آیت:
تفسیر سورۂ فلق
تفسیر سورۂ فلق
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (5)}.
کہہ دیجیے: میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی(1) (ہر) اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی(2) اور اندھیری رات کے شرسے جب وہ چھا جائے(3) اور پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے گرہوں میں(4) اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے(5)
#
{1} أي: {قل}: متعوِّذاً: {أعوذُ}؛ أي: ألجأ وألوذُ وأعتصمُ، {بربِّ الفلق}؛ أي: فالق الحبِّ والنَّوى، وفالق الأصباح.
[1] ﴿قُلْ﴾ یعنی آپ اللہ کی پناہ مانگنے کے لیے کہیے : ﴿اَعُوْذُ﴾ میں پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اپنا بچاؤ تلاش کرتا ہوں ﴿بِرَبِّ الْ٘فَلَقِ﴾ ’’ربِ فلق کے ذریعے سے۔‘‘ یعنی جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے اور صبح کو نمودار کرتا ہے۔
#
{2} {من شرِّ ما خَلَقَ}: وهذا يشمل جميع ما خلق الله من إنسٍ وجنٍّ وحيوانات؛ فيستعاذ بخالقها من الشرِّ الذي فيها.
[2] ﴿مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾ ’’ہر چیز کے شر سے جو اس نے بنائی۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق، انسان، جنات اور حیوانات سب کو شامل ہے۔ پس ان تمام مخلوقات کے اندر موجود شر سے ان کو پیدا کرنے والے کی پناہ مانگی جاتی ہے۔
#
{3} ثم خصَّ بعدما عمَّ، فقال: {ومن شرِّ غاسقٍ إذا وَقَبَ}؛ أي: من شرِّ ما يكون في الليل حين يغشى النّاسَ، وتنتشر فيه كثيرٌ من الأرواح الشرِّيرة والحيوانات المؤذية.
[3] پھر اللہ تعالیٰ نے عام کا ذکر کرنے کے بعد خاص کا ذکر کیا، فرمایا :﴿ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ﴾ ’’اور شبِ تاریک کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے۔‘‘ یعنی میں اس شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جو رات کے اندر ہوتا ہے، جب وہ لوگوں پر چھا جاتا ہے اور اس میں بہت سی شریر ارواح اور موذی حیوانات پھیل جاتے ہیں۔
#
{4} {ومن شرِّ النَّفَّاثات في العقد}؛ أي: ومن شرِّ السَّواحر اللاتي يَسْتَعِنَّ على سحرهنَّ بالنَّفْثِ في العقد التي يَعْقِدْنَها على السحر.
[4] ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾ یعنی جادو کرنے والی عورتوں کے شر سے جو اپنے جادو میں گرہوں میں پھونکوں سے کام لیتی ہیں جن کو وہ جادو کے لیے باندھتی ہیں۔
#
{5} {ومن شرِّ حاسدٍ إذا حَسَدَ}: والحاسدُ هو الذي يحبُّ زوال النِّعمة عن المحسود؛ فيسعى في زوالها بما يقدر عليه من الأسباب، فاحتيج إلى الاستعاذة بالله من شرِّه وإبطال كيده. ويدخل في الحاسد العاينُ؛ لأنَّه لا تصدر العين إلاَّ من حاسدٍ شرِّيرِ الطبع خبيث النفس. فهذه السورة تضمَّنت الاستعاذة من جميع أنواع الشُّرور عموماً وخصوصاً، ودلَّت على أنَّ السِّحر له حقيقةٌ؛ يُخشى من ضرره، ويستعاذ بالله منه ومن أهله.
[5] ﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ﴾ ’’اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔‘‘ حاسد وہ ہے جو محسود کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور ان تمام اسباب کے ذریعے سے، جن پر وہ قادر ہے اس نعمت کے زوال کے لیے کوشاں رہتا ہے، تب اس کے شر سے بچنے اور اس کے مکر و فریب کے ابطال کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ کی حاجت ہوتی ہے۔ نظر لگانے والا بھی حاسد ہی شمار ہوتا ہے کیونکہ نظر بد صرف حاسد، شریر الطبع اور خبیث النفس شخص ہی سے صادر ہوتی ہے۔ یہ سورۂ کریمہ عام طور پر اور خاص طور پر شر کی تمام انواع سے استعاذہ کو متضمن ہے۔ نیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی حقیقت ہے، اس کے ضرر سے ڈرا جاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جاتی ہے۔