آیت:
تفسیر سورۂ قدر
تفسیر سورۂ قدر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)}.
بلاشبہ ہم نے نازل کیا اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں(1) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کیا ہے لیلۃ القدر؟(2) لیلۃ القدر بہتر ہے ایک ہزار مہینوں سے(3) نازل ہوتے ہیں فرشتے اور روح (جبریل) اس (رات) میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے(4) سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ رات یہاں تک کہ طلوع ہو فجر(5)
#
{1} يقول تعالى مبيناً لفضل القرآن وعلوِّ قدره: {إنَّا أنزَلْناهُ في ليلةِ القَدْرِ}: [كما قال تعالى: {إنّا أنزلناه في ليلةٍ مباركة}] وذلك أنَّ الله تعالى ابتدأ بإنزال القرآن في رمضان في ليلة القدر، ورحم الله بها العباد رحمةً عامّةً لا يقدر العباد لها شكراً، وسميت ليلة القدر لعظم قدرها وفضلها عند الله، ولأنَّه يقدِّر فيها ما يكون في العام من الآجال والأرزاق والمقادير القدريَّة.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی فضیلت اور اس کی بلند قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِنَّـاۤ٘ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ’’بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا۔‘‘ اور اس کا شب قدر میں نازل کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نازل کرنے کی ابتدا، رمضان المبارک میں اور شب قدر میں کی۔ شب قدر کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عام رحمت فرمائی، بندے جس کا شکر ادا نہیں کر سکتے۔اس کی عظیم قدر و منزلت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی فضیلت کی بنا پر اس کو ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کے نام سے موسوم کیا گیا، نیز اس لیے بھی اس کو ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کہا گیا کہ سال بھر میں جو کچھ واقع ہوتا ہے، یعنی عمر، رزق، دیگر تقدیر وغیرہ اس میں مقدر کر دی جاتی ہیں۔
#
{2} ثم فخَّم شأنها وعظَّم مقدارها، فقال: {وما أدراكَ ما ليلةُ القَدْرِ}؛ أي: فإنَّ شأنها جليلٌ، وخطرها عظيمٌ.
[2] پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت شان اور عظمت مقدار بیان کی، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ﴾ ’’اور تجھے کس نے خبر دی کہ شب قدر کیا ہے؟‘‘ یعنی اس کی شان بہت جلیل اور اس کا رتبہ بہت عظیم ہے۔ آپ کو اس کا علم نہیں۔
#
{3} {ليلةُ القدرِ خيرٌ من ألفِ شهرٍ}؛ أي: تعادل من فضلها ألف شهرٍ، فالعمل الذي يقع فيها خيرٌ من العمل في ألف شهرٍ خاليةٍ منها، وهذا مما تتحيَّر فيه الألباب، وتندهش له العقول؛ حيث منَّ [تبارك و] تعالى على هذه الأمَّة الضعيفة، القوَّة والقوى بليلةٍ يكون العمل فيها يقابل ويزيد على ألف شهر، عمر رجل معمَّرٍ عمراً طويلاً نيفاً وثمانين سنةً.
[3] ﴿لَیْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَ٘هْرٍ﴾ یعنی قدر کی رات فضیلت میں ایک ہزار مہینے کے برابر ہے۔ وہ عمل جو شب قدر میں واقع ہوتا ہے، ایک ہزار مہینے میں جو شب قدر سے خالی ہوں، واقع ہونے والے عمل سے بہتر ہے۔یہ ان امور میں سے ہے جن پر خرد حیران اور عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ضعیف القویٰ امت کو ایسی رات سے نوازا جس کے اندر عمل ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بڑھ کر ہے، یہ ایک ایسے معمر شخص کی عمر کے برابر ہے جسے اسّی سال سے زیادہ طویل عمر دی گئی ہو۔
#
{4} {تَنَزَّلُ الملائكةُ والرُّوحُ فيها}؛ أي: يكثر نزولهم فيها، {من كلِّ أمرٍ}.
[4] ﴿تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِیْهَا﴾ یعنی فرشتے اور جبریل امین اس رات میں کثرت سے نازل ہوتے ہیں ﴿مِنْ كُ٘لِّ اَمْرٍۙۛ۰۰﴾ ’’ہر کام کے لیے۔‘‘
#
{5} {سلامٌ هي}؛ أي: سالمةٌ من كل آفةٍ وشرٍّ، وذلك لكثرة خيرها، {حتَّى مطلعِ الفجرِ}؛ أي: مبتداها من غروب الشمس ومنتهاها طلوع الفجر. وقد تواترت الأحاديث في فضلها ، وأنَّها في رمضان، وفي العشر الأواخر منه، خصوصاً في أوتاره، وهي باقيةٌ في كلِّ سنةٍ إلى قيام الساعة، ولهذا كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يعتكف ويكثرُ من التعبُّد في العشر الأواخر من رمضان رجاء ليلة القدر. والله أعلم.
[5] ﴿سَلٰ٘مٌ هِىَ﴾’’یہ (رات) سلامتی ہے۔‘‘ یعنی شب قدر ہر آفت اور ہر شر سے سلامت ہے اور اس کا سبب اس کی بھلائی کی کثرت ہے۔ ﴿حَتّٰى مَطْلَ٘عِ الْفَجْرِ﴾ ’’صبح کے طلوع ہونے تک۔‘‘ یعنی اس رات کی ابتدا غروب آفتاب اور اس کی انتہا طلوع فجر ہے۔ اس کی فضیلت میں تواتر سے احادیث وارد ہوئی ہیں، نیز یہ کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں خاص طور پر طاق راتوں میں واقع ہوتی ہے اور یہ رات ہر سال آتی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔ اسی لیے نبی اکرمe رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے اور کثرت سے عبادت کرتے تھے، اس امید میں کہ شاید شب قدر مل جائے۔ وَاللہُ أَعْلَمُ۔ سورۂ قدر کی تفسیر مکمل ہوئی۔ بِعَوْنِ اللہِ۔