آیت:
تفسیر سورۂ تکاثر
تفسیر سورۂ تکاثر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (3) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (4) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ (5) لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ (6) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ (7) ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ (8)}.
غافل کر دیا تمھیں با ہم کثرت کی خواہش نے(1) یہاں تک کہ جا پہنچے تم قبرستانوں میں(2) ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے(3) پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے(4) یقیناً! اگر جان لو تم جاننا یقین کا(5) تو ضرور دیکھو گے تم دوزخ کو(6) پھر ضرور دیکھو گے تم اسے یقین کی آنکھ سے(7) پھر ضرور سوال کیے جاؤ گے تم اس دن نعمتوں کی بابت(8)
#
{1} يقول تعالى موبِّخاً عباده عن اشتغالهم عمَّا خُلِقوا له من عبادته وحده لا شريك له ومعرفته والإنابة إليه وتقديم محبَّته على كلِّ شيءٍ: {ألْهاكُمُ}: عن ذلك المذكور، {التَّكاثُرُ}: ولم يذكر المُتَكاثَرَ به؛ ليشمل ذلك كلَّ ما يَتَكاثَرُ به المتكاثرون ويفتخر به المفتخرون؛ من [التكاثر في] الأموال والأولاد والأنصار والجُنود والخدم والجاه وغير ذلك ممَّا يقصد منه مكاثرة كلِّ واحدٍ للآخر، وليس المقصود منه وجه الله.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ان امور کو جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی اکیلے اللہ کی عبادت کرنا جس کا کوئی شریک نہیں، اس کی معرفت، اس کی طرف انابت اور اس کی محبت کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کو چھوڑ کر دوسری چیزوں میں مشغول ہونے پر زجر و توبیخ کرتا ہے۔ ﴿اَلْهٰىكُمُ ﴾ ’’تمھیں غافل کردیا۔‘‘ مذکورہ بالا تمام چیزوں سے ﴿ التَّكَاثُرُ ﴾ ’’زیادہ طلب کرنے کی خواہش نے‘‘ اور جس چیز کی کثرت طلب کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نےاس کا ذکر نہیں کیا تاکہ یہ ہر چیز کو شامل ہو جس کے ذریعے سے کثرت میں مقابلہ کرنے والے مقابلہ کرتے ہیں اور باہم فخر کرنے والے فخر کرتے ہیں، مثلاً: مال، اولاد، اعوان و انصار، فوجیں، خدم و حشم اور جاہ وغیرہ جس میں لوگ ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کا قصد کرتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ان کا مطلوب و مقصود نہیں ہوتا۔
#
{2} فاستمرَّت غفلتكم ولهوتكم وتشاغلكم {حتَّى زُرْتُمُ المقابرَ}: فانكشف حينئذٍ لكم الغطاءُ، ولكنْ بعدَما تعذَّر عليكم استئنافه. ودلَّ قولُه: {حتَّى زرتُم المقابر}: أنَّ البرزخ دارٌ المقصود منها النفوذ إلى الدار الآخرة ؛ لأن الله سمَّاهم زائرين، ولم يسمِّهم مقيمين، فدلَّ ذلك على البعث والجزاء على الأعمال في دار باقيةٍ غير فانيةٍ.
[2] تمھاری غفلت، تمھارا لہو و لعب اور تمھاری مشغولیت دائمی ہو گئی ﴿ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾ ’’یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔‘‘ تب تمھارے سامنے سے پردہ ہٹ گیا مگر اس وقت جب تمھارا دنیا میں دوبارہ آنا ممکن نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾ دلالت کرتا ہے کہ برزخ ایسا گھر ہے، جس سے مقصود آخرت کے گھر کی طرف نفوذ کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ’’زائرین‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، ’’قیام کرنے والوں‘‘ سے موسوم نہیں کیا۔ اور یہ چیز حیات بعد الموت اور ہمیشہ باقی رہنے والے غیر فانی گھر میں اعمال کی جزا و سزا پر دلالت کرتی ہے۔
#
{3 ـ 6} ولهذا توعَّدهم: {كلاَّ سوف تعلمون. ثم كلاَّ سوف تعلمون. كلاَّ لو تعلمونَ علمَ اليقينِ}؛ أي: لو تعلمون ما أمامكم علماً يصلُ إلى القلوب؛ لما ألهاكم التَّكاثر، ولبادرتم إلى الأعمال الصالحة، ولكن عدم العلم الحقيقيِّ صيَّركم إلى ما ترون، {لَتَرَوُنَّ الجحيم}؛ أي: لَتَرِدُنَّ القيامة، فلَتَرَوُنَّ الجحيم التي أعدَّها الله للكافرين.
[6-3] اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے ان کو وعید سنائی: ﴿ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ۰۰ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ۰۰ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ﴾ ’’ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کر لوگے۔ ہرگز نہیں پھر تمھیں جلد علم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو۔‘‘ یعنی جو کچھ تمھارے سامنے ہے، اگر تم اس کو جانتے ہوتے، ایسا جاننا جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے، تو تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ مال و متاع حاصل کرنے کی خواہش غافل نہ کرتی اور تم جلدی سے اعمال صالحہ کی طرف بڑھتے مگر حقیقی علم کے معدوم ہونے نے تمھیں اس مقام پر پہنچا دیا جہاں تم اپنے آپ کو دیکھتے ہو۔ ﴿لَـتَرَوُنَّ الْؔجَحِیْمَ﴾ یعنی تم ضرور قیامت کو لوٹائے جاؤگے، پس تم یقیناً اس جہنم کو دیکھ لو گے جسے اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔
#
{7} {ثمَّ لَتَرَوُنَّها عين اليقين}؛ أي: رؤيةً بصريةً؛ كما قال تعالى: {ورأى المجرمون النَّارَ فظَنُّوا أنَّهم مُواقِعوها ولمْ يَجِدوا عنها مَصْرِفاً}.
[7] ﴿ثُمَّ لَـتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ﴾ ’’ پھر تم اس کو ضرور عین الیقین کے طور پر دیکھو گے۔‘‘ یعنی رؤ یت بصری سے دیکھو گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَرَاَ الْ٘مُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا﴾ (الکہف: 18؍53) ’اور مجرم جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ وہ اس میں جھونکے جانے والے ہیں اور وہ اس سے بچنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے۔‘‘
#
{8} {ثم لَتُسْألُنَّ يومئذٍ عن النَّعيم}: الذي تنعَّمتم به في دار الدُّنيا؛ هل قمتم بشكره، وأدَّيتم حقَّ الله فيه، ولم تستعينوا به على معاصيه؛ فينعِّمكم نعيماً أعلى منه وأفضل؟ أم اغتررتُم به، ولم تقوموا بشكره، بل ربَّما استعنتم به على المعاصي ؛ فيعاقبكم على ذلك؟ قال تعالى: {ويومَ يُعْرَضُ الذين كفروا على النارِ أذْهَبْتُم طيباتِكم في حياتكم الدُّنيا واستمتعتم بها فاليوم تُجْزَوْنَ عذاب الهُونِ ... } الآية.
[8] ﴿ ثُمَّ لَ٘تُ٘سْـَٔلُ٘نَّ یَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ پھر وہ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا جن سے تم دنیا کی زندگی میں متمتع ہوتے رہے ہو کہ آیا تم نے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور آیا تم نے ان نعمتوں میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا اور تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ان نعمتوں سے مدد نہیں لی ۔ تب وہ تمھیں ان نعمتوں سے اعلیٰ و افضل نعمتیں عطا کرے گا۔ یا تم ان نعمتوں کی وجہ سے فریب خوردہ رہے اور تم نے ان کا شکر ادا نہ کیا؟ بلکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ان نعمتوں سے مدد لی تو اس پر اللہ تعالیٰ تمھیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ١ؕ اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰؔتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا١ۚ فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ﴾ (الاحقاف:46؍20) ’’ جس دن، ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، جہنم کے سامنے پیش کیا جائے گا (تو ان سے کہا جائے گا) تم اپنی لذتیں، اپنی دنیا کی زندگی ہی میں ختم کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے، پس دنیا میں جو تم ناحق اکڑتے (تکبر کرتے) تھے اور نافرمانیاں کرتے تھے اس کے بدلے آج تمھیں رسواکن عذاب دیا جائے گا۔‘‘