آیت:
تفسیر سورۂ قارعہ
تفسیر سورۂ قارعہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 11 #
{الْقَارِعَةُ (1) مَا الْقَارِعَةُ (2) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ (3) يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ (4) وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ (5) فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ (9) وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ (10) نَارٌ حَامِيَةٌ (11)}.
کھٹکھٹانے والی(1)کیا ہے کھٹکھٹانے والی؟(2) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کہ کیا ہے کھٹکھٹانے والی؟(3) جس دن ہو جائیں گے لوگ (ایسے) جیسے پروانے پتنگے بکھرے ہوئے(4) اور ہو جائیں گے پہاڑ (ایسے) جیسے رنگین اون دھنکی ہوئی(5) پس لیکن جو شخص کہ بھاری ہو گئی اس کی میزان(6) تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا(7) اور لیکن جو شخص کہ ہلکی ہو گئی اس کی ترازو(8) تو اس کا ٹھکانا ھاویہ (کھڈ) ہو گا(9) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو، کیا ہے ھاویہ؟ (10) (وہ) آگ ہے سخت دہکتی ہوئی (11)
#
{1 ـ 3} {القارعةُ}: من أسماء يوم القيامة، سمِّيت بذلك لأنَّها تقرع الناس وتزعِجُهم بأهوالها، ولهذا عظَّم أمرها وفخَّمه بقوله: {القارعةُ. ما القارعةُ. وما أدراكَ ما القارعةُ}.
[3-1] ﴿اَلْقَارِعَةُ﴾ قیامت کے دن کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کو اس نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ لوگوں پر اچانک ٹوٹ پڑے گی اور اپنی ہولناکیوں سے ان کو دہشت زدہ کر دے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے معاملے کی عظمت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلْقَارِعَةُۙ۰۰ مَا الْقَارِعَةُۚ۰۰وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُؕ۰۰ ﴾ ’’کھڑ کھڑ دینے والی۔ کیا ہے کھڑ کھڑا دینے والی؟ تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑا دینے والی کیا ہے؟‘‘
#
{4} {يومَ يكونُ الناسُ}: من شدَّة الفزع والهول، {كالفراشِ المبثوثِ}؛ أي: كالجراد المنتشر الذي يموج بعضه في بعض، والفراش هي الحيوانات التي تكون في الليل يموج بعضها ببعض، لا تدري أين توجَّه؛ فإذا أوقد لها نارٌ؛ تهافتت إليها لضعف إدراكها، فهذه حال الناس أهل العقول.
[4] ﴿یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ ﴾ ’’ جس دن ہوجائیں گے لوگ۔‘‘ سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی وجہ سے ﴿ كَالْ٘فَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ ﴾ ’’بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح۔‘‘ یعنی بکھرے ہوئے ٹڈی دل کی طرح ہوں گے، جو ایک دوسرے میں موجزن ہو گا۔ اَلْفَرَاشُ یہ وہ حیوانات (پتنگے) ہیں جو رات کے وقت (روشنی میں) ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر موج بن کر آتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا رخ کریں گے، جب ان کے سامنے آگ روشن کی جائے تو اپنے ضعف ادراک کی بنا پر ہجوم کر کے اس میں آ گرتے ہیں۔ یہ تو حال ہو گا خرد مند لوگوں کا۔
#
{5} وأما الجبال الصمُّ الصلابُ؛ فتكون {كالعهنِ المنفوشِ}؛ أي: كالصُّوف المنفوش الذي بقي ضعيفاً جدًّا تطير به أدنى ريح؛ قال تعالى: {وترى الجبال تحسبُها جامدةً وهي تمرُّ مرَّ السحابِ}، ثم بعد ذلك تكون هباءً منثوراً، فتضمحلُّ ولا يبقى منها شيءٌ يشاهَد. فحينئذٍ تُنْصَبُ الموازينُ، وينقسم الناس قسمين: سعداء وأشقياء:
[5] رہے بڑے ٹھوس اور سخت پہاڑ تو وہ ﴿ كَالْ٘عِهْنِ الْ٘مَنْفُوْشِ﴾ دھنکی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے جو نہایت کمزور ہو گئی ہو جسے معمولی سی ہوا بھی اڑاتے پھرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ﴾ (النمل:27؍88) ’’اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا اور سمجھے گا کہ یہ جامد ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی چال چل رہے ہوں گے۔‘‘ پھر اس کے بعد بکھرا ہوا غبار بن کر ختم ہو جائیں گے اور ان میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا جس کو دیکھا جائے ۔ اس وقت ترازوئیں نصب کردی جائیں گی اور لوگ دو قسموں میں منقسم ہو جائیں گے: خوش بخت لوگ اور بدبخت لوگ ۔
#
{6 ـ 7} {فأمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوازينُه}؛ أي: رجحت حسناتُه على سيئاتِه، {فهو في عيشةٍ راضيةٍ}: في جنَّات النعيم.
[6، 7] ﴿ فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ﴾ ’’پس جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے۔‘‘ یعنی جس کی نیکیاں، برائیوں کی نسبت جھک جائیں گی ﴿ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ﴾ وہ نعمتوں والی جنت میں ہو گا۔
#
{8 ـ 11} {وأمَّا من خفَّت مَوازينُه}: بأن لم تكنْ له حسناتٌ تقاوم سيئاتِه، {فأمُّه هاويةٌ}؛ أي: مأواهُ ومسكنُه النارُ التي من أسمائها الهاوية، تكون له بمنزلة الأمِّ الملازمة؛ كما قال تعالى: {إنَّ عذابَها كانَ غَراماً}. وقيل: إنَّ معنى ذلك: فأمُّ دماغه هاويةٌ في النار؛ أي: يُلقى في النار على رأسه، {وما أدراكَ ما هِيَهْ}: وهذا تعظيمٌ لأمرها. ثم فسَّرها بقوله: {نارٌ حاميةٌ}؛ أي: شديدةُ الحرارة، قد زادت حرارتها على حرارة نار الدنيا بسبعين ضعفاً. نستجير بالله منها.
[11-8] ﴿ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ﴾ ’’اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے۔‘‘ یعنی اس کی نیکیاں اتنی نہ ہوں گی جو اس کی برائیوں کے برابر ہوں ﴿ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾ تو اس کا ٹھکانا اور مسکن جہنم ہو گا، جس کے ناموں میں سے ایک نام اَلْھَاوِیَۃ ہے، جہنم اس کے لیے بمنزلہ ماں کے ہو گا جو اپنے بیٹے کو ساتھ ساتھ رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَ٘رَامًا﴾ (القرقان:25؍65) ’’بے شک جہنم کا عذاب تو چمٹ جانے والا ہے۔‘‘یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا دماغ جہنم میں گرے گا، یعنی اس کو سر کے بل جہنم میں گرایا جائے گا۔ ﴿ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْ﴾ ’’اور تم کیا سمجھو کہ وہ ہاویہ کیا ہے۔‘‘ یہ سوال اس کے معاملے کو بڑا ہولناک کرکے دکھاتا ہے۔ پھر اپنے ارشاد سے اس کی تفسیر فرمائی: ﴿ نَارٌ حَامِیَةٌ﴾ سخت حرارت والی آگ، اس کی حرارت دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ ہو گی۔ ہم اس آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔