آیت:
تفسیر سورۂ علق
تفسیر سورۂ علق
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 19 #
{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى (8) أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14) كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (18) كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19)}.
پڑھیے اپنے رب کے نام سے وہ جس نے پیدا کیا(1) اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے(2) پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے(3) وہ ذات جس نے (علم) سکھایا قلم کے ذریعے سے(4) اس نے سکھلایا انسان کو جو کچھ نہیں جانتا تھا وہ(5) یقیناً ! بلاشبہ انسان البتہ سرکشی کرتا ہے(6) اس لیے کہ وہ دیکھتا ہے اپنے آپ کو بے پروا(7) بلاشبہ آپ کے رب ہی کی طرف واپسی ہے(8) بھلا بتلا تو سہی، وہ شخص جو روکتا ہے(9) ایک بندے(محمدe) کو جب وہ نماز پڑھتا ہے (10) بھلا بتلا تو ! اگر ہو وہ (نمازی) ہدایت پر(11) یا وہ حکم دیتا ہو پرہیز گاری کا (12) بھلا بتلا تو، اگر اس نے جھٹلایا اور روگردانی کی(13) کیا نہیں جانا اس نے یہ کہ بلاشبہ اللہ (اسے) دیکھ رہا ہے؟ (14) ہرگز نہیں! البتہ اگر نہ رکا وہ تو ضرور گھسیٹیں گے ہم (اس کو) پیشانی کے بالوں سے (پکڑ کر) (15) پیشانی جھوٹی خطاکار(16) پس چاہیے کہ وہ بلا لے اپنی مجلس کو (17) یقیناً ہم بھی بلا لیں گے عذاب کے فرشتوں کو(18) ہرگز نہیں! نہ اطاعت کریں آپ اس کی، اور سجدہ کیجیے اور قرب حاصل کیجیے(19)
#
{1} هذه السُّورة أول السُّور القرآنيَّة نزولاً على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّها نزلت عليه في مبادئ النبوَّة؛ إذ كان لا يدري ما الكتاب ولا الإيمان، فجاءه جبريل عليه [الصلاة و] السلام بالرِّسالة، وأمره أن يقرأ، فامتنع وقال: ما أنا بقارئٍ! فلم يزل به حتى قرأ ؛ فأنزل اللَّه [عليه]: {اقرأ باسمِ ربِّك الذي خَلَقَ}: عموم الخلق.
[1] رسول اللہe پر نزول کے اعتبار سے یہ قرآن کی اولین سورت ہے، یہ نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی جب آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا چیز ہے۔ پس جبریل uرسالت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ آپ پڑھیں، مگر آپ نے عذر پیش کیا اور کہا ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ جبریل بار بار یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ نے پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿ اِقْ٘رَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ ’’اپنے رب کا نام لے کر پڑھیں جس نے پیدا کیا۔‘‘ یعنی جس نے عام مخلوق کو پیدا کیا۔
#
{2} ثم خصَّ الإنسان، وذكرَ ابتداءَ خلقِه {من عَلَقٍ}؛ فالذي خلق الإنسان واعتنى بتدبيره لا بدَّ أن يدبِّره بالأمر والنَّهي، وذلك بإرسال الرسل وإنزال الكتب ، ولهذا أتى بعد الأمر بالقراءة بخلقه للإنسان.
[2] پھر انسان کو خاص کر کے اس کی تخلیق کی ابتدا کا ذکر کیا، فرمایا: ﴿ مِنْ عَلَقٍ﴾ ’’خون کے لوتھڑے سے (پیدا کیا)۔‘‘ پس جس ہستی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی تدبیر کی، لازم ہے کہ وہ امر و نہی کی بھی تدبیر کرے اور یہ کام وہ رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کر کے سر انجام دیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دے کر انسان کی تخلیق کا ذکر کیا۔
#
{3 ـ 5} ثم قال: {اقرأ وربُّك الأكرمُ}؛ أي: كثير الصِّفات، واسعها، كثير الكرم والإحسان، واسع الجود، الذي من كرمه أن علَّم أنواع العلوم ، و {علَّم بالقلم. علَّم الإنسانَ ما لمْ يعلمْ}: فإنَّه تعالى أخرجه من بطن أمِّه لا يعلم شيئاً، وجعل له السَّمع والبصر والفؤاد، ويسَّر له أسباب العلم؛ فعلَّمه القرآن، وعلَّمه الحكمة، وعلَّمه بالقلم، [الذي به تُحفظ العلوم] وتُضبط الحقوق، وتكون رسلاً للنَّاس تنوب منابَ خطابهم؛ فلله الحمد والمنَّة الذي أنعم على عباده بهذه النِّعم، التي لا يقدرون لها على جزاءٍ ولا شكورٍ، ثمَّ منَّ عليهم بالغنى وسعة الرزق.
[5-3] ﴿اِقْ٘رَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ﴾ ’’پڑھیے، آپ کا رب بڑا کریم ہے۔‘‘ یعنی آپ کا رب بہت زیادہ اور وسیع صفات کا مالک، بہت زیادہ کرم و احسان اور بے پایاں جود والا ہے۔ جس کا کرم یہ ہے کہ اس نے مختلف انواع کے علوم کے ذریعے سے تعلیم دی اور ﴿عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۰۰ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ ’’قلم کے ذریعے سے سکھایا، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ماں کے پیٹ سے نکالا، وہ اس وقت کچھ نہیں جانتا تھا، اس کو سماعت، بصارت اور عقل سے بہرہ ور کیا، اس کے لیے حصول علم کے تمام اسباب آسان کیے، اسے قرآن کی تعلیم دی، حکمت سکھائی اور قلم کے ساتھ علم عطا کیا، جس کے ذریعے تمام علوم کو محفوظ اور حقوق کو ضبط کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں کے لیے ایسا ایلچی ہوتا ہے جو ان کے لیے بالمشافہ خطاب کا قائم مقام ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کا احسان ہے جس نے اپنے بندوں کو ان نعمتوں سے نوازا جن کی وہ جزا دینے پر قادر ہیں نہ شکر ادا کرنے پر ، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں تونگری اور کشائش رزق سے نوازا۔
#
{6 ـ 8} ولكن الإنسان لجهله وظلمه؛ إذا رأى نفسه غنيًّا؛ طغى، وبغى، وتجبَّر عن الهدى، ونسي أنَّ لربِّه {الرُّجعى}: ولم يخف الجزاء، بل ربَّما وصلت به الحال أنَّه يترك الهدى بنفسه ويدعو غيره إلى تركه، فينهى عن الصَّلاة التي هي أفضل أعمال الإيمان.
[8-6] مگر انسان نے اپنے ظلم و جہالت کی بنا پر جب اپنے آپ کو غنی دیکھا تو سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا، ہدایت کے مقابلے میں تکبر کیا اور بھول بیٹھا کہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اور جزا سے نہ ڈرا۔ بلکہ وہ اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ خود بھی ہدایت کو چھوڑ دیتا ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت چھوڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ پس وہ نماز پڑھنے سے روکتا ہے جو اعمال ایمان میں سب سے افضل عمل ہے۔
#
{9 ـ 14} يقول الله لهذا المتمرِّد العاتي: {أرأيتَ}: أيُّها الناهي للعبد إذا صلَّى، {إنْ كانَ}: العبد المصلِّي {على الهُدى}: العلم بالحقِّ والعمل به، {أو أمر}: غيره {بالتَّقوى}: فهل يحسُنُ أن يُنْهى مَن هذا وصفه؟! أليس نهيه من أعظم المحادَّة لله والمحاربة للحقِّ؟! فإنَّ النَّهي لا يتوجَّه إلاَّ لمن هو في نفسه على غير الهدى، أو كان يأمر غيره بخلاف التقوى، {أرأيتَ إن كذَّبَ}: النَّاهي بالحقِّ، {وتولَّى}: عن الأمر؟ أما يخاف الله ويخشى عقابه؟! {ألمْ يعلمْ بأنَّ اللهَ يرى}: ما يعمل ويفعل.
[14-9] اللہ تعالیٰ اس متکبر اور سرکش سے فرماتا ہے: ﴿اَرَءَیْتَ﴾ بندہ جب نماز پڑھے، اس کو نماز پڑھنے سے روکنے والے! مجھے بتا۔ ﴿اِنْ كَانَ﴾ بھلا نماز پڑھنے والا بندہ ﴿عَلَى الْهُدٰۤى﴾ اگر حق کا علم رکھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہو ﴿اَوْ اَمَرَ ﴾ یا دوسروں کو حکم دیتا ہو۔ ﴿ بِالتَّقْوٰى ﴾’’تقویٰ کا۔‘‘کیا یہ اچھی بات ہے کہ ایسے شخص کو روکا جائے جس کا یہ وصف ہے؟ کیا اس کو روکنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی اور حق کے خلاف جنگ نہیں؟ کیونکہ نہی کا رخ صرف اسی کی طرف ہوتا ہے جو فی نفسہ ہدایت پر نہیں ہوتا یا وہ دوسروں کو تقویٰ کے خلاف حکم دیتا ہے۔ ﴿اَرَءَیْتَ اِنْ كَذَّبَ﴾ بھلا بتلاؤ! حق سے روکنے والے نے اگر جھٹلایا ہو ﴿وَتَوَلّٰى﴾ اور حکم سے منہ موڑا ہو، کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے نہیں ڈرتا ﴿اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ یَرٰى ﴾ ’’کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھتا ہے ‘‘ جو عمل وہ کرتا اور جو فعل وہ سر انجام دیتا ہے ؟
#
{15 ـ 16} ثم توعَّده إن استمرَّ على حاله، فقال: {[كلاَّ] لئن لم ينتَهِ}: عمَّا يقول ويفعل، {لَنَسْفَعَاً بالنَّاصيةِ}؛ أي؛ لَنأخُذنَّ بناصيته أخذاً عنيفاً، وهي حقيقةٌ بذلك؛ فإنَّها {ناصيةٌ كاذبةٌ خاطئةٌ}؛ أي: كاذبةٌ في قولها، خاطئةٌ في فعلها.
[15، 16] اگر وہ اپنے حال پر جما رہا تو اس کو وعید سنائی، پس فرمایا: ﴿كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ﴾ جو کچھ وہ کہتا اور کرتا ہے اگر اس سے باز نہ آیا ﴿لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَةِ﴾ تو ہم اس کی پیشانی کو بڑی سختی سے پکڑیں گے اور یہ اسی کی مستحق ہے کیونکہ یہ ﴿نَاصِیَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ﴾ پیشانی اپنے قول میں جھوٹی اور اپنے فعل میں خطا کار ہے۔
#
{17 ـ 18} {فَلْيَدْعُ}: هذا الذي حقَّ عليه العذابُ {نادِيَهُ}؛ أي: أهل مجلسه وأصحابه ومن حوله ليُعينوه على ما نزل به، {سنَدْعو الزَّبانيةَ}؛ أي: خزنة جهنَّم لأخذه وعقوبته. فلينظر أيُّ الفريقين أقوى وأقدر. فهذه حالة الناهي وما توعد به من العقوبة.
[17، 18] ﴿فَلْیَدْعُ﴾ یعنی یہ شخص جس پر عذاب واجب ہو چکا ہے ﴿نَادِیَهٗ﴾ اپنے اہل مجلس، اپنے ساتھیوں اور ان لوگوں کو بلا لے جو اس کے اردگرد ہیں تاکہ وہ اس عذاب کے خلاف اس کی مدد کریں جو اس پر نازل ہوا ہے۔ ﴿سَنَدْعُ الزَّبَ٘انِیَةَ﴾ ہم بھی اس کو پکڑنے اور اس کو سزا دینے کے لیے جہنم کے داروغوں کو بلا لیں گے، پھر وہ دیکھے گا کہ کون سا فریق زیادہ طاقتور اور زیادہ قدرت والا ہے۔ یہ اس روکنے والی ہستی اور اس عقوبت کا حال ہے جس کی وعید سنائی گئی ہے۔
#
{19} وأمَّا حالة المنهيِّ؛ فأمره الله أن لا يصغي إلى هذا الناهي، ولا ينقاد لنهيه، فقال: {كلاَّ لا تُطِعْهُ}؛ أي: فإنَّه لا يأمر إلاَّ بما فيه الخسار ، {واسجُدْ}: لربِّك، {واقْتَرِبْ}: منه في السُّجود وغيره من أنواع الطاعات والقُرُبات؛ فإنَّها كلها تدني من رضاه وتقرِّب منه. وهذا عامٌّ لكلِّ ناهٍ عن الخير ولكلِّ منهيٍّ عنه، وإن كانت نازلةً في شأنِ أبي جهل حين نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن الصلاة وعذَّبه وآذاه.
[19] رہا اس شخص کا حال جس کو روکا گیا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس روکنے والے کی طرف دھیان ہی نہ دے اور نہ اس کی نہی پر عمل کرے ، چنانچہ فرمایا: ﴿كَلَّا١ؕ لَا تُطِعْهُ﴾ ’’دیکھ! اس کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘ یعنی وہ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں خسارہ ہوتا ہے ﴿وَاسْجُدْ﴾ اور اپنے رب کے لیے سجدہ کیجیے ﴿وَاقْتَرِبْ﴾ سجدوں وغیرہ اور دیگر نیکیوں اور عبادت میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیجیے، کیونکہ یہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا کے قریب کرتی ہیں۔یہ ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو بھلائی سے روکتا ہے اور ہر اس امر کے لیے عام ہے جس سے روکا گیا ہے، اگرچہ یہ آیات ابوجہل کے بارے میں اس وقت نازل ہوئیں جب اس نے رسول اللہe کو نماز پڑھنے سے روکا، آپ کو تعذیب دی اور اذیت پہنچائی۔