آیت:
تفسیرسورۂ طارق
تفسیرسورۂ طارق
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 17 #
{وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2) النَّجْمُ الثَّاقِبُ (3) إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ (4) فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5) خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ (6) يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (7) إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ (8) يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ (9) فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ (10) وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (11) وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (12) إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (13) وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (14) إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا (15) وَأَكِيدُ كَيْدًا (16) فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا (17)}.
قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی(1) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کیا ہے رات کو نمودار ہونے والا؟(2) (وہ) ستارہ ہے چمکنے والا(3) نہیں کوئی نفس بھی مگر اس پر ہے ایک محافظ(4) پس چاہیے کہ دیکھے انسان کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے وہ(5) پیدا کیا گیا ہے پانی اچھلنے والے سے(6) وہ نکلتا ہے پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان میں سے(7) بلاشبہ وہ (اللہ) اس (انسان) کے لوٹانے پر قادر ہے(8) جس دن ظاہر کیے جائیں گے راز(9) تو نہ ہو گی اس کے لیے کوئی قوت اور نہ کوئی مدد گار (10) قسم ہے آسمان بار بار بارش لانے والے کی (11) اور زمین پھٹنے والی کی (12) بلاشبہ وہ (قرآن) البتہ قول فیصل ہے (13) اور نہیں وہ ہنسی مذاق (14) بلاشبہ وہ (کافر) تدبیر کرتے ہیں ایک تدبیر (15) اور میں بھی تدبیر کرتا ہوں ایک تدبیر (16) پس مہلت دیجیے کافروں کو مہلت دینا تھوڑی سی (17)
#
{1 ـ 4} يقول الله تعالى: {والسماءِ والطارقِ}: ثم فسَّر الطارقَ بقوله: {النَّجمُ الثاقبُ}؛ أي: المضيء الذي يثقب نورُه فيخرِقُ السماوات فينفذ حتى يُرى في الأرض. والصحيح أنَّه اسم جنس يشمل سائر النجوم الثواقب. وقد قيل: إنَّه زحل، الذي يخرق السماوات السبع وينفذها فيُرى منها، وسُمِّيَ طارقاً لأنَّه يطرق ليلاً. والمقسَم عليه قوله: {إن كلُّ نفسٍ لَمَّا عليها حافظ}: يحفظ عليها أعمالها الصالحة والسيئة، وستُجازى بعملها المحفوظ عليها.
[4-1] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ﴾ ’’آسمان اور طارق کی قسم!‘‘پھر ﴿اَلطَّارِقُ﴾کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿النَّجْمُ الثَّاقِبُ﴾ یعنی روشن ستارہ جس کی روشنی آسمانوں میں سوراخ کر دیتی ہے، آر پار چھید بن جاتا ہے حتیٰ کہ زمین سے دکھائی دیتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے جو تمام روشن ستاروں کو شامل ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ’’زحل‘‘ہے جو ساتوں آسمانوں کو چھید کر سوراخ کر دیتا ہے اور ان میں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اس کو ﴿اَلطَّارِقُ﴾اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ رات کے وقت نمودار ہوتا ہے۔ جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِنْ كُ٘لُّ نَفْ٘سٍ لَّمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌ﴾ ’’ہر متنفس پر نگہبان مقرر ہے۔‘‘جو نفس کے اچھے برے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا و سزا دی جائے گی جسے اس کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔
#
{5 ـ 7} {فلينظُرِ الإنسانُ ممَّ خُلِقَ}؛ أي: فليتدبَّر خلقته ومبدأه؛ فإنَّه مخلوق {من ماءٍ دافقٍ}: وهو المنيُّ، الذي {يخرُجُ من بين الصُّلْبِ والترائبِ}: يُحتمل أنَّه من بين صلبِ الرجل وترائب المرأة، وهي ثدياها، ويُحتمل أنَّ المراد المنيُّ الدافق، وهو منيُّ الرجل، وأنَّ محلَّه الذي يخرج منه ما بين صلبه وترائبه، ولعلَّ هذا أولى؛ فإنَّه إنَّما وصف به الماء الدافق الذي يُحَسُّ به ويشاهَدُ دفْقُه ، وهو منيُّ الرجل، وكذلك لفظ الترائب؛ فإنَّها تستعمل للرجل؛ فإنَّ الترائب للرجل بمنزلة الثديين للأنثى؛ فلو أريدت الأنثى؛ لقيل من الصُّلب والثديين ونحو ذلك. والله أعلم.
[7-5] ﴿فَلْیَنْظُ٘رِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ﴾ یعنی انسان کو اپنی تخلیق اور اس کی ابتدا پر غور کرنا چاہیے ﴿خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ﴾ ’’پیدا کیا گیاہے وہ اچھلتے ہوئے پانی سے۔‘‘ اس سے مراد منی ہے ﴿یَّخْرُجُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالـتَّ٘رَآىِٕبِ﴾ ’’جو نکلتی ہے پیٹھ اور سینے کے بیچ سے۔‘‘اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ (یہ منی) مرد کی صلب سے اور عورت کے سینے یعنی اس کی چھاتی سے نکلتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اچھل کر نکلنے والی منی، جو کہ مرد کی منی ہے، اس کا مقام جہاں سے وہ نکلتی ہے، صلب اور سینے کے درمیان ہے۔ شاید یہی معنی زیادہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اچھل کر نکلنے والے پانی (یعنی منی) کا وصف بیان کیا ہے جس کو محسوس کیا جاتا ہے اور اس کے اچھل کر باہر نکلنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ مرد کی منی ہے۔ اسی طرح ﴿الـتَّ٘رَآىِٕبِ﴾کا لفظ مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ مرد کا سینہ بمنزلہ عورت کی چھاتیوں کے ہے اگر یہاں عورت مراد ہوتی تو کہا جاتا :(بَیْنَ الصُّلْبِ وَالثَّدْیَیْنِ )پیٹھ اور دونوں پستانوں کے درمیان وغیرہ۔ وَاللہُ أَعْلَمُ۔
#
{8 ـ 10} فالذي أوجد الإنسان من ماءٍ دافقٍ يخرج من هذا الموضع الصعب قادرٌ على رجعه في الآخرة وإعادته للبعث والنُّشور والجزاء. وقد قيل: إنَّ معناه أنَّ الله على رجع الماءِ المدفوق في الصُّلب لَقادرٌ، وهذا وإن كان المعنى صحيحاً؛ فليس هو المرادُ من الآية، ولهذا قال بعده: {يومَ تُبلى السرائر}؛ أي: تختبر سرائر الصدور ويظهر ما كان في القلوب من خيرٍ وشرٍّ على صفحات الوجوه؛ كما قال تعالى: {يوم تبيضُّ وجوهٌ وتسودُّ وجوهٌ}؛ ففي الدُّنيا تنكتم كثيرٌ من الأشياء ولا يظهر عياناً للناس، وأمَّا يوم القيامة ؛ فيظهر بِرُّ الأبرار وفجورُ الفجار، وتصير الأمور علانيةً. وقوله: {فما له من قوَّةٍ}؛ أي: من نفسه يدفع بها ، {ولا ناصرٍ}: من خارجٍ ينتصر به، فهذا القسمُ على العاملين وقت عملهم وعند جزائهم.
[10-8] پس جس ہستی نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی سے وجود بخشا جو اس مشکل مقام سے خارج ہوتا ہے، وہ آخرت میں اسے پیدائش کی طرف لوٹانے، قیامت، حشر و نشر اور جزا و سزا کے لیے اس کی تخلیق کا اعادہ کرنے پر قادر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اچھل کر نکلنے والے پانی کو واپس صلب میں لوٹانے پر قادر ہے۔ یہ معنی اگرچہ صحیح ہے، مگر آیت کریمہ سے یہ معنی مراد نہیں ہے۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا: ﴿یَوْمَ تُ٘بْلَى السَّرَآىِٕرُ﴾ اس دن سینے کے بھید جانچے جائیں گے اور دلوں میں جو اچھائی یا برائی ہے وہ سب چہروں کے صفحات پر آشکارا ہو جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَّوْمَ تَ٘بْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ (آل عمران:3؍106) ’’جس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘دنیا کے اندر بہت سی چیزیں پوشیدہ رہتی تھیں اور لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتی تھیں۔ قیامت کے روز تو ابرار کی نیکی اور فاجروں کا فسق و فجور صاف ظاہر ہوں گے اور علانیہ امور بن جائیں گے۔ ﴿فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ ﴾ یعنی اس کے پاس اپنی طاقت نہیں ہوگی جس کے ذریعے سے وہ مدافعت کر سکے ﴿ وَّلَا نَاصِرٍ ﴾ اور نہ خارج سے کوئی مددگار ہو گا جس سے مدد لے سکے۔ عمل کرنے والوں پر یہ قسم، ان کے عمل کرنے کے وقت اور ان کی جزا و سزا کے وقت ہے۔
#
{11 ـ 14} ثم أقسم قسماً ثانياً على صحة القرآن، فقال: {والسماءِ ذات الرَّجْع. والأرضِ ذاتِ الصَّدْع}؛ أي: ترجع السماء بالمطر كلَّ عام، وتنصدِعُ الأرض للنبات، فيعيش بذلك الآدميُّون والبهائم، وترجع السماء أيضاً بالأقدار والشؤون الإلهيَّة كلَّ وقتٍ، وتنصدع الأرض عن الأموات، {إنَّه}؛ أي: القرآن، {لقولٌ فصلٌ}؛ أي: حقٌّ وصدقٌ بيِّنٌ واضحٌ، {وما هو بالهَزْل}؛ أي: جدٌّ ليس بالهزل، وهو القول الذي يفصل بين الطوائف والمقالات، وتنفصل به الخصومات.
[14-11] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسری قسم کھائی جو قرآن کی صحت پر ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِۙ۰۰وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ﴾ ’’بارش والے آسمان کی قسم! اور پھٹنے والی زمین کی قسم!‘‘ یعنی آسمان ہر سال بارش لے کر لوٹتا ہے، زمین نباتات کے اگنے کے لیے شق ہوتی ہے، پس اس پر انسان اور حیوانات زندہ رہتے ہیں۔ نیز آسمان ہر وقت قضا و قدر اور شؤ ون الٰہیہ کے ساتھ لوٹتا ہے اور (قیامت کے روز) مردوں سے زمین شق ہوجائے گی۔ ﴿ اِنَّهٗ ﴾ بلاشبہ یہ قرآن کریم ﴿ لَقَوْلٌ فَصْلٌ﴾ حق اور صدق، بیّن اور واضح ہے ﴿ وَّمَا هُوَ بِالْ٘هَزْلِ﴾ یہ بے ہودہ کلام نہیں بلکہ سنجیدہ کلام ہے، یہ ایسا کلام ہے جو مختلف گروہوں اور مختلف مقالات کے مابین فیصلہ کرتا ہے اور مختلف خصومات میں امتیازکر تا ہے۔
#
{15 ـ 17} {إنَّهم}؛ أي: المكذِّبين للرسول - صلى الله عليه وسلم - وللقرآن، {يكيدون كيداً}: ليدفعوا بكيدِهِم الحقَّ ويؤيِّدوا الباطل، {وأكيدُ كيداً}: لإظهار الحقِّ، ولو كره الكافرون، ولدفع ما جاؤوا به من الباطل، ويُعلم بهذا مَنْ الغالب؛ فإنَّ الآدميَّ أضعفُ وأحقرُ من أن يغالب القويَّ العليم في كيدِهِ. {فمهِّلِ الكافرين أمْهِلْهم رويداً}؛ أي: قليلاً، فسيعلمون عاقبة أمرهم حين ينزل بهم العقاب.
[17-15] ﴿ اِنَّهُمْ ﴾ یعنی رسولe اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے والے ﴿ یَكِیْدُوْنَ كَیْدًا﴾ ’’سازشیں کرتے ہیں۔‘‘ تاکہ اپنی سازش کے ذریعے سے حق کو روک دیں اور باطل کی مددکریں ﴿ وَّاَكِیْدُ كَیْدًا﴾ اور حق کو غالب کرنے کے لیے میں چال چلتا ہوں خواہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے، تاکہ باطل کو روکا جائے جسے یہ لے کر آئے ہیں اور اس سے معلوم ہو جائے کہ کون غالب ہے؟ کیونکہ انسان بہت کمزور اور حقیر ہے کہ اپنے سے زیادہ طاقت رکھنے والے اور اپنی چال سازی میں زیادہ مہارت اور علم رکھنے والے پر غالب آ سکے۔ ﴿ فَمَهِّلِ الْ٘كٰفِرِیْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا﴾ یعنی کافروں کو تھوڑی سے مہلت دو، پس عنقریب جب ان کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے گا تو انھیں اپنے انجام کا علم ہو جائے گا۔