من غير شعور؛ لأنَّه رأى منهم من التعجُّب من حاله ما أوجب له هذا القول.
[94] ﴿ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ ﴾ ’’اور جب قافلہ جدا ہوا‘‘ یعنی مصر سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا تو یعقوبu نے قمیص کی خوشبو سونگھ لی۔ کہنے لگے:
﴿ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾ ’’میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں ، اگر تم میرا تمسخر نہ اڑاؤ‘‘ اور یہ نہ سمجھو کہ بات مجھ سے غیر شعوری طور پر صادر ہوئی ہے کیونکہ یعقوبu نے اس حال میں ان کی طرف سے تعجب کا مظاہرہ ہی دیکھا جو اس قول کا موجب بنا۔
#
{95} فوقع ما ظنَّه بهم، فقالوا: {تاللهِ إنَّك لفي ضلالك القديم}؛ أي: لا تزال تائهاً في بحرٍ لُجِّيٍّ ، لا تدري ما تقول.
[95] پس وہی کچھ ہوا جو حضرت یعقوبu سمجھتے تھے۔ کہنے لگے:
﴿ قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَ٘فِیْ ضَلٰلِكَ الْقَدِیْمِ﴾ ’’اللہ کی قسم آپ تو اسی پرانی غلطی میں ہیں ‘‘ یعنی آپ تو ہمیشہ محبت کے سمندر میں سرگرداں رہیں گے، آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔
#
{96} {فلمَّا أن جاء البشيرُ}: بقرب الاجتماع بيوسف وإخوته وأبيهم، {ألقاه}؛ أي: القميص {على وجهِهِ فارتدَّ بصيراً}؛ أي: رجع على حاله الأولى بصيراً بعد أن ابيضَّت عيناه من الحزن، فقال لمن حَضَرَهُ من أولاده وأهله الذين كانوا يفنِّدونَ رأيه، ويتعجَّبون منه منتصراً عليهم مُتبجحاً بنعمة الله عليه: {ألم أقُلْ لكُم إنِّي أعلم من الله ما لا تعلمون}: حيث كنتُ مترجِّياً للقاء يوسف مترقِّباً لزوال الهمِّ والغمِّ والحزن.
[96] ﴿ فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ ﴾ ’’پس جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔‘‘ یعنی جب ایلچی حضرت یوسفu، ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے اجتماع کی خوشخبری لے کر آیا
﴿ اَلْقٰىهُ ﴾ ’’تو ڈال دیا اس کو‘‘ یعنی قمیص کو
﴿ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا﴾ ’’ان کے چہرے پر،
جس سے وہ دوبارہ دیکھنے والے ہو گئے‘‘ یعنی یعقوبu اپنی پہلی سی بصارت والی حالت میں آگئے حالانکہ غم و اندوہ کی و جہ سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں ۔ یعقوبu نے ان لوگوں سے… جو وہاں موجود تھے اور جو ان کی رائے کو جھٹلاتے رہے تھے اور ان پر تعجب کررہے تھے… اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوش ہو کر فاتحانہ انداز میں کہا: ﴿ قَالَ اَلَمْ اَ٘قُ٘لْ لَّـكُمْ١ۙۚ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کیا میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ میں اللہ سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘ کیونکہ میں یوسفu کے ملنے کی امید رکھتا تھا اور حزن و غم کے ختم ہونے کا منتظر تھا۔
#
{97} فأقرُّوا بذنبهم، ونجعوا بذلك و {قالوا يا أبانا استغفرْ لنا ذنوبنا إنَّا كنا خاطئينَ}: حيث فعلنا معك ما فعلنا.
[97] جب یعقوبu کے بیٹوں نے اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے کہا:
﴿ قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِــِٕیْنَ ﴾ ’’ابا جان! ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کریں ! بے شک ہم گناہ گار تھے‘‘ کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی بنا پر ہم خطا کار ہیں ۔
#
{98} فَـ {قَالَ} مجيباً لطلبتهم ومسرعاً لإجابتهم: {سوفَ أستغفِرُ لكم ربِّي إنَّه هو الغفور الرحيم}: ورجائي به أن يغفرَ لكم ويرحمكم ويتغمَّدكم برحمته.
وقد قيل: إنه أخَّر الاستغفار لهم إلى وقت السحر الفاضل؛ ليكونَ أتمَّ للاستغفار وأقرب للإجابة.
[98] ﴿ قَالَ ﴾ یعقوبu نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا:
﴿ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’میں ضرور تمھارے لیے اپنے رب سے بخشش مانگوں گا، بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ اور مجھے امید ہے کہ وہ تمھیں بخش دے گا، تم پر رحم کرے گا اور تمھیں اپنی رحمت سے ڈھانپ دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت یعقوب نے ان کے لیے استغفار کو فضیلت والے وقت سحر تک موخر کر دیا تاکہ استغفار کامل ترین اور قبولیت کے قریب ترین ہو۔
{فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ (99) وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (100)}
پس جب داخل ہوئے وہ اوپر یوسف کے تو اس نے جگہ دی اپنے پاس اپنے ماں باپ کو اور کہا، داخل ہو تم مصر میں اگر چاہا اللہ نے امن سے
(99) اور اس نے اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو اوپر تخت کےاورگر پڑے وہ سب واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئےاور یوسف نے کہا، اے میرے باپ! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی جو اس سے پہلے
(دیکھا) تھا، تحقیق کر دیا ہے اسے میرے رب نے سچااور تحقیق احسان کیا اس نے میرے ساتھ جب اس نے نکالا مجھے قید خانے سے اور لے آیا تمھیں
(یہاں ) صحرا سے، بعد اس کے کہ اختلاف ڈال دیا تھا شیطان نے درمیان میرے اور درمیان بھائیوں کے، بے شک میرا رب خوب تدبیر کرنے والا ہے واسطے اس کے جو وہ چاہتا ہے، بے شک وہی ہے خوب جاننے والا بڑا حکمت والا
(100)
#
{99} أي: {فلمَّا} تجهَّز يعقوب وأولاده وأهلهم أجمعون وارتحلوا من بلادهم قاصدين الوصول إلى يوسف في مصر وسُكْناها، فلمَّا وصلوا إليه و {دخلوا على يوسفَ آوى إليه أبويهِ}؛ أي: ضمَّهما إليه واختصَّهما بقربه وأبدى لهما من البرِّ والإحسان والتبجيل والإعظام شيئاً عظيماً. {وقال} لجميع أهله: {ادخُلوا مصر إن شاء الله آمنين}: من جميع المكاره والمخاوف. فدخلوا في هذه الحال السارَّة، وزال عنهم النَّصَبُ ونكد المعيشة وحَصَلَ السرور والبهجة.
[99] ﴿فَلَمَّا ﴾ جب یعقوبu، ان کے بیٹے اور تمام گھر والے تیار ہو کر اپنے ملک فلسطین سے روانہ ہوئے، ان کا مقصد مصر میں حضرت یوسفu کے پاس پہنچ کر وہاں آباد ہونا تھا۔ پس جب وہ مصر پہنچ گئے
﴿دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ ﴾ ’’وہ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی‘‘ یعنی حضرت یوسفu نے اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ بٹھایا ان کو اپنا قرب عطا کیا اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک اور نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آئے۔
﴿وَقَالَ ﴾ اور اپنے تمام گھر والوں سے کہا:
﴿ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ ﴾ ’’داخل ہو مصر میں ، اگر اللہ نے چاہا، بے خوف ہو کر‘‘ ہر قسم کے خطرناک حالات اور سختیوں سے محفوظ ہو۔ وہ اسی حالت میں مصر میں داخل ہوئے ان سے تمام سختی اور معاشی تنگی دور ہوگئی اور بہجت و سرور حاصل ہوگیا۔
#
{100} {ورفع أبويه على العرشِ}؛ أي: على سرير الملك ومجلس العزيز، {وخرُّوا له سجَّداً}؛ أي: أبوه وأمه وإخوته سجوداً على وجه التعظيم والتبجيل والإكرام. {وقال} لمَّا رأى هذه الحال ورأى سجودهم له: {يا أبتِ هذا تأويلُ رؤيايَ من قبلُ}: حين رأى أحد عشر كوكباً والشمس والقمر له ساجدين؛ فهذا وقوعُها الذي آلتْ إليه ووصلت. {قد جَعَلها ربِّي حقًّا}: فلم يَجْعَلْها أضغاثَ أحلام. {وقد أحسنَ بي}: إحساناً جسيماً، {إذْ أخْرَجَني من السجن وجاء بكم من البَدْو}: وهذا من لطفه وحسنِ خطابه عليه السلام؛ حيث ذَكَرَ حاله في السجن، ولم يَذْكُرْ حاله في الجبِّ؛ لتمام عفوِهِ عن إخوته، وأنَّه لا يذكر ذلك الذنب، وأنَّ إتيانكم من البادية من إحسان الله إليَّ، فلم يقل جاء بكم من الجوع والنصب، ولا قال: أحسنَ بكم، بل قال: أحسن بي، جعل الإحسان عائداً إليه؛ فتبارك من يختصُّ برحمتِهِ من يشاءُ من عبادِهِ ويَهَبُ لهم من لدنه رحمةً إنه هو الوهاب، {من بعدِ أن نَزَغَ الشيطان بيني وبينَ إخوتي}: فلم يقل: نَزَغَ الشيطانُ إخوتي، بل كأنَّ الذنب والجهل صدر من الطرفين؛ فالحمد لله الذي أخزى الشيطان ودَحَرَهُ وجَمَعَنا بعد تلك الفرقة الشاقة. {إنَّ ربِّي لطيفٌ لما يشاء}: يوصِلُ برَّه وإحسانه إلى العبد من حيث لا يشعر ويوصِلُه إلى المنازل الرفيعة من أمور يكرهها. {إنَّه هو العليمُ}: الذي يعلم ظواهر الأمور وبواطِنَها وسرائر العباد وضمائرهم. {الحكيم}: في وضعه الأشياء مواضعها وسَوْقِهِ الأمور إلى أوقاتها المقدَّرة لها.
[100] ﴿وَرَفَ٘عَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر‘‘ یعنی انھیں شاہی تخت اور مقام عزت پر بٹھایا
﴿ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا﴾ ’’اور سب اس کے آگے سجدے میں گرپڑے۔‘‘ یعنی یوسفu کے والدین اور ان کے بھائی ان کی تعظیم اور عزت و اکرام کے لیے ان کے سامنے سجدے میں گر گئے۔
﴿وَقَالَ﴾ جب یوسفu نے انھیں اس حالت میں دیکھا کہ وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں تو کہنے لگے:
﴿ یٰۤاَ بَتِ هٰؔذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَ٘ایَ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’ابا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی جو اس سے پہلے دیکھا تھا‘‘ یعنی جب یوسفu نے خواب میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انھیں سجدہ کر رہے ہیں ۔ یہ تھی اس خواب کی تعبیر، جو اس مقام پر پہنچ کر پوری ہوئی۔
﴿ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا ﴾ ’’میرے رب نے اسے سچ کردیا۔‘‘ یعنی میرے رب نے اس خواب کو حقیقت بنا دکھایا اور اسے خواب پریشان نہ بنایا۔
﴿ وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ ﴾ ’’اور اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا‘‘
﴿ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ﴾ ’’جب اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم کو گاؤں سے
(یہاں ) لے آیا‘‘ یہ یوسفu کی مہربانی اور حسن تخاطب ہے کہ انھوں نے اپنے بھائیوں کے لیے اتمام عفو کی خاطر اپنی حالت قید کا تو ذکر کیا مگر اندھے کنوئیں میں ان پر جو کچھ گزری، اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ انھوں نے اپنے بھائیوں کے قصور کا ذکر کیا نیز ان کو صحرا سے مصر لانے میں اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر کیا۔
یوسفu نے یہ پیرایہ بھی اختیار نہیں کیا کہ ’’تمھیں بھوک اور بدحالی سے نکال کر یہاں لایا‘‘ نہ یہ کہا ’’اس نے تم پر احسان کیا‘‘ بلکہ کہا ’’اس نے مجھ پر احسان فرمایا‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو اپنی طرف لوٹایا۔ نہایت بابرکت ہے وہ ذات جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنی رحمت کے لیے مختص کر لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی طرف سے بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے وہ بہت زیادہ نوازشات کرنے والا ہے۔
﴿ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّ٘زَغَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ﴾ ’’بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا‘‘ اور یہ نہیں کہا:
﴿نَّ٘زَغَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ﴾ ’’شیطان نے میرے بھائیوں کو بہکا دیا‘‘ بلکہ پیرایہ یہ استعمال کیا گیا گویا گناہ اور جہالت دونوں طرف سے صادر ہوئی… تمام ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے شیطان کو رسوا کر کے دھتکار دیا اور اس انتہائی تکلیف دہ جدائی کے بعد اس نے ہمیں پھر اکٹھا کر دیا۔
﴿ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ﴾ ’’بے شک میرا رب تدبیر سے کرتا ہے جو چاہتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے کرم اور احسان سے اس طرح نوازتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا اور بعض ناپسندیدہ امور کے ذریعے سے بلند ترین منازل پر پہنچا دیتا ہے۔
﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ﴾ ’’بے شک وہ جاننے والا۔‘‘ یعنی وہ تمام معاملات کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے تو وہ، بندوں کے ضمیر میں نہاں رازوں کو بھی جانتا ہے۔
﴿ الْحَكِیْمُ ﴾وہ حکمت والا ہے اور تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے اور تمام امور کو ان کے اوقات مقررہ پر وقوع پذیر کرتا ہے۔
{رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (101)}
اے میرے رب! تحقیق دی تو نے مجھے کچھ بادشاہی اور سکھائی تو نے مجھے تعبیر خوابوں کی، اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے! تو ہی میرا کار ساز ہے دنیا اور آخرت میں تو فوت کر مجھے مسلمان اور ملا دے مجھے ساتھ صالحین کے
(101)
#
{101} لما أتمَّ الله ليوسف ما أتمَّ من التمكين في الأرض والملك وأقرَّ عينه بأبويه وإخوته وبعد العلم العظيم الذي أعطاه الله إيَّاه، فقال مقرًّا بنعمة الله شاكراً لها داعياً بالثبات على الإسلام: {ربِّ قد آتيتني من الملك}: وذلك أنَّه كان على
خزائن الأرض وتدبيرها ووزيراً كبيراً للملك، {وعلَّمْتَني من تأويل الأحاديث}؛ أي: من تأويل أحاديث الكتب المنزَلَة وتأويل الرؤيا وغير ذلك من العلم. {فاطر السمواتِ والأرضِ ... توفَّني مسلماً}؛ أي: أدمْ عليَّ الإسلام وثبِّتْني عليه حتى توفَّاني عليه، ولم يكن هذا دعاءً باستعجال الموت. {وألحِقْني بالصَّالحين}: من الأنبياء الأبرار والأصفياء الأخيار.
[101] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسفu کو زمین میں مکمل اقتدار عطا کر دیا اور ان کے والدین اور بھائیوں کی ملاقات کے ذریعے سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیں تو یوسفu نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے،
اس پر اس کا شکر ادا کرتے اور اسلام پر ثبات اور استقامت کی دعا کرتے ہوئے کہا: ﴿ رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ ﴾ ’’اے رب تو نے مجھے بادشاہی سے حصہ دیا‘‘ یہ انھوں نے اس لیے کہا تھا کہ وہ زمین کے خزانوں کے منتظم اور بادشاہ کے بہت بڑے وزیر تھے۔
﴿ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ﴾ ’’اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔‘‘ یعنی تو نے مجھے آسمانی کتاب کی تفسیر اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا
﴿ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١۫ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ١ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا ﴾ ’’اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے… مجھے اسلام پر موت دے‘‘ یعنی مجھے اسلام پر قائم اور ثابت قدم رکھ حتیٰ کہ اسلام ہی پر مجھے وفات دے۔ یہ دعا موت کے جلدی آنے کی دعا نہیں ہے۔
﴿ وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور مجھے نیک بندوں میں داخل کردیجیے۔‘‘ یعنی مجھے انبیاء و ابرار، اپنے چنے ہوئے اور بہترین بندوں میں شامل کر۔
{ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ (102)}
یہ کچھ خبریں ہیں غیب کی، ہم وحی کرتے ہیں یہ آپ کی طرف اور نہیں تھے آپ پاس ان
(برادران یوسف) کے جب اتفاق کیا تھا انھوں نے اپنے معاملے پراور وہ مکرو فریب کرتے تھے
(102)
#
{102} لما قصَّ الله هذه القصة على محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ قال الله له: {ذلك}: [الإنباء] الذي أخبرناك به {من أنباءِ الغيبِ}: الذي لولا إيحاؤُنا إليك؛ لما وصل إليك هذا الخبر الجليل، فإنك لم تكن حاضراً {لديهم إذ أجمعوا أمْرَهم}؛ أي: إخوة يوسف. {وهم يمكُرون}: به حين تعاقدوا على التفريق بينه وبين أبيه في حالةٍ لا يطَّلع عليها إلا الله تعالى ولا يمكِّنُ أحداً أن يصل إلى علمها إلا بتعليم الله له إيَّاها؛ كما قال تعالى لما قصَّ قصةَ موسى وما جرى له؛ ذَكَرَ الحال التي لا سبيل للخلق إلى علمها إلاَّ بوحيه، فقال: {وما كنتَ بجانبِ الغربيِّ إذْ قَضَيْنا إلى موسى الأمرَ وما كنت من الشاهدين ... } الآيات؛ فهذا أدلُّ دليل على أنَّ مَن جاء بها رسول الله حقًّا.
[102] اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول مصطفیe پر یہ قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ خبر جس سے ہم نے آپ کو آگاہ کیا ہے۔
﴿ مِنْ اَنْۢبـَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ ﴾ ’’غیب کی خبریں ہیں ، جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں ‘‘ اور اگر ہم آپ کی طرف وحی نہ کرتے تو اس جلیل القدر واقعہ کی خبر آپ تک نہ پہنچ سکتی۔
﴿ وَمَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ ﴾ ’’اور آپ ان کے پاس موجود نہ تھے۔‘‘
﴿ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ ﴾ ’’جب وہ اتفاق کر رہے تھے اپنے کام پر‘‘ یعنی یوسف کے بھائی فریب پر اتفاق کر رہے تھے۔
﴿ وَهُمْ یَمْؔكُرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ چال چل رہے تھے۔‘‘ جبکہ ان کے اور ان کے باپ کے درمیان جدائی ڈالنے کے لیے اس طرح سازش کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اطلاع نہ تھی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہی تھا کہ اصل واقعہ معلوم کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اصل واقعہ سے آگاہ نہ کرے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰu کا قصہ بیان کرنے کے بعد وہ حالات بیان فرمائے جن کا علم،
اللہ کی وحی کے بغیر مخلوق کو حاصل نہیں ہو سکتا تو وہاں فرمایا: ﴿ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْ٘غَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ…﴾ (القصص: 28؍44) ’’اور جب ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی تو آپ طور کے غربی جانب نہ تھے اور نہ آپ اس واقعہ کا مشاہدہ کرنے والے تھے۔‘‘ اور یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے۔
{وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ (103) وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (104) وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (105) وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (106) أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (107)}
اور نہیں اکثر لوگ، اگرچہ آپ حرص رکھیں ، ایمان لانے والے
(103)اور نہیں مانگتے آپ ان
(مشرکین مکہ) سے اوپر اس
(تبلیغ) کے کوئی اجر، نہیں ہے وہ
(قرآن) مگر نصیحت جہان والوں کے لیے
(104)اور کتنی ہی نشانیاں ہیں
(توحید اور قدرت الٰہی کی) آسمانوں اور زمین میں کہ وہ گزرتے ہیں ان پر سےاور وہ ان سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں
(105) اور نہیں ایمان لاتے اکثر ان کے، ساتھ اللہ کے مگر وہ مشرک ہی ہوتے ہیں
(106) کیا پس وہ بے خوف ہیں اس سے کہ آئے ان کے پاس چھا جانے والا کوئی عذاب اللہ کا یا آئے ان کے پاس قیامت اچانک اور وہ نہ آگاہی رکھتے ہوں ؟
(107)
#
{103} يقول تعالى لنبيه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {وما أكثرُ الناس ولو حرصتَ}: على إيمانهم {بمؤمنينَ}: فإنَّ مداركهم ومقاصِدَهم قد أصبحت فاسدةً؛ فلا ينفعهم حرصُ الناصحين عليهم، ولو عدمت الموانع؛ بأنْ كانوا يعلِّمونهم ويدعونهم إلى ما فيه الخير لهم ودفع الشرِّ عنهم من غير أجرٍ ولا عوض، ولو أقاموا لهم من الشواهد والآيات الدالاَّتِ على صدقِهِم ما أقاموا.
[103] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے:
﴿ وَمَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ ﴾ ’’اور نہیں ہیں اکثر لوگ، اگرچہ آپ ان کے ایمان کی شدید خواہش رکھتے ہوں ۔‘‘
﴿ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’ایمان لانے والے‘‘ کیونکہ ان کے مدارک و مقاصد فاسد ہو چکے ہیں اس لیے خیر خواہوں کی خیر خواہی انھیں کوئی فائدہ نہیں دے گی اگرچہ موانع معدوم ہی کیوں نہ ہوں ، یعنی اگرچہ یہ خیر خواہ انھیں تعلیم دیتے رہیں انھیں ان امور کی طرف بلاتے رہیں جن میں ان کے لیے بھلائی اور ان سے شر کا دفعیہ ہے، خواہ یہ خیر خواہ اپنی صداقت پر شواہد، آیات اور دلائل ہی کیوں نہ پیش کریں ۔
#
{104} ولهذا قال: {وما تسألُهم عليه من أجرٍ إنْ هو إلاَّ ذِكْرٌ للعالمينَ}: يتذكَّرون به ما ينفعُهم لِيفعلوه، وما يضرُّهم ليترُكوه.
[104] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا تَسْـَٔؔلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور آپ ان سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، یہ تو صرف جہانوں کے لیے نصیحت ہے‘‘ اس کے ذریعے سے یہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کہ کون سی چیز فائدہ مند ہے تاکہ اس پر عمل کریں اور کون سی چیز نقصان دہ ہے تاکہ اسے چھوڑ دیں ۔
#
{105} {وكأيِّنْ}؛ أي: وكم {من آيةٍ في السمواتِ والأرض يمرُّون عليها}: دالَّة لهم على توحيد الله، {وهم عنها معرضونَ}.
[105] ﴿ وَؔكَاَیِّنْ ﴾ ’’اور کتنی ہی‘‘
﴿ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا ﴾ ’’نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں ، جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے‘‘ جو توحید الٰہی پر دلالت کرتی ہیں
﴿ وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ ’’اور یہ ان سے روگردانی کرتے ہیں ۔‘‘
#
{106} ومع هذا، إنْ وُجِدَ منهم بعضُ الإيمان، فلا {يؤمِنُ أكثرُهم بالله إلاَّ وهم مشركونَ}: فهم وإن أقرُّوا بربوبيَّةِ الله تعالى وأنَّه الخالق الرازق المدبِّر لجميع الأمور؛ فإنَّهم يشركون في ألوهيَّة الله وتوحيده.
[106] ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ ان میں سے کچھ لوگوں میں کچھ ایمان پایا بھی جاتا ہے تو
﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَ كْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’’ان اللہ کے ماننے والوں کی اکثریت مشرک ہے۔‘‘ یعنی وہ اگرچہ توحید ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے مگر وہ توحید الوہیت میں شرک کرتے ہیں ۔
#
{107} فهؤلاء الذين وصلوا إلى هذه الحال لم يبقَ عليهم إلا أنْ يَحِلَّ بهم العذاب ويفجأهم العقابُ وهم آمنون، ولهذا قال: {أفأمِنوا}؛ أي: الفاعلون لتلك الأفعال، المعرضون عن آيات الله، {أن تأتِيَهُم غاشيةٌ من عذاب الله}؛ أي: عذابٌ يغشاهم ويَعُمُّهم ويستأصِلُهم، {أو تأتيهمُ الساعةُ بغتةً}؛ أي: فجأة، {وهم لا يشعُرونَ}؛ أي: فإنَّهم قد استوجبوا لذلك؛ فَلْيتوبوا إلى الله، ويَتْرُكوا ما يكون سبباً في عقابهم.
[107] پس یہ لوگ اب اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ان پر نزول عذاب کے سوا کوئی بات باقی نہیں رہی اور یہ کہ ان کے پاس اچانک عذاب آجائے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ اور مامون سمجھتے ہوں ۔بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَفَاَمِنُوْۤا ﴾ ’’کیا یہ بے خوف ہیں ۔‘‘ یعنی کیا ان افعال کا ارتکاب کرنے اور آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ
﴿ اَنْ تَاْتِیَهُمْ غَاشِیَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ ﴾ ’’ان پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہو، جو سب کو ڈھانپ لے‘‘ اور ان کی جڑ کاٹ دے۔
﴿اَوْ تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً ﴾ ’’یا ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے۔‘‘
﴿ وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اور ان کو خبر نہ ہو‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق بن چکے ہیں ۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ کریں اور ان اسباب کو ترک کر دیں جو ان کے لیے عذاب کا باعث ہیں۔
{قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (108) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا أَفَلَا تَعْقِلُونَ (109)}
(اے پیغمبر!) کہہ دیجیے، یہی ہے راستہ میرا، میں بلاتا ہوں
(تمھیں ) طرف اللہ کی، اوپر بصیرت کے ہوں میں اور وہ لوگ جنھوں نے میری پیروی کی اور پاک ہے اللہ
(شریکوں سے)اور نہیں میں مشرکوں میں سے
(108) اور نہیں بھیجے ہم نے پہلے آپ سے مگر مرد ہی، ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف، بستیوں کے رہنے والوں میں سے، کیا پس نہیں سير کی انھوں نے زمین میں ، پس دیکھتے وہ کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے؟ اور البتہ گھر آخرت کا بہت بہتر ہے واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، کیا پس نہیں عقل پکڑتے تم؟
(109)
#
{108} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {قل} للناس: {هذه سبيلي}؛ أي: طريقي التي أدعو إليها، وهي السبيل الموصلة إلى الله وإلى دار كرامته، المتضمنة للعلم بالحقِّ والعمل به وإيثاره، وإخلاص الدين لله وحده لا شريك له. {أدعو إلى الله}؛ أي: أحثُّ الخلق والعباد إلى الوصول إلى ربهم وأرغِّبهم في ذلك وأرهِّبهم مما يُبْعِدُهم عنه، ومع هذا؛ فأنا {على بصيرةٍ}: من ديني؛ أي: على علم ويقين من غير شكٍّ ولا امتراء ولا مِرْية. وكذلك {مَنِ اتَّبعني}: يدعو إلى الله كما أدعو على بصيرةٍ من أمره. {وسبحان الله}: عما نُسبَ إليه مما لا يليق بجلاله أو ينافي كماله. {وما أنا من المشركين}: في جميع أموري، بل أعبد الله مخلصاً له الدين.
[108] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے:
﴿ قُ٘لْ ﴾ ’’
(لوگوں سے) کہہ دیجیے!‘‘
﴿ هٰؔذِهٖ سَبِیْلِیْۤ ﴾ ’’یہ میرا راستہ ہے‘‘ جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں ، یہ راستہ اللہ تعالیٰ اور اس کے کرامت کے گھر تک پہنچاتا ہے جو علم حق، اس پر عمل کرنے، اس کو ترجیح دینے اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص دین کو متضمن ہے۔
﴿ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ﴾ ’’میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں تمام مخلوق اور تمام بندوں کو اپنے رب کے پاس پہنچنے پر آمادہ کرتا ہوں اور انھیں اس کی ترغیب دیتا ہوں اور انھیں ان تمام امور سے ڈراتا ہوں جو انھیں اللہ تعالیٰ سے دور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
﴿ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا﴾ ’’سمجھ بوجھ کر‘‘ یعنی میں اپنے دین کے بارے میں بغیر کسی شک و شبہ کے پورے علم و یقین پر ہوں ۔
﴿ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ ’’اور میرے متبعین بھی‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جیسے میں اللہ تعالیٰ کے معاملے میں پوری بصیرت اور یقین کے ساتھ اس کی طرف بلاتا ہوں ۔
﴿ وَسُبْحٰؔنَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ پاک ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے تمام امور کی نسبت سے پاک ہے جو اس کے کمال کے منافی ہیں اور اس کے جلال کے لائق نہیں ۔
﴿ وَمَاۤ اَنَا مِنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’ میں کسی بھی معاملے میں مشرکین میں شامل نہیں ‘‘ بلکہ دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں ۔
#
{109} ثم قال تعالى: {وما أرسلنا من قبلِكَ إلاَّ رجالاً}؛ أي: لم نرسل ملائكةً ولا غيرهم من أصناف الخلق؛ فلأيِّ شيءٍ يَسْتَغْرِبُ قومك رسالتك، ويزعُمون أنه ليس لك عليهم فضلٌ، فلك فيمَنْ قبلك من المرسلين أسوةٌ حسنةٌ. {نوحي إليهم من أهل القُرى}؛ أي: لا من البادية، بل من أهل القرى، الذين هم أكمل عقولاً وأصحُّ آراء، وليتبيَّن أمرهم ويتَّضح شأنهم. {أفلم يسيروا في الأرض}: إذا لم يصدِّقوا لقولك، {فينظروا كيفَ كان عاقبةُ الذين من قبلهم}: كيف أهلكهم اللهُ بتكذيبهم؛ فاحذروا أن تُقيموا على ما قاموا عليه، فيصيبكم ما أصابهم. {ولَدارُ الآخرة}؛ أي: الجنة وما فيها من النعيم المقيم، {خيرٌ للذين اتَّقَوْا}: الله في امتثال أوامره واجتناب نواهيه؛ فإنَّ نعيم الدُّنيا منغَّصٌ منكَّدٌ منقطعٌ، ونعيم الآخرة تامٌّ كامل لا يفنى أبداً، بل هو على الدوام في تزايدٍ وتواصل. عطاءً غير مجذوذ. {أفلا تعقلون}؛ أي: أفلا يكون لكم عقولٌ تؤثر الذي هو خير على الأدنى؟
[109] ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا ﴾ ’’اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مرد ہی رسول بنا کر بھیجے‘‘ یعنی ہم انسانوں کی ہدایت کے لیے فرشتے یا کوئی اور مخلوق نہیں بھیجتے۔ تب آپe کی قوم کو آپ کی رسالت میں کون سی چیز انوکھی نظر آرہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ان پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ پس آپ کے لیے انبیائے سابقین میں اسوۂ حسنہ ہے۔
﴿ نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْ٘قُ٘رٰى ﴾ ’’ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف،
(وہ) بستیوں کے رہنے والے ہیں‘‘ یعنی یہ انبیائے کرام صحراؤں میں رہنے والے نہیں تھے بلکہ بستیوں میں رہنے والے تھے جو سب سے زیادہ کامل عقل اور سب سے زیادہ صحیح رائے کے حامل تھے تاکہ ان کا معاملہ نہایت واضح اور ان کی شان نمایاں ہو۔
﴿ اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’کیا پس انھوں نے زمین کی سیر نہیں کی‘‘ جب وہ آپe کی بات کی تصدیق نہیں کرتے تو پھر کیا انھوں نے چل پھر کر نہیں دیکھا
﴿ فَیَنْظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’تو وہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔‘‘ یعنی اور وہ دیکھتے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا۔ لہذا تم بھی اس رویہ کو اختیار کرنے سے بچو جس رویے پر وہ قائم رہے ہیں ورنہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے گا جو ان پر نازل ہوا تھا۔
﴿ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور آخرت کا گھر‘‘ یعنی جنت اور جنت کی دائمی نعمتیں
﴿ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ ’’ان لوگوں کے لیے بہتر ہیں جو پرہیز گار ہیں ‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کیونکہ دنیا کی نعمتیں منقطع ہو کر ختم ہو جانے والی ہیں ۔ آخرت کی نعمت کامل اور کبھی نہ فنا ہونے والی ہے بلکہ وہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے
﴿عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ﴾ (ھود:11؍108) ’’یہ
(اللہ تعالیٰ کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی‘‘
﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’کیا تم سمجھتے نہیں ۔‘‘ یعنی کیا تمھارے پاس اتنی سی بھی عقل نہیں جو اعلیٰ کو ادنیٰ پر ترجیح دے سکے۔
{حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (110) لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (111)}.
یہاں تک کہ جب نا امید ہو گئے رسول اور انھوں نے گمان کیا
(وسوسے کی حد تک) کہ بے شک وہ جھوٹ بولے گئے تو آگئی ان کے پاس مدد ہماری ، پھر نجات دی گئی اسے جسے ہم چاہتے تھےاور نہیں پھیرا جاتا عذاب ہمارا مجرم قوم سے
(110) ، البتہ تحقیق ہے ان کے بیان
(احوال) میں عبرت واسطے عقل والوں کے، نہیں ہے یہ
(قرآن) ایسی بات کہ گھڑ لی گئی ہو لیکن
(یہ تو) تصدیق ہے اس کی جو اس سے پہلے ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
(111)
#
{110} يخبر تعالى أنه يرسل الرسل الكرام، فيكذِّبهم القوم المجرمون اللئام، وأن الله تعالى يمهلهم ليرجعوا إلى الحقِّ، ولا يزال الله يمهلهم حتى إنَّه تصلُ الحال إلى غاية الشدَّة منهم على الرسل، حتى إنَّ الرسل على كمال يقينهم وشدَّة تصديقهم بوعد الله ووعيده ربَّما أنه يخطُرُ بقلوبهم نوعٌ من الإياس ونوعٌ من ضعف العلم والتصديق؛ فإذا بلغ الأمر هذه الحال؛ {جاءهُم نصرُنا فنُجِّي مَن نشاء}: وهم الرسل وأتباعهم، {ولا يُرَدُّ بأسُنا عن القوم المجرمين}؛ أي: ولا يُرَدُّ عذابنا عمن اجترم وتجرأ على الله؛ فما لهم من قوَّةٍ ولا ناصر.
[110] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا ہے ان کی قوم کے مجرم اور لئیم لوگ انھیں جھٹلا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں مہلت پر مہلت دیے چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کرام پر ان کی سختیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور انبیاء و مرسلین یقین کامل اور اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید کی تصدیق کے باوجود کبھی کبھی ان کے دل میں مایوسی کا کوئی خیال سا گزرتا ہے اور ان کے علم اور یقین میں ایک قسم کا ضعف سا آجاتا ہے۔ جب معاملہ اس حال کو پہنچ جاتا ہے
﴿ جَآءَهُمْ نَصْرُنَا ١ۙ فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآءُ﴾ ’’تو ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی، پس جن کو ہم نے چاہا، نجات دے دی گئی‘‘ اس سے مراد انبیاء و رسل اور ان کے متبعین ہیں ۔
﴿ وَلَا یُرَدُّ بَ٘اْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھر انہیں کرتا۔‘‘ یعنی ہمارے عذاب کو مجرموں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جرأت کرنے والے پر سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کوئی پیش چل سکے گی نہ ان کی کوئی مدد کر سکے گا۔
#
{111} {لقد كان في قصصهم}؛ أي: قصص الأنبياء والرسل مع قومهم {عبرةٌ لأولي الألباب}؛ أي: يعتبرون بها أهل الخير وأهل الشر، وأنَّ مَن فعل مثلَ فعلهم؛ ناله ما نالهم من كرامة أو إهانة، ويعتبرون بها أيضاً ما لله من صفات الكمال والحكمة العظيمة، وأنَّه الله الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له وحده لا شريك له. وقوله: {ما كان حديثاً يُفْتَرى}؛ أي: ما كان هذا القرآن الذي قصَّ الله به عليكم من أنباء الغيب ما قصَّ من الأحاديث المُفْتَراة المختَلَقَة. {ولكنْ}: كان {تصديقَ الذي بين يديه}: من الكتب السابقة؛ يوافقها ويشهدُ لها بالصحة، {وتفصيلَ كلِّ شيءٍ}: يحتاجُ إليه العباد من أصول الدين وفروعه ومن الأدلَّة والبراهين. {وهدىً ورحمةً لقوم يؤمنون}: فإنَّهم بسبب ما يحصُلُ لهم به من العلم بالحقِّ وإيثاره يحصُلُ لهم الهدى، وبما يحصُلُ لهم من الثواب العاجل والآجل تحصُلُ لهم الرحمة.
[111] ﴿لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ ﴾ ’’ان کے قصے میں ۔‘‘ یعنی انبیاء و رسل کے اپنی قوم کے ساتھ قصے میں
﴿ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ’’عقل والوں کے لیے عبرت ہے‘‘ یعنی وہ اہل خیر اور اہل شر کے بارے میں عبرت لیتے ہیں ۔ جو کوئی ان جیسے افعال کا ارتکاب کرے گا تو اپنے فعل کے مطابق کرامت یا اہانت کا مستحق ٹھہرے گا۔ وہ ان قصوں میں سے اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی عظیم حکمت کا استنباط کرتے ہیں ۔ نیز وہ ان قصوں سے اس حقیقت کو اخذ کرتے ہیں کہ اللہ واحد کے سوا عبادت کسی کے لیے مناسب نہیں ۔
﴿ مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى ﴾ ’’یہ ایسی بات نہیں جو بنالی گئی ہو۔‘‘ یعنی یہ قرآن جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں غیب کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے، گھڑی ہوئی باتوں اور خود ساختہ کہانیوں پر مشتمل نہیں ہے۔
﴿ وَلٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ ﴾ ’’بلکہ جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق کرنے والا ہے۔‘‘ بلکہ کتب سابقہ کی تصدیق، ان کی موافقت اور ان کی صحت کی شہادت پر مشتمل ہے۔
﴿ وَتَفْصِیْلَ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور ہر چیز کی تفصیل ہے۔‘‘ بندے جن کے محتاج ہیں ،
مثلاً:دین کے اصول و فروع اور دلائل و براہین۔
﴿ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘‘ یعنی اس سبب سے کہ اس قرآن کے ذریعے سے انھیں جو حق کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ حق کو ترجیح دیتے ہیں … انھیں ہدایت حاصل ہوتی ہے اور انھیں جو دنیاوی یا اخروی ثواب حاصل ہوتا ہے اس کے ذریعے سے رحمت سے نوازے جاتے ہیں ۔
ضمیمہ : اس عظیم قصہ میں بعض فوائد اور عبرتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر یہ مشتمل ہے۔ اس قصہ کی ابتدا میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ نَحْنُ نَقُ٘صُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْ٘قَ٘صَصِ ﴾ ’’ہم آپ پر بہترین قصہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ اور فرمایا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىِٕلِیْ٘نَ ﴾ ’’یوسف اوراس کے بھائیوں (کے واقعے) میں ، پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ اور سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ ﴾ ’’ان کے واقعات میں عبرتیں ہیں ۔‘‘ یہ فوائد ان فوائد کے علاوہ ہیں جو (سورت کی تفسیر کے دوران) گزشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں ۔
(۱) یہ قصہ سب سے اچھا، سب سے واضح اور سب سے صریح قصہ ہے کیونکہ یہ مختلف انواع کے انتقالات پر مشتمل ہے، مثلاً:ایک حال سے دوسرے حال میں ، ایک امتحان سے دوسرے امتحان میں ، امتحان سے اللہ تعالیٰ کی نوازشات میں ، ذلت سے عزت میں ، غلامی سے بادشاہی میں ، تفرقہ و تشتت سے اجتماع و اتحاد میں ، حزن و غم سے مسرت و سرور میں ، فراخی سے قحط میں ، قحط سے شادابی میں ، تنگی سے وسعت میں اور انکار سے اقرار میں انتقال۔ پس نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جس نے یہ قصہ نہایت خوبصورت اور واضح اسلوب میں بیان کیا۔
(۲) اس سورۂ مبارکہ میں خواب کی تعبیر کی اصل بیان کی گئی ہے کیونکہ علم تعبیر اہم علوم میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے یہ عطا کرتا ہے۔ غالب طور پر علم تعبیر، نام اور صفات میں مناسبت اور مشابہت پر مبنی ہے کیونکہ حضرت یوسفu نے اپنے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ روشنی کے تینوں ذرائع آسمان کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں اور انھی پر اس کے فوائد کا دارومدار ہے۔ اسی طرح انبیاء اور علماء زمین کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں ۔ جیسے اندھیروں میں ستاروں سے راہ نمائی لی جاتی ہے، اسی طرح گمراہی کی تاریکیوں میں انبیاء اور علماء راہ دکھاتے ہیں ۔ نیز حضرت یوسفu کے ماں اور باپ اصل ہیں اور ان کے بھائی فرع ہیں ۔ پس مناسبت کا تقاضا یہ ہے کہ اصل، روشنی میں بھی اپنی فرع سے سب سے زیادہ بڑا ہو اور حجم کے اعتبار سے بھی عظیم تر۔ اس لیے سورج سے یوسف کی ماں ، چاند سے ان کے باپ اور ستاروں سے ان کے بھائی مراد ہیں اور ان میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ الشمس ایک مونث لفظ ہے لہذا اس کی مناسبت ماں سے ہے۔ القمر اور الکواکب مذکر ہیں اس لیے ان کی مناسبت باپ اور بھائیوں سے ہے۔
نیز اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ بھی ہے کہ سجدہ کرنے والا مسجود لہ، کے لیے معظم و محترم اور مسجود بھی معظم و محترم ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسفu اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے نزدیک نہایت معظم اور محترم ہوں گے اور اس کا لازم یہ ہے کہ وہ علم اور دیگر فضائل کے اعتبار سے صاحب فضیلت اور چنے ہوئے شخص ہوں گے اس لیے ان کے والد نے کہا تھا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ﴾ (یوسف:12؍6) ’’اور اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور تجھے باتوں کی تعبیر کا علم سکھا دے گا۔‘‘
اور دونوں نوجوان قیدیوں کے خواب میں مناسبت یہ ہے کہ پہلے نوجوان نے خواب دیکھا کہ وہ شراب کشید کر رہا ہے اور وہ شخص جو شراب کشید کرتا ہو وہ عادۃً دوسروں کا خادم ہوتا ہے، شراب دوسروں کے لیے کشید کی جاتی ہے اس لیے یوسفu نے اس کی یہ تعبیر کی کہ وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور یہ چیز قید سے اس کی رہائی کو متضمن ہے۔
یوسفu نے دوسرے نوجوان کے خواب کی تعبیر، جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں جنھیں پرندے کھا رہے ہیں … یہ کی کہ اس کے سر کی کھال، گوشت اور مغز وغیرہ جنھیں وہ اٹھائے ہوئے ہے، کھول کر ایسی جگہ پھینک دیا جائے گا جہاں گوشت خور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ یوسفu نے اس کے احوال کو دیکھ کر اس کے خواب کی یہ تعبیر کی کہ اس کو قتل کر دیا جائے گا اور قتل کرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکایا جائے گا۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب قتل کے بعد اسے صلیب پر چڑھایا گیا ہو۔
یوسفu نے بادشاہ کے خواب، جس میں اس نے گائیں اور اناج کی بالیاں دیکھی تھیں … کی تعبیر شادابی اور قحط سالی سے کی۔ اس میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ رعایا کے احوال اور اس کے مصالح کا دارومدار بادشاہ پر ہوتا ہے اگر بادشاہ ٹھیک ہے تو رعایا بھی درست رہے گی اگر بادشاہ خراب ہے تو رعایا میں خرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اسی طرح سال بہ سال حالات کے ساتھ رعایا کے احوال مربوط ہیں ، رعایا کی درستی، ان کا معاشی استحکام اور عدم استحکام کا دارومدار سال بہ سال (موسمی) حالات پر ہے۔ رہی گائیں تو ان کے ذریعے سے زمین میں ہل چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے آبپاشی کی جاتی ہے، اگر شادابی کا سال ہو تو گائیں موٹی تازی ہو جاتی ہیں اور اگر قحط سالی ہو تو گائیں دبلی اور لاغر ہو جاتی ہیں ۔ اسی طرح شادابی کے سالوں میں اناج کے خوشے سرسبز اور بکثرت ہوتے ہیں ۔ جبکہ خشک سالی میں یہ خوشے بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور سوکھ جاتے ہیں اور زمین کا بہترین اناج خوشوں ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
(۳) یہ قصہ نبوت محمدی (صلوات اللہ وسلامہ علی صاحبھا) کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رسول اکرمe نے اپنی قوم کے سامنے یہ طویل قصہ بیان کیا درآں حالیکہ آپ نے گزشتہ انبیاء کی کتابیں پڑھی تھیں نہ کسی سے درس لیا تھا۔ آپ کی قوم نے آپ کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ آپ کے شب و روز آپ کی قوم کے سامنے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ امی ہیں آپ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ قصہ کتب سابقہ میں مذکور قصہ سے مطابقت رکھتا ہے حالانکہ آپ وہاں موجود نہ تھے۔ جب یوسفu کے بھائی ان کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے اور سازش کر رہے تھے۔
(۴) شر کے اسباب سے دور رہنا مناسب ہے۔ اسی طرح ایسے امور کو چھپانا مناسب ہے جن سے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو جیسا کہ یعقوبu نے یوسفu سے فرمایا تھا: ﴿ لَا تَقْ٘صُصْ رُءْیَ٘اكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًا ﴾ ’’اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تجھے آزار پہنچانے کے لیے سازشیں کریں گے۔‘‘
(۵) کسی کے سامنے خیر خواہی کے طور پر ناپسندیدہ امور کا ذکر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًا ﴾ ’’وہ تجھے آزار پہنچانے کے لیے سازشیں کریں گے۔‘‘
(۶) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت اس کے تمام متعلقین، مثلاً:اس کے گھر والوں ، عزیز و اقارب اور دوست احباب سب کے لیے نعمت ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ اس نعمت میں سب کو شامل کر لیتا ہے اور ان کو بھی اس کے باعث وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ یعقوبu نے یوسفu کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَعَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ ﴾ ’’اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور باتوں کی تعبیر کا علم دے گا اور تجھ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا۔‘‘ جب یوسفu پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوا تو آل یعقوب کو بھی عزت و وقار اور ملک میں اقتدار حاصل ہوا اور یوسفu کے سبب سے انھیں بھی مسرت اور خوشی حاصل ہوئی۔
(۷) سورۂ مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عدل و انصاف تمام امور میں مطلوب و مقصود ہے، بادشاہ کا اپنی رعیت وغیرہ کے ساتھ ہی انصاف کا معاملہ کرنا ضروری نہیں بلکہ محبت اور ترجیح دینے کے معاملے میں والد اور اولاد کے مابین بھی عدل و انصاف مطلوب ہے اگر والد کے انصاف میں خلل واقع ہو جائے تو اس کے تمام معاملے میں خلل واقع ہو جاتا ہے اور حالات خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ جب محبت کے معاملے میں یعقوبu نے یوسف کو ان کے بھائیوں پر ترجیح دی تو بھائیوں کی طرف سے خود ان پر، ان کے باپ پر اور ان کے بھائی پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔
(۸) گناہوں کی نحوست سے بچنا چاہیے کیونکہ ایک گناہ اپنے ساتھ متعدد گناہ لاتا ہے اور بہت سے جرائم کے بعد اس گناہ کی تکمیل ہوتی ہے، چنانچہ جب یوسفu کے بھائیوں نے یوسفu اور ان کے باپ کے مابین جدائی ڈالنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت سے حیلے استعمال کیے، متعدد بار جھوٹ بولا، انھوں نے یوسفu کی قمیص اور خون کے سلسلے میں باپ کے سامنے باطل افسانہ گھڑا۔ ان کے اس افسانے اور عشاء کے وقت روتے ہوئے آنے میں نرا جھوٹ تھا اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ اس مدت کے دوران اس بارے میں بہت بحث و تمحیص ہوئی ہو بلکہ شاید یہ بحث اس وقت تک ہوتی رہی ہو جب تک کہ وہ یوسفu کے ساتھ اکٹھے نہ ہوئے اور جب کبھی بحث ہوتی ہے تو جھوٹی خبریں اور افترا پردازی ضرور ہوتی ہے۔ یہ گناہ کی نحوست اور اس کے آثار ہیں ۔
(۹) بندے کے احوال میں ابتدائی نقص میں عبرت نہیں ہوتی بلکہ کمال انتہا میں عبرت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یعقوبu کے بیٹوں سے ابتدائی طور پر جو کچھ صادر ہوا وہ نقص کا سب سے بڑا سبب اور ملامت کا موجب تھا مگر اس کی انتہا، خالص توبہ اور یوسفu اور ان کے باپ کی طرف سے کامل معافی، مغفرت اور رحمت کی دعا پر ہوئی اور جب بندہ اپنے حق کو معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
اس لیے صحیح ترین قول یہ ہے کہ یوسفu کے بھائی نبی تھے اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ ﴾ (النساء: 4؍163) ’’اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف۔‘‘ یہاں ﴿الْاَسْبَاطِ﴾ سے مراد یعقوبu کے بارہ بیٹے اور ان کی اولاد ہے۔ نیز ان کی نبوت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یوسفu نے اپنے خواب میں ان کو روشن ستاروں کے طور پر دیکھا اور ستاروں میں روشنی اور راہ نمائی ہوتی ہے( برادران یوسف کی نبوت کی یہ ’’دلیلیں ‘‘ جن سے فاضل مفسر نے استدلال کیا ہے، کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں ۔ ان کے مقابلے میں عدم نبوت کی دلیل زیادہ واضح ہے، انھوں نے ایک ایسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا جس میں چھوٹے معصوم بچے کے ساتھ سنگ دلانہ اقدام اور ظلم و ستم ہے، قطع رحمی ہے، والدین کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی ہے، جھوٹ کا ارتکاب ہے، وغیرہ وغیرہ۔ انبیاءo سے ان حرکتوں کا صدور ممکن ہے؟ (مزید دیکھیے تفسیر فتح القدیر و ابن کثیر، تفسیر سورۂ یوسف آیت: 10،9) علاوہ ازیں ’’اوحینا‘‘ کے لفظ سے بھی نبوت پر استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا، اس لیے کہ یہ لفظ غیر انبیاء کے لیے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے، ص۔ي) اور یہ انبیاء کے اوصاف ہیں اور اگر وہ نبی نہیں تھے تو وہ راہ نمائی کرنے والے علماء تھے۔
(۱۰) اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسفu کو علم، حلم، مکارم اخلاق اور اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت سے نوازا۔ نیز یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نوازش اور عنایت ہی تھی کہ انھوں نے اپنے خطا کار بھائیوں کو فوراً معاف کر دیا اور اس معافی کی تکمیل یہ کہہ کر کر دی کہ اب وہ ان کا کوئی مواخذہ کریں گے نہ اس پر انھیں کوئی عار دلائیں گے، پھر حضرت یوسفu کا اپنے ماں باپ کے ساتھ عظیم نیکی کرنا اور اپنے بھائیوں بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔
(۱۱) کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے خفیف تر اور چھوٹی ہوتی ہیں ۔ (اگر دو برائیوں میں سے ایک برائی کا ارتکاب ناگزیر ہو تو) اس برائی کا ارتکاب کرنا جس کا ضرر کم تر ہو، اس برائی کے ارتکاب سے اولیٰ و افضل ہے جس کا ضرر بڑا ہے۔ یوسفu کے بھائیوں میں جب حضرت یوسفu کے قتل یا ان کو کہیں دور زمین میں پھینکنے پر اتفاق ہوگیا تو ان میں سے ایک نے کہا: ﴿ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِیْ غَیٰؔبَتِ الْجُبِّ ﴾ ’’یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں میں پھینک دو۔‘‘ گویا اس کی تجویز سب سے بہتر اور نرم تجویز تھی۔ جس کے سبب سے ان کے بھائیوں سے ایک بہت بڑا گناہ ٹل گیا اور یہ بڑا گناہ ایک خفیف تر گناہ میں منتقل ہوگیا۔
(۱۲) جب کوئی چیز کاروبار میں دست بدست متداول ہو جائے اور وہ مال شمار ہونے لگے اور کاروبار کرنے والے کو اس کے غیر شرعی ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے، اس میں خدمت کرنے والے، اس سے مفاد اٹھانے والے اور اس کو استعمال میں لانے والے کے لیے کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت یوسف کے بھائیوں نے انھیں بیع حرام کی صورت میں فروخت کیا تھا، یہ بیع قطعاً جائز نہ تھی، پھر حضرت یوسف کو خریدنے والا قافلہ انھیں لے کر مصر چلا گیا اور وہاں لے جا کر فروخت کر دیا اور وہ اپنے آقا کے پاس غلام کے طور پر رہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو ’’آقا‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حضرت یوسفu اس کے پاس ایک مکرم غلام کے طور پر رہتے رہے۔
(۱۳) ان عورتوں کے ساتھ خلوت سے بچنا چاہیے جن سے فتنے کا خوف ہو۔ اسی طرح ایسی محبت سے بھی بچنا چاہیے جس سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ حضرت یوسفu کے ساتھ خلوت اور ان کے ساتھ اس کی شدید محبت کے سبب سے ہوا، محبت نے اس عورت کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اس نے حضرت یوسف کو پھسلانے کے لیے ڈورے نہیں ڈالے، پھر ان پر بہتان لگایا اور یوسفu اس عورت کے بہتان کے سبب سے طویل مدت تک قید میں رہے۔
(۱۴) یوسفu نے اس عورت کے ساتھ ارادہ کیا پھر اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کر دیا۔ اس ترک ارادہ نے حضرت یوسف، کو اللہ تعالیٰ کے اور قریب کر دیا۔ کیونکہ اس قسم کا ارادہ نفس امارہ کے اسباب میں شمار ہوتا ہے جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور اکثر لوگوں کی یہی فطرت ہے۔پس جب انھوں نے اس ارادے کا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت کے ساتھ تقابل کیا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت نفس امارہ کے داعیے اور اس کی خواہش پر غالب آگئی۔ گویا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَ٘هَى النَّ٘فْ٘سَ عَنِ الْهَوٰى﴾ (النازعات: 79؍39) ’’جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا رہا۔‘‘ اور آپ رسول اللہe کے ارشاد کے مطابق ان سات قسم کے لوگوں میں سے ہیں جنھیں قیامت کے روز عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جس روز اس کے سائے کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا اور ان سات قسم کے لوگوں میں ایک وہ شخص ہوگا جسے حسن و جمال رکھنے والی اور منصب و حیثیت کی حامل کوئی عورت بدکاری کی دعوت دیتی ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے ’’میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس…الخ، حدیث: 660) اور وہ ارادہ جس پر بندہ قابل ملامت ہے، وہ ارادہ ہے جو دل میں جاگزیں ہو کر عزم بن جائے جس کے ساتھ بسا اوقات فعل مل جاتا ہے۔
(۱۵) جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو جاتا ہے اور وہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان، صدق اور اخلاص کی برہان کے ذریعے سے مختلف اقسام کی برائیوں ، بے حیائی اور گناہوں کے اسباب سے مدافعت کرتا ہے۔ یہ مدافعت اس کے ایمان اور اخلاص کی جزا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ١ؕ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ١ؕ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ (لنصرف) کے یہ معنی لام کے کسرے کے ساتھ ہیں اور اگر اسے لام کے فتح کے ساتھ پڑھا جائے (جیسا کہ متداول قراء ت میں ہے) تو اس کے معنی ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا اسے اپنے لیے چن لینا اور یہ خود اس کے اخلاص کو متضمن ہے، یعنی جب بندہ اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی اور بے حیائی سے پاک کر کے اسے اپنے لیے چن لیتا ہے۔
(۱۶) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا مقام دیکھے جہاں فتنہ اور معصیت کے اسباب موجود ہوں تو مقدور بھر وہاں سے نکلنے اور بھاگنے کی کوشش کرے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکے کیونکہ جب یوسفu پر اس عورت نے جس کے گھر میں وہ رہ رہے تھے، ڈورے ڈالنے شروع کیے تو وہ اس جگہ سے فرار ہو کر دروازے کی طرف بھاگے تاکہ وہ اس عورت کے شر سے بچ جائیں ۔
(۱۷) اشتباہ کے موقع پر قرائن سے کام لیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر خاوند اور بیوی گھر کے ساز و سامان کی ملکیت کے بارے میں جھگڑ پڑیں اور دونوں کے پاس اپنی ملکیت کا واضح ثبوت نہ ہو تو جو چیز مرد کے حال کے مطابق ہے وہ مرد کی ملکیت ہے اور جو عورت کے حال کے مطابق ہے وہ اس کی مالک ہے۔ اسی طرح اگر بڑھئی اور لوہار کسی اوزار کی ملکیت پر جھگڑ پڑیں اور دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ثبوت نہ ہو تو قرائن پر عمل کیا جائے گا۔ ملتی جلتی چیزوں اور نشان قدم میں قیافہ پر عمل کرنا بھی اسی باب میں شامل ہے۔ یوسفu کے گواہ نے قرینے کی گواہی دی تھی۔ اس نے قمیض کی پھٹن کو دیکھ کر قرینے کی گواہی دی اور قمیض کو پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھ کر حضرت یوسف کی صداقت اور اس عورت کے جھوٹے ہونے پر استدلال کیا۔
اس قاعدہ کی صحت پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت یوسفu کے بھائی کی خرجی میں سے گیہوں ناپنے والے پیالے کے پائے جانے سے استدلال کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور اقرار کے اس پر چوری کا حکم لگایا گیا۔ پس اگر مال مسروقہ چور کے قبضے میں پایا جائے، خاص طور پر جبکہ وہ چوری کرنے میں معروف ہو تو اس پر چوری کا حکم لگایا جائے گا اور یہ (عینی) شہادت سے زیادہ بلیغ شہادت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب کی قے کرتا ہے یا کوئی ایسی عورت، جس کا شوہر یا آقا نہیں ، حاملہ پائی جاتی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی بشرطیکہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے قرینے کے اس فیصلے کو شاہد سے موسوم کیا ہے۔ ﴿وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ﴾
(۱۸) حضرت یوسفu ظاہری اور باطنی حسن و جمال کے حامل تھے ان کا ظاہری حسن و جمال اس عورت کے لیے، جس کے گھر میں حضرت یوسفu تھے، اس امر کا موجب بنا جس کی تفصیل گزری اور اسی طرح ان کا حسن و جمال ان عورتوں کے لیے بھی، جن کو عزیز مصر کی بیوی نے ان کے ملامت کرنے پر اکٹھا کیا تھا، اس امر کا موجب بنا کہ انھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھیں : ﴿ مَا هٰؔذَا بَشَرًا١ؕ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’یہ شخص انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔‘‘
رہا ان کا باطنی حسن و جمال تو وہ ان کی عظیم عفت تھی۔ گناہ میں پڑنے کے بہت سے اسباب کے باوجود گناہ سے بچے رہے۔ اس کے بعد خود عزیز مصر کی بیوی اور ان عورتوں نے آپ کی عفت اور پاک دامنی کی شہادت دی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی نے کہا : ﴿ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ﴾ ’’میں نے اسے پھسلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ بچ نکلا‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ﴿ الْ٘ـٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ١ٞ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَ٘مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اب حق واضح ہو گیا ہے، میں نے ہی اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بے شک وہ سچا ہے‘‘ عورتوں نے کہا: ﴿ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍ ﴾ ’’حاشاللہ! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔‘‘
(۱۹) یوسفu نے معصیت کے مقابلے میں قید کو ترجیح دی۔ بندۂ مومن کے یہی شایان شان ہے کہ اگر وہ دو امور کے بارے میں کسی آزمائش میں مبتلا ہو جائے۔ ایک طرف کسی معصیت کا ارتکاب ہو اور دوسری طرف دنیاوی عقوبت تو وہ گناہ کی بجائے جو دنیا و آخرت میں سخت عقوبت کا موجب ہے، دنیاوی عقوبت کو ترجیح دے۔ ایمان کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بندہ کفر کی طرف لوٹنے کو، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے… اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔
(۲۰) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہی ہے کہ اسباب گناہ کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ کر اسی کی پناہ میں رہے اور اپنی قوت و اختیار سے دست بردار ہو جائے جیسا کہ یوسفu نے فرمایا تھا : ﴿ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْؔ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَ٘یْهِنَّ وَاَكُ٘نْ مِّنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہ ہٹایا تو میں ان کی چالوں میں آ کر جاہلوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘
(۲۱) جس طرح فراخی میں بندے پر اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا التزام واجب ہے اسی طرح تنگی میں بھی اس پر یہ التزام واجب ہے۔ حضرت یوسفu ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے جب وہ قید میں ڈال دیے گئے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت پر قائم رہے اور ان دو نوجوان قیدیوں کو (جو ان کے ساتھ قید میں ڈالے گئے تھے) توحید کی دعوت دی اور ان کو شرک سے روکا۔
یہ سیدنا یوسفu کی ذہانت تھی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ ان نوجوان قیدیوں میں ان کی دعوت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے… کیونکہ وہ دونوں حضرت یوسفu کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے چنانچہ ان کا قول تھا ﴿ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ اور وہ حضرت یوسفu کے پاس اپنے اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آئے اور حضرت یوسفu نے بھی دیکھا کہ وہ ان کے پاس اپنے خواب کی تعبیر جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں تو حضرت یوسفu نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو ان کے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے توحید کی دعوت دی تاکہ وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہوں ۔
سب سے پہلے آپ نے ان کے سامنے واضح کیا کہ جس نے آپ کو علم و کمال کے اس مقام پر پہنچایا، جسے وہ دیکھ رہے ہیں ، وہ ہے ایمان توحید اور ان لوگوں کی ملت کو چھوڑ دینا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ زبان حال سے ان کو توحید کی دعوت دینا ہے، پھر آنجناب نے ان کو زبان قال سے توحید کی دعوت دی۔ آپ نے ان کے سامنے شرک کی خرابی بیان کی اور اس کی دلیل اور برہان پیش کی اور دلیل و برہان ہی کے ساتھ ان کے سامنے حقیقت توحید کو بیان کیا۔
(۲۲) معاملات میں ، اہم ترین معاملے سے ابتدا کرنی چاہیے۔ جب مفتی سے کوئی سوال کیا جائے اور سائل اس سوال سے زیادہ کسی اور چیز کا ضرورت مند ہو تو مفتی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسے اس چیز کی تعلیم دے جس کا وہ زیادہ حاجت مند ہے۔ یہ معلم کی خیرخواہی، اس کی فطانت اور اس کے حسن تعلیم و ارشاد کی علامت ہے۔ جب نوجوان قیدیوں نے حضرت یوسفu سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ نے ان کو خواب کی تعبیر بتانے سے قبل اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی۔
(۲۳) اگر کوئی شخص کسی ناخوشگوار صورت حال اور کسی سختی میں گرفتار ہو جائے تو کسی ایسے شخص سے مدد لینا جو اس صورت حال سے نجات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہو یا اسے اپنے حال سے آگاہ کرے تو یہ مخلوق کے پاس شکوے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس کا تعلق امور عادیہ سے ہے۔ جو عرف عام میں لوگوں کی ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے سے سر انجام پاتے ہیں ۔ بنابریں یوسفu نے ان نوجوان قیدیوں میں سے جس کے رہا ہونے کی امید تھی، اس سے کہا: ﴿ اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ ﴾ ’’اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا‘‘
(۲۴) معلم کے لیے تاکید ہے کہ وہ تعلیم دینے میں کامل اخلاص سے کام لے اور اپنی تعلیم کو کسی سے معاوضہ میں مال و جاہ یا کوئی منفعت حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ تعلیم دینے میں خیرخواہی سے کام لے جب تک سائل کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے معلم کو تکلیف پہنچے، تعلیم دینے سے یا اس کی خیرخواہی کرنے سے انکار نہ کرے۔ یوسفu نے ان دو نوجوان قیدیوں میں سے جس کو تاکید کی تھی کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے مگر اسے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسفu کا ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ جب انھیں حضرت یوسفu کے پاس سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے اسی نوجوان کو بھیجا وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں پوچھنے کے لیے حضرت یوسفu کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت یوسفu نے محض اس بنا پر کہ اس نے ان کا ذکر اپنے آقا کے پاس نہیں کیا، اس پر ناراضی کا اظہار کیا نہ اس پر زجروتوبیخ کی بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اسے ہر لحاظ سے اس کے سوال کا مکمل جواب دیا۔
(۲۵) مسؤل کو چاہیے کہ وہ سوال کا جواب دیتے وقت سائل کی ایسے معاملے کی طرف راہنمائی کرے جو اس کے سوال سے متعلق اور اس کے لیے فائدہ مند ہو۔ اسے وہ راستہ دکھائے جس پر گامزن ہو کر وہ دین و دنیا میں فائدہ اٹھائے۔ یہ اس کی طرف سے کامل خیرخواہی، اس کی فطانت اور اس کا حسن ارشاد ہے۔ کیونکہ یوسفu نے بادشاہ مصر کو صرف اس کے خواب کی تعبیر بتانے پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی فرمائی کہ وہ شادابی کے سالوں میں بکثرت پیدا ہونے والے اناج اور محاصل کو ذخیرہ کرنے کے لیے کیا انتظامات کریں ۔
(۲۶) اگر کوئی شخص اپنے ذمے کسی تہمت کو دور کرنے اور اپنی براء ت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کا یہ فعل قابل ستائش ہے۔ جیسے جناب یوسفu نے اس وقت تک قید سے رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا جب تک کہ ان عورتوں کے احوال کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آپ کی براء ت نہ ہو جائے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔
(۲۷) ان آیات کریمہ سے علم، یعنی علم شریعت و احکام، علم تعبیر، علم تدبیر اور علم تربیت کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ نیز علم، ظاہری شکل و صورت سے افضل ہے خواہ یہ ظاہری شکل و صورت، حسن یوسف ہی کو کیوں نہ پہنچ جائے کیونکہ یوسفu کو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ابتلاء و محن اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے علم کے سبب سے انھیں عزت، سربلندی اور زمین میں اقتدار حاصل ہوا۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی علم کے آثار اور اس کے موجبات ہیں ۔
(۲۸) علم تعبیر، علوم شرعیہ میں شمار ہوتا ہے، اس کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونے والے کو ثواب حاصل ہوتا ہے اور خواب کی تعبیر فتویٰ میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ ﴾ ’’اس بات کا فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم فتوی طلب کر رہے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کا قول نقل فرمایا: ﴿ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَ٘ایَ ﴾ ’’مجھے میرے خواب کے بارے میں فتوی دو‘‘ نجات پانے والے نوجوان نے یوسفu سے کہا: ﴿ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ ﴾ ’’ہمیں سات گایوں کے بارے میں فتویٰ دو‘‘ ان تمام آیات میں تعبیر کے لیے فتویٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے علم کے بغیر خواب کی تعبیر نہیں بتانی چاہیے۔
(۲۹) اگر انسان اپنی کسی صفت کمال ، مثلاً: علم یا عمل وغیرہ کے بارے میں کسی حقیقی مصلحت کے تحت لوگوں کو آگاہ کرتا ہے، نیز اس سے ریاکاری مقصود نہ ہو اور جھوٹ سے محفوظ ہو… تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسا کہ یوسفu نے بادشاہ مصر سے فرمایا تھا : ﴿ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ١ۚ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے۔ میں حفاظت کرنے والا ہوں اور ان کے انتظام کا علم بھی رکھتا ہوں ۔‘‘ اسی طرح عہدہ قابل مذمت نہیں جبکہ اس عہدہ پر متعین شخص مقدور بھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حفاظت کرتا ہو اور اسی طرح اس عہدے کے طلب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کسی دوسرے سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو، عہدہ طلب کرنا اس وقت قابل مذمت ہے جب وہ اس عہدے کا اہل نہ ہو اور اس عہدے کی قابلیت رکھنے والا اس جیسا یا اس سے زیادہ قابل کوئی اور شخص موجود ہو۔ یا وہ اس عہدے کے ذریعے سے ان امور کو قائم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے عہدہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔
(۳۰) اللہ تبارک و تعالیٰ کا جودوکرم بحر بے کراں کی مانند ہے۔ وہ اپنے بندے کو دنیا و آخرت کی بھلائی سے نوازتا ہے۔ آخرت کی بھلائی کے دو اسباب ہیں … ایمان اور تقوی… آخرت کی بھلائی، دنیاوی ثواب اور دنیاوی اقتدار سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے دعا کرتا رہے اور اسے اخروی ثواب کا شوق دلاتا رہے اور وہ نفس کو یوں نہ چھوڑ دے کہ وہ دنیاداروں کی زیب و زینت اور لذات کو دیکھ کر غم زدہ ہوتا رہے۔ درآں حالیکہ وہ ان کے حصول پر قادر نہ ہو بلکہ اس کے برعکس وہ اخروی ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ذریعے سے اسے تسلی دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَؔكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور تقویٰ سے انھوں نے کام لیا۔‘‘
(۳۱) غلے اور اناج کو جمع اور ذخیرہ کر کے رکھنا، جبکہ اس سے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے لیے وسعت مقصود ہو اور اس سے لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو… کوئی حرج نہیں ۔ یوسفu نے شادابی اور فراوانی کے ایام میں غلے اور اناج کو جمع کر کے رکھنے کا حکم دیا تاکہ خشک سالی کے ایام کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جا سکے اور اس طرح غلہ جمع کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور وہ تمام اسباب کام میں لائے جو اس کے لیے دین و دنیا میں فائدہ مند ہوں ۔
(۳۲) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ جب حضرت یوسف کو زمین کے خزانوں کا منتظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے حسن انتظام سے کام لیا یہاں تک کہ ان کے ہاں بکثرت اناج جمع ہو گیا اور دوسرے ملکوں سے لوگ غلہ اور خوراک حاصل کرنے کے لیے مصر کا قصد کرنے لگے کیونکہ انھیں علم تھا کہ مصر میں غلہ بکثرت موجود ہے اور حضرت یوسف ہر آنے والے کو بقدر حاجت غلہ دیتے ہیں ، وہ غلہ زیادہ دیتے تھے نہ کم، چنانچہ ہر آنے والے کو ایک بار شتر سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے۔
(۳۳) مہمان نوازی مشروع ہے اور یہ انبیاء و مرسلین کی سنت ہے مہمان کی عزت و تکریم یوسفu کے اس قول سے مستفاد ہے ﴿ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْ٘نَ ﴾ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں اناج پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں بہترین مہمانی کرتا ہوں ۔‘‘
(۳۴) قرینے کی دلیل موجود ہوتے ہوئے بدظنی ممنوع ہے نہ حرام۔ کیونکہ حضرت یعقوب نے جب حضرت یوسف کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا اور ان کے بیٹوں نے سخت اصرار کیا اور جب انھوں نے جھوٹا بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو یعقوبu نے ان سے کہا: ﴿ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ﴾ ’’بلکہ تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک کام کو مزین کر کے آسان بنا دیا۔‘‘ پھر یعقوبu نے دوسرے بھائی (بنیامین) کے بارے میں فرمایا: ﴿ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’کیا میں اس کے بارے میں بھی اسی طرح اعتماد کر لوں جس طرح میں نے اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں اعتماد کیا تھا‘‘ اور جب حضرت یوسفu نے بنیامین کو اپنے پاس روک لیا اور اس کے بھائی اپنے باپ یعقوبu کے پاس آئے تو حضرت یعقوبu نے ان سے پھر یہی کہا : ﴿ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا... ﴾ حالانکہ دوسری مرتبہ انھوں نے کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، البتہ ان سے ایک ایسا کام سرزد ہوا جس پر ان کے باپ کو یہ کہنا پڑا، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہیں ۔
(۳۵) نظربد کے اثرات کے سدباب یا اس کے اثر انداز ہونے کے بعد اس اثر کو ختم کرنے کے لیے اسباب کو استعمال کرنا ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے، اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے واقع ہوتی ہے اور اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی ہے، چنانچہ یعقوبu نے اپنے بیٹوں کو اسباب اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے فرمایا : ﴿ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَ٘ابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ﴾ ’’اے میرے بیٹو! ایک ہی دروازے میں سے شہر میں مت داخل ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔‘‘
(۳۶) اس سورت مقدسہ سے، حقوق کے حصول کے لیے، حیلہ سازی کا جواز مستفاد ہوتا ہے اور خفیہ طریقوں سے ایسی معلومات حاصل کرنا جن کے ذریعے سے سے ان مقاصد تک پہنچنا آسان ہو، ایسا امر ہے جس پر بندہ قابل ستائش ہے۔ صرف ایسی حیلہ سازی حرام اور ممنوع ہے جس سے کسی واجب کا اسقاط اور کسی حرام کا ارتکاب لازم آتا ہو۔
(۳۷) اس شخص کے لیے، جو کسی کو کسی ایسے معاملے میں وہم میں ڈالنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اسے مطلع کرنا اسے پسند نہ ہو… مناسب ہے کہ وہ ایسی قولی اور فعلی تعاریضات استعمال کرے، جو جھوٹ سے مانع ہوں ۔ جیسا کہ یوسفu نے کیا تھا، چنانچہ انھوں نے گیہوں ناپنے والا پیمانہ اپنے بھائی کی خرجی میں ڈلوا دیا، پھر اس میں سے نکال دکھایا اور ظاہر کیا کہ وہ چور ہے اور اس میں اس کے بھائیوں کے لیے اس کے چور ہونے کا بس ایک قرینہ تھا۔
اس کے بعد یوسفu نے فرمایا: ﴿ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤ ﴾ ’’اللہ کی پناہ! ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے دوسرے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں ۔‘‘ نیز حضرت یوسفu نے یہ نہیں فرمایا: (مَنْ سَرَقَ مَتَاعَنَا ) ’’جس نے ہمارا سامان چوری کیا‘‘ اور نہ یہ فرمایا (اِنَّا وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ) ’’بے شک ہم نے اپنا سامان اس کے پاس پایا ہے۔‘‘ بلکہ انھوں نے ایک ایسے اسلوب میں بات کی جس کا اطلاق ان کے بھائی کے علاوہ کسی اور پر بھی ہو سکتا تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے بچا جانا چاہیے، اس میں صرف یہ ایہام ہے کہ وہ چور ہے تاکہ وہ مقصد حاصل ہو سکے جو ان کے پیش نظر تھا اور ان کا بھائی ان کے پاس رہ سکے اور جب صورت حال واضح ہو گئی تو ان کے بھائی سے یہ ایہام بھی زائل ہو گیا۔
(۳۸) انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے علم، تحقیق، مشاہدہ اور قابل اعتماد خبر جس پر اطمینان نفس ہو… کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق گواہی دے۔ یوسفu کے بھائیوں نے کہا تھا: ﴿ مَا شَهِدْنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا ﴾ ’’ہم تو صرف اسی کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں ۔‘‘
(۳۹) یہ ایک عظیم آزمائش تھی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے چنے ہوئے بندے، یعقوبu کو آزمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے بیٹے یوسفu کے درمیان جدائی ڈال دی جن سے ایک گھڑی کے لیے جدا ہونا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اتنی سی جدائی بھی انھیں سخت غم زدہ کر دیتی تھی۔ پس طویل عرصے تک وہ ایک دوسرے سے جدا رہے جو تیس سال سے کم نہ تھا اس عرصہ کے دوران حزن وغم یعقوبu کے دل سے کبھی جدا نہ ہوا ﴿ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ﴾ ’’غم سے ان کی آنکھیں سفید پڑ گئیں اور وہ غم میں گھل رہا تھا۔‘‘ اور معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سخت ہو گیا جب ان کا دوسرا بیٹا، یوسف کا حقیقی بھائی بھی، ان سے جدا ہو گیا۔
حضرت یعقوبu اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کی امید میں اس کے حکم کے مطابق صبر کر رہے تھے انھوں نے اپنے آپ سے صبر کا عہد کر لیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے عہد پر پورے اترے۔ ان کا یہ قول صبر کے منافی نہیں ﴿اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہوتا۔ صرف وہ شکوہ صبر کے منافی ہے جو مخلوق کے پاس کیا جائے۔
(۴۰) دکھ کے بعد سکھ اور تنگی کے بعد فراخی ضرور آتی ہے۔ یعقوبu پر رنج و غم کی مدت بہت طویل ہو گئی۔ شدت غم اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آل یعقوب کو بدحالی نے لاچار کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر خوش حالی بھیج دی۔ انتہائی سخت حالات میں ان کی ملاقات ہوئی اور یوں اجر کی تکمیل ہو گئی اور انھیں راحت و سرور حاصل ہوا۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سختی اور نرمی، تنگ دستی اور فراخ دستی کے ذریعے سے آزماتا ہے تاکہ ان کے صبر و شکر کا امتحان لے اور اس طرح ان کے ایمان، یقین اور عرفان میں اضافہ ہو۔
(۴۱) اگر انسان اپنے موجودہ احوال یعنی کسی مرض اور فقروغیرہ کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیے بغیر کسی کو آگاہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ یوسفu کے بھائیوں نے یوسفu سے کہا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْ٘عَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّ٘رُّ ﴾ ’’اے عزیز مصر! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت اور بدحالی نے آگھیرا ہے۔‘‘ اور ان کے اس قول پر حضرت یوسفu نے نکیر نہیں فرمائی۔
(۴۲) اس پورے قصے میں تقویٰ کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی تقویٰ اور صبر کے آثار کی وجہ سے ہے۔ اہل تقویٰ اور اہل صبر کا انجام بہترین انجام ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا١ؕ اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ نے ہم پر احسان فرمایا بے شک اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
(۴۳) جس کسی کو شدید محتاجی اور بدحالی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہو، اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرے اور اپنی پہلی بدحالی اور محتاجی کو یاد رکھے تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ جیسا کہ سیدنا یوسفu نے فرمایا تھا: ﴿ وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم لوگوں کو صحرا سے یہاں لایا۔‘‘
(۴۴) یوسفu پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم لطف و کرم تھا کہ اس نے آپ کو ان احوال سے منتقل کر کے سختیوں اور مصائب میں مبتلا کیا: تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آپ کو اعلیٰ ترین منازل اور بلندترین درجات پر فائز کرے۔
(۴۵) بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان پر ثابت قدمی کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتا رہے اور ایسے اسباب روبہ عمل لاتا رہے جو ایمان پر ثابت قدمی کے موجب ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتمام نعمت اور خاتمہ بالخیر کا سوال کرتا رہے۔ جیسا کہ یوسفu نے عرض کیا: ﴿رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ١ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١۫ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ١ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اے میرے رب! تو نے مجھے اقتدار عطا کیا اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے دنیا و آخرت میں تو ہی میرا سرپرست ہے۔ اسلام پر مجھے موت دے اور مآل کار مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر۔‘‘
اس بابرکت قصے میں یہ چند نکات اور تعبیرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے آسان فرمایا اور ضروری ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصہ میں غوروفکر کرنے والے پر تعبیرات کے کچھ اور دریچے وا کر دے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں ، بلاشبہ وہ جودوکرم کا مالک ہے۔