آیت:
تفسیر سورۂ بروج
تفسیر سورۂ بروج
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 22 #
{وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ (1) وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ (2) وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ (3) قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ (4) النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ (5) إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ (6) وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ (7) وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (8) الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (9) إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (10) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ (11) إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (12) إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ (13) وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ (14) ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ (15) فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (16) هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ (17) فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ (18) بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي تَكْذِيبٍ (19) وَاللَّهُ مِنْ وَرَائِهِمْ مُحِيطٌ (20) بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ (21) فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ (22)}.
قسم ہے آسمان برجوں والے کی(1) اور وعدہ دیے ہوئے دن کی(2) اور حاضر ہونے والے (یوم جمعہ) اور حاضر کیے ہوئے (یوم عرفہ) کی(3) ہلاک کیے گئے خندقوں والے(4)( یعنی ) آگ تھی ایندھن والی(5)جبکہ وہ اس پر بیٹھے تھے(6)اور وہ اس کو، جو کچھ وہ کر رہے تھے مومنوں کے ساتھ، دیکھ رہے تھے(7) اور نہیں انتقام لیا انھوں نے ان سے مگر اس بات کا کہ وہ ایمان لائے تھے اللہ پر جو زبردست، قابل تعریف ہے(8) وہ ذات کہ اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے(9) بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے تکلیفیں دیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ، پھر نہ توبہ کی انھوں نے تو ان کے لیے عذاب ہے جہنم کا اور ان کے لیے عذاب ہے جلانے والا (10) بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ان کے لیے ایسے باغات ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، یہی ہے کامیابی بہت بڑی (11) بلاشبہ پکڑ آپ کے رب کی نہایت سخت ہے (12) بے شک وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اوروہی دوبارہ پیدا کرے گا (13) اور وہی ہے بڑا بخشنے والا، بہت محبت کرنے والا (14) عرش کا مالک، اونچی شان والا(15)کر گزرنے والا ہے جو وہ چاہتا ہے(16)کیا آئی ہے آپ کے پاس بات لشکروں کی؟(17)( یعنی ) فرعون اور ثمود کی (18)بلکہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تکذیب میں (لگے ہوئے) ہیں(19) اور اللہ ہر طرف سے ان کو گھیرے ہوئے ہے (20)بلکہ یہ قرآن اونچی شان والا ہے (21) (لکھا ہوا ہے) لوح محفوظ میں (22)
#
{1 ـ 3} {والسماءِ ذات البُروج}؛ أي: ذات المنازل المشتملة على منازل الشمس والقمر والكواكب المنتظمة في سيرها على أكمل ترتيبٍ ونظامٍ دالٍّ على كمال قدرة الله [تعالى] ورحمته وسعة علمِه وحكمتِه. {واليوم الموعودِ}: وهو يومُ القيامةِ، الذي وَعَدَ اللهُ الخَلْقَ أن يجمَعَهم فيه ويضمَّ فيه أوَّلهم وآخرَهم وقاصيَهم ودانِيَهم، الذي لا يمكن أن يتغيَّر ولا يُخْلِفُ الله الميعاد. {وشاهدٍ ومشهودٍ}: وشمل هذا كلَّ من اتَّصف بهذا الوصف؛ أي: مبصِرٍ ومبصَرٍ وحاضرٍ ومحضورٍ وراءٍ ومرئيٍّ. والمقسَم عليه ما تضمَّنه هذا القسم من آيات الله الباهرة وحِكَمِهِ الظاهرة ورحمته الواسعة. وقيل: إنَّ المقسم عليه قوله:
[3-1] ﴿وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْـبُرُوْجِ﴾ ’’برجوں والے آسمان کی قسم۔‘‘ یعنی جو منازل والا ہے اور جو سورج، چاند اور ان کواکب کی منازل پر مشتمل ہے جو اپنے چلنے میں کامل ترین ترتیب اور ایسے نظام میں منسلک ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت و رحمت اور وسعت علم پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ﴾ ’’اور وعدے کے دن کی۔‘‘ یہ قیامت کا دن ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس دن انھیں اکٹھا کرے گا، چنانچہ ان کے اول و آخر اور دور و نزدیک کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا، اس دن کا بدلنا ممکن نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی ہی کرتا ہے۔ ﴿وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ﴾ یہ ہر اس شخص کو شامل ہے جو اس وصف سے متصف ہے یعنی دیکھنے والا اور دکھائی دینے والا، حاضر ہونے والا اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے، بصیرت سے دیکھنے والا اور دکھائی دینے والا۔ یہاں جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں، ظاہر حکمتیں اور بے پایاں رحمت جن کو یہ قسم متضمن ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
#
{4 ـ 9} {قُتِلَ أصحابُ الأخدود}: وهذا دعاءٌ عليهم بالهلاك، والأخدودُ الحُفَرُ التي تُحْفَرُ في الأرض، وكان أصحابُ الأخدود هؤلاء قوماً كافرين، ولديهم قومٌ مؤمنون، فراودوهم على الدُّخول في دينهم، فامتنع المؤمنون من ذلك، فشقَّ الكافرون أخدوداً في الأرض، وقذفوا فيها النار، وقعدوا حولَها، وفتنوا المؤمنين، وعرضوهم عليها؛ فمن استجاب لهم أطلقوه، ومن استمرَّ على الإيمان قذفوه في النار، وهذا غايةُ المحاربة لله ولحزبه المؤمنين، ولهذا لعنهم الله وأهلكهم وتوعَّدهم، فقال: {قُتِلَ أصحابُ الأخدودِ}، ثم فسَّر الأخدود بقوله: {النارِ ذاتِ الوَقود. إذ هم عليها قعودٌ. وهم على ما يفعلون بالمؤمنين شهودٌ}: وهذا من أعظم ما يكون من التجبُّر وقساوة القلب؛ لأنَّهم جمعوا بين الكفر بآيات الله ومعاندتها ومحاربة أهلها وتعذيبهم بهذا العذاب الذي تَنْفَطِرُ منه القلوب وحضورهم إيَّاهم عند إلقائهم فيها. والحالُ أنَّهم ما نقموا من المؤمنين إلاَّ حالةً يُمْدَحون عليها وبها سعادتُهم، وهي أنَّهم كانوا يؤمنون {بالله العزيز الحميد}؛ أي: الذي له العزَّة، التي قَهَرَ بها كلَّ شيء، وهو حميدٌ في أقواله وأفعاله وأوصافه. {الذي له مُلْكُ السموات والأرض}: خلقاً وعبيداً يتصرَّف فيهم بما يشاء. {والله على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}: علماً وسمعاً وبصراً؛ أفلا خاف هؤلاء المتمرِّدون عليه أن يأخُذَهم العزيز المقتدر، أوَ ما علموا كلُّهم أنَّهم مماليك لله، ليس لأحدٍ على أحدٍ سلطةٌ من دون إذن المالك؟! أوَ خَفِيَ عليهم أنَّ الله محيطٌ بأعمالهم مجازيهم عليها ؟! كلاَّ إنَّ الكافر في غرورٍ، والجاهل في عمىً وضلالٍ عن سواء السبيل.
[9-4] ﴿قُ٘تِلَ اَصْحٰؔبُ الْاُخْدُوْدِ﴾ ’’ہلاک کردیے جائیں خندق (کھودنے) والے۔‘‘ یہ ان کے لیے ہلاکت کی بددعا ہے۔ ﴿الْاُخْدُوْدِ﴾ سے مراد وہ گڑھے ہیں جو زمین میں کھودے جاتے ہیں۔ یہ اصحاب الاخدود (گڑھوں والے) کافر تھے اور ان کے ہاں کچھ اہل ایمان بھی تھے، کفار نے ان کو اپنے دین میں داخل کرنا چاہا، اہل ایمان نے اس سے انکار کر دیا۔ کفار نے زمین میں بڑے بڑے گڑھے بنائے، ان کے اندر آگ جلائی اور ان کے اردگرد بیٹھ کر اہل ایمان کو آگ پر پیش کر کے ان کو آزمائش میں مبتلا کیا، پس ان میں جس کسی نے ان کفار کی بات مان لی، اس کو چھوڑ دیا گیا اور جو اپنے ایمان پر ڈٹا رہا، اس کو آگ میں پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے گروہ اہل ایمان کے خلاف انتہا کو پہنچی ہوئی محاربت و دشمنی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کو ہلاک کر ڈالا اور ان کو وعید سنائی، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘تِلَ اَصْحٰؔبُ الْاُخْدُوْدِ﴾، پھر ﴿الْاُخْدُوْدِ﴾کی تفسیر اپنے اس ارشاد سے کی: ﴿النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِۙ۰۰ اِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُ٘عُوْدٌۙ۰۰وَّهُمْ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُ٘هُوْدٌ﴾ ’’وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے ارد گرد بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کا تماشا کر رہے تھے۔‘‘ یہ بدترین جبر اور قساوت قلبی ہے کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی، ان کے ساتھ عناد رکھا اور ان آیات پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف محاربت کی اور اس قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کے لیے تعذیب کو جمع کر دیا جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔نیز یہ کہ جب اہل ایمان کو آگ کے ان گڑھوں میں ڈالا گیا تو یہ اس وقت موجود تھے اور حال یہ تھا کہ اہل ایمان پر ان کی صرف اس حالت کی بنا پر ناراض تھے جس پر وہ قابل ستائش تھے اور جس سے ان کی سعادت وابستہ تھی یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے جو غالب اور قابل تعریف ہے، یعنی جو غلبے کا مالک ہے۔ جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر غالب ہے اور وہ اپنے اقوال و افعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔ ﴿الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کے اللہ تعالیٰ کے غلام ہونے کے اعتبار سے سب پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہے وہ ان میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے ﴿وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنے علم، سمع و بصر کی بنا پر ہر چیز پر گواہ ہے، پس اس کے خلاف سرکشی اختیار کرنے والے یہ کفار اس بات سے کیوں نہ ڈرے کہ غالب اور قدرت رکھنے والا ان کو پکڑ لے گا کیا ان سب کو علم نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو کسی پر کوئی اختیار نہیں؟ یا ان پر یہ حقیقت مخفی رہ گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟ہرگز نہیں! کافر دھوکے میں پڑا ہوا ہے اور جاہل اندھے پن کا شکار اور سیدھے راستے سے ہٹ کر گمراہی میں مبتلا ہے۔
#
{10} ثم أوعدهم ووعدهم وعرض عليهم التوبة، فقال: {إنَّ الذين فتنوا المؤمنين والمؤمنات ثمَّ لم يَتوبوا فلهم عذابُ جهنَّم ولهم عذابُ الحريق}؛ أي: العذاب الشديد المحرِق. قال الحسن رحمه الله: انظُروا إلى هذا الكرم والجود؛ قتلوا أولياءه وأهل طاعته، وهو يدعوهم إلى التوبة.
[10] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی، ان کے ساتھ وعدہ کیا اور ان کے سامنے توبہ پیش کی، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ﴾ ’’جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور پھر توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی۔‘‘ یعنی جلانے والا نہایت سخت عذاب ہوگا۔ حضرت حسن بصریa فرماتے ہیں: اس جود و کرم کی طرف دیکھو، انھوں نے اس کے اولیاء اور اس کے اہل اطاعت بندوں کو قتل کیا اور وہ ان کو توبہ کی طرف بلا رہا ہے۔
#
{11} ولما ذكر عقوبة الظالمين؛ ذكر ثواب المؤمنين، فقال: {إنَّ الذين آمنوا}: بقلوبهم، {وعمِلوا الصالحاتِ}: بجوارحهم، {لهم جناتٌ تجري من تحتِها الأنهارُ ذلك الفوزُ الكبيرُ}: الذي حَصَلَ لهم الفوزُ برضا الله ودار كرامته.
[11] ظالموں کے لیے سزا کا ذکرکرنے کے بعد مومنوں کے لیے ثواب کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ بے شک وہ لوگ جو اپنے دل سے ایمان لائے ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾اور اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے ﴿لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ١ۣؕ ۬ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیْرُ﴾ ’’ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ جس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی تکریم و اکرام کے گھر کے حصول سے فوزیاب ہوں گے۔
#
{12} {إنَّ بطش ربِّكَ لشديدٌ}؛ أي: إن عقوبته لأهل الجرائم والذُّنوب العظام لقويَّةٌ شديدةٌ ، وهو للظالمين بالمرصاد ؛ قال الله تعالى: {وكذلك أخذُ ربِّك إذا أخَذَ القُرى وهي ظالمةٌ إنَّ أخذَه أليمٌ شديدٌ}.
[12] ﴿اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ﴾ بے شک اہل جرائم اور بڑے گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اس کی اس کی سزا بڑی سخت ہے اور وہ ظالموں کی گھات میں ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَؔكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْ٘قُ٘رٰى وَهِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ﴾ (ھود:11؍102) ’’اور جب تیرا رب بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کریں، تو اس کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، بے شک اس کی پکڑ بڑی ہی درد ناک ہے۔‘‘
#
{13} {إنَّه هو يُبدِئُ ويعيدُ}؛ أي: هو المنفرد بإبداء الخلق وإعادته؛ فلا يشارِكهُ في ذلك مشارك.
[13] ﴿اِنَّهٗ هُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیْدُ﴾ یعنی وہ تخلیق کی ابتدا کرنے اور اس کا اعادہ کرنے میں متفرد ہے، اس میں کوئی ہستی اس کی شریک نہیں۔
#
{14} {وهو الغفورُ}: الذي يغفر الذُّنوب جميعها لمن تاب، ويعفو عن السيِّئات لمن استغفره وأناب. {الودودُ}: الذي يحبُّه أحبابه محبَّةً لا يشبهها شيءٌ؛ فكما أنَّه لا يشابهه شيءٌ في صفات الجلال والجمال والمعاني والأفعال؛ فمحبَّته في قلوب خواصِّ خلقه التابعة لذلك لا يشبِهُها شيءٌ من أنواع المحابِّ، ولهذا كانت محبَّتُه أصل العبوديَّة، وهي المحبَّة التي تتقدَّم جميع المحابِّ وتغلبها، وإن لم تكن غيرها تبعاً لها؛ كانت عذاباً على أهلها، وهو تعالى الودودُ الوادُّ لأحبابه؛ كما قال تعالى: {يُحِبُّهم ويحبُّونه}: والمودَّة هي المحبَّة الصافية. وفي هذا سرٌّ لطيفٌ؛ حيث قرن الودود بالغفور؛ ليدلَّ ذلك على أنَّ أهل الذُّنوب إذا تابوا إلى الله، وأنابوا غفر لهم ذنوبهم، وأحبهم فلا يقال تغفر ذنوبهم، ولا يرجع إليهم الود كما قاله بعض الغالطين، بل الله أفرح بتوبة عبده حين يتوب من رجلٍ على راحلته عليها طعامُهُ وشرابه وما يصلحه، فأضلَّها في أرضِ فلاةٍ مهلكةٍ، فأيس منها، فاضطجع في ظلِّ شجرةٍ ينتظر الموت، فبينما هو على تلك الحال؛ إذا راحلته على رأسه، فأخذ بخطامها. فالله أعظم فرحاً بتوبة العبد من هذا براحلته، وهذا أعظم فرح يقدَّر؛ فلله الحمد والثناء وصفو الوداد ما أعظمَ برَّه وأكثر خيرَه وأغزرَ إحسانَه وأوسع امتنانَه!
[14] ﴿وَهُوَ الْغَفُوْرُ﴾ وہ اس شخص کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو توبہ کرتا ہے اور اس کی برائیوں کو معاف کر دیتا ہے جو ان برائیوں کی بخشش طلب کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿الْوَدُوْدُ﴾ جو اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہے، ایسی محبت جو کسی چیز کے مشابہ نہیں۔ جیسے صفات جلال و جمال اور معانی و افعال میں کوئی چیز مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی مخلوق میں سے اس کے خاص بندوں کے دلوں میں اس کی محبت، اسی کے تابع ہے محبت کی مختلف انواع، اس محبت سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی محبت عبودیت کی اصل ہے اور یہ وہ محبت ہے جو تمام محبتوں پر مقدم اور سب پر غالب ہے، اگر دوسری محبتیں اس محبت کے تابع نہ ہوں تو یہ محبتیں اہل محبت کے لیے عذاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ وَدُود ہے، وہ اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗۤ﴾ (المائدۃ:5؍54) ’اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘اور اَلْمَوَدَّۃُ خالص اور صاف محبت کو کہتے ہیں۔ اس میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿الْوَدُوْدُ﴾کو ﴿الْغَفُوْرُ﴾ کے ساتھ مقرون بیان کیا ہے تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ گنا ہ گار جب اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے۔ پس یہ نہ کہا جائے کہ ان کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مودت ان کی طرف نہیں لوٹتی، جیسا کہ بعض مغالطہ انگیزوں کا قول ہے۔ بلکہ بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری پر ہو، اس کا کھانا پینا اور دیگر سامان اسی سواری پر ہو اور ایک ہلاکت خیز بیابان میں اس کی وہ سواری گم ہو جائے، وہ سواری (کی بازیابی) سے مایوس ہو کر ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ جائے اور موت کا انتظار کرنے لگے۔ وہ ابھی اسی حال میں ہو کہ وہ کیا دیکھے کہ سواری اس کے سر پر کھڑی ہے پس وہ اس کی مہار تھام لے (اس سواری کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہے) پس اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری کے ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔پس اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے حمد و ثنا اور خالص محبت۔ اس کی بھلائی کتنی عظیم، اس کی نیکی کتنی زیادہ، اس کا احسان کس قدر بے پایاں اور اس کی نوازشیں کتنی وسیع ہیں۔
#
{15} {ذو العرش المجيدُ}؛ أي: صاحب العرش العظيم، الذي من عظمته أنه وسع السماواتِ والأرض والكرسيَّ؛ فهي بالنسبة إلى العرش كحلقة ملقاةٍ في فلاةٍ بالنسبة لسائر الأرض ، وخصَّ الله العرش بالذِّكر لعظمته، ولأنَّه أخصُّ المخلوقات بالقرب منه [تعالى]. وهذا على قراءة الجرِّ يكون {المجيد} نعتاً للعرش، وأما على قراءة الرفع؛ فإنَّه يكون نعتاً لله ، والمجدُ سعة الأوصاف وعظمتها.
[15] ﴿ذُو الْ٘عَرْشِ الْمَجِیْدُ﴾ یعنی عرش عظیم کا مالک ہے، جس عرش کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمانوں، زمین اور کرسی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کرسی کی عرش کے ساتھ وہی نسبت ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑے ہوئے حلقے (کڑے) کی نسبت زمین سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عرش کا ذکر خاص طور پر اس کی عظمت کی وجہ سے کیا، نیز عرش کو تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی خصوصیت حاصل ہے۔جر کی قراء ت کی صورت میں (اَلْمَجِیدِ) عرش کی نعت ہے اور رفع کی قراء ت کی صورت میں یہ اللہ کی نعت ہے اور مَجْدٌ اوصاف کی وسعت اور ان کی عظمت کو کہتے ہیں۔
#
{16} {فعَّالٌ لما يريد}؛ أي: مهما أراد شيئاً؛ فعله، إذا أراد شيئاً؛ قال له: كن، فيكون، وليس أحدٌ فعالاً لما يريد إلاَّ الله؛ فإنَّ المخلوقات ولو أرادت شيئاً؛ فإنَّه لا بدَّ لإرادتها من معاونٍ وممانع، والله لا معاون لإرادته ولا ممانع له ممَّا أراد.
[16] ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کر گزرتا ہے اور جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے: ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں کہ وہ جو کچھ چاہے، کر لے۔ اگر مخلوق کسی چیز کا ارادہ کرتی ہے تو لازمی طور پر اس کے ارادے کے کچھ معاون ہوتے ہیں اور کچھ اس سے روکنے والے ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کا کوئی معاون ہے نہ مانع۔
#
{17 ـ 18} ثم ذكر من أفعاله الدالَّة على صدق ما جاءت به رسله، فقال: {هل أتاك حديث الجُنود. فرعونَ وثمودَ}: وكيف كذَّبوا المرسلين فجعلهم الله من المهلكين.
[17، 18] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان افعال کا ذکر فرمایا جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں جسے انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں۔ فرمایا: ﴿هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِۙ۰۰ فِرْعَوْنَ وَثَمُوْدَ﴾ ’’کیا آپ کو لشکروں کا حال معلوم نہیں ہوا ہے۔ فرعون اور ثمود کا؟‘‘ انھوں نے رسولوں کو کیسے جھٹلایا ؟پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔
#
{19} {بل الذين كَفَروا في تكذيبٍ}؛ أي: لا يزالون مستمرِّين على التكذيب والعناد، لا تنفع فيهم الآياتُ، ولا تُجدي لديهم العظات.
[19] ﴿بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ تَكْذِیْبٍ﴾ بلکہ کفار تکذیب اور عناد پر جمے ہوئے ہیں۔ آیات الٰہی ان کو کوئی فائدہ دیتی ہیں نہ نصیحتیں ان کے کسی کام آتی ہیں۔
#
{20} {والله من ورائهم محيطٌ}: قد أحاط بهم علماً وقدرةً؛ كقوله: {إنَّ ربَّك لبالمرصاد}؛ ففيه الوعيد الشديد للكافرين من عقوبة مَنْ هم في قبضته وتحت تدبيره.
[20] ﴿وَّاللّٰهُ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ مُّحِیْطٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت سے ان کا احاطہ کر رکھا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْ٘مِرْصَادِ۠﴾ (الفجر:89؍14)’’بے شک تیرا رب گھات میں ہے۔‘‘ان آیات کریمہ میں کافروں کے لیے عقوبت کی سخت وعید ہے جو اس کے قبضۂ قدرت میں اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔
#
{21 ـ 22} {بل هو قرآنٌ مجيدٌ}؛ أي: وسيع المعاني عظيمها كثير الخير والعلم. {في لوح محفوظٍ}: من التغيير والزيادة والنقص، ومحفوظ من الشياطين، وهو اللوح المحفوظ، الذي قد أثبت الله فيه كلَّ شيء، وهذا يدلُّ على جلالة القرآن وجزالته ورفعة قدره عند الله تعالى. والله أعلم.
[21، 22] ﴿بَلْ هُوَ قُ٘رْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ ’’بلکہ یہ قرآن بڑی شان والا ہے۔‘‘ یعنی وہ نہایت وسیع اور عظیم معانی اور بہت زیادہ علم اور خیر والا ہے ﴿فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ یعنی وہ تغیر و تبدل اور کمی بیشی سے محفوظ اور شیاطین سے بھی محفوظ ہے۔ وہ لوح محفوظ میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز درج کر رکھی ہے۔ یہ آیت کریمہ قرآن کریم کی جلالت، عمدگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی رفعت شان اور قدر و منزلت پر دلالت کرتی ہے۔ وَاللہُ أَعْلَمُ۔