آیت:
تفسیر سورہ ھود
تفسیر سورہ ھود
آیت: 1 - 4 #
{الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1) أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (2) وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ (3) إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (4)}.
الٓرٰ، (یہ) کتاب ہے، محکم کی گئی ہیں آیتیں اس کی، پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں بڑے حکمت والے خبر دار کی طرف سے (1)یہ کہ نہ عبادت کرو تم مگر اللہ ہی کی، بے شک میں تمھارے لیے اسی کی طرف سے ڈرانے والا اورخوشخبری دینے والا ہوں (2)اور یہ کہ مغفرت طلب کرو تم اپنے رب سے، پھر توبہ کروتم اسی کی طرف، وہ فائدہ دے گا تمھیں فائدہ بہت اچھا ایک وقت مقرر تک اور وہ دے گا ہر فضل والے کو (بدلہ) اس کے فضل کااور اگر منہ پھیرو گے تم تو بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک بڑے دن کے (3) اللہ ہی کی طرف واپسی ہے تمھاری اور وہ اوپر ہرچیز کے خوب قادر ہے (4)
#
{1} يقول تعالى: هذا {كتابٌ}: عظيم ونزل كريم، {أُحْكِمَتْ آياته}؛ أي: أتقنت وأحسنت، صادقةٌ أخبارها، عادلةٌ أوامرها ونواهيها، فصيحةٌ ألفاظهُ بهيةٌ معانيه، {ثم فُصِّلَتْ}؛ أي: ميزت وبينت بياناً في أعلى أنواع البيان، {من لَدُنْ حكيم}: يضع الأشياء مواضعها، وينزلها منازلها، لا يأمر ولا ينهى إلا بما تقتضيه حكمته، {خبيرٍ}: مطَّلع على الظواهر والبواطن؛ فإذا كان إحكامه وتفصيلُه من عند الله الحكيم الخبير؛ فلا تسألْ بعد هذا عن عظمته وجلالته واشتماله على كمال الحكمة وسعة الرحمة.
[1] ﴿ كِتٰبٌ ﴾ یہ عظیم کتاب اور بہترین فضل و عنایت ہے۔ ﴿اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ﴾ ’’جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔‘‘ یعنی اس کی آیات کو بہت اچھے اور محکم طریقے سے بیان کیا گیا ہے، اس کی خبریں سچی، اس کے اوامر و نواہی عدل پر مبنی، اس کے الفاظ نہایت فصیح اور اس کے معانی بہت خوبصورت ہیں ۔ ﴿ ثُمَّ فُصِّلَتْ ﴾ ’’پھر ان کی تفصیل بیان کردی گئی۔‘‘ یعنی ان کو علیحدہ علیحدہ اور معانی و بیان کی بہترین انواع کے ذریعے سے کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ﴾ ’’حکمت والے کی طرف سے‘‘ وہ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے اور ان کے لائق جگہ پر ان کو نازل کرتا ہے۔ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے اور اسی چیز سے روکتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے ﴿ خَبِیْرٍ ﴾ وہ تمام ظاہر و باطن کی خبر رکھتا ہے۔ جب اس کتاب کا محکم کرنا اور اس کی تفصیل حکمت والی اور خبردار ہستی کی طرف سے ہے تب اس ہستی کی عظمت و جلال، حکمت و کمال اور بے کراں رحمت کے بارے میں مت پوچھ۔
#
{2} وإنما أنزل الله كتابه لأن لا تعبدوا إلاَّ اللهَ؛ أي: لأجل إخلاص الدين كلِّه لله، وأن لا يُشْرِكَ به أحدٌ من خلقه. {إنني لكم}: أيُّها الناس، {منه}؛ أي: من الله ربكم {نذيرٌ}: لمن تجرَّأ على المعاصي بعقاب الدنيا والآخرة، {وبشيرٌ}: للمطيعين لله بثواب الدُّنيا والآخرة.
[2] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم کتاب کو محض اس مقصد کے لیے نازل فرمایا ﴿ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ﴾ ’’کہ عبادت صرف اللہ کی کرو‘‘ یعنی دین کو تمام تر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرنے کے لیے نازل فرمایا نیز یہ کہ اس کے ساتھ اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جائے۔ ﴿ اِنَّنِیْ لَكُمْ ﴾ ’’بے شک میں تمھارے لیے‘‘ ﴿ مِّؔنْهُ ﴾ ’’اس کی طرف سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ﴿ نَذِیْرٌ ﴾ ’’ڈر سنانے والا۔‘‘ یعنی اس شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں جو گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرتا ہے۔ ﴿بَشِیْرٌ ﴾ ’’خوشخبری دینے والا۔‘‘ یعنی اطاعت گزار بندوں کو دنیا و آخرت کے ثواب کی خوشخبری سناتا ہوں۔
#
{3} {وأن استغفروا ربَّكم}: عن ما صدر منكم من الذُّنوب، {ثم توبوا إليه}: فيما تستقبلون من أعماركم بالرجوع إليه بالإنابة والرجوع عما يكرهه الله إلى ما يحبُّه ويرضاه. ثم ذكر ما يترتَّب على الاستغفار والتوبة، فقال: {يمتِّعْكم متاعاً حسناً}؛ أي: يعطيكم من رزقه ما تتمتَّعون به، وتنتفعون {إلى أجل مسمّى}؛ أي: إلى وقت وفاتكم. {ويؤت}: منكم {كلَّ ذي فضل فضلَه}؛ أي: يعطي أهل الإحسان والبر من فضله وبرِّه ما هو جزاءٌ لإحسانهم من حصول ما يحبُّون ودفع ما يكرهون. {وإن تَوَلَّوا}: عن ما دعوتكم إليه، بل أعرضتُم عنه، وربَّما كذَّبتم به، {فإني أخاف عليكم عذابَ يوم كبيرٍ}: وهو يوم القيامة، الذي يجمع الله فيه الأوَّلين والآخرين.
[3] ﴿ وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ﴾ ’’اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو۔‘‘ یعنی ان گناہوں کی بخشش مانگو جو تم سے صادر ہوئے ہیں ۔ ﴿ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ﴾ ’’پھر اس کی طرف توبہ کرو۔‘‘ یعنی اپنی عمر میں جن گناہوں سے سابقہ پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ذریعے سے توبہ کرو اور جن امور کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، انھیں چھوڑ کر ان امور کی طرف لوٹو جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو توبہ واستغفار پر مترتب ہوتے ہیں ۔ فرمایا: ﴿یُمَتِّعْكُمْ مَّؔتَاعًا حَسَنًا ﴾ ’’وہ تمھیں متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا۔‘‘ یعنی وہ تمھیں رزق عطا کرے گا جس سے تم استفادہ کرو گے اور منتفع ہو گے۔ ﴿اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ یعنی تمھاری وفات تک ﴿ وَّیُؤْتِ كُ٘لَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ﴾ ’’اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی دے گا۔‘‘ یعنی وہ تم میں سے اہل احسان کو اپنے فضل و کرم سے نوازے گا جو چیز انھیں پسند ہے وہ حاصل ہوگی جو ناپسند ہے وہ ان سے ہٹا دی جائے گی۔ یہ ان کی نیکی کی جزا ہے۔ ﴿وَاِنْ تَوَلَّوْا﴾ ’’اگر تم نے روگردانی کی۔‘‘ یعنی اگر تم نے اس دعوت سے روگردانی کی جو میں نے تمھیں پیش کی ہے بلکہ تم نے اعراض کیا ہے اور بسا اوقات دعوت کو جھٹلایا ہے ﴿ فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ ﴾ ’’تو میں ڈرتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے‘‘ اور وہ ہے روز قیامت، جس میں اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا۔
#
{4} فيجازيهم بأعمالهم إن خيراً؛ فخير، وإن شرًّا؛ فشر. وفي قوله: {وهو على كلِّ شيء قديرٌ}: كالدليل على إحياء الله الموتى؛ فإنه على كلِّ شيء قديرٌ ، ومن جملة الأشياء إحياء الموتى، وقد أخبر بذلك، وهو أصدق القائلين؛ فيجب وقوع ذلك عقلاً ونقلاً.
[4] ﴿ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ﴾ ’’تمھیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے‘‘ تاکہ تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دے اگر اعمال نیک ہوں گے تو جزا اچھی ہوگی اور اگر اعمال برے ہوں گے تو بدلہ بھی برا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور مردوں کو زندہ کرنا بھی ’’ہر چیز‘‘ کے زمرے میں شامل ہے اور اس کی خبر سب سے سچی ہستی نے دی ہے۔ پس اس خبر کا وقوع عقلاً اور نقلاً واجب ہے۔
آیت: 5 #
{أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (5)}
آگاہ رہو! بے شک وہ دہرے کرتے ہیں سینے اپنے تاکہ وہ چھپ جائیں اللہ سے، آگاہ رہو! جس وقت اوڑھتے ہیں وہ کپڑے اپنے، جانتا ہے اللہ جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے (5)
#
{5} يخبر تعالى عن جهل المشركين وشدة ضلالهم أنهم {يَثْنون صدورَهم}؛ أي: يميلونها ليستخفوا من الله، فتقع صدورهم حاجبةً لعلم الله بأحوالهم وبصره لهيئاتهم. قال تعالى مبيناً خطأهم في هذا الظنِّ: {ألا حين يَسْتَغْشون ثيابهم}؛ أي: يتغطون بها، يعلمهم في تلك الحال التي هي من أخفى الأشياء، بل {يعلم ما يُسِرُّون}: من الأقوال والأفعال، {وما يُعْلِنون}: منها، بل ما هو أبلغُ من ذلك، وهو: {إنه عليمٌ بذات الصدور}؛ أي: بما فيها من الإرادات والوساوس والأفكار التي لم ينطقوا بها سرًّا ولا جهراً؛ فكيف تخفى عليه حالكم إذا ثنيتم صدوركم لتستخفوا منه؟! ويُحتمل أنَّ المعنى في هذا: أن الله يذكر إعراض المكذِّبين للرسول، الغافلين عن دعوته، أنَّهم من شدَّة إعراضهم يَثْنون صدورهم؛ أي: يَحْدَوْدِبون حين يرون الرسول؛ لئلاَّ يراهم ويُسْمِعَهم دعوته ويعظَهم بما ينفعهم؛ فهل فوق هذا الإعراض شيء؟! ثم توعَّدهم بعلمه تعالى بجميع أحوالهم وأنهم لا يخفون عليه، وسيجازيهم بصنيعهم.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت اور ان کی گمراہی کی شدت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے: ﴿ یَثْ٘نُوْنَ صُدُوْرَهُمْ ﴾ ’’وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں‘‘ ﴿ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ﴾ ’’تاکہ اس (اللہ) سے پردہ کریں ۔‘‘ یعنی تاکہ اللہ تعالیٰ سے چھپائیں ۔ پس ان کے سینے اللہ کے علم کے لیے رکاوٹ بن جائیں تاکہ وہ ان کے احوال کو جان نہ سکے اور اس کی نگاہ کے لیے بھی تاکہ وہ ان کے حالات کو دیکھ نہ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس ظن باطل کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ ﴾ ’’سن لو جس وقت اوڑھتے ہیں وہ اپنے کپڑے۔‘‘ یعنی جب وہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانک لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اس حال میں بھی ان کو خوب جانتا ہے جو کہ مخفی ترین حال ہے بلکہ ﴿ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ ﴾ ’’وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں ‘‘ یعنی وہ جو اقوال و افعال چھپاتے ہیں ﴿وَمَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ’’اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں ‘‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ﴿ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ ’’دلوں کی باتوں کو جانتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ان ارادوں ، وسوسوں اور سوچوں کو بھی جانتا ہے جن کو یہ سراً یا جہراً نطق زبان سے بھی ظاہر نہیں کرتے... تب تم اپنے حال کو اپنے سینے کو موڑ کر اس سے کیسے چھپا سکتے ہو؟ اس آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہe کو جھٹلانے والوں اور آپ کی دعوت سے غافل لوگوں کے اعراض کا ذکر کرتا ہے، یعنی جب وہ رسول اللہe کو دیکھتے ہیں تو شدت اعراض کی وجہ سے اپنے سینوں کو موڑ لیتے ہیں تاکہ آپ ان کو دیکھ سکیں نہ ان کو اپنی دعوت سنا سکیں اور نہ ان کو ان باتوں کی نصیحت کر سکیں جو ان کے لیے مفید ہیں ۔ کیا اس اعراض سے بھی بڑھ کر اعراض کی کوئی صورت ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ انھیں وعید سناتا ہے کہ وہ ان کے تمام احوال کو جانتا ہے اور وہ اس سے مخفی نہیں ہیں اور وہ عنقریب ان کو ان کے کرتوتوں کی سزا دے گا۔
آیت: 6 #
{وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (6)}.
اور نہیں کوئی چلنے والا (جاندار) زمین میں مگر اوپر اللہ ہی کے ہے رزق اس کااور وہ جانتا ہے قرار گاہ اس کی اور جائے امانت اس کی، ہرچیز کتاب واضح میں (تحریر) ہے (6)
#
{6} أي: جميع ما دبَّ على وجه الأرض من آدميٍّ وحيوانٍ بَرِّيٍّ أو بحريٍّ؛ فالله تعالى قد تكفَّل بأرزاقهم وأقواتهم، فرزقُهم على الله. {ويعلم مستقرَّها ومستوْدَعَها}؛ أي: يعلم مستقرَّ هذه الدوابِّ، وهو المكان الذي تقيم فيه وتستقرُّ فيه وتأوي إليه، ومستودعُها المكانُ الذي تنتقل إليه في ذهابها ومجيئها وعوارض أحوالها. {كلٌّ}: من تفاصيل أحوالها {في كتابٍ مبينٍ}؛ أي: في اللوح المحفوظ، المحتوي على جميع الحوادث الواقعة، والتي تقع في السماوات والأرض، الجميع قد أحاط بها علم الله، وجرى بها قلمه، ونفذت فيها مشيئته ووسعها رزقه؛ فلتطمئنَّ القلوب إلى كفاية من تكفَّلَ بأرزاقها، وأحاط علماً بذواتها وصفاتها.
[6] روئے زمین پر چلنے والا ہر جاندار، خواہ انسان ہو یا حیوان، خشکی کا جانور ہو یا پانی کا جانور، ان کی خوراک اور رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ ﴿وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا﴾ ’’اور وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔‘‘ یعنی وہ تمام جانداروں کے ٹھکانوں کو جانتا ہے (مُسْتَقَر) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جانور رہتے ہیں ، جسے ٹھکانا بناتے ہیں اور جہاں پناہ لیتے ہیں اور (مُسْتَوْدَع) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ، اپنی آمدورفت اور مختلف احوال میں منتقل ہوتے ہیں ۔ ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ ’’یہ سب کچھ‘‘ ان کے احوال کی تمام تفاصیل ﴿ فِیْؔ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’واضح کتاب میں ہے۔‘‘ یعنی ہر چیز لوح محفوظ میں مرقوم ہے، جو ان تمام حوادث و واقعات پر مشتمل ہے جو اس کائنات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ تمام حوادث کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ اس نے ہر چیز کی تقدیر لکھ دی ہے ہر چیز پر اس کی مشیت نافذ ہے اور ہر ایک کے لیے اس کا رزق وسیع ہے۔ دل، اس ہستی کی کفایت پر مطمئن ہو جانے چاہئیں ، جو ان کے رزق کی کفالت کرتی ہے اور جس کے علم نے مخلوق کی ذات و صفات کا احاطہ کر رکھا ہے۔
آیت: 7 - 8 #
{وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَلَئِنْ قُلْتَ إِنَّكُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (7) وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَى أُمَّةٍ مَعْدُودَةٍ لَيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (8)}.
اور (اللہ) وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں اور تھا عرش اس کا اوپر پانی کےتاکہ وہ آزمائے تمھیں کہ کون سا تمھارا اچھا ہے عمل (کرنے) میں ؟ اور البتہ اگر کہیں آپ کہ بے شک تم اٹھائے جاؤ گے بعد مرنے کے تو البتہ ضرور کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، نہیں ہے یہ مگر جادو ظاہر (7) اور البتہ اگر مؤخر کر دیں ہم ان (پر) سے عذاب ایک مدت گنی ہوئی تک تو البتہ ضرور کہیں گے وہ (کافر) کہ کون سی چیز روک رہی ہے اس کو؟ آگاہ رہو! جس دن آئے گا (عذاب) ان کے پاس تو نہیں پھیرا جائے گا وہ ان سےاور گھیر لے گا انھیں وہ (عذاب) کہ تھے وہ ساتھ اس کے استہزاء کرتے (8)
#
{7} يخبر تعالى أنه {خَلَقَ السمواتِ والأرضَ في ستَّة أيام}: أولها يوم الأحد، وآخرُها يوم الجمعة. {و} حين خلق السماواتِ والأرضَ، {كان عرشُهُ على الماء}: فوق السماء السابعة؛ فبعد أن خلقَ السماوات والأرض؛ استوى على عرشه، يدبِّر الأمور ويصرِّفها كيف شاء من الأحكام القدريَّة والأحكام الشرعيَّة. ولهذا قال: {لِيَبْلُوَكم أيُّكم أحسنُ عملاً}؛ أي: ليمتَحِنَكم إذ خَلَقَ لكم ما في السماوات والأرض بأمره ونهيه، فينظر أيُّكم أحسنُ عملاً. قال الفضيل بن عِياض رحمه الله: أخلصُه وأصوبُه. قيل: يا أبا علي! ما أخلصه وأصوبه؟ فقال: إنَّ العمل إذا كان خالصاً ولم يكن صواباً؛ لم يُقْبَلْ، وإذا كان صواباً ولم يكن خالصاً؛ لم يُقْبَلْ، حتى يكون خالصاً صواباً. والخالص: أن يكون لوجه الله، والصواب: أن يكون متَّبِعاً فيه الشرع والسُّنة. وهذا كما قال تعالى: {وما خلقتُ الجِنَّ والإنس إلا ليعبدونِ}، وقال تعالى: {اللهُ الذي خلق سبع سمواتٍ ومن الأرض مثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأمر بينَهنَّ لِتَعْلموا أنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ وأن الله قد أحاطَ بكلِّ شيءٍ علماً}: فالله تعالى خلق الخلق لعبادته ومعرفته بأسمائه وصفاته، وأمرهم بذلك؛ فمن انقاد وأدَّى ما أمِرَ به؛ فهو من المفلحين، ومن أعرض عن ذلك؛ فأولئك هم الخاسرون، ولا بدَّ أن يجمَعَهم في دار يجازيهم على ما أمرهم به ونهاهم. ولهذا ذكر الله تكذيب المشركين بالجزاء، فقال: {ولئن قلتَ إنَّكم مبعوثون من بعدِ الموت لَيقولَنَّ الذين كفروا إنْ هذا إلاَّ سحرٌ مبينٌ}؛ أي: ولئن قلتَ لهؤلاء وأخبرتَهم بالبعث بعد الموت؛ لم يصدِّقوك، بل كذَّبوك أشدَّ التكذيب ، وقدحوا فيما جئت به، وقالوا: {إنْ هذا إلا سحرٌ مُبين}: ألا وهو الحقُّ المبين.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اسی نے ﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ﴾ ’’پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں ‘‘ پہلا دن اتوار اور چھٹا دن جمعہ تھا اور جس وقت اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ﴿ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ ﴾ ’’اس کا عرش پانی پر تھا‘‘ ساتویں آسمان کے اوپر۔ پس آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے کے بعد اپنے عرش پر مستوی ہوا، وہ تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اور احکام قدریہ اور احکام شرعیہ میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ لِیَبْلُوَؔكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ’’تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔‘‘ تاکہ وہ اپنے اوامر و نواہی کے ذریعے سے تمھارا امتحان لے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فضیل بن عیاضa نے فرمایا: ’’سب سے اچھا عمل وہ ہے جو سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح ہو۔‘‘ ان سے پوچھا گیا ’’سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح سے کیا مراد ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اگر عمل خالص ہو مگر صحیح نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا اور اگر عمل صحیح ہو مگر خالص نہ ہو تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں ۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جو خالص بھی ہو اور صحیح بھی ہو۔‘‘ خالص عمل وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور صحیح عمل وہ ہے جس میں شریعت اور سنت کی پیروی کی گئی ہو اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْ٘سَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ﴾ (الذاریات: 51؍56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْ٘لَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 65؍12) ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور ان کی مانند سات زمینیں اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کا حکم اترتا رہتا ہے تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت اور اپنے اسماء و صفات کی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسی چیز کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور اس ذمہ داری کو ادا کر دیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا وہ فلاح پانے والوں میں سے ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعراض کیا تو یہی گھاٹے میں پڑنے والے لوگ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ایک جگہ جمع کرے گا اور پھر ان کو اپنے اوامر و نواہی کی بنیاد پر جزا دے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جزا کے بارے میں مشرکین کی تکذیب کا ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّـكُمْ مَّبْعُوْثُ٘وْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَ٘نَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور اگر آپ کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘ یعنی اگر آپ ان سے کہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے بارے میں ان کو آگاہ کریں تو یہ آپ کی تصدیق نہیں کریں گے بلکہ وہ نہایت شدت سے آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ کی دعوت میں عیب چینی کریں گے اور کہیں گے ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلے جادو کے علاوہ کچھ نہیں ‘‘ مگر آگاہ رہو کہ یہ واضح حق ہے۔
#
{8} {ولئنْ أخَّرْنا عنهم العذابَ إلى أمَّةٍ معدودةٍ}؛ أي: إلى وقت مقدَّر فتباطؤوه، لقالوا من جهلهم وظلمهم: {ما يحبِسُه}؟! ومضمونُ هذا تكذيبُهم به؛ فإنهم يستدلُّون بعدم وقوعه بهم عاجلاً على كذب الرسول المخبر بوقوع العذاب؛ فما أبعد هذا الاستدلال. {ألا يوم يأتيهم} العذابُ {ليس مصروفاً عنهم}: فيتمكَّنون من النظر في أمرهم، {وحاق بهم}؛ أي: نزل {ما كانوا به يستهزِئون}: من العذاب حيثُ تهاونوا به، حتى جَزَموا بكذب مَنْ جاء به.
[8] ﴿ وَلَىِٕنْ اَخَّ٘رْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّؔةٍ مَّعْدُوْدَةٍ ﴾ ’’اگر ہم روکے رکھیں ان سے عذاب ایک معلوم مدت تک‘‘ یعنی ایک وقت مقررہ تک، جس کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دن بہت دیر سے آئے گا۔ تب وہ ظلم و جہالت کی بنا پر کہتے ہیں : ﴿مَا یَحْبِسُهٗ﴾ ’’کون سی چیز اس (عذاب) کو روکے ہوئے ہے؟‘‘ اس آیت کا مضمون ان کا رسول کو جھٹلانا ہے۔ وہ ان پر عذاب کے فوری طورپر نہ آنے کو رسول (e ) کے جھوٹا ہونے پر دلیل بناتے ہیں جنھوں نے ان کو عذاب واقع ہونے کی وعید سنائی ہے۔ پس یہ کتنا بعید استدلال ہے! ﴿ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَ٘یْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ ﴾ ’’دیکھو جس روز عذاب ان پر نازل ہوگا تو پھر ٹلے گا نہیں ‘‘ کہ وہ اپنے معاملے میں غور کر سکیں ﴿ وَحَاقَ بِهِمْ ﴾ ’’اور ان کو گھیر لے گا۔‘‘ یعنی نازل ہو کر ﴿ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’وہ (عذاب) جس کے ساتھ یہ استہزا کیا کرتے تھے۔‘‘ کیونکہ وہ اسے نہایت حقیر سمجھتے تھے حتیٰ کہ جو ان کو عذاب کی وعید سناتا تھا وہ قطعی طور پر اسے جھوٹا سمجھتے تھے۔
آیت: 9 - 11 #
{وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (10) إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (11)}.
اور البتہ اگر چکھائیں ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت، پھر چھین لیں ہم وہ (رحمت) اس سے تو بے شک (ہو جاتا ہے) وہ انتہائی ناامید، بہت ناشکرا (9) اور البتہ اگر چکھائیں ہم اسے راحت بعد اس تکلیف کے جو پہنچی اسے تو ضرور کہے گا چلی گئیں برائیاں (دکھ درد) مجھ سے، بلاشبہ وہ بہت اترانے والا، بڑا شیخی بگھارنے والا ہے (10) مگر وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور عمل کیے نیک، یہی لوگ ہیں واسطے ان کے مغفرت ہے اور اجر بہت بڑا (11)
#
{9 ـ 10} يخبر تعالى عن طبيعة الإنسان أنه جاهلٌ ظالمٌ: بأنَّ الله إذا أذاقه منه رحمةً كالصحة والرزق والأولاد ونحو ذلك، ثم نزعها منه؛ فإنَّه يستسلم لليأس وينقادُ للقنوط؛ فلا يرجو ثوابَ الله ولا يخطُرُ بباله أنَّ الله سيردُّها أو مثلها أو خيراً منها عليه، وأنَّه إذا أذاقه رحمةً من بعد ضرَّاء مسَّتْه، أنه يفرح ويَبْطَرُ ويظنُّ أنه سيدوم له ذلك الخير ويقول: {ذَهَبَ السيئاتُ عنِّي إنَّه لفرحٌ فخورٌ}؛ أي: يفرح بما أوتي مما يوافق هوى نفسه، فخورٌ بنعم الله على عباد الله، وذلك يحمله على الأشر والبطر والإعجاب بالنفس والتكبُّر على الخلق واحتقارهم وازدرائهم، وأيُّ عيبٍ أشدُّ من هذا؟!
[10,9] اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کی فطرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ جاہل اور ظالم ہے بایں طور کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، مثلاً:اسے صحت، رزق اور اولاد وغیرہ سے نوازتا ہے، پھر وہ اس سے چھین لیتا ہے تو مایوسی اور ناامیدی کے سامنے جھک جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ثواب کی اسے ذرہ بھر امید نہیں رہتی اور اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ اللہ تعالیٰ یہ تمام چیزیں دوبارہ عطا کر سکتا ہے یا ان جیسی اور چیزوں سے یا ان سے بہتر چیزوں سے اسے نواز سکتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ اسے اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہے، اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور اتراتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ بھلائی اس کے پاس ہمیشہ رہے گی اور کہتا ہے: ﴿ ذَهَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ١ؕ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ ﴾ ’’دور ہو گئیں برائیاں مجھ سے، بے شک وہ تو اترانے والا، شیخی خورہ ہے‘‘ یعنی اسے جو کچھ اس کی خواہشات نفس کے موافق عطا کیا گیا اس پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کے بندوں کے سامنے فخر اور تکبر کا اظہار کرتا ہے اور یہ چیز اسے غرور، خود پسندی، مخلوق الٰہی کے ساتھ تکبر کرنے، ان کے ساتھ حقارت سے پیش آنے اور انھیں کم تر سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا عیب ہو سکتا ہے؟
#
{11} وهذه طبيعة الإنسان من حيث هو؛ إلا مَنْ وفَّقه الله وأخرجه من هذا الخُلُق الذميم إلى ضدِّه، وهم الذين صبَّروا أنفسهم عند الضراءِ فلم ييأسوا، وعند السراء فلم يبطروا، وعملوا الصالحات من واجبات ومستحبَّات. {أولئك لهم مغفرة}؛ لذنوبهم يزول بها عنهم كل محذور، {وأجر كبير}؛ وهو الفوز بجناتِ النعيم التي فيها ما تشتهيه الأنفس، وتلذُّ الأعين.
[11] یہ ہے انسان کی فطرت! سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ توفیق سے نواز دے اور اسے ان مذموم اخلاق سے نکال کر اخلاق حسنہ کی طرف لے جائے اور یہ وہ لوگ ہیں جو مصائب اور تکالیف کے وقت اپنے نفس کو صبر پر مجبور کرتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے اور خوشی کے وقت بھی صبر کرتے ہیں ۔ پس خوشی میں اتراتے نہیں ہیں اور نیکیوں میں واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ان کے لیے ان کے گناہوں کی مغفرت ہے، جس سے ہر خوف زائل ہو جاتا ہے۔ ﴿ وَّاَجْرٌؔ كَبِیْرٌ ﴾ ’’اور بڑا اجر ہے‘‘ اور یہ نعمتوں سے بھرپور جنت کے حصول میں کامیابی ہے، جس میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس چاہت کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔
آیت: 12 - 14 #
{فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَنْ يَقُولُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (12) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (13) فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (14)}.
پس شاید آپ چھوڑنے والے ہوں بعض وہ چیز جو وحی کی جاتی ہے آپ کی طرف اور تنگ ہونے والا ہو بوجہ اس کے سینہ آپ کا، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ (کافر) کیوں نہیں نازل کیا گیا آپ پر کوئی خزانہ یا (کیوں نہیں ) آیا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ، بلاشبہ آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں اور اللہ اوپر ہر چیز کے نگران ہے (12) کیا وہ کہتے ہیں کہ خود گھڑا ہے اس نے اس (قرآن) کو؟ کہہ دیجیے، پس لے آؤ تم دس سورتیں اس جیسی گھڑی ہوئی اور بلا لو (تعاون کے لیے) جنھیں (بلانے کی) طاقت رکھتے ہو تم سوائے اللہ کے اگر ہو تم سچے(13) پھر اگر نہ جواب دیں وہ تمھیں تو جان لو کہ یقینا وہ (قرآن) نازل کیا گیا ہے ساتھ اللہ کے علم کےاور یہ کہ نہیں کوئی معبود (برحق) سوائے اس کے تو کیا (اب) تم مسلمان ہوتے ہو؟ (14)
#
{12} يقول تعالى مسلياً لنبيه محمد - صلى الله عليه وسلم - عن تكذيب المكذبين: {فلعلَّك تاركٌ بعضَ ما يوحى إليك وضائقٌ به صدرُك أن يقولوا لولا أنزِلَ عليه كنزٌ}؛ أي: لا ينبغي هذا لمثلك؛ أن قولهم يؤثِّر فيك ويصدُّك عما أنت عليه، فتترك بعضَ ما يوحى إليك، ويضيق صدرك لتعنُّتهم بقولهم: {لولا أُنزِلَ عليه كنزٌ أو جاء معه مَلَكٌ}: فإنَّ هذا القول ناشئ من تعنُّتٍ وظلم وعنادٍ وضلالٍ وجهلٍ بمواقع الحجج والأدلَّة؛ فامضِ على أمرك، ولا تصدَّك هذه الأقوالُ الركيكةُ التي لا تصدُرُ إلا من سفيهٍ، ولا يضيق لذلك صدرك؛ فهل أوردوا عليك حجَّة لا تستطيع حلَّها؟! أم قدحوا ببعض ما جئت به قدحاً يؤثِّر فيه وينقص قدره فيضيق صدرك لذلك؟! أم عليك حسابُهم ومُطَالَبٌ بهدايتهم جبراً؟! {إنما أنت نذيرٌ والله على كلِّ شيءٍ وكيلٌ}: فهو الوكيل عليهم، يحفظُ أعمالهم، ويجازيهم بها أتمَّ الجزاء.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ، کفار کی تکذیب پر اپنے نبی محمد مصطفیe کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَضَآىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا﴾ ’’شاید آپ کچھ چیز وحی میں سے جو آپ کے پاس آتی ہے چھوڑ دیں اور اس (خیال) سے آپ کا دل تنگ ہوکہ یہ (کافر) کہنے لگیں ۔‘‘ یعنی آپ جیسی ہستی کے لائق نہیں کہ ان کا قول آپ پر اثر انداز ہو اور آپ کو اپنے راستے سے روک دے اور آپ وحی کے کچھ حصے کو ترک کر دیں اور ان کی عیب چینی اور ان کے اس قول پر تنگ دل ہوں کہ ﴿لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْ٘زٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ ﴾ ’’کیوں نہ اترا اس پر خزانہ یا کیوں نہ آیا اس کے ساتھ فرشتہ‘‘ کیونکہ یہ قول عیب چینی، ظلم، عناد اور دلائل سے جہالت کی بنا پر جنم لیتا ہے۔ پس آپ اپنے راستے پر گامزن رہیے اور ان کے یہ رکیک الفاظ آپ کی راہ کھوٹی نہ کرنے پائیں جو صرف ایک انتہائی بیوقوف آدمی ہی سے صادر ہو سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ تنگ دل نہ ہوں ۔ کیا انھوں نے آپ کے سامنے کوئی ایسی دلیل پیش کی ہے، جس کا آپ جواب نہیں دے پائے؟ یا انھوں نے اس چیز کی برائی اس انداز سے بیان کی ہے جسے لے کر آپ آئے ہیں کہ وہ اس میں مؤثر ثابت ہوئی ہے اور جس سے اس کی قدرومنزلت کم ہوئی ہے۔ پس آپ اس سے تنگ دل ہوئے ہیں ؟ یا ان کا حساب آپ کے ذمہ ہے اور آپ سے ان کی جبری ہدایت کا مطالبہ کیا گیا ہے؟ ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ وَّؔكِیْلٌ﴾ ’’آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمے دار ہے‘‘ پس وہ ان جھٹلانے والوں پر نگران ہے، وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
#
{13} {أم يقولون افتراه}؛ أي: افترى محمدٌ هذا القرآن، فأجابهم بقوله: {قلْ}: لهم: {فأتوا بعشر سورٍ مثله مفتريات وادعوا مَنِ استَطَعْتُم من دون الله إن كنتُم صادقين}؛ أي: إنه قد افتراه؛ فإنَّه لا فرق بينكم وبينه في الفصاحة والبلاغة، وأنتُم الأعداء حقًّا الحريصون بغاية ما يمكنكم على إبطال دعوته فإن كنتم صادقين فأتوا بعشر سورٍ مثله مفتريات!
[13] ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ﴾ ’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو از خود بنالیا ہے۔‘‘ یعنی اس قرآن کو محمدe نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ﴾ ان سے کہہ دیجیے! ﴿ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ٘ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلالو۔‘‘ یعنی اگر اس قرآن کو تمھارے قول کے مطابق… محمدe نے اپنی طرف سے تصنیف کیا ہے، تب تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے تمھارے اور محمدe کے درمیان کوئی فرق نہیں اور تم حقیقی دشمن ہو اور محمدe کی دعوت کے ابطال کے لیے انتہائی کوشش کے حریص ہو… اگر تم اپنے موقف میں سچے ہو تو اس جیسی دس سورتیں گھڑ لاؤ۔
#
{14} {فإن لم يستجيبوا لكم}: على شيءٍ من ذلكم، {فاعلموا أنَّما أنزِلَ بعلم الله}: من عند الله ؛ لقيام الدليل والمقتضي وانتفاء المعارِض. {وأن لا إله إلا هو}؛ أي: واعلموا أنه لا إله إلا هو؛ أي: هو [وحده] المستحقُّ للألوهيَّة والعبادة. {فهل أنتم مسلمونَ}؛ أي: منقادون لألوهيته، مستسلمون لعبوديته. وفي هذه الآيات إرشادٌ إلى أنه لا ينبغي للدَّاعي إلى الله أن يصدَّه اعتراضُ المعترضين ولا قدحُ القادحين، خصوصاً إذا كان القدح لا مستندَ له ولا يقدح فيما دعا إليه، وأنه لا يضيق صدرُه، بل يطمئنُّ بذلك، ماضياً على أمره، مقبلاً على شأنه، وأنه لا يجب إجابة اقتراحات المقترحين للأدلَّة التي يختارونها، بل يكفي إقامةُ الدليل السالم عن المعارض على جميع المسائل والمطالب. وفيها: أن هذا القرآن معجِزٌ بنفسه، لا يقدر أحدٌ من البشر أن يأتي بمثله، ولا بعشر سورٍ مثله، بل ولا بسورة من مثله؛ لأنَّ الأعداء البلغاء الفصحاء تحدَّاهم الله بذلك، فلم يعارضوه؛ لعلمهم أنَّهم لا قدرة فيهم على ذلك. وفيها: أن مما يُطْلَبُ فيه العِلْمُ ولا يكفي غلبةَ الظنِّ، علمُ القرآن وعلمُ التوحيد؛ لقوله تعالى: {فاعلموا أنَّما أنزل بعلم الله وأن لا إله إلا هو}.
[14] ﴿ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ ﴾ ’’پس اگر وہ تمھاری بات قبول نہ کریں ۔‘‘ یعنی وہ اس کا کوئی جواب نہ دیں ﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ ﴾ ’’تو جان لو کہ قرآن تو اترا ہے اللہ کے علم سے‘‘ دلیل و مقتضی کے قیام اور معارض کی نفی کی بنا پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَاَنْ لَّاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ یعنی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہی الوہیت اور عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ ’’تو کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟‘‘ یعنی کیا تم اس کی الوہیت کو مانتے ہو اور اس کی عبادت کے لیے سر تسلیم خم کرتے ہو؟ ان آیات کریمہ میں اس امر کی طرف راہ نمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کے لیے مناسب نہیں کہ دعوت پر اعتراض کرنے والے معترضین کے اعتراضات اور رد و قدح کی بنا پر دعوت دین سے رک جائے۔ خاص طور پر جبکہ اس رد و قدح پر کوئی دلیل نہ ہو اور دعوت میں کوئی خامی بھی نہ ہو۔ نیز یہ کہ داعی کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اپنی دعوت پر مطمئن ہونا چاہیے، وہ اپنے راستے پر گامزن رہے اور اپنی منزل کو سامنے رکھے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ داعی نئے نئے مطالبات پیش کرنے والوں کو اہمیت نہ دے، صرف دلائل ہی ان کے سامنے رکھے۔ تمام مسائل پر ایسے دلائل کا قائم کر دینا جن کا توڑ نہ کیا جا سکے یہی کافی ہے۔ اور اس آیت کریمہ میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ یہ قرآن بنفسہ معجزہ ہے، کوئی بشر ایسی کتاب نہیں لا سکتا، کتاب تو کیا اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت ہی نہیں بنا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے بڑے بڑے بلغاء و فصحاء کو مقابلے کی دعوت دی مگر انھوں نے مقابلہ نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ایسی کتاب بنانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ امور جن میں محض غلبۂ ظن کافی نہیں بلکہ علم یقینی مطلوب ہے، وہ ہیں علم القرآن اور علم التوحید، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَاَنْ لَّاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ ﴾ ’’تو جان لو کہ وہ اللہ کے علم سے اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
آیت: 15 - 16 #
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (16)}.
جو کوئی چاہتا ہے زندگی دنیا کی اور زینت اس کی تو ہم پوری دے دیتے ہیں انھیں جزا ان کے عملوں کی اسی (دنیا) میں اور وہ دنیا میں نہیں نقصان دیے جاتے (15) یہی ہیں وہ لوگ کہ نہیں واسطے ان کے آخرت میں مگر آگ ہی اور برباد ہوا وہ جو کچھ انھوں نے کیا تھا دنیا میں اور باطل (ضائع) ہو گیا جو تھے وہ عمل کرتے (16)
#
{15} يقول تعالى: {من كان يريد الحياة الدُّنيا وزينتَها}؛ أي: كلُّ إرادته مقصورةٌ على الحياة الدُّنيا وعلى زينتها من النساء والبنين والقناطير المقنطرة من الذهب والفضة والخيل المسوَّمة والأنعام والحرث، قد صرف رغبته وسعيَهُ وعملَهُ في هذه الأشياء، ولم يجعلْ لدار القرار من إرادته شيئاً؛ فهذا لا يكون إلا كافراً؛ لأنَّه لو كان مؤمناً؛ لكان ما معه من الإيمان يمنعُه أن تكون جميع إرادتِهِ للدار الدُّنيا، بل نفس إيمانه وما تيسَّر له من الأعمال أثرٌ من آثار إرادتِهِ الدارَ الآخرة، ولكنْ، هذا الشقيُّ الذي كأنه خُلِقَ للدنيا وحدها، {نوفِّ إليهم أعمالهم فيها}؛ أي: نعطيهم ما قُسِمَ لهم في أمِّ الكتاب من ثواب الدُّنيا. {وهم فيها لا يُبْخَسون}؛ أي: لا يُنْقَصون شيئاً مما قُدِّرَ لهم، ولكنْ هذا منتهى نعيمهم.
[15] ﴿ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا ﴾ ’’جو چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق‘‘ یعنی جس شخص کا بھی ارادہ، دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت ہی کے گرد گھومتا ہے، مثلاً:عورتوں اور بیٹوں کے حصول کی خواہش، سونے اور چاندی کے خزانوں کی حرص، نشان زدہ گھوڑوں ، مویشیوں اور کھیتیوں کی چاہت، اس نے اپنی رغبت، عمل اور کوشش کو صرف انھی چیزوں پر مرکوز کر رکھا ہے اور وہ آخرت کے گھر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کافر کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو اس کا ایمان اسے اس بات سے روک دیتا کہ اس کا تمام ارادہ صرف دنیا ہی پر مرکوز رہے بلکہ اس کا ایمان اور اس کے اعمال، اس کے ارادۂ آخرت ہی کے آثار ہیں ۔ مگر یہ کافر بدبخت تو گویا صرف دنیا ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ﴿ نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا ﴾ ’’بھگتا دیں گے ہم ان کو ان کے عمل دنیا ہی میں ‘‘ یعنی ہم ان کو وہ دنیاوی ثواب عطا کر دیتے ہیں جو ان کے لیے لوح محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔ ﴿ وَهُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ ﴾ ’’اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔‘‘ یعنی جو کچھ ان کے لیے مقرر کیا گیا ہوتا ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کی منتہا ہے۔
#
{16} {أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلاَّ النارُ}: خالدين فيها أبداً، لا يفتر عنهم العذاب، وقد حرموا جزيل الثواب. {وحَبِطَ ما صنعوا فيها}؛ أي: في الدنيا؛ أي: بطل، واضمحلَّ ما عملوه مما يكيدون به الحقَّ وأهله، وما عملوه من أعمال الخير التي لا أساس لها، ولا وجود لشرطها وهو الإيمان.
[16] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ﴾ ’’یہی ہیں جن کے واسطے آخرت میں کچھ نہیں ہے سوائے آگ کے‘‘ وہ اس میں ابد الآباد تک رہیں گے، ان کے عذاب میں کوئی وقفہ نہیں کیا جائے گا اور ثواب جزیل سے انھیں محروم کر دیا جائے گا۔ ﴿ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا ﴾ ’’اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے کیا دنیا میں ‘‘ یعنی وہ سب اعمال باطل اور مضمحل ہو جائیں گے جو وہ حق اور اہل حق کے خلاف سازشوں کے لیے کرتے رہے ہیں اور نیکی کے اعمال بھی باطل ہو جائیں گے جن کی کوئی اساس ہی نہیں اور ان کی قبولیت کی شرط بھی مفقود ہے اور وہ ہے ایمان۔
آیت: 17 #
{أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (17)}.
کیا پس (طالب دنیا اس جیسا ہے) جو ہو اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سےاور اس کے پیچھے ایک گواہ ہو اللہ کی طرف سےاور اس سے پہلے ہے کتاب موسیٰ کی درآں حالیکہ وہ پیشوا اور رحمت ہے یہی لوگ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس (قرآن) کےاور جو شخص کفرکرے ساتھ اس کے گروہوں میں سے تو آگ ہی اس کی وعدہ گا ہ ہے، پس نہ ہوں آپ شک میں اس سے، بلاشبہ قرآن حق ہے آپ کے رب کی طرف سے لیکن اکثر لوگ نہیں ایمان لاتے (17)
#
{17} يذكر تعالى حال رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم - ومن قام مقامه من ورثته القائمين بدينه. وحججه الموقنين بذلك، وأنهم لا يوصف بهم غيرهم، ولا يكون أحدٌ مثلهم، فقال: {أفمن كان على بيِّنةٍ من ربِّه}: بالوحي الذي أنزل الله فيه المسائل المهمَّة ودلائلها الظاهرة، فتيقَّن تلك البيِّنة، {ويتلوه}؛ أي: يتلو هذه البينة والبرهان برهانٌ آخرُ، {شاهدٌ منه}: وهو شاهدُ الفطرة المستقيمة والعقل الصحيح، حين شهد حقيقةَ ما أوحاه الله وشَرَعَهُ وعَلِمَ بعقله حُسْنَهُ فازداد بذلك إيماناً إلى إيمانِهِ {و} ثَمَّ شاهدٌ ثالثٌ؛ وهو {كتابُ موسى}: التوراة التي جعلها الله {إماماً} للناس {ورحمةً} لهم، يشهد لهذا القرآن بالصدق ويوافقه فيما جاء به من الحقِّ؛ أي: أفمنْ كان بهذا الوصف، قد تواردتْ عليه شواهدُ الإيمان وقامتْ لديه أدلُة اليقين؛ كمن هو في الظُّلمات والجهالات ليس بخارج منها؟ لا يستوون عند الله ولا عند عباد الله. {أولئك}؛ أي: الذين وفِّقوا لقيام الأدلَّة عندهم، يؤمنون بالقرآن حقيقة، فيثمر لهم إيمانهم كلَّ خيرٍ في الدنيا والآخرة. {ومن يكفُرْ به}؛ أي: القرآن، {من الأحزاب}؛ أي: سائر طوائف أهل الأرض المتحزِّبة على ردِّ الحق، {فالنار موعده}: لا بدَّ من وروده إليها، {فلا تكُ في مِريةٍ [منه]}؛ أي: في أدنى شكٍّ. {إنَّه الحقُّ من ربِّك ولكنَّ أكثر الناس لا يؤمنون}: إما جهلاً منهم وضلالاً، وإما ظلماً وعناداً وبغياً، وإلاَّ؛ فمن كان قصدُه حسناً وفَهْمُه مستقيماً؛ فلا بدَّ أن يؤمنَ به؛ لأنَّه يرى ما يدعوه إلى الإيمان من كلِّ وجه.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیe ، آپ کے قائم مقام، آپ کے دین کو قائم کرنے والے آپ کے ورثاء کا حال اور اہل ایقان کے دلائل کا ذکر کرتا ہے اور یہ ایسے اوصاف ہیں جن سے ان کے سوا کوئی اور متصف نہیں ہے اور نہ ان جیسا کوئی اور ہے۔ فرمایا: ﴿اَفَ٘مَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ ’’بھلا وہ شخص جو ہے واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے‘‘ یعنی اس وحی کے ذریعے سے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہم مسائل اور ان کے ظاہری دلائل نازل کیے ہیں پس ان سے یہ ثبوت اور دلیل مزید متیقن ہو جاتی ہے۔ ﴿ وَیَتْلُوْهُ ﴾ ’’اور اس کے پیچھے ہے‘‘ یعنی اس دلیل اور برہان کے پیچھے ایک اور دلیل ہے۔ ﴿شَاهِدٌ مِّؔنْهُ ﴾ ’’ایک گواہ اس کی طرف سے‘‘ اور وہ ہے فطرت مستقیم، عقل سلیم۔ فطرت سلیم اس شریعت کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نازل اور مشروع فرمایا اور بندہ اپنی عقل کے ذریعے سے اس کے حسن کو معلوم کر لیتا ہے پس اس کے ایمان میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ وہاں ایک تیسرا شاہد بھی ہے ﴿ مِنْ قَبْلِهٖ٘ ﴾ ’’اس سے پہلے‘‘ اور وہ ہے ﴿ كِتٰبُ مُوْسٰۤى ﴾ ’’موسیٰ (u) کی کتاب۔‘‘ یعنی تورات ﴿ اِمَامًا﴾ ’’پیشوا‘‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے امام ﴿ وَّرَحْمَةً﴾ ’’اور رحمت بنایا ہے۔‘‘ یہ تورات قرآن کی صداقت پر گواہی دیتی ہے اور اس حق کی موافقت کرتی ہے جو اس کے اندر نازل کیا گیا… یعنی جس کا یہ وصف ہو کہ تمام شواہد ایمان اس کی تائید کرتے ہوں اور اس کے پاس تمام دلائل یقین قائم ہوں کیا وہ اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں اور جہالتوں میں ڈوبا ہوا ہے اور ان میں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ دونوں اللہ کے ہاں برابر ہیں نہ اللہ کے بندوں کے ہاں ۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی‘‘ یعنی وہ لوگ جن کو دلائل قائم کرنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ ﴿ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ﴾ ’’اس پر ایمان لاتے ہیں ۔‘‘ یعنی قرآن پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں ان کے ایمان کے نتیجے میں انھیں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی عطا ہوتی ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ ﴾ ’’اور جو منکر ہو اس سے سب فرقوں میں سے‘‘ یعنی روئے زمین کے تمام گروہ، جو حق کو ٹھکرانے پر متفق ہیں ۔ ﴿ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ﴾ ’’پس دوزخ اس کا ٹھکانا ہے‘‘ وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے۔ ﴿ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّؔنْهُ﴾ ’’تو آپ اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔‘‘ یعنی آپ اس کی طرف سے ادنیٰ سے شک میں بھی مبتلا نہ ہوں ۔ ﴿ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’بے شک وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘ یعنی یا تو جہالت کی بنا پر ایمان نہیں لاتے یا ظلم، عناد اور بغاوت کی بنا پر ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ جس کا مقصد اچھا اور فہم درست ہے وہ اس پر ضرور ایمان لائے گا کیونکہ اسے اس میں وہ صداقت نظر آتی ہے جو اسے ہر لحاظ سے ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے۔
آیت: 18 - 22 #
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أُولَئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَى رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (18) الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (19) أُولَئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ (20) أُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (21) لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ (22)}.
اور کون شخص زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے باندھا اوپر اللہ کے جھوٹ؟ یہی لوگ پیش کیے جائیں گے اوپر اپنے رب کے اور کہیں گے گواہ (فرشتے) یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے جھوٹ بولا تھا اوپر اپنے رب کے، آگاہ رہو! لعنت ہے اللہ کی اوپر ظالموں کے (18) وہ لوگ جو روکتے ہیں اللہ کی راہ سے اور تلاش کرتے ہیں اس میں کجی اور وہی ہیں ساتھ آخرت کے کفر کرنے والے (19) یہ لوگ نہ تھے عاجز کرنے والے (اللہ کو) زمین میں اور نہ تھا واسطے ان کے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی، دگنا کیا جائے گا واسطے ان کے عذاب، نہ تھے وہ استطاعت رکھتے (حق) سننے کی اور نہ تھے وہ (حق کو) دیکھتے (20) یہی لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں ڈالا اپنے آپ کو اور گم ہو گیا ان سے وہ جو تھے وہ افتراء باندھتے (21) یقینا بلاشبہ وہی لوگ آخرت میں خسارہ پانے والے ہیں (22)
#
{18} يخبر تعالى أنه لا أحد {أظلمُ ممَّن افترى على الله كذباً}: ويدخل في هذا كلُّ من كذب على الله بنسبة الشريك له، أو وَصَفَه بما لا يَليق بجلاله، أو الإخبار عنه بما لم يقلْ، أو ادعاء النبوَّة، أو غير ذلك من الكذب على الله؛ فهؤلاء أعظم الناس ظلماٌ. {أولئك يُعْرَضونَ على ربِّهم}: ليجازِيَهم بظلمهم؛ فعندما يحكُم عليهم بالعقاب الشديد؛ {يقولُ الأشهادُ}؛ أي: الذين شهدوا عليهم بافترائهم وكذبهم: {هؤلاء الذين كَذَبوا على ربِّهم ألا لعنة الله على الظالمين}؛ أي: لعنة لا تنقطع؛ لأنَّ ظلمهم صار وصفاً لهم ملازماً، لا يقبل التخفيف.
[18] ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا﴾ ’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے‘‘ یعنی اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہے اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اس کی طرف کوئی شریک منسوب کرتا ہے یا اسے کسی ایسی صفت سے متصف کرتا ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں یا اس کی طرف سے کوئی ایسی بات کہتا ہے جو اس نے نہیں کہی یا وہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی بھی طرح سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پس یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں ﴿اُولٰٓىِٕكَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ ﴾ ’’یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے‘‘ تاکہ وہ انھیں ان کے ظلم کا بدلہ دے۔ جب وہ ان کے خلاف سخت عذاب کا فیصلہ سنائے گا ﴿وَیَقُوْلُ الْاَشْهَادُ ﴾ ’’کہیں گے گواہی دینے والے‘‘ یعنی وہ لوگ جو ان کے خلاف ان کے کذب و افترا پر گواہی دیں گے ﴿هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ١ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے جھوٹ بولا اپنے رب پر، خبردار، اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر‘‘ یعنی وہ لعنت جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا کیونکہ ظلم ان کا وصف لازم بن چکا ہے، جو تخفیف کے قابل نہیں ۔
#
{19} ثم وصف ظلمهم فقال: {الذين يصدُّون عن سبيل الله}: فصدُّوا بأنفسهم عن سبيل الله، وهي سبيل الرسل التي دعوا الناس إليها، وصدُّوا غيرَهم عنها، فصاروا أئمة يدعون إلى النار {ويبغونَها}؛ أي: سبيل الله {عوجاً}؛ أي: يجتهدون في ميلها وتشيينها وتهجينها؛ لتصير عند الناس غير مستقيمة، فيحسِّنون الباطل؛ ويقبِّحون الحقَّ؛ قبَّحهم الله. {وهم بالآخرة هم كافرون}.
[19] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’جو کہ روکتے ہیں اللہ کے راستے سے‘‘ پس انھوں نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے رکھا اور یہ انبیاء و مرسلین کا راستہ ہے جس کی طرف انبیاء لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور وہ دوسرے لوگوں کو بھی اس راستے سے روکتے رہے۔ پس وہ ائمہ ضلالت بن گئے جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔ ﴿وَیَبْغُوْنَهَا ﴾ ’’اور اس میں چاہتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ کے راستے کے بارے میں چاہتے ہیں ﴿ عِوَجًا ﴾ ’’کجی‘‘ یعنی اس راستے کو ٹیڑھا کرنے، اسے حقیر اور عیب دار قرار دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا راستہ لوگوں کے نزدیک غیر مستقیم قرار پائے۔ پس وہ باطل کی تحسین اور حق کی برائیاں بیان کرتے ہیں … اللہ ان کا برا کرے ﴿ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
#
{20} {أولئك لم يكونوا معجزِين في الأرض}؛ أي: ليسوا فائتين الله؛ لأنهم تحت قبضته وفي سلطانه، {وما كان لهم مِن دونِ الله من أولياء}: فيدفعون عنهم المكروهَ أو يحصِّلون لهم ما ينفعهم، بل تقطَّعت بهم الأسباب. {يضاعفُ لهم العذابُ}؛ أي: يغلَّظ ويزداد؛ لأنَّهم ضلوا بأنفسهم وأضلُّوا غيرهم. {ما كانوا يستطيعون السمع}؛ أي: من بغضهم للحقِّ ونفورهم عنه، ما كانوا يستطيعون أن يسمعوا آياتِ الله سماعاً ينتفعون به؛ {فما لهم عن التَّذْكِرَةِ معرضينَ. كأنَّهم حُمُرٌ مُسْتَنفِرَةٌ. فرَّتْ من قَسْوَرة}، {وما كانوا يبصِرون}؛ أي: ينظرون نظر عبرة وتفكُّر فيما ينفعهم، وإنما هم كالصمِّ البكم الذين لا يعقلون.
[20] ﴿اُولٰٓىِٕكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’وہ لوگ نہیں تھکانے والے زمین میں ‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے کہیں بھاگ نہیں سکتے کیونکہ وہ اس کی گرفت میں اور اس کے دست قدرت کے تحت ہیں ﴿ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ﴾ ’’اور نہیں ہیں ان کے واسطے اللہ کے سوا کوئی دوست‘‘ جو ان کی تکلیف دور کر سکیں یا ان کے لیے کوئی فائدہ حاصل کر سکیں بلکہ ان کے درمیان تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔ ﴿ یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ﴾ ’’دوگنا ہے ان کے لیے عذاب‘‘ ان کے لیے عذاب بہت سخت ہوگا اور بڑھتا چلا جائے گا کیونکہ انھوں نے خود اپنے آپ کو گمراہ کیا اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے۔ ﴿ مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ السَّمْعَ ﴾ ’’نہیں طاقت رکھتے تھے وہ سننے کی‘‘ یعنی حق کے خلاف بغض اور نفرت رکھنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن نہیں سکتے جس سے وہ منتفع ہو سکیں ﴿ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَۙ۰۰كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۰۰ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ ﴾ (المدثر: 74؍49-51) ’’انھیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ نصیحت سے روگردانی کرتے ہیں گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں ۔‘‘ ﴿ وَمَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ دیکھتے تھے‘‘ یعنی وہ عبرت اور تفکر و تدبر کی نظر سے نہیں دیکھتے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں ۔ وہ تو بہروں اور گونگوں کی مانند ہیں جو سوچنے، سمجھنے سے محروم ہیں ۔
#
{21} {أولئك الذين خسروا أنفسهم}: حيث فوَّتوها أعظم الثواب واستحقُّوا أشدَّ العذاب، {وضلَّ عنهم ما كانوا يفترون}؛ أي: اضمحلَّ دينُهم الذي يدعون إليه ويحسِّنونه، ولم تغنِ عنهم آلهتُهم التي يعبدون من دون الله لمَّا جاء أمرُ ربِّك.
[21] ﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’وہی لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں ڈالا اپنی جانوں کو‘‘ کیونکہ وہ سب سے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے اور شدید ترین عذاب کے مستحق قرار پائے ﴿ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اور گم ہو گیا ان سے وہ جو جھوٹ باندھتے تھے‘‘ یعنی ان کا وہ دین جس کی طرف یہ لوگوں کو دعوت دیا کرتے تھے اور جس کی یہ تحسین کیا کرتے تھے مٹ گیا اور جب آپ کے رب کا حکم آ گیا تو ان کے وہ جھوٹے خدا ان کے کسی کام نہ آئے جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔
#
{22} {لا جرم}؛ أي: حقًّا وصدقاً، {أنهم في الآخرة هم الأخسرون}: حصر الخسار فيهم، بل جعل لهم منه أشدَّه؛ لشدة حسرتهم وحرمانهم وما يعانون من المشقَّة من العذاب، فنستجير بالله من حالهم.
[22] ﴿ لَا جَرَمَ ﴾ ’’بلاشبہ‘‘ یعنی یہ بات حق اور سچ ہے کہ ﴿ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْ٘سَرُوْنَ ﴾ ’’وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ان پر منحصر کر دیا ہے بلکہ ان کے لیے شدید ترین خسارہ مقررہ کیا کیونکہ ان کی حسرت اور محرومی نہایت شدید ہوگی۔ مشقت اور عذاب ان پر مستزاد ہو گا۔ ہم ان کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
آیت: 23 - 24 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَى رَبِّهِمْ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (23) مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَى وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (24)}.
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک اور عاجزی کی انھوں نے اپنے رب کی طرف، یہی لوگ اہل جنت ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (23) مثال دونوں فریقوں کی مانند (مثال) اندھے اور بہرے، دیکھنے والے اور سننے والے کی ہے، کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں مثال میں ؟ کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟ (24)
#
{23} يقول تعالى: {إنَّ الذين آمنوا}: بقلوبهم؛ أي: صدقوا واعترفوا لما أمر الله بالإيمان به من أصول الدين وقواعده، {وعملوا الصالحات}: المشتملة على أعمال القلوب والجوارح وأقوال اللسان، {وأخْبَتوا إلى ربِّهم}؛ أي: خضعوا له واستكانوا لعظمته وذلوا لسلطانه، وأنابوا إليه بمحبته وخوفه ورجائه والتضرُّع إليه. {أولئك}: الذين جمعوا تلك الصفات، {أصحابُ الجنة هم فيها خالدون}: لأنهم لم يتركوا من الخير مطلباً إلا أدركوه، ولا خيراً إلا سَبَقوا إليه.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے (بدبختوں کا حال اور اللہ کے ہاں ان کا اجروثواب بیان کرنے کے بعد خوش بخت لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے) فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’جولوگ ایمان لائے۔‘‘ یعنی جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اصول دین اور اس کے قواعد پر ایمان لانے کا حکم دیا تو انھوں نے ان امور کا اعتراف کیا اور ان کی تصدیق کی۔ ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور عمل نیک کیے۔‘‘ جو اعمال قلوب، اعمال جوارح اور اقوال لسان پر مشتمل ہیں ۔ ﴿ وَاَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ﴾ ’’اور عاجزی کی انھوں نے اپنے رب کے سامنے‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے سرافگندہ ہوگئے، اس کی قوت و اقتدار کے سامنے تذلل اور انکساری اختیار کی، اپنے دل میں اس کی محبت، اس کا خوف اور اس پر امیدیں رکھتے ہوئے اس کی طرف لوٹے اور اس کے حضور اپنی عاجزی اور بے مائیگی کا اظہار کیا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی‘‘یعنی وہ لوگ جن میں یہ تمام صفات جمع ہیں ﴿ اَصْحٰؔبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’جنتی ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ کیونکہ بھلائی کا کوئی ایسا مقصد نہیں جو انھوں نے حاصل نہ کیا اور کوئی ایسی منزل نہیں جس کی طرف انھوں نے سبقت نہ کی ہو۔
#
{24} {مَثَلُ الفريقين}؛ أي: فريق الأشقياء وفريق السعداء، {كالأعمى والأصمِّ}: هؤلاء الأشقياء. {والبصير والسميع}: مَثَل السعداء. {هل يستويان مثلاً}؟ لا يستوون مثلاً، بل بينهما من الفَرْق ما لا يأتي عليه الوصف. {أفلا تَذَكَّرون}: الأعمال التي تنفعكم فتفعلونها، والأعمال التي تضرُّكم فتتركونها.
[24] ﴿ مَثَلُ الْ٘فَرِیْقَیْنِ ﴾ ’’مثال دو گروہوں کی‘‘ یعنی بدبختوں کا گروہ اور نیک بختوں کا گروہ ﴿ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ ﴾ ’’اندھے اور بہرے کی مانند ہیں ‘‘ یعنی ان بدبختوں کا گروہ ﴿ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ﴾ ’’اور دیکھنے، سننے والے کی مانند ہیں ‘‘ یعنی سعادت مند لوگوں کی مثل۔ ﴿ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا﴾ ’’کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہو سکتے ہیں ؟‘‘ یعنی مثال میں دونوں مساوی نہیں ہیں بلکہ دونوں کے درمیان فرق ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿ اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’پس تم کیوں دھیان نہیں دیتے‘‘ ان اعمال کی طرف جو تمھیں فائدہ دیں اور تم انھیں بجا لاؤ اور ان اعمال کی طرف، جو تمھارے لیے نقصان دہ ہیں ، پس تم ان کو چھوڑ دو۔
آیت: 25 - 49 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ (25) أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ (26) فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ (27) قَالَ يَاقَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ (28) وَيَاقَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ (29) وَيَاقَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (30) وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ إِنِّي إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (31) قَالُوا يَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (32) قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شَاءَ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ (33) وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ إِنْ كَانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ {تُرْجَعُونَ (34) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تُجْرِمُونَ (35) وَأُوحِيَ إِلَى نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (36) وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ (37) وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ (38) فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (39) حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ (40) وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (41) وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَابُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ (42) قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (43) وَقِيلَ يَاأَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَاسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ وَقِيلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (44) وَنَادَى نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ (45) قَالَ يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (46) قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (47) قِيلَ يَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (48) تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ (49)}.
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو طرف اس کی قوم کی (اس نے کہا) بے شک میں تمھارے لیے ڈرانے والا ہوں ظاہر (25)یہ کہ نہ عبادت کرو تم مگر اللہ ہی کی، بلاشبہ میں ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک درد ناک دن کے (26) پس کہا ان وڈیروں نے جنھوں نے کفر کیا اس کی قوم میں سے، نہیں دیکھتے ہم تجھے مگر بشر اپنے ہی جیسا اور نہیں دیکھتے ہم تجھے کہ اتباع کیا ہو تیرا مگر ان لوگوں نے کہ وہ کم ترین ہیں ہم میں سے، سرسری رائے سےاورنہیں دیکھتے ہم واسطے تمھارے اوپر اپنے کوئی فضل بلکہ ہم تو گمان کرتے ہیں تمھیں جھوٹا (27) نوح نے کہا، اے میری قوم! دیکھو تو! اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے اور اس نے دی ہو مجھے رحمت (نبوت) اپنے پاس سے ، پھر پوشیدہ کر دی گئی ہو وہ (دلیل) تم پر تو کیاہم (زبردستی) چپکا دیں تم پر اس (پر ایمان لانے) کو، جبکہ تم اس کو ناپسند کرتے ہو؟ (28)اور اے میری قوم! نہیں مانگتا میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی مال، نہیں ہے میر اجر مگر اوپر اللہ کےاور نہیں ہوں میں دھتکارنے والا ان لوگوں کو جو ایمان لائے، بے شک وہ ملنے والے ہیں اپنے رب سے لیکن میں دیکھتا ہوں تمھیں ایسے لوگ کہ جہالت کرتے ہو تم (29) اور اے میری قوم! کون مدد کرے گا میری اللہ (کے عذاب) سے اگر دھتکار دوں میں انھیں ؟ کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟ (30) اور نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس خزانے ہیں اللہ کے اور نہ میں جانتا ہوں غیب اور نہ میں کہتا ہوں ( یہ کہ) بے شک میں فرشتہ ہوں اور نہ میں کہتا ہوں واسطے ان لوگوں کے جنھیں حقیر دیکھتی ہیں آنکھیں تمھاری کہ ہرگز نہیں دے گا انھیں اللہ بھلائی، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، (اگر میں نے کہا تو) بلاشبہ میں اس وقت البتہ ظالموں سے ہوں گا (31) انھوں نے کہا، اے نوح! تحقیق جھگڑا کیا تو نے ہم سے اور خوب کیا تو نے جھگڑا ہم سے ، پس لے آ تو ہم پر وہ (عذاب) جس کاوعدہ دیتا ہے تو ہمیں ، اگر ہے تو سچوں میں سے (32) نوح نے کہا، یقینا لائے گا تم پر وہ (عذاب) اللہ ہی، اگر اس نے چاہااور نہیں تم (اسے) عاجز کرنے والے (33) اور نہیں نفع دے گی تمھیں نصیحت میری اگر چاہوں میں یہ کہ نصیحت کروں میں تمھیں ، اگر ہو اللہ چاہتا گمراہ کرنا تمھیں وہی رب ہے تمھارا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (34) کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود گھڑا ہے اس (قرآن) کو؟ کہہ دیجیے! اگر خود گھڑا ہے میں نے اسے تو مجھ ہی پر ہے جرم میرااور میں بری ہوں اس سے جو تم جرم کرتے ہو (35) اور وحی کی گئی طرف نوح کی یہ بات کہ ہرگز کوئی نہیں ایمان لائے گا تیری قوم میں سے سوائے اس شخص کے جو ایمان لا چکا ہے (پہلے)، پس مت غم کھا بوجہ اس کے جو وہ کر رہے ہیں (36) اور تو بنا ایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق اور مت گفتگو کرنا مجھ سے ان لوگوں کی بابت جنھوں نے ظلم (کفر) کیا بلاشبہ وہ غرق کیے جائیں گے (37) اور بناتا تھا نوح کشتی اور جب گزرتے اس کے پاس سے وڈیرے اس کی قوم کے تو وہ مذاق کرتے اس سے نوح نے کہا، اگر تم (آج) مذاق کرتے ہو ہم سے تو بے شک ہم بھی (ایک روز) مذاق کریں گے تم سے جس طرح تم مذاق کرتے ہو (38) پس عنقریب تم جان لو گے کون شخص ہے کہ آتا ہے اس پر ایساعذاب جو رسوا کر دے گا اس کو (دنیا میں ) اور اترے گا اس پر عذاب دائمی (آخرت میں ) (39) حتی کہ جب آیاہمارا حکم اورجوش مارا تنور نے تو ہم نے کہا، سوار کر لے اس کشتی میں ہر قسم سے جوڑا (نر، مادہ ہر ایک سے) دو اوراپنے گھر والوں کو سوائے اس شخص کے کہ پہلے گزر چکا اس کی بابت حکم اور ان کو بھی جو ایمان لا چکے ہیں اور نہ ایمان لائے تھے اس کے ساتھ مگر تھوڑے لوگ (40) اور نوح نے کہا، سوار ہو جاؤ اس کشتی میں ساتھ نام اللہ کے ہے چلنا اس کا اور ٹھہرنا اس کا، بلاشبہ میرا رب البتہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے (41) اور وہ (کشتی) چلتی تھی انھیں لے کر ایسی موجوں میں جو پہاڑوں جیسی تھیں اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کواور تھا وہ (سب سے) الگ تھلگ، اے عزیز بیٹے! تو (بھی) سوار ہو جا ہمارے ساتھ اورنہ ہو ساتھ کافروں کے (42) اس نے کہا، ابھی پناہ لے لیتا ہوں میں طرف کسی پہاڑ کی، وہ بچالے گا مجھے پانی سے، نوح نے کہا، نہیں کوئی بچانے والا آج اللہ کے حکم (عذاب) سے مگر جس پر اللہ (ہی) رحم کرے اور حائل ہو گئی درمیان ان دونوں کے موج، پس ہو گیا وہ غرق شدہ لوگوں میں سے (43) اور کہا گیا اے زمین! نگل لے تو پانی اپنا اور اے آسمان! تھم جاتو (برسنے سے) اور کم (خشک) کر دیا گیا پانی اور تمام کر دیا گیا(ان کا) کام اور کشتی جا ٹھہری اوپر جو دی (پہاڑی) کے اور کہا گیا دوری (لعنت) ہے واسطے ظالم قوم کے (44) اور پکارا نوح نے اپنے رب کو، پس کہا اس نے ، اے میرے رب! بلاشبہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہےاور بلاشبہ تیرا وعدہ حق (سچا) ہے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے تمام فیصلہ کرنے والوں سے (45) اللہ نے کہا، اے نوح! بے شک وہ نہیں ہے تیرے اہل میں سے، بلاشبہ اس کا عمل غیر صالح ہے، پس نہ سوال کر تو مجھ سے اس چیز کا کہ نہیں ہے تجھے اس کا کوئی علم، بے شک میں نصیحت کرتا ہوں تجھے یہ کہ (نہ) ہو تو جاہلوں میں سے (46) نوح نے کہا، اے میرے رب! بے شک میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ سوال کروں تجھ سے اس چیز کا کہ نہیں ہے مجھے اس کا کوئی علم اور اگر نہ مغفرت کی تو نے میری اور (نہ) رحم کیا تو نے مجھ پر تو ہو جاؤں گا میں خسارہ پانے والوں میں سے (47)کہا گیا، اے نوح! اتر تو ساتھ سلامتی کے ہماری طرف سے اور برکتوں کے اوپر تیرے اور اوپرجماعتوں کے ان میں سے جو تیرے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ہوں گی کہ عنقریب ہم فائدہ دیں گے انھیں ، پھر پہنچے گا ان کو ہماری طرف سے عذاب درد ناک (آخرت میں ) (48) یہ کچھ خبریں ہیں غیب کی، ہم وحی کرتے ہیں ان کی آپ کی طرف ، نہ تھے آپ ہی جانتے ان کو اور نہ آپ کی قوم پہلے اس (وحی) سے، پس آپ صبر کریں ، بلاشبہ (بہترین) انجام واسطے متقین ہی کے ہے(49)
#
{25} أي: {ولقد أرسلْنا نوحاً}: أول المرسلين {إلى قومه}: يدعوهم إلى الله وينهاهم عن الشرك، فقال: {إني لكم نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: بينتُ لكم ما أنذرتكم به بياناً زال به الإشكال.
[25] ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا ﴾ ’’اور ہم نے نوحu کو بھیجا۔‘‘ یعنی ہم نے نوحu کو اولین رسول بنا کر بھیجا۔ ﴿اِلٰى قَوْمِهٖۤ﴾ ’’ان کی قوم کی طرف۔‘‘ جو انھیں اللہ کی طرف بلاتے تھے اور شرک سے روکتے تھے۔ انھوں نے اپنی قوم سے کہا: ﴿اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے آیا ہوں۔‘‘ یعنی میں نے جس چیز سے تمھیں ڈرایا ہے اسے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے جس سے اشکال زائل ہوگیا۔
#
{26} {أن لا تعبُدوا إلاَّ الله}؛ أي: أخلصوا العبادة لله وحده، واتركوا كلَّ ما يُعبد من دون الله. {إني أخافُ عليكم عذابَ يوم أليم}: إنْ لم تقوموا بتوحيد الله وتطيعوني.
[26] ﴿اَنْ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ﴾ ’’کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی عبادت کو خالص کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو جن کی بندگی کی جاتی ہے۔ ﴿اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’مجھے تمھاری نسبت دردناک عذاب کا اندیشہ ہے۔‘‘ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم نہیں کرتے اور میری اطاعت نہیں کرتے تو مجھے تم پر دردناک عذاب کا ڈر ہے۔
#
{27} {فقال الملأ الذين كَفَروا من قومِهِ}؛ أي: الأشراف والرؤساء رادِّين لدعوة نوح عليه السلام كما جَرَتِ العادة لأمثالهم أنَّهم أول مَن ردَّ دعوة المرسلين {ما نراك إلا بشراً مثلَنا}: وهذا مانعٌ بزعمهم عن اتِّباعه، مع أنه في نفس الأمر هو الصوابُ الذي لا ينبغي غيره؛ لأنَّ البشر يتمكَّن البشرُ أن يتلقَّوا عنه ويراجعوه في كلِّ أمرٍ؛ بخلاف الملائكة. {وما نراك اتَّبعك إلا الذين هم أراذِلُنا}؛ أي: ما نرى اتَّبعك منَّا إلا الأراذلُ والسَّفَلة ـ بزعمهم ـ وهم في الحقيقة الأشرافُ وأهل العقول، الذين انقادوا للحقِّ، ولم يكونوا كالأراذل الذين يُقال لهم: الملأ، الذين اتَّبعوا كل شيطان مَريدٍ، واتَّخذوا آلهة من الحجر والشجر يتقرَّبون إليها ويسجدون لها؛ فهل ترى أرذل من هؤلاء وأخس؟! وقولهم: {بادِيَ الرأي}؛ أي: إنما اتَّبعوك من غير تفكُّر ورويَّة، بل بمجرَّد ما دعوتهم اتَّبعوك؛ يعنون بذلك أنهم ليسوا على بصيرةٍ من أمرهم، ولم يعلموا أنَّ الحقَّ المبينَ تدعو إليه بداهةُ العقول، وبمجرَّد ما يصل إلى أولي الألباب يعرفونه ويتحقَّقونه، لا كالأمور الخفيَّة التي تحتاج إلى تأمُّل وفكر طويل. {وما نرى لكم علينا من فضل}؛ أي: لستم أفضل منا فننقادُ لكم، {بل نظنُّكم كاذبين}: وكذبوا في قولهم هذا؛ فإنَّهم رأوا من الآيات التي جعلها الله مؤيِّدة لنوح ما يوجِبُ لهم الجزم التامَّ على صدقه.
[27] ﴿فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ ﴾ ’’تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے۔‘‘ یعنی جناب نوحu کی قوم کے اشراف اور رؤسا نے آپ کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا۔ جیسا کہ ان جیسے دیگر لوگوں کی عادت رہی ہے۔ وہ اولین لوگ تھے جنھوں نے رسولوں کی دعوت کو رد کیا اور کہنے لگے: ﴿ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّؔثْلَنَا ﴾ ’’ہم تو تجھے اپنے ہی جیسا انسان دیکھتے ہیں ‘‘ ان کے زعم کے مطابق یہ مانع تھا جو انھیں نوحu کی اتباع سے روکتا تھا حالانکہ نفس الامر میں ان کی دعوت حق اور صواب تھی اس کے علاوہ رسول کا کچھ اور ہونا مناسب ہی نہیں کیونکہ انسان ہی سے انسان علم حاصل کر سکتا ہے اور اپنے ہر معاملے میں وہ صرف انسان کی طرف رجوع کر سکتا ہے اور اس کے برعکس وہ فرشتوں سے سیکھ سکتا ہے نہ ان کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ ﴿ وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا﴾ ’’اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمھارے پیرو وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنیٰ درجے کے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے صرف ان لوگوں نے تیری پیروی کی ہے جو ہم میں سے (بزعم خود) رذیل اور گھٹیا لوگ ہیں … حالانکہ وہ درحقیقت اشراف اور عقل مند لوگ تھے یہ وہ لوگ تھے جو حق کے سامنے سرافگندہ ہوگئے تھے، یہ وہ رذیل لوگ نہ تھے جن کو اشرافیہ کہا جاتا تھا جو ہر سرکش شیطان کے پیچھے لگ جاتے تھے جنھوں نے پتھروں اور درختوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا۔ جن کا یہ لوگ تقرب حاصل کرتے تھے اور جن کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ کیا آپ ان سے زیادہ رذیل اور ان سے بڑھ کر خسیس کہیں اور دیکھ سکتے ہیں ؟ ﴿ بَ٘ادِیَ الرَّاْیِ﴾ ’’سرسری نظر والے‘‘ یعنی یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے تیری پیروی کرتے ہیں بلکہ محض تیرے دعوت دینے پر ہی تیری اتباع کرتے ہیں … یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے معاملے میں بصیرت سے محروم ہیں ۔ حالانکہ انھیں معلوم نہیں کہ واضح حق وہ ہے جس کی طرف عقل بدیہی طور پر دعوت دیتی ہے اور یہ مجرد اس چیز کے ذریعے سے حق معلوم کرتے ہیں جس کے ذریعے سے عقل رکھنے والے لوگ معلوم کرتے اور اس کی تحقیق کرتے ہیں ۔ حق کا معاملہ ان خفیہ امور کی مانند نہیں ہے جو کسی گہرے سوچ بچار اور طویل غور و فکر کے محتاج ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَمَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭؔ ﴾ ’’اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیکھتے۔‘‘ یعنی ہمارے خیال میں تم ہم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے کہ ہم تمھاری اطاعت کریں ﴿ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِیْنَ ﴾ ’’بلکہ ہم تو تمھیں جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘ انھوں نے اس بارے میں جھوٹ بولا تھا کیونکہ وہ ایسی نشانیاں اور معجزات دیکھ چکے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے نوحu کی تائید کے لیے نازل فرمایا تھا، جو آپ کی صداقت پر انھیں قطعی یقین فراہم کرتی تھیں ۔
#
{28} ولهذا {قال} لهم نوحٌ مجاوباً: {يا قوم أرأيتُم إن كنتُ على بيِّنةٍ من ربِّي}؛ أي: على يقين وجزم؛ يعني: وهو الرسول الكامل القدوة، الذي ينقاد له أولو الألباب، وتضمحِلُّ في جنب عقله عقول الفحول من الرجال، وهو الصادق حقًّا؛ فإذا قال: إني على بيِّنة من ربِّي؛ فحسبُك بهذا القول شهادةً له وتصديقاً. {وآتاني رحمةً من عنده}؛ أي: أوحى إليَّ وأرسلني ومنَّ عليَّ بالهداية، {فعُمِّيَتْ عليكم}؛ أي: خفيت عليكم وبها تثاقلتم، {أنُلْزِمُكموها}؛ أي: أنُكْرِهكم على ما تحقَّقناه، وشككتم أنتم فيه. وأنتم كارهونَ حتَّى حرصتُم على ردِّ ما جئتُ به، ليس ذلك ضارَّنا، وليس بقادح مِن يقيننا فيه، ولا قولكم وافتراؤكم علينا صادًّا لنا عمَّا كنَّا عليه، وإنَّما غايته أن يكون صادًّا لكم أنتم وموجباً لعدم انقيادكم للحقِّ الذي تزعمون أنَّه باطل؛ فإذا وصلت الحال إلى هذه الغاية؛ فلا نقدر على إكراهكم على ما أمر الله ولا إلزامكم ما نفرتُم عنه، ولهذا قال: {أنُلْزِمُكموها وأنتم لها كارهون}؟!
[28] ﴿ قَالَ ﴾ بنا بریں نوحu نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ ﴾ ’’اے میری قوم! اگر ہوں میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے‘‘ یعنی جزم و یقین پر۔ معنی یہ ہے کہ نوحu اللہ تعالیٰ کے کامل رسول اور ایسے مقتدیٰ تھے جن کی پیروی بڑے بڑے عقل مند کرتے تھے جن کی عقل کے سامنے بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل مضمحل ہو جاتی تھی۔ درحقیقت وہ سچے تھے، لہٰذا جب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں تو گواہی اور تصدیق کے لیے تمھیں یہی قول کافی ہے۔ ﴿ وَاٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ ﴾ ’’اور دی ہے اس نے مجھے رحمت اپنی طرف سے‘‘ یعنی اس نے میری طرف وحی کی، مجھے رسول بنا کر مبعوث کیا اور مجھے ہدایت سے نوازا ہے۔ ﴿ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ﴾ ’’پھر اسے تمھاری آنکھ سے مخفی رکھا‘‘ یعنی جن کی حقیقت تم پر پوشیدہ ہوگئی اس لیے تم اسے قبول کرنے کے لیے نہ اٹھے۔ ﴿ اَنُلْ٘زِمُكُمُوْهَا﴾ ’’کیا ہم تمھیں اس چیز کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں ‘‘ جو ہمارے نزدیک متحقق ہے اور تم اس میں شک کرتے ہو؟ ﴿ وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ﴾ ’’جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو‘‘ یہاں تک کہ تم اس چیز کو ٹھکرانے کے حریص ہو جو میں لایا ہوں ۔ یہ چیز ہمیں کوئی نقصان دے سکتی ہے نہ ہمارے یقین میں قادح ہے اور نہ تمھارا بہتان اور ہم پر تمھاری افترا پردازی ہمیں ہمارے راستہ سے ہٹا سکتی ہے۔ اس کی غایت و انتہا تو صرف یہ ہے کہ وہ تمھیں اس راستے سے روک دے گی اور حق کے لیے تمھاری عدم اطاعت کی موجب ہوگی جسے تم باطل سمجھتے ہو۔ جب حالت اس انتہا کو پہنچ جائے تو ہم تمھیں اس چیز پر مجبور کرنے کی قدرت نہیں رکھتے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور نہ ہم وہ چیز تم پر لازم کر سکتے ہیں جس سے تم نفرت کرتے ہو۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اَنُلْ٘زِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ﴾ ’’کیا ہم اس کے لیے تمھیں مجبور کرسکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔‘‘
#
{29} {ويا قوم لا أسألُكم عليه}؛ أي: على دعوتي إياكم {مالاً}: فتستثقلون المغرم، {إنْ أجرِيَ إلاَّ على الله}: وكأنهم طلبوا منه طردَ المؤمنين الضعفاء، فقال لهم: {وما أنا بطاردِ الذين آمنوا}؛ أي: ما ينبغي لي ولا يَليق بي ذلك، بل أتلقَّاهم بالرُّحب والإكرام والإعزاز والإعظام، {إنَّهم ملاقو ربِّهم}: فمثيبهم على إيمانهم وتقواهم بجنات النعيم. {ولكنِّي أراكم قوماً تجهلون}: حيث تأمرونني بطرد أولياء الله وإبعادهم عنِّي، وحيث رددتُم الحقَّ لأنهم أتباعه، وحيث استدللتم على بطلان الحقِّ بقولكم: إني بشرٌ مثلكم، وإنَّه ليس لنا عليكم من فضل.
[29] ﴿ وَیٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًا ﴾ ’’اے میری قوم میں اس کے بدلے تم سے مال و زر کا خواہاں نہیں ہوں ۔‘‘ یعنی میں تمھیں دعوت دینے پر تم سے کوئی مال اجر کے طور پر نہیں مانگتا جسے تم بوجھ سمجھو۔ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے‘‘ اور گویا کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ کمزور بے مایہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے اٹھا دیں ۔ اس لیے آپ نے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انھیں نکالنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ یعنی میرے لیے مناسب ہے نہ مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں ان کو دھتکار دوں بلکہ میں نہایت عزت و اکرام اور تعظیم کے ساتھ ان کا استقبال کروں گا۔ ﴿ اِنَّهُمْ مُّلٰ٘قُوْا رَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں ‘‘ پس وہ انھیں ان کے ایمان اور ان کے تقویٰ کے بدلے نعمتوں بھری جنت عطا کرے گا۔ ﴿ وَلٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ﴾ ’’لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم نادان لوگ ہو‘‘ کیونکہ تم مجھے اولیاء اللہ کو دھتکارنے اور اپنے سے دور کرنے کا حکم دیتے ہو اور تم نے حق کو اس لیے رد کر دیا ہے کیونکہ وہ حق کی اتباع کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ تم حق کا ابطال کرنے کے لیے اس قسم کا استدلال کرتے ہو کہ میں تم جیسا ایک بشر ہوں اور یہ کہ ہمیں تم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
#
{30} {ويا قومِ مَن ينصُرني من الله إن طَرَدْتُهم}؛ أي: مَن يمنعني من عذابِهِ؛ فإنَّ طردهم موجب للعذاب والنَّكال الذي لا يمنعه من دون الله مانع. {أفلا تذكَّرونَ}: ما هو الأنفع لكم والأصلح وتدبَّرون الأمور؟!
[30] ﴿ وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ﴾ ’’اور اے میری قوم! اگر میں ان کو دھتکار دوں تو کون مجھے اللہ سے چھڑائے گا؟‘‘ یعنی مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔ کیونکہ ان کو دھتکارنا اللہ کے عذاب کا موجب ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ ﴿ اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے۔‘‘ یعنی کیا تم اس چیز سے نصیحت نہیں پکڑتے جو تمھارے لیے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ درست ہے اور کیا تم ان معاملات پر تدبر نہیں کرتے؟
#
{31} {ولا أقول لكم عندي خزائنُ الله ولا أعلم الغيبَ ولا أقولُ إني مَلَكٌ}؛ أي: غايتي أني رسولُ الله إليكم؛ أبشِّركم وأنذركم، وما عدا ذلك؛ فليس بيدي من الأمر شيء، فليست خزائن الله عندي أدبِّرها أنا وأعطي مَنْ أشاء وأحْرُمُ مَن أشاء. {ولا أعلمُ الغيبَ}: فأخبركم بسرائِرِكم وبواطنكم، {ولا أقولُ إني مَلَك}: والمعنى أني لا أدَّعي رتبةً فوق رتبتي، ولا منزلةً سوى المنزلة التي أنزلني الله بها، ولا أحكم على الناس بظنِّي، فلا {أقول للذين تَزْدَري أعيُنكم}؛ أي: الضعفاء المؤمنين الذين يحتقرهم الملأ الذين كفروا؛ {لن يؤتيهم الله خيراً اللهُ أعلم بما في أنفسِهم}: فإن كانوا صادقينَ في إيمانهم؛ فلهم الخير الكثير، وإن كانوا غير ذلك؛ فحسابهم على الله. {إني إذاً}؛ أي: إن قلتُ لكم شيئاً ممَّا تقدَّم، {لمن الظَّالمين}: وهذا تأييس منه عليه الصلاة والسلام لقومِهِ أن ينبذَ فقراء المؤمنين أو يمقتهم، وتقنيع لقومه بالطُّرق المقنعة للمنصف.
[31] ﴿ وَلَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ ﴾ ’’اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ‘‘ یعنی میری انتہا یہ ہے کہ میں تمھاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں ، میں تمھیں خوشخبری سناتا ہوں اور تمھیں برے انجام سے ڈراتا ہوں ، اس کے علاوہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیں ہیں کہ میں ان میں تصرف کروں جس کو چاہوں عطا کروں اور جس کو چاہوں محروم کر دوں ۔ ﴿ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ﴾ ’’اور میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں ‘‘ کہ میں تمھارے سینے کے بھیدوں اور تمھارے ’’رازِدروں ‘‘ کے بارے میں تمھیں آگاہ کر سکوں ۔ ﴿ وَلَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ﴾ ’’اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ‘‘ یعنی میں اپنے مرتبہ سے بڑھ کر کسی مرتبہ کا دعویٰ نہیں کرتا۔ نہ میں اس کے سوا کسی منزلت کا دعویٰ کرتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے اور نہ میں لوگوں کے بارے میں اپنے ظن اور گمان کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں ۔ ﴿ وَّلَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ ﴾ ’’اور نہ میں کہتا ہوں کہ جو لوگ تمھاری آنکھوں میں حقیر ہیں ‘‘ یعنی وہ کمزور اہل ایمان جن کو کافر سرداران قوم حقیر سمجھتے تھے۔ ﴿ لَ٘نْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’اللہ ان کو ہرگز بھلائی نہ دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے‘‘ اگر وہ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو ان کے لیے خیر کثیر ہے اور اگر وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں تو ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ ﴿ اِنِّیْۤ اِذًا﴾ ’’بے شک میں تب‘‘ یعنی اگر میں نے تم سے اس بارے میں کچھ کہا جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے ﴿ لَّ٘مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ظالموں میں سے ہوں گا‘‘ یہ نوحu کا اپنی قوم کو اس بات سے مایوس کردینا ہے کہ وہ کمزور اہل ایمان کو اپنے سے دور کریں یا ان کو ناراض کر لیں اور اپنی قوم کو ایسے طریقوں سے سمجھانے کی کوشش ہے جو ایک انصاف پسند شخص کو سمجھنے پر آمادہ کر سکتے ہیں ۔
#
{32} فلما رأوه لا ينكفُّ عما كان عليه من دعوتهم ولم يدرِكوا منه مطلوبَهم؛ {قالوا يا نوحُ قد جادَلْتنا فأكثرتَ جِدالنا فأتِنا بما تَعِدُنا} [من العذابِ] {إنْ كنتَ من الصادقين}: فما أجهلهم وأضلَّهم! حيثُ قالوا هذه المقالة لنبِّيهم الناصح؛ فهلاَّ قالوا إن كانوا صادقين: يا نوحُ! قد نصحتَنا وأشفقتَ علينا ودعوتَنا إلى أمرٍ لم يتبيَّن لنا فنريدُ منك أن تبيِّنه لنا لننقادَ لك، وإلاَّ فأنت مشكورٌ في نصحك؛ لكان هذا الجواب المنصف للذي قد دُعِيَ إلى أمرٍ خفي عليه، ولكنهم في قولهم كاذبون، وعلى نبيهم متجرِّئون، ولم يردُّوا ما قاله بأدنى شبهةٍ فضلاً عن أن يردُّوه بحجَّة، ولهذا عدلوا من جهلهم وظلمهم إلى الاستعجال بالعذاب وتعجيز الله.
[32] جب انھوں نے دیکھا کہ حضرت نوحu ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے سے باز نہیں آتے اور وہ نوحu سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے تو انھوں نے نوحu سے کہا: ﴿ قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اے نوح! تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور خوب جھگڑا کیا، اب لے آ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے‘‘ وہ کتنے جاہل اور کتنے گمراہ تھے کہ انھوں نے اپنے خیر خواہ نبی سے یہ بات کہی۔ اگر وہ سچے تھے تو انھوں نے یہ کیوں نہ کہا ’’اے نوح! (u) آپ نے ہماری خیر خواہی کی، ہم پر شفقت فرمائی اور ایسے معاملے کی طرف ہمیں دعوت دی ہے جو ہمارے سامنے نہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس معاملے کو ہمارے سامنے اچھی طرح واضح کر دیں تاکہ ہم اس کی پیروی کر سکیں ورنہ آپ تو اپنی خیر خواہی پر شکریہ کے مستحق ہیں ‘‘… تو یہ اس شخص کے لیے انصاف پر مبنی جواب ہوتا جس نے ایک ایسے امر کی طرف دعوت دی ہے جو اس پر مخفی رہ گیا ہے۔ مگر وہ تو اپنے قول میں سخت جھوٹے اور اپنے نبی کے خلاف جسارت کرنے والے تھے۔ ان کا حضرت نوحu کی دعوت کو کسی دلیل اور حجت کی بنا پر رد کرنا تو کجا، کوئی ادنیٰ سا شبہ بھی نہ تھا جس کی بنیاد پر انھوں نے اس دعوت کو رد کیا۔ بنا بریں وہ اپنی جہالت اور ظلم کی وجہ سے عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانے اور اللہ جل شانہ کو عاجز قرار دینے لگے۔
#
{33} ولهذا أجابهم نوحٌ عليه السلام بقوله: {إنَّما يأتيكم به الله إن شاءَ}؛ أي: إن اقتضتْ مشيئته وحكمتُه أن يُنْزِلَه بكم؛ فعل ذلك، {وما أنتم بمعجِزين}: لله، وأنا ليس بيدي من الأمر شيءٌ.
[33] اس لیے نوحu نے جواب میں فرمایا: ﴿ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ ﴾ ’’اس کو تو اللہ ہی چاہے گا تو نازل کرے گا۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت نے تم پر عذاب نازل کرنے کا تقاضا کیا تو وہ ضرور ایسا کرے گا۔ ﴿وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ﴾ ’’اور تم اس (اللہ تعالیٰ) کو عاجز اور بے بس نہیں کر سکتے‘‘ اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے ہاتھ میں اس امر کا کوئی اختیار نہیں ۔
#
{34} {ولا ينفعكم نُصحي إنْ أردتُ أنْ أنصَحَ لكم إن كان الله يريدُ أن يُغْوِيَكم}؛ أي: إن إرادة الله غالبةٌ؛ فإنَّه إذا أراد أن يغوِيَكم لردِّكمُ الحقَّ؛ فلو حرصتُ غاية مجهودي ونصحتُ لكم أتمَّ النُّصح ـ وهو قد فعل عليه السلام ـ؛ فليس ذلك بنافع لكم شيئاً. {هو ربُّكم}: يفعلُ بكم ما يشاء ويحكُم فيكم بما يُريدُ، {وإليه تُرْجَعون}: فيجازيكم بأعمالكم.
[34] ﴿ وَلَا یَنْفَعُكُمْ نُ٘صْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْ٘صَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ ﴾ ’’اور نہیں نفع دے گی تم کو میری نصیحت، اگر میں تم کو نصیحت کرنا چاہوں ، اگر اللہ کا ارادہ تمھیں گمراہ کرنے کا ہو‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارادہ غالب ہے کیونکہ اگر وہ تمھیں تمھارے حق کو ٹھکرا دینے کی پاداش میں گمراہ کر دے اور خواہ میں پوری کوشش کے ساتھ تمھاری خیر خواہی کروں … اور جناب نوحu نے ایسا کیا بھی… تب بھی میری یہ کوشش تمھیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ﴿ هُوَ رَبُّكُمْ﴾ ’’وہ تمھارا رب ہے‘‘ تمھارے ساتھ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ﴿ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے‘‘ پس وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{35} {أم يقولونَ افتراه}: هذا الضمير محتملٌ أن يعود إلى نوح كما كان السياق في قصتِهِ مع قومه، وأنَّ المعنى: إنَّ قومه يقولون: افترى على الله كذباً، وكَذَبَ بالوحي الذي يزعم أنَّه من الله، وأنَّ الله أمره أن يقول: {قلْ إنِ افتريتُه فعليَّ إجرامي وأنا بريء مما تُجْرِمون}؛ أي: كلٌّ عليه وزره، {ولا تَزِرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى}. ويُحتمل أن يكون عائداً إلى النبيِّ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وتكون هذه الآية معترضةً في أثناء قصة نوح وقومه؛ لأنَّها من الأمور التي لا يعلمها إلا الأنبياء، فلما شرع الله في قصِّها على رسوله، وكانت من جملة الآيات الدالَّة على صدقه ورسالته؛ ذكر تكذيب قومه له، مع البيان التامِّ، فقال: {أم يقولونَ افتراه}؛ أي: هذا القرآن اختلقه محمدٌ من تلقاء نفسه؛ أي: فهذا من أعجب الأقوال وأبطلها؛ فإنَّهم يعلمون أنَّه لم يقرأ ولم يكتبْ ولم يرحلْ عنهم لدراسة على أهل الكتب، فجاء بهذا الكتاب الذي تحدَّاهم أن يأتوا بسورةٍ من مثله؛ فإذا زعموا مع هذا أنَّه افتراه؛ عُلِمَ أنَّهم معاندون، ولم يبقَ فائدةٌ في حجاجهم، بل اللائق في هذه الحال الإعراضُ عنهم، ولهذا قال: {قلْ إنِ افتريتُهُ فعليَّ إجرامي}؛ أي: ذنبي وكذبي. {وأنا بريءٌ مما تجرِمون}؛ أي: فلم تستلِجُّون في تكذيبي؟
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ﴾ ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے‘‘ اس ضمیر میں اس امر کا احتمال ہے کہ وہ نوحu کی طرف لوٹتی ہو جیسا کہ پورا سیاق ان کی قوم کے ساتھ ان کے معاملے کے بارے میں ہے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ نوحu کی قوم کے لوگ کہتے تھے کہ نوحu نے اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے اور اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ یہ کہہ دے۔ ﴿ قُ٘لْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَ٘عَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّؔا تُجْرِمُوْنَ﴾ ’’کہہ دیجیے، اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں تمھارے گناہوں سے بری ہوں ‘‘ یعنی ہر شخص کا بوجھ خود اسی پر ہے ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ (الانعام: 6؍164) ’’کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر کا مرجع نبی اکرمe ہوں اس صورت میں یہ آیت کریمہ، حضرت نوحu اور ان کی قوم کے قصہ کے اثنا میں ، جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جنھیں انبیاء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کے سامنے حضرت نوحu کا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور یہ قصہ ان نشانیوں میں سے تھا جو آپe کی صداقت اور رسالت پر دلالت کرتی ہیں ۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی تکذیب کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ پوری طرح کھول کھول کر آیات بیان فرمائیں چنانچہ فرمایا: ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ﴾ ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑلیا ہے۔‘‘ یعنی قرآن کو محمد (e) نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ انتہائی عجیب اور باطل ترین قول ہے کیونکہ انھیں علم ہے کہ آپe لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں ، اہل کتاب کے علوم کی دراست کے لیے آپ نے کہیں سفر بھی نہیں کیا، بایں ہمہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب پیش کی اور جس کے بارے میں کفار کو مقابلے کی دعوت دی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں ۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ افترا اور بہتان ہے تو معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت حق سے عناد رکھتے ہیں ، لہٰذا ان کے ساتھ بحث کرنے اور دلیل دینے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا بلکہ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ ان سے کنارہ کشی کریں ۔ اس لیے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَ٘عَلَیَّ اِجْرَامِیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے اس کا گناہ۔‘‘ یعنی میرا گناہ اور میرا جھوٹ میرے ذمہ ہے ﴿ وَاَنَا بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّؔا تُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔‘‘ پھر تم مجھے جھٹلانے پر کیوں اصرار کر رہے ہو۔
#
{36} وقوله: {وأوحي إلى نوح أنَّه لن يؤمِنَ مِن قومِكَ إلاَّ مَنْ قد آمنَ}؛ أي: قد قسوا {فلا تبتئِسْ بما كانوا يفعلون}؛ أي: فلا تحزنْ ولا تبالِ بهم وبأفعالهم؛ فإنَّ الله قد مَقَتَهم وأحقَّ عليهم عذابه الذي لا يردُّ.
[36] ﴿ وَاُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَ٘نْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ﴾ ’’نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لاچکا‘‘ یعنی یہ لوگ پتھر دل ہوگئے ہیں ۔ ﴿ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’پس آپ غم نہ کریں ان کاموں پر جو وہ کر رہے ہیں ‘‘ یعنی آپ غم زدہ نہ ہوں اور نہ ان کے کرتوتوں کی کوئی پروا کریں ۔ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہے اور اس نے ان کو ایسے عذاب کا مستحق ٹھہرا دیا ہے جس کو ٹالا نہیں جا سکتا۔
#
{37} {واصنع الفُلْكَ بأعيُننا ووَحْينا}؛ أي: بحفظنا ومرأىً منَّا وعلى مرضاتنا، {ولا تخاطِبْني في الذين ظلموا}؛ أي: لا تراجِعْني في إهلاكهم، {إنَّهم مُغْرَقون}؛ أي: قد حقَّ عليهم القولُ، ونَفَذَ فيهم القدرُ.
[37] ﴿ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ﴾ ’’اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناؤ۔‘‘ یعنی ہماری حفاظت میں ہمارے سامنے اور ہماری مرضی کے مطابق کشتی بنائیں۔ ﴿وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ ’’اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے گفتگو نہ کرنا‘‘ یعنی ان کی ہلاکت کے بارے میں ہمارے ساتھ گفتگو نہ کریں ۔ ﴿اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ﴾ ’’بے شک یہ غرق ہوں گے‘‘ یعنی وہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اور ان پر تقدیر کا فیصلہ نافذ ہو چکا ہے۔
#
{38} فامتثلَ أمر ربِّه، وجَعَلَ يصنع الفلك، {وكلما مرَّ عليه ملأ من قومِهِ}: ورأوا ما يصنع، {سَخِروا منه قال إن تَسْخَروا منَّا}: الآن، {فإنَّا نسخَرُ منكم كما تسخَرونَ}.
[38] نوحu نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور کشتی بنانا شروع کر دی ﴿وَؔكُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ ﴾ ’’جب کبھی سرداران قوم ان کے پاس سے گزرتے‘‘ اور ان کو کشتی بناتے ہوئے دیکھتے ﴿ سَخِرُوْا مِنْهُ١ؕ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا ﴾’تو مذاق کرتے اس سے، نوح نے کہا، اگر تم مذاق کرتے ہو ہم سے‘‘ یعنی اب اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو ﴿فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ﴾ ’’تو ہم بھی مذاق کریں گے تم سے، جیسے تم مذاق کرتے ہو۔‘‘
#
{39} {فسوفَ تعلمونَ مَن يأتيه عذابٌ يُخْزيه ويَحِلُّ عليه عذابٌ مقيمٌ}: نحنُ أم أنتم؟ وقد علموا ذلك حين حلَّ بهم العقاب.
[39] ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ﴾ ’’اب جلد جان لو گے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور اترتا ہے اس پر دائمی عذاب‘‘ یعنی ہم پر یہ عذاب نازل ہوگا یا تم پر؟ اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو انھیں معلوم ہوگیا۔
#
{40} {حتَّى إذا جاء أمرُنا}؛ أي: قدرُنا بوقتِ نزول العذاب بهم، {وفار التنُّور}؛ أي: أنزل الله السماء بالماء المنهمر، وفجَّر الأرض كلَّها عيوناً، حتى التنانير التي هي محلُّ النار في العادة وأبعد ما يكون عن الماء تفجَّرت، فالتقى الماءُ على أمرٍ قد قُدِرَ، {قُلْنا} لنوح: {احملْ فيها مِن كلٍّ زوجين اثنين}؛ أي: من كلِّ صنف من أصناف المخلوقات ذكر وأنثى؛ لتبقى مادَّة سائر الأجناس، وأما بقيَّة الأصناف الزائدة عن الزوجين؛ فلأنَّ السفينة لا تُطيق حملها، {وأهْلَكَ إلاَّ مَن سَبَقَ عليه القولُ}: ممَّن كان كافراً؛ كابنه الذي غرق. {ومَنْ آمن و} ـ الحال أنه ـ {ما آمَنَ معه إلا قليلٌ}.
[40] ﴿ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا۔‘‘ یعنی جب وہ وقت آ گیا جو ہم نے ان پر نزول عذاب کے لیے مقرر کیا تھا۔ ﴿ وَفَارَ التَّنُّوْرُ﴾ ’’اور جوش مارا تنور نے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش سے آسمان کے دھانے کھول دیے اور تمام روئے زمین پر جا بجا پانی کے چشمے جاری کر دیے حتیٰ کہ تنوروں سے بھی پانی ابلنے لگا جو کہ عادۃً آگ کا مقام ہے اور وہاں پانی کا ہونا بعید تر بات ہے۔ تنوروں میں بھی چشمے پھوٹ پڑے اور پانی اس کام کے لیے جمع ہوگیا جو مقدر ہو چکا تھا۔ ﴿ قُلْنَا ﴾ ’’اور ہم نے کہا۔‘‘ یعنی ہم نے نوحu سے کہا ﴿ احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُ٘لٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ﴾ ’’ہر قسم میں سے جوڑا جوڑا اس میں سوار کرلیں ۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں سے ہر صنف کا ایک جوڑا، یعنی نر اور مادہ کشتی پر سوار کر لیں تاکہ تمام مخلوقات کی اصل باقی رہے۔ رہا جوڑے سے زائد جانور سوار کرنا تو کشتی ان تمام جانوروں کو لاد لینے کی گنجائش نہیں رکھتی۔ ﴿ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ ﴾ ’’اور اپنے گھر والوں کو مگر جس پر سبقت کر گیا ہے حکم‘‘ اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو کافر ہیں ، مثلاً:نوحu کا بیٹا جو غرق ہوا، اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کر لیں ۔ ﴿ وَمَنْ اٰمَنَ﴾ ’’اور سب ایمان والوں کو‘‘ ﴿ وَ ﴾ اور حال یہ ہے کہ ﴿ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ ﴾ ’’ان کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔‘‘
#
{41} {وقال} نوحٌ لمن أمره الله أن يحمِلَهم: {ارْكَبوا فيها بسم الله مَجْريها ومُرْساها}؛ أي: تجري على اسم الله وترسي [على اسم الله وتجري] بتسخيره وأمره. {إنَّ ربِّي لغفورٌ رحيمٌ}: حيث غَفَرَ لنا، ورَحِمنا، ونجَّانا من القوم الظالمين.
[41] ﴿ وَقَالَ ﴾ اور نوحu نے ان لوگوں سے کہا جن کو سوار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ ﴿ ارْؔكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَمُرْسٰؔىهَا﴾ ’’اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا‘‘ یعنی وہ اللہ کے نام پر بہتی چلی جا رہی تھی اور اسی کے حکم سے لنگر انداز ہوتی تھی ﴿ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے ہمیں بخش دیا، ہمیں اپنی رحمت سے نوازا اور ظالموں کی قوم سے ہمیں نجات دی۔
#
{42} ثم وصف جريانَها كأنَّا نشاهدها، فقال: {وهي تجري بهم}؛ أي: بنوح ومَنْ رَكِبَ معه {في موج كالجبال}: والله حافِظُها، وحافظُ أهلها، {ونادى نوحٌ ابنَه}: لما ركب ليركبَ معه، {وكان} ابنُه {في مَعْزِل}: عنهم حين ركبوا؛ أي: مبتعداً، وأراد منه أن يقرب ليركبَ، فقال له: {يا بنيَّ اركب معنا ولا تَكُن مع الكافرين}: فيصيُبك ما يصيبهم.
[42] پھر اللہ تعالیٰ نے کشتی کے تیرنے کا وصف اس طرح بیان فرمایا گویا ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ ﴿وَهِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ ﴾ ’’اور وہ ان کو لے کر چلنے لگی۔‘‘ یعنی کشتی نوحu اور ان کے ساتھیوں کو لے کر تیر رہی تھی۔ ﴿فِیْ مَوْجٍ كَالْؔجِبَالِ﴾ ’’پہاڑوں جیسی لہروں میں ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کشتی اور کشتی میں سوار لوگوں کی حفاظت کر رہا تھا۔ ﴿وَنَادٰى نُوْحُ نِ ابْنَهٗ﴾ ’’اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا‘‘ یعنی جب نوحuکشتی میں سوار ہوگئے تو اسے بلایا تاکہ وہ بھی آپ کے ساتھ سوار ہو جائے۔ ﴿وَؔكَانَ ﴾ ’’اور وہ تھا۔‘‘ یعنی نوحu کا بیٹا ﴿ فِیْ مَعْزِلٍ ﴾ ’’الگ‘‘ یعنی کشتی والوں سے علیحدہ دور فاصلے پر تھا۔ نوحu چاہتے تھے وہ قریب آکر کشتی میں سوار ہو جائے۔ اس لیے نوحu نے اپنے بیٹے سے کہا: ﴿ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّؔعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو‘‘ ورنہ ان پر نازل ہونے والا عذاب تجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
#
{43} فقال ابنُه مكذِّباً لأبيهِ أنَّه لا ينجو إلاَّ مَنْ رَكِبَ [معه] السفينة: {سآوي إلى جبل يَعْصِمُني من الماء}؛ أي: سأرتقي جبلاً أمتنع به من الماء. فقال نوحٌ: {لا عاصِمَ اليوم من أمرِ الله إلاّ مَن رَحِمَ}: فلا يعصمُ أحداً جبلٌ ولا غيرُه، ولو تسبَّب بغاية ما يمكِنُه من الأسباب؛ لَمَا نجا إن لم يُنْجِهِ الله، {وحال بينَهما الموجُ فكانَ} الابنُ {من المغرَقين}.
[43] ﴿ قَالَ ﴾ ’’اس نے کہا۔‘‘ یعنی نوحu کے بیٹے نے اپنے باپ کے قول ’’عذاب سے صرف وہی نجات پائے گا جو کشتی میں سوار ہوگا…‘‘ کی تکذیب کرتے ہوئے کہا: ﴿ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ﴾ ’’میں پہاڑ سے جالگوں گا کہ وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔‘‘ یعنی میں کسی پہاڑ پر چڑھ کر پانی سے محفوظ ہو جاؤں گا۔ ﴿ قَالَ ﴾ نوحu نے کہا: ﴿ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ﴾ ’’آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہی رحم کرے‘‘ کوئی پہاڑ وغیرہ کسی کو بچا نہیں سکے گا۔ اگر کوئی اس پانی سے بچنے کے لیے ممکن حد تک بڑے سے بڑے سبب اختیار کر لے تب بھی اگر اللہ تعالیٰ اسے نہ بچائے تو وہ بچ نہیں سکتا۔ ﴿ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ ﴾ ’’اور حائل ہو گئی دونوں کے درمیان موج، پس ہو گیا وہ‘‘ یعنی بیٹا ﴿ مِنَ الْ٘مُغْرَقِیْنَ ﴾ ’’ڈوبنے والوں میں ۔‘‘
#
{44} فلمَّا أغرَقَهم الله ونجَّى نوحاً ومن معه؛ و {قيل يا أرضُ ابلَعي ماءَك}: الذي خرج منك، والذي نزل إليك، ابلعي الماء الذي على وجهك، {ويا سماءُ أقلِعي}: فامتَثَلَتا لأمر الله، فابتلعتِ الأرضُ ماءها، وأقلعتِ السماء فنضب الماء من الأرض، {وقُضِيَ الأمرُ}: بهلاك المكذِّبين ونجاة المؤمنين، {واسْتَوَت} السفينةُ {على الجوديِّ}؛ أي: أرست على ذلك الجبل المعروف في أرض الموصل، {وقيلَ بُعداً للقوم الظالمين}؛ أي: أُتْبِعوا بهلاكهم لعنةً وبُعداً وسُحْقاً لا يزال معهم.
[44] ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سیلاب میں غرق کر دیا اور حضرت نوحu اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا ﴿ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَ٘عِیْ مَآءَكِ ﴾ ’’حکم دیا گیا، اے زمین! نگل لے اپنا پانی‘‘ یعنی وہ تمام پانی نگل لے جو تجھ سے خارج ہوا تھا اور تیری سطح پر آسمان سے نازل ہوا ﴿ وَیٰسَمَآءُ اَقْ٘لِـعِیْ ﴾ ’’اور اے آسمان! تھم جا‘‘ پس زمین اور آسمان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی۔ زمین نے اپنا پانی نگل لیا اور آسمان تھم گیا۔ ﴿ وَغِیْضَ الْمَآءُ ﴾ ’’اور سکھا دیا گیا پانی‘‘ یعنی پانی زمین میں جذب ہوگیا ﴿ وَقُ٘ضِیَ الْاَمْرُ ﴾ ’’اور ہو چکا کام‘‘ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور اہل ایمان کی نجات کا فیصلہ چکا دیا گیا۔ ﴿ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ﴾ ’’اور وہ ٹھہر گئی کوہ جودی پر۔‘‘ یعنی کشتی ’’جودی‘‘ پر لنگر انداز ہوگئی جو سرزمین موصل میں ایک معروف پہاڑ ہے۔ ﴿ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْ٘قَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور کہا گیا، دوری ہو ظالم لوگوں کے لیے‘‘ ان کی ہلاکت پر لعنت، اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار ان کے پیچھے لگا دی گئی جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔
#
{45} {ونادى نوحٌ ربَّه فقالَ ربِّ إنَّ ابني من أهلي وإنَّ وعدَكَ الحقُّ}؛ [أي]: وقد قلتَ لي: فاحملْ فيها من كلٍّ زوجين اثنين وأهلَكَ، ولن تُخْلِفَ ما وَعَدْتَني به. لعلَّه عليه الصلاة والسلام ـ حملتْه الشفقةُ وأنَّ الله وعده بنجاة أهلِهِ ـ ظنَّ أنَّ الوعد لعمومهم؛ مَن آمن ومَن لم يؤمن؛ فلذلك دعا ربَّه بذلك الدُّعاء، ومع هذا؛ ففوَّض الأمر لحكمة الله البالغة.
[45] ﴿ وَنَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْ٘لِیْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ ﴾ ’’اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا، بے شک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے‘‘ اور تو نے مجھ سے فرمایا تھا: ﴿ احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُ٘لٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَهْلَكَ ﴾ ’’ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا کشتی میں سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی‘‘ اور تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا ہے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ شاید جب نوحu کی شفقت پدری نے جوش مارا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا تو نوحu نے سمجھا کہ یہ وعدہ تمام لوگوں کو شامل ہے خواہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں ، اس لیے انھوں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے دعا مانگتے ہوئے تمام معاملہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے سپرد کر دیا اور عرض کیا: ﴿ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰؔكِمِیْنَ ﴾ ’’اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔‘‘
#
{46} فقال اللهُ له: {إنَّه ليس من أهلك}: الذين وعدتُك بإنجائهم، {إنَّه عملٌ غيرُ صالح}؛ أي: هذا الدُّعاء الذي دعيتَ به لنجاة كافر لا يؤمنُ بالله ولا رسوله، {فلا تَسْألْنِ ما ليس لك به علمٌ}؛ أي: ما لا تعلم عاقبته ومآله، وهل يكون خيراً أو غير خير. {إني أعظُك أن تكونَ من الجاهلين}؛ أي: إني أعظُك وعظاً تكون به من الكاملين، وتنجو به من صفات الجاهلين.
[46] ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے نوحu سے فرمایا: ﴿اِنَّهٗ لَ٘یْسَ مِنْ اَهْلِكَ﴾ ’’وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے‘‘ یعنی ان اہل خانہ میں سے، جن کی نجات کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ ﴿ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ﴾ ’’بے شک اس کے عمل صحیح نہیں ہیں ‘‘ یعنی یہ دعا تو نے ایک ایسے کافر کی نجات کے لیے کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتا۔ ﴿ فَلَا تَ٘سْـئَلْ٘نِ مَا لَ٘یْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ﴾ ’’پس جس کی بابت تجھے علم نہ ہو، اس کا مجھ سے سوال نہ کر‘‘ یعنی جس کی عاقبت اور انجام کا تجھ کو علم نہیں کہ آیا اس کا انجام اچھا ہے یا برا۔ ﴿ اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ﴾ ’’میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بن۔‘‘ یعنی میں تجھ کو ایسی نصیحت کرتا ہوں جس پر عمل کر کے تو کاملین میں شمار ہوگا اور جاہلین کی صفات سے نجات حاصل کرے گا۔
#
{47} فحينئذٍ ندمَ نوحٌ عليه السلام ندامةً شديدةً على ما صَدَرَ منه، و {قال ربِّ إنِّي أعوذُ بك أن أسألَكَ ما ليس لي به علمٌ وإلاَّ تَغْفِرْ لي وترحَمْني أكن من الخاسرينَ}: فبالمغفرة والرحمة ينجو العبدُ من أن يكون من الخاسرين. ودلَّ هذا على أنَّ نوحاً عليه السلام لم يكنْ عندَه علمٌ بأنَّ سؤاله لربِّه في نجاة ابنه محرَّمٌ داخلٌ في قوله: {ولا تخاطِبْني في الذين ظَلَموا إنَّهم مغرقونَ}، بل تعارض عندَه الأمران، وظنَّ دخوله في قوله: {وأهلَكَ}، وبعد هذا تبيَّن له أنَّه داخلٌ في المنهيِّ عن الدعاء لهم والمراجعة فيهم.
[47] اس وقت نوحu اپنی دعا پر سخت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: ﴿ قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـَٔؔلَكَ مَا لَ٘یْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْۤ اَكُ٘نْ مِّنَ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ ’’اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا‘‘ پس مغفرت اور رحمت بندے کو خسارے والے لوگوں میں شامل ہونے سے بچاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نوحu کو معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے (کافر) بیٹے کی نجات کے لیے دعا کرنا حرام ہے اور ان کا بیٹا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔ ﴿ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ﴾ ’’ظالموں کے بارے میں مجھ سے گفتگو نہ کرنا، وہ سب غرق ہوں گے۔‘‘ بلکہ نوحu کے نزدیک دونوں امور متعارض ہوگئے اور وہ سمجھے کہ ان کا بیٹا (وَاَہْلَکَ)کے حکم میں داخل ہے اور بعد میں ان پر واضح ہوا کہ ان کا بیٹا ان لوگوں میں شامل ہے جن کے لیے بخشش کی دعا اور گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے۔
#
{48} {قيل يا نوحُ اهبطْ بسلام منَّا وبركاتٍ عليك وعلى أمم ممَّن معكَ}: من الآدميين وغيرهم من الأزواج التي حملها معه، فبارك الله في الجميع، حتى ملؤوا أقطار الأرض ونواحيها {وأممٌ سنمتِّعهم}: في الدُّنيا، {ثم يمسُّهم منَّا عذابٌ أليمٌ}؛ أي: هذا الإنجاء ليس بمانع لنا من أنَّ مَنْ كَفَرَ بعد ذلك؛ أحلَلْنا به العقاب، وإنْ مُتِّعوا قليلاً؛ فسيؤخذون بعد ذلك.
[48] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰ٘مٍ مِّؔنَّا وَبَرَؔكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ﴾ ’’حکم ہوا اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر اور برکتوں کے ساتھ، تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ‘‘ یعنی انسانوں کے علاوہ حیوانوں کے وہ جوڑے جو نوحu نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار کیے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سب میں برکت ڈال دی حتیٰ کہ انھوں نے روئے زمین کو اس کے کناروں تک بھر دیا۔ ﴿وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ﴾ ’’اور دوسرے گروہ ہیں جن کو ہم فائدہ دیں گے‘‘ یعنی دنیا میں ہم انھیں متمتع ہونے دیں گے۔ ﴿ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّؔنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’پھر پہنچے گا ان کو ہماری طرف سے دردناک عذاب‘‘ یعنی یہ نجات دینا ہمارے لیے اس بات میں مانع نہیں ہوگا کہ اگر اس کے بعد کوئی شخص کفر کا ارتکاب کرے گا تو ہم اس پر عذاب نازل کریں بلکہ اگر ان کو تھوڑی مدت کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا تو اس کے بعد ان کا مواخذہ بھی کیا جائے گا۔
#
{49} قال الله لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم - بعدما قصَّ عليه هذه القصة المبسوطة التي لا يعلمها إلاَّ مَنْ مَنَّ عليه برسالته: {تلك من أنباء الغيبِ نوحيها إليكَ ما كنتَ تعلمُها أنت ولا قومُك مِن قَبْلِ هذا}: فيقولوا: إنَّه كان يعلمها؛ فاحمدِ الله واشكُرْه واصبرْ على ما أنت عليه من الدِّين القويم والصِّراط المستقيم والدَّعوة إلى الله. {إنَّ العاقبةَ للمتَّقين}: الذين يتَّقون الشرك وسائر المعاصي، فستكون لك العاقبةُ على قومِكَ كما كانت لنوح على قومِهِ.
[49] یہ مبسوط قصہ بیان کرنے کے بعد… جسے اس شخص کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا جسے اللہ نے اپنی رسالت سے نوازا ہے… اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرمایا: ﴿تِلْكَ مِنْ اَنْۢبـَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ١ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰؔذَا﴾ ’’یہ غیب کی خبریں ہیں ہم یہ آپ کی طرف وحی کرتے ہیں نہ آپ کو ان کی خبر تھی نہ آپ کی قوم کو، اس سے پہلے‘‘ کہ آپ کی قوم یہ کہتی کہ یہ تو محمد (e) پہلے ہی جانتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کیجیے اور اس کا شکر ادا کیجیے، اپنے موقف، یعنی دین قیم، صراط مستقیم اور دعوت دین پر نہایت ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہیے۔ ﴿اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’بے شک اچھا انجام پرہیز گاروں کا ہے‘‘ یعنی وہ لوگ جو شرک اور دیگر تمام گناہوں سے بچتے ہیں ۔ آپ کی قوم کے مقابلے میں آپ کا انجام اسی طرح اچھا ہے جس طرح نوحu کی قوم کے مقابلے میں نوحu کا انجام اچھا تھا۔
آیت: 50 - 60 #
{وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ (50) يَاقَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلَا تَعْقِلُونَ (51) وَيَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ (52) قَالُوا يَاهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ (53) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (54) مِنْ دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ (55) إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (56) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا إِنَّ رَبِّي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ (57) وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَنَجَّيْنَاهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (58) وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (59) وَأُتْبِعُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ أَلَا بُعْدًا لِعَادٍ قَوْمِ هُودٍ (60)}.
اور(بھیجا ہم نے) طرف عاد کی ان کے بھائی ہود کو اس نے کہا، اے میری قوم! تم عبادت کرو اللہ کی، نہیں ہے تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے، نہیں ہو تم مگر جھوٹ گھڑنے والے (50) اے میری قوم! نہیں سوال کرتا میں تم سے اس (تبلیغ) پر کسی اجر کا، نہیں ہے اجر میرا مگر اوپر اس ذات کے جس نے پیدا کیا مجھے، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟ (51)اور اے میری قوم! مغفرت طلب کرو تم اپنے رب سے ، پھر توبہ کرو اسی کی طرف ، وہ بھیجے گا بادل اوپر تمھارے خوب برسنے والےاور بڑھا دے گا تمھیں قوت میں ساتھ تمھاری (موجودہ) قوت کے اور مت روگردانی کرو مجرم بن کر(52) انھوں نے کہا، اے ہود! نہیں لایا تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل اور نہیں ہیں ہم چھوڑنے والے اپنے معبودوں کو تیرے کہنے سےاور نہیں ہیں ہم تجھ پر ایمان لانے والے (53) نہیں کہتے ہم مگر یہ کہ مبتلا کر دیا ہے تجھے کسی ہمارے معبود نے برائی (خلل دماغ) میں ، ہود نے کہا، بے شک میں گواہ بناتا ہوں اللہ کو اور تم بھی گواہ رہو کہ بے شک میں بری ہوں ان سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو (54) سوائے اللہ کے، پس تدبیر کر لو تم مجھے نقصان پہنچانے کی سب مل کر ، پھر نہ مہلت دو تم مجھے (55)بے شک میں نے بھروسہ کیا ہے اوپر اللہ کے، جو رب ہے میرا اور رب ہے تمھارا ، نہیں کوئی چلنے والا جاندار (زمین پر) مگر اللہ پکڑے ہوئے ہے پیشانی اس کی، بلاشبہ میرا رب اوپر سیدھے راستے کے ہے (56) پس اگر روگردانی کرو تم تو تحقیق پہنچا دی ہے میں نے تمھیں وہ چیز کہ بھیجا گیا ہوں میں ساتھ اس کے تمھاری طرف اور (تمھارا) جانشین بنا دے گا میرا رب ایک اور قوم کو سوائے تمھارےاور نہ نقصان پہنچا سکو گے تم اسے کچھ بھی، بلاشبہ میرا رب اوپر ہر چیز کے نگہبان ہے (57) اور جب آگیا حکم (عذاب) ہمارا تو نجات دی ہم نے ہود کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے ساتھ اس کے، اپنے فضل سےاور نجات دی ہم نے انھیں عذاب شدید سے (58) اور یہ عاد ہیں ، انھوں نے انکار کیا تھا آیتوں کا اپنے رب کی اور نافرمانی کی اللہ کے رسولوں کی اور پیروی کی انھوں نے حکم کی ہر سرکش عناد رکھنے والے کے (59) اور پیچھے لگائے گئے وہ اس دنیا میں لعنت اور دن قیامت کے بھی، آگاہ رہو! بلاشبہ عاد (قوم) نے انکار کیا اپنے رب کا، سن لو! دوری ہے واسطے عاد، قوم ہود کے (60)
#
{50} أي: {و} أرسلنا {إلى عادٍ}: وهم القبيلة المعروفة في الأحقاف من أرض اليمن، {أخاهم}: في النسب، {هوداً}: ليتمكَّنوا من الأخذ عنه والعلم بصدقه، فقال لهم: {اعبُدوا الله ما لكم من إلهٍ غيرُه إنْ أنتُم إلاَّ مفتَرون}؛ أي: أمرهم بعبادة الله وحده، ونهاهم عمَّا هم عليه من عبادة غير الله، وأخبرهم أنَّهم قد افتَرَوا على الله الكذب في عبادتهم لغيره وتجويزهم لذلك، ووَضَّحَ لهم وجوب عبادة الله وفساد عبادة ما سواه.
[50] ﴿وَاِلٰى عَادٍ ﴾ ’’اور عاد کی طرف‘‘ یعنی ہم نے عاد کی طرف مبعوث کیا ’’عاد‘‘ ایک معروف قبیلہ تھا جو سرزمین یمن میں وادی احقاف میں آباد تھا۔ ﴿اَخَاهُمْ ﴾ ’’ان کے بھائی۔‘‘ نسب میں ان کے بھائی ﴿هُوْدًا﴾ ’’ہود کو‘‘ تاکہ وہ ان سے علم حاصل کر سکیں ۔ ﴿قَالَ ﴾ ہودu نے ان سے کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰ٘هٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، تمھارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تم بہتان باندھتے ہو‘‘ یعنی ہودu نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے سے منع کیا اور انھیں آگاہ کیا کہ انھوں نے غیر اللہ کی عبادت کو اختیار کر کے اور اس کو جائز قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب اور ماسوا کی عبادت کے فساد کو واضح فرمایا۔
#
{51} ثم ذكر عدم المانع لهم من الانقياد، فقال: {يا قومِ لا أسألُكم عليه أجراً}؛ أي: غرامة من أموالكم على ما دعوتكم إليه فتقولوا: هذا يريدُ أن يأخذَ أموالنا، وإنما أدعوكم وأعلِّمكم مجاناً. {إن أجْرِيَ إلاَّ على الذي فطرني أفلا تعقلون}: ما أدعوكم إليه وأنَّه موجبٌ لقبوله، منتفٍ المانع عن ردِّه.
[51] پھر اطاعت کے راستے پر گامزن ہونے سے کسی چیز کے مانع نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔؔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا﴾ ’’اے میری قوم! میں اس کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔‘‘ یعنی تمھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں تمھارے اموال میں سے کوئی تاوان وصول نہیں کرتا کہ تمھیں کہنا پڑے ’’یہ ہمارے مال ہتھیانا چاہتا ہے‘‘ میں تو تمھیں بغیر کسی معاوضہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور تمھیں تعلیم دیتا ہوں ۔ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى الَّذِیْ فَطَ٘رَنِیْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’میرا اجر تو اس ذات کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، کیا پس تم نہیں سمجھتے‘‘ یعنی جس چیز کی طرف میں تمھیں دعوت دیتا ہوں کیا تم اسے سمجھتے نہیں کہ یہ قبولیت کی موجب ہے اس کو قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
#
{52} {ويا قوم استغفروا ربكم}: عما مضى منكم، {ثم توبوا إليه}: فيما تستقبلونه بالتوبة النَّصوح والإنابة إلى الله تعالى؛ فإنَّكم إذا فعلتم ذلك؛ {يُرْسِل السماءَ عليكُم مِدْراراً}: بكثرة الأمطار التي تَخْصُبُ بها الأرض ويكثر خيرها، {ويَزدْكم قوةً إلى قوَّتكم}: فإنَّهم كانوا من أقوى الناس، ولهذا قالوا: {من أشدُّ مِنَّا قوَّةً}، فوعدهم أنَّهم إن آمنوا زادهم قوَّةً إلى قوَّتهم، {ولا تتولَّوا}: عنه؛ أي: عن ربكم {مجرمين}؛ أي: مستكبرين عن عبادته، متجرِّئين على محارمه.
[52] ﴿ وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ﴾ ’’اور اے میری قوم! اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔‘‘ یعنی جو گناہ تم سے سرزد ہو چکے ہیں ان پر اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔ ﴿ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ ﴾ ’’پھر اس کے آگے توبہ کرو۔‘‘ یعنی آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ جب تم توبہ کرو گے ﴿ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّؔدْرَارًا﴾ ’’وہ تم پر موسلادھار مینہ برسائے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بکثرت بارش سے نوازے گا جس سے زمین سرسبز و شاداب ہوگی اور رزق میں اضافہ ہوگا۔ ﴿ وَّیَزِدْؔكُمْ قُ٘وَّةً اِلٰى قُ٘وَّتِكُمْ ﴾ ’’اور زیادہ کرے گا تم کو قوت پر قوت میں ‘‘ کیونکہ وہ سب سے طاقت ور لوگ تھے۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا: ﴿ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ٘ةً ﴾ (حم السجدہ: 41؍15) ’’ہم سے زیادہ کون طاقتور ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ ایمان لے آئیں تو وہ ان کی قوت میں اور اضافہ کر دے گا۔ ﴿ وَلَا تَتَوَلَّوْا﴾ ’’اور روگردانی نہ کرو۔‘‘ یعنی اپنے رب سے منہ نہ موڑو ﴿ مُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’گناہ گار ہو کر‘‘ یعنی تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ نہ موڑو اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت نہ کرو۔
#
{53} فقالوا رادِّين لقوله: {يا هودُ ما جئتَنا ببيِّنةٍ}: إن كان قصدُهم بالبينة البينة التي يقترحونها؛ فهذه غير لازمة للحقِّ، بل اللازم أن يأتي النبيُّ بآية تدلُّ على صحة ما جاء به، وإن كان قصدُهم أنه لم يأتهم ببيِّنة تشهدُ لما قاله بالصحة؛ فقد كذبوا في ذلك؛ فإنَّه ما جاء نبيٌّ لقومه إلاَّ وبعث الله على يديه من الآيات ما يؤمن على مثله البشر، ولو لم يكن له آية إلاَّ دعوتُه إياهم لإخلاص الدين لله وحده لا شريك له، والأمر بكلِّ عمل صالح وخُلُق جميل، والنهي عن كلِّ خُلُق ذميم من الشرك بالله والفواحش والظُّلم وأنواع المنكرات، مع ما هو مشتملٌ عليه هودٌ عليه السلام من الصفات التي لا تكون إلاَّ لخيار الخلق وأصدقهم، لكفى بها آيات وأدلة على صدقه، بل أهل العقول وأولو الألباب يرون أنَّ هذه الآية أكبر من مجرَّد الخوارق التي يراها بعض الناس هي المعجزات فقط. ومن آياته وبيِّناته الدالة على صدقه أنَّه شخصٌ واحدٌ، ليس له أنصار ولا أعوان، وهو يصرخُ في قومه ويناديهم ويعجِزُهم ويقول لهم: إنِّي توكلتُ على الله ربِّي وربكم، {إنِّي أُشْهِدُ اللهَ واشْهَدوا أنِّي بريءٌ مما تشرِكونَ. من دونِهِ فكيدوني جميعاً ثم لا تُنظِرونِ}: وهم الأعداءُ الذين لهم السَّطوة والغَلَبة، ويريدون إطفاء ما معه من النور بأيِّ طريق كان، وهو غير مكترث منهم ولا مبال بهم، وهم عاجزون لا يقدرون أن ينالوه بشيءٍ من السُّوء، إنِّ في ذلك لآيات لقوم يعقلون. وقولهم: {وما نحنُ بتارِكي آلهتنا عن قولِكَ}؛ أي: لا نترك عبادةَ آلهتنا لمجرَّد قولِكَ الذي ما أقمتَ عليه بيِّنةً بزعمهم. {وما نحنُ لك بمؤمنينَ}: وهذا تأييس منهم لنبيِّهم هودٍ عليه السلام في إيمانهم، وأنهم لا يزالون في كفرهم يعمهون.
[53] ﴿ قَالُوْا﴾ انھوں نے ہودu کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا: ﴿ یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ ﴾ ’’اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آیا‘‘ اگر دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے تو ایسی دلیل حق کی صداقت کے لیے لازم نہیں بلکہ لازم صرف یہ ہے کہ نبی ان کو ایسی دلیل اور ایسا ثبوت پیش کرے جو اس کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتا ہو اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہودu ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں لائے جو ان کی دعوت کی صداقت کی گواہی دیتی ہو تو اس بارے میں وہ جھوٹ کہتے ہیں کیونکہ جب بھی کسی قوم میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر ایسے ایسے معجزات ظاہر کرتا ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہوتے۔ اگر ان کے ہاتھ پر کوئی معجزہ نہ بھی ظاہر ہوا ہوتا سوائے دعوت کے جس میں دین کو اللہ وحدہ لا شریک کے لیے خالص کرنے کی تاکید ہو، نیک عمل اور اخلاق جمیلہ کا حکم دیا گیا ہو اور اخلاق مذمومہ، یعنی شرک، فواحش، ظلم اور دیگر مختلف قسم کی برائیوں سے روکا گیا ہو نیز اس کی تائید میں ہودu کی وہ صفات بھی ہوں جو مخلوق میں سب سے اچھے اور سب سے سچے شخص کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتیں تو ان کی صداقت پر دلیل کے لیے یہی چیز کافی تھی… بلکہ عقلمند لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز مجرد خرق عادت معجزات سے زیادہ بڑی نشانی ہے۔ حضرت ہودu کی صداقت پر دلالت کرنے والی آیات و بینات میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ وہ فرد واحد ہے، اس کے کوئی انصار و اعوان نہیں ، وہ اپنی قوم میں پکار پکار کر کہتا ہے اور ان کو عاجز کر دیتا ہے وہ کہتا ہے ﴿ اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ﴾ ’’میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمھارا رب ہے‘‘ ﴿قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُ٘شْ٘رِكُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ فَؔكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ ﴾ ’’ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان ہستیوں سے بیزار ہوں جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے پھر تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘ وہ دشمن ہیں ان کے پاس سطوت، غلبہ اور اقتدار ہے وہ ہر طریقے سے اس روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں جسے ہودu لے کر آئے ہیں وہ ان دشمنوں کی کوئی پروا نہیں کرتے اور یہ ہیں کہ ہودu کو کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز اور بے بس ہیں ۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں ۔ کفار نے کہا: ﴿ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ ﴾ ’’اور ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں ۔‘‘ یعنی ہم مجرد تیرے قول پر جس پر… ان کے زعم کے مطابق… کوئی دلیل نہیں ، اپنے معبودوں کی عبادت نہیں چھوڑ سکتے ﴿ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور ہم تیرا یقین کرنے والے نہیں ‘‘ یہ ان کی طرف سے اپنے ایمان کے بارے میں اپنے نبی ہودu کے ساتھ مایوسی کا اظہار تھا۔ وہ اپنے کفر میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔
#
{54} {إن نقولُ}: فيك {إلاَّ اعتراكَ بعضُ آلهتنا بسوءٍ}؛ أي: أصابتك بخبال وجنون، فصرتَ تَهْذي بما لا يُعْقَلُ؛ فسبحان من طبع على قلوب الظالمين! كيف جعلوا أصدقَ الخلق الذي جاء بأحقِّ الحقِّ بهذه المرتبة التي يستحي العاقل من حكايتها عنهم، لولا أنَّ الله حكاها عنهم؟!
[54] ﴿اِنْ نَّقُوْلُ ﴾ ہم تیرے بارے میں کہتے ہیں : ﴿ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ﴾ ’’تجھے آسیب پہنچایا ہے ہمارے بعض معبودوں نے‘‘ یعنی ہمارے کسی معبود نے تیری عقل سلب کر کے تجھے جنون لاحق کر دیا ہے اور تو نے ہذیان بولنا شروع کر دیا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے ظالموں کے دلوں پر مہر ثبت کر دی۔ انھوں نے کس طرح سب سے سچے انسان کو، جو سب سے بڑا حق لے کر آیا، ایسے گھٹیا مقام پر کھڑا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خود بیان نہ کیا ہوتا تو ایک عقل مند شخص کو ان سے اس بات کو روایت کرتے ہوئے بھی شرم آتی۔
#
{55} ولهذا بيَّن هودٌ عليه الصلاة والسلام أنه واثقٌ غاية الوثوق أنَّه لا يصيبُه منهم ولا من آلهتهم أذىً، فقال: {إنِّي أُشْهِدُ الله واشْهَدوا أنِّي بريءٌ مما تشركون. من دونِهِ فكيدوني جميعاً}؛ أي: اطلبوا لي الضَّرر كلُّكم بكلِّ طريق تتمكَّنون بها منِّي، {ثم لا تُنظِرونِ}؛ أي: لا تمهلوني.
[55] اسی لیے ہودu نے واضح فرمایا کہ انھیں پورا وثوق ہے کہ ان کی طرف سے یا ان کے معبودوں کی طرف سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی، بنا بریں فرمایا: ﴿ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُ٘شْ٘رِكُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ فَؔكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ﴾ یعنی تم سب ہر ممکن طریقے سے مجھے نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کر لو ﴿ ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ ﴾ ’’پھر مجھے کوئی مہلت بھی نہ دو۔‘‘
#
{56} {إني توكلتُ على الله}؛ أي: اعتمدت في أمري كلِّه على الله، {ربِّي وربِّكم}؛ أي: هو خالق الجميع ومدبِّرنا وإيَّاكم، وهو الذي ربَّانا. {ما من دابَّةٍ إلاَّ هو آخذٌ بناصيتها}: فلا تتحرَّك ولا تسكُن إلا بإذنِهِ؛ فلو اجتمعتُم جميعاً على الإيقاع بي، والله لم يسلِّطْكم عليَّ؛ لم تقدِروا على ذلك؛ فإن سلَّطكم فلحكمةٍ أرادَها. {إنَّ ربِّي على صراطٍ مستقيم}؛ أي: على عدل وقِسْطٍ وحكمةٍ وحمدٍ في قضائه وقَدَرِهِ و [في] شرعِهِ وأمره وفي جزائه وثوابه وعقابه، لا تخرجُ أفعالُه عن الصراط المستقيم التي يُحْمَد، ويُثنى عليه بها.
[56] ﴿اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’میں نے اللہ پر توکل کیا۔‘‘ یعنی میں نے اپنے تمام معاملے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا۔ ﴿ رَبِّیْ وَرَبِّكُمْ﴾ ’’جو میرا اور تمھارا رب ہے‘‘ یعنی وہ تمام موجودات کا خالق ہے، وہی ہے جو ہماری اور تمھاری تدبیر کرتا ہے اور وہی ہے جس نے ہماری تربیت کی ﴿ مَؔا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا﴾ ’’جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے۔‘‘ یعنی کوئی جان دار اس کے حکم کے بغیر حرکت کرتا ہے نہ ساکن ہوتا ہے۔ اگر تم سب مل کر مجھے کسی مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ تمھیں مجھ پر مسلط نہ کرے تو تم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگر وہ تمھیں مجھ پر مسلط کر دے تو اس میں اس کی کوئی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے‘‘ یعنی میرا رب عدل و انصاف اور حکمت پر ہے وہ اپنی قضا و قدر، شرع وامر، جزا اور اپنے ثواب و عقاب میں قابل ستائش ہے اس کے افعال صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے نہیں جس کی وجہ سے اس کی حمد و ثنا کی جاتی ہے۔
#
{57} {فإن تولَّوا}: عما دعوتُكم إليه، {فقد أبلغتكُم ما أُرْسِلْتُ به إليكم}: فلم يبقَ عليَّ تَبِعَةٌ من شأنكم، {ويستخلِفُ ربِّي قوماً غيركم}: يقومون بعبادته ولا يشرِكون به شيئاً، {ولا تضرُّونه شيئاً}: فإنَّ ضرركم إنما يعودُ إليكم ؛ فالله لا تضرُّه معصية العاصين ولا تنفعه طاعةُ الطائعين ، مَنْ عمل صالحاً؛ فلنفسه، ومَن أساء؛ فعليها. {إنَّ ربِّي على كلِّ شيء حفيظٌ}.
[57] ﴿ فَاِنْ تَوَلَّوْا﴾ ’’پس اگر تم روگردانی کرو۔‘‘ یعنی اگر تم اس چیز سے منہ موڑ لو جس کی طرف میں تمھیں بلاتا ہوں ﴿ فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖۤ اِلَیْكُمْ﴾ ’’تو تحقیق میں پہنچا چکا تمھیں وہ پیغام جسے دے کر مجھے تمھاری طرف بھیجا گیا تھا‘‘ پس میرے ذمے تمھارے معاملے میں کوئی چیز باقی نہیں ۔ ﴿وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَؔكُمْ ﴾ ’’اور جانشین بنائے گا میرا رب، تمھارے علاوہ کسی اور قوم کو‘‘ جو اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ﴿ وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ شَیْـًٔـا﴾ ’’اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے‘‘ کیونکہ تمھارا ضرر تمھاری ہی طرف لوٹے گا۔ اہل معاصی کی معصیت اسے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے نہ اہل اطاعت کی اطاعت اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لیے اور جو کوئی برے کام کرتا ہے تو اس کا نقصان اسی کے لیے ہے۔‘‘ ﴿ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ حَفِیْؔظٌ ﴾ ’’بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘
#
{58} {ولما جاء أمرُنا}؛ أي: عذابُنا بإرسال الريح العقيم التي ما تَذَرُ من شيء أتت عليه إلاَّ جَعَلَتْهُ كالرَّميم؛ {نجَّينا هوداً والذين آمنوا معه برحمةٍ منَّا ونَجَّيْناهم من عذاب غليظٍ}؛ أي: عظيم شديد أحلَّه الله بعادٍ فأصبحوا لا يُرى إلاَّ مساكنُهم.
[58] ﴿ وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا ﴾ ’’اور جب ہمارا حکم آپہنچا۔‘‘ یعنی جب نامبارک ہوا کی صورت میں ہمارا عذاب آیا۔ ﴿ مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِ﴾ (الذاریات: 51؍42) ’’جس چیز پر بھی وہ چلتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی مانند ریزہ ریزہ کیے دیتی تھی‘‘ ﴿ نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَنَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ ﴾ ’’تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود اور اس پر ایمان لانے والوں کو نجات دی اور ہم نے ان کو سخت عذاب سے بچا لیا‘‘ یعنی نہایت عظیم عذاب جسے اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر نازل فرمایا۔ اس عذاب نے ان کی یہ حالت کر دی کہ ان کے مساکن کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔
#
{59} {وتلك عادٌ}: الذين أوقع الله بهم ما أوقعَ بظُلْم منهم لأنهم {جَحَدوا بآيات ربِّهم}: ولهذا قالوا لهود: ما جئتَنا ببيِّنةٍ! فتبيَّن بهذا أنهم متيقِّنون لدعوته، وإنما عاندوا وجحدوا، {وعَصَوا رُسُلَه}؛ لأنَّ من عصى رسولاً؛ فقد عصى جميع المرسلين؛ لأنَّ دعوتهم واحدة، {واتَّبعوا أمر كلِّ جبارٍ}؛ أي: متسلِّط على عباد الله بالجبروت، {عنيدٍ}؛ أي: معاند لآيات الله، فعصَوْا كلَّ ناصح ومشفق عليهم، واتَّبعوا كلَّ غاشٍّ لهم يريد إهلاكَهم، لا جَرَمَ أهلكهم الله.
[59] ﴿ وَتِلْكَ عَادٌ﴾ ’’یہ قوم عاد تھی‘‘ جن پر ان کے ظلم کی پاداش میں یہ عذاب نازل فرمایا کیونکہ ﴿ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’انھوں نے اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا‘‘ اور کہنے لگے: ﴿ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ ﴾ ’’تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آئے‘‘ پس اس سے واضح ہوا کہ ہودu کی دعوت کی صداقت کے بارے میں انھیں یقین تھا، انھوں نے محض عناد کی وجہ سے اس کا انکار کیا تھا۔ ﴿ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ ﴾ ’’اورانھوں نے اس کے رسولوں کی نافرمانی کی۔‘‘ یعنی انھوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی تھی اور جو کوئی کسی ایک رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ تمام رسولوں کی نافرمانی کرتا ہے کیونکہ تمام انبیاء و رسل کی دعوت ایک ہے۔ ﴿ وَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُ٘لِّ جَبَّارٍ ﴾ ’’اور انھوں نے حکم مانا ہر اس شخص کا جو سرکش تھا‘‘ یعنی وہ شخص جو جبر و استبداد کے ذریعے سے اللہ کے بندوں پر مسلط ہو جاتا ہے۔ ﴿ عَنِیْدٍ ﴾ ’’سرکش‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے۔ انھوں نے ہر خیر خواہ اور مشفق کی نافرمانی کی اور ہر دھوکے باز کی پیروی کی جو ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
#
{60} {وأتبعوا في هذه الدُّنيا لعنةً}: فكل وقتٍ وجيل إلا ولأنبائهم القبيحة وأخبارهم الشنيعة ذِكْرٌ يذكَرون به وذمٌّ يلحقُهم. {ويوم القيامة}: لهم أيضاً لعنةٌ، {ألا إنَّ عاداً كفروا ربَّهم}؛ أي: جحدوا مَنْ خَلَقَهم ورَزَقَهم وربَّاهم. {ألا بعداً لعادٍ قوم هود}؛ أي: أبعدهم الله عن كلِّ خير، وقرَّبهم من كلِّ شرٍّ.
[60] ﴿وَاُ٘تْبِعُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً ﴾ ’’اور پیچھے لگی رہی ان کے اس دنیا میں پھٹکار‘‘ پس ہر وقت اور ہر زمانے میں ان کے کرتوتوں اور بری خبروں کا لوگ ذکر کرتے رہتے ہیں اور ایسی مذمت کے ساتھ ان کو یاد کرتے ہیں جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ﴿ وَّیَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور قیامت کے روز بھی‘‘ وہ ملعون ٹھہریں گے۔ ﴿ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ﴾ ’’خبردار! بے شک عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا‘‘ انھوں نے اس ہستی کا انکار کر دیا جس نے ان کو پیدا کیا، ان کو رزق دیا اور ان کی تربیت کی ﴿ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ ﴾ ’’سنو! ہود کی قوم عاد کے لیے دوری ہو‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ہر بھلائی سے دور اور برائی سے قریب کر دیا۔
آیت: 61 - 68 #
{وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ (61) قَالُوا يَاصَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا أَتَنْهَانَا أَنْ نَعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ (62) قَالَ يَاقَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (63) وَيَاقَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ (64) فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ (65) فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (66) وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ (67) كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ أَلَا بُعْدًا لِثَمُودَ (68)}.
اور (بھیجا ہم نے) طرف ثمود کی ان کے بھائی صالح کو، اس نے کہا، اے میری قوم! تم عبادت کر و اللہ کی، نہیں واسطے تمھارے کوئی معبود سوائے اس کے، اسی نے پیدا کیا تمھیں زمین سے اور اسی نے آباد کیا تمھیں اس میں ، سو تم مغفرت طلب کرو اس سے ، پھر توبہ کرو طرف اسی کی، بلاشبہ میرا رب بہت قریب ہے، (دعائیں ) قبول کرنے والا ہے (61)انھوں نے کہا، اے صالح! تحقیق تھا تو ہم میں امیدوں کا مرکز پہلے اس سے، کیا تو روکتا ہے ہمیں یہ کہ عبادت کریں ہم ان کی جن کی عبادت کرتے تھے آباء ہمارے؟ اور بے شک ہم البتہ شک میں ہیں اس چیز سے کہ بلاتا ہے تو ہمیں طرف اس کی ، جو اضطراب میں ڈالنے والی ہے(62) صالح نے کہا، اے میری قوم! بھلا بتلاؤ تو مجھے، اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے اور دی ہو اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت تو کون مدد کرے گا میری اللہ (کے عذاب) سے، اگر نافرمانی کروں میں اس کی؟ پس نہیں زیادہ کرو گے تم مجھ کو سوائے خسارہ دینے کے(63) اور اے میری قوم! یہ اونٹنی ہے اللہ کی تمھارے لیے نشانی، پس تم چھوڑ دو اسے کہ کھاتی (چرتی) پھرے زمین میں اللہ کی اور نہ ہاتھ لگانا تم اسے ساتھ برائی کے، پس پکڑ لے گا تمھیں عذاب قریب ہی (64) پس ٹانگیں کاٹ ڈالیں انھوں نے اس کی تو کہا صالح نے، تم فائدہ اٹھا لو اپنے گھروں میں تین دن، یہ (ایسا) وعدہ ہے نہیں جھوٹ بولا گیا ہے (اس میں ) (65) ، پھر جب آگیا حکم (عذاب) ہمارا تو نجات دی ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے ساتھ اس کے، ساتھ اپنی رحمت کےاور رسوائی سے بھی اس (قیامت کے) دن کی، بے شک آپ کا رب، وہی ہے نہایت طاقتور بہت زبردست (66) اور آپکڑا ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا تھا چیخ نے، پس وہ ہو گئے اپنے گھروں میں اوندھے منہ گرے ہوئے (67) گویا کہ نہ رہے تھے وہ ان (گھروں ) میں ، آگاہ رہو! بے شک ثمود (قوم) نے انکار کیا اپنے رب کا، سن لو! دوری ہے واسطے ثمود کے (68)
#
{61} أي: {و} أرسلنا {إلى ثمودَ}: وهم عادٌ الثانية، المعروفون، الذين يسكنون الحِجْر ووادي القُرى، {أخاهم}: في النسب، {صالحاً}: عبد الله ورسوله - صلى الله عليه وسلم -، يدعوهم إلى عبادة الله وحده. فَـ {قَالَ يا قومِ اعبُدوا الله}؛ أي: وحِّدوه وأخلصوا له الدين، {ما لكُم من إلهٍ غيرُه}: لا من أهل السماء ولا من أهل الأرض، {هو أنشأكم من الأرض}؛ أي: خلقكم فيها، فقال: {واستعمَرَكم فيها}؛ أي: استخلفكم فيها وأنعم عليكم بالنِّعم الظاهرة والباطنة، ومكَّنكم في الأرض؛ تَبْنون وتغرسون وتزرعون وتحرثون ما شئتم وتنتفعون بمنافعها وتستغلون مصالحها؛ فكما أنَّه لا شريك له في جميع ذلك؛ فلا تشركوا به في عبادته. {فاستغفروه}: مما صَدَرَ منكم من الكفر والشِّرْك والمعاصي وأقلعوا عنها، {ثمَّ توبوا إليه}؛ أي: ارجِعوا إليه بالتوبة النصوح والإنابة. {إنَّ ربِّي قريبٌ مجيبٌ}؛ أي: قريبٌ ممَّن دعاه دعاء مسألة أو دعاء عبادة يجيبه بإعطائِهِ سؤاله وقَبول عبادتِهِ وإثابته عليها أجلَّ الثواب. واعلم أنَّ قُرْبَهُ تعالى نوعان: عامٌّ وخاصٌّ: فالقربُ العامُّ: قربُه بعلمه من جميع الخلق، وهو المذكور في قوله تعالى: {ونحنُ أقربُ إليه من حبل الوريدِ}. والقربُ الخاصُّ: قربُه من عابديه وسائليه ومحبِّيه، وهو المذكورُ في قوله تعالى: {فاسجُدْ واقْتَرِبْ}، وفي هذه الآية، وفي قوله: {وإذا سألك عبادي عنِّي فإنِّي قريبٌ أجيبُ دعوةَ الدَّاعي}، وهذا النوع قربٌ يقتضي إلطافه تعالى وإجابته لدعواتهم وتحقيقه لمراداتهم، ولهذا يقرن باسمه القريب اسمه المجيب.
[61] ﴿وَاِلٰى ثَمُوْدَ﴾ ’’اور ثمود کی طرف۔‘‘ یعنی ہم نے ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ ثمود، عاد ثانیہ کے نام سے معروف ہیں جو وادی القریٰ اور الحجر کے علاقے میں آباد تھے۔ ﴿اَخَاهُمْ ﴾ ’’ان کے بھائی۔‘‘ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿ صٰلِحًا﴾ ’’صالح (u) کو‘‘ جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تھا جو ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ ﴿ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور دین کو اس کے لیے خالص کرو۔ ﴿ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ﴾ ’’اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ‘‘ نہ آسمان والوں میں سے اور نہ اہل زمین میں سے۔ ﴿ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی (اللہ تعالیٰ) ہی نے تمھیں زمین سے پیدا کیا‘‘ ﴿ وَاسْتَعْمَرَؔكُمْ فِیْهَا﴾ ’’اور اس میں تمھیں بسایا‘‘ یعنی تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا، تمھیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا، تمھیں زمین میں تمکن و اقتدار عطا کیا، تم عمارتیں بناتے ہو، باغات لگاتے ہو اور کھیتیاں اگاتے ہو، جو چاہتے ہو کاشت کرتے ہو، اس سے منفعت حاصل کرتے ہو اور اسے اپنے مصالح اور مفاد میں استعمال کرتے ہو۔ جس طرح ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ﴿ فَاسْتَغْفِرُوْهُ ﴾ ’’پس اسی سے مغفرت طلب کرو۔‘‘ یعنی تم سے کفر، شرک اور دیگر جو گناہ صادر ہوئے ہیں ان کی بخشش طلب کرو اور ان گناہوں کو چھوڑ دو۔ ﴿ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ﴾ ’’پھر اس کے حضور توبہ کرو۔‘‘ یعنی خالص توبہ اور انابت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ ﴿ اِنَّ رَبِّیْ قَ٘رِیْبٌ مُّجِیْبٌ ﴾ ’’بے شک میرا رب نزدیک اور (دعا کو) قبول کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس شخص کے قریب ہے جو اس کو سوال کرنے کے لیے پکارتا ہے یا عبادت کے لیے پکارتا ہے وہ اس کو اس کا سوال عطا کر کے اور اس کی دعا قبول کر کے اور اس پر جلیل ترین ثواب عطا کرتے ہوئے اس کی پکار کا جواب دیتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کی دو قسمیں ہیں ۔ قرب عام اور قرب خاص۔ قرب عام سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے علم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا، قرب کی یہ نوع اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَنَحْنُ اَ٘قْ٘رَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 50؍16) ’’اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘ میں مذکور ہے۔ قرب خاص سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں ، اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے قریب ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق: 96؍19) ’’سجدہ کر اور اس کا قرب حاصل کر۔‘‘ میں قرب کی اسی نوع کا ذکر ہے۔ اس آیت کریمہ میں نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَ٘رِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ﴾ (البقرہ: 2؍186) ’’جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں (تو ان سے کہہ دیں ) کہ میں ان کے قریب ہوں اور پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ۔‘‘ میں اس قرب کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم، ان کی دعاؤں کو قبول کرنے اور ان کی مرادیں پوری کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنیٰ (الْقَرِیب) اور (الْمُجِیب) کو مقرون (ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے۔
#
{62} فلما أمرهم نبيُّهم صالحٌ عليه السلام ورغَّبهم في الإخلاص لله وحده؛ ردُّوا عليه دعوته، وقابلوه أشنع المقابلة. و {قالوا يا صالحُ قد كنتَ فينا مرجُوًّا قبلَ هذا}؛ أي: قد كنَّا نرجوك ونؤمِّل فيك العقل والنفع، وهذا شهادةٌ منهم لنبيِّهم صالح: أنَّه ما زال معروفاً بمكارم الأخلاق ومحاسن الشيم، وأنَّه من خيار قومه، ولكنَّه لمَّا جاءهم بهذا الأمر الذي لا يوافِقُ أهواءهم الفاسدة؛ قالوا هذه المقالة التي مضمونُها أنَّك قد كنتَ كاملاً، والآن أخلفتَ ظنَّنا فيك، وصرتَ بحالةٍ لا يُرجى منك خيرٌ، وذنبه ما قالوه عنه، [وهو قولهم]: {أتَنْهانا أن نعبُدَ ما يعبُدُ آباؤنا}: وبزعمهم أنَّ هذا من أعظم القدح في صالح؛ كيف قَدَحَ في عقولهم وعقول آبائهم الضالِّين؟! وكيف ينهاهم عن عبادة مَنْ لا ينفع ولا يضرُّ ولا يغني شيئاً من الأحجار والأشجار ونحوها، وأمرهم بإخلاص الدِّين لله ربِّهم الذي لم تزلْ نِعَمُهُ عليهم تَتْرى وإحسانُهُ عليهم دائماً ينزِلُ، الذي ما بهم من نعمةٍ إلا منه، ولا يدفع عنهم السيئات إلا هو؟! {وإنَّنا لفي شكٍّ مما تدعونا إليه مُرِيبٍ}؛ أي: ما زلنا شاكِّين فيما دعوتَنا إليه شكًّا مؤثِّراً في قلوبنا الريب.
[62] جب ان کے نبی صالحu نے ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کی ترغیب دی تو انھوں نے آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور آپ سے انتہائی برے طریقے سے پیش آئے ﴿ قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰؔذَاۤ﴾ ’’انھوں نے کہا صالح! اس سے پہلے ہم تجھ سے امیدیں رکھتے تھے۔‘‘ یعنی ہم نے تجھ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور تجھ سے عقل مندی اور نفع کی توقع تھی۔ یہ ان کی طرف سے ان کے نبی حضرت صالحu کے حق میں ایک گواہی ہے کہ وہ مکارم اخلاق اور محاسن عادات میں معروف تھے اور وہ اپنی قوم میں بہترین شخص گردانے جاتے تھے۔ مگر جب وہ یہ دعوت توحید لے کر آئے جو ان کی فاسد خواہشات کے موافق نہ تھی تب انھوں نے یہ بات کہی جس کے مضمون کا لب لباب یہ ہے۔ ’’تو کامل شخصیت کا حامل تھا مگر تو ہمارے ظن و گمان کے بالکل خلاف نکلا اور اب تیری حالت ایسی ہے کہ تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔‘‘ صالحu کا گناہ صرف وہی تھا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے: ﴿ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا﴾ ’’کیا تو ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے‘‘ اور وہ سمجھتے تھے کہ صالحu میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کیسے وہ ان کی عقل کی خامی بیان کرتے ہیں ؟ اور کیسے وہ ان کے گمراہ آباء و اجداد کو بے عقل کہتے ہیں ؟ اور کیسے وہ ان کو ان ہستیوں کی عبادت سے روکتے ہیں جو ان کو کوئی فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں اور پتھر اور لکڑی کے گھڑے ہوئے یہ معبود کسی کام نہیں آسکتے؟ صالحu نے ان کو حکم دیا کہ وہ دین کو اپنے رب، اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں جو انھیں اپنی نعمتوں سے پیہم نوازتا رہتا ہے۔ اس کے دائمی احسانات کا ابر رحمت ان پر برستا رہتا ہے۔ ہر نعمت جو انھیں حاصل ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور برائیوں کو ان سے وہی دور کرتا ہے۔ ﴿ وَاِنَّنَا لَ٘فِیْ شَكٍّ مِّؔمَّؔا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ﴾ ’’تو ہمیں جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے اس بارے میں ہم ہمیشہ شک میں مبتلا رہتے ہیں ۔‘‘ یہ شک ہمارے دلوں میں شبہات کو جنم دیتا ہے۔
#
{63} وبزعمهم أنَّهم لو علموا صحَّة ما دعاهم إليه؛ لاتَّبعوه، وهم كَذَبَةٌ في ذلك، ولهذا بيَّن كذِبَهم في قوله: {قال يا قومِ أرأيتُم إن كنتُ على بيِّنةٍ من ربِّي}؛ أي: برهان ويقين منِّي، {وآتاني منه رحمةً}؛ أي: مَنَّ عليَّ برسالته ووحيه؛ أي: أفأتابعكم على ما أنتم عليه وما تدعونني إليه. {فمن ينصُرُني من الله إن عصيتُهُ فما تزيدونَني غير تخسيرٍ}؛ أي: غير خسار وتَباب وضرر.
[63] بزعم خود، اگر وہ صالحu کی دعوت کو صحیح سمجھتے تو وہ ضرور ان کی اتباع کرتے۔ وہ اس بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔ بنا بریں صالحu نے ان کے جھوٹ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ ﴾ ’’اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں ہی اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہوں ۔‘‘ یعنی میں اپنے رب کی طرف سے برہان اور اپنے یقین پر ہوں ۔ ﴿ وَاٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً﴾ ’’اور اس نے دی مجھے رحمت، اپنی طرف سے‘‘ اس نے اپنی رسالت اور وحی سے مجھے نوازا۔ تب بھی کیا تم جس چیز کی طرف مجھے بلاتے ہو اور جس پر تم عمل پیرا ہو، میں اس میں تمھاری پیروی کروں ؟ ﴿ فَ٘مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ١۫ فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ۠ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ ﴾ ’’پھر کون بچائے گا مجھ کو اس سے، اگر میں نے اس کی نافرمانی کی۔ پس تم میرے نقصان ہی میں اضافہ کرتے ہو‘‘ یعنی تم خسارے، ہلاکت اور ضرر کے سوا میرے لیے کسی چیز کا اضافہ نہیں کرو گے۔
#
{64} {ويا قوم هذه ناقةُ الله لكم آيةً}: لها شِرْبٌ من البئر يوماً، ثم يشربون كلُّهم مِنْ ضَرْعها، ولهم شِرْبُ يوم معلوم، {فَذَروها تأكُلْ في أرض الله}؛ أي: ليس عليكم من مؤنتها وعلفها شيءٌ، {ولا تمسُّوها بسوءٍ}؛ أي: بعقرٍ؛ {فيأخُذَكم عذابٌ قريبٌ}.
[64] ﴿وَیٰقَوْمِ هٰؔذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً ﴾ ’’اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے تمھارے لیے نشانی‘‘ کنویں سے ایک دن صرف اونٹنی پانی پیے گی، پھر تمام لوگ اس کے تھنوں سے دودھ پئیں گے اور ایک دن ان کے پانی پینے کے لیے مقرر ہوگا۔ ﴿ فَذَرُوْهَا تَاْكُ٘لْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ ﴾ ’’پس تم اسے چھوڑ دو، وہ کھائے پھرے اللہ کی زمین میں ‘‘ یعنی تم پر اونٹنی کے چارہ وغیرہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ﴿ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ ﴾ ’’اور تم اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا۔‘‘ یعنی اس کو قتل کرنے کی نیت سے مت چھونا ﴿ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’ورنہ تمھیں بہت جلد عذاب آ پکڑے گا۔‘‘
#
{65} {فعقروها فقال}: لهم صالحٌ: {تمتَّعوا في دارِكُم ثلاثة أيَّام ذلك وعدٌ غير مكذوبٍ}: بل لا بدَّ من وقوعه.
[65] ﴿ فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ ﴾ ’’پس انھوں نے اس کے پاؤں کاٹ دیے تو کہا‘‘ یعنی جناب صالحu نے ﴿ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰ٘ثَةَ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ﴾ ’’تم اپنے گھروں میں تین دن فائدہ اٹھاؤ، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہو گا‘‘ بلکہ یہ ضرور واقع ہو کر رہے گا۔
#
{66} {فلمَّا جاء أمرُنا}: بوقوع العذاب، {نجَّيْنا صالحاً والذين آمنوا معه برحمةٍ منَّا ومِنْ خِزْي يومِئِذٍ}؛ أي: نجيناهم من العذاب والخزي والفضيحة. {إنَّ ربَّك هو القويُّ العزيز}: ومن قوَّته وعزَّته أن أهلك الأممَ الطاغيةَ ونجَّى الرسلَ وأتباعهم.
[66] ﴿ فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا ﴾ ’’پس جب ہمارا حکم آگیا۔‘‘ یعنی وقوع عذاب کا ﴿ نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّؔنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِىِٕذٍ﴾ ’’تو ہم نے صالح اور اس پر ایمان لانے والوں کو نجات دی، اپنی رحمت سے اور اس دن کی رسوائی سے‘‘ یعنی ہم نے ان کو عذاب، رسوائی اور فضیحت سے بچا لیا۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب زور آور غالب ہے‘‘ یہ اس کی قوت اور غلبے کی دلیل ہے کہ اس نے سرکش قوموں کو ہلاک کر دیا اور انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کو بچا لیا۔
#
{67} وأخذت {الذين ظلموا الصيحة}: فقطعت قلوبهم؛ {فأصبحوا في ديارهم جاثمين}؛ أي: خامدين لا حراك لهم.
[67] ﴿وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو چنگھاڑ نے آپکڑا۔‘‘ یعنی ایک چنگھاڑ کی صورت میں عذاب نے ان ظالموں کو دھر لیا اور ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ﴿فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰؔثِمِیْنَ ﴾ ’’وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ یعنی اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے رہ گئے۔
#
{68} {كأن لم يَغْنَوْا فيها}؛ أي: كأنهم لما جاءهم العذاب ما تمتَّعوا في ديارهم ولا أنسوا فيها ولا تنعَّموا بها يوماً من الدَّهر، قد فارقهم النعيمُ، وتناولهم العذابُ السرمديُّ، الذي لا ينقطع، الذي كأنه لم يزل. {ألا إنَّ ثمودَ كَفَروا ربَّهم}؛ أي: جحدوه بعد أن جاءتهم الآيةُ المبصرةُ. {ألا بُعداً لِثمودَ}: فما أشقاهم وأذلَّهم! نستجير بالله من عذاب الدُّنيا وخزيها.
[68] ﴿ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا﴾ گویا کہ… جب ان پر عذاب آیا…و ہ اپنی بستیوں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہوئے تھے نہ انھوں نے ان بستیوں میں ایک دن بھی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھایا تھا۔ نعمتیں ان سے دور ہوگئیں اور سرمدی عذاب نے ان کو آن لیا، وہ عذاب جو منقطع نہیں ہو گا اور وہ جو ہمیشہ رہے گا۔ ﴿ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡؔ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ﴾ ’’سن لو، بے شک ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا‘‘ یعنی ان کے پاس نمایاں نشان آجانے کے بعد بھی انھوں نے اللہ کا انکار کیا۔ ﴿ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ﴾ ’’سنو! دوری ہے ثمود کے لیے‘‘ پس کتنے بدبخت اور کس قدر ذلیل تھے ثمود! ہم دنیا کے عذاب اور اس کی رسوائی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
آیت: 69 - 83 #
{وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ (69) فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ (70) وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ (71) قَالَتْ يَاوَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ (72) قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (73) فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ (74) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (75) يَاإِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ (76) وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ (77) وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَاقَوْمِ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ (78) قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ (79) قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ (80) قَالُوا يَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ (81) فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ (82) مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ (83)}.
اور البتہ تحقیق آئے قاصد ہمارے (فرشتے) ابراہیم کے پاس ساتھ خوشخبری کے، انھوں نے کہا سلام (کرتے ہیں ہم)، ابراہیم نے بھی کہا سلام ہو( تم پر) ، پھر نہ دیر کی اس نے کہ لے آیا بچھڑا بھنا ہوا (69) پس جب دیکھے ابراہیم نے ہاتھ ان کے کہ نہیں پہنچتے طرف اس (بچھڑے) کی تو اوپرا جانا انھیں اور (دل میں ) محسوس کیا ان سے خوف، انھوں نے کہا، نہ ڈر (ہم سے) بلاشبہ ہم تو بھیجے گئے ہیں طرف قوم لوط کی (70) اور بیوی ابراہیم کی کھڑی تھی تو وہ ہنس پڑی، پھر خوشخبری دی ہم نے اسے اسحٰق کی اور بعد اسحٰق کے یعقوب (پوتے) کی (71)اس نے کہا، ہائے ہائے! کیا (اب) میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے؟ بے شک یہ تو البتہ ایک چیز ہے عجیب ہی (72) فرشتوں نے کہا، کیاتو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر، اے اہل بیت! بلاشبہ اللہ قابل تعریف ہے، نہایت بزرگی والا(73)پس جب چلا گیا ابراہیم سے خوف اور آگئی اس کے پاس خوشخبری تو وہ جھگڑتا تھا ہم سے قوم لوط کے بارے میں (74)بلاشبہ ابراہیم البتہ بڑا بردبار، بہت آہ وزاری کرنے والا، رجوع کرنے والا تھا (75)اے ابراہیم! اعراض کر اس بات سے، بے شک تحقیق آگیا ہے حکم تیرے رب کااور بلاشبہ وہ لوگ ، آئے گا ان پر (ایسا) عذاب جو نہیں پھیراجائے گا (ان سے) (76) اور جب آئے قاصد ہمارے لوط کے پاس تو مغموم ہوا وہ بوجہ ان کےاور تنگ ہوا بوجہ ان کے دل میں اور کہا یہ دن ہے انتہائی سخت(77) اور آئی اس کے پاس قوم اس کی دوڑتی ہوئی اس کی طرف اور پہلے ہی سے تھے وہ عمل کرتے برے، لوط نے کہا، اے میری قوم! یہ ہیں بیٹیاں میری (قوم کی، ان سے نکاح کر لو)، وہ بہت پاکیزہ ہیں تمھارے لیے، پس ڈرو تم اللہ سے اورنہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں میں ، کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھی مرد بھلا؟ (78) انھوں نے کہا البتہ تحقیق جانتا ہے تو کہ نہیں ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (دلچسپی) اور بلاشبہ تو البتہ جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں (79) لوط نے کہا، کاش کہ ہوتی میرے لیے تمھارے مقابلے میں کوئی قوت یا پناہ پکڑتا میں طرف کسی مضبوط سہارے کے(80) فرشتوں نے کہا، اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں تیرے رب کے، ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے وہ تیری طرف، پس لے چل تو اپنے گھر والوں کو ایک حصے میں رات کےاورنہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی بھی سوائے تیری بیوی کے، بے شک پہنچنے والا ہے اسے وہ (عذاب) جو پہنچے گا انھیں ، بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا نہیں ہے صبح قریب؟(81)پس جب آگیا حکم (عذاب) ہمارا تو کر دیا ہم نے ان کے اوپر والے حصے کو نیچے (اور نیچے والے حصے کو اوپر) اور برسائے ہم نے ان بستیوں پر پتھر کھنگر کی قسم سے، تہ بہ تہ(82) نشان زدہ آپ کے رب کے ہاں (سے) اور نہیں وہ بستی ان ظالموں سے دور(83)
#
{69} أي: {ولقد جاءتْ رُسُلُنا}: من الملائكة الكرام رسولَنا {إبراهيمَ} الخليل {بالبشرى}؛ أي: بالبشارة بالولد حين أرسلهم الله لإهلاك قوم لوط وأمَرَهم أنْ يمرُّوا على إبراهيم فيبشِّروه بإسحاق، فلما دخلوا عليه، {قالوا سلاماً قال سلامٌ}؛ أي: سلَّموا عليه وردَّ عليهم السلام. ففي هذا مشروعية السلام، وأنَّه لم يزْل من ملَّة إبراهيم عليه السلام، وأنَّ السلام قبل الكلام، وأنَّه ينبغي أن يكون الردُّ أبلغَ من الابتداء؛ لأنَّ سلامهم بالجملة الفعليَّة الدالَّة على التجدُّد، وردُّه بالجملة الاسمية الدالَّة على الثُّبوت والاستمرار، وبينهما فرقٌ كبيرٌ؛ كما هو معلومٌ في علم العربية. {فما لَبِثَ}: إبراهيمُ لما دخلوا عليه، {أن جاء بعجل حنيذ}؛ أي: بادر لبيته فاستحضر لأضيافه عجلاً مشويًّا على الرَّضْفِ سميناً، فقرَّبه إليهم فقال: ألا تأكلونَ.
[69] ﴿ وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ﴾ ’’تحقیق آئے ہمارے مکرم فرشتے‘‘ ہمارے قاصد ﴿ اِبْرٰهِیْمَ﴾ ’’ابراہیم(u) کے پاس‘‘ ﴿ بِالْ٘بُشْرٰى﴾ ’’بشارت کے ساتھ۔‘‘ یعنی بیٹے کی بشارت کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ابراہیمu کے پاس سے ہو کر جائیں اور ان کو اسحٰقu کی خوشخبری دیتے جائیں ۔ جب فرشتے ابراہیمu کے پاس حاضر ہوئے ﴿ قَالُوْا سَلٰ٘مًا١ؕ قَالَ سَلٰ٘مٌ ﴾ ’’تو انھوں نے سلام کیا، انھوں نے بھی (جواب میں ) سلام کہا۔‘‘ یعنی فرشتوں نے جناب ابراہیمu کو سلام کیا اور ابراہیمu نے سلام کا جواب دیا۔ اس آیت مقدسہ میں سلام کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ملت ابراہیمی میں کلام کرنے سے پہلے سلام کا طریقہ ہمیشہ سے رہا ہے اور مناسب یہ ہے کہ سلام کا جواب سلام کرنے سے زیادہ بلیغ ہو کیونکہ جملہ فعلیہ کے ذریعے سے ان کا سلام تجدد پر دلالت کرتا ہے اور جملہ اسمیہ کے ذریعے سے ان کے سلام کا جواب ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے، دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ عربی زبان کے علم میں معروف ہے۔ ﴿ فَمَا لَبِثَ ﴾ ’’انھوں نے کچھ تاخیر نہ کی۔‘‘ یعنی جب ابراہیمu کے پاس آئے تو انھوں نے تاخیر نہ کی ﴿ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ ﴾ ’’اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔‘‘ یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اپنے مہمانوں کے لیے ایک موٹا تازہ اور گرم پتھر پر بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے پیش کیا اور بولے: ﴿ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ﴾ (الذاریات:51؍27) ’’تم کھاتے کیوں نہیں ؟‘‘
#
{70} {فلمَّا رأى أيديَهم لا تصلُ إليه}؛ أي: إلى تلك الضيافة، {نَكِرَهُم وأوجس منهم خِيفةً}: وظنَّ أنهم أتوه بشرٍّ ومَكْروه، وذلك قبلَ أن يعرِفَ أمرَهم، فقالوا: {لا تخفْ إنَّا أرْسِلْنا إلى قوم لوطٍ}؛ أي: إنَّا رسلُ الله، أرسلنا الله إلى إهلاك قوم لوطٍ.
[70] ﴿فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ ﴾ ’’جب انھوں (ابراہیمu) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (ضیافت) کی طرف نہیں بڑھتے‘‘ ﴿نَؔكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً﴾ ’’تو انھیں کھٹکا اور دل میں ان سے ڈرے‘‘ ابراہیمu نے سمجھا کہ وہ کسی برے ارادے سے آئے ہیں ۔ ابراہیمu کا یہ گمان اور اندازہ ان کی اصلیت معلوم ہونے سے پہلے تھا، ﴿قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍ ﴾ ’’انھوں نے کہا، ڈریں نہیں ، ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے قاصد اور فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں لوطu کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا ہے۔
#
{71} وامرأة إبراهيم {قائمةٌ}: تخدُمُ أضيافَه، {فضَحِكَتْ}: حين سمعتْ بحالهم وما أرسلوا به تعجُّباً، {فبشَّرْناها بإسحاقَ ومن وراءِ إسحاق يعقوبَ}.
[71] ﴿وَامْرَاَتُهٗ﴾ ’’اور اس کی بیوی‘‘ یعنی حضرت ابراہیمu کی بیوی ﴿ قَآىِٕمَةٌ﴾ ’’کھڑی تھی۔‘‘ یعنی کھڑی اپنے مہمانوں کی خدمت کر رہی تھی ﴿فَضَحِكَتْ﴾ ’’وہ ہنس پڑی‘‘ جب اس کو مہمانوں کی اصلیت کے بارے میں معلوم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں کس غرض سے بھیجا گیا ہے تو وہ تعجب سے ہنس پڑی ﴿ فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰؔقَ١ۙ وَمِنْ وَّرَؔآءِ اِسْحٰؔقَ یَعْقُوْبَ ﴾ ’’پس ہم نے اسے خوش خبری دی اسحاق کے پیدا ہونے کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی‘‘
#
{72} فتعجَّبت من ذلك و {قالتْ يا وَيْلتا أألِدُ وأنا عجوزٌ وهذا بعلي شيخاً}: فهذان مانعان من وجود الولد. {إنَّ هذا لشيءٌ عجيبٌ}.
[72] اسے اس پر بھی تعجب ہوا۔ ﴿ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰؔذَا بَعْلِیْ شَیْخًا ﴾ ’’وہ بولیں ، کیا میں جنوں گی جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند (بھی) بوڑھا ہے‘‘ پس یہ دو امور وجود اولاد سے مانع ہیں ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ ﴾ ’’یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔‘‘
#
{73} {قالوا أتَعْجَبين من أمرِ الله}: فإنَّ أمره لا عجب فيه؛ لنفوذ مشيئته التامَّة في كل شيءٍ؛ فلا يُستغرب على قدرته شيء، وخصوصاً فيما يدبِّره ويمضيه لأهل هذا البيت المبارك. {رحمةُ الله وبركاتُهُ} عليكم أهل البيت؛ أي: لا تزال رحمته وإحسانه وبركاته، وهي الزيادة من خيره وإحسانه وحلول الخير الإلهي على العبد. {عليكم أهلَ البيت إنَّه حميدٌ مجيدٌ}؛ أي: حميد الصفات؛ لأنَّ صفاته صفات كمال، حميدُ الأفعال؛ لأنَّ أفعاله إحسانٌ وجودٌ وبرٌّ وحكمةٌ وعدلٌ وقِسْطٌ. {مجيدٌ}: والمجد هو عظمة الصفات وسَعَتُها؛ فله صفات الكمال، وله من كلِّ صفةِ كمالٍ أكملُها وأتمُّها وأعمُّها.
[73] ﴿ قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’انھوں نے کہا، کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوئی تعجب نہیں ، اس لیے کہ اس کی مشیت تامہ ہر شے میں نافذ ہے اس کی قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی چیز کو انہونی اور نادر نہ سمجھا جائے خاص طور پر اس مبارک گھر والوں کے اس معاملے میں جس کی تدبیر اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ ﴿ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَؔكٰتُهٗ ﴾ ’’اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کا احسان اور اس کی برکات ہیں ، یعنی احسان اور بھلائی میں اضافہ اور خیر الٰہی کا نزول ہمیشہ رہے گا ﴿ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ١ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ﴾ ’’تم پر اے گھر والو! بے شک وہ تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ صفات حمیدہ کا مالک ہے، اس کی تمام صفات، صفات کمال ہیں ۔ اس کے تمام افعال قابل تعریف ہیں کیونکہ اس کے تمام افعال احسان، جود، بھلائی، حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں ۔ (مَجِید) اور (مَجَد) سے مراد اس کی صفات کی عظمت اور وسعت ہے وہ صفات کمال کا مالک ہے، اس کی ہر صفت کامل، تام اور عام ہے۔
#
{74} {فلما ذَهَبَ عن إبراهيم الرَّوْعُ}: الذي أصابه من خيفة أضيافه، {وجاءتْه البُشرى}: بالولد؛ التفتَ حينئذٍ إلى مجادلة الرسل في إهلاك قوم لوطٍ، وقال لهم: {إنَّ فيها لوطاً. قالوا نحنُ أعلمُ بمَن فيها لَنُنَجِيَنَّه وأهْلَه إلاَّ امرأتَهُ}.
[74] ﴿فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ ﴾ ’’جب ابراہیم سے خوف دور ہوا‘‘ جو مہمانوں کی آمد پر انھیں لاحق ہوا تھا۔ ﴿ وَجَآءَتْهُ الْ٘بُشْ٘رٰى ﴾ ’’اور (بیٹے کی) خوشخبری ملی‘‘ تب وہ قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں فرشتوں سے جھگڑنے لگے اور ان سے کہنے لگے: ﴿ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا١ؕ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا١ٞ ٙ لَنُنَجِّیَنَّهٗ۠ وَاَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ﴾ (العنکبوت: 29؍32) ’’کہ اس بستی میں تو لوط بھی ہیں فرشتوں نے کہا جو لوگ وہاں رہتے ہیں ہم انھیں زیادہ جانتے ہیں ، ہم لوط کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے سوائے اس کی بیوی کے۔‘‘
#
{75} {إنَّ إبراهيم لحليمٌ}؛ أي: ذو خُلُق [حسنٍ] وسعة صدر وعدم غضب عند جهل الجاهلين، {أوَّاهٌ}؛ أي: متضرِّع إلى الله في جميع الأوقات، {منيبٌ}؛ أي: رجَّاع إلى الله بمعرفته ومحبَّته والإقبال عليه والإعراض عمَّن سِواه؛ فلذلك كان يجادِلُ عن مَنْ حَتَّم الله بهلاكهم.
[75] ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ ﴾ ’’بے شک ابراہیم بڑے بردبار تھے۔‘‘ یعنی ابراہیمu اچھے اخلاق والے اور کشادہ دل شخص تھے اور جاہلوں کی جہالت پر غیظ وغضب کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ ﴿ اَوَّاهٌ ﴾ ’’نرم دل تھے‘‘ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے رہتے تھے۔ ﴿ مُّنِیْبٌ ﴾ ’’رجوع کرنے والے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کی طرف توجہ کے ساتھ اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اسی لیے وہ ان لوگوں کی طرف سے جھگڑ رہے تھے جن کی ہلاکت کا اللہ تعالیٰ نے حتمی فیصلہ کر دیا تھا۔
#
{76} فقيل له: {يا إبراهيمُ أعْرِضْ عن هذا}: الجدال. {إنَّه قد جاءَ أمرُ ربِّك}: بهلاكهم، {وإنَّهم آتيهم عذابٌ غيرُ مردودٍ}: فلا فائدة في جدالك.
[76] ابراہیمu سے کہا گیا: ﴿ یٰۤا ِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰؔذَا﴾ ’’اے ابراہیم اس سے اعراض کریے‘‘ یعنی اس جھگڑے کو چھوڑیے۔ ﴿ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ﴾ ’’تمھارے رب کا حکم آچکا ہے۔‘‘ یعنی ان کی ہلاکت کا حکم ہو چکا ہے ﴿ وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ ﴾ ’’اور ان پر ایسا عذاب آنے والا ہے، جو لوٹایا نہیں جائے گا‘‘ اس لیے تمھارے جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
#
{77} {ولما جاءت رسُلُنا}؛ أي: الملائكة الذين صدروا من إبراهيم، لما أتوا {لوطاً سيء بهم}؛ أي: شقَّ عليه مجيئهم، {وضاق بهم ذَرْعاً وقال هذا يومٌ عصيبٌ}؛ أي: شديدٌ حرجٌ؛ لأنَّه علم أنَّ [قومَه] لا يتركونَهم؛ لأنَّهم في صور شباب جردٍ مردٍ في غاية الكمال والجمال.
[77] ﴿ وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا ﴾ ’’اور جب ہمارے فرشتے آئے۔‘‘ یعنی جب وہ فرشتے آئے جو جناب ابراہیمu کے پاس سے روانہ ہوئے تھے۔ ﴿ لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ﴾ ’’لوطu کے پاس تو ان کا آنا ان پر بہت شاق گزرا۔‘‘ ﴿ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ هٰؔذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ ﴾ ’’اور تنگ ہوئے دل میں اور بولے آج کا دن بڑا سخت ہے‘‘ یعنی بہت حرج والا دن ہے کیونکہ لوطu کو علم تھا کہ ان کی قوم ان کو نہیں چھوڑے گی چونکہ وہ انتہائی حسین و جمیل، نوجوان، بے ریش لڑکوں کی صورت میں آئے تھے، اس لیے ان کے بارے میں ان کے دل میں یہ خیال گزرا تھا۔
#
{78} ولهذا وَقَعَ ما خطر بباله، فجاءه {قومُهُ يُهْرَعونَ إليه}؛ أي: يسرعون ويبادرون يريدون أضيافه بالفاحشة التي كانوا يعملونها، ولهذا قال: {ومِن قَبْلُ كانوا يعملون السِّيئاتِ}؛ أي: الفاحشة التي ما سبقهم عليها أحدٌ من العالمين. {قال يا قوم هؤلاءِ بناتي هُنَّ أطهرُ لكم}: من أضيافي ـ وهذا كما عَرَضَ سليمانُ - صلى الله عليه وسلم - على المرأتين أن يَشُقَّ الولد المختصم فيه لاستخراج الحقِّ ـ ولعلمه أنَّ بناته ممتنعٌ منالهنَّ ولا حقَّ لهم فيهنَّ، والمقصود الأعظم دفعُ هذه الفاحشة الكبرى. {فاتَّقوا الله ولا تُخْزونِ في ضيفي}؛ أي: إما أن تُراعوا تقوى الله، وإما أن تراعوني في ضَيْفي ولا تخزونِي عندهم. {أليس منكم رجلٌ رشيدٌ}: فينهاكم ويزجُرُكم. وهذا دليلٌ على مروجهم وانحلالهم من الخير والمروءة.
[78] ﴿ وَجَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ﴾ ’اور ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے۔‘‘ یعنی ان کی قوم کے لوگ بھاگے بھاگے آئے وہ لوطu کے مہمانوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے تھے جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کی تھی۔ ﴿قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے میری قوم! یہ جو میری لڑکیاں ہیں تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں ۔‘‘ یعنی میری یہ بیٹیاں تمھارے لیے میرے مہمانوں سے زیادہ پاک ہیں ۔ جناب لوطu کا یہ قول اسی طرح ہے۔ جس طرح حضرت سلیمانu نے تحقیق حق کی خاطر ان دونوں عورتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ متنازع فیہ بچے کو دو ٹکڑوں میں برابر کاٹ کر دونوں میں تقسیم کر دیا جائے کیونکہ انھیں علم تھا کہ ان کی بیٹیاں ان کا مقصد نہ تھیں اور نہ ان میں ان کا کوئی حق تھا۔ اس سے جناب لوطu کا سب سے بڑا مقصد اس بڑی بدکاری کو روکنا تھا۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْـفِیْ﴾ ’’پس اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔‘‘ یعنی یا تو تم اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی رعایت رکھو یا تم میرے مہمانوں کے بارے میں میرا لحاظ رکھو اور مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرو۔ ﴿اَلَ٘یْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ﴾ ’’کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی سمجھ دار نہیں ہے‘‘ جو تمھیں روکے اور تمھیں زجر و توبیخ کرے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور مروت سے بالکل خالی تھے۔
#
{79} فـ {قَالُوا} له: {لقد علمتَ ما لنا في بناتِكَ من حقٍّ وإنَّك لتعلمُ ما نريدُ}؛ أي: لا نريد إلاَّ الرجال، ولا لنا رغبةٌ في النساء.
[79] ﴿ قَالُوْا﴾ انھوں نے لوطu سے کہا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِیْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ١ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ ﴾ ’’تو تو جانتا ہے ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں اور تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں ‘‘ یعنی ہم صرف مردوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے ہیں اور عورتوں میں ہمیں کوئی رغبت نہیں ۔
#
{80} فاشتدَّ قلقُ لوطٍ عليه الصلاة والسلام و {قال لو أنَّ لي بكم قوَّةً أو آوي إلى ركنٍ شديدٍ}؛ كقبيلة مانعةٍ؛ لمنعتكم. وهذا بحسب الأسباب المحسوسة، وإلاَّ؛ فإنَّه يأوي إلى أقوى الأركان، وهو الله الذي لا يقوم لقوته أحدٌ.
[80] پس لوطu کو شدید قلق ہوا ﴿قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْ٘نٍ شَدِیْدٍ ﴾ ’’انھوں نے کہا، کاش میرے پاس تمھارے مقابلے میں قوت ہوتی یا میں کسی مستحکم پناہ میں جا بیٹھتا‘‘مثلاً: کوئی قبیلہ ہوتا جو تمھاری دست درازیوں کو روکتا۔ یہ بات انھوں نے اسباب محسوسہ کی بنا پر کہی تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ لوطu سب سے زیادہ مضبوط سہارے، یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں تھے۔ جس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
#
{81} ولهذا لمَّا بَلَغَ الأمرُ منتهاه واشتدَّ الكربُ؛ {قالوا} له: {إنَّا رسلُ ربِّك}؛ أي: أخبروه بحالهم ليطمئنَّ قلبُه، {لن يَصِلوا إليكَ}: بسوءٍ. ثم قال جبريل بجناحِهِ، فطمس أعينَهم، فانطلقوا يتوعَّدون لوطاً بمجيء الصبح، وأمر الملائكةُ لوطاً أن يَسْرِيَ بأهله {بِقِطْع من الليل}؛ أي: بجانب منه قبل الفجر بكثير؛ ليتمكَّنوا من البعدِ عن قريتهم، {ولا يلتفتْ منكُم أحدٌ}؛ أي: بادروا بالخروج، وليكن همُّكم النجاءَ، ولا تلتفِتوا إلى ما وراءكم، {إلاَّ امرأتَكَ إنَّه مصيبُها}: من العذاب {ما أصابهم}؛ لأنَّها تشارِكُ قومها في الإثم، فتدلُّهم على أضياف لوطٍ إذا نزل به أضيافٌ. {إنَّ موعِدَهم الصُّبحُ}: فكأنَّ لوطاً استعجلَ ذلك، فقيل له: {أليس الصبحُ بقريبٍ}.
[81] اس لیے جب ان کے معاملے کی انتہا ہوگئی اور کرب شدید ہوگیا تو ﴿ قَالُوْا ﴾ فرشتوں نے لوطu سے کہا: ﴿ یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ ﴾ ’’اے لوط! ہم تیرے رب کے فرشتے ہیں ۔‘‘ یعنی فرشتوں نے لوطu کو اپنی اصلیت کے بارے میں آگاہ کیا تاکہ انھیں اطمینان قلب حاصل ہو۔ ﴿ لَنْ یَّصِلُوْۤا اِلَیْكَ ﴾ ’’یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘ پھر حضرت جبریلu نے اپنا پَر ہلایا اور ان کو اندھا کر دیا اور وہ لوطu کو صبح آنے کی دھمکی دیتے ہوئے چلے گئے۔ فرشتوں نے حضرت لوطu سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں ﴿ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ ﴾ ’’رات کے کسی حصہ میں ‘‘ یعنی طلوع صبح سے بہت پہلے رات کے کسی حصے میں تاکہ وہ صبح ہوتے بستی سے بہت دور نکل جائیں ۔ ﴿ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ ﴾ ’’اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔‘‘ یعنی بستی سے نکلنے میں جلدی کریں تمھارا مقصد عذاب سے بچنا ہونا چاہیے، لہٰذا پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ ﴿ اِلَّا امْرَاَتَكَ١ؕ اِنَّهٗ مُصِیْبُهَا ﴾ ’’بجز تیری بیوی کے، اسے عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔‘‘ ﴿ مَاۤ اَصَابَهُمْ﴾ ’’وہی (عذاب) جو ان پر آئے گا۔‘‘ کیونکہ یہ عورت بھی اپنی قوم کے گناہ میں برابر کی شریک تھی۔ جب حضرت لوطu کے پاس مہمان آتے تو یہ ان کی آمد کے بارے میں کفار کو اطلاع دیا کرتی تھی۔ ﴿اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ﴾ ’’ان کے وعدے کا وقت صبح ہے۔‘‘ یعنی ان پر عذاب نازل کرنے کے لیے صبح کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ گویا لوطu کی خواہش تھی کہ ان پر بہت جلد عذاب نازل ہو جائے، چنانچہ ان سے کہا گیا: ﴿ اَلَ٘یْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ ﴾ ’’کیا صبح قریب نہیں ؟‘‘
#
{82} {فلما جاء أمرُنا}: بنزولِ العذاب وإحلاله فيهم {جَعَلْنا}: ديارهم {عالِيَها سافِلَها}؛ أي: قلبناها عليهم، {وأمْطَرْنا عليها حجارةً من سِجِّيلٍ}؛ أي: من حجارة النار الشديدة الحرارة، {منضودٍ}؛ أي: متتابعة تتبع من شذَّ عن القرية.
[82] ﴿فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا ﴾ ’’تو جب ہمارا حکم آیا۔‘‘ یعنی جب ان پر نزول عذاب کا وقت آپہنچا ﴿جَعَلْنَا﴾ ’’کردیا ہم نے۔‘‘ ان کی بستیوں کو ﴿ عَالِیَهَا سَافِلَهَا ﴾ ’’اوپر نیچے‘‘ یعنی ہم نے تلپٹ کر دیا ﴿ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ﴾ ’’اور برسائے ان پر پتھر کھنگر کے‘‘ یعنی سخت حرارت والی آگ میں پکے ہوئے پتھر ان پر برسائے گئے۔ ﴿ مَّنْضُوْدٍ﴾ ’’تہ بہ تہ‘‘ یعنی ان پر تابڑ توڑ پتھر برسائے گئے جو بستی سے بھاگنے والوں کا پیچھا کرتے تھے۔
#
{83} {مسوَّمةً عند ربِّك}؛ أي: معلمة عليها علامة العذاب والغضب، {وما هي من الظالمينَ}: الذين يشابهون لفعل قوم لوطٍ، {ببعيد}: فليحذرِ العبادُ أن يفعلوا كفعلهم؛ لئلاَّ يصيبَهم ما أصابهم.
[83] ﴿ مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ﴾ ’’نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس‘‘ یعنی ان پر عذاب اور غضب کی علامت لگی ہوئی تھی ﴿وَمَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ﴾ ’’اور وہ (بستی ان) ظالموں سے کچھ دور نہیں ۔‘‘ یعنی جو لوگ قوم لوط کے فعل کی مشابہت کرتے ہیں یہ بستی ان سے کچھ دور نہیں ۔ پس بندوں کو ان جیسے کام کرنے سے بچنا چاہیے تاکہ ان پر بھی وہ عذاب نازل نہ ہو جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔
آیت: 84 - 95 #
{وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ (84) وَيَاقَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (85) بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ (86) قَالُوا يَاشُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ (87) قَالَ يَاقَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (88) وَيَاقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِيدٍ (89) وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ (90) قَالُوا يَاشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ (91) قَالَ يَاقَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (92) وَيَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ (93) وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ (94) كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا بُعْدًا لِمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ (95)}.
اور (بھیجا ہم نے) طرف (اہل) مدین کی ان کے بھائی شعیب کو، اے میری قوم! تم عبادت کرو اللہ کی نہیں واسطے تمھارے کوئی معبود سوائے اس کے، اور نہ کم کرو تم ماپ اور تول کو، بے شک میں دیکھتا ہوں تمھیں آسودگی میں اور بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک گھیرنے والے دن کے (84) اور اے میری قوم! پورا کرو تم ماپ اور تول کو ساتھ انصاف کےاور مت کم دو تم لوگوں کو چیزیں ان کی اور نہ پھرو تم زمین میں فسادی بن کر (85) بچت اللہ کی (جائز نفع) بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگر ہو تم مومن اور نہیں ہوں میں تم پر محافظ(86)انھوں نے کہا، اے شعیب! کیا تیری نماز حکم دیتی ہے تجھے یہ کہ ہم چھوڑ دیں ان (معبودوں ) کو جن کی عبادت کرتے تھے باپ دادا ہمارے؟ یا (چھوڑ دیں ہم) کرنا اپنے مالوں میں جو ہم چاہیں ، بلاشبہ تو البتہ بہت بردبار، بڑا سمجھدار ہے (87) شعیب نے کہا، اے میری قوم! بھلا بتلاؤ! ( میں کیسے نافرمان بنوں ؟)اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے،اور دیا ہو اس نے مجھے اپنی طرف سے رزق اچھا اور نہیں چاہتا میں کہ مخالفت کروں تمھاری طرف ان کاموں کے کہ روکتا ہوں میں تمھیں ان سے، نہیں چاہتا میں مگر اصلاح( تمھاری)، جس قدر استطاعت رکھتا ہوں میں اور نہیں توفیق مجھے مگر ساتھ اللہ(کی مدد) کے، اسی پر توکل کیامیں نے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں (88) اور اے میری قوم! نہ باعث بنے تمھارے لیے میری مخالفت (اس بات کی) کہ پہنچے تمھیں مانند اس عذاب کے جو پہنچاقوم نوح کو اور قوم ہود کو اور قوم صالح کو اور نہیں قوم لوط تم سے کچھ دور (89) اور تم مغفرت طلب کرو اپنے رب سے ، پھر توبہ کرو اسی کی طرف، بلاشبہ میرا رب بڑا رحم والا نہایت محبت کرنے والا ہے (90)انھوں نے کہا، اے شعیب! نہیں سمجھتے ہم بہت کچھ اس میں سے جو تو کہتا ہےاور بے شک ہم البتہ دیکھتے ہیں تجھے درمیان اپنے ضعیف اور اگر نہ ہوتا قبیلہ تیرا تو یقینا سنگسار کر دیتے ہم تجھےاور نہیں ہے تو ہم پر کچھ غالب (91) شعیب نے کہا، اے میری قوم! کیا میر ا قبیلہ زیادہ دباؤ والا ہے تم پر اللہ سے؟ اور کر دیا تم نے اللہ کو پیچھے ڈالا ہوا اپنی پیٹھوں کے ، بے شک میرا رب ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو گھیرنے والا ہے (92) اور اے میری قوم! تم عمل کرو اوپر اپنی جگہ کے، بلاشبہ میں بھی عمل کر رہا ہوں عنقریب تم جان لوگے کہ کون شخص ہے کہ آتا ہے اس پر (ایسا) عذاب جو رسوا کرے گا اسے؟ اور کون ہے کہ وہ جھوٹا ہے؟اور تم انتظار کرو، بے شک میں بھی تمھارے ساتھ منتظر ہوں (93) اور جب آیاحکم (عذاب) ہمارا تو نجات دی ہم نے شعیب کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے ساتھ اس کے، ساتھ اپنی رحمت کےاورآپکڑا ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا تھا چیخ نے، پس وہ ہو گئے اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے (94) گویا کہ وہ نہ رہے تھے ان میں ، آگاہ رہو! دوری ہے (اہل) مدین کے لیے جیسے (رحمت سے) دور ہوئے تھے ثمود (95)
#
{84} أي: {و} أرسلنا {إلى مدينَ}: القبيلة المعروفة، الذين يسكنون مَدْيَنَ، في أدنى فلسطين، {أخاهم}: في النسب، {شُعيباً}: لأنَّهم يعرفونه ويتمكَّنون من الأخذ عنه، فقال لهم: {يا قومِ اعبُدوا الله ما لكم من إلهٍ غيرُه}؛ أي: أخلصوا له العبادة؛ فإنَّهم كانوا يشرِكون [به]، وكانوا مع شركهم يَبْخَسون المكيال والميزان، ولهذا نهاهم عن ذلك، فقال: {ولا تَنقُصوا المِكْيال والميزانَ}: بل أوفوا الكيل والميزان بالقسط. {إني أراكُم بخيرٍ}؛ أي: بنعمة كثيرةٍ وصحَّة وكثرة أموال وبنين؛ فاشكُروا الله على ما أعطاكم، ولا تكفروا بنعمة الله فيزيلها عنكم. {وإنِّي أخافُ عليكم عذابَ يوم محيطٍ}؛ أي: عذاباً يحيط بكم ولا يُبقي منكم باقيةً.
[84] ﴿ وَاِلٰى مَدْیَنَ ﴾ ’’اور مدین کی طرف بھیجا‘‘ مدین ایک معروف قبیلہ تھا جو فلسطین کے زیریں علاقے مدین میں آباد تھا۔ ﴿ اَخَاهُمْ ﴾ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿ شُعَیْبًا﴾ ’’شعیب (u) کو۔‘‘ گویا وہ جناب شعیبu کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان سے ان کے لیے کچھ حاصل کرنا ممکن تھا۔ ﴿ قَالَ ﴾ شعیبu نے ان سے کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰ٘هٍ غَیْرُهٗ﴾ ’’اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ یعنی اس کے لیے عبودیت کو خالص کرو… کیونکہ وہ لوگ شرک میں مبتلا تھے۔ شرک کرنے کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کرتے تھے، اس لیے شعیبu نے ان کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ ﴿ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْـیَالَ وَالْمِیْزَانَ﴾ ’’اور نہ کم کرو ماپ اور تول کو‘‘ بلکہ ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ﴿ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ ﴾ ’’میں تمھیں آسودہ حال دیکھتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں دیکھتا ہوں کہ تم بے شمار نعمتوں ، صحت اور کثرت مال و اولاد سے بہرہ مند ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو کچھ عطا کر رکھا ہے اس پر اس کا شکر کرو اور کفران نعمت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں واپس لے لے ﴿ وَّاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ﴾ ’’اور میں ڈرتا ہوں تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب سے‘‘ یعنی ایسا عذاب جو تمھیں گھیر لے گا اور تم میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔
#
{85} {ويا قوم أوفوا المكيالَ والميزان بالقِسْطِ}؛ أي: بالعدل الذي ترضَوْن أن تعطوه، {ولا تَبخَسوا الناس أشياءهم}؛ أي: لا تنقصوا من أشياء الناس، فتسرقوها بأخذها بنقص المكيال والميزان، {ولا تَعْثَوْا في الأرض مفسِدينَ}: فإنَّ الاستمرار على المعاصي يفسِدُ الأديان والعقائد والدِّين والدُّنيا ويهلِكُ الحرثَ والنسل.
[85] ﴿وَیٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْـیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ ﴾ ’’اے میری قوم، پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ‘‘ یعنی عدل و انصاف کے ساتھ، جو تم چاہتے ہو کہ تمھیں بھی اسی طرح دیا جائے۔ ﴿ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ﴾ ’’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔‘‘ یعنی لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور ناپ اور تول میں کمی کر کے لوگوں کی چیزیں چوری نہ کرو۔ ﴿ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور زمین میں فساد مت مچاؤ‘‘ کیونکہ گناہوں پر اصرار، ادیان و عقائد اور دین و دنیا کو خراب اور کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے۔
#
{86} {بقيةُ الله خيرٌ لكم}؛ أي: يكفيكم ما أبقى الله لكم من الخير وما هو لكم؛ فلا تطمَعوا في أمرٍ لكم عنه غُنيةٌ وهو ضارٌّ لكم جدًّا، {إن كنتُم مؤمنينَ}: فاعملوا بمقتضى الإيمان. {وما أنا عليكم بحفيظٍ}؛ أي: لست بحافظٍ لأعمالكم ووكيل عليها، وإنَّما الذي يحفظها الله تعالى، وأمَّا أنا فأبلِّغكم ما أرسلتُ به.
[86] ﴿ بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّـكُمْ ﴾ ’’جو بچ رہے اللہ کا دیا، وہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے جو بھلائی باقی رکھی ہے وہ تمھارے لیے کافی ہے، پس ایسے معاملے کی طمع نہ کرو جس سے تم مستغنی ہو اور وہ تمھارے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اگر تم مومن ہو‘‘ پس اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ ﴿ وَمَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ ﴾ ’’اور میں تم پر نگران نہیں ہوں ۔‘‘ یعنی میں تمھارے اعمال کا محافظ اور ان پر نگران نہیں ہوں۔ تمھارے اعمال کا نگران تو اللہ تعالیٰ ہے۔ میں تو تمھیں وہ پیغام پہنچا دیتا ہوں جو میری طرف بھیجا جاتا ہے۔
#
{87} {قالوا يا شُعيبُ أصلاتُكَ تأمُرُك أن نَتْرُكَ ما يعبدُ آباؤنا}؛ أي: قالوا ذلك على وجه التهكُّم بنبيِّهم والاستبعاد لإجابتهم له، ومعنى كلامهم: أنَّه لا موجب لنهيك لنا إلاَّ أنك تصلي لله وتتعبَّد له؛ أفإنْ كنتَ كذلك؛ أفيوجِبُ لنا أن نتركَ ما يعبدُ آباؤنا لقولٍ ليس عليه دليلٌ إلاَّ أنه موافقٌ لك؟! فكيف نتَّبعك ونترك آباءنا الأقدمين أولي العقول والألباب؟! وكذلك لا يوجِبُ قولُك لنا أن نفعلَ في أموالنا ما قلتَ لنا من وفاء الكيل والميزان وأداء الحقوق الواجبة فيها، بل لا نزالُ نفعل فيها ما شئنا؛ لأنَّها أموالُنا، فليس لك فيها تصرُّف، ولهذا قالوا في تهكُّمهم: {إنَّك لأنتَ الحليمُ الرشيدُ}؛ أي: أئنك أنت الذي الحلم والوَقارُ لك خُلُقٌ والرُّشْدُ لك سجيَّةٌ؛ فلا يصدُرُ عنك إلا رشدٌ، ولا تأمرُ إلاَّ برشدٍ، ولا تنهى إلاَّ عن غيٍّ؟! أي: ليس الأمر كذلك، وقصدُهم أنَّه موصوفٌ بعكس هذين الوصفين: بالسَّفه والغواية؛ أي: أن المعنى: كيف تكونُ أنت الحليم الرشيد، وآباؤنا هم السفهاء الغاوين؟! وهذا القول الذي أخرجوه بصيغة التهكُّم وأنَّ الأمر بعكسه ليس كما ظنُّوه، بل الأمر كما قالوه: إنَّ صلاته تأمُرُه أن ينهاهم عمَّا كان يعبدُ آباؤهم الضالُّون وأن يفعلوا في أموالهم ما يشاؤون؛ فإنَّ الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر، وأيُّ فحشاء ومنكرٍ أكبر من عبادة غير الله، ومن منع حقوق عباد الله، أو سرقتها بالمكاييل والموازين، وهو عليه الصلاة والسلام الحليم الرشيد؟!
[87] ﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰ٘وتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے‘‘ یہ بات انھوں نے اپنے نبی سے تمسخر کرتے ہوئے اور ان کی دعوت کے قبول کرنے کو بعید سمجھتے ہوئے کہی تھی۔ ان کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ تو ہمیں ان باتوں سے صرف اس لیے منع کرتا ہے کہ تو نماز پڑھتا ہے اور اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر یہ معاملہ ہے تو کیا ہم ان معبودوں کی عبادت، جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، محض تیرے قول پر چھوڑ دیں ، جس پر کوئی دلیل نہیں ؟ سوائے اس کے کہ وہ تیری خواہش کے موافق ہے۔ پس ہم اپنے عقل مند آبا ءو اجداد کو چھوڑ کر تیری اتباع کیسے کر سکتے ہیں ؟ اسی طرح تمھارا ہمیں یہ کہنا ﴿ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا﴾ ’’یا چھوڑ دیں ہم کرنا اپنے مالوں میں جو چاہیں ‘‘ یعنی تو جو کہتا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے موافق تصرف نہ کریں بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق ماپ اور تول کو پورا کریں اور مال میں جو حقوق واجبہ ہیں ، انھیں ادا کریں ۔ ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنے اموال کے بارے میں جو چاہیں گے کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ہمارے اموال ہیں ان میں تصرف کا تمھیں کوئی حق نہیں ۔ بنابریں انھوں نے ازراہ تمسخر کہا: ﴿ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ﴾ ’’تو تو بڑا بردبار اور راست باز ہے۔‘‘ یعنی تو تو وہ شخص ہے کہ حلم و وقار تیرا اخلاق ہے، رشد و ہدایت تیری عادت ہے، رشد و ہدایت کے سوا تجھ سے کچھ صادر نہیں ہوتا ،تو رشد و ہدایت کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا اور تو گمراہی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا… یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد درحقیقت یہ تھا کہ شعیبu اس سے برعکس حماقت اور گمراہی کے اوصاف سے متصف ہیں … اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم تو حلیم و رشید ہو اور ہمارے آباء و اجداد احمق اور گمراہ؟ اور یہ قول جس کی انھوں نے تمسخر اور استہزاء کے طریقے سے تخریج کر کے معاملے کو شعیبu کے قول کے برعکس ثابت کرنے کی کوشش کی ہے… ایسے نہیں جیسے وہ سمجھتے ہیں ۔ بلکہ معاملہ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں ۔ بے شک شعیبu کی نماز انھیں حکم دیتی ہے کہ وہ انھیں ان باطل معبودوں کی عبادت سے روکیں جن کی عبادت ان کے گمراہ آباء و اجداد کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے اموال میں ویسے ہی تصرف کریں گے جیسے ہم چاہیں گے… کیونکہ نماز خود فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت سے بڑھ کر کون سا کام برا اور فحش ہے اور اس شخص سے بڑھ کر کون فحش کاموں کا ارتکاب کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے یا ناپ تول میں کمی کر کے ان کے مال کو چرا لیتا ہے اور شعیبu کا وصف تو حلم و رشد ہے۔
#
{88} {قال} لهم شعيبٌ: {يا قوم أرأيتُم إن كنتُ على بيِّنةٍ من ربِّي}؛ أي: يقين وطمأنينة في صحَّة ما جئت به، {ورَزَقَني منه رزقاً حسناً}؛ أي: أعطاني الله من أصناف المال ما أعطاني، {و} أنا لا {أريدُ أن أخالِفَكم إلى ما أنهاكم عنه}: فلستُ أريدُ أنْ أنهاكم عن البَخْس في المكيال والميزان وأفعله أنا حتى تتطرق إليَّ التُّهمة في ذلك، بل ما أنهاكم عن أمر إلا وأنا أول مبتدرٍ لتركِهِ. {إن أريدُ إلاَّ الإصلاح ما استطعتُ}؛ أي: ليس لي من المقاصد إلاَّ أن تَصْلُحَ أحوالكم وتستقيم منافعكم، وليس لي من المقاصد الخاصَّة لي وحدي شيءٌ بحسب استطاعتي. ولما كان هذا فيه نوعُ تزكيةٍ للنفس؛ دَفَعَ هذا بقوله: {وما توفيقي إلاَّ بالله}؛ أي: وما يحصل لي من التوفيق لفعل الخير و الانفكاك عن الشرِّ إلاَّ بالله تعالى، لا بحولي ولا بقوَّتي. {عليه توكلتُ}؛ أي: اعتمدتُ في أموري ووثقتُ في كفايته. {وإليه أنيبُ}: في أداء ما أمرني به من أنواع العبادات، وفي هذا التقرُّب إليه بسائر أفعال الخيرات، وبهذين الأمرين تستقيمُ أحوال العبد، وهما الاستعانةُ بربِّه والإنابة إليه؛ كما قال تعالى: {فاعبُدْه وتوكَّلْ عليه}. وقال: {إيَّاك نعبدُ وإيَّاك نستعينُ}.
[88] ﴿قَالَ﴾ جناب شعیبu نے ان سے کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ ﴾ ’’اے میری قوم! بھلا بتلاؤ، اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے‘‘ یعنی خواہ مجھے اس وحی کی صحت پر یقین اور اطمینان ہو ﴿ وَرَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ﴾ ’’اور اس نے روزی دی مجھ کو اچھی روزی‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے رزق کی مختلف اصناف عطا کر رکھی ہیں ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰؔىكُمْ عَنْهُ﴾ ’’اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد میں خود وہ کام کروں جس سے میں تمھیں روکتا ہوں ‘‘ پس میں نہیں چاہتا کہ میں تمھیں تو ناپ تول سے منع کروں اور خود اس برائی کا ارتکاب کرتا رہوں اور اس بارے میں تہمت اٹھاتا رہوں بلکہ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ میں جس کام سے تمھیں روکتا ہوں اس کو سب سے پہلے خود ترک کرتا ہوں ۔ ﴿ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ﴾ ’’میں تو اصلاح کرنی چاہتا ہوں جہاں تک ہو سکے‘‘ یعنی اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں کہ تمھارے احوال کی اصلاح ہو اور تمھارے منافع درست ہوں اور اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل کرنا میرا مقصد نہیں ۔ حسب استطاعت میں کام کرتا ہوں اور چونکہ اس میں ایک قسم کے تزکیہ نفس کا دعویٰ ہے اس لیے اس قول کے ذریعے سے اس کو دور کیا ﴿ وَمَا تَوْفِیْـقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ﴾ ’’اور سب صرف اللہ کی توفیق سے ہے‘‘ یعنی بھلائی کے کام کرنے اور شر سے بچنے کی توفیق مجھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ اس میں میری قوت و اختیار کا کوئی دخل نہیں ۔ ﴿ عَلَیْهِ تَوَكَّؔلْتُ ﴾ ’’میں اسی پر توکل کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کے کافی ہونے پر مجھے اعتماد ہے۔ ﴿ وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ ﴾ ’’اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘ اس نے مختلف اقسام کی عبادات کا جو مجھے حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لیے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور ان دو امور کے ذریعے سے بندۂ مومن کے احوال درست ہوتے ہیں : ۱۔ اپنے رب سے مدد طلب کرنا۔ ۲۔ اور اس کی طرف رجوع کرنا… جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ﴾ (ھود: 11؍123) ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اور اسی پر بھروسا کر۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اِیَّ٘اكَ نَعْبُدُ وَاِیَّ٘اكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحہ: 1؍4) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔‘‘
#
{89} {ويا قوم لا يجرمنَّكم شِقاقي}؛ أي: لا تحملنَّكم مخالفتي ومشاقَّتي، {أن يصيبَكُم}: من العقوبات، {مثلُ ما أصاب قومَ نوحٍ أو قومَ هودٍ أو قومَ صالحٍ وما قومُ لوطٍ منكم ببعيد}: لا في الدار ولا في الزمان.
[89] ﴿وَیٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ﴾ ’’اے میری قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے۔‘‘ یعنی میری دشمنی اور مخالفت تمھیں ایسے کام پر آمادہ نہ کرے۔ ﴿ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ ﴾ کہ تم پر عذاب نازل ہو جائے۔ ﴿ مِّثْ٘لُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ١ؕ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّؔنْكُمْ بِبَعِیْدٍ ﴾ ’’جو نازل ہوا قوم نوح، قوم ہود یا قوم صالح پر اور قوم لوط تو تم سے زیادہ دور نہیں ہے‘‘ یعنی زمان و مکان، دونوں اعتبار سے تم سے دور نہیں ۔
#
{90} {واستغفِروا ربَّكم}: عما اقترفتم من الذُّنوب، {ثمَّ توبوا إليه}: فيما يستقبل من أعماركم بالتوبة النَّصوح والإنابة إليه بطاعته وترك مخالفته. {إنَّ ربِّي رحيمٌ ودودٌ}: لمن تاب وأناب؛ يرحمه فيغفر له ويتقبَّل توبته ويحبُّه. ومعنى الودود من أسمائه تعالى: أنَّه يحبُّ عباده المؤمنين ويحبُّونه؛ فهو فعولٌ بمعنى فاعل ومعنى مفعول.
[90] ﴿وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ﴾ ’’اور اپنے رب سے بخشش مانگو۔‘‘ یعنی تم سے جن گناہوں کا ارتکاب ہوا ہے ان پر بخشش طلب کرو۔ ﴿ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ﴾ ’’پھر اس کے حضور توبہ کرو۔‘‘ تمام عمر میں آئندہ گناہوں پر خالص توبہ کرو اور اس کی اطاعت اور ترک مخالفت کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرو ﴿ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ﴾ ’’بے شک میرا رب رحم والا، محبت والا ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے، اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے (اَلْوَدُود) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔ (ودود) (فعول) کے وزن پر ’’فاعل‘‘ اور ’’مفعول‘‘ دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
#
{91} {قالوا يا شعيبُ ما نَفْقَهُ كثيراً مما تقولُ}؛ أي: تضجَّروا من نصائحِهِ ومواعظِهِ لهم، فقالوا: ما نفقهُ كثيراً مما تقولُ، وذلك لبُغْضِهم لما يقولُ ونفرتهم عنه. {وإنَّا لنراك فينا ضعيفاً}؛ أي: في نفسك، لست من الكبار والرؤساء، بل من المستضعفين. {ولولا رهطُكَ}؛ أي: جماعتك وقبيلتك، {لَرَجَمْناك وما أنت علينا بعزيز}؛ أي: ليس لك قَدْرٌ في صدورنا ولا احترامٌ في أنفسنا، وإنما احترمنا قبيلتك بتركنا إياك.
[91] ﴿ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّؔمَّؔا تَقُوْلُ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے شعیب! تیری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔‘‘ یعنی وہ شعیبu کے وعظ و نصیحت سے بہت زچ ہوئے اور ان سے کہنے لگے ’’ہم نہیں سمجھتے بہت سی وہ باتیں جو تو کہتا ہے‘‘ یہ بات محض اس لیے کہتے تھے کیونکہ انھیں شعیبu کی دعوت سے بغض اور ان سے نفرت تھی۔ ﴿ وَاِنَّا لَـنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا﴾ ’’اور ہم تجھے اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں ‘‘ یعنی تو اپنی حیثیت میں بہت کمزور آدمی ہے، تیرا شمار اشراف اور رؤسا میں نہیں ہوتا بلکہ تیرا شمار مستضعفین میں ہوتا ہے۔ ﴿ وَلَوْلَا رَهْطُكَ ﴾ ’’اگر تیری جماعت اور تیرا قبیلہ نہ ہوتا‘‘ ﴿ لَرَجَمْنٰكَ١ٞ وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ﴾ ’’تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے اور ہماری نگاہ میں تیری کوئی عزت نہیں ‘‘ یعنی ہمارے دل میں تیری کوئی قدر اور کوئی احترام نہیں ۔ ہم تجھے چھوڑ کر دراصل تیرے قبیلے کا احترام کررہے ہیں ۔
#
{92} {قال} لهم مترقِّقاً لهم: {يا قومِ أرَهْطي أعزُّ عليكم من الله}؛ أي: كيف تراعونني لأجل رَهْطي ولا تراعونني لله، فصار رَهْطي أعزَّ عليكم من الله. {واتَّخذتُموه وراءكم ظِهْرِيًّا}؛ أي: نبذتُم أمر الله وراء ظهوركم، ولم تُبالوا به، ولا خِفْتُم منه. {إنَّ ربِّي بما تعملون محيطٌ}: لا يخفى عليه من أعمالكم مثقالُ ذرَّة في الأرض ولا في السماء، فسيُجازيكم على ما عملتم أتمَّ الجزاء.
[92] ﴿قَالَ﴾ حضرت شعیبu نے ان کو نرم کرنے کے لیے کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اَرَهْ٘طِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمھارے ہاں اللہ سے زیادہ عزیز ہے‘‘ یعنی تم میرے قبیلے کی خاطر کیسے میری رعایت کر رہے ہو مگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میری کوئی رعایت نہیں کر رہے۔ گویا میرا قبیلہ تمھارے نزدیک اللہ تعالیٰ سے زیادہ عزیز ہے۔ ﴿ وَاتَّخَذْتُمُوْهُ۠ وَرَآءَؔكُمْ ظِهْرِیًّا﴾ ’’اور اس کو ڈال دیا ہے تم نے اپنی پیٹھ پیچھے بھلا کر‘‘ یعنی تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تم نے کوئی پروا کی نہ اللہ تعالیٰ کا خوف محسوس کیا۔ ﴿ اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ﴾ ’’بے شک میرا رب تمھارے عملوں کو گھیرنے والا ہے‘‘ یعنی تمھارے اعمال زمین میں نہ آسمان میں ذرہ بھر بھی چھپے ہوئے نہیں ، پس وہ تمھارے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
#
{93} {و} لما أعيَوْه وعجز عنهم؛ قال: {يا قوم اعملوا على مكانتِكُم}؛ أي: على حالتكم ودينكم. {إنِّي عامل سوف تعلمونَ من يأتيه عذابٌ يُخزيه}: ويحلُّ عليه عذابٌ مقيمٌ، أنا أم أنتم، وقد علموا ذلك حين وقع عليهم العذابُ، {وارتقِبوا}: ما يحلُّ بي. {إنِّي معكم رقيبٌ} ما يَحِلُّ بكم.
[93] ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ جب کفار نے ان کو بہت تنگ کر کے ان کو بے بس کر دیا تو شعیبu نے ان سے کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ ﴾ ’’اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ۔‘‘ یعنی تم اپنے احوال اور اپنے دین کے مطابق عمل کرتے رہو۔ ﴿ اِنِّیْ عَامِلٌ١ؕ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ ﴾ ’’میں بھی کام کرتا ہوں ، عنقریب تم جان لو گے کہ کس کے پاس رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے‘‘ یعنی تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ کن پر رسوا کن اور ہمیشہ رہنے والا عذاب نازل ہوگا۔ ﴿ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ﴾ ’’اور جھوٹا کون ہے۔‘‘ یعنی یہ بھی تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ میں جھوٹا ہوں یا تم جھوٹے ہو اور جب ان پر عذاب واقع ہوا تو انھیں معلوم ہوگیا کہ کون جھوٹا تھا؟ ﴿ وَارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ ﴾ ’’اور تم بھی انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی تم اس بات کا انتظار کرو کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے اور میں انتظار کرتا ہوں کہ تم پر کیا عذاب نازل ہوتا ہے۔
#
{94} {ولما جاء أمرُنا}: بإهلاك قوم شعيب، {نجَّيْنا شُعيباً والذين آمنوا معه برحمةٍ منَّا وأخذتِ الذين ظلموا الصيحةُ فأصبحوا في ديارِهم جاثمينَ}: لا تَسْمَعُ لهم صوتاً، ولا ترى منهم حركةً.
[94] ﴿وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا ﴾ ’’اور جب ہمارا حکم آپہنچا۔‘‘ یعنی جب شعیب کی قوم کی ہلاکت کا وقت آپہنچا ﴿نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّؔنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَ٘ارِهِمْ جٰؔثِمِیْنَ ﴾ ’’تو ہم نے نجات دی شعیب کو اور ان کو جو ایمان لائے اس پر، اپنی رحمت سے اور آپکڑا ان ظالموں کو کڑک نے، پس صبح کو رہ گئے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے‘‘ ان کی کوئی آواز سنائی دیتی تھی نہ ان میں کوئی حرکت دکھائی دیتی تھی ۔
#
{95} {كأن لم يَغْنَوْا فيها}؛ أي: كأنهم ما أقاموا في ديارهم ولا تنَّعموا فيها حين أتاهم العذاب. {ألا بعداً لمدين}: إذْ أهلكها اللهُ وأخزاها، {كما بَعِدَتْ ثمودُ}؛ أي: قد اشتركت هاتان القبيلتان في السَّحق والبُعد والهلاك. وشعيبٌ عليه السلام كان يسمى خطيب الأنبياء؛ لحسن مراجعته لقومه. وفي قصته من الفوائد والعبر شيء كثير: منها: أن الكفار كما يعاقَبون ويخاطَبون بأصل الإسلام؛ فكذلك بشرائعه وفروعه؛ لأنَّ شعيباً دعا قومه إلى التوحيد وإلى إيفاء المكيال والميزان، وجعل الوعيد مرتباً على مجموع ذلك. ومنها: أن نقصَ المكاييل والموازين من كبائر الذُّنوب وتخشى العقوبة العاجلة على من تعاطى ذلك، وأنَّ ذلك من سرقة أموال الناس، وإذا كان سرقتهم في المكاييل والموازين موجبةً للوعيد؛ فسرِقَتُهم على وجه القهر والغلبة من باب أولى وأحرى. ومنها: أنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فمن بَخَسَ أموال الناس يريد زيادة ماله؛ عوقِبَ بنقيض ذلك، وكان سبباً لزوال الخير الذي عنده من الرزق؛ لقوله: {إني أراكم بخيرٍ}؛ أي: فلا تتسبَّبوا إلى زواله بفعلكم. ومنها: أن على العبد أن يَقْنَعَ بما آتاه الله ويَقْنَعَ بالحلال عن الحرام وبالمكاسب المباحة عن المكاسب المحرمة، وأنَّ ذلك خيرٌ له؛ لقوله: {بقيَّةُ الله خيرٌ لكم}؛ ففي ذلك من البركة وزيادة الرزق ما ليس في التكالب على الأسباب المحرَّمة من المَحْق وضدِّ البركة. ومنها: أن ذلك من لوازم الإيمان وآثاره؛ فإنَّه رتب العمل به على وجود الإيمان، فدلَّ على أنَّه إذا لم يوجد العمل؛ فالإيمان ناقصٌ أو معدومٌ. ومنها: أنَّ الصلاة لم تزل مشروعة للأنبياء المتقدِّمين، وأنَّها من أفضل الأعمال، حتى إنه متقرِّر عند الكفار فضلها وتقديمها على سائر الأعمال، وأنها تنهى عن الفحشاء والمنكر، وهي ميزانٌ للإيمان وشرائعه؛ فبإقامتها تكمُلُ أحوال العبدِ، وبعدم إقامتها تختلُّ أحواله الدينيَّة. ومنها: أنَّ المال الذي يرزقُهُ الله الإنسان، وإنْ كان الله قد خوَّله إياه؛ فليس له أن يصنع فيه ما يشاء؛ فإنه أمانةٌ عنده، عليه أن يقيم حقَّ الله فيه بأداء ما فيه من الحقوق والامتناع من المكاسب التي حرَّمها الله ورسوله، لا كما يزعمه الكفار ومن أشبههم؛ أنَّ أموالهم لهم أن يصنعوا فيها ما يشاؤون ويختارون، سواءٌ وافقَ حكمَ الله أو خالفه. ومنها: أن من تَكْمِلَةِ دعوة الداعي وتمامها: أن يكونَ أول مبادرٍ لما يأمر غيره به وأول منتهٍ عما ينهى غيره عنه؛ كما قال شعيبٌ عليه السلام: {وما أريدُ أنْ أخالِفَكم إلى ما أنهاكم عنه}، ولقوله تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لم تقولونَ ما لا تفعلونَ [كَبُرَ مقتًا عند اللهِ أن تقولوا ما لا تفعلون]}. ومنها: أن وظيفة الرسل وسنَّتهم وملَّتهم إرادةُ الإصلاح بحسب القدرة والإمكان، فيأتون بتحصيل المصالح وتكميلها أو بتحصيل ما يُقْدَرُ عليه منها، وبدفع المفاسدِ وتقليلها، ويراعون المصالح العامة على المصالح الخاصة. وحقيقة المصلحة هي التي تَصْلُح بها أحوال العباد، وتستقيم بها أمورهم الدينيَّة والدنيويَّة. ومنها: أنَّ مَن قام بما يقدِرُ عليه من الإصلاح؛ لم يكن مَلوماً ولا مَذْموماً في عدم فعله ما لا يقدِرُ عليه؛ فعلى العبدِ أن يُقيم من الإصلاح في نفسه وفي غيره ما يقدِرُ عليه. ومنها: أنَّ العبد ينبغي له أن لا يتَّكل على نفسه طرفة عين، بل لا يزال مستعيناً بربِّه، متوكِّلاً عليه، سائلاً له التوفيق، وإذا حصل له شيءٌ من التوفيق؛ فلينسبه لِموليهِ ومُسْديه ولا يُعْجَب بنفسه؛ لقوله: {وما توفيقي إلاَّ بالله عليه توكلتُ وإليه أُنيبُ}. ومنها: الترهيب بأخذات الأمم، وما جرى عليهم، وأنه ينبغي أنْ تُذْكَرَ القَصصُ التي فيها إيقاعُ العقوبات بالمجرمين في سياق الوعظ والزجر؛ كما أنه ينبغي ذِكْرُ ما أكرم الله به أهل التقوى عند الترغيب والحثِّ على التقوى. ومنها: أن التائب من الذنب كما يُسمح له عن ذنبه ويُعفى عنه؛ فإنَّ الله تعالى يحبُّه ويودُّه، ولا عبرة بقول من يقول: إنَّ التائبَ إذا تاب؛ فحسبُه أن يُغْفَرَ له ويعودَ عليه العفو، وأما عَوْدُ الودِّ والحبِّ؛ فإنه لا يعودُ؛ فإنَّ الله قال: {واستغفِروا ربَّكم ثمَّ توبوا إليه إنَّ ربي رحيمٌ ودودٌ}. ومنها: أنَّ الله يدفع عن المؤمنين بأسبابٍ كثيرةٍ قد يعلمون بعضها وقد لا يعلمون شيئاً منها، وربما دَفَعَ عنهم بسبب قبيلتهم وأهل وطنهم الكفار؛ كما دفع الله عن شعيبٍ رجمَ قومِهِ بسبب رهطِهِ. وأنَّ هذه الروابط التي يحصُلُ بها الدفع عن الإسلام والمسلمين لا بأس بالسعي فيها، بل ربَّما تعيَّن ذلك؛ لأنَّ الإصلاح مطلوبٌ على حسب القدرة والإمكان؛ فعلى هذا لو ساعد المسلمون الذين تحت ولاية الكفار، وعملوا على جعل الولاية جمهوريَّةً يتمكَّن فيها الأفرادُ والشعوبُ من حقوقهم الدينيَّة والدنيويَّة؛ لكان أولى من استسلامهم لدولةٍ تقضي على حقوقهم الدينيَّة والدنيويَّة، وتحرص على إبادتها وجعلهم عَمَلَةً وخدماً لهم. نعم؛ إنْ أمكن أن تكون الدولة للمسلمين وهم الحكام؛ فهو المتعيِّن، ولكن لعدم إمكان هذه المرتبة؛ فالمرتبة التي فيها دفعٌ ووقايةٌ للدين والدنيا مقدمة. والله أعلم.
[95] ﴿كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا﴾ یعنی گویا وہ اپنی بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ایسے لگتا تھا کہ گویا انھوں نے کبھی نعمتوں سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا تھا۔ ﴿اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ﴾ ’’سنو، پھٹکار ہے مدین کے لیے‘‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مدین کو ہلاک اور رسوا کیا ﴿ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ﴾ ’’جیسے پھٹکار ہوئی ثمود پر‘‘ یعنی پھٹکار، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور ہلاکت میں دونوں قبیلے مشترک تھے۔ حضرت شعیبu کو، قوم کے ساتھ ان کے حسن گفتگو کی بنا پر ’’خطیب الانبیاء‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قصہ سے بہت سے فوائد اور بہت سی عبرتیں مستنبط ہوتی ہیں : (۱) کفار کو جس طرح اصول اسلام کے ذریعے سے مخاطب کیا جاتا ہے اور اسی بنا پر ان کو عذاب دیا جاتا ہے، اسی طرح شرائع اسلام اور اس کی فروع میں بھی وہ مخاطب ہیں کیونکہ جناب شعیبu نے اپنی قوم کو توحید اور ناپ تول کے پورے کرنے کی دعوت دی تھی اور مجموعی طور پر توحید اور ناپ تول کو پورا کرنے کے حکم کی عدم تعمیل پر وعید کو مترتب کیا۔ (۲) ناپ تول میں کمی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں ڈر ہے کہ کہیں وہ عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ ناپ تول میں کمی کرنا لوگوں کا مال چوری کرنے کے مترادف ہے۔ جب ناپ تول کے ذریعے سے چوری کرنا عذاب کی وعید کا موجب ہے تو جبر اور تغلب کے ذریعے سے لوگوں کے مال چوری کرنا بدرجہ اولیٰ وعید کا موجب ہے۔ (۳) عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے۔ جو کوئی لوگوں کے مال کو کم کر کے خود اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کے مال میں کمی کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا۔ ناپ تول میں کمی اس کے رزق کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ ﴾ ’’میں تمھیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں ‘‘ اس لیے اپنے کرتوتوں کے ذریعے سے اس رزق کے زوال کا باعث نہ بنو۔ (۴) بندے پر واجب ہے کہ وہ اس رزق پر قناعت کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے، چنانچہ وہ حرام کو چھوڑ کر حلال پر اور حرام ذرائع اکتساب کو چھوڑ کر حلال ذرائع پر قناعت کرے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے ﴿ بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّـكُمْ﴾ ’’اللہ کا عطا کیا ہوا نفع تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ حلال ذرائع اکتساب میں جو برکت اور اضافۂ رزق ہے، وہ دنیا کی حرص کی خاطر حرام اسباب کسب اختیار کرنے میں نہیں ۔ اس میں سراسر مال کا زوال اور برکت کی ضد ہے۔ (۵) یہ لوازم ایمان اور اس کے آثار میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عمل کو وجود ایمان پر مترتب کیا ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عمل کا وجود نہ ہو تو ایمان ناقص یا قطعی طور پر معدوم ہے۔ (۶) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیائے سابقین کی شریعت میں نماز مشروع تھی، نیز یہ کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ کفار کے نزدیک بھی نماز کی افضلیت اور نماز کا تمام اعمال پر مقدم ہونا متحقق ہے۔ نیز ان کے ہاں یہ بات بھی متحقق ہے کہ نماز فواحش اور منکرات سے روکتی ہے اور نماز ایمان اور شرائع کی میزان ہے، نماز کو مسنون طریقے سے ادا کرنے سے بندۂ مومن کے احوال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز کی عدم ادائیگی سے اس کے دینی احوال میں خلل واقع ہوتا ہے۔ (۷) وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کر رکھا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مال کا مالک بنا رکھا ہے تاہم انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرے کیونکہ یہ مال اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، لہٰذا اس پر فرض ہے کہ وہ اس میں سے لوگوں کے حقوق ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے حق کو قائم کرے اور ان ذرائع اکتساب کو اختیار کرنے سے باز رہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ اس کے برعکس کفار اور ان سے مشابہت رکھنے والے دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مال کے خود مالک ہیں اور وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں خواہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو یا مخالف۔ (۸) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ داعی کی دعوت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ خود اس کام پر عمل کرنے میں سبقت کرے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور جس کام سے وہ لوگوں کو روکتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس کام سے رک جائے، جیسا کہ جناب شعیبu نے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰؔىكُمْ عَنْهُ ﴾ ’’میں نہیں چاہتا کہ میں تمھیں جن باتوں سے روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (الصف: 61؍2) ’’اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔‘‘ (۹) تمام انبیاء و مرسلین کا وظیفہ اور ان کی سنت و ملت یہ ہے کہ حسب امکان اور مقدور بھر مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور استطاعت کے مطابق مفاسد کو دور یا کم کرتے ہیں اور مصالح خاصہ کی رعایت رکھتے ہیں … اور حقیقی مصلحت وہ ہے جس سے بندوں کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے اور جس سے ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں ۔ (۱۰) جو کوئی مقدور بھر اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے کسی فعل کے نہ کرنے پر قابل ملامت اور قابل مذمت نہیں جس کے کرنے کی وہ قدرت اور استطاعت نہیں رکھتا۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرے۔ (۱۱) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنے رب پر بھروسہ کرے، اسی سے مدد طلب کرے اور اسی سے توفیق کا طلب گار رہے۔ جب اسے کوئی نیک توفیق حاصل ہو جائے تو اسے توفیق عطا کرنے والی ہستی کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی کا شکار نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا تَوْفِیْـقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّؔلْتُ وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ ﴾ (۱۲) امم سابقہ پر جو تباہی نازل ہوئی اور عذاب کے ذریعے سے ان کو جو پکڑا گیا اس میں بندوں کے لیے ترہیب ہے اور یہ نہایت مناسب بات ہے کہ وعظ و نصیحت کے دوران گزشتہ قوموں کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں مجرموں پر عذاب نازل کیا گیا… اور اسی طرح یہ بھی مناسب ہے کہ تقویٰ کی ترغیب کے لیے اہل تقویٰ کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام سے نوازا۔ (۱۳) گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس کے تمام گناہوں سے درگزر کر کے اسے معاف کر دیا گیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے ’’توبہ کرنے والا جب توبہ کرتا ہے تو اس کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کو مغفرت اور عفو سے نواز دیا جائے اور رہا اللہ تعالیٰ کی محبت اور مودت کا واپس لوٹنا تو اللہ تعالیٰ کی محبت دوبارہ نہیں آتی‘‘… کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ﴾ ’’اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ بے شک میرا رب بہت ہی رحم کرنے والا اور اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے۔‘‘ (۱۴) اللہ تبارک و تعالیٰ بہت سے اسباب کے ذریعے سے اہل ایمان کی مدافعت کرتا ہے بعض اسباب کا ان کو علم ہوتا ہے اور بعض اسباب کا ان کو بالکل علم نہیں ہوتا۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے قبیلے اور اہل وطن کے ذریعے سے ان کی مدافعت کرتا ہے جیسے شعیبu کو ان کے قبیلے کے سبب سے رجم ہونے سے بچایا۔ اس قسم کے روابط کے لیے جن کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور ان کی حفاظت کا حصول مقصود ہو، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسی کوشش لازم ہے کیونکہ مقدور بھر اور حسب امکان، اصلاح مطلوب ہے۔ لہٰذا اس اصول کو مدنظر رکھ کر کفار کی سلطنت میں رہنے والے مسلمان اگر اسی قسم کی کوشش کریں اور نظام حکومت کو جمہوری اصولوں پر چلانے کے لیے کام کریں جس میں افراد یا جماعتوں کے لیے ممکن ہو کہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی حقوق کی حفاظت کر سکیں تو یہ اس صورت حال سے بہتر ہے جس میں مسلمان کافر ریاست کے مطیع ہوں اور ریاست ان کے دینی اور دنیاوی حقوق کے بارے میں من مانے فیصلے کرے، مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے اور کفار کی خدمت کے لیے ان کو معمولی درجے کے کارکن اور خدام بنا ڈالے، البتہ اگر ریاست میں مسلمانوں کا اقتدار اور ان کی حکومت ممکن ہو تو اس حکومت کا قیام لازم ہے لیکن اگر اقتدار کا یہ مرتبہ حاصل نہ ہو سکے تو اس مرتبے کا حصول جس میں دینی اور دنیاوی مصالح کی حفاظت ہو، مقدم ہے۔ واللہ اعلم۔
آیت: 96 - 101 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (96) إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (97) يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ (98) وَأُتْبِعُوا فِي هَذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ (99) ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (100) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (101)}.
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے موسیٰ کو ساتھ اپنی آیتوں اوردلیل واضح کے (96) طرف فرعون اور اس (کی قوم) کے سرداروں کی ، پس انھوں نے پیروی کی فرعون کے حکم کی اور نہیں تھا حکم فرعون کا کوئی بھلائی والا (97) وہ آگے آگے ہو گا اپنی قوم کے دن قیامت کے، پس جا داخل کرے گا انھیں آگ میں اور برا ہے وہ گھاٹ جس پر وہ لائے جائیں گے (98) اور پیچھے لگائے گئے وہ اس (دنیا) میں لعنت اور دن قیامت کے بھی، برا ہے وہ عطیہ جو وہ عطیہ دیے جائیں گے (99)یہ کچھ خبریں ہیں ان (تباہ شدہ) بستیوں کی، ہم بیان کرتے ہیں ان کو آپ پر، کچھ تو ان میں سے قائم ہیں اور کچھ نیست و نابود کر دی گئیں (100) اور نہیں ظلم کیا ہم نے ان پر لیکن انھوں نے (خود ہی) ظلم کیا اپنے نفسوں پر، پس نہ فائدہ دیا انھیں ان کے ان معبودوں نے جنھیں وہ پکارتے تھے سوائے اللہ کے کچھ بھی، جب آگیا حکم آپ کے رب کااور نہ زیادہ کیا انھوں نے ان کو سوائے تباہی کے (101)
#
{96} يقول تعالى: {ولقد أرسلنا موسى}: ابن عمران {بآياتنا}: الدالَّة على صدق ما جاء به؛ كالعصا واليد ونحوهما من الآيات التي أجراها الله على يدي موسى عليه السلام، {وسلطانٍ مُبينٍ}؛ أي: حجة ظاهرة بيِّنة ظهرتْ ظهور الشمس.
[96] ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰؔى ﴾ ’’اور ہم نے بھیجا موسیٰ کو‘‘ یعنی موسیٰ بن عمران کو ﴿ بِاٰیٰتِنَا ﴾ ’’اپنی نشانیوں کے ساتھ۔‘‘ جو ان کی دعوت کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں ، مثلاً:عصا اور ید بیضا اور دیگر معجزات، جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا ﴿ وَسُلْ٘طٰنٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’اور دلیل واضح (کے ساتھ)‘‘ اور ایسی واضح دلیل کے ساتھ، جو سورج کی مانند عیاں تھی۔
#
{97} {إلى فرعونَ وملئِهِ}؛ أي: أشراف قومه؛ لأنَّهم المتبوعون، وغيرهم تَبَع لهم، فلم ينقادوا لما مع موسى من الآيات التي أراهم إيَّاها كما تقدم بسطُها في سورة الأعراف، ولكنهم {اتَّبعوا أمرَ فرعون وما أمرُ فرعونَ برشيدٍ}: بل هو ضالٌّ غاوٍ لا يأمر إلا بما هو ضررٌ محضٌ.
[97] ﴿ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ﴾ ’’فرعون اور اس کے اشرافیہ کی طرف‘‘ کیونکہ اشراف متبوع اور دیگر لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں ۔ ان اشراف نے موسیٰu کے ان معجزات کو نہ مانا جو جناب موسیٰ نے ان کو دکھائے تھے جیسا کہ بسط و تفصیل کے ساتھ ان کا ذکر سورۂ اعراف میں گزر چکا ہے۔ ﴿ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَمَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ ﴾ ’’پس وہ پیچھے لگے فرعون کے حکم کے اور فرعون کا حکم اچھا نہیں تھا‘‘ بلکہ وہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے وہ ضرر محض کے سوا کچھ نہیں ۔
#
{98} لا جرم لمَّا اتَّبعه قومُه؛ أرداهم وأهلكهم؛ {يَقْدُمُ قومَه يوم القيامة فأوردَهم النارَ وبئس الوِرْدُ المورودُ}.
[98] اس کی قوم نے اس کی اتباع کی اور اس نے ان کو ہلاک کر دیا۔ ﴿ یَقْدُمُ قَوْمَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ١ؕ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ﴾ ’’وہ قیامت کے روز اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی قیادت میں ان کو جہنم میں جا اتارے گا اور یہ بہت ہی برا مقام ہے جہاں یہ لوگ وارد ہوں گے۔‘‘
#
{99} {وأُتْبِعوا في هذه}؛ أي: في الدنيا {لعنةً ويوم القيامةِ}؛ أي: يلعنهم الله وملائكته والناسُ أجمعون في الدنيا والآخرة. {بئس الرِّفْدُ المرفودُ}؛ أي: بئس ما اجتمع لهم، وترادَفَ عليهم من عذاب الله ولعنة الدُّنيا والآخرة.
[99] ﴿ وَاُتْبِعُوْا فِیْ هٰؔذِهٖ لَعْنَةً ﴾ ’’اور اس میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگادی گئی۔‘‘ یعنی اس دنیا میں ﴿ وَّیَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور قیامت کے دن بھی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور تمام لوگ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجیں گے۔ ﴿ بِئْسَ الرِّفْدُ الْ٘مَرْفُوْدُ ﴾ ’’بہت ہی برا ہے جو ان کے لیے جمع کیا گیا‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور دنیا و آخرت کی لعنت ان کا پیچھا کرے گی۔
#
{100} ولما ذكر قصص هؤلاء الأمم مع رسلهم؛ قال الله تعالى لرسوله: {ذلك من أنباءِ القُرى نقصُّه عليك}: لتنذر به ويكونَ آية على رسالتك وموعظةً وذكرى للمؤمنين. {منها قائمٌ}: لم يتلفْ بل بقي من آثار ديارهم ما يدلُّ عليهم. {و} منها {حصيدٌ}: قد تهدَّمت مساكنهم، واضمحلَّت منازلهم فلم يبقَ لها أثرٌ.
[100] اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کے ساتھ ان کی قوموں کے واقعات بیان کرنے کے بعد اپنے رسولe سے فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبـَآءِ الْ٘قُ٘رٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ ﴾ ’’یہ بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جن میں سے بعض ہم آپ کو سناتے ہیں ‘‘ تاکہ آپ اس کے ذریعے سے اپنی قوم کو ڈرائیں اور یہ چیز آپ کی رسالت پر دلیل اور اہل ایمان کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو۔ ﴿ مِنْهَا قَآىِٕمٌ ﴾ ’’ان میں سے بعض تو باقی ہیں ۔‘‘ یعنی ان کی بستیوں کی بعض نشانیاں اب بھی باقی کھڑی ہیں یعنی تلف نہیں ہوئیں ۔ جو ان قوموں کی تباہی پر دلالت کرتی ہیں ۔ ﴿ وَ﴾ اور ان میں سے بعض نشانیاں ﴿ حَصِیْدٌ ﴾ ’’ان کی جڑ کٹ گئی‘‘ یعنی ان کے مسکن منہدم ہوگئے، ان کے گھر نیست و نابود ہوگئے اور ان کے نشانات تک باقی نہ رہے۔
#
{101} {وما ظَلَمْناهم}: بأخذهم بأنواع العقوبات، {ولكن ظَلَموا أنفسَهم}: بالشرك والكفر والعناد. {فما أغنتْ عنهم آلهتُهم التي يَدْعون من دون الله من شيءٍ لمَّا جاء أمرُ ربِّك}: وهكذا كلُّ من التجأ إلى غير الله؛ لم ينفعْه ذلك عند نزول الشدائد. {وما زادوهم غير تَتْبيبٍ}؛ أي: خسار ودمار بالضدِّ مما خطر ببالهم.
[101] ﴿وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ﴾ ’’اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا۔‘‘ یعنی مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کو پکڑ کر ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ ﴿ وَلٰكِنْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’بلکہ انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘ یعنی انھوں نے شرک، کفر اور عناد کے ذریعے سے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ﴿ فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ﴾ ’’پس نہ کام آئے ان کے وہ معبود جن کو وہ پکارتے تھے اللہ کو چھوڑ کر، کسی چیز میں ، جب آپ کے رب کا حکم آیا‘‘ اسی طرح ہر وہ شخص جو مصیبت اور سختیوں کے وقت غیر اللہ کی پناہ لیتا ہے، اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ﴿ وَمَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ﴾ ’’اور تباہ کرنے کے سوا ان کے حق میں کچھ نہ کرسکے۔‘‘ یعنی ان کی خواہشات کے برعکس خسارے اور تباہی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا۔
آیت: 102 #
{وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (102)}.
اور اسی طرح ہے پکڑ آپ کے رب کی جب وہ پکڑتا ہے بستیوں کو جبکہ وہ ظالم ہوتی ہیں ، بلاشبہ پکڑ اس کی نہایت درد ناک (اور) شدید ہے (102)
#
{102} أي: يقصِمُهم بالعذاب، ويبيدهم، ولا ينفعهم ما كانوا يَدْعون من دون الله من شيءٍ.
[102] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عذاب کے ذریعے سے ظالموں کی کمر توڑ دیتا ہے اور ان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور وہ ہستیاں ان کے کسی کام نہیں آتیں جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ۔
آیت: 103 - 108 #
{إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ (103) وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَعْدُودٍ (104) يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (105) فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (107) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (108)}.
بے شک اس میں یقینا نشان (عبرت) ہے اس شخص کے لیے جو ڈر گیا عذاب آخرت سے، وہ (یوم آخرت) ایک دن ہے کہ جمع کیے جائیں گے اس میں سب لوگ اور وہ دن ہے کہ حاضر کیے جائیں گے (اس میں سب) (103) اور نہیں مؤخر کرتے ہیں ہم اس دن کو مگر واسطے (پورا کرنے) وقت مقرر کے (104) (جب) وہ دن آجائے گا تو نہ کلام کرے گا کوئی نفس مگر اللہ کے حکم سے، پھر کوئی ان میں سے بد بخت ہو گا اور کوئی نیک بخت(105) پس لیکن وہ لوگ جو بدبخت ہو ں گے تو (وہ) آگ میں ہوں گے، ان کے لیے اس میں چیخنا چلانا اور دھاڑنا ہو گا (106) ہمیشہ رہیں گے وہ اس (آگ) میں جب تک (باقی) رہیں گے آسمان اور زمین مگر جو چاہے آپ کا رب، بے شک آپ کا رب کر گزرنے والا ہے اس کو جو وہ چاہتا ہے (107)اور لیکن وہ لوگ جو نیک بخت بنائے گئے تو (وہ) جنت میں ہوں گے، ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں جب تک (باقی) رہیں گے آسمان اور زمین مگر جو چاہے آپ کا رب، (یہ اللہ کی) عطاء ہے نہ ختم ہونے والی (108)
#
{103} {إن في ذلك}: المذكور من أخذه للظالمين بأنواع العقوبات، {لآية لمَنْ خاف عذابَ الآخرة}؛ أي: لعبرةً ودليلاً على أنَّ أهل الظُّلم والإجرام لهم العقوبة الدنيويَّة والعقوبة الأخرويَّة. ثم انتقل من هذا إلى وصفِ الآخرة، فقال: {ذلك يومٌ مجموع له الناس}؛ أي: جُمِعوا لأجل ذلك اليوم للمجازاة وليظهر لهم من عظمة الله وسلطانه وعدله العظيم ما به يعرِفونه حقَّ المعرفة. {وذلك يومٌ مشهودٌ}؛ أي: يشهده الله وملائكتُه وجميعُ المخلوقين.
[103] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ ’’بے شک ان میں ‘‘ یعنی عذاب کی مختلف انواع کے ذریعے سے ظالموں کو اللہ تعالیٰ کے پکڑنے میں ۔ ﴿ لَاٰیَةً لِّ٘مَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’اس شخص کے لیے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے‘‘ یعنی اس میں عبرت اور دلیل ہے کہ جو لوگ ظلم اور جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے لیے دنیاوی سزا اور اخروی عذاب ہے پھر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذکر سے منتقل ہو کر آخرت کے وصف کا ذکر فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ ﴾ ’’یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی اس روز تمام لوگوں کو جزا و سزا کے لیے جمع کیا جائے گا تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا عدل عظیم ظاہر ہو اور اس کے ذریعے سے وہ اس کو اچھی طرح پہچان لیں ﴿ وَذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ ﴾ ’’اور وہ دن ہے سب کے پیش ہونے کا‘‘ یعنی اس روز اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور تمام مخلوقات اس کا مشاہدہ کرے گی۔
#
{104} {وما نؤخِّرُه}؛ أي: إتيان يوم القيامة، {إلاَّ لأجل مَعْدودٍ}: إذا انقضى أجل الدُّنيا، وما قدر الله فيها من الخلق؛ فحينئذٍ ينقلهم إلى الدار الأخرى، ويُجري عليهم أحكامه الجزائيَّة، كما أجرى عليهم في الدُّنيا أحكامه الشرعيَّة.
[104] ﴿ وَمَا نُؤَخِّ٘رُهٗۤ ﴾ ’’ہم اس میں تاخیر نہیں کررہے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز کی آمد کو ہم موخر نہیں کرتے۔ ﴿ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ﴾ ’’مگر وقت مقرر کے لیے‘‘ یعنی جب دنیا کی مدت اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر مقرر کیا ہے پورا ہو جائے گا اس وقت وہ ان کو ایک اور جہان میں منتقل کرے گا اور وہاں ان پر اپنے احکام جزائی اسی طرح جاری کرے گا جس طرح اس دنیا میں ان پر احکام شرعیہ نافذ کیے تھے۔
#
{105} {يومَ يأتِ}: ذلك اليومُ ويجتمعُ الخلق، {لا تَكَلَّمُ نفسٌ إلا بإذنِهِ}: حتى الأنبياء والملائكة الكرام لا يشفعون إلا بإذنِهِ. {فمنهم}؛ أي: الخلق {شقيٌّ وسعيدٌ}: فالأشقياء هم الذين كفروا بالله، وكذَّبوا رسله وعَصَوا أمره، والسعداء هم المؤمنون المتَّقون.
[105] ﴿یَوْمَ یَ٘اْتِ ﴾ ’’جس روز وہ آجائے گا۔‘‘ یعنی جس روز یہ دن آئے گا اور تمام مخلوق اکٹھی ہوگی۔ ﴿ لَا تَكَلَّمُ نَ٘فْ٘سٌ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ﴾ ’’اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرے گا‘‘ یہاں تک کہ اس روز انبیائے کرام اور مکرم فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکیں گے۔ ﴿ فَمِنْهُمْ ﴾ ’’پس ان میں سے بعض‘‘ یعنی تمام مخلوق میں سے ﴿ شَ٘قِیٌّ وَّسَعِیْدٌ ﴾ ’’بدبخت اور بعض نیک بخت ہیں ‘‘ بدبخت وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور خوش بخت وہ لوگ ہیں جو مومن اور متقی ہیں ۔
#
{106} وأما جزاؤهم: {فأما الذين شَقُوا}؛ أي: حصلت لهم الشقاوة والخزي والفضيحة {ففي النار}: منغمسون في عذابها مشتدٌّ عليهم عقابها. {لهم فيها}: من شدَّة ما هم فيه {زفيرٌ وشهيقٌ}: وهو أشنع الأصوات وأقبحُها.
[106] ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا﴾ ’’تو جو بدبخت ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو بدبختی، رسوائی اور فضیحت میں مبتلا ہوں گے۔ ﴿ فَ٘فِی النَّارِ ﴾ تو وہ جہنم کے عذاب میں غوطے کھائیں گے اور آگ کا نہایت سخت عذاب ان کو جکڑ لے گا۔ ﴿ لَهُمْ فِیْهَا’’ان کے لیے اس میں ‘‘ یعنی اس سختی کی وجہ سے جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ ﴿ زَفِیْرٌ وَّشَهِیْقٌ ﴾ ’’چیخنا ہے اور دھاڑنا‘‘ اور یہ نہایت بری اور قبیح ترین آواز ہو گی۔
#
{107} {خالدين فيها}؛ أي: في النار التي هذا عذابُها، {ما دامتِ السمواتُ والأرضُ إلاَّ ما شاء ربُّك}؛ أي: خالدين فيها أبداً إلاَّ المدَّة التي شاء الله أن لا يكونوا فيها، وذلك قبل دخولها؛ كما قاله جمهور المفسرين؛ فالاستثناء على هذا راجعٌ إلى ما قبل دخولها؛ فهم خالدون فيها جميع الأزمان سوى الزمن الذي قبل الدخول فيها. {إنَّ ربَّك فعَّالٌ لما يريد}: فكل ما أراد فعله واقتضته حكمتُه؛ فَعَلَه تبارك وتعالى، لا يردُّه أحدٌ عن مُراده.
[107] ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ یعنی اس جہنم میں جس کا عذاب یہ ہے ﴿ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ﴾ ’’جب تک رہے گا آسمان اور زمین مگر جو چاہے آپ کا رب‘‘ یعنی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے سوائے اس مدت کے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس مدت کے دوران جہنم میں نہ رہیں اور یہ مدت جہنم میں داخل ہونے سے قبل کی ہے۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔ پس اس صورت میں استثناء جہنم میں دخول سے قبل کی مدت کی طرف راجع ہے، یعنی وہ تمام زمانوں تک جہنم میں رہیں گے سوائے اس زمانے کے جو جہنم میں داخل ہونے سے پہلے تھا۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب جو چاہتا ہے، کرتا ہے‘‘ ہر وہ فعل جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے اور اس کی حکمت مقتضی ہوتی ہے، کر گزرتا ہے کوئی اسے اس کے ارادے سے روک نہیں سکتا۔
#
{108} {وأما الذين سُعِدوا}؛ أي: حصلت لهم السعادة والفلاح والفوز، {ففي الجنَّة خالدين فيها ما دامت السمواتُ والأرض إلاَّ ما شاء ربُّك}: ثمَّ أكَّد ذلك بقوله: {عطاءً غير مجذودٍ}؛ أي: ما أعطاهم الله من النعيم المقيم واللَّذة العالية؛ فإنَّه دائمٌ مستمرٌّ غير منقطع بوقت من الأوقات. نسأل الله الكريم من فضله.
[108] ﴿ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا﴾ ’’اور جو نیک بخت ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنھیں سعادت اور فوز و فلاح سے نوازا گیا ہے۔ ﴿ فَ٘فِی الْجَنَّةِ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ﴾ ’’وہ جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں مگر جو چاہے آپ کا رب۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے طور پر فرمایا: ﴿ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ﴾ ’’بخشش بے انتہا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور لذتیں عطا کرے گا وہ ہمیشہ رہیں گی اور کسی وقت بھی منقطع نہ ہوں گی۔ ہم اللہ کریم سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان خوش بخت لوگوں کی معیت عطا کرے۔
آیت: 109 #
{فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هَؤُلَاءِ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ (109)}.
پس نہ ہوں آپ شک میں اس سے جو عبادت کرتے ہیں یہ لوگ، نہیں عبادت کرتے وہ مگر جیسے عبادت کرتے تھے باپ دادے ان کے پہلے (ان سے)اور بے شک ہم ، البتہ پورا دیں گے انھیں حصہ ان کا، نہیں کم کیا جائے گا (اس سے کچھ)(109)
#
{109} يقول الله تعالى لرسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {فلا تكُ في مِرْيَةٍ ممَّا يعبدُ هؤلاء}: المشركون؛ أي: لا تشكَّ في حالهم، وأنَّ ما هم عليه باطلٌ؛ فليس لهم دليلٌ شرعيٌّ ولا عقليٌّ، وإنما دليلُهم وشبهتهم أنهم يعبُدون كما يعبُدُ آباؤهم من قبلُ، ومن المعلوم أن هذا ليس بشبهةٍ فضلاً عن أن يكون دليلاً؛ لأنَّ أقوال ما عدا الأنبياء يحتجُّ لها لا يحتج بها، خصوصاً أمثال هؤلاء الضالين، الذين كثر خطؤهم وفساد أقوالهم في أصول الدين؛ فإنَّ أقوالهم وإن اتَّفقوا عليها؛ فإنَّها خطأ وضلال {وإنَّا لَمُوفُّوهم نصيبَهم غير منقوص}؛ أي: لا بدَّ أن ينالهم نصيبُهم من الدُّنيا مما كتب لهم، وإن كَثُر ذلك النصيب أو راق في عينك؛ فإنَّه لا يدلُّ على صلاح حالهم؛ فإنَّ الله يعطي الدُّنيا من يحبُّ ومن لا يحبُّ، ولا يعطي الإيمان والدين الصحيح إلاَّ من يُحِبُّ. والحاصلُ أنَّه لا يُغترُّ باتفاق الضالين على قول الضالين من آبائهم الأقدمين، ولا على ما خوَّلهم الله، وآتاهم من الدنيا.
[109] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیe سے خطاب کرکے فرماتا ہے: ﴿ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّؔمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ﴾ ’’آپ ان معبودان باطل کی طرف سے کسی شک میں نہ رہیں جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں ‘‘ یعنی آپ کو ان کے حال کے بارے میں کوئی شک نہ رہے وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ باطل ہے اور ان کے پاس کوئی شرعی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ ان کی دلیل اور شبہ تو بس یہ ہے کہ وہ ﴿ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ﴾ ’’یہ انھی کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت اس سے قبل ان کے باپ دادا کرتے تھے‘‘ اور یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا ان باطل معبودوں کی عبادت کرنا، دلیل ہونا تو کجا یہ تو شبہ کے زمرے میں بھی نہیں آتا کیونکہ انبیاء کے سوا کسی کا قول حجت نہیں ۔ خاص طور پر ان جیسے گمراہ لوگ، جو اصول دین میں بکثرت اغلاط اور فساد اقوال کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اقوال اگرچہ وہ ان کے ہاں متفق علیہ کیوں نہ ہوں، خطا اور ضلالت پر مبنی ہیں ۔ ﴿ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ ﴾ ’’اور ہم دینے والے ہیں ان کو ان کا حصہ، بغیر کمی کیے‘‘ یعنی وہ لازمی طور پر دنیا کے حصے سے بہرہ ور ہوں گے جو ان کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ خواہ یہ دنیاوی نصیب آپ کی نظر میں کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر یہ ان کے احوال کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا عطا کرتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جس سے محبت نہیں کرتا مگر ایمان اور دین سے صرف اسی شخص کو نوازتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ گمراہ لوگوں کے اپنے گمراہ آباء و اجداد کے نظریات پر اتفاق کر لینے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ اس بات سے دھوکہ کھانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیاوی مال و متاع سے نواز رکھا ہے۔
آیت: 110 - 113 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (110) وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (111) فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (112) وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (113)}.
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب تو اختلاف کیا گیا اس میں اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے (طے) ہو چکی ہے آپ کے رب کی طرف سے تو ضرور فیصلہ کر دیا جاتا درمیان ان کےاور یقینا وہ ایسے شک میں ہیں اس سے (جو انھیں ) بے چین کرنے والا ہے(110) اور بے شک ہر ایک کو البتہ ضرور پوری پوری دے گاآپ کا رب (جزاء) ان کے عملوں کی، بے شک وہ ساتھ اس کے جو وہ عمل کرتے ہیں خبردار ہے (111) پس ثابت رہیں آپ جس طرح حکم کیے گئے ہیں آپ اور وہ لوگ بھی جنھوں نے توبہ کی آپ کے ساتھ اور نہ سرکشی کرو تم، بے شک وہ (اللہ) اسے جو تم عمل کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے(112) اور نہ جھکو تم طرف ان لوگوں کی جنھوں نے ظلم کیا، پس (ورنہ) چھوئے گی تمھیں آگ اور نہیں ہو گا تمھارے لیے سوائے اللہ کے کوئی دوست، پھر نہ مدد کیے جاؤ گے تم (113)
#
{110} يخبر تعالى أنه آتى موسى الكتاب الذي هو التوراة، الموجب للاتفاق على أوامره ونواهيه والاجتماع، ولكن مع هذا؛ فإنَّ المنتسبين إليه اختلفوا فيه اختلافاً أضرَّ بعقائدهم وبجامعتهم الدينيَّة. {ولولا كلمةٌ سبقتْ من ربِّك}: بتأخيرهم وعدم معاجلتهم بالعذاب، {لَقُضِيَ بينَهم}: بإحلال العقوبة بالظَّالم، ولكنَّه تعالى اقتضت حكمته أن أخَّر القضاء بينَهم إلى يوم القيامة، وبَقوا في شكٍّ مريبٍ. وإذا كانت هذه حالُهم مع كتابهم؛ فمع القرآن الذي أوحاه الله إليك غير مستغربٍ من طائفة اليهود أن لا يؤمنوا به، وأن يكونوا في شكٍّ منه مريب.
[110] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے جناب موسیٰu کو کتاب عطا کی، جس کو تورات کہا جاتا ہے جو اس کے اوامر و نواہی پر ان کے اتفاق و اجتماع کی موجب ہے۔ مگر اس کے باوجود تورات سے نسبت رکھنے والوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا جس نے ان کے عقائد اور ان کی دینی جمعیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ﴿ وَلَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’اگر تمھارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔‘‘ یعنی ان کے معاملہ کو موخر کرنے اور ان کو عذاب میں عجلت نہ کرنے کے بارے میں ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی ﴿ لَ٘قُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ﴾ ’’تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا۔‘‘ یعنی ظالم پر عذاب نازل ہو چکا ہوتا۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو قیامت تک کے لیے موخر کر دے اور یہ لوگ شک و شبہ ہی میں مبتلا رہیں ۔ جب ان کا اپنی کتاب کے ساتھ یہ حال ہے تو قرآن جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کیا ہے یہود کے ایک گروہ کا یہ رویہ تعجب خیز نہیں ہے کہ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بارے میں شک و ریب میں مبتلا ہیں ۔
#
{111} {وإن كُلاًّ لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُم ربُّك أعمالَهم}؛ أي: لا بدَّ أن يقضي الله بينهم يوم القيامة بحكمه العدل، فيجازي كلاًّ بما يستحقُّه. {إنه بما يعملون}: من خير وشرٍّ، {خبيرٌ}: فلا يَخْفى عليه شيء من أعمالهم؛ دقيقِها وجليلِها.
[111] ﴿ وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ﴾ ’’اور جتنے لوگ ہیں ، سب کو پورا دے گا آپ کا رب ان کے اعمال (کا بدلہ)‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان ضرور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ان کو وہی سزا و جزا دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ ﴿ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’بے شک وہ اس سے جو عمل یہ کرتے ہیں ۔‘‘ اچھے یا برے۔ ﴿ خَبِیْرٌ ﴾ ’’باخبر ہے‘‘ ان کے اعمال میں سے کوئی چھوٹی یا بڑی چیز اس پر مخفی نہیں ۔
#
{112} ثم لما أخبر بعدم استقامتهم التي أوجبتِ اختلافَهم وافتراقَهم؛ أمر نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم - ومَنْ معه من المؤمنين أن يستقيموا كما أمِروا، فيسلكوا ما شرعه الله من الشرائع، ويعتقِدوا ما أخبر الله به من العقائد الصحيحة، ولا يَزيغوا عن ذلك يمنةً ولا يسرةً، ويدوموا على ذلك، ولا يَطْغَوْا بأنْ يتجاوزوا ما حدَّه الله لهم من الاستقامة، وقوله: {إنَّه بما تعملون بصيرٌ}؛ أي: لا يخفى عليه من أعمالكم شيء، وسيجازيكم عليها. ففيه ترغيبٌ لسلوك الاستقامة وترهيبٌ من ضدِّها.
[112] اللہ تعالیٰ نے یہود کی عدم استقامت کا ذکر کرنے کے بعد، جو ان کے اختلاف و افتراق کا باعث تھی، اپنے نبی محمد مصطفیe اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ صراط مستقیم پر گامزن رہیں جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا ہے اور اس شریعت کو لائحہ عمل بنائیں جو ان کے لیے مشروع کی گئی ہے اور ان اعتقادات صحیحہ کو اپنا عقیدہ بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کیے ہیں ۔ اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں ، بائیں ٹیڑھی راہوں پر نہ چلیں اور دائمی طور پر اسی عقیدے اور اسی شریعت پر عمل پیرا رہیں اور سرکشی اختیار نہ کریں ، یعنی استقامت کی ان حدود سے تجاوز نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمائی ہیں ۔ ﴿ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’وہ تمھارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ پر تمھارے اعمال میں سے کچھ بھی مخفی نہیں اور وہ تمھیں ان اعمال کی جزا دے گا۔ ان آیات کریمہ میں استقامت کو مسلک بنانے کی ترغیب اور اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے پر ترہیب دی گئی ہے۔
#
{113} ولهذا حذَّرهم عن الميل إلى من تعدَّى الاستقامة، فقال: {ولا تَرْكَنوا}؛ [أي: لا تميلوا] {إلى الذين ظلموا}: فإنَّكم إذا ملتم إليهم وافقتموهم على ظلمهم أو رضيتم ما هم عليه من الظُّلم؛ {فَتَمَسَّكُم النارُ}: إن فعلتُم ذلك. {وما لكم من دون الله من أولياء}: يمنعونكم من عذاب الله، ولا يحصِّلون لكم شيئاً من ثواب الله. {ثم لا تُنصرون}؛ أي: لا يدفع عنكم العذابُ إذا مسَّكم. ففي هذه الآية التحذير من الركون إلى كلِّ ظالم، والمرادُ بالرُّكون: الميل والانضمام إليه بظلمه وموافقته على ذلك والرضا بما هو عليه من الظلم، وإذا كان هذا الوعيد في الركون إلى الظلمة؛ فكيف حال الظلمة بأنفسهم؟! نسأل الله العافية من الظلم.
[113] بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی طرف میلان رکھنے سے منع فرمایا جنھوں نے استقامت کو چھوڑ دیا۔﴿وَلَا تَرْؔكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾ ’’اور مت جھکو ان لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں ‘‘ کیونکہ اگر تم ان کی طرف مائل ہوئے، ان کے ظلم و تعدی پر ان کی موافقت کی یا ان کے ظلم پر راضی ہوئے ﴿فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ﴾ ’’تو تمھیں جہنم کی آگ آ لپٹے گی۔‘‘ ﴿وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ﴾ ’’اور اللہ کے سوا تمھارے کوئی مددگار نہیں ‘‘ جو تمھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں ۔ اس آیت کریمہ میں ظالم کی طرف میلان رکھنے سے روکا گیا ہے۔ یہاں (رکون) سے مراد ظالم کے ظلم کی طرف میلان، اس کے ظلم کی موافقت اور اس کے ظلم پر راضی ہونا ہے۔ جب ظالموں کی طرف میلان رکھنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی شدید وعید ہے تو خود ظالموں کا کیا حال ہوگا… ہم اللہ تعالیٰ سے ظلم سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔
آیت: 114 - 115 #
{وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ (114) وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (115)}.
اورآپ قائم کریں نمازدونوں طرفوں (حصوں ) میں دن کے اورکچھ گھڑیوں میں رات سے بھی، بلاشبہ نیکیاں دور کر دیتی ہیں برائیوں کو، یہ نصیحت ہے واسطے ذکر کرنے والوں کے (114) اور آپ صبر کریں ، پس بے شک اللہ نہیں ضائع کرتا اجر نیکی کرنے والوں کا (115)
#
{114} يأمر تعالى بإقامة الصلاة كاملة {طَرَفي النهار}؛ أي: أوله وآخره، ويدخل في هذا صلاة الفجر وصلاتا الظهر والعصر، {وزُلَفاً من الليل}: ويدخل في ذلك صلاة المغرب والعشاء، ويتناول ذلك قيام الليل؛ فإنَّها مما تُزْلِفُ العبد وتقرِّبه إلى الله تعالى. {إنَّ الحسنات يُذْهِبْنَ السيِّئاتِ}؛ أي: فهذه الصلوات الخمس وما ألحق بها من التطوُّعات من أكبر الحسنات، وهي مع أنها حسنات تقرِّب إلى الله وتوجِبُ الثواب؛ فإنَّها تُذْهِبُ السيِّئات وتمحوها، والمرادُ بذلك الصغائر؛ كما قيَّدتها الأحاديث الصحيحة عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -؛ مثل قوله: «الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان؛ مكفراتٌ لما بينهنَّ ما اجتُنِبَتِ الكبائر» ، بل كما قيَّدتها الآية التي في سورة النساء، وهي قوله عزَّ وجلَّ: {إن تَجْتَنِبوا كبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عنه نكفِّر عنكم سيئاتِكم وندخِلْكم مُدْخلاً كريماً}. {ذلك}: لعل الإشارة لكلِّ ما تقدَّم؛ من لزوم الاستقامة على الصراط المستقيم، وعدم مجاوزته وتعدِّيه، وعدم الرُّكون إلى الذين ظلموا، والأمر بإقامة الصلاة، وبيان أنَّ الحسنات يُذْهِبْنَ السيئات؛ الجميع {ذكرى للذاكرينَ}: يفهمون بها ما أمرهم الله به ونهاهم، ويمتثلون لتلك الأوامر الحسنة المثمِرَة للخيرات الدَّافعة للشُّرور والسيئات.
[114] اللہ تبارک و تعالیٰ کامل طور پر نماز کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے ﴿طَرَفَیِ النَّهَارِ ﴾ ’’دن کے دونوں طرفوں میں ‘‘ یعنی دن کے ابتدائی اور آخری حصے میں ۔ اس میں فجر، ظہر اور عصر کی نماز شامل ہے۔ ﴿ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ﴾ ’’اور رات کے کچھ حصوں میں ‘‘ اور اس میں مغرب اور عشاء کی نماز داخل ہے۔ تہجد کی نماز بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ بندۂ مومن تہجد کی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّؔیِّاٰتِ﴾ ’’بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو‘‘ یعنی یہ نماز پنجگانہ اور اس سے ملحق نوافل سب سے بڑی نیکی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ کہ نماز سب سے بڑی نیکی اور ثواب کی موجب ہے… برائیوں کو مٹاتی بھی ہے۔ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس اطلاق کو مقید کیا گیا ہے، مثلاً:رسول اللہe نے فرمایا ’’اگر مومن کبائر سے اجتناب کرتا ہے تو نماز پنج گانہ، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، یہ ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو مٹا دینے والے عمل ہیں ۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الصلوات الخمس… الخ، حدیث: 233) بلکہ اس آیت کریمہ کے اطلاق کو سورۃ النساء کی اس آیت نے بھی مقید کر دیا ہے فرمایا: ﴿ اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَ٘ـفِّ٘رْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّؔدْخَلًا كَرِیْمًا ﴾ (النساء: 4؍31) ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمھیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمھارے (چھوٹے چھوٹے) گناہوں کو مٹا دیں گے اور تمھیں عزت و تکریم کی جگہ میں داخل کریں گے۔‘‘ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ شاید یہ گزشتہ باتوں کی طرف ارشارہ ہے، جیسے صراط مستقیم پر استقامت کا التزام، حدود الٰہی سے عدم تجاوز، اہل ظلم کی طرف عدم میلان، اقامت صلوۃ کا حکم اور یہ بیان کہ نیکیاں تمام برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یہ سب ﴿ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے‘‘ وہ اس چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کو سمجھتے ہیں اور ان تمام اوامر کی تعمیل کرتے ہیں جن کا ثمرہ نیکیاں ہیں جو شر اور برائی کو مٹاتی ہیں ۔
#
{115} ولكن تلك الأمور تحتاج إلى مجاهدة النفس والصبر عليها، ولهذا قال: {واصبِرْ}؛ أي: احبس نفسك على طاعة اللَّه وعن معصيته وإلزامها لذلك واستمرَّ ولا تضجر. {فإنَّ اللَّه لا يُضيعُ أجْرَ المحسنينَ}: بل يتقبَّل اللَّه عنهم أحسن الذي عملوا ويَجْزيهم أجْرَهم بأحسن ما كانوا يعملون. وفي هذا ترغيبٌ عظيمٌ للزوم الصبر بتشويق النفس الضعيفة إلى ثواب الله كلَّما وَنَتْ وَفَتَرَتْ.
[115] مگر ان امور میں مجاہدۂ نفس اور صبر کی سخت ضرورت ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَاصْبِرْ ﴾ ’’اور صبر کیجیے۔‘‘ یعنی اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم اور اس کی نافرمانی سے باز رکھیں اور اس کا ہمیشہ التزام کریں اور تنگ دل نہ ہوں ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا‘‘ بلکہ وہ ان کے اچھے اعمال کو قبول فرماتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا عطا کرتا ہے۔ جب نفوس ضعیفہ، انقطاع اور اکتاہٹ کا شکار ہو کر کمزور پڑ جاتے ہیں تو آیت کریمہ میں ان کو صبر کے التزام کی ترغیب اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کا شوق دلایا گیا ہے۔
آیت: 116 #
{فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ (116)}.
پس کیوں نہ ہوئے ان امتوں میں سے جو تم سے پہلے تھیں کچھ لوگ عقل و بصیرت والے کہ وہ روکتے فساد (کرنے) سے زمین میں مگر تھوڑے ہی ان لوگوں میں سے جنھیں نجات دی ہم نے ان میں سے اور پیچھے لگے وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، ان چیزوں کے کہ آسودگی دیے گئے تھے وہ (ظالم) ان چیزوں میں اور تھے وہ مجرم (116)
#
{116} لمَّا ذكر تعالى إهلاك الأمم المكذِّبة للرسل، وأنَّ أكثرهم منحرفون عن أهل الكتب الإلهية، وذلك كلُّه يقضي على الأديان بالذَّهاب والاضمحلال؛ ذكر أنَّه لولا أنه جعل في القرون الماضية بقايا من أهل الخير، يدعون إلى الهدى وينهون عن الفساد والرَّدى، فحصل من نفعهم، وأبقيت به الأديان، ولكنَّهم قليلون جدًّا ، وغاية الأمر أنَّهم نجوا باتِّباعهم المرسلين، وقيامهم بما قاموا به من دينهم، وبكون حجَّة الله أجراها على أيديهم؛ ليهلك من هَلَكَ عن بيِّنة ويحيا من حَيَّ عن بيَّنة {و} لكن {اتَّبع الذين ظلموا ما أُتْرِفوا فيه}؛ أي: اتَّبعوا ما هم فيه من النعيم والترف، ولم يبغوا به بدلاً. {وكانوا مجرمين}؛ أي: ظالمين باتِّباعهم ما أترِفوا فيه، فلذلك حقَّ عليهم العقابُ واستأصلهم العذابُ. وفي هذا حثٌّ لهذه الأمة أن يكون فيهم بقايا؛ مصلحون لما أفسد الناس، قائمون بدين الله، يدعون من ضلَّ إلى الهدى، ويصبرون منهم على الأذى، ويبصِّرونهم من العمى، وهذه الحالة أعلى حالة يرغب فيها الراغبون، وصاحبها يكون إماماً في الدين؛ إذا جعل عمله خالصاً لربِّ العالمين.
[116] جب اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا جنھوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا، نیز یہ کہ ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جنھوں نے کتب سماویہ کے ماننے والوں سے انحراف کیا، حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی جوکتب الٰہیہ کو ماننے والے تھے اور یہ چیز اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ گزشتہ ادیان انعدام و اضمحلال کا شکار ہوگئے تو اب ذکر فرمایا کہ گزشتہ قوموں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہتے، فساد اور ہلاکت سے روکتے رہتے تو ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوتا جب تک ان کے ادیان باقی رہتے۔ مگر ایسے لوگ بہت ہی قلیل تھے۔ اس سارے معاملے کی غرض و غایت یہ ہے کہ گزشتہ امتوں کے جو تھوڑے لوگوں نے نجات پائی تو انھوں نے انبیاء و مرسلین کی اتباع اور اقامت دین کی وجہ سے نجات پائی، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حجت بن گئے جس کو اس نے ان کے ہاتھوں پر جاری کیا تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل کی بنا پر ہلاک ہو اور زندہ رہے تو دلیل ہی سے زندہ رہے۔ ﴿ وَاتَّ٘بَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُ٘تْرِفُوْا فِیْهِ ﴾ ’’اور پیچھے پڑے رہے ظالم اسی چیز کے جس میں ان کو عیش ملا‘‘ یعنی وہ جن نعمتوں اور آسائشوں سے متمتع ہو رہے تھے انھی کے پیچھے پڑے رہے اور ان چیزوں کے بدلے انھوں نے کچھ اور نہیں چاہا۔ ﴿ وَكَانُوْا مُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور تھے وہ گناہ گار‘‘ یعنی ان نعمتوں اور آسائشوں کے پیچھے پڑ کر انھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، لہٰذا وہ عتاب کے مستحق ٹھہرے اور عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس آیت کریمہ میں اس امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے اندر ایسے ہوش مند مصلحین ہونے چاہئیں جو ان امور کی اصلاح کریں جن کو لوگوں نے فاسد کر دیا ہے، جو اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہوں ، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہیں ۔ اگر اس راہ میں تکلیفیں آئیں تو اس پر صبر کرتے رہیں اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں لوگوں کو بصیرت کی روشنی دکھاتے رہیں ۔ یہ بندۂ مومن کا بلند ترین حال ہے جس کی طرف رغبت کرنے والے راغب ہوتے ہیں اور اسی حال کو اختیار کرنے والا مرتبۂ امامت پر فائز ہوتا ہے کیونکہ اس کا عمل خالص رب العالمین کے لیے ہے۔
آیت: 117 #
{وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (117)}.
اور نہیں ہے آپ کا رب (ایسا) کہ وہ ہلاک کرے بستیوں کو ساتھ ظلم کے جبکہ ان کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں (117)
#
{117} أي: وما كان الله ليهلك القرى بظُلم منه لهم والحالُ أنَّهم {مصلحون}؛ أي: مقيمون على الصلاح مستمرون عليه؛ فما كان الله ليهلكهم إلا إذا ظلموا، وقامت عليهم حجَّة الله. ويُحتمل أنَّ المعنى: وما كان ربُّك لِيُهْلِكَ القرى بظلمهم السابق إذا رجعوا وأصلحوا عملهم؛ فإنَّ الله يعفو عنهم، ويمحو ما تقدَّم من ظلمهم.
[117] اللہ تبارک و تعالیٰ ظلم کے ساتھ بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا درآں حالیکہ وہ اصلاح کرنے والے ہوں ، یعنی وہ درست رویے پر قائم اور اس پر دوام کا التزام کرتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو صرف اسی وقت ہلاک کرتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب کریں اور ان کے خلاف حجت قائم ہو جائے اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ جب لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں تو تیرا رب ان بستیوں کو ان کے گزشتہ ظلم کی پاداش میں ہلاک نہیں کرے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا اور ان کے گزشتہ ظلم کو مٹا دے گا۔
آیت: 118 - 119 #
{وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (119)}
اور اگر چاہتا آپ کا رب تو البتہ بنا دیتا تمام لوگوں کو امت ایک ہی ، جبکہ وہ ہمیشہ رہیں گے (باہم) اختلاف کرنے والے ہی (118) سوائے ان لوگوں کے جن پر رحم کیا آپ کے رب نےاور اسی لیے اس نے پیدا کیا انھیں اور پوری ہوئی بات آپ کے رب کی، کہ ضرور بھروں گا میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے، سب سے (119)
#
{118} يخبر تعالى أنه لو شاء لجعل الناس أمَّة واحدة على الدين الإسلامي؛ فإنَّ مشيئته غير قاصرة، ولا يمتنعُ عليه شيءٌ،، ولكنَّه اقتضت حكمته أن لا يزالون مختلفين، مخالفين للصراط المستقيم، متَّبعين السبل الموصلة إلى النار، كلٌّ يرى الحقَّ فيما قاله والضَّلال في قول غيره.
[118] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تمام لوگوں کو دین اسلام پر مجتمع کر کے انھیں ایک امت بنا دیتا اس کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہ تھی اور کوئی چیز اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ مگر اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کرتے رہیں ، صراط مستقیم کی مخالفت کریں اور جہنم کی طرف جانے والے راستوں پر رواں دواں رہیں اور ہر کوئی اپنی رائے کو حق اور دوسرے کے قول کو گمراہی سمجھے۔
#
{119} {إلاَّ مَن رَحِمَ ربُّك}: فهداهم إلى العلم بالحقِّ والعمل به والاتفاق عليه؛ فهؤلاء سبقت لهم سابقةُ السعادة وتداركتْهم العنايةُ الربَّانية والتوفيق الإلهيُّ، وأما من عداهم؛ فهم مخذولون مَوْكولون إلى أنفسهم. وقوله: {ولذلك خَلَقَهم}؛ أي: اقتضت حكمته أنَّه خلقهم ليكون منهم السعداء والأشقياء والمتفقون والمختلفون والفريق الذي هدى الله والفريق الذي حقت عليهم الضلالة؛ ليتبيَّن للعباد عدلُه وحكمتُه، وليُظْهِر ما كمن في الطباع البشرية من الخير والشرِّ، وليقوم سوقُ الجهاد والعبادات التي لا تتمُّ ولا تستقيم إلا بالامتحان والابتلاء، {و} لأنَّه {تمَّتْ كلمةُ ربِّك لأملأنَّ جهنَّم من الجِنَّة والناس أجمعينَ}: فلا بدَّ أن ييسِّر للنار أهلاً يعملون بأعمالها الموصلة إليها.
[119] ﴿ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ﴾ ’’مگر جن پر رحم کیا آپ کے رب نے‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی علم حق کی طرف رہنمائی کی، انھیں اس پر عمل اور اس پر اتفاق کی توفیق بخشی۔ پس یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے سعادت کو لکھ دیا گیا تھا اور عنایت ربانی اور توفیق الٰہی نے ان کو جا لیا تھا… رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو ان کو ان کے نفسوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ﴿ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ﴾ ’’اور اسی لیے ان کو پیدا کیا‘‘ یعنی ان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا تاکہ ان میں سے کچھ لوگ خوش بخت اور کچھ لوگ بدبخت ہوں ، ان میں کچھ لوگ اتفاق کرنے والے اور کچھ لوگ اختلاف کرنے والے ہوں ۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز دیا اور ایک گروہ وہ ہو جو گمراہی کا حق دار قرار پایا تاکہ بندوں پر اس کا عدل اور اس کی حکمت عیاں ہو جائے، نیز طبائع بشری میں جو کچھ بھی اچھائی اور برائی پنہاں ہے وہ ظاہر ہو جائے اور تاکہ جہاد اور ان عبادات کا بازار گرم ہو جو امتحان اور آزمائش کے بغیر درست اور مکمل نہیں ہوتیں اور اس لیے کہ ﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَ٘ــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ﴾ ’’آپ کے رب کی وہ بات پوری ہو جائے (جس میں اس نے کہا تھا) کہ میں جہنم کو جنوں ، انسانوں سب سے بھر دوں گا۔‘‘ پس لازم ٹھہرا کہ وہ جہنم کو اس میں رہنے والے مہیا کرے جو ایسے اعمال بجا لائیں جو جہنم میں پہنچاتے ہیں ۔
آیت: 120 - 123 #
{وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (120) وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ (121) وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (122) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (123)}.
اور (ضرورت کی) ہر ایک چیز کو بیان کرتے ہیں ہم آپ پر خبروں میں سے رسولوں کی، کہ مضبو ط رکھتے ہیں ہم ساتھ اس کے دل آپ کااور آیا ہے آپ کے پاس اس (سورت یا واقعات) میں حق اور نصیحت اور یاد دہانی واسطے مومنوں کے (120) اور آپ کہہ دیجیے واسطے ان لوگوں کے جو نہیں ایمان لاتے، عمل کرو تم اوپر اپنی جگہ کے، بلاشبہ ہم بھی عمل کرنے والے ہیں (121) اورانتظار کرو تم، بلاشبہ ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں (122) اور واسطے اللہ ہی کے ہے غیب آسمانوں اور زمین کااور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کام سب کے سب، سو آپ عبادت کریں اسی کی اور توکل کریں اسی پراور نہیں ہے آپ کا رب غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو(123)
#
{120} لما ذكر في هذه السورة من أخبار الأنبياء ما ذَكَرَ؛ ذَكَرَ الحكمة في ذِكْر ذلك، فقال: {وكلًّا نَقُصُّ عليك من أنباء الرُّسل ما نثبِّتُ به فؤادك}؛ أي: قلبك؛ ليطمئن، ويثبت، ويصبر كما صبر أولو العزم من الرسل؛ فإنَّ النفوس تأنَس بالاقتداء وتنشَط على الأعمال، وتريد المنافسة لغيرها، ويتأيَّد الحقُّ بذِكْر شواهده وكثرة من قام به. {وجاءك في هذه}: السورة {الحقُّ}: اليقينُ فلا شكَّ فيه بوجهٍ من الوجوه؛ فالعلم بذلك من العلم بالحقِّ الذي هو أكبر فضائل النفوس. {وموعظةٌ وذِكرى للمؤمنينَ}؛ أي: يتَّعظون به فيرتدعون عن الأمور المكروهة ويتذكَّرون الأمور المحبوبة لله فيفعلونها.
[120] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں انبیائے کرام کے حالات بیان فرمائے تو اب اس میں پنہاں حکمت کا ذکر فرمایا: ﴿وَكُلًّا نَّ٘قُ٘صُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبـَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ﴾ ’’اور یہ سب چیز بیان کرتے ہیں ہم آپ کے پاس رسولوں کے احوال سے جس سے مضبوط کریں ہم آپ کے دل کو‘‘ تاکہ وہ مطمئن رہے، اس کو ثبات حاصل ہو اور وہ صبر کرے، جیسے اولوالعزم انبیاء و مرسلین نے صبر کیا تھا کیونکہ نفوس انسانی اقتدا سے مانوس ہوتے ہیں اور اعمال پر ان کو نشاط حاصل ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ، حق کے شواہد اور اس کو قائم کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرنے سے حق کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿وَجَآءَكَ فِیْ هٰؔذِهِ ﴾ ’’اور آیا آپ کے پاس اس میں ‘‘ یعنی اس سورۂ مقدسہ میں ﴿الْحَقُّ﴾ ’’حق‘‘ آپ کے پاس یقین آگیا اور اس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں ۔ اس کا علم، حق کا علم ہے جو نفس کے لیے سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ﴿ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰى لِلْ٘مُؤْمِنِیْنَ۠ ﴾ ’’اور نصیحت اور یاددہانی مومنوں کے لیے‘‘ یعنی وہ اس سے نصیحت پکڑتے ہیں پس برے کاموں سے باز رہتے ہیں اور محبوب کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔
#
{121} وأما من ليس من أهل الإيمان؛ فلا تنفعُهم المواعظُ وأنواع التذكير، ولهذا قال: {وقلْ للذينَ لا يؤمنون}: بعدما قامت عليهم الآيات: {اعْمَلوا على مكانتِكُم}؛ أي: حالتكم التي أنتم عليها، {إنَّا عاملونَ}: على ما كنَّا عليه.
[121] اور جو ایمان نہیں رکھتے انھیں نصیحتیں اور مختلف انواع کی یاددہانیاں کوئی فائدہ نہیں دیتیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَقُ٘لْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو (دلائل قائم ہو جانے کے بعد بھی) ایمان نہیں لاتے‘‘ ﴿ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ﴾ ’’اپنی جگہ عمل کیے جاؤ۔‘‘ یعنی اسی حالت میں جس میں کہ تم ہو، عمل کرتے رہو ﴿ اِنَّا عٰمِلُوْنَ ﴾ ’’ہم بھی (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کر رہے ہیں ۔‘‘
#
{122} {وانتظروا}: ما يحِلُّ بنا، {إنا منتظرون}: ما يحلُّ بكم.
[122] ﴿ وَانْتَظِرُوْا﴾ ’’تم بھی انتظار کرو۔‘‘ یعنی ہم پر جو کچھ نازل ہوگا، تم اس کا انتظار کرو ﴿ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ﴾ ’’ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔‘‘ اور تم پر جو کچھ نازل ہوگا، ہم اس کے منتظر ہیں ۔
#
{123} وقد فصَل الله بين الفريقين، وأرى عبادَه نَصْرَه لعبادِه المؤمنين، وقَمْعَه لأعداء الله المكذبين. {ولله غيبُ السمواتِ والأرض}؛ أي: ما غاب فيهما من الخفايا والأمور الغيبيَّة، {وإليه يُرْجَعُ الأمرُ كلُّه}: من الأعمال والعمال، فيميز الخبيثُ من الطيِّب، {فاعبُدْه وتوكَّلْ عليه}؛ أي: قم بعبادته، وهي جميع ما أمر الله به مما تقدر عليه. {وتوكَّلْ على الله}: في ذلك. {وما ربُّك بغافل عما تعملون}: من الخير والشرِّ، بل قد أحاط علمُه بذلك، وجرى به قلمه، وسيجري عليه حكمه وجزاؤه.
[123] اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں گروہوں کے درمیان جو فرق ہے اسے بیان کر دیا۔ اس نے اپنے بندوں کو دکھا دیا کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے اور انبیائے کرام کو جھٹلانے والے دشمنان الٰہی کا قلع قمع کرتا ہے۔﴿ وَلِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور اللہ ہی کے پاس ہے چھپی بات آسمانوں اور زمین کی‘‘ یعنی تمام مخفی چیزیں اور غیبی امور جو آسمانوں اور زمین میں سربستہ ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ﴿ وَاِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُؔ كُلُّهٗ ﴾ ’’اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کام‘‘ تمام اعمال اور عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کر دے گا۔ ﴿ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ﴾ ’’پس اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبودیت کو قائم کیجیے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ تمام احکام ہیں جن کی تعمیل پر آپe قادر ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ آپ کا رب ان اچھے اور برے اعمال سے غافل نہیں ہے جن کو تم بجا لاتے ہو بلکہ اس کا علم ان اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان پر اس کا قلم جاری ہو چکا ہے اور اب اس پر اس کا حکم اور جزا کا فیصلہ جاری ہوگا۔