آیت:
تفسیر سورۂ کوثر
تفسیر سورۂ کوثر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (3)}
یقیناً عطا کی ہم نے آپ کو کوثر(1) سو آپ نماز پڑھیں اپنے رب کے لیے اور قربانی کریں(2) بلاشبہ آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا(3)
#
{1} يقول الله تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -[ممتنًّا عليه]: {إنَّا أعطيناكَ الكَوْثَرَ}؛ أي: الخير الكثير والفضل الغزير، الذي من جملته ما يعطيه اللهُ لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -[يوم القيامة] من النهر الذي يقال له: الكوثر ، ومن الحوض ؛ طولُه شهرٌ وعرضُه شهرٌ، ماؤه أشدُّ بياضاً من اللبن، وأحلى من العسل، آنيته عدد نجوم السماء في كثرتها واستنارتها، من شرب منه شربةً؛ لم يظمأ بعدها أبداً.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰe پر احسان کرتے ہوئے خطاب فرماتا ہے: ﴿اِنَّـاۤ٘ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ﴾ یعنی ہم نے آپ کو خیر کثیر اور فضل عظیم عطا کیا ۔منجملہ اس خیر کثیر میں سے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو عطا فرمائے گا، ایک نہر بھی ہے جس کو ﴿الْكَوْثَرَ﴾ کہا جاتا ہے۔ حوضِ کوثر کا طول ایک ماہ کی مسافت اور اس کا عرض بھی ایک ماہ کی مسافت ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر میٹھا ہے، اس کے پینے کے برتن اپنی کثرت اور چمک میں آسمان کے ستاروں کے مانند ہوں گے، جو کوئی حوض کوثر سے ایک مرتبہ پانی پی لے گا، اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
#
{2} ولمَّا ذكر مِنَّتَه عليه؛ أمَرَهُ بشكرها، فقال: {فصلِّ لربِّك وانْحَر}: خصَّ هاتين العبادتين بالذِّكر؛ لأنَّهما أفضل العبادات وأجلُّ القربات، ولأنَّ الصلاة تتضمَّن الخضوع في القلب والجوارح لله، وتنقله في أنواع العبوديَّة، وفي النحر تقرُّبٌ إلى الله بأفضل ما عند العبد من النحائر، وإخراجٌ للمال الذي جُبِلَت النُّفوس على محبَّته والشُّحِّ به.
[2] اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے احسان و عنایت کا ذکر کرنے کے بعد آپ کو اس احسان پر شکر اداکرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ ’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان دو عبادتوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ دونوں افضل ترین عبادات اور تقرب الٰہی کا جلیل ترین ذریعہ ہیں۔ نیز ان دونوں کا خاص طور پر ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نماز قلب اور جوارح میں خشوع کو متضمن ہے ، پھر اسے عبادت کی دیگر تمام انواع میں منتقل کر دیتی ہے۔ جانور ذبح کرنے میں یہ حکمت ہے کہ بندے کے پاس جو کچھ ہے اس میں سے افضل ترین چیز، یعنی قربانی کے ذریعے سے تقرب الٰہی حاصل کرنا اور مال خرچ کرنا ہے جس سے محبت کرنا اور اس میں بخل کرنا نفس انسانی کی جبلت ہے۔
#
{3} {إنَّ شانِئَكَ}؛ أي: مبغضك وذامَّك ومتنقصك، {هو الأبتر}؛ أي: المقطوع من كلِّ خيرٍ؛ مقطوعُ العمل، مقطوعُ الذِّكر، وأمَّا محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -؛ فهو الكامل حقًّا، الذي له الكمال الممكن للمخلوق من رفع الذكر وكثرة الأنصار والأتباع - صلى الله عليه وسلم -.
[3] ﴿اِنَّ شَانِئَكَ﴾ آپ سے بغض رکھنے والا، آپ کی مذمت اور تنقیص کرنے والا ﴿هُوَ الْاَبْتَرُ﴾ یعنی وہ ہر بھلائی سے محروم ہے، اس کا عمل منقطع ہے اور اس کا ذکر منقطع ہے۔رہے رسول مصطفیٰ محمدe تو حقیقت میں وہی کامل ہیں، آپ کمال کے اس بلند ترین مرتبے پر پہنچے ہوئے ہیں جہاں تک پہنچنا مخلوق میں سے کسی کے لیے ممکن نہیں، مثلاً: رفعت ذکر، کثرت الانصار اور کثرت متبعین ۔