آیت:
تفسیر سورۂ ھُمَزه
تفسیر سورۂ ھُمَزه
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 9 #
{وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (1) الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ (2) يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ (3) كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ (4) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ (5) نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ (6) الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (7) إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ (8) فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ (9)}
ہلاکت ہے واسطے ہر عیب جو، غیبت کرنے والے کے(1) وہ جس نے جمع کیا مال اور گن (گن) کر رکھا اس کو(2) وہ سمجھتا ہے کہ بلاشبہ اس کا مال ہمیشہ (زندہ) رکھے گا اس کو(3) ہرگز نہیں! البتہ ضرور پھینکا جائے گا وہ حُطَمَہ میں(4) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کہ کیا ہے حُطَمَہ؟(5) وہ آگ ہے اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی(6) وہ جو پہنچتی ہے دلوں تک(7) بلاشبہ وہ (آگ) ان پر (ہر طرف سے) بند کر دی جائے گی(8) لمبے لمبے ستونوں میں(9)
#
{1} {ويلٌ}؛ أي: وعيدٌ ووبالٌ وشدَّة عذابٍ، {لكلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ}؛ أي: الذي يهمز الناس بفعله ويلمزهم بقوله؛ فالهمَّاز: الذي يَعيبُ الناس ويطعُنُ عليهم بالإشارة والفعل، واللَّمَّاز: الذي يعيبهم بقوله.
[1] ﴿وَیْلٌ﴾ یعنی وعید، وبال اور سخت عذاب ﴿ لِّ٘كُ٘لِّ هُمَزَةٍ لُّ٘مَزَةٍ﴾ ’’ہر اس شخص کے لیے جو طعن آمیز اشارے کرنے والا اور عیب جو ہے۔‘‘ یعنی جو اپنے فعل سے لوگوں کی عیب جوئی کرتا ہے اور اپنے قول سے چغل خوری کرتا ہے۔ ھَمَّاز اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں میں عیب نکالتا ہے، اپنے فعل اور اشاروں سے طعنہ زنی کرتا ہے۔ لَمَّاز اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے قول سے لوگوں پر عیب نکالتا ہے۔
#
{2} ومن صفة هذا الهمَّازِ [اللَّمَّازِ] أنَّه لا همَّ له سوى جمع المال وتعديده والغبطة به، وليس له رغبةٌ في إنفاقه في طرق الخيرات وصلة الأرحام ونحو ذلك.
[2] اس طعن آمیز اشارے کرنے والے اور چغل خور کی صفت یہ ہے کہ مال جمع کرنے، اس کو گننے اور اس پر خوش ہونے کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں، بھلائی کے راستوں میں اور صلہ رحمی کے لیے اس مال کو خرچ کرنے میں اسے کوئی رغبت نہیں۔
#
{3} {يحسبُ}: بجهله {أنَّ ماله أخْلَدَهُ}: في الدُّنيا، فلذلك كان كدُّه وسعيه [كلُّه] في تنمية ماله، الذي يظنُّ أنَّه ينمي عمره، ولم يدرِ أن البخل يقصف الأعمار ويخرب الديار، وأن البرَّ يزيد في العمر.
[3] ﴿یَحْسَبُ﴾ اپنی جہالت کی وجہ سے سمجھتا ہے ﴿اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ﴾ کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ زندہ رکھے گا، اسی لیے اس کی تمام کدو کاوش اپنا مال بڑھانے میں صرف ہوتی ہے، جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی عمر کو بڑھاتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ بخل اعمال کو ختم اور شہروں کو برباد کر دیتا ہے اور نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔
#
{4 ـ 7} {كلاَّ لَيُنبَذَنَّ}؛ أي: ليطرحنَّ {في الحُطَمَةِ. وما أدراك ما الحُطَمَةُ}: تعظيمٌ لها وتهويلٌ لشأنها. ثم فسَّرها بقوله: {نار الله الموقَدة}: التي وقودها الناس والحجارة، {التي}: من شدَّتها {تطَّلع على الأفئدة}؛ أي: تنفذ من الأجسام إلى القلوب.
[7-4] ﴿كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ﴾ یعنی اسے ضرور پھینکا جائے گا ﴿فِی الْحُطَمَةِٞۖ۰۰ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُ﴾ ’’حُطَمَہ میں اور آپ سمجھے کہ حطمہ کیا ہے؟ ’’یہ اس کی تعظیم اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے، پھر اپنے اس ارشاد سے اس کی تفسیر فرمائی: ﴿نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ﴾ ’’وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔‘‘ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے ﴿الَّتِیْ﴾ جو اپنی شدت کے باعث ﴿تَ٘طَّ٘لِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِ﴾ جسموں کو چھیدتی ہوئی دلوں تک جا پہنچے گی۔
#
{8} ومع هذه الحرارة البليغة، هم محبوسون فيها، قد أيسوا من الخروج منها، ولهذا قال: {إنَّها عليهم مؤصدةٌ}؛ أي: مغلقة، {في عَمَدٍ}: من خلف الأبواب، {ممدَّدةٍ}: لئلا يخرجوا منها؛ {كلَّما أرادوا أن يخرجوا منها أعيدوا فيها}، نعوذ بالله من ذلك، ونسأله العفو والعافية.
[8] اتنی سخت حرارت کے باوجود وہ اس آگ میں محبوس ہوں گے، اس سے باہر نکلنے سے مایوس ہوں گے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّهَا عَلَیْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ﴾ یعنی وہ آگ ان پر (ہر طرف سے) بند کر دی جائے گی ﴿فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ﴾ دروازوں کے پیچھے بڑے بڑے ستونوں میں، تاکہ وہ اس سے باہر نہ نکل سکیں۔ ﴿كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِیْدُوْا فِیْهَا﴾ (السجدہ:32؍20) ’’جب بھی وہ اس آگ سے باہر نکلنا چاہیں گے، اسی میں واپس لوٹا دیے جائیں گے۔‘‘ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔