آیت:
تفسیر سورۂ زلزال
تفسیر سورۂ زلزال
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا (1) وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (2) وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا (3) يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (4) بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا (5) يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ (6) فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (8)}.
جب ہلائی جائے گی زمین خوب زور سے ہلایا جانا(1) اور باہر نکال دے گی زمین اپنے بوجھ(2) اور کہے گا انسان کیا ہوا اس کو؟(3) اس دن بیان کرے گی وہ اپنی خبریں(4) اس لیے کہ بلاشبہ آپ کا رب وحی (حکم) کرے گا اس کو(5) اس دن لوٹیں گے لوگ متفرق (الگ الگ) ہو کر تاکہ دکھائے جائیں وہ اپنے اعمال(6) پس جو کوئی کرے گا ذرہ برابر بھلائی تو وہ دیکھ لے گا اس کو(7) اور جو کوئی کرے گا ذرہ برابر برائی تو وہ بھی دیکھ لے گا اس کو(8)
#
{1 ـ 2} يخبر تعالى عمَّا يكون يوم القيامة، وأنَّ الأرض تتزلزل وترجف وترتجُّ حتى يسقطَ ما عليها من بناءٍ ومَعْلَمٍ ، فتندكُّ جبالها، وتسوَّى تلالُها، وتكون قاعاً صفصفاً لا عوج فيه ولا أمتا، {وأخرجت الأرضُ أثقالها}؛ أي: ما في بطنها من الأموات والكنوز.
[1، 2] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان واقعات کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو قیامت کے دن وقوع میں آئیں گے ،نیز یہ کہ زمین میں زلزلہ آئے گا، وہ ہلا دی جائے گی اور وہ کانپ اٹھے گی، یہاں تک کہ اس پر موجود تمام عمارتیں اور تمام نشانات گرکر معدوم ہو جائیں گے۔ اس کے تمام پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اس کے ٹیلے برابر کر دیے جائیں گے، زمین ہموار اور چٹیل میدان بن جائے گی، جس میں کوئی نشیب وفراز نہ ہو گا۔ ﴿وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا﴾ ’’اور زمین اپنے بوجھ نکال ڈالے گی۔‘‘ یعنی زمین کے پیٹ میں جو خزانے اور مردے ہوں گے، وہ انھیں نکال باہر کرے گی۔
#
{3} {وقال الإنسان}: إذا رأى ما عراها من الأمر العظيم [مستعظمًا لذلك]: {ما لها}؛ أي: أيُّ شيء عرض لها؟!
[3] ﴿وَقَالَ الْاِنْسَانُ ﴾ جب انسان اس عظیم واقعے کو دیکھے گا جو زمین کو پیش آئے گا تو کہے گا: ﴿ مَا لَهَا ﴾ یعنی اسے کیا حادثہ پیش آ گیا؟
#
{4 ـ 5} {يومئذٍ تحدِّث}: الأرض {أخبارَها}؛ أي: تشهد على العاملين بما عملوا على ظهرها من خيرٍ وشرٍّ؛ فإن الأرض من جملة الشهود الذين يشهدون على العباد بأعمالهم. ذلك {بأنَّ ربَّك أوحى لها}؛ أي: أمرها أن تخبر بما عمل عليها؛ فلا تعصي لأمره.
[4، 5] ﴿ یَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ ﴾ اس دن زمین بیان کرے گی ﴿ اَخْبَارَهَا ﴾ ’’اپنی خبریں۔‘‘ یعنی عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی جو انھوں نے اس کی پیٹھ پر کیے ہیں کیونکہ زمین بھی ان گواہوں میں شمار ہو گی جو بندوں کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ یہ سب اس لیے ہو گا ﴿ بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا﴾ کہ اللہ تعالیٰ اس کو حکم دے گا کہ وہ ان تمام اعمال کے بارے میں خبر دے جو اس کی سطح پر کیے گئے ہیں۔ پس زمین اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرے گی۔
#
{6} {يومئذٍ يَصْدُرُ الناسُ}: من موقف القيامة [حين يقضي اللَّهُ بينهم] {أشتاتاً}؛ أي: فرقاً متفاوتين، {لِيُرَوْا أعمالَهم}؛ أي: ليريهم الله ما عملوا من السيئات والحسنات ، ويريهم جزاءه موفراً.
[6] ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ ﴾ ’’اس دن لوگ آئیں گے۔‘‘ یعنی قیامت کے میدان سے جب اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ﴿ اَشْتَاتًا ﴾ مختلف گروہوں کی صورت میں ﴿ لِّـیُ٘رَوْا اَعْمَالَهُمْ﴾ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی برائیاں اور نیکیاں دکھائے جو ان سے صادر ہوئی ہیں اور ان کو ان اعمال کی پوری جزا کا مشاہدہ کرائے۔
#
{7 ـ 8} {فمَن يعملْ مثقال ذرَّةٍ خيراً يَرَهُ. ومَن يعملْ مثقال ذرَّةٍ شرًّا يَرَهُ}: وهذا شامل عامٌّ للخير والشرِّ كلِّه؛ لأنَّه إذا رأى مثقال الذَّرَّة التي هي أحقر الأشياء، وجوزي عليها؛ فما فوق ذلك من باب أولى وأحرى؛ كما قال تعالى: {يومَ تجدُ كلُّ نفسٍ ما عملتْ من خيرٍ محضَراً وما عملتْ من سوءٍ تودُّ لو أنَّ بينها وبينه أمداً بعيداً}، {ووجدوا ما عملوا حاضراً}، وهذا فيه الترغيب في فعل الخير، ولو قليلاً، والترهيب من فعل الشر، ولو حقيراً.
[7، 8] ﴿ فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ۰۰وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ ’’پس جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘ یہ خیر و شر کے تمام اعمال کو شامل ہے، کیونکہ جب وہ ذرہ برابر وزن کو دیکھ سکے گا جو حقیر ترین چیز ہے، اسے اس کی جزا بھی دی جائے گی، تب وہ اعمال جو وزن میں اس سے زیادہ ہوں گے ان کا دکھا دینا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَوْمَ تَجِدُ كُ٘لُّ٘ نَ٘فْ٘سٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا١ۛ ۖ ۚ و َّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ١ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًا ﴾ (آل عمران:3؍30) ’’جس دن ہر شخص اپنے بھلائی کے عمل اور برائی کے عمل کو موجود پائے گا، اور تمنا کرے گا کہ کاش! برائیوں اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی۔‘‘ ﴿وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ (الکہف:18؍49) ’’اور انھوں نے جو عمل کیے تھے ان کو موجود پائیں گے۔‘‘ ان آیات میں بھلائی کے فعل کی ترغیب ہے، خواہ وہ بہت ہی تھوڑا ہو اور برائی کے فعل پر ترہیب ہے، خواہ وہ بہت معمولی ہی ہو۔