آیت:
تفسیر سورۂ ابراہیم
تفسیر سورۂ ابراہیم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{الر كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (1) اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (3)}
الٓرٰ، (یہ) عظیم الشان کتاب ہے، نازل کیاہے ہم نے اسے آپ کی طرف تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف، ان کے رب کے حکم سے، اس کے راستے کی طرف جو غالب ہے ، قابل تعریف ہے (1) (یعنی ) اللہ (کی طرف) وہ ذات کہ اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہےاور ہلاکت ہے واسطے کافروں کے سخت عذاب سے (2) وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں زندگانیٔ دنیا کو اوپر آخرت کے اور وہ روکتے ہیں (لوگوں کو) اللہ کی راہ سےاور تلاش کرتے ہیں اس میں کجی، یہ لوگ ہیں دور کی گمراہی میں (3)
#
{1 ـ 2} يخبر تعالى أنه أنزل كتابه على رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -؛ لنفع الخلق؛ ليخرج الناس من ظلمات الجهل والكفر والأخلاق السيِّئة وأنواع المعاصي إلى نور العلم والإيمان والأخلاق الحسنة. وقوله: {بإذن ربِّهم}؛ أي: لا يحصل منهم المراد المحبوب لله إلا بإرادةٍ من الله ومعونة؛ ففيه حثٌّ للعباد على الاستعانة بربهم. ثم فسَّر النور الذي يهديهم إليه هذا الكتاب، فقال: {إلى صراط العزيز الحميد}؛ أي: الموصل إليه وإلى دار كرامته، المشتمل على العلم بالحقِّ والعمل به. وفي ذكر العزيز الحميد بعد ذكر الصراط الموصل إليه إشارة إلى أنَّ مَنْ سَلَكه؛ فهو عزيزٌ بعزِّ الله، قويٌّ ولو لم يكن له أنصار إلاَّ الله، محمودٌ في أموره، حسن العاقبة، وليدلَّ ذلك على أنَّ صراطَ الله من أكبر الأدلَّة على ما لله من صفات الكمال ونعوت الجلال، وأنَّ الذي نصبه لعباده عزيزُ السلطان حميدٌ في أقواله وأفعاله وأحكامه، وأنه مألوهٌ معبودٌ بالعبادات التي هي منازل الصراط المستقيم، وأنه كما أن له ملك السماوات والأرض خلقاً ورزقاً وتدبيراً؛ فله الحكم على عباده بأحكامه الدينيَّة؛ لأنَّهم ملكه، ولا يَليق به أن يترُكَهم سدىً. فلما بيَّن الدليل والبرهان؛ توعَّد مَن لم يَنْقَدْ لذلك، فقال: {وويلٌ للكافرين من عذابٍ شديدٍ}: لا يقدَّر قَدْره، ولا يوصَفُ أمره.
[2,1] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتاہے کہ اس نے مخلوق کے فائدے کے لیے اپنے رسول محمد مصطفیe پر کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت، اخلاق بد اور مختلف اقسام کے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر علم و ایمان اور اخلاق حسنہ کی روشنی میں لے جائے اور فرمایا ﴿ بِـاِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’ان کے رب کے حکم سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبوب مراد صرف اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی مدد ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اپنے رب سے مدد طلب کریں ، پھر اللہ نے اس ’’نور‘‘ کی تفسیر بیان فرمائی جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِلٰى صِرَاطِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾ ’’غالب اور قابل تعریف (اللہ) کے راستے کی طرف۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم والے گھر تک پہنچانے والا راستہ، جو حق کے علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچانے والے راستے کا ذکر کرنے کے بعد ﴿ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کوئی اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کوئی اعوان و انصار نہ ہوں ، تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کے ساتھ غالب اور طاقتور ہے، وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش اور اچھے انجام کا مالک ہے۔ نیز یہ اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ، اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور نعوت جلال پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور جس نے اپنے بندوں کے لیے یہ راستہ مقرر کیا ہے، وہ غالب، قوت والا، اپنے اقوال و افعال اور احکام میں قابل ستائش ہے۔ وہ معبود ہے اور تمام عبادات کا مستحق ہے یہ عبادات اس صراط مستقیم کی منازل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ، تخلیق،رزق اور تدبیر کے اعتبار سے جس طرح آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں پر احکام دینی بھی نافذ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے فائدہ چھوڑ دے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دلیل اور برہان واضح کر دی تو اس نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَیْلٌ لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ﴾ ’’اور ہلاکت ہے کافروں کے لیے سخت عذاب کی صورت میں ‘‘ یعنی اس کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جا سکتا ہے۔
#
{3} ثم وصفهم بأنهم الذين استحبوا {الحياة الدُّنيا على الآخرة}: فرضوا بها واطمأنوا وغفلوا عن الدار الآخرة. {ويصدُّون} الناس {عن سبيل الله}: التي نَصَبها لعباده وبيَّنها في كتبه وعلى ألسنة رسله؛ فهؤلاء قد نابَذوا مولاهم بالمعاداة والمحاربة. {ويَبْغونها}؛ أي: سبيل الله {عوجاً}؛ أي: يحرصون على تهجينها وتقبيحها للتنفير عنها، ولكن يأبى الله إلا أن يُتِمَّ نوره ولو كره الكافرون. {أولئك}: الذين ذُكِر وصفهم {في ضلال بعيد}: لأنهم ضلُّوا وأضلُّوا وشاقُّوا اللهَ ورسولَهُ وحاربوهما؛ فأيُّ ضلال أبعدُ من هذا؟! وأما أهل الإيمان؛ فبعكس هؤلاء؛ يؤمنون بالله وآياته، ويستحبُّون الآخرة على الدنيا، ويدعون إلى سبيل الله، ويحسِّنونها مهما أمكنهم، ويبينون استقامتها.
[3] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کفار کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں آخرت پر‘‘ پس وہ دنیا پر راضی اور مطمئن ہو کر آخرت سے غافل ہو گئے۔ ﴿وَیَصُدُّوْنَ ﴾ ’’اور (لوگوں کو) روکتے ہیں ‘‘ ﴿ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے راستے سے‘‘ وہ راستہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمایا ہے اور اسے اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبان پر خوب بیان کر دیا ہے مگر یہ لوگ اپنے آقاومولا کے مقابلے میں عداوت و محاربت کا اظہار کرتے ہیں ﴿ وَیَبْغُوْنَهَا ﴾ ’’اور تلاش کرتے ہیں اس میں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں ﴿عِوَجًا﴾ ’’کجی‘‘ یعنی وہ اس راستے کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے خلاف نفرت پیدا ہو جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا وصف بیان کیا گیا ہے ﴿ فِیْ ضَلٰلٍۭؔ بَعِیْدٍ﴾ ’’دور کی گمراہی میں ہیں ‘‘ کیونکہ وہ خود گمراہ ہوئے، لوگوں کو گمراہ کیا، انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ کی۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سی گمراہی ہے؟ لیکن اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں ، وہ لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں ، وہ امکان بھر اس راستے کو خوبصورت بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ سیدھا رہے۔
آیت: 4 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (4)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے کو ئی رسول مگر زبان میں اسی کی قوم کی تاکہ وہ (کھول کر) بیان کرے ان کے لیے ، پھر گمراہ کرتا ہے اللہ جسے چاہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہےاور وہ غالب ہے نہایت حکمت والا (4)
#
{4} وهذا من لطفه بعباده أنَّه ما أرسل رسولاً إلا بلسان قومه؛ ليبيِّن لهم ما يحتاجون إليه، ويتمكَّنون من تعلُّم ما أتى به، بخلاف ما لو أتى على غير لسانهم؛ فإنهم يحتاجون إلى تعلُّم تلك اللغة التي يتكلَّم بها، ثم يفهمون عنه. فإذا بيَّن [لهم] الرسول ما أمروا به ونُهوا عنه وقامت عليهم حجَّة الله؛ {فيضلُّ الله مَن يشاء}: ممَّن لم ينقدْ للهدى، {ويَهْدي من يشاء}: ممَّن اختصَّه برحمته. {وهو العزيز الحكيم}: الذي من عزته أنه انفرد بالهداية والإضلال وتقليب القلوب إلى ما شاء، ومن حكمته أنه لا يضع هدايته ولا إضلاله إلا بالمحل اللائق به. ويستدل بهذه الآية الكريمة على أن علوم العربية الموصلة إلى تبيُّن كلامه وكلام رسوله أمورٌ مطلوبةٌ محبوبةٌ لله؛ لأنَّه لا يتمُّ معرفة ما أنزل على رسوله إلا بها، إلا إذا كان الناس في حالة لا يحتاجون إليها، وذلك إذا تمرَّنوا على العربية، ونشأ عليها صغيرهم، وصار طبيعةً لهم؛ فحينئذٍ قد اكتفوا المؤنة، وصلحوا على أن يَتَلَقَّوْا عن الله وعن رسوله ابتداءً، كما تلقَّى عنهم الصحابة رضي الله عنهم.
[4] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے ہر ایک رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے ان امور کو واضح کرے جن کے وہ محتاج ہیں اور وہ ان کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کتاب لے کر آیا ہوتا تو وہ اس زبان کو سیکھنے کے محتاج ہوتے جس میں رسول کلام کرتا ہے تب کہیں جا کر رسول کی باتیں ان کی سمجھ میں آتیں ۔ پس جب رسول ان تمام امور کو بیان کر دیتا ہے جن کا انھیں حکم دیا گیا اور جن سے ان کو روکا گیا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جاتی ہے تو ان میں سے جو لوگ ہدایت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ان کو گمراہ کردیتا ہے اور جن کو اپنی رحمت کے لیے مختص کر لیتا ہے ان کو راہ ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ ﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ﴾ ’’اور وہ غالب حکمت والا ہے‘‘ جس کا غلبہ یہ ہے کہ وہ ہدایت دینے، گمراہ کرنے اور جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دینے میں منفرد ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی کو اسی مقام پر واقع کرتا ہے جو ان کے لائق ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ وہ علوم عربیہ جن کے ذریعے سے کلام اللہ اور کلام رسول کی توضیح و تبیین ہوتی ہے، امور مطلوبہ میں شمار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں کیونکہ ان کے بغیر کتاب اللہ کی معرفت کی تکمیل نہیں ہوتی، البتہ اگر لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ ان علوم عربیہ کے محتاج نہ ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ انھیں عربی زبان پر عبور حاصل ہو اور ان کے چھوٹے بچوں نے عربی زبان میں تعلیم و تربیت حاصل کی ہو اور عربی زبان ان کی طبیعت بن گئی ہو تو اس صورت میں اس مشقت میں پڑنے کی ان کو ضرورت نہیں اور وہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe سے دین اس طرح اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس طرح صحابہ کرامy نے (بغیر علوم آلیہ اور عربیہ کے) دین اخذ کیا تھا۔
آیت: 5 - 8 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (5) وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (6) وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (7) وَقَالَ مُوسَى إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (8)}.
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے موسیٰ کو ساتھ اپنی آیتوں (معجزوں ) کے یہ کہ نکال تو اپنی قوم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف اور یاد دلا انھیں احسانات اللہ کے، بے شک ان میں البتہ نشانیاں ہیں واسطے ہر صابر شاکر کے (5) اور (یاد کرو) جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے یاد کرو تم نعمت اللہ کی اوپر اپنے، جب اس نے نجات دی تمھیں آل فرعون سے، وہ پہنچاتے تھے تم سخت عذاب اور ذبح کرتے تھے وہ بیٹے تمھارے اور زندہ چھوڑتے تھے بیٹیاں تمھاری اور اس میں آزمائش تھی تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی (6) اور جب آگاہ کر دیا(تھا) تمھارے رب نے، البتہ اگر شکر کرو گے تم تو یقینا (اور) زیادہ دوں گا میں تمھیں اور البتہ اگر کفر کرو گے تم تو بلاشبہ میرا عذاب بھی بہت سخت ہے (7) اور کہا موسیٰ نے ، اگر کفر کرو گے تم اور وہ لوگ جو زمین میں ہیں سارے تو بے شک اللہ یقینا بے پروا، قابل تعریف ہے (8)
#
{5} يخبر تعالى أنه أرسل موسى بآياته العظيمة الدالَّة على صدق ما جاء به وصحَّته، وأمره بما أمر الله به رسوله محمداً - صلى الله عليه وسلم -، بل وبما أمر به جميع الرسل قومهم: {أن أخْرِجْ قومك من الظُّلمات إلى النور}؛ أي: ظلمات الجهل والكفر وفروعه إلى نور العلم والإيمان وتوابعه. {وذكِّرْهم بأيام الله}؛ أي: بنعمه عليهم وإحسانه إليهم، وبأيَّامه في الأمم المكذِّبين ووقائعه بالكافرين؛ ليشكروا نعمه وليحذروا عقابه. {إنَّ في ذلك}؛ أي: في أيام الله على العباد، {لآياتٍ لكلِّ صبَّارٍ شكور}؛ أي: صبار في الضرَّاء والعسر والضيق، شكور على السراء والنعمة؛ فإنَّه يستدلُّ بأيامه على كمال قدرته وعميم إحسانه وتمام عدله وحكمته.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی بڑی بڑی نشانیوں کے ساتھ موسیٰu کو مبعوث فرمایا جو آپ کی رسالت کی صداقت اور صحت پر دلالت کرتی تھیں اور ان کو بھی وہی حکم دیا جو اپنے رسول محمد مصطفیe کو دیا ہے بلکہ یہ وہی حکم ہے جو تمام انبیاء و مرسلین نے اپنی قوم کو دیا تھا ﴿اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ ’’یہ کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف‘‘ یعنی جہالت، کفر اور اس کی فروعات کی تاریکیوں سے نکال کر علم، ایمان اور اس کے توابع کی روشنی کی طرف۔ ﴿ وَذَكِّ٘رْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ﴾ ’’اور یاد دلا ان کو اللہ کے دن‘‘ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور اس کے احسانات اور جھٹلانے والی قوموں کفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک اور وقائع یاد دلائیے تاکہ یہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں اور اس کے عذاب سے ڈریں ۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ ’’اس میں ‘‘ یعنی بندوں کے متعلق ایام الٰہی میں ﴿ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ﴾ ’’ہر صابر و شاکر کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ یعنی مصائب، تکلیف اور تنگی میں نہایت صابر اور خوشحالی اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے۔ایام الٰہی سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت، بے پایاں احسان اور اپنے کامل عدل و حکمت پر استدلال کیا ہے۔
#
{6} ولهذا امتثل موسى عليه السلام أمر ربِّه، فذكَّرهم نعم الله، فقال: {اذكروا نعمة الله عليكم}؛ أي: بقلوبكم وألسنتكم، {إذ أنجاكم من آل فرعونَ يسومونكم}؛ أي: يُولُونكم، {سوء العذاب}؛ أي: أشده. وفسَّر ذلك بقوله: {ويذبِّحون أبناءكم ويَسْتَحْيون نساءكم}؛ أي: يبقونهنَّ فلا يقتلونهنَّ. {وفي ذلكم}: الانجاء {بلاءٌ من ربِّكم عظيمٌ}؛ أي: نعمة عظيمة، أو وفي ذلكم العذاب الذي ابتُليتم به من فرعون وملئه ابتلاءٌ من الله عظيمٌ لكم لينظر هل تصبرون أم لا.
[6] اس لیے موسیٰu نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور ان کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا ﴿ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اللہ نے تم پر جو انعامات کیے ہیں ان کو یاد کرو۔‘‘ یعنی اپنے دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو۔ ﴿ اِذْ اَنْجٰؔىكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ۠ ﴾ ’’جب اس نے تمھیں فرعونیوں سے بچایا، وہ چکھاتے تھے تمھیں ‘‘ یعنی تمھیں عذاب دیتے تھے ﴿ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ﴾ ’’برے عذاب‘‘ یعنی سخت ترین عذاب، پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَیُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ﴾ ’’اور وہ تمھارے بیٹوں کو ذبح کر دیتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے‘‘ یعنی وہ تمھاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو زندہ رکھتے تھے ﴿ وَفِیْ ذٰلِكُمْ ﴾ ’’اور اس میں ‘‘ یعنی اس نجات میں ﴿ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے عظیم نعمت تھی۔‘‘ یعنی عظیم نعمت تھی یا (اس کا معنیٰ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ) اس عذاب میں جس میں تمھیں فرعون اور اس کے سرداروں نے مبتلا کیا تھا، تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی تاکہ وہ دیکھے کہ آیا تم اس سے عبرت حاصل کرتے ہو یا نہیں ۔
#
{7} وقال لهم حاثًّا على شكر نعم الله: {وإذْ تأذَّن ربُّكم}؛ أي: أعلم ووعد، {لئن شكرتُم لأزيدنَّكم}: من نعمي، {ولئن كفرتُم إن عذابي لشديدٌ}: ومن ذلك أنْ يزيل عنهم النعمة التي أنعم بها عليهم. والشكرُ: هو اعتراف القلب بنعم الله، والثناء على الله بها، وصرفها في مرضاة الله تعالى. وكفر النعمة ضدُّ ذلك.
[7] اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نعمتوں پر شکر کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ ﴾ ’’جب تمھارے رب نے آگاہ کیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا اور وعدہ کیا ﴿ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّـكُمْ ﴾ ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ دوں گا‘‘ یعنی اپنی نعمتوں میں اضافہ کروں گا ﴿ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ ’’اور اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب نہایت سخت ہے‘‘ عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں کو زائل کر دے جو انھیں عطا کی تھیں ۔ شکر سے مراد، دل سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا، ان نعمتوں پر دل سے اس کی حمد و ثنا کرنا اور انھیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق صرف کرنا ہے۔ اور ان امور کے برعکس رویہ اختیار کرنا، کفران نعمت ہے۔
#
{8} {وقال موسى إن تكفُروا أنتم ومن في الأرض جميعاً}: فلن تضرُّوا الله شيئاً، فإنَّ الله غنيٌ حميدٌ، فالطاعات لا تزيد في ملكه، والمعاصي لا تنقصه، وهو كامل الغنى، حميدٌ في ذاته وأسمائه وصفاته وأفعاله، ليس له من الصفات إلا كل صفة حمدٍ وكمال، ولا من الأسماء إلا كل اسم حسن، ولا من الأفعال إلاَّ كل فعل جميل.
[8] ﴿ وَقَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْ٘فُرُوْۤا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’موسیٰ نے کہا، اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں ، سارے کفر کریں ۔‘‘ تو تم اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے سب خوبیوں والا‘‘ پس نیکیاں اس کی بادشاہی میں اضافہ کر سکتی ہیں نہ گناہ اس کی بادشاہی میں کوئی کمی واقع کر سکتے ہیں ، وہ غنا میں کامل ہے، وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور افعال میں قابل حمد و ستائش ہے اس کی ہر صفت، صفت حمد و کمال ہے۔ اس کا ہر نام اچھا نام ہے اور اس کا ہر فعل، فعل جمیل ہے۔
آیت: 9 - 12 #
{أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ (9) قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (10) قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (11) وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (12)}.
کیا نہیں آئی تمھارے پاس خبر ان لوگوں کی جو تم سے پہلے تھے (یعنی ) قوم نوح اور عاد اور ثمود کی اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے، نہیں جانتا انھیں (کوئی بھی) سوائے اللہ کے، آئے تھے ان کے پاس رسول ان کے واضح دلیلوں کے ساتھ، پس لوٹائے انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں اور کہا، بے شک ہم نہیں مانتے اس چیز کو کہ بھیجے گئے ہو تم ساتھ اس کےاور بے شک ہم تو البتہ ایسے شک میں ہیں اس سے کہ تم بلاتے ہو ہمیں اس کی طرف، جو اضطراب میں ڈالنے والا ہے (9) کہا ان کے رسولوں نے، کیا اس اللہ کی بابت شک ہے (تمھیں ) جو پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا؟ وہ بلاتا ہے تمھیں تاکہ وہ بخش دے تمھارے لیے تمھارے گناہ اور (تاکہ) مہلت دے تمھیں ایک وقت مقرر (موت) تک، انھوں نے کہا، نہیں ہو تم مگر بشر ہم جیسے ہی، تم چاہتے ہو یہ کہ روک دو ہمیں ان (معبودوں ) سے کہ تھے (ان کی) عبادت کرتے باپ دادا ہمارے، پس لے آؤ تم ہمارے پاس کوئی دلیل واضح (10)کہا ان سے ان کے رسولوں نے نہیں ہیں ہم مگر بشر تم جیسے ہی لیکن اللہ احسان کرتا ہے اوپر جس کے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سےاور نہیں ہے (اختیار) واسطے ہمارے یہ کہ ہم لے آئیں تمھارے پاس کوئی معجزہ بغیر حکم اللہ کےاور اوپر اللہ ہی کے پس چاہیے کہ بھروسہ کریں مومن (11) او ر کیا (عذر) ہے ہمارے لیے کہ نہ بھروسہ کریں ہم اوپر اللہ کے جبکہ اس نے دکھائیں ہمیں ہماری (ہدایت کی) راہیں ؟ اور البتہ ہم ضرور صبر کریں گے اوپر اس کے جو اذیت دیتے ہو تم ہمیں اور اوپر اللہ ہی کے پس چاہیے کہ بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے (12)
#
{9} يقول تعالى مخوِّفاً عباده ما أحلَّه بالأمم المكذِّبة حين جاءتهم الرسل فكذَّبوهم، فعاقبهم بالعقاب العاجل الذي رآه الناس وسمعوه، فقال: {ألم يأتِكُم نبأ الذين من قبلكم قومُ نوح وعادٍ وثمودَ}: وقد ذكر الله قصصهم في كتابه وبسطها. {والذين من بعدِهم لا يعلمُهم إلاَّ الله}: من كثرتهم وكون أخبارهم اندرست؛ فهؤلاء كلُّهم {جاءتهم رسلُهم بالبيناتِ}؛ أي: بالأدلة الدالَّة على صدق ما جاؤوا به، فلم يرسل الله رسولاً إلا آتاه من الآيات ما يؤمِنُ على مثلِهِ البشرُ؛ فحين أتتهم رسلُهم بالبينات؛ لم ينقادوا لها، بل استكبروا عنها، {فردُّوا أيدِيَهم في أفواههم}؛ أي: لم يؤمنوا بما جاؤوا به، ولم يتفوَّهوا بشيء مما يدلُّ على الإيمان؛ كقوله: {جعلوا أصابِعَهم في آذانهم من الصواعِقِ حَذَرَ الموت}. {وقالوا} صريحاً لرسلهم: {إنَّا كَفَرْنا بما أرسِلْتم به وإنا لفي شكٍّ مما تدعوننا إليه مريبٍ}؛ أي: موقع في الريبة.
[9] جھٹلانے والی قوموں کے پاس جب ان کے رسول آئے اور انھوں نے ان کو جھٹلایا تو ان قوموں پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں ان کو جو سزا دے دی یہ عذاب لوگوں نے دیکھا اور سنا، پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس عذاب سے ڈراتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَلَمْ یَ٘اْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ﴾ ’’کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، قوم نوح، عاد اور ثمود‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت بسط و تفصیل سے ان کے واقعات ذکر فرمائے ہیں ۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ۛؕ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ﴾ ’’اور جو ان کے بعد ہوئے، جن کو صرف اللہ جانتا ہے‘‘ ان کی کثرت اور ان کی تاریخ مٹ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سوا انھیں کوئی نہیں جانتا ﴿ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ یعنی ان کے رسول ان کے پاس ایسے دلائل لے کر آئے جو ان کی تعلیمات کی صداقت پر دلالت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی رسول مبعوث فرمایا اس کو ایسی آیات عطا فرمائیں جو انسان کے بس میں نہ تھیں ۔ جب ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ان دلائل کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا بلکہ انھوں نے نہایت تکبر کے ساتھ ان کو ٹھکرا دیا۔ ﴿ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ ﴾ ’’پس لوٹائے انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ‘‘ یعنی وہ اس وحی پر ایمان نہ لائے جو رسول لے کر آئے تھے انھوں نے کوئی ایسی بات نہ کہی جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہو۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْ٘مَوْتِ﴾ (البقرۃ: 2؍19) ’’تو یہ بجلی کی کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں ۔‘‘﴿ وَقَالُوْۤا ﴾ اور صراحت کے ساتھ اپنے رسولوں سے انھوں نے کہا ﴿ اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَاِنَّا لَ٘فِیْ شَكٍّ مِّؔمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ ﴾ ’’ہم نے انکار کیا اس چیز کا جس کے ساتھ تمھیں بھیجا گیا اور بے شک ہمیں اس دعوت میں شک ہے جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، خلجان میں ڈالنے والا‘‘ یعنی شک و شبہ میں ڈالتا ہے۔
#
{10} وقد كذبوا في ذلك وظلموا، ولهذا {قالتْ} لهم {رسُلُهم أفي الله شكٌّ}؛ أي: فإنه أظهر الأشياء وأجلاها؛ فمن شَكَّ في الله {فاطرِ السمواتِ والأرضِ}: الذي وجود الأشياء مستندٌ إلى وجوده؛ لم يكن عنده ثقةٌ بشيء من المعلومات، حتى الأمور المحسوسة. ولهذا خاطبتهم الرسل خطابَ من لا يشكُّ فيه، ولا يصلح الريب فيه. {يدعوكم}: إلى منافعكم ومصالحكم، {ليغفرَ لكم من ذنوبكم ويؤخِّرَكم إلى أجل مسمًّى}؛ أي: ليثيبكم على الاستجابة لدعوته بالثواب العاجل والآجل، فلم يدعُكم لينتفع بعبادتكم، بل النفع عائد إليكم. فردُّوا على رسلهم ردَّ السفهاء الجاهلين، {وقالوا} لهم: {إنْ أنتم إلاَّ بشرٌ مثلُنا}؛ أي: فكيف تَفْضُلوننا بالنبوة والرسالة؟ {تريدون أن تصدُّونا عما كان يعبد آباؤنا}: فكيف نترُكُ رأي الآباء وسيرتهم لرأيكم؟! وكيف نطيعكم وأنتم بشرٌ مثلنا؟! {فأتونا بسلطانٍ مبينٍ}؛ أي: بحجَّة وبيِّنة ظاهرة، ومرادهم بيِّنة يقترحونها هم، وإلاَّ؛ فقد تقدَّم أنَّ رسلهم جاءتهم بالبينات.
[10] اس بارے میں انھوں نے یقینا جھوٹ کہا تھا اور ظلم کیا تھا۔ اسی لیے ﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ ﴾ ’’ان کے رسولوں نے (ان سے) کہا: ﴿اَفِی اللّٰهِ شَكٌّ ﴾ ’’کیا اللہ کے بارے میں بھی شک ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود واضح ترین اور روشن ترین حقیقت ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کرتا ہے ﴿فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی جس کے وجود پر تمام اشیاء کے وجود کا دارومدار ہے۔ تو اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں جو معلوم ہو، حتیٰ کہ امور محسوسہ بھی اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس لیے انبیاء و مرسلین نے ان کو اس طرح خطاب فرمایا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ﴿یَدْعُوْؔكُمْ ﴾ ’’وہ تمھیں بلاتا ہے۔‘‘ یعنی وہ تمھیں تمھارے فائدے کے امور اور تمھارے مصالح کی طرف بلاتا ہے ﴿لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُؤَخِّ٘رَؔكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى﴾ ’’تاکہ تمھارے گناہ بخشے اور فائدہ پہنچانے کے لیے ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔‘‘ یعنی تمھیں رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کے اجر میں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس لیے دعوت نہیں دی کہ تمھاری عبادت سے مستفید ہو بلکہ تمھاری عبادت کا فائدہ تمھاری ہی طرف لوٹے گا۔ انھوں نے اپنے رسولوں کی دعوت کو اس طرح ٹھکرا دیا جیسے جاہل اور بے قوف لوگ ٹھکراتے ہیں ﴿قَالُوْۤا﴾ انھوں نے اپنے رسولوں سے کہا ﴿اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا﴾ ’’تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو‘‘ یعنی تمھیں ہم پر نبوت اور رسالت کی بنا پر کیسے فضیلت حاصل ہے؟ ﴿تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ﴾ ’’تم چاہتے ہو کہ تم ہمیں ان چیزوں سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے‘‘ تب ہم تمھاری رائے کی خاطر اپنے آباء و اجداد کی سیرت اور ان کے نظریات کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں اور ہم کیسے تمھاری اطاعت کر سکتے ہیں جبکہ تم ہماری ہی طرح انسان ہو؟ ﴿فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’پس ہمارے پاس کوئی کھلی دلیل لاؤ۔‘‘ یعنی واضح دلیل اور حجت پیش کرو اور دلیل سے ان کی مراد وہ آیت اور معین معجزہ تھا جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے، حالانکہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔
#
{11} {قالت لهم رسلهم} مجيبين لاقتراحهم واعتراضهم: {إن نحن إلاَّ بشرٌ مثلُكم}؛ أي: صحيح وحقيقة أنَّا بشرٌ مثلكم. {ولكن} ليس في ذلك ما يدفعُ ما جئنا به من الحقِّ؛ فإنَّ {الله يَمُنُّ على مَن يشاء من عبادِهِ}؛ فإذا منَّ الله علينا بوحيه ورسالته؛ فذلك فضله وإحسانه، وليس لأحدٍ أن يَحْجُرَ على الله فضله ويمنعه من تفضله؛ فانظروا ما جئناكم به؛ فإنْ كان حقًّا؛ فاقبلوه، وإن كان غير ذلك؛ فردُّوه، ولا تجعلوا حالنا حجَّة لكم على ردِّ ما جئناكم به، وقولكم: {فائتونا بسلطانٍ مبين}، فإنَّ هذا ليس بأيدينا وليس لنا من الأمر شيء. {وما كان لنا أن نأتِيَكم بسلطانٍ إلاَّ بإذن الله}: فهو الذي إن شاء جاءكم به وإن شاء لم يأتِكُم به، وهو لا يفعل إلاَّ ما هو مقتضى حكمته ورحمته. {وعلى الله}: لا على غيره، {فليتوكَّل المؤمنون}: فيعتمدون عليه في جلب مصالحهم ودفع مضارِّهم؛ لعلمهم بتمام كفايته وكمال قدرتِهِ وعميم إحسانه، ويثقون به في تيسير ذلك، وبحسب ما معهم من الإيمان يكونُ توكُّلهم. فعُلم بهذا وجوب التوكُّل وأنَّه من لوازم الإيمان ومن العبادات الكبار التي يحبُّها الله ويرضاها لتوقُّف سائر العبادات عليه.
[11] ﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ ﴾ ان کے رسولوں نے ان کے مطالبے اور اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ﴿اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ ﴾ ’’ہم تمھارے ہی جیسے آدمی ہیں ۔‘‘ یعنی یہ صحیح اور حقیقت ہے کہ ہم تمھاری ہی طرح بشر ہیں ﴿ وَلٰكِنَّ ﴾ مگر تمھارا یہ اعتراض اس حق کو باطل نہیں کر سکتا جسے ہم لے کر آئے ہیں کیونکہ ﴿ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ ’’اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، احسان فرماتا ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی وحی اور رسالت سے نواز دیا تو یہ اس کا فضل و احسان ہے اور کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو روک سکے اور اس کو اس کی نوازشوں سے منع کر سکے۔ تم اس چیز میں غور کرو جو ہم تمھارے پاس لے کر آئے ہیں اگر وہ حق ہے تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ حق نہیں ہے تو بے شک اسے ٹھکرا دو۔ مگر ہم جو کچھ لے کر آئے اسے ٹھکرانے کے لیے ہمارے حال کو اپنے لیے دلیل نہ بناؤ اور تمھارا یہ کہنا ﴿ فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’کوئی واضح دلیل لے کر آؤ‘‘ تو یہ چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہمارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں ۔ ﴿ وَمَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰ٘نٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’ہمارا کام نہیں کہ تمھارے پاس کوئی دلیل لے آئیں مگر اللہ کے حکم سے‘‘ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر وہ چاہے تو تمھارے پاس معجزہ لے آئے اور اگر وہ نہ چاہے تو تمھارے پاس معجزہ نہ لائے اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی حکمت اور رحمت کے تقاضے کے مطابق کرتا ہے ﴿وَعَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ہی پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور پر نہیں ﴿ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’چاہیے کہ مومن بھروسہ کریں ‘‘ پس وہ اپنے مصالح کے حصول اور ضرر کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کفایت تامہ، قدرت کاملہ اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ جلب مصالح اور دفع ضرر میں آسانی پیدا کرنے میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور ان کا توکل ان کے ایمان کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے توکل کا وجوب مستفاد ہوتا ہے نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توکل لوازمات ایمان اور بڑی بڑی عبادات میں شمار ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے کیونکہ تمام عبادات توکل پر موقوف ہیں ۔
#
{12} {وما لنا أن لا نتوكَّل على الله وقد هدانا سُبُلَنا}؛ أي: أيُّ شيء يمنعنا من التوكُّل على الله والحال أننا على الحقِّ والهدى، ومن كان على الحقِّ والهدى؛ فإنَّ هداه يوجب له تمام التوكُّل، وكذلك ما يُعْلَمُ من أنَّ الله متكفِّل بمعونة المهتدي وكفايته، يدعو إلى ذلك؛ بخلاف من لم يكن على الحقِّ والهدى؛ فإنَّه ليس ضامناً على الله؛ فإنَّ حاله مناقضةٌ لحال المتوكِّل؟! وفي هذا كالإشارة من الرسل عليهم الصلاة والسلام لقومهم بآيةٍ عظيمةٍ، وهو أنَّ قومهم في الغالب أنَّ لهم القهر والغلبة عليهم، فتحدَّتهم رسلُهم بأنَّهم متوكِّلون على الله في دفع كيدهم ومكرهم، وجازمون بكفايته إيَّاهم، وقد كفاهم الله شرَّهم مع حرصهم على إتلافهم وإطفاء ما معهم من الحقِّ، فيكون هذا كقول نوح لقومِهِ: {يا قوم إن كان كَبُرَ عليكم مقامي وتذكيري بآيات الله فعلى الله توكَّلْتُ فأجمِعوا أمرَكم وشُركاءَكم ثمَّ لا يكنْ أمرُكم عليكم غُمَّة ثم اقضوا إليَّ ولا تُنظِرونِ ... } الآيات، وقول هود عليه السلام: {قالَ إنِّي أُشْهِدُ الله واشْهَدوا أني بريءٌ مما تشرِكونَ من دونِهِ فكيدوني جميعاً ثم لا تُنظِرونِ}. {ولَنَصْبِرَنَّ على ما آذَيْتُمونا}: ولنستمرنَّ على دعوتِكم ووعظِكم وتذكيركم، ولا نبالي بما يأتينا منكم من الأذى؛ فإنَّا سنوطِّن أنفسنا على ما ينالنا منكم من الأذى؛ احتساباً للأجر ونصحاً لكم، لعلَّ الله أن يهدِيَكم مع كثرة التذكير. {وعلى الله}: وحدَه لا على غيره، {فليتوكَّل المتوكِّلون}: فإنَّ التوكُّل عليه مفتاح لكل خير. واعلم أن الرسل عليهم الصلاة والسلام توكُّلهم في أعلى المطالب وأشرف المراتب، وهي التوكُّل على الله في إقامة دينه ونصره وهداية عبيده وإزالة الضَّلال عنهم. وهذا أكمل ما يكون من التوكُّل.
[12] ﴿ وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰؔىنَا سُبُلَنَا﴾ ’’اور ہم کو کیا ہوا کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں اور وہ سجھا چکا ہمیں ہماری راہیں ‘‘ یعنی کون سی چیز ہمیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے روک سکتی ہے۔ حالانکہ ہم واضح حق اور ہدایت پر ہیں اور جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو یہ ہدایت اس کے لیے توکل کی تکمیل کی موجب بنتی ہے۔ اسی طرح یہ معلوم ہونا کہ اللہ تعالیٰ راہ ہدایت پر چلنے والے کے بوجھ کی کفالت کرتا اور اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے، توکل کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ اختیار نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی کفالت و کفایت کا ضامن نہیں ہوتا، پس اس کا حال متوکل کے حال کے برعکس ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ، انبیاء و مرسلین کی طرف سے گویا اپنی قوم کے لیے ایک عظیم معجزے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء کی قوم غالب حالات میں ، اقتدار اور غلبہ کی مالک ہوتی ہے۔ اس کے رسول ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ ان کی چالوں اور سازشوں کو ناکام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی کفایت کا پورا یقین ہے اور کفار کی انبیاء و مرسلین کی بیخ کنی کی خواہش اور نور حق کو بجھانے کی حرص کے باوجود، اللہ نے انبیاء و مرسلین کی کفایت کی اور انھیں کفار کے مکروکید سے بچایا۔ یہ جناب نوحu کے اس قول کی مانند ہے جو انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا ﴿یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَ٘عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّؔلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَؔكُمْ وَ شُ٘رَؔكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُؔكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّؔةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ﴾ (یونس: 10؍71) ’’اے میری قوم! اگر تمھارے درمیان میرا قیام اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے تمھیں میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے تو میرا توکل اللہ پر ہے، پس تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلے پر متفق ہو جاؤ اور تمھارے اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔‘‘ اسی طرح ہودu نے اپنی قوم سے کہا تھا ﴿اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُ٘شْ٘رِكُوْنَۙ۰۰مِنْ دُوْنِهٖ فَؔكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ﴾ (ھود: 11؍54-55) ’’میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم نے جو اللہ کے شریک ٹھہرا رکھے ہیں میں ان سے بیزار ہوں ، پس تم سب مل کر میرے خلاف چال چل لو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔‘‘ ﴿ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَا﴾ ’’اور ہم ضرور ان تکلیفوں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دو گے‘‘ یعنی ہم تمھیں حق کی دعوت دیتے اور تمھیں وعظ و نصیحت کرتے رہیں گے اور تمھاری طرف سے ہمیں جو تکلیف پہنچے گی ہم اس کی پروا نہ کریں گے، ہم اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں اور تمھاری خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمھاری اذیتوں کا عادی بنائیں گے۔ شاید کثرت نصیحت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تمھیں ہدایت سے نواز دے۔ ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور صرف اللہ پر‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نہیں ﴿ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَؔكِّلُوْنَ ﴾ ’’چاہیے کہ بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہر بھلائی کی کنجی ہے۔ آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء ومرسلین توکل کے بہترین مطالب اور بلند ترین مراتب پر فائز ہیں اور وہ ہے اقامت دین میں ، اللہ تعالیٰ کی مدد میں، اس کے بندوں کی راہنمائی اور ان سے گمراہی کے ازالے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور یہ کامل ترین توکل ہے۔
آیت: 13 - 17 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ (13) وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ (14) وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (15) مِنْ وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ (16) يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ (17)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے البتہ ہم ضرور نکال دیں گے تمھیں اپنی زمین سے یا تم واپس آجاؤ ہمارے دین میں ، پس وحی کی ان کی طرف ان کے رب نے کہ یقینا ہم ضرور ہلاک کر دیں گے ظالموں کو (13) اور یقینا ہم ضرور آباد کریں گے تمھیں اس زمین میں بعد ان کے، یہ (وعدہ) اس شخص کے لیے ہے جو ڈرے میرے سامنے کھڑا ہونے سے اور ڈرے میری وعید سے (14) اور فتح طلب کی انھوں نےاور ناکام ہوا ہر سرکش، عناد رکھنے والا (15) آگے اس کے جہنم ہےاور وہ پلایا جائے گا پانی (جہنمیوں کی) پیپ کا (16) وہ گھونٹ گھونٹ پيے گا اسےاور نہیں قریب کہ اتار سکے وہ اس کو حلق سےاور آئے گی اس کو موت ہر طرف سےاورنہیں ہو گا وہ مرنے والااور اس (عذاب) سے آگے (اور ) عذاب ہو گا نہایت سخت (17)
#
{13} لما ذكر دعوة الرسل لقومهم ودوامهم على ذلك وعدم مللهم؛ ذكر منتهى ما وصلت بهم الحال مع قومهم، فقال: {وقال الذين كفروا لرسلهم}: متوعِّدين لهم: {لَنُخْرِجَنَّكم من أرضِنا أو لَتعودُنَّ في مِلَّتنا}: وهذا أبلغ ما يكون من الردِّ، وليس بعد هذا فيهم مطمع؛ لأنَّه ما كفاهم أن أعرضوا عن الهدى، بل توعَّدوهم بالإخراج من ديارهم، ونسبوها إلى أنفسهم، وزعموا أنَّ الرسل لا حقَّ لهم فيها، وهذا من أعظم الظُّلم؛ فإنَّ الله أخرج عباده إلى الأرض، وأمرهم بعبادته، وسخَّر لهم الأرض وما عليها يستعينون بها على عبادته؛ فمن استعان بذلك على عبادة الله؛ حلَّ له ذلك وخرج من التَّبِعة، ومن استعان بذلك على الكفر وأنواع المعاصي؛ لم يكن ذلك خالصاً له ولم يحلَّ له، فعلم أن أعداء الرسل في الحقيقة ليس لهم شيء من الأرض التي تَوَعَّدوا الرسل بإخراجهم منها. وإن رجَعْنا إلى مجرَّد العادة؛ فإنَّ الرسل من جملة أهل بلادهم وأفراد منهم؛ فلأيِّ شيء يمنعونهم حقًّا لهم صريحاً واضحاً؟! هل هذا إلا من عدم الدين والمروءة بالكلية؟! ولهذا لما انتهى مكرهم بالرسل إلى هذه الحال؛ ما بقي حينئذٍ إلاَّ أن يُمضي الله أمره وينصر أولياءه. {فأوحى إليهم ربُّهم لَنُهْلِكَنَّ الظالمين}: بأنواع العقوبات.
[13] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل کی اپنی قوم کے سامنے دعوت، اس پر دوام اور عدم ملال کا ذکر فرمایا تو ان کی قوم کے ساتھ ان کا منتہائے حال بھی بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ ﴾ ’’اور جو کافر تھے انھوں نے اپنے رسولوں سے کہا۔‘‘ ان کو دھمکی دیتے ہوئے: ﴿لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا﴾ ’’ہم تمھیں اپنے وطن سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ‘‘ یہ انبیاء کی دعوت کو ٹھکرانے کا سب سے زیادہ بلیغ طریقہ ہے اور اس کے بعد ان پر کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ انھوں نے ہدایت سے روگردانی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے رسولوں کو ان کے وطن سے نکال دینے کی بھی دھمکی دی اور وطن کو صرف اپنی طرف منسوب کیا، ان کا زعم تھا کہ وطن پر رسولوں کا کوئی حق نہیں ۔ اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روئے زمین پر پھیلایا اور ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور زمین اور زمین کی ہر چیز کو ان کے لیے مسخر کر دیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ان چیزوں سے مدد لیتے ہیں ۔ پس جو کوئی ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے یہ اس کے لیے جائز ہیں اور اس پر کوئی گرفت نہیں اور جو کوئی ان کو کفر اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی میں استعمال کرتا ہے تو یہ اشیاء اس کے لیے خالص ہیں نہ اس کے لیے حلال ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ دشمنان انبیاء، درحقیقت، زمین کی کسی شے کے مالک نہیں ، وہ زمین سے جس سے وہ انبیاء کرام کو جلا وطن کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اس کی کسی چیز کے بھی مالک نہیں … اگر ہم مجرد عادت کی طرف رجوع کریں تو انبیاء و مرسلین بھی اہل بلاد میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے وطن ہی میں بسنے والے افراد ہیں، تب وہ انھیں ان کے واضح اور صریح حق سے کیوں محروم کر رہے ہیں کیا یہ تمام تر دین اور مروت کے منافی نہیں ؟… اسی لیے جب رسولوں کے خلاف ان کی سازشیں اس حال کو پہنچ گئیں تو اس کے سوا کچھ باقی نہ رہا کہ اللہ اپنے حکم کو نافذ کر دے اور اپنے اولیاء کی مدد کرے۔ ﴿ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پس ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘ عذاب کی مختلف اقسام کے ذریعے سے۔
#
{14} {ولَنُسْكِنَنَّكُمُ الأرض من بعدهم ذلك}؛ أي: العاقبة الحسنة التي جعلها الله للرسل ومَنْ تَبِعَهم جزاء، {لِمَنْ خاف مقامي}: عليه في الدنيا، وراقب الله مراقبة من يعلم أنه يراه، {وخاف وعيدِ}؛ أي: ما توعَّدت به مَنْ عصاني؛ فأوجب له ذلك الانكفاف عمَّا يكرهُهُ الله والمبادرة إلى ما يحبُّه الله.
[14] ﴿ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ﴾ ’’اور ان کے بعد ہم تم کو زمین میں آباد کریں گے، یہ‘‘ یعنی یہ اچھا انجام جس سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل اور ان کے پیروکاروں کو بہرہ ور کیا، اس شخص کی جزا ہے ﴿لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ ﴾ ’’جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے۔‘‘ یعنی جو دنیا میں ، مرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کا اس شخص کی مانند خوف کھاتا ہو جسے علم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ ﴿ وَخَافَ وَعِیْدِ ﴾ ’’اور میرے عذاب سے خوف کرے۔‘‘ یعنی میری وعید سے ڈرتا ہو جو میں نے اپنے نافرمانوں کو سنائی ہے، پس یہ ڈر اس بات کا موجب ہے کہ وہ ان امور سے رک جائے جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے اور ان کی طرف سبقت کرے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔
#
{15} {واستفتحوا}؛ أي: الكفار؛ أي: هم الذين طلبوا واستعجلوا فَتْحَ الله وفرقانَهُ بين أوليائه وأعدائه، فجاءهم ما استفتحوا به، وإلاَّ؛ فالله حليمٌ، لا يعاجِل من عصاه بالعقوبة. {وخاب كلُّ جبارٍ عنيدٍ}؛ أي: خسر في الدنيا والآخرة من تجبَّر على الله وعلى الحقِّ وعلى عباد الله، [واستكبر] في الأرض، وعاند الرسل، وشاقَّهم.
[15] ﴿ وَاسْتَفْتَحُوْا﴾ ’’اور انھوں نے فیصلہ طلب کیا۔‘‘ یعنی کفار نے، یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے، اس کے اولیاء اور اس کے اعداء کے درمیان تفریق و امتیاز کے مطالبے میں جلدی مچائی، پس انھوں نے جو فیصلہ طلب کیا تھا، وہ ان کے پاس آگیا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو نہایت حلم والا ہے۔ وہ اپنے نافرمانوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ﴿ وَخَابَ كُ٘لُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ﴾ ’’اور نامراد ہوا ہر سرکش ضدی‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ، حق اور اللہ کے بندوں کے مقابلے میں سرکشی دکھاتا ہے، زمین میں تکبر کرتا ہے اور انبیاء و رسل کے خلاف عناد رکھتا ہے اور ان کی مخالفت کرتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں خائب و خاسر ہوتا ہے۔
#
{16} {من ورائه جهنَّمُ}؛ أي: جهنَّم لهذا الجبار العنيد بالمرصاد؛ فلا بدَّ له من ورودها، فيذاق حينئذٍ العذاب الشديد. {ويُسْقى من ماءٍ صديدٍ}: في لونه وطعمه ورائحته الخبيثة، وهو في غاية الحرارة.
[16] ﴿ مِّنْ وَّرَآىِٕهٖ جَهَنَّمُ ﴾ ’’اس کے پیچھے دوزخ ہے‘‘ یعنی جہنم اس معاند حق، جابر شخص کی گھات میں ہے وہ ضرور اس جہنم میں وارد ہو گا، تب اسے سخت عذاب کا مزا چکھایا جائے گا۔ ﴿ وَیُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ ﴾ ’’اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا‘‘ جو اپنے رنگ، ذائقے اور بدبو میں خون اور پیپ جیسا ہو گا اور وہ انتہائی گرم ہو گا۔
#
{17} {يَتَجَرَّعُه}: من العطش الشديد، {ولا يكادُ يُسيغُهُ}: فإنه إذا قرب إلى وجهه؛ شواه، وإذا وصل إلى بطنه؛ قطع ما أتى عليه من الأمعاء، {ويأتيه الموتُ من كلِّ مكان وما هو بميِّتٍ}؛ أي: يأتيه العذاب الشديد من كلِّ نوع من أنواع العذاب، وكلُّ نوع منه من شدَّته يبلغ إلى الموت، ولكنَّ الله قضى أن لا يموتوا؛ كما قال تعالى: {لا يُقْضى عليهم فيموتوا ولا يُخَفَّفُ عنهم من عذابها كذلك نَجْزي كلَّ كفورٍ}. وهم يصطرخون فيها، {ومن ورائِه}؛ أي: الجبار العنيد {عذابٌ غليظٌ}؛ أي: قويٌّ شديدٌ لا يعلم بوصفه وشدَّته إلا الله تعالى.
[17] ﴿ یَّتَجَرَّعُهٗ ﴾ ’’وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پيے گا۔‘‘ یعنی سخت پیاس کے مارے گھونٹ گھونٹ پيے گا ﴿ وَلَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ﴾ ’’اور اس کو گلے سے نہیں اتار سکے گا‘‘ کیونکہ جب وہ اسے اپنے منہ کے قریب لے کر جائے گا تو وہ چہرے کو بھون کر رکھ دے گا اور جب یہ پانی پیٹ میں جائے گا تو جہاں سے گزرے گا انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ ﴿ وَیَ٘اْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُ٘لِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَیِّتٍ﴾ ’’اور اسے ہر جگہ سے موت آئے گی جبکہ وہ مرے گا نہیں ‘‘ یعنی اس کو ہر قسم کا سخت عذاب دیا جائے گا اور اپنی شدت کے اعتبار سے عذاب کی ہر نوع موت کی مانند ہو گی مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو گا کہ اسے موت نہ آئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَا یُ٘قْ٘ضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُ٘لَّ كَفُوْرٍۚ۰۰وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا﴾ (فاطر:35؍36-37) ’’انھیں موت نہیں آئے گی کہ مر جائیں نہ ان پر عذاب ہی کو ہلکا کیا جائے گا ہم ہر بڑے کافر کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور وہ اس میں چلائیں گے۔‘‘ ﴿ وَمِنْ وَّرَآىِٕهٖ ﴾ ’’اور اس کے پیچھے‘‘ یعنی جبار، معاند حق کے پیچھے ﴿ عَذَابٌ غَلِیْظٌ ﴾ ’’سخت عذاب ہوگا۔‘‘ یعنی نہایت قوی اور سخت عذاب، جس کے وصف اور شدت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
آیت: 18 #
{مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ (18)}
حال ان لوگوں (کے عملوں ) کا جنھوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ، (یہ ہو گا کہ) ان کے اعمال مانند اس راکھ کے ہوں گے کہ سخت چلی اس (راکھ) پر ہوا، آندھی والے روز، نہیں قدرت رکھیں گے وہ ان اعمال میں سے جو انھوں نے کمائے اوپر کسی چیز کے (ان میں سے) یہی ہے گمراہی دور کی (18)
#
{18} يخبِّر تعالى عن أعمال الكفار التي عملوها: إما أن المراد بها الأعمال التي عملوها لله بأنَّها في ذَهابها وبطلانها واضمحلالها كاضمحلال الرماد الذي هو أدقُّ الأشياء وأخفها إذا اشتدَّت به الريح في يوم عاصف شديد الهبوب؛ فإنَّه لا يُبقي منه شيئاً ولا يُقْدَرُ منه على شيء يذهب ويضمحلُّ؛ فكذلك أعمال الكفار، {لا يقدِرونَ ممَّا كسبوا على شيء}، ولا على مثقال ذرَّة منه؛ لأنَّه مبنيٌّ على الكفر والتكذيب. {ذلك هو الضلال البعيد}: حيث بَطَلَ سعيُهم واضمحلَّ عملُهم. وإمَّا أنَّ المراد بذلك أعمال الكفار التي عملوها لِيَكيدوا بها الحقَّ؛ فإنَّهم يسعون ويكدحون في ذلك، ومكرهم عائدٌ عليهم، ولن يضرُّوا الله ورسله وجنده وما معهم من الحقِّ شيئاً.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کے اعمال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے… اور ان اعمال سے یا تو وہ اعمال مراد ہیں جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کیے ہیں ۔ یہ اعمال بے فائدہ جانے، اپنے بطلان اور اپنے اضمحلال میں راکھ کی مانند ہیں جو سب سے گھٹیا اور سب سے ہلکی چیز ہے۔ سخت آندھی والے دن جب سخت ہوا چلتی ہے تو اس راکھ میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا، اس راکھ کے اڑ جانے اور مضمحل ہونے سے روکنے کی قدرت کوئی نہیں رکھتا۔ اسی طرح کفار کے اعمال ہیں ﴿ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ﴾ ’’جو وہ کام کرتے رہے ان پر وہ کچھ دسترس نہ رکھیں گے۔‘‘ یعنی وہ اپنے اعمال میں سے ذرہ بھر عمل کے اجر کے حصول پر بھی قادر نہ ہوں گے کیونکہ یہ عمل کفر اور تکذیب پر مبنی ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰ٘لُ الْبَعِیْدُ ﴾ ’’یہی ہے دور کی گمراہی‘‘ کیونکہ ان کی کوشش رائیگاں گئی اور ان کا عمل باطل ہو گیا۔ یا ان اعمال سے مراد کفار کے وہ اعمال ہیں جن کے ذریعے سے وہ حق کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے، وہ حق میں جرح اور قدح کیا کرتے تھے۔ ان کے مکروفریب کا وبال انھی کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کے لشکر اور حق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔
آیت: 19 - 21 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (19) وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ (20) وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِيصٍ (21)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے؟ اگر وہ چاہے تو لے جائے تمھیں اور لے آئے مخلوق نئی (19) اور نہیں ہے یہ (کام) اوپر اللہ کے کچھ بھی مشکل (20)اور وہ سامنے (کھڑے) ہوں گے اللہ کے سب تو کہیں گے کمزور لوگ ان لوگوں سے جو تکبر کرتے تھے (دنیا میں )، بے شک ہم تو تھے تمھارے تابع، پس کیا تم دور کر سکنے والے ہو ہم سے اللہ کاعذاب کچھ؟ وہ کہیں گے، اگر ہدایت دیتا ہمیں اللہ تو ، البتہ ہم بھی ہدایت کرتے تمھیں ، برابر ہے ہم پر آیا جزع فزع کریں ہم یا صبر کریں ہم، نہیں ہے واسطے ہمارے کوئی بھاگنے کی جگہ (21)
#
{19} ينبِّه تعالى عباده بأنّه {خَلَقَ السمواتِ والأرض بالحقِّ}؛ أي: ليعبده الخلق ويعرفوه ويأمرهم وينهاهم، وليستدلوا بهما وما فيهما على ما له من صفات الكمال، وليعلموا أنَّ الذي خَلَقَ السماوات والأرض ـ على عظمهما وسعتهما ـ قادرٌ على أن يعيدَهم خلقاً جديداً؛ ليجازِيَهم بإحسانهم وإساءتهم، وأنَّ قدرته ومشيئته لا تَقْصُرُ عن ذلك. ولهذا قال: {إنْ يَشَأ يُذْهِبْكم ويأتِ بخَلْقٍ جديدٍ}: يُحتمل أنَّ المعنى: إنْ يشأ يُذهبكم ويأت بقوم غيركم يكونون أطوعَ لله منكم. ويُحتمل أنَّ المراد: إنْ يشأ يُفْنيكم ثم يعيدهم بالبعث خلقاً جديداً. ويدلُّ على هذا الاحتمال ما ذكره بعده من أحوال القيامة.
[19] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ﴾ ’’بے شک اللہ نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ‘‘ یعنی تاکہ مخلوق اس کی عبادت کرے اور اس کی معرفت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اوامر و نواہی جاری کرے اور مخلوق ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کمال پر استدلال کرے اور ان کو معلوم ہو جائے کہ وہ ہستی جس نے اتنے بڑے اور وسیع آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ تمام مخلوق کو نئے سرے سے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے تاکہ ان کی نیکی اور بدی پر ان کو جزا و سزا دے اور اس کی قدرت و مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں ہے۔ بنا بریں فرمایا ﴿ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَ٘اْتِ بِخَلْ٘قٍ جَدِیْدٍ ﴾ ’’اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے‘‘ اس آیت کریمہ میں اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تمھیں لے جائے اور تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے جو تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والی ہو اور یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں فنا کر دے اور پھر تمھیں دوبارہ زندہ کر کے ایک نئی تخلیق عطا کرے۔ اس احتمال کے مطابق اس آیت سے قیامت کے احوال کا اثبات ہوتا ہے جن کا ذکر مابعد سطور میں آ رہا ہے۔
#
{20} {وما ذلك على الله بعزيزٍ}؛ أي: بممتنع، بل هو سهلٌ عليه جدًّا، {ما خَلْقُكُم ولا بَعْثُكم إلا كنفس واحدةٍ وهو الذي يبدأ الخَلْق ثم يعيدُه وهو أهونُ عليه}.
[20] ﴿ وَّمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ﴾ ’’اور یہ اللہ کو کچھ بھی مشکل نہیں ۔‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے ﴿مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَ٘نَ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ﴾ (لقمان:31؍28) ’’تمھیں پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا ایک شخص کو پیدا کرنے اور اس کو جلا اٹھانے کی مانند ہے۔‘‘ ﴿وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِ﴾ (الروم: 30؍27) ’’وہی تو ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘
#
{21} {وبرزوا}؛ أي: الخلائق {لله جميعاً}: حين يُنفخُ في الصور فيخرجون من الأجداث إلى ربِّهم، فيقفون في أرض مستوية، قاعٍ صفصفٍ، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً، ويبرُزون له لايخفى عليه منهم خافيةٌ؛ فإذا برزوا؛ صاروا يتحاجُّون، وكلٌّ يدفع عن نفسه ويدافع ما يقدر عليه، ولكن أنَّى لهم ذلك؟! فيقول {الضعفاء}؛ أي: التابعون والمقلِّدون، {للذين استكبروا}: وهم المتبوعون الذين هم قادة في الضَّلال: {إنَّا كنَّا لكم تَبَعاً}؛ أي: في الدنيا أمرتمونا بالضلال وزيَّنتموه لنا فأغويتمونا. {فهل أنتم} اليوم {مُغنون عنَّا من عذاب الله من شيء}؛ أي: ولو مثقال ذرَّة {قالوا}؛ أي: المتبوعون والرؤساء: أغويناكم كما غوينا، فَـ {لو هدانا الله لهديناكم}؛ فلا يُغني أحدٌ أحداً. {سواءٌ علينا أجَزِعْنا}: من العذاب، {أم صَبَرْنا}: عليه. {ما لنا من مَحيصٍ}؛ أي: [من] ملجأ نلجأ إليه، ولا مَهْرَبَ لنا من عذاب الله.
[21] ﴿ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا ﴾ ’’اور سب لوگ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گی، سب اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی خدمت میں جائیں گے۔ وہ ایک ہموار زمین میں کھڑے ہوں گے جس میں تو کوئی نشیب و فراز نہ دیکھے گا۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اور اس سے ان کی کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔ پس جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں گے تو آپس میں جھگڑا کریں گے، ہر شخص اپنے آپ کی مدافعت کرے گا۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے ﴿ فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا ﴾ ’’پس کمزور کہیں گے‘‘ یعنی پیروی کرنے والے اور مقلدین ﴿ لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا ﴾ ’’بڑائی والوں کو‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں پیروی کی جاتی تھی جو گمراہی کے میدان میں قیادت کرتے تھے ﴿اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا﴾ ’’ہم تو تمھارے پیرو تھے۔‘‘ یعنی دنیا میں ہم تمھاری پیروی کرتے تھے، تم ہمیں گمراہی کا حکم دیا کرتے تھے اور گمراہی کو ہمارے سامنے آراستہ کیا کرتے تھے، پس تم نے ہمیں بدراہ کر دیا ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ ﴾ ’’کیا پس تم ہم کو بچاؤ گے اللہ کے کسی عذاب سے کچھ‘‘ یعنی خواہ یہ عذاب سے بچانا ذرہ بھر ہی کیوں نہ ہو ﴿ قَالُوْا﴾ یعنی قائدین اور سردار کہیں گے جیسے ہم گمراہ تھے ویسے ہی ہم نے تمھیں گمراہ کر دیا۔ اور ﴿لَوْ هَدٰؔىنَا اللّٰهُ لَهَدَیْنٰؔكُمْ﴾ ’’اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمھیں ہدایت کر دیتے‘‘ پس کوئی کسی کے کام نہ آئے گا ﴿ سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ ﴾ ’’اب برابر ہے ہمارے حق میں ہم بے قراری کریں ‘‘ عذاب کی وجہ سے۔ ﴿ اَمْ صَبَرْنَا ﴾ ’’یا صبر کریں ‘‘ اس عذاب پر ﴿ مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ ﴾ ’’ہمارے لیے کوئی خلاصی نہیں ‘‘ یعنی کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں ہم پناہ لے سکیں اور کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ہم اللہ کے عذاب سے بھاگ کر جاسکیں ۔
آیت: 22 - 23 #
{وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (22) وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (23)}.
اور کہے گا شیطان، جب فیصلہ کر دیا جائے گا تمام معاملات کا، بے شک اللہ نے وعدہ کیا تھا تم سے وعدہ کیا تھا تم سے وعدہ سچااور میں نے وعدہ کیا تھا تم سے پس خلاف ورزی کی میں نے تم سے اور نہیں تھا واسطے میرے تم پر کوئی غلبہ سوائے اس کے کہ میں نے بلایا تمھیں اور تم نے مان لی میری بات، سو نہ ملامت کرو تم مجھے اور ملامت کرو تم اپنے آپ کو ، نہیں ہوں میں تمھاری فریاد رسی کرنے والااور نہ تم ہی میری فریاد رسی کرنے والے ہو، بلاشبہ میں تو انکار کرتا ہوں اس کا جو تم شریک ٹھہراتے تھے مجھے (اللہ کا) پہلے اس سے، بے شک ظالم لوگ، ان کے لیے عذاب ہے بہت درد ناک (22) اور داخل کیے جائیں گے وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، ایسے باغات میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں ، ساتھ حکم اپنے رب کے، ان کی (ملاقات کی) دعاء ہو گی ان میں سلام (23)
#
{22} أي: {وقال الشيطان}: الذي هو سببٌ لكلِّ شرٍّ يقع ووقع في العالم مخاطباً لأهل النار ومتبرئاً منهم، {لمَّا قُضِيَ الأمر}: ودخل أهلُ الجنةِ الجنةَ وأهلُ النارِ النارَ: {إنَّ الله وَعَدَكم وعدَ الحقِّ}: على ألسنة رسله فلم تطيعوه؛ فلو أطعتموه؛ لأدركتم الفوز العظيم. {ووعدتُكم}: الخير، {فأخلفتُكم}؛ أي: لم يحصُلْ ولن يحصُلَ لكم ما منَّيتكم به من الأماني الباطلة. {وما كان لي عليكُم من سلطانٍ}؛ أي: من حجة على تأييد قولي، {إلاَّ أن دعوتُكم فاستجبتُم لي}؛ أي: هذه نهاية ما عندي أني دعوتُكم إلى مُرادي وزيَّنته لكم فاستجبتُم لي اتِّباعاً لأهوائكم وشهواتكم؛ فإذا كانت الحال بهذه الصورة؛ {فلا تلوموني ولوموا أنفسكم}: فأنتم السبب وعليكم المدار في موجب العقاب. {ما أنا بمصرِخِكُم}؛ أي: بمغيثكم من الشدَّة التي أنتم بها، {وما أنتم بمصرخيَّ}: كلٌّ له قسطٌ من العذاب. {إنِّي كفرتُ بما أشركتمونِ من قبلُ}؛ أي: تبرأت من جعلكم لي شريكاً مع الله، فلست شريكاً لله، ولا تجب طاعتي. {إنَّ الظالمين}: لأنفسهم بطاعة الشيطان {لهم عذابٌ أليمٌ}: خالدين فيه أبداً. وهذا من لطف الله بعباده أن حذَّرهم من طاعة الشيطان، وأخبر بمداخلِهِ التي يدخل منها على الإنسان ومقاصدِهِ فيه، وأنه يقصدُ أن يدخله النيران. وهنا بيَّن لنا أنَّه إذا دخل النار وجندُه ؛ أنَّه يتبرَّأ منهم هذه البراءة، ويكفُر بشركِهِم، ولا ينبِّئك مثل خبيرٍ. واعلم أن الله ذكر في هذه الآية أنه ليس له سلطانٌ، وقال في آية أخرى: {إنَّما سُلْطانُهُ على الذين يَتَوَلَّوْنَهُ والذين هم به مشركونَ}؛ فالسلطان الذي نفاه عنه هو سلطان الحجَّة والدليل، فليس له حجَّة أصلاً على ما يدعو إليه، وإنما نهاية ذلك أن يُقيم لهم من الشُبَه والتزيينات ما به يتجرؤون على المعاصي، وأما السلطان الذي أثبته؛ فهو التسلُّط بالإغراء على المعاصي لأوليائه يؤزُّهم إلى المعاصي أزًّا، وهم الذين سلَّطوه على أنفسهم بموالاته والالتحاق بحزبه، ولهذا ليس له سلطان على الذين آمنوا وعلى ربِّهم يتوكَّلون.
[22] ﴿وَقَالَ الشَّ٘یْطٰنُ﴾ شیطان، جو دنیا میں واقع ہونے والی ہر برائی کا سبب ہے جہنمیوں سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر کہے گا: ﴿لَمَّا قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ ﴾ ’’جب فیصلہ ہو چکے گا سب امور کا‘‘ اور جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے اور جہنمی جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ﴾ ’’جو وعدہ اللہ نے کیا تھا وہ تو سچ تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی زبان پر تمھارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا مگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی، اگر تم نے اس کی اطاعت کی ہوتی تو تم فوز عظیم سے بہرہ ور ہوتے ﴿ وَوَعَدْتُّكُمْ ﴾ ’’اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا‘‘ بھلائی کا ﴿ فَاَخْلَفْتُكُمْ ﴾ ’’پس میں نے تم سے وعدہ خلافی کی‘‘ یعنی میں نے تمھیں جو جھوٹی آرزوئیں اور امیدیں دلائی تھیں وہ حاصل نہیں ہوئیں اور نہ کبھی حاصل ہوں گی۔ ﴿ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ ’’اور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا‘‘ میرے پاس کوئی دلیل اور اپنے قول کی کوئی تائید نہ تھی ﴿ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ﴾ ’’مگر یہ کہ میں نے تمھیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی‘‘ یعنی میرے پاس زیادہ سے زیادہ جو اختیار تھا وہ یہ تھا کہ میں نے تمھیں اپنے مقصد کی طرف بلایا اور تمھارے سامنے اسے خوب آراستہ کیا، تم نے اپنی خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی کرتے ہوئے میری دعوت پر لبیک کہا۔ جب صورت حال یہ ہے ﴿ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’تو تم مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘ پس موجب عذاب میں تم ہی پر دارومدار ہے اور تم ہی اس عذاب کا سبب ہو۔ ﴿ مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ ﴾ ’’میں تمھاری فریاد کو نہیں پہنچ سکتا‘‘ یعنی جس شدت عذاب میں تم مبتلا ہو میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ﴾ ’’اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو‘‘ ہر ایک کے لیے اپنے اپنے حصے کا عذاب ہے ﴿ اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَؔكْتُمُوْنِ۠ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’میں منکر ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا تھا اس سے پہلے‘‘ یعنی تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا تھا، میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہ تھا اور تم پر میری اطاعت واجب نہ تھی پس میں تم سے بری الذمہ ہوں ﴿ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ﴾ بے شک شیطان کی اطاعت کر کے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’ان کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘ وہ اس عذاب میں ابدالآباد تک رہیں گے۔ اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انھیں شیطان کی اطاعت سے ڈرایا اس نے شیطان کے مقاصد اور ان راستوں کی نشاندہی کردی ہے جہاں سے وہ داخل ہو کر انسان کو گمراہ کرتا ہے اس کا مقصد صرف انسان کو جہنم کی آگ میں جھونکنا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ جب شیطان اپنے لشکر سمیت جہنم میں داخل ہو گا تو وہ اپنے متبعین سے بریء الذمہ ہو جائے گا اور ان کے شرک سے صاف انکار کر دے گا۔ ﴿وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْ٘لُ خَبِیْرٍ﴾ (فاطر: 35؍14) ’’اور اللہ باخبر کی مانند تمھیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا ﴿اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْ٘رِكُوْنَ﴾ (النحل: 16؍100) ’’شیطان کا زور تو صرف انھی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا والی اور سرپرست بناتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ پس وہ ’’زور‘‘ اور ’’تسلط‘‘ جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کی ہے اس سے مراد حجت اور دلیل ہے، شیطان جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر درحقیقت اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ ان کو شبہات میں مبتلا کرے، گناہوں کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کرے، جن سے متاثر ہو کر وہ گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرلیں ۔ رہا وہ ’’زور‘‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے تو اس سے مراد وہ تسلط ہے جس کے بل پر وہ اپنے دوستوں کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور ان کو نافرمانیوں پر ابھارتا ہے۔ بندے شیطان سے موالات پیدا کر کے اور اس کے گروہ میں شامل ہو کر اس کو اپنے آپ پر مسلط کر لیتے ہیں ۔ اس لیے شیطان کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
#
{23} ولما ذكر عقاب الظالمين؛ ذكر ثواب الطائعين، فقال: {وأُدْخِلَ الذين آمنوا وعملوا الصالحات}؛ أي: قاموا بالدين قولاً وعملاً واعتقاداً، {جناتٍ تجري من تحتها الأنهارُ}: فيها من اللَّذَّات والشَّهَوات ما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطر على قلب بشرٍ. {خالدين فيها بإذنِ ربِّهم}؛ أي: لا بحولهم وقوَّتهم، بل بحول الله وقوته. {تحيَّتُهم فيها سلامٌ}؛ أي: يحيّي بعضُهم بعضاً بالسلام والتحية والكلام الطيب.
[23] اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو دیے جانے والے عذاب کا ذکر کرنے کے بعد اطاعت کرنے والوں کے لیے ثواب کا ذکر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور داخل کیے گئے وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے قول و فعل اور اعتقاد کے ساتھ دین کو قائم کیا ﴿ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’ایسے باغات میں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ‘‘ ان جنتوں میں ایسی لذات و شہوات ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا بِـاِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ ان میں اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے‘‘ یعنی وہ اپنی قوت و اختیار سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قوت و اختیار سے جنت میں داخل ہوں گے ﴿ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰ٘مٌ﴾ ’’ان کی دعائے ملاقات ہے ان میں سلام‘‘ وہ سلام اور اچھے کلمات کے ساتھ ایک دوسرے کا خیرمقدم کریں گے۔
آیت: 24 - 26 #
{أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (24) تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (25) وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (26)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ کس طرح بیان فرمائی ہے اللہ نے مثال کلمۂ طیبہ کی؟ (کہ وہ ہے) مانند درخت پاکیزہ (کھجور) کے، کہ جڑ اس کی مضبوط ہے اور شاخیں اس کی آسمان میں ہیں (24) لاتا ہے وہ (درخت) پھل اپنا ہر وقت ساتھ حکم اپنے رب کے،اور بیان فرماتا ہے اللہ مثالیں لوگوں کے لیے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (25) اور مثال کلمۂ خبیثہ (کفرو شرک) کی ہے مانند درخت ناپاک کے، وہ اکھیڑ دیا جاتا ہے اورپر سے زمین کے، نہیں ہے اس کے لیے کوئی قرار (26)
#
{24} يقول تعالى: {ألم تَرَ كيف ضَرَبَ الله مثلاً كلمةً طيبةً}: وهي شهادة أن لا إله إلا الله وفروعها {كشجرةٍ طيبةٍ}: وهي النخلة {أصلُها ثابتٌ}: في الأرض. {وفرعُها}: منتشرٌ {في السماء}: وهي كثيرة النفع دائماً.
[24] ﴿ اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً ﴾ ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا، کیسے بیان کی اللہ نے ایک مثال، ستھری بات‘‘ یہاں کلمہ طیبہ (ستھری بات) سے مراد ہے اس امر کی گواہی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی فروعات (ایسے ہے) ﴿ كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ ﴾ ’’جیسے ایک ستھرا درخت ہے‘‘ اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے ﴿ اَصْلُهَا ثَابِتٌ ﴾ ’’اس کی جڑ مضبوط ہے‘‘ یعنی زمین میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے ﴿ وَّفَرْعُهَا ﴾ ’’اور اس کی شاخیں ۔‘‘ یعنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ ﴿ فِی السَّمَآءِ ﴾ ’’آسمان میں ‘‘ اور یہ درخت دائمی طور پر کثیر الفوائد ہے۔
#
{25} {تؤتي أكُلَها}؛ أي: ثمرتها، {كلَّ حين بإذن ربِّها}: فكذلك شجرة الإيمان أصلُها ثابتٌ في قلب المؤمن علماً واعتقاداً، وفرعُها من الكلم الطيِّب والعمل الصالح والأخلاق المرضيَّة والآداب الحسنة في السماء دائماً، يصعَدُ إلى الله منه من الأعمال والأقوال التي تخرِجُها شجرة الإيمان، ما ينتفعُ به المؤمن وينتفع غيره، {ويضرِبُ الله الأمثالَ للناس لعلَّهم يتذكَّرون}: ما أمرهم به ونهاهم عنه؛ فإنَّ في ضرب الأمثال تقريباً للمعاني المعقولة من الأمثال المحسوسة، ويتبيَّن المعنى الذي أراده الله غاية البيان ويتَّضح غاية الوضوح، وهذا من رحمته وحسن تعليمه؛ فللَّه أتمُّ الحمد وأكمله وأعمُّه. فهذه صفة كلمة التوحيد، وثباتُها في قلب المؤمن.
[25] ﴿ تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا ﴾ ’’وہ پھل لاتا ہے‘‘ ﴿ كُ٘لَّ حِیْنٍۭؔ بِـاِذْنِ رَبِّهَا﴾ ’’ہر وقت پر اپنے رب کے حکم سے‘‘ یہی حال شجر ایمان کا ہے، اس کی جڑیں علم و اعتقاد کے اعتبار سے بندۂ مومن کے قلب کی گہرائیوں میں نہایت مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں ، اس کی شاخیں یعنی کلمات طیبات، عمل صالح، اخلاق جمیلہ، آداب حسنہ ہمیشہ آسمان کی طرف بلند رہتی ہیں ۔ بندۂ مومن کی طرف سے ایسے اعمال و اقوال بلند ہوتے ہیں ۔ جو شجر ایمان سے نکلتے ہیں ، جن سے بندۂ مومن اور دیگر لوگ منتفع ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَیَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ لوگوں کے واسطے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ‘‘ ان سے جن کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان سے جن سے ان کو روکا ہے۔ کیونکہ ضرب الامثال میں ، معانی معقولہ کو امثال محسوسہ کے ذریعے سے قریب لایاجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے معنی میں مراد کی غایت حد تک تبیین اور توضیح ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حسن تعلیم ہے پوری، کامل اور بے پایاں حمد و ثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ پس یہ بندۂ مومن کے قلب میں کلمہء توحید کا وصف اور اس کے ثبات کا بیان ہے۔
#
{26} ثم ذكر ضدَّها، وهي كلمة الكفر وفروعها، فقال: {ومَثَلُ كلمةٍ خبيثة كشجرةٍ خبيثةٍ}: المأكل والمطعم، وهي شجرة الحنظل ونحوها. {اجتُثَّت}: هذه الشجرة {من فوق الأرض ما لها من قرارٍ}؛ أي: [من] ثبوت؛ فلا عروق تمسكها، ولا ثمرة صالحة تنتِجُها، بل إنْ وُجِدَ فيها ثمرةٌ؛ فهي ثمرةٌ خبيثة، كذلك كلمة الكفر والمعاصي، ليس لها ثبوتٌ نافعٌ في القلب، ولا تثمِرُ إلا كلَّ قولٍ خبيثٍ وعملٍ خبيثٍ يستضر به صاحبه، ولا ينتفعُ، ولا يصعدُ إلى الله منه عملٌ صالح، ولا ينفع نفسه، ولا ينتفع به غيره.
[26] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلمۂ توحید کی ضد کلمۂ کفر اور اس کی شاخوں کا ذکر فرمایا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ﴾ ’’اور گندی بات کی مثال، جیسے گندا درخت ہے‘‘ جو کھانے اور ذائقے میں بدترین درخت ہے اور اس سے مراد اندرائن وغیرہ کا پودا ہے ﴿اِجْتُثَّتْ ﴾ یعنی اس پودے کو اکھاڑ لیا گیا ﴿ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَ٘رَارٍ ﴾ ’’زمین کے اوپر سے، اس کو کوئی ٹھہراؤ نہیں ‘‘ یعنی اس پودے کو ثبات حاصل نہیں اس پودے کی رگیں نہیں ہیں جو اس کو سہارا دے کر کھڑا کر سکیں اور نہ یہ کوئی اچھا پھل لاتا ہے بلکہ اس میں پھل پایا بھی جاتا ہے تو انتہائی بدذائقہ۔ اسی طرح کفر اور گناہ کی بات قلب میں کوئی فائدہ مند مضبوطی اور ثبات پیدا نہیں کرتی، اس کا ثمرہ بھی قول خبیث اور عمل خبیث کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو تکلیف دیتا ہے۔ اس بندے کی طرف سے کوئی عمل صالح اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتا۔ اس قول و عمل سے وہ خود منتفع ہوتا ہے نہ کوئی اور۔
آیت: 27 #
{يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ (27)}
ثابت قدم رکھتا ہے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، ساتھ قول ثابت (کلمۂ توحید) کے زندگانیٔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور گمراہ کرتا ہے اللہ ظالموں کواور کرتا ہے اللہ جو چاہتا ہے (27)
#
{27} يخبر تعالى أنَّه يثبِّت عباده المؤمنين؛ أي: الذين قاموا بما عليهم من الإيمان القلبيِّ التامِّ، الذي يستلزم أعمال الجوارح ويثمِّرها، فيثبتهم الله: في الحياة الدنيا عند ورود الشبهات بالهداية إلى اليقين، وعند عروض الشهوات بالإرادة الجازمة على تقديم ما يحبُّه الله على هوى النفس ومرادها، وفي الآخرة عند الموت بالثبات على الدين الإسلاميِّ والخاتمة الحسنة، وفي القبر عند سؤال الملكين للجواب الصحيح إذا قيل للميت: من ربُّك؟ وما دينُك؟ ومن نبيُّك؟ هداهم للجواب الصحيح بأن يقولَ المؤمن: اللهُ ربِّي، والإسلامُ ديني، ومحمدٌ نبيِّي. {ويضِلُّ الله الظالمين}: عن الصواب في الدنيا والآخرة، وما ظلمهم الله ولكنَّهم ظلموا أنفسهم. وفي هذه الآية دلالة على فتنة القبر وعذابه ونعيمه؛ كما تواترت بذلك النصوص عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - في الفتنة وصفتها ونعيم القبر وعذابه.
[27] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے جو کامل طور پر قلبی ایمان کو قائم کرتے ہیں ۔ جو اعمال جوارح کو مستلزم ہے یہ اعمال اس ایمان کا ثمرہ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کے اندر شبہات کے وارد ہونے کے وقت ہدایت اور یقین کے ذریعے سے ثبات اور استقامت عطا کرتا ہے اور جب شہوات پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں قطعی اور پختہ ارادہ عطا کرتا ہے تب وہ خواہش نفس اور اس کی مراد پر اس امر کو مقدم رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آخرت میں ، موت کے وقت دین اسلام اور خاتمہ بالخیر پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے وقت صحیح جواب کی توفیق عطا کر کے ثبات اور مضبوطی سے نوازتا ہے۔ جب میت سے پوچھا جاتا ہے ’’تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تو اللہ تعالیٰ صحیح جواب کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے اور مومن جواب دیتا ہے ’’میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد (e) ہیں ۔‘‘ ﴿وَیُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں راہ صواب سے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں كيا بلکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ، قبر کے امتحان، قبر کے عذاب اور اس کی نعمت اور آرام پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ قبر کے امتحان، اس کی صفت و کیفیت، قبر کے عذاب اور اس کے آرام کے بارے میں نبی کریمe سے نہایت تواتر کے ساتھ نصوص وارد ہوئی ہیں ۔
آیت: 28 - 30 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ (29) وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ (30)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جنھوں نے بدل ڈالا اللہ کی نعمت (ایمان) کو کفر سے اور جا اتارا اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں (28) (یعنی ) جہنم میں ، وہ داخل ہوں گے اس میں اور بہت ہی برا ہے وہ ٹھکانا (29) اور بنائے انھوں نے واسطے اللہ کے شریک تاکہ وہ گمراہ کریں (لوگوں کو) اس کے راستے سے، کہہ دیجیے، تم فائدہ اٹھاؤ (دنیا میں ) پھر بلاشبہ واپسی تمھاری ہے طرف آگ کی (30)
#
{28} يقول تعالى مبينِّاً حال المكذِّبين لرسوله من كفار قريش وما آلَ إليه أمرُهم: {ألم تَرَ إلى الذين بدَّلوا نعمة الله كفراً}: ونعمة الله هي إرسال محمد - صلى الله عليه وسلم - إليهم يدعوهم إلى إدراك الخيرات في الدُّنيا والآخرة وإلى النجاة من شرور الدُّنيا والآخرة، فبدَّلوا هذه النعمة بردِّها والكفر بها والصدِّ عنها بأنفسهم وصدِّهم غيرهم حتى {أحلُّوا قومَهم دار البوارِ}: وهي النار؛ حيث تسبَّبوا لإضلالهم، فصاروا وبالاً على قومهم من حيث يُظَنُّ نفعهم، ومن ذلك أنهم زيَّنوا لهم الخروج يوم بدر ليحاربوا الله ورسوله، فجرى عليهم ما جرى، وقُتِلَ كثيرٌ من كبرائهم وصناديدهم في تلك الوقعة.
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ، رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے کفار قریش کا اور ان کے معاملات کا مآل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُ٘فْرًا ﴾ ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ کی نعمت سے مراد حضرت محمد مصطفیe کی رسالت ہے۔ آپ انھیں دنیا و آخرت میں نیکیوں کے ادراک کی طرف دعوت دیتے تھے مگر انھوں نے اس نعمت کو ٹھکرا کر، اس کا انکار کر کے اور اپنے آپ کو اس نعمت کو قبول کرنے سے باز رکھ کر اس نعمت کو بدل ڈالا۔ ﴿ وَ ﴾ اور دوسروں کو اس نعمت کو قبول کرنے سے روکا حتیٰ کہ ﴿ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِجَهَنَّمَ﴾ ’’اتارا انھوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں ‘‘ اس سے مراد جہنم ہے کیونکہ وہ ان کی گمراہی کا سبب بنے اور اپنی قوم کے لیے وبال بن گئے جبکہ ان سے نفع کی امید تھی۔ منجملہ اس کے یہ بھی ہے کہ غزوہ بدر کے لیے ان کو نکلنے پر آمادہ کرنے کے لیے جنگ پر نکلنے کے بڑے فوائد بیان کیے۔ تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کریں ۔ پس ان کے ساتھ عبرت ناک سلوک ہوا اور جنگ بدر میں ان کے بہت سے بڑے بڑے سردار اور بہادر مارے گئے۔
#
{29} {جهنم يَصْلَوْنها}؛ أي: يحيط بهم حرُّها من جميع جوانبهم. {وبئس القرارُ}.
[29] ﴿جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا﴾ ’’جہنم، داخل ہوں گے وہ اس میں ‘‘ یعنی جہنم کی حرارت انھیں ہر جانب سے گھیر لے گی ﴿ وَبِئْسَ الْ٘قَرَارُ﴾ ’’اور (جہنم) بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
#
{30} {وجعلوا لله أنداداً}؛ أي: نظراء وشركاء، {ليُضِلُّوا عن سبيله}؛ أي: ليضلُّوا العباد عن سبيل الله بسبب ما جعلوا لله من الأنداد ودَعَوْهم إلى عبادتها. {قل} لهم متوعِّداً: {تمتَّعوا} بكفركم وضلالكم قليلاً؛ فليس ذلك بنافعكم، {فإنَّ مصيركم إلى النار}؛ أي: مآلكم ومأواكم فيها وبئس المصير.
[30] ﴿وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا ﴾ ’’اور ٹھہرائے انھوں نے اللہ کے لیے مقابل‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور شریک ﴿ لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖ٘﴾ ’’تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کریں ۔‘‘ یعنی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر بنا کر اور ان کی عبادت کی طرف دعوت دے کر بندوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکا سکیں ﴿ قُ٘لْ ﴾ ان کو وعید سناتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ تَمَتَّعُوْا ﴾ اپنے کفر اور گمراہی سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو۔ پس یہ تمھیں کوئی فائدہ نہ دیں گے ﴿ فَاِنَّ مَصِیْرَؔكُمْ اِلَى النَّارِ ﴾ ’’اس لیے کہ تمھارا ٹھکانا جہنم ہے‘‘ اور یہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
آیت: 31 #
{قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ (31)}.
کہہ دیجیے میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے، کہ وہ قائم کریں نماز اور خرچ کریں اس میں سے جو رزق دیا ہم نے انھیں پوشیدہ اور ظاہر، پہلے اس سے کہ آئے وہ دن کہ نہ خرید و فروخت ہو گی اس میں اور نہ دوستی (ہی کام آئے گی) (31)
#
{31} أي: قل لعبادي المؤمنين آمراً لهم بما فيه غايةُ صلاحهم وأن ينتهزوا الفرصةَ قبل أن لا يمكنهم ذلك، {يُقيموا الصلاة}: ظاهراً وباطناً، {وينفِقوا مما رَزَقْناهم}؛ أي: من النعم التي أنعمنا بها عليهم قليلاً أو كثيراً، {سرًّا وعلانيةً}: وهذا يشمل النفقة الواجبة كالزكاة ونفقة من تجب عليه نفقته، والمستحبَّة كالصدقات ونحوها. {مِنْ قبل أن يأتي يومٌ لا بيعٌ فيه ولا خِلالٌ}؛ أي: لا ينفع فيه شيء، ولا سبيل إلى استدراك ما فات؛ لا بمعاوضة بيع وشراءٍ، ولا بهبة خليل وصديق؛ فكل امرئٍ له شأنٌ يغنيه؛ فليقدِّم العبد لنفسه، ولينظرْ ما قدَّمه لغدٍ، وليتفقدْ أعماله، ويحاسب نفسه قبل الحساب الأكبر.
[31] ﴿ قُ٘لْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’میرے مومن بندوں سے کہہ دو۔‘‘ یعنی انھیں ان امور کا حکم دیجیے جن میں ان کی اصلاح ہے اور انھیں یہ بھی حکم دیا کہ اس سے قبل کہ ان کی اصلاح ممکن نہ ہو وہ فرصت کو غنیمت جانیں ۔ ﴿ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾ وہ ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ نماز قائم کریں ﴿وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ ﴾ ’’اور ہم نے جو انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کریں ۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں کم یا زیادہ جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے خرچ کریں ﴿ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً ﴾ ’’چھپے اور ظاہر‘‘ یہ حکم نفقات واجبہ ، مثلاً: زکٰوۃ اور نفقات کفالت اور نفقات مستحبہ ، مثلاً: عام صدقات وغیرہ کو شامل ہے۔ ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَلَا خِلٰلٌ ﴾ ’’پہلے اس کے کہ وہ دن آ جائے، جس میں نہ کوئی سودا ہو گا نہ دوستی‘‘ یعنی اس دن کوئی چیز فائدہ نہ دے گی اور جو چیز فوت ہو گئی ہو گی تو کسی خرید و فروخت کے معاوضے، کسی ہبہ اور کسی دوست یار کے ذریعے سے اس کا تدارک ممکن نہیں ہو گا۔ پس ہر شخص کا اپنا اپنا معاملہ ہوگا جو اس کو دوسروں سے بے نیاز کر دے گا، اس لیے ہر شخص کو اپنے لیے کچھ بھیجنا چاہیے اور خوب اچھی طرح غور کر لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے۔ وہ اپنے اعمال پر نظر ڈالے اور بڑے حساب کتاب سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے۔
آیت: 32 - 34 #
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (32) وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (33) وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (34)}.
اللہ ہی ہے وہ ذات جس نے پیدا کیے آسمان اور زمین اور نازل کیا آسمان سے پانی، پھر اس نے نکالے (پیدا کیے) اس (پانی) کے ذریعے سے پھل، روزی تمھارے لیےاور تابع کر دیا واسطے تمھارے کشتیوں کو تاکہ چلیں وہ سمندر میں اس (اللہ) کے حکم سےاور تابع کر دیا تمھارے لیے نہروں کو (32) اور تابع کر دیا واسطے تمھارے سورج اورچاند کو درانحالیکہ وہ دونوں برابر چل رہے ہیں اور مطیع کر دیا واسطے تمھارے رات اوردن کو (33) اور اس نے دی تمھیں ہر وہ چیز کہ سوال کیا تم نے اس کااور اگر تم شمار کرو نعمتیں اللہ کی تو نہ گن سکو گے تم انھیں ، بے شک انسان ، البتہ بڑا ظالم، نہایت ناشکرا ہے (34)
#
{32} يخبر تعالى أنَّه وحده {الذي خلق السمواتِ والأرضَ}: على اتِّساعهما وعظمهما، {وأنزل من السماء ماءً}: وهو المطر الذي ينزله الله من السحاب، فأخرج بذلك الماء {من الثمراتِ}: المختلفة الأنواع، {رزقاً لكم}: ورزقاً لأنعامكم. {وسخَّر لكم الفُلْكَ}؛ أي: السفن والمراكب، {لتجرِيَ في البحر بأمرِهِ}: فهو الذي يسَّر لكم صنعتها وأقْدَرَكم عليها وحَفِظَها على تيار الماء لتحمِلَكم وتحمل تجاراتكم وأمتعتكم إلى بلدٍ تقصدونه. {وسخَّرَ لكم الأنهارَ}: لتسقي حروثكم وأشجاركم، وتشربوا منها.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اکیلا ہی ہے ﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ ’’جس نے آسمانوں اور زمین کو (ان کی وسعتوں کے ساتھ) پیدا کیا‘‘ ﴿ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ﴾ ’’اور اتارا آسمان سے پانی‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جسے اللہ تعالیٰ بادلوں سے برساتا ہے ﴿ فَاَخْرَجَ بِهٖ ﴾ ’’پس اس کے ذریعے سے نکالے۔‘‘ یعنی اس پانی کے ذریعے سے ﴿ مِنَ الثَّمَرٰتِ ﴾ مختلف انواع کے پھل ﴿ رِزْقًا لَّكُمْ﴾ تمھارے اور تمھارے مویشیوں کے لیے رزق ﴿ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ ﴾ ’’اور کام میں لگا دیا تمھارے لیے کشتیوں کو‘‘ یعنی جہاز اور کشتیاں ﴿ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ﴾ ’’کہ چلیں وہ سمندر میں اس کے حکم سے‘‘ وہی ہے جس نے جہازوں اور کشتیوں کی صنعت کو تمھارے لیے آسان بنا کر تمھیں ان پر قدرت عطا کی۔ پانی کی موجوں پر ان کی حفاظت کی۔ تاکہ تمھیں اور تمھارے تجارتی مال و اسباب کو اس شہر تک اٹھا لے جائے جہاں کا تم قصد رکھتے ہو۔﴿ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْ٘هٰرَ ﴾ ’’اور کام میں لگا دیا تمھارے لیے نہروں کو‘‘ تاکہ تم اپنے کھیتوں اور باغات کو سیراب کرو اور خود بھی ان کا پانی پیو۔
#
{33} {وسخَّر لكم الشمسَ والقمر دائِبَيْنِ}: لا يفتران ولا يَنيان، يسعَيان لمصالحكم من حساب أزمنتكم ومصالح أبدانكم وحيواناتكم وزروعكم وثماركم. {وسخَّر لكم الليل}: لتسكُنوا فيه، {والنهار} مبصراً لتبتغوا من فضله.
[33] ﴿ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ دَآىِٕبَیْنِ﴾ ’’اور کام میں لگا دیا تمھارے لیے سورج اور چاند کو، ایک دستور پر برابر۔‘‘ ان کی رفتار میں نرمی آتی ہے نہ وہ سست پڑتے ہیں بلکہ تمھارے مصالح یعنی زمان و اوقات کے حساب، تمھارے ابدان، تمھارے مویشی و حیوانات، کھیتوں اور باغات کے فائدے کے لیے رواں دواں رہتے ہیں ۔ ﴿ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ ﴾ ’’اور کام میں لگایا دیا تمھارے لیے رات کو‘‘ تاکہ تم آرام کر سکو۔ ﴿ وَالنَّهَارَ ﴾ ’’اور دن کو‘‘ تمھارے دیکھنے کے لیے تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو۔
#
{34} {وآتاكم من كلِّ ما سألتُموه}؛ أي: أعطاكم من كلِّ ما تعلَّقت به أمانيكم وحاجتكم مما تسألونه إيَّاه بلسان الحال أو بلسان المقال من أنعام وآلاتٍ وصناعاتٍ وغير ذلك. {وإن تَعُدُّوا نعمة الله لا تُحْصوها}: فضلاً عن قيامكم بشكرها. {إنَّ الإنسان لظلومٌ كفَّارٌ}؛ أي: هذه طبيعة الإنسان من حيثُ هو ظالمٌ متجرِّئٌ على المعاصي مقصِّرٌ في حقوق ربِّه، كفَّار لنعم الله لا يشكرها ولا يعترفُ بها؛ إلاَّ مَن هداه الله فشَكَرَ نِعَمَهُ، وعَرَفَ حقَّ ربِّه وقام به. ففي هذه الآيات من أصناف نعم الله على العباد شيءٌ عظيمٌ مجملٌ ومفصَّلٌ يدعو الله به العباد إلى القيام بشكره وذكره، ويحثُّهم على ذلك، ويرغِّبهم في سؤاله ودعائه آناء الليل والنهار؛ كما أنَّ نعمته تتكرَّر عليهم في جميع الأوقات.
[34] ﴿ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُ٘لِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ﴾ ’’اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگا‘‘ یعنی اس نے تمھیں ہر وہ چیز عطا کی جس کے ساتھ تمھاری آرزوئیں اور ضرورتیں وابستہ ہیں جو تم اپنی زبان حال یا زبان قال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہو، مثلاً: مال مویشی، مختلف اقسام کے آلات و صناعات وغیرہ۔ ﴿ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا﴾ ’’اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو توتم شمار نہ کرسکو۔‘‘ یعنی تمھارا ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا تو کجا، تم ان کو شمار بھی نہیں کر سکتے ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ﴾ ’’یقینا انسان نہایت نادان، بہت بے شکرا ہے‘‘ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کیونکہ وہ نہایت ظالم، معاصی کے ارتکاب کی جسارت کرنے والا، اپنے رب کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر وہی ادا کر سکتا ہے، جس کی اللہ تعالیٰ راہ نمائی کرے۔ تب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، اپنے رب کے حق کو پہچانتا ہے اور اسے قائم کرتا ہے۔ پس ان آیات کریمہ میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بہت سی اصناف مجمل اورمفصل طور پر بیان ہوئی ہیں …اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کا ذکر اور اس کا شکر ادا کریں اور وہ ان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دن رات اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور اس سے دعا مانگتے رہیں جیسے ہر وقت بتکرار ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا فیضان رہتا ہے۔
آیت: 35 - 41 #
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا [وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ (35) رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (36) رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (37) رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (38) الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ (39) رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (40) رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ] (41)}.
اور (یاد کرو!) جب کہا ابراہیم نے، اے میرے رب! تو بنا دے اس شہر (مکہ) کو امن والااوردور رکھ مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ ہم عبادت کریں بتوں کی (35) اے میرے رب! بلاشبہ انھوں نے گمراہ کیے ہیں بہت سے لوگ، پس جس شخص نے پیروی کی میری تو بے شک وہ میرا ہے اور جس نے نافرمانی کی میری، سو تو بڑا بخشنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے (36) اے ہمارے رب! بے شک میں نے بسائی ہے اپنی کچھ اولاد ایک ایسی وادی میں جو نہیں ہے کھیتی والی، نزدیک تیرے حرمت والے گھر (کعبے) کے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ قائم کریں نماز، پس کر دے تو دل کچھ لوگوں کے کہ مائل ہوں ان کی طرف اور تو رزق دے انھیں پھلوں سے تاکہ وہ (تیرا) شکر کریں (37) اے رب ہمارے! بے شک تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں اور نہیں چھپتی اوپر اللہ کے کوئی بھی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں (38) تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، وہ جس نے عطا کیے مجھے باوجود بڑھاپے کے اسماعیل اور اسحق، بے شک میرا رب ، البتہ خوب سننے والا ہے دعا کا (39) اے میرے رب! بنا دے مجھے قائم رکھنے والا نماز کو اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور تو قبول فرما میری دعا (40)اے ہمارے رب! تو بخش دے مجھ کو اور میرے ماں باپ کواور (سب) مومنوں کو جس دن قائم ہو گا حساب (41)
#
{35} أي: {و} اذكُرْ إبراهيم عليه الصلاة والسلام في هذه الحالة الجميلة. {إذ قال إبراهيم ربِّ اجعل هذا البلد}؛ أي: الحرم {آمناً}: فاستجاب الله دعاءه شرعاً وقدراً، فحرمه الله في الشرع، ويسَّر من أسباب حرمته قَدَراً ما هو معلوم، حتى إنه لم يردْه ظالمٌ بسوءٍ إلاَّ قصمه الله؛ كما فعل بأصحاب الفيل وغيرهم. ولما دعا له بالأمن؛ دعا له ولبنيه بالأمن، فقال: {واجْنُبْني وبَنِيَّ أن نعبُدَ الأصنام}؛ أي: اجعلني وإيَّاهم جانباً بعيداً عن عبادتها والإلمام بها.
[35] ﴿ وَ ﴾ ’’اور۔‘‘ یعنی اس حالت جمیلہ میں ابراہیمu کو یاد کیجیے ﴿ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰؔذَا الْبَلَدَ ﴾ ’’جب ابراہیم نے کہا، اے رب! بنا دے اس شہر کو‘‘ یعنی حرم مبارک کو ﴿ اٰمِنًا ﴾ ’’امن والا‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے شرعاً اور قدراً آپ کی دعا قبول فرمائی اور اس کی حرمت کے اسباب میسر فرمائے جو کہ ہمیں معلوم ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی ظالم حرم میں برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قلع قمع کر دیتا ہے جیسے اصحاب فیل کے ساتھ کیا تھا… ابراہیمu نے اپنے لیے، اپنے بیٹوں کے لیے اور اس ارض محترم کے لیے امن کی دعا کی، چنانچہ فرمایا ﴿ وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ﴾ ’’اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے دور رکھ‘‘ یعنی ان کے قریب جانے سے بچا۔
#
{36} ثم ذكر الموجب لخوفه عليه وعلى بنيه بكثرة مَن افتتن وابتُلِيَ بعبادتها. فقال: {ربِّ إنهنَّ أضْلَلْنَ كثيراً من الناس}؛ أي: ضلوا بسببها، {فمن تَبِعَنِي}: على ما جئتُ به من التوحيد والإخلاص لله ربِّ العالمين {فإنَّه منِّي}: لتمام الموافقة، ومن أحبَّ قوماً وتبعهم؛ التحق بهم. {ومَنْ عصاني فإنَّك غفورٌ رحيم}: وهذا من شفقة الخليل عليه الصلاة والسلام؛ حيث دعا للعاصين بالمغفرة والرحمة من الله، والله تبارك وتعالى أرحمُ منه بعباده، لا يعذِّب إلاَّ من تمرَّد عليه.
[36] پھر آپ نے اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں ان خدشات کا ذکر فرمایا جو انھیں اکثر لوگوں کے ان بتوں کی عبادت کے فتنے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لاحق ہوئے، اس لیے انھوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ﴿ رَبِّ اِنَّ٘هُنَّ اَضْلَلْ٘نَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ’’اے پروردگار! انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔‘‘ یعنی ان کے سبب سے بہت سے لوگ گمراہ ہوئے۔ ﴿ فَ٘مَنْ تَبِعَنِیْ ﴾ ’’پس جس نے میری اتباع کی۔‘‘ یعنی توحید الٰہی اور اخلاص للہ میں جس نے میری پیروی کی۔ ﴿ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ﴾ ’’تو وہ میرا ہے۔‘‘ یعنی کامل موافقت کی وجہ سے وہ مجھ سے ہے، جو کوئی جس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے، وہ اسی قوم سے ملحق شمار ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بہت بخشنے والا مہربان ہے‘‘ یہ حضرت خلیلu کی شفقت ہے کہ انھوں نے گناہ گاروں کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ صرف اسے عذاب دے گا جو سرکشی اختیار کرتا ہے۔
#
{37} {ربَّنا إني أسكنتُ من ذُرِّيَّتي بوادٍ غير ذي زرع عند بيتِكَ المحرَّم}: وذلك أنَّه أتى بهاجر أم إسماعيل وبابنها إسماعيل عليه الصلاة والسلام وهو في الرَّضاع من الشام حتى وضعهما في مكة، وهي إذ ذاك ليس فيها سكنٌ ولا داعٍ ولا مجيب، فلما وضعهما؛ دعا ربَّه بهذا الدعاء، فقال متضرِّعاً متوكِّلاً على ربِّه: رب {إني أسكنتُ من ذُرِّيَّتي}؛ أي: لا كل ذُرِّيَّتي؛ لأنَّ إسحاق في الشام وباقي بنيه كذلك، وإنما أسكن في مكة إسماعيل وذريته. وقوله: {بواد غير ذي زَرْع}؛ أي: لأن أرض مكة لا تصلح للزراعة. {ربَّنا لِيقيموا الصلاةَ}؛ أي: اجعلهم موحِّدين مقيمين الصلاة؛ لأنَّ إقامة الصلاة من أخصِّ وأفضل العبادات الدينيَّة؛ فمنْ أقامها كان مقيماً لدينه. {فاجْعَلْ أفئدةً من الناس تَهْوي إليهم}؛ أي: تحبُّهم وتحبُّ الموضع الذي هم ساكنون فيه. فأجاب الله دعاءه، فأخرج من ذريَّة إسماعيل محمداً - صلى الله عليه وسلم -، حتى دعا ذرِّيَّته إلى الدين الإسلاميِّ وإلى ملَّة أبيهم إبراهيم، فاستجابوا له وصاروا مقيمي الصلاة. وافترض الله حجَّ هذا البيت الذي أسكن به ذريَّته إبراهيم، وجعل فيه سرًّا عجيباً جاذباً للقلوب؛ فهي تحجُّه ولا تقضي منه وطراً على الدوام، بل كلَّما أكثر العبدُ التردُّد إليه؛ ازداد شوقُه وعظُم وَلَعُه وتَوْقُه، وهذا سرُّ إضافته تعالى إلى نفسه المقدسة. {وارزُقْهم من الثمرات لعلَّهم يشكرون}: فأجاب الله دعاءه، فصار يُجبى إليه ثمرات كل شيء؛ فإنك ترى مكة المشرفة كلَّ وقت، والثمارُ فيها متوفِّرة، والأرزاق تتوالى إليها من كل جانب.
[37] ﴿ رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ﴾ ’’اے رب! میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو، ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں ، تیرے محترم گھر کے پاس‘‘ یعنی آنجنابe نے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ [ کو شام سے لا کر مکہ مکرمہ کی سرزمین میں بسایا تھا، اس وقت حضرت اسماعیلu دودھ پیتے تھے۔اس وقت یہ وادی بالکل سنسان تھی اور اس میں کوئی آبادی نہ تھی۔ جب آپ نے ماں بیٹے کو اس وادی میں آباد کر دیا تو اس وقت یہ دعا مانگی ﴿ رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﴾ یعنی میں نے اپنی تمام اولاد کو نہیں بلکہ اپنی کچھ اولاد کو یہاں لا بسایا ہے۔ کیونکہ حضرت اسحاقu شام میں تھے اسی طرح ان کے دیگر بیٹے بھی شام میں آباد تھے۔ وادی مکہ میں انھوں نے حضرت اسماعیلu اور ان کی اولاد کو آباد کیا۔ ﴿ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ ﴾ ’’ایسی وادی میں جہاں کھیتی نہیں ۔‘‘ کیونکہ ارض مکہ بے آب و گیاہ تھی ﴿ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾ ’’اے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘‘ یعنی ان کو موحد اور نماز قائم کرنے والے بنا کیونکہ نماز سب سے زیادہ خصوصیت کی حامل اور سب سے افضل عبادت ہے اور جس نے نماز کو قائم کر لیا، وہ دین کو قائم کرنے والا ہوگیا۔ ﴿ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’پس کر دے کچھ لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف‘‘ یعنی لوگ ان سے محبت کریں اور اس جگہ سے محبت کریں جہاں یہ آباد ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت اسماعیلu کی اولاد میں سے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیe پیدا ہوئے آپ نے حضرت اسماعیلu کی اولاد کو دین اسلام اور ملت ابراہیم کی طرف دعوت دی انھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور نماز قائم کرنے والے بن گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی زیارت کو فرض قرار دیا جس کے پاس ابراہیمu کی اولاد آباد تھی اور اس میں ایک ایسا بھید پنہاں رکھا جو دلوں کے لیے کشش رکھتا ہے، دل اس گھر کی زیارت کا قصد کرتے ہیں اور اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے بلکہ بندۂ مومن جس قدر زیادہ اس گھر کی زیارت کرتا ہے اس کی آتش شوق اسی قدر زیادہ بھڑکتی ہے اور اس کا سرنہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف مضاف کیا ہے۔ ﴿وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّ٘مَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اور ان کو روزی دے پھلوں سے، شاید وہ شکر کریں ‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت خلیلu کی دعا قبول فرما لی اور ہر قسم کا پھل اس ارض پاک میں پہنچنے لگا۔ آپ دیکھیں گے کہ مکہ مشرفہ میں ہر وقت ہر قسم کا پھل بافراط ملتا ہے اور رزق ہر طرف سے مکہ مکرمہ کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔
#
{38} {ربَّنا إنك تعلم ما نُخفي وما نُعْلِنُ}؛ أي: أنت أعلم بنا منا، فنسألك من تدبيرك وتربيتك لنا أن تيسِّر لنا من الأمور التي نعلمها والتي لا نعلمها ما هو مُقتضى علمك ورحمتك. {وما يخفى على اللهِ من شيءٍ في الأرض ولا في السماء}: ومن ذلك هذا الدعاء الذي لم يَقْصِدْ به الخليل إلا الخير وكثرة الشكر لله ربِّ العالمين.
[38] ﴿رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ﴾ ’’اے ہمارے رب تو جانتا ہے جو ہم چھپا کر کرتے ہیں اور جو دکھا کر کرتے ہیں ‘‘ یعنی تو ہم کو ہم سے زیادہ جانتا ہے، پس ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی تدبیر اور تربیت سے ہمارے لیے ان کاموں کو آسان فرما دے جن کو ہم جانتے ہیں اور ان کو بھی جن کو ہم نہیں جانتے، جو تیرے علم اور تیری رحمت کا تقاضا ہے۔ ﴿وَمَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ ﴾ ’’اور اللہ پر کوئی چیز مخفی نہیں ہے، زمین میں اور نہ آسمان میں ‘‘ اور اس میں یہ دعا بھی شامل ہے جس میں حضرت خلیلu کا ارادہ بھلائی اور اللہ رب العالمین کے لیے کثرت شکر کے سوا کچھ نہ تھا۔
#
{39} {الحمد لله الذي وَهَبَ لي على الكِبَرِ إسماعيل وإسحاقَ}: فَهِبَتُهم من أكبر النعم، وكونهم على الكبر في حال الإياس من الأولاد نعمةٌ أخرى، وكونهم أنبياء صالحين أجلُّ وأفضل. {إنَّ ربِّي لسميع الدعاء}؛ أي: لقريب الإجابة ممن دعاه، وقد دعوتُه فلم يخيِّبْ رجائي.
[39] ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ﴾ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا کیے‘‘ اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بڑھاپے میں ، مایوسی کی حالت میں اولاد کا عطا ہونا ایک دوسری نعمت ہے، پھر ان سب کا صالح انسان اور نبی ہونا جلیل ترین اور افضل ترین مرتبہ ہے۔ ﴿اِنَّ رَبِّیْ لَ٘سَمِیْعُ الدُّعَآءِ ﴾ ’’میرا رب دعا کا سننے والا ہے‘‘ یعنی جو کوئی اس سے دعا مانگتا ہے وہ قبولیت کے قریب ہوتی ہے۔ میں نے بھی اس کے سامنے دست دعا دراز کیا اور اس نے مجھے ناامید نہیں کیا۔
#
{40 ـ 41} ثم دعا لنفسه ولذرِّيَّته، فقال: {ربِّ اجعلني مقيم الصَّلاة ومن ذُرِّيَّتي ربَّنا وتقبَّل دُعاء. ربَّنا اغفِرْ لي ولوالديَّ وللمؤمنين يومَ يقومُ الحساب}: فاستجاب الله له في ذلك كلِّه؛ إلاَّ أنَّ دعاءه لأبيه إنما كان عن موعدةٍ وعدها إيَّاه، فلما تبيَّن له أنه عدوٌّ لله؛ تبرَّأ منه.
[41,40] پھر خلیلu نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے ان الفاظ میں دعا مانگی ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ۖ ۗ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ۰۰رَبَّنَا اغْ٘فِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ۠ یَوْمَ یَقُوْمُ الْؔحِسَابُ﴾ ’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا اور میری دعا قبول فرما، اے ہمارے رب، بخش مجھ کو، میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن قائم ہو حساب۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کی ہر دعا قبول فرما لی، سوائے ان کے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کے، جو انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ایک وعدے کی بنا پر مانگی تھی اور جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تو آپ نے اس سے براء ت کا اظہار کر دیا۔
آیت: 42 - 43 #
{وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ (42) مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ (43)}.
اور نہ گمان کریں آپ اللہ کو بے خبر اس سے جو عمل کرتے ہیں ظالم، یقینا وہ مہلت دیتا ہے اس دن تک کہ پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اس میں آنکھیں (42) دوڑ رہے ہوں گے وہ (محشر کی طرف) اٹھائے اپنے سروں کو، نہیں لوٹے گی (خود) ان کی طرف ان کی نگاہ اور ان کے دل (عقل و شعور سے) خالی ہوں گے (43)
#
{42} هذا وعيدٌ شديد للظالمين وتسلية للمظلومين؛ يقول تعالى: {ولا تحسبنَّ الله غافلاً عما يعملُ الظالمون}: حيث أمهلهم وأدرَّ عليهم الأرزاق وتَرَكَهم يتقلَّبون في البلاد آمنين مطمئنِّين؛ فليس في هذا ما يدلُّ على حسن حالهم؛ فإنَّ الله يُملي للظالم ويُمْهِلُه ليزداد إثماً، حتى إذا أخذه؛ لم يُفْلِتْه، {وكذلك أخْذُ ربِّك إذا أخَذَ القُرى وهي ظالمةٌ إنَّ أخذَهُ أليمٌ شديدٌ}. والظلم ها هنا يشمل الظلم فيما بين العبد وربِّه وظلمه لعباد الله. {إنما يؤخِّرُهم ليوم تَشْخَصُ فيه الأبصارُ}؛ أي: لا تطرف من شدَّة ما ترى من الأهوال وما أزعجها من القلاقل.
[42] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ظالموں کے لیے سخت وعید اور مظلوموں کے لیے تسلی ہے، فرمایا ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’اور ہرگز مت خیال کریں کہ اللہ ان کاموں سے بے خبر ہے جو ظالم کرتے ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دی ہے اور ان کو نہایت فراوانی سے رزق عطا کیا اور ان کو چھوڑ دیا کہ وہ نہایت اطمینان اور امن کے ساتھ چلیں پھریں ۔ پس یہ مہلت اور رزق کی فراوانی ان کے حسن حال پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں میں اضافہ ہو جائے یہاں تک کہ جب وہ اسے پکڑ لیتا ہے تو پھر وہ چھوٹ نہیں سکتا۔ ﴿وَؔكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْ٘قُ٘رٰى وَهِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ﴾ (ھود: 11 ؍102) ’’اور اسی طرح ہوتی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی بستی کو اس کے ظلم کے سبب سے پکڑتا ہے، بے شک اس کی پکڑ بڑی سخت اور المناک ہوتی ہے۔‘‘ یہاں ظلم سے مراد وہ ظلم بھی ہے جو بندے اور اس کے رب کے مابین ہے اور وہ ظلم بھی ہے جو بندہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر روا رکھتا ہے۔ ﴿اِنَّمَا یُؤَخِّ٘رُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ ﴾ ’’ان کو تو اس دن کے لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ کھلی رہ جائیں گی اس میں آنکھیں ‘‘ یعنی ہول اور دہشت کی وجہ سے آنکھیں ادھر ادھر دیکھ نہیں سکیں گی، کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
#
{43} {مُهْطِعينَ}؛ أي: مسرعين إلى إجابة الداعي حين يدعوهم إلى الحضور بين يدي الله للحساب، لا امتناعَ لهم ولا محيص ولا ملجأ، {مُقنعي رؤوسهم}؛ أي: رافعيها، قد غُلَّتْ أيديهم إلى الأذقان، فارتفعت لذلك رؤوسهم، {لا يرتدُّ إليهم طرفُهم وأفئِدَتُهم هواء}؛ أي: أفئدتهم فارغةٌ من قلوبهم، قد صعدت إلى الحناجر، لكنَّها مملوءةٌ من كل همٍّ وغمٍّ وحزن وقلق.
[43] ﴿مُهْطِعِیْنَ ﴾ ’’دوڑتے ہوں گے‘‘ جب پکارنے والا انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور حساب دینے کے لیے پکارے گا تو وہ جلدی سے اس پکار پر لبیک کہیں گے، وہ اس سے بچ نہ سکیں گے، ان کا کوئی ٹھکانا ہو گا نہ کوئی پناہ گاہ ﴿ مُقْ٘نِـعِیْ رُءُوْسِهِمْ ﴾ ’’اوپر اٹھائے اپنے سر‘‘ یعنی اپنے سروں کو اس طرح اٹھائے ہوئے ہوں گے کہ ان کے ہاتھ ان کی ٹھوڑیوں کے ساتھ بندھے ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے سر اوپر کو اٹھ جائیں گے۔ ﴿ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ١ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ ﴾ ’’ان کی طرف ان کی آنکھیں پھر کر نہیں آئیں گی اور ان کے دل اڑ گئے ہوں گے‘‘ ان کے دل خالی ہوں گے اور حلق تک آجائیں گے مگر وہ ہر قسم کے غم و ہموم اور حزن و قلق سے لبریز ہوں گے۔
آیت: 44 - 46 #
{وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ (44) وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ (45) وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (46)}.
اور آپ ڈرائیں لوگوں کو اس دن سے کہ آئے گا (اس دن) ان پر عذاب، پس کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا تھا، اے ہمارے رب! مہلت دے ہمیں تھوڑی سی مدت تک، ہم قبول کر لیں گے تیری دعوت اور پیروی کریں گے رسولوں کی، (تو کہا جائے گا) کیا نہیں تھے تم کہ قسمیں کھاتے تھے پہلے اس سے کہ نہیں ہے تمھارے لیے کوئی زوال (44)اور آباد تھے تم گھروں میں انھی لوگوں کے جنھوں نے ظلم کیا تھا اپنی جانوں پراورواضح ہو گیا تھا واسطے تمھارے کہ کیسا (سلوک) کیا ہم نے ساتھ ان کے؟ اور بیان کی تھیں ہم نے تمھارے لیے مثالیں (45) اور تحقیق مکر كيے تھے انھوں نے اپنے مکراور اللہ کے پاس ہیں ان کے مکراور نہ تھے مکر ان کے کہ ٹل جاتے بوجہ ان (مکروں ) کے پہاڑ (46)
#
{44} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {وأنذِرِ الناس يوم يأتيهم العذابُ}؛ أي: صف لهم صفة تلك الحال، وحذِّرهم من الأعمال الموجبة للعذاب، الذي حين يأتي في شدائده وقلاقله، فيقول الذين ظلموا بالكفر والتكذيب وأنواع المعاصي، نادمين على ما فعلوا، سائلين للرجعة في غير وقتها: {ربَّنا أخِّرْنا إلى أجل قريبٍ}؛ أي: رُدَّنا إلى الدُّنيا؛ فإنَّا قد أبصرنا؛ {نُجِبْ دعوتَكَ}: والله يدعو إلى دار السلام، {ونتَّبع الرُّسل}: وهذا كلُّه لأجل التخلُّص من العذاب الأليم، وإلاَّ؛ فهم كَذَبَةٌ في هذا الوعد؛ فلو رُدُّوا لعادوا لما نهوا عنه، ولهذا يوبَّخون ويُقال لهم: {أولم تكونوا أقسمتُمْ من قبلُ ما لكم من زوالٍ}: عن الدُّنيا وانتقال إلى الآخرة؛ فها قد تبيَّن لكم حنثكم في إقسامكم وكذبكم فيما تدَّعون.
[44] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے ﴿ وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ ﴾ یعنی ان کے سامنے اس دن کے احوال کا وصف بیان کیجیے اور انھیں برے اعمال سے ڈرايے جو اس عذاب کے موجب ہیں جو انھیں شدائد میں آ پکڑے گا۔ ﴿ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾ ’’تب ظالم لوگ کہیں گے۔‘‘ یعنی جنھوں نے کفر، تکذیب اور دیگر معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا وہ اپنے کرتوتوں پر نادم ہوکر واپس دنیا میں لوٹائے جانے کی درخواست کریں گے مگر یہ واپس لوٹنے کا وقت نہ ہو گا۔ ﴿ رَبَّنَاۤ اَخِّ٘رْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَ٘رِیْبٍ﴾ ’’اے ہمارے رب مہلت دے ہم کو تھوڑی دیر تک‘‘ یعنی ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے ہم پر ہر بات واضح ہو چکی ہے ﴿ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ ﴾ ’’کہ ہم قبول کر لیں تیری دعوت کو‘‘ اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿ وَ نَتَّ٘بِـعِ الرُّسُلَ ﴾ ’’اور پیروی کر لیں ہم رسولوں کی‘‘ ان کی یہ تمام آہ و زاریاں دردناک عذاب سے گلو خلاصی کے لیے ہوں گی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وعدے میں بھی جھوٹے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ ﴾ (الانعام:6؍28) ’’اگر انھیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کام دوبارہ کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے۔‘‘ اس لیے ان کو سخت زجروتوبیخ کی جائے گی اور کہا جائے گا ﴿ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْۤا اَ٘قْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ ﴾ ’’کیا تم پہلے قسمیں نہ کھاتے تھے کہ تم کو دنیا سے نہیں ٹلنا‘‘ یعنی اس دنیا سے منتقل ہو کر آخرت میں نہیں جاؤ گے، یہ تو اب تم پر واضح ہو گیا کہ تم اپنی قسم میں سخت جھوٹے تھے اور جو تم دعوے کیا کرتے تھے وہ تمھارے سب دعوے بھی جھوٹ تھے۔
#
{45} {و} ليس عليكم قاصر في الدنيا من أجل الآيات البينات، بل {سكنتُم في مساكن الذين ظلموا أنفُسَهم وتبيَّن لكم كيف فعلنا بهم}: من أنواع العقوبات، وكيف أحلَّ الله بهم العقوبات حين كذَّبوا بالآيات البينات، {وضَرَبْنا لكم الأمثالَ}: الواضحة التي لا تَدَعُ أدنى شكٍّ في القلب إلا أزالته، فلم تنفعْ فيكم تلك الآيات، بل أعرضتُم ودمتُم على باطلكم، حتى صار ما صار، ووصلتُم إلى هذا اليوم الذي لا ينفع فيه اعتذارُ مَنِ اعتذر بباطل.
[45] ﴿ وَ ﴾ تمھارے اعمال کی کوتاہی کی وجہ یہ نہ تھی کہ تمھارے پاس واضح دلائل نہ آئے تھے۔ بلکہ ﴿ سَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ ﴾ ’’تم ان بستیوں میں آباد تھے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور تم پر واضح ہو گیا تھا کہ کیسا کیا ہم نے ان کے ساتھ‘‘ ان کو مختلف انواع کی سزائیں دے کر اور جب انھوں نے واضح دلائل کی تکذیب کی تو کیسے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا؟ ہم نے تمھارے سامنے واضح مثالیں بیان کر دی ہیں جو دل میں شک کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں رہنے دیتیں ۔ پس ان آیات بینات نے تمھیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ اس کے برعکس تم نے روگردانی کی اور اپنے باطل پر جمے رہے، حتیٰ کہ تم پر یہ روز بد آ گیا جس میں تمھاری جھوٹی معذرت خواہی کوئی فائدہ نہ دے گی۔
#
{46} {وقد مكروا}؛ أي: المكذِّبون للرسل {مكرَهم}: الذي وصلت إراداتهم وقدرهم عليه، {وعند الله مكرُهُم}؛ أي: هو محيطٌ به علماً وقدرةً، فإنه عاد مكرُهم عليهم، ولا يَحيق المكر السيئ إلاَّ بأهله. {وإنْ كان مكرُهُم لِتَزولَ منه الجبالُ}؛ أي: ولقد كان مكرُ الكفار المكذِّبين للرسل بالحقِّ وبمن جاء به من عظمه لِتَزولَ الجبالُ الراسيات بسببه عن أماكنها؛ أي: مكروا مكراً كُبَّاراً لا يُقادَرُ قَدْرُه، ولكن الله ردَّ كيدهم في نحورهم. ويدخل في هذا كلُّ مَنْ مكر من المخالفين للرسل لينصر باطلاً أو يبطل حقًّا، والقصد أنَّ مكرهم لم يغنِ عنهم شيئاً ولم يضرَّوا الله شيئاً، وإنَّما ضروا أنفسهم.
[46] ﴿ وَقَدْ مَكَرُوْا﴾ ’’اور چال چلی‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین کو جھٹلانے والوں نے ﴿ مَكْرَهُمْ ﴾ ’’اپنی چال‘‘ ایسی ایسی چالیں چلیں جن کا انھوں نے ارادہ کیا اور جو وہ چل سکتے تھے۔ ﴿ وَعِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ﴾ ’’اور اللہ کے ہاں ہے ان کی چال‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم اور اپنی قدرت کے ذریعے سے ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کی چالیں لوٹ کر انھی کے خلاف گئیں ۔ ﴿وَلَا یَحِیْقُ الْمَؔكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ٘﴾ (فاطر: 35؍43) ’’اور بری چالوں کا وبال انھی لوگوں پر پڑتا ہے جو چالیں چلتے ہیں ۔‘‘ ﴿ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِـتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ ﴾ ’’اگرچہ ان کی چال ایسی تھی کہ ٹل جائیں اس سے پہاڑ‘‘ یعنی انبیاء و رسل اور وحی کو جھٹلانے والوں کی چالیں اور سازشیں اتنی بڑی ہیں کہ ان کے سبب سے بڑے بڑے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں ، یعنی ﴿وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًؔا﴾ (نوح: 71؍22) ’’انھوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں ۔‘‘ ان کی سازشیں اتنی بڑی تھیں کہ ان کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشیں انھی پر الٹ دیں ۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص شامل ہے جو باطل کی نصرت اور حق کے ابطال کے لیے،انبیاء و رسل کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی چالیں ان کے کسی کام نہ آئیں اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچا سکے بلکہ انھوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔
آیت: 47 - 52 #
{فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ (47) يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (48) وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (49) سَرَابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمُ النَّارُ (50) لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (51) هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (52)}
پس نہ گمان کریں آپ اللہ کو خلاف کرنے والا اپنے وعدے کا، اپنے رسولوں سے، بے شک اللہ غالب ہے، انتقام لینے والا (47) جس دن کہ بدل دی جائے گی یہ زمین اور زمین سے اور آسمان بھی اور سامنے ہوں گے وہ لوگ اللہ کے، (جو) ایک ہے بڑا زبردست (48) اور آپ دیکھیں گے مجرموں کو اس دن جکڑے ہوئے ہوں گے وہ زنجیروں میں (49) قمیصیں ان کی ہوں گی گندھک کی اور ڈھانکتی ہو گی ان کے چہروں کو آگ (50) تاکہ بدلہ دے اللہ ہر نفس کو اس عمل کا جو اس نے کمایا، بے شک اللہ بہت ہی جلد حساب لینے والا ہے (49) یہ (قرآن) پیام ہے لوگوں کے لیےاور تاکہ وہ (لوگ) ڈرائے جائیں اس کے ذریعے سےاور تاکہ وہ جان لیں کہ صرف وہی (اللہ) معبود ہے ایک اور تاکہ نصیحت حاصل کریں عقل والے (52)
#
{47} يقول تعالى: {فلا تحسبنَّ الله مُخْلِفَ وعدِهِ رسلَه}: بنجاتهم ونجاة أتباعهم وسعادتهم، وإهلاك أعدائهم وخذلانهم في الدنيا وعقابهم في الآخرة؛ فهذا لا بدَّ من وقوعه؛ لأنَّه وعد به الصادقُ قولاً على ألسنة أصدق خلقه، وهم الرسل، وهذا أعلى ما يكون من الأخبار، خصوصاً وهو مطابقٌ للحكمة الإلهيَّة والسنن الربانيَّة وللعقول الصحيحة، والله تعالى لا يعجزه شيءٌ؛ فإنَّه {عزيزٌ ذو انتقام}؛ أي: إذا أراد أن ينتقم من أحدٍ؛ فإنه لا يفوته ولا يعجزه، وذلك في يوم القيامة.
[47] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ﴾ ’’پس خیال مت کریں کہ اللہ خلاف کرے گا اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کی نجات اور ان کی سعادت، رسولوں کے دشمنوں کی ہلاکت، دنیا میں ان کو بے یارومددگار چھوڑنے اور آخرت میں ان کو سزا دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ پس اس وعدے کا پورا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ صادق القول ہستی کا وعدہ ہے جو اس نے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ سچے لوگوں ، یعنی اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے اور یہ مرتبے کے اعتبار سے بلند ترین خبر ہے… خاص طور پر اس بنا پر بھی کہ یہ حکمت الٰہی، سنت ربانی اور عقل انسانی کے مطابق ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ ﴾ ’’بے شک اللہ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز بے بس نہیں کر سکتی، اس لیے کہ وہ ﴿ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ ﴾ ’’زبردست، بدلہ لینے والا ہے۔‘‘ جب وہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی اس سے بچ سکتا ہے نہ اسے عاجز کر سکتا ہے اور یہ قیامت کے روز ہو گا۔
#
{48} {يوم تُبَدَّلُ الأرضُ غير الأرض والسمواتُ}: تُبَدَّلُ غيرَ السماوات، وهذا التبديل تبديل صفات لا تبديل ذات؛ فإنَّ الأرض يوم القيامة تُسَوَّى وتُمَدُّ كمدِّ الأديم، ويُلقى ما على ظهرها من جبل ومَعْلَم، فتصير قاعاً صفصفاً، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً، وتكونُ السماء كالمهل من شدَّة أهوال ذلك اليوم، ثم يطويها الله تعالى بيمينه. {وبرزوا}؛ أي: الخلائق من قبورهم إلى يوم بعثهم ونشورهم في محلٍّ لا يخفى منهم على الله شيء، {لله الواحد القهار}؛ أي: المنفرد بعظمته وأسمائه وصفاته وأفعاله العظيمة وقهره لكلِّ العوالم؛ فكلُّها تحت تصرُّفه وتدبيره؛ فلا يتحرَّك منها متحرِّك، ولا يسكنُ ساكنٌ إلاَّ بإذنِهِ.
[48] ﴿ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ﴾ ’’جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔‘‘ یعنی جس روز زمین اور آسمان کو بدل کر کچھ اور ہی بنا دیا جائے گا، یہ تبدیلی ذات کی تبدیلی نہیں بلکہ صفات کی تبدیلی ہو گی کیوں کہ قیامت کے روز زمین کو ہموار کر کے اس طرح پھیلا دیا جائے گا جیسے چمڑے کو پھیلا دیا جاتا ہے، روئے زمین پر کوئی پہاڑ یا کوئی بلند جگہ نہ ملے گی تمام زمین ہموار اور برابر ہو جائے گی اور تو اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھے گا اور آسمان اس دن کی دہشت کی وجہ سے پگھلے ہوئے تابنے کی مانند ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ ﴿ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ ﴾ ’’اور سب لوگ اللہ کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز تمام خلائق اپنی قبروں سے اٹھ کھڑی ہو گی اور ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے چھپ نہ سکے گا ﴿ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾ ’’یگانہ، زبردست‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات کی عظمت اور اپنے افعال کی عظمت میں منفرد ہے۔ وہ تمام کائنات پر غالب ہے۔ کائنات کی ہر چیز اس کے دست تصرف اور تدبیر کے تحت ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز حرکت کر سکتی ہے نہ ساکن ہو سکتی ہے۔
#
{49} {وترى المجرمين}؛ أي: الذين وصفُهم الإجرامُ وكثرة الذنوب في ذلك اليوم، {مقرَّنين في الأصفادِ}؛ أي: يُسَلْسَلُ كلُّ أهل عمل من المجرمين بسلاسل من نارٍ، فيُقادون إلى العذاب في أذلِّ صورة وأشنعها وأبشعها.
[49] ﴿ وَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور دیکھے گا تو گناہ گاروں کو‘‘ جن کا وصف جرم کرنا اور گناہوں کی کثرت ہے ﴿ یَوْمَىِٕذٍ﴾ ’’اس روز‘‘ ﴿مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ ﴾ ’’باہم جکڑے ہوں گے زنجیروں میں ‘‘ یعنی تمام مجرموں کو آگ کی زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا اور ذلیل ترین صورت، بدترین ہیئت اور قبیح ترین حالت میں ان کو جہنم کے عذاب کی طرف ہانکا جائے گا۔
#
{50} {سرابيلُهم}؛ أي: ثيابهم {من قَطِرانٍ}: وذلك لشدَّة اشتعال النار فيهم وحرارتها ونتن ريحها، {وتَغْشى وجوهَهم}: التي هي أشرف ما في أبدانهم {النارُ}؛ أي: تحيط بها، وتَصلاها من كل جانب، وغير الوجوه من باب أولى وأحرى.
[50] ﴿ سَرَابِیْلُهُمْ ﴾ ’’ان کے کرتے‘‘ یعنی ان کے کپڑے ﴿ مِّنْ قَطِرَانٍ ﴾ ’’گندھک کے ہوں گے‘‘ یعنی وہ انتہائی شدید شعلہ زن آگ، سخت حرارت اور جہنم کی بدبو میں ہوں گے۔ ﴿ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ ﴾ ’’اور ان کے چہروں کو لپیٹ لے گی۔‘‘ جو ان کے بدن میں سب سے زیادہ شرف کے حامل ہوں گے ﴿ النَّارُ ﴾ ’’آگ‘‘ یعنی آگ ان کے چہرے کو گھیر لے گی اور ہر جانب سے اس کو جلا ڈالے گی۔ اور چہرے کے علاوہ جسم کے دیگر حصے تو بدرجہ اولیٰ اس آگ میں جلیں گے۔
#
{51} وليس هذا ظلماً من الله [لهم]، وإنما هو جزاءٌ لما قدَّموا وكسبوا، ولهذا قال تعالى: {لِيَجْزِيَ الله كلَّ نفس ما كَسَبَتْ}: من خير وشرٍّ بالعدل والقِسْط الذي لا جَوْر فيه بوجه من الوجوه. {إنَّ الله سريعُ الحساب}؛ كقوله تعالى: {اقتربَ للناس حسابُهم وهم في غفلةٍ معرضونَ}، ويُحتمل أن معناه سريع المحاسبة؛ فيحاسِبُ الخلق في ساعة واحدةٍ كما يرزقهم ويدبِّرهم بأنواع التدابير في لحظة واحدةٍ، لا يشغَلُه شأنٌ عن شأنٌ، وليس ذلك بعسير عليه.
[51] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں ہے بلکہ یہ ان کے اعمال کی جزا ہے جن کا انھوں نے اکتساب کر کے آگے بھیجے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُ٘لَّ نَفْ٘سٍ مَّا كَسَبَتْ﴾ ’’تاکہ اللہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کا نہایت عدل و انصاف کے ساتھ بدلہ دے جس میں کسی بھی پہلو سے کوئی ظلم نہ ہو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ ’’بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘ جیسا کہ فرمایا: ﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ﴾ (الانبیاء: 21؍1) ’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں ڈوبے اور منہ موڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ بہت سرعت سے ان کا حساب کتاب ہو گا اور ایک ہی گھڑی میں تمام مخلوق کا حساب کتاب ہو جائے گا جیسے اللہ تعالیٰ آن واحد میں تمام مخلوق کو رزق عطا کرتا ہے اور ان میں مختلف انواع کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی معاملہ اسے کسی دوسرے معاملے سے غافل نہیں کر سکتا اور یہ سب کچھ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔
#
{52} فلما بيَّن البيان المبين في هذا القرآن؛ قال في مدحه: {هذا بلاغٌ للناس}؛ أي: يتبلَّغون به ويتزوَّدون إلى الوصول إلى أعلى المقامات وأفضل الكرامات؛ لما اشتمل عليه من الأصول والفروع وجميع العلوم التي يحتاجها العباد، {ولِيُنْذَروا به}: لما فيه من الترهيب من أعمال الشرِّ وما أعدَّ الله لأهلها من العقاب، {ولِيَعْلموا أنَّما هو إلهٌ واحدٌ}: حيث صرف فيه من الأدلَّة والبراهين على ألوهيَّته ووحدانيَّته ما صار ذلك حق اليقين، {ولِيَذَّكَّرَ أولو الألباب}؛ أي: العقول الكاملة ما ينفعهم فيفعلونه وما يضرُّهم فيتركونه، وبذلك صاروا أولي الألباب والبصائر؛ إذ بالقرآن ازدادت معارفهم وآراؤهم، وتنوَّرت أفكارهم لَمَّا أخذوه غضًّا طريًّا؛ فإنَّه لا يدعو إلاَّ إلى أعلى الأخلاق والأعمال وأفضلها، ولا يستدلُّ على ذلك إلا بأقوى الأدلة وأبينها، وهذه القاعدة إذا تدرَّب بها العبد الذكيُّ؛ لم يزل في صعود ورقيٍّ على الدوام في كلِّ خصلة حميدة. والحمد لله رب العالمين.
[52] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کو پوری طرح کھول کھول کر اس قرآن میں بیان کر دیا تو پھر اس کی مدح میں فرمایا ﴿ هٰؔذَا بَلٰ٘غٌ لِّلنَّاسِ ﴾ ’’یہ خبر پہنچا دینی ہے لوگوں کو‘‘ یعنی یہ ان کے لیے کافی ہے، وہ اسے زاد راہ بنا کر بلند ترین مقامات پر اور افضل ترین کرامات تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام علوم اوراصول و فروع پر مشتمل ہے جس کے بندے محتاج ہیں ﴿ وَلِیُنْذَرُوْا بِهٖ ﴾ ’’اور تاکہ انھیں اس سے ڈرایا جائے‘‘ کیونکہ اس میں برے اعمال اور اس عذاب سے ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بداعمال لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ ﴿ وَلِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ﴾ ’’اور تاکہ وہ جان لیں کہ معبود صرف وہی ایک ہے‘‘ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور وحدانیت پر ایسے دلائل اور براہین بیان کیے ہیں جن سے یہ علم حق الیقین بن جاتا ہے ﴿ وَّلِیَذَّكَّـرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ ’’اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں ۔‘‘ یعنی عقل کامل کے حامل لوگ اس سے نصیحت پکڑیں ، وہ کام کریں جو ان کے لیے فائدہ مند ہے اور وہ کام چھوڑ دیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنے سے وہ عقل مند اور اصحاب بصیرت بن جائیں گے۔ اس لیے کہ قرآن کے ذریعے سے ان کے معارف اور آراء صائبہ میں اضافہ اور ان کے افکار روشن ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انھوں نے قرآن کے تازہ افکار حاصل کیے ہیں ، قرآن انھیں بلندترین اخلاق و اعمال کی طرف دعوت دیتا ہے اور وہ ان پر قوی ترین، واضح ترین دلائل سے استدلال کرتا ہے۔ ایک ذہین بندۂ مومن جب اس قاعدہ کلیہ کو اپنا لائحہ عمل بنا لیتا ہے تو وہ دائمی طور پر ہر قابل ستائش خصلت میں ترقی کی راہوں پر گامزن رہتا ہے۔