آیت:
تفسیر سورۂ بینہ
تفسیر سورۂ بینہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ (1) رَسُولٌ مِنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً (2) فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (3) وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ (4) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (5) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ (6) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (7) جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (8)}.
نہیں تھے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور مشرکین رکنے والے (کفر سے) یہاں تک کہ آئے ان کے پاس واضح دلیل(1) (یعنی ) ایک رسول اللہ کی طرف سے وہ پڑھے صحیفے پاکیزہ(2) ان (صحیفوں) میں احکام ہیں درست معتدل(3) اور نہیں متفرق (مختلف) ہوئے وہ لوگ جو دیے گئے کتاب (کبھی بھی) مگر بعد اس کےکہ آئی ان کے پاس واضح دلیل (4) حالانکہ نہیں حکم دیے گئے تھے وہ مگر یہ کہ عبادت کریں وہ اللہ کی خالص کرتے ہوئے اس کے لیے بندگی یکسو ہو کر اور وہ قائم کریں نماز اور دیں زکاۃ، اور یہی ہے دین سیدھی (ملت) کا(5) بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور مشرکین (وہ ہوں گے) آتش جہنم میں، ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں، یہی لوگ ہیں بدترین خلائق(6)بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، یہی لوگ ہیں بہترین خلائق(7) جزا ان کی ان کے رب کے ہاں باغات ہیں ہمیشگی والے، چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں ابد تک، راضی ہوا اللہ ان سے اور وہ راضی ہوئے اللہ سے یہ (جزا) اس شخص کے لیے ہے جو ڈر گیا اپنے رب سے(8)
#
{1} يقول تعالى: {لم يكنِ الذينَ كَفَروا من أهلِ الكتابِ}؛ أي: من اليهود والنصارى، {والمشركين}: من سائر أصناف الأمم، {مُنفَكِّينَ}: عن كفرهم وضلالهم الذي هم عليه؛ أي: لا يزالون في غيِّهم وضلالهم، لا يزيدهم مرور الأوقات إلاَّ كفراً، {حتَّى تأتِيَهُم البيِّنةُ}: الواضحة والبرهان الساطع.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَمْ یَكُ٘نِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ﴾ ’’نہیں ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے۔‘‘یعنی یہود و نصاریٰ میں سے۔ ﴿وَالْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ اور مشر کین اور دیگر قوموں کی تمام اصناف میں سے ﴿مُنْفَكِّیْنَ﴾ ’’باز آنے والے۔‘‘ یعنی یہ سب اپنے کفر اور ضلالت سے جدا نہیں ہوں گے، وہ اپنی گمراہی اور ضلالت میں بھٹکے رہیں گے اور مرور اوقات ان کے کفر میں اضافہ ہی کرے گا۔ ﴿حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ الْبَیِّنَةُ﴾ یہاں تک کہ ان کے پاس واضح دلیل اور نمایاں برہان آ جائے ۔
#
{2 ـ 3} ثم فسَّر تلك البيِّنة، فقال: {رسولٌ من اللهِ}؛ أي: أرسله الله يدعو الناس إلى الحقِّ، وأنزل عليه كتاباً يتلوه ليعلِّم الناس الحكمة ويزكِّيهم ويخرجَهم من الظُّلُمات إلى النُّور، ولهذا قال: {يتلو صُحُفاً مطهَّرةً}؛ أي: محفوظةً من قربان الشياطين، لا يمسُّها إلاَّ المطهَّرون؛ لأنَّها أعلى ما يكون من الكلام، ولهذا قال عنها: {فيها}؛ أي: في تلك الصُّحف {كتبٌ قيِّمةٌ}؛ أي: أخبارٌ صادقةٌ وأوامرُ عادلةٌ تهدي إلى الحقِّ وإلى طريقٍ مستقيمٍ؛ فإذا جاءتهم هذه البيِّنة؛ فحينئذٍ يتبيَّن طالب الحقِّ ممَّن ليس له مقصدٌ في طلبه، فيهلك مَن هلك عن بيِّنة ويحيا من حيَّ عن بيِّنةٍ.
[2، 3] پھر ﴿ الْبَیِّنَةُ ﴾کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کے رسول ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو مبعوث کیا جو لوگوں کو حق کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر کتاب اتاری جس کی وہ تلاوت کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو دانائی سکھائے، ان کو پاک کرے اور ان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ اس لیے فرمایا: ﴿یَتْلُوْا صُحُفًا مُّ٘طَهَّرَةً﴾ ’’وہ (رسول) پاک اوراق پڑھتا ہے۔‘‘ یعنی وہ شیطان کے قریب ہونے سے محفوظ ہیں، اسے صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہیں، کیونکہ یہ بلند ترین کلام ہے۔ اس لیے صحیفوں کے بارے میں فرمایا: ﴿فِیْهَا﴾ ان صحیفوں میں ﴿كُتُبٌ قَیِّمَةٌ﴾ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جو حق اور راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ جب ان کے پاس یہ واضح دلیل آ جاتی ہے تب اس وقت طالب حق اور وہ شخص جس کا مقصد طلب حق نہیں ہے، دونوں واضح ہو جاتے ہیں پس جو کوئی ہلاک ہوتا ہے تو دلیل سے ہلاک ہوتا ہے اور جو کوئی زندہ رہتا ہے تو دلیل سے زندہ رہتا ہے۔
#
{4} وإذا لم يؤمن أهل الكتاب بهذا الرسول وينقادوا له؛ فليس ذلك ببدع من ضلالهم وعنادهم؛ فإنَّهم ما تفرَّقوا واختلفوا وصاروا أحزاباً {إلاَّ من بعدِ ما جاءتْهُمُ البيِّنَةُ}: التي توجب لأهلها الاجتماع والاتِّفاق، ولكنَّهم لرداءتهم ونذالتهم لم يزدهم الهدى إلا ضلالاً ولا البصيرة إلا عمىً.
[4] اگر اہل کتاب اس رسول (e) پر ایمان نہیں لاتے اور آپ کی اطاعت نہیں کرتے تو یہ ان کی گمراہی اور عناد کی بنا پر کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ انھوں نے تفرقہ بازی اور باہم اختلاف کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ﴿مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنَةُ﴾ اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیل آ گئی جو اپنے ماننے والوں کے لیے اجتماع و اتفاق کی موجب ہے، مگر ان کے بگاڑ اور ان کی خساست کی بنا پر ہدایت نے ان کی گمراہی میں اور بصیرت نے ان کے اندھے پن میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
#
{5} مع أنَّ الكتب كلَّها جاءت بأصل واحدٍ ودين واحدٍ؛ فما {أمِروا} في سائر الشرائع، إلا أن يعبدوا {اللهَ مخلصين له الدِّين}؛ أي: قاصدين بجميع عباداتهم الظَّاهرة والباطنة وجه الله وطلب الزُّلفى لديه، {حنفاءَ}؛ أي: معرضين مائلين عن سائر الأديان المخالفة لدين التَّوحيد، وخصَّ الصلاة والزَّكاة بالذِّكر مع أنَّهما داخلان في قوله: {ليعبدوا الله مخلصين له الدين}؛ لفضلهما وشرفهما وكونهما العبادتين اللتين مَن قام بهما قام بجميع شرائع الدين. {وذلك}؛ أي: التَّوحيد والإخلاص في الدِّين هو {دين القيِّمة}؛ أي: الدين المستقيم الموصل إلى جنَّات النَّعيم، وما سواه فطرقٌ موصلةٌ إلى الجحيم.
[5] حالانکہ تمام کتابیں ایک ہی اصل اور ایک ہی دین لے کر آئی ہیں۔ ان کو تمام شریعتوں میں حکم تو یہی ہوا تھا کہ عبادت کریں ﴿ اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ﴾ ’’ اللہ کی اخلاص کے ساتھ اس کے لیے بندگی۔‘‘ یعنی اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبادات میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کی طلب کو مقصد بناتے ہوئے۔ ﴿حُنَفَآءَ﴾ ’’یکسو ہوکر۔‘‘ یعنی دین توحید کے مخالف تمام ادیان سے منہ موڑ کر ﴿وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّكٰوةَ﴾ ’’اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکاۃ کو ان کے فضل و شرف کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ہے حالانکہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ﴾ میں داخل ہیں ، نیز اس لیے بھی انھیں الگ ذکر کیا کہ یہ دونوں ایسی عبادتیں ہیں کہ جس نے ان کو قائم کیا اس نے دین کی تمام شرائع کو قائم کیا ﴿وَذٰلِكَ﴾ ’’ اور یہ‘‘ یعنی توحید اور اخلاص فی الدین دونوں ﴿دِیْنُ الْقَیِّمَةِ﴾ دین مستقیم ہیں، جو نعمتوں بھری جنت میں پہنچاتا ہے، اور اس کے سوا دیگر ادیان ایسے راستے ہیں جو جہنم میں لے جاتے ہیں۔
#
{6} ثم ذكر جزاء الكافرين بعدما جاءتهم البيِّنة، فقال: {إنَّ الذين كفروا من أهل الكتابِ والمشركينَ في نارِ جهنَّم}: قد أحاط بهم عذابها، واشتدَّ عليهم عقابها، {خالدين فيها}: لا يُفَتَّر عنهم العذاب، وهم فيها مبلسون. {أولئك هم شرُّ البريَّة}: لأنَّهم عرفوا الحقَّ، وتركوه، وخسروا الدُّنيا والآخرة.
[6] پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ کافروں کے پاس واضح دلیل آ جانے کے بعد ان کی جزا کیا ہو گی، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْ٘مُشْرِكِیْنَ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ﴾ ’’وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا، جہنم کی آگ میں ہوں گے۔‘‘ اس کا عذاب ان کا احاطہ کرلے گا اور اس کی عقوبت ان پر بہت شدت اختیار کرلے گی۔ ﴿خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا﴾ یہ عذاب ان سے کبھی منقطع نہیں ہو گا اور وہ جہنم کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس رہیں گے ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْـبَرِیَّةِ﴾ ’’یہ مخلوق میں سے بدترین ہیں‘‘ کیونکہ انھوں نے حق کو پہچان کر اس کو ترک کر دیا اور یوں دنیا و آخرت میں انھوں نے نقصان اٹھایا۔
#
{7} {إنَّ الذين آمنوا وعملوا الصَّالحات أولئك هم خيرُ البريَّة}: لأنَّهم عبدوا الله وعرفوه، وفازوا بنعيم الدُّنيا والآخرة.
[7] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَیْرُ الْـبَرِیَّةِ﴾ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کی معرفت حاصل کی، اور وہ دنیا و آخرت کی نعمتوں سے فوزیاب ہوئے۔
#
{8} {جزاؤهم عند ربِّهم جناتُ عدنٍ}؛ أي: جناتُ إقامةٍ لا ظعن فيها ولا رحيل ولا طلب لغايةٍ فوقَها، {تجري من تحتها الأنهارُ خالدين فيها أبداً رضيَ الله عنهم ورضوا عنه}: فرضي عنهم بما قاموا به من مراضيه، ورضوا عنه بما أعدَّ لهم من أنواع الكرامات [وجزيل المثوبات]. {ذلك}: الجزاء الحسن {لِمَنْ خشيَ ربَّه}؛ أي: لمن خاف الله فأحجم عن معاصيه، وقام بما أوجب عليه.
[8] ﴿جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ﴾ ’’ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشہ کے باغات ہیں۔‘‘ یعنی دائمی اقامت کے لیے جنتیں جہاں سے کبھی کوچ ہو گا نہ روانگی اور نہ ان جنتوں سے اوپر کسی اور چیز کی طلب رہے گی۔ ﴿تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان سے اس سبب سے راضی ہوا کہ انھوں نے اس کی مرضی کو پورا کیا اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہوئے کہ اس نے ان کے لیے مختلف انواع کی تکریمات تیار کیں۔ ﴿ذٰلِكَ﴾ یہ جزائے حسن ﴿لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ﴾ اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں سے باز رہتا ہے اور ان امور کو قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیے ہیں۔