آیت:
تفسیر سورۂ عادیات
تفسیر سورۂ عادیات
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 11 #
{وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا (1) فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا (2) فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا (3) فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا (4) فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا (5) إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ (6) وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ (7) وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (8) أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ (9) وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ (10) إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ (11)}.
قسم ہے سر پٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی ہانپتے ہوئے(1) پھر آگ نکالنے والوں کی سم مار کر(2) پھر حملہ کرنے والوں کی صبح کے وقت(3) پھر وہ اڑاتے ہیں اس وقت غبار(4) پھر وہ درمیان میں گھس جاتے ہیں اس وقت (دشمن کی) جماعت میں(5) یقیناً انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے(6) اور بلاشبہ وہ اس بات پر البتہ (خودبھی) شاہد ہے(7)اور بلاشبہ وہ محبت مال میں (بھی) بہت سخت ہے(8)کیا پس نہیں جانتا وہ جب نکال باہر کر دیا جائے گا جو کچھ قبروں میں ہے؟(9) اور ظاہر کر دیا جائے گا جو کچھ سینوں میں ہے (10) بلاشبہ ان کا رب ان (کے حال) سے اس دن خبر دار ہو گا (11)
#
{1} أقسم [الله تبارك و] تعالى بالخيل؛ لما فيها من آياتِه الباهرة ونعَمِه الظَّاهرة ما هو معلومٌ للخلق، وأقسم تعالى بها في الحال التي لا يشاركُها فيه غيرها من أنواع الحيوانات، فقال: {والعادياتِ ضَبْحاً}؛ أي: العاديات عدواً بليغاً قويًّا يصدر عنه الضَّبحُ، وهو صوت نَفَسها في صدرها عند اشتداد عَدْوها.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی روشن اور نمایاں نشانیاں اور ظاہری نعمتیں ہیں جو تمام خلائق کو معلوم ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی ان کے اس حال میں قسم کھائی جس حال میں حیوانات کی تمام انواع میں سے کوئی حیوان ان کے ساتھ مشارکت نہیں کر سکتا۔ فرمایا: ﴿ وَالْعٰدِیٰؔتِ ضَبْحًا﴾ یعنی بہت قوت کے ساتھ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جبکہ ان سے ہانپنے کی آواز آرہی ہو۔ اَلضَّبْحُ گھوڑوں کے سانس کی آواز جو تیز دوڑتے وقت ان کے سینوں سے نکلتی ہے۔
#
{2} {فالمورياتِ}: بحوافرهنَّ ما يطأنَ عليه من الأحجار، {قَدْحاً}؛ أي: تنقدح النار من صلابة حوافرهنَّ وقوتهنَّ إذا عَدَوْنَ.
[2] ﴿ فَالْمُوْرِیٰتِ ﴾ پھر آگ جھاڑنے والوں کی اپنے سموں سے پتھروں پر ﴿ قَدْحًا﴾ ’’ ٹاپ مار کر‘‘ یعنی جب وہ گھوڑے دوڑتے ہیں تو ان کے سموں کی سختی اور ان کی قوت کی وجہ سے آگ نکلتی ہے۔
#
{3} {فالمغيراتِ}: على الأعداء، {صبحاً}: وهذا أمرٌ أغلبيٌّ أنَّ الغارة تكون صباحاً.
[3] ﴿ فَالْمُغِیْرٰتِ﴾ دشمن پر شب خون مارنے والے گھوڑوں کی ﴿صُبْحًا﴾ ’’صبح کے وقت۔‘‘ اور یہ امر غالب ہے کہ (دشمن پر) شب خون صبح کے وقت منہ اندھیرے مارا جاتا ہے۔
#
{4 ـ 5} {فأثرنَ به}؛ أي: بعدوهنَّ وغارتهنَّ، {نقعاً}؛ أي: غباراً، {فوسطن به}؛ أي: براكبهنَّ {جمعاً}؛ أي: توسطن به جموع الأعداء الذين أغار عليهم.
[4، 5] ﴿ فَاَثَرْنَ بِهٖ﴾ یعنی اپنے دوڑنے اور شبخون مارنے کے ذریعے سے ﴿ نَقْعًا﴾ غبار اڑاتے ہیں۔ ﴿ فَوَسَطْنَ بِهٖ﴾ ’’ پھر جاگھستے ہیں۔‘‘ یعنی اپنے سواروں کے ساتھ ﴿ جَمْعًا﴾ دشمن کے جتھوں کے درمیان جن پر دھاوا کیا ہے۔
#
{6} والمقسَم عليه قوله: {إنَّ الإنسانَ لربِّه لَكَنودٌ}؛ أي: منوعٌ للخير الذي لله عليه ؛ فطبيعة الإنسان وجِبِلَّتُه أنَّ نفسه لا تسمح بما عليه من الحقوق فتؤديها كاملة موفرة، بل طبيعتها الكسل والمنع لما عليها من الحقوق الماليَّة والبدنيَّة؛ إلاَّ مَن هداه الله وخرج عن هذا الوصف إلى وصف السماح بأداء الحقوق.
[6] جو اب قسم اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ﴾ ’’بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس بھلائی سے محروم کرنے والا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نوازا ہے۔ انسان کی فطرت اور جبلت یہ ہے کہ اس کا نفس ان حقوق کے بارے میں جو اس کے ذمے عائد ہوتے ہیں، فیاضی نہیں کرتا کہ ان کو کامل طور پر اور پورے پورے ادا کر دے بلکہ اس کے ذمے جو مالی یا بدنی حقوق عائد ہوتے ہیں، ان کے بارے میں اس کی فطرت میں سستی اور حقوق سے منع کرنا ہے، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے بہرہ مند کیا اور اس نے اس وصف سے باہر نکل کر حقوق کی ادائیگی میں فیاضی کے وصف کو اختیار کر لیا۔
#
{7} {وإنَّه على ذلك لَشهيدٌ}؛ أي: إن الإنسانَ على ما يعرفُ من نفسه من المنع والكَنَد لشاهدٌ بذلك لا يجحده ولا ينكره؛ لأنَّ ذلك [أمرٌ] بيِّن واضحٌ، ويحتمل أنَّ الضمير عائدٌ إلى الله [تعالى]؛ أي: إنَّ العبد لربِّه لكنودٌ، والله شهيدٌ على ذلك؛ ففيه الوعيد والتهديد الشديد لمَن هو لربِّه كنودٌ بأنَّ الله عليه شهيدٌ.
[7] ﴿ وَاِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌ﴾ ’’اور وہ اس پر گواہ ہے۔‘‘ یعنی انسان کے نفس کی طرف جو عدم سماحت اور ناشکری معروف ہے، بے شک وہ بذاتِ خود اس پر گواہ ہے، وہ اس کو جھٹلا سکتا ہے نہ اس کا انکار کر سکتا ہے، کیونکہ یہ بالکل ظاہر اور واضح ہے ۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو ، یعنی بے شک بندہ اپنے رب کا ناشکرا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہے۔اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے وعید اور سخت تہدید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہے جو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
#
{8} {وإنه}؛ أي: الإنسان {لحبِّ الخير}؛ أي: المال، {لشديدٌ}؛ أي: كثير الحبِّ للمال، وحبُّه لذلك هو الذي أوجب له ترك الحقوق الواجبة عليه؛ قَدَّمَ شهوة نفسه على رضا ربِّه، وكلُّ هذا لأنَّه قصر نظره على هذه الدار، وغفل عن الآخرة.
[8] ﴿ وَاِنَّهٗ﴾ اور بلاشبہ انسان ﴿ لِحُبِّ الْخَیْرِ﴾ مال کی محبت میں ﴿ لَشَدِیْدٌ﴾ ’’بہت سخت ہے۔‘‘ یعنی مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اور مال کی محبت ہی اس کے لیے حقوق واجبہ کو ترک کرنے کی موجب بنی اور یوں اس نے اپنی شہوت نفس کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس نے اپنی نظر کو صرف اسی دنیا پر مرکوز رکھا اور آخرت سے غافل رہا۔
#
{9 ـ 10} ولهذا قال حاثًّا له على خوف يوم الوعيد: {أفلا يعلمُ}؛ أي: هلاّ يعلم هذا المغتر، {إذا بُعْثِرَ ما في القبورِ}؛ أي: أخرج الله الأموات من قبورهم لحشرهم ونشورهم، {وحُصِّل ما في الصُّدور}؛ أي: ظهر وبان ما فيها وما استتر في الصدور من كمائن الخير والشرِّ، فصار السرُّ علانيةً والباطن ظاهراً، وبان على وجوه الخلق نتيجة أعمالهم.
[9، 10] اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوم وعید کا خوف دلاتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَفَلَا یَعْلَمُ﴾ یعنی اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا یہ شخص کیا نہیں جانتا؟ ﴿ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ﴾ جب اللہ تعالیٰ قبروں میں سے مردوں کو ان کے حشر و نشر کے لیے نکالے گا۔ ﴿ وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ﴾ اور جو کچھ سینوں میں ہے وہ ظاہر اور واضح ہو جائے گا، سینوں کے اندر جو بھلائی یا برائی ہے وہ چھپی نہ رہے گی، ہر بھید کھل جائے گا اور باطل ظاہر ہو جائے گا اور ان کے اعمال کا نتیجہ تمام مخلوق کے سامنے آ جائے گا۔
#
{11} {إنَّ ربَّهم بهم يومئذٍ لخبيرٌ}؛ أي: مطلع على أعمالهم الظاهرة والباطنة، الخفيَّة والجليَّة، ومجازيهم عليها، وخصَّ خبرهم بذلك اليوم مع أنه خبيرٌ بهم كلَّ وقتٍ؛ لأنَّ المراد بهذا الجزاء على الأعمال الناشئ عن علم الله واطِّلاعه.
[11] ﴿ اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّخَبِیْرٌ﴾ بے شک ان کا رب ان کے ظاہری اور باطنی، جلی اور خفی اعمال سے خبردار ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو اس دن کے ساتھ خاص طور پر ذکر کیا ہے، حالانکہ وہ ان کے بارے میں ہر وقت خبر رکھنے والا ہے، کیونکہ اس سے مراد اعمال کی وہ جزا ہے جس کا باعث اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی اطلاع ہے۔