آیت:
تفسیر سورۂ تین
تفسیر سورۂ تین
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1) وَطُورِ سِينِينَ (2) وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (3) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (6) فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (7) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (8)}.
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی(1) اور طور سیناء کی(2) اور اس پر امن شہر (مکہ)کی(3) البتہ یقیناً ہم نے پیدا کیاانسان کو بہترین شکل و صورت میں(4) پھر ہم نے لوٹا ( یعنی کر) دیا اس کو پست تر پستوں سے بھی(5) مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک تو ان کے لیے اجر ہے غیر منقطع(6) پس کون سی چیز تجھے جھٹلانے (پر آمادہ) کرتی ہے (اے انسان!) اس کے بعدجزاکو؟(7) کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم؟(8)
#
{1 ـ 3} {التين}: هو التين المعروف، وكذلك {الزَّيتون}؛ أقسم بهاتين الشجرتين؛ لكثرة منافع شجرهما وثمرهما، ولأنَّ سلطانهما في أرض الشام محلِّ نبوَّة عيسى ابن مريم عليه السلام، {وطورِ سينينَ}؛ أي: طور سيناء محلِّ نبوَّة موسى عليه السلام ، {وهذا البلدِ الأمينِ}: وهو مكَّة المكرَّمة محلُّ نبوَّة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -. فأقسم تعالى بهذه المواضع المقدَّسة التي اختارها وابتعث منها أفضل الأنبياء وأشرفهم.
[3-1] ﴿اَلتِّیْن﴾ انجیر کا معروف درخت اور اسی طرح ﴿اَلزَّیْتُوْن﴾ زیتون بھی ایک معروف درخت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کی قسم ان کے اور ان کے پھل کے کثیر الفوائد ہونے کی بنا پر کھائی ہے، نیز اس بنا پر قسم کھائی ہے کہ ان دونوں درختوں کی ارض شام (فلسطین) میں جو حضرت عیسیٰ ابن مریمi کی نبوت کا محل و مقام ہے، کثرت ہے۔ ﴿وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ﴾ ’’طور سیناء کی قسم!‘‘ جو حضرت موسیٰu کی نبوت کا مقام ہے۔ ﴿وَهٰؔذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾ ’’اور اس امن والے شہر کی۔‘‘ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے جو رسول مصطفیٰ محمدe کی نبوت کا محل و مقام ہے۔ پس اللہ تبارک نے ان مقامات مقدسہ کی قسم کھائی جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور جہاں تمام انبیاء میں سب سے زیادہ شرف و فضیلت کے حامل نبی مبعوث ہوئے۔
#
{4} والمقسم عليه قوله: {لقد خَلَقْنا الإنسان في أحسنِ تقويمٍ}؛ أي: تامَّ الخلق، متناسب الأعضاء، منتصب القامة، لم يفقد ممَّا يحتاج إليه ظاهراً وباطناً شيئاً.
[4] اور جس امر پر قسم کھائی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ ’’ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی کامل تخلیق، متناسب اعضاء اور بلند قامت کے ساتھ پیدا کیا ہے، وہ ظاہر اور باطن میں جس چیز کا محتاج ہے، اس سے محروم نہیں۔
#
{5 ـ 6} ومع هذه النعم العظيمة، التي ينبغي منه القيام بشكرها؛ فأكثر الخلق منحرفون عن شكر المنعم، مشتغلون باللَّهو واللَّعب، قد رضوا لأنفسهم بأسافل الأمور وسفساف الأخلاق، فردَّهم الله {في أسفل سافلين}؛ أي: أسفل النَّار موضع العصاة المتمرِّدين على ربِّهم؛ إلاَّ مَن منَّ الله عليه بالإيمان والعمل الصَّالح والأخلاق الفاضلة العالية، {فلهم}: بذلك المنازل العالية، و {أجرٌ غيرُ ممنونٍ}؛ أي: غير مقطوع، بل لَذَّاتٌ متوافرةٌ وأفراحٌ متواترةٌ ونعمٌ متكاثرةٌ؛ في أبدٍ لا يزول، ونعيمٍ لا يحول، أكُلُها دائمٌ وظلُّها.
[5، 6] ان عظیم نعمتوں کے باوجود، جن کا شکر کیا جانا چاہیے، اکثر مخلوق منعم کے شکر سے منحرف اور لہو و لعب میں مشغول ہے، لوگ اپنے لیے پست ترین معاملے اور ردی اخلاق پر راضی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پست سے پست مقام کی طرف لوٹا دیا ، یعنی جہنم کا سب سے نچلا حصہ جو اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے سرکشوں کا مقام ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان، عمل صالح اور اخلاق فاضلہ سے نوازا۔ ﴿فَلَهُمْ﴾ پس ان کے لیے ان عمال کی وجہ سے بلند منازل ہیں اور ﴿اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ﴾ منقطع نہ ہونے والا اجر ہے، بلکہ ان کے لیے وافر لذتیں، متواتر فرحتیں اور بکثرت نعمتیں اتنے عرصے تک حاصل ہوں گی جو کبھی ختم نہیں ہو گا، وہ ایسی نعمتوں (بھری جنت) میں رہیں گے جو کبھی نہیں بدلے گی، جس کے پھل اور سائے دائمی ہوں گے۔
#
{7 ـ 8} {فما يكذِّبك بعدُ بالدِّينِ}؛ أي: أيُّ شيءٍ يكذِّبك أيُّها الإنسان بيوم الجزاء على الأعمال؟ وقد رأيت من آيات الله الكثيرة ما يحصل لك به اليقين ، ومن نعمه ما يوجب عليك أن لا تكفر بشيءٍ منها. {أليس الله بأحكم الحاكمينَ}: فهل تقتضي حكمته أن يترك الخلق سدىً لا يُؤمرون ولا يُنْهَوْن ولا يُثابون ولا يُعاقبون؟ أم الذي خلق الإنسان أطواراً بعد أطوارٍ، وأوصل إليهم من النعم والخير والبرِّ ما لا يحصونه، وربَّاهم التربية الحسنة؛ لا بدَّ أن يعيدهم إلى دارٍ هي مستقرُّهم وغايتهم التي إليها يقصدون ونحوها يؤمُّون.
[7، 8] ﴿فَمَا یُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالـدِّیْنِ﴾ پس اے انسان! کون سی چیز اس کے بعد تجھے اعمال کی جزا وسزا کے جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے، حالانکہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیوں کو دیکھ چکا ہے جن سے تجھے یقین حاصل ہو سکتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ چکا ہے جو تجھ پر واجب ٹھہراتی ہیں کہ تو ان میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرے جن کی اس نے تجھے خبر دی ہے۔ ﴿اَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰؔكِمِیْنَ﴾ ’’کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟‘‘ کیا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ مخلوق کو بے کار اور مہمل چھوڑ دیا جائے، ان کو حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے، ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے؟ یا وہ جس نے بنی نوع انسان کو کئی مراحل میں پیدا کیا، ان کو اتنی نعمتوں، بھلائیوں اور احسانات سے نوازا جن کو وہ شمار نہیں کر سکتے، بہترین طریقے سے ان کی پرورش کی ، ضرور ان کو اس کی طرف لوٹائے گا جو ان کا ٹھکانا اور ان کی غایت و انتہا ہے جس کا وہ قصد کرتے ہیں اور جس کی طرف وہ ارادہ رکھتے ہیں۔