آیت:
تفسیر سورۂ انشراح
تفسیر سورۂ انشراح
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (1) وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ (2) الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ (3) وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (4) فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6) فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ (8)}.
کیا نہیں کھول دیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ؟(1) اور ہم نے اتار دیا آپ سے آپ کا بوجھ(2) وہ جس نے توڑ دی تھی آپ کی کمر(3) اور ہم نے بلند کر دیا آپ کے لیے آپ کا ذکر(4) پس یقیناً (ہر) تنگی کے ساتھ آسانی ہے(5) بلاشبہ( ہر) تنگی کے ساتھ آسانی ہے(6) پس جب آپ فارغ ہو جائیں تو محنت کیجیے(7) اور اپنے رب کی طرف، پس رغبت کیجیے(8)
#
{1 ـ 4} يقول تعالى ممتنًّا على رسوله: {ألم نشرحْ لك صدرَك}؛ أي: نوسِّعْه لشرائع الدِّين والدَّعوة إلى الله والاتِّصاف بمكارم الأخلاق والإقبال على الآخرة وتسهيل الخيرات، فلم يكن ضيِّقاً حرجاً لا يكاد ينقاد لخيرٍ ولا تكاد تجده منبسطاً، {ووضعْنا عنك وِزْرَك}؛ أي: ذنبك، {الذي أنقَضَ}؛ أي: أثقل {ظهركَ}؛ كما قال تعالى: {ليغفرَ لك اللهُ ما تقدَّم من ذنبِكَ وما تأخَّر}، {ورفَعْنا لكَ ذِكْرَك}؛ أي: أعليْنا قدرَك، وجعلنا لك الثَّناء الحسن العالي، الذي لم يصلْ إليه أحدٌ من الخلق؛ فلا يُذْكَرُ الله؛ إلاَّ ذُكِر معه رسوله - صلى الله عليه وسلم -؛ كما في الدُّخول في الإسلام، وفي الأذان، والإقامة، والخطب ... وغير ذلك من الأمور التي أعلى الله بها ذِكر رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وله في قلوب أمَّته من المحبَّة والإجلال والتَّعظيم ما ليس لأحدٍ غيره بعد الله تعالى؛ فجزاه الله عن أمَّته أفضل ما جزى نبيًّا عن أمَّته.
[4-1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾ یعنی شرائع دین، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے، مکارم اخلاق سے متصف ہونے، آخرت کو مدنظر رکھنے اور نیکیوں کی تسہیل کے لیے کیا ہم نے آپ کے سینے کو کشادہ نہیں کر دیا؟ پس (آپ کا سینہ) تنگ اور گھٹا ہوا نہیں تھا کہ آپ کسی بھلائی پر عمل نہ کرتے اور نہ ایسا تھا کہ آپ ان کو انبساط کی حالت میں بہت کم پاتے۔ ﴿وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ﴾ یعنی ہم نے آپ سے آپ کے گناہ کا بوجھ اتار دیا ﴿الَّذِیْۤ اَنْقَ٘ضَ﴾ ’’جس نے توڑ رکھا تھا۔‘‘ یعنی بوجھل کیا ہوا تھا ﴿ظَهْرَكَ﴾ ’’آپ کی کمر کو۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لِّ٘یَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ﴾ (الفتح:48؍2) ’’تاکہ جو گناہ آپ سے پہلے سرزد ہوئے اور جو پیچھے سرزد ہوئے، ان سب کو اللہ بخش دے۔‘‘ ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ یعنی ہم نے آپ کی قدر و منزلت بلند کی، ہم نے آپ کو ثنائے حسن اور ذکر بلند سے سرفراز کیا جہاں آج تک مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں پہنچ سکی۔ پس جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ رسول اللہe کا ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً: اسلام میں داخل ہوتے وقت، اذان اور اقامت کے اندر، خطبوں اور دیگر امور میں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفیe کا ذکر بلند کیا ہے۔ امت کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کے لیے جو محبت، تعظیم اور اجلال ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی امت کی طرف سے افضل ترین جزائے خیر عطا کرے جو کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے عطا کی ہے۔
#
{5 ـ 6} وقوله: {فإنَّ مع العُسْرِ يُسْراً. إنَّ مع العُسْرِ يُسْراً}: بشارةٌ عظيمةٌ أنَّه كلَّما وُجِدَ عسرٌ وصعوبةٌ؛ فإنَّ اليسر يقارنه ويصاحبه، حتى لو دخل العسر جحر ضبٍّ؛ لدخل عليه اليسر فأخرجه؛ كما قال تعالى: {سيجعل اللهُ بعدَ عُسْرٍ يُسْراً}، وكما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «وإنَّ الفرج مع الكرب، وإنَّ مع العسر يسراً ». وتعريف العسر في الآيتين يدلُّ على أنَّه واحدٌ، وتنكير اليسرِ يدلُّ على تكراره؛ فلن يغلب عسرٌ يسرين. وفي تعريفه بالألف واللاَّم الدالِّ على الاستغراق والعموم يدل على أنَّ كلَّ عسرٍ وإنْ بلغ من الصعوبة ما بلغ؛ فإنَّه في آخره التيسير ملازمٌ له.
[5، 6] اللہ تعالیٰ کا ارشاد :﴿ فَاِنَّ مَعَ الْ٘عُسْرِ یُسْرًاۙ۰۰اِنَّ مَعَ الْ٘عُسْرِ یُسْرًا﴾ ’’بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ ایک عظیم الشان خوشخبری ہے کہ جب بھی کوئی تنگی اور سختی پائی جائے گی تو اس کے ساتھ ساتھ آسانی بھی ہو گی حتیٰ کہ اگر تنگی گوہ کے بل میں داخل ہو جائے تو آسانی اس کے ساتھ داخل ہو گی اور اسے باہر نکال لائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا﴾ (الطلاق:65؍7) ’’عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے ساتھ کشائش عطا کرے گا۔‘‘ اور جیسا کہ نبی ٔاکرمe نے فرمایا :’’تکلیف کے ساتھ کشادگی ہوتی ہے اور تنگی کی معیت میں کشائش ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 308-307/1) دونوں آیات کریمہ میں اَلْعُسْرکو معرفہ استعمال کرنا دلالت کرتا ہے کہ وہ واحد ہے اور اَلْیُسْر کو نکرہ استعمال کرنا اس کے تکرار پر دلالت کرتا ہے۔ پس ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آئے گی۔ الف لام کے ساتھ معرفہ بنانے میں جو کہ استغراق اور عموم پر دلالت کرتا ہے، دلیل ہے کہ ہر تنگی خواہ وہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اس کے آخر میں آسانی کا آنا لازم ہے۔
#
{7 ـ 8} ثم أمر [اللَّهُ] رسوله أصلاً والمؤمنين تبعاً بشكره والقيام بواجب نعمه، فقال: {فإذا فرَغْتَ فانصَبْ}؛ أي: إذا تفرَّغْتَ من أشغالِك، ولم يبقَ في قلبكَ ما يعوقه؛ فاجتهدْ في العبادة والدُّعاء، {وإلى ربِّك}: وحده {فارغَبْ}؛ أي: أعظم الرغبة في إجابة دعائك وقبول دعواتك ، ولا تكنْ ممَّن إذا فرغوا ؛ لعبوا وأعرضوا عن ربِّهم وعن ذِكْرِه، فتكون من الخاسرين. وقد قيل: إنَّ معنى هذا: فإذا فرغتَ من الصَّلاة وأكملتها؛ فانصب في الدُّعاء، وإلى ربِّك فارغبْ في سؤال مطالبك. واستدلَّ من قال هذا القول على مشروعيَّة الدُّعاء والذِّكر عقب الصلوات المكتوبات. والله أعلم [وبذالك].
[7، 8] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو اور آپ کی اتباع میں تمام اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کی نعمتوں کے واجبات کو قائم کریں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾ یعنی جب آپ اپنے اشغال سے فراغت حاصل کریں اور آپ کے قلب میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ جائے جو اسے (ذکر الٰہی سے) روکتی ہو، تب آپ عبادت اور دعا میں جدوجہد کیجیے۔ ﴿وَاِلٰى رَبِّكَ﴾ اور اپنے اکیلے رب کی طرف ﴿فَارْغَبْ﴾ ’’پس متوجہ ہوجائیں۔‘‘ یعنی اپنی پکار کے جواب اور اپنی دعاؤ ں کی قبولیت کے لیے اپنی رغبت بڑھائیے۔ آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو فارغ ہوتے ہیں تو کھیل تماشے میں مشغول ہو جاتے ہیں، اپنے رب اور اس کے ذکر سے منہ موڑ لیتے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس آیت کریمہ کا معنی ہے کہ جب آپ نماز پڑھ کر اس سے فارغ ہوں تو دعا میں محنت کیجیے اور اپنے مطالب کے سوال کرنے میں اپنے رب کی طرف رغبت کیجیے۔ اس قول کے قائلین اس آیت کریمہ سے فرض نمازوں کے بعد دعا اور ذکر وغیرہ کی مشروعیت پر استدلال کرتے ہیں۔ وَاللہُ أَعْلَمُ۔