آیت:
تفسیر سورۂ عصر
تفسیر سورۂ عصر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)}
قسم ہے زمانے کی(1) بلاشبہ انسان خسارے میں ہے(2) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک اور ایک دوسرے کو وصیت کی حق کی اور ایک دوسرے کو وصیت کی صبر (کرنے ) کی(3)
#
{1 ـ 3} أقسم تعالى بالعصر، الذي هو الليل والنهار، محل أفعال العباد وأعمالهم؛ أن كلَّ إنسانٍ خاسرٌ، والخاسر ضدُّ الرابح، والخسار مراتبُ متعدِّدةٌ متفاوتةٌ: قد يكون خساراً مطلقاً؛ كحال من خسر الدُّنيا والآخرة، وفاته النعيم، واستحقَّ الجحيم. وقد يكون خاسراً من بعض الوجوه دون بعضٍ، ولهذا عمَّم اللهُ الخسار لكلِّ إنسانٍ؛ إلاَّ مَن اتَّصف بأربع صفات: الإيمان بما أمر اللَّه بالإيمان به، ولا يكون الإيمان بدون العلم؛ فهو فرع عنه لا يتم إلا به. والعمل الصالح، وهذا شاملٌ لأفعال الخير كلِّها، الظاهرة والباطنة، المتعلِّقة بحقوق الله وحقوق عباده، الواجبة والمستحبَّة. والتَّواصي بالحقِّ الذي هو الإيمان والعمل الصالح؛ أي: يوصي بعضُهم بعضاً بذلك، ويحثُّه عليه، ويرغِّبه فيه. والتَّواصي بالصَّبر على طاعة الله، وعن معصية الله، وعلى أقدار الله المؤلمة. فبالأمرين الأولين يكمِّل العبد نفسه، وبالأمرين الأخيرين يكمِّل غيره، وبتكميل الأمور الأربعة يكون العبد قد سلم من الخسار وفاز بالرِّبح العظيم.
[3-1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے، جو گردش شب و روز کا نام ہے جو بندوں کے اعمال اور ان کے افعال کا محل ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ خاسر نفع اٹھانے والے کی ضد ہے۔ خسارے کے متعدد اور متفاوت مراتب ہیں۔ کبھی خسارہ مطلق ہوتا ہے، جیسے اس شخص کا حال جس نے دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھایا، جنت سے محروم ہوا اور جہنم کا مستحق ہوا۔ کبھی خسارہ اٹھانے والا کسی ایک پہلو سے خسارے میں رہتا ہے، کسی دوسرے پہلو سے خسارے میں نہیں رہتا، بنابریں اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ہر انسان کے لیے عام قرار دیا ہے سوائے اس شخص کے جو ان چار صفات سے متصف ہے: (۱) ان امور پر ایمان لانا جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ایمان علم کے بغیر نہیں ہوتا، اس لیے علم ایمان ہی کی فرع ہے ، علم کے بغیر اس ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ (۲) عمل صالح: یہ تمام ظاہری اور باطنی بھلائی کے افعال کو شامل ہے، جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ سے متعلق ہیں۔ (۳) ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنا، حق جو ایمان اور عمل صالح کا نام ہے، یعنی اہل ایمان ایک دوسرے کو ان امور کی وصیت کرتے ہیں، ان پر ایک دوسرے کو آمادہ کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہیں۔ (۴) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی، اس کی نافرمانی سے باز رہنے کی اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ تقدیر پر صبر کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرنا۔ پہلے دو امور کے ذریعے سے بندۂ مومن اپنے آپ کی تکمیل کرتا ہے اور آخری دو امور کے ذریعے سے وہ دوسروں کی تکمیل کرتا ہے۔ ان چاروں امور کی تکمیل سے بندہ خسارے سے محفوظ رہتا ہے اور بہت بڑا نفع حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔