(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (1) أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ (2) وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ (3) تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (4) فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (5)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کیسے کیا آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ؟
(1)کیا نہیں کر دیا تھا اس نے ان کی چال کو بے کار؟
(2) اور اس نے بھیجے ان پر پرندے جھنڈ کے جھنڈ
(3) وہ پھینکتے تھے ان پر کنکریاں کھنگر کی
(4) سو
(اللہ) نے کر دیا انھیں
(ایسے) جیسے بھوسا کھایا ہوا
(5)
#
{1 ـ 5} أي: أما رأيتَ من قدرة الله وعظيم شأنه ورحمته بعباده وأدلَّة توحيده وصدق رسوله [محمدٍ]- صلى الله عليه وسلم - ما فعله اللهُ بأصحاب الفيل، الذين كادوا بيتَه الحرام، وأرادوا إخرابه؛ فتجهَّزوا لأجل ذلك، واستصحبوا معهم الفِيَلَةَ لهدمه، وجاؤوا بجمعٍ لا قِبَلَ للعرب به من الحبشة واليمن، فلما انتهَوْا إلى قربِ مكَّةَ ـ ولم يكن بالعرب مدافعةٌ، وخرج أهل مكَّة من مكَّة خوفاً [على أنفسهم] منهم ـ أرسل الله عليهم طيراً أبابيلَ؛ أي: متفرِّقة، تحمل أحجاراً محمَّاة من سِجِّيلٍ، فرمتْهم بها، وتتبَّعَتْ قاصِيَهم ودانِيَهم، فخمدوا وهمدوا، وصاروا كعصفٍ مأكولٍ، وكفى الله شرَّهم، وردَّ كيدهم في نحورهم، وقصَّتُهم معروفةٌ مشهورةٌ، وكانت تلك السنة التي وُلِدَ فيها رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فصارت من جملة إرهاصات دعوته وأدلَّة رسالته. فلله الحمد والشكر.
[5-1] کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی عظمت شان، اپنے بندوں پر اس کی رحمت، اس کی توحید کے دلائل اور اس کے رسول محمدe کی صداقت کو نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ جنھوں نے اس کے حرمت والے گھر کے خلاف سازش کی اور اس کو ڈھانے کا ارادہ کیا۔ پس اس کے لیے انھوں نے خوب تیاری کی اور بیت اللہ کو منہدم کرنے کے لیے انھوں نے اپنے ساتھ ہاتھی بھی لے لیے تھے۔ وہ حبشہ اور یمن سے ایک ایسی فوج لے کر آئے جس کا مقابلہ کرنا عربوں کے بس میں نہ تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو عربوں میں مزاحمت کرنے والا کوئی نہ تھا، اہل مکہ ان کے خوف سے مکہ سے نکل گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول بھیجے، یعنی متفرق غول جو کھنگر کی گرم کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے۔ پس پرندوں نے یہ کنکریاں ان پر پھینکیں اور انھوں نے دور اور نزدیک سب کو نشانہ بنایا اور وہ سب موت کے گھاٹ اتر گئے اور وہ یوں ہو گئے جیسے کھایا ہوا بھس۔
اللہ تعالیٰ ان کے شر کے لیے کافی ہو گیا اور اس نے ان کی چال کو انھی پر لوٹا دیا۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور اور معروف ہے۔ یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال رسول اللہe متولد ہوئے۔ پس یہ واقعہ آپ کی دعوت کی بنیاد اور آپ کی رسالت کی دلیل بن گیا۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا اور اسی کا شکر ہے۔