آیت:
تفسیر سورہ ٔنصر
تفسیر سورہ ٔنصر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (3)}.
جب آ جائے مدد اللہ کی اور فتح(1) اور آپ دیکھیں لوگوں کو کہ وہ داخل ہو رہے ہیں اللہ کے دین میں فوج در فوج(2) تو آپ تسبیح کیجیے ساتھ حمد کے اپنے رب کی اور بخشش مانگیے اس سے، بلاشبہ وہ ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا(3)
#
{1 ـ 3} في هذه السورة الكريمة: بشارةٌ، وأمرٌ لرسوله عند حصولها، وإشارةٌ، وتنبيهٌ على ما يترتَّب على ذلك: فالبشارةُ هي البشارة بنصر الله لرسوله، وفتحه مكَّة، ودخول الناس {في دين الله أفواجاً} بحيث يكون كثيرٌ منهم من أهله وأنصاره بعد أن كانوا من أعدائه، وقد وقع هذا المبشَّر به. وأما الأمر بعد حصول النَّصر والفتح؛ فأمر [اللَّهُ] رسولَه أن يشكره على ذلك، ويسبِّح بحمده، ويستغفره. وأما الإشارة؛ فإن في ذلك إشارتين: إشارة أنَّ النَّصر يستمرُّ للدين ويزداد عند حصول التَّسبيح بحمد الله واستغفاره من رسوله؛ فإن هذا من الشُّكر، والله يقول: {لئن شكرتُمْ لأزيدَنَّكم}: وقد وُجِدَ ذلك في زمن الخلفاء الراشدين وبعدهم في هذه الأمَّة، لم يزل نصر الله مستمرًّا حتى وصل الإسلام إلى ما لم يصل إليه دينٌ من الأديان، ودخل فيه من لم يدخل في غيره، حتى حدث من الأمة من مخالفة أمر الله ما حدث، فابتُلوا بتفرُّق الكلمة وتشتُّت الأمر، فحصل ما حصل، ومع هذا؛ فلهذه الأمَّة وهذا الدِّين من رحمة الله ولطفه ما لا يخطر بالبال أو يدور في الخيال. وأما الإشارة الثانية؛ فهي الإشارة إلى أنَّ أجلَ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قد قرب ودنا، ووجه ذلك أنَّ عمره عمرٌ فاضلٌ، أقسم الله به، وقد عُهِدَ أنَّ الأمور الفاضلة تُخْتَم بالاستغفار؛ كالصلاة والحجِّ وغير ذلك، فأمر الله لرسوله بالحمد والاستغفار في هذه الحال إشارةٌ إلى أنَّ أجله قد انتهى؛ فلْيستعدَّ ويتهيَّأ للقاء ربِّه ويختم عمره بأفضل ما يجده صلوات الله وسلامه عليه، فكان [- صلى الله عليه وسلم -] يتأوَّل القرآن ويقول ذلك في صلاته؛ يكثر أن يقول في ركوعه وسجوده: «سبحانك اللهمَّ ربَّنا وبحمدك، اللهمَّ! اغفر لي».
[3-1] اس سورۂ کریمہ میں ایک خوشخبری ہے، اس خوشخبری کے حاصل ہو جانے پر رسول اللہe کے لیے ایک حکم ہے، نیز اس میں اس خوشخبری پر مترتب ہونے والے احوال کی طرف اشارہ اور اس پر تنبیہ ہے۔خوشخبری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولe کے لیے نصرت، فتح مکہ اور لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے کی ہے، ان میں سے بہت لوگ آپ کے دشمن تھے، اس کے بعد وہی لوگ آپ کے اعوان و انصار ہوں گے اور جس چیز کے بارے میں خوشخبری دی گئی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ رہا فتح و نصرت کے بعد حکم تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ اس فتح و نصرت پر اس کا شکر ادا کریں، اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔ رہا اشارہ تو اس میں دو اشارے ہیں: اول: دین اسلام دائمی فتح و نصرت سے بہرہ مند رہے گا، اس کے رسول کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور استغفار پر اس نصرت میں اضافہ ہو گا کیونکہ تسبیح و استغفار، شکر ہی شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّـكُمْ ﴾ (ابراہیم:14؍7) ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ عطا کروں گا۔‘‘اور یہ چیز خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی امت کو حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہم رکاب رہی، یہاں تک کہ اسلام اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تمام ادیان میں سے کوئی دین نہیں پہنچ سکا، حتیٰ کہ امت سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت میں افعال صادر ہونے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تفرقِ کلمہ اور تشتُّتِ امر کے ذریعے سے انھیں آزمایا۔ پس پھر جو ہونا تھا ہوا۔ بایں ہمہ اس امت پر اور اس دین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ خیال کی وہاں تک رسائی ہی ہے۔ دویم : رہا دوسرا اشارہ تو یہ رسول اللہe کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی اجل قریب آ گئی ہے، اس کی وجہ یہ کہ آپ کی عمر مبارک فضیلت والی عمر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور اس نے مقرر فرما دیا ہے کہ فضیلت والے امور کا اختتام استغفار کے ساتھ ہو ، مثلاً: نماز اور حج وغیرہ۔ پس اللہ تعالیٰ کا اس حال میں آپ کو حمد و استغفار کا حکم دینا اس مر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اب آپ کو اپنے رب کی ملاقات کے لیے مستعد اور تیار رہنا چاہیے اور آپ کو اپنی عمر کا اختتام اس افضل ترین چیز پر کرنا چاہیے جو آپ موجود پاتے ہیں۔ صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ. چنانچہ آپ قرآن کی (اس آیت کی) تاویل کرتے ہوئے اپنی نماز کے اندر، رکوع و سجود میں نہایت کثرت سے یہ پڑھا کرتے تھے :’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي‘ (صحیح البخاري، الاذان، باب الدعاء فی الرکوع، ح: 794 و صحیح مسلم، الصلوۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود، ح: 484)’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘